امی کی پیاس ۔۔۔۔

 


میرا نام سعد ہے ہمارے گھر میں میں اور امی ہی رہتے ہیں۔

میرے ابو کو جیل ہو گئی تھی 5 سال پہلے شراب بیچنے کے جرم میں۔ ہم نے اس کے بعد بہت برا وقت دیکھا۔میرا سکول بھی چھوٹ گیا تھا اور میں گھر پر ہی رہنے لگا۔ امی جاب کرنے لگیں  تب گھر کا خرچہ چلنےلگا۔ میری امی کی عمر بیالیس سال  ہے اور میری عمر 17 ہے۔

اب شروع ہوتی ہے کہانی۔

ایک دن ایسا ہوا کہ امی اپنے کمرے میں رو رہی تھی۔ ہمارے گھر میں صرف 2 ہی کمرے ہیں اور برآمدہ ہے۔ میں اندر گیا، امی کو روتا دیکھ میں پریشان  ہوگا اور  پوچھا، امی جان کیا بات ہے، کیا ہوا؟ امی روتی رہی۔ میرےزور دینے پر بولی کہ بیٹا تمہارے ابو کی یاد آ رہی ہے۔ تو میں بولا، امی اس انسان کی کیوں یاد کر رہی ہو جس نے آپ کی کبھی فکر ہی نہیں کی۔جس کی وجہ سے  ہم آج اس حال میں ہیں ۔ امی روتی جا رہی تھی۔ پھر امی بولی کہ بیٹا میں ایک عورت بھی ہوں، عورت کی اپنی ضرورت ہوتی ہے جو تم نہیں سمجھ سکتے۔ تو میں نے پوچھا، امی ایسی کیا ہے جو میں نہیں سمجھ سکتا، بتائیں مجھے۔ امی نے منع کیا اور کہا کہ بیٹا میں یہ نہیں بتا سکتی، تم ابھی چھوٹے ہو۔ تو میرے زور دینے پر امی نے کہا کہ بیٹا جیسے ایک عورت کو اپنے مرد کی ضرورت ہوتی ہے اپنے جسم کی ضرورت کو پورا کرنے کے، ویسے ہی مجھے بھی ضرورت ہے۔ تو میں نے کہا، امی میں بھی تو لڑکا ہوں، آپ کی کیا ضرورت ہے، میں پوری کر دیتا ہوں؟

تو امی بولی، بیٹا ایسا نہیں ہو سکتا، تم میرے بیٹے ہو۔ میں نے کہا، امی اس میں کچھ نہیں ہوگا، آپ کو روتا دیکھ نہیں سکتا، میں آپ کی ہر ضرورت پوری کروں گا، وعدہ ہے میرا۔ لیکن وہ بات جو پوائنٹ تھا، میں نہیں سمجھا۔ اور امی نے کہا، بیٹا تم نہیں سمجھ رہے۔ میرے کافی زور دینے پر امی نے فائنلی بتانے لگی۔ امی نے کہا، بیٹا جہاں سے تم آئے، یعنی میری کوکھ  سے، وہاں کی ضرورت، جسم کی ضرورت جو صرف میرے شوہر ہی پوری کر سکتے ہیں، جسے مرد کا وہ حصہ عورت کے اس حصے میں جاتا ہے تب ضرورت پوری ہوتی ہے۔ تو میں بولا، امی مجھے نہیں پتا آپ کیا کہہ رہی ہیں۔ تو امی نے کہا، بیٹا چھوڑو، تم جاؤ، بعد میں کرتے ہیں بات۔ تو امی بھی اٹھی اور نہانے چلی گئی اور میں اس وقت سوچتا رہ گیا کہ کیا ہوتا وہ جو عورت کو چاہیے کیونکہ  مجھے سیکس کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا۔میں زیادہ باہر نہیں نکلا اور مجھے اتنا کچھ پتا نہیں تھا۔ تو ایسی ہی شام ہو گئی اور کھانا کھا کر امی کے ساتھ بیٹھ گیا اور پھر سے امی سے وہی سوال کیا اور امی نے نہیں بتایا اور ہم سو گئے۔ میں روز امی سے سوال کرتا، امی نہ بتاتی۔ 3 دن بعد امی مجھے اب عجیب نظر سے دیکھنے لگ گئی تھی۔ اگر میں ان سے ٹچ ہوتا تو امی کی آنکھیں بند ہو جاتیں۔ 5 دن بعد میں نے پھر سے پوچھا اور پہلے سے زیادہ زور دینے پر امی نے کہا، بیٹا ٹھیک ہے، میں بتاتی ہوں لیکن ایک وعدہ کرو، یہ بات ہم ماں بیٹے کے بیچ میں ہی رہے گی۔ میں نے امی سے وعدہ کیا کہ میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گا۔

