وہ اجنبی لڑکی کون تھی ۔۔۔

 


دو ماہ پہلے میں کپڑوں کی الماری میں سے کچھ ڈھونڈ رہی تھی کہ میرے ہاتھ میرا بہت ہی پرانا پرس لگا جو کہ بغیر زِپ کے تھا۔ اُسے کھول کر دیکھا تو اُس میں چند ایک نیپکِن اور 2-4 پیپرز تھے۔ میں تجسّس کی وجہ سے اُن کو دیکھنے لگی۔ باقی کے تو کسی کام کے نہ تھے مگر ایک پیپر پر ایک ٹیلی فون نمبر لکھا تھا۔ کوئی نام وغیرہ نہ تھا کہ اندازہ ہوتا کس کا نمبر ہے۔ میں سوچنے لگ گئی کہ کس کا نمبر ہو سکتا ہے۔ پیپر پر کچھ داغ دھبّے سے تھے، کچھ اور بھی لکھا تھا مگر مٹ چکا تھا۔ مگر ٹیلی فون نمبر محفوظ رہا تھا۔ میں کافی دیر بیٹھ کر سوچتی رہی کہ کس کا ہو سکتا ہے۔ میرے حالیہ کانٹیکٹس میں سے تو کسی کا نہیں تھا۔ ایک تو خیال آیا کال کر کے پوچھ ہی لوں، مگر خود ہی اِس خیال کو رد کر دیا۔ اور یونہی پیپر کو اُسی پرس میں رکھ کر اُسی جگہ رکھ دیا۔ کچھ دیر تو میں ذرا اُلجھن میں رہی، اُس کے بعد میں بھول گئی اور روزمرہ کے کام نمٹا کر جب میں رات کو بیڈ پر لیٹی تو پھر وہی ٹیلی فون نمبر میرے ذہن میں گھومنے لگا۔ میں ناکام ہو کر تقریباً سو ہی چکی تھی کہ اچانک میرے دماغ میں چکا چوند سی ہوئی اور مجھے یاد آ گیا کہ یہ نمبر کس نے دیا تھا۔ مجھے خود یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں اُسے بھلا چکی تھی۔

یہ کوئی 5 سال پہلے کی بات ہے جب میری ابھی شادی نہیں ہوئی تھی مگر شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ میری شادی پھوپھی کے بیٹے سے ہونی تھی اور بدقسمتی سے میری پھوپھو اور میری خالہ میں کسی قسم کے تعلقات نہ تھے بلکہ ایک دوسرے کو دیکھنا بھی اُن کو گوارا نہ تھا۔ اِس لیے میری امی سے میری خالہ نے کہا کہ شادی سے پہلے کچھ دنوں کے لیے حمیرا کو ہمارے ہاں بھیج دو تاکہ اپنی کزنز سے مل لے۔ شادی کے بعد ممکن ہے سسرال والے اِسے ہم لوگوں سے ملنے دیں یا نہیں۔ تو میری امی نے مجھے خالہ کے ہاں 15-20 دن رہنے کے لیے کہا۔ حسبِ پروگرام میں نے 2 بجے دوپہر کی ٹرین پکڑی۔ لیڈیز کمپارٹمنٹ میں میری سیٹ کھڑکی کے پاس تھی۔ تھرڈ کلاس کی وجہ سے رش بہت زیادہ تھا۔ نیچے سیٹوں پر زیادہ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ ٹرین نے اسٹیشن چھوڑا تو تھوڑی دیر بعد لوگ ایڈجسٹ ہو گئے۔ میرے سامنے والی برتھ سیٹ پر کونے میں ایک لیڈی بیٹھی تھی۔ میں جب بھی اُس کی طرف دیکھتی تو اُسے اپنی طرف دیکھتے ہوئے پاتی۔ اُس کی نظریں مجھ پر ہی ہوتیں۔ پہلے تو میں نے نظر انداز کر دیا، مگر اُس کی نظروں میں کوئی ایسی بات تھی کہ میں بھی اُس کی جانب کسی نہ کسی بہانے دیکھنے لگی۔ وہ مجھ سے 2-4 سال بڑی ہو گی۔ خوبصورت ، اچھی سلجھی ہوئی، عمدہ لباس میں ملبوس، تعلیم یافتہ دکھتی تھی۔ مگر اُس کا دھیان مجھ پر ہی تھا۔ اُس کے دیکھنے کے انداز میں کوئی ایسی بات تھی کہ میں نروس سی ہونے لگی۔ میں پوچھنا چاہتی تھی کہ وہ کیوں مجھے یوں گھور رہی ہے، مگر مجھ میں حوصلہ نہ تھا کہ ایک بھرے کمپارٹمنٹ میں کسی عورت سے ایسا سوال کروں۔ میں نے آنکھیں موند کر سونے کی اداکاری کی، مگر تھوڑی دیر بعد جب آنکھیں کھولیں تو اُسے اپنی طرف ہی دیکھتے ہوئے پایا۔ مجھے آنکھیں کھولتے دیکھ کر وہ مسکرائی۔ سچی بات تو یہ ہے اُس کی مسکراہٹ واقعی بہت پیاری تھی مگر میں اُلجھن میں تھی۔ سب لوگ آپس میں باتوں میں مصروف ہیں اور وہ بس مجھے دیکھے جا رہی ہے۔ اب وہ نظروں میں مسکرانے لگی اور میرے لیے اُس کے پسندیدگی کے جذبات صاف نظر آ رہے تھے۔ وہ کبھی کبھار اپنے خشک مگر خوبصورت ہونٹوں کو اپنی زبان سے تر کرتی۔ کبھی اپنا دوپٹہ سینے پر ڈالتی کبھی کھسکا دیتی۔ میں نے ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھا تو اُس نے بھی رکھ لیا۔ میں اُفسٹ ہو رہی تھی۔ مجھے کچھ سمجھ نہ آ رہی تھی کہ اِس سے کیسے جان چھڑاؤں۔ میرے آس پاس جو لیڈیز تھیں وہ بڑی عمر کی تھیں۔ اِس لیے وہ آپس میں گپیں لگا رہی تھیں۔ جو میری ہم عمر تھی وہ مجھ سے بات کرنے کی بجائے مجھے تاڑنے میں لگی ہوئی تھی۔ میں سوچنے لگی ہو سکتا ہے وہ اسکول میں یا کالج میں ملی ہو یا جانتی ہو مگر میری یادداشت میں کوئی لڑکی اُس جیسی نہ تھی۔ میں کافی پریشانی محسوس کرنے لگی۔ اب اُس کی طرف دیکھتی تو اُس کی نظروں میں اپنے لیے پیار، محبت، پسندیدگی کے پیغامات ملتے۔ اُس کی آنکھوں میں جھانکنا مشکل ہوتا جا رہا تھا مگر خود کو اِس آنکھ مچولی سے باز بھی نہ رکھ پا رہی تھی۔ مجھے تجسّس تھا کہ اُس کے دماغ میں کیا ہے جو اُس نے مجھے ذچ کرنے کی ٹھان لی ہے۔ میں اُسے غصّہ سے دیکھنے لگی، مگر یہ میں خود جانتی تھی کہ بناوٹی غصّہ ہے جو وہ بھی جان گئی تھی کیونکہ اُس کی مسکراہٹ بڑی گہری ہو گئی۔ بہر حال اُس سے آنکھیں ملتے ہی میں نظریں جھکا لیتی اور اُس کی آنکھیں مسکرانے لگتیں۔ جیسے شکاری اپنے شکار کو جال میں پھنستے دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ میں کافی نروس ہو چکی تھی اور اُس کا دیکھنا مجھ سے دیکھا نہ جا رہا تھا۔ مجھے باتھ روم میں جانے کی حاجت ہو رہی تھی مگر کیونکہ اُس کے سامنے سے ہو کر جانا پڑتا تھا اِس لیے میں کافی دیر سے برداشت کر رہی تھی۔ ابھی کراچی پہنچنے میں 2 گھنٹے اور لگنے تھے۔ میں نے کافی کنٹرول کرنے کی کوشش کی مگر آخر کار مجبور ہو کر میں اُٹھی۔ اور اُس کی طرف دیکھے بغیر اُس کے سامنے سے گزری تو میرے گھٹنے اُس کے گھٹنوں سے ٹکرائے اور اتنی نروس تھی کہ سوری بھی نہ کہہ سکی، مگر اُس نے بڑی جلدی سے میری رانوں کو چھو لیا۔ میں جلدی سے آگے بڑھ گئی اور قریبی دروازے کے ساتھ جو باتھ روم تھا اُس کے سامنے 2 لڑکے کھڑے لڑکیوں سے گپ شپ لگا رہے تھے۔ لیڈیز کمپارٹمنٹ میں مرد! میں وہاں سے پلٹ کر دوسرے دروازے کی طرف گئی۔ وہاں کوئی نہ تھا مگر باتھ روم کو بند کرنے کے لیے کوئی چٹخنی نہ تھی۔ اب مجبوری تھی، مجھے پیشاب بڑے زوروں سے لگا تھا۔ اِس لیے اُسی میں داخل ہو کر بیٹھ گئی اور میرا پرنالہ بہنے لگا۔ میں نے سکون کا ایک لمبا سانس لیا۔ ابھی آخری قطرہ نکلا نہ تھا کہ دروازہ کھلا اور وہ لڑکی اندر داخل ہو گئی اور دروازے کو بند کر دیا۔ میں اُسے دیکھتے ہی اٹھ کھڑی ہوئی اور شلوار کا ازار بند باندھنے لگی تو جھٹ سے اُس نے اپنا ہاتھ میری شلوار میں ڈال دیا۔ میں نے اُس کی طرف غصّہ سے دیکھا تو نہ جانے اُس کی آنکھوں میں کیا تھا کہ میں بے بس ہو گئی، جیسے مجھ میں جان تک نہ رہی ہو۔ میری ٹانگیں کانپنے لگیں اور میرے ہاتھ سے ازار بند چھوٹ گیا اور شلوار نیچے پاؤں میں جا گری۔ اُس کا ہاتھ میری چوت  پر پھرنے لگا اور وہاں بالوں پر لگے میرے پیشاب سے انگلیوں کو تر کرنے کے بعد اُس نے اپنی انگلیوں کو سونگھا اور ایک لمبی سی سانس لے کر آنکھیں بند کر لیں۔ کچھ دیر کے بعد اُس نے اپنی انگلیوں کو ایک ایک کر کے چٹخارے لے کر چوسا اور پھر آنکھیں کھول کے میری طرف دیکھنے لگی۔ اُس نے ایک ہاتھ میری گردن کے پیچھے سے ڈال کر اپنی طرف کھینچا اور میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے اور دوسرا ہاتھ اُس نے پھر میری ٹانگوں کے بیچ پھیرنا شروع کر دیا۔دھیرے دھیرے اس کے ہاتھ میری چوت پر آگئے ۔ میں اُس کے زیرِ اثر آ چکی تھی۔ میں نے اپنی ٹانگیں تھوڑی سی کھول دیں تو وہ اپنی مرضی سے وہاں مسّاج کرنے لگی۔ مجھے اچھا لگ رہا تھا۔ میری حالت سپردگی کو محسوس کرتے ہوئے وہ میرے ہونٹ چوسنے لگی اور اُس کی انگلیاں میری چوت کے  ہونٹوں کی لکیر میں چھیڑ چھاڑ کرنے لگیں۔لذت سے میرا برا حال ہونےلگا۔میں یہ بھی بھول گئی کہ میں کہاں ہوں اور کیا کررہی ہوں ۔میری چوت گیلی ہورہی تھی  اور مزے سے میرا جسم کانپ رہاتھا۔ اُس نے میری زبان کو اپنے منہ میں لے لیا اور اُسے چوسنے لگی۔ میں مزے سے بے حال ہو رہی تھی۔ اُس کی 2 انگلیاں میری کنواری چوت میں  اندر داخل ہو کر کھجانے میں مصروف ہو گئیں۔ بے اختیار میرے ہونٹ اس کے نرم ہونٹوں پر دب گئے ۔ ساتھ ہی میں نے اپنے دونوں ہاتھ اُس کے سینے پر رکھے اور اُس کے اُبھاروں کو دبانے لگی۔ اُس کے بھرے بھرےممے  بغیر برا کے تھے۔ اُس نے صرف قمیض پہن رکھی تھی۔ میں اُس کی قمیض کے نیچے سے ہاتھ ڈال کر اُس کے نپلز کو مسلنے لگی تو اُس کے ہونٹوں سے لذّت بھری سسکاری سی نکلی۔ میں اُبھاروں کو زور سے دبا کر سہلایا، اُس نے میرا ایک ہاتھ پکڑا اور اُس کا اپنی چوت  سے تعارف کروایا جو کہ پہلے ہی گیلی ہو رہی تھی۔ بالوں سے مُبّرا، سمُوتھ اور پھسلتی جگہ کو چھو کر بہت اچھا لگا۔ میں نے اُس کے دانے کو چھوا تو وہ بے ساختگی میں مجھ سے چِمٹ گئی۔ شاید وہ کافی ہارنی تھی اِس لیے بہت حساس تھی کہ میری انگلیاں اندر لیتے ہی وہ زور سے کانپی اور میرا پورا ہاتھ اُس کے جوس سے لتھڑ گیا۔ میں بھی اُسی کے ساتھ بہہ گئی۔ ہم دونوں کے سانس بے ترتیب ہو چکے تھے اور ٹانگیں اپنے اپنے رس سے گیلی ہو گئی تھیں۔ وہ فارغ ہو چکی تھی۔ مگر نیچے بیٹھ کر اُس نے اپنے ہونٹ میری چوت سے لگادئیے ۔زندگی میں پہلی مرتبہ کسی مرد یا عورت کے ہونٹ میری چوت سے ٹچ ہوئے تھے ۔میں بے اختیار لذت سے چیخ اٹھی ۔اس کی زبان تیزی سے چلنے لگی ۔اور میری چوت کا  سارا رس چاٹنے لگی ۔ اس نے اپنے ہاتھ میری گانڈ پر رکھ دئیے اور اپنی درمیان والی انگلی سے میری گانڈ کے چھوٹے سے سوراخ کو سہلانے لگی ۔میں مزے سے پاگل ہونے لگی ۔میری چوت پھر سے پانی چھوڑنے لگی ۔وہ میری چوت پر اب زور زور سے اپنی زبان چلارہی تھی ۔اور میری چوت کا رس پی رہی تھی ۔میں آنکھیں بند کرکے  اپنی لائف کا بہترین جنسی مزا لے رہی تھی ۔اس نے میری چوت کا سارا رس  پی کر میری رانوں کو بھی چاٹ چاٹ کر اُن کی صفائی کر دی۔ اور اُٹھتے ہوئے میری شلوار اوپر اُٹھائی اور اپنے ہاتھوں سے میرا ازار بند باندھ دیا۔ اور میری آنکھوں کو چومتے ہوئے بولی، "کیوں چندا، تم تو ڈر رہی تھیں؟ تمہارے جیسی سیکسی لڑکی کو میں کیسے چھوڑ سکتی تھی؟" میں کوئی جواب نہ دے سکی بس شرما کر مسکرا دی۔ اتنے میں کسی نے دروازے پر ناک کی تو اُس نے اُسے تھوڑی دیر تک آنے کو کہا اور میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو چومنے لگے۔ کچھ دیر بعد اُس نے دروازہ کھول کے دیکھا تو راہداری میں کوئی نہ تھا۔ وہ جلدی سے باہر نکل گئی۔ ایک منٹ کے بعد میں بھی باہر نکلی اور سیدھی اپنی سیٹ پر جا بیٹھی۔ ہم دونوں میں وہاں بھی کوئی بات نہ ہوئی۔ مگر اب وہ مطمئن اور خوش نظر آنے لگی اور میرا اضطراب بھی ختم ہو گیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اُس کا اسٹیشن آ گیا تو اُس نے اوپر برتھ سے اپنا بیگ اُٹھاتے ہوئے وہاں سے میرا ہینڈ بیگ بھی اُٹھایا اور کچھ رکھ کر بیگ میرے ہاتھ میں دے دیا اور گڈبائے بول کر ٹرین سے اُتر گئی۔ میں نے پرس میں دیکھا تو ایک پیپر تھا جس پر گیلے دھبے اور فون نمبر تھا۔ آج پانچ سال بعد اُس نمبر کو دیکھ کر نہ جانے کیا کیا یاد آ گیا۔

 

ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی