میرا نام دانش ہے 33 سال عمر ہے اور اب یورپ میں ہوں اور اچھی کمپنی میں نوکری کرتا ہوں، اب آتے ہیں کہانی کی طرف،
یہ سب 2003 سے شروع ہوا جب میں نویں جماعت کا طالبعلم تھا، ایک پرائیویٹ سکول میں ابو نے میرا داخلہ کروایا، ویسے تو اس عمر میں سیکس سے نا واقف ہونا عام سی ہی بات ہوتی ہے
اور حسب دور میں بھی سیکس سے نا واقف ہی تھا اور دوسرا سکول کا ماحول بھی کافی سخت تھا کیونکہ وہ سکول اس وقت ضلع کا سب سے ٹاپ سکولوں میں جانا جاتا تھا اور پورے ضلع میں اسی سکول میں کوئی نہ کوئی طالبعلم بورڈ میں اول پوزیشن پر رہا کرتا تھا
ہمارے علاقے کے کافی بچے اسی سکول میں زیر تعلیم تھے اور مجھے بھی وہاں داخلہ پڑا کیونکہ پڑھائی میں میرا ذہن بھی بہت چلتا تھا، نئے سکول میں پہلا دن جیسا سب کا گزرتا ہے میرا بھی ویسا ہی گزرا، کوئی خاص بات نہیں ہوئی ، ایک ڈسک پر 3 طالبعلم بیٹھا کرتے تھے چونکہ میں نیا نیا تھا اسی لئے مجھے آگے بٹھایا جاتا تھا، میرے ساتھ دو اور لڑکے بیٹھتے تھے ان میں سے ایک (اجمل) دوسرے شہر کا تھا جو ہاسٹل میں رہائش پذیر تھا اور دوسرا لڑکا(عمران) ہمارے ہی شہر ملتان کا تھا بس علاقے کا فرق تھا،ہماری آپس میں بات چیت کے علاوہ دوستی بھی گہری ہوتی گئی، اجمل گاؤں کا رہنے والا تھا اسی لئے تھوڑا شرمیلا قسم کا انسان تھا اور پڑھائی درمیانہ تھا جبکہ عمران بہت ہی حرامی ذہن کا مالک تھا اور پڑھائی میں بھی بالکل نالائق تھا، اور ان دونوں کے مقابلے میں میرا پڑھائی میں بہت دماغ چلتا تھا، کلاس میں ڈیسک پر درمیان میں عمران بیٹھتا تھا اور ایک سائیڈ میں اور دوسری سائیڈ اجمل، عمران درمیان مین بیٹھ کر ہم دونوں کو بہت تنگ کیا کرتا تھا اور وہ امیر گھرانے سے تعلق رکھتا تھا تو اس کے گھر میں کمپیوٹر بھی تھا اور گیمز وغیرہ کی معلومات اور سیکس کی معلومات بھی بہت تھی اس کو اور کئی بار وہ کہہ چکا تھا اپنے گھر آنے کے لئے لیکن اجمل کو ہاسٹل سے باہر نکلنے کی اجازت نہ تھی اور نہ ہی مجھے سکول کے بعد کسی اور جگہ جانے کی اجازت تھی کیونکہ ہمارے گھر کا ماحول بھی بہت ہی سخت اور مذہبی قسم کا تھا، پھر ایسا ہوا کہ سکول کی طرف سے سپورٹس کا دورانیہ شروع ہوا جو 3 دن کے لئے تھا اور میری سپورٹس میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی تو میں پیچھے ہی رہا میری دیکھا دیکھی اجمل اور عمران بھی پیچھے رہے وہ پہلا موقع تھا جب ہمیں عمران کے گھر جانے کا اتفاق ہوا، سپورٹس کے دنوں میں سکول کے ساتھ ایک گراونڈ تھا تو پورے سکول طالبعلم وہیں چلے جاتے چونکہ ہمارا کیمپس صرف 2 ہی کلاسوں کے طالبعلموں پر مشتمل تھا لیکن سیکشن بندی بہت زیادہ تھی تو کل ملا کر نویں اور دسویں کے طالبعلموں کی تعداد 700 سے 800 ہو گی، اسمبلی کےبعد سب طالبعلم سکول کے پیچھے گراونڈ میں چلے جاتے تھے اور کرکٹ وغیرہ اور دوسرے بہت سے کھیل ہوتے تھے وہ سب مزے کرتے تھے اور ہم تین وہاں بس برائے نام ہی بیٹھ بیٹھ کر ٹائم پاس کرتے تھے، پہلا دن تو گزر گیا لیکن دوسرے دن ہم 2 سے 3 گھنٹے بیٹھ بیٹھ کر تھک گئے تو عمران نے کہا چلو اس کے گھر چلتے ہیں، اجمل اور میں ڈر بھی رہے تھے لیکن دل بھی کر رہا تھا جانے کو اور اوپر سے موسم بھی سردی کا تھا، چونکہ میں پڑھائی میں تھوڑا ذہین بھی تھا اور عمران کے ساتھ رہ رہ کر تھوڑا حرامی پنے میں بھی دماغ چلنے لگا تھا تو میں عمران کو کہا پی ٹی سر کو میں راضی کر کے آتا ہوں اور یہاں سے نکلتے ہیں، عمران اور اجمل پہلے تو اپنے اپنے مشورے دیتے رہے لیکن میں نے ان کی سن لی لیکن کرنی تو اپنی ہی تھی ، سو میں پی ٹی سر کے پاس گیا اور بولا سر مجھے تھوڑا پڑھائی کرنی اور سپورٹس میں ویسے ہی دلچسپی نہیں ہے تو ہمارا پروگرام بنا ہے کہ ہم لوگ( اجمل،عمران اور میں )واپس کلاس میں جا کر اپنا پرانا سلیبس دوہراتے ہیں، پی ٹی ماسٹر میری طرف دیکھ مسکرائے اور مجھے سر پر پیار دے کر شاباش دی اور کہا کہ بیٹا آپ سکول واپس تو نہیں جا سکتے بہتر ہو گا اگر پڑھنا ہی کرنی ہے تو گھر چلے جائیں، میں نے پی ٹی سر کا شکریہ ادا وہاں سے ہم تینوں پی ٹی سر کی اجازت لے کر نکل گئے اور خوش بھی تھے، لیکن ڈر بھی تھا کہ اگر گھر پتا چل گیا تو مار الگ پڑنی ہے لیکن پھر بھی ہم عمران کے گھر طرف نکل پڑے، عمران بائیک پر سکول آتا تھا اس نے اپنے ساتھ اجمل کو بٹھایا اور میں نے اپنی سائیکل نکالی اور عمران کے پیچھے پیچھے اس کے گھر کی طرف چلتے گئے، 20 منٹ تک ہم اس کے گھر کے باہر تھے، عمران نے اپنے گھر کے گیٹ کے ساتھ لگی بیل کو دبایا تو تھوڑی ہی دیر میں اندر سے نسوانی آواز آئی کون، عمران کے جواب پر گیٹ کے سائیڈ کا چھوٹا دروازہ کھلتا ہوا محسوس ہوا لیکن وہ تھوڑا ہی کھلا ہو گا پھر وہیں رک گیا، عمران بائیک سے اتر کر اندر چلا گیا پھر کچھ باتوں کی آواز آئی پھر خاموشی ہو گئی کچھ ہی پل کے بعد چھوٹا گیٹ بند ہوا اور ساتھ اٹیچ بڑا گیٹ کھل گیا اور عمران نمودار ہوا اور اپنی بائیک اندر لے کر چلا گیا اور ہمیں بھی اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا ہم بھی اپنا اپنا بیک اٹھائے اور میں اپنی سائکل سمیت گیٹ کے اندر داخل ہوا میں نے اپنی سائیکل کو عمران کی بائک کے ساتھ سٹینڈ پر لگایا یہ ایک گیراج تھا اور وہاں گاڑی بھی کھڑی ہوئی تھی اور میں گیراج میں کھڑا ادھر ادھر گھر کو دیکھنے لگا یہی حال اجمل کا بھی تھا کیونکہ وہ گاؤں کا رہنے والا تھا، بظاہر تو میں بھی شہر کا رہنے والا تھا لیکن مڈل کلاس فیملی سے تھا ابو کی ایک چھوٹی سی دکان تھی مین روڈ پر اور دو بھائی مجھ سے بڑے تھے وہ ابو کے ساتھ دکان پر ابو بھی مدد بھی کرواتے تھے چھوٹا سا گھر تھا ہمارا دو کمروں پر مشتمل اور اپنی زندگی مست گزر رہی تھی، اتنے میں عمران کی اواز سے میں چونکہ جو ہمیں اپنے ڈرائنگ روم کا راستہ دکھا رہا تھا میں اور اجمل گیٹ کے ساتھ ہی ایک روم میں اندر چلے گئے جس کا دروازہ باہر سے بھی تھا لیکن عمران ہمیں اندرونی راستہ سے ڈرائنگ روم لے گیا، اندر بہت اعلی قسم کے صوفے اور افغانی کارپٹ بچھا ہوا تھا ایک سائیڈ پر کونے میں بہت ہی خوبصورت قسم کی ٹیبل تھی اور بہت ہی خوبصورت طریقے سے اس پر کمپیوٹر کو سجایا ہوا تھا اور ٹیبل کے نیچے میڈیم سائز کے سپیکر بھی رکھے ہوئے تھے جسے بوفر سسٹم کہا جاتا ہے یہ سب دیکھ کر عمران کی امیریت پر رشک ہونے لگا، خیر ہم نے اپنے جوتے اتارے کر سائیڈ میں رکھے اور صوفوں پر بیٹھ گئے،اتنے مین عمران بھی اندر آگیا اور پوچھنے لگا کیسا لگا اس کا گھر ہم دونوں نے یک زبان کہا، بہت ہی اچھا ہے،پھر اس نے بتایا کہ وہ اکلوتا بیٹا ہے اور اس کی دو بہنیں ہیں امی ابو دونوں ڈاکٹر ہیں اور ان کا اپنا کلینک ہے اور بڑی بہن ایک بنک میں منیجر کی پوسٹ پر ہے دوسری بہن ایم بی بی ایس کی پڑھائی کر رہی ہے میڈیکل کالج میں چونکہ اس کی ایوننگ کلاس تھی اسی لئے وہ 1 بجے تک گھر ہوتی ہے پھر کالج چلی جاتی ہے اور شام کو 7 بجے تک آتی ہے، امی ابو اپنے کلینک کو ٹائم دیتے ہیں اسی لئے وہ گھر بس رات میں ہی آتے ہیں اور بڑی بہن شام تک 5 بجے آ جاتی ہے بنک سے، اور سب کے پاس اپنی اپنی گاڑی ہے، خیر گفتگو ختم ہوئی تو روم کا دروازہ کھلا اور ایک ادھیڑ عمر خاتون ایک ٹرے ہاتھ میں لئے اندر داخل ہوئی جس میں چائے کے تین کپ اور کچھ لوازمات تھے وہ رکھ کر چلی گئی تو عمران نے بتایا کہ یہ ماسی ہے ہمارے گھر خانساماں کا کام کرتی ہے اور بہت ہی لذیذ کھانے بھی پکاتی ہے، چائے پیتے پیتے عمران نے کمپیوٹر بھی آن کر دیا اور سامنے ایک کرولنگ چیئر پر بیٹھ گیا اور شرارتی انداز میں پوچھنے لگا کیا دیکھو اور سنو گے، میں نے کہا یار کچھ بھی لگا دے تیرا کمپیوٹر ہے تو ہی جانتا ہے سب اجمل نے بھی میری ہاں میں ہاں ملائی، عمران نے پہلے کچھ گانے سنوائے پھر گیم کھیلنے لگا اور ہم بس دیکھ ہی سکتے تھے سو دیکھتے رہے، اتنے میں دروازہ بجا اور عمران اپنی سیٹ سے اٹھ کر دروازے کی طرف گیا تو باہر پھر وہی نسوانی آواز آئی کچھ باتیں ہوئی پھر عمران واپس آگیا اور بہت ہی خوش لگ رہا تھا، پوچھنے پر پتا چلا کہ اس کی بہن کالج کےلئے نکل گئی ہے اب اس کی بادشاہی ہے گھر میں کوئی بھی نہیں ہے سوائے کام والی ماسی کے اور وہ ہمیں تنگ نہیں کرے گی، اچانک سے عمران نے گیم کو بند کیا اور کمرے کا دروازہ اندر سے لاک کیا اور کھڑکیوں کے پردے وغیرہ سیٹ کر کے واپس سیٹ پر آ کر بیٹھا اور ہمیں بھی نزدیک والے صوفوں پر بیٹھنے کا اشارہ کیا، اس کی بات مان کر ہم بھی اس کے قریبی صوفے پر بیٹھ گئے، عمران نے ہماری طرف ایک شیطانی مسکراہٹ سے دیکھا پھر کمپیوٹر ٹیبل کی دراز سے کچھ سی ڈیز نکالی اور ایک ڈسک کو سی پی یو کی سی ڈی پلئیر میں ڈال دیا اجمل اور میں دونوں اس کی بس حرکتوں کو ہی دیکھ رہے تھے، اتنے میں ایک ویڈیو مانیٹر سکرین پر چلنا شروع ہوئی، فلمیں تو کافی دیکھ رکھی تھیں لیکن اس فلم کا شروع ہونے کا انداز ہی الگ تھا، ٹایٹل میں ہی ایک ننگی لڑکی دکھائی دی اور مجھے مانوں ایک جھٹکا سا لگا اور میرے منہ سے اچانک نکلا ابے یہ کیا، تو عمران بولا بیٹا ٹھنڈ رکھ ابھی بہت کچھ ہے، مووی پلے ہوئی تو سین سامنے تھا تین لڑکے روم میں بیٹھے پڑھائی کر رہے تھے اتنے میں ایک لڑکی اندر آئی جو شاید کسی ایک کی بہن ہوگی ہم تینوں ہی مانیٹر سکرین کی طرف محو تھے اتنے میں ایک لڑکا وہاں سے باتھروم کا پوچھ کر روم سے نکلتا ہے اور وہ لڑکی اس کو بولتی ہے کہ اس کے پیچھے آو وہ بتاتی ہے وہ اس کےپیچھے نکلتا ہے لڑکی اس باتھ روم کا راستہ دکھاتی ہے وہ لڑکا جیسے ہی باتھ روم جا کر دروازہ بند کرنے لگتا ہے تو لڑکی اچانک سے دروازے کے پاس آ کر کچھ کہتی ہے چونکہ وہ انگلش میں بات کر رہے تھے اور عمران نے والیم بھی سلو کیا ہوا تھا تو بس اتنا ہی سمجھا کہ وہ لڑکی اس کو پیشاپ کرتے ہوے دیکھنا چاہتی ہے اور وہ لڑکا کچھ شرماتے ہوئے اپنی پینٹ کی زپ کو کھولتا ہے اور ہولے ہولے اپنا اوزار باہر نکالتا اور لڑکی بے شرم ہو کر اس کا اوزار دیکھنے میں محو ہوتی ہے وہ لڑکا اپنا ہتھیار نکال کر کموڈ کی طرف کر کے پیشاپ کرنے لگتا ہے اتنے میں لڑکی اس کے پاس جا کر نیچے کی طرف بیٹھ جاتی ہے اور اس کے لنڈ کو غور سے دیکھنے لگتی ہے جیسے ہی لڑکا پیشاپ کا آخری قطرہ نکالتا ہے تو لڑکی جھٹ سے اس کا لن پکڑ کے منہ میں ڈال لیتی ہے اور کسی بچے کی طرح لولی پاپ کی طرح اس کے لن کو چوسنے لگتی ہے اور لڑکا بس اپنی آنکھیں بند کئے لن چسوائی کے مزے لے رہا تھا یہ سین دیکھ کر مجھے ایسا لگا جیسے میرے پورے جسم میں جان ہی نہ ہو عجیب سی کیفیت اور خوف سا محسوس ہونے لگا دوسری طرف اجمل کا بھی یہی حال تھا لیکن عمران تو ان کاموں کا کھلاڑی تھا اس کی کیا فیلنگز ہیں نہیں معلوم لیکن اس وقت مجھ پر جو گزر رہی تھی کیا بتاوں میرے تو جسم پر چھوٹے چھوٹے دانے بننے لگے مانوں جیسے رونگھٹے کھڑے ہوں، ہوش تب آیا جب دیکھا کہ عمران نے ویڈیو کو روک کر ہماری طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا اور ہم بس مانیٹر سکرین کی طرف ہی دیکھے جا رہے تھے، تو عمران نے ہمیں ہمارے کندھے پکڑ کر جب زور سے ہلایا تو مکمل ہوش میں آئے، ورنہ ہم کونسی دنیا میں تھے خود کو نہیں معلوم تھا، جب ہوش میں آیا تو میرا گلا خشک تھا جیسے صدیوں سے پانی نہ پیا ہو اور یہی حالت اجمل کی تھی ہم دونوں کو جھٹکا تب لگا جب عمران نے ہمیں ہمارے ہاتھ کی طرف اشارہ کیا، کیونکہ میرا ہاتھ میری پینٹ کے اندر تھا اور اپنے ہتھیار کو پکڑا ہوا تھا مجھے خیال ہی نہیں رہا کہ کب میں نے زپ کھولی اور کب ہاتھ اندر ڈال کر اپنے لن کو پکڑا، اور یہی سانحہ اجمل کے ساتھ بھی پیش ہوا، عمران ہم دونوں کی حالت دیکھ کر زور زور سے ہنسنے لگا اور ہم دونوں شرمندگی کے منہ نیچے کر کے بیٹھے تھے لیکن ہاتھ ابھی بھی پینٹ کے اندر اوزار کو تھامے تھا، پھر اچانک سے ہوش آیا اور اپنا ہاتھ باہر نکالا اور پینٹ کی زیپ بند کی اور عمران سے باتھروم کا پوچھا لیکن وہ ہنستے ہی جا رہا تھا اور ہم دونوں کی حالت دیکھ کر محفوظ ہو رہا تھا خیر میں جلدی سے اٹھا اور خود ہی باتھروم تلاش کرنے کی غرض سے نکلنے لگا، ابھی دروازے تک ہی پہنچا تھا کہ اس کی آواز نے ایک اور جھٹکا دیا جس سے میں بے ہوش ہوتے ہوتے رہ گیا، میں جیسے ہی دروازے تک پہنچا تو اس کی میرےکانوں میں پڑی (بہن کو بھیجوں باتھروم میں
دوستوں زندگی کو سمجھنے کے لئے انسان پوری زندگی لگا دیتا ہے لیکن زندگی کی سمجھ پھر بھی نہیں آتی، کیونکہ ایک راستہ بھی تو نہیں ہے زندگی کا مشکل راستے ہیں پھر آسان ہو جاتے ہیں پھر عجیب بھی ہو جاتے ہیں اور پھر کچھ عجیب تر ہو جاتے ہیں، پھر وقت پتا نہیں کب کیسے اور کیوں آپ کو ایسے مشکل امتحان میں ڈال دیتا ہے کہ آپ چاہ کر بھی نہ تو اس وقت کو آگے کر سکتے ہو اور نہ ہی پیچھے، لیکن وقت تو وقت ہوتا ہے اور اپنی مرضی سے گزرتا ہے بھلے ہی آپ گانڈ کا زور بھی لگا لو، جہاں گانڈ پھٹنی ہوتی ہے وہاں پھٹ کر ہی رہتی ہے، جیسے میری پھٹی ہوئی تھی عمران کی بات سن کر ، جی ہاں ہزاروں سوال اور ان کے جواب اپنے دماغ میں خود سے بنا بیٹھا اور اس وقت میرے دماغ پر سے مووی کا سین ایسے اترا جیسے گدھے کے سر سے سینگھ اور جس بات نے گھیرا وہ تھے عمران کے الفاظ (بہن کو بھیجوں) افففف اس کے یہ الفاظ گویا کسی توپ کے گولے کی طرح مجھ پرپڑے اور مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ مجھے وہ توپ کو گولا گھائل کر چکا ہے اوراس گولے کا بوجھ میرے سینے اندر ہے اور کسی بھی لمحے میری روح پرواز کر جائے گی
میں کہاں جارہا تھا اور کیوں جا رہا تھا سب کچھ بھول گیا بس دماغ میں تھا تو یہی بات ( بہن کو بھیجوں) اور یہی کیفیت اجمل کی تھی وہ جہاں بیٹھا تھا وہیں ساکت ہو گیا اور ہم دونوں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر عمران کو دیکھی جا رہے تھے، نہیں معلوم عمران کب کرسی اٹھا نہیں معلوم عمران کب چلتا ہوا میرے پاس آیا اور مجھے کندھے سے ہلاتے ہوئے بلا رہا تھا لیکن میں کہاں تھا کہاں ہوں کیا سوچ رہا ہوں میرا دماغ بند تھا آنکھوں کے سامنے اندھیرا تھا ہوش و ہواس کھو بیٹھا تھا پھر جب عمران نے جھنجھوڑ کر مجھے ہلایا تو کچھ کچھ ہوش آنے لگا آنکھوں کی بینائی واپس آنے لگی تو دیکھا عمران ویسے ہی مسکراتا ہوا مجھے ہلا رہا تھا، دانش دانش آو تمہیں باتھروم دکھاتا ہوں تب جا کر مجھ میں کچھ جان آئی اور بس میں نے اس کو ایک نظر ہی دیکھا تو اس نے اسی روم کے دروازے کے ساتھ ایک پردے کو ہٹایا تو پردے کے پیچھے دوسرا دروازہ تھا جو باتھروم کا تھا اس نے دروازہ کھولا اور مجھے اشارہ کیا کہ اندر جاو میں بوجھل قدموں سے باتھروم گیا اور دروازہ لاک کر کے کموڈ کی طرف بڑھا اور اسے کرسی سمجھ کر پر بیٹھ گیا اور ٹیک لگا کموڈ کے پیچھے لگی چھوٹی سی ٹینکی پر سر ٹکا کر آنکھیں بند کر کے بیٹھ گیا، اور پھر وہی غلبہ طاری ہوگیا،
عمران نے ایسا کیوں کہا،
عمران کو یہ الفاظ اپنی ہی بہن کے بارے میں نہیں کہنے چاہیے تھے اجمل کیا سوچ رہا ہوگا، کیا عمران سے بات کرنی چاہیے اگر کرنی بھی چاہیے تو کیسے کروں کیا پوچھوں کہاں سے شروع کروں اور دماغ ایسے گھوم رہا تھا جیسے آٹا پیسنے والی چکی جو ہاتھ سے چلائی جاتی ہے، اور ہمت تو بچی ہی نہیں جسم میں، کتنی دیر واشروم میں رہا مجھے اندازہ ہی رہا ہوش تب آیا جب واشروم کا دروازہ بج رہا تھا اور میں کس کام کے لئے واشروم میں آیا تھا وہ بھی یاد نہ رہا میں بوجھل قدموں سے اٹھا واش بیسن سے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے ٹھنڈ میں ٹھنڈے پانے چھینٹے پڑنے سے تھوڑا ہوش میں آیا اور دروازہ کھولا تو سامنے اجمل تھا اس کی بھی کچھ ایسی ہی حالت تھی جیسی میری تھی میں روم میں آگیا تو دیکھا عمران نہیں تھا شاید اندر چلا گیا ہو گا نہیں معلوم میں وہیں صوفے پر بیٹھ کر نیم لیٹی ہوئی حالت میں آنکھیں بند کر کے پھر سوچنے لگا اتنے میں کام والی ماسی اندر آئی اور بولی چھوٹے صاحب بلا رہے ہیں کھانا لگ گیا ہے ڈائیننگ ٹیبل پر، میں نے نیم آنکھیں کھول کر اس کو دیکھا اور کہا اچھا میرا دوست آجائے باتھروم سے نکل کر پھر ہم آتے ہیں، ابھی میری بات ختم ہی ہوئی تھی کہ اجمل بھی باتھروم سے نکل آیا پھر ہم ماسی کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے ڈراینگ روم سے نکل کر گیراج سے ہوتے ہوئے ایک اور دروازے کی طرف بڑھے وہ بہت بڑا ھال تھا اور بہت ہی بڑی شیشے کی ٹیبل لگی ہوئی تھی اور ٹیبل کے چاروں طرف کرسیاں لگی ہوئی تھی ایک کارنر پر عمران بیٹھا ہوا تھا میں اس کے سامنے والی کرسی پر میں بیٹھ گیا اور میرے ساتھ ہی اجمل بیٹھ گیا ہم تینوں خاموش تھے کہ کیا کہنا ہے اور کیا کہوں کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا، اور جب نظر عمران کی نظروں سے ملی تو وہ نارمل مسکراہٹ کے ساتھ دیکھ رہا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو،پھر آخر عمران نے ہی بات شروع کی اور کھانے کا بتانے بھی لگا اور ہمیں ہماری پلیٹوں میں ڈال کر دینے لگا، وہ اپنی امیریت کے قصے سنانے لگا کہ پہلے وہ کہا رہتے تھے کیا تھے اور اب یہ وہ لیکن میرا دماغ کہیں اور ہی تھا بہت ہی بے دلی کھانا کھایا بس ایک یا دو نوالے اور عمران ہم دونوں کی حالت کو اچھے سے سمجھ چکا تھا لیکن وہ بھی اس پر بات کرنا گوارا نہیں سمجھ رہا تھا جیسے کہ شاید صحیح وقت نہیں تھا یا پھر کوئی اور باتتھی، یا اس کا تجربہ کہہ لو یا نادانی، عمران کیا بتا رہا تھا سب کچھ اوپر سے گزر رہا تھا پھر اچانک میں کھڑا ہوا اور عمران سے معذرت کی اور کہا مجھے گھر جانا ہے کیوں کہ گھر کی طرف سے ڈر بھی محسوس ہوا کہ کافی دیر سے باہر ہوں کہیں ابا سکول ہی نہ پہنچ جائے کہ بچہ گھر نہیں پہنچا، لیکن عمران نے مجھے روکتے ہوئے کہا کہ ابھی ٹائم نہیں ہوا سپورٹس چل رہے ہیں ابھی سب گراونڈ میں ہی ہوں گے کیوں پریشان ہو رہے ہو آرام سے بیٹھ جاو، بات اس کی درست تھی لیکن مجھ سے اب وہاں رکا نہیں جا رہا تھا اور یہی حال اجمل کا تھا، مجھے دیکھ کر اجمل بھی ہوشیار ہو گیا اور کہنے لگا ہاں یار میں بھی ہاسٹل نہ پہنچا تو میری کمپلین ہو جانی ہے اور سکول سے مار لگے گی ہی ساتھ میں گھر والوں سے بھی اچھی خاصی دھلائی ہونی ہے، خیر عمران کو ہار ماننی پڑی اجمل جلدی سے اپنا اور میرا بیگ اٹھا لایا میں نے عمران کو نہ ہی ہاتھ ملایا اور نہ ہی الوداع کہا بس اپنی سائیکل نکالی اور اجمل کو بٹھایا اور وہاں سے نکل گئے، میں تیزی سے سائیکل چلا رہا تھا تو مجھے سانس چڑھنے لگا تو اجمل کی آواز آئی دانش تم پیچھے بیٹھو میں چلاتا ہوں، میں نے بھی یہی مناسب سمجھا اور سائیکل روک کر اترا اور اجمل سیٹ پر بیٹھا ہلکا سا دھکا لگا کر پھر پیچھے بیٹھ گیا اجمل سکون سے سائیکل چلا رہا تھا لیکن مجھے جلدی لگی ہوئی تھی کیوں کہ پہلے اس کو سکول کے ہاسٹل میں چھوڑنا تھا پھر اپنے گھر جانا تھا اور مجھے لگ رہا تھا جیسے بہت ٹائم لگ جائے گا اور ایسا ہی ہوا 30 منٹ لگے سکول پہنچے تو دیکھا گراونڈ میں رونق ویسے ہی لگی ہوئی ہے جیسے چھوڑ کر گئے تھے تو تسلی ہوئی کچھ پھر اجمل بولا کہ چل یار کچھ کھاتے ہیں بھوک لگ رہی ہے عمران کے گھر تو کچھ کھایا بھی نہیں گیا، بات اس کی ٹھیک تھی بھوک تو مجھے بھی لگ رہی تھی، خیر وہی پاس ہی ایک ریڑھی سے چاول لئے اور کھانے لگ گئے، چاول کھا تے کھاتے ذہن میں آیا کیوں نہ اجمل سے بات کی جائے، اور وہ بھی یہی سوچ رہا تھا میرے بات شروع کرنے سے پہلے ہی اجمل بول پڑا،
اجمل: یار عمران نے کیا کر دیا کچھ سمجھ ہی نہیں آرہا،
میں: ظاہر ہے یار سمجھ تو مجھے بھی نہیں آ رہا کہہ اس نے یہ بات کیوں کہی،
اجمل: ہو سکتا ہے یار اس کے منہ سے اچانک نکل گیا ہو کیونکہ اس وقت جو مووی ہم دیکھ رہے تھے ہماری بھی کچھ ایسی ہی حالت تھی،
اجمل کی یہ بات سن کر مجھے بھی یہی لگا کہ واقع ہی یہ ہو سکتا ہے کیونکہ اس مووی میں بھی تین دوست پڑھائی کر رہے ہوتے ہیں اور یہاں ہم بھی تین تھے، مووی میں بھی بہن کمرے میں آتی ہے لیکن یہاں بہن صرف دروازے تک آتی ہے مووی میں بھی لڑکا باتھروم جاتا ہے اور یہاں میں بھی جانے لگتا ہوں تو بس جو کمی تھی وہ عمران نے پوری کی تھی اور کہہ دیا کہ بہن کو بھیجوں،
میں: بات تو تیری ٹھیک ہے شاید اس کے منہ سے نکل گیا ہو گا اسی لئے نارمل رویہ تھا اس کا، پھر اچانک بولا کہ یار پھر بھی بندہ ایسے تو نہیں کہتا اپنی بہن کے بارے میں اجمل تم کہہ سکتے ہو؟
اجمل: پاگل ہو گیا ہے کیا میں تو مر کے بھی نہیں کہہ سکتا،
میں: یہی بات اگر میری کوئی بہن ہوتی تو میں اس کو باہر کی ہوا ہی نہ لگنے دیتا، تو اس کے بارے میں یہ الفاظ بولنے سے پہلے میں مر جانا بہتر سمجھوں گا ،
اتنے میں ہمارے چاول ختم ہوئے اور وہاں سے پیدل پیدل گراونڈ کی طرف چلے گئے ابھی گراونڈ سے تھوڑا پیچھے ہی تھے ہماری کلاس کے دو تین لڑکے وہاں سے گزرے اور سلام دعا کر کے آگے نکل گئے، اتنے میں، میں نے اجمل کو بولا اچھا یار میں چلتا ہوں پھر کل ملیں گے اس نے مجھے روکنے کی کوشش کی لیکن میرا اب دل ہی نہیں لگ رہا تھا بس گھر جانا چاہتا تھا خیر اجمل کو الوداع کر کے وہاں سے گھر کی جانب نکلا 15 منٹ میں گھر پہنچا دروازہ بجایا تو امی کی ایک شاگرد نے دروازہ کھولا میں سائیکل سمیت اندر داخل ہوا سلام کیا، اور بیگ اٹھا کر کمرے کی طرف چل دیا،
ہمارا چھوٹا سا گھر تھا 2 کمرے تھے ایک میں امی ابو سوتے تھے دوسرے میں ہم تین بھائی دونوں کمروں کے آگے برآمدہ تھا اور ایک سائیڈ میں چھوٹا سا کچن، پھر آگے چھوٹا سا صحن تھا جس میں میری سائیکل اور ابو کی بائیک ہی کھڑی ہونے کی جگہ تھی پھر آگے دروازہ تھا اور دروازے کے باتھروم بنا ہوا تھا چھوٹا سا، میری امی ایک درزانی تھی اور محلے کی لڑکیاں امی کے پاس سلائی سیکھنے آتی تھیں اور ایسے ہی سارا دن چھوٹے سے گھر میں رونق لگی رہتی تھی،
میں جیسے ہی کمرے میں آیا تو میرے پیچھے امی بھی آ گئی اور کہا بیٹا خیر تو ہے سلام کرنے کے بعد میری آواز بھی نہیں سنی طبیعت تو ٹھیک ہے نا تیری اور میرے ماتھے پر سر رکھ کر چیک کرنے لگی کہیں بخار تو نہیں ہوا ، میں نے نہیں امی میں ٹھیک ہوں بس تھک گیا ہوں اب نیند آ رہی ہے، امی نے کھانے کا پوچھا تو بتا دیا کھانا کھا کر آیا ہوں سکول سے ہی، خیر امی واپسباہر چلی گئی اور میں پھر سے اپنی چارپائی پر لیٹ کر وہی خیالات ذہن میں لے کر سوچنے لگا لیکن پتا نہیں کب نیند کی آغوش میں چلا گیا،
