سنجے ایک چھوٹے سے علاقے میں اپنے خاندان کے ساتھ رہتا
تھا۔ اس کے بابو جی، سریندر جی ایک بڑی فیکٹری میں سیکیورٹی افسر تھے۔ بہت ہی
شاندار شخصیت تھی۔ آس پاس کے علاقے میں وہ دھرمیندر کے نام سے جانے جاتے تھے۔
سریندر جی کا کئی دوسری عورتوں سے چدائی کا رشتہ تھا۔
لیکن ان کی بیوی رمبھا نے انہیں کسی کو چودنے سے کبھی نہیں روکا۔ اس نے شوہر سے اس
بارے میں کوئی شکایت بھی نہیں کی۔ شادی کے 8 سال کے اندر ہی اس نے 3 بیٹوں کو جنم
دیا۔
ماہواری کے دنوں کو چھوڑ کر وہ ہر رات شوہر سے چدواتی
تھی۔ چھٹیوں کے دنوں میں دوپہر میں بھی رمبھا چدوانے سے باز نہیں آتی تھی۔
سنجے کے بابو جی کی شخصیت دھرمیندر جیسی تھی۔ لیکن اس
کی ماں رمبھا دیکھنے میں بہت ہی سادہ تھی۔ گھر میں جب کوئی باہر کا آدمی نہیں
رہتا، تو چاہے گرمی کا موسم ہو یا سردی، رمبھا ہمیشہ پیٹیکوٹ اور بلاؤز پہن کر ہی
رہتی تھی۔
پینٹی تو اس نے کبھی چھوئی بھی نہیں اور برا بھی بہت ہی
کم پہنتی تھی۔ جب بھی گھر کے باہر جاتی تھی تو ڈھیلی ساڑی اور بلاؤز پہنتی تھی۔ اس
کے خوبصورت، کمسن اور مست بدن پر کسی کی نظر جاتی ہی نہیں تھی۔ تین بچے پیدا کرنے
کے بعد بھی رمبھا کسی بھی جوان لڑکی کو مات دے سکتی تھی۔
رمبھا 5 فٹ 5 انچ لمبی بدن کی مالکن تھی۔ گلابی گورا
رنگ، لمبے گھنے بال، گول چہرہ، 34 انچ کی مست، گداز اور منسل چھاتیاں۔ تین بچے
پیدا کرنے کے بعد بھی پیٹ بالکل ہموار تھا۔ بچے پیدا ہونے کا نشان تھا۔
پھر بھی 26 انچ کی کمر بہت ہی خوبصورت اور مدھر تھی۔
سڈول رانیں لمبی تھیں اور خوبصورت رانوں کے بیچ تھا پیارا سا تکونا۔ ہر 7۔۔8 دن پر
جھانت کو چھوٹا کرتی تھی۔ اس نے چوت کو پورا چکنا کبھی نہیں کیا تھا۔
لیکن وہ اپنی جھانٹ کو اتنا چھوٹا رکھتی تھی کہ چوت صاف
صاف دکھتا تھا۔ روزانہ نہانے کے بعد چوت پر کسی خوشبودار تیل سے مالش بھی کرتی
تھی۔ اس کا بدن بہت ہی دلکش تھا۔ لیکن اس کے سادہ چہرے کی وجہ سے کوئی بھی مرد اس
سے دوستی نہیں کرتا تھا۔
ایک طرف اپنی اچھی شخصیت اور اچھی چدائی کرنے کی وجہ سے
سریندر علاقے میں بہت مقبول تھا۔ وہی رمبھا کے ساتھ لیسبین مستی کرنے والی جوان
لڑکیوں کی لائن لگی رہتی تھی۔
کئی لڑکیوں نے کھل کر کہا کہ وہ سنجے یا سریندر کے ساتھ
چدوانا چاہتی ہیں۔ لیکن رمبھا نے اپنی کسی بھی لیسبین پارٹنر کو اپنے شوہر یا بیٹے
سے نہیں ملوایا۔ اگر کسی عورت یا لڑکی نے خود سریندر کو پتا کر چدوا لیا ہو تو
رمبھا کو معلوم نہیں تھا۔
معلوم بھی ہوتا تو اسے کوئی پریشانی نہیں تھی۔ شادی کے
بعد کے 20 سالوں میں رمبھا نے سیکڑوں لڑکیوں کو جوانی کا سبق پڑھایا تھا۔ گھر میں
شوہر ہو یا بیٹا، رمبھا سے جوانی کا سبق لینے روزانہ لڑکیاں آتی ہی تھیں۔
سریندر نے اسی فیکٹری میں نوکری شروع کی اس نے بھی بہت
عورتوں کو چودا تھا، چود رہا تھا۔ رمبھا نے کبھی گھر میں کوئی ماسی یا نوکر نہیں
رکھا۔ سارا کام خود ہی کرتی تھی۔ کچھ لیسبین پارٹنر تھیں جو رمبھا سے چدوانے کے
ساتھ ساتھ گھر کا سارا کام بھی کر دیتی تھیں۔
ایسے ہی وقت گزرتا گیا۔ سنجے ہائی سکول کی بورڈ امتحان
دینے کے بعد چھٹیوں کا بھرپور مزہ لے رہا تھا۔ اپریل کا مہینہ تھا۔ صبح کے 10 بج
رہے تھے۔ صبح صبح 2 لڑکیاں جوانی کا مزہ لے کر چلی گئیں۔
لیسبین مستی کرتے وقت رمبھا دروازہ اور کھڑکی کو اچھی
طرح بند کر دیتی تھی۔ اس دن لڑکیوں کے جانے کے بعد رمبھا ایک پیٹیکوٹ کو چھاتیوں
پر باندھے ہوئے سنجے کے سامنے بستر پر بیٹھ گئی۔
سنجے بھی بستر پر آرام لے کر کوئی رسالہ پڑھ رہا تھا۔
رمبھا ۔۔بیٹا، دیکھ رہی ہوں کہ آج کل تم رات رات بھر
جاگتے رہتے ہو!نغمہ سے کچھ جھگڑا ہو گیا
ہے کیا؟
نغمہ اس کی گرل فرینڈ تھی۔ لیکن تب تک سنجے نےنغمہ کو چودا نہیں تھا۔
ماں کی بات سن کر سنجے گھبرا گیا۔ وہ سمجھ گیا کہ اس کی
چوری پکڑی گئی ہے۔ پچھلی 5 راتوں سے مسلسل وہ اپنے ماں باپ کی پوری چدائی دیکھ رہا
تھا۔ ہر رات 2۔۔3 گھنٹے کھڑا ہو کر چدائی دیکھتا تھا۔
کوئی بھی پوچھتا تو سنجے بتا سکتا تھا اس کی ماں کے جسم
پر کتنے تِل ہیں،
کہاں کہاں ہیں۔ سنجے نے جھوٹ بولنے کی کوشش کی۔
سنجے ۔۔ نہیں ماں، پپو اور منّا سے پوچھ لو۔ میں پوری
رات اچھی طرح سوتا ہوں۔
رمبھا نے مدھر مسکراہٹ دی۔ اتنا ہی نہیں اس نے گھٹنوں
کو اوپر اٹھایا اور دونوں ٹانگوں کو اپنی طرف کھینچ کر بیٹھ گئی۔ آمنے سامنے بیٹھے
بیٹے کو لمبی خوبصورت ننگی رانیں دکھنے لگیں۔
ان خوبصورت رانوں کے بیچ اسے ماں کی چوت بھی صاف صاف
دکھنے لگی۔ چوت پر بہت ہی چھوٹی جھانٹ تھی۔ سنجے کی نظر چوت پر ہی ٹکی رہ گئی۔
رمبھا ۔۔۔ماں چود، تو اگر رات بھر سوتا ہے پھر کھڑکی پر
کھڑا ہو کر کون ہماری چدائی دیکھتا ہے۔۔ تیرا بھوت! تو کیا سمجھتا ہے کہ ہمیں کچھ
نہیں معلوم۔ بیوقوف، حرامی تجھے یہ بھی سمجھ نہیں آیا کہ پچھلی 2 رات ہم نے لائٹ
آن کر کے چدائی کیوں کی؟
رمبھا ۔۔ میں نے دیکھ لیا تھا کہ میرا بڑا بیٹا ماں کی
چدائی دیکھ کر مُٹھ مار رہا ہے۔ میرا ہر مال تجھے اچھی طرح دکھے اس لیے پچھلی 2
رات صرف تجھے دکھانے کے لیے ہی میں لائٹ آن کر ننگی رہی، تیرے باپ سے چدوايا۔
رمبھا ۔۔ کتے کا پِلّا، تیرے باپ نے تیرے سبھی دوستوں
کی ماں کو چودا ہے۔ انہیں چود رہا ہے اور تو اپنی ماں کو ہی چودنا چاہتا ہے۔ چودے
گا اپنی ماں کو، چودے گا مجھے؟ لے دیکھ تیری ماں کیسی ہے۔
اور رمبھا نے بیٹھے بیٹھے ہی پیٹیکوٹ کھولا اور اسے
سنجے کے اوپر پھینکا۔ اس نے گھٹنوں کو ایک دوسرے سے جتنا دور کر سکتی تھی کر دیا۔
رمبھا نے گھٹنوں کو اتنا پھیلایا کہ چوت کی پنکھ بھی کھل گئی۔
رمبھا ۔۔ تو یہی دیکھنا چاہتا ہے نا؟ لے ٹھیک سے دیکھ
لے۔ تو اور تیرا بھائی اسی چوت سے باہر نکلا ہے۔ تیرا باپ روز چودتا ہے۔ 20 سال
میں ہزاروں بار چدوا کر چوت گھس گئی ہے۔ پھر بھی تو اسی گھسی ہوئی چوت میں گھسنا
چاہتا ہے، تو گھس جا۔
رمبھا ۔۔ کتا، تجھے اتنا بھی ڈر نہیں لگا؟ اگر تیرا باپ
تجھے دیکھ لیتا تو وہ اپنا لمبا اور موٹا لنڈ تیری گانڈ میں گھسیڑ دیتا۔ تم نے
مجھے ننگا دیکھ لیا اب تو اپنے کپڑے اتار۔
دن دہاڑے ماں کو ننگا دیکھ سنجے بہت گھبرا گیا۔ وہ اپنی
جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ رمبھا نے دھیان دیا، پاجامہ کے نیچے اسے کسی طرح کا، تھوڑا
بھی ابھار نہیں دکھا۔
سنجے ۔۔ماں، مجھ سے غلطی ہو گئی۔۔ اب پھر ویسا نہیں
کروں گا۔۔ پلیز کپڑے پہن لو۔۔ میں کان پکڑتا ہوں، پھر کبھی ویسا نہیں کروں گا۔۔
رمبھا ایک ہاتھ سے چھاتیوں کو مسلنے لگی اور دوسرے ہاتھ
کی انگلی سے چوت کی پنکھ کو اور بھی کھول دیا۔
رمبھا ۔۔ بیٹا، اب تو کتنا بھی شریف بننے کی کوشش کرے
گا، تیرے دماغ اور آنکھوں کے سامنے ہر وقت میرا ننگا بدن گھومتا رہے گا۔ اس لیے یہ
شرافت دکھانا بند کر اور اس رنڈی کو اپنا لنڈ دکھا۔۔ جلدی کھول۔۔ دیکھوں تیرے لنڈ
کو اس کُتیا کی چوت پسند آتی ہے کہ نہیں۔
ماں کو ننگا دیکھ کر، ماں کی باتیں سن کر بھی سنجے کو
یقین نہیں ہو رہا تھا کہ اس کی ماں سامنے بالکل ننگی بیٹھی ہے۔ اور اس کا لنڈ
دیکھنا چاہتی ہے۔ پھر بھی وہ بار بار ماں سے کپڑے پہننے کے لیے بولتا رہا۔ رمبھا
کو غصہ آ گیا۔
رمبھا ۔۔ حرامی، جلدی سے مجھے اپنا لنڈ دکھا نہیں تو
ابھی تیرے سامنے تیرے دوست اجے، سنیل اور کشور سے چُدواؤں گی۔ تینوں نے کئی بار
مجھے اپنا اپنا لنڈ دکھایا ہے۔ مجھے تینوں کا لنڈ بہت پسند آ گیا ہے۔ جا تینوں کو
بلا کر لا، آج دن بھر تینوں سے چُدواؤں گی اور تو ہمیں دیکھتے ہوئے مُٹھ مارتے
رہنا۔
رمبھا نے بالکل غلط کہا۔ اپنے شوہر کے علاوہ اس نے تب
تک صرف ایک ہی دوسرے آدمی سے چُدوایا تھا۔ پچھلے کئی سالوں سے اس سے چُدوا رہی
تھی۔ یہ بات اس کے شوہر کو اچھی طرح معلوم تھی اور سنجے بھی جانتا تھا۔