امی نے کہا، اندر کمرے میں آؤ۔ میں پیچھے امی کے کمرے میں گیا اور امی نے دروازہ لاک کر دیا اور میرے پاس آئی اور میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی پھدی پر رکھا، کپڑوں کے اوپر سے ہی، کہا کہ یہاں سے تم آئے تھے۔ اور امی نے اب اپنی شلوار کا نالہ کھولا۔ امی ہمیشہ جھانجھر والا نالہ پنجابی سٹائل کا پہنتی ہے، بڑا والا۔ امی نے نالہ کھولا اور شلوار نیچے گرا دی اور اپنی پینٹی بھی اتارنے لگی۔ میں دیکھتا ہی رہ گیا اور اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ اتنی دیر میں امی نے میرا ہاتھ ہٹایا اور کہا، بیٹا یہاں مرد اپنا لن ڈالتا ہے اور عورت کو سکون دیتا ہے۔ جہاں سے تم پیشاب کرتے ہو وہ اسے لن کہتے ہیں۔ امی کی قمیض بار بار نیچے گر جاتی تھی۔ امی نے قمیض بھی اتار دی اور صرف برا میں رہ گئی۔ اب امی جان میرے سامنے صرف برا میں تھی۔ میں امی کا جسم دیکھتا ہی رہ گیا۔ امی کافی موٹی، چبی اور بڑے بوبز والی عورت ہیں۔ پکا کہہ سکتا ہوں کہ 5 کلو دودھ تو پکا دے سکتی ہیں۔ ان کا جسم بہت ہی خوبصورت ہے ۔میں دیکھتا ہی رہ گیا اور امی میرے پاس آئی اور میری شلوار اتارنے لگی۔ میں چپ تھا، جیسے زبان ہی نہیں رہی میرے اندر۔ اور امی نے جب میرا لن دیکھا تو دیکھتے ہی رہ گئی۔ میرا لن فل ہارڈ کھڑا تھا، 6 انچ کا لن تھا، صرف اتنی سی ہی عمر میں۔

