Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

شاطر


 


میں تیز قدموں سے خالہ کے گھر کے دروازے پر پہنچا تھا ۔۔۔شام ہوچلی تھی ۔۔۔ دروازے پر دستک دی تو خالہ نے دروازہ کھولا تھا ۔۔۔ گھر میں داخل ہوا اور ڈرائنگ روم کی طرف جانے لگا ۔دروازہ کھول کر اندر جا کر بیٹھا۔۔دو راتیں پہلے والا منظر میرے سامنے پھر سے لہرایا تھا.......بڑی مشکل سے خود پر قابو پایا اور سکون کی سانس لینے لگا ۔۔ خالہ پانی لے ڈرائنگ روم میں پہنچی ......

پانی پینے کے بعد میں نے ثناء کا پوچھا تو پتا چلا کہ وہ ہمارے گھر گئی ہوئی ہے ۔۔وہاں کوئی دعوت ہو رہی تھی ۔۔میں نے پوچھا کہ آپ نہیں گئیں ۔۔انہوں نے کہا کہ نہیں وقار نے آج رات آنا تھا تو میں یہیں رکی ہوئی تھیں......ہم آمنے سامنے ہی بیٹھے تھے اور یقینا خالہ کے ذہن میں بھی وہ پچھلی رات گذر رہی تھی ۔خالہ نے چائے کا پوچھا اور میں نے ہاں میں سر ہلا دیا .......مجھے اپنی کار کا خیال آیا جو میں سعدیہ کے ہاں چھوڑ آیا تھا اور سعدیہ کی گاڑی رانا ہاؤس میں کھڑی تھی ......پہلے سعدیہ کو فون کیا اسے ہلکی پھلکی بات بتا کر واپسی کا بتایا اور گاڑی کا کہا کہ میں پہنچواتا ہوں کسی زریعے سے .......۔وہ بھی کچھ دن بعد فارغ ہو رہی تھی اور واپس آنے کا کہ رہی تھی ......فون بند کیا تو مجھے زارا کا خیال آیا جو کہ یہیں پر تھی اور شاید میری منتظر بھی تھی ......وقار کو فون کیا کہ کب تک آ رہے ہو......اس نے جواب دیا کہ آ ج رات میں نکلوں گا ......میں نے سعدیہ کا نمبر اور ایڈریس دیا کہ یہاں سے میری کار لے لو اورصبح آرام سے آ جاؤ ۔۔۔ وقار نے ہامی بھر لی۔۔اور میرا پوچھ کر فون بند کر دیا ۔۔۔۔خالہ چائے لے کر پہنچ چکی تھیں ۔۔اور میرے برابر میں ہی بیٹھیں تھیں ۔۔۔۔جیسے اپنے ہاتھوں سے چائے پلانے کا ارادہ ہو ۔۔۔میں نے گہری نظر سے ان کا جائزہ لیا تو وہ بھی کچھ بے چین ہی تھیں .......ان کی آنکھوں سے محبت جھلک رہی تھی ۔۔اک لگاوٹ سی تھی ۔۔۔۔اک انداز دلبرانہ تھا ۔۔۔ میرا پوچھا کہ دو دن کیسے گذارے .......میں نے مختصرا بتایا اور وقار کا بھی کہ وہ شہر میں ایک اچھا گھر خرید رہا ہے ۔۔۔۔خالہ تھوڑی اور قریب ہوئی تھیں ۔۔۔ مجھے ان کے جسم کی گرمی ٹکرائی تھی ۔۔۔۔جس کے ساتھ ان کے جسم کی مہک بھی شامل تھی ۔۔۔میں نے جلدی سے چائے کا کپ اٹھا لیا ۔۔۔اور چائے کے سپ بھرنے لگا .......۔۔مجھے عجیب سے گھبراہٹ شرو ع ہو گئی تھی ۔۔۔
اٌس رات کو تو کچھ سمجھ نہیں آیا تھا ۔۔ثناء کی طرف سے ادھوری خواہش سی تھی ۔۔۔۔مگر اب ہوش میں ہی تھا ۔۔۔ مگر چائے خالہ کو کتنی دیر تک روک پاتی۔۔۔۔اِدھر چائے ختم اورمیں نے کپ ٹیبل پر رکھا ۔۔۔۔ادھر خالہ کچھ اور قریب کھسکی تھی ۔۔۔۔ان کے جسم کی مہک مجھ پر حاوی ہونے لگی تھی ۔۔۔۔میں نے ایک نظر ڈالی ۔۔ان کا بے چین جسم اور دھڑکن ان کے سینے کو حرکت دے رہی تھی .......۔سینے کے بڑے سے ابھار تھوڑا بھی ہلتے تو مجھے گھبراہٹ کا ایک تیز جھٹکا سا لگتا .......میں نے ان کے سینے سے نظریں چْراتے ہوئے سامنے دیکھا تو خالہ کا گورا سفید چہرہ ایک پیاسی مسکراہٹ کے ساتھ مجھے دیکھ رہا تھا .......۔ان کی براؤن آنکھیں شرارت سے چمک رہی تھی ۔۔۔۔اب شاید میری بھی بس ہونے لگی تھی ۔۔۔۔میں جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔خالہ میں چلتا ہوں ۔۔۔کچھ دنوں میں چکر لگاتا ہوں .......خالہ بھی میری ہچکچاہٹ سمجھ گئی تھیں ۔۔۔کہنے لگیں کہ ٹھیک ہے مگر چکر لگا لینا ۔۔۔۔بھول مت جانا ۔۔۔ میں نے جلدی سے سر ہلا دیا .......اٹھ کر باہر نکلا ۔تو رخصت ہوتے ہوئے خالہ نے ایک مرتبہ پھرمیرا ہاتھ پکڑ کر دبایا ۔۔۔
میں باہر آیا اوراپنے گھر کی طرف چل پڑا .......دروازے سے داخل ہوا تو ہلچل مچ چکی تھی ۔۔۔نیا نویلا دلہا دوسری رات کے بعد دو دن بعد گھر واپس پہنچا تھا .......امی سے ملا ۔۔اس کے بعد بہنیں سامنے غصیلی نظروں سے دیکھ رہی تھیں .......۔بھائی ہمارا خیال نہیں تو بھابھی کا ہی خیال کر لو ، ، دیکھو کیسی اداس ہو گئیں ہیں ۔۔۔ثناء پیچھے کھڑی شرما رہی ہے ۔۔۔۔چاچی اور بھابھی بھی نیچے ہی تھیں ۔۔۔سب میری دْرگت بنتے دیکھ رہی تھیں ....... اور مسکرا رہے تھے ۔۔۔۔میں درمیان میں مجرم بنا کھڑا ہوا تھا ۔۔آخر چاچی کو خیال آیا ، میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اوپر لانے لگیں .......کہ آرام کرو ، تھکے ہوئے لگ رہے ہو .......اور پھر مڑتے ہوئے ثناء سے کہا کہ کچھ کھانے کو بھی لے آؤ .......میں چاچی کے ہاتھوں کھینچتا ہواہوا اوپر پہنچا تھا .......اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہی چاچی مجھے میں سمائی تھیں ....... میں نے بھی جواب میں انہیں بانہوں میں بھرا تھا ۔۔۔۔چاچی بھی اداس لگ رہی تھیں .......۔ ۔ ہمارے درمیان ایک انجان سا تعلق تھا جو مضبوط ہوتا جا رہا تھا .......۔وہ میری ہر بات کہے بغیر جان لیتی تھیں ۔۔۔۔اور چہرہ دیکھ کر دل کا حال پڑھ لیتی تھیں .......کچھ دیر ایسے ہی وہ میرے ساتھ لپٹی رہیں ۔۔۔اور پھر پورے چہرے پر بوسوں کی بوچھاڑ کر دی .......میں نے جلدی سے چہرہ صاف کیا اور بیڈ پر بیٹھنے لگا .......سیڑھیوں پر قدموں کی آواز آنے لگیں تھی۔۔۔چاچی بھی سائیڈ پر ہو کر بیٹھیں اور ہم نارمل بات کرنے لگے .......۔اتنے میں ثناء کمرے کا دروازہ دھکیلتی ہوئی اندر داخل ہوئی تھی ۔۔۔اس کے چہرے پر رونق آ گئی تھی ۔۔۔یا پھرنیچے شاید مناہل اور ربیعہ کی باتوں میں آ کر مصنوعی اداسی خود پر طاری کرلی تھی۔۔۔۔ثناء جوس لے کر آئی تھی۔۔۔۔چاچی نے مجھے مسکراتے ہوئے دیکھ کر دیکھا اور کھانے کا پوچھ کر باہر جانے لگیں .......۔ثناء سے جوس لیتے ہوئے میں نے کہا ۔۔تم میری بغیر اداس ہو گئیں تھیں کیا ۔۔۔ ؟
اور نہیں ہوتی کیا ۔۔ ؟ ثناء کے جواب نے میرے دل میں گھنٹی بجا دی تھی ۔۔۔۔اچھا کتنی یاد آئی تھی ۔بتانا ..... زرا ۔۔۔میں بیڈ سے اٹھ کر اس کی طرف بڑھا تھا .......وہ بھی سمجھدار تھی ، کہنےلگی پہلے یہ جوس پی لیں ، پھر بتاتی ہوں ۔۔۔۔میں جوس لئے بیڈ پر بیٹھااور وہ غڑاپ سے باہر نکل گئی .......میں بے اختیار ہنسنے لگا ۔۔۔۔
کچھ دیر بعد نیچے سے کھانے کی آواز آئی اور میں نیچے چلا آیا تھا ۔۔۔۔کھانا کھا کر نیچے ہی بیٹھے رہے تھے ۔۔۔چاچا بھی ساتھ تھے ۔۔ہم نے چائے ساتھ پی ۔۔۔۔بھیا اور ابا جان شہر میں ہی تھے ۔۔۔کچھ دیر تک باتیں کرتے رہے ۔۔چاچا مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ کھیتوں کی طرف چکر لگاؤ گے ۔۔۔۔میں نے انہیں بتایا کہ شاید کل آؤں گا ۔۔اور پھر اوپر اوپر کی طرف چل دیا .......
دو دن کی ذہنی اورجسمانی تھکان نے مجھے تھکا دیا تھا ۔۔۔۔بستر پر لیٹے میں جلد ہی نیند کی آغوش میں چلا گیا تھا ۔۔۔۔رات کو 2 بجے میری آنکھ کھلی تھی ۔۔میں نے دائیں بائیں نظر دوڑائی ۔۔۔کمرے کی ہلکی مدھم لائٹ میں بستر پرتھوڑی سی آڑھی ترچھی ثناء لیٹی ہوئی تھی .......سیاہ بالوں میں اس کا چہرہ چمک رہا تھا ۔۔۔بند آنکھوں میں چہرے پر معصومیت بکھری ہوئی تھی ۔۔۔۔ بازو پھیلائے ہوئے سیدھ لیٹی وہ کسی دلکش پینٹنگ جیسی لگ رہی تھی ۔۔۔۔اس کے سینے کا مدھم زیروبم اس کی گہری نیند کو ظاہر کر رہا تھا ۔۔۔میں نے بے اختیار اس کے چہرے کو چوما تھا ۔۔۔ماتھے کو چومتے ہوئے میں واپس اپنی جگہ پر آیا تھا ۔ مجھے اچھا نہیں لگا تھا کہ اس کی نیند خراب کرتا ۔۔۔کچھ دیر اسے دیکھتا رہا پھر آنکھیں بند کردیں ۔اور سونے لگا .......اچانک ایک ہاتھ میرے ہاتھوں سے ٹکرا یا تھا ۔۔۔میں نے جھٹ آنکھیں کھول دیں ۔۔۔ثناء میرے لمس سے جاگ چکی تھی ۔۔۔مگر اب بھی آنکھیں جھکی جھکی سی تھی ۔۔۔میں نے اس کا بازو پکڑ کر ہلکا سا کھینچا اور خود سے لپٹا لیا .......۔نرم و ملائم نازک سی ثناء اْسی نزاکت کے ساتھ مجھ سے آن لگی تھی ۔۔۔۔میں نے 
اس کے سرخ و سپید چہرے کو دیکھا ۔۔۔شرم اور لاج نے اس کے چہرے کو مزید دہکا دیا تھا .......جھکی ہوئی پلکیں لرز رہی تھیں ۔۔میں نے بے اختیاراس کی پلکوں پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے .......پھر اس کی پیشانی پر ہونٹ ثبت کیے ۔۔۔اورپھر بھر ے بھرے گالوں کو چومنے لگا .......اس کا پورا بدن مجھے سے لپٹا ہوا تھا ۔۔۔چاہت اور لذت کی ایک لہر ہم دونوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھی ۔۔کشش کی ایک قوت ہمیں گھیرے ہوئے تھی ۔۔۔۔میں نے اسے اور شدت سے خود سے لپٹا دیا ۔۔۔ساتھ ہی پورے چہرے پر بوسوں کی بوچھاڑ جاری تھی .......جو ثناء کے چہرے کو گیلا کئے جا رہی تھی .......وہ بھی جھینپ سی گئی تھی ۔۔۔مگر میری شدت اسی تیزی سے جاری تھی .......میں پورے چہرے کو اپنی لپیٹ میں لینے کے بعد گلاب کی پنکھڑی جیسے ہونٹوں پر لپکا تھا .......پتلے سرخ ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں کےدرمیان دبا کر کھینچنے لگا تھا .......جس سے ہونٹ مزید سرخ ہوتے جارہے تھے ۔۔۔۔میں اسے خود میں سمائے ہوئے تھا اور ہاتھ پیچھے اس کی کمر پر گردش کر رہے تھے ۔۔۔۔اور پیچھے سے اس کے نرم و نازک چوتڑ پر ہاتھ رکھے ۔وہ تھوڑی سی آگے کو ہوئی تھی ۔۔۔میں نے ہلکےہاتھوں سے اس کےچوتڑ کو دبانا شروع کر دیا تھا .......اور ساتھ ہی اپنی طرف زور بھی دیتا تھا ۔۔۔۔میرا ہتھیار بھی انگڑائی لیتا اٹھ رہا تھا .......۔جو آگے سے ثناء کو ٹچ ہو کر اور تیزی دکھاتا .......اس کے نرم و نازک سے ممے میرے سینے سے کچھ ہی دور تھے ، جب و ہ آگے کو ہوتی یا میں بڑھتا وہ بڑے نرم انداز میں مجھے ٹچ ہو تے تھے ۔۔۔۔جیسے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہوں ......اور میں نے اس کی موجودگی محسوس کر لی تھی .......۔اس کے ممے درمیانے سائز کے گول مٹول سے تھے ۔۔۔مگر اس فٹنگ والی قمیض میں وہ بھی قیامت ڈھا رہے تھے......میں نے اسے تھوڑا سے بٹھایا اور ہاتھ اوپر کرتے ہوئے قمیض اتارنے لگا......وہ مزید خود میں سمٹنے لگی تھی .......قمیض اترتے ہی بے حد سفید نازک سا چمکتا ہوا جسم میرے سامنے تھا ۔۔۔۔سرخ رنگ کی برا میں اس کے ممے چھپے ہوئے تھے ......صرف اوپر ی حصہ اور گہری سی کلیویج نظر آتی تھی .......میں نے اس کی برا کھولتے ہوئے اسے بیڈ پر لٹا دیا تھا ۔گورے چٹے ممے اٹھ کر سامنے آئے تھے ۔۔۔۔میرے نظریں اس کے چہرے پر تھیں اور ہاتھ اس کے مموں پر ہاتھ رکھ دیے ۔۔۔ جو سفید میدے کے پیڑے جیسے لگ رہے تھے ۔۔۔۔پنک گلابی نپلز اپنی نزاکت کے ساتھ ہلکے سے لرز رہے تھے ۔۔میں بے اختیار اسے پکڑ کرمنہ میں لے جانے لگا ۔۔۔۔نپلز کواپنے زبان سے رگڑتا ہوا ۔۔۔ممے کا کچھ حصہ میرے منہ میں جا چکا تھا ۔۔۔میں بےصبری سے ممے منہ میں لئے ہوئے چوس رہا تھا ۔۔۔ثناء میرے سر پر ہاتھ رکھے میری پیاس مٹنے کے انتظار میں تھی ۔۔نپلز بھی میرے تھوک میں گیلے ہو کر چمکنے لگے تھے ...... میں انصاف کے ساتھ دونوں مموں کو برابر ٹائم دے رہا تھا ......اور کچھ دیر بعد نظریں اٹھا کر ثناء کو دیکھتا جو مجھے ہی دیکھی جا رہی تھی......اس کی سیاہ آنکھوں میں محبت کا سمندر بڑھتا جا رہا تھا .......۔۔اور چمک اس سے بھی زیادہ تھی .......
ایک ہاتھ سے میں اس کے مموں کو باری باری چوس رہا تھا ۔۔۔اور دوسرا ہاتھ نیچے لے جا کر اس کی شلوار کے اوپر سے اس کی نازک رانوں کو دبا رہا تھا ۔۔۔میراہاتھ نرم ہی تھا ۔۔۔ثناء کی بے چینی بھی بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔اس کا پورا سینہ میرے تھوک سے گیلا ہوا پڑا تھا ۔۔۔۔ممے پہلے سے سختی میں تھے ۔۔اور نپلز بھی ہوشیاری کا بھرپورمظاہر ہ کر رہے تھے ۔۔۔۔میرے نچلے حصے میں بھی میٹھا سا درد ہوئے جا رہاتھا ۔۔ہتھیار اپنی سختی پر آنا چاہ رہا تھا ۔۔مگر پینٹ اسے اجازت نہیں دے رہی تھی .......۔۔میں ثناء کی سائیڈ سے کچھ درمیان کی طر ف آیا اور اس کی پیٹ کو چومتے ہوئے مزید نیچے بڑھا ۔۔۔نازک کمر کےاوپر ایک سڈول سا پیٹ تھا جس کے درمیاں ناف کا ایک چھوٹا سے گڑھا تھا ۔۔۔۔میں اس کے اندر زبان گھمانے لگا ۔۔۔۔ساتھ ہی اس کی ٹانگوں کو اٹھا کر پیروں کے بل کھڑی کر دی ۔۔۔وہ لیٹی ہوئی تھی مگر ٹانگیں اوپر کو مڑی ہوئی اور پیر بیڈ پر تھے ۔۔۔اور ان سب کے درمیان نیچے کو سفر کرتا ہو ا میرا چہرہ تھا .......۔میرے دونوں ہاتھ اس کے دائیں بائیں تھے ۔۔۔۔میں ناف سے نیچے آیا اور شلوار کو پکڑ کر نیچے کھسکانے لگا .......ساتھ ہی میری زبان بھی سفر کرتی ہوئی نیچے آئی ۔۔۔جتنی شلوار نیچے ہو رہی تھی ۔۔اتنے ہی فاصلے سے زبان بھی نیچے اتر رہی تھی ۔۔۔۔ثناء بے چینی سے ہلنے لگے تھی ۔۔۔میں تھوڑا سا اٹھا اور شلوار کو نیچے تک کھینچی اور ایک ٹانگ اٹھاکر ایک پائینچہ نکالا اور اسی طرح دوسری سائیڈ سے بھی ۔۔۔اس کی نازک پنڈلیاں اور مناسب رانیں دمک رہی تھی ۔۔۔بغیر بالوں کے چاندی جیسی رنگت والی۔۔۔پینٹی بھی اتار کر ۔۔۔میں ایک ہاتھ اس کی پنڈلیوں پر پھیرتا ہوا اوپر آیا تھا اور وہی پوزیشن سمبھال چکا تھا۔۔۔اس کی نازک سیپی جیسی چوت میرے سامنے تھی .......میں اپنے دونوں ہاتھ کو اس کی رانوں اور چوتڑ پرباری باری لے جا کر دبا رہا تھا ۔۔۔اور ہونٹ اس کی چوت پر رکھ دئے ۔۔۔ثناء نے ایک جھٹکا سا کھایا تھا ۔۔۔۔اس نے بے اختیار دونوں ٹانگیں سیدھی کرنے کی کوشش کی تھی .......میں کچھ دیر اپنے ہونٹوں سے اس کی چوت کو چومنے کے بعد پھر اوپر ہوا تھا ۔۔اور اس کے ہونٹوں کو چوستے ہوئے اپنی زبان اس کے منہ میں ڈالنے لگا ۔۔۔اٌدھر ثناء میری زبان چوسنا شروع کر رہی تھی......اِدھر میری ایک انگلی اس کی چوت میں داخل ہوئی تھی ۔۔ثناء نے سریلی آواز میں ایک سکاری بھری اور پھر میری زبان کو چوسنے لگی .......لذت کی ایک لہر اس کے نرم ہونٹوں سے نکل کر میرے بدن میں سرائیت کر رہی تھی ۔۔۔میں نے بھی اپنی انگلی کو حرکت دینے شروع کر دی تھی ۔۔۔۔اس کی چوت حد سے زیادہ تنگ تھی ۔۔انگلی بھی بڑی دقت کے ساتھ جارہی تھی ۔۔جس کے ساتھ ثناء کی سسکیاں بھی میرے منہ میں پہنچتیں ۔۔۔۔میں نہایت نرمی کے ساتھ اپنی انگلی کو آگے پیچھے کررہا تھا .......ساتھ ہی انگوٹھے کو اس کی چوت کے اوپر مسلنےلگا۔۔۔ثناء کی ٹانگوں میں بھی حرکت بڑھ رہی تھی ۔۔۔وہ ہلکے سے کمر کو بھی گردش کرتی ۔۔۔میری انگلی اندر ایڈ جسٹ ہونے لگی تو دوسری انگلی بھی میں نے ملا دی ۔۔۔۔ثناء کی ایک تیز آواز نکلی تھی ۔۔اوئی ۔۔۔سس......۔اس کا پیٹ ایک دم نیچے گیا اور پھر باہر آیا ۔۔۔۔میں نے دوسری انگلی بھی آہستگی سے آگے پیچھے کرنے لگا ۔۔اور اوپر اب میں ثناء کی زبان کو چوس رہا تھا .......اس کی آنکھیں قدرے لال سی ہونے لگیں تھی .......میری دونوں انگلیاں اپنا کام بخوبی کر رہی تھیں.......ثناء کی ٹانگوں میں بھی لرزش سی تھی .......اس نے منہ سے سسکیاں اور بڑھا دی تھی .......مناسب انداز کی یہ گرم گرم سسکیاں میرے چہرے پر ہی پڑ رہی تھی .......جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی بھی جارہی تھیں .......کچھ دیر اور گذری تھی کہ ثناء کی ٹانگوں نے ایک جھٹکا سا کھایا تھا .......اور گرم پانی میرے انگلیوں کو چھوتا ہوا گزرا تھا .......میں کچھ دیر اورہاتھ کو حرکت دے کر روک چکا تھا ۔۔۔۔
میں اوپر ہوتے ہوئے ثناء کے برابر میں آیا تھا ۔۔۔۔اور اسے خود سے چپکا چکا تھا ۔۔۔میرا ایک ہاتھ اب نیچے کو بڑھا تھا ۔۔اپنی پینٹ کا بٹن کھولتے ہوئے میں نے پینٹ نیچے کھسکائی ۔۔۔اوردونوں ہاتھوں سے اسے نیچے دھکیلنے لگا .......۔۔آگے سے اچھلتا ہوا ہتھیار باہر آیا تھا ۔۔۔اور ثناء کی رانوں سے ٹکرایا تھا ۔۔۔۔ثناء نے بے اختیار میری طرف دیکھا تھا .......گرم گرم ہتھیار اسے بتا چکا تھا کہ اگلا مرحلہ کیا ہے .......ہتھیار باہر آکر پہلے سے زیادہ تننے لگا .......۔میں نے سائیڈ ٹیبل سے ویزلین اٹھاتے ہوئے ایک ہاتھ سے اسے ہتھیار پر ملنے لگا .......ثناء مجھے جھکی جھکی نظروں سے دیکھ رہی تھی.......میں نے ویزلین سائیڈ پر رکھی.......اور اس کی سائیڈ پر ایسے کروٹ لے کر لیٹا اور کہ آدھا اس کے اوپر اور آدھا بیڈ پر تھا ۔۔۔ہتھیار اپنے گیلے پن کے ساتھ اسے چھو رہا تھا .......۔میں نے اوپر ثناء کے چہرے کی طرف نظر ڈالی ۔۔۔تو وہ بھی بے چین سی نظر آ رہی تھی .......میں اسی طرح ٹوپے کو سمبھال کر اس کی چوت کے اوپر رگڑ رہا تھا ۔۔۔۔اس کی سائیڈ پر لیٹے ہونے کی وجہ سے ہتھیار کافی فاصلے پر ہی تھا ۔بس ٹوپا اوردو انچ ہی اس کے اند ر داخل ہو پاتا ۔۔۔میں اس کے چہرے کو چومنے لگا ۔۔اور نیچے سے تھوڑا اور کھسک کر آگے ہوا تھا .......اورٹوپے کو چوت کے اوپر رکھ کر دباؤ بڑھانے لگا ۔۔۔۔ثناء نے تھوڑی سی ٹانگیں ہلائیں تھیں ، پھیلائیں تھیں ۔۔۔اور دونوں ہاتھ میرے سر پر رکھ کر دبانے لگی تھی .......میں نے دباؤ برقرار رکھا تھا ۔۔۔۔اوررگڑ کھاتا ہوا ٹوپا اندر پہنچا تھا ۔۔۔ثناء کی ایک ہلکی چیخ نکلی تھی ۔۔اس نے ٹانگیں نیچے کو دبا کر اوپر اٹھنا چاہا تھا ۔۔۔۔میرا ایک ہاتھ اس کی کمر سے نیچے پھرتا ہوا چوتڑ تک جاتا اور پھر واپس کمر تک آتا ۔۔۔۔میں نرم ہاتھوں سے مساج کر رہاتھا ۔۔ٹوپا وہیں رکا ہوا تھا .......ثناء کی چیخ کے بعد اب اوئی ۔۔۔اف۔۔۔ کی سریلی سی آواز نکل رہی تھی ۔۔۔میں نے ٹوپے کو ایسے ہی کچھ دیر رکھا اور ہاتھ اوپر لے جا کر اس کے ممے پکڑ کر دبانے لگا ۔۔۔اب کی بار میری پکڑ میں دباؤ زیادہ تھا ۔۔۔اور اس کے نپلز کو کھینچتا ہوا۔۔۔چھوڑتا تھا .......ثناء کی درد بھری سسکاری اب بھی جاری تھی ۔اس کی آنکھیں پانی سے بھری ہوئی تھی۔۔۔۔وہ درد برداشت کرنے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔۔۔۔۔میری کمر کا حصہ ساکت ہی تھا ۔۔۔اور اوپر سے چھیڑ خانی جاری تھی ۔۔۔اس کے ممے کھینچ کھینچ کر لال ہونے لگے تھے ۔۔۔کچھ دیر بعد میں نے نیچے سے کمر کو تھوڑا آگے بڑھایا تھا ۔۔۔۔ثناء ایک مرتبہ پھر پیچھے کو ہتنے کے لئےہلی تھی ۔۔۔اور منہ سے پھر سریلی چیخ نکالی تھی ۔۔۔اس کے چہرہ کی سرخی برداشت کرتے ہوئے بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔۔اس کی آنکھیں مستقل مجھے رکنے کا اشارہ کر رہی تھی ۔۔۔۔میں رک رک کر اسے بہلا رہا تھا ۔۔۔وہ کچھ تھمی تھی ۔۔جب میں نے ہلکا سا دباؤ بڑھا یا ۔۔۔اس کی پھرتیز آواز نکلی تھی ۔۔۔میں خاموشی سے اس کے ہونٹوں کو چومتا رہا .......۔اس کے مموں کو تیزی سے مسلتے ہوئے مجھے 3 منٹ ہو چکے تھے ۔۔۔۔میں کروٹ لئے ہوئے تھوڑا اور آگے آیا تھا ۔۔اور ہتھیار ثناء کی چوت میں پھنستا ہوا آگے کو بڑھا تھا .......۔۔ثناء نے پھر میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر مجھے روکا ۔۔راجہ بس کی درد بھری آواز آئی تھی ۔۔۔۔ثناء کی آواز میں کچھ تھا ۔۔۔۔۔میں نے بھی وہیں رکنے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔۔۔۔۔۔کچھ دیر ساکت رہنے کے بعد آہستگی سے باہر لانے لگا ۔۔۔۔باہر بھی اتنی ہی مشکل سے گھسٹتا ہو ا آتا تھا ۔۔۔۔۔میں ٹوپے تک باہر لا کر دوبارہ سے گھسانے لگا ۔۔۔۔۔وہ پھر سے ۔۔۔سس ۔۔اوئی کرتی ہوئی ہلی تھی ۔۔۔۔میں پھر اتنا ہی اندرڈال کر واپس نکالنے لگا۔۔۔۔۔۔۔ویزلین سے میرا ہتھیار بھرا ہوا تھا ۔۔اور یہ ویزلین اس کی چوت کے اوپر اورنیچے حصے پر بھی لگ چکی تھی ۔۔۔میں دوبارہ سے ہتھیار کو لبریکیٹ کیا ۔۔۔۔۔۔اور پوزیشن تبدیل کرنے لگا ۔۔۔۔۔ثناء کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھتے ہوئے میں نے اس کی ٹانگوں کو اٹھا کر اسے سینے پر لگا دیا تھا ۔۔۔۔۔اس کے چہرے پر اب بھی بے چارگی اور درد کے آثار تھے ۔۔۔۔۔۔میں بے اختیار اس کے چہرے پر جھکا اور چومنے لگا ۔
اس کے چہرے کو چومتے ہوئے ہونٹوں پر آیا اور خود کے ہونٹوں سے پکڑتا ہوا کھینچنے لگا ۔۔۔۔ثناء میرے سر پر ہاتھ رکھے سسک رہی تھی ۔۔۔۔۔۔میں ایسے ہی چومتے ہوئے نیچے سے ہتھیار کو چوت پر ٹکانے لگا ۔۔۔۔۔۔ہتھیار پہلے سے زیادہ لبیریکیٹ ہوا وا تھا ۔۔۔۔میں نے آہستگی سے ٹوپ اوپر رکھتے ہوئے اندر زور دیا ۔۔۔۔ثناء تھوڑی سی ہلی اور میرے سر کو پکڑ کر اپنے سینے پر جکڑنے لگی ۔۔۔۔۔۔خود سے لپٹانے لگی ۔۔۔۔میں نے تھوڑا سااور ہتھیار ڈآل کر ہلانے لگا ۔۔۔۔ثناء کی سسکیاں اور سینہ مستقل ہل رہا تھا ۔۔۔۔۔میں نے سر کو اٹھاتے ہوئے اس کو دیکھا اور ہونٹ چومنے لگا تھا ۔۔۔تین سے چار منٹ میں ثناء کی بس ہونے لگی تھی ۔۔۔۔۔اس کی سسکیاں تیز ہونے لگی ۔۔۔۔۔کراہیں بلند ہونے لگیں تھیں۔۔۔۔۔۔میں نے اپنی اسپیڈ کم کردی تھی ۔۔۔۔ثناء نے مجھے تشکر سے دیکھا ۔۔۔۔اور مجھے چومنے لگی ۔۔۔۔مجھے پانچ منٹ ایسے ہو چکے تھے ۔۔۔۔۔میں ویسے ہی ہلتا ہوا تھوڑا سا اٹھا تھا ۔۔۔ثناء کی ٹانگیں اس کے سینے لگی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔میں نے اسے اسی حال میں کروٹ دے دی ۔۔۔وہ مڑی ٹانگوں کے ساتھ کروٹ لے چکی تھی ۔۔۔پیچھے سے اس کی گوری گانڈ مڑی ہوئی مزید خوبصور ت نظر آ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔میں اسی طرح اس کےپیچھے بیٹھا دھکے دے رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ثناء کی سسکیاں کچھ ہو گئیں ۔۔۔تو میں نے اسپیڈ بڑھانے کا سوچا ۔۔۔۔۔۔اور اپنی اسپیڈ کو درمیانہ کر دیا ۔۔۔۔ثناء پھر سے کراہی تھی ۔۔۔۔اور اوئی ۔۔۔۔سس ۔۔۔۔۔افف۔۔۔۔۔۔آہ ۔۔۔۔۔کی سریلی آواز میں پکارنے لگی ۔۔۔۔۔۔اب کی بار اس کی آواز میں درد بہت ہی کم تھا ۔۔اسلئے میں بھی مطمئن تھا ۔۔اور اپنی اسپیڈ سے لگا رہا ۔۔۔۔۔۔میں نے ہاتھ بڑھا کر ثناء کے نازک سے گول مٹول سے ممے تھام لئے تھے ۔۔اور اسے پکڑتے ہوئے اسپیڈ تھوڑی اور تیز کردی ۔۔۔ثناء کی سسکیاں بھی تیز ہوئی تھی ۔۔۔۔۔آئی ۔۔۔اوئی ۔۔۔کے ساتھ وہ تھوڑی سی ٹانگ اٹھا کر فاصلہ پیدا کرتی اور ٹانگ واپس رکھ دیتی ۔۔۔۔۔۔ثناء کی بے چینی بڑھ رہی تھی ۔۔۔۔۔اس کے فارغ ہونے کا ٹائم قریب تھا ۔۔۔اس نے ہاتھ پیچھے بڑھا کر اپنی چوتڑ پر جمے میرے ہاتھ پر رکھ دیا ۔۔۔۔میں نے اسپیڈ تیز کرتے ہوئے ایک دو جھٹکے بھی دے دیئے ۔۔۔۔ثناء کراہی اور تیز سسکی کے ساتھ پانی چھوڑنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔میں کچھ دیر ہتھیار کو ہلاتا رہا ۔۔۔اور پھر اس کے برابر میں لیٹ گیا ۔۔۔۔ثناء کو پتا تھا کہ میں اب تک فارغ نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔مگر اب اس سے زیادہ کرنا اس کے بس میں نہیں تھا ۔۔۔وہ کچھ دیر سانس برابر کرکے اٹھی اورمیرے ہتھیار کو تھامتی ہوئی اپنے ہاتھ ہلانے لگی ۔۔۔ویزلین کے ساتھ اب اسکی چوت کا پانی بھی اس پر لگا ہوا تھا ۔۔۔۔وہ کافی دیر تک ہاتھ ہلاتی رہی ۔۔۔۔پھر بے بسی سے مجھے دیکھتی ۔۔۔۔۔آخر کافی دیر بعد میرے ہتھیار کو رحم آ گیا اور اس نے بارش برسانے کا فیصلہ کیا ۔۔۔۔۔۔ہتھیار سیدھا ہی تھا ۔۔۔۔برابر میں ثناء بیٹھی تھی ۔۔۔۔پہلی چھینٹ کافی اوپر تک اچھل کر نیچے گری ۔۔۔کچھ بیڈ پر ۔۔۔کچھ مجھ پر اور کچھ ثناء پر ۔۔۔اور اس کے بعد کئی سیکنڈ تک ایسے ہی بارش ہوتی رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔ثناء نے ٹشو سے صاف کیا اور میرے برابر میں لیٹ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔


اگلی صبح ویسے ہی روشن تھی ۔۔۔ میری آنکھ کھلی تو ثناء جاگی ہوئی تھی اور میرے جاگنے کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔۔آنکھ کھولتے ہی نظر اس کے مسکراہٹ بھرے چہرے پر پڑی تھی ۔۔دل خوشی سے جھوم اٹھا تھا ۔۔۔اسے اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔جسے وہ سمجھ چکی تھی ۔۔۔۔کچھ قریب آتے ہوئے بولی ، یہیں سے کہیں ! کیا بات ہے .......۔میں نے کہا کہ پاس تو آؤ کان میں بات کرنی ہے ۔۔۔۔وہ وہیں کھڑی مجھے اٹھنے کا اشارہ کرنے لگی تھی ۔۔۔میں جلد ی سےاٹھ کر اس کی طرف بڑھا تھا ۔۔۔اور اپنی بانہوں میں بھر لیا ۔۔۔اس کے گالوں پر بوسہ دیا ۔۔۔۔ثناء کا چہرہ شرماہٹ میں لال ہو گیا تھا ۔۔وہ خود کو چھڑوانے لگی اور کہا کہ جلدی سے تیار ہو جائیں ، سب انتظار کر رہے ہیں ۔۔میں ایک اور بوسہ دیتا ہوا باتھ روم کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔
فریش ہو کر نیچے پہنچا تو سب ڈآئننگ ٹیبل پر بیٹھے انتظار میں ہی تھے .......۔ناشتہ شروع ہو گیا تھا ۔۔ہلکی پھلکی نونک جھونک کے ساتھ ناشتہ ختم کیا ۔۔۔چاچابھی وہیں ناشتے پر تھے ۔۔اور حسب معمول انہوں نے ناشتے کے بعد کھیتوں کی طرف جانا تھا ۔۔۔میں چائے لے کر ڈرائنگ روم میں آ گیا ۔۔۔چائے کے دوران ہی فون کی گھنٹی بجی تھی ۔۔۔وقار کا فون تھا ، وہ کار لے کہ پہنچ چکا تھا ۔۔۔میں نےاسے اسکول جاتے ہوئے گھر سے مجھے لینے کا کہا ۔۔ثناء سے پوچھا کہ یہیں رہنا ہے یاخالہ کے گھر جاؤ گی ۔۔۔اس نے کہا کہ ابھی مجھے وہیں چھوڑدیں ۔۔شام میں واپسی پر لے لیجئے گا ۔۔میں اسے تیار ہونے کا کہ کر اوپر آگیا ۔اور خود بھی تیار ہونے لگا .......۔آدھے گھنٹے میں وقار نیچے آ چکا تھا .......میں اور ثناء نیچے امی کو بتا کر کار میں بیٹھے اور خالہ کی طرف جانے لگے .......۔ثناء کو ڈراپ کر کے میں وقار کے ساتھ ہی اسکول جا پہنچا ۔۔۔۔وہاں اس نے مجھے شہر کی صورت حال بتائی ۔۔۔پیمنٹ کر دی تھی ۔اور اب کچھ دنوں میں اس کے نام پر جگہ ہونی تھی ۔۔۔۔میں خاموشی سے سن رہا تھا کہ میرے ذہن میں زارا کا خیال آیا ۔سعدیہ نے بتایا تھا کہ وہ یہیں ہاسٹل میں ہے اور سعدیہ کی جگہ پر ہے .......میں نےزارا کو ٹیکسٹ کیا اور جواب کا انتظار کرنے لگا ۔۔وقار کو میں نے زارا کے بارے میں اب تک کچھ نہیں بتایا تھا ۔۔۔۔کچھ دیر میں زارا کا میسج آ گیا تھا ۔۔وہ فارغ ہی تھی ۔۔۔میں نے اسے تیار ہونے کا کہا ۔۔۔زارا نے مجھ سے آدھا گھنٹہ مانگا تھا .......۔میں کچھ دیر اور انتظار کرنے لگا ۔۔۔وقار بھی کاروبار کی بات ختم کر کے اپنے مزاحیہ موڈ میں تھا ۔۔۔چاچا کے بارے میں پوچھنے لگا ۔۔۔۔میں نے کہا کہ فوزیہ کی یاد آ رہی ہے جو آج تمہیں چاچا کی یاد آ ئی ہے ۔۔۔۔وہ ہنسنے لگا کہ ہاں یار کچھ ایسا ہی ہے .......میں نے کہا کہ اچھا خالہ سے بات کر کے تمہارا مستقل بندوبست کرنا پڑے گا ۔۔۔وہ کچھ سنجیدہ ہوا اور کہنے لگا کہ بس یار یہ گھر کا کام مکمل ہو جائے تو پھر شادی کروں گا ۔۔امی بھی پیچھے پڑی ہوئی ہے .......اتنے میں زارا کا میسج آ گیا وہ تیار تھی ۔۔میں نے اسکول کے قریب ایک جگہ کا ایڈریس اور اپنی کار کا نمبر بتا دیا .......اور وقار سے چابی لے کر باہر نکل پڑا ۔۔۔گاڑی میں بیٹھ کر مطلوبہ جگہ پہنچا ۔۔۔زارا ابھی تک نہیں پہنچی تھی .......میں نے سعدیہ کو فون ملایا ، وہ ابھی سو کر اٹھی تھی ۔۔۔میں نے اسے بتایا کہ زارا سے بات ہوئی ہے وہ ملنے آ رہی ہے ۔۔۔کس ٹائپ کی ہے ۔۔کچھ بتاؤ .......سعدیہ نے جواب دیا کہ راجہ میں تمہارا تعارف کرواچکی ہوں ۔۔۔۔ہم بہت پرانے دوست ہیں ۔اورا یکدوسرے کے رازدار بھی ہیں .......وہ آئی تو مجھ سے ملنے تھی مگر تمہیں پتا ہے کہ مجھے اچانک آنا پڑا ہے ۔۔اس لئے ہو سکے تو اسے کچھ ٹائم دے دو ۔۔۔۔میں نے کچھ اور پوچھ کرکال کاٹ دی ۔۔۔۔اتنے میں ساتھ والی سیٹ کے شیشے پر دستک ہوئی اور دروازہ کھلاتھا ۔۔ساتھ ایک اک خوش بدن ،خوش مہک لہراتی ہوئی اندر بیٹھنے لگی .......۔۔۔سعدیہ کے بتائے ہوئے فگر سے کہیں زیادہ حسین تھی ۔۔جسم کچھ فربہ تھا ۔۔مگر یہ فربہی اسے اور زیادہ خوبصور ت بنا رہی تھی ۔۔میں بلا تکلف اسے تکتا چلا گیا ۔۔۔سرخ شرٹ کے ساتھ بلیک ٹراؤز پہنے وہ بلا کی حسین تھی ۔۔۔چہرے پر ایک نازک سی گلاسز لگی ہوئی تھی ۔۔۔بھرے بھرے گالوں کے ساتھ سیاہ کالی آنکھیں ۔۔تھوڑی سی دائروی ناک ۔۔اور ٹھوڑی میں پڑتا ہو گڑھا.......۔وہ مجھے خود کو دیکھتے ہوئے مسکرائی ۔۔۔۔ایسے کیا دیکھ رہےہیں .......میں ہڑبڑایا تھا ۔۔۔۔اور کہا ۔۔۔
کچھ نہیں بس ۔۔۔سعدیہ نے آپ کی تعریف کچھ کم کی تھی ۔۔۔آپ اس سے زیادہ ہی ہیں ۔۔۔۔اس کی ہنسی بھی اْسی کی طرح خوبصورت تھی ۔۔۔کار میں ایک جلترنگ سی گونج اٹھی تھی .......میں دوبارہ سے اسے دیکھتا گیا .......پھر پوچھا کہ کیسا لگاآپ کو ہمارا گاؤں ۔۔
ابھی تک دیکھا ہی کہاں ہے۔۔جب سے آئی ہوں بس اسکول ، ہاسٹل اور قریبی ایک پارک میں دوست کے ساتھ گئی تھی ۔۔۔آپ کا انتظار تھا ۔۔۔۔میں نے اس سے تاریخی عمارات کا پوچھا ۔۔اور اس کی دلچسپی دیکھتے ہوئے کار اس طرف گھما لی ۔زارا یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ تھی ۔۔۔اور آرٹ کی طرف رجحان تھا ۔۔۔یہاں سمر ویکیشن میں سعدیہ کے پاس آئی تھی .......۔زارا مجھے کافی ذہیں لگی تھی ۔۔ہر بات کا سلجھا ہوا جواب دیتی تھی ۔۔۔اور موقع پر اپنی کھنکتی ہوئی آواز میں ہنسنا نہیں بھولتی تھی ۔۔کل ملا کر وہ ایک پڑھاکو اسٹوڈنٹ تھی .......اس نے مجھ سے میرے مشاغل پوچھے جو میں ساتھ ساتھ بتاتا گیا ۔۔۔۔جلد ہی میں اس تاریخی عمارت کی پارکنگ میں گاڑی لگا چکا تھا ۔۔۔ہم باہر نکلے اور پارکنگ ٹکٹ لیتے ہوئے اندر داخل ہوئے ۔۔۔اس عمارت کی کلاسیکل تعمیر کو دیکھتے ہوئے ہمیں ایک گھنٹے سے زائد ہوچلا تھا۔۔۔۔زارا اس عمارت کے بار ے میں مجھ سے زیادہ جانتی تھی ۔۔۔بجائے یہ کہ میں اسے بتاتا ۔۔وہ مجھے ہرحصے کا نام اور خصوصیت بتا رہی تھی ۔۔۔اس کے بتانے کا انداز بھی اْسی کی طرح ٹہرا ٹہرا سا تھا ۔۔دھیمے لہجے میں اس کی کھنکتی ہوئی آواز ایک سحر سے پھونکتی جا رہی تھی ۔۔۔۔جس میں مزید تاثیر اس کی کلائی میں چاندی جیسی چوڑی بھرتی تھی ۔۔۔اس کی آواز کے ساتھ ،اس کی اشارہ کرتی ہوئی کلائی، اور ساتھ ہی چوڑی کی کھنک .......کافی دیر تک گھومنے کے بعد ہم تھکنے لگے تھے ۔۔۔۔باہر نکل کر اور میں نے ایک قریبی ریسٹورنٹ کی طرف گاڑی گھما دی ۔۔۔فیملی روم کی طرف بڑھتے ہوئے میں کسی معمول کی طرح ہی اس کے پیچھے تھا ۔۔۔۔ہم نے سیٹ پر بیٹھ کر آرڈر دیا اور انتظار کرنے لگے ۔۔۔۔ہم دونوں آمنے سامنے ہی بیٹھے تھے .......جبھی اس کی دلکش آواز مجھ سے ٹکرائی تھی .......۔سعدیہ نے آپ کی کافی تعریف کی تھی .......۔۔میں نے جلدی سے اس کے چہرے پر نظرڈالی ، پتا نہیں تھا کہ کس سلسلے میں تعریف تھی ۔۔۔۔میں پھر سے گڑبڑا سا گیا تھا ....... کچھ دیر اس کے چہرے کو دیکھتا رہا ۔۔۔۔وہ پھر بولی تھی ۔۔۔اور یہ آپ مجھے دیکھ کر گم سم کیوں ہو جاتے ہیں .......میں جھینپ گیا اور کہا کہ بس ایسے ہی .......۔کچھ دیر بعد ویٹر آیا تھا ۔۔۔ہم نے ریفریشمنٹ کی تھی اور پھر کار کی طرف بڑھے .......۔۔
سعدیہ نے بتایا تھا کہ آپ کی کافی زمینیں بھی ہیں ۔۔۔کیا ہم وہاں جا سکتے ہیں ۔۔۔۔زارا نے پوچھا .......۔میں نے کہا ٹھیک ہے جانے کا مسئلہ نہیں اگر آپ کو شوق ہے تو چلتے ہیں .......۔
میں نے کار کا رخ اپنی زمینوں کی طرف کر دیا اور۔۔۔دس منٹ میں ہم زمینوں پر پہنچ گئے تھے .......وہاں کام کرنے والوں کےلئے زارا ایک شہری لڑکی تھی ۔۔۔جلد ہی وہاں کام کرنے والوں کا رش لگ چکا تھا جس میں عورتیں اور مرد دونوں شامل تھیں ۔۔۔چاچا ان کو کام پر واپس بھیجتے ہوئے آگے آئے تھے ۔۔میں نےزارا کا تعار ف کروایا .......چاچا نے جلدی سے ایک عورت کوکھانے پینے کا بندوبست کرنے کا کہا ۔۔۔کچھ دیر تک زارا اور میں کھیتوں میں گھومتے رہے۔۔۔فصلیں تیار تھیں اور چاروں طرف ہریالی تھی ۔۔زارا بہت خوش نظر آرہی تھی ۔۔یہ سب اس نے پہلی مرتبہ دیکھا تھا ۔۔۔کچھ دیر میں ہم پورے کھیت دیکھ چکے تھے ۔اتنے میں چاچا آئے۔۔۔۔اور ہمیں کہا کہ آؤ اندر بیٹھو ۔۔۔۔زارا چاروں طرف دیکھتی ہوئی آگے بڑھ گئی ۔۔کچھ دیر میں.......ہم اندر بنی ہوئی بیٹھک میں پہنچے تھے ۔۔۔چاچا نے کچھ دیر تک زارا سے بات کی اور پھرکہا کہ تم لوگ آرام کر و ۔۔میں کچھ کھانے کو بھجواتا ہوں .......چاچا باہر چلے گئے تو میں نے زارا سے آرام سے بیٹھنے کا کہا اور خود بھی نیم دراز ہو گیا ۔۔۔۔یہ وہی کمرے تھا جہاں میں نے اور وقار نے چاچا کو دیکھا تھا ۔۔مگر اب یہاں کا رنگ و روپ بدل چکا تھا ۔۔یہ کسی شہر کے ڈرائنگ روم جیسا لگ رہا تھا ۔۔زارا سامنے صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔اور میں کرسی پر تھا ۔۔۔سامنے ہی بیڈ تھا۔۔۔اتنے میں میسج کی بیل بجی ۔۔سعدیہ کا میسج تھا ۔۔۔اس نے زارا کا پوچھا کہ کہاں تک پہنچی ہے ۔۔تم سے مانوس ہو گئی ہے یا ابھی تک دور دور ہو .......میں نے سعدیہ کو بتایا کہ بس اب کھیتوں پر ہیں ۔۔۔اور میں ابھی تک جھجک ہی رہا ہوں ۔۔۔۔سمجھ نہیں آرہا کہ کیسے پہل کروں ۔۔۔اس نے کہا کہ میں نے زارا کو سب بتایا ہوا ہے ۔۔۔جیسے چاہو شروع کر دو ۔۔۔۔اتنے میں باہر سے آواز آئی تھی ۔۔۔میں موبائل رکھتا ہوا باہر گیا ۔۔۔چاچا کے ساتھ فوزیہ کھڑی تھی ۔۔ہاتھ میں ایک ٹرے تھی جس میں لسّی کے گلاس رکھے ہوئے تھے ۔۔۔مجھے دیکھ کر فوزیہ نے اسمائل دی اور ٹرے آگے بڑھا دی ۔۔۔میں نے چاچا کو اشارہ کر دیا کہ اب کسی کو نہ آنے دیں ۔۔۔۔ٹرے لے کراندر آیا تو زارا نے جلدی سے موبائل سائیڈ پر رکھا تھا .......میں نے اس کے چہرے کو دیکھا تو اندازہ ہوا کہ وہ میسج پڑھ چکی ہے ۔۔۔اس کے چہرے پر ایک اسمائل تھی ۔۔۔میں نے ٹرے اس کے برابر میں رکھتے ہوئے اس کے سامنے بیٹھ گیا ۔اور موبائل ہاتھ میں اٹھایا ۔۔۔زارا کی طرف سے ایک میسج بھیجا گیاتھا ۔۔۔کہ اچھا ابھی کچھ کرتا ہوں ۔۔۔میں نے زارا کی طرف دیکھا وہ مسکرا رہی تھی ۔۔آنکھوں کی شرارت صاف عیاں تھی ۔۔۔۔زارا نے ساتھ ہی ہاتھ بڑھا کر لسّی کا گلاس اٹھا لیا ۔۔۔۔میں نے بھی اسے دیکھتے ہوئے دوسرا گلاس لے لیا ۔اور غٹا غٹ پی گیا ۔۔۔۔اس نے لسّی پی کر اپنا گلاس نیچے رکھا تو میری ہنسی چھوٹ گئی ۔۔۔۔لسی کا سفید دائرہ اس کے ہونٹوں پر بنا ہوا تھا ۔۔۔۔مجھے ہنستا ہوا دیکھ زارا پوچھنے لگی کہ کیا ہوا کیوں ہنس رہے ہو.......۔میں نے بتایا کہ تمہاری مونچھیں بن گئیں ہیں ۔۔۔اس نے ٹشو سے صاف کرنا چاہا مگر پھر بھی کچھ حصہ رہ گیا تھا ۔۔۔میں بدستور ہنس رہا تھا ۔۔آخر اس نے ٹشو میرے ہاتھ میں دیا کہ خود صاف کر دو ۔۔۔میں ٹشو لیتا ہوا اس کے برابر میں جا بیٹھا .......۔۔۔
ٹشو اس کے چہرے کی طرف بڑھایا ، مگر پھر ایک اور خیال آیا .......میں نے اس کے چہرے کو تھامتے ہوئے اپنے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر رکھ دئیے تھے .......۔۔۔۔ وہ تھوڑی سی پیچھے کو ہوئی تھی ۔۔۔مگر پھر میرے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھے دیئے ۔۔۔اس کے ہونٹ اسی کی طرح ملائم اور نرم نرم تھے ۔۔میں نے اس کے ہونٹوں کو صاف کرتے ہوئے اوپر ی ہونٹ پر کِس کرنے لگا تھا ۔۔۔۔اس نے اپنی آنکھیں بند کر دی تھیں ۔۔۔کچھ دیر ایسے ہی کس کرتے ہوئے میں نےٹرےسامنے ٹیبل پر رکھی اور ۔۔۔واپس صوفے پرزارا کے پاس بیٹھے ہوئے اس کے سر کو اپنی گود میں رکھا اوراوپر جھک گیا ۔۔اس کا چشمہ اتار کر سائیڈ پر رکھا .......۔۔زارا کی آنکھیں اب بھی بند ہی تھیں ۔۔۔اس کی لمبی زلفیں صوفے پر بکھری ہوئی تھیں ۔۔اور ان کےدرمیاں اس کے چہرے پر جھکا ہوا میں چومے جا رہا تھا ۔۔۔اس کے بھرے بھرے گالوں پر میں اپنے ہونٹ رکھتا جو پھسلے پھسلے جاتے تھے .......سرخ و سفید گالوں کے اوپر ہی اس کی سیاہ بڑی سی آنکھیں تھی ۔۔۔۔جو اس وقت بند تھیں ۔۔۔میں اس کے پورے چہرے پر اپنے ہونٹوں کے نشان ثبت کر چکا تھا .......میں اسے سہارا دے کر اٹھانے لگا ۔۔۔۔اور کچھ ہی دیر اسےاپنی گود میں بٹھایا چکا تھا ۔اس کی ٹانگیں اپنے دائیں بائیں رکھتے ہوئے اس کو بڑی مشکل سے اٹھایا تھا ۔۔۔اور اپنی بانہوں میں لیتے ہوئے خود سے لپٹایا تھا .......اس کے جسم اتنا فربہ نہیں تھا جتنا اس کا سینہ تھا ۔۔۔۔موٹے اور بڑے سے ممے ،اپنے پوری اٹھان کے ساتھ ، سرخ رنگ کی شرٹ میں بری طرح سے پھنسے ہوئے تھے ........اور مجھے سے ٹچ ہوتے ہوئے اپنی سختی مجھے بتا چکے تھے ........میں نے اس کےہونٹوں کو چومتے ہوئے اسے بھی آمادہ کر رہا تھا ۔۔۔اپنے ہونٹوں اس کےہونٹوں پر رکھ کر اسے چومنے کا کہتا........کچھ دیر ایسے ہی رہی پھر اس نے میرے ہونٹوں کو چھوا تو میرے پورے جسم میں ایک لذت کی لہر دوڑ گئی ........اس کی طرف سے شروعات ہو گئی تھی........ جس نے کہاں جا کر ختم ہونا تھا کچھ معلوم نہیں تھا ........ہم نے باری مقرر کر لی تھی .......دو سے تین بار وہ میرے ہونٹوں کو چومتی اور پھر میں جواب دیتا .......۔زارا کی بند آنکھیں کھلنے لگیں تھیں۔۔۔۔ جس میں اک عجیب سے چمک میں دیکھ رہا تھا ۔۔دو چمکیلی سیاہ آنکھیں مجھ پر پلکیں جھپکائے بغیر گڑ ی ہوئی تھی ........ہمارے جسموں میں جہاں لذت کی لہریں گھوم رہی تھی ۔۔۔وہیں پر سنسناہٹ کی ایک لہر بھی ہوتی .......جو میرے اوپر بیٹھی زارا کے جسم سے نکل کر میرے پور ے بدن میں پھیل رہی تھی ........میں نے اس کے چہرے کو چھوڑتے ہوئے ہاتھ کو پیچھے کی طرف لے گیا اور اس کے بالوں کو سمیٹتا ہوا اکھٹا کرنے لگا ۔۔ساتھ ہی اس کی نرم کمر پر میرا ہاتھ گردش کرنے لگا تھا .......زارا کی شدت بڑھ رہی تھی ، وہ اب تیزی سے ہونٹ چوسنےلگی ........میں نے اسے کہاکہ اپنی زبان نکالو اور اسے چوسنے لگا ...اسکی بے قراری بڑھتی جا رہی تھی .....کچھ دیر بعد وہ بھی میری زبان کو چوس رہی تھی .......۔۔میں نے پیچھے پھیرتے ہوئے ہاتھ کو آگے لاتے ہوئے سینے کے ابھار پر لانے لگا ........زارا میرے ہاتھوں کو پکڑتی ہوئی آگے کو جھکی تھی ۔۔۔سرخ شرٹ میں اس کےممے بے تحاشہ باہر کر نکلے ہوئے تھے .......زارا نے مجھے اِس سے روکنے کے لئے بے تحاشہ بوسے شروع کر دئے تھے ........وہ بڑے جذباتی انداز میں میرے پورے چہرے ، ہونٹوں کو چومے جا رہی تھی........پرانی زارا کے اندر سے ایک نئی زارا نکلی تھی ........میرے ہاتھ اب بھی اس کے سینے پر ہی تھی، جس کے اوپر زارا نے اپنے ہاتھوں کو رکھا ہوا تھا ۔۔۔۔ہلکے سے دباؤ کے ساتھ ........میں نے بھی آہستگی سے اس کےسینے پر دباؤ بڑھا نے لگا ........زارا نے اپنے ہاتھ ہٹا کر میرے سر پر رکھ دئیے تھے ........مجھے تو کھلی چھوٹ مل گئی تھی ........میں پوری آزادی سے اس کے مچلتے ہوئے مموں کو دبانے میں مصروف ہو گیا ۔۔۔۔اور اسے تھوڑا سا قریب لاتے ہوئے اپنے ہونٹوں کو اس کی شرٹ کے اوپر ہی پھیرنے لگا ........اور ہاتھوں کو نیچے لے جا کر اس کی کمر سے نیچے کا سفر شروع کر دیا ........اس کی کمر زیادہ پتلی نہیں تھی ۔۔گوشت سے بھری پْری تھی ، اور نیچے سے اس کے بڑے سے چوتڑ تھے ۔۔۔میں بغیر کسی جھجک کے اس کے چوتڑ دبا رہا تھا ........زارا کاچہرہ اب بھی میرے چہرے پر گھوم رہا تھا ........مگر اب اس کی بے چینی میں محسوس کر رہاتھا ........چوتڑوں کے نیچے سے اس کی گرمی میرے ہتھیار پر بھی اثرا نداز ہو رہی تھی ........اور اب وہ بھی اٹھنے کی 
تیار ی میں تھا ........میں نے زارا کو اِسی طرح گود میں بھر کے اٹھا لیا ........اٹھاتے ہوئے پہلے میں دروازے کی طرف گیا تھا ........دروازہ اندر سےلاک کرتے ہوئے میں بیڈ پر آنے لگا ........ زارا میرے گرد ٹانگیں لپیٹی ہوئی تھی ........بیڈ پر آ کر اسے اپنےبرابر میں لٹاتے ہوئے میں اس کی طرف کروٹ پر لیٹا تھا........مگربیڈ پر ہونے کے بجائے میں آدھا سے زیادہ اْسی کے اوپر ہی جھکا ہوا تھا ........اس کے چہرے کو پھر سے چومنا شروع کردیا تھا ۔۔۔نیچے سے ہاتھوں نے بھی من مانی شروع کر دی تھی........اور اس کے نیچے میں اپنی ایک ٹانگ اس کے اوپر رکھ چکا تھا .......۔۔جہاں اس کی صحت مند رانیں بڑی خوبصورتی سی بلیک ٹراؤزر میں ابھری ہوئی تھیں ........کچھ دیر تک اس کے چہرے کو گیلا کرنے کے بعد میں تھوڑا سا سیدھا ہو کر لیٹا اور اسے خود پر کھینچنے لگا ........اور تھوڑی سی زور آزمائی کے بعد وہ مجھ پر آ چکی تھی ........اس کے چہر ہ میرے چہر ہ پر تھا ........دونوں ہاتھوں کو میرے سر کے دائیں بائیں بیڈ پر رکھتے ہوئے وہ مجھ پر جھکی ہوئی تھی ۔۔اس کے بڑے سے ممے میرے سینے پر دبے ہوئے تھے ۔۔۔میں نے اسے تھوڑا سا اوپر کی طرف اٹھایا۔۔۔اور اپنے سر کے نیچے ایک تکیہ رکھ دیا ۔۔اس کے بعد اس کی شرٹ کے نیچے حصے کو ہاتھوں میں پکڑا ۔۔۔میری نظر اس کے چہرے پر پڑی تھی ۔۔۔سیاہ آنکھیں چمک رہی تھی........ ہونٹوں پرآرزو بھری مسکراہٹ تھی ۔۔۔اس نے اپنے ہاتھوں کو تھوڑا سا اوپر اٹھا دیا ۔۔۔کھلا اشارہ ملتے ہی میں نے اپنے ہاتھوں کوحرکت دی تھی .......میں زیادہ اوپر اپنے ہاتھ نہیں اٹھا سکا ۔۔اس لئے باقی شرٹ اس نے خود ہی اتاری .......اور پھر گورے چٹے ، بھاری بھرکم ممے میرے سامنے تھے ۔۔۔۔میں نے برا کےاوپر سے ایک مرتبہ دباتے ہوئے انہیں اٹھایا ........زارا کچھ زیادہ ہی گرم ہوچکی تھی ........اس نےپیچھے ہاتھ بڑھا کرخود ہی برا کی ہک بھی کھول دی تھی ۔۔۔اورپھر ان مموں کو میں نے تھوڑا سا جھکتے دیکھا تھا .......گلابی نپلز جن کے ساتھ ایک بڑا سا تل بھی تھا ۔۔۔۔مجھے دعوت دینے لگا ۔۔۔۔زارا کی آنکھیں بھی یہیں کہ رہی تھیں ۔۔۔تو مجھے ماننے پر کیا اعتراض ہو سکتا تھا ۔۔۔۔میں اسی طر ح اٹھ کر بیٹھ گیا ۔۔۔اور گود ی میں بیٹھی زارا کے مموں کو پکڑتے ہوئے منہ میں ڈالنے لگا .......اس کی ایک سسکاری سی نکلی تھی .......ممے درمیانے سائز کے تھے .......مگر گولائی میں کافی ابھرے ہوئے تھے .......میں ایک ہاتھ میں اسے کسی آم کی طرح تھامتا اورمنہ میں ڈالے چوسنے لگتا .......۔۔میرا ایک ہاتھ اس کی بیک پر تھا ۔۔اور دوسرا ہاتھ باری باری دونوں مموں کو منہ میں پہنچا رہا تھا ۔۔۔۔زارا نے میری شرٹ کے بٹن کھولنے شروع کر دئے تھے ۔۔زارا اب کھل کر سامنے آ چکی تھی .......شرم و حیا کے ساتھ ساتھ وہ گرم لڑکی بھی تھی ۔۔جو ہر مزے کو ہر انداز سے انجوائے کرنے کی کوشش کرنا چاہ رہی تھی .......۔اور اب برا کھلنے کے ساتھ ہی وہ اور بھی کھل کر سامنے آئی تھی .......اس کی آنکھوں میں شہوت کے ڈورے تیر نے لگے تھے .......۔وہ میرے ہاتھوں کو پکڑ کر اپنے مموں پر دباؤ ڈالنے لگی تھی ۔۔۔۔میرے اندر کا راجہ بھی باہر آنے لگا تھا .......۔۔میں نے بھی دباؤ بڑھا دیا .......زارا کی ایک تیز بھنچی ہو ئی چیخ نکلی تھی .......میرے ہاتھوں کی پکڑ میں اس کے بھاری بھرکم ممے پھنسے ہوئے تھے ۔۔۔میں نے اسے اپنی طرف کھینچا اور پیچھے سے اس کا ٹراؤزر بھی کھینچنے لگا ۔۔۔آدھا ٹراوزر اتر چکا تھا ۔۔۔اور وہ گھوڑی بنی ہوئی میرے اوپر جھکی ہوئی تھی ۔۔۔میں نے اسی دباؤ سے اس کے چوتڑ پر دباؤ بڑھا یا تھا .......وہ سسکیاں بھرنے لگی تھی ۔۔ساتھ ہی ہلکی سی چیخ بھی مارتی ۔۔۔جس میں واضح اشارہ تھا کہ ابھی اور گنجائش ہے ۔۔۔اور میں اور دباؤ بڑھا دیتا ۔۔۔میں اس کے مموں سے اب سیراب ہو چکا تھا .......گورے گورے ممے اب لال سرخ ہوئے تھے ، کہیں کہیں میرے دانتوں کے نشان بھی تھے .......میں نے اٹھتے ہوئے زارا کو بیڈ پر لٹایا تھا .......لیٹتے ساتھ ہی اس نے ٹانگیں بھی اٹھا لیں تھیں ۔۔۔۔میں اس کا اشارہ سمجھ کر ادھ اترا ٹراؤزر کھینچ دیا ۔۔۔اب اس کی موٹی بھری ہوئی رانیں ۔۔جس کے درمیانی حصے پر سرخ پینٹی لپٹی ہوئی تھی ۔۔۔میں اسے بھی اتارتا چلا گیا .......زارا کے حرکتیں شوخ ہوتی جا رہی تھی .......اور وہ مجھے اسی قدر ابھار رہی تھی.......اس نے اپنے پیر میرے سینے پر رکھتے ہوئے مجھے خود سے دور رکھنے کی کوشش کی .......میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا جو شرارت سے چمک رہا تھا ۔۔۔۔میں اس کی ٹانگیں پھیلاتے ہوئے درمیان میں آیا تھا .......اور اس کے سینے پر جھکا تھا ۔۔۔جہاں ممے اب پھیلے ہوئے تھے ۔۔۔ان کے درمیان سرخ نپلز مچل رہے تھے ۔۔۔۔پھیلی ہوئی حالت میں اس کے ممے سینے پر کافی اوپر تک پہنچے ہوئے تھے .......۔گول گول سے ، چاروں طرف یکساں گولائی کے ساتھ ۔۔۔۔میں اپنے لیفٹ ہاتھ سے اس کے مموں سمبھال رہا تھا ۔.......اور سیدھا ہاتھ نیچے لے جار کر پینٹ اتار نے لگا ۔۔۔۔جلد ہی ہتھیار قید سے باہر تھا ۔۔۔۔کھلی فضاء میں آ کر ہتھیار نے بھی جان پکڑ لی تھی ۔۔۔اورچند ہی سیکنڈ میں تن چکا تھا .......۔ٹوپا غصے میں تھا ۔۔اور ہلکی سی لرزش کے ساتھ پھول رہا تھا .......میں نے زارا کی طرف دیکھا ۔۔۔ وہ بھی میرے چہرے کو ہی دیکھ رہی تھی ۔۔جیسے پوچھ رہی ہو کہ کیاماجرہ ہے .......۔میں نےا س کی ٹانگیں دائیں بائیں پھیلاتے ہوئے موڑ دی تھی ۔۔اور پنجوں کے بل بیٹھتے ہوئے پوزیشن سمبھال لی تھی .......اس کی بھری بھری ٹانگوں کے درمیان میرا ہتھیار بھی بھرا بھرا سا لگ رہا تھا ۔۔پھولا پھولا سا لگ رہا تھا .......۔۔مگر چوت کے اوپر رکھتے ہوئے چوت بے چاری چھپ سی گئی تھی ۔۔زارا نے اپنی ٹانگوں کو تھامتے ہوئے مجھے اشارہ کر دیا تھا .......میں نے بھی ٹوپا سمبھال کر چوت پر رکھ دیا تھا ۔۔۔۔زارا نے اب تک ہتھیار نہیں دیکھا تھا ۔۔۔وہ شاید مزے کو انجوائے کرنے کے چکر میں لگی ہوئی تھی ۔۔۔۔یا شاید کوئی نارمل سائز ایکسپکٹ کر رہی تھی ۔۔۔۔جب ٹوپا اسےٹچ ہو ا تھا ۔۔۔تبھی اس کی نظر نیچے کو پڑی تھی ۔۔۔اس نے کہنے کو منہ بھی کھولا تھا ۔۔۔مگر میں اسکے بڑے سے مموں کو جکڑنے کے لئے آگے آیا تھا ۔۔اور ساتھ ہی ٹوپے نے دستک دے تھی .......زارا نے سانس روک کر پھر سے نیچے دیکھا تھا .......۔ٹوپے کے لئے راستہ تنگ تھا ۔۔۔۔مگر میں نے پیچھے سے دباؤ بڑھا دیا ۔۔۔۔ٹوپے نے چوت کی دونوں دیواروں کو چیرا تھا ۔۔اور تباہی مچاتا ہوا اندرلپکا ۔۔۔زارا کی ایک بلند چیخ نکلی تھی ۔۔۔میں نے ممے چھوڑتے ہوئے اس کی ٹانگوں کو تھام لیا ۔۔جو اٹھ کر اس کے سینے پر لگ رہی تھی ۔۔۔ابھی ٹوپا ہی اندر پھنسا تھا ۔۔۔۔اور زارا کی ہائے ہائے شروع تھی ۔۔۔جتنی سریلی آواز تھی ۔۔۔اتنی ہی سریلی آہیں بھی تھیں ۔۔۔۔میں نے دوبارہ سے دباؤ بڑھاتا گیا اور آدھا ہتھیار اندر اتار دیا .......۔۔زارا کی پہلے سے زیادہ کراہیں نکلی تھیں ۔۔۔ٹانگیں بھی اتنی تیزی سے ہلی تھیں ۔۔۔مگر پورے طریقے سے میرے قابو میں تھی .......وہ مجھے دیکھتے ہوئے بار بار منہ کھولے اور بند کئے جا رہی تھی .............شاید کچھ کہنا چاہ رہی تھی ............دونوں ہاتھوں سے مجھے رکنے کا اشارہ بھی کر رہی تھی ............میں نے دوبارہ سے ہتھیار باہر گھسیٹا اور دوبارہ اندر دھکیل دیا ۔۔وہ پھر سے لرزی تھی...........ممے بھی باؤنس ہوئے ........مگر اس کا منہ اب بھی کھلا ہی تھا .......میں نے کچھ دیر رکنے کے بعد اب اِن آؤٹ شروع کر دیا تھا ..........ہتھیار اٌسی طرح سے پھنستا پھنساتا آنے جانے لگا .......۔زارا کی چوت نے کافی سے زیادہ پانی چھوڑ کر راستہ صاف کرنے کی کوشش کی تھی .......مگر ہتھیار کی موٹائی کسی صورت ماننے کو تیار نہ تھی ۔۔۔وہ اسی طرح اس کی چوت میں پھنستا ہوا گزرتا جا رہا تھا ۔۔زارا آدھا ہتھیار سمیٹ چکی تھی .......۔موٹے سے ہتھیار میں اس کی چوت برے طریقے سے پھنسی ہوئی تھی .......اس کی آواز اب تک لوٹ کر نہیں آئی تھی .......میں کچھ دیر اور ہتھیار آگے پیچھے کر تا رہا .......۔۔زارا کا منہ کچھ بند ہوا تھا ۔۔۔۔اس نے ایک نظر نیچے کو دیکھا اور پھر ایک زور دار آہ نکالی ۔۔اف.......ہائے ........اوئی........
سعدیہ نے اسے جو کہانی سنائی ہو گی .........حقیقت اس سے مختلف تھی........سعدیہ نے مزے کی داستان سنائی تھی.......اور ....یہاں درد کا سبق تھا ...........وہاں سسکیاں اور مزے کے قصے تھے .........اور یہاں پر آہوں اور ہائے کا طوفان تھا .....زارا ........اب کچھ دھیرے ہونے لگی تھی ...........نارمل ہونے لگی تھی ............نیچے دیکھنے کا بعد اسے پتا چل گیا کہ آدھا ہتھیار ابھی باہر ہی ہے ...........اس نے مجھے کہا کہ راجہ بس ابھی کچھ دیر اتنا ہی کرتے رہو...........مجھے کیا اعتراض تھا........میں اپنی نارمل اسپیڈ سے ان آؤٹ کرنے لگا.......اور کچھ ہی دیر میں زارا کی چوت نے ہار مانی اور پانی چھوڑنے لگی ........میں کچھ دیر تک ہتھیار ہلاتا رہا پھر باہرکھینچ لیا ........
میں زارا کے ساتھ لیٹا تھا ۔۔ زارا اٹھی اور اپنی ٹانگوں کے درمیان ہاتھ رکھتی ہوئی بولی ...........اف راجہ کیا گھسا دیا تھا تم نے...........مجھے ایسا درد کبھی نہیں ہوا ...........میں کیا بولتا کہ بس خاموش ہی رہا .......ہتھیار اسی طرح کھڑا مسکرا رہا تھا ۔۔۔۔زارا میرے ساتھ بیٹھتی ہوئی اسے تھامنے لگی ۔۔۔اس کے ہاتھ جتنے صحت مند تھے ۔۔۔۔اس سے زیادہ میرا ہتھیار کھاتا پیتا لگ رہا تھا ۔۔۔اس نے اپنی مٹھی میں موٹائی کو سمبھالنے کی کوشش کی ۔۔۔مگر ابھی آدھا ہتھیار اس کی مٹھی سے باہر تھا ۔۔۔زارا دوسرا ہاتھ لا کر اس تھامنے لگی .......۔اور پھر اسی دونوں ہاتھوں کو اوپر نیچے کرنے لگی تھی .......۔میں لیٹا اس کے حرکت کرتے ہوئے بازؤوں کے درمیان اس کے موٹے سے مموں کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔جو ہلتے ہوئے مجھے خراج تحسین پیش کر رہے تھے ۔۔۔میں نے ہاتھ بڑھا کر انہیں تھاما اور کھینچنے لگا ۔۔۔اِدھر زارا میرے ہتھیار سے کھیلنے کے بعد اب منہ میں لینے کی کوشش میں تھی .......۔جو اس کے بس کی بات نہیں تھی ۔۔۔آخر چاروں طرف سے چاٹ چاٹ کر اسے نہلانے لگی ۔۔۔۔میں اسے بھی دیکھتا ۔۔۔اس کے مموں کو بھی دیکھتا .......پیچھے سے بھری ہوئی کمر اور بڑی سے گانڈ کو بھی دیکھتا .......۔زارا نے ہتھیار کو اور زیادہ ہوشیار کر دیا تھا ۔۔۔۔جبھی میں نے اسے کہا کہ آ جاؤ ۔۔۔۔گھوڑی بنو ۔۔۔۔اور کھسک کر اسے جگہ فراہم کرنے لگا ۔۔۔وہ بھی کمال فرمانبرداری سے اسی جگہ گھوڑی بنی تھی ۔۔میں اٹھ کر اس کے پیچھے آیا تھا ۔۔۔۔دونوں چوتڑ گوشت سے بھر ے پرے تھے .......۔میں ان کے درمیان ہتھیار رکھتا ہوا دبانے لگا .......۔نیچے سے زارا نے بھی سمت کی رہنمائی کی اور چوت پر ٹکانے لگی ۔۔۔میں آگے کو جھکا تھا .......۔اور اپنے ہاتھ اس کے کندھے پررکھ کر باقی کہنی اس کی کمر پر رکھ دی تھی ۔۔۔۔کوشش تھی کہ کہنی کی نوک نہ چبھے ۔۔۔۔بس اپنے اگلے بد ن کا وزن اس کی کمر پر ڈالوں .......اور میں اپنی کوشش میں کامیاب بھی ہوا تھا ۔۔۔زارا تھوڑی سی نیچے کو بیٹھی اور پھر وزن سمبھال کر اٹھی تھی .......۔زارا اکافی صحت مند تھی اور مجھے اندازہ تھا کہ وہ میرے اوپر بدن کا وزن برداشت کر لے گی ۔۔۔اگلے حصہ کنٹرول میں آتے ہی میرے دونوں ٹانگیں قدرے جھک کر پیر اس کے آس پاس جم چکے تھے .......۔میراہتھیار اب تک اس کی ٹانگوں کے درمیان ہی پھسنا ہوا اس کی چوت کی گرمی کو محسوس کر رہا تھا ۔۔۔۔میں نے اگلے حصے پر وزن بڑھاتے ہوئے اپنی کمر کو ہلا یا ۔۔۔ہتھیار نیچے کو پھسلا تھا .......اور اس پر بھی زارا کی اووئی ۔۔۔نکل چکی تھی .......میں نے ایک ہاتھ پیچھے لے کر گیا اور دوبارہ سے ٹوپے کا نشانہ فکس کیا ۔۔۔۔اور ہاتھ اوپر لا کر اس کی کمر پر وزن ڈال دیا ۔۔۔۔اور پھر سے کمر کودھکا لگایا .......زارا کے منہ سے پھر ایک کراہ ۔۔۔اور .......اووئی مر گئی کی آواز نکلی تھی ۔۔۔۔وہ آگے ہوتی مگر میرا وزن اچھا خاصا تھا .......۔۔جو اسے آگے بڑھنے سے روکتا تھا .......اور پیچھے سے گھوڑا تھا ۔۔۔جس نے ابھی دوڑ لگانی تھی .......۔میں نے پیر جما کر پیچھے سے پھر ایک دھکا دیا اور آدھا ہتھیار اندر پہنچ گیا تھا .......زارا۔۔۔ برے طریقے سے ہلی تھی ۔۔۔اور شاید بیلنس کھو کر دائیں بائیں گر بھی پڑتی مگر میں نے تیزی سے اس کے اوپر کا وزن کم کیا .......۔۔۔۔جب وہ سیٹ ہو گئی تو پھر وزن دیتے ہوئے دھکا لگانے لگا ۔۔۔۔زارا لرزنے کے ساتھ ساتھ ہل رہی تھی ۔۔۔۔ہلنے کے ساتھ سسکیاں بھر رہی تھی ۔۔۔۔سسکیاں بھرنے کے ساتھ کچھ کانپ بھی رہی تھی .......
میں نے اسی طرح دھکے دیتے ہوئے اپنی اسپیڈ بڑھا دی .......زارا کی ایک تیز آہ نکلی ۔۔۔اوئی ۔۔ہائے ۔۔اف.......نیچے سے اس کے لٹکے ہوئے ممے بھی اچھلے ہوں گے ......میں نے اس کے اوپر سے ہاتھ ہٹا کر اور جھکا اور اس کے ممے تھام لئے ۔۔زارا کاوزن کم ہو چکا تھا......وہ تھوڑی سی اوپر کو اٹھی تھی ......گانڈ بھی تھوڑی سی اٹھا لی تھی ......جس سے میرا مزہ بڑھ گیا تھ......میں قریب آتے ہوئے اس کی گانڈ سے ٹکراتا تھا ۔میں اسی سوچ میں تھا کہ اچانک ۔۔میں جو پہلے آدھے ہتھیار کو گھساتا تھا ۔۔۔۔ممے پکڑنے کے چکر میں جو جھٹکا مارا تھا ۔۔تو پورا اندر اترا تھا .......زارا ایک مرتبہ بھی بلند چیخ نکالتے ہوئے آگے گئی تھی......ممے میرے ہاتھ میں ہی تھے ......میں نے واپسی کا راستہ دکھا دیا ۔۔۔۔اسی اسپیڈ سے وہ واپس آئی تھی ۔۔۔اس کے بعد میں نےپورے ہتھیار پر ہی اس رکھا تھا ۔۔۔ہر جھٹکے کے ساتھ اس کی کمر اور گانڈ بھی اوپر کو جھٹکا کھاتے تھے .......اس کی نان اسٹاپ ہائے ہائے مچی ہوئی تھی ۔۔۔۔ ۔۔زارا کی آگے نکلنے کی کوشش ناکام تھی ۔۔۔اور پیچھے سے پھنسا ہواہتھیار اسے سکون نہیں دے رہا تھا .......۔وہ راجہ راجہ کی گردان بھی لگائے ہوئے تھی .......۔میں نے پھر سے پورا ہتھیار باہر نکالا اور واپس دھکیل دیا تھا ۔۔۔وہ اوئی کی آواز کے ساتھ پھر کمر اچھالتی گانڈ نیچے کو ہوتی ۔۔۔۔اتنے میں دوسرا جھٹکا پڑتا اور اسی طرح اس کی کمر اوپر اور گانڈ نیچے کو ہوتی .......۔زارا کی اب بھی ہمت تھی جو پورا ہتھیار اس نے سہہ لیا تھا ۔۔۔پہلی مرتبہ میں تو چاچی نے بھی پورا نہیں لیا تھا .......۔۔زارا کی اوئی .......اوئی .......اور ہائے پورے کمرے میں گونج رہی تھی .......میں نے ممے اب تک سمبھالے ہوئے تھے ۔۔۔میر ے جھٹکے تیز ہورہے تھے ۔۔۔۔زارا آگے کو ہوتی تو مموں پر زور پڑتا ۔۔۔جس سے درد بڑھ جاتا ۔۔۔۔میں نے پوزیشن بدلنے کا سوچا اور ہتھیار باہر نکال لیا .......۔اٌسے بیڈ کے کنارے پر لا کر خود نیچے اتر گیا .......زارا بیڈ کے درمیانی حصے میں کنارے پر تھی ۔۔۔ٹانگیں بیڈ پر تھیں ۔۔۔۔میں نے اس اور آگے کو کھینچا اور بالکل کنارے پر لا کر دونوں ٹانگیں سیدھی پھیلا دی۔۔۔۔اس کی دونوں ایک دوسرے کے مخالف تھیں .......درمیان میں میں تھا .......ہتھیار ابھی تک لشکارے مار رہا تھا.......میں ایک ایک ہاتھ دونوں ٹانگوں پر رکھتے ہوئے انہیں کھول چکا تھا ..............اور اب درمیانی لکیر تھی پانی میں گیلی ہوئی......۔ جس کے سامنے میرا ہتھیار نئی صف بندی کر رہا تھا ......زارا اب دونوں مموں کو اپنے ہاتھو ں میں دبوچے ہوئے یہ منظر دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔اس نے اپنا سر تھوڑا سا اٹھایا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔زبان باہر نکلتی اور ہونٹوں پر گھوم کر واپس چلی جاتی......میں نے ٹوپے کو اوپر رکھ کر دباؤ بڑھنے لگا......زارا کی ٹانگیں پوری پھیلی ہوئی تھیں ۔۔میں نے ہاتھ اس کے رانوں کے اندرونی سائیڈ پر رکھ کر تھام لی تھیں ۔۔۔۔ہتھیار کا ٹوپا مخصوص آواز نکالتا ہوا تھا......زارا اوپر کو اٹھی تھی......پیٹ اندر جا کر باہر آیا تھا ......اس نے اپنے مموں پر اپنی پکڑ مضبوط کر لی تھی ۔۔۔۔۔میں نے رانوں کو تھامتے ہوئے دباؤ بڑھانے لگا ......اس کی سسکاری نکل رہی تھی......وہ اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرے جا رہی تھی ......اور میں دباؤ بڑھاتے ہوئے مزید اندر گھسانے کی کوشش میں تھا ......زارا نے آدھا ہتھیار لے لیا تھا......میں نے اس کی ٹانگیں سمیٹ کر سیدھی اوپر کو اٹھا دی تھیں......اور اپنے بازؤوں میں دبوچ چکا تھا ......نیچے سے ہتھیار نے بھی اسپیڈ پکڑنی چاہی تھی ......زارا کی گرم گرم سسکاریاں پھر سے گونجنے لگی تھی ۔۔۔۔اوئی ۔۔۔۔آہ۔۔۔افف۔۔۔۔ہائے ۔۔سس۔۔میں اب پورا ہتھیار کھینچ کر باہرنکالتا اور پھر اسی اسپیڈ سے اندر بھیجتا......جس کے ساتھ ہی اس کی آواز بلند ہوتی ......میر ی حرکت تیز ہوتی جا رہی تھی......جس کا اندازہ زارا کی اونچی اور بلند سسکیوں سے بھی ہو رہا تھا ......اس کا پورا جسم لرزش کر رہا تھا......۔میرے جھٹکےاور تیز ہوئے تھے......اس کے بعد طوفانی جھٹکوں کی باری آتی تھی ......مگر کچھ دیر میں زارا ہل ہل کر بیڈ سے اوپر کھینچنے لگی تھی......میں بھی جھٹکے دیتے ہوئے اسے اوپر دھکیلنے لگا ......اور پھر اسی طرح دھکے دیتا ہوا اسے اوپر لاتے ہوئے خود بھی بیڈ پر پہنچ گیا ......اس کی جسم کی کپکپاہٹ اور سسکیاں بڑھتی گئی تھی ......مگر اٹھی ہوئ ٹانگیں میری بانہوں میں تھی ......اور نیچے سے پھیلی ہوئی گانڈ کے درمیان ہتھیار اپنی دوڑ جاری رکھے ہوئے تھا ......زارا اور ہم دونوں بیڈ کے درمیان میں پہنچ چکے تھے ......دھکے اور جھٹکے ایک سیکنڈ کے لئے بھی نہیں رکے تھے ......اسی طرح زارا بھی ایک لمحے کے لئے چپ نہیں ہوئی تھی......وہ بھی منہ کھولے سسکیاں بھرتی رہی ......اپنی سریلی آواز میں مجھے پکارتی رہی ......بیڈ کے درمیان پہنچ کر میں نے ہتھیار باہر نکالا اورٹانگیں سیدھی کرتے ہوئے اٌسے اٌسی طرح الٹا لٹا دیا ......وہ بھی کروٹ لے کر پلٹ گئی ......اب میں اس کے چوتڑ کےاوپر آیا تھا ......اور انہیں کے درمیان سے ہتھیار کو راستہ دکھایا......وہ بھی پلک جھپکنے میں منزل مقصود تک پہنچا ......اور چوت کے لبوں کو چیرتا ہوا اند ر گھسا تھا ......ا ب کی بار پورے ہتھیار نے مار کی تھی ......زارا نے سر کو جھٹکے سے اوپر اٹھایا تھا ......ایک ہلکی چیخ کے ساتھ وہ ہلی تھی......میں اس کی کمر پر ہاتھ رکھے اپنا وزن ڈال چکا تھا......اور پیچھے اس کے چوتڑ کےدرمیان ہتھیار اپنی اسپیڈ پکڑ رہا تھ......زارا کے چوتڑ بری طریقے ہلے جاتے تھے ......جن سے میں ایک سیکنڈ میں دو مرتبہ ٹکراتا تھا ......میری اسپیڈ اب بڑھنے لگی تھی ......دھکے طوفانی ہوتے گئے ۔......بیڈ بھی لرزنے لگا ۔۔۔۔اور زارا کی سسکاریاں بھی ۔۔۔۔۔۔میرے پاور فل دھکوں نے زارا کے انجر پنجر ڈھیلے کر دئے تھے......وہ اب الٹی بے سدھ لیٹی ہوئی تھی ......ہاتھ آگے بیڈ پر سیدھے تھے ......اور پورا جسم ہل رہا تھا ......میں نے اسپیڈ اور تیز کی تھی......اور پھر غراہٹوں کے ساتھ جھٹکے اور بڑھے تھے......زارا نے بھی چیخوں کے ساتھ میرا ساتھ دیا تھا ......وہ بھی فارغ ہونے کے قریب تھی ......اور...... میں بھی اپنی مدت پوری کر چکا تھا ......کچھ اور طاقتور جھٹکے پڑے تھے ......بیڈ بھی چوں چوں کرنے لگا تھا ......اور پھر ایک تیز غراہٹ کے ساتھ میں فارغ ہونے لگا......زارا بھی میرے ساتھ ہی آئی تھی......اس کی چوت میں پانی کا ایک سیلاب آیا تھا ......جنوں سرد ہونے لگا تھا ......میں نے ہتھیار باہر نکالا اور اس کے ساتھ لیٹتا چلا گیا ......
کچھ دیر میں ہم سمبھل گئے تھے ۔۔۔۔زارا حسب سابقہ مجھے سے لپٹ کر بوسوں کی بوچھاڑ کردی تھی ۔۔۔۔۔۔ہم دونوں کافی دیر تک لپٹے رہے تھے ۔۔۔پھر مجھے خیال آیا کہ ہم کہاں پر ہیں ۔۔میں نے زارا کو تیار ہونے کا کہا اور خود بھی اٹھ گیا ۔۔۔

عمران اپنے فلیٹ میں موجود تھا ۔ان دنوں سیکرٹ سروس کے پاس کوئی کیس نہ تھا اس لئے عمران کا زیادہ وقت فلیٹ پر ہی گزرتا تھا ۔کتابوں اور رسالوں کی اس کے پاس کمی نہ تھی اس لئے عمران ہر وقت نئے سائنسی رسالوں کے مطالعے میں مصروف رہتا تھا ۔۔۔صبح سویر ے ناشتہ کے ساتھ سرسر ی سا اخبار دیکھنا اور پھر اپنے مطالعے میں مصروف ہوجانا اس کا معمول تھا ۔ابھی بھی عمران اخبار دیکھ رہا تھا جس میں وہی پرانی خبریں وہی گھسے پٹے دعوے دہرائی جا رہی تھی ۔اخبار کے بعد عمران اپنے مطالعے میں مصروف ہو گیا ۔۔کہ کچھ دیر میں ٹیلی فون کی گھنٹی بجی ۔۔۔سلیمان مارکیٹ گیا ہو ا تھا ۔۔گھنٹی ایک مرتبہ بج کر خاموش ہوئی اور دوبارہ بجنے لگی ۔۔۔۔عمران اسی طرح خاموشی سے مطالعہ کرتا رہا جیسے کوئی آواز ہی نہیں آ رہی ہو ۔۔۔جب گھنٹی تیسری بار بجنا شروع ہوئی تو عمران نے ریسیور اٹھا لیا ۔۔۔