رمبھا نے سنجے کے دوستوں سے چُدوانے کی بات کہی تو سنجے
بھی ننگا ہو گیا۔ لیکن اس کا لنڈ ڈھیلا ہی تھا۔ پھر بھی اپنے بڑے بیٹے کو ننگا
دیکھ رمبھا کا گلا سوکھنے لگا۔
سنجے کے بابو جی کی مردانہ شخصیت پر وہاں کی عورتیں
فِدا تھیں۔ سریندر جی کا لنڈ 7 انچ سے زیادہ لمبا تو تھا ہی اچھا موٹا بھی تھا۔ اس
آدمی میں چُدائی کا بہت دم تھا۔ آرام سے کسی کو بھی 25۔۔30 منٹ چُودتا تھا۔
رمبھا کو اپنے بیٹے سنجے کا ابھرا ہوا چوڑا سینہ، گٹھلا
ران بہت پسند آیا۔ اس نے بیٹے کو پہلے بھی کئی بار ٹاپ لیس۔ صرف انڈروئیر پہنے دیکھا تھا لیکن عورت کی نظر سے پہلی بار ہی
دیکھ رہی تھی۔
لیکن رمبھا یہ دیکھ کر اُداس ہو گئی کہ ماں کو ننگا
دیکھنے کے بعد بھی لنڈ بالکل ڈھیلا تھا۔ پھر بھی 6 انچ سے زیادہ لمبا تو تھا ہی۔
بیٹے کی مردانہ اور سیکسی شخصیت دیکھ کر روزانہ چُدوانے والی عورت بھی بہت چُداسی
ہو گئی۔ اس نے اپنے آپ کو کنٹرول کیا
رمبھا ۔۔ کتنی چوت میں یہ لنڈ پیلا ہے؟ ابھی کس کو چُود
رہا ہے؟
قریب 15 منٹ سے ماں ننگی بیٹھی تھی اور اب خود بھی ننگا
ہو گیا تھا۔ سنجے کی شرم ختم ہو گئی۔۔
سنجے ۔۔ ماں، جب سے یہ لنڈ کھڑا ہونا شروع ہوا ہے تب سے
یہ صرف ایک ہی چوت میں گھسنا چاہتا ہے۔ تمھارے سوا مجھے کوئی اور دکھتی ہی نہیں۔۔
تم نے ٹھیک ہی کہا، ہر وقت تمھارا ننگا خوبصورت بدن میرے آنکھوں کے سامنے گھومتا
رہتا ہے۔ تم سے اچھا اور مست مال اور کوئی ہے ہی نہیں۔ میں صرف تمھاری اس پیاری چوت
میں ہی اپنا لنڈ گھُسانا چاہتا ہوں۔۔ ماں، مجھے چُودنے دو۔
بولتے ہوئے سنجے لنڈ کو مُٹھ مارنے لگا۔ رمبھا کو بیٹے
کی ہمت پسند آئی۔ اس سے اچھا لگا کہ بیٹے نے کھل کر ماں کو چُودنے کی بات کی۔
رمبھا ۔۔ لگتا ہے کہ تم پہلے بھی چھپ چھپ کر ہماری
چُدائی دیکھتے ہو۔ بیوقوف، گھر میں ہر روز 2۔۔3 لڑکیاں آتی ہیں۔۔ تم ان کو جانتے
بھی ہو۔۔ ان کو پتا کر کیوں نہیں چُودتے ہو۔۔ میرے جیسی گھسی ہوئی مال کو چُودنے
میں تجھے کیا مزہ ملے گا؟
سنجے بستر پر ماں کے بغل میں بیٹھ گیا۔ رمبھا کا ایک
ہاتھ اپنے لنڈ پر رکھا اور خود اس کی چوت کو سہلانے لگا۔ ماں بیٹے کے لنڈ کو مُٹھ
مارنے لگی۔
سنجے ۔۔ بہت دنوں سے روی انکل نہیں آئے ہیں۔ وہ جب
پچھلی بار آئے تھے تو ایک دن دوپہر میں مدھو کے بابو جی تیواری انکل گھر آئے۔ وہ
تم سے ملنا چاہتے تھے۔ میں تمہیں بلانے گیا تو دیکھا کہ تم روی انکل کے اوپر بیٹھ
کر ان کے لنڈ پر اپنی چوت کو اُچھال رہی ہو۔
سنجے ۔۔ اُسی دن تجھے پہلی بار ننگا دیکھا تھا۔ تمھیں
ننگا دیکھ کر چُدوّاتے دیکھ کر بہت اچھا لگا تھا۔ لیکن مجھے یہ سمجھ نہیں آیا۔
بابو جی بھی بستر پر ننگے تھے پھر بھی تم دوسرے سے چُدوا رہی تھی۔
سنجے نے اپنا ایک ہاتھ ماں اندر کی اور گھُسایا اور ایک
چھاتی کو دباتے ہوئے اپنی اور جھکایا۔ رمبھا تیزی سے لنڈ کو مُٹھ مارنے لگی۔
رمبھا ۔۔ روی میرا پہلا مرد ہے۔ جب تمھارے بابو جی مجھے
پہلی بار دیکھنے آئے تب ہی میں نے ان سے کہہ دیا تھا کہ میں روی سے بہت پیار کرتی
ہوں۔ ایک سال سے زیادہ سمے سے اس سے چُدوا رہی ہوں۔ میں نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ
مجھے آگے بھی روی سے چُدوانے دیں گے تو ہی میں اس سے شادی کروں گی۔
سنجے اب آرام سے ماں کی چھاتیوں کا مزہ لے رہا تھا۔
سنجے ۔۔ تم نے روی سے ہی شادی کیوں نہیں کی؟
رمبھا ۔۔ وہ لوگ بہت امیر ہیں اور ہم غریب۔ اس کے گھر
والوں نے ہمیں شادی نہیں کرنے دی۔ لیکن تمھارے بابو جی نے میری بات مان لی۔ انہوں
نے کہا کہ یہاں وہ بھی بہتوں کو چُودتے ہیں۔ میں نے ان سے وعدہ کیا کہ میں انہیں
دوسروں کو چُودنے سے کبھی نہیں روکوں گی۔
رمبھا ۔۔ ہماری شادی ہو گئی۔۔ اور یہاں آنے کے 2 مہینے
کے اندر ہی روی آیا اور لگاتار کئی رات دونوں نے مل کر مجھے چُودا۔ تمھارے بابو جی
سے روی اتنا متاثر ہوا کہ وہ تیرے باپ کو اپنے گھر لے گیا۔
رمبھا ۔۔ اس کی گھر کی سبھی عورتوں کو، اپنی ماں، بہن،
بیوی اور دو بھائی کی بیوی کو بھی تیرے باپ سے چُدوايا۔ اور تیرے باپ کے علاوہ میں
نے صرف روی سے ہی چُدوایا ہے اور آج یہ مادرچود مجھے چُودے گا۔۔ واہ بیٹا، تیرا
لنڈ تو بہت ہی اچھا ہے۔
ماں کے ہاتھ میں بیٹے کا لنڈ پورا ٹائٹ ہو گیا تھا۔
رمبھا ۔۔ واہ بیٹا، تیرے باپ کا لنڈ اچھا ہے ہی تبھی وہ
یہاں کی عورتوں کو چُودتا رہتا ہے۔ لیکن لنڈ کے سائز سے عورت کو کوئی فرق نہیں
پڑتا ہے۔ عورت کو چُدائی کا مزہ تبھی آتا ہے جب وہ چُودنے والے کو پسند کرتی ہو۔
مرد اچھی طرح اور زوردار دھکا مارتا ہو اور عورت کے ٹھنڈا ہونے کے بعد ہی اس کا
لنڈ پانی چھوڑے۔
چھاتیوں کو دباتے ہوئے بیٹا چوت میں 2 انگلیاں گھسا کر
اندر باہر کرنے لگا۔
سنجے ۔۔ ماں، تیری چوت بہت ہی رسیلی تو ہے ہی ساتھ ہی
بہت ہی ٹائٹ اور گرم بھی ہے۔ کیا سب کی چوت ایسی ہی ہوتی ہے؟ مجھے بہت ہی اچھا لگ
رہا ہے۔
رمبھا لنڈ کو مسل رہی تھی ساتھ ہی دوسرے ہاتھ سے سپیدا
سے جڑے سکن کو اوپر نیچے کر رہی تھی۔ لیکن سکن تب تک سپیدا سے الگ نہیں ہوا تھا۔
یعنی سنجے نے تب تک کسی بھی چوت میں لنڈ نہیں پیلا تھا۔ رمبھا نے تب تک 2 ہی لنڈ
سے چُدوایا تھا۔
رمبھا ۔۔ بیٹا، مجھے کیسے معلوم پڑے گا کہ مردوں کو چوت
میں کیا مزہ ملتا ہے۔ میں نے سیکڑوں چوت کو انگلیوں سے چُودا ہے، ان کو چُوسا ہے۔
مجھے ہر چوت میں، ہر لڑکی میں الگ الگ مزہ آتا ہے۔
سنجے بہت عرصے سے اپنی ماں سے پوچھنا چاہتا تھا کہ وہ
بند کمرے میں لڑکیوں کے ساتھ کیا کرتی ہے۔ کبھی ہمت نہیں ہوئی تھی۔ لیکن اب ڈرنے
یا شرمانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
سنجے نے ماں کو بستر پر دبایا اور خود اس کے رانوں کے
بیچ پوزیشن بنائی۔ رمبھا مدھر مسکراہٹ دیتے ہوئے بیٹے کو دیکھتی رہی۔ سنجے نے لنڈ
کو پکڑ کر ماں کے چوت کے چھید پر دبایا۔
سنجے ۔۔ ماں، جب سے مجھے ہوش آیا ہے میں نے دیکھا کہ تم
2۔۔3 لڑکیوں کو لے کر کمرے کے اندر بند ہو جاتی ہو۔ کبھی کبھی 3۔۔4 گھنٹے بھی بند
رہتی ہو۔ اندر سے عجیب عجیب آوازیں آتی رہتی ہیں۔ تم نے خود کہا کہ سیکڑوں چوت کو
چُوسا ہے، ان کی چوت کو انگلی سے چُودتی ہو۔۔
سنجے ۔۔ جب تم سب باہر نکلتی ہو تو سب کا چہرہ زیادہ ہی
خوبصورت لگتا ہے۔ کیا کرتی ہو تم لوگ، عورت کیسے کسی دوسری عورت کو چُود سکتی ہے، چوت
چُوس سکتی ہے؟
رمبھا نے لنڈ کو پکڑ لیا۔
رمبھا ۔۔ ہم کیا کرتے ہیں وہ تجھے کبھی دکھا دوں گی۔
بیٹا، مجھے لگ رہا ہے کہ تو مجھے چُودنا چاہتا ہے۔ مجھے چُودنا ہے، میری چوت میں
لنڈ پیلنا ہے تو تجھے میرے شوہر، میرے مالک یعنی تجھے اپنے باپ سے اجازت لینی ہو
گی۔
رمبھا ۔۔ روی نے اپنے گھر کی عورتوں کو چُودنے کا لالچ
دیا تو تیرا باپ اپنے سامنے بھی مجھے روی سے چُدواتا ہے۔ تو اپنے باپ کو کیسے
منائے گا تو ہی سوچ۔
رمبھا ۔۔ لیکن بنا اس کی اجازت کے میں تمہیں چُودنے
یعنی چوت میں لنڈ نہیں پیلنے دوں گی۔ باقی تو جو کرنا چاہتا ہے کر۔ مجھے چُوس،
چاٹ، مجھے لنڈ چُوس لیکن چوت کے اندر لنڈ نہیں جانے دوں گی۔
بیچارہ سنجے بہت اُداس ہو گیا۔ بیٹے کی اُداسی دیکھ کر
ماں کو تھوڑی دَیا آ گئی۔
رمبھا ۔۔ تو میری چھاتیوں کو دبا اور میرے اوپر ایسے ہی
لیٹا رہ۔ دیکھ بنا لنڈ اندر گھُسائے تجھے کتنا مزہ دیتی ہوں۔ تو مجھے چوم، چھاتیوں
کو چُوس مجھے میرا کام کرنے دے۔
رمبھا لنڈ کو پکڑ کر چوت کے سِلٹ پر اوپر سے نیچے، نیچے
سے اوپر کرنے لگی۔ جیسا رمبھا نے کہا تھا سنجے کبھی ماں کے ہونٹ اور گالوں کو
چومتا تھا تو کبھی چھاتیوں کو چُوستا تھا۔ رمبھا مسلسل لنڈ کو چوت کے سِلٹ پر اوپر
نیچے کر رہی تھی۔
جوں جوں وقت گزر رہا تھا چوت کے اوپر لنڈ کو رگڑنے کی
رفتار بڑھتی جا رہی تھی۔ سنجے کو اتنا زیادہ مزہ آنے لگا کہ اس نے چومنا، چُوسنا