امی کے منہ سے فوراً نکلا  میں قربان جاؤں اپنے بچے کے۔ میں نے کہا، کیا ہوا امی؟ تو امی نے کہا، بیٹا میری ضرورت کو پورا کرو گے، تم نے کہا تھا ہر طرح کی ضرورت پوری کروں گا۔ میں نے کہا، ہاں امی جان، بالکل ہر ضرورت پوری کروں گا۔ تو امی فوراً نیچے آئی اور میرے لن کو پکڑ کر ایک کس کی۔ امی جان کا ہاتھ لن پر لگتے ہی میرے اندر تو جیسے طوفان آ گیا ہو۔ امی نے دیکھتے دیکھتے ہی کس کی لن کے ٹاپ پر۔ میں تو جیسے ہل سا گیا اندر سے اور امی نے میرے لن کو اپنے منہ میں لے لیا اور پاگلوں کی طرح چوسنے لگ گئی،  میں مزے سے  تڑپنے لگ گیا۔مگر امی کا جنون بڑھتا جارہا تھا۔وہ زور زور سے میرا لن چوسنے لگیں ۔ایسی پاگلوں جیسے کہ مجھے درد ہونے لگ گیا لیکن میں نے برداشت کیا اور امی کو کچھ نہیں کہا۔ اور امی نے کافی دیر تک میرا لن چوسا، قریب دس  منٹ میرا لن چوسا۔ اور امی نے جب منہ اوپر اٹھایا تو امی کے چہرے پر جیسے جوانی واپس آ گئی ہو اور ایسی خوشی تھی جیسے نئی زندگی مل گئی ہو۔ امی نے اپنی برا بھی نکال دی اور میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے بڑے مموں  پر رکھ کر کہا، بیٹا انہیں زور سے دباؤ، جتنا زور سے ہو سکے۔ میں نے ویسا ہی کیا اور جتنا مجھ سے ہو سکا زور سے پریس کیے اور امی کی آنکھیں بند ہونے لگیں اور جیسے مدہوش ہو گئی ہو۔ امی نے سب کہا، بیٹا نیچے منہ لے کر جاؤ اور میری پھدی کو چاٹو۔ میں نے ویسا ہی کیا اور امی کی پھدی کو چاٹنے لگ گیا لیکن مجھے سہی سے پتا نہیں تھا کہ کیسے چاٹنا ہے تو امی نے اپنی پھدی کو اور زیادہ کھولا اور کہا، یہاں اندر زبان ڈال کر چوسو، زور زور سے۔ میں نے دیکھا کہ امی کی پھدی کا ہول اتنا بڑا تھا کہ میرے 2 ہاتھ بھی اندر چلے جائیں تو امی کو درد نہیں ہوگا۔ میں چوسنے لگا اور امی تو جیسے مدہوش میں سسکیریں لینے لگی، آہ ہ ہ ہ ہ ہ آآآہ آآآہ  میری سر کو اور دبا کر اندر کرنے لگی اپنی پھدی میں۔ میرا ناک اور منہ پھدی میں ہی گھس گیا اور امی میرے سر پر ہاتھ پھیر رہی تھی اور سسکاریاں  لینے لگی، آآآہ آآآہ آآآہ بیٹا  اتنے سال بعد میری پھدی کو کسی نے ہاتھ لگایا، اور چوسا ہے ۔آآآآہ بیٹا اور زور سے چوسووووو۔۔آآآآہ آآآہ ۔۔۔ میں قریب  پندرہ  منٹ تک امی کی پھدی کو چاٹتا رہا اور اتنی دیر میں امی کانپنے لگی اور میرے سر کو اور زیادہ کس کے پھدی میں دبا دیا۔ اچانک میرے منہ پر پانی کا فوارہ آیا، اتنا پانی جیسے شاور کھل گیا ہو۔ امی نے کہا، بیٹا جلدی کرو اسے پیو۔ میں نے ویسا ہی کیا اور امی کا سارا پانی پینے لگا۔ تھوڑا نمکین تھا لیکن ٹیسٹی تھا، اتنا ٹیسٹی کہ کچھ مت پوچھو۔

امی جان تو جیسے کے اندر سے روح نکل گئی ہو۔ اتنا پانی امی جان نے نکالا کہ میرے سارے جسم پر امی کا پانی لگ گیا تھا۔ امی اٹھی اور مجھے اپنے سینے سے لگا لیا، بوبز کے اوپر کس کے اور خوشی سے کہنے لگی، میرے بچے نے میری ضرورت پوری کر دی، میرا بچہ اب آگے سے بھی پوری کرے گا نا۔ میں نے کہا، امی آپ جب حکم کرو گی، میں حاضر ہو جاؤں گا۔ امی نے مجھے کس کے گلے سے لگایا اور میرا بچہ، میرا لال، میرا بیٹا، میرا پیارا بیٹا کہنے لگی اور ہم وہیں سو گئے، پتا ہی نہیں چلا...