شام کو 7 بجے مجھے بڑے بھائی نے اٹھایا کھانا کھانے کے لئے لیکن میرا دل نہیں کر رہا تھا کھانے کو، پھر بھی بے دل ہو کر باہر برآمدے میں آیا پھر باتھ روم کے باہر بنے کھرے کی طرف گیا اور ہاتھ منہ دھوئے تو ٹھنڈ کا احساس ہونے لگا واپس برآمدے میں آیا تو کچن میں گھس گیا اور چولہے کی گرمی لینے لگا امی نے ڈانٹ کر کہا باہر بیٹھو کھانا لگا رہی ہوں، میں چپ چاپ باہر آیا مجھ سے بڑا بھائی نبیل اور نبیل بھائی سے بڑے بھائی سلیم دونوں بیٹھے ہوئے تھے، کالین پر میں بھی ساتھ جا کر بیٹھ گیا اتنے میں کمرے سے ابو بھی باہر نکل آئے اور ساتھ بیٹھ گئے اور مجھ سے میری تعلیم کا پوچھا میں نے تعلیم کا سپورٹس کا دونوں کا بتایا پھر سب نے چپ چاپ کھانا کھایا کھانا کھا کر پھر سے کمرے میں آیا اور اپنی چارپائی پر لیٹ کر رضائی میں گھس کر پھر سے اسی سوچ کی دنیا میں محو ہو گیا رضائی میں منہ چھپا کر آنکھیں بند کر کے عمران کی بات کو سوچتے ہوئے سوال ڈھونڈنے لگا کہ کیسے عمران سے بات کی جائے، لیکن اب مزید اس بات پر سوچنا اچھا نہیں لگ رہا تھا میں نے اپنی سوچ کو تھوڑا پیچھے سے سوچنا شروع کیا جہاں سے وہ لڑکی اپنے بھائی کے دوست کا لوڑا چوس رہی تھی، بس یہ سین جیسے ہی آنکھوں کی پٹری پے چڑھا تو پھر سے وہی کیفیت ہوتی گئی، رونگٹے کھڑے ہونا شروع ہوئے عجیب سی مستی اور الجھن والی کیفیت شروع ہوئی میرا ہاتھ اپنے آپ میری پینٹ کی زیپ کھولنے لگا جیسے ہی زیپ کھلی تو میرا ڈنڈا مجھے سخت قسم کا محسوس ہوا اور پھر اچانک ہی ایسا محسوس ہوا جیسا مجھے پیشاپ آنے لگا ہو جیسے عمران کے گھر ہوا تو میں نے باتھ روم کا پوچھا لیکن جو ہوا اس کے بعد تو پیشاپ ہی نہ آیا لیکن اب پھر سے وہی سین سوچ کر پیشاپ کی حاجت ہونے لگی بڑی مشکل سے اٹھا اور باتھ روم گیا پینٹ ساری اتار کر ہینگر پر ٹانگ دی اور اپنے لن کو دیکھنے لگا جو فل ٹائٹ ہوا آسمان کی طرف سر اٹھا کر سلامی پیش کر رہا تھا میں نے پیشاپ کرنے کی کوشش کی لیکن پیشاپ ہوتا تو آتا نا میں نے پھر سے آنکھیں بند کی اور پھر وہی سین آنکھوں میں لایا اور اپنے لن کو پکڑ لیا اور پوری مٹھی میں دبا لیا جیسے وہ لڑکی مٹھی میں دبا کر آگے پیچھے حرکت دیتی مٹھی کو پھر لنڈ کی ٹوپی کو منہ میں لے کر چوستی تھی بس میں نے وہی کیا لن کو مٹھی میں پکڑا اور آہستہ آہستہ آگے پیچھے کرنے لگا ابھی 3 سے 4 بار ہی آگے پیچھے کیا تو مجھے لگا اب میرا پیشاپ آنے والا ہے، جسم میں سرسراہٹ دوڑ رہی تھی اور ساتھ ہی کپکپاہٹ بھی ہو رہی تھی رونگٹے کھڑے ہو رہے تھے ایسا لگا کہ جیسے میرے اندر کچھ حرکت ہو رہی ہے اور ساری حرکت اندرون خانہ سفر کرتے ہوئے میرے لن کی طرف جا رہی ہے اور پھر اچانک سے میرے لنڈ نے جھٹکے لینے شروع کئے 30 سے 40 سیکینڈ تک جھٹکے ہی لیتا رہا اور اس میں سے سفید سفید لیس دار مادہ نکلتا رہا جسے میں پیشاپ ہی سمجھ رہا تھا اور اس مادے کو دیکھ کر عجیب سی حیرانی بھی ہوئی لیکن اس مادے کو دیکھنے کے بعد جو مناظر آنکھوں میں تھے اور جو مناظر سوچ میں تھے وہ سب غائب ہو گئے تھے اور ایک تیسری کشمکش نے جنم لے لیا تھا کہ اب یہ کیا ہے، خیر اس کے بعد میرا لنڈ ایسے سویا جیسے کبھی جاگا ہی نا ہو، میں نے پھر جلدی سے لنڈ کو دھویا اور پینٹ پہن کر باتھ روم میں پانی بہایا سفید مادے کو فلش کیا اور باہر آگیا سردی نے اپنی لپیٹ میں لیا تو کمرے کی طرف بھاگا، الماری سے اپنی شلوار قمیض نکالی اور باہر کچن میں آ کر جلدی سے چینج کیا اور روم میں جا کر جلدی سے کمبل میں گھس گیا دوسری چارپائیوں پر دیکھا تو دونوں بھائی خراٹے لے رہے تھے، کیونکہ گھر کے قوانین تھوڑے سخت تھے جلدی سونا جلدی اٹھنا ٹائم سے گھر آنا، سورج غروب کے بعد گھر سے باہر نا نکلنا اور نہ ہی کھیل کود کے بعد سورج غروب ہونے تک باہر رہنا، اگر غلطی سے ایسا ہو بھی جاتا تو کپڑے دھونے والے ڈنڈے سےپہلے بھائی دھلائی کرتے تھے بعد میں ابا، اور بھائی تو ویسے ہی یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے،کیوں ایسا کرتے تھے یہ بات بعد میں پتا چلی مجھے، آگے جا کر بتاؤں گا، اس کے بعد نیند نے ایسا گھیرا کہ بس ہوش ہی نہیں رہا،سو تو گیا لیکن آرام پھر بھی نہیں رہا کیوں کہ زندگی اپنا موڑ لے رہی تھی اور میں کس طرف جاتا ہوں یہ تو میں خود بھی نہیں جانتا تھا، خیر آنکھ لگی تو خواب میں آنکھ کھلی اور کیا دیکھتا ہوں وہی ہم تین دوست پڑھائی کر رہے ہیں، عمران کی بہن کمرے میں آتی ہے، وہ کیسی دکھتی تھی نہیں پتا لیکن وہی کپڑے پہنے ہوتے ہیں جو مووی میں لڑکی نے پہنے ہوتے ہیں میں باتھ روم کا پوچھ کر نکلتا ہوں اور وہ بھی میرے پیچھے آ جاتی ہے اور وہی الفاظ بولتی ہے کہ میں نے تمہارا لن دیکھنا ہے اسی لئے میرے سامنےہی کرو میں بھی پینٹ کی زیپ کی کھول کر اپنا لن باہر نکالتا ہوں اور عمران کی بہن بیٹھ جاتی اور میرے لن کے چوپے لگانے لگ جاتی ہے میرے ساتھ پھر سے وہی ہوتا ہے وہی کیفیت طاری ہوتی ہے جیسے سب کچھ جسم میں رینگتا ہوا لن کی طرف جا رہا ہے اور عمران کی بہن بس چوپے لگانے میں مشغول ہوتی ہے اچانک سے وہی سفید مادہ نکلتا ہے اور عمران کی بہن اسے بہت ہی مزے سے پی رہی ہے جب سارا مادہ وہ پی جاتی ہے تو قاتلانہ مسکان کے ساتھ باتھ روم سے باہر چلی جاتی ہے اور میں وہیں پسینے میں شرابور کھڑا رہتا ہوں، اتنے میں امی کی آواز سے آنکھ کھلتی ہے پتر سکول نئ جانا کیا، میں نے بھی اسی آواز میں جواب دیا جانا ہے آتا ہوں، جب اٹھنے لگا تو دیکھا میری شلوار میری رانوں سے چپکی ہوئی ہے ہاتھ لگایا تو کچھ گیلا گیلا محسوس ہوا پھر ہاتھ لگایا تو چپچپا لگا کچھ، میں اٹھا باتھ روم کی طرف بھاگا امی کی زوردار آواز سے رکا پتر گرم پانی تو لے جا، میں پھر واپس کچن میں گیا گرم پانی کی دیگچی اٹھائی پھر باتھ روم گیا کپڑے اتارے اور نہایا اور پھر امی کو آواز دی امی میرے کپڑے تھوڑی دیر میں باتھ روم کا دروازہ بجا میں نے دروازہ تھوڑا سا کھولا امی نے کپڑے دئیے میں نے جلدی سے کپڑے پہنے ناشتہ کیا اپنا بیگاٹھایاسائیکل نکالی اور سکول کی طرف منہ کیا،
سکول پہنچا تو سکول کے باہر اجمل میرا ہی انتظار کر رہا تھا،
سلام دعا کے بعد گراونڈ کی طرف نکل گئے اپنی سائیکل پارکنگ میں لگائی اور گراونڈ میں ایک سائیڈ پر ہو کر ذرا خشک جگہ دیکھ کر بیٹھ گئے، کیونکہ سردی بہت تھی اور شبنم کے قطرے گھاس پر صاف دکھائی دے رہے تھے اور ہلکی ہلکی صبح کی دھوپ بھی نکل رہی تھی،
ہم ابھی اپنی ہی باتوں میں مصروف تھے اور گراونڈ میں ہوتے ہوئے میچ کی طرف بھی دیکھنے لگے کیونکہ آج فائنل بھی ہوتا اور کونسے دو سیکشن فائنل کھیلیں گے اس کا فیصلہ بھی ہونا تھا
اتنے میں ہم دونوں کے کندھوں کے پر برابر میں کسی نے ہاتھ مارا اور ہم نے چونک کر پیچھے دیکھا تو عمران تھا اور پھر زبردستی ہم دونوں کے درمیان میں گھس کر بیٹھ گیا،اور پھر سے وہی روٹین اس کی تنگ کرنے کی اور چھیڑ چھاڑ کرنے کی، اس کا نارمل رویہ دیکھ کر ہم بھی نارمل ہو گئے، (باتیں جو نارمل ہوئی انکا ذکر کرنا یہاں ضروری نہیں ہے ہاں جو کام کی باتیں ہوں گی وہ ضرور لکھوں گا،)
خیر ہم پھر سے ویسے ہی 2 دن پہلے والے دوست بن کر اپنے ہنسی مزاق اور شغل میں لگے ہوئے تھے اور 1 دن پہلے کیا ہوا تھا وہ سب بھلا ہی بیٹھے تھے خیر مجھے تو ایسا ہی محسوس ہو رہا تھا لیکن اب ان کے دل میں کیا ہے نہیں معلوم، عمران کی چھیڑ خانیاں ختم ہوئیں تو ہم نے میچ کی طرف دیہان لگا دیا کچھ دیر خاموشی سے ہم میچ ہی دیکھتے رہے اتنے میں عمران درمیان سے اٹھا اور میرے سیدھے ہاتھ کی طرف کی بیٹھ گیا اور اپنا بیگ کھول کر اس میں سے کچھ نکالنے لگا اور مجھے جلدی سے بولا دانی ( اب سے نک نیم ہی لکھوں گا مجھے سکول میں نک نیم دانی دیا گیا تھا جبکہ عمران کو مانی اور اجمل کا نک نیم نہ بن سکا تو اس کو اسکی کاسٹ سے بلایا جاتا مہر صاحب میں یہاں( مہر )ہی لکھوں گا ) خیر میں نے مانی کی طرف دیکھا تو اس کا 1 ہاتھ اس کے بیگ میں تھا اور مجھے کہا کہ جلدی اپنا بیگ کھولے کچھ دوں گا وہ رکھ لو
میں چپ چاپ اپنا بیگ اٹھایا اور زیپ کھولی تو مانی نے جلدی سے ایک چھوٹی سی کتاب میرے بیگ میں ڈال دی اور کہا کہ جلدی بند کرو بعد میں دیکھ لینا،
مانی نے وہ چھوٹی سی کتاب کو اپنے بیگ سے نکالنے اور میرے بیگ میں ڈالنے تک ایک جھلک بس اس کے فرنٹ کور پر پڑی تو مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا کیوں کہ اس کے کور پر کچھ ننگی ننگی تصاویر بنی ہوئی تھی اور بس اتنا ہی دیکھ کر مجھے عجیب سی الجھن ہونے لگی اور ڈر بھی لگنے گا جیسے میں نے چوری کر لی ہو اور ابھی پکڑا جاؤنگا پھر ڈر کے ساتھ ساتھ تجسس بھی ہونے لگا آخر اس میں کیا ہوگا اور مانی نے یہ کس مقصد کے لئے دی ہے مجھے عجیب عجیب سوالات گھر کرنے لگے اور میرے چہرے کے تاثرات بدلنے لگے، مانی سمجھ گیا تھا، مانی نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور ری لیکس رہنے کا بولا اور پھر سے مہر اور میرے درمیان آ کر بیٹھ گیا،
پھر میں نے بھی کوشش کی نارمل رہنے کی اور کچھ حد تک کامیاب بھی ہوا لیکن میرا دماغ اسی کتاب پر اٹکا ہوا تھا اور سسپنس بڑھتا جا رہا تھا اور مانی میری اس حالت سے بالکل واقف تھا مانی نے ادھر ادھر دیکھ کر جائزہ لیا کہ جہاں ہم بیٹھے ہیں کیا وہ سیف جگہ ہے یا نہیں، یہاں وہاں نظر دوڑا کر مانی نے مجھے کہا کہ اپنے بیگ سے فزکس کی کتاب نکالے،
میں نے فزکس کی کتاب نکال کر مانی کو دی اور اس نے فزکس کی کتاب کو درمیان سے کھول دیا کیا صفحہ نمبر کیا تھا نہیں معلوم،
مانی پھر بولا اب وہ چھوٹی کتاب نکال، جیسے ہی مانی نے بولا مجھے پھر سے ڈر لگ گیا کہ یہ سالا گانڈو مروائے گا اور ساتھ میں میری بھی گانڈ پھڑوائے گا، اب مہر بھی ہماری طرف دیکھنے لگا کہ کیا ہو رہا ہے مانی پھر بولا سالے نکال جلدی، میں نے چاروں طرف نظر دہرائی تو دیکھا باقی لڑکے ہم سے 20 سے 25 فیٹ دور ہیں لیکن ڈر پھر بھی لگ رہا تھا اور سٹاف تو بہت ہی دور کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے، خیر تسلی کر کے بیگ میں ہاتھ ڈالا اور ڈرتے ڈرتے اس چھوٹی سی کتاب کو کھینچ کر بیگ کے منہ تک لایا ہی تھا کہ مانی نے جلدی سے کتاب کھینچ کر فزکس کی کتاب کے درمیان رکھ دی اور فزکس کی کتاب کو بند کر کے واپس مجھے پکڑا دیا اور بولا سب کو یہی لگے گا تو فزکس پڑھ رہا لیکن پڑھنا اندر والی کتاب کو ہے اور اگر کوئی آئے تو کتاب بند کر بیگ میں ڈال دینا، مہر بھی یہ سب دیکھ رہا تھا تو اس نے پوچھ ہی لیا بھائی کیا سین ہے،
مانی: بھائی سیکسی کہانیوں کی کتاب ہے اور فل ماحول ہے،
مہر: سیکسی مطلب کس قسم کہانیاں،
مانی: یار اس کتاب میں یہ سب لکھا ہوگا کہ سیکس کیسے ہوتا ہے اور کس طرح کیا جاتا ہے اور کس مقصد کے لئے ہوتا ہے، پھر مانی نے بھی مہر کو فزکس کی کتاب نکالنے کا کہا مہر نے بھی یہی کیا اور مانی نے اپنے بیگ سے ایک اور کتاب نکالی اور مہر کی کتاب کے اندر ڈال کر اسے واپس کر دی اور بولا اب تم دونوں پڑھو میں نظر رکھتا ہوں کوئی اس طرف آیا تو تمہیں اطلاع کر دوں گا،
مہر اور میں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر مانی کی طرف دیکھا جو اشارے سے کہہ رہا تھا اب جلدی بھی کر لو،
خیر ایک بار پھر چاروں طرف کا جائزہ لیا اور یہی کام مہر نے بھی کیا پھر ڈرتے ڈرتے کتاب کھولی اور اس کے اس چھوٹی کتاب کو کھولا ابھی اس کا فرنٹ کور کو دیکھ ہی رہا تھا کہ مانی بولا، سالے بعد میں دیکھ لینا تسلی سے ابھی صرف اندر کا معائنہ کر،
میں نے صفحہ پلٹ دیا پھر عنوان آ گئے اور ابھی وہی دیکھ رہا تھا کہ مانی قریب آیا اور 3 سے 4 صفحات پلٹ دیئے اور کہاں یہاں سے پڑھنا شروع کرو، پھر اس نے مہر کے ساتھ بھی یہی عمل دوہرایا،
خیر میں نے پھر سے ایک بار نظر کو گھما کر جائزہ لیا تو اور پھر کتاب کی طرف دیکھنے لگا آج پہلی بار اپنی فزکس کی کتاب کو دیکھتے ہوئے ڈر لگ رہا تھا، خیر ڈرتے ڈرتے پڑھنا شروع کیا، اور کہانی کا عنوان بھی کچھ ایسا ہی تھا، (بہن کو نہاتے ہوئے دیکھا) خالی عنوان پڑھ کر ہی میرے ٹٹے شارٹ ہوگئے لیکن ہمت کر کے پھر پڑھنا شروع کیا،
اس کتاب میں سیریل کے ساتھ کہانیاں تھی جس کے عنوان ہی بیان کروں گا کہانیاں لکھوں گا تو میری کاوش بہت لمبی ہو جانی ہے، کہانیوں کے عنوان کچھ اس طرح کے تھے
1 )بہن کو نہاتے ہوئے دیکھا
2) بہن کو پھسایا اور چودا
3) بہن کو میرے دوستوں نے چودا
4) بہن کو دوست نے اور میں نے دوست کی بہن کو چودا
5 ) 3 بہنیں 3 دوست
ابھی میں نے بس ایک ہی کہانی پڑھی تو میرا لن کسی سخت ڈنڈے کی مانند کھڑا تھا اور مجھے بھی درد کی شدت ہونے لگی اپنے لن میں میں نے جلدی سے فزکس کی کتاب کو بند کیا اور بیگ میں ڈال دیا اور مجھے سردی میں بھی گرمی کا احساس ہوا میرے ماتھے پر پسینہ صاف دکھائی دے رہا تھا ، مانی میرے سامنے اپنے پنچوں پر بیٹھا اور میرے دونوں گھٹنوں کو پکڑ کر مجھے مسکراتا ہوا دیکھ رہا تھا اور اچانک سے اس نے میرے لن پر زور سے ہاتھ مارا اور کہا سالے اس پین یک کو تو سلا دے
اس کی اسی حرکت سے میرا لن بھی سوتا چلا گیا،پھر وہ مہر کی طرف گیا، اور مہر صاحب تو کسی اور ہی دنیا میں کھوئے ہوئے تھے لگتا ہے، وہ کہانیاں پڑھنے میں اتنا مگن تھا کہ ہم دونوں کو بھی اس نے نظر انداز کر دیا مانی کے چھیڑنے پر اس کو ہوش آیا اور جلدی جلدی کتاب بند کر کے بیگ میں رکھ کر پاگلوں کی طرح چاروں طرف دیکھنے لگا جیسے کوئی آگیا ہو اور رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ہو، مانی اور میں اس کی حالت کو دیکھ کر ہنس ہنس کے دوہرے ہو تے گئے اور مہر بیچارا معصوموں کی طرح دیکھ رہا تھا ہم دونوں ہنستے ہنستے اچانک سے ایسے چپ ہوئے جیسے کسی نے ہماری تار کاٹ دی ہو، کیونکہ جو چیز ہم نے دیکھی اس نے ہماری تار ہی کیا ہمارے ٹٹے بھی شارت کر دئے ، ہنستے ہنستے جیسے ہی ہماری نظر مہر کے لن پر پڑی تو جھٹکا لگنا ہی تھا اس نے اپنی قمیص کا اگلا پلو ہٹایا ہوا تھا اور لن فل آب و تاب کے ساتھ آسمان کی طرف رخ کئے ہوئے تھا اور ہماری ٹٹے شارٹ تب ہوئے جب اس نے اپنا ہاتھ لن سے ہٹایا اور قمیض کا پلو سیٹ کرنے لئے، تو بس اس کی ایک ہی جھلک نے ہمیں بتا دیا کہ وہ لن نہیں لوڑا ہے لوڑا یا یوں کہو گدھے کا لوڑا ہے، مانی اور میں تو حیرت سے گنگ ہو گئے اور ہمیں چپ ایسی لگی جیسے مہر کا لوڑا ہماری گانڈ میں گھس گیا ہو،
ہماری اس چپ سے مہر بھی شرمندہ ہوا اور پھیکا پھیکا مسکرا کر ہمیں دیکھ رہا تھا پھر جلدی سے اپنا بیگ اٹھا کر اپنی گود میں رکھ کر اپنے للے کو چھپا لیا، جب اس کا للا ہماری نظروں سے اوجھل ہوا تو ہمیں بھی ہوش آیا، پھر مانی ماحول کو سنبھالتے ہوئے بولا اچھا پین یکو لن تے وجے اے سپورٹس، چل دانی پی ٹی سر سے اجازت لے آ پھر میرے گھر چلتے ہیں،میں پہلے تو نہ مانا لیکن اس کے ضد کرنے پر اور بار بار زور دینے پر مجھے جانا پڑا، اور قسمت جیسے ہی پی ٹی سر کے پاس گیا تو وہ پہلے سے ہی سمجھ چکے تھے اور میرے بولنے سے پہلے بولے، دانش بیٹا ابھی چلے جاو آپ لوگ لیکن شام کو 4 بجے تک واپس آجانا فائنل میچ دیکھنے کے لئے، میں نے بس جی سر ہی کہا اور وہاں سے واپس مانی اور مہر کے پاس چلا گیا اور بتا دیا وہ بھی بولے ٹھیک ہے، چلو پھر، پتا نہیں کیوں مانی کے گھر جانے کا دل بھی بہت کر رہا تھا وہاں سے نکلنے لگے تو میں پارکنگ کی طرف جانے لگا کہ اپنی سائیکل نکالوں لیکن مانی نے آواز دے کر روکا اور بولا میر ی بائیک پر چلتے ہیں واپس بھی تو آنا ہے، مہر نے بھی کہا ہاں یہ ٹھیک رہے گا، مانی نے اپنی بائیک نکالی اور مانی کے پیچھے مہر بیٹھا تو مانی جھٹ سے بولا بھائی تو آج میرے پیچھے نہ ہی بیٹھ تو اچھا ہےمہر: کیوں بھائی کیا ہوامانی: سالے کدھے جتنا تیرا للا ہے مجھے تو ڈر ہی لگ گیا ہے دانی تو میرے پیچھے بیٹھ،میں بھی جھٹ سے بولا کیوں بھائی تیری گانڈ آسمان سے اتری ہے کیا جو میں قربانی دوں مہر کی بازو پکڑ کر میں اسے کہا چل بیٹھ جا کچھ نہیں ہوتا خیر مہر مانی کے پیچھے بیٹھا اور میں مہر کے پیچھے بیٹھ گیا، مانی نے بائیک آگے بڑھا دی اور 10 منٹ سے پہلے ہی مانی کے گھر کے باہر تھے، مانی نے بیل دی اور وہی سین ہوا چھوٹا دروازہ کھلا تو مانی اندر گیا اور بڑا گیٹ کھول کر واپس آیا اور بائیک اندر کر دی ہم بھی اس کے پیچھے ہی اندر چلے گئے اپنے جوتے اتارے اور ڈرائنگ روم میں داخل ہو گئے اور صوفوں پر اپنی اپنی تشریف ٹکا کر بیٹھ گئے، آج ہم تھوڑا ری لیکس فیل کر رہے تھے اور دماغ بھی کام کر رہا تھا، اتنے میں مانی بھی آ گیا اور آتے ہی بولا تم لوگ وہ کہانیاں پڑھو میں کچھ لے کر آتا ہوں ہمارا جواب سنے بغیر ہی وہ باہر نکل گیا، اور دروازہ بھی بھی اس کے جانے کے بعد خود ہی بند ہو گیا، میں نے مہر کی طرف دیکھا تو وہ بھی مجھے ہی دیکھ رہا تھا پھر ہم نے ایک دوسرے کو ہلکا سا مسکرا کر دیکھا اور اپنے اپنے بیگ سے وہ اشلیل کتاب نکالی اور پھر جہاں پر چھوڑا تھا وہ صفحہ تلاش کیا اور وہاں سے آگے پڑھنا شروع کر دیا چھوٹی سی کتاب تھی اور اس میں 4 سے 5 صفحات پر مشتمل ایک کہانی تھی، بہن کو نہاتے دیکھا والی تو پڑھ ہی لی تھی پھر دوسرے پڑھنے لگا کہ کیسے بہن کو پھسا کر بھائی نے چودا کہانی ابھی شروع ہی کی تھی دروازہ بجا اور پھر دروازہ کھل گیا اور کام والی ماسی نے انٹری لی ہاتھ میں ٹرے کے ساتھ،اتنی دیر میں ہم اپنی فزکس کی کتاب کو بھی بند کر ہی چکے تھے، ماسی نے ہمیں سلام بھی کیا اور ٹرے کو ٹیبل پر رکھ دیا اور واپس جانے لگی وہ ابھی دروازے تک ہی پہنچی تھی کہ مہر نے آواز دے اسے پانی بھی لانے کو بھی کہا تو ماسی جی صاحب کہتے ہوئے واپس چلی گئی، میں :مہر صاحب ماسی کو بھی پتا ہے آپ صاحب ہو ،،،،،مہر نے بس مسکرا نے پر ہی اکتفا کیا پھر میں نے کہا سالے پانی لازمی منگوانا سارا مزا خراب کر دیا اب وہ پھر آئے گی مہر: ٹھنڈ رکھ گانڈو پانی دے کر جائے گی تو پھر آرام سے پڑھ لین گے تیرے لن کو زیادہ ہی آگ لگ گئی ہے، گاوں کے رہنے والے شرمیلے بندے سے ایسے الفاظ کی بالکل بھی مجھے امید نہیں تھی اور میں بس اس کے چہرے کو ہی تکتا رہا، اتنے میں پھر دروازہ بجا اور ایک سریلی مدمست آواز نے ہمیں چونکا دیا، آواز اتنی مست اور سریلی تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے دور کہیں سے کوئل کی آواز کے ساتھ دھیمی دھیمی بانسری بجا رہا ہو کوئی، ہم اس آواز کے سحر میں اتنا مست اور محو ہو کر کھو گئے تھے کہ جواب دینا ہی بھول گئے اتنے میں پھر دروازہ بجا اور پھر سے وہی آواز آئی لیکن اس میں تھوڑا سختی تھی اور ہم اپنی دنیا میں واپس آئے جلدی سے اپنی اپنی کتابوں کو بیگ میں ڈالا اور میں نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا ججججججی آاااااا جائیں،اتنے میں دروازہ کھلا اور ایک حسن کی مورت جلوہ نما ہوئی، میں اور مہر صاحب تو بس اس کو دیکھنے کے لئے دروازے کی طرف دیکھا تو بس حسن کی مورت کو دیکھنے میں ہی غرق ہو گئے وہ حسن کی مورت چلتی ہوئی ہوئی اٹھلاتی ہوئی ہمارے سامنے ٹیبل پر پانی کے دو گلاس ایک ٹرے میں سجائے ہوئے رکھ کر ٹیبل کے دوسری طرف پڑے صوفے پر براجمان ہو گئی اور ہم اس کو ویسے ہی تکتے رہے جس طرف سے وہ آئی اور جس طرف وہ گئی بس ہماری نظر اسی پر ہی جمی ہوئی تھی وہ کیا ہی حسن کی مورت تھی، نام عمرانہ، اور مانی سے 4 سال بڑی تھی مطلب 19 سال کی تھی اور قد کے حساب سے ہمارے برابر تھی گورا چہرہ گلابی گال لمبی ناک سنہری آنکھیں، گولڈن بال جو کھلے ہوے تھے اور ہلکے ہلکے گیلے بھی تھے جس سے لگ رہا تھا کہ محترمہ خود غسل کر آئیں ہیں اور ہم پر غسل واجب کروا رہیں ہیں،صراحی دار لمبی گردن اور اس نے لائٹ بلیو جینز کے ساتھ سفید ریشمی کرتا پہنا ہوا تھا جو صرف اس کی رانوں تک ہی آ رہا تھا گردن سے نیچے آو تو سفید ریشمی قمیض کہاں سے شروع ہوتی ہے پتا ہی نہیں چل رہا تھا کیونکہ جسم کے رنگ میں اور قمیض کے رنگ میں انیس بیس کا بھی فرق نہیں تھا، پتا وہاں چلا جب اس کے 34 سائز کے ابھار شروع ہوئے اور دونوں ابھاروں پر قمیض کی جیبیں بنی ہوئی تھی اور ان پر نگ والے بٹن لگے ہوئے تھے وہاں احساس ہوا کہ جسم پر کچھ پہنا ہے ورنہ تو وہ سب جو دکھ رہا تھا جسم کا حصہ ہی لگ رہا تھا، تھوڑا اور نیچے گیا تو دیکھا کہ پیٹ نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ نظر بھی نہیں آ رہا تھا تھوڑا اور نیچے دیکھا تو اس جل پری کی ایک ٹانگ نے دوسری ٹانگ کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا اور سائیڈ سے اس کی رانوں کے ابھار اس کی جینز میں باہر کی طرف ایسے نکلے ہوئے تھے جیسے سارا گوشت وہیں جمع کیا ہوا ہے، 10 سے 15 سیکنڈز میں اس کا ایکسرا لیا تو ایسا لگا جیسے وقت ہی تھم گیا ہے، ہوش تو تب آیا جب اس کی خوشبو سے بھری کوئیل جیسی سریلی آواز کانوں سے ٹکرائی، ہڑ برا کر ہوش میں آیا تو وہ میرا نام پو چھ رہی تھی،ہکلاتے ہوئے جواب دیا،جججججججیی دادادانش رحیماور سکول میں دانی دانی کہتے ہیں،پھر اس نے مہر صاحب کی طرف دیکھا تو وہ خود ہی بول پڑا لیکن ہکلاتے ہوئے، ججججججی غریب کا نام مہر اجمل سیال ہے لیکن سکول میں مہر صاحب یا بس خالی مہر ہی کہہ دو تو چلے گا،عمرانہ نے ہلکے سی مسکراہٹ کے پھول پھینکے اور بولی میرا نام عمرانہ ہے اور پیار سے عمی کہتے ہیں، تو اپ لوگ عمی آپی کہہ سکتے ہو،اففففف ظالم جب اس نے پیار کا نام لیا تو دل کے تار تار ہو گئے، گلا تو خشک پہلے ہی تھا مزید خشک ہو گیا میں نے دیر نہ کرتے ہوئے پانی کا گلاس اٹھایا اور ایک ہی سانس میں پی گیا عمی آپی میری کنڈیشن دیکھ کر بس اندر ہی اندر چسکے لے رہی تھی میری دیکھا دیکھی مہر صاحب نے بھی اپنا گلاس اٹھایا اور سپیڈو سپیڈ خالی کر دیا، پھر عمی آپی نے ہمارے گھر کے بارے میں پوچھا، میں نے اپنا بتایا اور مہر صاحب نے اپنا بتایا اتنی گفتگو کے بعد تھوڑا بہت تو سنبھل ہی گیا تھا لیکن مہر صاحب نہیں سنبھل پائے کیونکہ گاؤں کا تھا اور شہر کے ماحول سے واقف نہیں تھا، پھر عمی آپی نے اپنی تعلیم اور کالج کا بتایا اور ہمیں بھی کچھ نصیحتیں جاری رکھیں کہ اتنے میں کمرے کا دروازہ کھلا اور مانی اندر آیا عمی آپی نے بات کے دوران ہی مانی کو بھی صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا بڑی بہن کا حکم مان کر مانی صاحب نے بھی تشریف کا ٹوکرا رکھا ،عمی آپی کی ہدایات خاموشی سے سنی اتنے میں اس نے ہمیں زیادہ بور نہ کرتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی اور مانی کو بولی، مانی میں کالج نکلنے لگی ہوں، پڑھائی ہی کرنی ہے مستی نہیں کرنی ڈانٹنے والے انداز میں انگلی دکھائی اور پھر اپنی مست ابھری ہوئی گانڈ اور سیکسی رانیں اور انکا کا جلوہ دکھا کر دروازے کے وہ ناداں تو چلی گئی لیکن اپنی خوشبو چھوڑ گئی اور ہم دونوں کو اپنا اسیر بنا گئی،
اس کے جاتے ہی مانی بولا پین یکو آپی کے سامنے کتاب کھلی تھی یا بند تھی،
میں بولا اب ہم اتنے بھی پاگل نہیں ہیں یار ہم، مانی بولا سالوں للے تمہارے کتاب کو ہاتھ لگاتے ہی اٹھ جاتے تمہارا بھی کوئی بھروسہ نہیں، چکو پین یکو چائے پی لو ٹھنڈی ہو رہی ہے، اور واقع ہی چائے ٹھنڈی ہو چکی تھی اور ایک ہی گھونٹ میں پی کر کپ کو خالی کر کے واپس ٹرے میں رکھ دیا، اب میرا تو دماغ عمی آپی پر ہی اٹک گیا تھا اور ظاہر ہے مہر صاحب کا بھی یہی حال تھا اور رات کو دیکھا ہوا خوب بھی دوبارہ سے آنکھوں میں گھومنے لگا رات کو عمی آپی میرے لن ے چوپے لگا کر مجھے فارغ بھی کر گئی تھی، اور یہ دماغ میں آتے ہی چھوٹے شیر نے سر اٹھانا شروع کر دیا یہ یاد بھی نا رہا کہ اشلیل کتاب پڑھنی ہے وہ تو جیسے میرے دماغ سے پھررررر ہی ہوگیا تھا،