چھوڑ دیا اور مستی کی آواز نکالنے لگا۔ رمبھا بھی مستانے لگی۔ اس کی آنکھیں کبھی
کھلتی تو کبھی بند ہوتی تھیں۔
کئی بار لنڈ کو آگے پیچھے کرتے ہوئے وہ چھید میں لنڈ کو
دبا دیتی تھی اور 2۔۔3 منٹ دبائے رکھ پھر اوپر کھینچ لیتی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ اس کا
پورا بدن ہلکورے مار رہا تھا۔ رمبھا نے قریب 20 منٹ لنڈ کو چوت پر رگڑا۔
اس دوران اس نے تین بار لنڈ کو چوت کے اندر دبایا اور
ہر بار 2۔۔3 منٹ دبائے رکھا۔ رمبھا نے اگلے 4۔۔5 منٹ لنڈ کو پوری رفتار سے رگڑا
اور جھٹکے سے لنڈ کو چوت میں دبایا۔
نیچے سے اپنے چُتّڑوں کو اوپر کی اور پوری طاقت سے
اُٹھایا۔ سنجے نے بھی زور سے دھکا مارا اور اس کے بعد لگاتار دھکا مارتا رہا۔
سنجے ۔۔ اُف ماں، بہت مزہ آ رہا ہے۔ کوئی کیسی بھی ہو
تم سے زیادہ مزہ نہیں دے سکتی۔ تو ہی میری پہلی عورت ہے۔ تو ہی میری مال ہے اور تو
ہی میری گھر والی ہے اور تو ہی میری رنڈی ہے۔
رمبھا ۔۔ ماں کا لَوڑا، بات مت کر۔ ایسے ہی پیلتا رہ۔
مجھے بھی بہت مزہ آ رہا ہے، حرامی چُود مجھے مادرچود۔ تیرا لنڈ مجھے اتنا پسند آیا
کہ اس کُتیا نے بیٹے کا لنڈ نگل لیا۔
رمبھا ۔۔ تجھے شاید نہیں معلوم، ہر کُتا سب سے پہلے
اپنی ماں کو ہی چُودتا ہے۔ تو بھی کُتا ہی ہے جو سب سے پہلے اپنی ماں کو ہی چُود
رہا ہے۔
سنجے میں شروع میں جو جوش تھا وہ اب شانت ہو گیا تھا۔
وہ اپنی ماں کے چکنے بدن کو سہلاتے ہوئے دھڑا دھڑ پیل رہا تھا۔ سنجے کا جوش اب
شانت ہو گیا تھا لیکن ہر دھکے کے ساتھ رمبھا کی بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔
سنجے ۔۔ میری پیاری ماں، تو کچھ بھی بول، میں دیکھ رہا
ہوں کہ بیٹے کے ساتھ چُدوانے میں تجھے بہت مزہ آ رہا ہے۔ رنڈی، سچ بول، ان دونوں
کتوں، روی اور سریندر میں سے کس کے ساتھ چُدوانے میں تجھے زیادہ مزہ آتا ہے؟
رمبھا نے جواب نہیں دیا۔ سنجے بھی چپ چاپ دھماکے دار
دھکا مارتا رہا۔ یہ اس کی پہلی چُدائی تھی۔ لیکن پچھلے 5 راتوں سے دیکھ رہا تھا کہ
اس کا باپ کیسے دھکا مارتا ہے، دھکا مارتے ہوئے اور کیا کیا کرتا ہے۔
سنجے بھی ویسا ہی کرتا رہا۔ کچھ دیر بہت تیزی سے تو پھر
کچھ دیر دھیمی رفتار میں ماں کو چُودتا رہا۔ رمبھا نے کہا نہیں لیکن وہ اچھی طرح
سمجھ گئی کہ چُدائی کے معاملے میں سنجے اپنے باپ کا بھی باپ ہے۔
بیٹے کا صرف لنڈ ہی زیادہ لمبا اور موٹا نہیں ہے، اس
لڑکے کا سٹیمنا بھی اس کے دونوں مردوں، یار روی اور شوہر سریندر سے کہیں زیادہ ہے۔
رمبھا پوری مستی سے بیٹے سے چُدوا رہی تھی۔
رمبھا اب دونوں ہاتھوں سے، ٹانگوں سے بیٹے کے بدن کو
سہلانے لگی تھی۔ اس کا چُتّڑ اور کمر بہت تیزی سے تھرکنے لگا تھا۔ سنجے کو نہیں
معلوم پڑا لیکن رمبھا اب جھڑنے والی تھی۔
رمبھا ۔۔ بیٹا، اس میں کوئی شک نہیں، تیرا باپ اچھا
چُودتا ہے تبھی تو یہاں کی رنڈیاں سب اس سے بار بار چُدوانے آتی ہیں۔ اپنے باپ کو
مت بولنا، مجھے روی سے چُدوانے میں ہر بار زیادہ مزہ آتا ہے۔
رمبھا ۔۔ جب دونوں مل کر مجھے چُودتے ہیں تو ایک رات
میں تیرے باپ سے ایک بار اور روی سے تین بار چُدواتی ہوں۔ تیرے لنڈ کے سامنے کیا
روی کا لنڈ تیرے باپ کے لنڈ سے بھی ڈیڑھ انچ چھوٹا ہے لیکن میری چوت اسے بہت پسند
کرتی ہے۔ اب کی بار آئے گا تو تیرے سامنے روی سے چُدواؤں گی۔
سنجے نے بہت زور کا دھکا مارا۔۔
سنجے ۔۔ کتنا لیتی ہے روی سے چُدوانے کا؟
رمبھا ۔۔ 21 سال سے چُود رہا ہے نہ اس نے کبھی ایک بھی
روپیہ دیا نہ ہی میں نے مانگا۔ لیکن تہوار کے سمے میرے لیے ساڑی اور گہنوں کا سیٹ
ضرور لاتا ہے۔ تیرا باپ بھی کسی کو ایک پیسہ بھی نہیں دیتا ہے۔ اُف بیٹا ان دونوں
کتوں کو چھوڑ، میں گئی۔ بیٹا تم نے اس کُتیا کو ٹھنڈا کر دیا۔ مزہ آ گیا بیٹا۔
رمبھا نے دونوں ہاتھوں اور ٹانگوں سے سنجے کو باندھنے
کی کوشش کی لیکن وہ بیٹے کے سامنے بہت کمزور تھی۔ سنجے اور بھی جما جما کر پیلنے
لگا۔ رمبھا تھک بھی گئی تھی۔ لمبی لمبی سانسیں لیتے ہوئے ہانپ رہی تھی۔
رمبھا ۔۔ سچ بولتی ہوں، میں نے سوچا تھا کہ 4۔۔5 منٹ
لنڈ کو چوت سے رگڑونگی تو تو جھڑ جائے گا۔ لیکن تم نے ان دونوں سے زیادہ سمے تک
لنڈ ٹائٹ رکھا ہے۔ بیٹا بہت ہی اچھا چُودا تم نے، لا لنڈ چُوس کر تجھے ٹھنڈا کر
دیتی ہوں۔
سنجے کو بہت اچھا لگا کہ اپنی پہلی چُدائی میں ہی اس نے
ایک بہت ہی چُداسی اور ایکسپرینسڈ عورت کو ٹھنڈا کر دیا۔ لیکن سنجے نہیں تھکا تھا۔
وہ اور بھی تیزی سے ماں کے بدن کو رگڑنے لگا اور پہلے سے زیادہ رفتار سے دھکا
مارنے لگا۔
سنجے ۔۔ میری پیاری ماں، میری کُتیا، تو تو ہزاروں بار چوت
میں لنڈ لے چکی ہے لیکن میرا یہ پہلا موقع ہے۔ بس تھوڑی دیر اور، مجھے چوت میں ہی
رس گرانے دے۔ مجھے تیرے پیٹ میں بچہ ڈالنا ہے، آج کی میری پہلی چُدائی سے تجھے ایک
پیاری سی بیٹی ہو گی۔
سنجے ۔۔ اُف ماں تم نے مجھے دنیا کی ساری خوشی دے دی ہے۔۔
میں تیرا غلام ہوں، جو بھی بولے گی، آنکھ مُوند کر، بنا کسی سوال کے مانوں گا،
مجھے ایک پیاری سی بیٹی دے دے۔
رمبھا – حرامی، ماں کو چُود لیا اب بہن کو بھی چُودے گا!
سنجے ۔۔ رانی، کل کیا ہو گا، تو کس کس سے چُدوائے گی۔
تیری بیٹی کو کون چُودے گا وہ بھگوان ہی جانتا بس، مجھے آج پورا مزہ لینے دے۔
سنجے چھاتیوں اور کسی ہوئی منسل رانوں کو دبا دبا کر
سہلاتے ہوئے چُودتا رہا۔ قریب 25۔۔30 دھکے مارنے کے بعد جھڑنے لگا۔
سنجے ۔۔ اُف ماں، تم نے اپنے غلام کو حد سے زیادہ خوش
کیا ہے، میں تیرا نوکر ہوں، غلام ہوں۔
بیٹے کے گرم رس کی بوندوں نے رمبھا کی ساری گرمی کو
چُوس لیا۔ وہ پوری طرح سے مطمئن ہو گئی۔۔ بیٹے سے چُدوانے کے بعد اسے پہلی بار
محسوس ہوا کہ وہ اندر سے بہت ہلکی ہو گئی ہے۔
اسے لگا کہ وہ ہوا میں اُڑ رہی ہے لیکن اس نے کچھ کہا
نہیں۔۔ 20 سال سے 2۔۔2 اچھے چُودنے والوں سے چُدوا رہی تھی لیکن اسے پہلی بار ہی
چُدائی کے چارم سُکھ کا آنند ملا تھا۔ وہ حد سے زیادہ سیٹسفائیڈ تھی۔
سالوں چُدوانے کے بعد رمبھا کو چُدائی کا چارم سُکھ
پہلی بار ہی ملا۔ وہ بھی اپنے ہی بیٹے کے ساتھ کی پہلی چُدائی میں۔۔ عورت کے روپ
میں اب وہ بار بار سنجے سے چُدوانا چاہتی تھی۔
لیکن ماں کے روپ میں اسے بہت گلٹ فیلنگ ہو رہی تھی۔
روزانہ چُدوانے کے بعد بھی کیوں خود بیٹے کے سامنے ننگی ہو گئی۔۔ 5 رات پہلے اس نے
پہلی بار دیکھا کہ کھڑکی کا گرل پکڑ کر بیٹا اس کی چُدائی دیکھ رہا ہے۔
اسے غصہ نہیں آیا تھا۔ الٹا وہ اور مستی سے چُدوانے لگی
تھی۔ اگلی رات اس نے شوہر سے یہ شکایت نہیں کی کہ پچھلی رات بیٹا ان دونوں کی
چُدائی دیکھ رہا تھا۔ لیکن اس نے بڑے بیٹے کے بارے میں بات کی۔
رمبھا ۔۔ جس بات کا مجھے ڈر تھا وہ ہونے لگا ہے۔ باپ
اتنا بڑا چُدّکڑ ہے، کسی کے بھی چوت میں لنڈ پیل دیتا ہے۔ تو بیٹوں پر بھی تھوڑا
اثر ہو گا ہی۔
سریندر (شوہر) ۔۔ کیوں، کیا ہو گیا؟ سنجے نے تجھے
چُودنے کی کوشش کی ہے؟ چھاتی دبایا ہے؟
رمبھا – نہیں، ابھی تک اس نے ایسی ویسی کوئی حرکت نہیں
کی ہے۔ لیکن اس کی نظر ہمیشہ میری چھاتیوں پر رہتی ہے۔ مجھے گھورتا رہتا ہے۔ اب
سوچتی ہوں کہ دوسری عورتوں کی طرح میں بھی گھر میں پورے کپڑے پہن کر، ساڑی پہن کر
رہوں۔
لیکن سریندر ایک نمبر کا حرامی تھا۔ وہ کئی گھروں میں
ساس بہو، ماں بیٹی، 2 بہنوں کو اگل بغل لٹا کر چُودتا تھا۔ اس نے بیوی کو اور
اکسایا۔
سریندر ۔۔ میں تو اس بات کا انتظار کر رہا ہوں کہ سنجے
بھی میرے جیسا چُدائی کرنے لگے۔ تو میرا بوجھ کچھ کم ہو۔ یہ صاحب کے گھروں کی
عورتوں کو زبردست چُدائی چاہیے۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا بیٹا بھی عورتوں کے بیچ
میرے جیسا نام کمائے۔
سریندر ۔۔تم اپنی کسی لڑکی کو سنجے سے چُدوا کر کیوں