صبح ہوتے ہی میں نے دیکھا کہ امی جان ساتھ نہیں ہیں۔ میں ابھی اٹھنے ہی لگا تو کمرے میں امی آئی اور میں نے دیکھا کہ میں فل ننگا تھا۔ میں شرم کے مارے اپنا لن چھپانے لگا تو امی نے اسمائل  دی اور میرے پاس آ کر بیٹھ گئی اور مجھے چوما اور ہونٹوں پر ایک کس کر دی۔ میرا لن تو کھڑا ہو گیا۔ تبھی امی جان نے کہا، بیٹا کل جو تم نے مجھے سکون سکھ دیا وہ تمہارے ابو نے بھی کبھی نہیں دیا۔ میرا پیارا بچہ، میری جان، آج بھی اپنی امی کو خوش کرو گے نا؟ میں نے کہا، امی جان آپ کو اب ساری زندگی میں خوش رکھوں گا، جو آپ کہو گی وہ کروں گا۔ تبھی امی نے لن کو پکڑا اور کہا، دیکھو تو کتنا بڑا اور پُر کشش لن ہے، ہائے میں صدقے اپنے  پیارے بیٹے کے، صدقے سو سو واری صدقے جاؤں اپنے بچے کے۔ امی تھوڑا جھکی اور لن منہ میں لے لیا اور چوسنے لگ گئی۔ اوففففف کیا بتاؤں دوستو وہ احساس دنیا کا ایک الگ ہی احساس تھا، مانو جیسے میں جنت میں ہوں۔ امی کسی پورن سٹار سے کم نہیں تھی چوسنے میں۔ میرا پورا لن امی کے حلق تک جا رہا تھا اور امی لن کو چھوڑ ہی نہیں رہی تھی۔ دس منٹ چوسنے کے بعد میرا پانی نکلنے لگا تو امی کو کہا، امی میرا سوسو نکلنے لگا۔ تو امی نے چوسنے کی سپیڈ اور تیز کر دی۔ میرا سارا پانی امی جان کے منہ میں چلا گیا جسے امی نے مزے اور لذت سے چاٹ کر پی گئی اور لن کو بھی چاٹ کر صاف کر دیا۔ میں ادھر ہی لیٹ گیا اور امی نے میرے سر پر چوما اور ہاتھ پھیر کر، میرا پیارا بچہ، میری زندگی ہو تم، ایسے ہی اپنی امی کو خوش رکھو اور میں تمہیں خوش رکھوں گی، میرے بچے، میری جان ، میرے جگر کا ٹوٹا، مووووواہ، میرے ہونٹوں پر کس کی اور ناشتہ لانے چلی گئی۔ میں اٹھا اور نہایا۔ نہا کر ناشتہ کرنے بیٹھ گیا۔ ناشتہ کرنے کے بعد امی جاب پر چلی گئیں ۔ میں اب اکیلا تھا گھر۔ ہمارے گھر کے ساتھ ایک لڑکی رہتی ہے، اسے میں اپنی بڑی بہن مانتا ہوں۔ وہ مجھ سے 10 سال بڑی ہے، 27 سال کی ہیں۔ وہ اور جسم، اوففف قیامت، بڑے بوبز اور بڑے چوتڑ۔ وہ اکثر ہمارے گھر آتی تھی۔ ہم بیٹھ کر باتیں کرتے تھے امی جان کے ساتھ اور وہ اکثر مجھے اپنی گود میں بٹھا کر رکھتی تھی، میرے بالوں میں ہاتھ پھیرتی رہتی تھی۔ وہ اب ہمارے گھر آئی۔ میں اندر تھا، ننگا ہی لیٹا تھا، صبح سے کپڑے ہی نہیں پہنے تھے اور دروازہ لاک بھی نہیں کیا تھا۔ وہ اندر آگئی، مجھے پتا ہی نہیں چلا۔ وہ اندر آگئی۔ میں اپنے کل رات اور آج صبح والے کے بارے میں سوچ رہا تھا اور لن فل کھڑا تھا۔ میں انہیں باجی کہہ کر ہی بلاتا تھا۔ اچانک میری نظر ان پر پڑی تو فوراً میں اپنے لن پر ہاتھ رکھ کر چھپانے کی ناکام کوشش کرنے لگا لیکن لن بڑا تھا، بار بار باہر نکل آتا تھا۔ باجی میرا لن دیکھ کر وہیں سٹاپ ہو گئی اور ان کی نظر میرے لن پر ہی ٹک گئی۔ اچانک سے انہیں ہوش آیا اور کہا کہ سعد، تم نے کپڑے کیوں نہیں پہنے؟ تو میں نے ہڑبڑا کر کہا کہ باجی بہت گرمی ہے اس لئے۔ تو باجی باہر جانے کی بجائے میرے پاس آ کر بیٹھ گئی اور مجھے کہا، یہ ہاتھ کیوں رکھا، ہٹاؤ اسے ذرا۔ تو میں سوچ میں پڑ گیا۔ اتنی دیر میں باجی نے ہاتھ پکڑا اور ہٹا دیا۔ باجی نے میرا لن پکڑ لیا۔ میرے اندر تو جیسے 420 وولٹ کا جھٹکا لگا ہو۔ باجی پکڑ کر میرے لن کو غور سے دیکھنے لگی کہ یہ واقعی میں اصلی ہے، اتنا بڑا لن کیسے ہو سکتا ہے اتنی سی عمر میں (باجی کا نام بتانا بھول ہی گیا، باجی کا نام عائشہ ہے)۔ اور باجی نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے بوبز پر رکھا اور میں بوبز کو ڈرتے ڈرتے ہی پکڑ رہا تھا۔ باجی میرے کان کے پاس آئی اور کہا، سعد گھبراؤ مت، پکڑو اپنی باجی کے بوبز، اچھے ہیں نا، پسند ہیں تمہیں؟ تو میں ہاں میں سر ہلایا۔ اب باجی نے قمیض اتار دی اور برا میں رہ گئی اور اب باجی نے مجھے لٹایا اور میرے اوپر چڑھ کر اپنی برا نکال دی۔ اوففففف باجی کے وہ ڈارک براؤن نپل اور بڑے نپل جو باہر کو نکلے تھے، میں دیکھتا ہی رہ گیا۔ اتنی دیر میں باجی نے میرا سر پکڑا اپنے بوبز میں گھسا دیا اور میں چوسنے لگ گیا۔ باجی بہت جوش میں لگ رہی تھی۔ اتنا زور سے میرا سر باجی نے اپنے بوبز میں دبایا کہ سانس تک نہیں آ رہی تھی۔ باجی نے سر چھوڑا، میں واپس لیٹ گیا اور باجی میرے کان کے پاس آئی اور کہا کہ سعد، مزا آیا اپنی باجی کے بوبز چوس کر؟ بہت سے لڑکے پاگل ہیں میرے پیچھے، تم بہت خوش قسمت ہو کہ باجی نے اپنے چھوٹے بھائی جیسے کو اپنا جسم دیا۔ میں تو جیسے کسی اور ہی دنیا میں تھااتنی دیر میں باجی نے میرے لن کو چوسا ہلکا سا اور میرے لن پر بیٹھنے لگی، اپنی پھدی میں ڈال کر ایک دم سے جھٹکا دے کر بیٹھ گئی۔ ایک ہی جھٹکے میں سارا لن باجی عائشہ کی پھدی میں چلا گیا۔ باجی کی چیخ نکل گئی اور باجی جمپ لگا کر فوراً اٹھی اور سائیڈ ہٹ کر بیٹھ گئی۔ جب میں نے دیکھا تو باجی ٹانگوں پر سے خون بہہ رہا تھا۔ میں ڈر گیا، یہ کیا ہو گیا۔ میں جب باجی کی پھدی میں دیکھا تو وہاں سے خون آ رہا تھا۔ باجی تو پہلے سے ہی شادی شدہ ہیں، پھر کیسے ہو سکتا ہے۔ باجی کی پھدی پھٹ گئی تھی۔ باجی نے کچھ سوچنے سے پہلے مجھے لیٹنے کو کہا۔ میں لیٹ گیا اور باجی سیدھا میرے منہ پر آ کر بیٹھ گئی اور کہا، چاٹ کر پھدی کو صاف کرو۔ میں نے کہا، باجی اتنا کہا ہی تھا کہ باجی میرے منہ پر بیٹھ گئی۔ اب میرے پاس اور کوئی چوائس نہیں تھی خون والی پھدی چاٹنے کے لیوے۔ میں چاٹنے لگا۔ باجی کی پھدی کا ٹیسٹ امی کی پھدی کے ٹیسٹ سے کافی الگ تھا۔ امی کی پھدی سے فل سالٹی پانی آتا ہے اور باجی کی پھدی سے نارمل اور بہت ہی صاف اور خوشبو والی سمیل تھی۔ میں اب مزے سے چاٹنے لگا۔ سارا خون چاٹ کر صاف کر دیا۔ باجی بھی مدہوش تھی اور سسکیریں لے رہی تھی، آہہہہہ سسشششششش میرا پیارا بھائی، آہہہہہ چاٹو اپنی باجی کی پھدی کو، تم نے پھاڑ دیا اپنی باجی کی پھدی کو، چاٹو، آہہہہ آآآہ ۔ 10 منٹ چاٹنے کے بعد باجی پھر سے میرے لن پر بیٹھنے لگی اور ایک ہی جھٹکے میں باجی کی پھدی میں لن چلا گیا اور اس بار باجی فل نشے میں مزے کے ساتھ لن پر اچھل رہی تھی۔ باجی نے میرے ہاتھ پکڑے اور اپنے بوبز پر رکھے اور کہا، سعد اپنی باجی کے بوبز اچھے لگے کہ نہیں؟ میں نے کہا، باجی آپ کے بوبز کافی بڑے اور کمال کے ہیں۔ تو باجی نے کہا، تو میرے نپل پر چٹکی کاٹو۔ میں نے ہاتھ سے نپل پر زور دار چٹکی کاٹی۔ باجی اب رکی اور اٹھی، میرے لن باہر نکالا تو پھک کی آواز سے باہر آیا باجی کی پھدی سے۔ اب بھی خون نکل رہا تھا۔ باجی نے کہا، میرے چھوٹے بھائی کا اتنا بڑا لن ہے کہ میری پھدی 2 بار پھٹ گئی۔ اب باجی ڈاگی سٹائل میں آئی اور مجھے کہا، پیچھے سے میری پھدی میں ڈالو۔ میں سیدھا ہوا اور باجی کی پھدی میں لن ڈالنے لگا اور ایک ہی جھٹکے میں لن اندر چلا گیا اور مجھے کہا، باجی نے اب تیز تیز جھٹکے مارو۔ میں نے ویسے ہی کیا اور ایسے ہی 25 منٹ باجی کو ڈاگی بنا کر چودتا رہا۔ میرا پانی نکلنے لگا۔ 25 منٹ میں باجی نے 2 بار پانی چھوڑا۔ میرا پانی نکلنے لگا۔ باجی، میرا سوسو نکلنے لگا۔ باجی نے کہا، میرے اندر ہی چھوڑو۔ میں نے ویسے ہی کیا۔ میرا پانی کی دھار باجی کے بچہ دانی کو لگی۔ میں نے کافی پانی چھوڑا۔ لن باہر نکالا تو میرے پانی کے ساتھ باجی کی پھدی سے خون کا اور میرے پانی کا مکسر نکل رہا تھا۔ باجی نے ہاتھ پھدی پر رکھا اور سارا پانی خون والا ہاتھ میں لیا اور چاٹنے لگی بڑے مزے سے، اوففففففف اتنی سالوں بعد چدائی کا مزا آیا۔ میرے ہسبینڈ تو 2 منٹ میں ہی فارغ ہو جاتے، اوپر سے لن بھی 3 انچ کا۔ اوففف سعد ادھر آؤ۔ باجی نے مجھے گلے سے لگایا اور چومنے لگی، سعد میری جان، میرے بھائی، آج تم نے اپنی باجی کو وہ سکھ دیا جو شاید ہی مجھے کبھی نصیب ہوتا۔ باجی مجھے پاگلوں کی طرح چوم رہی تھی۔ تو باجی نے اب جانا تھا تو باجی نے کپڑے پہنے لیکن اپنی انڈرویئر مجھے دے دی، بولا کہ تمہارا گفٹ، اور وہ انڈرویئر میرے منہ میں ڈال کر چلی گئی۔ میں وہیں پھر سے لیٹ گیا۔

ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی