سحرش ، نام تھا اس کا، بہت خوبصورت اور سیکسی تھی وہ۔ جب
میں سیکسی کہتا ہوں تو اس کا مطلب ہے، لمبا قد، پتلی کمر اور چھوٹے چھوٹے ممے جو
باہر کی طرف نکلے ہوئے ہوں۔گول مٹول سی فوم سے بھی زیادہ نرم گانڈ ۔ سحرش کی ہائٹ تقریباً 5 فٹ 8 انچ ہوگی اور جس رات کی
یہ کہانی ہے وہ اس کی 18ویں سالگرہ کی رات تھی... 2 اگست، 2007۔ میری عمر اس وقت
24 سال تھی اور میں پاکستان اپنے گھر آیا ہوا تھا، اسلام آباد
F-6/1 میں جہاں میرا بڑا بھائی اپنے بچوں کے ساتھ رہتا
ہے اور اسی کے ساتھ میرے دو چھوٹے بھائی بھی رہتے ہیں، ہمارے والدین اس وقت
پاکستان سے باہر رہتے تھے۔ خیر بات کرتے ہیں 2 اگست، 2007 کی، سحرش کو میں نے پہلی دفعہ رات کو دیکھا تھا اس کے گھر
کی چھت پر۔
رات
تقریباً ایک بجے جب سب لوگ سو گئے تو میں اوپر چھت پر سگریٹ پینے آ گیا... گرمیوں
کی رات تھی جس کی وجہ سے ہر طرف سے ایئر کنڈیشنرز اور روم کولرز کی آواز آ رہی
تھی... دبے قدموں چلنے کی بھی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی۔ سامنے مارگلہ کے پہاڑ تھے
اور ان پر بل کھاتی پیر سوہاوہ والی سڑک بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ میں اپنے خیالوں
میں گم سگریٹ پینے لگا اور سوچ رہا تھا نیوزی لینڈ میں یونیورسٹی کے بارے میں اور
یہ کہ یہاں کے اور وہاں کے ماحول میں کتنا فرق ہے۔ انہی سوچوں میں گم تھا کہ سگریٹ
ختم ہونے کو آ گیا تو میں نے بے دھیانی میں اسے اپنے گھر کے پورچ میں پھینکا لیکن
نیچے پورچ میں گرنے کے بجائے وہ ساتھ والے گھر کی چھت پر جا گری اور ساتھ ہی ایک
لڑکی کی آواز آئی "اوہ شِٹ!"
ایک
لڑکی سامنے کھڑی تھی اور وہ خود کو جھاڑ رہی تھی... میں فوراً ڈر کے مارے نیچے ہو
کر بیٹھ گیا۔ میں نے سوچا برا کیا میں نے سگریٹ ادھر پھینک دیا، وہاں کوئی تھا جس
کے اوپر جا کر وہ گر گیا لیکن پھر چند لمحوں میں جب اس لڑکی کی دبی دبی آواز آئی
کہ "کس نے پھینکا یہ سگریٹ" تب میں نے سوچا رات کو اس وقت یہ یہاں کیا
کر رہی ہوگی، یقیناً میری طرح کسی نہ کسی غیر قانونی مشن پر ہوگی، مجھ میں ہمت
پیدا ہوئی اور میں کھڑا ہو گیا۔ مجھے دیکھ کر لڑکی چونک سی گئی...
لڑکی:
(دبی دبی آواز میں) کون ہو تم اور تم کو شرم نہیں آتی... میں: آئی ایم
سوری جی میں نے بس...
لڑکی:
شhh!
آہستہ بولو کوئی سن لے گا... (میری طرف غور سے دیکھ کر)
ویسے تم ہو کون، تم کو پہلے کبھی نہیں دیکھا۔
اب
میں نے غور سے دیکھا لڑکی کی طرف جس نے ایک لمبی سفید ٹی شرٹ پہنی تھی اور اس کے
بال پونی ٹیل بنے ہوئے تھے۔ پیچھے سٹریٹ میں لائٹ تو تھی لیکن لڑکی کی پیٹھ تھی اس
طرف اس لیے چہرہ صاف نہیں دکھائی دے رہا تھا۔
لڑکی:
ٹارچ جلا کر دیکھ لو تم سارے لڑکے تو ویسے ہی مینیک ہوتے ہو... (ساتھ ہی وہ پیچھے
کو مڑی اور چل دی) میں: سنو! سنو! میرا نام عاشنہ ملک ہے میں یہیں رہتا ہوں...
لڑکی: (پیچھے مڑی اور واپس اپنی چھت کی دیوار کے پاس آ
گئی) شhh! گلے میں تمہارے لگتا ہے ڈھول لگا ہے۔ میں:
سوری آئی ایم سوری اگین! تم نے پوچھا تھا کہ میں کون ہوں... میں عاشنہ ملک ہوں...
(میں نے محسوس کیا کہ میں کچھ بوکھلایا ہوا ہوں) لڑکی: عاشنہ ہوم! دلچسپ نام ہے،
ویسے تم کو پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ میں: میں نیوزی لینڈ میں پڑھ رہا ہوں وہاں ہی
رہتا ہوں، آج کل چھٹیاں ہیں تو یہاں آ گیا ہوں گھر۔ لڑکی: واہ! نیوزی لینڈ میں، وہ
تو بہت خوبصورت ملک ہے، نہیں! میں: ہاں ہے...
اچھا تم کون ہو جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے دو سال پہلے جب میں پاکستان آیا تھا تب
تو اس گھر میں کوئی لڑکی نہیں تھی... یہاں تو وہ انکل... لڑکی: ہاں انکل وارث نے ہمیں یہ گھر رینٹ پر دیا ہے۔ میں: اوہ آئی سی!
لڑکی: پھر پھری کیوں نہیں سی! (ساتھ ہی ہنسنے لگ گئی)...
سنو مسٹر عاشنہ تمہارے پاس اسپیئر سگریٹ ہے؟ میں: ہاں ہے... ڈو یو سموک؟ (ساتھ ہی
میں نے ایک سگریٹ نکالا اور اس کے طرف اچھال دیا) لڑکی: نہیں آئی ڈونٹ سموک بٹ
ٹوڈے آئی ایم گونگ ٹو ڈو اٹ (لڑکی نے سگریٹ منہ میں لیا) لائٹر بھی پھینکو۔ میں:
لائٹر نہیں ہے ماچس ہے (ساتھ ہی میں نے ماچس کھرکائی) لڑکی: اب کیا ہوگا... الو
ماچس ہی پھینکو۔ میں: الو کس کو کہتی ہو... اتنا فری ہونے کی ضرورت نہیں۔ لڑکی:
سوری مسٹر عاشنہ ملک صاحب عزت مآب عالی جا... میں: (تھوڑا شرمندہ سا ہوا) کوئی نہیں خیر ہے... تمہارا نام کیا ہے؟ لڑکی:
(سگریٹ منہ سے نکالا) ماچس دو گے؟ میں: اوہ ہاں (میں نے ماچس اس کے طرف اچھال دی) لڑکی:
(ماچس کیچ کی) میرا نام سحرش ہے۔ میں:
سریش؟ لڑکی: سریش نہیں سہ رش، سہ میں ایچ کو ضرور پروناؤنس کرو۔ میں: سہ-رش، سحرش ... لڑکی: یس دٹس دی ون (اب وہ
منہ میں سگریٹ لگا کر اسے سلگانے کی کوشش کرنے لگی) میں: دیکھو تم نے پہلے سگریٹ
کبھی نہیں پیا تو یہ آج تم کو...
ابھی
میرا جملہ مکمل نہیں ہوا تھا کہ سحرش نے
سگریٹ لگا لیا لیکن اس نے جیسے ہی پہلا کش لیا اسے کھانسی لگ گئی اور وہ اپنی
کھانسی کو دباتے ہوئے پانی کے ٹینک کی طرف گئی اور وہاں جا کر اس نے تھوڑا پانی
پیا تب اسے آرام آیا۔ سحرش جب پانی کے
ٹینک کی طرف گئی تب میں نے دیکھا کہ ٹی شرٹ کے نیچے اس نے برمودہ شارٹس کی طرح کے
سفید ہی رنگ میں شارٹس پہن رکھے تھے۔ سحرش کے واپس آنے سے پہلے میں نے چھت کے دروازے سے
نیچے سیڑھیوں میں جا کر دیکھا کہ کہیں کوئی ہے تو نہیں، پتا نہیں کیوں مجھے ایسا
لگ رہا تھا جیسے میں کوئی غلط کام کر رہا ہوں... عجب سی بے چینی تھی، سگریٹ تو
بھائی بھابی سے چھپ کر میں روزانہ ہی پیتا تھا پھر آج ایسا کیا ہو رہا ہے۔ سحرش واپس آ گئی۔ ہمارے درمیان کوئی 12 فٹ کا فاصلہ
ہوگا...
میں:
تم نے پہلے سگریٹ کبھی نہیں پیا تو پھر آج تم... سحرش : ہر چیز
کا ایک پہلا دن ہوتا ہے (اس کا گلا ابھی بھی صاف نہیں ہوا تھا) میں: (میں نے اپنی
جیب سے کٹ کیٹ نکالی اور اس کے طرف اچھال دی) یہ چاکلیٹ کھاؤ ٹھیک ہو جائے گا
گلا... تم کو سگریٹ نہیں پینا چاہیے تھا۔
سحرش
نے چاکلیٹ اٹھا لی اور کھول کر بائٹ لیا
تب اسے کچھ آرام آیا۔ میں سوچ رہا تھا یہ کون ہے، یہاں کیوں ہے وغیرہ، یہ سب کہیں
کوئی عجیب خواب تو نہیں...
سحرش
: تھینکس عاشنہ ملک صاحب۔ میں: یو کین کال می شنا۔ سحرش : شینا... دٹس کوائٹ گرلی
نیم۔ میں: شنا... شی-نا... ہماری زبان میں دوست کو کہتے ہیں۔ سحرش : اوکے! شنا ایک
اور سگریٹ پھینکو۔ میں: نہیں... پاگل ہو تم کیا؟ سحرش : اے مسٹر پاگل کس کو کہا
زیادہ فری ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں: سوری میڈم محترمہ عزت مآب جناب عالی...