نہیں پتہ لگاتی ہو؟ سنجے عورتوں کو خوش کرنے لائق ہوا ہے کہ نہیں۔ ساڑی پہننے کی
ضرورت نہیں۔ میں تو کہتا ہوں کہ تم جان بوجھ کر اسے اپنی جوانی، اپنا چوت، چھاتی
اور ران دکھاؤ۔ دیکھو وہ کیا کرتا ہے۔
شوہر کی بات سن کر پہلی بار اس کے من میں بیٹے سے
چُدوانے کی چاہت جگی۔ لیکن فیصلہ لینے میں اسے 4 اور رات لگ گئیں۔ پچھلی 2 رات اس
نے روم میں لائٹ آن کر کے چُدائی کی۔ پوری رات ننگی رہی۔
جب اسے یقین ہو گیا کہ سنجے سو گیا ہو گا تو وہ ننگی ہی
اپنے کمرے سے بیٹوں کے کمرے میں آئی۔ اس نے دیکھا کہ ایک بستر پر ایک چادر اوڑھ کر
سنجے اکیلا سو رہا ہے۔ دوسرے بستر پر دونوں چھوٹے بیٹے سو رہے تھے۔
رمبھا نے سنجے کے اوپر سے چادر کھینچا اور ہکی بکی کھڑی
رہ گئی۔ سنجے بالکل ننگا تھا اور لنڈ پرچم کے کھمبے کی طرح سیدھا کھڑا تھا۔ اس کے
منہ سے آپ سے آپ نکل گیا۔
“باپ
رے اتنا موٹا اور لمبا لنڈ! اُف بہت ہی پیارا لنڈ ہے۔ اسے تو چوت کے اندر لینا ہی
پڑے گا۔۔”
رمبھا بستر پر بیٹھ گئی۔ ایک ہاتھ سے چوت کو مسلتی ہوئی
دوسرے ہاتھ سے لنڈ کو سہلانے لگی۔ اس نے پھر اپنے آپ سے کہا، “بیٹا، تیار رہ، کل
تجھے اس کُتیا، اپنی رنڈی ماں کو چُودنا ہے۔”
رمبھا نے 2۔۔3 منٹ سپیدا کو چُوسا اور واپس اپنے کمرے
میں آ کر سو گئی۔ رات میں رمبھا نے اپنے آپ سے جو پراُمیس کیا تھا وہ اس نے پورا
کر لیا۔ بیٹے سے چُدوا لیا۔
لیکن اب اسے پچھتاوا ہو رہا تھا کہ بیٹے سے چُدوا کر اس
نے بہت غلط کیا۔ لیکن چوت کی خُجلی دوبارہ تیز ہو گئی تھی۔ رمبھا اپنے آپ سے باتیں
کرتے ہوئے سوچ رہی تھی۔ سنجے نے پہلے ماں کے پیروں کو بار بار چوما۔
اور اس کے بعد سیدھا چوت کی پنکھ کو پھیلا کر اندر کے
گلابی مال کو چاٹنے لگا۔ تو لنڈ سے نکلا رس تب بھی چوت میں تھا۔ سنجے نے وہ رس بھی
پورا پی لیا۔ وہ اتنے پیار سے چوت کو چُوس رہا تھا کہ رمبھا دوبارہ پوری طرح سے
گرم ہو گئی۔
وہ بولی، “مادرچود، مجھے پریشان کیوں کر رہا ہے، چُود
اس کُتیا کو۔ چوت تیرے لنڈ کے لیے تڑپ رہی ہے۔” رمبھا نے بیٹے کے سر کو چوت پر سے
ہٹایا اور بستر پر ہی کُتیا کے پوز میں ہو گئی۔
کُتیا کے پوز میں ہی دھیرے دھیرے پیچھے کھسکی۔ اس کے
گھٹنے بستر کے ایج پر آ گئے۔ وہ چُتّڑوں کو ہلانے لگی۔
رمبھا – کُتیا کی اولاد، تیری کُتیا بہت گرم ہو گئی ہے،
چُود چُود کر اسے ٹھنڈا کر دے۔
سنجے فرش پر کھڑا تھا۔ اس نے ماں کے دونوں چُتّڑوں کو
پکڑا اور اپنی ماں کی چوت کو چاٹنے لگا۔ بیٹا فرش پر کھڑا ہو کر کلٹ سے لے کر گند
کے چھید تک زبان سے رگڑ رگڑ کر چاٹنے لگا۔ رمبھا بار بار چوت میں لنڈ پیلنے کے لیے
بولتی رہی۔ لیکن سنجے اپنے ہی کام میں، چوت چاٹنے میں لگا رہا۔
کچھ سمے گزرا۔ رمبھا چلّا کر بولی، “مادرچود، جلدی سے چوت
میں لنڈ پیلتا ہے کہ میں ایسے ہی باہر جا کر گلی کے کتّوں سے چُدوا لوں۔ بیٹا،
کیوں تڑپا رہا ہے، جلدی سے پیل۔”
عورت جب گرم ہوتی ہے تب نہ اس میں نہ کوئی لاج رہتی ہے
اور نہ شرم۔ رمبھا کی بات ختم ہوئی اور بیٹے نے لنڈ کو چوت میں دبایا اور زوردار
دھکا مارنے لگا۔
“واہ
بیٹا، کُتیا خوش ہو گئی، ایسے ہی پیلتا رہ۔۔”
کچھ دیر چکنے پِٹھ کو پکڑ کر دھکا مارتا رہا۔ پھر اس نے
رمبھا کے بانہوں کے نیچے سے دونوں ہاتھ گھسا کر اس کی چھاتیوں کو پکڑا۔ اور مستی
سے چُودتا رہا۔
سنجے ۔۔ ماں، روی نے سب سے پہلے تجھے کب اور کیسے چُودا
تھا؟
لیکن رمبھا بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھی۔
رمبھا ۔۔ اگلی بار روی آئے گا تو اس سے ہی پوچھنا۔ ابھی
بہت مزہ آ رہا ہے، بات مت کر، ایسے ہی کُتیا کو پیلتا رہ۔
اور پھر پہلا راؤنڈ جیسا ہی بہت دیر تک دونوں چپ چاپ
چُدائی کرتے رہے۔ تبھی ڈور بیل بجا۔
رمبھا ۔۔ ابھی کون آیا؟ کتنا ٹائم ہوا؟
سنجے نے بہت ہی بے دردی سے دھکا مارا۔
سنجے ۔۔ رنڈی، میری پیاری کُتیا، ایک سے زیادہ ہو گیا
ہے۔ ابھی نہ مُنّا اور پپّو کے آنے کا سمے ہے اور نہ بابو جی کا۔ ضرور تیری ہی
کوئی کُتیا ہو گی۔
رمبھا نے اپنے آپ کو لنڈ سے الگ کر لیا۔
رمبھا ۔۔ کتنا چُودا یار، 3 گھنٹے سے زیادہ سے ہم مستی
مار رہے ہیں۔ کھانا بھی نہیں بنایا اور اب یہ کُتیا 2 گھنٹے برباد کرے گی۔ تو کچن
میں جا کر ایک گلاس گرم دودھ پی لے۔ بنانا شیک بنا اور جب تک میں نہ بلاؤں، باہر
مت آنا۔ میں دیکھتی ہوں کہ کون رنڈی چوت کی خُجلی مٹوانے آئی ہے۔
سنجے ۔۔ چل ایک بار مجھے موقع دے، تیرے سامنے تیری
کُتیا کو ٹھنڈا کر دوں گا۔
رمبھا ۔۔ میری کُتیا کو چھوڑ، اب مجھے بھی چُودنا ہے۔
تو پہلے اپنے باپ سے مجھے چُودنے کی پرمیشن لے۔۔ بنا سریندر کے پرمیشن کے اب تجھ
سے نہیں چُدواؤں گی۔ جا کچن میں۔۔
رمبھا جانتی تھی کہ کون ہو گا۔ دوبارہ دروازے کی گھنٹی
بجی۔ اس نے سنجے کو روم کے باہر دھکیلا اور خود ننگی ہی دروازہ کھولنے گئی۔ سنجے
نے ایک فیمیل آواز سنی، “کیا کر رہی ہے رنڈی۔ میری جگہ کوئی دوسرا ہوتا تو کھڑا
کھڑا ہی چُود لیتا۔ کس سے چُدوا رہی تھی؟”
اس سمے رمبھا کو دیکھ کر کوئی بھی کہہ سکتا تھا کہ وہ
ابھی چُدوا رہی تھی۔ رمبھا کی چوت سے رس کی بوندیں ٹپک رہی تھیں۔ رمبھا نے دروازہ
بند کیا اور آنے والی لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر ایک روم میں گھُس گئی۔
لیکن سنجے نے ماں کی آواز سنی، “اپنے بیٹے سنجے سے
چُدوا رہی تھی، بہت اچھا چُودتا ہے، چُدوائے گی اس سے؟”
سنجے نے دیکھا کہ دروازہ بند ہو گیا۔ سنجے اس لڑکی کو
اچھی طرح جانتا تھا۔ اس کے اسکول کے ہیڈ ماسٹر کی چھوٹی بیٹی تھی، سلطانہ۔ اسکول
کی خوبصورت لڑکیوں میں سے ایک تھی۔
سنجے بھی ننگا ہی رہا۔ کچن میں گیا اور فریج سے دودھ کا
پین نکالا اور اسے گیس برنر پر گرم کرنے کے لیے رکھا۔ ادھر ادھر ڈھونڈ کر کھجور،
کشمش، دارچینی نکالا اور اُبلتے دودھ میں ڈال دیا۔
ایک بڑا گلاس میں ڈرائی فروٹ ملا ہوا دودھ لیا اور ماں
باپ کے روم میں گھُس گیا۔ اچانک اس کے من میں ایک وچار آیا۔ اس نے اس روم میں رکھا
کپ بورڈ کو کھول کر کچھ ڈھونڈا لیکن کچھ نہیں ملا۔
پھر اس نے بستر کے میٹریس کے نیچے ٹٹولا تو اسے کئی
کتابیں ملیں۔ سنجے مسکرایا۔ سبھی پورن بکس تھی۔ 3 میگزین صرف ننگی فوٹوز، چُدائی
کے فوٹو کی تھی۔ چُدائی کے بارے میں ہم آپ جو بھی کلپنا کر سکتے ہیں، اس سبھی طرح
کے چُدائی کا فوٹو تھا۔
ایک بک میں چُدائی کی کہانی تھی۔ تھوڑی دیر ننگی
تصویروں کو دیکھ سنجے کہانی پڑھنے لگا۔ اس کی قسمت، کتاب کی پہلی کہانی میں گھر کی
ایسی عورت تھی جو گھر کے سبھی مردوں سے، بیٹا، سسر، نوکر اور دوسروں سے بھی
چُدواتی تھی۔
عورت کا گھر والا بہت اچھا چُودتا تھا۔ لیکن پھر بھی وہ
اپنی پتنی کو گھر کے دوسرے مردوں سے چُدوانے بولتا تھا۔ عورت بھی چُدائی سے نہیں
تھکتی تھی۔ اکثر وہ ایک کے بعد ایک گھر کے سبھی مردوں سے چُدواتی تھی۔
سنجے دودھ پیتے ہوئے کئی کہانیاں پڑھ گیا۔ سبھی کہانی
میں عورت کو خوش کرنے کے، اسے زیادہ گرم کرنے کا کچھ نہ کچھ طریقہ بھی بتایا گیا
تھا۔ سنجے کہانیاں پڑھنے میں اتنا مشغول تھا کہ اسے معلوم ہی نہیں پڑا کہ روم میں
کوئی آیا بھی۔
دونوں، سلطانہ اور رمبھا روم میں آ کر سنجے کے بغل میں
کھڑی ہو گئیں۔
سلطانہ ۔۔سنجے، مجھے چُودو گے؟
اچانک عورت کی آواز سن کر سنجے نے چونک کر نظر اُٹھایا۔
سامنے دونوں رمبھا اور سلطانہ ننگی کھڑی تھیں۔ سلطانہ باہر کی لڑکی تھی لیکن رمبھا
کے چہرے پر بھی مدھر مسکراہٹ تھی۔
اور اس سمے دونوں کی چوت سے رس کی دھار ٹپک رہی تھی۔
دونوں عورتوں نے ایک دوسرے کو خوب رگڑا، چوت کو اچھی طرح چُوسا اور چاٹا تھا۔ ساتھ
ہی دونوں نے ایک دوسرے کو انگلیوں سے اتنا چُودا کہ دونوں جھڑ گئیں۔
سلطانہ ۔۔ رمبھا، تو ابھی اپنے بیٹے سنجے سے چُدوائی تو
میں بھی چُدواؤں گی۔
رمبھا ۔۔تو مجھے بدنام کرے گی کہ رمبھا بیٹے سے چُدواتی