آپ نے غلط نمبر ڈائل کیا ہے آپ کا مطلوبہ بندہ اس وقت مطالعے میں مصروف ہے ۔عمران نے مسکراتی ہوئی آواز میں کہا۔
عمران صاحب۔ٹائیگر بول رہا ہوں ۔آپ نے جو کام ذمے لگایا تھا وہ ہو گیا ۔۔شمالی علاقہ جات میں کافرستانی سیٹ اپ کا پتہ چل گیا ہے ۔۔ وہ لوگ کافی عرصے سے حلیہ بدل کر وہاں رہ رہے ہیں ۔۔علاقے کے لوگوں نے بتایا ہے کہ ان کے ہاں کچھ مہینے بعد نئے چہرے دیکھے جاتے ہیں ۔۔۔اور وہ پھروہ مہمان وہاں ٹہرنے کے بعدکہیں چلے جاتے ہیں ۔۔۔۔
اچھا ۔تم راجہ کو رانا ہاؤس بلوا لو اور خود اس علاقے کی طرف روانہ ہو جاؤ ۔۔۔ مزید معلومات اکھٹی کرو ۔۔راجہ ایک ہفتے بعد تمہیں وہیں ملے گا۔۔۔۔عمران نے ٹائیگر کی بات سن کر جواب دیا اور فون رکھ دیا ۔۔۔۔
اس کے بعد عمران نے رانا ہاؤس کے نمبر ڈائل کرنا شروع کردیا ۔۔۔۔
جوزف اسپیکنگ۔۔۔جوزف کی بھاری آواز اسپیکر میں گونجی تھی ۔
کل تک راجہ تمہارے پاس پہنچ جائے گا ۔۔اٌسے ایک ہفتے بعد ٹائیگر کے ساتھ وزیرستانی علاقے کی طرف نکلنا ہے ۔۔تم اور جوانا جتنا ہو سکے اسے تربیت دو ۔۔۔ وہ مارشل آرٹ جانتا ہے ۔۔اسلحہ اور بارود کے علاوہ کم از کم اتنا کہ وہ ٹائیگر کا ساتھ دے سکے ۔۔۔جسمانی طور پر مضبوط لڑکا ہے ۔۔جلد ہی اچھے فائٹر میں ڈھل جائے گا۔۔۔۔عمران نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
اوکے باس ایسا ہی ہوگا ۔۔۔جوزف نے جواب دیا ۔۔
عمران نے فون رکھ دیا اور پھر سے مطالعے میں مصروف ہو گیا ۔۔۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
زارا اور میں تیار ہو چکے تھے ۔۔۔چاچا نے کمرے میں چائے اور فروٹ بھجوا دیئے ۔۔۔ہم نے ریفریشمنٹ کی اور پھر زارا کو لیتا ہوا اس کے ہاسٹل چھوڑا اور پھر خالہ کے گھر کی طرف چل پڑا ۔۔۔دروازہ وقار نے کھولا تھا ۔ وہ اسکول سے آچکا تھا ۔۔۔ہم گرم جوشی سے ملےاور پھر ڈرائنگ میں بیٹھے ۔۔۔تھوڑی دیر میں نکھر ی نکھری ثناء بھی وہیں آ گئی ۔باتوں اور قہقہوں میں پتا ہی نہیں چلا کہ رات ہو گئی ۔۔۔۔رات کا کھانا ہم نے ساتھ کھایا ۔۔اور پھر اپنے گھر کی طرف واپس لوٹ آئے ۔۔۔اپنے روم میں پہنچ کر بیڈ پر لیٹا تھا ۔۔۔ثناء نیچے سے دودھ لینے گئی تھی کہ میرے موبائل کی بیل بجی ۔۔۔۔ٹائیگر کا فون تھا ۔۔۔اس نے جب پوری صورت حال بتائی تو میں خوشی سے اچھل ہی پڑا ۔۔مجھےایک ہفتے بعد اس سے وزیرستان میں ملنا تھا ۔۔۔اور کل رانا ہاؤس پہنچنے کا کہ کر ٹائیگر نے فون بند کردیا ۔۔۔
ثناء کمرے میں داخل ہوئی تو میں دل ہی دل میں مسکرا رہا تھا ۔۔۔۔۔کیا ہوا کوئی خوشخبری مل گئی ہے جو اکیلے اکیلے مسکرائے جا رہے ہیں ۔۔۔ثناء نے پوچھا ۔۔۔
ہاں کچھ بات ہی ایسی ہے ۔۔ایک دوست کے ساتھ ایک ہفتے کا ٹور بنا ہے ۔۔۔پورے ملک کی سیر کو جا رہے ہیں ۔۔میں نے جلدی جلدی بتایا ۔۔۔
ثناء کچھ اداس سی ہو گئی ۔۔۔ایک ہفتے کے لئے اور وہ بھی دوستوں کے ساتھ ۔۔۔میں سوچ رہی تھی کہ ہم چلے چلتے ہیں کسی طرف ۔۔امی بھی پوچھ رہیں تھی کہ کہاں جاؤ گے ۔۔۔۔ثناء نے جواب میں کہا ۔۔
بس یہ ایک پہلا اور آخری ٹور ہے ۔اس کے بعد ہم ساتھ میں پورے ملک کی سیر کریں گے ۔۔۔۔۔۔ثناء بہل گئی تھی ۔۔اور میں اٌسے خود سے لپٹا ئے سو گیا ۔۔۔۔
اگلے دن میں جلدی اٹھا تھا ۔۔۔بیگ تیار کر کے امی کے پاس گیا ۔۔انہیں بتا کر کار لے کر شہر کی طرف چل پڑا ۔۔تیز رفتاری سے ڈرائیو کرتے ہوئے میں رانا ہاؤس پہنچا تھا ۔۔۔۔۔
جہاں جوزف میرا انتظار کر رہا تھا۔۔ میں جتنا خوشی خوشی پہنچا تھا آگے اتنا ہی مشکلات میرے سامنے تیار تھیں ۔۔۔۔جوزف اور جوانا نے رانا ہاؤس کے ایک حصے میں میری تربیت کا انتظار کیا ہوا تھا ۔۔۔۔اسی وقت سے انہوں نے میری تربیت شروع کر دی تھی جو کہ ایک ہفتے تک چلنی تھی ۔۔۔صبح کی بے تحاشہ ورزش کے بعد شوٹنگ کے لئے جانا ہوتا تھا ۔۔۔اس کے بعد بارودی مواد اور مختلف اسپائی گیجٹ کا استعمال ۔۔۔شام کے بعد فائٹنگ اور ہینڈ ٹو ہینڈ کومبیٹ کی تربیت ہوتی تھی ۔۔اور رات کو ہم آپس میں ہی فائٹ پریکٹس کرتے تھے ۔۔۔۔ایک ہفتہ کیسے گذرا مجھے پتا نہیں چلا۔۔۔بس روز بروز جسم کی سختیاں بڑھتی جارہی تھی۔۔۔دماغ میں بیلنس اور توازن بڑھتا جا رہا تھا ۔۔۔ جسم کی پھرتی اور دماغی ہوشیاریوں میں اضافہ ہوتا گیا تھا ۔اسٹیمنا اور طاقت بھی پہلے سے کافی بڑھ چکی تھی۔۔۔۔۔ساتھ ہی مختلف ہتھیاروں پر بھی ہاتھ بٹھا چکا تھا ۔۔میرا چہرہ پہلے سے سرخ و سپید اور آنکھوں میں ایک بجلی سی کوند آئی تھی ۔۔سینے میں ایک آگ اور جوش اپنی جگہ بنا چکے تھے ۔۔۔۔آج میرا آخری دن تھا ۔۔جب میری جوزف سے فائٹ ہوئی ۔۔ہم دونوں آمنے سامنے تھے ۔۔اور جوانا ریفری کے فرائض سرانجام دے رہا تھا ۔۔۔۔دس منٹ سے اوپر گزر چکے تھے۔۔ہم دونوں پسینے میں بھیگے ہوئے تھے ۔۔اور دونوں ہی ہار ماننے کو تیار نہ تھے ۔۔۔جب میں نے تالی کی آواز سنی ۔۔۔عمران صاحب جانے کب آئے تھے ۔۔اور ہماری فائٹ دیکھ رہے تھے ۔۔ہم رک گئے ۔۔اور سانس بحال کرنے لگے ۔۔۔عمران صاحب میرے قریب آئے اور کندھے پر تھپکی دے کر بولے ۔۔اب مجھے لگ رہا ہے کہ میرا انتخاب ٹھیک تھا ۔۔چلو چینج کر کے آؤ ۔۔میں اندر انتظار کر رہا ہوں ۔۔۔میں جلدی جلدی فریش ہوا اور کمرے میں جا پہنچا ۔۔عمران صاحب سامنے صوفے پر بیٹھے تھے ۔۔میں کرسی پر بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔
ہاں بھئی کیسے گزرے یہ دن ۔۔میرا خیال ہے کہ اب تم تیار ہو گئے ہو ۔۔عمراں نے پوچھا ۔
جی عمران صاحب! مجھے لگتا ہے کہ مجھ میں کوئی نئی روح حلول ہو گئی ہے ۔۔میں ہر طرح کی سچویشن کے لئے تیار ہوں ۔۔میں نے جواب دیا ۔۔
تمہیں کل پہاڑی علاقے کی طرف نکلنا ہے ۔۔ٹائیگر پہلے ہی جا چکا ہے ۔۔وہ تمہار ا انتظار کر رہا ہے ۔۔ابھی تمہیں صرف اپنے ملک کی حد تک ہی کام کرنا ہے جو زیادہ مشکل نہیں ہے ۔ ۔۔عمران سمجھاتے ہوئے کہ رہے تھے ۔۔
اور یہاں سے کیسے جانا چاہو گے ۔۔۔میں تمہاری فلائٹ کروا دیتا ہوں ۔۔ کل صبح روانہ ہو جانا ۔
میں نے اثبات میں سر ہلادیا ۔۔ٹھیک ہے عمران صاحب۔
چلو ابھی جا کر سو جاؤ کل جلدی نکلنا ہوگا۔۔۔۔عمران صاحب کی بات سن کر میں اٹھا اور اپنے کمرے کی طرف چل دیا جہاں آجکل میرا بسیرا تھا ۔۔۔ 
اگلی صبح مجھے جوزف نے اٹھایا تھا ۔۔۔فریش ہو کر میں ناشتہ پر پہنچا جہاں جوزف اور جوانا بھی بیٹھے انتظار کررہے تھے ۔۔میں بھی شامل ہو گیا ۔۔ناشتے کے بعد جوزف نے ایک خصوصی بیگ کی طرف اشارہ کیا کہ راجہ یہ بیگ ساتھ لے کر جانا ہے ۔۔ٹائیگر اور تمہارے کام آنے والا بہت سا سامان رکھا ہے اس میں ۔۔۔کچھ دیر میں جوزف مجھے ائیرپورٹ پر ڈراپ کر کے واپس ہو گیا ۔۔اور میں نے ائیر پورٹ کے اندر قدم بڑھا دئیے ۔۔جہاں سے میری زندگی کا ایک نیا دور شروع ہونے جا رہا تھا ۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
میں بورڈنگ کاؤنٹر سے اپنا ٹکٹ اور بورڈنگ کارڈ لئے اندر کی طرف روانہ ہوا ۔۔ائیر پورٹ پر ہر طرف چہل پہل تھی ۔۔۔ملکی و غیرملکی چہرے چاروں طرف بکھرئے ہوئے تھے ۔۔میری فلائیٹ ایک پرائیوٹ جہاز سے تھی ۔۔ جو کہ ابھی ابھی شروع ہوئی تھی ۔۔اور اپنی سروس کے بارے میں کافی مشہور تھی ۔۔۔مجھے پشاور اترنا تھا ۔۔جہاں سے آگے پرائیوٹ گاڑی یا بس کے زریعے مجھے آگے جانا تھا ۔۔۔میں ویٹنگ روم میں انتظار کر رہا تھا ۔۔جب میر ے جہاز کے فلائٹ نمبر کا اعلا ن ہوا ۔۔۔میں ایک گہری سانس لئے اٹھ کھڑا ہو گیا ۔۔بیگ پہلے ہی لگیج میں بھیج چکا تھا ۔۔۔اس لئے سامان کی کوئی فکر نہیں تھا ۔۔۔ مجھ سے آگے کافی لوگ ایکدوسرے کے اوپر چڑھے ہوئے تیزی سےبڑھنے کی کوشش میں تھے ۔۔میں بھی خاموشی سے ان کے پیچھے ہو گیا ۔۔جہاز میں پہنچ کر ائیر ہوسٹس کو ٹکٹ دکھا ئی جو کہ بزنس کلاس کی تھی ۔۔۔ائیر ہوسٹس بائیں طرف اشارہ کرتے ہوئے میرےآگے چلنے لگی ۔۔اور میری سیٹ کے قریب آ کر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔۔۔یہ ایک کیبن نما پورشن تھا ۔۔جس میں آمنے سامنے دو سیٹ تھیں ۔۔۔۔درمیاں میں ایک ایل سی ڈی تھی ۔۔۔۔میں سیٹ پر بیٹھ گیا ۔۔سیٹ کی ایک طر ف پینل بنا ہوا تھا ۔۔جس سے سیٹ کی بیک پیچھے اور پھر ایک چھوٹے سے کاؤچ میں تبدیل ہو جاتی تھی ۔میں اخبار اور رسائل دیکھ رہا تھا ۔۔۔کہ کیبن کا پردہ ہلا اور ایک خوش شکل چینی لڑکی اندر داخل ہوئی ۔۔اس کے پیچھے بھی ائیر ہوسٹس تھی اور وہ اسے سیٹ دکھا کر واپس چلی گئی۔۔چینی لڑکی بھی خاموشی سے اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی ۔۔۔اور موبائل میں مصروف ہو گئی ۔۔۔کچھ دیر میں جہاز نے اڑان بھری اور ہوا میں تیرنے لگا ۔۔۔۔میں بیلٹ کھول کر آرام سے سیٹ پیچھے کئے نیم دراز ہو گیا ۔۔ساتھ ہی میں لڑکی کا جائزہ لینے لگا ۔۔۔ چائینز قوم کے برعکس اس کی آنکھیں کچھ بڑی تھیں ۔۔۔چہرہ تھوڑا سا لمبوترہ اور عمر کوئی 28 سال کے قریب لگ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔لمبی فراک ٹائپ اسکرٹ پہنے ہوئے پاکستانی ڈریس بنانے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔ہمارے یونیورسٹی میں کچھ فارن اسٹوڈنٹ بھی تھے ۔۔جن سے میں چینی زبان میں کچھ ہیلو ہائے سیکھ چکا تھا۔ ۔۔۔لہذا اس کا فائدہ اٹھانے کا ٹائم آ چکا تھا ۔۔۔میں نے نی ہاؤ کرتے ہوئے بات آگے بڑھائی ۔۔۔لڑکی ایکدم سے حیران ہو گئی ۔۔اسے مجھ سے چینی زبان سننے کی امید نہیں تھی ۔۔اور تھوڑی ہی دیر میں ہم بے تکلف ہو چکے تھے ۔۔۔اس کا انگلش نام سلینا تھا ۔۔اور وہ سول انجینئر تھی ۔ابھی تک غیر شادی شدہ تھی ۔۔۔۔یہاں پاک چائنا کوریڈور کے سلسلے میں آئی تھی ۔۔مگر پہلی بار پشاور جا رہی تھی ۔۔اور اس لئے گھبراہٹ کا شکار بھی تھی ۔۔۔حالیہ دہشت گردی کے واقعات نے اسے اور خوف زدہ کر دیا تھا۔۔۔میں نے اسے تسلی دی اور پوچھا کہ پشاور میں کہاں جانا ہے ۔۔تو اس نے بتایا کہ اس کی دوست نے اسے ائر پورٹ پر ریسیو کرنے آنا ہے ۔میں نے اپنا نام راجہ ہی بتایا تھا ۔۔اس نے بڑی کوشش کے بعد یہ نام صحیح تلفظ کے ساتھ لیا۔۔۔۔تھوڑی دیر میں کھانا آیا ۔۔ہم کھانا کھا کر مزید باتوں میں مصروف ہوگئے ۔۔۔باتوں باتوں میں ڈیڑھ گھنٹا گزر چکا تھا ۔۔۔کہ فلائٹ اترنے کا اعلان ہوا ۔۔۔۔ہم نے جلدی جلدی اپنے نمبرز کا تبادلہ کیا ۔۔اور تیاری پکڑنے لگے ۔۔۔۔۔جلد ہی ہم جہاز سے باہر تھا ۔۔۔میں نے لگیج بیلٹ سے اپنا بیگ اٹھایا اور باہر نکلنے لگا ۔۔۔۔سلینا میرے ساتھ ہی تھی ۔۔اس کی درخواست تھی کہ جب تک اس کی دوست نہیں مل جاتی میں اس کے ساتھ ہی رہوں ۔۔۔۔۔اور میں ازلی پاکستانی ہمدردی میں اس کے ساتھ کھڑا اس کی دوست کا انتظار کرنے لگا ۔۔وہ بار بار اپنی گھڑی دیکھتی اور باہر نظر دوڑاتی ۔۔۔۔مگر اس کی دوست نظر نہیں آئی تھی ۔۔سلینا اسے کال ملا رہی تھی ۔۔مگر وہ کال بھی نہیں اٹھا رہی تھی ۔۔۔۔آدھے گھنٹے بعد میں نے اسے کہا کہ کسی ہوٹل میں روم لے کر کچھ دیر آرام کرتے ہیں جب تک تمہاری دوست آ جائے ۔۔سلینا کے پاس اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا ۔میں اسے لئے ائر پورٹ سے باہر نکلا ۔۔۔اور پرائیوٹ کیب کو ہوٹل گرینڈ کا بتا کر اندر بیٹھ گیا ۔۔بیس منٹ میں ہم ہوٹل پہنچ چکے تھے ۔ڈبل بیڈ کا ایک روم لئے ہم روم پہنچے ۔۔۔سلینا بار بار میرا شکریہ ادا کررہی تھی ۔۔کہ اگر میں نہ ہوتا تو اس کا کیا ہوتا۔۔۔میں مستقل مسکرائے جا رہا تھا ۔۔۔ہوٹل پہنچ کر ہم نے سامان رکھا اور میں نے اسے کہا کہ جائے فریش ہو جائے ۔۔۔سلینا نے مجھے کہا کہ پہلے آپ جائیں جب تک میں اپنی دوست سے رابطہ کر لوں ۔۔
میں اپنے کپڑے لئے باتھ روم گھس گیا ۔۔۔دس منٹ بعد آیا تو سلینا مطمئن بیٹھی تھی ۔۔پوچھا تو کہنے لگی کہ اس کی دوست سوات سے آگے سے آ رہی تھی مگر گاڑی رستے میں خراب ہو گئی تھی ۔۔اب سوات میں رک کر گاڑی ٹھیک ہو رہی ہے اور وہ دو گھنٹے تک پہنچی گی ۔سلینا نے اسے ہوٹل کا نام بتا دیا تھا ۔۔۔۔۔۔چلو یہ تو اچھی بات ہے ۔میں نےجواب دیا ۔۔
میں بیڈ پر جا کر بیٹھ گیا اور سلینا بھی فریش ہونے چلی گئی ۔۔۔میری رات کی نیند کم ہوئی تھی ۔۔۔میں لیٹے لیٹے غنودگی میں چلا گیا تھا ۔۔۔جب سلینا ایک تولیہ لپیٹے ہوئے باتھ روم سے باہر آئی تھی ۔۔۔لائٹ بند کرتے ہوئے میرے برابر بیڈ پر آ گئی تھی ۔۔۔۔اور ایک مرتبہ پھر میرا شکریہ ادا کرنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔جو کہ شاید کسی اور انداز میں تھی ۔۔۔جب میری اس پر نظر پڑی تو وہ میرے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے چکی تھی ۔میری نظر بھٹک کر اس کے سینے پر لپٹے ہوئے تولیہ پر پڑی تھی ۔۔جس کے بل آہستگی سے کھل رہے تھے ۔۔۔سلینا گورے رنگ کے اسمارٹ جسم کی مالک تھی ۔۔جس کا حسن اب سامنے آتا جا رہا تھا ۔۔۔۔میں بھی اس کے ہاتھ کو تھام چکا تھا ۔۔پہل اس نے کی تھی اور جواب لازمی تھا ۔۔وہ میرے ہاتھ کو پکڑتی ہوئی میرے اوپر جھکی تھی ۔۔۔۔تولیہ کھل چکا تھا ۔۔۔اور نیم تاریکی میں اس کے گورے بدن سے ابھرتی ہوئی مہک مجھے کھینچ رہی تھی ۔سلینا اب پوری میرے اوپر جھکی میرے چہرے کو چوم رہی تھی ۔۔۔۔اس کے سینے کے ابھار میرے سینے سے ٹکرا رہے تھے ۔۔۔۔میں بھی اس کے بوسوں کاجواب اسی شدت سے دینے لگا ۔۔۔جلد ہی سلینا ہار ماننے لگی تھی ۔۔میں نے اسے بیڈ پر سیدھا لٹا تے ہوئے ۔۔اس کی طرف کروٹ لی تھی ۔۔۔۔۔تولیہ بیڈ پر بے یارو مددگار پڑا ہوا تھا ۔۔اور اس کے اوپر سلینا کا چمکتا ہوا جسم میری توجہ مانگ رہا تھا ۔۔۔۔میں بھی رانا ہاؤس میں ایک ہفتے کے دوران کسی بھی لڑکی سے دور رہا تھا ۔۔اور اب سلینا خود ہی آ بیل مجھے مار کے انداز میں مجھے ملی تھی ۔۔۔۔۔میں کیسےپیچھے ہٹتا ۔۔۔۔۔پینٹ میں میرا ہتھیار بھی زور پکڑنے لگا تھا ۔۔۔۔۔۔۔سلینا کے بال بے بی کٹ تھے ۔۔۔شولڈر تک آتے ہوئے ۔۔۔۔نیچے پتلی گردن اور اس کے نیچے درمیانی سائز کے گول مٹول سے ممے تھے ۔جس پر گلابی رنگ کے نپلز جڑے ہوئے تھے ۔۔۔۔میں نے پینٹ کا بٹن کھولتے ہوئے ایک ہاتھ وہاں بڑھا دیا۔۔۔۔۔اور پینٹ کو نیچے دھکیل دیا ۔۔۔ساتھ ہی شرٹ کے بٹن بھی کھول کر لباس فطرت میں آگیا ۔۔۔۔۔۔اور سلینا کی طرف کروٹ لیتے ہوئے اس کے ممے تھام لئے ۔۔۔نرم و ملائم یہ ممےآسانی سے میرے ہاتھ میں آ رہے تھے ۔۔۔۔میں ہاتھ میں تھامتے ہوئے ان پر جھکا تھا ۔۔۔اور ایک مرتبہ چومنے کے بعد اب چوسنا شروع کر دیا تھا ۔۔۔۔سلینا کی آنکھیں نیم بند تھیں ۔۔۔میرے سر پر ہاتھ رکھے وہ مجھے شاباشی دے رہی تھی ۔۔۔۔اور میں اور تیزی سے باری باری دونوں مموں پر منہ مارنے لگا ۔۔۔۔۔جس کا اثر سلینا کے منہ سے نکلنے والی سسکاریوں کی صورت میں نکلا تھا ۔۔۔سلینا کی سسکاری بھی اسی کی طرح سریلی اور پتلی تھی ۔۔۔۔۔۔۔نیچے میرا ہتھیار تن کر ہوشیار ہو چکاتھا ۔۔۔۔اور ممے چوستے ہوئے سلینا کی رانوں سےٹکرا رہاتھا ۔۔۔۔۔۔سلینا بھی میری طرح پہلے سے ہی گرم تھی ۔۔جس کا اندازہ اس کی سسکاریوں سے ہورہا تھا ۔۔جو دعوت کے انداز میں نکلتی جا رہی تھی ۔۔۔۔میرا ہتھیار یہ آواز سن کر اور جوش میں آرہا تھا ۔۔۔۔میں ایک ہاتھ اس کے سینے پر پھیرتے ہوئے دوسرے ہاتھ کو نیچے پیٹ کی طرف لے گیا ۔۔۔اور ناف کے اندر انگلی پھیرنے کے بعد اب اس کی ٹانگوں کے درمیان پہنچا چکا تھا ۔۔۔جہاں ایک پتلی سی لکیر گیلی ہوئے جا رہی تھی ۔۔۔میں نے انگلی اس کی چوت کے اوپر ی حصے پر رگڑتے ہوئے اندر داخل کی ۔۔۔۔سلینا کے منہ سے ایک سسکاری نکلی تھی ۔۔۔۔چوت گیلی تھی ۔۔۔انگلی پھنستے ہوئے اندر گئی تھی ۔۔۔میں آہستگی سے انگلی اندر باہر کرتا رہا ۔۔۔۔۔کچھ دیر میں انگلی رواں ہوئی تو دوسری انگلی بھی شامل کر دی ۔۔۔۔سلینا نے پھر سے سسکاری بھری تھی ۔۔۔میرے دوسرا ہاتھ اور میرا منہ اوپر کی طرف اس کے مموں کو چوس کر بڑا کرنے میں مصروف تھے ۔۔۔اس کا پورا سینہ میرے تھوک سے بھیگ چکا تھا ۔۔۔۔نپلز گہرے سرخ ہونے لگے تھے ۔۔۔۔مموں پر دانتوں کے نشان بھی کہیں کہیں نظر آ رہے تھے ۔۔۔۔۔سلینا نے اپنے ممے پر پھرتے ہوئے میرے ہاتھ کو پکڑ کے مجھے خود پر لانے کی کوشش کی تھی ۔۔۔میں اشارہ سمجھتے ہوئے اوپر آیا تھا ۔۔۔۔۔اور اس کے چہرہ پر جھکتے ہوئے ہونٹوں کو چوسنے لگا ۔۔سلینا بھی میری کمر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے جواب دے رہی تھی ۔۔۔۔اس کے بعد میں نیچے کی طرف آیا ۔۔۔ایک تکیہ لے کر اس کی کمر کے نیچے رکھااور ٹانگیں اٹھا کر سینے سے لگا دی ۔۔۔۔۔اور پیروں کے بل آ کر اس کے درمیان بیٹھ گیا ۔۔۔ہتھیار اپنی پوری لمبائی اور موٹائی میں تھا ۔۔۔۔۔۔میں نے ٹوپے کو اوپر رکھا ۔۔۔۔سلینا کی آنکھیں نیم بند تھیں ۔۔وہ بند آنکھیں کئے ہوئے ہر حرکت کو محسوس کر رہی تھی ۔۔۔۔ٹوپا اس کی چوت کے لبوں سے بہت بڑا تھا ۔۔۔میں نے زور لگاتے ہوئے اسے اندر کیا تھا۔۔۔چوت کے لب بالکل اپنی آخری حد تک کھلے تھے ۔۔۔۔۔۔سلینا کے منہ سے ایک چیخ نکلی تھی اور اگلی آواز میں نے آہ کی سنی تھی ۔۔۔جو شاید کئی کمروں تک سنی گئی تھی ۔۔۔۔سلینا ایک جھٹکے سے اٹھی تھی ۔۔۔۔۔اور پھر نیچے ہتھیار میں پھنسی ہوئی اپنی چوت کو دیکھا ۔۔۔جو یقینا اسے بے تحاشہ درد دے رہا تھا ۔۔۔۔سلینا نے ٹانگیں نیچے کرتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔۔مگر میں اس کی ٹانگوں کو نیچے دباتا ہوا اس کے اوپر زور دے کر بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔۔وہ اپنے کھلے ہوئے منہ کے ساتھ مجھے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔اس کی نظروں میں کچھ غصہ تھا ۔۔کچھ آنسو تھے ۔۔۔۔کچھ ترس بھری نگاہیں تھیں ۔۔۔میں سلینا کی ٹانگوں کو اس کے سینے سے لگائے اوپر زور دئے بیٹھا تھا ۔۔۔۔وہ پورا منہ کھولے چلا رہی تھی ۔۔۔اوہ مائی گاڈ کی آواز تھی ۔۔۔۔۔کچھ دیر تک رکنے کے بعد میں نے اور زور دیا تھا ۔۔۔۔۔اور اب دو انچ تک ہتھیار تباہی مچاتا ہوا گھسا تھا ۔۔۔۔۔سلینا پھر تڑپی تھی ۔۔۔کانپی تھی ۔۔۔اور پھر سے چلارہی تھی ۔۔۔۔آہ۔۔۔سس۔۔۔۔۔او ہ مائی گوڈ ۔۔۔۔۔۔میں نے اوپر سے اس کے سین پر تھوک پھینکا اور دونوں ہاتھ لے جا کر ممے مسلنا لگا ۔۔۔جو مسلنے سے زیادہ نوچ جارہے تھے ۔۔۔کبھی نپلز کھینچے جار ہے تھے ۔۔۔۔۔اس کا درد زائل ہو رہا تھا ۔۔سسکاریاں اور آہیں مدھم ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ہتھیار ابھی تک اندر پھنسا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے اسے اور حرکت دی ۔۔اور آدھا اندر پہنچا دیا ۔۔۔۔۔۔سلینا پھر سے منہ کھولتی ہوئی چیخی تھی ۔۔۔۔۔آہ۔۔۔۔اوہ۔۔۔۔۔سس۔۔۔۔میں کچھ دیر ٹہرا رہا اور باہر نکال کر آہتگی سے اندر باہر کرتا رہا ۔۔۔۔ہتھیار جتنی رگڑ کھاتا ہوا اندر جاتا تھا ۔۔۔اتنی ہی رگڑ کھاتا ہوا باہر آتا ۔۔۔۔۔۔سلینا ابھی تک چلا رہی تھی ۔۔۔۔۔اس کی سریلی آوازیں کمرے سے باہر تک جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔میں کچھ دیر تک آدھا ہتھیار ہی اندر باہر کرتا رہا تھا ۔۔۔۔۔اور اس کے ممے برابر کھینچتا رہا ۔۔۔۔۔۔سلینا کی چوت بے تحاشہ پانی چھوڑ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔میں کچھ دیر ہلکے ہلکے سے دھکے دیتا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔اور اس کے بعد اس کی اوپر سینے پر لگی ہوئی ٹانگوں کو پھیلا کر دائیں بائیں کر دیا ۔۔۔۔۔۔اور ہتھیار باہر کھینچ کر پھر اندر پہنچا دیا۔۔۔۔۔۔اور اس کے متوازی جھٹکے مارتا ہوا۔۔۔۔اس کے نیچے دبے بیڈ کو ہلانے لگا ۔۔۔۔۔فائیواسٹار ہوٹل کے اس بیڈ کے اسپرنگ اعلٰی کوالٹی کے تھے ۔۔۔اور اب میرا بھرپور ساتھ دے رہے تھے ۔۔۔۔میرے جھٹکوں کےساتھ بیڈ بھی سلینا کو اچھالتا ہوا میرے ہتھیار پر دھکیلتا ۔۔۔۔۔میرے ہلکے سے جھٹکے کے بدلے سلینا کے وزن کے برابر ردعمل ہوتا تھا ۔۔۔۔سلینا کی آہیں مدھم ہو کر کمرے کے اندر تک محدود ہو چکی تھی ۔۔میں اس کی ٹانگوں کو اور سختی سے پھیلا کر جھٹکے گہرے اور طاقت ور کر دئیے ۔۔۔۔ہر جھٹکے کے ساتھ اسپرنگ اسے اوپر دکھیلتا ۔۔۔اور ساتھ ہی اس کی اوہ مائی گوڈ کی آواز آتی ۔۔۔جو کہ پورے کمرے میں گونج جاتی ۔۔۔۔۔۔یہ دونوں عمل کئی منٹ تک ایسے ہی متوازی چلتے رہے ۔۔۔۔۔۔پھر ہر جھٹکے کے ساتھ اس کی یہ آواز اور تیز ہوتی گئی ۔۔۔اور اگلے دومنٹ میں تیز چلاتی ہوئی سلینا فارغ ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔چوت پانی سے بھر چکی تھی ۔۔۔جو کہ نارمل مقدار سے زیادہ پانی تھا۔۔۔۔۔۔میں اس کے اوپر سے اٹھتا ہوا سائیڈ پر بیٹھا تھا۔۔۔۔ہتھیار ابھی تک میری ٹانگوں کے درمیان لہرا رہا تھا ۔۔۔۔سلینا کی چوت کا پانی اس پر چمک رہا تھا ۔۔۔۔۔سلینا تیزی سے اٹھی تھی اور ہتھیار کوپکڑنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔۔پہلی بار تو ہتھیار اس کے ہاتھ سے سلپ ہو ا ۔۔۔۔۔پھر جب دونوں ہاتھوں سے پکڑ ا تو اس کی آنکھیں باہر آچکی تھی ۔۔۔اسے یقین نہیں تھا کہ اس نےیہ ہتھیار اپنے اندر لیا تھا ۔۔۔اس نے اپنی کلائی کے ساتھ ہتھیار لگایا ۔۔مگر ہتھیار اس سے کہیں بڑا تھا ۔۔۔۔دونوں ہاتھوں میں تھامتی ہوئی وہ اس پر جھکی اور منہ میں لینےلگی ۔۔مگرٹوپا ہی اس کے منہ میں پھنس رہا تھا ۔۔۔۔وہ چاروں طرف سے اسے چوسنے لگی ۔۔۔۔۔اگلے دن منٹ سلینا نے جی بھر کر اسے چوسا تھا ۔۔۔۔چاٹا تھا ۔۔۔۔۔اورپھر میرے دائیں بائیں پاؤں رکھ کر سوار ہونے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔ایک ہاتھ سے ٹوپے کو سیدھ میں رکھتے ہوئے وہ آہستگی سے بیٹھ رہی تھی ۔۔۔۔
میں اسے سہار ا دینے لگا ۔۔۔۔ٹوپ اوپر رکھ کر اس نے زور دیا تھا ۔۔جب اس کی چوت کے لب کھنچے اور ٹوپا اندر پہنچا۔۔سلینا کے منہ سے ایک تیز آہ نکلی تھی ۔۔۔۔۔سس ۔۔۔آہ۔۔۔۔اور پھر تھوک اپنے ہاتھ پر گراتی ہوئ اپنی چوت پر ملنے لگی اور کچھ تھوک ہتھیار کے نچلے حصے پر ملنے لگی ۔۔۔۔اس کے بعد سانس روک کر تھوڑی اور بیٹھی ۔۔اور آدھا ہتھیارتک اندر لے لیا۔۔۔۔۔اس کے دونوں ممے میری آنکھوں کے سامنے تھے ۔۔۔بےبی کٹ بال لہرا رہے تھے ۔۔۔دونوں ہونٹ اس کے تھوک سے گیلے ہورہے تھے ۔۔۔۔۔جس پر وہ بار بار زبان پھیرتی تھی ۔۔۔سلینا نے اب آدھے ہتھیار پر اوپر نیچے ہونا شروع کر دیا تھا۔۔۔۔۔اس کی آہوں کے ساتھ ساتھ میں اس کے ہلتے ہوئے مموں کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔جو ابھی میری پہنچ سے دور تھے ۔۔۔۔۔سلینا ابھی تک آدھے ہتھیار پر ہی سواری کر رہی تھی ۔۔۔۔۔اگلے پانچ منٹ تک اس نے اپنی پور ی جان لگا کر سواری کی تھی ۔۔۔۔۔اس کے بعد اٹھ کر بیڈ پر بیٹھی اور گھوڑی بننے لگی ۔۔میرے لئے اٹھنےکا اشارہ تھا ۔۔میں اٹھا اور پیچھے جا پہنچا جہاں گول مٹول سی گوری چٹی گانڈ میرے سامنے تھی ۔۔۔۔۔۔اس کے درمیان سے میں نے گھوڑے کو گزارا تھا ۔۔۔جو سیدھ چوت کے لب سے جا ٹکرایا۔۔۔۔سلینا تھوڑی سی اوپر کو اچھلی تھی ۔۔۔۔۔۔میں نے اس کی کمر کو تھامتے ہوئے دوبارہ سے دھکا دیا ۔۔۔۔اورگھوڑا سیدھ اندر جا گھسا ۔۔۔۔۔۔سلینا پھر سے کمر کو اٹھاتی ہوئی آہ۔۔۔اوئی ۔۔۔کی آواز نکالتی ۔۔۔۔۔۔میں نے دھکوں کی اسپیڈ تھوڑی تیز کی ۔۔۔۔اور ہر دھکےکے ساتھ تھوڑا سا آگے کو بڑھتا ۔۔۔جس سے گھوڑا کچھ اور اندر تک جا پہنچتا ۔۔۔اور سلینا پھر سے کمر کو اٹھا کر چیخ مارتی ۔۔۔۔۔۔۔میں نے اسی طرح سے پورا گھوڑا اندر تک پہنچا دیا تھا ۔۔۔۔سلینا اب بغیر رکے ہلکی چیخیں ماری جا رہی تھی ۔۔۔۔۔میں نے بھی اسپیڈ بڑھا دی تھی ۔۔۔۔۔بیڈ اب بھی میرا ساتھی تھا ۔۔۔۔۔سلینا دھکوں کے درمیان ڈس بیلنس ہونے لگی تھی ۔۔۔مگر میں اس کی کمر تھامے دھکے دیتا رہا ۔۔۔۔۔ہر دھکے کےساتھ وہ کچھ آگے کو جھکتی ۔۔۔اور میں واپس کمر سےکھینچ کر دھکا دے مارتا۔۔۔۔۔۔۔سلینا کی آہ۔۔۔۔ائی ۔۔۔اوہ ہ۔۔۔اب بھی جاری تھی ۔۔۔۔۔گھوڑے کے جھٹکے بڑھتے جا رہے تھے ۔۔اور گھوڑی بار بار آگے کو گرنے لگی تھی ۔۔۔۔۔۔ساتھ ہی اس کے منہ بے معنی آوازیں نکل رہی تھی ۔۔۔۔۔میں نے پیچھے سے اس کی دونو ں ٹانگوں کواٹھا کر اپنی بانہوں میں لے لیا اور نیچے سے دھکوں کی اسپیڈ بڑھا دی ۔۔۔وہ بیڈ پر اپنے ہاتھو ں کے بل اٹھی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔صرف ہاتھ بیڈ پر رکھے درمیانہ جسم ہوا میں اور ۔۔ٹانگیں میرے ہاتھوں میں تھی ۔۔۔اب کی بار ی میرے دھکے اسےہوا میں اچھال دیتے ۔۔۔۔۔۔۔میرے غراہٹیں سی نکلنے لگیں تھی ۔۔۔اور دھکے بڑھ کر طوفانی ہو گئے ۔۔۔۔۔سلینا کی چیخیں دوبارہ سے کمرے سے باہر تھیں ۔۔۔۔۔۔۔مگر ہم دونوں کو اس کی فکر نہ تھی ۔۔۔۔۔۔۔اور پھر اگلے طوفانی جھٹکے اس کے تن بدن کو بری طریقے سے ہلا چکے تھے ۔۔۔۔وہ برے طریقے سے ہوا میں لہرا رہی تھی ۔۔۔اور پیچھے سے گھوڑا اپنی پوری شدت سے دوڑے جا رہا تھا ۔۔۔گھوڑی ہمت ہار چکی تھی ۔۔اور اب پانی برسانے کی فکر میں تھی ۔۔۔۔گھوڑا بھی بے چین ہوا چلا تھا ۔۔۔اور ساتھ ہی آنا چاہ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔جھٹکے کچھ اورتیز ہوئے اور دونوں نے ایک ساتھ پانی برسا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔پانی کا ایک سیلاب تھا جو اس کی چوت سے گرتا ہوا بیڈکی چاد ر کو گیلا کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔دو چار اور جھٹکے مارنے کے بعد میں نے اسے چھوڑا اور وہ بے حال ہوئی بیڈ پر گری ۔۔۔۔میں بھی برابر میں لیٹا ہوا تھا ۔۔۔۔۔دس منٹ بعد وہ اٹھی اور سہارا لیتی ہوئی باتھ روم میں گھسی تھی ۔۔۔ٹائم پورا ہو چکا تھا ۔۔اور اس کی دوست پہنچنے ہی والی تھی ۔۔۔۔وہی ہوا ۔۔ادھر وہ باہر نکلی او ر ادھر دروازے پر دستک ہوئی ۔۔۔۔میں کپڑے پہن چکا تھا ۔۔۔دروازے پر پہنچا اور کھول دیا ۔۔۔۔باہر ایک چھوٹی سی چینی گڑیا ایک پاکستانی کے ساتھ کھڑی تھی ۔۔۔سلینا پر نظر پڑتے ہی وہ اندر آئی تھی اور اس سے جا کر لپٹ گئی تھی ۔۔۔۔۔وہ پاکستانی ساتھ گارڈ کے طور پر تھا ۔۔۔اور ڈرائیور بھی تھا ۔۔۔۔۔اس نے سلینا کا بیگ اٹھایا اور نیچے چلا گیا ۔۔۔سلینا نے اس ننھی منی چینی گڑیا کا تعارف کروایا ۔۔جس کا نام روزی تھا ۔۔۔اور جب عمر پتا چلی تو وہ سلینا سے ایک سال بڑی تھی ۔۔۔جبکہ شکل سے وہ 16 سال کی کوئی لڑکی لگ رہی تھی ۔۔۔روزی نے بھی میرا شکریہ ادا کیا کہ میں نے اس کی دوست کا خیال رکھا ۔۔۔اسے کیا پتا کہ کیسے خیال رکھا تھا ۔۔سلینا جانے کو تیار تھی ۔۔مجھے سے گلے ملی اور کہا کہ دوبارہ ضرور ملنا ۔۔میں تمہیں فون کروں گی ۔۔۔۔میں نے بھی جوابی کس کرتے ہوئے اسے رخصت کیا اور بیڈ پر لیٹ کر آرام کرنے لگا ۔۔۔شام کو آگے کا سفر تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


شام کو میں اٹھا تو ٹائیگر کی مس کالز آئی ہوئی تھیں ۔۔۔اس سے بات ہوئی کہ رات کی بس سے وزیرستان کے لئے نکل رہا ہوں ۔۔صبح تک پہنچ جاؤں گا۔۔۔اس سے آگے کا سفر مجھے ٹائیگر کے ساتھ کرنا تھا ۔۔ ٹائیگر نے محتاط رہنے کا کہہ کر فون بند کر دیا ۔۔۔میں نے اگلی کال اپنے گھر میں کی تھی ۔۔ثناء سے کچھ دیر بات کرنے کے بعد باہر آیا اور ٹیکسی لے کہ پشاور کی مشہور نمک منڈی چلا گیا جہاں کے کھانے دنیا بھر میں مشہور تھے ۔۔۔ٹیکسی والے کو انتظار کا کہا ہوا تھا ۔۔کھانے کے بعد اس نے مجھے بس اڈے چھوڑ دیا ۔۔۔میں نے اپنے حلیہ میں نمایا ں تبدیلی کر لی تھی ۔۔۔آف وائٹ سوٹ کے ساتھ واسکٹ اور سر پرمخصوص پشاوری ٹوپی تھی ۔۔۔۔ہلکی بڑھی ہو ئی شیو اور سرخ و سپید چہرے کے ساتھ میں پٹھان ہی لگ رہا تھا۔ جب تک میں بات نہ کرتا کوئی مجھے پہچان نہیں سکتا تھا ۔۔۔اڈے سے ٹکٹ خرید کر میں بس میں جا بیٹھا تھا ۔۔۔ بس میں ہر طرف مخصوص مہک اور اونچی آواز میں باتوں کی آواز آ رہی تھی ۔۔۔۔میں کچھ دیر تک تودائیں بائیں دیکھتا رہا ۔۔۔۔پھر چلتی بس میں کب نیند آئی مجھے کچھ پتا نہ چلا ۔۔۔۔۔رات کے تین کا ٹائم ہو گا جب بس کہیں رکی تھی ۔۔۔باہر آیا تو ہوٹل سامنے تھا جس پر تکے اور گوشت بھونا جا رہا تھا ۔۔۔میں نے کنڈیکٹر سے پوچھا تو بتایا کہ یہ لکی مروت ہے ۔۔آگے کچھ ہی گھنٹوں کا سفر باقی ہے ۔۔میں ایک اچھی چائے کا آڈر دے کر سامنے بنے تخت پر بیٹھ گیا ۔ ۔۔یہاں مجھے خواتین کی اکثر تعداد مخصوص ٹوپی والے برقعے میں نظر آرہی تھی ۔۔۔چائے پی کر میں بس پر جا بیٹھا ۔۔۔اور پھر نیند کی آغوش میں چلا گیا ۔۔صبح میری آنکھ شور شرابا میں کھلی تھی ۔۔۔بس وزیرستان اڈے پر پہنچ چکی تھی ۔۔۔میں بھی جلدی سے اتر آیا اور کنڈیکٹر کو کہہ کر اپنا بیگ نکلوایا ۔۔۔ٹائیگر کو میں نے دور کھڑے دیکھ لیا تھا۔۔۔بیگ لے کر میں اس کی طرف بڑھا تھا ۔۔۔۔وہ بھی میری طرح مقامی حلیئے میں ہی تھا۔۔ہم بڑے پرتپاک انداز میں ملے تھے ۔۔۔۔سامنے ہی ملٹری ماڈل کی گرین جیپ کھڑی تھی ۔۔۔۔ہم جیپ پر سوار ہوئے ۔۔اور ٹائیگر نے جیپ آگے بڑھا دی ۔۔۔۔۔۔صبح کا وقت تھا ۔۔اور میں حیرانگی سے چاروں طرف دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔یہ علاقہ چاروں طرف سے پہاڑی سلسلے سے گھرا ہوا تھا ۔۔اور انہی کے درمیان سے ہماری جیپ گزر رہی تھی ۔۔۔دس منٹ کے سفر کے بعد ہماری جیپ ایک رہائشی علاقے میں داخل ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ٹائیگر نے جیب ایک بڑی سی حویلی نما کے سامنے روکی تھی ۔۔۔ہارن کی مخصوص آواز کے ساتھ ہی بڑا سا گیٹ کھلا تھا۔۔۔۔۔جیپ غراتی ہوئی اندر داخل ہوئی تھی ۔۔۔۔جیپ رکتے ہی میں اترا تھا ۔۔۔۔۔سامنے ہی ایک جوان لڑکا پاؤچ باندھے ہوئے قریب آیا ۔۔۔ٹائیگر صیب آپ آگئی ہے۔۔۔لڑکے کی اردو بھی اس کی طرح گلابی ہی تھی ۔
ٹائیگر نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ راجہ صاحب ہیں اور کچھ دن ہمارے ساتھ رہیں گے۔ ۔۔لڑکے کا نام اجمل خان تھا یہ حویلی اٌسی کی تھی ۔۔۔۔۔اجمل خان کےساتھ ہاتھ ملا کر ہم اندر داخل ہوئے تھے ۔۔۔ حویلی میں نچلا پورشن ہمارے پاس تھا اور اوپر ی حصے میں اجمل خان کی فیملی رہ رہی تھی ۔۔۔اجمل عمران صاحب کا ہی دوست تھا ۔اور اس علاقے میں اسلحے کی دکان چلاتا تھا ۔۔۔ایک ہفتے سے ٹائیگر اسی کے ساتھ رہ رہا تھا ۔۔۔ٹائیگر کی مصروفیت دیکھ کر اجمل نے اپنی دکان بند کر دی تھی اور اب ہر وقت اسی کے ساتھ مسلح گھومتا تھا۔۔۔یہ علاقہ خطرناک بھی تھا ۔۔اور اجنبیوں کے لئے کسی بھی وقت بڑی مشکل کھڑی ہوسکتی تھی ۔۔۔۔
اجمل خان بھی ہمارے پیچھے ہی چلا آیا تھا ۔۔ٹائیگر نے اسے ناشتہ کا کہا ۔۔تھوڑی دیر میں نان اور بھیڑ کے گوشت کا سالن میرے سامنے تھا ۔۔۔ناشتہ کے بعد ٹائیگر مجھے ایک اور روم میں لے گیا ۔۔۔جسے اس وقت آپریشن روم کا نام دیا جا سکتا تھا ۔۔۔۔۔۔ایک طرف ایک بڑا نقشہ ٹنگا ہوا تھا ۔۔۔۔سامنے ایک ٹیبل اور کئی کرسیاں لگی ہوئی تھیں ۔۔۔۔ٹائیگر نے مجھے بیٹھنے کااشارہ کیا اور صورتحال سمجھانےلگا ۔۔۔۔۔۔۔ان علاقوں میں قبائل سسٹم چلتا تھا ۔۔۔اور کچھ عرصے سے ازبک ، اوغور لوگ یہاں ہجرت کر کے آئے تھے ۔۔وزیرستان کے ہی ایک بڑے قبیلے نے انہیں پناہ دی تھی ۔۔اور اپنے علاقے ان کے حوالے کئے تھے ۔۔۔۔یہ ازبک جتنے معصوم دکھتے تھے اتنے ہی وحشی اور بے غیرت بھی ہیں ۔اپنی عورتوں کو یہاں پر رہنے کے لئے استعمال کرنا اور یہاں کے مردوں سے شادی کروانا ان کا معمول بنتا گیا ۔۔۔۔۔۔ساتھ ہی ہر طرح کے جرائم میں بھی ملوث تھے ۔۔منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ میں بھی ان کا یہاں ہاتھ تھا ۔۔۔افغانستان سے آنے والے انڈین ایجنٹ بھی بھیس بدل کر انہیں کے ساتھ رہ رہے تھے ۔۔پیسے کی ان کو کوئی کمی نہ تھی ۔۔اور وزیرستان کے قبائلی لڑکوں کو بھڑکا کر اپنے مقصد کے لئے استعمال کرنا ۔۔اور وقتا فوقتا اپنے انڈین ایجنٹ کو افغان سرحد سے لا کر پاکستان کے مختلف علاقوں میں بھیجنا ان کا کام تھا ۔۔۔۔وقت کے ساتھ ہی یہ اپنی جڑیں اتنی مضبوط کر چکے تھے ۔۔۔کہ اب یہاں ان کے ساتھ چھیڑ خانی کرنا ان قبائل سے جنگ کے مترادف تھا جو کافی بڑا مسئلہ تھا ۔۔۔یہ قبائل ہر بات کو غیرت پر لے لیتے اور یہ جنگ معصوم لوگوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی۔۔
پھر اس کا کیا حل نکالا ہے آپ نے ٹائیگر صاحب ۔۔۔میں نے پوری بات سمجھتے ہوئے پوچھا ۔
ہمارا مقصد ان کے درمیان انڈین ایجنٹ کو نشانہ بنانا ہے ۔۔۔جو یہاں ایک بڑی حویلی میں بڑے سیٹ اپ کے ساتھ رہ رہے ہیں ۔۔کئی ایجنٹ نے یہاں ازبک عورتوں سے شادی بھی کر لی ہے ۔۔۔ اس کے لئے میں نے ان کی حویلی کے سامنے ہی اجمل خان کی مدد سے گھر کرائے پر لیا ہے ۔۔اجمل خان اور میں باری باری وہاں جا کر ڈیوٹی دیتے ہیں ۔۔ ۔۔۔نگرانی اور مانیٹرنگ کا سبھی کام وہی ہوتا ہے ۔۔۔ہم نے کچھ ڈکٹا فون اور سامنے کیمرے فٹ کئے ہوئے ہیں ۔ جس سے آنے جانے والوں کا پتا چلتا ہے ۔۔ہر چیز نوٹ ہور ہی ہے ۔۔ کل تک سب رپورٹ عمران صاحب کو بھیجیں گے ۔پھر جیسے ان کا حکم ہو ۔۔ ۔ٹائیگر نے آگے کی تفصیل بتا دی ۔۔
اب تیاری پکڑو ۔۔ میں تمہیں اس گھر میں لے جاتا ہوں ۔ تم بھی وہاں کا جائزہ لے لو ۔۔میں بھی تیار ہی تھا ۔اجمل آج کی رات رہ کر آیا تھا اور اگلی رات ہم میں سے کسی ایک کو گزارنی ہے ۔اوپر فیملی کی طرف سے رات کا کھانا پیک ہو کر آ گیا تو ہم باہر آئے اور جیپ لے کر نکل پڑے ۔۔۔۔راستے میں ٹائیگر مجھے علاقے کا محل و وقوع اورپہچان کروا رہا تھا ۔۔۔میں دلجمعی سے سب چیزیں سمجھ رہا تھا ۔۔۔ہم جس قبیلے میں تھے ۔ وہ پاکستان کی افواج کا حامی اور پاکستان سے محبت کرنے والا تھا ۔۔۔اور جس طرف ہم جا رہے تھے ان کی محب وطنی کو دیمک لگ چکی تھی ۔۔۔اسی طرح ان دونوں قبائل کی بھی آپس میں نہیں بنتی تھی ۔۔۔میں ٹائیگر کی باتوں پر سر ہلاتے جا رہا تھا ۔۔اور دائیں بائیں نظریں دوڑا رہا تھا ۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں ہم پھر سے ایک رہائش علاقے میں داخل ہوئے تھے ۔۔قریبی مارکیٹ سے گزرتے ہوئے میں نے اسلحہ کی مارکیٹ اور کھلے عام اسلحہ بکتا دیکھا ۔راکٹ لانچر اور مشین گنیں سر عام بکھری ہوئی تھیں ۔۔۔۔۔ساتھ ہی تھوڑے تھوڑے وقفے بعد مسلح لوگوں کے جتھے دیکھ رہا تھا ۔۔جو ہر آنے والے لوگوں کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔یہ میرانشاہ کا علاقہ تھا۔۔۔۔۔میں یہ صور ت حال دیکھ کر کچھ گھبرا سا گیا تھا ۔۔ایک تو یہ علاقہ میرے لئے نیا اور دوسرایہ صورتحال بھی نئی تھی ۔۔۔ٹائیگر گذرتے ہوئے مخصوص انداز میں ہاتھ ہلاتا ہوا اندر مارکیٹ سے گذ ررہا تھا ۔۔۔۔انہی مارکیٹ سے گذرتے ہوئے ہم ایک گھر کے سامنے پہنچے تھے ۔۔جیپ باہر روکتے ہوئے ٹائیگر باہر کودا اور ساتھ گھر کی بیل بجا ئی ۔۔۔۔۔کچھ دیر میں دروازہ کھلا اور میں ٹائیگر کے پیچھے اندر داخل ہوا ۔۔۔دروازہ کے پیچھے کوئی تھا جس نے دروازہ بند کیا تھا ۔۔۔میں ٹائیگر کے پیچھے چلتا ہوا جا رہا تھا ۔۔کہ پیچھے سے ہلکی پائل کی آواز آئی تھی ۔۔میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایسا لگا کہ جیسے اندھیرے سے چاند نکل کر سامنے آیا ہو ۔۔۔۔۔ایک بڑی سی بھاری چادر کے اندرلپٹا ہوا جسم میرے سامنے تھا۔۔۔۔چادر سے ایک خوبصورت چہرہ جھلک رہا تھا ۔۔۔۔۔سرخ و سپید چہرہ جس پر سیاہ غزال آنکھیں غضب ڈھا رہی تھی ۔۔۔۔لڑکی نے چادر سے آدھا چہرہ چھپایا ہوا تھا ۔ایک آنکھ چادر کے اندر تھی ۔۔۔جبکہ دوسری آنکھ میں مجھے دیکھتے ہوئے حیرت نظر آرہی تھی ۔لڑکی کے اٹھے ہوئے نازک ہاتھوں میں چاندی کی چوڑیاں جگمگا رہی تھیں ۔۔۔۔۔ٹائیگر کی آواز آئی تو میں آگے دیکھنے لگا۔۔۔صحن کے سائیڈ سے ایک سیڑھی اوپر جا رہی تھی ۔۔ٹائیگر اوپر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سیڑھی چڑھنے لگا ۔۔اور میں پیچھے چل پڑا ۔۔۔
جلد ہی ہم ایک کھڑکی کے سامنے تھے ۔۔راجہ صاحب یہ گھر ہے جس کی نگرانی کی جارہی ہے ۔۔۔۔۔ٹائیگر نے کہا ۔
میں نے نظریں اٹھائیں تو ایک بڑی سے کھلی حویلی میرے سامنے تھی ۔۔۔بڑا سا ایک باغ اور اس کے پیچھے کمروں کی ایک لائن تھی ۔۔چاروں طرف چوکیاں بنائی گئیں تھیں ۔۔جس میں ابھی بھی لوگ پہرہ دے رہے تھے ۔۔جبکہ اندر کیطرف ایک کار اورلینڈ کروزر صاف نظر آرہی تھی ۔۔حویلی کے در دیوار چیخ چیخ کر اسے مشکوک بنا رہے تھے ۔کمر ے کے باہر ہی ایک مورچہ سا بنا ہوا تھا ۔۔جس پر مشین گن سیٹ تھی ۔۔۔یہ باہر سے گھر جیسا تھا ۔مگر اندر سے کوئی چھاؤنی دِکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد ٹائیگر مجھے نیچے لایا جہاں ایک اسکرین پر گلی کا منظر اور حویلی کے اندر کا منظر صاف نظر آرہےتھے ۔۔۔حویلی کے مختلف کونوں پر ایک ایک کیمرہ فکس تھا ۔۔جو چاروں طرف کا مناظر بخوبی دکھا رہاتھا ۔۔۔اتنے میں وہ لڑکی دوبارہ اندر داخل ہوئی تو اس کے ہاتھ میں چائے کے دو کپ تھے ۔۔۔کپ پکڑاتی ہوئی وہ رکی تھی کہ ٹائیگر نے کہا ۔۔
یہ گل بانو ہے ۔۔پشاور یونیورسٹی میں پڑھتی تھی ۔۔بہت بہادر لڑکی ہے ۔۔ اس کے بھائی کو انہی لوگوں نے کچھ دن پہلے گولی ماری تھی ۔۔اس کے بعد یہ پڑھائی چھوڑ کر ان سے انتقام پر تل گئی ۔۔میں نے اسے اسی حویلی کے گرد منڈلاتے ہوئے دیکھا تو اپنے ساتھ ملا لیا ۔۔۔اجمل اورگل بانو نےمیاں بیوی کی حیثیت سے یہ گھر کرائے پر لیا تھا ۔۔۔۔میں نے گل بانو کے خوبصورت چہرے پر نظر دوڑائی جو سرخ ہو چلا تھا اورجس پر عزم صاف دکھ رہا تھا ۔۔۔
اور یہ راجہ ہے ۔۔میرا بہت اچھا دوست ہے ۔۔اور اس مشن میں ہمارے ساتھ ہے ۔ٹائیگر نے میری طرف اشارہ کیا ۔۔۔۔
گل بانو نے بھی مجھے کھوجتی نگاہوں سے دیکھا اور باہر چلی گئی ۔۔۔ہم اسکرین کے سامنے بیٹھے چائے پینے لگے ۔۔۔۔۔۔
چائے پی کر میں سامنے رکھی ٹیبل کی طرف بڑھ گیا ۔۔جس پر وائٹ پیپر پر پوری حویلی کا نقشہ سے بنا ہوا تھا ۔۔۔۔اور پنسل کی مدد سے ایپ ڈیٹ کیا جارہا تھا ۔۔۔۔
ساتھ ہی ایک کونے پر آنے جانے والے افراد کی تعداد اور تصاویر چسپاں کی گئی تھی ۔۔۔میں نے نظر دوڑائی تو یہ پانچ لوگ تھے ۔۔۔4 آدمی اور ایک عورت ۔۔جبکہ دو آدمیوں نےیہیں مقامی عورتوں سے شادی بھی کر رکھی تھی ۔۔۔جبکہ ایک آدمی ابھی تک ادھر ادھر منہ مارتا پھرتا تھا ۔۔ان انڈینز نے اب داڑھیاں رکھ کر خود کو مسلمانوں کے روپ میں ڈھالا ہوا تھا ۔۔یہاں تک کہ قریبی مسجد میں نماز پڑھنے بھی جاتے تھے ۔۔اپنے پیسے اور منشیات کی بے تحاشہ فراوانی کی وجہ سے مقامی سردار بھی ان کے زیر اثر تھا ۔۔۔۔۔
جبکہ چوکیوں پر معمور لوگ اسی علاقے کے جنگجو تھے ۔۔اور صبح شام ان کی ڈیوٹی تبدیل ہوتی تھی ۔۔۔کام کرنے والی دو خادمہ کو ملا کر اس گھر میں ایک درجن سے زائد افراد تھے ۔۔۔۔جن میں سے آدھے سے زائد لڑنے بھرنے میں ماہر تھے ۔۔۔اور ان کے اطمینان کی اصل وجہ اس قبیلے کی تائید تھی جو ان لوگوں کو حاصل تھی ۔جو کسی بھی ایکشن کی صورت میں چاروں طرف سے مدد کے لئے تیار تھے۔۔۔۔ میں کافی حد تک صورتحال سمجھ چکا تھا ۔۔۔۔
ٹائیگر صاحب میں تمام حالات سمجھ چکا ہوں ۔۔میرےذہن میں ایکشن پلان بھی بن چکا ہے ۔۔۔آپ عمران صاحب سے مشورہ کر لیں ۔۔ہمیں جلد از جلد یہ کام مکمل کرنا چاہئے ۔۔۔۔میں نے جذباتی لہجے میں کہا۔۔
راجہ صاحب جلد بازی اچھی نہیں ہے ۔۔۔۔ہم نے اس حویلی کی ٹرانسمیڑ کالز اور فون ٹیپ کرنے کا بندوبست بھی کیا ہے ۔۔۔اور جلد ہے کچھ نئے انکشافات ہونے والے ہیں ۔۔۔اس لئے ہم ٹہرے ہوئے ہیں ۔۔۔
ابھی آپ بتائیں کہ یہاں رکیں گے کہ اجمل خان کو بھجواؤں ۔۔۔مجھے کچھ دنوں کے لئے پشاور جانا ہے ۔۔کچھ سامان اوربندوں سے ملنا ہے ۔ہمیں جیمرز کی ضرورت ہے۔۔۔دو دن میں میری واپس ہو جائے گی ۔۔۔۔۔میں نے رکنے کی حامی بھر لی ۔۔۔
اس کے بعد ٹائیگر نے مجھے باہر جانے سے منع کیا کہ آپ یہاں کی زبان نہیں جانتے ہیں ۔۔۔اس لئے باہر گل بانو ہی جائے گی ۔۔۔باقی اجمل یہاں سب سامان پہنچا دے گا۔۔۔آپ بس دو دن تک یہیں نگرانی کا خیال رکھیں ۔۔جب تک میں نہیں آ جاتا ۔۔۔۔۔۔میں نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔۔۔۔۔
میں جیپ یہاں چھوڑے جا رہا ہوں ۔۔۔اجمل کے پاس دوسر ی گاڑی ہے ۔۔۔ٹائیگر نے گل بانو کو بھی کچھ ہدایا ت دی ۔۔اور اجمل کو فون کرنے لگا۔۔۔جلد ہی اجمل خان وہاں پہنچ چکا تھا ۔۔اورٹائیگر اس کے ساتھ چلاگیا ۔۔۔
اس کے بعد میں کمرے میں اکیلا رہ گیا ۔۔۔اسکرین سامنے یہ تھی۔۔۔میں اسے دیکھنے لگا ۔۔۔کیمروں کے ساتھ حساس مائکروفون فٹ تھے ۔۔۔جس کی آواز سامنے ہیڈ فون میں سنی جا سکتی تھی ۔۔۔۔میں نے ٹیبل پر رکھی رپورٹس دیکھنی شروع کر دی ۔۔ان ایجنٹ کے چہرے میرے دماغ پر نقش ہو چکے تھے ۔۔۔نفرت سے میرے جسم میں ایک سرد لہر دوڑ گئی ۔۔۔۔میرے وطن کو برباد کرنے والے میرے سامنے ہی تھے ۔۔۔ایک رپورٹ میں گھر کے ہر شخص کے باہر آنے جانے والے کی ٹائمنگ درج تھی ۔۔اور ساتھ ہی پہرہ داروں کی ٹائمنگ ۔۔۔رات دس بجے کے بعد پہرہ تبدیل ہوتا تھا ۔۔۔اور نئے پہرہ داراگلی صبح دس بجے تک رکتے تھے ۔۔۔میں تمام باتیں ذہن نشین کرتا جا رہا تھا ۔۔۔
اتنے میں گل بانو کمرے میں داخل ہوئی اور دوپہر کھانے کا پوچھنے لگی ۔۔۔۔اس کی کھنکتی ہوئی آواز نے مجھے ساکت کر دیا تھا ۔۔۔پھر جب دوبارہ اس نے پوچھا تو میں گڑبڑا گیا ۔۔۔
کھانے کی بھوک نہیں ہے ۔۔۔ شام میں کچھ کھاتے ہیں ۔۔۔وہ جواب سنتی ہوئی واپس مڑ گئی ۔۔گل بانو کی بڑی سی آنکھیں نشیلی سی تھی تھیں ۔۔خاموشی میں بھی باتیں کرتیں آنکھیں ۔۔۔۔۔ میں کافی دیر تک اس کی پشت دیکھتا رہا ۔۔۔گل بانو پاکستان کے اس علاقے کے حسن کا اک شاہکار تھی ۔۔۔۔تھوڑی سی صحت مندی کی طرف مائل۔۔۔۔گوری رنگت ۔۔سیاہ بڑی آنکھیں ۔۔۔نسوانی حسن سے بے حد مالا مال تھی ۔۔۔۔اس کا حسن چادر میں چھپانے کے باوجود ظاہر تھا ۔۔۔۔میرا دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی تھی ۔۔مگر ابھی اس وقت یہ کام زیادہ ضروری تھا ۔۔۔۔میں نے سر جھٹک کر اسکریں پر نظر جمادی ۔۔۔۔ہر آنے جانے والی کی نقل و حمل کو سامنے کاغذ پر اتارنا تھا ۔۔۔۔جس پر ہمیں فائنل پلان بنانا تھا ۔۔۔ایک چیز کا مجھے اندازہ ہو چکا تھا ۔۔کہ یہ پورا کام ایک گولی کی آواز کے بغیر ہی کرنا ہے ۔۔ورنہ یہ پورا علاقہ مشین گنوں کے گولیوں کی بارش میں تبدیل ہو جائے گا ۔۔۔ان ایجنٹ کی اصل سیکورٹی ان بے وقوف لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو اچھے اور برے کا فرق بھول چکے تھے ۔۔۔۔مجھے اسکرین کے سامنے بیٹھے دو گھنٹے سے زائد ہوچکے تھے ، کہ گل بانوپھر کمرے میں داخل ہوئی ۔۔۔۔آپ کچھ آرام کر لیں ۔۔۔اتنی دیر میں دیکھتی ہوں ۔۔۔میں بھی بیٹھے بیٹھے تھک چکا تھا ۔۔کرسی کھسا کر اٹھ گیا ۔۔اور ساتھ کمرے میں جا کر لیٹ گیا۔۔۔گل بانو نے میری سیٹ سمبھال لی تھی ۔۔۔۔۔
میری آنکھ شام کو کھلی تھی ۔۔۔ہلکاسا اندھیرا پھیل چکا تھا ۔۔۔میں جلدی سے ہاتھ منہ دھوتا ہوا ۔۔۔مانیٹرنگ روم میں داخل ہوا ۔۔۔۔گل بانو بھی کرسی پر بیٹھے بیٹھے سو چکی تھی ۔۔۔میں اس کے قریب ہوا اور اس کے حسن کو دیکھنے لگا ۔۔۔۔سوئی ہوئی حالت میں بھی اس کا چہرہ تمتما رہا تھا ۔۔۔۔۔سینے پر بے تحاشہ اٹھان تھی ۔۔جس پر موٹی سی چادر تھی جو اسے مزید چھپانے کے بجائے مزید ابھار رہے تھے ۔۔۔۔۔میں تھوڑا قریب ہوا تھا کہ گل بانو کی آنکھ کھل گئی ۔۔۔۔وہ مجھے تکتے ہوئے دیکھ کر ایک دم سے اٹھی تھی ۔۔۔۔میں دوبارہ سے گڑ بڑا سا گیا تھا ۔۔۔
آپ یہاں کیا کر رہے ہیں ۔۔۔گل بانو نے چادر ٹھیک کرتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔۔
وہ ۔۔وہ ۔۔تمہیں جگانے آ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔میں ہکلا گیا تھا ۔۔۔
گل بانو اٹھی اور مجھے گھورتی ہوئی باہر جانے لگی ۔۔۔اور میں کرسی پر بیٹھ کر اپنا سر پکڑ کہ بیٹھ گیا۔۔کچھ دیر بعدگل بانو اندر آئی تو اس کو موڈ کچھ بہتر تھا ۔۔مجھ سے کھانے کا پوچھ کر کہنے لگی ، میں قریبی دکان سے ہو کر آتی ہوں ۔۔آپ جب تک یہیں انتظار کریں ۔۔یہ اجمل بھی ابھی تک نہیں آیا ہے ۔۔۔میں نے ہاں میں سر ہلادیا ۔۔۔
گل بانو نے بڑی سی چادر لپیٹ کر ایک آنکھ کھلی چھوڑی ہوئی تھی ۔۔۔تیار ہو کر اس نے ایک نظر مجھ پر ڈالی اور پھر باہر چل پڑی ۔۔۔دروازے سے نکلتے ہی وہ مجھے کیمرے پر نظر آئی تھی ۔۔۔۔ایک کیمرہ اس طرح لگایا گیا تھا کہ پوری گلی نظر آتی تھی ۔۔۔۔۔میں گل بانو کو تیز قدموں سے چلتے ہوئے دیکھ رہا تھا ۔۔وہ گلی کے کنارے سے آگے جا کر اسکریں سے غائب ہوگئی ۔۔۔شام کا دھندلکا پھیل چکا تھا ۔۔۔اور دیہاتوں کیطرح یہ علاقہ بھی شام ہوتےہی سنسان سا ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔ سامنے والے گھر پر پہرےدار اسی طرح چوکس تھے ۔۔۔میں اسی طرح اسکریں پر نظریں جمائے بیٹھا رہا ۔۔۔۔دس منٹ گزرے تھے کہ میں نے گل بانو کو دوبارہ سے گلی میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا ۔۔اس کے ہاتھ میں دو بڑے شاپر تھے ۔۔۔۔۔چلنے کی اسپیڈ اسی طرح تیز تھی ۔۔۔۔وہ ابھی آدھی گلی تک پہنچی تھی کہ میری نظریں رک سی گئیں۔۔۔۔۔میں نے گل بانو کے پیچھے ایک لینڈ کروزر کو آہستگی سے بڑھتے ہوئے دیکھا تھا ۔۔۔گل بانو کو ابھی تک اندازہ نہیں ہو ا تھا ۔۔۔۔۔لینڈ کروزر والا اس سے کچھ قدم پیچھے ہی اپنی گاڑی بڑھا رہا تھا ۔۔۔۔گل بانو ابھی دروازے سے دس فیٹ کے فاصلے پر ہی تھی ۔۔۔کہ لینڈ کروزر نے اسپیڈ بڑھائی تھی ۔۔۔۔گل بانوسے تھوڑاآگے آتے ہوئے اس کی ٹائر چرچرائے تھے ۔۔اور پچھلی سیٹ سے ایک بھاری بھرکم آدمی تیزی سے اترا ۔۔۔۔گل بانو ایک دم روڈ کی سائیڈ پر ہوئی تھی ۔۔۔۔وہ آدمی تیزی سے گل بانو پر لپکا تھا ۔۔۔اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتی ۔۔وہ اس اپنی بانہوں میں دبوچے ہوئے واپس ہونے لگا۔۔۔۔گل بانو کی مزاحمت جاری تھی ۔۔وہ بے تحاشہ ہاتھ پیر مار رہی تھی ۔۔۔مگر سب بے سود تھا ۔۔۔۔اس آدمی نےاسے پچھلے دروازے سے اندر پھینکا اور خود بیٹھتے ہوئے دروازہ بند کر دیا ۔۔ساتھ ہی لینڈ کروزر تیزی سے بڑھتی ہوئی ہمارے گھر کے سامنے والے دروازے پر رکی اور اندر داخل ہو گئی ۔۔۔۔۔میں سانس روکےیہ سب منظر دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔میں نے دوسرے کیمرے کی طرف نظر دوڑائی جو حویلی کے سامنے ایک پول پر لگایا گیا تھا ۔۔جہاں سے اندر کا منظر دکھتا تھا۔۔۔۔گاڑی سے وہی آدمی گل بانو کو کھینچتا ہوا نکلا تھا ۔۔۔۔اور رہائشی کمروں کی طرف لے جانے لگا۔۔۔گل بانواپنے پیر مار رہی تھی ۔۔ مگر کوئی فائدہ نہیں تھا 
میں اپنا سرپکڑ کے بیٹھ چکا تھا ۔۔۔مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ سب اتنی جلدی ہونا ہوگا۔۔۔میں نے ٹائیگر کو کال ملائی مگر رابطہ نہ ہوسکا ۔۔وہ کسی سگنل کے بغیر علاقے سے گذر رہا تھا ۔۔۔۔میں سوچ میں پڑ گیا کہ اب کیا کیا جائے ۔۔ٹائم کم تھا ۔۔اور رات ہونے سے پہلے کچھ نہ کچھ ضرور کرنا تھا ۔۔۔میں نے ٹائم ٹیبل دیکھا۔۔۔پہرہ کی تبدیلی میں ایک گھنٹہ باقی تھا ۔۔۔اور یہی ٹائم تھا جب میں اندر گھس سکتا تھا ۔۔۔۔میں جلد ی سے اٹھ گیا ۔۔۔۔۔ایک بیگ میں لایا تھا ۔۔جبکہ دوسرا بیگ یہیں موجود تھا ۔۔۔دونوں بیگ کھول کر میں نے سارا سامان ٹیبل پر پھیلا دیا ۔۔۔ ایک ہتھیار وں سے بھرا ہوا تھا ۔۔جبکہ دوسرے میں ایمونیشن اور کچھ ریموٹ کنٹرول بم وغیرہ تھے ۔۔۔میں نے پہلے اپنے کپڑوں کے اوپر توجہ دی ۔۔۔شلوار قمیض اتار کر ایک چست ٹراوزر اور جیکٹ پہنی ۔۔۔اس کے اوپر ایک پاؤچ باندھ دیا ۔۔۔۔سائلنسر لگا ایک پسٹل اورایک چاقو پاؤچ میں فکس کر دیا ۔۔۔ایک سب مشین گن لے کر میں نے کندھے سے لٹکا دی تھی۔۔۔ہائی شوز پہن کر میں کسی ایکشن مووی کے ہیرو جیسادکھنے لگا تھا ۔۔۔۔۔۔ایک چھوٹا شکاری چاقو اپنے موزے میں چھپا کر میں پورا تیار تھا ۔۔۔۔ٹائم دیکھا تو ابھی بیس منٹ بچے تھے ۔۔۔میں کچن میں گیا اور جلدی سے ایک کپ چائے تیار کرنے لگا ۔۔۔۔۔چائے لے کر واپس اسکرین کے سامنے آیا اور تمام اہم پوائنٹ ذہن نشین کرنے لگا ۔۔۔۔۔حویلی کی چار دیواری کے کونے پر چوکی بنی ہوئی تھی ۔۔۔جس پر پہرے دار تھے ۔۔۔اندر ایک مورچہ ٹاپ جگہ پر ایک آدمی بیٹھا تھا ۔۔۔۔اس کے علاوہ اندر جتنے بھی لوگ تھے وہ ایک سیکنڈ کے نوٹس پر مسلح ہو سکتے تھے ۔۔۔۔
یہ میری پہلی گن فائٹ تھی ۔۔۔۔شوٹنگ رینج میں پریکٹس اور عملی زندگی میں کافی فرق تھا ۔اور آج مجھے یہی فرق مٹانا تھا ۔۔۔۔۔۔
باہر گلی میں اندھیر ا بڑھتا جا رہا تھا ۔۔۔دس بجنے میں پانچ منٹ ہی باقی تھے کہ میں دروازے پر آ گیا ۔۔۔موبائل سائلنٹ پر کر چکاتھا ۔۔۔اور ہلکا سا دروازہ کھولتا ہو ا میں جھری سے جھانک رہا تھا ۔۔۔۔۔پہرہ کی تبدیل کاٹائم تھا ۔۔۔سامنے والے پہرہ دار کو آوازآئی تھی ۔۔۔اسنے نیچے دیکھا اور اونچی آواز میں کچھ کہتے ہوئے نیچے اترنے لگا۔۔۔میں نےدروازہ کھولا اور بیٹھے بیٹھے دوڑ لگا دی ۔۔۔جلدہی میں سامنے والے گھر کی دیوار کے ساتھ بیٹھا تھا ۔۔میں دیوار کے ساتھ تیز تیز چلتے ہوئے پچھلی سائیڈ پر جانے لگا ۔۔میرے پاس ایک منٹ سے بھی کم ٹائم تھا ۔۔۔میں نے اسپیڈ اور تیز کی اورحویلی کے بیک پر پہنچ گیا ۔۔۔جہاں میری خوش قسمتی ایک ٹرک کی صور ت میں میرے سامنے تھی ۔۔۔۔میں نے برق رفتار ی سے ٹرک کے پچھلے حصے پر چڑھنا شروع کر دیا ۔۔اورٹرک ڈرائیور کے اوپری حصے سے حویلی کی دیوار پر چھلانگ لگا دی ۔۔۔ایک سیکنڈ کے لئے میں دیوار پر ٹھہرا تھا اور پھر اندر کود پڑا۔۔۔۔نرم شوز تھے ۔۔اور میں نیچے جا کر بیٹھتے ہوئے قلابازی کھا چکا تھا ۔۔۔۔نقشے کے حساب سے یہاں گھاس تھی ۔۔اور قریب ہی کوٹھری تھی ۔۔جس کے ساتھ میں ٹیک لگا چکا تھا ۔۔۔۔۔
میں کچھ دیر ٹہرا رہا ۔۔۔پہرے دار تبدیل ہو چکے تھے ۔۔اور پرانے پہرے دار اونچی آواز میں باتیں کرتے ہوئے باہر جا رہے تھے ۔۔۔۔کچھ دیر میں نئے پہرہ دار سیٹ ہوگئے تو میں حرکت میں آیا ۔۔۔۔مجھے سے دس فٹ دائیں طرف وہ مورچہ والا بندہ تھا۔۔۔۔۔میں بیٹھے بیٹھے اس کی طر ف کھسکنے لگا ۔۔۔۔جلد ہی کمرے کی اوٹ سے میں اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔مشین گن کے پیچھے بیٹھے ہوئے وہ مسلسل سگریٹ پھونک رہا تھا ۔۔۔میں کچھ دیر اسے بیٹھا دیکھتا رہا۔۔اس کی ساری توجہ سامنے کی طرف ہی تھی ۔۔۔۔سائیڈوں سے وہ بے خبر نظر آ رہا تھا۔۔۔۔یہ گھر کی اندرونی سائیڈ تھی اوریہاں سے گھروالوں کے علاوہ کوئی آ بھی نہیں سکتا تھا ۔۔۔اندھیرا میرا ساتھ دے رہا تھا ۔۔میں نے اسی طرح سے دبے قدموں اس کی طرف بڑھنا شروع کر دیا ۔۔۔میرا دائیں طرف کئی کمروں کے دروازے تھے ، جو کسی بھی وقت کھل سکتے تھے ۔۔۔میں آہستگی سے بڑھتا جار ہا تھا ۔۔۔ایک مخصوص فاصلے تک میں پہنچ کر رک گیا ۔۔یہاں سے مجھے ایک تیز جست میں فاصلہ طے کرنا تھا ۔۔۔۔اور وہی ہوا ۔۔میں اڑتا ہوا اس کی بیک پر پہنچا تھا ۔۔۔دائیں ہاتھ اس کے منہ پر جما کر دوسرے ہاتھ کا نیک لاک جما چکا تھا ۔۔۔۔انسانی جبلت کے تحت وہ اپنی گردن چھڑوانے کی کوشش کرنے لگا ۔۔۔۔ساتھ ہی ٹانگ مار کرچیزیں گرانے کی کوشش کی ۔۔۔مگر میں اس سے پہلے ہی اسے اچھال کر اس کے مورچے سے کھینچ چکا تھا ۔۔۔۔اور پھر گھسیٹتا ہوا اسی کوٹھر ی کی طرف لے چلا ۔ وہ پیر کو زمیں پر مارتے ہوئے آواز پیدا کرنے کی کوشش کر تا ۔۔۔مگر میں اسے اچھالتا ہوا کچھ قدم تک کھینچتا ۔۔۔۔اسی طرح میں اپنی پرانی جگہ پر پہنچ چکاتھا ۔۔اس بندے کی ہمت جواب دے چکی تھی ۔۔اور اگلے 30 سیکنڈ میں وہ بے ہوشی کی نیند سو چکا تھا ۔۔میں نے اس کی قمیض اتاری اوردوحصے کر کے ایک سے باندھ دیا ۔ساتھ شلوار کے ناڑے سے مدد لی۔۔۔اور دوسرا ٹکڑا اس کے منہ میں ٹھونس دیا ۔۔۔۔
اب میں کمروں کی طرف بڑھا تھا ۔۔۔کچھ کمرے اندر سے روشن تھے اور کچھ اندھیرے میں ڈوبے ہوئے تھے ۔۔میں ہر کمرے کےدروازے پر جا کر کان لگا تا ۔۔اور سن گن لیتا ۔۔۔ایک کمر ے کے دروازے پر رکا تو اندر سے گھٹی گھٹی سی آواز آ رہی تھی ۔۔۔مجھے لگا کہ جیسے گل بانو کی آواز ہو ۔۔۔۔میں نے جھری سے جھانکنے کی کوشش کی مگر ناکامی ہوئی ۔۔میں نے پسٹل نکال کر سیفٹی لاک ہٹایا۔۔اس کے بعد دروازے کا ہینڈ ل گھمایا ۔۔اندر نیم اندھیرا تھا ۔۔۔اور سامنے بیڈ پر گل بانو ہاتھ پیر بندھی ہوئی تھی ۔۔اس کے کپڑے کئی جگہ سے پھٹے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔منہ میں رومال تھا ۔۔۔۔میں بیٹھے بیٹھے ایک قدم آگے بڑھا ۔گل بانو کی آنکھیں کچھ پھیلی تھی ۔۔۔۔وہ غوں غوں کی آواز نکال رہی تھی ۔۔۔شاید کچھ منع کر رہی تھی ۔۔۔اچانک مجھے لگا کہ میرے پیچھے کوئی آیا ہے ۔۔۔میں مڑ رہا تھا کہ ایک تیز چوٹ سر کے پچھلے حصے میں پڑی ۔۔۔ستارے سے ناچ گئے تھے ۔۔میں بے اختیار آگے کو گرا تھا ۔۔۔اور دوسری پڑنے والی چوٹ مجھے ہوش و حواس سے بیگانہ کر چکی تھی ۔۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 ۔۔۔

مجھے ہوش میں لانے والی بھی چوٹ ہی تھی ۔۔۔۔پوری قوت سے لگائی ہوئی ضرب نے میرے آنکھیں کھول دی تھیں ۔۔۔۔میں نے جھٹپٹاتے ہوئے آنکھیں کھولی ۔۔یہ کوئی اور کمرہ تھا ۔۔۔سامنے کسی عدالت جیسا منظر تھا ۔۔تین خبیث چہرہ لوگ مجھے گھور رہے تھے ۔۔ان کے برابر میں ایک عورت نما لڑکی کھڑی تھی ۔۔۔۔چار میں سے ایک کو میں پہچان چکا تھا ۔۔۔گل بانو کو اسی نے اغوا کیا تھا ۔۔۔میں ایک کرسی پر بیٹھا تھا اور ہاتھ پیچھے کو بندھے ہوئے تھے ۔۔۔ سب کے چہروں پر نفرت ٹپک رہی تھی ۔۔۔پانچواں شخص میرے برابر میں ہی تھا ۔۔اور مجھے ہوش میں اْسی نے لایا تھا۔۔۔۔ہاتھ میں ایک چمڑے کی بیلٹ تھامے ہوئے تھے ۔۔جسے وقفے وقفے سے لہراتا رہا تھا۔۔۔۔
کون ہو تم اور یہاں اندر کیسے داخل ہوئے ۔۔ عورت کی غراتی ہوئی آواز میرے کانوں میں پڑی تھی ۔۔۔
میری بیوی کو تم لوگوں نے اغوا کیا ہے ۔۔اور تم پوچھتے ہو کہ اندر کیسے داخل ہوئے ۔۔۔میں نے بھی اسی ترشی سے جواب دیا تھا۔۔۔
میں ان پانچوں کا بخوبی جائزہ لے رہا تھا ۔۔۔میرے اندازے کے مطابق یہی وہ انڈین ایجنٹ تھے ۔۔جو بہادرستان سے آنے والوں کو ریسیو کرتے ہوئے آگے بھیجتے تھے ۔۔۔میں نے اپنے ہاتھو ں کو حرکت دینی شروع کر دی ۔۔مگر بہت سختی سے ہاتھ باندھے گئے تھے ۔۔شکر یہ تھا کہ میرے پیر آزاد تھے ۔۔۔عورت ان کی باس لگ رہی تھی ۔۔اور سوال و جواب وہی کر رہی تھی ۔۔۔۔
اور یہ جو سامان تمہارے پاس سے نکلا ہے ، یہ تو اس بلڈنگ کو اڑانے کے لئے کافی ہے ۔سامنے میرے جسم سے اترا ہوا سامان پڑا ہوا تھا۔۔۔سچ سچ بتاؤ کہ کس ارادہ سے آئے ہو ۔۔۔عورت پھر غرائی تھی ۔۔اور ساتھ ہی میرے ساتھ والے بندے کو اشارہ کیا تھا ۔۔۔بیلٹ میری گردن کے پیچھے پڑی تھی ۔۔تارے ناچ گئے تھے ۔۔
میں نے سچ بتا دیا ہے جو بتانا تھا ۔۔۔میں مستقل اس عورت کو گھور رہا تھا ۔۔۔
عورت نے اس بندے کو کہا کہ کل صبح تک یہ ہمیں بولتا ہوا چاہئے ۔۔۔
میڈ م آپ بالکل فکر نہ کریں کل یہ آپ کو اپنی کہانی خود سنائے گا ۔۔۔آپ آرام کریں ۔۔
عورت اور وہ تینوں آدمی پلٹ چکے تھے ۔۔۔دروازے بند ہوتے ہی وہ آدمی میرے سامنے آیا تھا ۔۔۔۔چہرہ پر تھپڑ مارنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔مگر میرے جمے ہوئے پیر اس کے منہ پر پڑے وہ الٹ کر گرا ۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی میں اٹھ چکا تھا ۔۔۔کھڑے ہوتے ہی میں نے جمپ کی تھی ۔۔اور پیچھے بندھے ہوئے ہاتھ نیچے سے گھومتے ہوئے سامنے آئے تھے ۔۔۔۔وہ آدمی اٹھ چکا تھا ۔۔اور تیزی سے مجھ پر جھپٹا ۔۔۔۔مگر ناک پر پڑنے والی طوفانی ٹکر اسے دوبارہ الٹا چکی تھی ۔۔۔اب کی بار وہ کافی دیر تک لیٹا ہی رہا تھا ۔۔میں نے بندھے ہاتھوں سے موزے کے نیچے سے چاقو کھینچ لیا تھا ۔۔۔۔اور دانتوں میں دبا کر رسی کاٹنے لگا ۔۔۔۔۔اتنےمیں وہ آدمی تیزی سے الماری کی طرف بھاگا ۔۔۔الماری کھولتے ہی سامنے میرا سامان رکھا تھا ۔۔۔اس نے پستول اٹھانے کی سوچی ہو گی ۔۔۔مگر پشت میں اترنے والا چاقو اس کے دل کےقریب لگا ۔۔۔وہ اسی طرح گرتا چلا گیا ۔۔۔۔پیچھے سے میں جھپٹتا ہوا پہنچا تھا ۔۔۔اگلے تین منٹ میں سارا سامان ویسے ہی سج چکا تھا ۔۔۔چاقو نکال کر صاف کیا اور پھر باہر نکل آیا ۔۔۔سائلنسر لگا پسٹل میرے ہاتھ میں تھا ۔۔۔میں پہلے جس کمرے میں تھا ۔۔ابھی بھی اسی کے برابر ی کمرے میں تھا ۔۔۔۔اسی دروازے کے قریب پہنچا تو گل بانو کے چیخنے کی آواز آئی تھی ۔۔۔۔میں نے دروازے پر ایک ٹھوکر رسید کی ۔۔دروازے کے کھلتے ہیں میں اندر تھا ۔۔۔گل بانو کے اوپر جھکا وہ شخص حیرت بھری نگاہوں سے مجھے دیکھ رہا تھا کہ پیشانی پر لگنے والی گولی اس کی آنکھوں کو بے نور کر چکی تھی ۔۔۔گل بانو کے ہاتھ اب تک بندھے تھے ۔۔پیروں سے اسے دھکا دیتی ہوئی گل بانو اٹھی تھی ۔۔۔اور اس کےچہرے پر تھوک پھینکتی ہوئی آگے آئی ۔۔میں نے گل بانو کے ہاتھ کھولے اورچادر اٹھا کر اسے اوڑھا دی ۔۔۔ اسے لئے دوسر ے کمرے کی طرف بڑھا ۔۔۔دروازے کے لاک پر فائر مارتا ہوا میں اندر پہنچا تھا ۔۔۔جہاں وہ میڈم اپنے یار سے لپٹی ہوئ رات رنگیں کر رہی تھی ۔۔۔۔دو گولیاں کھانے کے بعد وہ دونوں بھی ابدی نیند سو چکے تھے ۔۔۔باہر نکلا تو تیسرا آدمی بھی آواز سن کر نیم برہنہ باہر بھاگنے لگا تھا ۔اس کی موت پیچھے سے آنے والی گولی پر لکھی تھی ۔۔اپنے بھگوان کو یاد کرتا ہوا وہ بھی عدم سدھار گیا ۔۔۔میں نے باقی کمرے چیک کئے مگر چوتھا بندہ نہیں مل رہا تھا ۔۔۔۔۔میں باری باری دوبارہ سے تمام کمرے چیک کئے مگر وہ غائب ہی تھا ۔۔۔۔۔ایک کمرے میں پہنچا تو وہاں فرش سے وائبریشن کی آواز آ رہی تھی ۔۔۔۔آدھا گھنٹہ مزید وہاں سر کھپانے کے بعد مجھے بیڈ کے نیچے سے راستہ مل گیا ۔۔نیچے ایک تہ خانہ تھا ۔۔۔میں اندھیرے میں ٹٹولتا ہوا نیچے اترا تھا ۔۔۔