سحرش : بس بس ٹھیک ہے... شنا سگریٹ دو۔ میں: دیکھو اگر
پینا ہی ہے تو اس کا طریقہ ہے یہ نہیں کہ جیسے چاہا تم بس سوٹا لگا لو (میں نے
سگریٹ اس کے طرف پھینکا) سحرش : بتاؤ... کیسے پینا ہے؟ میں: پہلے سانس باہر نکالو
اور پھر چھوٹا سا کش لگاؤ اور دھواں جو منہ میں ہو اسے باقی سانس سے اندر لے
جاؤ... ماچس پھینکو میں کر کے دکھاتا ہوں (سحرش نے ماچس میری طرف پھینک دی اور میں نے ایک سگریٹ
اور نکالا اور اسے سلگا کر دکھایا) اس طرح سے۔
سحرش
نے ماچس اٹھائی جو میں نے سگریٹ لگانے کے
بعد اس کے طرف پھینک دی تھی اور سگریٹ سلگا لیا لیکن جیسے ہی دھواں اس نے اندر
کرنے کی کوشش کی تو وہ پھر منہ پر ہاتھ رکھ کر پانی کے ٹینک کی طرف بھاگ گئی۔ وہ
بہت دبی دبی آواز میں کھانسنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس دفعہ جب وہ پانی پینے گئی تو
میں نے اسے اچھے سے دیکھا کہ وہ ایک لمبے قد اور پتلی کمر والی لڑکی تھی۔ میرے
اندر ایک دم سے جیسے کوئی بجلی کا کرنٹ دوڑا اور میرا دماغ سیکس کی طرف چلا گیا
اور بے دھیانی میں چھت کی سائیڈ وال کے ساتھ میں نے ہلکی سی رگڑ کھائی اور میرا
لنڈ کھڑا ہو گیا اور میں اسے دیوار کے ساتھ ہی ہلکا ہلکا رگڑنے لگا۔ سحرش واپس آ گئی تو میں چونک کر اپنے خیال سے باہر آ
گیا۔
سحرش
: شنا لگتا ہے میں سگریٹ پی ہی نہیں سکتی۔ میں: سحرش تم کو یہ کام نہیں کرنا چاہیے۔ سحرش : رہنے دو
رہنے دو لیکچر... ایک ٹرائی اور کرتی ہوں، پھینکو ایک سگریٹ اور۔ میں: یو آر
کریزی... سوری آئی مین... تم کو... سحرش : آئی ایم
کریزی دین یو آر الو... (وہ ہنسنے لگی اور میں بھی)... سگریٹ پھینکو... پیسے دے
دوں گی۔ میں: پیسوں کی بات نہیں... یہ کوئی اچھی چیز نہیں (میں نے سگریٹ اس کے طرف
پھینک دیا) اور پینے کا طریقہ بھی نہیں تم کو۔ سحرش : اچھی چیز نہیں تو پھر تم
کیوں پیتے ہو شنا (اس نے سگریٹ منہ میں ڈالا اور ماچس جلائی) میں: رکو... رکو (وہ
جلتی ماچس منہ کے سامنے لا کر رک گئی اور میری طرف دیکھنے لگی، ماچس کی روشنی میں
میں نے سحرش کا چہرہ دیکھا جو دمک رہا
تھا، وہ بہت خوبصورت لڑکی تھی اور اس کا رنگ ویٹش گورا تھا... اس نے سگریٹ لائے
بغیر ماچس بجھا دی) دیکھو پہلے بغیر سگریٹ لگائے کش لگاؤ۔
میں
نے اپنے سگریٹ سے کر کے دکھایا۔ سٹریٹ لائٹ کی روشنی شاید میرے چہرے پر پڑ رہی تھی
جس کی وجہ سے وہ مجھے بہتر طریقے سے دیکھ سکتی تھی۔ اس نے سگریٹ منہ سے لگا لیا
اور پھر دو یا تین دفعہ اس طرح کرنے کے بعد اس نے سگریٹ سلگا لیا اور اس بار وہ
چھوٹے چھوٹے کش لگانے لگی بغیر کھانسی کیے۔
میں:
خیال سے سحرش پہلا سگریٹ ہے گھما دے گا۔ سحرش
: واہ! مجھے بڑا ہلکا ہلکا محسوس ہو رہا ہے (ساتھ ہی وہ بیٹھ گئی اور میری نظر سے
اوجھل ہو گئی لیکن مجھے سگریٹ کا دھواں نظر آ رہا تھا) میں: اے تم ٹھیک تو ہو
نہ... سحرش ! اے سحرش ! سحرش : (اس نے سر اوپر اٹھا کر مجھے سگریٹ دکھایا) الو! ڈھول گلے والے چپ
رہو 2 منٹ کو۔
سحرش
یہ کہہ کر دوبارہ بیٹھ گئی اور میں اپنا
سگریٹ پینے لگا اور دوبارہ میرا زہن سیکس کی طرف چلا گیا۔ اب مجھے نیوزی لینڈ میں
اپنی ایک فرینڈ یاد آ گئی جس کا نام کیری تھا... کیری میری زندگی میں آنے والی
پہلی لڑکی تھی جس کے ساتھ میں نے سیکس کیا تھا تقریباً ڈیڑھ سال پہلے... وہ سیکس
مشین تھی اور اس کی سیکس فینٹسیز بہت وائلڈ تھیں... بے دھیانی میں میرا لنڈ دوبارہ
دیوار سے رگڑ کھا گیا اور ایک بار پھر جیسے بجلی سی دوڑ گئی میرے جسم میں اور مجھے
کیری کا جملہ یاد آیا جو وہ اکثر میرا لنڈ چوستے ہوئے کہتی تھی "ملک آئی لو
یور ڈک"۔ کیری کے دیے ہوئے بلو جاب یاد آنے تھے کہ میں تو تڑپ اٹھا اور میرے
لنڈ سے جیسے درد اور سرور کی لہریں دوڑنے لگی ہوں... کیری سے میرا تعلق صرف سیکس
کی حد تک تھا اور یہی وہ لڑکی تھی جس نے میرے زہن میں لو کے بجائے لسٹ ڈالا... میں
اب اپنے لنڈ کو دھیرے دھیرے سے دیوار کے ساتھ دبا رہا تھا اور رگڑ رہا تھا۔ میرا
لنڈ پورے طور پر کھڑا ہو گیا، پورا 9 انچ سامنے کی طرف...
سحرش
: شنا... ایک سگریٹ اور پھینکو۔ میں: (چونک کر دیوار سے پیچھے ہٹا) واٹ؟ (میرا لنڈ
بھی بیٹھ گیا اور میں اپنے خیالات سے باہر آ گیا) سوری! تم نے کیا کہا؟ سحرش :
سگریٹ پھینکو، سگریٹ مانگا، الو۔ میں: (اب پوری طرح سحرش کی طرف متوجہ ہوا) ابھی اور چاہیے، اور یہ الو
کیوں کہتی ہو؟ سحرش : ہاں پھینکو جلدی کرو مجھ سے کھڑا نہیں ہوا جا رہا، الو۔ میں:
پھر الو (میں سمجھ گیا اسے ہوش ہی نہیں، پہلا سگریٹ کا نشہ ہی ایسا ہوتا ہے، بندہ
ساری عمر وہ پہلا نشہ ہی ڈھونڈتا رہتا ہے) دیکھو تم کو کچھ ہو گیا نا تو میں جواب
نہیں ہوں گا (میں نے سحرش کے لیے سگریٹ
نکالا اور اس کے طرف اچھال دیا) سحرش : کچھ نہیں ہوتا مجھے (اس نے سگریٹ کیچ کر
لیا اور وہ دوبارہ بیٹھ گئی اور میری آنکھوں سے اوجھل ہو گئی)
اب
تک رات کے کوئی 2 بج گئے ہوں گے۔ کچھ دیر میں سحرش واپس کھڑی ہوئی لیکن پھر دھڑام سے پیچھے کی طرف
گر گئی۔ میں گھبرا گیا اور اوپر ہو کر سحرش کو دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔
میں:
سحرش ! سحرش آر یو آل رائٹ؟
مجھے
سٹریٹ لائٹ میں ایک ہاتھ نظر آیا جو مجھے ادھر آنے کا اشارہ کر رہا تھا۔ مجھے لگا
جیسے سحرش مجھے مدد کے لیے اشارہ کر رہی
ہو۔ میں گھبرا کر ادھر اُدھر دیکھنے لگا تب مجھے یاد آیا کہ سحرش کا گھر پیچھے کی طرف سے جس گھر کے ساتھ لگتا ہے
وہ میرے گھر کے پیچھے والے گھر کے ساتھ بھی اٹیچڈ ہے، مطلب یہ کہ اگر میں اپنے گھر
کے پیچھے والے گھر کی چھت پر جاؤں پھر اس کے ساتھ والے اور پھر سحرش کے گھر کی چھت پر پہنچ سکتا ہوں۔ میں نے سفر
شروع کیا اور ساتھ ساتھ میں سوچ رہا تھا کہ کیا ہوگا جو کسی نے مجھے پکڑ لیا پر
شاید اس وقت مجھ پر ایک لڑکی کی مدد کرنے کا جنون سوار تھا... جیسے تیسے میں ایک
منٹ سے بھی کم وقت میں سحرش کے پاس تھا...