ہے۔ آج ہی پہلی بار چُدوایا ہے۔
سلطانہ ۔۔ ایک رنڈی کبھی کسی دوسری رنڈی کو بدنام نہیں
کرتی۔ اور تو نہیں جانتی کہ میں تجھ سے کتنا پیار کرتی ہوں۔ میں نے کتنا کہا لیکن
تم نے مجھے چاچو (سریندر) سے نہیں چُدوایا۔ میں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ میں
زندگی بھر تیرے ساتھ رہوں گی۔
سلطانہ ۔۔ تو مجھے اپنے گھر والے سے چُدوا یا بیٹے سے
یا پھر دونوں سے، میں تیرے ہی ساتھ رہوں گی۔ آج تجھے بتاتی ہوں، تیرے ہی کارن میرا
باپ ڈیڑھ سال سے مجھے لنڈ چُوسا رہا ہے۔ میری چوت چُوستا ہے۔ چل میرے سامنے بیٹے
سے چُدوا۔ پھر میں بھی لوں گی۔
سلطانہ ۔۔رانی، کوئی میرے بدن کا ایک ایک بوند خون چوس
لے گا، بدن کو ٹکڑا ٹکڑا کر دے گا پھر بھی نہیں کہوں گی کہ ماں اپنے بیٹے سے
چُدواتی ہے۔
دونوں سنجے کے پاس آ گئے۔ سلطانہ کی بات سن کر سنجے نے
ماں کی اور دیکھا۔
رمبھا ۔۔ بیٹا، سلطانہ کیا ابھی تیرا باپ بھی گھر آتا
تو مجھے اور میری حالت دیکھ کر سمجھ جاتا کہ میں نے اپنے بیٹے سے چُدوایا ہے۔
سلطانہ ۔۔ سنجے، تیری ماں پچھلے تین سال سے میری جوانی
کو کھا رہی ہے۔ میں نے تیری اس کُتیا سے کتنی بار کہا کہ مجھے سریندر انکل سے
چُدوا دے۔ لیکن سالی نے کبھی مجھے تیرے باپ سے نہیں ملایا۔ اب اگر تو چاہتا ہے کہ
کسی اور کو پتا نہ چلے کہ تم اپنی ماں کو چُودتے ہو تو میرے سامنے رمبھا کو چُودو۔
سلطانہ ۔۔ اس کے انعام میں میں تمہیں اپنی کنواری جوانی
دوں گی۔ لیکن تمہیں میرے ابو، اپنے ہیڈ ماسٹر کے سامنے ہی مجھے چُودنا ہو گا۔ یار
بہت ہی پیارا لنڈ ہے تیرا، مجھے بہت پسند آ گیا ہے۔
سلطانہ جھکی اور لنڈ کو پکڑ کر چُوسنے لگی۔ سنجے نے
نہیں بتایا کہ وہ بچپن سے صرف اسے، سلطانہ کو ہی پسند کرتا ہے۔ سب لوگ میں سمجھتے
ہیں سنجے اور سلطانہ سے چھوٹی بہن نغمہ ایک دوسرے کے دوست ہیں۔
لیکن سنجے کو شروع سے سلطانہ ہی زیادہ پسند تھی۔ اور اب
سلطانہ خود اس سے چُدوانے کی بات کر رہی تھی۔ سلطانہ کی ننگی جوانی کا سواد سب سے
پہلے رمبھا نے ہی لیا تھا۔
رمبھا نے اسے اتنا مست کیا کہ ہر دوسرے۔۔تیسرے دن رمبھا
کے ساتھ مستی کرنے لگی۔ دونوں کی لیسبین مستی کو شروع ہوئے 6 مہینے ہی ہوا تھا۔
ایک رات ہیڈ ماسٹر حامد صاحب بیٹی کے روم میں آ گئے۔ اس نے جھنجھوڑ کر بیٹی کو
اٹھایا اور سیدھا بیٹی کی دونوں چھاتیوں کو دبوچ لیا۔
حامد ۔۔ تو سریندر صاحب کے ساتھ چُدوّاتی ہے نا۔ میں
تجھے سریندر کے ساتھ چُدوانے سے کبھی نہیں روکوں گا۔ لیکن گھر میں تجھے ہر رات
میرے ساتھ بھی ننگا سونا ہو گا، مجھ سے بھی چُدوانا ہو گا۔
اتنا بولتے بولتے حامد اپنا لنگی اور کرتا باہر نکال کر
ننگا ہو گیا۔ لنڈ اچھا سائز کا تھا، موٹا بھی تھا۔ باپ کا لنڈ دیکھ کر سلطانہ نے
تھوڑی دیر اپنے اندر ٹٹولا۔
کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے کنکلوڈ کیا کہ آج نہیں تو
کل وہ سریندر سے چُدوائے گی ہی۔ اب باپ نے بھی چُدوانے کی پوری چھوٹ دے دی ہے تو
پھر باپ کو بھی خوش کیوں نہ کروں۔ سلطانہ نے ہاتھ آگے بڑھایا اور باپ کے لنڈ کو
پکڑ کر مسلنے لگی۔
سلطانہ ۔۔ ابو، تم تو بہت پڑھے لکھے ہو، گیانی ہو۔ تمھے
اچھی طرح معلوم ہے کہ بیٹی کو چُودنے سے بڑا پاپ اور کچھ نہیں ہے۔ میں اپنے پیارے
ابو کو دوزخ (نَرک) کی آگ میں نہیں جلنے دوں گی لیکن تمہیں اپنی جوانی کا پورا مزہ
بھی دوں گی۔
سلطانہ ۔۔ تم وعدہ کرو کہ اپنے اس لنڈ کو میری چوت کے
اندر نہیں پیلو گے۔ تو رات میں ہی کیا جب بھی بولو گے لنڈ کو چُوسوں گی۔ اپنی چوت
چُوسنے دوں گی لیکن چوت میں لنڈ نہیں پیلنے دوں گی۔ اگر تم نے غلطی سے بھی چوت میں
لنڈ پیل دیا تو سب کو بتا دوں گی کہ تم اپنی تینوں بیٹیوں کو چُودتے ہو۔ زبردستی
چُودتے ہو اور تمہیں بدنام کر جل کر مر جاؤں گی۔
اتنا بول کر سلطانہ اٹھ کر بیٹھی۔ اپنے سارے کپڑے اتارے
اور ابو کے لنڈ کو خوب چُبھلا چُبھلا کر چُوسنے لگی۔ کچھ ہی سمے گزرا اور حامد
کراہنے لگا، مستی کی آواز نکالنے لگا۔
سلطانہ نے 10۔۔12 منٹ ہی چُوسا ہو گا کہ لنڈ جھڑنے لگا۔
سلطانہ نے جھٹ سے لنڈ کو منہ سے باہر نکالا اور رس کو چھاتیوں پر رگڑنے لگی۔
حامد ۔۔یٹی، 30۔۔32 سالوں میں 50 سے زیادہ عورتوں کو
اور تمھاری جیسی کمسن لڑکیوں کو چُودا ہے۔ لیکن ابھی جیسا مزہ آیا ویسا مزہ کسی کے
ساتھ بھی نہیں آیا تھا۔ تم سے پہلے کبھی کسی نے بھی، تمھاری امی نے بھی لنڈ نہیں
چُوسا تھا۔
حامد ۔۔ بیٹی، تم نے اپنے ابو کو مست کر دیا۔ تیری امی
سالوں سے سریندر سے چُدوا رہی ہے۔ تو بھی اس سے چُدوا۔ تیرا اور جس کے ساتھ جی کرے
چُدوا بس جب بولوں لنڈ چُوس دے۔ قسم کھاتا ہوں بیٹی کی کہ یہ لنڈ کبھی بھی اپنی
کسی بیٹی کی چوت میں نہیں گھُسے گا۔
سلطانہ ۔۔ اور ابو، آپ کی یہ رنڈی، جب بھی بولو گے، لنڈ
چُوس دے گی، چھاتی اور چوت کے ساتھ مستی لینے دے گی۔ آؤ میرے ساتھ چپک کر لیٹ جاؤ،
چھاتی کو جتنا چُوسنا ہے، دبانا ہے، مزہ لو۔
اور اس کے بعد دونوں باپ اور بیٹی ہر رات 2۔۔3 گھنٹے
ساتھ سوتے تھے۔ جیسا رمبھا کرتی تھی سلطانہ بھی ہر رات باپ سے چُوت چُوسواتی تھی۔
اور بدلے میں لنڈ چُوس کر باپ کو خوش کرتی تھی۔
کچھ دن بعد ہی سلطانہ کی امی کو سب معلوم ہو گیا۔ اس نے
بیٹی سے پوچھا تو بیٹی نے سب کچھ سچ سچ دیا۔
سلطانہ ۔۔ امی، ابھی تک تو سریندر چاچو نے مجھے نہیں
چُودا ہے۔ لیکن میں نے فیصلہ کر لیا کہ زندگی بھر رمبھا کے ساتھ ہی رہوں گی۔
سریندر کی رکھیل بن کر رہوں گی۔
امی ۔۔ تیرے سریندر چاچو نے مجھے سیکڑوں بار چُودا ہے۔
میری پہلی چُدائی اس نے کی تھی۔ کیا معلوم تم سب کا اصل باپ وہی ہو۔ تو سریندر کو
چھوڑ، اس کا بیٹا سنجے بھی جوان ہو رہا ہے۔ اس سے پتا اور اس سے نکاح کر لے۔۔
اور ڈیڑھ سال کے بعد سلطانہ سنجے کے سامنے ننگی تھی اور
اس کا لنڈ چُوس رہی تھی۔ رمبھا نے بستر پر چُدائی کا پوزیشن لے لیا۔
رمبھا ۔۔ بیٹا، تیرے دونوں بھائی آ جائیں اس سے پہلے
اپنی کُتیا کا مزہ لے لے۔۔ چُود مجھے۔۔
سنجے کو آَچَرج ہوا کہ گھر کے باہر کی لڑکی کے سامنے
بھی اس کی ماں بیٹے سے چُدوانا چاہتی ہے۔
سلطانہ – سنجے، کچھ مت سوچ، مر جاؤں گی لیکن میرے منہ
سے یہ کبھی نہیں نکلے گا کہ تم اپنی ماں کو چُودتے ہو۔ تو نہیں جانتا کہ میں تیری
ماں کو کتنا پیار کرتی ہوں۔
لنڈ تیار تھا ہی۔ پہلے ہی دن سنجے تیسری بار اپنی ماں
کو چُودنے لگا۔ سلطانہ پہلی بار چُدائی دیکھ رہی تھی۔ اس سے بہت ہی زیادہ مزہ آ
رہا تھا۔ وہ چپ نہیں بیٹھی رہی، پورے چُدائی کے دوران وہ رمبھا کے انگ انگ کو
چُوسنے چاٹتی رہی۔ اس بار بھی رمبھا ہی پہلے ٹھنڈی ہوئی۔ کچھ دیر اور چُدائی کرنے
کے بعد بیٹے نے دوسری بار ماں کی چوت کو رس سے بھر دیا۔
جیسا ہی سنجے نے لنڈ باہر کھینچا، سلطانہ رانوں کے بیچ
بیٹھ کر رمبھا کی چوت کو چاٹنے لگی۔ سنجے بھی چپ نہیں بیٹھا رہا۔ وہ سلطانہ کے
پیچھے آیا، اس کے چُتّڑوں کو اوپر اُٹھایا۔
دونوں چوتڑوں کو پکڑ کر پیچھے سے چوت کو چاٹنے لگا۔ تینوں آپس
میں مستی مار رہے تھے کہ ڈور بیل بجا۔ رمبھا نے سلطانہ کو دھکا دیا۔
رمبھا ۔۔ جلدی سے کپڑے پہن لو۔ دونوں بچے آ گئے ہیں۔
ڈور بیل بجتا رہا۔ تینوں نے کپڑے پہنے اور سنجے نے
دروازہ کھولا۔ مُنّا اور پپّو ہی تھے۔ دونوں سلطانہ کو گھر میں دیکھ کر خوش ہو
گئے۔
مُنّا اپنے بڑے بھائی سنجے سے ڈیڑھ سال ہی چھوٹا تھا۔
پورا جوان ہو گیا تھا۔ لیکن بہت ہی شانت سوابھاؤ کا تھا۔ اسے پوری دنیا میں صرف
ایک، نغمہ ہی پسند تھی۔ مُنّا اسے چُود کر ہی اپنی چُدائی کی زندگی کی شروعات کرنا
چاہتا تھا۔
لیکن نغمہ کو مُنّا کا بڑا بھائی سنجے زیادہ پسند تھا۔
اور سنجے کو نغمہ نہیں اس کی بڑی بہن سلطانہ جان سے زیادہ پیاری تھی۔ پپّو کا جب