اند ر ایک طرف ٹرانسمیٹر اور دوسری مشینری فٹ تھی ۔۔اور دوسری طرف بھگوان کے بت رکھے مندر بنا ہوا تھا ۔۔جس کے سامنے بیٹھا ہوا وہ شخص مجھے مطلوب تھا ۔۔۔میں اس کیطرف بڑھا ۔۔اور سر کےپیچھے پسٹل رکھتے ہوئے ٹرائیگر دبا دیا ۔۔۔۔۔میں واپس تیزی سے آیا اور اس الماری سے بم نکالتا ہوا نیچے پہنچا۔۔۔۔ٹرانسمیٹر کےساتھ بم لگاتا ہوا اوپر آیا ۔۔۔۔اوپر کےکمرے پر بم لگا کر باہر برآمدے میں آیا ۔۔۔گل بانو کو لئے اسی کوٹھری تک پہنچا ۔۔۔گل بانو کواٹھاتے ہوئے ہوئے میری رومانوی حسیں بیدار ہوچکی تھیں ۔۔۔سر پر چڑھی ہوئی سرخی کم ہونےلگی تھی ۔۔۔گل بانو کچھ بھاری تھی ۔۔مگر میرے مضبوط ہاتھو ں میں اٹھتی ہوئی اس نے دیوار پر ہاتھ جمائے ۔۔اور پھر اوپر چڑھتی ہوئی دیوار پر رکی تھی۔۔۔ساتھ ہی ہاتھ بڑھا کر مجھے اٹھانے لگی ۔۔مجھے کیا اٹھاتی مگر اس کہ جھکے ہوئے گریبان سے اندر کی تصویر نظر آئی ۔۔تو میں ہڑبڑا گیا ۔۔۔۔گل بانو بھی جلدی سے شرماتی ہوئی اوپر اٹھی تھی۔۔۔میں نے ایک جمپ لی اور دیوار پرچڑ ھ گیا ۔۔رات تین کا ٹائم تھا اور پہرےدار نیند کی آغوش میں تھے ۔۔ ہم جلدی سےاتر کر اپنے گھر کی طرف چلے ۔۔۔۔گھر کے سامنے پہنچے تھے کہ۔۔گلی کے کونے سے کسی گاڑی کی ایک روشنی ابھری تھی ۔۔۔۔۔۔گل بانو کی خوف زدہ آواز آئی تھی ۔۔راجہ یہاں سے نکلنے کی کر و۔۔۔میں نے جیپ تیزی سے اسٹارٹ کی ۔اورآگے بڑھ گیا ۔۔۔۔پیچھے ہم جا نہیں سکتے تھے ۔۔۔گل بانو کے مطابق یہ انہیں کے ساتھی تھے جو رات کو دیر گئے آتے تھے ۔۔۔۔میں نے بیک ویو کو دیکھتے ہوئے اسپیڈ بڑھا دی ۔۔۔۔۔جیپ کی آواز کے ساتھ پہرےدار جاگے تھے ۔۔۔۔۔گل بانومیرے برابر میں بیٹھی تھی ۔۔۔۔میں آگے سے موڑ کر پیچھے پشاور کی طرف جانا چاہتا تھا ۔۔۔۔مگر گل بانو نے سیدھا جانے کا کہا اور میں نے جیپ ہوا میں اڑا دی۔۔۔۔۔۔پیچھے آنے والی گاڑی کی اسپیڈ تیز ہوئی تھی ۔۔وہ اسی حویلی کے سامنے رکی تھی ۔۔۔۔اور صورتحال جاننےکے بعد اندر داخ ہوئی تھی ۔۔۔ ۔میں نے موقع مناسب جانا اور ریموٹ کا بٹن دبا دیا ۔۔۔۔ایک بلندآگ کاگولہ اٹھا تھا ۔۔۔اور ساتھ ہی دھماکے کی خوفناک آواز ۔۔۔۔۔میں نے گاڑی آگے بڑھا دی ۔۔۔۔۔ہائی وے پر پہنچ کر میں نے پھر واپس کا سوچا ۔۔۔گل بانو نے کہا کہ آگے وانا کی طرف میرے ماموں رہتے ہیں ۔۔ہم وہاں محفوظ رہیں گے ۔۔۔مجھے راستہ پتا ہے میں بتاتی جاؤں گی ۔۔
اس پہاڑی علاقوں کے درمیان میں جتنی تیز ڈرائیونگ کر سکتا تھا ۔۔۔میں نے کی ۔یہ میر ی بہترین ڈرائیونگ میں سے ایک تھی ۔۔۔۔۔۔صبح بھی قریب آ رہی تھی ۔۔۔
کچھ دیر میں آبادی کے آثار سامنے آئے تھے ۔۔گل بانو مجھے راستہ بتاتی گئی ۔۔۔اور پھر ایک خوبصورت سے بنگلے کے سامنے ہماری جیپ رکی تھی ۔۔۔۔
یہ میری دوست کا گھر ہے ۔ اس ٹائم ماموں کے ہاں جانا مناسب نہیں ہے ۔۔ناشتہ کر کے آرام سے جائیں گے ۔۔گل بانو نے سرگوشی کی ۔۔
رات کی اس بھاگ دوڑ میں وہ میرے کافی قریب آ چکی تھی ۔۔شاید اس کے انتقام پورے ہونے کی خوشی تھی ۔۔یا پھر میں نے اس کی عزت بچائی اس کی ۔۔۔۔گل بانو جیپ سے اتری اور دروازے کی بیل بجانے لگی ۔۔۔جلد ہی ایک لڑکا دروازے پر آیا تھا ۔۔اور پھر گل بانو کے ساتھ اندر چلا گیا ۔میں نے اپنا سامان اتارا ۔۔اور اسلحہ بیگ میں رکھتے ہوئے صرف ٹراؤزر اور جیکٹ میں آگیا ۔۔۔میں جیپ سے اترا تو گل بانو اپنی دوست کے ساتھ دروازے پر پہنچی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔اس نے مسکراتے ہوئے مجھے پخیر راغلے کہا اوراندر دعوت دی ۔۔۔گل بانو کی یہ دوست بھی اسی کی طرح صحت مند اور گوری چٹی تھی ۔۔۔بھرے بھرے گالوں پر چھوٹے چھوٹے سرخ دانے اسے مزید پرکشش بنارہے تھے ۔۔۔۔لڑکا پیچھے کھڑا تھا ۔۔۔۔۔۔۔کچھ دیر میں ہم فریش ہونے کے بعدناشتے پر اکھٹے تھے ۔۔۔۔گل بانو کی دوست کا نام زرتاش تھا ۔۔۔اور اس کے ساتھ لڑکا اس کا کزن جان شیر کالج اسٹوڈنٹ تھا ۔۔۔۔زرتاش کی عمر 27 سال تھی ۔۔شادی اب تک نہیں ہوئی تھی ۔۔اور ان کے والدین ایک شادی میں پشاور گئے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔جان شیر ہنس مکھ لڑکا تھا ۔۔اس کی ہلکی سی مونچھیں آ رہی تھیں ۔۔اور اردو بھی ٹوٹی پھوٹی بولتا تھا ۔۔۔ہم جلد ہی آپس میں فری ہو چکے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ناشتہ کے بعد جان شیر مجھے باہر لے جانا چاہ رہا تھا ۔۔۔مگر میں رات جاگا ہوا تھا ۔۔آرام کا موڈ تھا ۔۔۔اس لئے دوپہر تک کی اجاز ت لے اپنےکمرے میں آ گیا۔۔زرتاش نے ایک مہمان خانہ ہمارے لئے مختص کر کے گل بانو کو بھی وہیں ٹہرنے کا کہا تھا ۔۔۔اور اپنے کپڑے بھیجے جو اسے کافی کھلے تھے ۔۔۔گل بانو نے کپڑے بیڈ پر رکھے اور کہا کہ پہلے آپ نہا لیں ۔۔پھر آرام کر لیجئے گا ۔۔پوری رات کے تھکے ہوئے ہیں ۔۔میں نے ہامی بھری اور باتھ روم میں چلا گیا۔۔۔
کپڑے اتار کر میں گرم پانی کے شاور کے نیچے کھڑا تھا۔۔۔گردن پر جلن مچ رہی تھی ۔۔۔۔۔جہاں اس کمینے نے بیلٹ ماری تھی ۔۔۔۔میں کافی دیر تک شاور کے نیچے کھڑا تھا ۔۔۔جبھی میں نے باتھ روم کا دروازہ کھلنے کی آواز سنی تھی ۔۔۔۔۔میں جلدی سے گھوما تھا ۔۔اور پھرمیری آنکھیں پھیلتی چلی گئیں ۔۔۔۔۔دروازے سے گل بانو اندر داخل ہو رہی تھی ۔۔۔۔شدت جذبات سے اس کے گال لال ہوئے وے تھے ۔۔۔۔اپنے انہی کپڑوںمیں وہ اندر آئی تھی ۔۔۔۔ہلکے سے سرخ مائل بال پھیلے ہوئے اس کی کمر سے نیچے آ رہے تھے ۔۔۔وہ چادر جو ہر وقت اسے لپیٹے رکھتی تھی ۔۔اس وقت شاید اندر بیڈ پر رکھی ہوئی تھی ۔۔۔۔سینے کے ابھار میرے سامنے ہی تھے ۔۔قمیض میں پھنسے ہوئے یہ بڑے بڑے سے ابھار مغرور سے انداز میں تن کر کھڑے تھے ۔۔۔اور چلتی ہوئی گل بانو کے ساتھ ہلکے ہلکے سے ہلتے ۔۔ابھاروں کی اونچائی نے قمیض اور اس کے جسم کے درمیان فاصلہ برقرار رکھا تھا ۔۔۔جس سے اس کی گولائیاں اور رنگ جھلکے جا رہے تھے ۔۔۔۔۔گل بانو میرے قریب آچکی تھی ۔۔۔شاور کا پانی اس پر بھی گر رہا تھا ۔۔۔میرے قریب آ کر وہ میری آنکھوں میں دیکھ رہی تھی جہاں سوائے حیرانی کے کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔
کیا یہ خواب ہے ۔۔میں اپنی آنکھیں مسلتا ہوا بڑ بڑایا تھا ۔۔۔۔۔
اور جب قریب آئی گل بانو نے مجھے ہاتھ سے پکڑا تو احساس ہو ا کہ یہ خواب نہیں ہے ۔۔۔۔اس کے جسم کی گرمی اور مہک مجھے بے چین کئے جارہی تھی ۔۔۔۔اس کا انداز ، اس کا جسم ، اس کی مہک ، سب پاگل کردینے والا تھا ۔میں نے اسے اپنی بانہوں میں بھر کر شاور کے نیچے کر دیا ۔۔۔۔۔۔پانی ہم دونو ں پر گر رہا تھا ۔۔۔۔گل بانو کے پورے کپڑے بھیگ چکے تھے ۔۔۔۔جس سے اس کی برا اور اندر کا گورا رنگ باہر جھلک رہا تھا ۔۔۔۔اس کی آنکھوںمیں مستی اور ہونٹوں پر شرارت تھی ۔۔۔میں نے جھک کر اس کے چہرہ پر بوسہ دیا ۔۔۔اور پھر نرم گرم سے ہونٹ تھام لئے ۔۔۔۔کیا نرمی تھی ۔۔ان ہونٹوں میں ۔۔۔میں بھی بے اختیار چومتا گیا ۔۔۔۔پانی اب بھی ہمارے اوپر گرتا ہوا ہمیں بھگا رہا تھا۔۔۔۔۔مستی اور شہوت کی لہریں سی دوڑنے لگی تھی ۔۔۔۔گل بانو کا سینہ مجھ سے ٹکرایا تو ایک سرشاری سی دوڑ گئی ۔۔۔پانی گرتے ہوئے بھی اس کا پور ا جسم گر م ہی تھا ۔۔۔میں نے اس کے ہونٹوں کو چومتےہوئے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ دیئے ۔۔۔مغرور مخروطی چٹانیں اپنے عروج پر سختی سے قائم تھی ۔۔میرے ہاتھ نےدبانا چاہا تھا ۔۔۔مگر وہ پھر سے اپنی جگہ سمبھال چکی تھیں ۔۔۔۔گل بانو کے منہ سے گرم گرم سانسیں نکل رہی تھی ۔۔۔۔۔اس کے ہاتھ میری کمر پر تھے ۔۔۔ہلکے سا مساج کرتی ہوئی ۔۔۔۔ابھی تک میں ہی ہونٹ چوم رہا تھا ۔اور ساتھ ہی ہاتھ نیچے لےجا کر اسے کر بڑے سے گول گول چوتڑ پر رکھا ۔۔۔کیا نرم نرم تھے ۔۔۔۔۔اور جب اس نے میری کمر پر ہاتھ رکھ کر تھوڑا سا اٹھ کر میرے ہونٹے چومے تو میں جھوم گیا ۔۔کیا شدت تھی ۔۔۔کیا گرمی تھی ۔۔۔میں اسکی قمیض کو اوپر اٹھانے لگا ۔۔۔وہ مستی بھری نظروں سے دیکھے جا رہی تھی ۔۔۔اور جب میں نے قمیض اتاری تو گورے چٹے ، بھاری بھرکم دودھ کے بڑے سے ڈونگے میرے سامنے مچل رہے تھے ۔۔۔۔میں نے بے اختیار سے اس کی برا کے اوپر سے انہیں دبایا تھا ۔۔۔۔اور وہ اوپر کو اٹھتے ہوئے مزید گہرا دائرہ بنانے لگے ۔۔۔۔۔مجھ پر مستی کی لہریں بار بار حملہ کر رہی تھیں ۔۔۔۔میں نے دوبارہ سے اسے خود سے چمٹا لیا ۔۔نیچے سے میرا ہتھیار بھی کھڑا ہوا سلامی دے رہا تھا ۔۔۔میں نے شاور بندکیا اور گل بانو کو ہاتھ میں اٹھا لیا ۔۔۔وہ میری بانہوں میں اٹھی ہوئی مجھے دیکھ رہی تھی ۔۔میں باتھ روم سے باہر آیا اور اسے بیڈ پر لٹاتے ہوئے اس کے اوپر آ گیا ۔۔۔۔اس کے چہرہ پر پانی کے قطرے بکھرے ہوئے تھے ۔۔۔جو میں اپنے لبوں سے سمیٹتا جار ہا تھا ۔۔۔پورا چہرہ چوم چوم کر میں نے چمکا دیا تھا ۔۔۔اور اس کے بعد اس کی برا کو اتارتے ہوئے پورے سینے کے حصے کو ۔۔۔بڑے سے مموں کو پانی کے قطروں سے صاف کر چکا تھا ۔۔۔۔۔اور اب اس کی شلوار نیچے کھینچنے لگا تھا ۔۔گل بانو بھی مستی میں تھی ۔۔۔اس کی سسکیاں نکل رہی تھیں ۔۔۔۔۔بے چینی سے اپنی ٹانگوں کو ہلائے اور اٹھائے جارہی تھی ۔۔۔اس کی شلوار اتارنے کے بعد پینٹی بھی کھینچ دی ۔۔۔نیچے اسکی بڑی سی ابھری ہوئی اور پھولی ہوئی چوت میرے سامنے تھی ۔۔۔۔ہلکےہلکے سے گولڈن بال دِکھ رہے تھے۔۔۔گل بانوں کی رانیں کافی موٹی اور صحت مند تھیں ۔۔۔۔میں اس کی ٹانگوں کے درمیان آ کر اس کے ممے چوسنے شروع کر دیے ۔۔۔۔۔ممے تھے کہ یہ دودھ کی تھیلیاں تھیں۔۔۔۔بار بارمیرے منہ سے نکلتے اور میں پھر دوبار ہ سے تھام کر منہ میں پہنچاتا ۔۔۔۔۔۔۔گل بانو سر کے نیچے تکیہ رکھے مجھے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔نیچے میرا ہتھیار فل تن کر انگڑائیاں لے رہا تھا ۔۔۔۔۔میں کچھ دیر تک اس کے ممے چوستا رہا ۔۔اور جب دل بھر گیا توپیچھے ہٹ گیا ۔۔۔گل بانو کی ٹانگیں اٹھا کر میں اس کے درمیان جا بیٹھا تھا۔۔۔۔ہتھیار کا ٹوپ اوپر رکھا ۔۔۔۔۔دونوں رانوں کے درمیان ٹوپا خوشی سے مست ہو رہا تھا ۔گل بانو مجھے دیکھی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔میں نے ٹوپا کو چوت پر رکھ کر دباؤ دیا ۔۔۔۔۔چوت باہر سے جتنی پھولی ہوئی تھی ۔۔اندر سے اتنی ہی تنگ تھی۔۔۔ٹوپا اندر جا کر پھنس چکا تھا ۔۔۔گل بانو کی ایک چیخ نکلی تھی ۔۔۔اوئی مورے مڑ شم ۔۔۔۔مورے مڑ شم ۔۔۔اوئی ماں مر گئ ۔۔۔۔
اس نے ہلنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔میں نے اس کی ٹانگیں پکڑ لیں ۔۔۔۔اور تھوڑا سا اٹھ کر اس کے اوپر آ گیا ۔۔۔۔۔گل بانو ابھی بھی چیخیں ماری جارہی تھی ۔۔۔مور مڑ شم ۔۔دا ڈیر خٹ دے ۔۔۔میں نےتھوڑا سا اوپر ہو کر اس کےہلتے ہوئے بڑے سے ممے تھامے اور ایک دھکا اور دے دیا ۔۔۔۔۔۔اس کی چوت نےہتھیار کو پوری طرح سے جکڑ کر رکھا تھا ۔۔آگے جانے کے سب راستے بند تھے ۔۔۔مگر ہتھیار کے ٹوپےنے تباہی مچاتے ہوئے اپنا راستہ بنایا تھا ۔۔گل بانو کے بڑے سے ممےاچھل اچھل کر گر ےتھے ۔۔جیسے کسی اچلتی کودتی گاڑی میں لوگ خود کو سمبھالنےکی کوشش کرتے ہیں ۔۔ایسے ہی اس کے ممے اچھلے اور مچلے جارہے تھے ۔۔۔۔۔گل بانو ایک ہاتھ منہ پر رکھتے ہوئے آواز کنٹرول کر رہی تھی ۔۔۔اوردوسرا ہاتھ نیچے اپنی چوت پر گردش کر رہا تھا ۔۔۔۔میں نے تھوڑا سا ہلتے ہوئے ہتھیار کو تھوڑا سا اور آگے پہنچایا تھا ۔۔۔۔گل بانو اٹھ کرمجھے روکنے لگی تھی ۔۔۔۔مگرمیں اس پر جھکتا ہوااس کے چہر ے کی طرف گیا ۔۔اور اسے چومنے لگا ۔۔۔ہونٹوں کو اتنی زور سے کاٹا کہ وہ چلااٹھی ۔۔۔۔نیچے اس کے بڑے بڑے سے ممے سہمے ہوئے لرز رہے تھے ۔۔۔۔میں کچھ دیر تک ایسے ہی اس پر لیٹا تسلی دیتا رہا ۔۔۔کچھ دیر میں وہ نارمل ہوئی تو اٹھ کر واپس آیا ۔۔اور دونوں ٹانگیں تھام کر ہلنا شروع کیا ۔۔۔۔گل بانو اب بھی مجھے آہستہ آہستہ ہلنے کا کہ رہی تھی ۔۔۔۔میں آہستہ سے ہلتا رہا ۔۔اور جب وہ کچھ اور نارمل ہوئی تو ۔۔ٹوپا باہر نکال کر آدھے تک اندر پہنچادیا ۔۔۔۔گل بانو پھر بلبلائی تھی ۔۔اور پھر سےاس کی بے ساختہ چیخ نکلی تھی ۔۔۔۔میں آدھے تک پہنچا کر رکا رہا ۔۔۔اور پھر آہستہ سے اندر باہر کرنے لگا ۔۔۔۔گل بانو ابھی بھی آہستگی سے کراہتی رہی ۔۔۔۔۔اور میں آہستہ دھکے دیتا ہوا جھٹکوں پر آیا ۔۔۔۔۔ہر جھٹکے کے ساتھ اس کا پورا بدن کانپ جاتا ۔۔۔اور اوئی ۔۔۔ہائے ۔۔۔۔سس کی آواز نکلتی ۔۔۔۔۔میں نے اس کی ایک ٹانگ نیچے لٹا دی ۔۔اور دوسری ٹانگ کو ہوا میں اٹھا کر اپنے سینے سے لگا دیا ۔۔۔۔اور پھر سے ٹوپے کو اندر باہر کرنے لگا ۔۔۔گل بانو کی پھر سے ہائے نکلی تھی ۔۔۔اب کی بار میں کئی منٹ تک مستقل دھکے دیتا رہا ۔۔۔۔اور پھر اسی طرح اسے کروٹ دے کر الٹا کر دیا ۔۔۔۔اب میں اس کے نرم نرم چوتڑ پر سوار تھا ۔۔۔اور جھٹکے پہلے سے تیز کر دیے تھے ۔۔۔گل بانو بھی ساتھ ساتھ چلاتی جارہی تھی ۔۔۔اس کے چھوٹنے کا ٹائم قریب تھا ۔۔۔اور پھر وہ ایک تیز آواز کے ساتھ فارغ ہونے لگی ۔۔۔۔۔۔میں کچھ اور جھٹکے دئے مگر گل بانو نے مجھے اپنے اوپر کھینچ کر خود سے لپٹا لیا ۔۔۔راجہ ابھی بس ۔۔۔شام کو باقی کر لینا ۔۔۔مجھے بہت درد ہے ۔۔میں نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر ہامی بھر لی ۔۔۔۔۔۔ہمیں پھر سےبھوک لگ رہی تھی ۔۔۔میں نے گل بانو کو کپڑے پہننے کا اشارہ کیا ۔۔۔اور باہر آ گئے ۔۔ہمارے خیال میں یہ دوپہر کھانے کا ٹائم تھا ۔۔۔۔۔ایک کمرے کے سامنے گزرتے ہوئے کچھ ناموس سی آوازی سنائیں دیں ۔۔۔پہلے گل بانو نے کی ہول سے اندر جھانکا ۔۔اور پھر مجھے اشارہ کیا ۔۔میں بیٹھ کر کی ہول کے سامنے آیا ۔۔۔تو عجیب منظر میرے سامنے تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


بیڈ پر جان شیر لیٹا ہوا تھا ۔۔اور زرتاش اس کے اوپر بیٹھی ہوئی اپنے جسم کو ہلا رہی تھی ۔۔۔جان شیر کی آنکھیں بند تھیں ۔۔اور دونوں کے جسم کے پر ایک بھی کپڑ ا نہیں تھا ۔۔۔زرتاش کی جذبات میں مہکتی ہوئی آوازیں اور سسکاریاں پورے کمرے میں گونج رہی تھیں ۔۔۔۔کچھ دیر کی ہول میں جھانکنے کے بعد میں اٹھ گیا ۔۔۔۔گل بانو کچن کی طرف چلی گئی اور چائے بنا نے لگی ۔۔۔۔میں واپس اپنے مہمان خانے میں آ گیا ۔۔۔اور عمران صاحب کو کال ملانے لگا۔۔دوسری ہی گھنٹی پر عمران صاحب کی چہکتی ہوئ آواز کانوں میں پڑی تھی ۔۔۔حقیر ، فقیر ، بندہ عاجز راجہ ،مہاراجہ کی خدمت میں سلام عرض کرتا ہے ۔۔۔۔
میں نے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا عمران صاحب راجہ تو آپ ہیں ۔۔۔ہم تو بس آپ سے محبت کرنے والے ہیں ۔۔۔۔اور پھر اپنی کل کی کارستانی سنانے لگا ۔۔۔۔ٹائیگر کے جانے کے بعد سے لے کر اس حویلی کے پرخچے اڑانے تک ۔۔۔میں سب کچھ سناتا چلا گیا ۔۔میں سب کچھ سنا کر چپ ہوا۔۔ تو کچھ دیر تک اسپیکر پر خاموشی رہی ۔۔پھر میں کھنکارا تو عمران صاحب کی آواز آئی ۔۔۔ مجھے رات ہی اس حویلی کی رپورٹ مل چکی تھی ۔۔ میں سمجھا شاید تمہارا اور ٹائیگر کا کارنامہ تھا ۔۔۔مگر تم تو اکیلے ہی میدان مار گئے ۔۔۔خیر گل بانو ابھی تمہارے ساتھ ہے ؟۔۔۔۔عمران صاحب کی خوشی سے بھرپور آواز میرے کانوں میں آئی تھی ۔۔
جی عمران صاحب وہ میرے ساتھ ہی ہے ۔۔اب آگے کیا کرنا ہے ۔۔۔میں اس کی دوست کی طرف ٹہرا ہوا ہوں ۔۔۔۔
میں ٹائیگرکوبھیجتا ہوں اس ایڈریس پر ۔۔تم جب تک وہیں رہو ۔۔اور آنکھیں کھلی رکھو ۔۔۔انڈیا کی ہماری سرحد پر دراندازی بڑھ رہی ہے ۔۔ہو سکتا ہےاس ایریے پر بھی اس کی حرکت نظر آ جائے ۔۔۔
جی عمران صاحب میں بالکل ہوشیار رہوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے بعد عمران نے فون بند کر دیا ۔۔
گل بانو چائے لے کر آ چکی تھی ۔۔۔۔۔ہم بیڈ پر بیٹھے چائے پی رہے تھے ۔۔۔اور ساتھ ہی زرتاش اور جان شیر کے تعلق پر بھی بات کر رہے تھے ۔۔۔۔دونوں آپس میں کزن تھے ۔۔۔مگر جان شیر کی عمر کچھ کم لگ رہی تھی ۔۔۔وہ16 سال کا ہی تھا ۔۔۔اور زرتاش کم از کم 27 کی تھی ۔۔۔اور صحت مند اور بھرپور لڑکی تھی ۔۔۔۔گل بانو میری دلچسپی کو بھانپ چکی تھی ۔۔اور شرارتی انداز میں پوچھ رہی تھی ۔۔کہ جناب کے کیاارادے ہیں ۔۔۔میں کیا کہتامیری مسکراہٹ ہی اس کو جواب دے چکی تھی ۔۔۔گل بانو چائے کا کپ رکھتی ہوئی میری گود میں سر رکھنے لگی ۔۔۔راجہ آج کی رات میرے نام ۔۔۔وعدہ رہا کہ کل زرتاش یہاں تمہارے ساتھ اسی بیڈ پر ہو گی ۔۔۔۔ابھی تک مجھے بھی جان شیر کے تعلق کا نہیں پتا تھا ۔۔آج رات اس سے پوچھوں گی ۔گل بانو کی آواز میں اک خمارتھا ۔۔۔۔۔۔
میں بھی اس پر جھک گیا ۔۔اور اپنے اثبات کے بوسے ثبت کرنے لگا ۔۔۔شام ہو چکی تھی۔۔۔7 بجے کا ٹائم تھا ۔۔۔۔ادھر ہم نے چائے پی کر ختم کی تھی ۔۔ادھر جان شیر نے دروازے پر دستک دی ۔۔۔میں نے اندر آنے کا کہا ۔۔گل بانوایسے ہی میری گود میں سر رکھے بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔جان شیر اندر آ کر ٹھٹکا ۔۔۔اور پھر کھانے کا پوچھنے لگا ۔۔۔میں نے گل بانو کو کچن میں بھیجا اور جان شیر سے قریب کی مارکیٹ کا پوچھا ۔۔۔۔
مجھے کچھ شاپنگ کرنی تھی ۔۔۔یہ ٹراؤزر اور جیکٹ میں کب تک پہنچتا ۔۔۔۔۔۔۔جان شیر نے کہا کہ راجہ بھائی میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں ۔۔۔۔۔میں بھی اٹھ کر تیار ہو گیا ۔۔۔اور دونوں لڑکیوں کو ایک گھنٹے تک کا کہ کر باہر آگئے۔۔۔جیپ ابھی تک ویسے ہی تھی ۔۔میں نے ہتھیار بیگ میں ڈال کر اندر رکھے تھے ۔۔بیگ گھر میں رکھتے ہوئے میں نے نے ایک سائیلنسر لگا ہوا پسٹل اٹھا لیا ۔۔بریٹا کمپنی کا یہ ایم نائن پسٹل بہت زبردست تھا ۔اور سائلنسر لگنے کے بعد بے آواز ہو جاتا تھا ۔۔۔۔۔رات بھی اس نے اچھا ساتھ دیا تھا ۔۔۔۔میں نے پسٹل اور کچھ میگزین لے کر باہر آ گیا ۔۔جان شیر جیپ کے قریب ہی کھڑا تھا ۔۔۔۔۔اور پھر کچھ دیر میں ہم سڑکوں پر پھر رہے تھے ۔۔یہ علاقہ بھی اسی طرح پہاڑوں میں گھرا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔جلدہی ہم ایک مارکیٹ میں پہنچے تھے ۔۔جہاں ملکی اور غیر ملکی سامان وافر مقدار میں موجود تھا ۔۔۔۔ہم نے جیپ باہر کھڑی کی اور مارکیٹ کے اندر چلے گئے ۔۔۔جان شیر مجھے مہمان کے طور پر متعارف کروا رہا تھا ۔۔۔۔میں نے اپنے لئے مقامی کپڑے ، واسکٹ اور جوگرز خریدے ۔کپڑے میں نے وہیں چینچ کر لئے ۔۔۔اس محدود سے علاقے میں مختلف حلئے میں پھرنا اپنے لئے خود مشکل کو دعوت دینا تھی ۔۔۔۔۔۔جان شیر کو بھی شاپنگ کروائی اور پھر گل بانو اور زرتاش کے لئے ایک سوٹ خرید لئے ۔۔
ہمارے شہروں کے مقابل وہاں چیزیں کافی اچھی اور معیاری لگ رہی تھی ۔۔۔۔
ہم باہر نکلے ۔۔۔جان شیر مجھے اپنےایک دوست کی دکان پر لے گیا ۔۔۔وہاں پختون مہمان نوازی ہوئی ۔۔۔۔ہلکی پھلی ریفریشمنٹ کر کے میں باہر نکلا تو میں نے جیپ کے پاس منڈلاتے ہوئے دو آدمیوں کو دیکھا ۔۔۔جبکہ ایک بندہ پیچھے ون ٹو فائیو میں بیٹھا دیکھ رہا ۔اور کچھ فاصلہ پر ایک ہنڈا بائک اور کھڑی ہوئی تھی ۔۔دونوں آدمی چہرے مہرے سے کرخت اور جنگجو ٹائپ لگ رہے تھے ۔۔انہیں شاید کسی کی تلاش تھی ۔۔میں نے جان شیر کو واپس دکان میں بھیجا کہ میں کچھ دیر میں آتا ہوں ۔۔۔۔۔مجھے پہلی فرصت میں جیپ تبدیل کر لینی چاہئے تھی ۔۔مگر اب غلطی ہو چکی تھی ۔۔۔۔اور اسے سدھارنا تھا ۔۔میں نہیں چاہ رہا تھا کہ یہاں بھی کوئی ہنگامہ آرائی ہو ۔۔ان میں سے ایک بندہ واپس بائک پر جا بیٹھا تھا ۔۔میں بھی ان کے قریب سے ایسے گزرا جیسے کوئی اجنبی تھا ۔۔۔اور ڈرائیونگ سیٹ کے قریب پہنچتے ہیں ایک جمپ مار کر اندر بیٹھا ۔۔دوسرے لمحے جیپ غراتی ہوئی اور سڑک پر ٹائروں کے نشان بناتی ہوئی آگے بڑھی ۔۔۔۔وہ اکیلا آدمی پیچھے اپنی بائک کی طرف دوڑا تھا۔۔۔۔۔اتنی دیرمیں نے کافی فاصلہ طے کر لیا ۔۔۔۔میں نے اسپیڈ تیز ہی رکھی اور جدھر راستہ دکھائی دیا ادھر سماتا گیا ۔۔۔۔۔۔جیپ کی گھن گرج اورٹائروں کے چیخنے کی آواز آ رہی تھی ۔۔۔۔اور جیپ اسپیڈ میں کبھی دائیں طرف گھوم جاتی اور کبھی بائیں طرف ۔۔۔میں کافی دیر اپنے تعاقب کو جھٹلاتا رہا ۔۔پندرہ منٹ کی محنت کے بعد میں مطمئن سا ہوگیا ۔۔۔۔۔۔رات بڑھتی جار ہی تھی ۔۔ ۔۔۔میں نے قریب پیٹرول پمپ کا راستہ پوچھا اور اس طرف چل پڑا ۔۔۔جیپ میں فیول فل بھر کر میں قریبی اسٹور میں چلا گیا۔۔اور کسی مکینک کا پوچھا ۔۔۔میں چاہ رہا تھا کہ یہ گاڑی کسی مکینک یا شوروم میں دے کر کوئی عارضی کار لے جائے ۔۔۔اس جیپ کو گھر لے جانا بھی خطرے سے خالی نہیں تھا۔۔۔۔۔مگر یہاں اگر کوئی شوروم تھا بھی تو اب بند ہو چکاہو گا۔۔میں کچھ دیر ایسے ہی ٹہلتا رہا جب میری نظر ایک چادر پوش لڑکی پر پڑی تھی ۔۔تیز تیز قدموں سے چلتی ہوئی وہ بار بار پیچھے کو دیکھتی اور پھر آگے کو بڑھ جاتی ۔۔۔۔لڑکی کی انداز گھبراہٹ اور تیزی والا تھا۔۔۔۔اس کے چلنے کا انداز ایسا تھا کہ گاڑیوں کی اوٹ لے کر بڑھ رہی تھی ۔۔اور پیچھے سے فورا دیکھ لینا مشکل تھا ۔۔۔۔اتنے میں پیچھے ایک سفید مرگلہ کو میں نے تیزی سے آتے دیکھا ۔۔۔۔وہ تیزی سے آ کر چوک پر رکی اور اندر بیٹھے بندےباہر سر نکالے جھانکنے لگے ۔۔۔۔۔۔۔لڑکی اسے دیکھ کر دبک چکی تھی اور اتفاقا وہ میری جیپ کے پاس ہی تھی ۔۔۔میں کچھ دیر سوچتا رہا ۔۔۔۔پھرجیپ کیطرف بڑھا اور اسٹارٹ کی ۔۔۔۔ساتھ ہی ہلکی سی آگے بڑھا ئی ۔۔۔۔میری امید کے مطابق ہی وہ لڑکی اچانک تیزی سے آگے آئی اور میرے ساتھ والے سیٹ پر بیٹھنے لگی ۔۔۔۔۔مدد مانگتے ہوئے اس کا لہجہ مجھے چونکا گیا تھا ۔۔میں نے اسے پچھلی سیٹ پر لیٹنے کا اشارہ کیا ۔۔۔اور جیپ کو اسپیڈ دے دی ۔۔وہ لڑکی اگلی سیٹوں کے درمیان سے اچکتی ہوئی پچھلی سائیڈ پر چلی گئی ۔۔۔۔میں تیز رفتاری سے چوک پر پہنچا اور ابھی دائیں بائیں جانے کا سوچ ہی رہا تھا ۔۔۔۔کہ بائیں طرف سے ون ٹو فائیو کی دونوں بائیک اپنی گھن گرج کے ساتھ رکی تھی ۔۔۔۔پیچھےبیٹھے بندے کی چادر میں سے میں نے کلاشنکوف کی نالی جھانکتی ہوئی دیکھی ۔۔۔۔جو اب اس کے ہاتھو ں میں جگہ بنا رہی تھی ۔۔۔اور ادھر دائیں طرف وہی سفید مرگلہ ابھی بھی انتظار میں تھی ۔۔۔۔میں نے دائیں طرف جانے کا سوچا تھا ۔۔اگر خاموشی سے مرگلہ کے برابر سے نکل جاتا تو کیا برائی تھی ۔۔۔۔۔مگر ہر کام میری مرضی کا ہونا بھی کوئی لازمی نہیں تھا ۔۔۔۔۔ادھر میں نے گاڑی دائیں طرف گھما کر اسپیڈ دی ۔۔اور ادھر وہ بائک والا بندہ کلاشنکوف اپنے ہاتھوں میں تھام چکا تھا ۔۔۔۔جیپ پور ی اسپیڈ سے مرگلہ سے کراس ہو رہی تھی کہ پیچھے سے کلاشنکوف کا برسٹ جیپ کے پیچھے پڑا ۔۔۔۔۔۔لڑکی چیخ مارتی ہوئی سیٹ سے نیچے گری تھی ۔۔۔۔اور سفید مرگلہ نے بھی چیخ کی آواز سن لی تھی ۔۔۔۔اس نے بھی ایک جھٹکا کھایا تھا اور ہمارے پیچھے آئی ۔۔۔۔۔اگلے تین منٹ تک میں گاڑی کا حصہ بن گیا ۔۔میری نظر سڑک پر اور ہاتھ اسٹیرنگ پر جم گئے ۔۔۔۔اور جیپ ہوا میں اڑتی ہوئی کبھی سڑک کے ادھر لہرا تی اور کبھی سڑک کے بائیں طرف ۔۔میں اسپیڈ میں جتنا زگ زیگ ہوسکتا تھا ۔۔بھگائے جا رہا تھا ۔۔۔۔مرگلہ کا ڈرائیور بھی مشاق تھا ۔۔۔اور یہاں کے روڈ بھی جانے پہچانے تھے اس کے لئے ۔۔وہ اس کا بھرپور فائد ہ اٹھار ہا تھا ۔۔۔۔۔میں نے لڑکی کی طرف دیکھا ۔۔۔اس کی چادر اتر چکی تھی ۔۔۔اور خوف میں ڈوبا ہو اچہر ہ مجھے تک رہا تھا ۔۔۔۔آنکھیں التجا کر رہی تھیں کہ میں اس کی جان بچاؤں ۔۔۔۔۔میں نے نظریں دوبارہ سڑک پر جما دی اور اسپیڈ اور بڑھانے لگا ۔۔۔۔بائک والے زیادہ مشاق تھے ۔۔اور وقفے وقفے سے شارٹ کٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مرگلہ سے آگے آ چکے تھے ۔۔۔ایک بائک خطرناک حد تک قریب آئی تھی ۔۔۔اور ساتھ ہی ڈرائیونگ سائڈ پر دو تین فائر پڑے ۔۔۔چھن چھن کی آواز کے ساتھ گولیاں جیپ کی باڈی سےٹکرائیں تھی ۔۔دوسری بائک بھی جیپ کی اسپیڈ کم ہونے کا فائد ہ اٹھاتی ہو ئی ساتھ لپکی تھی ۔۔اس پر سے بھی فائر ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔میں نے ایک نظر پیچھے ڈالی ۔۔سفید مرگلہ کو کچھ دیر تھی ۔۔اوروہ شاید ان بائک والوں کوپہلے موقع دینا چاہ رہی تھی ۔۔۔۔میں نے ریس سے پاؤں اٹھاتے ہوئے بریک پر پور ا زور ڈال دیا ۔۔ساتھ ہی ہینڈ بریک بھی کھینچ دی ۔۔جیپ کے چاروں ٹائر کالے رنگ کے نشان بناتے ہوئے روڈ کو پکڑ چکے تھے۔۔۔۔۔ایک دھماکے کی آواز کے ساتھ دونوں بائک جیپ سے ٹکرائی تھی ۔۔۔۔۔ایک بائک کااگلا ٹائر پچک کر ایک بندے کو ہوا میں اور ایک کو جیپ میں گھسا چکے تھے ۔۔۔دوسری بائک کا بھی یہی حال تھا۔۔۔۔اس کا سوار جیپ سے کئی گز دور ہوا میں اڑتا ہو ا گر ا۔۔اور لڑکی بھی اڑتی ہوئی آگےآئی اور دونوں سیٹ کے درمیاں خود کو روکتی ہوئی بری طرح سے پھنسی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے ہینڈ بریک نیچے کی اور دوبارہ سے ایکسلیڑ دبا دیا ۔۔۔۔بائک والے اپنی منزل پا چکے تھے ۔۔۔سفید مرگلہ نے بھی اپنی اسپیڈ بڑھا دی ۔۔۔۔۔۔وہاں سے برسٹ کی تڑ تڑاہٹ گونجی تھی ۔۔۔۔۔شاید خوفزدہ کرنا چاہ رہا تھا ۔۔۔۔۔میں نے اسپیڈ بڑھائی اور پھر سے ہوا میں اڑنے لگا ۔۔۔۔ساتھ ہی دائیں ہاتھ سے اسٹیرنگ تھامتا ہوا ۔۔پسٹل نکال لیا ۔۔۔سیفٹی لاک ہٹانے کے بعد میں نےبائیں ہاتھ کو پیچھے گھمایا اور فائر کیا ۔۔۔۔جوزف نے مجھے مرر میں دیکھتے ہوئے فائر کی پریکٹس کروائی تھی ۔۔۔۔۔لہذا پہلی گولی ہی کار کے سامنے والے حصے پر پڑی تھی ۔۔۔کار تھوڑی سی ڈگمگائی اور پھر اور تیز ہوئی ۔ساتھ ہی انہوں نے بھی جوابی فائر سے جواب دیا ۔۔۔۔۔۔۔پسٹل کا دوسرا فائر کار کے شیشے میں پڑا تھا۔۔۔مگر کوئ شکار نہیں ہوا ۔۔۔۔میرے اندازے کے مطابق کار میں تین بندے تھے ۔۔۔ایک ڈرائیور اور دو بندے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے ۔۔۔۔جو آدھے باہر نکلتے ہوئے فائر کرتے اور پھر اندر گھس جاتے ۔۔۔۔۔لڑکی نے میرے ہاتھ میں پسٹل دیکھ کر مجھے کہا کہ مجھے دو میں ان کو روکتی ہوں ۔۔۔۔میں نے ایک نظر لڑکی کو دیکھا اور پھر پسٹل پکڑا دیا ۔۔۔۔۔وہ جیپ کےپچھلی سیٹ سے سر اٹھائے ہوئے وقفے وقفے سے فائر کرنے لگی ۔۔۔۔لڑکی نے اگلے تین چار منٹ میں اپنی نشانہ بازی کا بہترین مظاہر ہ کیا اور کار کا اگلا ٹائر برسٹ کر دیا ۔۔۔۔۔۔مرگلہ بری طریقے سے لہرائی اور روڈ کے کنارے رک گئی ۔۔۔۔۔پیچھے والے بندے باہر آئے اور کافی دیر تک ہماری طرف فائر کرتے رہے ۔۔۔لیکن اب ہم ان کے ہاتھ آنے والے نہیں تھے ۔۔۔۔میں دس منٹ تک مزید ڈرائیو کرتارہا۔۔۔۔اور پھر گاڑی ایک چوک سے اندر کو موڑتے ہوئے اندھیر ے میں روک دی ۔۔۔۔گاڑی سے باہر آیا ۔۔۔سانس برابر کی ۔۔۔۔اتنے میں لڑکی بھی باہر آ گئی ۔۔۔اس کے چہرے کے تاثرات اب کافی بہتر تھے ۔۔وحشت اتر چکی تھی ۔۔۔میں نے بھی دوبارہ سے اس کا جائزہ لیا ۔۔۔وہ لڑکی مجھے مقامی نہیں لگی تھی ۔۔اور پھر اس لڑکی کی آواز گونجی ۔۔تمہار ا نام کیا ہے ؟ تم اس علاقے کے تو نہیں لگتے ہو ۔۔ہمت والے بھی ہو ۔۔ہتھیار چلانا بھی جانتے ہو۔۔۔اور مدد کرنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہو۔۔۔
میں نے اپنا تعار ف کروایا اور کہا کہ میں ایک سیکورٹی ایجنسی میں کام کرتا ہوں ۔۔۔۔ایک مقامی سردار مجھے شہر سے اپنی حفاظت کے لئے لایا تھا ۔۔اس کے ساتھ تین ماہ کا کنٹریکٹ تھا۔۔جو کہ ختم ہو چکا ہے ۔۔کل میں واپس اسلام آباد چلا جاؤں گا۔۔۔۔تم اپنا بتا ؤ یہ لوگ کون تھے جو تمہارے پیچھے لگے ہوئے تھے۔۔۔(لڑکی کو اب تک اندازہ نہیں تھا کہ ان دو میں سے ایک پارٹی میرے پیچھے بھی پڑی تھی )۔۔۔۔۔لڑکی نے اپنا نام ثریا خانم بتایا اور کہا کہ وہ یہاں بزنس کرتی ہے ، امپورٹ ایکسپورٹ کا ۔۔۔اور ساتھ ہی مختلف ملکوں کی کنسلٹینسی کرتی ہے یعنی اس علاقے سے لوگوں کو مختلف ممالک میں بھیجتی ہے ۔باہر کے ممالک میں ان علاقوں کے مزدورں کی بڑی مانگ ہے ۔
۔۔اور یہ لوگ کون ہیں جو تمہارا پیچھے کر رہے تھے۔۔۔میں نے پوچھا ۔۔
یہ یہیں کے مقامی با اثر لوگ ہیں اور مجھے اغوا کر کے اپنے مطالبات منوانا چاہتے ہیں ۔اور میں ان کی بات ماننا نہیں چاہتی ۔۔۔۔ثریا نے جواب دیا ۔۔۔۔
رات کافی گزر چکی تھی ۔۔ثریا نے مجھ سے درخواست کی کہ میں اسے اس کے گھر چھوڑ وں ۔۔میں نے حامی بھر لی ۔۔۔اور تیزی سے اس کے بتائے ہوئے ایڈریس پر پہنچنے لگا۔۔۔۔میں نے گاڑی اس مطلوبہ مکان کے سامنے روکی جو کہ ایک بڑے رقبے پر پھیلا ہوا تھا ۔۔۔۔۔ثریا جیپ سے اترنے لگی تو مجھے خیال آیا اور میں نے اس کی گاڑی کا پوچھا ۔۔میں جیپ چھوڑ کر گاڑی بدلنا چاہ رہا تھا ۔۔۔۔ثریا نے اپنے گھر کا دروازہ کھولا ۔۔اور جیپ اندر لے گیا ۔۔۔۔اندر سرمئی کلر کی ہنڈا سوک کھڑی تھی ۔۔ماڈل نیو تھا ۔۔میں نے جیپ کھڑی کر کے کار کی چابی لے لی ۔۔۔ثریا میرے قریب ہی تھی ۔۔۔مجھے سے لپٹ کر میرے گالوں پر بوسہ دیا اورپوچھا کہ اگر تمہیں کچھ ٹائم کے لئے یہاں کام مل جائے تو ۔۔۔۔۔معاوضہ تمہاری مرضی کا ہوگا۔۔۔۔۔تم میرے دوست کی طرح میرے ساتھ رہو گے اور مشورہ دیتے رہنا ۔۔۔۔۔میں نے حامی بھر لی ۔۔۔ثریا نے رات وہیں رہنے کا کہا مگر میں نے منع کیا کہ کچھ ضروری کام ہے ، میں کل چکر لگاتا ہوں ۔۔۔ثریا نے مجھے اپنا نمبر دیا اور ایک مرتبہ پھر مجھے سے لپٹتی ہوئی کہنے لگی ۔۔راجہ پہلی ملاقات میں کسی پر بھروسہ نہیں کرتی ۔۔مگر تم پھر بےاختیار بھروسہ کرنے کا دل کرتا ہے ۔۔۔۔۔کل ضرور آنا میں انتظار کروں گی ۔۔۔۔میں نے سرہلاتے ہوئے واپس ہونے لگا۔۔ہنڈا سوک اچھی حالت میں تھی ۔۔۔میں آدھے گھنٹے میں زرتاش کے گھر کے سامنے تھے ۔۔۔اندر پہنچا تو سب پریشان بیٹھے تھے ۔۔۔۔۔۔جان شیر پہنچ چکا تھا ۔۔۔اور گل بانو کو بتا دیا تھا کہ میں مارکیٹ سے اچانک غائب ہو گیا ۔۔۔۔۔میں نے بہانہ بناتے ہوئے انہیں مطمئن کیا ۔۔۔اور پھر ہم کھانے پر بیٹھ گئے ۔۔۔۔بھوک تو میری اڑ ہی چکی تھی ۔۔۔پھر بھی کچھ نوالے توڑ کر میں نے گل بانو سے چائے کا کہہ کر اپنے روم میں آگیا ۔۔کی گئی شاپنگ جان شیر لے آیا تھا ۔۔۔میں باتھ روم گیا اور شاور لینے لگا۔۔۔شاور کے نیچے کھڑے کھڑے پچھلے واقعات میرے ذہن میں پھر سے گھوم رہے تھے ۔۔۔۔وہ لڑکی کا لہجہ کچھ چغلی کھا رہا تھا ۔۔۔ساتھ ہی اس کا پسٹل چلانے کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ ہتھیاروں سے اچھی طرح واقفیت رکھتی ہے ۔۔۔کچھ دیر بعد اس کا سڈول جسم میرے سامنے کوندا تھا۔۔۔۔میں نے جلدی سے شاور ختم کیا اور باہر نکل آیا ۔۔۔۔۔گل بانو کمرے میں آچکی تھی ۔۔اس سے چائے کا کپ پکڑ کر میں بیڈ پر جا بیٹھا ۔۔۔۔۔۔گل بانو بھی اوپر کو بیٹھتی ہوئی بیڈ سے ٹیک لگا چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے چائے کاکپ اٹھا لیا ۔۔۔۔گل بانو نے دوبارہ سے پوچھا کہ آج آپ کہاں چلے گئے تھے ۔۔میں نے مختصر اسے سب قصہ سنا دیا ۔۔۔۔زرتاش کے سامنے تو کچھ کہ نہیں سکتا تھا ۔۔۔وہ بھی متفکر ہوگئی کہ یہ کون سی مصیبت یہاں آن پڑی ہے ۔۔۔۔۔۔اس نے مجھ سے ثریا کا پوچھا تو میں نے اس کا حلیہ بتا دیا ۔۔۔۔۔۔بڑی خطرناک لگتی ہے ۔۔۔گل بانو بڑ بڑائی تھی ۔۔۔بچ کے رہیئے گا ۔۔۔۔۔۔میں نے ہنس کر کہا کہ کچھ نہیں ہونا۔۔۔میں نے اسے یہ نہیں بتایا کہ اس نے مجھے کل بلایا تھا ۔۔۔چائے پی کر میں نے کپ سائیڈ پر رکھ دیا ۔۔تو گل بانو مجھے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔نگاہیں شوخ تھی ۔۔اور مسکراہٹ شرارت سے بھری ہوئیں ۔۔۔میں نے بھی اس کے لئے بانہیں پھیلا دی ۔۔۔۔۔اپنی مخصوص مہک اور گرمی کے ساتھ وہ مجھ سے لپٹی ہوئی تھی ۔۔۔
کپڑوں سے باہر نکلتی ہوئی گرمی مجھ میں سرائیت کرتی جا رہی تھی ۔۔۔میں نے بیڈ سے ٹیک لگائی تھی ۔۔۔۔جبکہ گل بانو میرے برابر میں ہی مجھ پر گری ہوئی تھی ۔۔۔۔اس کا نرم نرم جسم مجھ پر ٹکا ہوا تھا ۔۔۔ہم دونوں کے چہرے ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے ۔۔۔۔ہونٹوں کی آپس میں لڑائیاں جا رہی تھیں ۔۔۔کل کی ادھوری ملاقات آج پوری ہونے جا رہی تھی ۔۔۔۔میں نے بھی بھرپور شدت سے حملہ کیا تھا ۔۔۔اور گل بانو کو بیڈ پر لٹاتے ہوئے اس کے اوپر آیا تھا۔۔۔اس نے لیٹنے ہی اپنے ہاتھ اٹھا کر میرے سر پر رکھ دیئے ۔۔میں اس کے ہونٹوں کو چومتا ہوا ۔۔اس کے سینے کے بھرے بھرے ابھاروں کو ٹٹول رہا تھا ۔۔۔جو آج اپنی نرمی اور گرمی سے مچلے جا رہےتھے ۔۔۔۔دونوں ہاتھ اس کے سینے پر گردش کررہے تھے ۔۔۔اسے بھنبھور رہے تھے ۔۔اور گل بانو کو سسکنے پر مجبور کر رہے تھے ۔۔۔۔کھلے گلے کی یہ قمیض جہاں ا س کے بڑے بڑے مموں کو سمبھالنے سے قاصر تھی ۔۔۔وہیں اس کے مموں کو اوپر کو اٹھنے کا راستہ بھی دیتی تھی ۔۔اور اب بھی میرے ہاتھ کی زور آزمائیوں سے اس کی گردن کی طر ف سے گہری کلیویج بنی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔میں نے اسے اٹھاتے ہوئے بٹھا یا اور پھر قمیض اتار دی ۔۔نیچے برا میں نرم نرم گولائیا ں میری منتظر تھیں ۔۔برا اتار کر ۔۔۔۔میں بھی جلد باز بچے کی طرح جلدی سے تھا متا ہوا منہ میں ڈالنے لگا۔۔۔۔۔بھاری بھرکم سی یہ چھاتیاں مجھے لفٹ نہیں کر وا رہی تھیں ۔۔۔میں بھی دونوں ہاتھوں میں اسے قابو کرنے کی کوششو ں میں مصروف تھا ۔۔۔گل بانو کا چہر ہ لال ہو ا جا رہاتھا ۔۔۔اور سسکیاں نکال کر مجھے داد دے رہی تھی ۔۔۔میں نے اچھی طرح سے اس کی چھاتیوں کا رس پیا اور ۔۔۔پھر نیچے کو اترنے لگا۔۔۔۔شلوار نیچے کھینچنے کے بعد پہلے سے بھی زیادہ صاف اور پھولی ہوئی سیپی میرے سامنے تھی ۔۔۔ گل بانو اپنی ٹانگیں بند کرتے ہوئے اسے چھپانے لگی ۔۔۔مگر میں نے اس کی ٹانگیں اوپر اٹھا کر نیچے سے راستہ بنا لیا ۔۔اور ایک انگلی اندر ڈال کر ہلانے لگا ۔۔۔۔۔گل بانو کی چوت گیلی ہونا شروع ہو گئی تھی ۔۔میں کچھ دیر دیر انگلی ہلاتا رہا ۔۔۔اور پھر اس کی ٹانگیں نیچے کرتے ہوئے لیٹا دی ۔۔۔اور اس کے اوپر بیٹھتا ہوااس کے چہرہ پر جھک گیا ۔۔ساتھ ہی اپنی شرٹ اتارنا شروع کر دی ۔۔۔جلد ہی میرا اوپر بدن ننگا ہو چکا تھا ۔۔۔۔۔میں سائیڈ پر لیٹا اور پینٹ بھی اتارنے لگا ۔۔۔۔انڈررئیر اتارنے کے بعد ہتھیار سامنے تھا ۔۔۔۔کل شام کی پیاس پوری نہ ہونے کا باعث روٹھا روٹھا تھا ۔۔۔گل بانو بھی میری طرف دیکھ رہا تھا ۔۔ایک مرتبہ پھر اس کی سانسیں رکنےلگی تھی ۔۔۔میں دوبارہ سے اس کے اوپر جا بیٹھا تھا ۔۔۔اس طرح کہ میرے جسم کا زور میری ٹانگوں پر ہی رہے ۔۔ہتھیار اس کے دونوں گوشت سے پر مموں کے درمیان سکون سے لیٹا ہوا تھا ۔۔۔۔گل بانو نے اپنے سرکے نیچے ایک تکیہ اور لگایا اور تھوڑا سا اٹھ کر دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔ہتھیار اسکے مموں کے درمیان سے ہوتا ہوا اس کے منہ تک پہنچ رہا ۔۔۔گل بانو نے منہ کھول اور میں نے تھوڑا سا آگے بڑھا دیا ۔۔۔ہتھیار گل بانو کے منہ پر جا کر رک گیا تھا ۔۔۔ٹوپے کی آگے کی نوک کے علاوہ کچھ بھی اس کے منہ میں نہیں جا رہا تھا ۔۔۔۔۔گل بانو اسی پر زبان پھیرنے لگی ۔۔۔اور دونوں ہاتھ سے اپنے مموں کو اکھٹا کرتی ہوئی میرے ہتھیار پر دبانے لگی ۔۔۔۔ایک نرم نرم سااحساس مجھے لگا تھا ۔۔۔۔گل بانو نے اپنے ممے میرے ہتھیار کے گرد دبا دئیے تھے ۔۔میں نے آگے پیچھے حرکت کرنی شروع کی ۔۔۔جو اس کے منہ پر ختم ہوتی تھی ۔۔۔۔جہاں اس کے ہونٹ میرے ہتھیار کی نوک اور ٹوپے کو روکتے اور لبیریکیٹ کرتے ۔۔۔۔میں نے تھوڑی اسپیڈ تیز کی ۔۔۔۔اور تیزی سے حرکت دینے لگا۔۔۔۔اب میں ٹوپ کو بالکل پیچھے لے جاتا ۔۔۔۔اور گل بانو اپنے مموں کوسے آگے کا راستہ بند کردیتی ۔۔۔ٹوپے کی سختی سے ہتھیار پھنستا ہوا اندرجاتا ۔۔۔۔۔کچھ دیر تک ایسے ہی ہوتا رہا ۔۔۔پھر میں اس کے اوپر سے ہٹتا ہوا ساتھ لیٹ گیا ۔۔۔۔اور گل بانو کو اوپر آنے کا اشارہ کیا۔۔گل بانو جلدی سے اٹھی میر ے ٹانگوں پر بیٹھتی ہوئی ہتھیار کو اپنے ہاتھ میں تھام اور اس پر تھوک پھینکتی ہوئی گیلا کرنے لگی ۔۔۔۔کچھ تو ہتھیار پہلے ہی گیلا تھا ۔۔۔اور مزید اب ہو گیا تھا ۔۔۔اس کے بعد پھر ہتھیار کی سید ھ میں آتے ہوئے اس پر بیٹھنے لگی ۔۔ہتھیار نے کافی اوپر ہی اس کی چوت کو اور گل بانو کو بیٹھنے سے روک دیا تھا ۔۔۔گل بانو نے ٹوپے پر چوت رکھ کر ہلکی سی بیٹھی تھی ۔۔۔۔نہایت تیزی سی ٹوپے اندر کو لپکا تھا ۔۔گل بانو تھوڑی سی اور بیٹھی اورکچھ اور اندر غڑاپ سے گھسا تھا ۔۔۔گل بانوکی ایک تیز سسکی نکلی ۔۔۔اوہ ۔۔۔۔سس ۔۔۔۔اور پھر اپنے گھٹنے پر ہاتھ رکھتی ہوئی خود کو روکے رکھا۔۔۔کچھ دیر تک وہ مزید اس پوزیشن پر رہی ۔۔۔۔۔۔۔اور پھر مزید بیٹھنے لگی ۔۔۔۔کچھ دیر تک آہیں بھرتی ہوئی وہ آدھے ہتھیار کو اندر لے چکی تھی ۔۔۔۔گل بانو کا منہ سرخ ہو چکا تھا ۔۔و ہ ضبط کرتی ہو ئی خود کو اس پوزیشن پر روکے ہوئی تھی ۔۔۔اس کے ممے بھی اس کے ساتھ ہی ساکت ہوئے وے تھے ۔۔۔۔۔گل بانو کی ہمت برداشت دینے لگی تو وہ آگے کو ہوتی ہوئی گھٹنے رک کر مجھ پر بیٹھنے گئی ۔۔۔اس کے دونوں گھٹنے بیڈ پر میری ارد گرد تھے ۔۔۔۔اور بھاری بھرکم ممے میرے اوپر گرے پڑے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔ساتھ ہی گل بانو کے منہ سے ایک ساتھ کئی سسکاریاں نکلیں ۔۔۔۔وہ اپنے ہاتھ میرے سینے پر رکھ کر سہار ا لے رہی تھی ۔۔۔۔میں نے پیچھے ہاتھ بڑھا کر اس کے چوتڑ تھام لیے اور دبانے لگا۔۔۔۔گول اور نرم میدے جیسے یہ چوتڑ میرے ہاتھ کے لمس سے لال ہونے لگے تھے ۔۔۔۔گل بانو میرے سینے پر ہاتھ رکھے ہلکے ہلکے سے اوپر نیچے ہو رہی تھی ۔۔۔میرا ٹوپ ہی اس کی چوت کے منہ میں پھنسا ہوا تھا ۔۔اور اپنی پوری موٹائی کے ساتھ آگے پیچھے حرکت کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔میں نے چوتڑ سے ہاتھ ہٹا کر اس کے بازوؤں کے نیچے سے اس کے ممے دبوچ لئے جو میرے چہرے پر نرم اسفنج کی طرح پھرے جار ہے تھے ۔۔۔۔ساتھ ہی اسے منہ میں پکڑنے لگا ۔۔۔۔گل بانو کی گرم گرم سسکاریاں اور آہیں اب بھی نکلی جا رہی تھی۔۔۔وہ کچھ دیر اپنا زور لگانے کے بعد مدد طلب نظروں سے مجھے دیکھنے لگی ۔۔۔میں نےلیٹی ٹانگیں سمیٹیں ۔۔۔۔اور ۔۔گھٹنے اوپر کردئیے ۔۔۔۔ساتھ ہی کمر کو اچھالتے ہوئے پہلا جھٹکا پڑا تھا ۔۔۔۔۔گل بانو کی ایک تیز چیخ نکلی وہ تھوڑی سی اوپر کو اچھلی تھی ۔۔۔ممے بھی اپنے پورے وزن کے ساتھ ہوا میں اچھلے تھے ۔۔۔۔۔۔اوروہ دوبارہ سے نیچے آئی تھی ۔۔جہاں پہلے سے زوردار جھٹکا اس کا منتظر تھا ۔۔۔وہ پھر سے چیختی ہوئی اچھلی تھی ۔۔۔اور اب ٹانگوں پر زور دے کر خود کو اوپر روکے ہوئی تھی ۔۔۔پھر کچھ دیر بعد خود ہی نیچے ہونے لگی ۔۔۔۔میں نے بھی اب تھوڑے تھوڑے وقفے بعد گہرے جھٹکے مارنے شروع کر دیا ۔۔جو بجلی کی سی تیزی اندر گھستے اور گل بانو کو اوپر تک اچھال دیتے ۔۔۔۔اور اس کی آہوں کو بے اختیار نکال باہر کرتے ۔۔۔۔تین چار بار درمیانی اسپیڈ میں دھکے دیتے ہوئے ایک تیز جھٹکا ۔۔۔گل بانو اسی طرح میرے سینے پر ہاتھ رکھے تھوڑی سی مجھ پر جھکی ہوئی ۔۔۔پیچھے سے چوتڑ کو باہر نکالے ہوئے اندر کی طرف کمان کی طرح مڑی ہوئی تھی ۔۔آگے سے ممے میرے چہرے سے ٹکرا رہے تھے ۔۔۔۔گل بانو کافی آگے کو ہو کر بیٹھی ہوئی تھی ۔۔جس کی وجہ سے صرف آدھا ہتھیار ہی مار کر پاتا تھا ۔۔۔۔۔میں نے گل بانو کی صحت مند رانیں پکڑے ہوئے اسے تھوڑا سا نیچے کیا ۔۔۔۔ساتھ ہی جھٹکے کا نمبر تھا۔۔۔گل بانو ۔۔اوہ ہ ہ ۔۔۔۔اوئی ۔۔۔کی آواز نکالتی ہی اوپر کو اچھلی ۔۔۔۔پھر میں نے مستقل جھٹکوں کی مشین چلا دی ۔۔۔۔گل بانو کی سسکیاں نکلتی گئیں ۔۔وہ میرے سینے پر ہاتھ رکھے ایسے اچھل رہی تھی ۔۔۔جیسے کوئی اناڑی پہلی مرتبہ گھوڑے پر بیٹھا ہو اور اونچے نیچے رستے پر گھوڑا بھاگ رہا ہو۔۔۔۔کچھ دیر بعد گل بانو تھکنے لگی تو میں نے اس طرح اسے سائیڈ پر لٹا یا اور خود اوپر آ گیا ۔۔۔۔اس کی ٹانگیں میری کمر کے گرد لپٹی ہوئی تھیں ۔۔۔۔جب میں نے ہتھیار کو اندر تک گھسایا تھا ۔۔گل بانو ایک تیز چیخ مارتی ہوئی اوپر کو کھسکی تھی ۔۔۔۔۔مگرمیں نے دونوں ہاتھ اس کے ممے پر جما کر ممے دبوچ لیا ۔۔۔۔ہتھیار باہر کھینچے ہوئے دوبارہ سے گھسایا تھا ۔۔۔گل بانو پھر سے چلائی تھی ۔۔۔۔میری ٹانگوں پر ہاتھ رکھے وہ زور لگا کر مجھے دھکیلنے کی کوشش میں تھی ۔۔۔۔۔میں نے ممے زور سے دبوچتے ہوئے اوپر کو کھینچے اور پھر چھوڑے ۔۔۔۔۔دوبارہ سے جکڑ کر ایسےکھینچے کہ اوپر آتے ہوئے صرف نپلز ہی میرے ہاتھ میں بچتے اور وہ بھی کافی اوپر تک کھنچے چلے آتے ۔۔۔تیسرا جھٹکے پر ایسے ہی آہ نکلی تھی ۔۔۔۔اور پھر اس کی آہوں نے کمرہ گرما دیا ۔۔۔۔نیچے سے جھٹکے بھی اسی اسپیڈ سے جاری تھی ۔۔۔۔۔۔۔گل بانو کو پورا بد ن لرزرہا تھا ۔۔۔بیڈ بھی کپکپانے لگا تھا ۔۔۔گل بانو کے بال بے ترتیب ہونے لگے ۔۔۔۔۔اور چہر ہ سرخ سے سرخ تر ہوتا گیا ۔۔۔۔اگلے پانچ منٹ میں نے ٹھہر ٹھہر کر گہرے گہرے جھٹکے مارے جو اندر تک گل بانو کو ہلا دیتے ۔۔۔۔۔۔انہیں آہو ں اور سسکیوں میں گل بانو فارغ ہوئی تھی ۔۔۔۔۔مگر میری منزل دور تھی ۔۔۔کچھ دیر ایسے ہی جھٹکے مارتے ہوئے میں رکا ۔۔۔اور گل بانو کو گھوڑی بنانے لگا ۔۔۔۔تکیہ نیچے رکھتی ہوئ وہ اوندھے منہ لیٹی اور پیچھے سے چوتڑ کو اٹھا دیا ۔۔۔۔میری پکڑ سے سرخ ہوئے چوتڑ اب اوپر کو اٹھے ہوئے تھے ۔۔۔۔میں پیچھے کی طرف آیا اور ۔۔ہتھیار کے ٹوپے کو چوت کے منہ پر رکھا اور دھکا دے دیا ۔۔۔۔۔گل بانو کچھ آگے کو ہلی ۔۔میں نے کمر کو پکڑتے ہوئے پور ا ہتھیار اندر دھکیل دیا ۔۔۔۔۔گل بانو بس آہوں اور سسکیوں سے ہی جواب دے سکتی تھی ۔۔سو دینا شروع کر دیا ۔۔۔اور میں نے تیز رفتاری سے گھڑ سواری شروع کر دی ۔۔۔۔جھٹکے تیز ہوئے تو گل بانو کا چہر ہ بھی بیڈ پر لگنے لگا ۔۔وہ اٹھ کر اپنے بازؤوں پر کھڑی ہو گئیں ۔۔۔گانڈ تھوڑی سی پیچھے سے جھک گئی تھی ۔۔میں بھی تھوڑا جھک کر اسی تیزی سے جھٹکے مارنا لگا۔۔۔گل بانو نے اپنی ہتھیلی میں بیڈ شیٹ دبوچے ہوئے مستقل آگے کو ہلی جا رہی تھی ۔۔اور پیچھے سے بغیر رکے ہتھیار گھستا جار ہا تھا ۔۔۔۔گل بانو کے ممے بھی آگے سے بار باراچھلے جا رہے تھے ۔۔۔۔۔تھوڑی دیر بعد گل بانو ہاتھ اٹھا کر کھڑی سی ہوگئی اور۔۔اپنے دونوں ہاتھ پیچھے لے جا کر میرے سر پر رکھ دئے ۔۔۔وہ بیڈ پر گھٹنے کے بل چوتڑ نکالے کھڑی ہوئی تھی ۔۔۔اور میں پیچھے اسی تیزی سے جواب دے رہا تھا ۔۔۔کچھ دیر ایسے جھٹکے دینے کے بعد میں تھکنے لگا۔۔۔تو پوزیشن تبدیل کر دی ۔۔گل بانو کولٹا کر اس کے ٹانگیں اٹھا دی ۔۔۔اور اپنے کندھے پر رکھ دی ۔۔۔ساتھ ہی اس کے چوتڑ کھینچ کر تھوڑا ساہوا میں اٹھا دیا ۔ اسے کی چوتڑ ہوا میں لہرا رہی تھی ۔۔۔جبھی میں نے پہلا جھٹکا مارا تھا ۔۔۔۔۔گل بانو کا منہ ایک دم سے کھلا اور بند ہوا۔۔۔اس کے بعد میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ۔۔۔اور دھکے پر دھکے دیتا رہا ۔۔۔گل بانو کی سسکیاں بھی اتنی ہی بلند تھی ۔۔۔وہ بار بار مجھے آہستہ ہونے کا کہتی ۔۔۔مگر یہ مشکل تھا۔۔۔اس کے ممے اچھل اچھل کر تھکنے لگے تھے ۔۔۔۔۔میرے جھٹکے اب تیز سے تیز ترہوتے جارہے تھے ۔۔میرے فارغ ہونے کا ٹائم قریب تھا ۔۔۔اور پھر میرے جھٹکے طوفانی ہوئے ۔۔۔۔۔گل بانو کی دہائیاں اسی طرح جاری تھی ۔۔۔۔وہ بھی فارغ ہونے کے قریب تھی۔۔۔۔میرے منہ سے ایک غراہٹ نکلی تھی ۔۔۔ہتھیار پورا کا پور ا اندر جا کر ٹٌھکا تھا ۔۔۔۔گل بانو پھر سے چلائی تھی ۔۔۔۔اور پھر چند اور طوفانی جھٹکوں کے بعد میرا خون نیچے کر طرف اکھٹا ہونا شروع ہوا ۔۔۔۔ایک تیز فوارہ نکلا جو گل بانو کی چوت میں جا کرٹکرایا تھا ۔۔۔۔ساتھ ہی گل بانو نے بھی پانی بہا کر مجھے خراج تحسین پیش کیا۔۔۔۔۔میں کافی دیر تک پانی نکالتا رہا ۔۔جھٹکے اسی طرح جاری تھے ۔۔۔اور پھر ساتھ لیٹ کر سانس برابر کرنے لگا۔۔۔۔۔۔گل بانو اسی طرح مجھ سے لپٹ گئیں اور ہم نیند کی وادیوں میں گرتے چلے گئے ۔۔۔۔۔