مانی کی آواز سے پھر ہوش میں آئے جب اس نے یاد کروایا کہ پین یکو جس کام کے لئے آئے ہیں وہ تو کرو نا،یہ کہہ کر مانی نے روم کا ڈور لاک کر کے کمپیوٹر آن کرنا شروع کیا اور ہم دونوں پھر سے اپنی اپنی اشلیل کتاب کو لے کر بیٹھ گئے، کہانی میں سالا بھائی جب بہن کو پھسا کر چودنے لگتا ہے تو بس مجھے وہاں مجھے ایسا لگتا ہے کہ اب اینڈ ہے میرا مجھے کچھ ہو جانا ہے میری بس ہو ہی گئی تھی اور ابھی اٹھنے ہی لگتا ہوں کہ مجھے ایسا لگتا ہے بس اب ہو گیا اور میرے لن سے پیشاپ نکل کر میری پینٹ کے اندر انڈر ویئر کو گیلا کر چکا ہوتا ہے، مانی کمپیوٹر پر گیم کھیلنے میں مصروف تھا مجھے اٹھتا دیکھ کر میری طرف مڑا اور میری حالت دیکھ کر پاگلوں کی طرح ہنسنے لگا اور مجھے شدید قسم کا غصہ مانی پر آنے لگا ،میں اس کو اسی حالت میں چھوڑ کر باتھ روم کی طرف بھاگا اور جاتے ہی پینٹ اتار کر ہینگ کی اور انڈرویئر بھی اتارا تو دیکھا وہی سفید سفید مادہ جو کل سے میرا پیچھا کر رہا ہے میں ابھی یہی دیکھ رہا تھا کہ اچانک باتھ روم کا دروازہ کھلا اور مانی ہنستے ہوئے اندر گھس آیا اور آتے ہی میرے ہاتھ سے انڈر ویئر کھینچ لیا اور دیکھنے لگا یہ سب اتنی جلدی ہوا کہ میں سنبھل بھی نہ سکا اور نیچے سے ننگا ہوں یہ بھی بھول گیا اور میں نے دروازہ بھی لاک نہیں کیا تھا اوہ شٹ، میں اپنے ہوش و حواس میں جیسے ہی واپس آیا تو مانی سے اپنا انڈر ویئر چھیننے لگا لیکن دیر ہو چکی تھی اس نے جلدی میرے سفید لگے مادے کو انگی سے چھوا اور پھر انگلی کو ناک کی طرف لے گیا اور سونگھ کر بولا بچہ جوان ہو گیا ہے، اب میری حالت اس وقت ایسی تھی کہ میں نیچے سے سارا ننگا تھا اور میرا ہتھیار نیم سوئی ہوئی حالت لٹک رہا تھا جیسے ہی مانی کی نظر میرے ہتھیار پر پڑی تو بولا
مانی: او تیری پین دی گشتی دیا بچیا تیرا للا تے میرے تو وہ وڈا اے اور اس کا دوسرا حملہ میرے لن کی طرف ہوا جب اس نے جھٹ سے میرے لن کو ٹٹوں سمیت پکڑ لیا اور میری زور دار چیخ نکل گئی اور چاہ کر بھی نہ چھڑا سکا اپنے دونوں ہاتھ ڈھیلے چھوڑ کر بس مانی سے التجا کر رہا تھا چھوڑ دے یار پلیز چھوڑ دے لیکن مانی تو چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا، بس بولتا ہی جا رہا تھا اور کیا کیا بول رہا تھا سالا کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا میں بس درد سے بلبلا رہا تھا، میری چیخ و پکار سن کر مہر بھی دوڑتا ہوا اندر آ گیا اور ہمارا سین دیکھ ہنسنے لگا مجھے لگا تھا سالا آ کر میری مدد کرے کا لیکن وہ بھی حرامی نکلا، جب دیکھا کوئی امید نہیں تو میں نے دونوں ہاتھ جوڑ کر مانی سے التجا کی یار تیری مہربانی میرے بھائی چھوڑ دے پلیز پلیز پلیز، تب جا کر مانی کو کچھ رحم آیا اور میرے لن کو چھوڑا میں پیچھے ہوتا ہوا باتھ روم کی دیوار کے ساتھ جا لگا اور اپنے لن کو سہلاتا ہوا نیچے بیٹھ گیا مہر بھی اندر آگیا تھا اور دونوں دانت نکال نکال کر ہنس رہے تھے میری حالت دیکھ کر مانی نے جب مہر کو ہنستے دیکھا تو مانی نے جھٹ سے مہر کے لن پر حملہ کر دیا اور شلوار کے اوپر ہی پکڑ لیا اب چیخنے کی باری مہر کی تھی اور میں جیسے بیٹھا تھا ویسے اپنے درد کو بھول زبردستی ہنسنے لگا اور مہر صاحب چیخے جا رہے تھے مانی نے اسی آواز میں اس کو بولا سالے بڑے دانت نکل رہے تھے تیرے چل ناڑا کھول جلدی ناڑا کھول گانڈو مہر درد سے بلبلاتے قمیض کا پلو اوپر کرتے ہوئے ابھی ناڑے کو ہاتھ لگایا ہی تھا کہ مانی نے جھٹ سے ناڑے کو ایک طرف سے کھینچا اور پورا ہی کھینچ دیا ناڑا مکمل ہی شلوار سے نکل آیا یہ دیکھ میری اور ہنسی نکل گئی اور اپنا درد بھی مکمل بھول گیا اور یہ بھی کہ میں ابھی بھی ننگا ہوں ، مہر صاحب کی چیخیں اونچی ہوتی گئی لیکن مانی کو جیسے کسی بھی چیز کا ڈر نہیں تھا مہر کانپتی آواز میں بولا مانی بھائی پلیز چھوڑ دے یار، مانی کو اب اس پر بھی ترس آگیا تھا مانی نے جیسے ہی اس کا ہتھیار چھوڑا مہر صاحب بھی پیچھے لمکے لیکن شلوار نیچے گرنے کی وجہ ڈگمگا کر باتھ روم کے دروازے میں جا گرا اور اب جناب مہر صاحب نیچے سے ننگے تھے لیکن اس کی قمیض اس کو کافی حد تک چھپا رہی تھی اور وہ بھی اپنے للے کو ہلکا ہلکا سہلا رہا تھا جیسا میرا حال ہوا تھا اتنے میں مانی نے اپنی پینٹ کھولی اور دستی اپنی پینٹ اتار کر ہینگر پر ٹانگ دی اور انڈر ویئر بھی اتار کر ہینگ کر دیا پھر اپنا لن ہاتھ میں پکڑ کر کبھی مجھے دکھائے تو کبھی مہر کو اور للکار کر بولے آو سالو اینو پھڑ کے ویکھو، اس کے الفاظوں سے بے ساختہ ہم دونوں کی ہنسی نکل گئی اور تسلی بھی ہوئی کہ سالا خود ہی ننگا ہوگیا ورنہ میرا پروگرام بن گیا تھا اس کو پکڑ کر زبردستی ننگا کرنے کا لیکن اب تو وہ خود ہی ہو گیا تھا تو ضرورت نہیں پڑی مانی بار بار ہمیں لن دکھا دکھا کر چڑا رہا تھا لیکن ہم اپنا اپنا درد لے کر بیٹھے ہوئے تھے
اور مانی بیچارہ بس درد سے ہلکا ہلکا چیخ رہا تھا مہر نیچے لیٹا ہوا تھا اور وہ بھی نیچے سے ننگاتھا بس قمیض کے فرنٹ نے اس کے للے کو ڈھکا ہوا تھا اور مانی بیچارا اپنی گانڈ اوپر کر کے اپنے لن کو سہلا رہا تھا اور ہولے ہولے امی امی کر رہا تھا اور ہمیں گالیاں بھی نکال رہا تھا لیکن میری نیت اس کی ابھری ہوئی گانڈ کو دیکھ کر پھر سے خراب ہونے لگی اور مہر نے بھی یہ محسوس کر لیا تھا اور شاید سمجھ بھی گیا کیونکہ میرا لن فل ہارڈ تھا مہر نے مانی کو ارام سے اپنے اوپر گلے سے لگایا اور اس کی قمر تھپانے لگا اور دوسرے ہاتھ سے مجھے اشارہ کیا کہ آجا اوپر بس مجھےجیسے ہی اشارہ ملا میں فوری اپنے لن پر تھوک پھینکا اور بیچارے درد سے روتے ہوئے مانی کی گانڈ پر حملہ کر دیا وہ بیچارا ابھی درد سے ہی نہیں نکلا تھا کہ ایک اور حملہ ہو گیا میرا لن سیدھا اس کی گانڈ کے سواخ کے دروازے پر جا کر اٹک گیا اور مانی چیخا اووووو پیییییین چوووووووودددددددااااااا، اراااااام نااااااال کر یااااااار، میں سمجھا تھا کہ وہ مزاحمت کرے لیکن اس کے الفاظ سن کر میں نے تھوڑا سکون سے کام لیا کہ شاید وہ کروانا چاہتا ہے اسی لئے آرام سے کرنے کہہ رہا ہے، لیکن ابھی میں دوسرا جھٹکا لگاتا کہ مانی نے مجھے پیچھے دکھا دیا میں ڈگمگاتا ہوا پیچھے گرتے گرتے بچا ابھی سنبھلا نہ تھا کہ مانی نے مہر کے کندھے پر زور سے کاٹا تو مہر نے اپنے ہاتھ اس کی کمر سے ہٹا کر اس اپنے اوپر سے دھکا دیا تو مانی وہاں سے گولی کی طرح باتھ روم سے باہر بھاگ کر ڈرائنگ روم جا کر صوفے پر نیم دراز لیٹ کر اپنے لن کو آرام آرام سے سہلا رہا تھا، میں نے بھی پھر پیچھے جانا مناسب نہیں سمجھا لیکن مہر اپنی شلوار اٹھائے باہر نکل گیا میں نے باتھ روم لاک کیا اور سب کچھ سوچتے ہوئے کھڑے لن کو آگے پیچھے کرنے لگا بار بار تھوک نکال نکال کر اپنی مٹھی کو لن کے گرد جکڑ کر آگے پیچھے کرنے لگا لن کا درد اب ختم ہی ہو چکا تھا اور درد کی جگہ مزے نے لے لی تھی اور پھر 2 ہی منٹ بعد میرا سفید مادہ نکلنا شروع ہوا میں نے جلدی سے لن کو دھویا اپنی پینٹ اتاری اور پہن لی ایک کونے میں مجھے میرا انڈر ویئر گرا ہوا نظر آیا جلدی سے وہ اٹھایا اور موڑ توڑ کر پینٹ کی جیب میں ڈالا اور لاک کھول کر ڈرائینگ روم میں آیا تو دیکھا مانی صوفے پر آنکھیں بند کئے لیٹا ہوا ہے اور مہر صاحب پین سے اپنی شلوار کا ناڑا ڈالنے پر لگے ہیں، مانی کو دیکھ کر مجھے اس پر رحم آیا میں واپس باتھ روم گیا مانی کی پینٹ اتار کر لایا تب تک مہر بھی اپنی شلوار میں ناڑا ڈال چکا تھا اور وہ اپنی شلوار لئے باتھ روم کی طرف چلا گیا اور میں مانی کے پیروں کی طرف بیٹھ گیا اور اس کا ایک پیر اٹھایا تو اس نے ایک آنکھ کھول مجھے دیکھااورپھر آنکھ بند کر لی میں نے اس کو پینٹ پہنانا شروع کیا پہلے ایک ٹانگ میں پینٹ گٹھنے تک ڈالی پھر دوسری ٹانگ کے ساتھ بھی وہی عمل کیا پھر پینٹ کو اس رانوں تک چڑھا دیا اس کی رانیں دیکھ کر پھر سے مجھے کچھ کچھ ہونے لگا لیکن میں نے کنٹرول کیا اور نیچے سے اٹھ کر اس ساتھ بیٹھا اس کی ایک بازو کو اپنے کندھے پے ڈال کر اس کو اٹھانا چاہا تو وہ بھی تھوڑا زور لگا کر اٹھا اور اپنے دوسرے ہاتھ سے اپنی پینٹ کو پکڑ لیا میں نے جلدی سے اس کی پینٹ کو پکڑ کے اوپر کیا اور پینٹ کی زیپ بند کر کے بٹن بھی بند کر دیا ابھی بیلٹ بند کرنے ہی لگا تھا کہ مانی پھر سے صوفے پر گرتا چلا گیا اور لیٹ گیا، مجھے اب ٹینش ہونے لگی تھی کہ کوئی گڑبڑ نہ ہو جائے اتنے میں مہر صاحب بھی باتھ روم سے نکل آئے اور مجھے پریشان دیکھ کر اشارہ کیا ہوا تو میں نے بھی اشارہ مانی کی طرف کیا کہ یہ تو مرنے والا ہے مہر نے مجھے کہا تو جا پانی لے کر آ، میں اندر ہی چلا آیا اور گھر بالکل سنسان ہی لگ رہا تھا اور معلوم بھی نہیں کہاں جانا ہے لیکن میں سیدھا ھال کی طرف گیا وہاں جا کر دیکھا تو 5 دروازے ہیں اب کس طرف جانا ہے لیکن اچانک ہی برتنوں کی آواز آئی ایک طرف سے میں اسی طرف بڑھا دروازہ کھولا تو وہی کچن تھا اور دوسری طرف سے اوپن ایئر تھا میں نے دیکھا ماسی کچھ بنا رہی ہے مجھے دیکھ کر بولی کیا چاہیے صاحب، میں نے بس اتنا ہی کہا پانی،
اس نے ایک الماری کھولی اور گلاس نکال کر سینک کے پاس لگی 3 ٹوٹیوں میں سے ایک کو کھولا اور پانی بھرنے لگی پھر گلاس کو ٹرے میں رکھنے کے لئے ٹرے اٹھانے لگی تو میں گلاس ہی اٹھا کر وہاں سے نکل گیا کہ جاتے جاتے کہتا گیا شکریہ ماسی ٹرے رہنے دو، میں درائنگ روم میں آیا تو مانی ویسے ہی لیٹا ہوا تھا اور مہر اس کے ہاتھ پیر مسل رہا تھا میں نے مانی کو پانی پلانے کے مہر کو اشارہ کیا تو مہر نے مانی کو کندھے سے سہارا دے کر اٹھایا اور میں نے گلاس مانی کے منہ سے لگایا تو وہ پانی پینے لگا اور اس کی جان میں جان آنے لگی اور تھوڑا ہوش میں آنے لگا پانی پی کر وہ پھر لیٹ گیا اور ہلکے سے بولا کی کھانے کا کہہ دو ماسی کو وہ لگا دے گی، میں وہاں سے واپس کچن کی طرف گیا ماسی کو کھانا لگانے کا بتا کر واپس آیا تو دیکھا مانی کی اب حالت پہلے سے بہتر تھی، اور لیٹنے کی بجائے اٹھ کر بیٹھا ہوا تھا اور مہر اس کے سامنے شرمندہ سا بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں مانی ہی بولا پین یکو بنڈ لینی سی تے آرام نال کہہ دینا سی زبردستی لازمی کرنی سی،
یہ کہہ کر مانی مسکرایا اور پھر ہم بھی مسکرانے لگے اور اپنے اپنے لن کی پکڑائی پر اسے کوستے رہے وہ بس چپ چاپ ہنستا رہا اور آخر میں بولا سالو تمہارے للے بھی تو خطرناک ہیں میری گانڈ پھٹتے ہوئے بچی ہے آج، چلو پین یکو چلو آو روٹی کھائیے پک ٹکا کے لگی اے،
کھانا کھانے کے بعد پھر سے ہم ڈرائنگ روم میں آ گئے اور مانی نے کمپیوٹر پر پھر سے سیکسی مووی لگا دی، مووی میں تین لڑکے ایک لڑکی کی چدائی کر رہے ہوتے ہیں ایک لڑکا نیچے لیٹا ہوتا ہے اور لڑکی اسی کی طرف منہ کر کےاس کے اوپر تھوڑا نیچے جھک کر لیٹی ہوتی ہے نچلے لڑکے کا لوڑا لڑکی کی پھدی میں ہوتا ہے دوسرا لڑکا ان دونوں کے پیچھے ہوتا ہے اور اپنا لوڑا بار بار باہر نکال کر اس کی ہلکی سی مٹھ لگاتا ہے اور پھر لڑکی کی گانڈ میں ڈال دیتا ہے اور تیسرا لڑکا ان تینوں کے سر کی طرف کھڑا ہوتا ہے اور خود اپنے ہاتھ سے مٹھ لگاتا ہے اور پھر لڑکی کے منہ میں اپنا لوڑا ڈال دیتا ہے اور لڑکی بڑے مزے سے اس کے لوڑے کے چوپے بھی لگا رہی ہوتی ہے اور گانڈ اور پھدی میں بھی لوڑوں کے مزے لے رہی ہوتی ہے، مووی دیکھتے دیکھتے مجھے اس لڑکی کی جگہ عمی آپی دکھائی دینے لگ جاتی ہے اور ان تین لڑکوں کی جگہ ہم تین جو مووی دیکھ رہے ہوتے ہیں خود کو تصور کرنے لگتا ہوں، نیچے مہر صاحب ہیں اور پیچھے سے گانڈ میں نے لن میں ڈالا ہوا ہو اور مانی اپنی ہی بہن سے جیسے چوپے لگوا رہا ہو، یہ تصور کرتے ہی میرا لن پھر سے اکڑ جاتا ہے اور بلا خوف و خطر میں اپنی پینٹ کی زیپ کھول کر اپنا لن جو اس وقت "5.5 تک ہو گا باہر نکال کر اپنی مٹھی میں دبا کر آگے پیچھے کرنا لگتا ہوں مووی میں چدائی زور و شور سے جاری تھی اور یہاں میری مٹھ پورے آب و تاب سے جاری تھی میں نے نظر گھمائی تو دیکھا مانی بھی اپنا لن باہر نکالے مٹھ لگا رہا ہے مہر صاحب کی طرف دیکھا تو اس نے اپنا للا نکال کر مٹھ لگانے پر مصروف ہے، پھر اچانک سے مانی اٹھا اور اپنی پینٹ سنبھالتا ہوا باتھ روم کی طرف دوڑا اس کی دیکھا دیکھی میں بھی دوڑا اور ہمارے پیچھے پیچھے مہر صاحب بھی تشریف لے آئے اور کموڈ کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی مٹھ جاری رکھی پہلے مانی کے لن سے سفید مادہ نکلا پھر میرے لن سے نکلنے لگا پھر مہر صاحب بھی منزل مقصود پر پہنچ گئے جیسے ہمارے لوڑوں نے پانی نکال باہر کیا تو ہمیں ہوش آیا اور ایک دوسرے کے لوڑوں کو دیکھنے لگے، مانی چونکہ پیدائشی حرامی تھا میرے لن کو پکڑ کے بولا یار تیرا مال تو ہم دونوں سے زیادہ نکلا ہے، میں نے اپنا لن اس سے چھڑوایا اور کموڈ کے ساتھ لگے ہینڈل شاور کو آن کیا اور اپنے لن کو دھونے لگا میں اپنا لن دھو کر فارغ ہوا تو مانی مہر صاحب کے لن کی چیکنگ کر رہا تھا اور اس ٹٹول ٹٹول کر دیکھ رہا تھا، اپنی پینٹ اوپر کرتے ہوئے، میں نے بھی جب دیکھا تو میں بھی ایک دم چونک گیا اور پوچھا کے سالے تیرا للا اتنا بڑا کیسے ہے،
مہر: پتا نہیں بھائی ایسا ہی ہے،
مانی: ایسا نہیں ہوگا کچھ تو کیا ہوگا تو نے اس کے ساتھ،
مہر: نہیں یار کچھ نہیں کیا گاؤں میں سب کے اتنے ہی ہیں بلکہ ایسا سمجھو ان سب میں میرا ابھی چھوٹا ہے،
مہر کے لن کا سائز لگ بھگ 8 انچ کے قریب ہوگا اور موٹا بھی تھا ہم دونوں کے لن اس کے لن کے سامنے چھوٹے چھوٹے لگ رہے تھے خیر میرے بعد مانی نے اپنا لن دھویا اور پینٹ اوپر کی پھر مہر نے اپنا لن دھویا اور روم میں آکر پھر سے صوفوں پر براجمان ہو گئے، اور پھر مانی بولا دانی تیری منی کب سے نکل رہی ہے،
میں: حیرانی سے پوچھا منی؟ مانی: سالے یہ جو سفید مادہ نکلا ہے اس کو منی بولتے ہیں،
میں: یار قسم سے کل سے ہی نکل رہی ہے اور اب تک 6 بار نکل چکی ہے، مانی اور مہر دونوں ہی میری بات پر ہنس پڑے جیسے میں نے کوئی لطیفہ سنایا ہو،
مہر کی باتوں سے پتا چلا تو وہ ایک سال کے عرصے سے مٹھ مار رہا ہے لیکن ابھی تک چودا کسی کو نہیں، مانی بھی پرانا کھلاڑی ہے اور 3 سے 4 لڑکیوں کو بھی چود چکا تھا لیکن کن کن کو چودا وہ یہ بات گول کر گیا، کہ وقت آنے پر بتائے گا بھی اور ہم سے بھی چدوائے گا بھی خیر باتوں باتوں میں ٹائم گزر گیا اور ہم فریش ہو کر پھر سے سکول کی طرف نکل پڑے، گراوند پہنچے تو ہماری کلاس اور دسویں کلاس کے کسی سیکشن کا فائنل شروع ہونے والا تھا ہماری کلاس فائنل جیت گئی پھر ٹرافیاں وغیرہ تقسیم ہوئیں اور کچھ نقد کیش بھی اور پھر سب اپنے اپنے گھر کو نکلے مغرب کے ٹائم گھر پہنچا تو امی نے ڈانٹ پلا دی کہ کہاں تھا، لیکن حسب معمول سپورٹس کا بتا روم میں گیا چینج کیا باہر آیا تو امی نے کھانے کا پوچھا، بھوک تھی نہیں کیونکہ مانی کے گھر بہت کھانا کھایا تھا، پھر بستر پر لیٹ کر فزکس کی کتاب نکالی اور پھر سے کہانی پڑھنے لگا 30 منٹ میں ساری کہانیاں پڑھ لیں اور پھر کھڑا لوڑا لے کر باتھ روم گیا اور ٹکا کے مٹھ لگائی اور واپس روم میں آ کر لیٹ گیا، اور پھر کب نیند آ گئی پتا ہی نہ چلا، اگلے دن سکول سے چھٹی تھی جمعے کی وجہ سے میں دیر تک سوتا رہا، 9 بچے کمرے میں امی کی شاگرد آئی صفائی کرنے کے لئے تو اس کے جھاڑو لگانے سے میری آنکھ کھلی تو میں نے رضائی سے منہ باہر نکالا اور ایک نظر دیکھا اور پھر دیکھتا ہی رہا، اور آج پہلی بار میری نظر نے کسی کو گندی نظر سے دیکھا ایک مرد کی نظر سے دیکھا ورنہ میں نے کبھی ایسا سوچا بھی نہ تھا، وہ لڑکی جس کا نام سائرہ تھا امی کی شاگردوں میں ایک تھی سائرہ کا کام روزانہ گھر میں جھاڑو لگانا ہوتا تھا وہ تین بہنیں تھیں اور تینوں ہی امی سے سلائی سیکھنے آتی تھی سائرہ چھوٹی تھی لگ بھگ 18 سال کی ہوگی اس سے بڑی راشدہ تھی 20 سال کی اور اس سے بڑی ساجدہ 22 سال کی، خیر میں سائرہ کو جھاڑو لگاتے دیکھ رہا تھا رضائی سے منہ نکال کر وہ جھک کر جھاڑو لگا رہی کمرے میں اور میں اس کے گلے کے اندر جھانک کر اس کے چھوٹے چھوٹے 32 سائز کے ممے دیکھ رہا تھا، سائرہ تھوڑے سانولے رنگت کی تھی اور جسم کی بناوٹ بھی بہت اچھی تھی 32 سائز کے ممے پتلی سی کمر گانڈ پھیلی ہوئی تھی ابھری ہوئی تو نہیں تھی لیکن پھیلی ہوئی تھی اس نے شلوار قمیض کے اوپر چھوٹی سی جرسی پہنی ہوئی تھی جس کے سامنے سے بٹن کھلے تھے اور قیمض کا گلہ تھوڑا کھلا تھا جھکنے کی وجہ سے اس کے ممے نظر آ رہے تھے لیکن اس نے نیچے برا نہیں پہنا ہوا تھا شاید چھوٹے ممے ہیں اسی وجہ سے، لیکن اس کے سانولے ممے بہت ہی خوبصورت لگ رہے تھے، وہ جھاڑو دینے میں مصروف تھی اور میں اس کے ممے دیکھنے میں پھر وہ دوسری طرف منہ کر کے جھاڑو دینے لگی اور اسکی گانڈ میرے سامنے آ گئی اس کی گانڈ دیکھ میرا لن جو پہلے سے کھڑا تھا اور ٹائٹ ہو گیا اور میں نے رضائی میں ہی لن کو پکڑ کر مسلنا شروع کر دیا جھاڑو دیتے دیتے اچانک سے سائرہ پیچھے مڑی اور مجھے دیکھا اور پھر میری نظروں کو دیکھ کر وہ پہلی بار میں ہی سمجھ گئی میں کیا دیکھ رہا ہوں، بس اتنا دیکھنا تھا اور میرے ٹٹے شارٹ ہو گئے اور میری چوری رنگے ہاتھوں پکڑی گئی اس نے مجھے گھور کر دیکھا اور سیدھی کھڑی ہو ئی اور مجھے گھورتے ہوے وہاں سے نکل گئی اور میں سردی میں اپنی گرم رضائی میں گھسا ہوا کانپ رہا تھا کہ لے بیٹا اب تیری دھلائی ہو گی سیف گارڈ سے، ہمارے گھر میں جو کپڑے دھونے والا ڈنڈا تھا اس کا نام سیف گارڈ رکھا ہوا تھا، بس اسکا ذہن میں آتے ہی میرا کپکپانا شروع ہو گیا اور انتظار کرنے لگا کہ بس ابھی امی آئے گی اور صبح صبح دھلائی ہوگی میری، ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ کمرے کا دروازہ کھلا دروازے کی طرف دیکھا تو پھر سے سائرہ نمودار ہوئی اور مجھے ایک نظر گھور کے دیکھا پھر ہلکا سا مسکرا کر واپس چلی گئی،
شکر ہے ، اس کے مسکرانے سے میری جان میں جان آئی اور میری کپکپی کم ہوئی ورنہ میری تو ٹٹی خشک ہو گئ تھی، اچانک پھر دروازہ کھلا اور پھر سائرہ اندر آئی اور مجھے دیکھ کر پھر سے مسکرائی اور جھاڑو دینے لگی اب کی بار اس نے جو حرکت کی وہ تو میں دیکھ کر ہی دنگ رہ گیا اس نے مجھے دیکھ کر اپنا منہ دوسری طرف کیا پھر پیچھے سے اپنی قمیض کا پلو اٹھا کر اپنی شلوار کے نیفے میں گھسا دیا اس کے اس طرح کرنے سے اس کی قمر کا کچھ حصہ بھی ننگا ہو گیا اور وہ پھر سے جھک کر جھاڑو دینے لگی، میری تو چاندی ہی لگ گئی صبح صبح میرا تو لن صاحب جو ڈر کے مارے چوہا بن گیا تھا پھر سے شیر بن گیا اور سائرہ کی کھلی پیشکش دیکھ کر میرے تو خون کی گردش بھی تیز ہونے لگی، وہ جھاڑو دیتے دیتے میری چارپائی قریب ہوتی گئی تا کہ میں آرام سے اس کی پھیلی ہوئی گانڈ کا نظارا کر سکوں اور وہ مہا رانی اتنا پیچھے آ گئی کے میں آرام سے اس کی گانڈ کو ہاتھ لگا سکتا تھا لیکن پھر سے سیف گارڈ دماغ میں آیا اور رہی سہی مستی بھی نکل گئی میری لیکن سائرہ کی ایک اور حرکت سے میں چونک گیا، وہ اتنا پیچھے ہو گئی کہ اس کی گانڈ بالکل میرے منہ کے قریب ہو گئی اور بس 3 سے 4 انچ کے فاصلے پر تھی اور یہ فاصلہ بس چار پائی کا ہی تھا ورنہ اس کی رانیں چارپائی سے ٹکرا ہی گئی تھیں، سائرہ کا حوصلہ دیکھ کر مجھے بھی ہوشیاری آئی اور میں نے جھٹ سے اپنا منہ اس کی گانڈ میں گھسا دیا اور اس کی گانڈ کی خوشبو سونگھنے لگا اور اس کی لڑکی ہمت کی داد ہے اس نے اپنی گانڈ اور زور سے میرے منہ پر دبا دی میں نے جلدی سے دونوں ہاتھ رضائی سے باہر نکالے اور اس کی پھیلی ہوئی گانڈ کو دونوں ہاتھوں سے دبوچ لیا اور مسلنے لگا پھر پتا نہیں کیا ہوا مجھے میں نے اسکی شلوار کو نیفوں سے پکڑا اور اس کی لاسٹک والی شلوار اتار کر گانڈ کو ننگا کر دیا جیسے اس کی گانڈ ننگی ہوئی میرا تو برا ہی حال ہو گیا اور سائرہ کو جھٹکا لگا وہ جلدی سے سیدھی ہوئی اور اپنی شلوار اوپر کر کے بھاگ کھڑی ہوئی، میں پھر ڈر گیا کہ لے بھائی دانی اب تو گیو،
تھوڑی دیر میں مزید لیٹا رہا اور ڈر بھی رہا تھا، باہر جانے کی ہمت بھی نہیں ہو رہی تھی اچانک سے پھر دروازہ کھلا اور پھر سائرہ اندر آئی اسے دیکھ کر ایک دم سے میں اپنی چارپائی پر لیٹا ہوا اچھل کر بیٹھ گیا اور میرا اچھلنا دیکھ کر وہ شرارت بھری سمائل دے کر جھاڑو اٹھایا اور نشیلی سمائل دے کر کمرے سے باہر نکلتی گئی اس کے اس رویہ سے مجھے کچھ سکون آیا اور میرے اندر کچھ ہمت پیدا ہوئی اور میں اپنی رضائی کو چھوڑا اور باہر نکلا لن میرا ویسے ہی مرجھا گیا تھا جب سائرہ اپنی شلوار اوپر کر کے بھاگی تھی ، میں باہر آیا تو برآمدے میں 4 لڑکیاں بیٹھی سلائی کر رہیں تھیں 2 سائرہ کی بہنیں تھیں راشدہ اور ساجدہ، ایک آنٹی تھی جو امی کی ہم عمر تھی 38 سے 40 سال کی اسکا نام نصرت تھا لیکن سب اس کو نصری آنٹی بلاتے تھے اور چوتھی بھی آنٹی ہی تھی لیکن امی اور نصری آنٹی سے تھوڑا عمر میں کم تھی لگ بھگ 30 سال کی ہوگی اس کا نام نوشاد تھا اور نوشی کے نام سے مشہور تھی اور نوشی کے بھی قصے مشہور تھے لیکن جو میرے ساتھ پیش ہوں گے وہی لکھوں گا، امی کچن میں میرے لئے ناشتہ بنا رہی تھی، اور میری نظر سائرہ کو ڈھونڈ رہی تھی لیکن شاید وہ امی ابو کے کمرے میں صفائی کر رہی تھی اسی لئے نظر نہیں آئی، میں باتھ روم گیا پیشاپ کیا پھر واپس آکر کمرے میں گیا اپنے کپڑے نکالے اور وہاں سے کچن میں گیا گرم پانی ہو چکا تھا وہ اٹھایا اور باتھ روم گھس گیا ایک بار پھر عمی آپی اور سائرہ کی گانڈ کو سوچ کر مٹھ لگائی پھر نہا کر ناشتہ کیا اور باہر نکل گیا، کافی دنوں بعد محلے کے دوستوں سے ملا کیونکہ جب سے پرائیویٹ سکول میں داخلہ ہوا سکول کی ٹائمنگ کی وجہ کھیل کود ویسے ہی بند تھا اور محلے میں مٹر گشتی کرنے کا ٹائم بھی کم ملتا تھا کھیل کود کر واپس گھر آیا تو دوپہر ہو چکی تھی ابو بھی گھر آئے ہوئے تھے ابو کے سخت مزاج سے ویسے ہی ڈر لگتا تھا اسی لئے زیادہ تر ابو سے چھپ چھپ کر رہتا اور جب تک ابو گھر ہوتے میں کمرے سے باہر ہی نہیں نکلتا تھا، کمرے میں گھس کر پھر سے وہی فزکس کی کتاب نکال کر کہانیاں پھر سے پڑھنے لگا کیونکہ اب دماغ میں ہر وقت سیکس ہی سوار رہتا تھا، ابھی پڑھ ہی رہا تھا کہ سائرہ کمرے میں ائی اور بولی کہ آپکی امی بلا رہی ہیں آپکو، مجھے پہلے تو ڈر لگ گیا کہ کہیں سالی نے شکایت تو نہیں کر دی اور میرے چہرے کے تاثرات بدلتے ریکھ کر وہ ہونٹوں پر مسکان سجائے بڑے پیار سے بولی ڈرو مت میں نے نہیں بتایا کسی کو اور وعدہ کرو تم بھی نہیں بتاؤ گے کسی کو ، اس کی دوسری بات سن کر میں بھی حیران ہوا کہ سالی ڈر یہ بھی رہی ہے کہ میں کسی کو بتا دوں گا، میں جھٹ سے بولا میں کیوں بتاؤں گا، میں کسی کو نہیں بتاؤں گا یہ الفاظ سن کر اس کو اپنا تحفظ محسوس ہوا اور مسکراتی ہوئی باہر چلی گئی، میں بھی کمرے سے باہر آیا تو امی نے کہا بیٹا جی سائرہ کے ساتھ چھت پر جاو اور رھوپ میں کپڑے ٹانگ کر آو، اور بالٹیاں اٹھانے میں اس کی مدد کرو، دل ہی دل میں لڈو پھوٹنے لگے لیکن اوپر اوپر سے میں کام نہ کرنے کی ایکٹنگ بھی کرنے لگا لیکن زیادہ دیر تک نہیں کر سکا تھا کیوں کی گھر میں سارے ہی میرے ساتھ سخت رویہ رکھتے تھے ابے سے لے کر بھائیوں تک، خیر چپ چاپ ایک بالٹی اٹھائی گیلے کپڑوں والی اور کھرے کے ساتھ بنی سیڑھیاں چڑھتا ہوا اوپر جا کر رکھ آیا پھر دوسری بالٹی اٹھائی تو سائرہ بھی میرے آگے آ گئی اور مجھ سے آگے آگے چھت پر جانے لگی، میری تو پھر سے چاندی ہو گئی، اس کی گانڈ کا نظارہ مل رہا تھا پھر سے، اور آدھے سے زیادہ سیڑھیاں کراس کر کے اس نے پھر سے اپنی قمیض پیچھے سے اٹھائی اور شلوار کے نیفے میں ڈال دی مطلب ایک بار پھر کھلی آفر چھت پر پہنچ کر میں نے بالٹی رکھی، اور چاروں طرف نظر دوڑائی، ہماری چھت پر ایک کمرا تھا کونے میں لیکن اس کی چھت نہیں تھی، باقی چاروں طرف چار دیواری تھی، سائرہ کی حرکت دیکھ کر مجھے پھر جوش آیا میں اس کی طرف لپکا تو وہ آگے بھاگ گئی میں اس کے پیچھے بھاگا تو وہ بغیر چھت والے کمرے میں گھس گئی میں بھی اس کے پیچھے اسی کمرے میں گھس گیا جیسے ہی کمرے میں گھسا اس نے جھٹ سے مجھے پکڑا اور فٹ سے مجھے گلے سے لگا لیا اور پاگلوں کی طرح مجھے گالوں پے ہونٹوں پے جہا جگہ مل رہی تھی چوم رہی تھی میں نے بھی ایسے ہی کیا اور اس کو کس کے اپنے ساتھ لگا اس کے چھوٹے چھوٹے ممے میرے سینے میں پیوست ہو گئے اور میرا شیر کھڑا ہونا شروع ہو گئا اور اس کی رانوں کے درمیان میں ٹچ ہونے لگا پھر ہمارے ہونٹوں سے ہونٹ ملے اور ہم دنیا سے بے خبر ایک دوسرے کو بس چومے جا رہے تھے ہونٹوں کی کسنگ بس اوپر اوپر سے ہی تھیں کیونکہ میرا تو پہلا ہی تجربہ تھا اس کا پتا نہیں اور میرا تجربہ جو حاصل ہوا تھا وہ بس کہانیاں پڑھ کر ہی ہوا تھا باقی جو سیکسی
