شام کے 7:30 بج رہے تھے، پورا بنگلہ روشنی سے جگمگا رہا تھا۔ باہر سے دیکھنے پر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس بنگلے کے اندر رہنے والوں پر کیا گزری ہوگی۔ آس پاس کا علاقہ بھی کافی صاف ستھرا اور شانت تھا۔ چاروں اور کافی بڑی بڑی بلڈنگز تھیں۔ اشنا نے ادھر ادھر دیکھا تو اسے گیٹ کے پلر پر ماربل کا سائن بورڈ دکھائی دیا۔ جس پر صاف لکھا تھا "شرما نیواس"۔ ماربل کے سائن بورڈ کے لیفٹ سائیڈ میں لگی بیل پہ اس نے انگلی دبائی اور کچھ سیکنڈز رکنے پر اسے بنگلے کا بڑا سا دروازہ کھلتا ہوا دکھائی دیا۔ بہاری کاکا سر پر ٹوپی پہنے اور ایک موٹا سا کمبل اوڑھے گیٹ کی طرف آئے۔ گیٹ سے بنگلے کے دروازے تک کا سفر طے کرنے میں انہیں ایک منٹ سے بھی زیادہ کا سمے لگا۔ کافی زمین خرید رکھی تھی وریندر کے پتا جی نے۔ اتنی بڑی زمین کے بیچ و بیچ ایک شاندار بنگلہ ان کی شان و شوکت کو چیخ چیخ کر بیان کر رہا تھا۔ اشنا نے اپنی زندگی میں اتنا بڑا بنگلہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کا اپنا گھر اس بنگلے کے آگے تو کچھ بھی نہیں تھا۔ جس اسکول اور ہاسٹل میں وہ پڑھی وہ بھی اس بنگلے کے آگے چھوٹا تھا۔ اور پھر اسکول کے بعد وہ کرائے کا فلیٹ تو اس کے گھر سے بھی چھوٹا تھا۔ تبھی بہاری کاکا نے تھوڑی دور سے آواز لگائی۔ کون ہے؟ اشنا نے ہڑبڑاتے ہوئے جواب دیا "جی کاکا میں ہوں ہم ہسپتال میں ملے تھے"۔ بہاری نے ایک نظر اس پر ڈالی اور پھر دوڑ کر گیٹ کھولا۔
بہاری کاکا: ارے بیٹی، کچھ چاہیے تھا تو مجھے بلا لیتی میں تو بس نکلنے ہی والا تھا آپ کا کھانا لے کر۔
اشنا: نہیں کاکا، آج میں کھانا یہیں کھاؤں گی اور کچھ دن یہیں رکوں گی اشنا نے اندر آتے ہوئے کہا۔ بہاری نے گیٹ بند کیا اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو اشنا کافی آگے نکل گئی تھی۔ اشنا نے اپنی نظر چاروں طرف گھمائی۔ سامنے پیمنٹ کے لیفٹ اور رائٹ سائیڈ دونوں طرف رنگ برنگے گارڈنز تھے۔ چہار دیواری کے چاروں طرف کافی بڑے بڑے اشوکا ٹریز لگے ہوئے تھے۔ چہار دیواری بھی اتنی بڑی کہ باہر سے کچھ مکان ہی دکھ رہے تھے۔ بنگلے کے رائٹ سائیڈ پر ایک بڑا سا سوئمنگ پول اور اس کے بیک سائیڈ پر بڑا سا گیراج جہاں 4 چمچماتی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ اشنا باہر سے پورے بنگلے کا معائنہ کرنا چاہتی تھی لیکن باہر کی سرد ہواؤں نے اسے ٹھٹھُر کر رکھ دیا تھا۔ تبھی بہاری کاکا اس کے پاس پہنچے اور بولے بیٹی باہر بہت ٹھنڈ ہے، آپ اندر چلو میں آگ کا انتظام کرتا ہوں۔ اشنا نے بنا کوئی جواب دیے بنگلے کی طرف اپنے قدم موڑ لیے۔ پیمنٹ پر کافی سندر ماربل کی پرت چڑھی تھی جس پر چل کر اشنا مین دروازے تک پہنچی۔ دروازے کے اندر گھستے ہی اسے اس بنگلے کی خوبصورتی کا پتہ چلا۔ اس کی آنکھیں چندھیا گئیں ایسی نقش و نگار دیکھ کر میں ہال کی دیواروں پر۔ فرش پر کافی موٹا لیکن صاف اور قرینے سے سجا ہوا قالین اور ہال کے چاروں طرف پھیلا فرنیچر دیکھ کر اشنا کو ایسا لگا جیسے وہ کسی ریاست کے محل میں ہو۔ ہال کے چاروں طرف 12 کمرے، کچن، واش رومز سب کچھ دیکھ کر وہ ایک دم سے دنگ رہ گئی۔ ہال کی ایک دیوار پر اتنی بڑی ایل سی ڈی کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کسی منی تھیٹر میں آ گئی ہو۔ بالکل بیچوں بیچ صوفوں کا ایک بڑا سا سرکولر ارینجمنٹ۔ اشنا کی محویت اس وقت ٹوٹی جب بہاری کاکا نے کہا بٹیا یہاں بیٹھو۔ اشنا نے اس طرف دیکھا تو وہاں ہال کے ایک کونے میں بہاری کاکا نے وہاں بنی ایک انگیٹھی میں آگ جلا دی تھی۔ اشنا وہیں انگیٹھی کے سامنے ایک صوفہ چیئر پر بیٹھ گئی اپنی جیکٹ اتار کر ایک سائیڈ پر رکھی اور اپنے ٹھنڈے ہو رہے بدن کو گرم کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ بیٹھتے ہی اس کی نظر ہال کی چھت پر پڑی جہاں ایک بڑا سا جھومر جھول رہا تھا جس میں لگے چھوٹے چھوٹے موتی روشنی سے چمک کر رنگ برنگی روشنی چاروں اور پھیلا رہے تھے۔(جاری ہے)