اگلی صبح دیر سے اٹھا ۔۔۔فریش ہو کر روم میں آیا تو گل بانو ابھی تک سو رہی تھی ۔۔۔۔میں باہر آیا تو جان شیر اور زرتاش کی ہنسی میرے کانوں میں پڑی ۔۔وہ دونوں کسی بات پر ہنس رہے تھے ۔۔مجھے آتا دیکھ کر زرتاش اٹھی ۔۔اور ناشتے کا پوچھا ۔۔میں نے چائے کا کہا اور جان شیر کے برابر جا بیٹھا ۔۔۔۔جان شیر کا مذاق اور لطیفے اب بھی جاری تھے ۔۔۔۔میری ذہن تھکن تیزی سے ختم ہونے لگی ۔۔۔۔زرتاش چائے لے آئی ۔۔میں نے چائے پی کر زرتاش اور جان شیر کو بتایا کہ ایک دوست کی طرف جانا ہے ۔۔میں دوپہر تک آ جاؤں گا ۔۔وہ کچھ فکر مند سے ہو گئے ۔۔مگر میں نے مطمئن کرتے ہوئے کہا آپ لوگ فکر نہ کریں میں دوپہر میں لازمی پہنچ جاؤں گا۔۔۔۔
باہر آ کر کار میں بیٹھا اور ثریا خانم کی طرف چل پڑا ۔۔۔۔اس کے گھر کے سامنے گاڑی روکی تو دروازہ کھلتا چلا گیا ۔۔۔۔میں گاڑی اندر لے گیا ۔۔ثریا خانم بے چینی سے میرے انتظار میں تھی ۔۔۔۔میں چاروں طرف نظر دوڑاتے ہو ئے اندر بڑھ گیا۔۔۔۔۔ڈرائنگ روم میں بیٹھتے ہوئے ثریا خانم میرے سامنے بیٹھی تھی ۔۔۔۔رات والی ڈری سہمی ثریا نہیں ۔۔بلکہ پراعتماد ، پر غرور اور خود کو محنت سے تیار کی ہوئی ثریا خانم تھی ۔۔میں کچھ دیر ایسے ہی اسے دیکھتا رہا۔۔۔۔۔پھر ثریا بولی ۔۔راجہ تمہاری رات والی ہمت اور بہادری نے مجھے بہت متاثر کیا ہے ۔۔۔۔۔۔میں اب تک یہاں اکیلی ہی تھی ۔۔اور تم جیسے ہی کسی دوست اور پارٹنر کی ضرورت تھی ۔۔۔۔اگر ہوسکے تو کچھ وقت میرے ساتھ رہو ۔۔اگر تمہارا دل مطمئن ہو جائے تو ٹھیک ۔۔ورنہ جب چاہو چھوڑ کر چلے جانا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ثریا کا لہجہ التجائیہ تھا ۔۔میں نے ہامی بھر لی ۔۔۔۔۔۔اور پوچھا کہ تم کام کیا کرتی ہو ، اور میں کس طرح تمہاری مدد کر سکتا ہوں ۔۔۔۔۔
راجہ۔ ایک تو کنسٹرکشن کا کام ہے ۔۔ہم مختلف ممالک میں سول انجینئر اور دوسرے اسٹاف کو بھیجتے ہیں ۔۔۔۔۔اور ان پر ہمارا کمیشن بنتا ہے ۔۔۔۔مگر آجکل ایک مسئلہ ہوا ہے ۔۔ہم نے کچھ مہینے پہلے سول انجینئرز افغانستان میں بھیجے تھے ۔۔۔مگر وہاں ان پر کچھ حملے ہوئے اور اب وہ کام روک کر واپس آنے پر زور دے رہے ہیں ۔۔۔۔کنسٹریکشن سائٹ تقریبا مکمل ہی ہے ۔۔۔مگر انجینئرز کی وجہ سے مزدور وغیرہ بھی کام کرنے سے انکار کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔
ان کی سیکورٹی کے لئے میں کچھ بندے ہائر کر افغانستان بھیجنا چاہ رہی تھی ۔۔۔رات کو جن لوگوں نے مجھ پر حملہ کیا تھا ۔۔میں اسی کام کے لئے ان کے پاس گئی تھی ۔۔مگر وہ مجھے اکیلا جان کر شیر ہوگئے ۔۔۔میں بڑی مشکل سے جان چھڑا کر وہا ں سے نکلی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر میری تم سے ملاقات ہو گئی ۔۔۔۔تم ہی کوئی مشورہ د و۔۔۔۔۔ثریا نے ایک سانس میں پوری کہانی سنا دی تھی ۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے اس کا میں کچھ سوچتا ہوں ۔۔۔کہ کیا جا سکتا ہے ۔۔۔۔۔میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔۔۔۔
چلو آؤ تمہیں یہ عمارت دکھا دوں ۔۔۔۔ثریا مجھے لے کر عمارت کے اندرونی حصے کی طرف بڑھ گئی ۔۔۔ایک کھلے ہال کی چاروں طرف کمرے سے تھے ۔۔۔۔اور مختلف حصوں سےآوازیں اور باتوں کی آواز آ رہی تھی ۔۔رات کو یہ جگہ بہت خاموش سی لگی تھی ۔۔ایک کمرے میں ثریا مجھے لئے پہنچی تو اندر کافی لڑکے گیارہ ، سال سے لیکر 15 سال کی عمر کے بیٹھے ہوئے تھے ۔۔۔مجھے کچھ عجیب سا احساس ہوا یہ سب ذہنی معذور تھے ۔۔۔کچھ کی رالیں ٹپک رہی تھیں اور کچھ اپنے گردوپیش سے بے خبر اپنی دنیا میں تھے ۔۔۔۔۔۔ثریا نے مجھے بتایا کہ یہ بھی اس کا ایک خواب ہے ۔۔وہ ان ذہنی معذور کو ملک کے مختلف حصوں سے اکھٹا کرکے ان کی پرورش کرتی تھی ۔۔۔میں نے ان کے کام کرتی ہوئی کچھ عورتوں کو دیکھا جو مقامی ہی تھی ۔۔۔اس کے بعد وہ مجھے لئے عمارت کے ایک اور حصے کی طرف بڑھ گئی جہاں میں نے 13 سے 16 سال کے لڑکوں کو دیکھا ۔۔۔۔۔ایک بڑے سے ہال میں ایک طرف ان کے بستر لگے ہوئے تھے ۔۔۔جبکہ دوسری طرف بلیک بورڈ اور کتابوں کے شیلف لگے ہوئے تھے ۔۔۔جہاں ان کی تعلیم و تربیت کا انتظا م تھا ۔۔۔بچے حیرت سے مجھے دیکھ رہے تھے ۔۔جبکہ ثریا کو دیکھتے ہوئے ان کے چہرے پر خوف کےتاثرات تھے ۔۔شاید وہ اس سے ڈرتے تھے ۔۔یہاں میں نے استاد مقامی اور غیر مقامی دونوں دیکھے تھے ۔۔۔۔
ہم یہاں سے پھر باہر کی طرف نکلے ۔۔۔مجھے کچھ چیز بہت بے چین کر رہی تھی ۔۔ایسا لگ رہا تھا کہ کچھ نگاہیں مجھے مستقل گھور رہی تھیں ۔۔۔۔۔۔۔ہم باہر ہال میں نکلے تو میں نے اوپر کی طرف دیکھا ۔۔اوپر ی منزل پر مجھے لگا کہ کوئی اچانک سائیڈ پر ہوا ہے ۔۔۔۔ثریا مجھے لئے ایک اور حصے پر گئی جہاں کچھ اور لوگ تھے ۔۔یہ عمر میں بیس سے 25 سال کے تھے ۔۔اور ان کی تعداد بھی 30 کے قریب تھی ۔۔۔۔۔
راجہ یہ لڑکے میں نے سیکورٹی کے لئے اکھٹے کئے تھے ۔ہمیں ایک مکمل سیکورٹی ایجنسی بنانے کی ضرورت تھی ۔۔۔۔۔۔ان میں سے کچھ یتیم ہیں اور کچھ کے والدین مختلف خود کش دھماکوں میں مارے گئے تھے ۔۔۔اس لئے ان کا بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔۔یہاں ان کو روزگار اور کھانے پینا سب اچھے سے ملتا ہے ۔۔
اس کے بعد ثریا مجھے لئے ہوئے واپس آئی ۔۔۔میں نے اسے سراہتے ہوئے اس کی تعریف کی اور کہا کہ میں ذہنی طور پر کافی متاثر ہوا ہوں۔۔۔۔تم کافی خدمت خلق کا کام کر رہی ہو ۔۔۔۔اب میرا بھی فرض بنتا ہے کہ تمہاری مدد کی جائے ۔۔۔۔ثریا نے میرے لئے چائے منگوائی اور ٹٹولتی ہوئی نظروں سے میرا جائز ہ لینےلگی ۔۔۔۔
میں بڑے ہی اطمینان سے چائے پیتا ہوا بولا ۔۔تو ابھی تمہیں کچھ ایسا انسٹرکٹر چاہیے جو ان لڑکوں کو جلد از جلد تربیت دے ۔۔۔۔تاکہ تم آئند ہ اپنے انجینئرز اور اسٹاف کو تحفظ فراہم کر سکو۔۔۔۔۔
ہاں ، تمہاری تو سیکورٹی ایجنسی بھی ہے ۔۔تمہارے پاس کوئی ایسا انسٹرکٹر ہو جو ہفتوں میں انہیں ٹرین کرسکے ۔۔۔۔۔میں نے بتایا کہ ہاں انسٹرکٹر تو ہے ، مگر وہ غیرملکی ہیں اور بہت زیادہ پیسے لے کر کام کرتے ہیں ، اس کے علاوہ مجھے اپنے باس سے بھی بات کرنی ہوگی ۔۔۔۔
ثریا بولی جو بھی ان کا معاوضہ ہو گا ۔۔میں دینے کو تیار ہوں ۔ بس تم اپنے باس سے بات کر لو۔۔۔۔میں نے موبائل نکالتے ہوئے عمران صاحب کا فون ملا دیا ۔۔
جلد ہی عمران کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی تھی ۔۔۔۔۔باس یہاں ایک دوست کو انسٹرکٹر کی ضرورت ہے ، دوست بہت قریبی ہے اور بہت قابل بندہ چاہئے ۔۔۔۔معاوضہ حسب فرمائش دیا جائے گا۔۔۔عمران صاحب نے جواب دیا کہ اگر زیادہ جلدی ہے تو دو بندے بھجوا دیتا ہوں ۔۔کام جلدی نبٹ جائے گا ۔۔۔میں نے ثریا سے پوچھا کہ دو بندے چلیں گے ۔۔۔۔۔ اس نے بھی ہامی بھر لی ۔۔۔عمران نے مجھے کہا کہ کل صبح تک بندے پہنچ جائیں گے ۔۔۔
ثریا ایک دم سے خوش ہو گئی تھی ۔۔اور میرے آگے بچھی بچھی جا رہی تھی ۔۔۔۔راجہ تمہارے آتے ہی میری قسمت چمک گئی ہے ۔۔ اب تم بتاؤ کہ تمہار ا کیا ارادہ ہے ، تم میرے ساتھ کام کرنے کو تیار ہوں ۔۔۔۔
خادم آپ کا ہر حکم بجالانے کو تیارہے ۔میں نے جواب دیا۔۔ثریا میرے صوفے پر آ کربیٹھی ۔میرے بازو پر اپنا وزن منتقل کرتے ہوئے ۔اور قریب ہوتے ہوئے کہنے لگی ۔۔کل رات میری کمپنی کے انجینئرز کی میٹنگ ہے ۔ کچھ غیرملکی انجینئرز بھی آ رہے ہیں ۔ ۔۔میں چاہتی ہوں کہ تم ایک رات کے لئےوہاں کی سیکورٹی کے لئے انچارج سمبھالو ۔ہمیں دشمنوں کی طرف سے بہت خطرہ ہے ۔۔اور ڈر ہے کہ وہ ضرور حملہ کریں گے ۔۔بس یہ سمجھو کو یہ میری دلی خواہش ہے ۔۔میں سب سے زیادہ تم پر بھروسہ کر سکتی ہوں ۔۔۔۔ثریا کی آوا ز میں لوچ اور چہرے پر انداز دلبرانہ ہو چکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔میں کچھ دیر اس کے چہرے کو دیکھتا رہا اور پھر سر ہلا دیا ۔۔وہ ایک دم خوش سی ہو گئی اور کہنے لگی کہ آج شام ہم یہاں سے نکلیں گے ۔۔تم چاہو تو کپڑے لے لو ۔۔ہم کل تک واپس آئیں گے ۔۔اور اگر تمہیں وہ جگہ پسند آ جائے تو تم کچھ ٹائم وہاںمیری جگہ سمبھال لینا ۔۔۔میں نے کہاکہ ٹھیک ہے ابھی میں چلتا ہوں ۔۔۔شام تک آ جاؤں گا۔۔۔۔ثریا بھی اٹھ کھڑی ہوئی اور مجھے گیٹ تک رخصت کرنے آئی ۔۔۔۔
میں نے کار نکالی اور گل بانو کی طرف پہنچا ۔۔ ۔۔دروازے پر دستک دی ۔۔۔اور پھر اندر جا پہنچا ۔۔گل بانو جاگ چکی تھی ۔اور باہر ڈرائنگ روم میں بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔۔گل بانو نہا دھو کر تیار ہو کر ترو تازہ لگ رہی تھی ۔۔
مجھے دیکھ کر ایک دم سے کھل اٹھی ۔۔میں قریب پہنچا تو مجھ سے لپٹ کر ایک بوسہ دیا ۔۔۔اور کہنے لگی کہ تیار ہو جاؤ ۔۔۔کمرے میں کوئی انتظار کر رہا ہے ۔۔۔۔میں تھوڑا حیران ہوا ۔۔ایک خیال تو یہ آیا کہ ٹائیگر آچکا ہے ۔۔۔مگر وہ آتا تو پہلے مجھے فون کرتا ۔۔۔۔گل بانو نے مجھے مہمان خانے میں دھکیلا۔۔میں اندر پہنچا تو زرتاش کمرے میں سرخ جوڑے میں آنکھیں بند کئے ہوئے لیٹی ہوئی تھی ۔۔۔۔سینے کا مدھم زیرو بم اس کے اونچے ابھاروں کو اور بھی اٹھا دیتا۔۔۔۔بے تحاشہ اونچائی سے کھڑے ہوئے یہ ابھار قمیض میں بری طریقے سے پھنسے ہوئے تھے ۔۔۔میں بتا چکا تھا کہ زرتاش گل بانو سے بھی کچھ صحت مند تھی ۔۔۔اور اس کے جسم کی خاص بات اس کے گول گول سرخ سیبوں جیسے گال۔ جس پر چھوٹے چھوٹے سرخ دانے اس کے حسن کو چار چاند لگا دیتے ۔۔۔۔گولڈن کلر کے لمبے بال ۔۔۔۔سینےپر بھاری بھرکم ممے جو گل بانو سے بھی ڈیڑھ گنا بڑے تھے ۔۔۔۔اور بڑے سے چوتڑجو پوری گولائیوں میں پھیلے ہوئے تھے ۔۔۔۔زرتاش کی بند آنکھیں آہستگی سے لرز رہی تھی ۔۔اور سینہ سانس لیتے ہوئے دھمک بجا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔میں نے لائٹ بند کی اور نائٹ بلب جلاتے ہوئے بیڈ پر چلا آیا ۔۔۔میری ساری تھکن اتر چکی تھی ۔۔۔۔بیڈ پر آتے ہوئے میں شرٹ اتار کر پھینک چکا تھا۔۔۔۔زرتاش کو دور سے دیکھتے ہی میرے بدن میں اک آگ سی جل اٹھی تھی ۔۔۔۔اور بے اختیار اپنے ہوش کھوتا چلا جا رہا تھا ۔۔۔زرتاش مجھ سے بھی زیادہ گرم تھی ۔۔جب سے جان شیر کے ساتھ اس کو دیکھا تھا ۔۔میرےاپنے اوسان خطا تھے ۔۔۔۔۔۔اور زرتاش کو اپنے بیڈ پر دیکھتے ہوئے میں کھنچا چلا جا رہا تھا ۔۔اس کے قریب جاتے ہی میں نے اس کی پیشانی پر بوسہ دیا ۔۔۔جو کہ گرمی سے تپی ہوئی تھی ۔۔سرخ سرخ ہونٹ مجھے اپنی طرف کھینچ رہے تھے ۔۔۔۔۔میں نے بھی ان کی بات سنی اور ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دئے ۔۔زرتاش تھوڑی سی ہلی تھی ۔۔۔۔اس کے سانس کا زیرو بم ایک دم اٹھا تھا ۔۔۔۔اس کی پلکیں لرزیں اور اس نے آنکھیں کھول دی ۔۔۔ہر ے رنگ کی یہ آنکھیں ۔۔۔جن میں اس وقت مستی نا چ رہی تھی ۔۔۔مجھے پگھلائے جا رہی تھی ۔۔۔پھر میں اختیار اس کے چہرے پر ٹوٹ پڑا ۔۔۔میں نے اس کے پورے چہرے کو چوم چام کر گیلا کر دیا ۔۔۔۔زرتاش کی آنکھیں کھل گئیں تھیں ۔۔۔ہونٹوں کو چومتے ہوئے وہ بھی میرا ساتھ دینے لگی ۔۔۔کیا چاشنی تھی اس کے ہونٹوں میں ۔۔۔۔ساتھ ہی ایک ہاتھ میں نے اس کے سینے پر رکھا جو کہ سختی سے تنا ہوا تھا۔۔۔۔اس کے بعد مجھے کچھ ہوش نہیں تھا ۔۔میں نے اس کی قمیض کیسے اتاری ۔۔۔۔کیسے شلوار اتاری ۔مجھے یاد نہیں ۔۔۔۔۔بس کچھ سیکنڈ بعد وہ لباس فطر ت میں میرے سامنے تھی ۔۔۔گورا بدن میرے سامنے چمک رہا تھا ۔۔۔۔بڑے سے ممے اپنی پوری اٹھان کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے ۔۔۔۔موٹی موٹی رانوں کے درمیان صاف ستھری سی سیب کی قاش رکھی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔میں نے دونوں ہاتھ اس کے ممو ں پر رکھے ہوئے اپنا چہرہ اس کی ٹانگوں کے درمیان لے گیا ۔۔۔۔۔چوت کو اوپر سے چومتےہوئے میں نے بوسہ دیا ۔۔۔اور ساتھ دونوں ہونٹوںمیں چوت کے لبوں کو دبوچنے کی کوشش کی ۔۔۔۔زرتاش کی ایک سریلی سی سسکی نکلی تھی ۔۔۔۔۔بےاختیار وہ اوپر کو اٹھی تھی ۔۔۔کچھ دیر تک میں ایسےہی چومتا رہا پھر ایک انگلی اندر داخل کر دی ۔۔۔اس کی چوت بہت ہی تنگ تھی ۔۔گل بانو سےبھی زیادہ ۔۔۔۔۔اور پھولی ہوئی بھی اس سے زیادہ ۔۔۔۔۔میری انگلی کےاندر جاتے ہی اس کی سسکی سی نکلی تھی ۔۔۔۔ایک ہاتھ نیچے مصروف کرتے ہوئے میں چہر ہ اوپر لے گیا ۔۔جہاں زرتاش کے بڑے سے خربوزے میر ے منتظر تھے ۔۔۔۔میں نے انہیں چومنا اور چاٹنا شروع کر دیا ۔۔۔۔نپلز بار بار میرے منہ سے نکلے جاتے اور میں انہیں اپنے منہ کے نیچے دبا کرقابو کرنے کی کوشش کرتا ۔۔۔۔۔۔زرتاش کی آنکھیں لال ہونا شروع ہو گئیں تھی ۔۔۔۔اور منہ سے سسکیاں ایسے ہی بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔۔کچھ دیر اور ہوئی ہو گی کہ ایک تیز سسکی کے بعد اس نے پانی چھوڑ دیا ۔۔۔۔
میں ویسے ہی بیڈ پر لیٹ گیا ۔۔زرتاش تھوڑی سی میری سائڈ پر کروٹ لے چکی تھی ۔۔۔اپنی نرم نرم ریشمی ٹانگ میرے اوپر رکھی تھی ۔۔۔۔اور چہرہ میرے چہرے کے اوپر تھا ۔۔ایک مخصوص گرم مہک مجھ سے ٹکرائی تھی ۔۔۔۔زرتاش اپنی ایک ٹانگ کو میری پینٹ کے اوپر گردش دے رہی تھی ۔۔۔اور اوپر سے چہرے کو چوم رہی تھی ۔۔اس کے ایک مما میرے سینے سے لگا ہوا تھا ۔۔۔۔۔میں اپنا ایک ہاتھ اس کی بیک پر لے گیا ۔۔اور بیک پر ہاتھ پھیرنے لگا ۔۔۔نیچے سے میرا ہتھیار اپنی اکڑ میں آتا جارہا تھا ۔۔۔میں نے آہستگی سے پینٹ نیچے سرکانے لگا ۔۔۔ایک ہاتھ تھا ۔۔کچھ دیر لگی ۔۔۔۔اور پھر ہتھیار اچھلتا ہوا زرتاش کی ران سے ٹکرا یا تھا ۔۔وہ ایکدم ہلی تھی ۔۔۔۔میں نے باقی پینٹ کو بھی پیروں سے کھینچ کر پھینک دیا ۔۔ہتھیار اپنی پوری سختی سے تنا ہوا تھا ۔۔۔۔زرتاش نے نیچے ہاتھ لے جا کراسے تھامنا چاہا تھا ۔۔۔اور پھر وہ ایک دم پیچھے ہٹی تھی ۔۔۔اور نیچے کو جھکی ۔۔۔۔ہتھیار کو تھامنے کی کوشش کی مگر وہ اس کی مٹھی میں آنے سے قاصر تھا ۔۔۔دوسر ا ہاتھ لگا کر وہ اسے قابو کر پائی تھی ۔۔۔۔اور دونوں مٹھیاں ایکدوسرے کے اوپر رکھ کربھی آدھے سے زیادہ ہتھیار باہر ہی تھا ۔۔۔زرتاش نے پیچھے مڑ کر مجھے دیکھا ۔۔اس کی نگاہوں میں حیرت اور خوف کےآثار تھے ۔۔۔ابھی تک اس نے صرف جان شیر کا ہی دیکھا اور لیا تھا ۔۔۔۔۔وہ دونوں ہاتھوں کو باری باری ہتھیار پر پھیرنے لگی ۔۔۔ہتھیار بھی اور مستی میں آئے جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔زرتاش تھوڑی سی نیچے کو ہوئی اور اپنے منہ کو ہتھیار کی سیدھ میں لا کر منہ میں لینے لگی ۔۔۔۔ٹوپے کی نوک ہی جا سکی تھی ۔۔۔۔اور زرتاش اسے ہی چوسنے لگی ۔۔ایک لذت بھری لہر میرے جسم میں دوڑ رہی تھی ۔۔۔۔۔زرتاش بار بار اسے اور اندر لینے کی کوشش کرتی اور اپنے دانت میرے ہتھیار پر گاڑتی ۔۔۔۔۔میں اسے دیکھ ہی رہاتھا ۔۔دونوں ہاتھوں میں ہتھیار تھامے ہوئے درمیاں میں اس کے بڑے سے ممے جھول رہے تھے ۔۔۔۔۔گوشت سے پْر یہ کسی پانی سے بھرے ہوئے غبارے کی طرح لہرا رہے تھے ۔۔۔زرتاش کچھ دیر تک ہتھیار کو چوستی رہی ۔۔ساتھ ہی تھوک نکا ل کرٹوپے پر گراتی جا رہی تھی جو بہتا ہو نیچے تک آتا ۔۔اورزرتاش اسے پورے ہتھیار پر مل کر گیلا کرنے لگتی ۔۔۔اس کی آنکھوں کی چمک بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔۔ساتھ ہی جسم کی بے چینی اورحرکت بھی ۔۔۔۔۔دونوں ہاتھ ہتھیار پر ہونے کے باجود جسم کے مختلف اعضاء ہل ہل کر اپنی بےچینی مجھے بتا رہے تھے ۔۔۔۔جبکہ میری اپنی حالت بھی ایسی ہی تھی ۔۔۔۔زرتاش کے جسم کی نکلتی گرمی مجھے میں شامل ہونے کا بعد اب آتش فشاں کا روپ دھار چکی تھی ۔۔۔۔اور میں اسے کنٹرول کرنے کی کوشش میں ناکام ہوئے جار ہا تھا ۔۔۔تبھی میں نے زرتاش کا ہاتھ پکڑکر اسے خود پر کھینچا تھا ۔۔۔۔۔۔وہ لہراتی ہوئی مجھ پر آئی تھی ۔۔۔ہونٹوں سے ہونٹ ٹکرائے ۔۔۔۔بھاری گول ممے میرے سینے پر دب کر زرتاش کو مجھ دور کرنے کی کوشش میں تھے ۔۔۔۔مگر وہ پورے زور سے مجھ تک پہنچ ہی گئی ۔۔۔۔۔میں نے اس کی ٹانگیں بھی اپنی ٹانگوں میں دبوچ لیا ۔۔۔۔۔۔نیچے کہیں ہتھیار ہمارے درمیاں لیٹا اپنی جگہ بنانے میں مصروف تھا ۔۔۔۔میں نے اسی طر ح زرتاش کی ٹانگوں کو جکڑے کروٹ لی تھی ۔۔۔۔۔زرتاش نیچے آئی تھی ۔۔اور میرے پورے جسم کا وزن اس کے اوپر تھا ۔۔۔میں نے اس کی ٹانگیں چھوڑی اور سائیڈ پر ٹیک لگا کر اپنا وزن سمبھال لیا ۔۔۔۔۔زرتاش کے بازو اٌسی طرح میری گردن کے گرد لپٹے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔میں نے اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے جکڑ لیاتھا۔۔۔ایک ہاتھ نیچے لے کر گیا اور ٹوپے کو زرتاش کی چوت پر ٹکا دیا ۔۔۔۔۔۔بھری بھری رانوں کے درمیان یہ چھوٹی سی سیپی اس وقت گیلی اور پانی سے بھری ہوئی تھی ۔۔۔۔۔میری کمرتھوڑی سی اٹھی ہوئی تھی ۔۔ٹوپے کو اوپر رکھنے کے بعد میں واپس ہاتھ اوپر لے گیا تھا ۔۔۔میرے ہاتھ اس کے کندھے پر تھے ۔۔۔جبکہ اس کے ہاتھ میری گردن کے گر د گھیرا ڈالے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔میں نے زرتاش کے ہونٹوں کو دوبارہ سے جکڑ ا ۔۔۔۔۔۔۔۔اور نیچے کمر کو حرکت دی ۔۔۔۔ہتھیار کا موٹا ٹوپا ایک سیکنڈ کے لئے چوت کے لبوں پر رکا تھا ۔۔۔مگر پیچھے سے آنے والے پریشر سے آگے کو لپکا ۔۔اور چوت کےلبوں کو چیرتا ہوا اندر جا پھنسا ۔۔۔۔۔۔زرتاش تڑپ کراٹھی تھی ۔۔۔۔۔مجھے اچھالنے کی کوشش میں آدھا ہتھیاراور اندر اتر گیا ۔۔۔۔۔۔۔زرتاش کی آنکھیں ایک لمحے کےلئے پھیلیں اور آنسو کے قطرے نیچے کو بہے ۔۔۔۔۔۔میں اسی طرح ہونٹ جکڑے اوپر لیٹا ہوا تھا ۔۔۔۔اس کی آوازیں اندر ہی دب رہی تھی ۔۔۔۔اس نے ہاتھ کاگھیرا کھول کر اٹھانے کی کوشش کی مگر ۔۔اس کے بازو کے پیچھے میرا ہاتھ تھا ۔۔وہ گھیرا کھول بھی دیتی تو ہاتھ پیچھے نہیں آتے ۔۔۔۔۔۔میں کچھ دیر ہتھیار وہیں روک کے رکھے لیٹا تھا۔۔۔۔اور پھر کمر کو اٹھا کر ہتھیار کو باہر نکالنےلگا۔۔۔۔۔پھنسی ہوئ چوت بھی ساتھ ہی آنا چاہ رہی تھی ۔۔مگر زرتاش کے وزن نے بیچ بچاؤ کروادیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں ٹوپ تک باہر نکلا کردوبارہ سے اندر دھکیلنے لگا ۔۔۔۔پانی سے بھری ہوئی چوت نے عجیب سی آواز نکالی اور دوبارہ سے ہتھیار اندر جا پھنسا ۔۔۔زرتاش کے منہ سے اب بھی ممم ۔ممم کی آوازیں آرہی تھی ۔۔۔۔میں کچھ دیر تک ایسے ہی ہتھیار کو باہر نکالتا اور ٹوپا اندر رکھ کر دوبارہ گھسا دیتا ۔۔۔۔۔۔زرتاش کی آنکھیں اک ٹک مجھ پر ہی جمی ہوئی تھی ۔۔۔جس میں پانی کے ساتھ قدرے غصے والا پیار بھی دِکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔میں نے آہستگی سے اِن آؤٹ جاری رکھی ۔۔۔۔۔اگلے پانچ منٹ تک میں ایسے ہی ہلکے ہلتا رہا ۔۔۔۔جب زرتاش نیچے سے پھر ہلنے لگی ۔۔۔وہ تھوڑی سی اوپر کو اچھلی تھی ۔۔۔میں اشارہ سمجھ گیا تھا ۔۔میں نے جھٹکے تھوڑے اور تیز کر دئے ۔۔۔اور پھر ایک زبردست وائبریشن کے ساتھ زرتاش کا جسم ہلا اور چوت میں پانی کا سیلاب آیا ۔۔وہ کافی دیر تک جھٹکے کھا کر میرے ہتھیار کوخراج تحسین پیش کرتی رہی تھی ۔۔۔۔میں نے ہتھیار کو باہر نکالا۔۔اورزرتاش کے ہونٹوں سے ہونٹ اٹھاتا ہوا ساتھ کروٹ لے گیا ۔۔۔۔زرتاش کے منہ سے ایک آہ۔۔نکلی ۔۔۔ایک دو گہرے گہرے سانس لئے ۔۔۔دونوں ہاتھ نیچے لے جا کر چوت پر پھیرا ۔۔۔۔اور پھر مجھ پر سوار ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرے پورے چہرے پر اس کے بوسوں کی بوچھاڑ تھی ۔۔ اس کے سریلی آواز میں راجہ کی گردان تھی ۔۔۔۔میری ناک کو کاٹتی ہوئی ۔۔۔۔ میری ٹھوڑی کو چومتی ہوئی ۔۔۔۔۔اور پھر ہونٹوں کو دباتی ہوئی ۔۔۔۔۔۔میرا پورے چہر ہ اس کے نشانے پر تھے ۔۔۔اور میں اس کی کمرپر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کے چوتڑ دبائے جا رہا تھا۔۔۔۔نیچے ہتھیار اب تک دبا ہوا تھا ۔۔۔
تبھی دروازے پر دستک ہوئی تھی ۔۔۔ گل بانو نے اندر جھانکا۔۔اور اندر آنے کا پوچھا ۔۔۔میں نے ہاں کردی ۔۔۔۔اور جب وہ اندر آئی تو میں بھی حیران تھا ۔۔۔۔۔اس کے جسم پر ایک بھی کپڑا نہیں تھا ۔۔اور پیچھے کا منظر اور بھی دیکھنے والا تھا۔۔۔۔
وہ جان شیر کو گھسیٹتے ہوئے اور کھینچتے ہوئے لا رہی تھی ۔۔۔جان شیر بھی کپڑوں کے بغیر تھا ۔۔گل بانو نے زرتاش میرے حوالے کر کے جان شیر پر قبضہ جما لیا تھا ۔۔۔۔۔اور شاید یہ لوگ بھی پہلی شفٹ لگا چکے تھے ۔۔۔جان شیر بری طرح سے شرما رہاتھا ۔۔۔۔مگر گل بانو اس سے زور آور تھی ۔۔۔ اسے کھینچتی ہوئی بیڈ تک لئے آئی ۔۔۔۔۔بیڈروم میں پہلے ہی لائٹ مدھم تھی ۔۔۔۔۔پھر بھی جان شیر شرما رہا تھا ۔۔۔۔گل بانو نے جان شیر کو جھک کر اٹھایا اور بیڈ پر پھینکا دیا ۔۔۔۔کل تو اکیلے اکیلے زرتاش کے ساتھ تھے ۔۔تب شرم نہیں آرہی تھی ۔۔۔اور اب بہت آ رہی ہے ۔۔۔
جان شیر ایک دم جھینپ سا گیا۔۔۔اور چونک کر مجھے دیکھنے لگا ۔۔۔مگر میں نے زرتاش کی طرف نظر گھما دی ۔۔۔۔گل بانو بہت شوخ ہو رہی تھی ۔۔۔۔جان شیر کے قریب لیٹتے ہوئے اس پر سوار ہو گئی ۔۔۔۔اس کے ممے لہرا رہے تھے ۔۔۔۔اس نے جان شیر کا ہاتھ پکڑا ور اپنے سینے پر رکھ کر دبانے لگی ۔۔۔۔۔۔اور میں زرتاش کی طرف متوجہ ہو گیا ۔۔جو خود بھی یہ سب حیرت سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔
کچھ دیر تک زرتاش میرے اوپر سوار رہی۔۔۔اور ادھر گل بانو جان شیر کے اوپر تھی ۔۔۔۔۔۔۔گل بانو نے جان شیر لے لن کو ہوشیار کر دیا تھا ۔۔۔۔7 انچ کا یہ لن لمبائی اور موٹائی اس کی عمر سے بڑا ہی لگ رہا تھا۔۔۔گل بانو اسے اچھے طریقے سے دبا دبا کر موٹا کررہی تھی ۔۔۔۔اور پھر اس کے اوپر سے اٹھ سائیڈ پر آئی ۔۔۔۔زرتاش کو کھینچتے ہوئے جان شیر کی طرف دھکیلا ۔۔۔۔۔۔یہ لو ابھی اس کے مزے لو ۔۔۔۔۔اور میرے اوپر بیٹھنے لگی ۔۔۔میں حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔میرے سینے پر ہاتھ رکھے وہ ٹوپے پر بیٹھی تھی ۔۔۔۔سسکاری لیتے ہوئے اور مزید نیچے آنے لگی ۔۔۔۔میں نے پیر بیڈ پر جما کر گھٹنے اٹھا دیئے ۔۔۔۔۔وہ آدھے ہتھیار لئے اب رکی ہوئی تھی ۔۔۔جب میری کمر اوپر کو اچھلی تھی ۔۔۔۔اور پورا ہتھیار اندر تک پھنستا ہوا ہو گھسا تھا ۔۔۔جڑکی طرف سے ہتھیار اور زیادہ موٹا تھا ۔۔۔اور چوت میں جا کر جکڑا جا چکا تھا ۔۔۔میں جب نیچے آیا تو گل بانوبھی میرے ساتھ ہی بیٹھی چلی گئی تھی ۔۔۔۔۔۔اس کے منہ سے ایک چیخ نکلی تھی ۔۔۔۔۔جان شیر اور زرتاش نے ہمیں چونک کر دیکھا تھا ۔۔۔۔۔اور پھرمصروف ہو گئے ۔۔۔۔۔۔گل بانواپنی کمر کوپکڑے ابھی تک کراہ رہی تھی ۔۔۔۔میں نے دوبارہ سے اسے جھٹکا دیتے ہوئے ہوا میں اچھالا ۔۔۔وہ اچھلی اور دوبارہ میرے اوپر گری ۔۔۔۔اس کے بعد اگلے تین منٹ تک میں نے اسے بیٹھنے نہیں دیا ۔۔دھکے پر دھکے دیتا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ بھی اچھل اچھل کر بے حال ہوئی جا رہی تھی ۔۔۔اس کے ممے بھی بری طرح مچلے جا رہے تھے ۔۔۔۔۔۔جان شیر اور زرتاش حیرت سے ہمیں دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔اور پھر جان شیر اٹھا ۔۔۔۔زرتاش نے تھوک سے اس کا لنڈ گیلا کر دیا تھا۔۔۔۔۔وہ اٹھ کر گل بانو کے پیچھے آیا ۔۔۔اور اسے مجھے پردھکیلنےلگا۔۔۔۔اچھلتی کودتی گل بانو آگے کو ہوئی اور میرے سینے پر ٹک گئی ۔۔۔۔۔پیچھے سے جان شیر نے بہت سا تھوک اپنے لنڈ پر پھینکا اور گل بانو کے چوتڑ کھولتے ہوئے گانڈ کے سوراخ پر ٹکا کر دھکا دے دیا ۔۔۔گل بانو ایک دم تڑپی تھی ۔۔۔اور اٹھنے کی کوشش کی مگر جان شیر کے دونوں ہاتھ اس کی کمر پر زور ڈالے ہوئے تھے ۔۔۔گل بانو کی آنکھوں میں پانی آچکا تھا ۔۔۔۔۔۔۔اس کے نرم ممے میرے سینے پر دبے ہوئے تھے ۔۔۔۔اور پیچھے سے جان شیر اس کی گانڈ بجائی جا رہا تھا ۔۔۔زرتاش پیچھے سے آ کر جان شیر سے لپٹ گئی ۔۔۔جان شیر اور زیادہ تیز ہو گیا ۔۔۔گل بانو گیلی آنکھوں کے ساتھ مجھے دیکھی جا رہی تھی ۔۔۔۔آگے سے میرا ہتھیار جڑ تک اندر پھنسا ہوا تھا ۔۔۔اور پیچھے سے جان شیر ٹھوک رہا تھا۔۔۔۔ کچھ دیر بعد گل بانو کا درد کم ہوا تو میں نے بھی نیچے سے حرکت شروع کر دی ۔۔۔۔۔اور گل بانو کی کراہوں نے بھی اسپیڈ پکڑ لی ۔۔۔زرتاش اس کے قریب آئی تھی ۔۔اور اس کے بالوںکو اکھٹا کر پیچھے کمر پر ڈال دیا ۔۔۔۔۔گل بانو نے میرے سینے پرہاتھ رکھتی ہوئی اٹھنے لگی ۔۔۔۔نیچے سے اس کے ممے مچلے جا رہے تھے ۔۔دونوں طرف کے جھٹکے تیز تھے ۔۔۔۔جس کا اثر مموں پر بھی اسی انداز میں پڑ رہا تھا ۔۔۔۔جو اسے اچھالے جا رہا تھا ۔۔۔نیچے سے زرتاش بھی اس کے مموں کو دبوچے ہوئے نپلز کو مسلے جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔جان شیر شاید فارغ ہونے والا تھا ۔۔۔۔۔اس نے اسپیڈ بڑھا دی تھی ۔۔۔۔۔۔اور پھر گل بانو اور جان شیر ایک ساتھ ہی فارغ ہوئے ۔۔۔۔۔
جان شیر نے گل بانو کو مجھ پر سے سہارا دےکر اٹھایا اور ساتھ بیڈ پر لیٹ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔دونوں بری طرح سے آپس میں لپٹ ہوئے تھے ۔۔۔۔زرتاش پھر سے میرے پاس آنے لگی ۔۔۔میں نے اٹھتے ہوئے اس اپنی جگہ پر لٹا یا ۔۔۔اور ساتھ ہی دونوں ٹانگیں اٹھا کر اس کے سینے سے لگا دی ۔۔۔۔موٹی موٹی رانوں کے درمیان چوت کا سوراخ بہت ہی چھوٹا لگا رہا تھا۔۔۔۔۔اور پھر میرا ہتھیار کا ٹوپا اس پر جا رْکا۔۔۔۔ٹوپا اندر دھکیلتے ہوئے ہوئے میں آگے بڑھا تھا ۔۔۔۔۔زرتاش کے منہ سے ایک بلند اوئی نکلی تھی ۔۔۔۔۔اندر جا کر رکا ۔۔۔اور پھر مزید اور اند ر دھکا دے دیا ۔۔۔۔۔زرتاش کا منہ ایک دم سے کھلا تھا ۔۔۔آنکھیں بند ہوئی تھیں ۔۔۔منہ سے ایک اور اوئی ۔۔۔آہ ہ ۔۔۔نکلی۔۔وہ پورا ہتھیار اپنے اندر لے چکی تھی ۔۔میں کچھ دیر تک رکا رہا ۔۔۔اور پھر ہلکے سے دھکے دھکے دینا شروع کر دیا ۔۔۔۔زرتاش کے منہ سے بے اختیار سسکیاں نکل رہی تھی ۔۔۔۔ممے بار بار اوپر کو اچھلے جا رہے تھے ۔۔۔۔۔ٹانگیں اٹھ کر میرے کندھے پر ٹک گئیں تھی ۔۔۔۔۔۔میں نے ہلکے ہلکے دھکے مارتا ہوا کچھ تیز ہو ا۔۔۔۔۔زرتاش کی آواز بھی ساتھ ہی اونچی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔میں نے اس کے بازو پکڑ کر کھینچے اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا ۔۔۔۔۔وہ اپنی بانہوں کا گھیرا بنا کر مجھے سے لپٹی تھی ۔۔۔۔۔۔ساتھ ہی میں اٹھ کر بیڈ سے نیچے اتر گیا۔۔۔۔ساتھ پڑی ایک الماری کے ساتھ اس کی ٹیک لگا کر ایک ٹانگ چھوڑی دی ۔۔۔۔اب وہ ایک ٹانگ پر کھڑی تھی ۔۔۔اور دوسری ٹانگ میرے ہاتھ میں اٹھی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔میں نے دوسرے ہاتھ سے اس کے چہرے کو تھامتے ہوئے دوبارہ سے اسپیڈ پکڑ لی ۔۔۔گل بانو نے مجھے اٹھتے ہوئے حیرت سے دیکھا تھا اور پھر اپنے کام میں مصروف ہو گئی ۔جان شیر اور وہ اگلے راؤنڈ کی تیار ی کر رہے تھے ۔۔۔۔۔
میں نے زرتاش کو ایسے ہی کھڑےکھڑے تیز اور پوری شدت کے جھٹکے مارے ۔۔اور پھر دوبارہ بیڈ پر لا کر گھوڑی بنا دیا ۔۔۔۔۔ادھر جان شیر بھی اٹھ کر گل بانو کو گھوڑی بنا کر اس کے پیچھے آیا تھا ۔۔۔دونوں ساتھ ساتھ ہی تھی ۔۔۔اور بلاشبہ زرتاش گل بانو سے بہت زیادہ خوبصور ت تھی ۔۔۔پتلی کمرکےساتھ ہی پوری گولائی میں بڑی سی گانڈ تھی ۔۔۔جبکہ ممے بھی گل بانو سے زیادہ فربہ تھے ۔۔۔۔۔۔۔
جان شیر اور میں نے ایک ساتھ سواری شروع کی تھی ۔۔۔۔۔اور شاید گل بانو اور زرتاش بھی اسے انجوائے کر رہی تھی ۔۔۔۔تبھی دونوں کے منہ سے سریلی آہیں اور سسکیاں نکلیں تھی ۔۔۔۔۔۔ دو تین منٹ کے ہم دونوں ہی اسپیڈ پکڑ چکے تھے ۔۔۔۔جان شیر گل بانو کی پشت پروزن ڈالے دھکے دئے جا رہا تھا ۔۔۔جبکہ میں اس کے پیچھے کھڑے ہو کر دھکے دے رہا ۔۔۔۔زرتاش اور گل بانو کی سسکیاں پورے کمرے میں گونج رہی تھی ۔۔۔۔۔میں نے زرتاش کے گولڈ ن بال پیچھے کو کھینچ کر ایک ہاتھ میں پکڑ لیا تھا ۔۔۔نیچے سے دونوں کے ممے بھی ہلنے کا مقابلہ پیش کررہے تھے ۔۔۔۔۔زرتاش کی سریلی آواز مجھے اور زیادہ جوش میں لا رہی تھی ۔۔۔۔جان شیر کے جھٹکے تیز تر ہوتے گئے تھے ۔۔۔گل بانو بار بار آگے کو گرتی اور پشتو میں اسے کچھ کہتی ۔۔۔۔میں نے بھی زرتاش کی رانوں کے اندر ہاتھ ڈال کر تھام لیں ۔۔۔۔ساتھ ہی میرے جھٹکے بھی تیز ہوئے ۔۔۔۔۔جان شیر دوبارہ سے فارغ ہو رہا تھا ۔۔۔اور شاید گل بانو بھی ۔۔۔اس نے چیختے ہوئے اسے اور ہلہ شیر ی دی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔اب راجہ کی باری تھی ۔۔۔۔میرا پہلا طوفانی جھٹکا زرتاش کو بیڈ پر الٹا گرا چکاتھا۔۔۔۔ساتھ ہی میں بھی اوپر کوآتا ہوا اس کےپیچھے آیا تھا ۔۔۔۔اورنرم نرم چوتڑ پر ہاتھ رکھے بیٹھتا چلا گیا ۔۔۔۔۔دونوں پیر اس کے دائیں بائیں جمائے میرا ہر جھٹکا طوفانی ہوئے چلا تھا ۔۔۔۔۔۔جا ن شیر نے بھی مجھے دیکھ کر اور اسپیڈ پکڑی تھی ۔۔۔گل بانو بھی کراہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔اور پھر میرے منہ سے پہلی غراہٹ نکلی تھی ۔۔۔۔۔زرتاش کا پورا جسم کانپا تھا ۔۔۔۔ اس کی چوت سے پانی کا ایک قطرہ نکل کر پھسلا تھا۔۔۔۔۔ادھر جان شیر نے حیرت سے میری غراہٹ کو دیکھا اور پانی چھوڑنے لگا ۔۔۔۔گل بانو بھی ساتھ ہی فارغ ہو رہی تھی ۔۔۔۔
ادھر زرتاش کی چیخیں بلند ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔اس کے پانی نکلنے لگا تھا ۔۔۔۔مگر نکلنےکا راستہ بند تھا ۔۔وہاں میرا گھوڑا پوری اسپیڈ سے بھاگے جا رہاتھا ۔۔۔۔اور پھر میری دو تین اور غراہٹ نکلی ۔۔۔اور پھر میرے ہتھیار سے بھی پانی کا فوارا نکلا ۔۔۔۔زرتاش ایکدم سے پھر اچھلی تھی ۔۔۔۔۔۔اور پھر کئی منٹ تک میں پانی چھوڑتا رہا۔۔۔۔۔۔۔زرتاش پیچھے مڑ کر شکر ادا کررہی تھی ۔۔۔۔اور پھر میں نے ہتھیار نکال کر ساتھ لیٹ گیا ۔۔۔۔اب سب ہی سکون میں تھے ۔۔جوش سرد ہو چکا تھا ۔۔۔۔۔کچھ دیر میں ہم چاروں ایسے ہی سوچکے تھے ۔۔۔۔۔۔۔