وہ اپنے گھر کی چھت کے دروازے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھ سے کچھ کہنا چاہ رہی تھی
اور میں سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ جب میں اس کے قریب جا کر بیٹھا تب اس نے مجھے میری
شرٹ کے کالر سے پکڑا اور اپنے منہ کی طرف کھینچا۔
سحرش
: (سرگوشی کرتے ہوئے) چھت کے دروازے کو باہر سے کنڈا لگا دو۔
اب
میں نے جانا وہ کیا اشارہ کر رہی تھی۔ اس نے میرا کالر چھوڑا اور میں اس کی چھت کے
دروازے کی طرف گیا اور اسے دھیرے سے بند کر کے باہر سے کنڈا لگا دیا۔ پھر میں واپس
سحرش کے پاس آ کر بیٹھ گیا اور دیکھا کہ
وہ بس لیٹ کر آسمان کو دیکھ رہی ہے۔
میں:
آر یو اوکے؟ سحرش (میں نے اس کا کندھا پکڑ
کر ہلایا... اسے ہاتھ لگنا تھا کہ مجھے جھٹکا لگا اور میں نے لٹریلی ہاتھ اس طرح
پیچھے کھینچا جیسے مجھے بجلی کا جھٹکا لگ گیا ہو) سحرش : آئی ایم فائن ڈھول، آئی
ایم جسٹ ٹن (نشے میں)۔ میں: پانی لا کر دوں؟ سحرش : کیسے لاؤ گے؟ میں: لے آؤں گا۔ سحرش
: لے آؤ۔
میں
اٹھا اور اس کے گھر کے واٹر ٹینک کی طرف گیا وہاں ایک ٹونٹی تھی میں نے اسے تھوڑا
سا کھولا اور اپنے ہاتھوں کا پیالہ سا بنا کر اس میں پانی بھر کر سحرش کے پاس لے آیا۔ راستے میں کچھ گر گیا لیکن ایک
گھونٹ سحرش تک پہنچ ہی گیا۔ میں اس کے
ہونٹوں سے تھوڑا دور ہاتھوں کی انگلیوں کی طرف سے پانی اس کے ہونٹوں پر گرانے لگا
اور وہ پینے لگی۔ پانی کو صحیح جگہ پر گرانے کے لیے مجھے اس کے ہونٹوں پر توجہ
دینی پڑی۔ سحرش بہت ہی زیادہ خوبصورت اور
نفیس لڑکی نظر آ رہی تھی۔ پانی کے گرنے والے قطرے اس کے ہونٹوں کے ارد گرد چمک رہے
تھے۔ میں نے سحرش کو 6 یا 7 مرتبہ اس طرح
پانی لا کر پلایا۔ جب میں آخری دفعہ پانی لایا اور اسے پلانے لگا تو اس نے میرے
ہاتھ پکڑ لیے اور اپنے ہونٹوں سے لگا کر ان پر بوسہ دیا اور پھر گھبرا کر انہیں
چھوڑ دیا۔
سحرش
: سوری عاشنہ آئی ایم ریلی سوری (وہ گھبرا کر بیٹھ گئی اور اس کے شارٹس گھٹنوں سے
اوپر ہو گئے جس کی وجہ سے اس کی خوبصورت اور سیکسی ٹانگیں نظر آنے لگ گئیں) اصل
میں جس طرح تم نے پانی پلایا شنا زندگی میں اتنا مزہ نہیں آیا، آئی جسٹ ہیڈ ٹو کس
دوز ہینڈز (ساتھ ہی وہ پھر لیٹ گئی) لگتا ہے میں ابھی بھی ٹن ہوں مجھے سخت چکر آ
رہے ہیں۔
میں
اور میرا جسم ابھی تک اس گرمی سے باہر نہیں آ سکے تھے جو سحرش کے ہونٹوں کو چھونے سے چڑھ گئی تھی اور میری
آنکھیں سحرش کے جسم کے خدوخال اور رنگت
میں گم تھیں... اس کے کچھ بال اس کے چہرے کے ارد گرد بکھر گئے تھے، اس کے چہرے کی
رنگت اور سیاہ ریشمی بال بہت خوبصورت کنٹراسٹ پیدا کر رہے تھے... سحرش کی آواز مجھے ایک بار پھر اپنے خیالات سے باہر
لے آئی۔
سحرش
: (وہ ابھی بھی آسمان کی طرف دیکھ رہی تھی) شنا! آئی وش وی کڈ اسٹے دس لائٹ ہیڈڈ
ایٹ آل ٹائمز... آئی وش لائف اٹ سیلف واز دس لائٹ ٹو بیئر (میں نے دیکھا کہ ایک
آنسو اس کی آنکھ سے بہہ کر اس کے کان کی طرف گیا) کتنا ہیوی ہو جاتا ہے کبھی کبھی
لائف کو چلانا (سحرش اب بہت سنجیدہ نظر آ
رہی تھی) کاش میں ایک چھوٹا سا پر ہوتی ٹوٹا ہوا پر کسی ایسے پرندے کا جو بہت
اونچا آسمان میں اڑ رہا ہوتا جب میں ٹوٹ جاتی اور پھر کتنا ہی عرصہ بس ہوا میں ہی
اڑتی پھرتی (اب آنسو اس کی آنکھوں سے لگاتار بہہ رہے تھے)۔
میں
ایک بار پھر اپنی سیکسی سوچ سے باہر آ گیا... لو نہ سہی لسٹ ہی سہی پر کچھ تو ایسا
ہے مجھ میں کہ کسی کے آنسو نہیں دیکھے جاتے دل کرتا ہے خود مر جاؤں پر اسے خوشی دے
دوں... عجب سی گھٹن پیدا ہوتی ہے کسی کو دکھی دیکھ کر پتا نہیں کیوں... میں اٹھا
اور پانی کے ٹینک کی طرف گیا اور سحرش کے
لیے پانی لے کر آیا اپنے ہاتھوں کے پیالے میں، سحرش نے بھی کچھ نہیں بولا اور چپ کے سے پیتی رہی...
مجھے 11 چکر لگانے پڑے اس سے پہلے کہ وہ دوبارہ میرے ہاتھ کو تھام لے اور بوسہ
کرے... سحرش کے ہونٹ پانی سے گیلے تھے
لیکن پھر بھی ان کی گرمی میں محسوس کر رہا تھا، اس دفعہ اس نے میری انگلیوں پر
زبان بھی لگائی اور ان پر سے پانی کے رہ جانے والے قطرے چاٹ لیے... مجھے سحرش پر بہت پیار آ رہا تھا اور میں نے ایک ہاتھ اس
سے چھڑا کر اس کے بکھرے بال سیدھے کرنے لگا، لڑکی مجھے 18 یا 19 سال کی لگ رہی تھی
لیکن اندھیرے میں دور سے سحرش کے قد کھٹ
کی وجہ سے وہ کچھ زیادہ عمر کی لگ رہی تھی... اب جب میں اس کے چہرے کو کافی حد تک
دیکھ سکتا تھا تو مجھے لگا کہ یہ تو بہت کم عمر لگتی ہے، بالوں میں ہاتھ پھیرتے
میرے ہاتھ اس کے آنسوؤں سے گیلے ہونے والوں بالوں کو ٹچ ہوئے اور مجھے اس کا رونا
یاد آ گیا اور لسٹ گیا لو ٹک اوور اور میں نے دونوں ہاتھ فوراً پیچھے کو کھینچ
لیے... ایسا لگا کہ شاید میں اس لڑکی کی سچویشن سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا
ہوں اور میں شرمندگی محسوس کرنے لگا اور میں نے وہاں سے چلے جانے کا فیصلہ کیا۔
میں:
سحرش ! سنو اب میں چلتا ہوں (میں اٹھنا تو سحرش اٹھ کر بیٹھ گئی اور اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا) سحرش
: رکو... پہلے ایک سگریٹ پلاؤ۔ میں: پاگل ہو تم۔ سحرش : تم الو ہو اور تمہارے گلے
میں ڈھول ہے، سگریٹ پلاتے ہو کہ شور مچاؤں بچاؤ بچاؤ وغیرہ وغیرہ (ساتھ ہی اس نے
مجھے ہلکا سا اپنی طرف جھٹکا دیا اور میں دوبارہ اس کے پاس بیٹھ گیا) ڈر گئے تم
کیا؟
میں
نے سحرش کے پاس بیٹھ کر اپنا ہاتھ اس کے
ہاتھ سے الگ کیا اور جیب سے سگریٹس کا پیکٹ نکال کر اس میں سے 2 سگریٹس نکالے اور
دونوں کو خود اپنے ہونٹوں میں رکھ کر سلگایا اور پھر ان میں سے ایک سحرش کے طرف کر دیا جو اس نے لے لیا۔
میں:
سحرش کیا چیز ہو تم بھی؟ سحرش : صرف چیز
نہیں بہت مست چیز ہوں میں (ساتھ ہی اس نے کش لگا کر دھواں باہر پھینکا، اب وہ عادی
سموکر کی طرح سگریٹ پی رہی تھی) تم سوچتے ہو گئے نا کہ میں کوئی بہت چلو قسم کی
لڑکی ہوں؟ اسی لیے شاید تم اٹھ کر چل دیے تھے جب میں نے تمہاری انگلیوں پر بوسہ
کیا تھا... میں: نہیں ایسی کوئی بات نہیں میں
لوگوں کو جج نہیں کرتا، سحرش مجھے ایسا
لگا کہ تم ابھی ایمویشنل اور ٹن ہو رہی ہو اور ایسی حالت میں ہم مردوں کے لیے بہت
آسان ہوتا ہے تمہارے ساتھ ہمدردی شو کر کے موقع کا فائدہ اٹھانا اور میں نہیں
چاہتا تھا کہ ہم کوئی ایسا قدم اٹھا لیں جس کی وجہ سے بعد میں مجھ کو یا تم کو
پچھتانا پڑے۔
سحرش
میری باتیں سن رہی تھی اور ساتھ ساتھ
سگریٹ بھی پی رہی تھی اور اب اس کی آنکھوں میں دوبارہ آنسو نظر آ رہے تھے۔
میں:
دیکھو اسٹاپ کرائینگ ایسی کیا ہو گیا تمہاری اس عمر میں کہ تمہارے آنسو نہیں
رکتے... میڈم ابھی تو لائف کا ایکچوئل سفر باقی ہے عمر پڑی ہے رونے کو۔
سحرش
اب مجھے گھور رہی تھی اور پھر اس نے سگریٹ
کا ایک لمبا کش لگایا اور سگریٹ دور پھینک دی اور مجھے میرے کالر سے پکڑ کر اپنے
منہ کی طرف کھینچا اور اپنے ہونٹ میرے ہونٹ پر رکھ دیے اور سارا سگریٹ کا دھواں
میرے منہ میں ڈال دیا، اس طرح اچانک دھواں میرے اندر گیا تو مجھے کھانسی آنے لگ
گئی تب سحرش جلدی سے اٹھی اور لڑکھڑاتے
ہوئے پانی کے ٹینک کی طرف گئی اور اپنے ہاتھوں میں پانی لے کر آئی جو راستے ہی میں
گر گیا... میں نے سحرش کے ہاتھ تھام لیے