موویز دیکھیں تھیں اس میں تو ڈائریکٹ چدائی ہی دیکھی یا چوپے دیکھے تھے، سائرہ سے کسنگ کرتے ہوئے میرے دونوں ہاتھ اس کی پھیلی ہوئی گانڈ کی طرف حرکت کرنے لگے اور پھر جلدی سے اس کی گانڈ کی دونو پھاڑیوں کو دبوچ لیا اور مسلنے لگا سائرہ بھی فل مستی میں تھی اور اپنا ایک ہاتھ نیچے کر کے میرے کھڑے لن کو شلوار کے اوپر سے ہی پکڑ لیا، اور مسلنے لگی اس کا میرے لن کو پکڑنا تھا کہ میرے لن نے جھٹکے لینا شروع کر دیئے، اور میرے ہاتھ اس کی گانڈ کو دبوچنے لگے، قمیض کا پلو ویسے ہی اس کی گانڈ سے ہٹا ہوا تو میرے لئے آسانی تھی لیکن میں اب مزید آگے جانا چاہتا تھا میں ہاتھ اوپر اٹھائے اور اسکی لاسٹک والی شلوار کے اندر دونوں ہاتھ ڈال کر اس کی ننگی گانڈ کو دبوچ لیا گانڈ کا لمس جیسے ہی میرے ہاتھوں کو نصیب ہوا مجھے تو کرنٹ لگا سو لگا ساتھ میں سائرہ کو بھی لگا اور اس نے کس کے میرے لن کو پکڑ لیا اور اس کی میرے لن پر گرفت اور ٹائیٹ ہو گئی، میں اس کی گانڈ کو دبوچتے ہوئے اس کانڈ کی لکیر میں ہاتھ ڈالا اور گانڈ کی موری کو چھیڑنے لگا میرا ہاتھ تھوڑا نیچے گیا تو اس کی پھری سے پانی ٹپکتا ہوا میرے ہاتھ کو لگا میں جس سے سائرہ کو ایک اور جھٹکا لگا اور مجھ سے اور زور سے چپک گئی، میں وہی ہاتھ باہر نکالا اور آگے سے اس کی شلوار میں ڈال دیا اور سیدھا اس کی پھدی کا نشانا لیا اس کی پھدی پانی سے ترم تر ہو چکی تھی میں نے اپنے ہاتھ کی درمیانی انگلی اس کی پھدی میں ڈالی ہی تھی کہ اس کی پھدی مزید پانی بہانے لگی اور اس کی ٹانگیں کانپنے لگی اور وہ تیز تیز سانسیں لینے لگی اور اس کی ہاتھ کی گرفت بھی لن پر ڈھیلی پڑ گئی، مجھے اس وقت تو سمجھ نہیں آئی کہ اسے کیا ہوا لیکن بعد میں پتا چلا جب مانی کو بتایا تو اس نے بتایا کہ لڑکی بھی منی نکالتی جیسے ہماری نکلتی ہے، خیر سائرہ فارغ ہوتے مجھ سے الگ ہوئی اور نیچے بیٹھ گئی میری قمیض کا پلو ہٹایا اور مجھے آرام سے بولا میرے لن کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ اسے باہر نکالو جلدی، میں نے بھی فوری طور پر ایکشن لیا اور اپنا ناڑا ڈھیلا کر کے لن باہر نکالا میرا لن دیکھتے ہی سائرہ کی آنکھوں میں چمک آ گئ اور میرے لن کو پکڑ کر پہلے ٹٹولنے لگی پھر دستی اپنے منہ میں ڈال کر لولی پاپ کی طرح چوسنے لگی ابھی اس نے 7 سے 8 بار ہی منہ میں لے کر آگے پیچھے کیا تو مجھے لگا جیسے میرے جسم میں پھر سے حرکت ہونے لگی ہے اور حرکت ہوتی چیز میرے لن کی طرف رواں دواں ہے اور میں نے مستی سے سائرہ کے سر کو پکڑ کے اپنے لن کی طرف دبایا تو وہ بھی سمجھ گئی کے میں فارغ ہونے والا ہوں اس نے جلدی سے اپنے منہ سے لن کو نکالا اور میرے سائڈ میں کھڑی ہو کر میرے لن کو پکڑ کر تیز تیز آگے پیچھے کرنے لگی ابھی اس نے 3 سے 4 بار ہی آگے پیچھے کیا ہوگا کہ میرے لن نے زور دار فوارا چھوڑا جو فرش کو تر کرنے لگا میری لاتیں کانپ رہی تھی اور سانسیں پھول رہی تھی اور سردی میں گرمی کا احساس ہو رہا تھا میں جیسے ہی فارغ ہوا تو سائرہ نے زوردا ایک جپھی ڈالی اور میرے ہونٹوں کی چمی لے کر کمرے سے باہر بھاگ گئی میں وہیں کھڑا کھرا گزرے لمحوں کو سوچنے لگا، پھر اپنی شلوار سہی کی اور ناڑا باندھ کر باہر آیا تو دیکھا سائرہ تار پر کپڑے ڈال رہی ہے مجھے دیکھ کر مسکرا بھی رہی ہے، میں نے بھی دوسری بالٹی پکڑی اور اس میں سے کپڑے نکال کر تار پر ڈالنے لگا جیسے ہی کام ختم ہوا سائرہ میرے پاس آئی اور بولی دانی تمہیں قسم ہے کسی کوبھی یہ بات مت بتانا ورنہ میں ماری جاؤں گی، اس کی بات سن کر میں نے بھی اس کی قسم کو پکا کر کے کہا قسم سے کسی کو بھی نہیں بتاؤں گا یہ دانی کا وعدہ ہے،
سائرہ یہ بات سن کر خوش ہو گئی اور ایک چمی میرے ہونٹوں پر کر کر کے اپنے آپ کو سیٹ کیا اور نیچے کی طرف چلی گئی، میں نے بھی دونوں بالٹیاں اٹھائی اور نیچے آ کر کھرے میں بالٹیاں رکھ کر اپنے کمرے کی طرف چل پڑا، ابا شاید دکان پر واپس جا چکا تھا، پھر شام تک رضائی میں گھسا سارے دن کی کاروائی کو سوچتے ہوئے لیٹا رہا پھر واقع میں کتابیں نکالی اور پڑھنے لگا، پڑھائی میرا لن ہونی تھی جو سارا دن ہوا اس کی وجہ سے، پھر مجھے نیند ہی آ گئی اور سو گیا اور رات کو امی نے غصے سے اٹھایا کھانے کے لئے اور میرے لئے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی باہر آیا ہاتھ منہ دھو کر کھانا کھایا ابا اور بھائی بھی خاموش بیٹھے کھانا کھا رہے تھے، کھانا کھا کر ہاتھ دھو کر پھر کمرے میں چلا گیا میرے پیچھے دونوں بھائی بھی آپس میں گپیں مارتے ہوئے کمرے میں آئے نبیل بھائی نے مجھے غصے سے دیکھا اور اپنی چارپائی پر لیٹ گیا اسی طرح سلیم بھائی نے بھی غصے سے دیکھا اور منہ میں کچھ بڑ بڑایا اور وہ بھی اپنی چارپائی پر لیٹ گیا، اور یہ روزانہ کا معمول تھا جس کی مجھے عادت تھی، میں نے رضائی تانی اور منہ سمیت رضائی میں چھپ گیا اور پھر پچھلے 3 دنوں سے ہونے والی کارروائیوں کو سوچنے لگا کبھی عمی آپی کے حسن کا سراپا گھومتا تو کبھی مانی کی گانڈ اور پھر مہر کے للے کا ڈراوا اور پھر سائرہ کی گانڈ اور اس کا چوپا میرا لن پھر سے سر اٹھا کر کھڑا تھا جس کو کب سے مسل رہا تھا مسلتے مسلتے لن نے پھر سے اپنا کام کر دیا اور میری منی نکل گئی لیکن اب باہر باتھ روم جانے کے لئے موت پڑ رہی تھی ڈھیٹ بن کر لیٹا ہی رہا اور پھر کب نیند آ گئی پتا ہی نہیں چلا،،،،،،
اگلے دن ہفتہ تھا اور گھر سے نہا دھو کر ناشتہ کیا اور سکول کے لئے نکلا،
سکول پہنچ کر پڑھائی شروع ہوگئی، بریک تک سب نارمل رہا پھر جیسے ہی بریک ہوئی تو مانی میں اور مہر صاحب کلاس سے نکلے اور کینٹین کی طرف گئے اور آپس میں گپ شپ بھی کرتے جا رہے تھے، میں: مانی یار وہ کتاب واپس لے لو میں تو پڑھ پڑھ کر مٹھ مارتا رہتا ہوں،
مہر: ہاں نا سالے کل سے میرا بھی یہی حال ہے،
مانی: پین یکو اور کس لئے دی دی تھی کتاب تم لوگوں کو سالوں مٹھ مارنے واسطے ہی دی تھی، اور تم لوگ تو کل میری گانڈ ہی مارنے والے تھے،
ہم تینوں ایک ساتھ میں زور زور سے ہنسنے لگے،
اتنے میں کینٹین تک پہنچ گئے، مانی سموسے اور چائے لے آیا، ہم نے نظر دوڑائی کے کوئی خالی ٹیبل مل جائے لیکن نا ممکن، ہم وہاں گراونڈ کی طرف نکلے،
گراونڈ میں خشک گھاس دیکھ کر وہاں ہم نے ڈیرا ڈالا سردی کی دھوپ میں ٹھنڈی گھاس پر اور چائے سموسے کھانے لگے
پھر مانی مجھ سے بولا ہاں بتا کل کتنی بار مٹھ ماری
میں: یار 2 بار مٹھ ماری اور ایک بار چوپا لگوایا، جیسے ہی میں یہ بولا تو مانی اور مہر نے دستی میری طرف حیرانی سے دیکھا اور کہا ہیں؟؟؟؟؟؟
ان کی حالت دیکھ کر میں نے پھر ساری سٹوری سنا دی اپنی اور سائرہ والی،
سٹوری سننے کے بعد بولا، بیٹا وہ لڑکی پہلے سے ہی گرم تھی بس تیری وجہ سے اس کی پیاس بجھی ہے اور میں شرط لگا کر کہتا ہوں کہ وہ چالو لڑکی ہے اور پہلے سے لن کی سیر کر چکی ہے، اور گارنٹی سے کہتا ہوں دانی اگر تو زبردستی بھی اس کی چوت میں لنڈ پیل دے گا تو وہ تجھے چوں بھی نہیں کرے گی الٹا خود کہے گی سارا ڈال ٹٹے بھی ڈال ہاہاہاہا ، مانی کی یہ بات سن کر میری بھی ہنسی نکل گئی اور اس کی باتوں سے حیرانی بھی ہوئی اور اور اس کے تجربے کی بنا پر اس کی باتیں 100 فیصد درست بھی تھیں کیونکہ میں تو ابھی نیا کھلاڑی تھا اور بس میدان میں اترنے کی تیاری ہی کر رہا تھا،
بریک ٹائم ختم ہو گیا تھا ہم کلاس میں آ چکے تھے بریک کے بعد کے پیریڈ کوئی خاص اہم نہیں تھے لیکن کلاس تو اٹینڈ کرنی ہوتی ہے،
ٹیچر اپنا لیکچر دے کر آرام سے دروازے کے ساتھ رکھی کرسی پر بیٹھ گیا ، اور ہم دوہرائی کرنے لگے اپنی اپنی کتاب کھول کر، ہماری کلاس میں طالبعلموں کی 40 تک تعداد تھی، اور ڈیسکوں کی تین لائنیں تھی درمیان والی لائن کے پہلے ہی ڈیسک پر بلیک بورڈ کے سامنے ہم بیٹھتے تھے اور ہمارے بیگ ڈیسک کے اوپر رکھے ہوتے تھے، میں بھی اپنی کتاب کھول کر بیگ کے اوپر رکھ دوہرائی کرنے میں مصروف تھا اسی دوران مجھے محسوس ہوا اور دیکھا کہ مانی کا ہاتھ میری ران پر گردش کر رہا تھا اور مانی مجھے سرگوشی میں بولا چپ چاپ کتاب پر نظر رکھنا، سالے کی اس حرکت سے میرا تو میٹر شارٹ ہونے لگا، لن میرا اپنے آپ ہی کھڑا ہونے لگا اور مانی کا ہاتھ میری ران کی اندر کی طرف حرکت کرنے لگا اور مجھے تو پورے جسم میں سرور دوڑنے لگا اور میرا لن لکڑ بن گیا پھر اچانک سے مانی نے ہاتھ ہٹا لیا اور پھر آرام سے بولا بس اتنا کافی ہے ،
گانڈو میرے ارمانوں پر تو جیسے پانی پھر گیا سالا جلتی پر تیل چھڑک گیا، پھر مجھے بھی ہوشیاری آئی، پہلے چاروں طرف نظر گھما کر تسلی کی پھر میں نے بھی مانی کی ران پر ہاتھ رکھ کر ویسا ہی کرنا شروع کر دیا جیسے مانی میرے ساتھ کر رہا تھا میں نے بھی مانی کی ران پر ہاتھ رکھا اور سلو سلو اپنے ہاتھ کو اس کی ران پھیرنے لگا میرا ہاتھ اس کے لن پر لگا تو اس کا لن بھی کھڑا تھا ، میں نے مانی کی طرف دیکھا تو وہ آرام سے کتاب پر نظر رکھے پڑھنے میں مصروف تھا،
میں نے پینٹ کے اوپر سے ہی مانی کے لن کو سہلایا اور اس کی لمبائی اور موٹائی کو چیک کرنے لگا لگ ھگ 5 انچ تک تھا اس کا لن اور موٹائی میں بھی میرے لن سے تھوڑا کم ہی تھا،پھر مانی کی طرف دیکھا تو اس سالے نے مہر صاحب کے لن کو پکڑا ہوا تھا، پڑھائی کے ساتھ ساتھ ہمارا جنسی کھیل بھی جاری تھا، اور یہ سب ہم احتیاط سے کر رہے تھے تا کہ سب کی نظروں سے بھی بچے رہیں، پھر اچانک سر اپنی کرسی سے اٹھے تو ہم بھی چوکنے ہو گئے اور اپنا پڑھنے لگے اتنے میں بیل ہوئی اور سر چلے گئے اور دوسرے سر کلاس میں آ گئے اس کی کلاس میں کوئی ایسی ویسی حرکت نہیں کی، بس پڑھائی کی، سکول کے بعد گھر آگیا، سائرہ نے دروازہ کھولا اور زبان چڑا کر مجھےچھیڑا میں نے بھی جواب میں ویسے ہی کیا، اندر داخل ہو کر اپنی سائیکل سٹینڈ پر لگا کر کمرے میں چلا گیا اپنے کپڑے چینج کئے پھر آرام سے لیٹ گیا، مہر سے کہانی کی کتاب سکول میں ہی تبدیل کر لی تھی اب دوسری کہانی والی کتاب نکال کر پڑھنے لگا اس میں بھی مست کہانیاں تھیں،
بھابی کے ساتھ سیکس
ہمسائی کے ساتھ سیکس
کام والی نوکرانی کے سیکس
اسی طرح کی کافی کہانیاں تھیں لیکن پتا نہیں کیوں اس کتاب کو پڑھ کر مزا نہیں آ رہا تھا، ٹائم دیکھا تو 4 بج رہے تھے میں کمرے سے نکلا اور چھت پر چلا گیا، اور سوچ رہا تھا کیا پتا سائرہ اوپر آجائے اور تھوڑی بہت مستی ہوجائے، لیکن یہ میری ہی سوچ تھی، کافی دیر چھت پر رہا دھوپ بھی ٹھنڈی ہونے لگی تو پھر نیچے آگیا، کمرے میں جانے لگا تو امی کی گرجدار آواز آئی دانش،
میں جی کرتا ہوا ان کی طرف دیکھا تو حکم ملا دکان پر جاو اور سامان لے آو اور مغرب سے پہلے واپس آجانا، حکم کی تعمیل کی گئی دکان کی طرف نکلا ابو پہلے سے ہی سامان پیک کر کے بیٹھے تھے، سامان مجھے دیا میں نے سائیکل پر احتیاط کے ساتھ کیرئیر پر رکھ کر باندھ دیا، فٹا فٹ گھر آگیا مغرب میں ابھی ٹائم کافی تھا، میں نے شکر ادا کیا پھر کمرے میں آ کر چارپائی پر لیٹ گیا اور سکون بھی نہیں آرہا تھا نہ ہی پڑھائی میں دل لگ رہا تھا، خیر رات ہوئی تو ابو اور بھائی لوگ بھی دکان سے آگئے پھر کھانا کیا سب نے اور خاموشی سے سب سونے چلے گئے،
اگلے دن پھر سےوہی روٹین صبح تیار ہو کر سکول کے لئے نکل گیا اور سکول میں وہی روٹین پڑھائی کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کے لن پکڑ کر ہلانا اور گانڈ کے پہاڑوں کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ کرنا جاری رہتی تھی مانی ہمیں روزانہ کوئی نہ کوئی سیکسی کہانیوں کی کتاب لا کر دیتا تھا اور پرانے والی واپس لے جاتا تھا اسی طرح دن گزرتے رہے اور روزانہ کی مٹھ بھی جاری رہی،پھر جمعے کا دن آیا جس کا مجھے بھی انتظار تھا،
جمعے والی صبح میری انکھ جلدی ہی کھل گئی سائرہ کے انتظار کی وجہ سے کہ وہ آئے گی جھاڑو لگانے تو مستی ہو گی، میں اپنی رضائی میں لیٹا اسی کا انتظار کر رہا تھا کہ کمرے کا دروازہ کھلا میں نے فوری طور پر آنکھیں بند کر لیں اتنے میں کمرے میں جھاڑو لگنے کی آواز کانوں میں ائی،کانی آنکھ سے دیکھا تو کوئی دوسری طرف منہ کر کے جھکی ہوئی تھی اور جھاڑو لگانے میں مصروف تھی میں نے غور سے دیکھا تو وہ سائرہ ہی تھی اسے بھی اندازہ ہوگیا کہ میں جاگ گیا ہوں، وہ جلدی سے سیدھی ہوئی اور میری طرف مڑی اور دوڑتی ہوئی میری چارپائی کے پاس آئی بولی اٹھ گئے ہو، میں نے بس ہاں میں سر ہلایا، سائرہ جلدی سے میرے اور قریب ہوئی اور میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے میں اپنی رضائی میں ہی تھا بس میرا منہ ہی رضائی سے باہر تھا سائرہ نے بس تھوڑی ہی دیر تک یہ سب کیا پھر پیچھے ہٹ گئی اور اہستہ سے سرگوشی میں بولی کہ آج آپکی امی آپکو ایک کام بولیں گی آپ نے پہلے تھوڑا نخرا کرنا ہے پھر وہ کام کرنا ہے اتنا کہہ کر وہ جلدی جلدی جھاڑو لگا کر کمرے سے نکل گئی، اور میں سوچ میں پڑ گیا کہ سالی کیا کام کروائے گی،
خیر کافی دیر لیٹا رہا پھر اٹھا نہا دھو کر ناشتا کیا، اور مٹر گشتی کرنے باہر نکل گیا، گھر کے سامنے ایک بڑا سا گراونڈ تھا محلے کے سب لڑکے وہیں کھیل کود میں لگے ہوئے تھے، میں بھی بس وہاں جا کر ٹائم پاس کرنے لگا، پھر دل نہیں لگا تو سوچا جا کر سیکسی کہانیاں ہی پڑھتا ہوں، واپس گھر آیا تو امی کی آواز،
دانش،،،،،،
میں نے امی کی طرف دیکھ کر کہا جی،
امی،، بیٹا سائرہ کے ساتھ اس کے گھر جاو یہ سلائی مشین اس کے گھر چھوڑ کر وہیں رہنا جب تک اس کی امی گھر واپس نہ آ جائے،
پھر میرے ذہن میں ساری فلم چلی کی سائرہ کا ضرور کوئی پلان ہو گا یا تو آج پھدی ملے گی یا پھر گانڈ پھٹے گی،
خیر دل ہی دل میں لڈو پھوٹنے لگے لیکن اوپر سے نخرہ دکھایا لیکن میری کہاں چلنی تھی، خیر چپ چاپ سلائی مشین اٹھا کر سائیکل کے کیرئیر پے رکھی اور سائیکل گھر سے باہر نکالی سائرہ بھی اپنی چادر لپیت کر ایک گٹھڑی اٹھا کر میرے پیچھے چل پڑی، سائرہ نے سر پر گٹھڑی کو رکھ ایک ہاتھ سے گٹھڑی کو پکڑا ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ سے اپنے نقاب کو ،
میں نے پیدل پیدل ہی سائیکل کو ایک ہاتھ سے قابو کیا ہوا تھا اور دوسرا ہاتھ سلائی مشین پر تھا، دو گلیاں چھوڑ کر سائرہ لوگوں کا گھر تھا اس نے جلدی سے دروازہ بجایا تو اس کی امی نے دروازہ کھولا اور مجھے دیکھ پھر پورا دروازہ کھول دیا میں سائیکل سمیت اندر داخل ہوگیا ان کے صحن میں سائیکل کو اسٹینڈ پر لگا مشین اتاری اور پوچھا کہاں رکھنی ہے تو اس کی امی نے کمرے کی طرف اشارہ کیا میں کمرے میں گیا تو اس کی امی بھی میرے پیچھے آگئی، اور ایک چارپائی پر مشین کو رکھنے کا کہا میں نے جلدی سے مشین رکھی کیونکہ بھاری بھی تھی اور اسی چارپائی پر بیٹھ گیا اپنے ہاتھوں کو دبانے لگا سائرہ کی امی مجھے دیکھ مسکرائی اور پھر کہا چائے پیو گے، میں نے بے تکلفی سے کہہ دیا جی آنٹی،
سائرہ کی امی باہر چلی گئی اور سائرہ کو کہا بھائی کےلئے چائے بنا دے اور وہ میں جا رہی ہوں دروازہ بند کر لو پھر کمرے میں ائی اور مجھے نصیحت کی کہ اپنی بہن کا خیال رکھنا اور بغیر پوچھے دروازہ مت کھولنا جب تک میں واپس نہ آ جاوں تم یہیں رہنا، اور میرے سر پر شفقت والا ہاتھ رکھ پیار دے کر وہاں سے چلی گئی، میں چپ چاپ کمرے میں ہی بیٹھا رہا، تھوڑی دیر بعد سائرہ 2 کپ چائے لے آئی ایک مجھے دیا اور دوسرا خود لے کر میرے ساتھ چارپائی پر بیٹھ گئی، اور پھر مجھے بولی دانش آج موقع اچھا ہے امی 2 گھنٹے تک نہیں آنے والی آج جیسے مرضی میرے ساتھ مزے کرنا ، اس کی بات سب کر مجھے بھی دل ہی دل میں خوشی ہوئی لیکن ڈر بھی لگ رہا تھا، ایسا لگ رہا تھا جیسے چوری کرنے آیا ہوا ہوں اور پکڑا گیا تو پورے محلے والے گنجا کر کے گدھے پر بٹھا کر محلےکی سیر کروائیں گے، میں اپنی ہی سوچوں میں گم تھا کہ سائرہ نے مجھے ہلایا تو واپس اپنے ہوش میں آیا،
سائرہ: کہاں گم ہو جناب
میں: کچھ نہیں بس ایسے ہی،
سائرہ: لگتا ہے ڈر رہے ہو،
میں: نہیں نہیں ایسی بھی بات نہیں ہے،
سائرہ: اچھا جلدی جلدی چائے پیو پھر اپنا کام شروع کرتے ہیں، میں نے بھی جلدی سے چائے ختم کی سائرہ کپ اٹھا کر باہر چلی گئی، میں نے کمرے کا جائزہ لیا تو کمرے میں تین چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں اور بڑے سلیقے سے ان پر بستر سجے ہوئے تھے، چھوٹا سا کمرا تھا لیکن صاف ستھرا لگ رہا تھا اتنے میں سائرہ اندر ائی اور دروازہ بند کر کے لاک کر دیا اور مجھے کھینچ کر دوسری چارپائی پر لے گئی میں بھی آرام سے اس کے ساتھ کھسکتا گیا سائرہ نے مجھے چارپائی پر دھکا دے کر لٹایا میں بھی لیٹتا گیا میرے پاوں ابھی زمین پر تھے باقی کا حصہ چارپائی پر تھا سائرہ جلدی سے میرے اوپر آئی اور دیوانہ وار مجھے چومنے لگی میں بھی اس کا برابر کا ساتھ دینے لگا میرے ہاتھوں نے سائرہ کی گانڈ کی طرف رخ کیا اور دونوں پھاڑیوں کو پکڑ پکڑ کر بھینچنے لگا سائرہ نے میرے ہونٹوں سے ہونٹ ہٹا کر شرارت سے کہا لگتا ہے میرے چوتڑ بہت پسند آ گئے تمہیں، میں نے بھی ہاں میں سر ہلایا وہ مسکراتی ہوئی پھر سے میرے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ کر چومنے اور چاٹنے لگی آگ برابر کی لگی ہوئی تھی اور ایسے ہی 5 سے 7 منٹ کی کسنگ ہوئی وہ میرے اوپر سے اٹھی اور مجھے سیدھا ہو کر لیٹنے کا بولا تھک تو میں بھی گیا تھا تو جلدی سے جوتے اتار کر چارپائی پر سیدھا ہو گیا سائرہ بھی جوتے اتار کر میرے اوپر آ گئی اور ٹھیک میرے لن پر اپنی پھدی ٹکا کے بیٹھ گئی اور ہھر سے کسنگ کا دور شروع ہوا اور نیچے سے اپنی گانڈ کو بھی ہلا ہلا کر اپنی پھدی کو میرے لن پر گھسا رہی تھی میرا لن شلوار کے اندر فل ٹائیٹ ہو کر سائرہ کی پھدی کے مزے لے رہا تھا اور اوپر سے ہمارے ہونٹ اپس میں لڑائی کر رہے تھے، اور میرے دونوں ہاتھ سائرہ کی گانڈ کو سہلا رہے تھے دینا سے بے خبر ہم اپنے مزے گم ہو گئے سائرہ نے کسنگ کے دوران دونوں ہاتھ نیچے کئیے اور میری سویٹر کو پکڑ کر اوپر کرنے لگی میں تھوڑا سا اوپر ہوا خود ہی باقی کی سویٹر کو اتار کے رکھ دیا پھر سائرہ نے میری قمیض کے بٹن کھولے اور میرے اوپر سے اٹھ کھڑی ہوئی میں نے باقی کی قمیض خود ہی اتار لی میری دیکھا دیکھی سائرہ نے بھی اپنا ڈوپٹہ اتار پھینکا پھر خود ہی اپنی قمیض اتاری اس کی قمیض اتری تو وہ اوپر سے بالکل ننگی ہوگئ اور سانولے جسم پر اس کے 32 سائز ممے بالکل سیدھے نوک کی طرح اکڑے ہوے مجھے منہ چڑا رہے تھے سائرہ نے مجھے دیکھ کر جلدی سے شلوار بھی اتار دی اور بالکل الف ننگی ہو کر میری شلوار کی طرف لپکی اور میرے ناڑے کو کھول دیا اور نیفوں سے شلوار کو پکڑا میں نے اپنی گانڈ کو ہاتھوں کی مدد سے اوپر اٹھایا اور اس نے میری شلوار نیچے کر دی اور میرے پیروں سے نکال کر دوسری چارپائی پر پھینک دی اور میں نے جلدی سے اپنی بنیان بھی اتار پھینکی اور اب ہم دونوں مادرزادننگے تھے سائرہ نے پھر مجھے چارپائی پر گرایا اور میرے اوپر پہلے والی پوزیشن میں بیٹھ گی اب اس کی پھدی جیسے ہی میرے لن کے ساتھ چپکی تو میرے لن نے جھٹکے پے جھٹکے لینا شروع کر دیئے اور میں مزے کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبنے لگا دو ننگے جسم ایک دوسرے کو چپکے ہوئے تھے ہونٹ ہونٹوں سے جڑے ہوئے تھے پھری لن کے ساتھ چمی چاٹی کر رہی تھی اور میرے ہاتھ بے ساختہ سائرہ کی گانڈ کا موازنہ کر رہے تھے، مجھ سے اب اور برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا میں نے جلدی سے سائرہ کو اپنے نیچے کیا اور خود اوپر آ گیا اور پھر اس کی گردن سے چومنا شروع کیا اور کان کی لو تک چومتا گیا اس کے پورے جسم میں ھترتھلی مچ گئی میں نے پھر سے وہی کیا تو سائرہ نے اپنی دونوں ٹانگوں کو میری کمر کے گرد لپیٹ لیا اور اپنے پیروں کے زور سے میری گانڈ کو نیچے کی طرف دبایا جس سے میرا لن اس کی پھری کے گرم گرم اور گیلے پانی سے ٹکرایا، مجھے میرے لن سے ہوتے ہوئے
پورے جسم میں سرور کے جھٹکے لگے لن کو توجھٹکے لگ ہی رہے تھے جس کا اثر مجھ پر بھی ہو رہا تھا، مں نے سائرہ کے کان کی لو چھوڑ کر سائرہ کے مموں کا رخ کیا اس کے چھوٹے چھوٹے سانولے ممے جن پر براون رنگ کے چھوٹے چھوٹے اکڑے ہوئے نپل دیکھ کر میرا دل مچل گیا اور دستی زبان نکال کر سیدھے ممے پر وار کیا اور پھر پورا منہ کھول کر اس کے ممے چوسنے چاٹنے اور پھر چھوٹے سے نپل کو آرام سے کاٹنے لگا سائرہ کی سسکاریا کمرے میں گونج رہیں تھی اور اپنی گانڈ کو اٹھا اٹھا کر پھدی کو میرے لن سے رگڑ رہی تھی سیدھے ممے کو چوسنے کے بعد میں دوسرے ممے کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا تاکہ دونوں کو برابر کا حق ملے، مموں کو چوسنے کے بعد میں اس کے پیٹ کی طرف بڑھا تو میرا لن اس کی پھدی سے دور ہو گیا اور وہ مچل گئی جیسے اس کی دنیا ہی اجڑ گئی ہو، میں اس کے پیٹ کو چومتا ہوا اس کی ناف میں زبان گھمانے لگا تو وہ اور مچل لیکن اس والے مچلنے سے اس سکون ملا تھا پھر میں نے اپنا رخ اس کی پھدی کی طرف کیا، اس نے خود ہی اپنی ٹانگوں پورا کھول کے رکھ دیا جتنا وہ کھول سکتی تھی میں نے جیسے ہی سائرہ کی پھدی کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہا کیونکہ پہلی پھدی تھی جو میں اپنی زندگی میں اتنے قریب سے اصلی حالت میں دیکھ رہا تھا سانولی رنگت پر براون رنگ کے پھدی کے باریک باریک دو ہونٹ کسی کمان کی طرح سجے ہوئے تھے اور دونوں ہونٹوں کے بالکل اوپر ایک چھوٹا سا سوراخ نما دانہ باہر کو نکلا ہوا تھا اور پھدی کے اند سے لیس دار سفید سفید لیکن پتلا پتلا مادہ نکل رہا تھا، میں نے انگلی سے پہلے اس مادے کو چیک کیا جو چپ چپا تھا پھر میں نے اپنے ہاتھ کی دو انگلیوں سے اس کی پھدی کے ہونٹوں کو کھولا تو اندر کا نظارہ ہیجان خیز تھا میرے لئے پھدی کی اندرونی جلد لال اور گلابی تھی اور اس کے سفید مادے کی وجی سے اس کی چمک میں مزید اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا مجھ سے کنٹرول نہ ہوا اور میں نے کہانیوں کا تجربہ ذہن میں رکھ کر اس کی پھدی کے اندرونی حصے پر زبان لگائی، زبان کا لگانا تھا کہ سائرہ نے تڑپ کر اپنے دونوں ہاتھ میرے سر پر رکھ کر میرے سر کو اپنی پھدی پر دبایا اور میری زبان اس کی پھدی کے اندر تک داخل ہو گئ اور اس کی سسکاریاں تیز ہوتی گئیں، اس کی پھدی کا سفید پانی میری زبان پر لگا تو نمکین اور میٹھا ہلکا سا ٹیسٹ آیا اور عجیب سا بھی تھا لیکن اس کی خوشبو میرے دماغ کو بہت ہی مست محسوس ہو رہی تھی جو میرے ناک کے ذریعے سے دماغ کو چڑھ رہی تھی میں ایسے ہی اس کی پھدی میں زبان پھرتا رہا اور اس لیس دار مادہ چاٹتا رہا 3 منٹ بھی پورے نہیں ہوئے تھے کے سائرہ مچھلی کی طرح تڑپنے لگی اور میرے سر کو اپنی پھدی پر زور زور سے دبانے لگی، ایسے ہی اس نے دو سے تین بار کیا اور پھر یک دم اس کی زور دار سسکاری نکلی اور پھدی سے پانی کی دھار نکلی جو پہلے والے مادے سے زیادہ گاڑھا مادے جیسی تھی اور سیدھا میری زبان سے وہ مادہ ٹکرایا اس کی گرمائش اتنی زیادہ تھی کہ میری زبان پر جیسے ہی اس کا مادہ ٹچ ہوا تو میں نے اپنا منہ پیچھے کر لیا جیسے میری زبان جل گئی ہو، پھر پھدی کی طرف دیکھا تو وہ مادہ مسلسل نکل رہا تھا سائرہ کی ٹانگیں کانپ رہی تھی اور سسکاریاں نکل رہی تھی، مجھے مانی کی بات یاد آ گئی کہ لڑکی بھی منی نکالتی ہے جیسے ہم نکالتے ہیں،
سائرہ کا پانی نکلا تو وہ سکون میں آگئ اور مجھے اپنے اوپر کھینچ کر میرے ہونٹوں کو کس کس کے چاٹنے لگی پھر چھوڑ کر بولی دانش افففففف کیا مزا دیا ہے آج تم نے،
اتنا کہہ کر سائرہ نے مجھے اپنے ساتھ لٹا دیا اور خود میرے اوپر آ گئی، اور پھر دیوانہ وار مجھے چومنے لگی، پہلے پورے چہرے کو چوما پھر ہونٹوں کو پھر گردن اور کان کی لو کو مجھے تو پورے جسم میں کرنٹ لگ رہے تھے اور میرا لن بھی جھٹکے لے لے کر اس کی پھدی اور گانڈ کے سوراخ کو ٹچ کر رہا تھا، پھرسائرہ تھوڑا نیچے ہوئی اور میرے بالوں سے پاک سینے کو چومنے لگی میرے چھوٹے چھوٹے نپلز کو زبان سے چوسنے اور دانتوں سے کاٹنے لگی ایسا کرنے سے میرے تو انگ انگ میں سرسری دوڑ رہی تھی پھر سائرہ اور نیچے ہو کر میری ناف میں حملہ کر دیا اور اپنی زبان اندر تک لے جاتی مجھے تو ایسا لگ رہا تھا جیسے میرے پر لگ گئے ہیں اور میں ہواوں میں اڑ رہا ہوں اتنا ظالم قسم کا مزا آرہا تھا، پھر سائرہ نے میرے لن پر حملہ کیا اور میرے لن کی ٹوپی کو اپنی زبان نکال چاروں طرف سے گھما کر چاٹا پھر ٹوپے اور لن کے نچلے حصے کے درمیان جو گولائی والا حصہ ہوتا ہے اس پر اپنی زبان کی نوک سے گھما گھما کر پورے ٹوپےکو اپنے ہونٹوں میں پھسا کر سانس اندر کھینچا تو ایسا لگا جیسے میرے لن کا سٹرا بنا کر میرے اندرسے کچھ کھینچنے کی کوشش کر رہی ہو اس کا یہ انداز مجھ سے بردشت کرنا بہت ہی مشکل ہو رہا تھا اور میں نے اس کے سر کو پکڑ کر اپنے لن پر دبایا تو میرا پورا لن کے منہ میں غائب ہوتا گیا اور جا کر اس کے حلق سے ٹکرایا اس نے پھر ایسا ہی کیا منہ اوپر کیا بس ٹوپہ ہی منہ میں رہنے دیا پھر سے نیچے جھکی اور پورا لن منہ میں لے لیا میرا تو مزے سے برا حال ہو رہا تھا اور یہ عمل نا قابل برداشت تھا میرے لئے اور پھر وہی ہوا جو ہونا تھا جسم کے اندر خون کی گردش جو لن کی طرف جاتی ہوئی سیدھا سائرہ کے منہ میں سائرہ نے منہ اوپر کر کے میرے لن کے ٹوپے کو قابو کیا میری ساری منی اس منہ میں اترتی گئی اور میرا جسم جھٹکے لے لے کر ہل رہا تھا سائرہ نے ٹوپے کو قابو کیا ہوا تھا جب ساری منی نکل گئی تو سائرہ نے مہارت سے اپنے منہ سے ٹوپے کو چھوڑا اور سائڈ پر جھک کر اپنے منہ میں جمع کی ہوئی میری منی کو تھوک دیا،میرا لن ابھی بھی آسمان کی طرف منہ کر کھڑا تھا منی نکالنے کے باوجود، سائرہ نے دیکھا تو اس کی آنکھوں کی چمک صاف بتا رہی تھی کہ کتنا خوش ہے اس نے زیادہ دیر نا کرتے ہوئے میرے اوپر آئی اور اپنی پھدی کو میرے لن پر سیٹ کر کے بیٹھنے لگی، لن پہلے سے ہی گیلا تھا اور اس کی پھدی بھی پانی بہا رہی تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے میرا پورا لن اس کی پھدی میں غروب ہو گیا اور اس کی پھیلی ہوئی گانڈ میری رانوں پر ٹک گئی اور اسکی گانڈ کا لمس مجھے پھر سے جگا رہا تھا کہ پتر ابھی بس نہیں ہوئی، میرے ہاتھ خود بخود اس کے چھوٹے چھوٹے مموں کی طرف بڑھے اور پکڑ کر دبانا شروع کر دیا نپلز کو مسلنا شروع کر دیا اور میرا لن جیسے ہی سائرہ کی پھدی میں گیا تو پھدی کی اندرونی آگ نے میرے لن کو گرمائش دی اور وہ گرمائش لن کے راستے مجھے میرے پورے جسم میں دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی اور میرے لن نے اس کی پھدی کے اندر جھٹکے لینا شروع کئے سائرہ سمجھ گئی اور پھر آہستہ آہستہ اپنی گانڈ کو اٹھا کر واپس میری رانوں پر رکھ دیتی اور مجھے ایسا لگا جہاں میں ابھی جن ہواوں میں اڑ رہا تھا اب اس سے بھی اوپر جانے لگا ہوں سائرہ میرے سینے پر ہاتھ رکھے ہوئے اوپر نیچے اوپر نیچے ہو رہی تھی میں چارپائی پر لیٹا لیٹا ہوا میں اڑ رہا تھا، 5 منٹ تک سائرہ یہی کرتے رہی پھر تھک کر میرے ساتھ لیٹ گئی اور مجھے اپنے اوپر آنے کا کہا اور میں بھی فورن ہی اٹھا اور اس کی ٹانگوں کے درمیان آیا اس نے اپنی پوری ٹانگیں پھیلا کر میرے لئے جگہ بنائی اور میں نے اس کی پھدی کا اپنے لن سے نشانہ لے کر ایک ہی جھٹکے میں لن کو اندر کیا اور اس کے اوپر لیٹتا گیا اس کے چھوٹے چھوٹے ممے میرے سینے سے لگے اور ہونٹ ہونٹوں سے ملے کسنگ کے ساتھ میں نے اپنی گانڈ کو حرکت دی سائرہ نے اپنی ٹانگیں میری کمر کے گرد لپیٹ کر اپنے دونوں ہاتھوں کو میری گانڈ کے سائیڈوں پر رکھ کس کے پکڑ میں لیا اور مجھے کہا کہ اب زور زور جھٹکے مارو، مجھے بھی تھوڑا جوش ایا اور میں نے اپنا کام شروع کیا اور لن اتنا باہر نکالا کہ ٹوپاہی اس کی پھدی کے اندر تھااور پھر گانڈ کا زور لگا کر جھٹکا مارا تو افففففف امممممممممم کی آواز سائرہ کے منہ سے نکلی جو سیدھا میرے منہ میں گئی میں نے پھر وہی کیا اور ہممممممممم ہااااااان اور زور سے اور زور سے دانی اممممممممم ، میرا پھر سے وہی جھٹکا اور پھر سے وہی سسکیاں پھر میں نے اس کی دونوں ٹانگوں کو اٹھا کر اپنے
کندھوں پر رکھا اور اپنا چپو چلا دیا میرے ہر جھٹکے کی سپیڈ برابر تھی اور سردی میں میرا جسم پسینوں پسان ہو گیا اور ماتھے پر سے پسینہ میری آنکھوں کے سامنے سے گزرتا ہوا گالوں کے راستے نیچے کی طرف سفر کرنے لگا اور میرے جھٹکے برابر اسی رفتار میں چلتے رہے سائرہ پھر تڑپنے لگی وہ فارغ ہونے کی قریب تھی، لیکن مجھے ابھی دور دور تک نظر نہیں آ رہا تھا کہ فارغ ہوتا ہوں یا نہیں لیکن میری سپیڈ پہلے سے زیادہ تیز تر ہو رہی تھی اور یہ تبدیلی مجھے خود بھی محسوس ہو رہی تھی سائرہ کی سسکیاں پورے کمرے میں جلترنگ کا ماحول بنا رہی تھیں پھر اس کا ٹائم بالکل قریب آگیا اور اس کی پھدی نے پانی چھوڑنا شروع کر دیا جو میرے لن پر صاف محسوس ہو رہا تھا میں نے اپنا لن باہر نکالا تو میرے لن کے پیچھے ہی اس کی پھدی سے پانی چھلک کر باہر نکلا اور پھدی سے ہوتا ہوا اس کے گانڈ کے سوراخ کو بھی گیلا کرنے لگا اور وہ سسکیوں کے ساتھ مدہوش تڑپ رہی تھی میرا ابھی پانی نہیں نکلا تھا جو سائرہ بخوبی جانتی تھی وہ جیسے ہی شانت ہوئی تو اٹھ کر ڈوگی سٹائل میں ہو گئی اور مجھے کہا اپنی خواہش پوری کر لو، اس کی یہ بات سن کر پہلے تو میں چونکا کہ کونسی خواہش لیکن جب اس نے اپنے ہاتھ پیچھے لا کر دونوں ہاتھوں سے اپنی گانڈ کی پھاڑیوں کو پکڑ کر کھولا تو مجھے سمجھنے میں دیر نہ لگی میرا لن ابھی بھی گیلا تھا اور سائرہ کی گانڈ کا براون سوراخ اس کی پھدی کے سفید پانی سے چمک رہا تھا میں نے دیر نہ کرتے ہوئے اپنے لن کو اس کی گانڈ کے سوراخ پر ٹکایا اور ہلکا سا زور لگایا تو میرا ٹوپا آرام سے سائرہ کی گانڈ میں اتر گیا باقی کا کام سائرہ نے خود ہی آسان کر دیا اپنی گانڈ کو پیچھے کی طرف دھکیل کر میرا پورا کا پورا لن اپنی گانڈ میں غائب کر گئی اور سائرہ افففففففف کرتی رہ گئی اور مجھے تو جیسے زور دار قسم کا سرور لزت ملا میں نے اس کی پھیلی ہوئی گانڈ سے تھوڑا سا اوپر اس کی پتلی سی کمر کو پکڑ کر اپنا چپو پھر چلا دیا میرا لن پھنس پھنس کر اس گانڈ کے اندر جا رہا تھا اور اسکی گانڈ کی گرمی میرے پورے جسم میں سرائیت کرتی جا رہی تھی وہ سسکیاں لے رہی تھی اور دبی دبی آواز میں زور زور سے جھٹکے مارنے کا کہہ رہی تھی میرا جوش اور بڑھتا جا رہا تھا جوش کے مارے چپو بھی تیز چلا رہا تھا پسینہ پھر آنے لگ گیا تھا، 5 منٹ تک اسی پوزیشن میں گانڈ مارتا رہا پھر سائرہ شاید تھک گئی تھی تو وہ وہسے ہی سامنے کی طرف لیٹتی گئی اور میں بھی اپنا لن پھسا کر اسی طرح اس کے اوپر لیٹ گیا اور پھر لیٹے لیٹے ہی اس کی گانڈ میں لن کو پیلنے لگا، اس طرح میرا لن اس کی گانڈ میں مزید پھس پھس کر جا رہا تھا میرا لن جیسے ہی اس کی گانڈ غائب ہوتا ہو تو زور لگا کر اپنی گانڈ کو ٹایٹ کر لیتی تھی اور یہ مزا تو میرے لئے اجیرن بنتا جا رہا تھا،2 منٹ تک مزید اسی انداز میں چپو چلایا تو مجھے بھی لگا کہ اب میں بھی فارغ ہونے لگا ہوں اور سائرہ سسکیوں میں پتا نہیں کیا کہہ رہی تھی مجھے کچھ سنائی ہی نہیں دے رہا تھا بس سائرہ کے اوپر لیٹا ہوا اس کی گانڈ کی کھدائی کر رہا تھا اپنے لن سے ، پھر سے وہی خون کی گردش اور اس کی حرکت جو لن کی طرف جاتی ہوئی محسوس ہوئی اور پھر تین سے چار زور دار جھٹکے سائرہ کی گانڈ میں لگنے کے بعد میرے لن نے سائرہ کی گانڈ کے اندر ہی الٹیاں کرنا شروع کر دی اور مجھے بھی تھوڑا سکون ہوا اور اسی حالت میں سائرہ کے اوپر لیٹ گیا اور زوز زور سے ہانپنے لگا، 10منٹ تک ایسے ہی سائرہ کے اوپر لیٹا رہا دنیا جہاں سے بے خبر آنکھیں بند کیئے ہوئے سکون کی وادیوں میں کھویا ہوا تھا مجھے سائرہ کے آواز نے چونکا دیا،
واہ دانی آج تم نے جو میری تسلی کروائی ہے ایسی تسلی تو نہ ہی نبیل بھائی نے کی نہ ہی سلیم بھائی نے،
میں نے جیسے ہی سائرہ کے الفاظ سنے تو پھدک کر اس کے اوپر سے اٹھا جیسے کرنٹ لگا ہو،اور چارپائی سے اتر کر کھڑا ہو کر ننگی سائرہ کو حیرانی سے دیکھنے لگا، سائرہ بھی مجھے ایسے اچانک اٹھتے دیکھ کر تھوڑا جھینپ گئی اور شرمندہ بھی ہوئی کہ وہ کیا بول گئی ہے،
مجھے تو اپنے بھائیوں کے نام اس کے منہ سے سن کر جو حیرت شدید جھٹکا لگا تھا اپنے آپ کو سنبھال ہی نہیں پا رہا تھا، کیوں کہ مجھے تو بس یہی پتا تھا کہ جتنی سختی میرے اوپر میرے دو بڑے بھائی کرتے ہیں، شاید ہی کوئی نیک پاک ان کے برابر ہو، خیر ابھی انہی سوچوں میں گم تھا کہ ننگی سائرہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور چارپائی سے اٹھ کر مجھے بھی اپنے ساتھ چارپائی پر بٹھاتے ہو ئے کہا کہ تھوڑا سنبھالو اپنے آپ کو،تمہارے بھائی جیسا تم سوچ رہے ہو ویسے نہیں ہیں، تم ابھی جوان ہو رہے ہو اور تمہارے بھائی 2 سال پہلے مجھے چود چکے ہیں، اور اب بھی جب موقع ملتا ہے تو مجھے چدوانا پڑتا ہے، اور میں ہی نہیں جو گھر میں 4 خاتون اور بیٹھی ہیں وہ سب تمہارے بھائیوں کے لن پر جھولے کھا چکی ہیں،
سائرہ کی یہ بات سن کر تو مجھے ایک اور شدید جھٹکا لگا کہ یہ کیا بہن چودی ہے، سالے میرے لئے نیک اورخود پین یکیاں، میں اب اپنا رونا لے کر بیٹھ گیا کہ میرے ساتھ ہی ظلم کیوں بچپن سے مجھے چھوٹی سی چھوٹی بات پر سیف گارڈ سے دھلائی کرنے والے اور مزہب کی تلقین کرنے والے 10 گنا زیادہ حرامی ہیں مجھ سے، میں یہ سوچ کر جوش میں آ گیا اور جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا اور بڑبڑانے لگا کہ آج آنے دو ان کو، میں ابے کو بتاتا ہوں ان کے کارنامے سالے مجھے مارتے تھے سائرہ نے میری بات سن لی تھی اور پھر میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے جھٹک کر بٹھا لیا،
سائرہ: پاگل ہو گئے ہو کیا اور تم نے جو ابھی ابھی میرے ساتھ کیا وہ کیا تھا اگر میں جا کر بتا دوں کہ تم نے مجھے زبردستی چودا ہے تو تمہارے سارے گھر والے تمہیں زندہ جلا دیں گے، آرام سے بیٹھو اور اور میری بات سنو بڑے آئے مرد بن کے دکھانے والے،
سائرہ کی بات سن کر میں جھینپ گیا اور شرمسار بھی ہوا کہ بات تو سائرہ کی بھی ٹھیک ہے، میں نے جلدی سے سائرہ کے دونوں ہاتھ تھام کر کہا یار سائرہ پلیز کسی کو مت بتانا ورنہ وہ مجھے بہت ماریں گے، سائرہ میری اس حرکت پر تھوڑا سا ہنسی اور میرے سر کے بالوں میں ہاتج پھیرتے ہوئی بولی کہ وہ کسی کو نہیں بتائے گی اور بہتر ہوگا تم بھی چپ رہو بس جب کہیں اور جیسے ہی کوئی موقع ملا تو وہ مجھے بلا جھجک مزے دے گی، میری تھوڑی تسلی تو ہوئی تھی لیکن پھر بھی اندر غصہ بہت تھا جو میں نے باہر نہیں آنے دیا پتا نہیں کیوں غصہ تھا اپنے بھائیوں پر شاید بچپنا کہہ لو یا جیلسی، سالے سب کو چود چکے ہیں، اور مزید غصہ ان کی منافقت کا کہ نیک بن کر دکھاوا کرنا، میں یہی سوچتے سوچتے اپنے کپڑے اٹھائے کمرے کا دروازہ کھولا اور باتھ روم کی طرف چل دیا میں ننگا ہی سائرہ کے گھر میں گھوم رہا تھا جیسے ہی سردی کی لہر میرے جسم میں ایسے دوڑی تو میں بھی دوڑتا ہوا باتھ روم گھسا اپنے لن کو دھویا کلی وغیرہ کی اور جلدی سے کپڑے پہن کر واپس کمرے میں ایا تو سائرہ بھی چارپائی پر لگے بستر سیٹ کر چکی تھی اور چادر جو ہمارے مادے سے خراب ہوئی تھی وہ بھی تبدیل ہو چکی تھی اور زمین پر جو میرا مادہ سائرہ نے گرایا تھا وہ بھی صاف کر چکی تھی اور پہلی والی چار پائی پر رکھی سلائی مشین کو سیٹ کر کے رکھ رہی تھی، میں کمرے میں جا کر اسی چار پائی پر بیٹھ گیا جہاں تھوڑی دیر پہلے ہمارا ننگا کھیل چل رہا تھا، سائرہ مجھے بیٹھنے کا کہہ کر باہر چلی گئی پھر 10 منٹ بعد کمرے میں آئی تو اس کے ہاتھ میں ایک شیسشے کا گلاس تھا جس میں دودھ صاف نظر آرہا تھا، چہرے پر ہلکی مسکان سجائے بڑے ہی سیکسی انداز میں میری گود میں بیٹھ کر مرے منہ سے دودھ کا گلاس لگایا اس کا انداز اتنا نشیلا اور سیکسی تھا کہ میں انکار کر ہی نہ سکا اور ایک ہی گھونٹ میں ہلکا نیم گرم دودھ پی کر گلاس خالی کر دیا، سائرہ نے خالی گلاس میرے منہ سے ہٹھا کر میرے اوپر والے ہونٹ کو اپنے
ہونٹوں میں لے کر اس پر لگے دودھ کو اپنی زبان نکال کر چاٹ کر صاف کیا اور سیکسی انداز میں مسکرا کر پھر باہر چلی گئی اور میں حیرت سے نئے تجربے کا مزہ لے کر وہیں ساکت ہو کر بیٹھا رہا کہ یہ کیا ہوا تھا بہن چود اس طرح کے رشتے میں اتنا مزا ملتا ہے مجھے وہ کہانیوں کی کتابیں بھی اب سچی لگنے لگی تھی، ساری کہانیاں دماغ میں گھومنے لگیں کہ ہمسائی کی چدائی کام والی کی چدائی ،یہ سب سچ ہی ہوگا، پھر سوچتے سوچتے جب بہن پر بات آئی تو مانی کی طرف سوچ گئی، یہ سوچتے ہی مجھے پھر کرنٹ لگا کہ نہیں نہیں یہ میں کیا سوچ رہا ہوں ایسا نہیں ہو سکتا ایسا کبھی نہیں ہو سکتا مانی اپنی بہن کے ساتھ سیکس نہیں کر سکتا وہ اس کی سگی بہن ہے، میں نے انکار میں اپنے سر کو ہلایا، لیکن شیطان کہاں ہمیں مثبت سوچنے دیتا ہے اور ایسا ہی ہوا شیطان حاوی ہو گیا اور اس نے مزید میری سوچ کو بڑھاوا دیا کہ بہن بھائی کے ساتھ سیکس کر سکتی ہے بہن کا بھی تو دل ہوتا ہے اب سائرہ نے تیرے ساتھ سیکس کیا وہ تیری بہن تو نہیں ہے لیکن کسی اور کی بہن تو ہے اور خود سوچو جب کسی اور کی بہن کسی سے بھی چدوا سکتی ہے تو مانی کی بہن کونسا نہیں چدوا سکتی اور اگر تھوڑی دیر کے لئے اپنے دل و دماغ سے نکال دو کہ وہ مانی کی بہن ہے بس ایک لڑکی کے اعتبار سے سوچو، وہ چدوا سکتی ہے بھلے ہی چودنے والا کوئی بھی ہو ، مانی ہو یا دانی، یا پھر 8 انچ کا لوڑا رکھنے والا مہر صاحب،
میں اسی سوچ میں اتنا محو تھا کہ مجھے اپنی رانوں پر کسی نرم نرم چیز کیا احساس ہوا، سوچ سے باہر نکلا تو دیکھا سائرہ اپنی گانڈ میری گود میں رکھ کر بیٹھی ہے اور پھر ہلکا سا چہرہ گھما کر پوچھا جناب کہاں گم ہوں، میں نے بس کچھ نہیں کہنے پر ہی اکتفا کیا، سائرہ نے مجھے ہونٹوں پر شاندار کس کی اور کہا باہر دھوپ میں جا کر بیٹھو میں بھی آتی ہوں، میں چپ چاپ وہاں سے اٹھا اور باہر صحن کے ایک کونے میں دھوپ میں بچھی چارپائی پر بیٹھ گیا، تھوڑی دیر میں سائرہ بھی آ گئی اور میرے ساتھ بیٹھ گئی اور مجھے پکار کر کہا دانش ایک بات کہوں،
میں: ہا بولو
سائرہ: آرام سے میری بات سننا اور وعدہ کرو کے کسی کو بتاو گے بھی نہیں،
میں: ٹھیک ہے جی کسی کو نہیں بتاوںگا آپ بولو کیا بات ہے،
سائرہ: بات یہ ہے مجھے تم شروع سے پسند تھے، لیکن میں ڈرتی تھی کہ تم کسی کو بتا نا دو، اور ابھی بھی ڈر رہی ہوں کہ تم کسی کو بتا دو گے، پلیز مجھ سے وعدہ کرو کہ تم کسی کو نہیں بتاو گے،
میں: میں وعدہ کرتا ہوں کسی کو نہیں بتاوںگا قسم لے لو مجھ سے بے شک،
سائرہ: نہیں قسم نہیں لینی میں نے تمہارا للا لینا ہے (شرارتی لہجے میں)
میں بھی ہنس دیا اور بولا ٹھیک ہے للا حاضر ہے جب کہو جیسے کہو،
پھر سائرہ بولی اگر ایسے رازداری سے تم مجھے للا دیتے رہو گے تو تمہارے للے کو اور بھی بہت سی پھدیاں ملیں گی یہ میرا وعدہ ہے تم سے،
میں نے اپنی آنکھوں کو پورا کھول کر حیرت کا مظاہرہ کیا کہ اور کہا ہیییییییییییں؟؟؟؟؟
سائرہ بھی اسی انداز میں بولی ، ہاااااااااااااان
میں: تجسس سے سائرہ کو دیکھ کر بولا پھر بھی بتاو تو سہی
سائرہ : وقت آنے پر سب ہو جائے گا بس تم آم کھاو
ابھی ہم یہی باتیں کر رہے تھے کے دروازہ بجا اور سائرہ دروازہ کھولنے چلی گی اور میں پھدیوں کے بارے میں سوچنے لگا میرا لن پھر سے کھڑا ہونے لگا تو میں نے جلدی سے اسے اپنی شلوار کے نیفے میں پھانسی دے دی، کیونکہ سامنے سے سائرہ اپنی امی کے ساتھ آ رہی تھی، سائرہ کی امی میرے پاس آئی اور پیار سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور شکریہ بولا اور کہا بیٹا اب تم گھر جا سکتے ہو میں آ گئی ہوں،
میں نے بھی جانے پر ہی اکتفا کیا اور اپنی سائیکل اسٹینڈ سے اتاری اور دروازے کی طرف بڑھا تو سائرہ جلدی سے آئی اور بولی بھائی مجھے بھول گئے کیا میں نے بھی ساتھ ہی جانا ہے، اپنی چادر اورھتے ہوئے اور نقاب سیٹ کرتے ہوئے بولی میں نے ٹھیک ہے چلو پھر، اس نے دروازہ کھول دیا میں نے سائیکل نکالی اور ہم پیدل پیدل ہی گھر کی طرف چلنے لگے راستے میں میری نظر طارق پر پڑی جو ہماری ہی گلی میں رہتا تھا اس کو ہم موٹا موٹا کہہ کر بلاتے تھے، وہ مجھے دیکھ کر ہنس رہا تھا اور اشارے بھی کر رہا تھا انگلی سے کے آج تو پوپٹ مال کے ساتھ ہے، میں اس کا اشارہ تو سمجھ گیا تھا لیکن کچھ کہہ نا پایا کیونکہ میں نے سائیکل کے ہینڈل کو دونوں ہاتھوں سے پکڑا ہوا تھا اور ویسے بھی چپ ہی رہتا اگر نا بھی پکڑا ہوتا، بس چپ چاپ چلتا رہا، سائرہ نے اس کا اشارہ دیکھ لیا تھا اور منہ ہی منہ میں موٹے کو گالیاں نکالنے لگی، کتا بغیرت دلا بلابلا، پھر بولی کنجر اس کے گھر میں ماں بہن نہیں ہے جو ایسے گندے گندے اشارے کرتا ہے، پھر پتا نہیں کیا ہوا سائرہ کو مجھ سے بولی، دانش بس تم اپنا ہتھیار ٹائیٹ رکھنا اسکی بہن کی سیل تجھ سے ہی کھلوانی ہے،
میں بھی اس کی یہ بات سن کر ہنس دیا اور موٹے کو دیکھ کر ہنسنے لگا، موٹا تھوڑا کنفیوز ہوگیا اور سمجھ گیا تھا کہ اسی کے بارے میں بات ہوئی ہے، خیر ہم موٹے کو نظر انداز کرتے ہوئے گھر پہنچ گئے دروازہ کھلا تھا تو انتظار نہیں کرنا پڑا بس اندر چلے گئے سائیکل کو اسٹینڈ پر لگایا اور چپ چاپ کمرے کی طرف جانے لگا، لیکن جاتے جاتے برآمدے میں راشدہ اور ساجدہ پر نظر پڑی تو جھینپ گیا کیونکہ وہ مجھے شکی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے پھر سائرہ کی طرف دیکھا تو وہ بھی مسکرا رہی تھی، مجھے پتا نہیں کیوں الجھن سی ہوئی جیسے میری چوری پکڑی گئی ہو چور میں ہی ہوں یہ سب جانتی ہیں، میں تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگا تو پیچھے سے پانچوں کی زور زور سے ہنسنے کی آواز آئی،
دوستوں کچی عمر کے ڈر اور خوف بھی عجیب ہوتے ہیں نا کسی کو بتاو تو اپنی ہی گانڈ پھڑواو، نا بتاو تو اندر ہی اندر خود سے لڑائی جاری رہتی ہے، پھر اندر کی لڑائی باہر کی لڑائی سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے، اندر کی لڑائی سے بندہ اپنا آپ خیالی پلان بناتا رہتا ہے اور خود سے فیصلہ کرتا ہے اور خود سے نتیجے بھی نکالتا ہے اب ایسا ہی حال میرا تھا،
کمرے میں تو آگیا تھا لیکن اب باہر برآمدے میں بیٹھی 5 خواتین کی ہنسی مجھے ایسے چبھ رہی تھی جیسے کسی نے مجھے اٹھایا ہو اور واپس زمین پے لا کر پٹک دیا ہو، اس وقت میری سوچ جتنا کام کر سکتی تھی اس کے مطابق تو میں ڈر ہی رہا تھا کہ اب کیا ہو گا، یہ لوگ اتنا زور سے کیوں ہنسے، کیا ان کو پتا تھا؟؟؟ کیا یہ سب ملے ہوئے ہیں، کیا انہوں نے مل کر مجھے پھسایاہے؟؟؟؟؟،
یہی سوچ رہا تھا کہ باہر سے زور دار امی کی آواز ( کیا ہو گیا ہے کیوں اتنا زور زور سے ہنس رہے ہو پورے گھر کو سر پر اٹھایا ہوا ہے) امی کی اس آواز سے وہ سب چپ ہو گئی جیسے سکتا طاری ہو گیا ہو، امی شاید کچن میں تھی اسی لئے آواز مجھ تک بھی سنائی دی،اور میں نے بھی دل ہی دل میں امی کا شکر ادا کہ ان کو مجھ پر ہنستا ہوا چپ کروایا، امی برآمدے میں آ کر پھر پوچھنے لگیں، کیوں ہنس رہے ہو پاگلوں کی طرح، خیر نصری آنٹی نے کوئی لطیفے والی بات بتا کر امی کو ٹھنڈا کیا، اور پھر وہ خواتین اپنے کام میں مصروف ہو گئیں کیونکہ پھر سلائی مشینوں کی آوازیں آنے لگ گئی تھی،
امی کمرے میں میرے پاس آئیں اور مجھے گھر کے پاس قریبی ایک پرچون کی دکان سے کچھ سامان لانے کے لئے پیسے دیئے اور کہا جلدی آنا تیرا ابا آنے والا ہے کھانا بنانا ہے میں نے،
میں بھی گھر سے نکلنا چاہتا تھا تو فوری طور پر وہاں سے نکلا، باہر آیا تھوڑا ٹائم پاس کیا پھر دکان سے سامان لے رہا تھا کہ موٹا وہاں پر آگیا،
موٹے کو دیکھ کر تو پہلے میں ڈر گیا تھا کیونکہ وہ واقع ہی موٹا تھا اورعمر میں بھی مجھ سے 3 یا 4 سال بڑا تھا، لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا موٹے نے آرام سے مجھے سلام کیا اور میری طرف دیکھنے لگا،
پھر آرام سے پوچھا اس گشتی کے گھر کیا کرنے گیا تھا،
موٹے کے اس اچانک سوال سے میرا تو رنگ فق ہو گیا اور پریشانی صاف جھلک رہی تھی میرے چہرے سے کہ یہ کیسا سوال کر دیا ہے اس نے، موٹے نے مجھے پیٹ پر چٹکی کاٹتے ہوئے پھر پوچھا ابے بول نا،،،،،
میں نے بس ہکلاتے ہوئے کہا،
ککککککککککچھ نہہہہہیں،
موٹا میرے اس جواب ہر ہنسا اور پھر میرے کان کے قریب اپنا منہ لے کر آیا اور سرگوشی میں بولا، یار مجھے بھی اس پھدی دلوا دے تیری مہربانی،
موٹے کی یہ بات سن کر مجھے تو غصے کی لہر نے پکڑ لیا، اور میرا خون کھولنے لگا، پتا نہیں کیوں، میں کچھ کہتا کہ اتنے میں دکاندار چچا نے کہا لو پتر تیرا سامان ہو گیا، میں نے جلدی سے پیسے پوچھے اور دکاندار چچا کو پیسے دے کر وہاں سے موٹے کو گھورتاہوا نکلا، لیکن موٹا مجھے بھی ویسے ہی گھور رہا تھا، پھر دکاندار چچا نے اس کو اپنی طرف متوجہ کیا تو اس نے مجھے گھورنا بند کیا اور چچا کی طرف منہ کر لیا میں بھی گھر کی طرف چل دیا، امی کو سامان دیا اور پھر باہر نکلنے لگا تو امی نے کہا کہاں جا رہا ہے، چل آرام سے گھر بیٹھ اور تھوڑی دیر بعد اپنی نصری آنٹی کو گھر چھوڑ کر آناہے تم نے وہ آج جلدی جائے گی،میں چپ چاپ کمرے میں آگیا لیکن وہ خواتین مجھے دیکھ کر مسلسل مسکراتی ہی رہیں، نوشی آنٹی نصری آنٹی کے کان میں کچھ کھسر پھسر کر رہی تھی مجھے سمجھ تو نا آیا لیکن نصری آنٹی کی بات سمجھ آئی جو کہہ رہی تھی،(دیکھیں گے)، بس یہی الفاظ سن سکا کمرے میں جاتے ہوئے،