جنم ہوا تب مُنّا 9 سال کا تھا۔ جس دن سنجے نے اپنی ماں کو پہلی بار چُودا تب پپّو
صرف 9 سال کا تھا۔
سنجے نے صرف ایک عورت کو، اپنی ماں کو چھُپ چھُپ کر
چُدواتے دیکھا اور ماں کو چُودنے کی چاہ جگی۔ جب کہ رمبھا کی عمر کی ایک خوبصورت
عورت تین بار مُنّا کے سامنے پوری ننگی ہوئی۔ اسے چُودنے کے لیے کہا لیکن مُنّا نے
ہر بار ایک ہی بات کہتا تھا۔
“آپ
جتنا بولو گی چُودوں گا، رات دن چُودوں گا لیکن نغمہ کو چُودنے کے بعد۔۔”
وہ عورت نغمہ کو اچھی طرح جانتی تھی۔ وہ اپنی طرح سے
کوشش کرنے لگی کہ نغمہ جلدی سے جلدی مُنّا سے چُدوا لے۔
سلطانہ چاہتی تھی کہ سنجے اور رمبھا زیادہ اکیلے رہیں۔
اس نے دونوں بھائی کو گھر سے باہر بھیجنے کا سوچا۔۔
سلطانہ ۔۔ مُنّا بھائی، نغمہ سے جھگڑا ہوا ہے کیا۔۔ وہ
بہت اداس ہے کہ تم اب اس کے ساتھ نہیں کھیلتے ہو، بات بھی نہیں کرتے ہو۔ تم دونوں
میرے ساتھ چلو، وہیں کھلا دوں گی۔
مُنّا ۔۔ نہیں دیدی، اب وہ بڑی ہو گئی ہے، وہی مجھ سے
دور رہتی ہے۔
مُنّا کی جوانی پوری طرح سے نکھر گئی تھی۔ سلطانہ نے
دھیان سے دونوں سنجے اور مُنّا کو دیکھا۔ سنجے زیادہ خوبصورت تھا۔ لیکن سلطانہ کو
لگا کہ مُنّا بھی پورا بنکا مرد ہو گیا ہے۔ رمبھا جلدی ہی اپنے دوسرے بیٹے سے بھی
چُدوائے گی۔
رمبھا ۔۔بیٹی، بھولنا مت۔ کل رات تمہیں اور حامد بھائی
جان کو میرے ہاتھ کا کھانا کھانا ہے۔
سلطانہ ۔۔ ہاں، وہ کیسے بھول سکتی ہوں۔ پوری تیاری
رکھنا۔
سلطانہ کا انویٹیشن سن کر دونوں بچے، خاص کر مُنّا بہت
خوش ہو گیا۔ اسے نغمہ کے ساتھ رہنے کا موقع مل رہا تھا۔ دونوں نے جھٹ پٹ اسکول
ڈریس چینج کیا اور سلطانہ کے ساتھ چلے گئے۔
رمبھا نے جلدی سے ڈور کو بند کیا اور پھُرتی سے ننگی ہو
گئی۔ وہ پھر بستر کے ایج پر کُتیا کے پوز میں ہو گئی۔
رمبھا ۔۔ تم نے کُتیا کو پورا نہیں چُودا تھا، حرامزادی
سلطانہ نے آ کر ڈسٹرب کر دیا تھا۔ لے بیٹا جلدی سے کُتیا کو ٹھنڈا کر دے۔
سنجے بھی ننگا ہو گیا لیکن اس بار لنڈ ٹائٹ نہیں تھا۔
سنجے ۔۔ تم نے پورا چُوس لیا ہے، پہلے چُوس کر ٹھنڈا کر
تب نہ کُتیا کو پیلوں گا۔
رمبھا بستر سے نیچے آئی اور گھٹنوں کے سپورٹ پر بیٹھ کر
لنڈ کو چُوسنے لگی۔ بیچ بیچ میں بالز کو بھی چُوستی تھی۔ اندرونی رانوں کو چاٹتی
تھی۔ جلدی ہی لنڈ پورا ٹائٹ ہو گیا۔
رمبھا پھر بستر پر کُتیا بن گئی اور بیٹا ماں کو پیچھے
سے چُودنے لگا۔ اس چوتھی راؤنڈ کی چُدائی سب سے زیادہ دیر تک چلی۔ اس بار بھی
رمبھا ہی پہلے ٹھنڈی ہوئی۔ تھوڑی دیر بعد بیٹے نے پھر چوت کو رس سے بھر دیا اور
تبھی پھر ڈور بیل بجا۔
ڈور بیل کی آواز سُن کر دونوں کو دھیان آیا کہ روم میں
اندھیرا ہو گیا ہے۔ دونوں نے مسکراتے ہوئے کپڑے پہنے، لائٹ آن کیا اور رمبھا نے
دروازہ کھولا۔ اس بار اس کا پتی گھر کے اندر گھُسا۔
سریندر ۔۔ کیا بات ہے آج دونوں ماں بیٹے بہت خوش ہو۔۔
رمبھا ۔۔ خوش؟ میں تیرے اس حرامی بیٹے سے بہت ناراض
ہوں۔ مادرچود بہت بدمعاش ہو گیا ہے۔ جاؤ بیڈ روم میں، تمہیں اس کی شیطانی معلوم ہو
جائے گی۔
سریندر بیڈ روم میں گیا۔
آگے کی کہانی اگلے بھاگ میں۔۔
ماں اور بیٹے کی چوتھی راؤنڈ کی چُدائی ختم ہی ہوئی تھی
کہ سنجے کا باپ سریندر گھر آ گیا۔ اسے دونوں بہت خوش نظر آئے۔ ماں نے بیٹے کی
شکایت کی۔
سریندر اپنے بیڈ روم میں آیا تو دیکھا کہ بیڈ پر ننگی
تصویروں والی کتابیں بکھری پڑی ہیں۔ رمبھا بھی اس کے پیچھے آ گئی۔۔ اس نے دروازہ
اندر سے بند کر دیا۔ اتنا ہی نہیں وہ ننگی ہو گئی۔ بیڈ پر آ کر لیٹ گئی۔
سریندر نے اس دن بھی صاحب کے گھروں کی 2 جوان عورتوں کو
چُودا تھا۔ لیکن اپنی گھر والی کو ننگا دیکھ اس کی جوانی بھی قلابے مارنے لگی۔
سریندر ننگا ہو گیا اور سیدھا گھر والی کو چُودنے لگا۔۔
سریندر ۔۔ یہ سب کتابیں، فوٹو دیکھ کر بہت چُداسی ہو
گئی ہو۔۔ بیٹے سے ہی چُدوا لیتی۔
خوب زور دار دھکا مارتے ہوئے چُودنے لگا۔۔
رمبھا ۔۔ تم سے بھی زیادہ حرامی نکلے گا تیرا بڑا بیٹا۔
سلطانہ آ جاتی ہے تو تم جانتے ہی ہو کہ ہم دونوں کتنا گرم ہو جاتے ہیں۔ آج پھر تم
سے چُدوا دینے کے لیے خوشامد کر رہی تھی۔ تم بھی کیا ضد لے کر بیٹھے ہو کہ بنا
بیاہی لڑکیوں
کو نہیں چُودو گے۔۔۔۔
سریندر خوب رگڑ رگڑ کر چُود رہا تھا۔
سریندر ۔۔ رانی، کئی کنواری، کم عمر کی لڑکیوں کو چُودا۔۔
لیکن مجھے کبھی مزہ نہیں آیا۔۔ تمہیں 19۔۔20 سال سے چُود رہا ہوں۔۔ تم نے 3۔۔3
بیٹے بھی پیدا کیے۔ لیکن پھر بھی تمہیں چُودنے میں جو مزہ آتا ہے ویسا مزہ کوئی
دوسری نہیں دے سکتی۔۔
سریندر ۔۔ تم سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ میں یہ جان کر
کتنا خوش ہوا تھا کہ تم پہلے سے ہی چُدوا چکی تھی۔ رانی تم سے اچھا اور کوئی نہیں۔۔
200 سے زیادہ رنڈیوں کو چُودا ہے۔۔ لیکن جو مزہ تیرے ساتھ آتا ہے وہ کوئی اور نہیں
دیتی۔ میری اور سلطانہ کی بات چھوڑ، تیرے بیٹے نے کیا کیا؟
اس دن رمبھا چوتھی بار چُدوا رہی تھی۔ اس عورت میں بہت
دم تھا۔ چُدائی سے کبھی نہیں تھکتی تھی۔ کمر اور چُتّڑوں کو ہلاتے ہوئے شوہر کے
لنڈ کے دھکے کو سنبھال رہی تھی۔
رمبھا ۔۔ سلطانہ کے جاتے ہی حرامی اس روم میں آ گیا۔
میں نے سلطانہ کو دکھانے کے لیے یہ سب کتابیں نکالی تھیں۔۔ میں منع کرتی رہی لیکن
تیرا حرامی بیٹا میرے اوپر چڑھ گیا۔ اس نے زبردستی مجھے چُدائی کی ایک ایک تصویر
دکھائی۔۔
رمبھا ۔۔ اس کے بعد وہ چُدائی کی کہانی بھی پڑھ کر
سنانے لگا۔ تم نے کال بیل بجا تب وہ باہر گیا ہے۔ بہت مزہ آ رہا ہے یار۔۔ پتا نہیں
کہ روی زندہ ہے کہ مر گیا۔ لگتا ہے کہ سالا مجھے بھول گیا۔۔
سریندر ۔۔ رانی، میں بھی تمہیں دوسرے سے چُدواتے دیکھنے
کے لیے ترپ رہا ہوں۔ جب تک روی نہیں آتا ہے تو بیٹے سے ہی کیوں نہیں چُدواتی ہو؟
رمبھا ۔۔ بہت حرامی ہو۔۔ بیٹے کو مادرچود بناؤ گے۔ تم
خود سنجے کو بولو کہ مجھے چُودے۔ نہ بابا نہ، جتنا مرد چاہوں گی مل جائے گا لیکن
روی کے جیسا کوئی اور نہیں ہو گا۔
رمبھا کو دکھ تھا کہ روی بہت دنوں سے نہیں آیا ہے۔
سریندر بھی چاہتا تھا کہ رمبھا اب روی کو بھول جائے اور بیٹے سے ہی چُدوانا شروع
کر دے۔ لیکن رمبھا سے یہ بولنے کی اس کی ہمت نہیں ہوئی تھی۔
سالوں پہلے سریندر نے اپنی ماں کو چُودنے کی کوشش کی
تھی۔ لیکن ماں نے اس سے بہت مارا پیٹا تھا۔ سریندر کی ماں نے بیٹے سے نہیں
چُدوایا۔ لیکن گاؤں کی کئی جوان عورتوں اور کنواری لڑکیوں کو اپنے سامنے بیٹے سے
چُدوایا تھا۔
کچھ دنوں کے بعد گاؤں کی عورتیں خود ہی سریندر سے
چُدوانے کے لیے اس کی ماں کی خوشامد کرنے لگی تھی۔ رمبھا سے شادی ہونے کے پہلے ہی
وہ پچاسوں مال کو چُود رہا تھا۔
نہ اس نے رمبھا کو روی سے چُدوانے سے منع کیا نہ ہی
رمبھا نے شوہر کو کسی کو بھی چُودنے سے روکا۔ سریندر جتنا ہی دیر چُودتا تھا عورت
کو مست کر دیتا تھا۔ سریندر نے بھی رس رمبھا کی چوت میں ہی گرایا۔
رمبھا ۔۔ یار، ایک غلطی ہو گئی ہے۔
سریندر کھڑا ہو کر کپڑے پہننے لگا۔
سریندر ۔۔ کیا غلطی، کیسی غلطی؟
رمبھا ۔۔ آج صبح ہی لوپ نکال لیا تھا اور ابھی تم نے رس
اندر گرا دیا۔ اگر پیٹ میں بچہ رہ گیا تو۔۔
شوہر کے رس گرانے سے پہلے بیٹا تین بار چوت میں رس گرا
چکا تھا۔ اور سریندر نے بھی بیٹے کے جیسا ہی کہا۔۔
سریندر ۔۔ تو کیا ہو گیا؟ مُنّا جب 9 سال کا تھا تب
پپّو کا جنم ہوا تھا۔ پپّو ابھی 9 سال کا ہی ہے۔ رانی مجھے ایک اپنے جیسی پیاری
بیٹی دے دو۔
رمبھا ۔۔ اگر بچہ ہوا تو اس بار بیٹی ہی ہو گی۔ چھِ،
سنجے کیا سوچتا ہو گا کہ باپ آفس سے آیا اور ماں اس سے چُدوانے لگی۔۔
رمبھا نے پہلے جیسا پیٹیکوٹ اور بلاؤز ہی پہنا۔ سریندر
نے کمر میں ایک لنگی باندھا۔ اوپر ایک بنیان پہن لیا۔ دونوں باہر آئے تو دیکھا کہ
سنجے اور اس کے ساتھ سلطانہ کی چھوٹی بہن نغمہ بھی ہے۔