دو گھنٹے کی نیند کر کے میں اٹھا تو شام کے چھ بج چکے تھے ۔ بیڈ پر میں اکیلا تھا ۔۔۔۔۔۔باقی سب اٹھ کر جا چکے تھے ۔۔۔۔
۔۔ثریا کی مس کالز آئی ہوئی تھیں ۔۔میں نے گل بانو کو کہا کہ وہ یہیں رہے یا اپنے ماموں کے گھر چلی جائے ۔۔مجھے دو دن کا کچھ کام ہے ۔۔میں واپس آ کر اسے کال کروں گا ۔۔۔۔گل بانو اداس سی تھی ۔۔مگر میرا کام بھی ضروری تھا ۔۔میں نے اپنا بیگ سمبھالا ۔۔۔بھاری چیزیں میں نے وہیں نکال دیں ۔۔۔۔کچھ جاسوسی کے آلات اور ، خصوصی فون اور اپنا پسٹل لے کر میں نے بیگ بند کیا اور ۔۔باہر نکل آیا ۔۔۔۔جان شیر ، زرتاش بھی باہر کھڑے تھے ۔۔۔۔۔انہیں پتا چل گیا تھا کہ میں جا رہا ہوں ۔۔۔۔۔سب کچھ افسردہ تھے ۔۔۔جان شیر میرے ساتھ جانے پر بضد تھا ۔۔مگر میں نے اسے روکا ۔۔۔۔۔دو ہی دونوں میں ہم اچھے دوست بن گئے ۔۔میں نے انہیں بتایا کہ میں واپس پہنچ کر انہیں کال کروں گا ۔۔پھر یہ تینوں میرے گھر آئیں گے ۔۔۔اور ہم مل کر ایک ہفتے ساتھ گزاریں گے ۔۔اور میں انہیں اپنے شہر کی سیر کرواؤں گا ۔۔۔۔دروازے سے نکلا تو گل بانو قریب آ کر لپٹ گئی ۔۔۔اس کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں اسے تسلی دیتا ہوا کار میں بیٹھا اور بیک کرتا گیا ۔۔۔۔۔۔زرتاش اور جان شیر دروازے پر کھڑے ہاتھ ہلا رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔میں تیز رفتاری سے کار چلاتا ہوا ثریا کی طرف پہنچا تھا۔۔
وہ میرے انتظار میں تھی ۔۔اس کا حلیہ بھی تبدیل ہو چکا تھا ۔۔۔۔۔۔فیشن ایبل کپڑوں کے بجائے اب وہ روایتی لباس میں ملبوس تھی ۔۔۔۔ایک بڑی سی چادر اس کے برابر میں رکھی ہوئی تھی ۔۔۔۔میرے لئے بھی ایک لباس تیار تھا ۔۔ملیشا رنگ کی قمیض اور ہم رنگ گھیر دار شلوار ۔۔اور اوپر مخصوص پگڑی باندھے میں کچھ دیر میں تیار ہو چکاتھا ۔۔۔ثریا کےساتھ بھی ایک بڑا بیگ تیار تھا ۔۔۔۔۔ثریا نے اپنے اسسٹنٹ کو بلا کر اسے سب کام سمجھا دیا تھا ۔۔۔ہم نکلنے کے لئے تیار تھے ۔۔۔ثریا نے اب تک مجھے جگہ نہیں بتائی تھی ۔۔۔مگر میں اندازہ لگا چکا تھا ۔۔۔۔میں کار کی طرف بڑھا تو ثریا نے مجھے منع کیا ۔۔۔۔اور ایک اور گاڑی کی طرف اشارہ کیا کہ ہم اس پر جائیں گے ۔۔۔۔جنرل موٹرز کی یہ ہمر ایچ 3 گاڑی کافی بھاری بھرکم اور اٹھی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔میں نے ڈرائیونگ سیٹ کا دروازہ کھولا ۔۔اور اندر بیٹھ گیا ۔۔۔اندر سے بھی گاڑی کافی جدید تھی ۔۔۔اسٹیرنگ کے ساتھ ایک بڑی سی اسکرین جس پر پچھلا منظر نظر آرہا تھا ۔ساتھ ہی ایک بڑا سا کنٹرول پینل تھا۔۔۔۔۔میں حیرت سے گاڑی دیکھ رہا تھا۔۔ڈرائیونگ سیٹ کے دروازے کے اندر کی طرف ایک ایم پی فائیو لگی ہوئی تھی ۔۔۔چھوٹی ایس ایم جی کی یہ گن اندر دروازے میں فکس ہوئی تھی۔۔۔جبکہ اسٹیرنگ کے ساتھ ہی نیچے ایک ہولسٹر میں گلاک پسٹل لگی ہوئی تھی ۔۔جو ایک سیکنڈمیں ہاتھ میں آکر فائر کرنے کے لئے تیار تھی ۔۔۔۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ باہر سے یہ سیاہ گاڑی بلٹ پروف بھی ہے ۔۔۔۔۔اتنے میں ثریا دوسرا گیٹ کھول کر اندر داخل ہوئی ۔۔۔۔میں نے انجن اسٹارٹ کیا تو ایک ہلکی سی آواز ابھری ۔۔۔گاڑی بہت اچھی کنڈیشن میں تھی ۔۔اور شاید انجن بھی خصوصی تھا ۔۔۔۔۔میں نے جیپ باہر نکالی ۔۔اور سفر شروع ہو گیا ۔۔۔۔۔ہم انگور اڈہ روڈ پر سفر کر رہے تھے ۔۔۔۔شام کے اندھیر ے پھیل چکے تھے ۔۔۔۔روڈ پر ٹریفک بھی نہ ہونے کے برابر تھی ۔۔۔۔میں مناسب اسپیڈ سے گاڑی چلاتا رہا۔۔۔۔۔45 منٹ کے سفر کے بعد لیفٹ سائیڈ پر ایک کچا روڈ آیا تو ثریا نے مجھے اس پر مڑنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔ا ب کچے کا سفر شروع تھا ۔۔۔۔کچھ دیر کے سفر کے بعدرہائشی ایریا شروع تھا ۔۔۔۔یہ ایک سرحد ی گاؤں تھا ۔۔گاؤں سے نکلنے کے بعد ثریا نے مجھے گاڑی روکنے کا کہا ،۔۔میں نے گاڑی روک دی ۔۔۔۔ہم اندھیرا ہونے کا انتظار کرنے لگا۔۔۔۔ثریا اپنے ہینڈ سیٹ پر کسی کو میسج کر رہی تھی ۔۔اور شاید کچھ دیر بعد وہاں سے جواب آیاتو اس نے آگے بڑھنے کا اشارہ کیا ۔۔۔آگے کا راستہ بہت ناہموار تھا ۔۔۔سخت گھپ اندھیرے میں لائٹ بند کئے وہ سفر شروع تھا ۔۔ثریا کے ہاتھ میں ایک موبائل تھا جس کی روشنی وہ وقفے وقفے سے سامنے مارتی اور مجھے کچھ رستے کا اندازہ ہوتا ۔۔۔۔اگلے آدھے گھنٹے کا یہ سفر بہت تھکا دینے والا تھا ۔۔کچے پر سفر ختم ہوا تھا ۔۔اس کے بعد ہم واپس روڈ کی طرف آئے تھے ۔۔ ۔۔جہاں آگے ایک کار ہمارے انتظار میں تھی ۔۔۔۔ہمیں آتا دیکھ کر وہ آگے بڑھ گئی ۔۔۔۔ثریا نے مجھے اس کے پیچھے جانے کا کہا ۔۔۔۔۔۔ہم مین روڈ پر سفر کر نے لگے ۔۔۔۔۔اور پھر رہائش علاقہ آنے سے پہلے ہی اگلی گاڑی ایک طرف سنسان رستے پر مڑ گئی ۔۔۔اور دس منٹ کے مزید سفر کے بعدایک بڑے سے کمپاؤنڈ کے اندر جا کر رکی تھی ۔۔۔۔۔میں نے بھی گاڑی پیچھے روکی ۔۔۔ثریا بھی بیگ لئے اتری تھی ۔۔۔۔یہ پورا ایریا اندھیر ے میں ڈوبا ہوا تھا ۔۔۔۔کمپاونڈ کی باونڈری کچھ اونچی بنی ہوئی تھی ۔۔۔اور اندر ایک بڑی سی عمارت ہماری منتظر تھی ۔۔۔۔۔ثریا مجھے لئے اندر پہنچی۔۔۔دروازے سے اندر ہی ہمارا انتظار ہو رہا تھا ۔۔۔سرخ ساڑھی پہنے ایک قاتل حسینہ اور اس کےدائیں بائیں تھری پیس سوٹ پہنے ہوئے دو آدمی ۔۔مکارانہ مسکراہٹ کے ساتھ استقبال کر رہے تھے ۔۔۔۔۔ثریا جا کر سرخ ساڑھی والی کے گلے لگ گئی ۔۔۔جبکہ دونوں آدمی میری طرف بڑھے ۔۔۔گرم جوشی سے ملتے ہوئے سفر کا پوچھنے لگے۔۔۔۔۔ثریا بھی میری طرف مڑی اور تعارف کروایا کہ یہ راجہ ہے ، سیکورٹی چیف ہے ۔۔اور اس کے کارنامے میں خود بھی دیکھ چکی ہوں ۔۔۔اور سرخ ساڑھی والی کیطرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگی کہ یہ ہماری کمپنی کی ڈائریکٹر ہے ۔۔مس غزالہ ۔۔۔اور یہ ان کے اسٹنٹ اور کولیگ ہیں ۔۔۔۔میں نے بھی مصنوعی مسکراہٹ سے دونوں کی طرف دیکھا ۔۔۔سرخ حسینہ کی نگاہیں مجھ پرکھبی ہوئی تھی ۔۔۔کچھ سیکنڈ تک ایکسرے کرنےکے وہ آگے بڑھی اور ثریا کو لے کر اندر بڑھ گی ۔۔۔۔جبکہ ان کے اسٹنٹ مجھے لئے ڈرائنگ روم کیطرف چلے گئے ۔۔۔جہاں میرے تعارف کے بہانے انہوں نے میرا چیدہ چیدہ انٹرویو لیا ۔۔۔۔۔میں بھی تسلی سے جواب دیتا رہا ۔۔۔۔اس کے بعد میری اسکلز کی باری آئی ۔۔۔وہ بھی میں نے مختصرا بتا دی ۔۔۔۔وہ بار بار موجودہ حالات کے بارے میں میری رائے اور خیال جاننے کی کوشش کر رہے تھے ۔۔اور میں نے ان کو مایوس نہیں کیا تھا ۔۔۔۔میرے سارے جواب ان کی مرضی کے مطابق تھے ۔۔۔آدھے گھنٹے کے سوال و جواب کے بعد وہ کچھ مطمئن سے ہوئے ۔۔۔۔۔
اس کے بعد کھانے کا دور شروع ہوا ۔۔۔ثریا نے اپنا حلیہ تبدیل کر لیا تھا ۔۔اب وہ بھی جینز اور شرٹ پہنے اور میک اپ کے ٹچز لگانے کے بعد خوش و خرم اور شوخ نظر آرہی تھی ۔۔۔۔کھانا کافی پرشکوہ تھا ۔۔۔ٹیبل پر کچھ بئیر اور الکوحل لوازمات بھی رکھے ہوئے تھے ۔جس کا میں نے ان کو پرہیز بتا یا ۔۔۔ثریا کی ساری خدمت خلق کے پردے ایک ایک کر اترتے جا رہے تھے ۔۔۔۔اور اندر سے کراہیت بھرا چہرہ سامنے آ رہا تھا ۔۔۔۔۔ثریا بار بار ہنس ہنس کر میری طرف اشارہ کرتی اور مجھے اپنی سب سے بڑی دریافت بتا تی ۔۔۔۔۔کھانے کے دور ختم ہو ا ۔اورپھر کچھ دیر باتوں کا سلسلہ شروع ہوا ۔۔۔ایک گھنٹے تک بات چیت چلی۔۔اس کے بعد ثریا اٹھی ۔۔اور کہنے لگی کہ میں تھکی ہوئی ہوں ۔۔مس غزالہ تمہیں کمرہ دکھا دیں گی ۔۔۔۔ہم صبح ملتے ہیں ۔۔۔اس کے بعد وہ اٹھی اور ان دونوں آدمیوں کے ساتھ اٹھ کر چلی گئی ۔۔۔۔۔میں اسے ایک نظر دیکھتا ہی گیا ۔۔۔۔ایک ہی رات میں وہ کافی پینترے بدل چکی تھی ۔۔
غزالہ اٹھ کر میرے پاس آئی تھی ۔۔۔۔تھوڑی گوری رنگت کے ساتھ سیاہ کالی آنکھیں ۔۔۔جو اب بھی مجھے جانچنے کی پوری کوشش میں مصروف تھیں ۔۔۔۔غزالہ کچھ لمبی قد کی تھی ۔۔۔پتلی صراحی دار گردن ۔۔۔متناسب ابھرا ہوا سینہ ۔۔اور پتلی کمرکے ساتھ ۔۔۔۔میری آنکھوں میں دیکھتی ہوئی ۔۔۔۔میرے سامنے آئی تھی ۔۔۔آئیے آپ کو آپ کا کمرہ دکھا دیتی ہوں۔۔۔غزالہ کی چال دیکھ کر۔۔۔۔میری نظریں بھٹک رہی تھیں ۔۔۔۔جسم میں سنناہٹ سی دوڑ رہی تھی ۔۔۔ایک کمرےکے سامنے رکتے ہوئے وہ مڑی تھی ۔۔۔۔یہ آپ کا کمرہ ہے ساتھ ہی میرا کمرہ ہے ۔۔اگر کچھ چاہئے تو بتا دیجئے گا۔میں نے اوکے کہہ کر اندر کمرے میں داخل ہو گیا ۔۔۔۔۔کمرہ اندر سے اتنا ہی اچھا بنا ہوا تھا ۔۔۔میں نے شوز اتارے اور بیڈ پر ڈھیر ہو گیا ۔۔۔۔آج کی تھکاوٹ اور نئے آنے والے واقعات میرے ذہن میں گھوم رہے تھے ۔۔۔سب کچھ بہت تیزی سے ہو رہا تھا ۔۔اور جواب بھی اسی رفتار سے دینا بنتا تھا ۔۔۔۔میں خود کو ذہنی طور پرتیار کررہا تھا۔اپنے موبائل پر موجود ایک بٹن دبا چکاتھا ۔۔دانش منزل میں میری منزل کی لوکیشن پہنچ چکی تھی ۔جو کہ افغانستان کا علاوہ شکین تھا ۔۔۔۔۔۔اس کے بعد اِنہیں سوچوں میں نیند میں جاچکا تھا۔۔۔
آدھی رات ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔۔۔جب میری آنکھ کھلی تھی ۔۔چہرے پر کچھ گیلے پن کا احساس ہوا تھا ۔۔۔ساتھ ہی نرم نرم سے ہونٹ ٹکرائے تھے۔۔۔۔۔میں نے پوری آنکھیں کھولتے ہوئے اسے دیکھا تھا ۔۔۔غزالہ اپنے فطری لبا س میں بیڈ پر تھی ۔میری طرف کروٹ لئے وہ مجھ پر جھکی ہوئی تھی۔۔۔۔۔آنکھوں میں شہوت اور مستی ناچ رہی تھی ۔۔۔میری آنکھیں کھلتے دیکھ کر وہ اور تیز ہوئی تھی ۔۔میں نے مدافعت چھوڑ کر خود کو اس کے حال پر چھوڑ دیا تھا ۔۔مجھے کچھ دن مزید یہاں رہنا تھا ۔۔اور جانے کیا معاملات پیش آئیں ۔۔اگر غزالہ میری طرف ہو جاتی ہے تو کیا برائی تھی ۔۔۔۔۔غزالہ کچھ دیر میرے چہرے پر جھکنے کے بعد اب میری شرٹ کے بٹن کھول رہی تھی ۔۔
بٹن کھلنے کے بعد توانا سینہ اس کے سامنے تھا ۔۔۔ غزالہ نے تحسین بھری نگاہوں سے مجھے دیکھا اور پھر سینے کو چومنے لگی ۔۔۔۔میرے بدن میں مزے کی لہریں پھرنے لگیں ۔۔۔اس کے نرم نرم ہونٹ میرے سینے پر گیلے پن کے نشان چھوڑتے جا رہے تھے ۔۔۔۔۔سائیڈ سے غزالہ نے ایک ٹانگ میرے اوپر رکھتی ہوئی اوپر آئی ۔۔۔اس کا ہلکا پھلکا بدن میرے بدن پر آکر رکا تھا ۔۔۔۔نیچے سے ہتھیار میں بھی جان آنی شروع ہو گئی۔۔۔جو پینٹ کو ابھارتا جارہا تھا۔۔۔غزالہ نے بھی اس تبدیلی کو محسوس کر لیا تھا۔۔۔۔وہ اپنی کمر کو میرے اوپر ہلا رہی تھی ۔۔۔۔میں نے بھی ہاتھوں کو حرکت دینے کا سوچا۔۔۔اوراپنے اوپرغزالہ کی کمر پر ہاتھ پھیرتا ہوا نیچے لے گیا ۔۔جہاں نرم نرم چوتڑ میرے منتظر تھے ۔۔۔میں نے دباتے ہوئے زیادہ زور لگایا تھا جبھی غزالہ کی ایک آہ نکلی ۔۔۔۔غزالہ چومتی ہوئی نیچے کو چلی جارہی تھی ۔۔۔ناف تک پہنچی تو میں نے روک دیا ۔۔اور واپس اوپر کھینچتے ہوئے اس کے ہونٹوں سے ہونٹ ملائے اور کروٹ بدل لی ۔۔۔اب غزالہ میرے نیچے تھی ۔۔۔اس کے چھوٹے چھوٹے ممے مجھے دعوت دے رہے تھے ۔۔۔میں تھوڑا سا نیچے کھسکا اور اس کے ممے چوسنے لگا۔۔۔اک ہاتھ سے تھامتے ہوئے ایک ایک ممے کو میں منہ میں لینے کی کوشش کرتا ۔۔اور پھر باہر کی طرف کھینچتا ۔۔غزالہ میرے سر پر ہاتھ رکھے سسکیاں بھررہی تھی ۔۔۔میں غزالہ کے اوپر لیٹا ہوا تھا ۔۔۔چہرہ اس کے مموں پر رکھتے ہوئے میں ہاتھ پیچھے لے گیا اور پینٹ اتارنے لگا۔۔۔اور پھر ایک کہنی ٹیک کر ایک ہاتھ سے نیچے تک کھینچی دی ۔۔۔۔ساتھ ہی انڈروئیر بھی اتار دیا ۔۔۔۔ہتھیار تیار تھا ۔۔میں کچھ دیر اور اس کے ممے چوستے رہا ۔۔پھر جب بے چینی بڑھنے لگی ۔۔۔اور وہ میرے سر پر ہاتھ رکھے اسے اوپر کی طرف زور لگانے لگتی ۔۔۔۔۔ساتھ ہی نیچے ہاتھ بڑھا کر ہتھیار کو تھامنے کی کوشش کرتی ۔۔۔مگر میں نے ا س کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہونے گی ۔ ۔۔۔جواب میں اس نے میری پیٹھ پر اپنی ایڑی کا دباؤ ڈال زور لگانے لگی۔۔۔میں نے اس کی طرف دیکھا تو شرارت سے اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔۔۔میں نے بدلہ اس کے ممے پر دانت گاڑ کر لیا تو وہ بلبلا اٹھی ۔۔۔۔اور جلدی سے ایڑی ہٹا دی ۔۔۔اس کی بے چینی مجھے بھی بے چین کئے جا رہی تھی ۔۔۔میں نے اٹھتے ہوئے اس کی ٹانگیں اٹھا کر سینے سے لگا دی ۔۔۔غزالہ دونوں ہاتھوں میں اپنی ٹانگیں پکڑے مجھے دیکھی جا رہی تھی ۔۔اپنے ہونٹ پر زبان پھیرے جا رہی تھی ۔۔ میں نے غزالہ کی ٹانگیں اٹھا کر خود بھی پوزیشن سمبھال لی تھی ۔۔۔ہتھیار تنا ہو لہرا رہا تھا ۔۔میں نے ٹوپا چوت کے لب پر سیٹ کر کمر کودھکا دیا ۔۔چوت کے لب کھلے تھے ۔۔۔اور ٹوپ اپنی پوری موٹائی کے ساتھ فکس ہو چکا تھا ۔۔۔۔غزالہ ایک دم سے اوپر کو اٹھی تھی ۔۔۔۔منہ کھلا تھا ۔۔۔اور پھر ایک سسکاری بھری ۔۔۔۔اس نے ٹانگیں چھوڑ کو دونوں ہاتھ سر پر رکھ لیے تھے ۔۔۔اورمنہ کھولے کھولے گہری سسکاری بھرنے لگی ۔۔۔میں نے دھکے دیتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھا ۔۔۔اور آدھے ہتھیار کو منزل پر پہنچا دیا ۔۔۔۔غزالہ کا منہ پھر سے کھلا تھا اور کافی دیر تک کھلا ہی رہا ۔۔۔میں نے ایک ہاتھ کی انگلیاں اس میں ڈال دیں اور وہ چوسنے لگی ۔۔۔۔تیسرے دھکے میں پورا ہتھیار اندر پہنچ چکا تھا ۔۔۔۔۔غزالہ نے میری انگلیوں پر زوردار دانت گاڑے تھے ۔۔۔۔اور پھر مم مم کرتی ہوئی سر پیچھے تکیہ پر ڈال دیا ۔۔۔۔میں نے ہاتھ باہر نکالا اور ٹانگ پر رکھتے ہوئے دباو بڑھا دیا ۔۔۔ساتھ ہی ہتھیار کو باہر نکال کر دوبارہ دھکیل دیا ۔۔غزالہ دوبارہ سے سر اٹھا کر اٹھی تھی ۔۔۔۔نیچے دیکھنے کی کوشش کی ۔۔۔۔میں نے اب ہلکے ہلکے اِ ن آؤٹ شروع کر دیا تھا ۔۔۔غزالہ کی چوت بے تحاشہ پانی چھوڑتی جا رہی تھی ۔۔۔۔ساتھ ہی اس کی سسکاریاں بھی بلند ہو رہی تھیں ۔۔۔۔میں نے بھی اسپیڈ بڑھا دی ۔۔۔۔اور گہر ے گہرے جھٹکے مارنے لگا ۔۔۔۔ہر جھٹکے کے ساتھ بیڈ بھی ہلتا ۔۔میں نے گھٹنے کے بل سے اٹھتے ہوئے اب اپنے پیروں کے بل پر آگیا ۔۔۔اور اس کے اوپر آ تے ہوئے نیچے کو جھٹکے مارنے شروع کئے ۔۔۔۔ہر جھٹکے کے ساتھ غزالہ کی مخصوص آواز نکلتی ۔۔۔۔کچھ دیر تک میں نے ایسے ہی جھٹکے مارے ۔۔۔پھراس کی ٹانگوں کو اپنے کندھے پر رکھے ہوئے اسے اٹھا لیا ۔۔۔ہلکی پھلکی غزالہ میری گردن میں ہاتھ ڈالے اٹھ چکی تھی ۔۔۔۔اس کے پیر میری گرد ن پر اور نیچے سے چوت میرے ہتھیار کے سامنے آئی تھی ۔۔۔۔۔۔میں بیڈ سے اتر آیا ۔۔۔اورجھٹکے مارنا شروع کر دیے ۔۔۔۔ہر جھٹکے کے ساتھ وہ پیچھے کو جاتی اور پھر واپس آتے ہوئے ہتھیار اند ر لے کر آتی ۔۔۔۔میرے جھٹکے اسے اچھالے جا رہے تھے ۔۔۔۔۔ساتھ ہی منہ سے سسکاریاں نکالتی ہوئی میری ہمت بڑھانے لگی ۔۔۔میرے جھٹکے اور بڑھنے لگے۔۔ہتھیار کے اوپر سے اچھلتی ہوئی غزالہ واپس بھی اسی کے اوپر پھسلتی ہوئی آتی ۔۔۔۔وہ تھکنےلگی ۔۔تو میں نے بیڈ پر اتارتے ہوئے اسے گھوڑی بنادیا ۔۔بیڈ پر پیر جما کر میں اسے کے پیچھے آیا تھا ۔۔۔اور ہتھیار گھساتے ہوئے اسپیڈ مارنے لگا۔۔۔۔غزالہ میری توقع کے برخلاف زیادہ گرم اور برداشت کا مظاہر ہ کر رہی تھی ۔۔۔۔اب بھی وہ پیچھے کو ہوتی ہوئی میرا ساتھ دینے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔سسکیاں مجھے اور تیز ہونے پر اکسا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔میں بھی جوش میں آتا جا رہا تھا ۔۔۔بہت دنوں بعد ایسا پارٹنر ملا تھا ۔۔۔۔ جو رکنے کے بجائے گھوڑے کو ایڑ لگانے کا کہ رہا تھا ۔۔۔میں نے بھی کسر نہیں چھوڑی تھی ۔۔۔۔کمر پر ہاتھ جمانے کے بعد طوفانی دھکے شروع کئے ۔۔۔۔غزالہ چلائی تھی اور بلند آواز سے ہی سسکیاں لیں ۔۔۔۔۔جن میں مزے کے ساتھ اور تیز ہونے کا اشارہ بھی تھا ۔۔۔وہ ابھی تک فارغ نہیں ہوئی تھی ۔۔۔۔۔اور نہ ہی جلد ہونے کا ارادہ لگ رہا تھا ۔۔۔اس کے بعد میں نے بھی کچھ نہیں دیکھا۔۔۔میں نے بھی دھکوں کی مشین چلا دی ۔۔۔۔۔اگلے پانچ سے سات منٹ کیسے گذرے مجھے نہیں پتا ۔۔۔اس کے چلانے کی آواز ۔۔۔۔اس کے آگے گرنے کا منظر سب سلو موشن میں تھا ۔۔بیڈ پر ہاتھ مارتے ہوئے روکنے کا منظر۔۔۔۔۔۔وہ فارغ بھی ہوچکی تھی ۔۔۔۔مجھے رکنے کا بھی کہ رہی تھی ۔۔۔۔۔مگر میرے کانوں میں کوئی آواز نہ آئی ۔۔۔۔۔میرے دھکے اسی طوفانی رفتار سے جاری تھے ۔۔وہ آگے ہاتھ ٹیکتی ہوئی نکلنے کی کوشش کرتی ۔۔مگر یہ بھی مشکل تھا ۔۔۔مجھے بس اپنے جسم کے خون کی دھڑکن سنائی دے رہی تھی ۔۔جو آہستہ آہستہ بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔کنپٹی میں خون دوڑ رہا تھا ۔۔کانوں میں غزالہ کے چلانے کی آواز ہلکی ہو کر سنائی دے رہی تھی ۔۔۔۔اور پھر یہ سارا خون اور دھڑکن نیچے کی طرف جانے لگا۔۔ٹوپے اور زیادہ پھولنے لگا۔۔۔اور پھر ایک فوارہ چھوٹا۔۔۔۔سیلاب بہا ۔۔۔ بند ٹوٹا تھا ۔۔۔۔میں نے ایک دو جھٹکے اور مارے تھے ۔۔۔اور پھر غزالہ کے اوپر لیٹتا چلا گیا ۔۔۔۔۔وہ پسینے پسینے ہوئی وی تھی ۔۔۔۔مجھ سے زیادہ وہ ہانپ رہی تھی ۔۔۔منہ سے ابھی کراہیں جاری تھی ۔۔۔۔میں نے سائیڈ پر کروٹ لی ۔۔اور سیدھا ہو گیا ۔۔غزالہ نے مجھے خوف زدہ نظروں سے دیکھا۔۔۔ہتھیار کو دیکھا ۔۔۔اپنے کپڑے اٹھا ئے اور لڑکھڑاتی ہوئی کمرے سے نکلتی چلی گئی ۔۔۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اگلی صبح مجھے ثریا نے اٹھایا تھا ۔ نیند میری آنکھوںمیں بھری ہوئی تھی ۔۔۔۔ثریا نے مجھےزور سے ہلایا اور جلدی سے تیار ہونے کا کہنے لگی ۔۔بیڈ پر میرا نیا لباس رکھا ہوا تھا۔۔۔۔۔میں باتھ روم بڑھ گیا اور فریش ہو باہر آیا ۔۔۔۔۔بلیک پینٹ کوٹ پہن کر خود کو آئینہ میں دیکھا ۔تھوڑا شرمایا ۔اور۔بال بنا کر باہر نکل آیا ۔۔۔اور اب میں نے اس عمارت میں زندگی دوڑتی ہوئی دیکھی ۔عمارت پوری روشن تھی ۔۔اور ملازموں اور دوسری آوازیں بلند آرہی تھیں ۔۔۔۔۔ثریا ڈرائنگ روم میں میرا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔ میں وہاں پہنچا تو کہنے لگی راجہ مجھے واپس جانا ہے جلدی ۔۔۔۔اب سے مس غزالہ ہی تمہاری نگرانی کریں گے ۔۔۔اس کے بعدثریا مجھے لئے ہوئے باہر نکلی جہاں غزالہ ایک آدمی کے ساتھ کھڑی تھی ۔۔۔۔ثریا کے پہنچتے ہیں وہ آدمی جیپ کی طرف بڑھا اور ڈرائیونگ سیٹ سمبھال لی ۔۔۔ثریا بھی جاکر جیپ میں بیٹھی گئی ۔۔اور ہاتھ ہلاتی ہوئی رخصت ہوئی ۔۔۔۔
میں مڑا تو غزالہ میر ی منتظر تھی ۔۔۔اس کا لہجہ اور موڈ سخت تھا ۔۔مجھے اپنے پیچھے آنے کا کہہ کر وہ عمارت کی پچھلی طرف چلی گئی جہاں 15 لوگوں کا ایک گروپ میرے سامنے تھا ۔۔۔۔۔تین لائنوں میں پندرہ لوگوں کا یہ گروپ مقامی جنگجوؤں کا تھا ۔۔۔جو بھاری رقوم کے عوض یہاں سیکورٹی کے لئے لائے گئے تھے ۔۔میں نے ان کے سامنے ایک چکر لگایا اور جائزہ لینے لگا۔۔۔غزالہ ان کے سامنے چھوڑ کر واپس چلی گئی ۔۔۔۔۔
میں نے ان میں سے ایک ہوشیار شخص کو بلایا اور اسے اپنا نمبر ٹو بنا دیا ۔۔۔۔اور اسی طرح سے تمام لوگوں کے نمبر مختص کر دیئے ۔۔۔۔باقی لوگوں کو ایکسرسائز پر لگا کر میں نمبر ٹو کو ساتھ لئے چل پڑا ۔۔اس سے مجھے پتا چلا کہ انہیں رہائش یہیں دی ہوئی ہے ۔۔ہر ہفتے بعد ان میں سے کچھ گھر جا کر مل آتے ہیں ۔۔باقی ہر مہینے ان کو بھاری رقوم مل جاتیں ہیں ۔۔نمبر ٹو مجھے لئے اسلحہ خانہ گیا ۔۔جہاں راکٹ لانچر سے لے کر مشین گن تک ، پسٹل سے لے ایم فور اے تک تمام مشہور ماڈل رکھے ہوئے تھے ۔۔۔۔ساتھ ہی ایمونیش کا بھرپور اسٹاک بھی تھا ۔۔۔۔میں باہر آیا اور ان سب لوگوں کی ڈیوٹیاں بھی تقسیم کر دی ۔۔۔۔کچھ کو دن کے پہرہ پر اور کچھ کو رات کے پہرہ پر ۔۔۔۔سامنے اور پیچھے کیطرف مورچے سیٹ کروائے ۔۔اور 3 لوگوں کو دور مار رائفل کے ساتھ عمارت کی چھت پر بھیج دیا ۔۔۔۔وائرلیس سیٹ سب میں تقسیم کر دیئے گئے تھے ۔۔۔۔۔اتنے میں مجھے ملازم نے میسج دیا کہ غزالہ میڈم نے بلایا ہے ۔۔۔۔میں نمبر ٹو کو وہیں چھوڑ کو اندر بڑھ گیا ۔۔۔۔۔اندر میٹنگ چل رہی تھی ۔۔۔۔میں بھی جا کر اندر بیٹھ گیا ۔۔۔اگلے دو دنوں تک وہاں ایمرجنسی نافذ کی جارہی تھی ۔۔۔۔غیرملکی لوگ نے آج سے آنا شروع کرنا تھا ۔۔۔اور آج رات کی میٹنگ کے لئےسارا سیٹ اپ اور ذمہ داریاں سمجھائی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔غزالہ ایک سخت گیر باس کی صورت میں بات کر رہی تھی ۔۔۔۔مجھے بھی احتیاط اور ہوشیار رہنے کا کہا گیا ۔ساتھ ہی میٹنگ کے دوران درمیانی فلور پر جانے پر بھی پابندی لگادی ۔۔۔۔ساتھ ہی بتایا کہ آنے والے مہمانوں کے ساتھ ان کی اپنی سیکورٹی بھی ہو گی لہذامجھے ان سے بھی کوآپریٹ کرنا تھا ۔۔عمارت کی چھت پر ایک ہیلی پیڈ بناہوا تھا ۔۔اور اکثر مہماں وہیں اتریں گے ۔۔کچھ مقامی لوگ بائی روڈ آنے والے تھے ۔۔۔۔۔۔میں سر ہلاتا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔اس کے بعد میٹنگ ختم ہوئی ۔۔اور میں باہر آیا ۔۔ایک بائک لے کر میں نےپوری بلڈنگ کا ایک چکر لگا لیا ۔اور حملے کی جگہوں کا جائز ہ لینے لگا۔۔۔۔اس کے واپس اپنے گروپ میں پہنچ کر ان کے ساتھ رہا ۔۔۔۔دوپہر کا کھانا ان کے ساتھ ہی آیا تھا ۔۔۔ہم نے مل کر کھانا کھایا۔۔۔۔کھانے کے بعد مقامی قہوہ آیا ۔۔
میں تمام نمبرز کی ڈیوٹی مختص کر کے اندر آ گیا تھا ۔۔ڈرائنگ روم کے ساتھ ہی میں نے مانیٹرنگ روم بنایا تھا ۔اسلحہ خانے سے مجھے جیمر بھی مل گئے تھے ۔۔جو کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں سگنل جام کردیتے تھے ۔۔اندر تین بڑی اسکرین لگی ہوئی تھی ۔۔۔ایک اسکریں سامنے کا منظر اور ایک عمارت کی بیک کا منظر پیش کر رہی تھی ۔۔جبکہ تیسر ی اسکرین پرعمارت کی چھت کا ہیلی پیڈ تھا ۔۔۔۔۔۔اور پھراگلے دو گھنٹے میں مہمانوں کی آمد شروع ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔دو ہیلی کاپٹر اترے تھے ۔۔۔ایک میں سے پینٹ کوٹ میں ملبوس اونچے لمبے لوگ اترے تھے ۔۔۔جبکہ دوسرے سے آرمی کی یونیفارم میں 8 لوگوں کو ایک گروپ کودا تھا ۔۔سر پر ہیلمٹ اور ہتھیاروں سے فل لیس یہ کمانڈوز کا دستہ تھا۔۔ان کے پھرتی اور چلنے کا انداز بتا رہا تھا کہ یہ اسپیشل فورس کے لوگ ہیں ۔۔۔ہیلی کاپٹر سےا ترے ہی انہوں نے نے پینٹ کوٹ والوں کے گرد گھیرا ڈال دیا تھا ۔۔اور چاروں طرف دیکھتے ہوئے بڑھنے لگے ۔۔ہیلی کاپٹر واپس اڑ گیا تھا۔۔۔سیڑھی سے نیچے اترنے کے بعد وہ میری نگاہوں سے اوجھل ہو گئے ۔۔۔۔۔میٹنگ آج شام ہی تھی ۔۔۔میں متفکر انداز میں اپنے مانیٹرنگ روم میں بیٹھا سوچ رہا تھا ۔۔۔