اور ان پر سے بوسہ کے ساتھ پانی پی لیا... اسے میں نے ہلکا سا جھٹکا دیا اپنی طرف
تو وہ میری لیپ میں آ گری اور اتفاق سے اس کی گانڈ (آرس) میرے لنڈ پر آ بیٹھی۔ سحرش
کا جسم میری باہوں میں آنا تھا کہ میرا
پورا جسم آگ کی بھٹی بن گیا... وہ میری لیپ میں بیٹھی تھی اور اس کی پیٹھ میری طرف
تھی میں نے اسے اس کی کمر سے دونوں بازو گھما کر جکڑ لیا اور ساتھ ہی اس کی گردن
اور کانوں کے پیچھے بوسہ دینے لگا زبان سے چاٹنے لگا... سحرش نے اپنے دونوں ہاتھ میرے ہاتھوں میں دے دیے اور
میں نے ان کو بھی کس کر پکڑ لیا اپنے ہاتھوں میں... میرا لنڈ اب بڑا ہو کر 9 انچ
کا ہو گیا تھا اور نیچے سے سحرش کو چبھنے
لگا تو اس نے اٹھنے کی کوشش کی تڑپ کر تو میں نے اسے اور کس کے پکڑ لیا... میرا
لنڈ ہلتے جلتے سحرش کی کنٹ پر آ گیا اور
کاٹن کے ہلکی شارٹس جو کہ ہم دونوں نے پہن رکھی تھیں ہمارے جسموں کو زیادہ دور نہ
رکھ سکیں... میں اب ہوش کھو چکا تھا اور زور زور سے سحرش کو جھٹکے لگا رہا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ میرا
لنڈ کپڑوں سمیت سحرش میں گھس جائے گا... سحرش
نے اپنا سر میرے کندھوں پر رکھ دیا اور
میں نے آگے جھک کر اس کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لے لیے اور اپنی زبان سے اس کی زبان
چوسنے لگا۔ میرا بایاں ہاتھ اب اس کی ٹانگوں کو سہلا رہا تھا جب کہ دوسرے ہاتھ سے
میں اس کے مموں کا مساج کر رہا تھا... جب بھی میرا لنڈ زوردار طریقے سے اندر جانے
کی کوشش کرتا تو سحرش اچھلنے کی کوشش کرتی
لیکن میں اسے اس کے مموں کو دبا کر اپنے لنڈ پر بیٹھنے کو مجبور کر دیتا۔ تھوڑی
دیر میں مجھے ایسا لگا کہ جیسے میرا لنڈ لکڑی کا بنا ہو اور اب ٹوٹ جائے گا اگر
میں نے اسی طرح دھکیلا... جس ہاتھ سے میں سحرش کی ٹانگیں سہلا رہا تھا وہ میں پیچھے کی طرف
لایا اور آہستہ سے اپنی نیکر نیچے کر دی جس سے میرا لنڈ آزاد ہو گیا اور اب میں نے
جیسے ہی سحرش کی نیکر پر ہاتھ رکھا تو اس
نے بغیر لیپس ٹو لیپس بوسہ توڑے میرا ہاتھ پکڑ لیا... میں نے سحرش کے مموں پر ہلکی سی چٹکی بھری تو اس نے میرا
ہاتھ چھوڑ دیا اور میں نے اس کی نیکر اتنی نیچے کو کر دی کہ اب میرا لنڈ اس کے
اندر گھس سکتا تھا... سحرش ناک سے عجیب
طریقے سے تیز تیز سانس لے رہی تھی... میں نے اپنا منہ اس کے منہ سے ہٹایا۔
میں:
آر یو اوکے؟ سحرش : آئی ایم ٹن الو (اور ساتھ ہی اپنے ہونٹ دوبارہ میرے ہونٹوں پر
رکھ دیے)
اب
کیا چیز روک سکتی تھی ہمیں... میں نے ایک ہاتھ سے اپنا لنڈ سحرش کے کنٹ لیپس پر رکھا اور ہلکا سا جھٹکا اوپر کو
دیا لیکن اندر جانے کے بجائے میرا لنڈ سائیڈ پر سلپ ہو گیا... سحرش دوبارہ ناک سے عجیب طریقے سے تیز تیز سانس لے
رہی تھی اور اس کے دونوں ہاتھ میرے بالوں میں تھے... میں نے اپنا لنڈ پکڑ کر اس کے
ٹوپے کو سحرش کی کنٹ پر زور زور سے رگڑا
جس سے اس کے کنٹ لیپس تھوڑے گیلے ہوئے اور ہلکے سے کھلے تو میں نے صحیح جگہ پر
ٹوپے کو رکھ کر زور لگایا اور میرا لنڈ کوئی 1 انچ سحرش کے اندر چلا گیا... سحرش نے اچھل کر آزاد ہونا چاہا پر میں نے آگے کو زور
لگایا اور تقریباً 2 انچ لنڈ اندر چلا گیا... سحرش اففف اففففففففف آآآآآآآآ کر کے میرے ہونٹوں سے
اپنے ہونٹ ہٹا لیے... میں نے اپنا لنڈ مزید آگے نہیں دھکیلا اور سحرش کو اپنی طرف کھینچا اور اس کے ہونٹ چوسنے لگا...
وہ اب اس طرح سمجھو میرے لنڈ پر بیٹھی تھی اور جتنا پیچھے ہٹے گی اتنا میرا لنڈ اس
کے اندر جائے گا... میں نے سحرش کے مموں
دونوں ہاتھوں سے سہلانا شروع کر دیا اور ان کو ہلکا سا پیچھے کو دباتا تو شاید
آدھا سینٹی میٹر لنڈ اس کے اندر اور چلا جاتا لیکن ساتھ ہی وہ ہلکا سا اچھلتی اور
جتنا اندر ہوتا لنڈ اس میں سے ہر بار تھوڑا باہر بھی آ جاتا... سحرش کی کنٹ بہت ٹائٹ تھی ایسا لگتا تھا ریشمی کپڑا
لپیٹا ہوا ہو میرے لنڈ کے ارد گرد... میں نے اس کے کانوں کے پیچھے بوسہ کرنا شروع
کر دیا اور ساتھ ساتھ ایک ہاتھ سے اس کے ہونٹوں کو مسلنا شروع کر دیا اور جلد ہی سحرش
نے میری انگلیاں اپنے منہ میں ڈال کر
چوسنا شروع کر دیں۔ کیا رات تھی آئے ایسا لگتا تھا ساری زمین اور آسمان سب ارد گرد
گھوم رہے ہوں اور زندگی کے سارے حسین لمحات اور مزیدار احساسات سب سمٹ آئے ہوں اس
فیلنگ میں جو سحرش کی کنٹ سے میرے لنڈ کے
راستے میرے سارے بدن میں تھی۔
میں:
(سحرش کے کان کے لو پر ہلکا سا بائٹ کیا)
آہ! سحرش او! سویٹی مائی لو تھوڑا تو اندر
جانے دو۔
میں
نے دوسرا بازو جو آسانی سے سحرش کی پتلی
کمر کے گرد گھوم گیا تھا اس سے اسے پیچھے کی طرف کھینچا جس کی وجہ سے میرا لنڈ
تھوڑا اندر ہو گیا اور اس نے بھی واپس نہیں نکالا... سحرش کی کنٹ سے اب جوسز بہہ رہے تھے اور میرا وہ لنڈ
جو ابھی بھی باہر تھا اس پر بہہ کر اسے اندر آنے کی دعوت دے رہا تھا... میں نے پھر
دبایا آگے کو تو مجھے لگا جیسے سحرش نے
جسم کو کھینچ لیا اور اس کی کنٹ نے میرے لنڈ کو مضبوطی سے پکڑ لیا... اتنا مضبوطی
سے کہ نہ وہ آگے ہی جا سکے نہ پیچھے... مجھے تو جیسے بس سرور سے آسمان بھی گھومتا
نظر آنے لگا... میں جنگلی کی طرح سحرش کو
چاٹنے لگا کبھی اس کی گردن کبھی اس کے شولڈرز جہاں تک ٹی شرٹ کا گلا اجازت دے،
کبھی اس کے گال کو چاٹا کبھی اس کے کان کو... سحرش نے بھی میری انگلیوں کو لولی پاپ کی طرح چوسنا
شروع کر دیا...
میں:
سحرش ! تم کتنی ٹائٹ ہو آہ! اوہ! پلیز اندر جانے دو نا۔
میری
بات سن کر جیسے اسے جھٹکا سا لگا لیکن اس کی کنٹ نے ابھی بھی میرے لنڈ کو مضبوطی
سے پکڑا ہوا تھا... ایسا نہیں کہ میں دھکیلتا تو اندر نہیں کر سکتا تھا لیکن پتا
نہیں کیوں آئی ڈڈنٹ وانٹ ٹو ہرٹ سحرش ... میں نے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ
دیے اور اسے بوسہ کرنے لگا، میری زبان اس کے منہ کے اندر کی سیر کر رہی تھی... سحرش
نے اپنے جسم کو ہلکا سا لوز کیا اور تھوڑا
سا پیچھے کو آئی لیکن اس نے لنڈ اندر نہیں جانے دیا... اب وہ سیدھی میرے لنڈ پر
بیٹھی تھی اور اس کے کنٹ سے نکلنے والے جوسز نے میرے پورے لنڈ کو اچھی طرح سے گیلا
کر دیا تھا اور میرے لنڈ کا ٹمپریچر عجیب ہو رہا تھا وہ حصہ جو سحرش کے اندر تھا وہ تو نرم گرم جگہ پر تھا لیکن باقی
لنڈ پر ہلکی ہلکی ٹھنڈ لگ رہی تھی... مجھے اپنا لنڈ نظر نہیں آ رہا تھا لیکن میرا
خیال تھا کہ ابھی بھی 7 انچ باقی ہوگا... میرا لنڈ لکڑی کا یا لوہے کا بنا ہوا تھا
اس وقت ذرا بھی بینڈ نہیں تھا اور پوری طاقت سے اس نے سحرش کو خود پر بٹھایا ہوا تھا، میں اور میرا لنڈ
دونوں یہ جانتے تھے کہ جلدی کیا ہے آخر تو سارا اندر ہونا ہی ہے... میں نے اپنے
دونوں ہاتھوں سے پیچھے کی طرف سے سحرش کی
کمر پکڑ لی اور نیچے کو دبانے لگا۔
سحرش
: (سحرش نے جسم کو دوبارہ زور سے دبا لیا
اور میرے ہونٹوں سے ہٹ کر میرے کان کو بوسہ کرنے لگی) بہت لمبا اور موٹا لنڈ ہے
تمہارا مجھے ڈر ہے تم مجھے پھاڑ دو گے۔ میں: نہیں تم خود کو ڈھیلا چھوڑو پھر دیکھو
کیسے آرام سے یہ سارا تم میں فٹ ہو جائے گا اور تم کو لینا تو ہے ہی اب سارا (اور
ساتھ ہی میں نے ہلکا سا جھٹکا اوپر کو لگایا جس سے تھوڑا سا لنڈ اور اندر ہو گیا) سحرش
: آہ! اففف! کیا کرتے ہو؟
ہمیں