میں اپنی چارپائی پر بیٹھا سائرہ سے ہوئی چدائی کے بارے میں اور اس سے ہوئی باتوں کے بارے میں سوچ رہا تھا ، میرا لن پھر سے سر اٹھانے لگا اور مجھے سائرہ کی بات یاد آگئی کہ (اب پھدیوں کی لائن لگنے والی ہے تو بس ہر وقت تیار رہنا)، مجھے اس بات سے پتا نہیں کیوں عجیب خیالات آنے لگے کہ وہ کونسی پھدیاں ہوں گی، کیونکہ اس وقت میرے ذہن میں یہی تھا کہ میں چدائی صرف میری ہی عمر کی لڑکیوں سے کر سکتا ہوں اور سائرہ ابھی اتنی زیادہ عمر کی نہیں تھی بس 3 سال کا ہی فرق تھا میرا ابھی باقی خواتین کے بارے میں میرے ذہن میں کو کوئی ایسا ویسا گندا خیال نہیں تھا اور نہ ہی آرہا تھا کہ نصری آنٹی یا نوشی آنٹی، یا ساجدہ باجی یا راشدہ باجی، ان کی طرف سے ابھی میں بے خبر تھا، لیکن پھر اچانک یاد آیا کہ سائرہ نے کہا تھا یہ ساری خواتین میرے دونوں بھائیوں کے لوڑوں کے جھولے کھا چکیں ہیں، بس یہ بات ذہن میں آتے ہی میرے لن نے پھر جھٹکا کھایا،اور پھر سب کے جسموں کے سراپائے حسن کو اپنی نظر میں دوڑانے لگا، ابھی میں نے راشدہ باجی کا سوچنا شروع ہی کیا کہ امی کی آواز، دانشششششش، میں راشدہ باجی کے سراپے سے نکلا اور دوڑتا ہوا باہر نکلا تو دیکھا صحن میں نصری آنٹی چادر اوڑھے ہاتھ میں ایک شاپر پکڑے جس میں کپڑوں کے ٹکڑے صاف دکھائی دے رہے تھے پکڑے ہوئے کھڑی تھی، میں قریب پہنچا تو وہ شاپڑ میری طرف بڑھا دیا نصری آنٹی نے ، اور کہا کہ چلو، خود آگے چل پڑی اور میں پیچھی پیچھے انکو فالو کرتا ہوا نکل پڑے ،نصری آنٹی کا گھر بھی ہمارے ہی علاقے میں تھا لیکن 5 منٹ پیدل کے راستے پر 8 گلیاں چھوڑ کر،
نصری آنٹی 40 سال کی ایک خوبرو حسینہ تھا، اس کا شوہر دبئی میں کافی عرصے مقیم تھا اور ایک سال بعد ایک مہینے کی چھٹی پر آتا تھا اور نصری آنٹی بھی کئی بار دبئی کے چکر لگا آئی تھی، ان کی فیملی بولڈ قسم کی فیملی تھی اور امیر بھی تھے، لیکن امیریت کا غرور نہیں تھا سادہ طبیعت رکھنے والی اور بہت ہی نرم دل کی مالک تھی اور صاف گو تھی، پیار کرنے والی اور گھر داری کو سمجھنے والی،ان کو اپنے لئے کپڑے لینا اور نئے ڈیزائن کے کپڑے پہنے کا بہت شوق تھا تو اسی لئے امی کے پاس سلائی سیکھنے آتی تھی تاکہ اپنے لئے کپڑے لے اور خود ہی سلائی کر کے پہنے، آنٹی کے 2 بچے بھی تھے، ایک بیٹا تھا جو میری ہی عمر کاتھا اور شہر کے مہنگے سکول میں ہاسٹل میں پڑھتا تھا اور 15 دن بعد 2 دن کے لئے آتا تھا ایک بیٹی تھی 20 سال کی، جو لاہور میں میڈیکل کر رہی تھی اپنے ماموں کے گھر رہ کر، مطلب لے دے کر نصری آنٹی کی گھرایک انکی بوڑھی ساس رہتی تھی اور ایک نوکرانی تھی جو گھر کے کام کاج کرتی تھی گھر میں کسی چیز کی کمی نہیں تھی اچھا بڑا گھر تھا گاڑی تھی پیسا تھا اور خوبصورتی بھی تھی، علاقے کے سب لونڈے اس کو دیکھ کر آنکھیں سینکتے تھے اور بزرگ بھی،
لیکن آنٹی کی سادہ طبیعت تھی اور گھریلو ٹائپ خاتون تھی اپنی عزت کی حفاظت کرنا بخوبی جاتنی تھی کون کیا کہتا ہے وہ کسی کی پرواہ نہیں کرتی تھی، امیریت ہونے کے باوجود آنٹی ہمارے گھر میں چٹائی پر بیٹھ کر سلائی سیکتھی تھی، مطلب بہت ہی نرم دل کی مالک تھی، خیر 5 منٹ میں ہی آنٹی کے گھر پہنچ گئے تو آنٹی نے مجھے بھی اندر آنے کا کہا اور میں چپ چاپ اچھے بچوں کی طرح ان کے گھر میں داخل ہو گیا کافی بڑا اور شاندار گھر تھا لیکن اتنا بڑا بھی نہیں تھا کوٹھی نما تھا گیراج میں ہی ایک بڑی گاڑی گھڑی تھی اور ایک بائیک اور ایک سپورٹس سائیکل جو شاید آنٹی کے بیٹے کی ہونگیں،
انٹی نے اپنی چادر اتاری اور تہہ لگا کر اپنی بازو پر رکھ لی اور مجھ سے شاپر لے کر اس میں سے اپنا دوپٹہ نکال کر وہ پہن لیا باقی کا شاپر خود ہی پکڑ لیا اور مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ دے کے کر وہ اندر کی طرف جانے لگی میں بھی پیچھے پیچھے فرمانبردار بچوں کی طرح جانے لگا، یہ ایک بہت بڑا ھال تھا جہاں انکی ساس بیٹھی تھی ایک صوفے پر اور سامنے لگے بڑے سے ٹی وہ کو گھور رہی تھیں، آنٹی نے اپنی ساس کو سلام کیا انکی دیکھا دیکھی میں نے بھی سلام کیا اور میرے بارے میں اپنی ساس کو بتایا تو انہوں نے مجھے اپنے پاس صوفے پر بٹھا لیا اور مجھے پیار کرنے لگی اور دعائیں دینے لگیں اور میری امی کو بھی دعائیں دینے لگیں اور ان کی تعریفیں بھی کرنا شروع ہو گئیں، آنٹی نے مجھ سے پوچھا دانش چائے پیو گے، میں انکار کرتا اس سے پہلے ساسو ماں نے کہا ہاں ہاں کیوں نہیں چائے پلاو ہمارے بیٹے کوپہلی بار آیا ہے اور کھانا کھلا کر بھیجنا، لیکن کھانا کھانے کی بات پر میں بول پڑا اور کہاں نہیں اماں بس چائے ہی پی لوں گا کھانا رہنے دیں، آنٹی نے اسی ٹائم کسی کو آواز دی تو ایک خاتون کمزور قسم کی ھال میں آئی تو انٹی نے اسے چائے بنانے کو کہا،اور پھر دوہرایا نازی سپیشل والی، اور نازی ماسی مسکراتے ہوئے باہر چلی گئی، اب آنٹی کی ساسو ماں میرا انٹرویو لینے لگی، کیا کرتے ہو، عمر کیا ہے یہ وہ، ان کی آواز سے ان کے بڑھاپے کا صاف پتا چل رہا تھا، اتنے میں نازی ماسی چائے لے آئی، اور چائے کی ٹرے ٹیبل پر رکھ کرایک کپ آنٹی کی ساس کو دیا ایک کپ مجھے دیا اور ایک کپ آنٹی کو دیا اور ساتھ ہی بولی، باجی میں اب جارہی ہوں جمعے کے بعد آجاواں گی ،کھانا بھی بنا دیا ہے میں نے اور باقی کے سارے کام ہو گئے ہیں، نصری آنٹی نے بس ہاں میں سر ہلایا اور نازو ماسی اٹلاتے ہوئے وہاں سے نکل گئی ساسو ماں چائے پینے لگی اور ٹی وی دیکھنے میں مصروف ہو گئیں جیسے کوئی خاص چیز لگی ہو، آنٹی میری طرف دیکھ کر بس ہلکا ہلکا مسکرا رہی تھی اور جب میری نظر ان پر پڑتی تو مجھے خود کو اپنی نظر چرانی پڑتی تھی،پتا نہیں کیوں آج آنٹی کیوں اتنا بھاو دے رہی تھی سمجھ سے باہر تھا خیر چائے ابھی ختم ہی نہیں ہوئی تھی کہ آنٹی کی ساسو ماں بولی پتر میں چلی آن مینوں نیندر آئی اے میرا پتر روٹی کھادے بغیر نا جاویں پہلی واری آیا ایں تو ساڈے ال، میں نے بس خالی سر ہلایا، تو ساسو ماں آرام سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اٹھی اور ہلے ہلکے قدم لیتے اپنے کمرے کی چل دی، نصری آنٹی نے اپنا چائے کا کپ قریبی ٹیبل پر رکھا اوراٹھ کر ان کے کمرے کا دروازہ کھولا اور انکا ہاتھ پکڑ کر ان کو کمرے میں چھوڑنے چلی گئی، میں ھال میں بیٹھا ٹی وی دیکھنے لگا کوئی ڈرامہ لگا ہوا تھا شاید اب ختم ہو گیا تھا اور ناز پان مصالحہ کی کمرشل آ رہی تھی، کمرشل ختم ہوئی تو آنٹی بھی اپنی ساس کے کمرےسے نکل آئی اور ٹیبل سے اپنا چائے کا کپ اٹھا کر میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئی،
آنٹی میرے اتنے قریب بیٹھی تھی کہ انکا سایڈ سے پورا جسم میرے ساتھ لگ رہا تھا اور ان کی ران میری ران کے ساتھ ٹچ ہو رہی تھی اور انکا کندھا میرے کندھے کے ساتھ لگا ہوا تھا، اور وہ بھی ٹی وی دیکھنے لگی، اور ٹی وی دیکھتے دیکھتے ان کی آواز نے مجھ پر بم گرا دیا،ہم دونوں کا منہ ٹی وی کی طرف تھا لیکن ان کی آواز میرے کانوں میں گونجی،
دانش، سائرہ کے ساتھ مزا آیا تھا یا نہیں،
آنٹی کے یہ الفاظ تو بم تھے میرے لئے، نیا بچہ ، پہلی چدائی ،اور پھر پکڑی بھی گئی، سالی سائرہ مجھے کسی کو نہ بتانے کا کہہ کر خود ڈھنڈورا پیٹ رہی تھی، آنٹی کا بم گرانا تھا کہ میں پھدک کر ان سے 2 فیٹ دور صوفے کے کونے میں جا بیٹھا اور اس طرح پھدکنے سے میرے ہاتھ سے چائے بھی گرتے گرتے بچی بس تھوڑے سے چھینٹے میری جرسی اور قمیض پر پڑے، اور میں آنٹی کی طرف دیکھنے لگا جو بلا خوف و خطر میری طرف دیکھ کر بس مسکرا رہی تھی اور میرے پھدکنے والے انداز سے مزے بھی لے رہی تھی، پھر آنٹی نے دیکھا کہ میں تو واقع ہی ڈر گیا ہوں تو ماحول کو کنٹرول کرتے ہوئے کھسک کے میرے پاس آ گئی اور بولی، پریشان مت ہو، میں کسی کو نہیں کو نہیں بتاوں گی اور یہ بات ہمارے درمیان میں رہے گی، قسم لے لو بے شک مجھ سے،
میں: ہکلاتے ہوئے، آاااااااپ کوووووو کسسسسسس نے بتایا،
آنٹی، بس مجھے پتا تھا،
میں بس اپنا سر نیچے کیے اپنے پیروں کی طرف دیکھنے لگا،
آنٹی اور میرے قریب ہوئی اور میرے ہاتھ سے چائے کا کپ لیا جو بس ختم ہی ہو چکا تھا، لے کر ٹیبل پر رکھا اپنا تو وہ پہلے ہی رکھ چکی تھی پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اٹھنے کا بولا اور خود بھی اٹھ گئی اور مجھے اپنے کمرے میں لے جانے لگی، میں بھی چپ چاپ ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگا اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر مجھے اندر جانے کا بولا اور کہا تم اندر بیٹھو میں آتی ہوں، میں اندر گیا تو دیکھا وہ آنٹی کا بیڈروم تھا، بہت ہی سلیقے سے بیڈ روم کو سجایا ہوا تھا خوبصورت قسم کا بیڈ تھا، ایک سایڈ ڈریسنگ ٹیبل تھی، اور اس پر میک اپ کا کافی سامان بھی سلیقے سے سجا ہوا تھا، اور کمرے میں بہت مدمست بھینی بھینی خوشبو آرہی تھی جو دماغ کو تازگی فراہم کر رہی تھی بہت ہی خوبصورت قسم کا رنگ برنگی پینٹ دیواروں پر کیا ہوا تھا،مہنگے اور شاندار پردے لگے ہوئے تھے، ایک طرف ایک بڑا سا صوفہ بچھا ہوا تھا ایسا صوفہ میں نے مانی کے گھر میں بھی دیکھا تھا، خیر ابھی میں بس کمرے کا جائزہ لے رہا تھا کہ دروازہ کھلا اور آنٹی اندر آ گئی، اور بولی کہ کھڑے کیوں ہو ابھی تک بیٹھے نہیں، اور کمرے میں لگے ہیٹر کو آن کر دیا،
آنٹی کے نارمل انداز سے مجھے بھی تھوڑا حوصلہ ملا اور کہا بس وہ کمرہ دیکھ رہا تھا،
کیسا لگا میرا کمرا، آنٹی نے کہا،
بہت اچھا ہے آپکی طرح، میں نے جواب دیا،
اچھااااااااا اب تمہیں مسکے لگانے بھی آتے ہیں اسی لئے سائرہ کے ساتھ ہااااااااان، اب میں سمجھی، آنٹی نے کہا
آنٹی کی بات سن کر میں پھر سے تھوڑا سرمندہ سا ہوا اور نیچے کی طرف دیکھنے لگا اور سوچنے لگا کہ کیا بول رہا ہے دانش، خیر جو بول دیا تو بول دیا،
اتنے میں آنٹی نے پھر کہا اچھا بات سنو دانش تم یہاں ہو اور کیوں آئے ہو یہ تو وہ سب جانتی ہیں جو تمہارے گھر بیٹھی ہیں لیکن تمہاری امی کو نہیں پتا اور تم نے گھر جا کر یہی بولنا ہے کہ آنٹی نصری نے کچھ گھر کا سامان منگوانا تھا تو وہی لے کر دے آیا ہوں اور پھر انہوں نے چائے پلائی اسی لئے دیر ہوئی،
آنٹی کی یہ بات سن کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ ابھی اتنی دیر تو نہیں ہوئی، کیا مزید دیر ہونی ہے ابھی یا پھر سامان لا کر دینا ہو گا شاید ، ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ آنٹی نے مجھے بازو سے پکڑا اور اپنے سینے سے لگا لیا،
آنٹی کے اچانک حملے سے میں پریشان ہو کہ اب کیا کروں لیکن آنٹی نے اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھ کر میرے منہ کو اپنے مموں پر دبا دیا ان کے ممے اتنے بڑے تھے کے دونوں مموں کی لائن کے درمیاں میرا منہ گھس گیا،آنٹی کے نرم نرم ممے میرے منہ پر تھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں نے کسی نرم کپاس والے تکیے میں اپنا منہ چھایا ہو اورآنٹی کے جسم کی اور مموں کی خوشبو مجھے پاگل کر رہی تھی اور سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں اپنی عمر سے دوگنا بڑی کی عمر کی عورت کو ایسے اپنے ساتھ سوچ کر مجھے عجیب لگ رہا تھا اور ڈر بھی کہ کیا کروں کیا نا کروں خیر میں نے آرام سے اپنے دونوں ہاتھ انٹی کے پیٹ کے دونوں سائڈوں پر رکھ کر خود کو پیچھے کرنا چاہا لیکن آنٹی نے مجھے مضبوطی سے پکڑا ہوا تھا اور انکی پکڑ سے نکل نہ سکا، میں نے پھر کوشش کی لیکن ناکام، آنٹی نے میری مزمت دیکھی تو کہا کیا ہے دانش میں سائرہ جتنی اچھی نہیں ہو کیا، میں بری ہوں کیا جو تم مجھ سے دور ہونا چاہتے ہو، چلو جلدی سے مجھے بھی گلے لگاو اور پیار کرو جیسے سائرہ سے کیا تھا، آنٹی کی یہ بات سن کر مجھ پر پھر سے سکتہ تاری ہو گیا کہ اتنی بڑی عورت جو میری ماں کی عمر کی ہے کیسے اس سے سائرہ کی طرح پیار کر سکتا ہوں، پھر ذہن میں آیا کہ پاگل لڑکے جب تیرے دونوں بھائی اس کو اپنے لن پر جھولے کھلا سکتے ہیں تو تیری گانڈ میں کیا کیڑا ہے بس مزے کر چپ چاپ،
پھر میں ڈرتے ڈرتے اپنے ہاتھ جو انٹی کے پیٹ پر رکھے ہوئے تھے انکو وہاں سے ہٹایا اور پیچھے کی طرف بڑھا کر آنٹی کو کمر سے تھام لیا آنٹی صحت میں ہیلتھی جسم کی مالک تھی میرے ہاتھ ان کی کمر پر ہی تھے اور انکو پورا قابو کر پانا مشکل تھا ان کے ہیلتھی جسم کی وجہ سے اور میرا قد بھی چھوٹا تھا ان کے مموں تک ہی آ رہا تھا،آنٹی میری اس حرکت پر خوش ہوئی اور کہا شاباش اب بہادر بنے ہو نا، ڈرو مت میں تمہیں سائرہ سے بھی اچھا مزا دوں گی،
میں نے سر اٹھا کر آنٹی کو دیکھا تو آنٹی نے اپنا منہ نیچے جھکایا اور میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے ان کے بڑے بڑے ہلکی گلابی لپسٹک سے سجے ہوئے ہونٹوں نے میرے ہونٹوں کو پورا قابو کر لیا، اور ہم ایسے ہی بانہوں میں بانہیں ڈالے کسنگ میں مصروف ہوگئے،اور میرے لن نے بھی سر اٹھانا شروع کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے لن صاحب نے آنٹی کے موٹے موٹے پٹوں کو ٹھوکر لگانا شروع کر دی،
آنٹی کا ایک ہاتھ میرے سر کے بالوں میں تھا اور اپنی انگلیوں سے میرے بالوں کو ٹٹول رہی تھی اور بڑے ہی جنونی انداز میں میرے ہونٹوں کو چوس رہی تھی جیسے کھا جانا چاہتی ہو، پھر آنٹی نے اپنی زبان سے میرے ہونٹوں پر دستک دی میں نے اپنا منہ کھولا تو گرم نرم زبان میرے میرے منہ کے اندر داخل ہوئی اور جاتے ہی میری زبان کے ساتھ لڑائی شروع کر دی، آنٹی کی زبان میری زبان سے ٹکرائی تو میرے پورے جسم میں مزے کی لہر دوڑی اور لن نے جھٹکا مارا آنٹی کی ران پر کیونکہ ان کے بڑے قد کی وجہ سے پھری جی تھوڑا اوپر تھی، آنٹی جنونی طریقے سے مجھے قابو کر کے میری زبان کو اپنی زبان سے لتاڑ رہی تھی اور میرا کنٹرول میرے آپے سے باہر ہو رہا تھا اور میرا لن مجھے پتھر کے جیسا محسوس ہو رہا تھا، کسنگ کے دوران ہی آنٹی نے میری جرسی کو پکڑا اور اوپر اٹھایا، میں نے اپنی بازووں کو اوپر اٹھا دیا تاکہ آنٹی کو آسانی ہو، آنٹی نے فوری طور پر میری جرسی اتاری اور ہھر میری قمیض کے بٹن کھولنے لگی، قمیض کے بٹن کھلے تو میں نے اپنی قمیض کو پلو سے پکڑ کر اوپر کیا اور اپنی گردن سے نکال دی، پھر آنٹی کا اگلا حملہ میرے ناڑے پر ہوا اور ناڑا کھلا تو میری شلوار میرے پیروں میں جا گری، اور میرا لن آسمان کی طرف سر اٹھا کر پتھر بنا کھڑا تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے میرا لن بھی آنٹی کے منہ ہی طرف دیکھ رہا ہو،آنٹی نے جیسے ہی میرے لن کو دیکھا تو ان کی آنکھوں میں چمک آ گئی اور نشیلی مسکراہٹ دے کر نیچے بیٹھ گئی اور میرے لن کو پکڑ کر اس کی لمبائی اور موٹائی کو ناپنے لگی پھر میرے ٹٹوںکو پکڑا اور چیک کرنے لگی پتا نہیں کیا چیک کر رہی تھی دونوں گوٹوں کا سائز ماپا پھر لن کو پکڑ لیا اور مستی سے سر اٹھا کر میری آنکھوں میں دیکھا پھر اپنا منہ کھولا اور میری آنکھوں میں ہی دیکھتے ہوئے پورے لنڈ کو حلق تک اپنے بڑے سے منہ میں چھپا لیا اففففففففف اس کا ایسا کرنا تھا مجے تو ایسا لگا جیسے میرے پورے وجود می گرم ہوا پھونکی ہو کسی نے اور مجھے میرے کانوں تک گرماہٹ محسوس ہوئی، آنٹی مسلسل میری آنکھوں میں دیکھ رہی تھی اور میں اس کی آنکھوں میں دیکھ کر جیسے کچھ ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن پتا نہیں کیوں مجھے یہ سب شہوت سے پھرپور لگ رہا تھا آنٹی میرے لن کو پورا منہ کے اندر لیتی پھر باہر نکالتی اور میرے آنکھوں میں بھی دیکھتی رہتی،
پھر آنٹی کے دونوں ہاتھوں کی حرکت مجھے اپنی گانڈ پر محسوس ہوئی،آنٹی میرا لن پورا اپنے منہ میں حلق تک لے جاتی اور وہیں رک جاتی پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے میری گانڈ کو سہلاتی اور میری گانڈ کی لمبائی چوڑائی کو ناپتی اور پھر زور سے دونوں پھاڑیوں کو بھینچ دیتی، جیسے ہی گانڈ پر دباو کم ہوتا تو آنٹی میرے لن کو بھی اپنے منہ سے باہر نکالتی، آنٹی کا یہ عمل 15 سے 20 سیکینڈز تک چلتا،اور مجھے ایسا لگتا تھا جیسے میرے لن کے راستے آنٹی میرے پورے جسم میں گرم آگ ڈال رہی ہو اس کا یہ عمل بہت ہی ظالم تھا میرا پورا جسم کانپ جاتا تھا آنٹی نے یہی عمل 3 سے 4 بار کیا اور ہر بار مجھے کرنٹ کے گرم گرم جھماکے لگتے تھے، میں اپنے ہاتھوں کو بس ہوا میں ہی ادھر ادھر گھما رہا تھا اور اففففف اسسسسسس کی سسکاریا لے رہا تھا، آنٹی نے ایک بار پھر وہی کیا لن پورا منہ میں لیا اور میری گانڈ کی دونوں پھاڑیوں دبوچ لیا اس بار ایک اور نئی حرکت ہوئی،
آنٹی کا ایک ہاتھ میری گانڈ کی لکیر میں گھس گیا اور ہاتھ کی بڑی والی انگلی میری گانڈ کے سوراخ پر جا لگی، اور انگلی کی ناخن والی جگہ سے میری گانڈ کے سوراخ پر گول گول گھمایا اور پھر تھورا سا اندر کی طرف دبا دیا، انگلی کا اندر کی طرف دبانا تھا کہ میں نے اپنی گانڈکو بھینچ کر آگے کی طرف پش کیاتومیرا لن آنٹی کے حلق میں اتر گیا اور آنٹی کا اپنے ہونٹوں کو مکمل بند کر کے میرے لن کو اپنے منہ میں پورا قید کرلیا، اففففففف یہ کیا تھا یار الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے، لیکن بس اتنا ہی بتاوں گا کہ جو بھی تھا اخیر مزا تھا،اور 20 سیکنڈ تک آنٹی نے ایسے ہی مجھے قابو کئے رکھا اور خود بھی قابو رہی، پھر اچانک ہی آنٹی نے مجھے چھوڑا اور اپنے منہ سےمیرے لن کو آزاد کیا اور مجھے بیڈ پر دکھا دیا اور اوپر ہونے کا کہا میں ہو گیا میرا لن آنٹی کے تھوک سے گیلا ہو کر چمک رہا تھا اور بار بار جھٹکے لے رہا تھا اور میں ابھی پہلے والے مزے سے باہر نہیں نکلا تھا کہ آنٹی نے پھر سے میرے لن پر حملہ کر دیا، پہکے ہلکے ہلکے چوپے لگائے پھر ایک ہاتھ سے میرے لن کو میرے پیٹ سے لگا کر اپنی زبان نکال میرے ٹٹوں پر حملہ کر دیا پہلے چاروں طرف سے چاٹ چاٹ کر گوٹوں کو گیلا کیا پھر یک دم پورا منہ کھول کر میرے دونوں گوٹوں کو اپنے بڑے منہ میں چھپا لیا، مزے میں تو میں پہلے سے ہی تھا اس حرکت سے تو میں پاگل ہونے لگا اور اپنی گانڈاٹھا اٹھا کر بس افففففف سسسسسسسسس کرتا ہوا بیڈ کی چادر کو مروڑ تروڑ کر اکٹھا کرنے لگا، آنٹی نے ٹٹے اپنے منہ سے نکال میری دونوں ٹانگوں کو اٹھایا اور موڑ کر میرے سینے سے لگا دیا اور مکمل بیڈ پر آ کر اپنا ایک بازو میرے گٹھنوں کی اندرونی جگہ پر وزن دے کر میرے گٹھنوں کو میرے سینے کے ساتھ لگا دیا جس سے میری گانڈ اور اوپر کو اٹھ گئی،اور آنٹی نے مجھے مکمل قابو کیا ہوا تھا مجھے اب ڈر لگنے لگا اور حیرت بھی ہونے لگی کہ یہ کیا چکر ہے میں زور لگا کر اپنے آپ کو سیدھا کرنے لگا تو آنٹی نے مجھے دیکھا اور کہا صبر ،،،،،،،،،
میں چپ ہو گیا کیونکہ آنٹی آواز تھوڑی کرخت تھی،
پھر آنٹی نے اپنے دوسرے ہاتھ سے میرے لن کو پکڑا اور سہلانے لگی پھر میرے ٹٹوں پر ہلکی ہلکی انگلیاں چلائیں پھر میری اٹھی ہوئی گانڈ پر اپنا ہاتھ پھیرا اور اپنا سر نیچے کر کے میری گانڈ کی پھاڑیوں پر چمیاں لینے لگی، اپنی زبان نکال کر چاٹنے لگی افففففف اسکا چاٹنا تھا کہ میرے لن نے جھٹکے لئے اور میرے ہاتھ بیڈ شیٹ کو سکیڑنے لگے،اور مزا تھا کہ شدت سے پھرپور دنیا سے بیگانہ، میں اسی مزے میں ڈوبا ہوا تھا کہ ایک اور جھٹکا لگا مجھے اپنی گانڈ کے سوراخ کے راستے اور اس نے تو مجھے پورا ہلا کر رکھ دیا، آنٹی کی نرم اور گرم زبان جب مجھے اپنی گانڈ کے سوراخ پر محسوس ہوئی تو چنگاریاں ہی چنگاریاں تھیں میرے جسم میں، میری گانڈ کے چھلے کو آنٹی نے اپنی زبان سے چاٹ رہی تھی اور اپنی زبان کی نوک بنا کر میری گانڈ میں گھسانے کی کوشش کر رہی تھی،میں مزے میں سرشار بیڈ شیٹ کو اکٹھا کر چکا تھا اور سسکاریوں کو کنٹرول کرنا میرے بس سے باہر ہو گیا تھا، اور آنٹی نے بھی محسوس کر لیا تھا اب بہت ہو گیا ہے، آنٹی مجھے چھوڑا تو میری لاتیں اپنے آپ سیدھی ہو کر بیڈ پر گرگئی، بنا وقت گوائے آنٹی نے اپنے دونوں ہاتھوں سے میرے لن کو پکڑا اوردونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں کو میرے لن کے ٹوپےپر عین سوراخ کے اوپر رکھے اور پھر دونوں انگوٹھوں کی مدد سے میرے لن کے ٹوپے پر بنے چھوٹے سے سوراخ کو کھولا اور جلدی سے اپنی زبان کی نوک بنا کر سوراخ میں گھسا دی، افففففففف ایک اور نئے مزے کے ساتھ شدید کرنٹ والا جھٹکا،
اب برداشت کرنا مشکل تھا اور ایسا ہی ہوا میرے لن کے اندرونی جلد سے جب آنٹی کی زبان ٹکرائی تو میری بس ہو گئی اور یک دم شدید قسم کی خونی گردش ہوئی پورے جسم کے اندر اور ڈائیریکٹ لن کی طرف روانہ ہوئی، اور پھر فٹاک کر کے منی کی دھار نکلی جو سیدھا آنٹی کے منہ میں گئی اور اس کے حلق میں جا ٹکرائی، اسی طرح ایک کے بعد ایک پتا نہیں کتنی دھاریں نکلی اور میں ہانپتا ہوا نڈھال ہو کر اففففف افففف سسسسس سسسس کرتا ہوا سانسیں لے رہا تھا مجھے نہیں پتا آنٹی کے ساتھ کیا ہوا اور اب کہاں ہے میں بس اپنی آپ میں تھا آنکھیں بند کئے ہوئے اپنے اوسان جو خطا ہو گئے تھے واپس بحال کر رہا تھا،
میں بیڈ پر لیٹا ہوا اپنی تیز چلتی ہوئی سانسوں کو آنکھیں بند کئے ہوئے کنٹرول کر رہا تھا،
اتنے میں اچانک مجھے اپنے ہونٹوں پر کچھ کچھ نرم نرم اور گرم گرم احساس ہوا، آنکھیں کھولی تو دیکھا آنٹی ہلکے ہلکے میرے ہوںٹوں پر بوس و کنار کر رہی ہے، جب آنٹی نے میری آنکھوں میں دیکھا کہ میں بھی اسی کی طرف دیکھ رہا ہوں تو میرے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ہٹائے اور بولی، دانش مزا آیا ؟
میں نے بس ہلکا سا مسکرا کر ہاں میں سر ہلایا،
آنٹی بھی ہلکا سا مسکرا کر مجھے سے دور ہو گئ اور بیڈ کے قریب کھڑے ہو کر اپنے جسم کو کپڑوں سے آزاد کرنے لگی،میں بس لیٹا ہوا آنٹی کے کپڑے اترتا دیکھ رہا تھا،آںٹی نے گرے کلر کا فراک پہنا ہوا تھا، جو اب اتر چکا تھا میرے سامنے اب آنٹی کا دودھیا پیٹ تھا جس میں گہری ناف تھی اور ساف شفاف پیٹ بغیر کسی داغ کے ، تھوڑا سا اوپر دیکھا تو کم سے کم 40 سائز کے ممے بلیک بریزر میں قید تھے اور قیامت خیز منظر پیش کر رہے تھے، آنٹی کا اوپر کا سراپا اتنا دلکش تھا کہ میں اسی سراپے میں کھو گیا، بڑے بڑے ممے بریزر میں چھپے ہوئے تھے اور بریزر بھی امپورٹڈ تھا جس پر سائیڈوں سے لیس لگی ہوئی تھی ڈیزائن دار اور مموں کی خوبصورتی کو چار چاند لگا رہی تھی، اپنا فراک اتار کر آنٹی دوسری طرف گھوم گئی، جس سے آنٹی کی قمر اور گانڈ میرے سامنے برآمد ہوئی، بلیک کلر کے پاجامے میں آنٹی کی موٹی موٹی گانڈ کے 2 پہاڑ نمایا نظر آ رہے تھے ابھی تو پاجامہ بھی نہیں اترا تھا اور میرا دل دھڑکنے لگا کے اندر کا منظر کیا ہوگا، آنٹی تھوڑا نیچے جھکی اور اپنے پاجامے کو نیفوں سے پکڑ کر اپنی گانڈ کو باہر کی طرف نکال کر پاجامہ اتارنے لگی ،اپنے پاجامے کو آرام سے اتار کر اپنے پیروں سے نکال کر وہیں زمین پر ہی گرا دیا اور اسی حالت میں جھکی رہی تاکے میں گانڈ کے ابھرے ہوئے پہاڑوں کا نظاراآسانی سے کر سکوں، دوستوں کیا ہی گانڈ تھی کم سے کم 42 سائز کی ہوگی اور کیا ہی بناوٹ تھی گانڈ کی بالکل فٹ بال کی گولائی جیسی گانڈ کی دو پھاڑیاں، اور اتنی زیادہ ابھری ہوئی تھی کے گانڈ کا سوراخ نظر آنا تو دور کی بات اگر دونوں پھاڑیوں کو دونوں ہاتھوں سے کھینچ کر الگ الگ کرتے تو بھی گانڈ کا سوراخ نظر آنا مشکل تھا کیونکہ گانڈ باہر کو ہی اتنی زیادہ نکلی ہوئی تھی،
آنٹی نے میری اس مشکل کو خود ہی حل کیا اپنے ہاتھ پیچھے لا کر اپنی گانڈ کے دونوں پہاڑوں کو دبوچا اور دھیرے دھیرے انکو الگ الگ کیا تب جا کہیں اندھیرے میں ہلکا ہلکا مجھے ایک گلابی سوراخ نظر ایا، مکھن جیسے سفید پہاڑوں کے درمیان گلابی غار کو دیکھ کر میرے اوسان خطا ہونے لگے پھر سے،