قسط نمبر 8۔۔۔۔ 
ثریادوپہر سے پہلے اپنےگھر پہنچ چکی تھی ۔۔جب اسے ملازم نے بتایا کہ باہر راجہ کے مہمان آچکے ہیں ۔۔۔ثریا جلدی سے اٹھی اور باہر کی طرف چلی ۔۔۔جہاں ایک بڑی سی جیپ کے اندر سے دو دیوہیکل حبشی اتر رہے تھے ۔۔جیپ سے اتر کر وہ سامنے کی طرف آئے جہاں ثریا اک حیرت سے انہیں دیکھ رہی تھی ۔۔اسے اندازہ نہیں تھا کہ راجہ جنہیں بھیجے گا وہ ایسے لمبے چوڑے اور بڑے ڈیل ڈول والے ہوں گے ۔۔۔ثریا آگے بڑھی اور ان کا استقبال کرتی ہوئی اندر لے آئی ۔جلد ہی تعارف کا مرحلہ طے ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔۔وہ جوزف اور جوانا کے جسم سے بہت متاثر ہوئی تھی ۔اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اگر یہ لوگ اس کا ساتھ دیں تو کوئی مشکل نہیں ہے ۔۔۔اور اسے لگ رہا تھا کہ اب اس کا مشن جلد مکمل ہو جائے گا۔۔۔۔جلد ہی ثریا نے ان کے لئے کھانے کی ٹرالی اور چائے منگوائے ۔۔۔جوانا اب تک خاموش ہی تھا ۔۔۔۔اور جوزف آہستگی سے ثریا کے سوالوں کے جواب دے رہا تھا ۔۔۔ثریا نے بتایا کہ راجہ دوسرے کام سے گیا ہوا ہے ۔۔۔اور اس نے آپ دونوں کی بہت تعریفیں کی ہیں ۔۔۔۔۔جوزف ہاں میں سر ہلا رہا تھا ۔۔۔اس کے بعد ثریا نے انہیں ان کے کمرے دکھائے اور آرام کے لئے بھیج دیا ۔۔۔۔۔۔شام کو ثریا خود ان کو اٹھانے کے لئے گئی ۔۔اس نے اپنی ڈریسنگ تبدیل کر لی تھی ۔۔۔اوراب وہ چاہ رہی تھی کہ جوزف اور جوانا میں سے کوئی اس کی طرف مائل ہو جائے ۔بلیک کلر کی ساڑھی اور کھلے بلاؤز میں وہ قیامت ڈھا رہی تھی ۔۔۔۔اس لئے بڑی ہیجان انگیز ڈریسنگ کئے ہوئے وہ سامنے آئی تھی ۔۔۔جوزف اور جوانا کو ساتھ لئے ہوئی وہ ڈرائنگ روم میں پہنچی ۔۔۔۔رات کاکھا نا کافی پرتکلف تھا۔۔۔ثریا نے اس کے بعد الکوحل مشروبات منگوانے چاہے ۔۔۔مگر دونوں نے منع کر دیا ۔۔۔ جوانا کسی کام سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا گیا ۔۔۔اور ثریا اٹھ کر جوزف کے قریب آ بیٹھی ۔اپنے ہاتھ میں موبائل کو گھماتے ہوئے ۔۔ جوزف سے اس ملک میں رہنے کے تجربے کے بارے میں پوچھنے لگی ۔۔۔۔جوزف نے کم سے کم لفظوں میں بتا دیا کہ وہ اپنے ملک میں سیکورٹی اداروں میں کام کررہے تھے ۔۔۔یہاں کسی تربیتی مشن پر آئے تھے کہ یہ ملک پسند آگیا ۔۔اس کے بعد یہیں کے ہو گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ثریا کے ہاتھ سے موبائل گرا تھا ۔۔۔اور اس نے اپنی ساڑھی کا پلو گراتے ہوئے دوسرا سوال کیا تھا ۔۔۔صرف یہ ملک پسند آیا یا یہاں کے لوگ بھی پسند آئے ۔۔۔۔۔۔جوزف اشارہ سمجھ گیا تھا ۔۔۔۔۔کہنے لگا کہ ملک میں سب ہی شامل ہوتا ہے ۔۔۔۔اس کے بعد ثریا کا اگلا سوال اس سے بھی خطرناک لہجے اور آواز میں تھا۔۔۔صرف شراب سے پرہیز ہے یا شباب سے بھی پرہیز کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جوزف کا پیمانہ لبریز ہو چکاتھا ۔۔۔اس نے جواب دیا کہ پسند پر ڈیپنڈ ہے ۔۔۔اگر کوئی خوبصورت ہو تو کیسے دور رہا جا سکتا ہے ۔۔۔۔ثریا بھی سمجھدار تھی ۔۔اور قریب ہوئی تھی ۔۔۔ادھر جوزف نے اپنا ہاتھ بڑھا کر ثریا کا ہاتھ تھام لیا ۔۔۔جو جوزف کے بڑے سے ہاتھ میں کسی بچے کا ہاتھ لگ رہا تھا ۔۔۔جوزف نے ثریا کے ہاتھ کو اپنی طرف کھینچا تھا ۔۔۔ثریا کسی کھلونے کی طرح کھینچتی ہوئی جوزف کے قریب پہنچی ۔۔۔جوزف نے کمر سے پکڑ کرثریا کواٹھا یا اور اپنی گود میں بٹھا لیا۔۔۔کالی ساڑھی میں ثریا کا گورا بدن جھانک رہا تھا ۔۔۔۔اور اب ساڑھی کا پلو بھی کھلنے لگا تھا ۔۔۔۔۔۔جوزف نے ثریا کے پلّو کوالگ کرتے ہوئے کہا کہ ایک مسئلہ ہے ۔۔۔جو چیز مجھے پسند آتی ہے ۔۔میرے بھائی کو بھی وہی پسند ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ثریا سمجھ چکی تھی ۔۔۔۔اس کی بولتی بند ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔جوزف کے دیوہیکل جسم سے ہی اسے خوف آ رہا تھا ۔۔۔۔اور اب جوانا کاسوچ کر وہ کانپ اٹھی تھی ۔۔۔۔۔۔۔جوزف نے اس کے بلاؤز پر ہاتھ ڈال دیا تھا ۔۔۔۔اور پھر پیچھے سے اس کی ڈوری کھلتے ہی گورے چٹے گول مٹول سے ممے باہر کو اچھل کر گرے تھے ۔۔۔۔ثریا گم سم سی ہو رہی تھی ۔۔۔۔وہ جسے بہت آسان سمجھ رہی تھی ۔۔۔وہ اب اس کی جان پر بننے جا رہا تھا ۔۔۔۔۔جوزف نے اسے اٹھاکر سامنے کھڑا کیا ۔۔۔ثریا جوزف کے سامنے چپ چاپ کھڑی تھی ۔۔۔۔۔جب جوزف نے اس کے مموں کو پکڑ کر کھینچا اور کمر سے نیچے ہاتھ پھیرتا ہوا ۔۔۔پیٹی کوٹ بہت خوبصورتی سے اس کی کمر سے نیچے گول سے چوتڑ پر فکس ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔جوزف نے ایک مرتبہ پیٹی کوٹ کے اوپر سے ہی چوتڑ دبائے اور پھر پیٹی کوٹ نیچے اتارنے لگا۔۔۔۔ثریا نے ایک پاؤں اٹھایا اور پھر دوسرا بھی ۔۔۔۔۔پیٹی کوٹ بھی اتر چکا تھا ۔۔۔۔۔۔نیچے سرخ پینٹی تھی ۔۔۔جو آنےوالے وقت کے پیش نظر گیلی ہونا شروع ہو چکی تھی ۔پینٹی اتار کر۔۔۔۔۔جوزف نے ایک بازو بڑھا کر ثریا کے چوتڑ کے گرد لپیٹا اوراٹھا کر خود سے لگا لیا۔۔۔ساتھ ہی اپنے کمرے کی طرف چل پڑا ۔۔۔۔اور جب جوزف نے ثریا کو بیڈ پر اچھالا تھا ۔۔۔تو وہ حیران ہی رہ گئی۔۔۔۔۔جہاں جوانا پہلے سے کپڑے اتارے تیار بیٹھا تھا ۔۔۔۔ثریا کے دماغ میں بجلی سی کوندی تھی ۔۔۔۔اپنے خیال میں اسنے جوزف کو شکار کیا تھا ۔۔۔۔مگر یہ دونوں پہلے سے ہی تیار تھے ۔۔۔۔۔۔جوانا نے خود پہلے اٹھ کر اسے جوزف کے پاس جانے کا موقع دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔اور جوانا کو پہلے سے ہی اس بات کا اندازہ تھا کہ اگر ثریا خود جوزف کے پاس نہ گئی تب بھی جوزف اسے تیار کرکے یہاں لے آئے گا۔۔۔۔۔۔
ثریا کی ساری ہوشیاری اور مکاری ہوا ہونے لگی تھی ۔۔۔اس کے دماغ میں خطرے کی گھنٹی بج اٹھی تھی ۔۔۔اس رات راجہ کا ملنا ۔۔۔اگلے ہی دن ملنے چلے آنا ۔۔۔اور مشکل ترین کام کے لئے فورا تیار ہو جانا ۔ثریا کے ساتھ چپ چاپ چلے جانا۔۔۔۔۔۔ان انسٹرکٹرز کا فورا مل جانا ۔۔۔۔اور اب پہلے سے ساری صورتحال کے لئےتیار رہنا ۔۔۔۔اس کے دماغ کے خطرے کے سائرن کا اب کوئی فائدہ کچھ نہیں تھا ۔۔۔اس کے کپڑے تو اتر چکے تھے ۔۔۔۔۔۔ادھر جوزف بھی کپڑے کے بوجھ سے آزاد ہو چکا تھا ۔۔۔۔۔ثریا پھٹی پھٹی نگاہوں سے دونوں کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ایک طرف ٹرک جیسی جسامت تھی ۔۔جبکہ دوسری طرف رکشے جیسی ثریا ۔۔۔۔۔۔۔ جوانا اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔۔۔۔ساتھ ہی اس کا موٹا اور لمبا سانپ سنسناتے ہوئے سامنے آیا تھا ۔۔۔ثریا نے تیزی سے کمرے سے باہر نکلنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔مگر جوزف نے ایک ہاتھ سے پکڑتے ہوئے اس بیڈ پر دوبارہ اچھال دیا ۔۔۔جوزف کا ہتھیار بھی کھڑا ہونےلگا تھا ۔۔۔۔ثریا بیڈ کے کنارے پر تھی ۔۔۔جہاں ایک طرف جوزف اور دوسری طرف جوانا آن کھڑے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔دونوں کے موٹے اور لمبے لنڈ ہوا میں لہرا رہے تھے ۔۔۔۔ثریا نے انہیں ہاتھ میں تھاما ۔۔۔اور باری باری منہ میں لینے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔اس کے ہاتھوںمیں مشکل سے سماتے ہوئے یہ لنڈ اب ثریا منہ میں لئے چوس رہی تھی ۔۔جلد ہی دونوں لنڈ اپنی پوری سختی پر آ چکے تھے ۔۔۔۔۔۔ جوانا بیڈ کے کنارے جا لیٹا تھا ۔۔۔۔۔ثریا اس کے اوپر جھکی ہوئی اس کے لنڈ کو چوسے جا رہی تھی ۔۔۔پیچھے سے جوزف نے لنڈ تھامے ہوئے ثریا کی چوت میں گھسایا تھا ۔۔۔۔درد سے کراہتی ہوئ ثریا جوانا پر گری تھی ۔۔۔۔۔مگر دونوں پر اس کے رونے پیٹنے کا کوئی اثر نہیں تھا۔۔۔جوزف نے ثریا کی کمرکو پکڑےواپس کھینچا ۔اور دوبارہ سے لنڈ گھسائے ٹھوکنے لگا۔۔۔۔۔ثریا کے منہ میں جوانا کا لنڈ پھنسا ہوا تھا ۔۔۔اور آنکھیں پھیلی ہوئی تھی ۔۔۔جوزف نے پوری قوت سے دھکے مارتے ہوئے اس کی چوت کو کھلا کر دیا تھا ۔۔۔۔ثریاایک مرتبہ فارغ ہو نے لگی تھی ۔۔۔۔۔جوزف پیچھے ہٹا تھا ۔۔۔۔اور جوانا نے ثریا کو تھامتے ہوئے خود پر سیدھ لیٹا دیا ۔۔دونوں پاؤں دائیں بائیں رکھے ثریا جوانا پر بیٹھی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔نیچے سے جوانا نے اپنےلنڈ کو ثریا کی گانڈ پر رکھتے ہوئے اندر دھکا دیا۔۔۔ثریا اوپر اچھل کر اٹھنے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔۔مگر جوانا نے دوسرا ہاتھ اس کے گرد لپیٹ دیا ۔۔۔۔ثریا کے منہ سے ایک چیخ نکلی ۔۔۔درد کی ایک تیز لہر اس کی گانڈ سے نکلی تھی ۔۔۔۔گانڈ کا سوراخ پورا کھل کر جوانا کے لنڈ کولینے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔۔کچھ تو لنڈ اندر جا چکا تھا ۔۔۔۔۔باقی جوانا کے دھکے نے اندر دھکیل دیا ۔۔۔دبلی پتلی سی ثریا جوانا کے اوپر بری طریقے سے اچھلی جا رہی تھی ۔۔منہ سے بے اختیار سسکیاں اور کراہیں نکل رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔اور جوانا بغیر رکے جھٹکے پر جھٹکے دئے جا رہا تھا ۔۔۔۔ثریا کی کمر کے کس بل بھی ڈھیلے ہو چکے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ثریا نے جوانا کی منت کرتے ہوئے اسے روکا ۔۔۔اور خود ہی شرافت سے اس کی طرف منہ کر کے بیٹھنے لگی ۔۔۔۔اب کی بار ثریا نے آگے کی طرف لے کر اپنی بچت کرنی چاہی تھی ۔۔۔۔اور جوانا کے لن کو چوت میں لے کر بیٹھنےلگی ۔۔۔جوانا نے بھی اچھل کر جھٹکا مارا تھا ۔۔۔ساتھ ہی ثریا اس کے لن پر گری اور سینے پر ہاتھ رکھ کر خود کو سمبھالنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جوانا نے ابھی دھکے اسی طرح جاری رکھے تھے ۔۔۔اور ثریا کراہیں لیتی ہوئی خود کو سمبھالتی رہی ۔۔۔۔۔۔۔ادھر جوزف پیچھے سے ثریا کی گانڈ کے چوتڑ کھولتے ہوئے اندر اپنا لنڈ گھسا چکا تھا ۔۔۔۔ثریا کے منہ سے پھر چیخ نکلی اور آنسو بھی بہہ نکلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب دونوں نے اپنے جھٹکے شروع کر دیئے تھے ۔۔ثریا کبھی ادھر گری ۔۔۔کبھی اْدھر گرتی ۔۔۔۔وہ دومرتبہ پانی چھوڑ چکی تھی ۔۔۔مگر دونوں حبشی اسی طرح اس کی ٹھوکنے پر لگے ہوئے ہے ۔۔۔دس منٹ بعد دونوں کھڑے ہو گئے تھے ۔۔۔جوزف نے ثریا کو گود میں اٹھا لیا تھا ۔۔۔۔اور چوت میں اب اس کا لنڈ تھا ۔۔۔پیچھے سے جوانا اس کی گانڈ بجا رہا تھا ۔۔۔۔ثریا پیچھے سے درد اور آگے سے مزے سے کراہ رہی تھی ۔۔۔۔۔اور پھر وہ وقت آیا جب دونوں ایک ساتھ فارغ ہوئے ۔۔۔۔۔چوت میں پانی کا ایک سیلاب آیا ۔۔۔۔اور پوری چوت کو بھرنے کے بعد اب نیچے گر رہا تھا ۔۔۔۔ثریا نے سکھ کا گہر ا سانس لیا ۔۔۔۔اتنے میں ایک میسج کی آواز آئی تھی ۔۔جوزف ثریا کو اتار کر اپنے بیگ کی طرف بڑھا ۔۔فون پر میسج دیکھ کر جوانا سے بولا راجہ کا میسج ہے ۔۔۔کچھ ایمرجنسی ہے شاید ۔۔۔۔۔
ثریا نے باہر کو نکلنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔مگر جوزف کا ہاتھ دوبارہ بیگ میں گیا تھا ۔۔اور اب کی بار پسٹل نکلی تھی ۔۔۔۔۔نشانہ بے خطا تھا ۔۔۔اور ثریا کی گردن کے آر پار ایک سوراخ بن چکا تھا ۔ثریاعرف مالا کا اختتام ہو چکا تھا۔۔۔۔اتنے میں فون کی گھنٹی بجی ۔۔۔جوزف نے پسٹل جوانا کی طرف پھینک کر کہا کہ یہ عمارت کلئیر کر دو۔۔۔۔جوانا تیزی سے باہر نکلا ۔۔۔۔اور جوزف نے فون کان سے لگا لیا ۔۔۔۔دس منٹ بعد عمران وانا ائیر بیس پر اتر رہا تھا۔۔۔۔۔جوزف نے اپنا بیگ اٹھا یا اور تیزی سے اپنی گاڑی کی طرف بڑھتا چلا گیا ۔۔۔عمران کو لے کر اسے راجہ کی طرف پہنچنا تھا۔۔۔۔۔۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رات کے نو بجے تھے ۔۔میٹنگ شروع ہو چکی تھی ۔۔۔اور میں بھی پوری طرح سے تیار تھا ۔ ۔۔پہرہ داروں کی ڈیوٹیا ں تبدیل ہو گئیں تھی ۔۔۔۔۔دن کے پہرہ دار سونے جا رہے تھے ۔میں نے ان کو گھر جانے کا کہا کہ کل آپ لوگ آ جائیں ۔۔آج کے لئے ہم کافی ہیں ۔۔۔وہ مطمئن ہو کر گھر روانہ ہو گئے ۔ ۔۔۔رات کے پہرہ دار کھانا کھا کر آچکے تھے ۔۔۔میں نے وائیرلیس پر سب کی پوزیشن چیک کی ۔۔۔سب حاضر تھے ۔۔۔۔یہ کل آ ٹھ لوگ تھے ۔۔تین لوگ عمارت کی چھت پر اسنائپر لئے ہوئےتھے ۔۔۔عمارت کی چھت پر جانے کے لئے بیک سائیڈ کا ایک راستہ بنایا گیا تھا ۔۔جبکہ سیکنڈ فلو ر مکمل طور پر اوپر اورنیچے سے بند ہو چکا تھا ۔۔۔۔اب نہ کوئی اوپر سے سیکنڈ فلور پر جا سکتا تھا ۔۔اور نہ ہی نچلی طرف سے ۔۔۔عمارت کے سامنے کمپاؤنڈ میں گاڑیاں کھڑی تھیں ۔۔جبکہ کمپاؤنڈ کا مین دروازہ بھی بند کر دیا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔بیک سائیڈ پر دو بندے پہرے پر تھے ۔۔جبکہ سامنے کی طرف تین بندے تھے ۔۔۔۔میں نے چاروں طرف کا ایک چکر لگایا ۔۔۔اور پھر واپس اپنے مانیٹرنگ روم میں آ کر بیٹھ گیا ۔۔۔۔حرکت میں آنے کا ٹائم آ گیا تھا ۔۔۔میں نے اپنا لباس تبدیل کر لیا ۔۔کچن سے قہوہ بن کر پہلے میرے لئے آیا تھا ۔۔۔میں نے تین قہوے کے کپ اور رکھ کر کہا کہ یہ میں اوپر لے جا رہا ہوں باقی تم نیچے بانٹ دینا ۔۔۔میں نے ایک پلیٹ میں قہوے رکھے اور عمارت کی بیک پر چلا گیا ۔۔۔رستے میں بے ہوشی کی دوا ملا چکا تھا ۔۔۔۔۔اوپر جا کر تینو ں کو قہوے دئے وہ بھی حیران تھے کہ میں خود قہوے لایا ہوں ۔۔قہوے دے کر میں نے چھت کا چکر لگایا ۔۔ایک طرف کے کمرے کی لائٹ جل رہی تھی ۔۔۔۔مجھے اندازہ ہوا کہ اسی طرف میٹنگ چل رہی ہے ۔۔کچھ دیر کے بعد اوپر کے تینوں اسنائپر بے ہوش ہو چکے تھے ۔۔میں نیچے گیا اور اپنا بیگ لے آیا ۔۔میرے پاس پوری رات کا ٹائم تھا ۔۔میں نے رسی اور آنکڑا نکال لیا تھا ۔۔۔اپنی بیلٹ سے رسی کو منسلک کرنے کے بعد میں نے آنکڑاچھت پر فکس کر دیا ۔۔۔۔اور ساتھ ہی دیوار پر پاؤں جمائے میں نیچے اترنے لگے ۔۔۔کچھ ہی دیر میں کھڑکی کے قریب آ چکا تھا ۔خصوصی مائکرو فون کھڑکی کے ہول کی طرف سیٹ کرکے میں نے ہیڈ فون کان سے لگادیا تھا۔۔اور اب کلئیر آواز کے ساتھ یہ سب ریکارڈ اور میں سن بھی رہا تھا ۔۔۔۔۔بڑی سی میز کے سامنے را کا چیف میرے سامنے تھا۔۔جس کے ساتھ آئی بی کاچیف بیٹھا ہو ا تھا ۔۔اور دوسرے کل شام آئے ہوئے آفیسر تھے ۔۔جبکہ دوسر ی طرف غزالہ اور وہ دونوں نام نہاد انجینئر بیٹھے ہوئے تھے ۔۔۔را کا چیف غزالہ کو پوجا کے نام سے پکار رہا تھا۔۔۔اس نے ثریا کی کارگردگی پوچھی تھی ۔۔۔ثریا کا اصل نام مالا تھا۔۔۔۔اور اب پوجا بڑی تفصیل سے اسے مالا کی کارگردگی سنا رہی تھی کہ کیسے اس نے ذہنی معذوروں کواکھٹا کر کے انہیں خود کش بمبار کے لئے تیار کیا تھا ۔۔۔جبکہ دوسری طرف کم عمر لڑکوں کو ذہنی تربیت کے ساتھ جسمانی تربیت کے لئے اسے انسٹرکٹر مل گئے تھے ۔۔اور اگلے ہی ہفتے یہ ٹارگٹ پر حملہ کے لئے تیار تھے ۔۔۔را کا چیف بار بار سرجیکل اسٹرائک کا لفظ استعمال کررہا تھا ۔۔موجودہ حالات میں جس طرح پوری دنیا میں انڈیا اکیلا ہو چکاتھا ۔۔۔وادی کاشمیر میں اپنے بے پناہ ظلم کی وجہ سے وہ ہر جگہ بری طرح زلیل ہو رہا تھا ۔۔یہاں تک اس کے اپنے لیڈر بھی اس پر انگلی اٹھار ہے تھے ۔۔اور اب یہ سرجیکل اسٹرائک ہی اس کی عزت بچا سکتے تھے ۔۔۔۔را کے چیف نے مالا کے لئے بھاری مالیت کے چیک اوراس کے پرو موشن کا بھی اعلان کیا ۔۔۔اس کے بعد چیف نے پوجا کو پاکستان کے مختلف شہروں میں ٹارگٹس لکھوانے شروع کر دیے ۔۔۔جس کو سن کر میرے تن بدن میں آگ لگتی جا رہی تھی ۔۔۔۔پوجا اپنے سامنے رکھی فائل پر سب نوٹ کرتی جا رہی تھی ۔۔۔اگلے دو گھنٹے تک یہ میٹنگ چلتی رہی تھی ۔۔۔میں ایک مرتبہ اوپر کا چکر لگا کر آچکا تھا ۔۔سب اوکے تھا ۔۔۔میٹنگ ختم ہونے لگی ۔۔۔اور پھر شراب کا دور شروع ہوا ۔۔۔پوجا اپنے ہاتھ سے سب کو سرو کر رہی تھی ۔۔۔۔۔اس کے بعد چیف نے اپنے جانے کی اعلان کیا ۔۔۔۔میں ایک دم بوکھلا گیا ۔۔پوجا نے تو کل تک ان کے رکنے کا بتایا تھا ۔۔مگر یہ تو آج رات ہی واپسی پر بضد تھے ۔۔۔۔۔اور پھر میرے سامنےہی را کے چیف نے ہیلی کاپٹر کے لئے فون کیا ۔۔۔۔۔میرے پاس ٹائم بہت کم تھا ۔۔ایک بار یہ لوگ ہاتھ سے نکل جاتے تو پھر کبھی ہاتھ نہ آتے ۔۔۔۔۔میں تیزی سے اوپر چڑھا اور چھت پر پہنچا ۔۔۔بیگ سے ایس ایم جی اٹھاتے ہوئے پیچھے کندھے پر پہن لی ۔۔پسٹل اور ہینڈ گرنیڈ اٹھاتے ہوئے پاؤچ پر لگا دئیے ۔۔۔۔پلان بنانے کاٹائم نہیں تھا۔۔اب بس آن دی اسپاٹ فیصلہ کرنا تھا ۔۔۔میں نے خصوصی فون پر ایک میسج سینڈ کیا ۔۔۔اور تیار ہونے لگا۔۔۔
میں فی الحال انڈین کمانڈوز سے مڈبھیر نہیں چاہ رہا تھا۔۔۔میرے اندازے کے مطابق یہ کمانڈوز آدھے تھرڈ فلور کی طرف ہو ں گے اور آدھے نیچے فرسٹ فلور کی طرف بیٹھے ہوں گے ۔۔۔اگر میں اسی کھڑکی سے اندر داخل ہو جاتا ہو تو را کے چیف کو اڑایا جا سکتا تھا ۔۔۔میں نے پسٹل ہاتھ میں لی اور رسی سے نیچے اترنے لگا ۔۔۔۔۔جلد ہی میں کھڑکی کے اوپر کھڑا ہوا تھا ۔۔۔۔میرے دل کی دھڑکن میرے کانوں میں سنائی دے رہی تھی ۔۔۔۔میں نے سائلنسر لگے پسٹل سے کھڑکی پر تین چار فائر اکھٹے کیے ۔اور سوراخ سے۔۔ہینڈ گرنیڈ کی پن کھینچ کر اندر اچھال دیا ۔۔۔۔۔چند ہی سیکنڈ میں ایک دھماکے کی آواز آئی ۔۔۔کھڑکی کا شیشہ چکنا چور ہو چکاتھا ۔۔اور اندر سے چیخنے اور چلانے کی آواز آئی ۔۔ساتھ ہی میں نے رسی سے جھولتے ہوئے اندر جمپ کی ۔۔جمپ کے ساتھ ہی میں رول ہوا تھا اور قریب ہی اوٹ میں ہو گیا ۔۔۔ایک جھلک میں میں نے دیکھ لیا تھا کہ کرسی اور ٹیبل الٹے ہوئے تھے ۔۔جن کے پیچھے را کا چیف اور باقی لوگ پناہ لیے ہوئے تھے ۔۔۔میں نے اوٹ سے ہوتے ہوئے ٹیبل سے جھانکتے ہوئے سر پر سنگل فائر کیے ۔۔۔وہ اوغ کی آواز نکالتا ہوا گرا تھا ۔۔۔اتنے میں دروازہ کھلا اورکمانڈوز اندر داخل ہوئے ۔۔۔آتے ہیں انہوں نے میرے ستون پر ایک برسٹ مارا تھا ۔پلستر کا کافی حصہ ہوا میں اچھلا ۔۔۔کمانڈوز نے آتے ہیں ان لوگوں کو اپنی اوٹ میں باہر نکالنا شروع کر دیا تھا ۔۔یہ دیکھ کر میں نے ہاتھ باہر نکلا اور پسٹل کا رخ اس طرف کرتے ہوئے بٹن دبا دیا ۔دو چیخیں اور ابھری تھیں ۔۔۔اور اب کی بار میں نے پوجا کی چیخ صاف سنی ۔۔۔۔۔ساتھ ہیں ایک اور برسٹ ستون پر پڑا تھا ۔۔۔میرے منہ سے ایک کراہ نکلی ۔۔۔ایک گولی میرے بازو کو چھیدتی ہوئی نکل گئی تھی ۔۔۔اب یہاں رکنا مشکل تھا ۔۔سامنے کھڑکی تھی ۔۔۔اور رسی بھی جھول رہی تھی ۔۔۔میں نے تیزی سے دوڑ لگائی اور کھڑکی پر پاؤں رکھتا ہوا رسی سے جھول گیا ۔۔اور ساتھ ہی اوپر کی طرف چڑھنا شروع کر دیا ۔۔۔میرے پیچھے فائر ہوئے تھے ۔۔مگر خوش قسمتی سے کسی گولی نے نہیں چھو ا۔۔۔میں تیزی سے اوپر پہنچااوررسی بھی اوپر کھینچ لی ۔۔۔۔ساتھ ہی پسٹل رکھتا ہوا ایس ایم جی نکال لی ۔۔۔اور سیڑھیوں کی طرف بھاگا۔۔۔۔ایک سائیڈ کے اسٹیپ میں جمپ کرتا ہوا اترا تھا ۔۔۔اب سیکنڈ فلور کے ہال کی اوپر سیڑھی پر پوزیش سمبھال چکا تھا ۔۔وہی ہوا تھا ۔۔کمانڈوز کھڑکی سے پلٹ کر واپس اوپر جانے کے لئے آئے تھے ۔۔مگر میں پہلی ہی تیار تھا ۔۔پہلا برسٹ کے ساتھ ہی سامنے والے دو کمانڈوز نیچے گر ے تھے ۔۔۔میں صر ف ہیڈ شاٹ کی کوشش میں تھا ۔۔۔سینے پر سب کے بلٹ پروف جیکٹ تھی ۔۔تیسرا کمانڈو اوٹ لینے بھاگا تھا کہ پیچھے سے گولیاں اس کے جسم میں کئی سوراخ کر گئی تھیں ۔۔میں نے ہال میں دیکھا پوجا اور اس کے ساتھ کے دونوں ایجنٹ اذیت زدہ چہروں کے ساتھ پڑے ہوئے تھے ۔۔جبکہ را اور آئی بی کاچیف اپنے ایک ساتھی کے ساتھ فرسٹ فلور پر تھا ۔۔ساتھ ہی پانچ کمانڈوز بھی زندہ تھے ۔۔۔میں واپس چھت پر پہنچا اور اسنائپر سنبھال لی ۔۔بیک سائیڈ پر مقامی گارڈ کھڑے تھے ۔۔سب سے پہلے ان کو نشا نہ بنایا ۔۔۔اس کے بعد سامنے والے گارڈ زکو ۔۔اتنے میں میں نے ہیلی کاپڑ کی آواز سنی تھی ۔۔۔جو تیزی کے ساتھ قریب آتی جا رہی تھی ۔۔۔میں نےایک لمحے کو سوچا اورپھر اسنائپر کارخ ہیلی کاپڑ کی طرف کر دیا ۔۔پہلا فائر پائیلٹ کی سائیڈ پر کیا ۔۔۔اور پھر پیٹرول ٹینک پر ایک کے بعد ایک فائر ۔۔ایک زبردست دھماکے کے ساتھ آگ کا گولا نکلا اور ہیلی کاپٹر چکراتا ہوا گرنے لگا۔۔۔پیچھے آتا ہوا ہیلی کاپڑ یہ دیکھ کر مڑا اور واپس ہو گیا۔۔۔۔میرے بازو سے بہتے خون بڑھ رہا تھا ۔اور ہاتھ سن ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔۔میں نے کپڑا لے کر اسے باندھنے کی کوشش کی ۔۔۔۔کچھ دیر کے لئے خون کا اخراج رک گیا ۔تھا ۔۔میں چھت کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ۔۔اوپر کے اسنائپر والے آدمی ہوش میں آنا شرو ع ہو گئے تھے ۔۔۔میں نے پسٹل نکال کر انہیں بھی راہ عدم روانہ کیا ۔۔۔۔۔اور کچھ دیرٹیک لگائے بیٹھا رہا ۔۔۔پسٹل ری لوڈ کر میں اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔چھت سے نیچے دیکھنے لگا۔۔۔۔اور بے اختیار نیچے بیٹھ گیا ۔۔۔کمانڈوز باہر کمپاؤنڈ میں پوزیشن سمبھال چکے تھے ۔۔۔۔۔تین چار برسٹ ایک ساتھ پڑے تھے ۔۔چھت کا وہ حصہ اکھڑنے لگا ۔۔۔۔میں بیٹھے بیٹھےسیڑھی سے نیچے کی طرف جانے لگا۔۔۔۔۔ہینڈ گرنیڈ نکال کر ہاتھ میں پکڑ لیے ۔۔۔دوسرے فلور سے نیچے ہی مجھے کپڑے کی ایک جھلک نظر آئی تھی ۔۔۔میں نے ہینڈ گرنیڈ کی پن کھینچی اور نیچے چھوڑ دیا ۔۔۔ٹن کی آواز کے ساتھ گرنیڈ نیچے گرا اور پھر ایک دھماکے کی آواز آئی ۔۔ایک چیخ میں نے واضح طو ر پر سنی تھی ۔۔۔۔ساتھ ہی فائرنگ کا ایک تیز برسٹ پڑا ۔۔۔۔دو سے تین رائفلز میری طرف گرج رہیں تھی ۔۔۔۔۔ایک گولی میرے ٹانگ میں لگی تھی ۔گن وہیں چھوڑ کر ۔۔میں واپس اوپر کی طرف بڑھا ۔۔اور خود کو کھینچتا ہوا اوپر پہنچا۔۔۔۔۔۔۔چھت سے جھانکا تو کمانڈوز باہر کھڑی گاڑی کے قریب پوزیشن لیتے ہوئے را کے چیف اور آئی بی چیف کو لئے گاڑی میں بٹھا رہے تھے ۔۔۔۔۔اسنائپر استعمال ہو سکتی تھی ۔۔مگر اس کے لئے مجھے سر اٹھا نا پڑتا ۔۔۔اور یہ ہو نہیں سکتا تھا ۔۔۔میں ایک ٹانگ پر زور دیتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔ ۔۔ان دونوں چیف کو میں چھوڑ نہیں سکتا تھا ۔۔۔چاہے جان ہی کیوں نہ دینی پڑی ۔۔۔میں چھت کے کنارے کی طرف بڑھا ۔۔۔ساتھ ہی نیچے سے جی ایل (گرنیڈ لانچر) سے فائر ہوئے تین چار گرنیڈ چھت پر گرے ۔۔۔۔۔میں رسی لئے کھڑکی کی سائیڈ پر بھاگا ۔۔۔۔اور رسی کاآنکڑا چھت پر ٹانگتے ہوئے نیچے کودا ۔۔زخمی ہاتھ سن ہو چکا تھا ۔۔۔ ایک ہاتھ سے بڑی مشکل سلپ ہوتاہوا میں زمین پر پہنچا ۔۔۔اور پسٹل سمبھالتے ہوئے عمارت کے سامنے جانے لگا۔۔۔۔۔۔گاڑی مڑی ہوئی کمپاؤنڈ سے نکل رہی تھی ۔۔۔۔اور گاڑی کے دروازے سے کمانڈوز پیچھے کو گن نکالے کھڑے تھے ۔۔۔مجھے دیکھتے ہی ایک برسٹ ان کی گولیوں سے نکلا تھا ۔۔ایک گولی کندھے سے نکلی اور دوسری سینے میں لگی ۔۔میں بے دم ہو کر نیچے گرپڑا۔۔۔کمپاؤنڈ کے گیٹ سے گاڑی کا اگلا حصہ نکل رہا تھا ۔۔۔اور میں بے بسی سےانہیں جاتا ہوا دیکھ رہا تھا ۔۔۔تبھی ایک دیوہیکل جیپ چنگھاڑتی ہوئی سامنے نمودار ہوئی تھی ۔۔۔۔اپنی پوری اسپیڈ سے سامنے والی گاڑی سے ٹکرائی ۔۔۔اور اسے دھکیلتی ہوئی واپس اسی جگہ لے آئی ۔۔۔۔میں نے پچھلے حصے سے جوانا کو مشین گن لئے ہوئے اترتے ہوئے دیکھا۔۔۔دونوں ہاتھوں میں ایک ایک مشین گن لئے ہوئے جوانا کودا تھا ۔۔گولیوں کی بیلٹ اس کے کندھے سے پیچھے کو جھول رہی تھی ۔۔۔۔اور پھر گولیوں کی بارش شرو ع ہوئی ۔۔۔کمانڈوز نے باہر نکلنے کی کوشش کی مگر شہد کی مکھی کے چھتے کی طرح سینکڑوں سوراخ لئے جیپ کی کھڑکی سے باہر لٹک گئے۔۔۔۔جوانا نے چاروں طرف سے جیپ کو جالی دار بنا دیاتھا ۔۔اور اب اندر شاید ہی کوئی جاندار بچاتھا ۔۔۔۔تبھی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے جوزف نے اپنی دیوہیکل جیپ کو آگے بڑھا یا اور زبردست دھماکے سے سامنے والی گاڑی کو گرا دیا ۔۔۔۔۔جواناکی فائرنگ اب تک جاری تھی ۔۔۔ گاڑی نے آگ پکڑ لی تھی ۔۔میرے وطن کو سرجیکل اسٹرائک کا نشانہ بنانےوالے اپنی ہی آگ میں جل رہے تھے ۔۔اور اپنی قوم کو پیغام دے رہے تھے کہ کبھی اس ملک کی طرف میلی نگاہوں سے مت دیکھنا۔۔۔۔۔ 
جوزف کے ساتھ والی سیٹ کا دروازہ کھلا تھااور میں نے عمران کو اترتے ہوئے دیکھا جو اپنی بے مثال مسکراہٹ کے ساتھ میری طرف بڑھ رہا تھا۔۔۔اس کی نگاہوں میں میرے لئے جو بھی تھا وہ دیکھ کر میری آنکھیں سکون سے بند ہوتی چلی گئیں۔۔۔۔۔
ختم شد ۔۔۔۔۔۔

ایک تبصرہ شائع کریں for "شاطر"