تقریباً 20 منٹ گزر گئے تھے جب سے میرے لنڈ کا ٹوپا سحرش کے اندر ہوا تھا، سحرش میرا لنڈ اندر نہیں لے رہی تھی... اس نے میرا
لنڈ جو باہر تھا اسے پکڑ کر جیسے ناپا ہو اور پھر اپنا ہاتھ اور بازو سامنے لا کر
مجھے دکھایا۔
سحرش
: دیکھو اتنا اس وقت اندر ہوگا (ہاتھ کی انگلیاں جہاں سے شروع ہوتی ہیں وہاں تک
نشان لگایا... میں نے تھوڑا سا دھکا مارا تو میرا لنڈ تقریباً آدھا انچ اور اس کے
اندر چلا گیا) آآآآآآہ! اففففففف اب اب اب اتنا اندر ہے (اس نے ہاتھ پر سائز بڑھا
دیا) دیکھو پلیز اور نہیں اب مجھے درد ہونے لگ گیا ہے، دیکھو میں تمہارا پورا لنڈ
نہیں لے سکتی ابھی تو اتنا باقی ہے (سحرش نے اپنی کلائی سے نیچے تک نشان لگایا اور پھر
میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی ٹمی پر لگا کر میرے کان میں سرگوشی کی) یہ یہاں تک پہنچ
جائے گا اگر سارا اندر گیا اور یہاں تو میری ٹمی ہے... پلیز پورا اندر مت کرو۔ میں:
اچھا تم ایسا کرو کہ جتنا اندر آنے دینا چاہتی ہو وہاں تک تو لے جانے دو نا۔
ساتھ
ہی میں نے ایک زور کا جھٹکا دیا، یہ جھٹکا اچانک تھا اور اب میرا لنڈ اور سحرش کی کنٹ دونوں خوب گیلے تھے، اس اچانک جھٹکے میں
میں نے تقریباً 4 انچ لنڈ سحرش کے اندر
دھکیل دیا، سحرش کی آنکھیں پوری کھل گئیں
اور اس نے منہ پورا کھول لیا اور زور زور سے سانس لینے لگی اس کے گلے سے عجیب عجیب
آوازیں نکل رہی تھیں، مجھ سے اب برداشت نہیں ہوتا تھا اور میں نے پورا زور آگے
لگانا شروع کر دیا جب کہ سحرش نے آگے کی
طرف اور ساتھ ہی اس نے اپنی کنٹ کو ٹینس کر لیا لیکن اب میرا لنڈ سحرش کی کنٹ خود بخود تھوڑا تھوڑا اندر لیتی جا رہی
تھی اور پھر مجھے ایسا لگا آگے کوئی رکاوٹ ہے اصل میں وہ اس کے اووری کا سوراخ تھا
جس میں میں نے تھوڑا اور زور لگایا تو میرا لنڈ اندر ہو گیا، سحرش درد سے دونوں بازو سامنے کر کے جیسے سوئمنگ کر
رہی ہو... مجھے تقریباً 3 منٹ لگے اور میرا لنڈ پوری طرح سحرش کے اندر تھا اور وہ بیہوش ہو کر پیچھے کی طرف
میرے کندھے پر گر چکی تھی اس کے ماتھے پر پسینہ تھا... میں نے لنڈ کو اندر فٹ کر
کے ہلانا جولانا بند کر دیا اور پھر سے سحرش کو چاٹنے لگا، کبھی اس کے ہونٹ کبھی اس کی گردن
کبھی اس کے شولڈرز۔ زرا سی بھی لنڈ کی حرکت اسے تڑپا دیتی تھی... میں نے بھی اس کے
ارد گرد بازو لپیٹ لیے اور اسے بس زور سے اپنی چیسٹ میں دبا لیا اور ہاتھوں سے اس
کی ٹی شرٹ کے اوپر سے اس کے مموں کے ساتھ کھیلنے لگا اور میری زبان اور ہونٹ سحرش کے گال کان گردن اور کندھے چوس رہے تھے... سحرش بالکل چپ تھی اور وہ بیہوش کی طرح میرا پورا لنڈ
اندر لے کر میری لیپ میں بیٹھی تھی... میں نے اپنے لنڈ کو ہلکے ہلکے انداز میں اس
کے اندر ہی اندر ہلانا شروع کر دیا... سحرش پوری طرح میرے قابو میں تھی.... اس کے کنٹ میں
سے جوسز لگاتار بہہ رہے تھے اور مجھے ایسا لگتا تھا کہ ہم دونوں ایک ہی جسم ہیں
اور میرا لنڈ تو خوب نرم اور گرم جگہ میں پورا گھسا ہوا تھا... میں نے سحرش کے کان پر بوسہ کرتے ہوئے سرگوشی کی۔
میں:
سحرش ! (ساتھ ہی لنڈ سے ہلکا جھٹکا دیا) سحرش
!
سحرش : آآآہ! ہاں (میرے کندھے پر سر رکھے رکھے تیز تیز
سانس لینے لگی) آآہ! تم نے آآہ! آآآآہ! (ہر دفعہ میرے جھٹکے زوردار ہوتے جا رہے
تھے، اب میں تقریباً 1 انچ لنڈ اندر باہر کر رہا تھا سحرش میں اور ہر دفعہ جب میں اندر دھکیلتا تو اس کے
اسپرنگ بمز 2 دفعہ باؤنس کرتے جس سے میرے لنڈ کو ڈبل مزہ آتا تھا اور سحرش کی آآہ نکل جاتی تھی) آآہ! تم نے پھاڑ آآآآہ
پھاڑ آآہ آآہ پھاڑ دیا مجھ کو آج آئیییی آآہ! میں تقریباً 10 منٹ تک لنڈ سحرش کے اندر باہر زیادہ سے زیادہ 2 انچ کرتا رہا،
میں نہیں چاہتا تھا کہ میرا لنڈ کا ٹوپا اس کی اووری سے باہر آ جائے... سحرش اچانک میرے کندھے سے اٹھ گئی اور اس نے ایک ہی
جھٹکے میں میرا لنڈ ایک پاپ کے ساتھ تقریباً 6 انچ باہر نکال لیا اور پھر وہ
دوبارہ ایک ہی جھٹکے میں واپس میرے لنڈ پر بیٹھ گئی جس سے وہ پاپ کر کے دوبارہ
پورا اس کے اندر تھا... سحرش نے میرا ہاتھ
پکڑ کر میری ہتھیلی اپنے دانتوں کے نیچے دبا لی اور ساتھ ہی اس کے کنٹ سے ایک
فوارہ جوسز کا نکلا جس سے اس کا کنٹ اندر سے پوری طرح چکنی ہو گئی اور میرا لنڈ تو
ایسے جیسے اسے ابلتا پانی میں ڈال دیا گیا ہو۔ میں نے بھی سر پیچھے کی طرف لڑکا
لیا اور میری بھی آآآہ نکل گئی اتنا گرم تھا سحرش کا پانی وہ لگاتار بہہ رہی تھی اور اب وہ ہلکی
ہلکی میرے لنڈ پر اٹھ بیٹھ رہی تھی... فضا میں صرف ہمارے جسم سے پچک پچک کی آنے
والی آواز گونج رہی تھی... سحرش کا کنٹ اب
بہت لوز ہو گیا تھا اس کے آرگزم کے بعد اور وہ ابھی بھی جوسز نکل رہی تھی جس کی
وجہ سے لنڈ اندر باہر کرنا آسان ہو گیا تھا۔ میں نے سحرش کی کمر پیچھے سے پکڑ لی اور اسے اوپر نیچے کرنے
لگا اپنے لنڈ پر... اب میں تقریباً 6 انچ لنڈ اس کے اندر باہر کر رہا تھا... ہم
دونوں پسینے سے شرابور تھے... میں صرف سحرش کے جسم کو اوپر کی طرف لے کر جاتا تھا اور پھر
چھوڑ دیتا تھا اور وہ تھپ سے میرے پورا لنڈ کو اندر کر لیتی اس پر واپس گر کے۔
کوئی 100 دفعہ اس کے اندر باہر 6 انچ لنڈ کیا تو ایک بار سحرش نے میرا پورا لنڈ اندر لے کر ہونٹ میرے ہونٹ پر
رکھ دیے اور نیچے اس کے کنٹ جوسز چھوڑنے لگ گئی.... یہ سحرش کا دوسرا آرگزم تھا اور
اس کے ساتھ ہی اب اس کے جوسز اس کے کنٹ سے باہر بہنے لگ گئے....میرے لنڈ کو سحرش کے کنٹ میں 30 منٹ سے زیادہ گزر چکے تھے لیکن
مجھے ایسا لگتا تھا کہ آج میں نے فارغ نہیں ہونا بلکہ سحرش کو اس وقت تک چودنا ہے جب تک اس کی کنٹ بہنا بند
نہ ہو جائے۔ سحرش کے ارد گرد میں نے اپنی
پکڑ زرا ہلکی کی اور اسے آگے اس طرح انداز میں دھکیلنا شروع کیا کہ میں نے لنڈ بھی
باہر نہیں آنے دیا اور سحرش کو ہاتھوں اور
گھٹنوں پر کر دیا اور خود میں اب اس پر پیچھے سے اس طرح سوار ہو گیا جیسے گھوڑی
(ہارس) پر ہوتے ہیں... جب میں نے محسوس کیا کہ سحرش پوزیشن میں ایڈجسٹ ہو گئی ہے تو میں نے اس پر
سواری شروع کر دی اور ہر دفعہ اپنا پورا لنڈ تقریباً باہر نکالتا اور پھر ایک
زوردار جھٹکے سے دوبارہ پورا اندر کر دیتا... اس پوزیشن میں میرا لنڈ سحرش کے اندر پہلے سے بھی زیادہ جا رہا تھا اور ہر
دفعہ جب میں پورا اس کے اندر جاتا تو اس کی دبی دبی آآآہ نکل جاتی۔ میں نے اپنی
ایک ٹانگ اٹھا کر سحرش کے بمز پر رکھ دی
اور اب پوری طاقت اور توجہ سے اسے چودنے لگا، پتا نہیں کتنا وقت اس سرور میں گزرا
ہوگا کہ سحرش کی اکھڑتی سانس اور آہ اوہ
کی آواز سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ تیسری بار فارغ ہونے لگی ہے۔ میں نے اور زوردار
لمبے 9 انچ کے 5 یا 7 جھٹکے جب سحرش کو
لگائی تو وہ تڑپتے تڑپتے تیسری بار فارغ ہو گئی... اب اس کے کنٹ کے باہر چھوٹے
چھوٹے بلبلے بنے لگ گئے تھے ہر دفعہ جب میں زور سے اندر کرتا تھا اپنا لنڈ تو... سحرش
کمزور پڑ گئی تھی لیکن میں ابھی بھی فارغ
ہونے کے قریب نہیں تھا... اس رات پتا نہیں مجھے کیوں ایسا لگ رہا تھا کہ میں جب تک
چاہوں سحرش کو چودا لگا سکتا ہوں.... سحرش
کے لیے اب اپنے جسم کو سنبھالنا مشکل ہو
گیا تھا... میں نے ایک زوردار جھٹکا دیا اور پورا لنڈ اندر کر دیا اور پھر وہاں