نغمہ ۔۔ واہ چاچی جان، کسی کی نظر نہ لگے۔ کتنا غضب کی
خوبصورت ہیں آپ۔ چاچو جان نے آپ کو بہت خوبصورت بنا دیا ہے۔ کیا چاچو، چاچی کو
کبھی آرام بھی کرنے دو۔۔ روز رات میں لگاتے ہی ہو، دن میں بھی نہیں چھوڑتے ہو۔۔
بہت جوانی ہے آپ کے بدن میں۔
نغمہ کی بات سن کر رمبھا کو لگا کہ وہ بھی اس کے شوہر
سریندر سے چُدوانا چاہتی ہے۔
سریندر ۔۔ نغمہ، تم سے زیادہ خوبصورت کوئی دوسری ہو
سکتی ہے کیا۔۔ بہت پیاری ہو بیٹی۔۔
بولتے ہوئے وہ نغمہ کے سامنے کرسی پر بیٹھ گیا۔ نغمہ کی
نظر اُدھر گئی اور اس کا گلا سُکھنے لگا۔ نغمہ نے بغل میں بیٹھے سنجے کے تھائیز کو
زور سے دبایا۔ سنجے کی نظر بھی باپ کی طرف گئی۔ اسے بھی دکھائی دیا رمبھا کی چوت
کے رس سے لت پت باپ کا لنڈ۔۔
نغمہ نے پہلی بار کسی جوان آدمی کے لنڈ کو دیکھا تھا۔
سریندر کسی کو لنڈ دکھانے کے لیے ویسا نہیں بیٹھا تھا۔ اسے معلوم ہی نہیں پڑا کہ
سامنے بیٹھے لڑکی کے ساتھ ساتھ اس کے بیٹے کو بھی اس کا لنڈ دکھ رہا تھا۔
نغمہ نے اپنے آپ کو سنبھالا۔
نغمہ ۔۔ چاچو، آج میں ایک خاص کام سے آئی ہوں۔ میں آپ
سب کو یہ بتانے آئی ہوں کہ آپ لوگ سنجے کی شادی کے بارے میں کبھی مت سوچنا۔ میں ہی
سنجے سے نکاح کروں گی۔
نغمہ ۔۔ سنجے تم بھی گرہ باندھ لو۔ اگر تم نے کسی دوسری
سے شادی کرنے کا سوچا بھی تو میں اس کُتیا کا خون پی جاؤں گی، تیرا قتل کر دوں گی۔
کل شام 5 بجے سبھاش گارڈن میں آنا، میں انتظار کروں گی۔
نغمہ نے سریندر کے لنڈ کو دیکھا اور سنجے کو ساتھ لے کر
گھر کے باہر نکل گئی۔
سنجے ۔۔ بابو جی جان بوجھ کر ویسے نہیں بیٹھے تھے۔ ان
کی طرف سے میں معافی مانگتا ہوں۔
نغمہ ۔۔۔۔ بیوقوف، تو کیوں معافی مانگ رہا ہے۔ ہر جوان
لڑکی کو لنڈ دیکھنا اچھا لگتا ہے اور تیرے بابو جی کے لنڈ کی بہت تعریف سنی ہے۔
تمھارا لنڈ کیسا ہو گا نہیں معلوم لیکن تیرے باپ کا لنڈ سچ بہت اچھا ہے۔ سلطانہ
آپا بیوقوف نہیں ہے کہ تمھارے باپ کی رکھیل بن کر بھی رہنا چاہتی ہے۔ اگر میں نے
تمھارے ساتھ نکاح کا نہیں سوچا ہوتا تو آج ہی تیرے باپ سے چُدوا لیتی۔ بہت ہی
پیارا لنڈ ہے تیرے باپ کا۔۔
سنجے کیا بولتا۔ اسے بھی سمجھنے میں دیر نہیں لگا کہ یہ
لڑکی جو اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہے، اب جلدی ہی اس کے باپ سے چُدوائے گی۔
نغمہ نے سنجے کے گالوں کو تھپ تھپایا اور ایک طرف چلی
گئی۔ نغمہ کا گھر آدھا کلومیٹر کی دوری پر ہی تھا۔
سنجے واپس لوٹا اور جہاں پہلے بیٹھا تھا وہیں بیٹھ گیا۔
سریندر کا لنڈ تب بھی ویسا ہی دکھ رہا تھا۔ سنجے نے ماں سے کچھ کھانا اور چائے
مانگا۔
رمبھا اپنے دونوں بیٹے کو لے کر اندر چلی گئی۔ ماں کو
چُود کر سنجے میں بہت ہمت آ گئی تھی۔
سنجے ۔۔ بابو جی آپ کیسے بیٹھے ہیں، آپ کا لنڈ صاف صاف
دکھ رہا ہے۔ آپ نے جان بوجھ کر نغمہ کو لنڈ دکھایا ہے نا۔ لیکن اسے آپ کا لنڈ بہت
پسند آ گیا ہے۔ بول کر گئی ہے کہ آپ کا لنڈ بہت پیارا ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اگر
اس نے مجھ سے شادی کا نہیں سوچا ہوتا تو آج ہی آپ سے چُدوا لیتی۔
بیٹے کی بات سن کر سریندر نے جھٹکا سے لنگی اوپر
اُٹھایا۔ لیکن ترنت لنڈ کو ڈھک کر ٹھیک سے بیٹھ گیا۔
سریندر ۔۔ جو قسم لے لو بیٹا، مجھے نہیں معلوم تھا کہ
لنڈ تم دونوں کو دکھ رہا ہے۔ تو بہت قسمت والا ہے کہ اتنی خوبصورت لڑکی تم سے شادی
کرنا چاہتی ہے۔
سنجے ۔۔ میں ابھی 4۔۔5 سال تو شادی نہیں کروں گا۔ لیکن
نغمہ کو آپ کا لنڈ بہت پسند آ گیا ہے۔ وہ آپ سے چُدوانا چاہتی ہے۔ آپ ایک بار بھی
اشارہ کریں گے تو وہ آپ سے چُدوا لے گی۔ جب تک میں اس سے شادی نہیں کرتا ہوں آپ ہی
اپنے ہونے والی بہو کو چُودتے رہیے۔
سنجے ۔۔ اور اگر وہ آپ کو پسند آتی رہی تو میں اس سے
شادی کر لوں گا۔ جیسے آپ اور روی انکل ماں کو مل کر چُودتے ہیں، ہم دونوں مل کر آپ
کی تینوں بہوؤں کو چُودیں گے۔ بابو جی، آپ جتنی جلدی ہو نغمہ کو چُودئے۔ اس کی بڑی
بہن بھی آپ سے چُدوانے کے لیے پاگل ہے۔ آپ سلطانہ کو بھی چُودئے پھر ہم دونوں مل
کر دونوں بہنوں کو چُودیں گے۔
بیٹے کی بات سن کر باپ شاکڈ ہو کر بیٹے کو دیکھتا رہا۔
اس نے لنگی پھر پورا اُٹھا دیا۔ سنجے نے دیکھا کہ باپ کا لنڈ پورا ٹائٹ ہو گیا ہے۔
سریندر لنڈ کو سہلانے لگا۔
سریندر ۔۔ میرے لنڈ کو کنواری یا کم عمر کی لڑکیوں کی چوت
پسند نہیں ہے۔ تم ہی پہلے تینوں بہنوں کو چُودو۔ ان کی چوت ڈھیلا کر دو اس کے بعد
مجھے بھی چُودنے میں مزہ آئے گا۔
“ناشتہ
تیار ہے، اندر آ جاؤ۔۔”
ماں کی آواز سن کر سنجے کھڑا ہوا، باپ کے پاس گیا اور
دونوں ہاتھوں سے باپ کے لنڈ کو پکڑ کر مسلنے لگا۔
سنجے – بابو جی بیوقوف مت بنیے، دونوں رنڈی تیار ہیں۔
آپ دونوں نغمہ اور سلطانہ کو جلدی سے جلدی چُودئیے۔
سنجے نے جھک کر باپ کے لنڈ کے ٹپ کو چوما۔
بیٹے کی باتوں اور حرکتوں سے باپ حد سے زیادہ خوش ہو
گیا۔ اس نے وہی کہا جو سنجے سُننا چاہتا تھا۔
سریندر ۔۔ ابھی دونوں لڑکیوں کو چھوڑو۔ گھر میں ہی ایک
بہت چُداسی مال ہے۔ اپنی ماں کو ایک بار چُود لو تو نغمہ، سلطانہ، سب کو بھول جاؤ
گے۔ دونوں بھائی کے سو جانے کے بعد ہمارے روم میں آ جانا۔ کچھ اچھا ڈرامہ کرنا،
میری خوشامد کرنا، میں تمہیں ماں کو چُودنے سے نہیں روکوں گا۔
سریندر ۔۔ تیری ماں اصل کُتیا ہے۔ ہم مرد تھک جائیں گے
لیکن یہ کُتیا کبھی نہیں تھکتی۔ میں نہیں روکوں گا۔ جم کر اپنی ماں کو چُودا، جب
چاہو تب چُودو۔ پہلے تم چُود لو پھر گھر کی کُتیا کو اس کے پھر بیٹے مُنّا سے بھی
چُدوا دوں گا۔
باپ کی بات سُن کر سنجے اتنا خوش ہوا کہ آدھے سے زیادہ
لنڈ اپنے منہ میں لیا، ایک منٹ اندر رکھا پھر نکال دیا۔
سنجے ۔۔ سچ بابو جی نغمہ نے غلط نہیں کہا، بہت ہی پیارا
لنڈ ہے۔ ماں کی چوت سے جب یہ لنڈ باہر نکلے گا تب میں اسے اچھی طرح چُوسوں گا۔
نغمہ کو جلدی، کل ہی چُودئیے۔
“کیا
کر رہے ہو، جلدی آؤ چائے ٹھنڈی ہو جائے گی۔۔”
دونوں باپ بیٹا مسکراتے ہوئے اندر گئے۔ سنجے خوش تھا کہ
باپ نے خود اپنی گھر والی، ماں کو چُودنے کے لیے انوائٹ کیا۔ سریندر اس لیے بہت
خوش تھا کہ جو لڑکی اس کی بہو بننا چاہتی تھی اسے اس کا لنڈ پسند آ گیا ہے۔
ساتھ ہی اب وہ اپنی گھر والی کو کسی اور سے، اپنے بیٹے
سے چُدواتے دیکھے گا۔ سریندر نے کبھی کھل کر کہا نہیں۔ لیکن وہ ہمیشہ سے چاہتا تھا
کہ اس کے گھر کی سبھی عورتیں اس کی طرح ہی کھل کر چُدائی کی مستی لیں۔
اس نے رمبھا کو کئی بار اشارہ بھی دیا لیکن اس عورت کو
روی کے علاوہ کوئی دوسرا کبھی پسند نہیں آیا۔ ابھی 6 مہینے سے روی نہیں آیا تھا۔
تو اس نے اپنی چُدائی کی بھوک کو مٹانے کے لیے بیٹے سے ہی چُدوا لیا۔
سب سے خاص بات یہ ہوئی کہ رمبھا کو بیٹے کے ساتھ کی
چُدائی سب سے اچھی لگی۔ اور وہ دل سے چاہتی تھی کہ بیٹا اسے اپنے باپ کے سامنے
چُودے، بار بار چُودے۔
سبھی نے ناشتہ کیا، چائے پیا۔ پھر رمبھا رات کا کھانا
بنانے لگی اور سریندر گھر کے باہر چلا گیا۔ وہ نغمہ کے ہی گھر گیا۔ اسے کنواری
لڑکی کو چُودنا پسند نہیں تھا۔ لیکن بیٹے نے کہا کہ نغمہ کو اس کا لنڈ پسند آیا تو
وہ نغمہ کو چُودنے کے لیے بے قرار ہو گیا۔
سریندر دونوں بہن نغمہ اور سلطانہ کے ساتھ ان کے ابو
حامد سے باتیں کر رہا تھا۔ تیسری بہن سلمہ بھی وہیں بیٹھی تھی۔ ایک گھنٹے سے زیادہ
ہو گیا تھا۔ پھر بھی نغمہ کی آنکھوں کے سامنے سریندر کا لنڈ جھول ہی رہا تھا۔
نغمہ ۔۔ چاچو جان، آپ جادو ٹونا جانتے ہیں کیا؟ جس سے
بھی بات ہوتی ہے، چاہے وہ جوان لڑکی ہو یا پھر 2 بچوں کی ماں۔ سبھی آپ کے بارے میں
ہی بات کرتی ہے۔ سلطانہ آپا تو آپ سے نکاح ہی کرنا چاہتی ہے۔ میری کئی سہیلیاں ہیں
جو آپ کی رنڈی بننے کو تیار ہیں۔
حامد ۔۔ چپ رہ چھوکری، کیا فضول بات کر رہی ہے!