پھر آنٹی تھوڑا اور جھکی اور اپنے ہاتھوں کو نیچے کی طرف حرکت کیا جس سے آنٹی کی گلابی غار گم ہو گئی لیکن اگلے ہی لمحے مجھے دو غاریں دکھائی دی، ایک پہاڑوں کے درمیان چھپی غار اور ایک اسی غار کے نیچے لمبائی والی غار جو مختلف رنگوں میں تھی، پہلے ہلکے براوں رنگ کی پھر تھوڑا گلابی رنگ جھلک رہا تھا اور پھر اچانک سے وہ غار لال سرخ قسم ہو گئ، افففففف آنٹی کی پھدی دیکھ کر تو میرا لن جو اپنا پانی نکال کر سو چکا تھا ٹناٹن ہونے لگا اور میرا خود پر کنٹرول ٹوٹنے لگا، میں چھٹاک سے بیڈ سے اٹھا اور فٹاک سے آنٹی کی گانڈ پر حملہ کیا اور دونوں پہاڑوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام کرنیچے بیٹھا اور فوری طور پر بنا وقت گوائے اپنی زبان نکال کر سرخ والی غار پر اپنی زبان سے حملہ کیا، میرا حملہ بہت تیز اور یک دم ہوا جس سے آنٹی ایک زوردار سسکی نکلی اور ایک ہاتھ پیچھے لا کر میرے سر کواپنی پھدی پر دبایا میری زبان اور اندر چلی گئی اور میرا ناک اور چہرے کا فرنٹ حصہ آنٹی کی گانڈ کے دونوں پہاڑوں میں چھپ گیا اور میری آنکھیں خود بخود بند ہو گئی، کیونکہ آگے گانڈکے پہاڑوں سے جا ٹکرائی تھی،اپنی زبان کو آنٹی کی پھدی میں اوپر نیچے حرکت دے کر چاٹ رہا تھا پھدی کا ترش پانی لزت دے رہا تھا اور آنٹی کہ سسکیاں کمرے میں گونجنے لگی،پھدی میں زبان لگاتا تو گانڈ کے سوراخ کی خوشبو پاگل کرتی پھر پھدی سے زبان ہٹا کر زور لگا کر گانڈ کی پھاڑیوں کو اپنے ہاتھوں سےکھولا اور گانڈ کے گلابی سوراخ پر زبان لگائی مشکل سے کہیں جا کر میری زبان کی نوک ہی ٹکرا سکی سوراخ سے ، کیونکہ گانڈ کے ابھار بہت ہی زیادہ تھے، اور آنکھیں بند ہونے کی وجہ سے زبان کا نشانہ سہی نہیں لگ رہا تھا،
آنٹی کو یہ سب اندازہ پہلے سے ہی تھا، انٹی بھی پورا مزا لینا چاہتی تھی، آنٹی نے اپنا ہاتھ میرے سر سے ہٹا کر کھڑی ہوئی جس سے میرا چہرہ دونوں غاروں اور پہاڑوں سے جدا ہوا آنٹی فورن بیڈ پر بیٹھ کر ویسے ہی بیڈ پرلیٹ گئی پیر ابھی زمین پر ہی تھے، پھر آنٹی نے اپنی دونوں لاتوں کو برابر اٹھایا اور اپنے سینے سے لگا لیااور دونوں بازووں کو اپنے گٹھنوں کے اندرونی طرف لے آئی اور اپنی لاتوں کو قابو کر لیا اور مجھے بولی اب سہی ہے اب تسلی سے کرو جو کرنا ہے، اور واقع یہ بالکل پرفیکٹ تھا پھدی اور گانڈ دونوں صاف اور واضع نظر آ رہے تھے، بنا وقت گوائے میں نے آنٹی کے دونوں سوراخوں پر حملہ کیا اور پھدی اور گانڈ کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ تھا اور اس پر ایک ہلکی سی لکیر بنی ہوئی تھی جو آنٹی کی پھدی کے نکلتے پانی سے چمک رہی تھی مجھے اس لکیر نے بہت ہی اٹریکٹ کیا اور پہلے اسی پر زبان لگائی آنٹی کی سسکاریاں بڑھتی جا رہی تھیں اور یہاں میری زبان کی حرکتیں، اففففففف، کیا ہی مست پھدی تھی یار سواد ہی آ گیا تھا، پھدی کی لکیر سے اوپر ایک گول مٹول دانہ تھا میں نے اس پر زبان لگائی انٹی کی ایک دزور دار سسکی نکلی اور تھوڑا نیچے سے پانی کے کچھ قطرے نکلے جتنی بار اس دانے پر زبان لگاتا اتنی بار پانی کے قطرے نکلتے، دانے کو اپنے دانتوں میں دبا کر ہلکا سا کاٹا تو آنٹی سسکاریوں کے ساتھ ساتھ کانپنے بھی لگی ، آنٹی کا کانپنا جو مجھے اس کی ٹانگوں پر صاف دکھائی دیا ، اور ساتھ ہی آنٹی اپنے سر کو اٹھا کر واپس بیڈ پر پٹک دیتی تھی سسکیوں کے ساتھ، دانے کو چاٹنے اور کاٹنے کے بعد پھر پھدی کی طرف روانہ ہوا پھدی کے دونوں ہونٹوں کو چوما اور زبان سے چاٹا پھر تھوڑا نیچے ہوا تو زبان کی نوک بنا کر گانڈ کے گلابی سوراخ پر حملہ آور ہوا اور زبان کی نوک کو گانڈ کے سوراخ میں ڈالنے کی کوشش کرنے لگا اور چھلے پر بنے کھردری دراڑوں پر زبان کو گول گول گھمانے لگا، میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے آنٹی کی گانڈ کو قابو بھی کیا ہوا تھا اور گانڈ کے پہاڑوں پر ہاتھ بھی چلا رہا تھا آنٹی کا مزا دوبالا ہوتا جا رہا تھا اور اب ان سے برداشت کرنا مشکل ہو گیا تھا، اس سے پہلے میں اپنا کام جاری رکھتا آنٹی کی درد بھری آواز نے مجھے روکا اور کہا کہ دانش اب برداشت نہیں ہوتا پلیز مجھے مکمل کر دو پلیز اپنا لن ڈال دواب میری پیاسی چوت میں، بہت تڑپ رہی ہوں دانش پلیز ڈال دو اب، میں اپنے گھٹنوں پر بیٹھا تھا وہیں کھڑا ہوا تو میرے لن کا نشانہ برابر آنٹی کی پھدی پر لگا اور پھدی بالکل لن کے سامنے تھی، میں نے اپنے لن کو پکڑا اور پھدی کے دروازے پر دستک دی پھر دروازہ تھوڑا سا کھلا تو لن کے ٹوپے نے پھدی کے اندر جھانکا، اور پھر اپنا راستہ بناتا ہوا سیدھا پھدی کی غار میں سما گیا ،آنٹی کی غار کی آگ اتنی زیادہ تھی کہ میرا لن مجھے جلتا ہوا صاف محسوس ہوا اور میری کن پٹیاں بھی مجھے گرم ہوتی محسوس ہوئیں، اففففف کیا ہی گرمائش تھی یار میں نے اپنی گانڈ کو تھوڑا پیچھے کیا تو میرا لن پھدی کے دروازے تک آگیا پھر زور دار جھٹکا مار کر لن کو اندر کر دیتا اور آنٹی افففففف کے ساتھ اپنا سر اٹھا کر بیڈ پر مارتی، میں ایسے ہی تیز تیز جھٹکے مار رہا تھا اور میری رانیں آنٹی کی گانڈ سے ٹکراتی اور سرور کی لہر دوڑتی تھی میرے جسم میں اور پٹک پٹک شپ شپ افففف افففف ہممممم ہمممم سسسسسسسسس کی آوازوں سے کمرے میں ایک میوزک بن رہا تھا جو ردھم سے بج رہا تھا، انٹی کی پھدی آنٹی کے پانی سے مزید گیلی ہوتی جا رہی تھی، جس سے میرا لن روانی سے اندر باہر ہو رہا تھا، پھر اچانک سے مجھے محسوس ہوا کہ آنٹی اب پانی چھوڑنے والی ہے لیکن میں نے اس چیز کو نظر انداز کیا اور اپنا لن پھدی سے باہر نکال لیا، لن کا باہر نکلنا تھا کہ آنٹی چیخ پڑی اوووووووئےےےےےےےےے کتتتتتتتے باہر کیوں نکالا،
آنٹی کے منہ سے گالی سن کر مجھے بھی تھوڑا غصہ آیا اور میں نے غصےمیں ایک زور دار جھٹکا مار کر لن اندر کر دیا جیسے ہی لن اندر گیا تو آنٹی نے ایک زور دار چیخ ماری جس سے میں بھی ڈر گیا کہ یہ کیا ہوگیا، مجھے محسوس ہوا کہ میرا لن بھی کسی نے جکڑا ہوا ہے جیسے کسی چیز میں پھس گیا ہو نیچے دیکھا تو میرا لن آنٹی کی گانڈ میں گھسا ہوا تھا بس تھوڑا سا ہی باہر تھا باقی سارا اندر تھا لیکن آنٹی کی ہمت تھی انہوں نے نہ ہی مجھے روکا اور نہ ہی باہر نکالنے کا کہا، بس ایک چیخ کے بعد ہلکا ہلکا بڑ بڑا رہی تھی ظالم کیا کر دیا، بتا کر تو گانڈ پھاڑتے ،مار ڈالا تو نے دانش بہت موٹا ہے تیرا، تیرے بھائیوں کا بھی اتنا موٹا نہیں ہے تیرا زیادہ ہی موٹا ہے اممممممم اھھھھھھھھاااااا افففففف اب رکا کیوں ہے چپو چلا اپنا دللللللللے پھاڑ دےےےےےے ابببببب میری گاااااااانڈ آاااااااا، میں نے اہستہ سے لن کو باہر نکالا پھر لن کو پھدی پر رگڑ رگڑ گیلا کیا پھر سے گانڈ میں گھسا دیا اس بار آنٹی چیخی نہیں بس سرد آہ بھری اور کہا ہاں ایسی ہی آرام سے میری جان، آنٹی کی گانڈ اتنی موٹی تھی میں بھی اپنے آپ کو بہت چھوٹا سا دیکھ رہا تھا گانڈ کے سامنے لیکن خود پر حیرت بھی ہو رہی تھی کہ چھوٹا ہوں لیکن بڑی موٹی گانڈ والی کی چیخ نکلوا دی اور اس بات نے مجھے اور جوش دیا پھر میں نے چپو چلا شروع کر دیا اور میری رفطار بڑھتی چلی گئی، میں لن کو گانڈ میں اندر باہر کرتے کرتے پورا باہر نکال لیتا پھر لن کو پھدی میں ڈال دیتا ایسے ہی اپنے لن سے پھدی اور گانڈ دونوں کو سیراب کر رہا تھا اور آنٹی کی سسکاریا اور چٹاک پٹاک کی آواز پھر سے میوزک کی ردھم بجانے لگی، اور اب مجھے بھی شدید قسم کا مزا آنے لگا کبھی میرا لن پھدی کی سیر کرتا تو کبھی گانڈ کی غار کی، ایسے ہی تیز تیز چپو چلاتا رہا تھا کہ آنٹی کا جسم کانپانا شروع ہو گیا اور ان کے بازووں کی گرفت بھی اپنی ٹانگوں پر ڈھیلی ہو تی گئی اس نے اپنی ٹانگوں کو چھوڑا تو میں نے سنبھال لیا اور وہ ڈھیلی پڑتی گئی اور اس کی پھدی نے گرم گرم لاوا اگلنا شروع کر دیا اور آنٹی کی بھاری لاتیں بہت ہی ڈھیلی پڑ گئی تھیں جو اب مجھ سے بھی سنبھل نہیں رہی تھی، آنٹی فارغ ہو گئ تھی اور اس تیز تیز سانسیں لے رہی تھی، لیکن میں ابھی فارغ نہیں ہوا تھا، میں نے سوچا گانڈمیں ڈالتا ہوں لیکن آنٹی کی لاتیں اب میرے سینے سے ٹکرا رہی تھیں جس سے گانڈ کا سوراخ بھی چھپ گیا تھا اور لن اس کی گانڈ کی پھاڑیوں میں ہی گھوم رہا تھا لیکن گانڈ کے سوراخ میں نہیں جا رہا تھا، میں پاگل ہو رہا تھا اور فارغ ہونا چاہتا تھا اور آنٹی بھی ساتھ نہیں دے رہی تھی، منی میرے دماغ کو چڑھ رہی تھی بس ایسے ہی خالی وار کر رہا تھا لن کے ساتھ آنٹی کی گانڈ کے اندر لیکن وہ سارے وار بے سود تھے آنٹی نے جب دیکھا تو ہکلاتی ہوئی آواز میں بولی صبببببر صببببر میری جااااااان، لیکن میں پاگل ہو رہا تھا ، رکا نہیں، آنٹی نے اپنی لاتوں سے مجھے پیچھے کیا اور خو بیڈ پر اور اوپر ہوگئ اپنا سر تکیے پر رکھ کر اپنے دونوں ہاتھوں کو پیچھے لے جا کر اپنی برا کا ہک کھولا اور اپنی برا کو نکال کر سائڈ میں پھینکا اور اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر بولی یہاں بیٹھو، مجھے اس انداز کی سمجھ نہیں کہ کیسے بیٹھوں، ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ آنٹی اٹھی اور مجھے بیڈ کے اور کھینچا پھر خو لیٹ گئی اور میرا ایک پاوں پکڑ کر اٹھایا اور اپنے دوسری سایڈ پر رکھ دیا اب میں بیڈ پر کھڑا اور آنٹی میری دونوں لاتوں کے درمیان نیچے لیٹی ہوئی تھی ان کا سر تکیے پر تھا اورپھر مجھے ہاتھ سے پکڑ کر اپنے نرم پیٹ بٹھایا اور اب ان کے بڑے بڑے دو 40 سائز کے ممے میرے سامنے تھے جو لیٹنے سے سایڈوں پر پھیلے ہوئے تھے اور میرا لن ان کے درمیان والی لکیر میں مزے سے لیٹا ہوا تھا آنٹی نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پھیلے ہوئے دونوں اپنے مموں کو قابو کیا اور ساتھ ملا دیا میرا لن دونوں مموں کے درمیان چھپتا چلا گیا،مموں کی گرمائش ملنی تھی کے مجھے سب سمجھ آگیا اب کیا کرنا ہے بڑے بڑے ممے اور ان پر بڑے بڑے پنک نپل افففف کیا ہی بناوٹ اور گولائی تھی مموں کی میری گانڈ اپنے آپ ہی آگے پیچھے ہونے لگی، اور مموں کی گرمائش میرے لن کے پاگل پن کو مزید جوش دے رہی تھی اور میں نے پھر سے چپو چلانا شروع کر دیا، آنٹی نے اپنا سر آگے کیا اور مموں سے اوپر کی طرف نکلتے ہوئے میرے لن کے ٹوپے پر زبان لگانا شروع کر دیا جیسے میں اپنی گانڈ کو آگے پش کرتا تو میرا لن آنٹی کی زبان سے جا لگتا افففففف، یہ کیا تھا یار ، ایک اور نیا مزا اور نیا تجربہ یہ تو کمال ہی تھا میرا جسم تو پھر سے کرنٹ مارنے لگا اور آنٹی کے جسم کا کرنٹ میرے اندر اترنے لگا افففففف بہت ہی مزا آرا تھا یار ایسے 3 منٹ تک میں لگاتار پش اینڈ پل کرتا رہا تھا پھر مجھے لگا اب میں بھی فارغ ہونے والا ہوں،
میری سپیڈ میں تھوڑی تیزی آئی تو آنٹی بھی سمجھ گئی اور اپنی زبان کو بھی میرے لن کے ٹوپے پر تیز تیز دبانے لگی چار سے پانچ اسی طرح کے جھٹکے مارے اور پھر میرے لن نے فوارا چھوڑا اور سیدھا آنٹی کی زبان پر پھر دوسرا اس کے ناک پر پھر تیسرا ماتھے پر اور سر کے بالوں پر، چوتھا پھر سے ناک پر پھر پانچواں ہونٹوں اور زبان پر جو ابھی بھی باہر ہی نکلی ہوئی تھی، پھر باقی کا تھوڑا تھوڑا آنٹی کے سینے اور مموں کے اوپری جگہ پھیلتا چلا گیا اور میں اٹھ کر ساتھ ہی لیٹ گیا اور آنکھیں بند کر کے سکون سے لیٹ کر اپنے آپ کو تسکین دینے لگا، اور مزے کی دنیا سے نکل کر فانی دنیا میں آنے لگا، آنٹی نے میری طرف کروٹ لی اور مجھے زور سے جپھی ڈالی اور بولی دانش دانش میری جان تم بہت کمال ہو میری جان بہت مزا دیا تم نے مجھے آئی لو یو میرے دل کے ٹوٹے میرے جگر کے چھلے، میرے جگر بے تحاشا، آنٹی کی یہ باتیں سن کر میں نے آنکھیں کھولی اور لیٹے لیٹے ہی آنٹی کی سایڈ کروٹ لے کر انکو جپھی ڈالی اور کہا کہ آپ نے سائرہ سے زیادہ مزا دیا ایسا مزا تو میں نے سوچا بھی نہ تھا جو مزا آپ نے دیا ہے یہ بات کرتے ہوئے میں نے دیکھا میری منی کہ دھاریں ابھی بھی ویسے ہی آنٹی کے چہے پر ہیں، لیکن آنٹی نے اس کو صاف کرنے کو کوشش نہ کی، آنٹی بس مجھ سے چپکی مزے کو یاد کر کے سکون لے رہی تھی، کچھ دیر ایسے ہی لیٹے رہے پھر آنٹی نے مجھے چھوڑا اور کہا جلدی سے باتھ روم جاو اور ہاتھ منہ دھو کر آو، میں نے بھی اسی میں عافیت سمجھی اور آنٹی کے روم میں بنے اٹیچ باتھ روم میں گھس گیا،شاور کھولا تو گرم پانی تھا پھر ساتھ والی ٹوٹی کو کھولا جو ٹھنڈے پانی کی تھی پانی کو نارمل کیا اور مزے کا شاورلیا پھر تولیے سے اپنے آپ کو خشک کیا اور کمرے میں آ کر اپنے کپڑے اٹھا کر پہننے لگا آنٹی کمرے میں نہیں تھی باہر گئی ہوئی تھی شاید اور کپڑے بھی نظر نہیں آئے ، 15 منٹ انتظار کیا تو سوچا اب چلتا ہوں لیکن پھر دروازہ کھلا اور آنٹی اندر آگئی، آنٹی نے سرخ رنگ کی جالی دار نائٹی پہنی ہوئی تھی جس کے نیچے سے اس کے بڑے بڑے ممے اور ان کے پنک نپل صاف نظر آر ہے تھے بال گیلے تھے مطلب وہ بھی نہا کر آئی تھی اور ہاتھ میں ایک چھوٹی سی ٹرے اور اس میں ایک خوبصورت شیشے کا گلاس جس میں دودھ تھا میری طرف بڑھایا اور کہا پی لو طاقت بحال ہو گی، میں نے گلاس اٹھایا اور منہ سے لگایا تو نیم گرم دودھ اور اس میں خشک میوہ جات پیس کر ڈالے ہوئے تھے بہٹ ہی ٹیسٹی تھا، میں نے جلدی سے دودھ پیا اور میوہ جات چبا چبا کر کھانے لگا پھر آنٹی میرے پاس آئی اور مجھے پھر سے سمجھانے لگی کی امی کو کیا کہنا ہے اور رہی بات باقی خواتین کی اگر وہ تمہیں چھیڑتی ہیں تو ڈرنا نہیں ہے اور نہ ہی پریشان ہونا ہے، اگر وہ پھر بھی نا رکیں تو ان کو یہ دکھا دینا میرے لن پر ہاتھ رکھ کر بولی، اور پھر خود ہی مسکرانے لگی، میں بھی آنٹی کی بات سن کر ہلکا سا مسکرایا اور اور اجازت لے کے کر ایک زوردار جپھی اور کس کے بعد ان کے کمرے سے نکا آنٹی بھی میرے ساتھ ہی باہر آئی اور مجھےآگے چلنے کا کہہ کر اپنی ساس کے کمرے کی طرف گئی اور ہلکا سا دروازہ کھول کر اندر جھانکا تسلی کر کے پھر میری طرف آئی اور گیٹ تک آ کر ایک بارپھر مجھے جپھی ڈالی اور میرے ہونٹوں کو پیار سے چوما اور کہا کہ اب جا سکتے ہو، میں بھی مسکراتا ہوا وہاں سے نکلا،اور گھر کی طرف چل دیا گھر پہنچا تو وہ چار خواتین جیسے میری ہی راہ تک رہیں تھیں اور مجھے دیکھتے ہی پہلے تو سب چپ ہو گئیں اور نوشی نے کچن کی طرف کی دیکھا اور مجھے اشارہ کیا کہ جو میں بھی سمجھ گیا تھا کہ وہ پوچھنا چاہ رہی ہے کہ کیسا رہا، تو میں نے اشارہ کر دیا اے ون کا تو پھر وہ چاروں ہنسنے لگیں ان کی ہنسی امی تک پہنچ گئی، تو امی کچن سے اچانک باہر آگئی اور میں کمرے کی طرف جانے لگا تو، ایک گجدار آواز،
کہاں تھا اتنی دیر سے لوفر،
میں تو یہ آواز سن کر جیسے سکتے میں آگیا، میں اب بھول ہی گیا تھا کہ کیا کہنا ہے کیونکہ ڈر جو بیٹھ گیا تھا دل میں، لیکن پھر بھلا ہو نوشی کا وہ بول پڑی،
باجی، نصری باجی کہہ رہی تھی کہ اس نے گھر کا کچھ سامان لینا ہے اگر دانش اسے چھوڑنے گیا تو وہ دانش سے منگوا لے گی شاید دانش اسی لیے لیٹ آیا ہے، پھر میں بھی بول پڑا جی امی وہ سامان لے کر دیا تو آنٹی کی ساس نے روک لیا اور چائے بھی پلائی اسی لیے لیٹ ہو گیا، امی: اچھا ٹھیک ہے ٹھیک ہے یہ پیسے لو اور گوشت لے کر آو تیرا ابا بھی آنے والا ہے تو میں نے سالن بنانا ہے جلدی سے جا جلدی آ خبردارجو کہیں رکا یا آوارہ گردی کی تو سیف گارڈ تیار ہے، میں نے پیسے پکڑے جیب میں ڈالے اور اپنی سائکل کی طرف بڑھا تو نوشی جلدی سے میرے پاس آئی اور مجھے پیسے دیتے ہوئے بولی دانش، یہ پیسے لو اور دہی بڑے لیتے آنا لاہوری والے سے، اور پھر ساتھ ہی آہستہ سے بولی اگلی باری میری ہے تیار رہنا، ہمارا بھی دودھ پی کر دیکھ لینا، نوشی کی یہ بات سن کر میں پھیکا سا مسکرایا اور اپنی سائیکل نکا ل کر باہر نکل گیا،گوشت اور دہی بڑے لے کر گھر آیا تو ابا بھی آیا ہوا تھا خواتین سلائی میں مصروف تھیں امی کچن میں تھی نوشی کو دہی بڑے دیے تو اس نے گوشت بھی لے لیا پھر ابے کی آواز،،، ادھر آ پتر،
میں ابے کے کمرے میں گیا، ابا چارپائی پر بیٹھا دکان کی ہوئی سیل والے نوٹوں کو سیٹ کر رہے تھے ہھر مجھے بولے پڑھائی کیسی جا رہی ہے، میں بولا اچھی جا رہی ہے،
پھر بولے اگر نمبر کم لئے تو کام پے لگا دوں گا اسی لئے اچھے سے پڑھنا اور اچھے نمبر لانا ورنہ مجھے تو جانتا ہے، چل اب جا اور پڑھائی کر بہت ہو گئی مٹر گشتی اور جاتے ہوئے دروازہ بند کر دینا، میں ابے کے کمرے سے نکلا تو برامدےمیں سائرہ مجھے دیکھ کر مسکرا رہی تھی اور پھر اپنی سلائی میں لگ گئی، شاید اندر ہوئی باتیں اس نے سن لی تھی، لیکن مینو کی فرق پینا سی، یہ تو ڈیلی کا تھا، راشدہ ساجدہ اور نوشی اپنی سلائی میں لگی ہوئی تھی میں اپنے کمرے میں آگیا اور اپنی چارپائی پر بیٹھ کر آج ہوئی دونوں چدائیوں کے بارے میں سوچنے لگا،
میں اپنے کمرے میں آ کر چار پائی پر بیٹھا رہا اور سوچتا رہا کہ کچھ دن پہلے تک مجھے سیکس کا بارے میں پتا ہی نہیں تھا اور اب دیکھو دو دو پھدیا اور گانڈیں مار چکا ہوں ،اور دوران سیکس جو مزا اور احساس ہوتا ہے اس کے بارے میں سوچ سوچ کر لن نے پھر سے سر اٹھانا شروع کر دیا، لیکن اب مزید سیکس کرنے کی ہمت باقی نہیں تھی اسی لئے یہ سب سوچنا چھوڑا اور کتاب نکال کر پڑھنے بیٹھ گیا، پڑھنا کیا تھا سالا وہی مانی کی دی ہوئی سیکس سریز،
سیکس کہانی کتاب کھولی تو جو کہانی سامنے آئی اس کو پڑھنے کا تو شدت سے دل کرنے لگا، کیونکہ عنوان ہی ایسا تھا، دوستوں سے بہن کی چدائی کروائی،
کہانی بھی کچھ اسی طرح تھی کہ ایک لڑکا اپنے 4 دوستوں کو گھر لے کر جاتا ہے پھر اپنی بہن کا نظارا کرواتا ہے اور ان کو کمپیوٹر پر سیکسی ویڈیوز دکھاتا ہے اور پھر باری باری اپنی بہن پر سب کو چڑھا دیتا ہے اور آخر میں خود بھی اپنی بہن کو چودتا ہے، یہ کہانی پڑھ کر میرا دل مچلنے لگا اور میری سوچ مانی کی بہن پر اٹک رہی تھی، یہی کہانی میں نے مانی کو ذہن میں رکھ کر سوچنا شروع کر دی ، اور بس مانی کی بہن کو چودنے ہی والا تھا کہ کمرے کا دورازہ کھلا اور نبیل بھائی کی غصے والی انٹری ہوئی، جس کو دیکھ کر میں بھی ڈر گیا کہ یہ کیا ہوا،
اور آتے ہی ، چڑھائی شروع،
تجھے سنائی نہیں دیتا کب سے آوازیں دے رہے ہیں تجھے، بہرا ہوگیا ہے چل دفع ہو باہر کھانا کھا لے، میں نے جلدی سے کتاب کو بند کیا بیگ میں ڈالا اور باہر آگیا بھوک مجھے بھی زور کی لگی ہوئی تھی، میں کہانی پڑھنے میں اور مانی کی بہن کو چودنے میں اتنا مصروف تھا کہ پتا ہی نہیں چلا خواتین کب کی چلی گئیں اور ابو اور بھائی لوگ بھی دکان سے آگئے تھے، خیر جلدی سے ہاتھ منہ دھویا اور چپ چاپ کھانا کھایا پھر اپنے روم میں آ کر واقع ہی اب کتاب نکال کر پڑھنا شروع کیا اور ایک گھنٹہ پرھائی کر کے سو گیا،
اگلے دن سکول میں بڑا بے تاب تھا کہ کب فری ٹائم ملے اور میں اپنی داستان سناوں، مانی اور مہر صاحب کو، مانی بھی میری خوشی کو دیکھ کر سمجھ چکا تھا کہ کچھ تو بات ضرور ہے، لیکن کلاس میں موقع نہ مل سکا، جیسے ہی بریک ٹائم ہوا تو ہم فورن باہر کینٹین کی طرف نکلے سموسے چائے لے کر گراونڈ میں بیٹھ گئے،
مانی، ہاں اب بول کیا بات ہے،
کچھ بھی نہیں، میں بولا،
مہر، چل اب زیادہ نخرے مت کر جو بات ہے بتا صبح سے دیکھ رہے ہیں تیری حرکتیں،
مانی، پین چودا اب بتاتا ہے یا نہیں سالے،یا پکڑوں تیرے ٹٹے،؟؟؟
میں، اچھا اچھا بتاتا ہوں یار کیا ہو گیا ہے سالے تجھے تو ہر ٹائم بس لن ہی چاہیے گھر لے کر جائے گا کیا،
مانی، تو راضی تو ہو گھر بھی لے جائیں گے،
مانی کی یہ بات سن کر میں نے اور مہر نے مانی کی طرف گہری نظروں سے دیکھا، ہمیں یوں اپنی طرف دیکھتا پا کر مانی نے ہم دونوں سے کندھے اچکا کر پوچھا ، کیااااااا؟؟؟؟
میں بولا اچھا کچھ نہیں میں بتاتا ہوں کل کیا ہوا،
پھر ان دونوں کو کل کی ساری واردات سنا دی،
مانی اور مہر تو پہلے مجھے دیکھتے رہے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر پھر بولا واہ اوئے گانڈو ایک ہی دن میں دو پھدیا بجا دی، سالے بڑا چھپا رستم نکلا حرامی، مانی تو ان کاموں کا حرامی تھا، وہ تو مستی میں تھا اور مجھ سے چسکے لے لے کر پوچھ رہا تھا لیکن مہر بس سن سن کے چسکے لے رہا تھا، خیر بریک ختم ہوئی تو ہم وہاں سے کھڑے ہوئے کلاس میں جانے کے لئے تو ہماری نظر ڈایریکٹ ایک دوسرے کے بنے ٹینٹ پر پڑی ہم تینوں کے ہی لن فل آب و تاب سے کھڑے تھے،
ہم نے ہنستے ہوئے اپنے اپنے اوزاروں کو سیٹ کر کے چھپایا اور پھر کلاس میں آ گئے، اور اپنے ڈیسک پر بیٹھے کر مانی نے ایک ہاتھ میرے لن کی طرف بڑھایا اور ایک ہاتھ مہر کے لن کی طرف بڑھا کر پکڑ کر چیک کیا پھر ہاتھ واپس ہٹا لیا اور کہنے لگا مادر چودو تم نے سلا بھی دیا ہے اپنے لنوں کو یہاں تو یہ سالا سونے کا نام نہیں لے رہا،
ہم دونوں ہی ہنس پڑے اتنے سر بھی کلاس میں آگئے، اور پڑھائی شروع ہوگئی،
پھر لاسٹ پیریڈ میں ایک سکول کا چوکیدار کلاس میں آیا اور سر کو ایک پیپر دے گیا، جو نوٹس تھا، سکول ٹائمنگ کا، سکول ٹائم اب بڑھا دیا تھا، تو اسی کا نوٹس تھا، باقی سب تو منہ لٹکائے اپنا رونا رو رہے تھے لیکن مجھے پتا نہیں کیوں خوشی ہو رہی تھی، وہ اسی لئے چلو گھر کی ڈانٹ ڈبٹ سے بہتر تھا سکول میں ہی وقت گزارا جائے،
سکول ٹایمنگ اب اس طرح تھی،
صبح 8:30 سے 2:30 تک پڑھائی، پھر 2 گھنٹے ریسٹ اس کے بعد 4:30 سے 6:30 شام تک ٹیوش کلاسسز مطلب پچھلا سلیبس کور کرنا تھا، سارا دن سکول میں رہو جس نے 2 گھنٹے کے لئے گھر جانا ہو وہ جا سکتا تھا جس کا گھر دور ہو وہ سکول میں ہی رہ سکتا تھا، اور میرے لئے یہی بہت اچھا تھا،خیر اس دن تو جلدی چھٹی ہو گئ، میں سکول سے سیدھا دکان پر گیا اور ابو کو بتا دیا تو ابو نے سکول میں فون کر کے یقین دہانی کی کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں یا سچ، جب سکول سے بھی کنفرم ہو گیا کہ تو ابے نے کہا ٹھیک ہے اچھے سے پڑھائی کرو اور ابھی سیدھا گھر جانا،
میں دکان سے سیدھا گھر آیا، سائرہ نے دروازہ کھولا اور سیکسی سی سمائل پاس کی اور واپس مڑ گئی، میں نے سائیکل اسٹینڈ پر لگایا کنڈی لگا کر سلام کیا برآمدے میں بیٹھی خواتین کو دیکھا تو وہ بھی مجھے ہی دیکھ کر مسکرا رہی تھیں، میں بھی انکو دیکھ کر مسکراتا ہوا اپنے روم میں آ گیا اور چینج کیا اور باہر نکل گیا مٹر گشت کرنے کے لئے، کافی دیر باہر پھرتا رہا گھر واپس آرہا تھا تو دیکھا، گھر سے خواتین نکل رہی ہیں واپس اپنے اپنے گھر جانے کے لئے، سائرہ راشدہ اور ساجدہ تو دوسری طرف نکل گئیں لیکن نوشی اور نصری کا راستہ میری ہی طرف تھا جس طرف سے میں گھر جا رہا تھا وہ بھی اسی طرف آ رہی تھی، جب قریب ہوئے تو نوشی نے مجھے ہلکی سی آواز دی دانش،
میں رک گیا اور بولا جی،
کیا بات ہے کہاں گھوم رہے ہو، نوشی بولی، ابھی میں جواب دیتا اس سے پہلے نصری آنٹی بولی، جو کہنا ہے جلدی کہو گلی میں ہم اس وقت،
تو میرا جواب سنے بغیر نوشی بولی اچھا دانی تم ایک کام کرو میرے ساتھ میرے گجر چلو اور دروازے کے باہر ہی رکنا میں اندر جا کر پھر آوں گی باہر اور جب تمہیں اشارہ کروں تو فورن دروازے کے ساتھ بنی سیڑھیوں سے اوپر چلے جانا، باقی کا کام بعد میں بتاوں گی،
اتنا سننا تھا مجھے ڈر لگنے لگ گیا اور کہا نہیں نہیں میں تو اب گھر جا رہا ہوں کافی دیر ہوگئی ہے اور اب مغرب بھی ہونے والی ہے، گھر نا پہنچا تو آپ کو پتہ ہے سیف گارڈ کا،
آنٹی نصری کو تو بات سمجھ آ گئی لیکن نوشی کو دماغ پے چڑھی ہوئی تھی اور غصے سے کہنے لگی تم نے آنا ہے کہ نہیں، میں نے نصری آنٹی کی طرف دیکھا تو انہوں نے مجھے جانے کا اشارہ کیا اور خود نوشی کی بازو سے پکڑا اور اسے جانے کے لیے بولا، میں نے بھی نکلنے میں بھلائی سمجھی لیکن نوشی نے پھر پیچھے مڑ کر مجھے انگلی دکھائی تو میں واقع ہی ڈر گیا تھا کہ یہ بتا ہی نا دے کہیں، لیکن آنٹی نصری کے اشارے نے مجھے تسلی دی کے جا بیٹا ابھی تو گھر جا اس کی آگ کو اور گرم ہونے دے ابھی،
میں گھر آیا تو میرے پیچھے ہی سلیم بھائی گھر میں گھسے اور مجھے دیکھتے ہی بول پڑے کہاں تھا تو لوفر،