روک کر سحرش کی لیفٹ ٹانگ پکڑ کر اسے
سیدھا لیٹانے کی پوزیشن میں لانے لگا۔ تھوڑی کوشش کے بعد بغیر لنڈ نکالے میں نے سحرش
کو سیدھا زمین پر لٹا لیا... اب اس کے
دونوں بازو سر کے پیچھے کی طرف تھے اور اس کی ٹانگیں میرے کندھوں پر... میں نے
پہلے تو اس کی نیکر ٹانگوں سے اتار لی اور پھر اس کے اندر اپنا پورا لنڈ دھکیل دیا
اور زور سے اور آگے کی طرف ہو کر اس کی شرٹ بھی اتار دی۔ سحرش نے نیچے کوئی برا نہیں پہن رکھی تھی... اب اس کا
پورا جسم میں دیکھ سکتا تھا، میں نے اس کے مموں منہ میں ڈال کر چوسنا شروع کر دیا
اور نیچے اپنا پورا لنڈ دوبارہ اس کے اندر باہر کرنے لگا۔ سحرش ہر جھٹکے پر ہلکا سا آآہ کرتی... اب اس کے کنٹ
میں سے لگاتار پچک پچک کچک کی آوازیں آ رہی تھیں... میں کبھی اس کا لیفٹ بوب چوستا
اور کبھی رائٹ اور پھر اسی طرح چومتے ہوئے اس کی گردن تک پہنچتا اور پھر اس کے
ہونٹوں تک اور اپنی زبان اس کے منہ میں ڈالتا...میں نے سحرش کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے اور ان کو اس
کے سر کے اوپر کی طرف لے گیا... سحرش کی
ٹانگیں ابھی بھی میرے بازوؤں کے اندر تھیں اور تقریباً اس کے گھٹنے اس کی چیسٹ کو
ٹچ کر رہے تھے، میں اوپر اٹھا اور میں نے اس کے پاؤں کو ٹخنوں کے قریب سے پکڑ لیا
اور پیچھے کو دھکیلتے ہوئے اس کے پاؤں اس کے کانوں کے پاس لے گیا... سحرش نیم بیہوشی کے عالم میں تھی اور اب وہ کوئی
زیادہ ہل جل بھی نہیں رہی تھی تب میں نے سیریس چدائی شروع کر دی اور ہر بار اپنا
لنڈ پورا باہر نکالتا یہاں تک کہ ٹوپا بھی پاپ کی آواز سے باہر آ جاتا اور پھر
شراپ کی آواز آتی جب میں دوبارہ اندر کو کرتا... یہ جھٹکے شاید سحرش سے برداشت نہیں ہوئے اور اس نے دھیرے دھیرے سر
کو جھٹکنا شروع کر دیا کبھی لیفٹ تو کبھی رائٹ اور ساتھ ساتھ ہلکا ہلکا آہ اوہ بھی
کرنے لگی لیکن آنکھیں اس نے ابھی بھی زور سے بند کی ہوئی تھیں... پسینے سے میرا
جسم شرابور ہو رہا تھا... میں نے بھی اپنی شرٹ اتار لی اور اسے سحرش کے سر کے نیچے رکھ دیا... میری نیکر پہلے ہی
میرے گھٹنوں میں پہنچ چکی تھی... سحرش کی
پونی ٹیل کھل چکی تھی اور اب اس کے بال زمین پر بکھر گئے تھے اور کچھ تو اس کے
چہرے پر چپک گئے تھے پسینے سے... میں نے جب اپنی شرٹ اتارنے کے لیے سحرش کے پاؤں چھوڑے تو وہ واپس میرے کندھوں پر آ
گئے... میں سیدھا ہو کر سحرش کو چودنے لگا...
اندر
باہر، اندر باہر، اندررر باہر، اندر باہر اور اس کی چوت سے آوازیں پچک پچک اور بلبلے
بن رہے تھے۔ میں نے اس کی ٹانگوں پر اپنے دانتوں سے کاٹنا شروع کر دیا۔ میں اس کی دونوں
ٹانگوں پر اس کی رانوں تک کاٹنے لگا اور اب اس کی سفید رانوں پر صاف صاف میرے کاٹنے
کے نشان تھے، بہت سارے۔ اور میں نے دیوانگی میں اس کے پیٹ پر بھی کاٹنے کے نشان بنانا
شروع کر دیے اور اس کے مموں پر بھی۔ ساتھ ساتھ میں بہت زوردار طریقے سے سحرش کے اندر
جاتا، جب تک کہ میں پورا اندر نہ ہوتا، زور لگاتا۔ بلکہ کئی دفعہ تو میں نے پورا اندر
ہونے کے باوجود اپنے لنڈ کو اپنے گھٹنوں کو زمین پر دبا کر زور لگایا، جیسے میں سارا
سحرش کے اندر جانا چاہتا ہوں۔ اس طرح کرنے پر سحرش کا سر تیزی سے دونوں طرف جاتا تھا
اور وہ سیئییی کر کے رہ جاتی۔ مجھے بہت زیادہ مزہ آ رہا تھا۔ میں نے دوبارہ سحرش کے
پاؤں پکڑ کر اس کے کانوں تک پہنچا دیے اور اسے دوبارہ ایسی پوزیشن میں لایا کہ زیادہ
سے زیادہ لنڈ میں اس کے اندر کر سکوں اور بہت زوردار جھٹکے سحرش کو مارنے لگا، اتنے
زوردار کہ وہ زمین پر پیچھے کی طرف رگڑ کھانے لگی۔ تو مجھے خیال آیا کہ اس طرح تو اس
کی کمر چھل جائے گی۔ میں نے اس کے پاؤں چھوڑ دیے اور پیچھے ہو کر اپنے گھٹنوں کے بل
بیٹھ گیا۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھ سحرش کے کولہوں کے نیچے رکھے اور انہیں اوپر کی طرف
اٹھا کر اپنی طرف کھینچا، جس سے میرا پورا لنڈ اس کے اندر چلا گیا اور اب وہ میرے گھٹنوں
پر لیٹی تھی لیکن اس کا سر ابھی بھی زمین پر تھا اور اس کے جسم میں موڑ کی وجہ سے اس
کے ممے اوپر کی طرف نکلے ہوئے تھے۔ اس کے پیٹ اور سینے پر میرے کاٹنے کے نشان صاف نظر
آ رہے تھے۔ وہ بہت نازک ڈالی کی طرح میری بانہوں میں تھی۔ میں نے آگے جھک کر دونوں
بازو اس کے پیچھے لے جا کر اسے اپنے سینے سے دبا لیا۔ میرا منہ اس کے مموں کے پاس تھا۔
پسینے سے ہم دونوں کے جسم ایک دوسرے کے ساتھ پھسل رہے تھے۔ میں نے سحرش کا بایاں ممہ
پورا منہ میں ڈال لیا اور اسے چوستے ہوئے اپنی طرف کھینچنا شروع کیا۔ نیچے بازوؤں سے
بھی میں نے سحرش کو اوپر اٹھانا شروع کیا اور جب میں سیدھا ہو کر بیٹھا تو سحرش دوبارہ
میرے لنڈ پر بیٹھی تھی اور پورا لنڈ اس کے اندر تھا۔ اس نے اپنا منہ میرے کندھوں پر
رکھ دیا اور میری گردن پر بوسہ دینے لگی۔
سحرش:
(نڈھال آواز میں میرے کان میں آآآہ کرتی جب میں ہلکے سے اندر کی طرف دباتا اپنے لنڈ
کو) آآہ، بسسس آآآآآآآہ بس کرو نا آآہ اویئیی
میں:
ایک دفعہ تم اور فارغ ہو جاؤ تو پھر بس کروں گا۔
سحرش:
مجھ میں اب ہمت نہیں... پتا نہیں میں چل بھی سکوں آآآہ چل آآآآآآآہ بھی چل اویئیی سکوں
گی کہ نہیں۔
میں:
تم بہت ٹائٹ تھیں۔
سحرش:
اب تو نہیں ہوں نا ٹائٹ آآآآآآآہ آآہ اب تو اچھے طریقے سے تم نے کھول دیا ہے آآآآئییی
کھول دیا آآہ ہے مجھ کو بس کرو نا پلیز۔
میں:
ایک دفعہ تم کو فارغ کر لوں اور پھر بس۔ (ساتھ ہی میں نے سحرش کو اوپر اٹھایا اور لنڈ
پیچھے کھینچا اور پھر زور سے اندر کیا۔)
سحرش:
آآآآآآآہ! ایک گھنٹے سے اوپر آآآآہ آآہ آئییی آآآآہ (جب سحرش باتیں کرتی تو مجھے بہت
مزہ آتا اور میں زور سے جھٹکے مارتا جس سے اس کا جملہ آآہ آئیی اویئی کے ساتھ ادا ہوتا
تھا) آآآآآآآہ آآہ کب سے آآہ کب سے تم آآہ تم میرے اندر گئے ہو آآآآآآآہ۔
میں
گھٹنوں کے بل کھڑا ہو گیا اور سحرش کے کولہوں کے نیچے ہاتھ رکھ لیے۔ اس نے بھی اپنی
ٹانگیں میرے ارد گرد لپیٹ لیں اور اپنے بازو میری گردن کے ارد گرد لپیٹ لیے اور سر
میرے کندھوں پر رکھ لیا۔ وہ بہت ہلکی پھلکی تھی۔ میں اسے گڑیا کی طرح اپنے لنڈ پر اوپر
نیچے کرنے لگا۔ اب میں پوری سپیڈ سے اسے چودنے لگا۔ اس نے گردن پیچھے کو لڑکا لی۔ اس
کے ممے اچھل رہے تھے میری ہر زوردار جھٹکے کی وجہ سے۔ سحرش کا پورا بدن جیسے اکڑ گیا
اچانک اور بہت تڑپنے اور درد کے احساس کے بعد آخر وہ چوتھی بار فارغ ہو گئی لیکن اس
بار اس کا پانی بہت کم تھا۔ اب میں نے فیصلہ کیا کہ سحرش کو ڈرائی کرنا چاہیے۔ یہ تکنیک
میں نے کیری سے سیکھی تھی کہ جب سمجھو لڑکی آخری دفعہ فارغ ہو گئی ہے تو اسے سیدھا
لٹا کر اس کی ٹانگیں پوری وی میں کھول دو جتنا کھل سکیں اور پھر اس کے اندر پورا لنڈ
ڈالو اور پھر باہر پورا نکال لو اور کسی کپڑے سے اسے صاف کرو اور دوبارہ اندر دھکا
لگاؤ اور پھر صاف کرو۔ میں نے بھی سحرش کو واپس لٹایا اور اس کے پاؤں سے پکڑ کر اس
کی ٹانگیں وی شیپ میں بہت زیادہ کھول دیں اور پھر خوب زور سے تین یا چار دفعہ اس کے
اندر باہر لنڈ کو کیا اور پھر ایک پاپ کے ساتھ اپنے لنڈ کو باہر نکالا اور سحرش کی
نیکر سے ہی اسے صاف کیا۔ سفید نیکر پر صاف لال رنگ خون کا دیکھ کر میں پریشان ہو گیا۔