نغمہ ۔۔ ابو، مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ میں کیا بول
رہی ہوں۔ میں سنجے سے صرف اس لیے نکاح نہیں کروں گی کہ وہ مجھے بہت پسند ہے۔ اس
لیے بھی نکاح کروں گی کہ اس گھر میں سریندر جیسا مرد رہتا ہے۔ مجھے بولنے میں کوئی
شرم نہیں ہے۔ اگر چاچو، آپ کے دوست، مجھے چُودنا چاہے گا تو میں خوشی خوشی چُدواؤں
گی۔
یہ لوگ باتیں کر رہے تھے تو ان کی امی نائلہ بھی آ گئی۔
نائلہ ۔۔ بیٹی، تجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ سریندر کا
اپنے گھر سے کیا رشتہ ہے۔ پھر بھی تو ایسی بات کر رہی ہے۔ تجھے بہت گرمی چڑھی ہے
تو جا، آج سے ہی سنجے کا بستر گرم کر۔ سریندر جی کے ساتھ بستر گرم کرنے کا کیوں
سوچ رہی ہے۔ وہ تیرے باپ کے سمان ہے، تیرا سُسر ہو گا۔ باپ اور سُسر سے کوئی
چُدواتی ہے کیا؟
نغمہ ۔۔ سنجے کب میرے ساتھ رات گزارے گا نہیں معلوم۔
لیکن سریندر جی تیار ہیں تو میں آج رات ہی ان کے ساتھ سہاگ رات منانے کو تیار ہوں۔
چاچو، چلو میرے روم میں، مجھے چُودو۔
نغمہ نے کھل کر کہہ دیا کہ وہ سریندر سے چُدوانا چاہتی
ہے۔ نغمہ کی بات سُن کر سریندر کا ہی نہیں حامد کا لنڈ بھی پورا ٹائٹ ہو گیا۔
سلطانہ نے ٹاپک کو چینج کیا۔
سلطانہ ۔۔ امی، میں بولنا بھول گئی۔۔ کل رات تمھاری
سوُتن رمبھا نے مجھے اور ابو کو کھانے پر بلایا ہے۔ ہم جائیں گے۔
نغمہ ۔۔ صرف تم دونوں کو!
سلطانہ ۔۔ ہاں، صرف مجھے اور ابو کو، تجھے سریندر چاچو
سے چُدوانا ہے تو کہیں اور چُدوانا۔ کباب میں ہڈی بننے وہاں مت آ جانا۔ تو جانتی
ہے نا کہ میرا اور رمبھا کا کیا رشتہ ہے۔
سریندر ۔۔ نائلہ، ان دونوں لڑکیوں نے بہت گرم کر دیا
ہے، تم اپنا سپیشل ‘فالودہ’ کھلا دو سب ٹھنڈے ہو جائیں گے۔
کچھ ہی دیر بعد نائلہ نے سبھی کو بھُنا ہوا گوشت کے
ساتھ فالودہ کھلایا۔ دو گھنٹے کے بعد سریندر اس گھر سے نکل کر واپس اپنے گھر آ
گیا۔
نغمہ کے گھر میں کیا بات ہوئی وہ سریندر نے نہ سنجے کو
بتایا، نہ ہی رمبھا کو۔ نہ ہی سلطانہ نے ہی کسی کو بتایا۔ لیکن سریندر نے اگلے ہی
دن نغمہ کو چُودنے کا فیصلہ کر لیا۔
اس نے اپنے آپ سے کہا، “نائلہ کو 22 سالوں سے چُود رہا
ہوں۔ لیکن اب نغمہ کو چھوڑے بنا نہیں رہ سکتا ہوں۔ کل ہی نغمہ کو چُودوں گا۔ سالوں
بعد کسی کنواری لڑکی کو چُودوں گا۔۔” سریندر کو یقین تھا کہ نغمہ کنواری ہی ہو گی۔
سریندر گھر پہنچا۔ کھانا پینا ہوا۔ تینوں بیٹے اپنے روم
میں گھُسے۔ سریندر خود ننگا ہوا اور پھر رمبھا کو بھی ننگا کیا۔ تھوڑی دیر کی مستی
کے بعد پَتنی کو چُودنے لگا۔
10
منٹ کی ہی چُدائی ہوئی ہو گی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔
دونوں سمجھ گئے کہ کون دستک کر رہا ہے۔ لگاتار دستک ہو رہی تھی۔
رمبھا ۔۔ مادرچود، بہت پریشان کرنے لگا ہے۔ دن میں مجھے
چُدائی کا تصویر دکھایا اور اب تمھارے سامنے مجھے چُودنے آ رہا ہے۔ آج حرامی کی
گانڈ میں لنڈ پیل ہی دو۔
سریندر نے خود ہی بیٹے کو روم میں آنے کہا تھا۔ بیڈ سے
اُتر اس نے لنگی پہنی اور دروازہ کھولا۔ سامنے سنجے ننگا کھڑا تھا۔
شام کو نغمہ نے سریندر کا لنڈ دیکھا۔ اور وہ اپنے باپ
کے عمر کے آدمی سے چُدوانے کے لیے بے قرار ہو گئی۔ سنجے نے بھی باپ کو دونوں بہن
نغمہ اور سلطانہ کو چُودنے کے لیے اکسایا۔
اتنا ہی نہیں اس نے باپ کے لنڈ کو منہ میں بھی لیا۔
سریندر اتنا خوش ہو گیا کہ اس نے خود سنجے سے ماں کو چُودنے کے لیے کہا۔ رمبھا نے
پَتنی سے کہا کہ وہ بیٹے سنجے کی گانڈ مارے۔
سنجے ۔۔ بابو جی آپ نغمہ یا جس کے ساتھ چاہیں میری شادی
کروا دیجیے۔ آپ ہی اس کے ساتھ سہاگ رات منانا، آپ ہی اسے دن رات چُودنا۔ آپ جب
بولیے گا میں آپ کا لنڈ چُوس دوں گا۔ آپ چاہو تو میری گانڈ بھی مارو۔ لیکن مجھے
اپنی گھر والی، اس خوبصورت عورت رمبھا کو، اپنی ماں کو چُودنے دو۔
سریندر نے بیٹے سے کہا ضرور تھا پھر بھی بیٹے کی بات سن
کر وہ شاکڈ رہ گیا۔ رمبھا نے بھی باپ سے ماں کی چُدائی کا پرمیشن مانگنے کہا تھا
لیکن اس نے امید نہیں کی تھی کہ سنجے اتنا ہمت دکھائے گا۔ سنجے کی ہمت اور بے شرمی
دیکھ کر دونوں سرپرائز بھی تھے اور شاکڈ بھی۔
دونوں چپ رہے۔ سنجے نے ماں کے رانوں کے بیچ پوزیشن لیا۔
ایک ہاتھ سے لنڈ کو پکڑ کر چوت میں دبایا۔ صبح سے چوتھی بار ماں کی چوت میں لنڈ
دبایا تھا۔ چوت نے لنڈ کو پہچان لیا۔ لنڈ اپنے آپ چوت کے اندر گھُستا چلا گیا۔
سنجے چھاتیوں کو دباتے ہوئے زوردار دھکا مارنے لگا۔
بیٹے کے ساتھ چُدائی نے کنفرم کر دیا کہ بیٹا باپ سے اچھا چُدائی کرتا ہے۔ دھکے
میں طاقت بھی زیادہ تھا اور سپیڈ بھی۔ کچھ دیر رمبھا نے برداشت کیا۔
پھر بیٹے کے ننگے بدن کو سہلانے لگی۔ وہ میٹھی میٹھی
مستی کی سسکی مارنے لگی۔ تھوڑی مستی لینے کے بعد اسے ہوش آیا ہو گا۔
رمبھا ۔۔ بیٹا، تیرا لنڈ اچھا ہے، تو اچھا سے چُود بھی
رہا ہے۔ لیکن بیٹا ماں کو چُودنا مہا پاپ ہے۔ بیٹا، تم نے ماں کو ننگا دیکھ لیا،
اس کی چوت میں لنڈ بھی پیل دیا اب نکال لے پاپ مت کر۔ آگے سے کبھی ماں کے چوت میں
لنڈ مت پیلنا۔
لیکن رمبھا دل سے چاہتی تھی کہ بیٹا اسے شوہر کے سامنے
خوب جم کر چُودے۔ اس نے بیٹے سے لنڈ نکالنے کہا۔ لیکن دونوں ہاتھوں اور تھائیز سے
اس نے بیٹے کو ٹائٹلی جکڑ لیا۔ رمبھا صبح میں بھی دیکھ چکی تھی۔
سلطانہ کے سامنے چُدوایا تھا تب بھی دیکھا تھا کہ سنجے
میں بہت طاقت ہے۔ اس نے ٹائٹلی جکڑا تھا پھر بھی سنجے دھکا پر دھکا مار ہی رہا
تھا۔ سنجے نے ایک دن میں پانچویں بار ماں کی چوت میں لنڈ پیلا تھا۔ اس کا سٹیمنا
بہت بڑھ گیا تھا۔
اس نے کچھ جواب نہیں دیا، خوب رگڑ رگڑ کر چُودتا رہا۔
بیٹے کی چُدائی باپ کو بھی بہت پسند آ گئی۔
سریندر ۔۔ واہ بیٹا، تو تو پورا مرد ہو گیا ہے۔ کوئی
بھی عورت تجھ سے چُدوا کر بہت خوش ہو گی۔ کل مجھے دن میں ایک بجے ایک صاحب کے گھر
میں 2 اچھی عورتوں کو چُودنا ہے۔
سریندر ۔۔ لیکن ایک بہت ضروری کام یاد آ گیا ہے۔ اس لیے
میری جگہ تو ہی چلا جا۔ میں انہیں بتا دوں گا۔ اگر تم نے ان دونوں کو خوش کر دیا
تو پھر تیرے آگے لڑکیوں کی، عورتوں کی لائن لگ جائے گی۔
35
منٹ کی چُدائی ہوتے ہوتے رمبھا جھڑ گئی۔ سنجے نے ماں کے
گالوں، ہونٹوں کو چوما اور لنڈ کو چوت سے باہر نکالا۔
سنجے – بابو جی، میں نے آج ماں کو پہلی بار چُودا ہے۔
مجھے بہت ہی زیادہ مزہ آیا۔ آپ ماں کو 20۔۔21 سال سے چُود رہے ہیں، آپ نے کبھی ماں
کی چوت کے اندر کے مال کا سواد نہیں لیا ہے نا۔ دیکھیے ماں کی چوت کے رس اور اندر
کے مال سے میرا لنڈ کتنا چمک رہا ہے۔
سنجے ۔۔ واہ بابو جی، آپ کا لنڈ پیلنے کے لیے پورا تیار
ہے، چُودئیے میری ماں کو۔۔
سنجے دونوں ماں باپ کے ننگے بدن کو سہلاتا رہا اور
سریندر اپنی گھر والی کو چُودتا رہا۔ سریندر نے جب بھی کسی کو چُودا تو ہمیشہ چوت
کے اندر ہی رس گرایا تھا۔ اس نے کبھی کنڈوم لگا کر نہیں چُودا۔ عورت ہی برتھ کنٹرول
میڈیسن استعمال کرتی تھی۔
سنجے نے 35 منٹ چُودنے کے بعد لنڈ باہر نکالا تھا لیکن
سریندر 20 منٹ بھی نہیں چُود پایا۔ وہ چوت میں ہی جھڑ گیا۔ لنڈ چوت سے باہر نکلا
تو سنجے نے پہلے لنڈ کو چاٹا اور اس کے بعد 10۔۔12 منٹ اچھی طرح چُوسا۔
سنجے ۔۔ ماں، تو کُتیا بن اور بابو جی کا لنڈ چُوس۔ میں
اپنی کُتیا کی چوت چاٹ کر چُودوں گا۔
رمبھا حد سے زیادہ خوش تھی، اس نے کوئی اعتراض نہیں
کیا۔ اس نے کُتیا کا پوز لیا اور سریندر کا لنڈ چُوسنے لگی۔ سنجے نے کُتا کے جیسا
پیچھے سے 15 منٹ چُوت سے لے کر گانڈ کے چھید تک چاٹا اور کھڑے کھڑے چُودنے لگا۔ اس
بار رمبھا نے کوئی گیان نہیں دیا۔ خوب مستی سے چُدوایا۔
اور اس طرح دونوں باپ بیٹا نے اس رات رمبھا کو آرام
نہیں کرنے دیا۔ پوری رات چُودا۔ تینوں بہت خوش تھے۔