اتنے میں امی جو کچن میں تھی،
کچن سے امی کی آواز آئی ہاں پوچھو اس سے سکول سے آنے کے بعد باہر نکلا ہے تو اب آرہا ہے، بس پھر کیا سلیم بھائی کو تو موقع ملنا تھا وہ مل گیا، سیف گارڈ صاحب پہلے سے ہی تیار تھے اور دانش تو ہمیشہ حاضر رہتا ہے سیف گارڈ کی خدمت کے لئے، پھر بھائی نے ٹھیک سے دھلائی کی میری، اور اتنی دھلائی کی کے بس پوچھو مت، اور آج کچھ زیادہ ہی ہو گئی تھی ویسے بھی ہوتی رہتی تھی لیکن آج زیادہ ہی ہو گئی میں بچوں کی طرح چیخنے اور رونے لگا، جب ڈنڈا میرے گٹھنے پر لگا تو زیادہ ہی لگ گیا اور پتا نہیں خون کہاں سے نکلنے لگا میں نیچے گر گیا اور لیٹ گیا لیکن اس کے بعد بھی بھائی نے دو تین وار اور کر دیئے اور مجھے ویسے ہی چھوڑ کر کمرے میں چلا گیا میں وہیں فرش پر لیٹا روتا رہا اور درد بھی بہت ہو رہا تھا
کافی دیر تک روتا رہا پھر خود کو چپ کروایا اور اٹھنے لگا تو مجھے سے اٹھا نہیں گیا، میں پھر واپس فرش پر لیٹ گیا ایک تو اوپر سے سردی نیچے ٹھنڈا فرش اور پھر گرم جسم پر جو ڈنڈے لگے تھے اب وہ ٹھنڈے ہوئے تو درد نے گھیر لیا اور میں وہیں لیٹا لیٹا سو گیا، مجھے ایسا لگا کہ میں سو گیا ہوں لیکن ایسا نہیں ہوا تھا بلکہ میں بے ہوش ہو گیا تھا،
آنکھ کھلی تو دیکھا گھر کے ساتھ والی مارکیٹ میں ایک کلینک تھا اپنے آپ کو وہاں موجود پایا اور ایک ہاتھ میں دڑپ لگی ہوئی تھی،
آنکھ کھلی تو پورے جسم میں درد محسوس ہوا اتنے میں نرس آئی اس نے دیکھا کہ مجھے ہوش آگیا ہے تو فوری واپس گئی اور اپنے ساتھ ڈاکٹر کو لے آئی ڈاکٹر کے پیچھے نرس تھی اور نرس کے پیچھے نبیل بھائی بھی تھے، ڈاکٹر نے مجھے سے حال چال پوچھا تو میں نے درد کا بتایا تو اس نے نرس کو پین کلر انجیکشن دینے کا کہا،اور کچھ دوائیاں بتائی کہ وہ کھلا دو،
یہ کہہ کر ڈاکٹر چلا گیا، پھر نرس نے بھائی کو کہا آپ باہر جائیں میں بلاتی ہوں آپ کو، نبیل بھائی بھی چپ چاپ باہر چلا گیا، پھر نرس نے دروازہ بند کیا لیکن لاک نہیں کیا اور واپس میرے پاس آئی،اور پوچھا کہ یہ سب کیسے ہوا تھا، پتا ہے تمہیں کہا ں کہاں چوٹیں لگی، کس سے لڑائی ہوئی تھی تمہاری، سکول میں لڑائی ہوئی یا محلے کے کسی لڑکے سے مار کھائی ہے، میں چپ چاپ اس کی سنتا رہا کیونکہ مجھ سے بولا ہی نہیں جا رہا تھا، خیر نرس خود ہی بڑبڑاتی رہی اور میری ڈرپ ہٹا کر اسی جگہ انجیکش دے کر پھر سے ڈرپ لگا دی اور ساتھ پڑے شاپر سے 2 گولیاں نکالیں اور مجھے کہا منہ کھولو میں نے چپ چاپ منہ کھولا اور تو اس نے گولیاں میرے منہ میں ڈال دی،اور پھر مجھے پانی دیا تو میں نے دو گھونٹ پانی پی کر گولیوں کو نگل لیا، نرس پھر سے وہی پوچھنے لگی، لیکن میں نے صرف اتنا کہی کہا کہ درد ہو رہا ہے، تو پھر پتا نہیں کیوں اس کی آنکھوں میں نمی آ گئی جو مجھے صاف دکھائی دی، میں عجیب کشمکش میں پڑ گیا کہ یہ کیا سین ہے اب یہ بار بار کیوں پوچھ رہی ہے مجھ سے، آخر اس نے خود ہی کہا دیکھو دانش میں نوشی کی بھابی ہوں اور تمہاری شکایت نوشی نے ہی سلیم کو لگائی تھی کہ تم آوارا گردی کرنے لگے ہو اسی لئے سلیم نے تمہیں مارا ہے، اور تم دو دن سے بے ہوش پڑے ہو یہاں، اور وہاں نوشی نے رو رو کر برا حال کیا ہوا ہے اپنا،پلیز تم نوشی کو معاف کر دینا، وہ بہت روتی رہی ہے اور اپنے آپ کو کوستی ہے کہ کیوں اس نے ایسا کیا،
یہ بات سننے کی دیر تھی اور میرا خوں تیز گردش کرنے لگا کہ سالی کا میں نے کیا بگاڑا تھا جو اس نے اتنی مار پڑوائی مجھے میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ ابھی جا کر اس حرامزادی کا گلا دبا دوں اور اٹھنے کی کوشش بھی کی لیکن اٹھ نا سکا، جب نرس نے دیکھا مطلب نوشی کی بھابی نے دیکھا کہ میں غصے میں اٹھ رہا ہوں تو اس نے مجھے لیٹے رہنے اور آرام کرنے کا بولا اور میرے آگے ہاتھ جوڑ دیئے اپنے، اور اس کی آنکھوں سے آنسون نکلتے صاف نظر آرہے تھے، مجھے حیرانی بھی ہوئی کہ یہ سالی کیوں رو رہی ہے، ایسے ہی خامخوا ، لیکن یہ مجھے بعد میں پتا چلا آگے جا کر بتاوں گا، خیر اتنے میں نبیل بھائی نے دروازہ بجایا تو نوشی کی بھابی نے اپنے آنسو صاف کئے اور وہاں سے چلی گئی، اور میں ویسے ہی غصے میں لیٹا نوشی کو گالیاں پے گالیاں دیئے جا رہا تھا، اتنے میں نبیل بھائی اندر آئے اور پوچھا ہاں بھائی طبیعت کیسی ہے، میں پہلے سمجھا شاید گھر والے میرے لئے ہریشان ہوں گے لیکن یہ میری سوچ تھی ایسا کچھ بھی نہیں تھا، لگ ہی نہیں رہا تھا الٹا مجھ پر ہی غصہ تھے کہ اتنا خرچہ ہو گیا میری وجہ سے، لو جی چوت بھی ہماری تھوک بھی ہماری، خیر نبیل نے حال پوچھا تو بس اتنا ہی کہا کہ درد ہے ابھی، مجھے لگا تسلی دے گا لیکن سالے نے اپنی اوقات ہی دکھائی،
بس بس اب اور بہانے ختم کر، دو دن ہو گئے ہیں تجھے ڈھیٹ بن کے سویا ہوا ہے چل اب جلدی سے ڈرامے ختم کر اور نرس کو بول میں ٹھیک ہوں پھر گھر چلتے ہیں تیری وجہ سے مجھے بھی یہیں رکنا پڑا ہے سکون سے سو بھی نہیں سکا اور خود تو مزے سے سو رہا تھا، بھائی نبیل کی بات سن کر تو ایک بار پھر میری حالت غیر ہونے لگی ایک تو نوشی کا غصہ دوسرا نبیل کی باتیں، میرا دل کر رہا تھا کہ خود کو زہر دے دوں یا خود کشی کر لوں، یا پھر اسی کا سر پھاڑ دوں جو میرے سامنے بیٹھا ہے، لیکن کر بھی کیا سکتا تھا، خیر نبیل مجھے باتیں سناتا رہا اور میں کڑوا گھونٹ بھر کر پیتا رہا، میں نے پھر غور کرنا ہی بند کر دیا اس کی باتوں کو کیونکہ شاید انجیکشن کا اثر ہونے لگا تھا، لیکن آخری بات اتنی سنائی دی کہ میں جا کر ڈاکٹر کو بتاتا ہوں تو ٹھیک ہے اب ہمیں گھر جانے دیں، ڈاکٹر پوچھے گا تو تم نے بھی یہی کہنا ہے، میں نے چپ چاپ ہاں میں سر ہلایا لیکن اس سے پہلے کے ڈاکٹر آتا میری آنکھیں بند ہو گئی اور میں پھر سو گیا،
مجھے اپنے جسم میں درد کی شدید ٹیسیں اٹھیں جس کی وجی سے میری آنکھ کھل گئی، تو دیکھا میں اپنے گھر اپنے بستر میں سویا ہوں اور میرا انگ انگ دکھ رہا ہے، خیر اٹھنے کی کوشش کی تو نہ اٹھ سکا اور اٹھنا بھی لازمی تھا کیوںکہ مترویسرجن کا پریشر بھی بہت تیز تھا، خیر زور لگا کر اٹھا اپنے اوپر سے رضائی ہٹائی اور چارپائی سے نیچے پاوں رکھے تو رکھے نا گئے کیوں کی زیادہ چوٹیں لاتوں اور گھٹنوں پر تھیں، پھر بھی زور لگا کر اٹھا اور لڑ کھڑاتے ہوئے
دروازے تک آیا دروازے کو کھولا تو سامنے ہی پانچوں خواتین اپنی سلائی میں مصروف تھیں، میں دروازے کا سہارا لے کر باہر نکلا تو نصری آنٹی نے مجھے پہلے دیکھا پھر باقی کی خواتین نے پھر امی بھی نے مجھے کچن سے دیکھ لیا اور وہیں سے آواز دی اب کہا جا رہا ہے لوفر پھرنے، یاااااار کیا مصیبت ہے بندہ پیشاپ کرنے بھی نہ جائے میں نے غصے سے کہا لیکن اپنے دل میں کیونکہ میری اتنی جرات ہی نہیں تھی کہ کسی کے آگے چوں بھی کر جاوں اس کی وجہ بچپن سے ہی ایسا ماحول دیکھا تھا اور اسی ماحول میں بڑا ہوا تھا، اور اب آگے بھی یہی چلنا تھا، خیر میں نے آرام سے کہا پیشاپ آیا ہے بہت تیز، تب جا کر امی کچھ ٹھنڈا ہوئی اور کہا اچھا اچھا باہر مت جانا ورنہ پھر اٹھنے کے قابل بھی نہیں چھوڑیں گے تجھے تیرے بھائی اور تیرا باپ، میں اچھا جی کہتے ہوئے اور لڑکھڑاتے ہوئے باتھ روم کی طرف جانے لگا تو نصری آنٹی اٹھ کر میرا بازو پکڑ کر مجھے سنبھالنے لگی تو میں نے آرام سے اپنا بازو ان کیے ہاتھ سے چھڑوایا کہ میں ٹھیک ہوں آپ اپنا کام کریں، لیکن نصری آنٹی نہیں مانی اور کہا چلو چپ چاپ میں لے چلتی ہوں، مجھے سہارا دے کر وہ باتھ روم تک لے جانے لگی سائرہ راشدہ اور ساجدہ تو نارمل اندازمیں ہلکی ہلکی اپنی مسکراہٹ میری طرف پھینک رہیں تھیں لیکن نوشی کو دیکھ کر تو مجھے آگ ہی لگ گئی تھی اور نوشی رونی صورت بنا کر مجھے دیکھ رہی تھی لیکن میں نے اسکی کوئی پرواہ نہ کی بس اس کو غصے سے دیکھنا جاری رکھا، آنٹی بھی اس بات کو نوٹس کر چکی تھی، لیکن مجھے آرام سے بولی، دانش صبر رکھو صبر، آنٹی مجھے باتھ روم تک لے آئی میں نے اپنا بازو آنٹی سے چھڑا کر باتھ روم میں گھس گیا، بہت مشکل سے ناڑا کھوکا، پیشاپ کیا پھر باہر آگیا تو دیکھا نصری آنٹی باہر ہی کھڑی ہے، مجھے باہر آتے دیکھ کر پھر سے سہار دیا میں بولا بھی کہ میں ٹھیک ہوں لیکن وہ نا مانی اور مجھے کمرے تک چھوڑ آئیں، میں اپنے بستر پر لیٹا تھا اور پیشاپ کر کے کافی ریلیکس محسوس کر رہا تھا،
سکول سے بھی 3 چھٹیاں ہو گئی تھی،
گھر والوں کے اس رویے سے میں واقع ہی اب بہت پریشان ہو چکا تھا اور مزید میری برداشت اب ختم ہوتی جا رہی تھی، اور یہ سوچ کر بھی مزید ٹینشن ہوتی تھی کہ سالا یہ سب کب تک چلے گا،
خیر جو بھی تھا یہی زندگی تھی اور نئی نویلی دلہن کی طرح میں نے بھی اپنی اس زندگی کو قبول کیا ہوا تھا،
5 دن تک گھر میں پڑا رہا ان دنوں میں بہت محسوس کیا تھا اور جس بندے نے میری ٹھکائی لگائی تھی اس کو تو ذرا سا بھی کسی نے کچھ نہیں کہا جو بھی کہا مجھے ہی کہا اور سلیم بھائی کے حصے کی ڈانٹ بھی میرے نصیب میں تھی ویسے غلطی بھی میری ہی تھی، نا باہر جاتا اور نا مار کھاتا،
صبح کے 9 بجنے والے تھے، اس ٹائم تک بھائی اور ابو دکان پر جا چکے ہوتے ہیں اور خواتین بھی گھر میں آ کر اپنا کام شروع کر چکی ہوتی ہیں شاید سائرہ بھی اپنا کام کر چکی ہو گی صفائی کا، ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ دروازہ کھلا تو سائرہ ہی تھی، (لمبی عمر پائی ہے سالی نے) سائرہ نے مجھے دیکھا کہ میں جاگ رہا ہوں تو واپس برآمدے میں چلی گئی، میں سوچ میں پڑ گیا اس کو کیا ہوا میں توآج مستی کے موڈ میں تھا لیکن یہ تو سالی بھاگ ہی گئی، اتنے میں پھر دروازہ کھلا اور اس بندی کو دیکھ کر مجھے اپنے اندر غصے کی لہریں دوڑتے ہوئے صاف صاف محسوس ہو رہی تھی، میرے ماتھے پر بل پڑنے لگ گئے، وہ جلدی سے میرے قریب آئی اور دونوں ہاتھ باندھ کر مجھ سے معافی مانگنے لگی اور ہلکا ہلکا رونے بھی لگی، لیکن مجھے ابھی بھی غصہ تھا اور معافی تلافی اور رونے دھونے کو نظر انداز کر رہا تھا، خیر اس نے شارٹ کٹ میں مجھے ساری بات بتائی جو میری سمجھ میں بھی آگئی تھی لیکن میں نے ایسا ظاہر کیا کہ میں راضی نہیں ہوا اتنے میں سائرہ آئی اور نوشی کو آواز دے کر کہا کہ آجاو اب باجی(امی) نے پوچھ لیا تو مصیبت ہو جانی ہے، امی شاید کچن میں ہوں گی یا پھر کھرے پر کپڑے دھو رہی ہوں گی، لیکن جو بھی تھا نوشی جلدی سے اٹھی اور پھر ہاتھ جوڑ کر معافی مانگی اور چلی گئ،
دوستوں، بقول نوشی کے اس دن کی ہوئی واردات میں اس کا کوئی ہاتھ بھی نہیں تھا بس ایسے سمجھو وسیلہ ہی بن گیا تھا، کیوںکہ جب نوشی اور آنٹی نصری میرے ساتھ بات کر رہی تھی تو پیچھے سے سلیم بھائی بھی آ رہے تھے اور انہوں نے ہمیں دیکھ لیا تھا باتیں کرتے ہوئے، میں تو گھر آگیا تھا لیکن سلیم بھائی نے نوشی سے پوچھ لیا کہ کیا بات تھی، نوشی نے بات تو پلٹ دی لیکن فائدہ اس کا بھی نہیں ہوا، نوشی نے بس اتنا ہی کہا تھا دانش باہر گھوم رہا تھا تو میں نے تو بس اتنا ہی کہا کہ گھر بیٹھا کرو ورنہ سلیم کو پتا چل گیا تو وہ بہت مارے گا، بس یہ بات سلیم صاحب نے سنی تو جیسے وہ ہیرو ہو گئے اور گھر آ کر میری اچھے سے اور سلیقے سے دھلائی کی، اور پھر اگلے دن جب سب کو پتا چلا تو نوشی کی ہوا ٹائٹ ہو گئی اس کو اپنی فکر بھی تھی کہ ٹھیک ہونے کے بعد میں نے اس کی پھدی اور گانڈ دونوں کو پھاڑ کے رکھ دینا ہے، نصری آنٹی نے نوشی کو بہت برا بھلا کہا کہ اس کی چھوٹی سی غلطی کا مجھے کتنا نقصان ہوا ہے،
سائرہ بھی پریشان تھی لیکن اس نے اپنی پریشانی چھپائی ہوئی تھی وہ نوشی کو کچھ کہہ نہیں سکتی تھی کیونکہ وہ عمر میں بڑی تھی، خیر جو بھی ہوا گزر گیا تھا، پھر ابھی تھوڑی دیر گزری تو سائرہ ناشتہ لے کر آئی، ناشتہ کیا تھا بس مریضوں والا، خیر چپ چاپ کھایا، پھر ساتھ رکھیں گولیا کھائیں اور پھر لیٹ گیا، آج سیکس کی مستی چھائی ہوئی تھی تو بیگ سے سیکسی کتاب نکال کر پڑھنے لگ گیا پھر دوپہر تک امی کمرے میں ائی اور کہا کہ نہا لو گرم پانی کر دیا ہے، اور مجھے بھی نہانے کی طلب تھی، سو آرام سے اٹھا الماری سے کپڑے نکالے اور باتھ روم میں آ کر کپڑے ہینگ کئے پھر واپس کچن میں آ کر گرم پانی اٹھایا اور باتھ روم میں گھس گیا ، آج خواتیں مجھے چلتا پھرتا دیکھ کر خوش ہو گئیں تھیں، اور نوشی بہت ہی زیادہ خوش تھی لیکن مجھے نصری آنٹی کی مسکراہت سرور بخش رہی تھی،
باتھ روم میں آ کر کپڑے اتارے، تو اپنے جسم کا جائزہ لیا، پورے جسم پر کافی جگہ ہلکے ہلکے نیل بنے ہوئے تھے جو اب کافی حد تک ٹھیک تھے ہاتھ رکھتا تھا تو ہلکا ہلکا درد ابھی بھی باقی تھا، خیر گرم پانی سے نہا کر کپڑے پہن کر پھر سے کمرے میں آگیا اور کافی ہلکا محسوس کر رہا تھا اپنے آپ کو،نوشی ایک بار پھر کمرے میں ائی کسی طرح موقع دیکھ کر پھر معافی مانگی لیکن اس کی آنکھوں میں شہوت صاف دکھائی دے رہی تھی بظاہر تو وہ معافی مانگ رہی تھی لیکن وہ اپنی چدائی کا ٹائم سیٹ کرنا چاہ رہی تھی، خیر میں نے بس ہاں ہوں میں ٹال کر چلتا کیا، کیوں کہ میرا اب دل اس پر نہیں تھا، شام ہوئی تو ابو اور بھائی بھی دکان سے آ گئے تھے، اور ابے نے بس اتنا ہی کہا کہ انہوں نے سکول میں درخواست دے تھی، تمہاری بیماری کی، اسی لئے جب سکول جاو تو بیماری کا ہی بتانا، چار ہٹلر میرے سامنے بیٹھے تھے توانکو دیکھ کر بس ہاں میں سر ہلا کر ان کو مطمعن کیا اپنا کھانا کھا کر کمرے میں آگیا اور سو گیا، اگلے دن جمعہ تھا سکول سے ویسے ہی چھٹی تھی سائرہ کمرے میں جھاڑو لگانے آئی تو ہلکی پھلکی مستی ہوئی اس کے بعد نہا دھو کر ناشتہ کیا کمرے میں آ کر سیکسی کہانی پڑھنے بیٹھ کیا کہ سائرہ کمرے میں ائی اور بولی کہ آپ کے دوست آئے ہیں انکو آپ کے ابو والے کمرے میں بٹھا دیا ہے، میں حیرانی سے اٹھا کہ کون سے دوست آئے ہیں اور ابو والے کمرے میں گھس گیا تو دیکھا سامنے مانی اور مہر صاحب بیٹھے ہیں، انکو ملا پھر اندر آ کر امی کو چائے کا کہا لیکن امی کے صاف انکار سے دل چکنا چور ہو گیا، خیر نصری آنٹی نے اشارہ کیا کے تم جاو میں بنا دیتی ہوں، میں نے انکا شکریہ ادا کیا اور واپس ابو والے کمرے میں آ گیا،
مانی اور مہر نے میری طبیعت کا پوچھا ، انکو طبیعت کا بتایا کہ اب ٹھیک ہوں کل سے سکول آوں گا، پھر دروازہ بجا تو میں آنٹی نے مجھے ایک ٹرے پکڑائی جس میں چائے کے تین کپ تھے ، میں نے چائے پکڑ کے دروازہ بند کیا اور مانی اور اجمل کو چائے دی پھر گپ شپ ہوتی رہی پھر وہ اجازت لے کر کل لازمی سکول آنے کا کہہ کر چلے گئے،ابو کے کمرے کا ایک دروازہ گلی میں بھی کھلتا تھا مطلب وہ روم ہمارا ڈرائنگ روم بھی تھا،خیر ان کے جانے کے بعد میں نے خالی کپ اور ٹرے اٹھائی اور باہر آگیا اور کھرے کی طرف گیا ، کپ اور ٹرے دھو کر واپس کچن میں رکھے، اور اپنے کمرے میں آگیا، اب گھر میں ذرا سا بھی دل نہیں لگ رہا تھا اپنا ہی گھر مجھے جیل کے جیسا لگ رہا تھا باہر بھی نہیں جا سکتا تھا، ورنہ پھر سے ٹھکائی لگتی، خیر بڑی مشکل سے دن گزرا رات کا کھانا کھا کر سو گیا اگلے دن ٹائم سے سکول پہنچ گیا اور گھر سے باہر نکل کر بہت خوش تھا، سارا دن سکول میں بہت خوشگوار گزرا مانی اور مہر کے ساتھ ہنسی مزاک بھی چلتا رہا، 2:30 پر چھٹی ہوئی تو سب اپنے اپنے گھر جانے لگے لیکن میں کلاس میں ہی لاسٹ والے بینچ پر جا کر لیٹ گیا پھر تھوڑی دیر باہر مٹر گشتی کی، اپنے آپ کو آزاد محسوس کر رہا تھا، میں اکیلا تھا، مانی اپنے گھر چلا گیا تھا اور مہر اپنے ہاسٹل میں، شام کو جب دوبارہ کلاس شروع ہوئی تو مانی اور مہر بھی آ گئے مجھے یونیفارم میں دیکھ کر وہ بولے تو گھر نہیں گیاتھا؟
میں بولا نہیں دل نہیں کیا تو مانی بولا سالے میرے ساتھ چل لیتا میرے گھر پھر ساتھ ہی آجاتے، مانی کی بات میں وزن تھا لیکن ڈر بھی تھا کہ اگر ابے نے فون کر کے پوچھ لیا تو پھر گانڈپھٹ جانی ہے، خیر دیکھیں گے میں نے مانی کو کہا اور پھر سر آگئے تو پڑھائی شروع ہو گئی، سردی کا موسم تھا گھر پہنچا تو مغرب ہو ہی چکی تھی اندھیرا ہلکا ہلکا ہو رہا تھا لیکن آج ڈر نہیں تھا کیونکہ آج سکول سے واپس آ رہا تھا آوارہ گردی کر کے نہیں، گھر پہنچھا سلام کیا امی ہی تھی گھر پر،جواب دیتے ہی بولی یہ کونسا ٹائم ہے سکول کا اتنی دیر تک، تو میں نے بس اتنا ہی کہا کہ وہ سکول ہی ایسا ہے، لیکن امی کو یقین نہیں تھا کیونکہ آج پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ میں مغرب کے بعد گھر لوٹا تھا،خیر میں نے امی کو کھانے کا بولا تو وہی سرد آواز تیرے ابو اور بھائی آجائیں پھر ساتھ بیٹھ کر کھانا، غصہ تو بہت آیا لیکن پینا پڑا ہاتھ منہ دھو کر کمرے میں آیا کپڑے چینج کئے اور بیٹھ گیا اور آج کچھ زیادہ ہی خوش تھا کیونکہ اب سے سارا دن باہر رہنا ہو گا بس رات کو ہی آیا کروں گا، بھوک بھی بہت لگ رہی تھی لیکن برداشت کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا، خیر بڑی مشکل سے ٹائم گزرا ابو اور بھائی لوگ آ گئے، پھر کھانا لگا تو میں ٹوٹ پڑا کھانے پر اور پیٹ بھر کر کھانا کھایا، ڈکار مارتے ہوئے کمرے میں دوسری طرف منہ کر کے لیٹ گیا پھر پتا نہیں کب سو گیا، اگلے دن ٹائم سے اٹھا اور سکول کی طرف نکل کیا اور پھر سے بہت خوش تھا،اور یہی روٹین ڈیلی رہی ایک ہفتہ نکل گیا ایسے ہی، مانی بھی بہت بار کہہ چکا تھا کہ دن میں اس کے ساتھ اس کے گھر جانے کا لیکن مجھے ابھی تھوڑا ڈر تھا ابے پر یقین پکا کرنا چاہتا تھا کہ میں فری ٹائم میں سکول میں ہی ہوتا ہوں، اور ابو ایک دو بار فون کر کے کنفرم بھی کر چکے تھے، لیکن پھر بھی مجھے کھٹکا تھا کہ وہ ایک دن ضرور آئیں گے دیکھنے کے لئے بھی، خیر چھٹی والے دن لن میں بھی کجھلی ہونے لگی سائرہ سے ہلکی پھلکی مستی ہوئی اور اسے کہا بھی کے آج موقع بناو لیکن وہ نخرے دکھانے لگی، لڑکی یا عورت جب تک ان کا خود کا موڈ نہ ہو تو آپ کو گھاس تک نہیں ڈالے گی، اور جب خود کا موڈ ہو تو زمیں آسمان ایک کر کے موقع بنا لے گی، پھر انکا دماغ دوگنا کام کرتا ہے ایسی سچویشن میں، خیر میں اٹھا نہا دھو کر ناشتہ کیا، ناشتے دوران سوچا کہ کیوں نا مانی کے گھر چلا جاوں، ابھی یہی سوچ رہا تھا،
امی کی آواز
دانششش؟؟؟؟؟؟؟؟
کچھ پیسے دئے اور کپڑوں کے کچھ سیمپل دے دئے اور کہا یہ سب کلر کی نلکیاں لے کر آو، مجھے تو جیسے خوشی کا ٹھکانا نہ مل رہا ہو، جلدی سے سائیکل نکالی ابھی دروازے میں ہی تھا ایک زوردار آواز ، جلدی آنا اور آوارہ گردی سے پرھیز کرنا، بس یہ الفاظ سن کر میرا دل کیا کہ جاوں ہی نا، لیکن پھر ایک اور آواز اب جا بھی کیوں رک گیااااا،
بے دلی سے گھر سے نکلا اور مارکیٹ کی طرف روانہ ہوا تھوڑا ادھر ادھر گھوما، پھر جنرل سٹور پر گیا اور نلکیاں لی، واپسی پر پھر مٹر گشتی کی، مطلب ایک گھنٹہ سکون سے ضائع کیا پھر گھر آگیا ، وہی ڈانٹ پھر سے سن کر آرام سے کمرے میں آگیا، پھر سوچا چھت پر جاتا ہوں، کمرے سے نکلا سیڑھیوں کی طرف بڑھا ابھی ایک سیڑھی چڑھنے لگا کہ دروازہ بجا وہیں سے واپس مڑا اور دروازہ کھولا تو دیکھا ایک نقاب پوش لڑکی سفید کپڑوں میں ملبوس اندر آئی، اور اندر آتے ہی مجھ سے پوچھا کیسے ہو دانش اب طبیعت کیسی ہے اور ساتھ ہی اپنی چادر کا نقاب بھی ہٹایا، نقاب ہٹا تو میں بھی اسے پہچان گیا یہ تو نوشی کی بھابی ہے، میں نے بس سرسری سا جواب دیا کہ اب ٹھیک ہوں واپس دروازہ بند کیا اور چھت پر جانے لگا آدھی سیڑھیاں چڑھ کر نیچے جھانکا تو دیکھا نوشی کی بھابی نوشی کو کچھ دے رہی تھی خیر میں اوپر آگیا اور دیوار کے ساتھ لگی ہو ئی چارپائی کو بچھا کر لیٹ گیا دھوپ کے مزے لینے لگا، تھوڑی ہی دیر گزری کے سائرہ اوپر آئی اور اٹھلاتی ہوئی مسکان چہرے پر سجائے بولی ، کیوں دانش صاحب کھجلی ہو رہی ہے اور مٹانا چاہتے ہو، اس کی یہ بات سن کر میں اٹھ کر بیٹھ گیا اور بس ہلکا ہلکا اسے دیکھ کر مسکراتا رہا،
وہ پھر بولی بتا نا کجھلی ہو رہی ہے اور میرے بالکل قریب آ کر میرے ہتھیار کے اوپر ہاتھ رکھ دیا جو سویا ہوا تھا لیکن سائرہ کے ہاتھ لگتے ہی اس نے سر اٹھانا شروع کر دیا، وہ میرے ساتھ ہی بیٹھ گئی اور پھر کہا بول نا کیا ہے، میں نے بس اتنا ہی کہاں کہ تم تو دیتی نہیں ہو پھر کھجلی کا کیا فائدہ، سائرہ کھکلاتے ہوئے اٹھی اور اپنا ہاتھ بھی میرے لن پر سے ہٹایا اور بولی کہ ابھی نوشی باجی چلی جائے گی اور اس کے گھر میں کوئی بھی نہیں ہو گا تم بھی کوئی بہانا بنا کر اس کے گھر چلے جانا اور اپنی کھجلی ختم کر کے آنا، نوشی کا نام سنتے ہی پتا نہیں کیا ہوا اور میں جھٹ سے سائرہ کو بولا کہ تم نے پھدی دینی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ نوشی چڑھے میرے لن پے، مجھے اس سے نہیں کرنا،
سائرہ میری بات سن کر بڑی مشکل سے اپنی ہنسی کو کنٹرول کیا اور بولی پاگل نوشی باجی نے لن پر ہی تو چڑھنا ہے اور تم ابھی بھی غصہ ہو، سائرہ کے منہ سے لن سن کر مجھے حیرت بھی ہوئی مزے کا جھٹکا میرے لن کو بھی لگا، سائرہ : چلو غصہ چھوڑو اور کسی طرح چلے جانا، اب میں بھی جاتی ہوں ورنہ ہم دونوں کو مار پڑے گی، اتنا کہہ کر سائرہ نے جلدی سے میرے ہونٹوں پر ایک کس کیا اور سیڑھیوں کی طرف چلی گئی، سیڑھیوں پر پہنچ کر پیچھے مڑ کر ایک بار پھر مجھے منت والے لہجے میں کہا پلیز دانش چلے جانا اس کے گھر ہااااااں، اور پھر نیچے اتر گئی، میں وہیں بیٹھا رہا آرام سے اور سوچنے لگا کہ جاوں یا نا جاوں اسی کشمکش میں تھا کہ نیچے سے گرجدار آواز آئی امی کی، دانشششششش؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
بس پھر کیا تھا فوری طور آواز دی آآااااااایا، کہہ کر نیچے کی طرف چل دیا
ابھی سیڑھیاں اتر رہا تھا کہ امی نے کہا جلدی سے اپنی نوشی باجی کو گھر چھوڑ کر آو اور یہ پیسے بھی لو اور دکاندار چچا سے سامان بھی لے آنا، فرمانبردار بچوں کی طرح گھر سے نکلا ساتھ میں نوشی بھی اپنی چادر اوڑھے نقاب کئے چل پڑی، گھر سے تھوڑا آگے آئے تو نوشی بولی،
دانش تم جلدی سے سامان لے کر گھر دے کر آجانا میرے گھر میں کوئی نہیں ہے، مجھے غصہ تو بہت تھا اور غصے میں ہی جواب دیا کہ کیوں، سلیم بھائی کو بلوا لو نا یا پھر نبیل بھائی کو، تو نوشی تھوڑی کھسیانی ہوئی اور بولی ابھی بھی ناراض ہو، اچھا آج تم آجاو پھر جو مرضی کرنا میرے ساتھ مجھے مار بھی لینا جیسے سلیم بھائی نے تمہیں مارا تھا اپنا سارا غصہ نکال لینا میں چوں بھی نہیں کروں گی، اس کی بات سن کر میں نے بھی شریف بچوں کی طرح جواب دیا، نہیں نہیں آپ اتنی بڑی ہو میں کیسے مار سکتا ہوں آپکو ، آپ تو سلیم بھائی سے بھی بڑی ہو میں تو سلیم بھائی کو بھی نہیں مار سکتا آپ کو کیسے ماروں گا، یہ بات سن کر نوشی تھوڑا سا ہنسی اور بولی پاگل میں اسی لئے کہہ رہی ہوں کہ جو تمہارے ساتھ ہوا وہ میری وجہ سے ہوا اور اس کے بعد سے تو میں نے سلیم سے بات کرنا ہی چھوڑ دیا ہے اب وہ میرا بھی دشمن ہے اب تو اس سے بات کرنا تو دور کی بات اب تو دیکھنا بھی نہیں ہے اس کی طرف کیوں کہ اب مجھے تم جو مل گئے اب سے تم ہی میرے دوست ہو وہ بھی پکے والے، نوشی کی یہ بات سن کر میرا سینا پتا نہیں کیوں چوڑا ہوا اور میرا غصہ بھی پھرررررر ہو گیا، اور ارادہ بھی بدل دیا کہ اتنی تو اچھی ہے یہ میں ایسے ہی خامخوا غصہ کر رہا تھا ایسے ہی باتیں کرتے اور چلتے ہوئے اس کا گھر بھی آگیا ڈبل سٹوری گھر تھا نوشی آنٹی کا خیر، وہ چھوٹے گیٹ کا لاک کھول کر دروازہ کھول کر اندر گئی اور پیچھے مڑ کر پھر بولی جلدی آنا دانش تمہارا انتظار ہے مجھے،
ایک تبصرہ شائع کریں for "پہلا نشہ پہلا خمار "