میں:
سحرش! سحرش تم ٹھیک تو ہو ناں؟ (میں نے ہلکے ہلکے تھپڑ اس کے منہ پر مارے۔)
سحرش:
ٹھیک کیا، تم نے تو میرا کام کر دیا ہے آج، تم نے پھاڑ دیا ہے مجھ کو۔ ہائے میری چوت
بیچاری۔
میں:
سحرش، کیا یہ تمہارا پہلا ٹائم تھا؟
سحرش:
ہاں یہ میرا پہلا اور آخری ٹائم تھا۔
میں
اس کی بات سن کر مسکرانے لگا اور میرا ڈر بھی چلا گیا۔ یہ خون اصل میں اس لڑکی کی چوت
پہلی دفعہ پھٹنے کی وجہ سے تھا۔ اب مجھے سمجھ آیا کہ جب میں نے پہلی دفعہ سحرش کے اندر
لنڈ ڈالا تو وہ کیوں پھنس پھنس کے جا رہا تھا۔
میں:
میں ابھی تمہارے ساتھ فارغ نہیں ہوا۔ (اور ساتھ ہی میں نے اس کے پاؤں پکڑے اور کانوں
تک لے گیا اور اپنا لنڈ اس کی چوت میں پش کیا۔ وہ کافی ڈرائی ہو چکی تھی جس کی وجہ
سے اب اسے درد ہو رہا تھا۔ میں تو جیسے پاگل ہو رہا تھا اور اب تو مجھے اور مزہ آ رہا
تھا یہ سوچ کر کہ اس لڑکی کو میں نے پہلی دفعہ چودا۔) تم اب میری ہو سحرش۔ (ساتھ ہی
میں نے ایک جھٹکا لگایا اور پورا نو انچ لنڈ سحرش کے اندر کر دیا۔)
سحرش:
آآآآآآآہ اوووووووہ آئیی ہاں ہاں میں اب بالکل تمہاری ہوں آآہ آآآآہ لیکن نکالو اسے۔
میں:
کسے؟
سحرش:
آآآآآآآآہ آآآآآآآہ آآآآآآآہ اویئیی لن لن آآآآہ لنڈ کو۔
میں:
اچھا یہ لو۔ (میں نے تقریباً لنڈ باہر نکالا اور پھر زوردار جھٹکے سے اندر کر دیا۔)
جب
سے سحرش نے مجھے بتایا کہ یہ اس کی پہلی چدائی تھی، میرا لنڈ تو جیسے ڈبل سائز کا ہو
گیا ہو اور اب مجھ سے برداشت بھی نہیں ہو رہا تھا کہ اتنی خوبصورت لڑکی کو میں نے آج
کتنی تسلی سے چود لیا ہے۔ میں نے دوبارہ فیصلہ کیا کہ ایک دفعہ تو سحرش کی چوت ڈرائی
کرنی چاہیے۔ اور پھر میں نے دوبارہ سحرش کی ٹانگوں کو وی بنایا۔ اب میں ہر دفعہ لنڈ
باہر نکالتا، اسے سحرش کی نیکر سے صاف کرتا اور پھر اندر۔ وہ تڑپ جاتی اور آآہ آآآآہ
کرتی۔ میں نے کوئی 20 دفعہ یہ عمل دہرایا تو اس کی چوت اندر سے مکمل خشک ہو گئی۔ تب
میں نے اس کی ٹانگیں اپنے بازو کے اندر لے لیں اور اس پر لیٹ گیا اور ہلکے ہلکے اندر
اپنا لنڈ کرنے لگا۔ وہ بہت زور زور سے سانسیں لے رہی تھی تو میں نے اپنے ہونٹ اس کے
ہونٹوں پر رکھ دیے اور ایک جھٹکا لگایا اور میرا پورا لنڈ اس کے اندر چلا گیا۔ میں
ہلکے ہلکے جھٹکے اسے لگانے لگا اور اب مجھے ایسا لگا کہ میں بھی فارغ ہونے والا ہوں
اور میرے خیال میں سحرش نے بھی بھانپ لیا کہ میرا لنڈ موٹا ہو رہا تھا اور میرا سفید
پانی میرے جسم سے سارا کرنٹ لے کر سحرش کی چوت کی طرف روانہ ہوا۔ مجھے ایسا لگ رہا
تھا کہ میری ساری جان نکل کر میرے لنڈ کے ذریعے سحرش میں جانے والی ہے۔ میں نے سحرش
کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ہٹا لیے اور میرا ناک اس کے ناک سے ٹکرا رہا تھا اور ہم دونوں
ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے۔ سحرش جانتی تھی کہ اسے میں نے لڑکی سے عورت
بنا دیا ہے، کلی سے پھول بنا دیا ہے اور بند سے کھول دیا ہے۔ اس کی آنکھوں میں ایک
چمک سی تھی۔
میں:
کیا تم میرے لیے تیار ہو سحرش؟
سحرش:
ہاں میں اپنے برتھ ڈے کے تحفے کے لیے تیار ہوں... اٹھارویں برتھ ڈے کا تحفہ تم سے۔
پہلی
کنواری اور اب 18 سال عمر سن کر مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے پورا زور لگا کر لنڈ
سحرش کے اندر دبایا اور ساتھ ہی جیسے کسی نے نلکا کھول دیا ہو، میرا لنڈ سحرش کے اندر
بہنے لگا۔ میرے لنڈ سے نکلنے والے جوس کے فوارے اتنے زوردار تھے کہ ہر دفعہ جب میرا
لنڈ پچکاری پھینکتا تھا، سحرش ہلکے سے پیچھے کو جاتی۔ اس کی آنکھوں میں مجھے کریمی
لک نظر آنے لگی۔ میں کوئی تین منٹ تک فارغ ہوتا رہا اور پھر میں بھی پسینے میں شرابور
سحرش پر گر گیا۔ میرا لنڈ ابھی بھی ڈھیلا نہیں پڑ رہا تھا، اسے اتنی مستی چڑھی تھی۔
سحرش:
(کچھ دیر خاموش رہی) آآہ شنہ ہٹو اب نکالو اسے۔
میں:
کسے؟ (ساتھ ہی میں نے ابھی بھی کھڑے لنڈ کو سحرش کے اندر اوپر نیچے گھمایا۔)
سحرش:
آآآآآآآہ بسسس نو مور اویئیی لنڈ کو اپنے لنڈ کو باہر نکالو۔
میں
نے اپنا سر اوپر اٹھایا اور سحرش کی آنکھوں میں دیکھا جو اب دوبارہ بند تھیں۔ اس کی
ٹانگیں ابھی بھی میرے بازوؤں میں تھیں۔ میں نے اپنا لنڈ باہر نکالنا شروع کیا تو سحرش
جیسے درد سے تڑپنے لگی۔ میں نے بھی آدھا لنڈ باہر نکالا اور پھر اندر دھکیل دیا۔ جب
میں نے دوبارہ اندر کیا تو سحرش کی آنکھیں کھل گئیں۔
سحرش:
نہیں دوبارہ نہیں پلیز میں مر جاؤں گی۔
میں:
(اب دوبارہ سحرش کو چودنے کے لیے تیار تھا) یہ چدائی تو تمہارا سترہویں برتھ ڈے کا
تحفہ تھا اور اب جو میں چودا تم کو لگانے لگا ہوں یہ میرے لیے ہے۔ (اور ساتھ ہی میں
نے ایک بار پھر اپنا لنڈ باہر نکالا اور اندر دبایا۔)
سحرش:
نہہہہہ آآآآآآآہ آآہ بس مجھے نہیں چاہیے آآہ اور لنڈ آآآآآآآآہ۔
میں
نے تو بس اپنے لنڈ کو زور زور سے اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔ سحرش میرے نیچے تڑپ رہی
تھی اور نیچے میرا لنڈ پچھلے 90 منٹ سے سحرش کی چوت کھولنے میں مصروف تھا۔ اب مجھ میں
جیسے کوئی جانور گھس گیا ہو اور میں نے سحرش کے درد کی پرواہ کیے بغیر اسے خوب چودنا
شروع کر دیا۔ پتا نہیں میرا اپنا پانی جو سحرش کے اندر تھا وہ یا اب دوبارہ وہ فارغ
ہو رہی تھی، اس کی وجہ تھی کہ میرا لنڈ اب بآسانی سحرش کے اندر باہر ہو رہا تھا۔ سحرش
نے اپنا ایک ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لیا تاکہ آواز نہ نکل جائے۔ فضا میں اونچی آواز میں
سحرش کی چوت سے اٹھنے والی آوازیں آ رہی تھیں پچک پچک پچک پچک۔ میں بھی دیوانہ وار
اپنا لنڈ سحرش کے اندر باہر کر رہا تھا۔ سحرش کا پورا بدن جیسے میرے بازو میں جکڑا
ہوا تھا، اس وقت اس کے ممے اوپر نیچے اچھل رہے تھے۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے اس
کے مموں کو چوسنا بھی شروع کر دیا۔ میں اس کا پورا ممہ اپنے منہ میں لیتا اور پھر دھیرے
دھیرے اپنا منہ اوپر اٹھاتا اور ساتھ اس کے ممے کو بھی اوپر کی طرف سَک کرتا جس سے
سحرش اپنا سینہ تھوڑا اوپر لاتی یہاں تک کہ ایک پاپ کے ساتھ وہ میرے منہ سے نکل جاتا
اور پھر میں یہی عمل اس کے دوسرے ممے پر کرتا۔ سحرش کے جسم پر اب نشان ہی نشان تھے،
اس کے ممے بھی لال ہو گئے تھے۔ کوئی 15 منٹ تک میں سحرش کو اسی طرح بھرپور طریقے سے
چودتا رہا اور پھر میرا لنڈ موٹا ہونے لگا اور دوسری دفعہ فارغ ہونے کو تیار ہو گیا۔
میں نے سحرش کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لیے اور زوردار جھٹکا مارا تو اس کی آنکھیں کھل
گئیں اور وہ بھی بری طرح مچلنے لگی۔ میں نے لنڈ باہر نکالا اور پھر زور کا جھٹکا مار
کر سحرش کے اندر کیا، وہ پانچویں یا چھٹی بار فارغ ہونے لگی اور ساتھ ہی میرے لنڈ نے
بھی اپنا گرم گرم پانی سحرش کے جسم کے اندر بہت اندر نکلنا شروع کر دیا۔ ہم دونوں اکٹھے
فارغ ہوئے اور پھر میں بھی نڈھال ہو کر سحرش پر گر پڑا۔ اب میرا لنڈ آہستہ آہستہ ڈھیلا
پڑنے لگا۔ میں اور سحرش ہونٹوں سے ہونٹ مل کر بوسہ لینے لگ گئے۔ میرا لنڈ ڈھیلا ہوتے
ہوتے چھوٹا ہو گیا اور ایک دھکے سے سحرش کی پھٹی ہوئی چوت نے میرا ڈھیلا ڈھلا لنڈ باہر
دھکیل دیا اور ساتھ آواز آئی پھٹ... پاپ!
میں
نے سحرش کے ماتھے پر بوسہ کیا اور اس کے سائیڈ پر لیٹ گیا۔ تب مجھ کو نیچے زمین پر
سخت فرش کا احساس ہوا اور میں نے ہلکے سے سحرش کو دھکا دیا تاکہ میں اس کی کمر دیکھ
سکوں۔ میں نے دیکھا کہ اس کی خوبصورت پیٹھ کافی جگہوں سے ہلکی ہلکی زخمی ہو گئی تھی۔
اب میں نے غور سے سحرش کی طرف دیکھا تو وہ نیم بے ہوش تھی اور اس کی ٹانگیں زمین پر
کھلی ہوئی پڑی تھیں۔ میں نے اٹھ کر سحرش کی چوت کو دیکھا تو اس میں سے لگاتار پانی
بہہ رہا تھا اور اب وہ پوری طرح بند نہیں تھی، بلکہ بہت کھل گئی تھی۔ میں نے اسی کی
نیکر سے اس کی چوت کو صاف کرنا شروع کر دیا۔ سحرش کی چوت کے نیچے زمین پر بہت بڑا ایک
گیلی پن کا دھبہ بن گیا تھا، جیسے شاید سحرش کا پیشاب نکل گیا ہو لیکن اصل میں وہ اس
کے چوت کے جوسز تھے۔
میں:
سحرش! اٹھو۔
سحرش:
اٹھو، مجھ سے ہلا نہیں جا رہا، تم کہتے ہو اٹھو۔
میں:
میں معذرت کرتا ہوں اگر میں نے تمہیں تکلیف دی۔
سحرش:
(اس نے آنکھیں کھولیں اور میری طرف دیکھا) کوئی شک نہیں تم نے مجھے بری طرح تکلیف دی
لیکن پھر میں نے ہی تو یہ مانگا تھا، نہیں؟
میں:
(سحرش کی چوت کو اپنے ہاتھ سے آہستہ آہستہ سہلانے لگا اور پھر میں نے آگے بڑھ کر اس
پر ایک بوسہ کیا) سوری!
سحرش:
(اب کافی حد تک ہوش میں آ گئی تھی) سوری کے بچے، پہلے اتنی طاقت سے مجھے چودا اور اب
سوری کرتے ہو، سگریٹ پلاؤ۔
میں:
تم واقعی پاگل ہو۔ (میں نے ادھر ادھر دیکھا کہ سگریٹس کا پیکٹ پتا نہیں کب میرے نیکر
کی جیب سے نکل کر سائیڈ پر گر گیا تھا۔ میں نے دو سگریٹ جلائی، ایک سحرش کو دی اور
دوسری خود لگا لی۔) سحرش، سچ بتاؤ مزہ آیا کہ نہیں؟
سحرش:
(اس نے لیٹے لیٹے سگریٹ کا کش لگایا اور دھواں باہر نکال دیا) درد بھی بہت ہوا لیکن
عجیب بات ہے درد میں مزہ بھی تھا۔ اب ایسے لگتا ہے جیسے میرے اندر کچھ ہونا چاہیے جو
نہیں ہے۔
میں:
(میں نے بڑھ کر سحرش کے ہونٹوں پر بوسہ کیا) تمہارے اندر اب مجھ کو ہونا چاہیے۔
سحرش:
(مسکرانے لگی) تمہارے صرف گلے میں ڈھول نہیں بلکہ تمہارا اصل ڈھول تو نیچے تمہاری ٹانگوں
میں ہے۔
رات
کافی بیت چکی تھی۔ دور سے مرغے کی آواز آئی۔
میں:
اٹھو، میں تم کو نہلا دیتا ہوں۔ (میں اٹھ کر اپنے پیروں پر بیٹھ گیا اور سگریٹ کا آخری
کش لگا کر پھینک دیا۔)
سحرش
نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن شاید اس میں طاقت نہیں تھی۔ میں نے بڑھ کر سحرش کو اپنی بانہوں
میں اٹھا لیا۔ وہ بہت ہلکی تھی اور اب تو وہ ویسے بھی مجھے اپنے ہی جسم کا ایک حصہ
محسوس ہونے لگی تھی۔ میں اسے اٹھا کر پانی کے ٹینک کی طرف بڑھنے لگا تو میری نیکر میرے
پاؤں میں پھنسنے لگی۔ میں نے نیکر کو اپنے پاؤں سے نکال دیا اور آگے کو بڑھنے لگا اور
ساتھ ہی ایک گرم گرم بوسہ سحرش کے ہونٹوں پر دیا۔ اس نے سگریٹ پھینک دی۔ پانی کے ٹینک
کے پاس لا کر میں نے سحرش کو نلکے کے نیچے بٹھا دیا اور اوپر سے نل کھول دیا۔ میں نے
خوب اچھے طریقے سے ہاتھوں سے سحرش کو نہلایا۔ نہانے کے بعد کپڑوں کا مسئلہ آیا اور
وہ سارے کپڑے جو ہم نے پہلے پہن رکھے تھے اب اس قابل نہیں تھے کہ پہنے جا سکیں۔ سحرش
کی ٹی شرٹ میلے ضرور ہو گئے تھے لیکن اس پر داغ کوئی نہیں تھا لیکن اس کی نیکر اب بالکل
پہننے کے قابل نہیں تھی رہی۔ میں نے اس کی شرٹ اچھے طریقے سے جھاڑ دی اور اسے پہنانے
لگا تو اس نے منع کر دیا۔
سحرش:
مجھ سے اٹھا نہیں جا رہا، مجھے اپنی بانہوں میں اٹھا کر میرے کمرے میں چھوڑ کر آؤ۔
میں:
اگر کسی نے پکڑ لیا تو؟ (میں اٹھا اور سحرش کو اپنے بازوؤں میں اٹھا لیا۔)
سحرش:
پکڑ لیا تو کہنا سوری جی، میں ذرا سحرش کو اچھے طریقے سے چودنے لے کر گیا تھا۔ اب چلو،
میرا کمرہ نیچے سب سے پہلے ہے۔
میں
دھڑکتے دل سے سحرش کو اٹھا کر اس کے گھر میں داخل ہوا۔ اندر خاموشی تھی۔ میں سیڑھیاں
نیچے اترنے لگا آہستہ آہستہ۔ پہلی منزل پر آیا تو سحرش نے سامنے والے دروازے کی طرف
اشارہ کیا اور میں ادھر کو بڑھ گیا۔ میں نے دروازہ کھولا اور اندر پڑے بیڈ پر سحرش
کو لٹا دیا اور اس کے ماتھے پر بوسہ کیا اور جانے کے لیے پیچھے مڑا تو اس نے میرا ہاتھ
پکڑ لیا۔
سحرش:
(سرگوشی کرتے ہوئے) الو، کپڑے تو دیتے جاؤ مجھ کو، وہاں الماری میں ہوں گے۔ (میں الماری
کی طرف گیا اور اسے کھولا اور سامنے پڑی اسی قسم کی ایک نیلی ٹی شرٹ اور ایک پاجامہ
لے آیا۔)
میں:
یہ ٹھیک ہیں نا؟ (یہ کہہ کر میں نے اسے پاجامہ پہنایا اور پھر شرٹ۔)
کپڑے
پہنتے پہنتے سحرش نے مجھ سے میرا فون نمبر اور ای میل ٹیبل پر پڑے کسی کاغذ پر لکھنے
کو کہا اور جب میں نے اسے کپڑے پہنا لیے اور ٹیبل کی طرف گیا اور ایک کاغذ نکالا اور
اس پر ای میل لکھا اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو سحرش
سو رہی تھی۔ میں بھی اچانک ڈر گیا اور اپنے لنڈ کو دیکھا اور اپنے ننگے بدن کو محسوس
کیا اور جلدی سے سحرش کے کمرے سے نکلا اور سیڑھیاں چڑھتے ہوئے باہر چھت پر آ گیا۔ میں
نے سب سے پہلے جو سگریٹس کے ٹکڑے سامنے تھے وہ اٹھا کر اپنے پورچ میں پھینکے جہاں سے
صبح سویرے ماسی صاف کر دے گی۔ پھر میں نے اپنے جیسے تیسے کپڑے تھے اٹھائے اور پہن لیے۔
میری نظر سحرش کی نیکر اور شرٹ پر پڑی تو میں وہ بھی اٹھا لیا اور جلدی جلدی سحرش کے
گھر کی چھت سے دوسری پر ہوتا ہوا اپنے گھر آ گیا اور سیڑھیاں اتر کر اپنے کمرے میں
چلا گیا۔ میں نے باتھ روم میں جا کر اپنے کپڑے بھی اتارے اور خوب اچھے طریقے سے شاور
لیا اور پھر تولیے سے خود کو ڈرائی کر لیا اور نئے کپڑے پہن لیے۔ سامنے سحرش کی نیکر
پر خون کے دھبے رات کا قصہ بیان کر رہے تھے۔ میں نے اپنے اور سحرش کے کپڑے شاپنگ بیگ
میں ڈال کر اچھے طریقے سے ٹیپ لگا کر سیل کر دیے اور انہیں اپنے نیوزی لینڈ والے سامان
میں رکھ دیا۔ سحرش کے خواب آنکھوں میں لے کر میں بیڈ پر آ گیا اور اسے یاد کرتے سو
گیا۔
میری
ابھی 10 چھٹیاں باقی تھیں۔ 12 اگست کو میری واپسی کی فلائٹ بک تھی۔ میں نے اور سحرش
نے ان باقی دنوں میں کیا کیا، وہ پھر کسی وقت...