بڑی ماں۔۔۔۔۔۔بڑی ماں۔۔۔۔غضب ہو گیا بڑی ماں۔۔۔۔۔بڑی ماں۔۔۔۔۔۔
رانی ،،گھر کی نوکرانی اوربڑی ماں کی خاص ۔۔۔بھاگی بھاگی بڑی ماں کی کمرے کی طرف پاگلوں کی طرح ڈورتی جا رہی تھی۔۔گھر کے سبھی نوکر رانی کو اسطرح پاگلوں کی طرح ڈورتے دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔۔نوازبخش جو کہ گل شیر کا ڈرائیوراور رامو کاکا کا بیٹا تھا۔ رانی کو اس طرح بھاگتے ہوئے دیکھنے میں کچھ زیادہ ہی مگن تھا۔۔۔شاید وہ رانی کو اسطرح پریشانی سے بھاگتا ہوا نہیں بلکہ بھاگنے کی وجہ سے اسکے جسم پر موجود بھاری برکم چھاتیوں کو ایک فٹبال کی طرح ادھر اُدھر اچھلتا ہوا دیکھ رہا تھااور جب رانی اس سے آگے نکل گئی تب اسکی نظریں رانی کے باہر کی جانب نکلے ہوئے گول مٹول کولہوں کو ٹٹولنے لگ گئیں۔۔۔
میں اوپر بالکونی میں کھڑی یہ سب منظر دیکھ رہی تھی۔۔رانی بجلی کی طرح اندر حویلی کے مین دروازے سے داخل ہوئی اور سیدھا بڑی ماں کے کمرے کی جانب ڈورتی چلی گئی۔۔اسکے منہ سے مسلسل بڑی ماں ۔۔۔بڑی ماں۔۔۔ کی آوازیں نکل رہی تھیں۔۔۔
جیسے ہی وہ بڑی ماں کے کمرے میں داخل ہوئی تو بڑی ماں اپنے بیڈ پر ہاتھ میں تسبی لیئے کمر کے پیچھے تکیہ لگائے بیڈ سے اپنی کمر ٹکائے آرام فرما رہی تھی لیکن رانی کی آواز نے انھیں ایک دم چونکا دیا تھا۔۔وہ جھٹ سے اٹھ کر بیٹھ گئیں او رانکا دل دھک دھک کرنے لگا جیسے بڑی ماں کو کسی بری خبر کی آمد کی پہلے سے اطلاع مل گئی ہو۔۔۔ وہ رانی کے پسینے سے شرابور چہرے اور تیز تیز سانسو ں کے ساتھ اسکی کی چھاتیوں کو اوپر نیچے ہوتا دیکھ کر فوراً بیڈ سے اتر گئیں اور بے چینی سے رانی سے اتنی پریشانی کی وجہ پوچھنے لگیں۔۔
بڑی ماں ۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔گل شیر۔۔۔۔۔
کیا ہوا گل شیر کو۔۔۔بڑی ماں کے چہرے پر پریشانی کے آثار اب نمایا ہو گئے تھے۔۔۔۔اب وہ رانی کے بلکل قریب آچکی تھیں ۔۔
بڑی ماں ۔۔۔گل شیر کو کچھ لوگوں نے بری طرح ڈنڈو پیٹا ہے اور جاتے ہوئے اسکی ٹانگ میں گولی مار گئے۔۔۔لوگ اسے ہسپتال لے کر گئے ہیں۔۔۔رامو کاکا کہہ رہے ہیں اسکی حالت بہت نازک ہے۔۔۔
بڑی ماں نے بس اتنا سنا اور رانی کو تھپڑ مارنے کو ہاتھ اٹھایا اور ہوا میں بلند کر کے روک لیا۔۔۔رانی ماں بری طرح کانپ رہی تھیں۔۔۔گل شیر انہیں اپنی جان سے بھی زیادہ پیارا تھا۔۔۔۔ وہ بے ساختہ باہر کی طرف ڈوریں اور مین دروازے سے باہر نکل کر نواز بخش کو چیختے ہوئے گاڑی نکالنے کو کہا۔۔بڑی ماں کی غرراتی ہوئی آواز سن کر نواز بخش جو ابھی تک مین دروازے کی جانب دیکھ رہا تھا جہاں سے رانی گزری تھی،،بڑی ماں کی آواز پر بوکھلا کر گاڑی کی طرف دوڑا اور درائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی اسٹارٹ کر لی اور رانی جو بڑی ماں کے پیچھے پیچھے انکے ساتھ بھاگتی ہوئی باہر آئی تھی جھٹ سے گاڑی کا دروازہ کھولا اور بڑی ماں گاڑی میں بیٹھ کر ہسپتال کی طرف روانہ ہو گئیں۔۔۔
یہ سب کچھ صرف دو منٹ کے اندر اندر ہوا جسے میں اب تک بالکونی میں ہی کھڑی دیکھ رہی تھی لیکن اب میں بھی تجسس اور پریشانی کا شکار تھی کہ رانی آخر ایسی کیا خبر لائی تھی کہ بڑی ماں اسطرح سے نواز بخش پر چیخیں کیونکہ بڑی ماں بہت ہی نرم د ل اور اچھے اخلاق کی عورت تھی انہوں نے آج تک کسی نوکر سے اسطرح چیخ کر بات نہیں کی تھی۔۔میں بھی فوراً نیچے آئی اور مین دروازے سے باہر نکلی تو بڑی ماں کی گاڑی حویلی کی حدود سے باہر نکل رہی تھی میں دوسرے نوکروں سے پوچھنے لگی کہ کیا ہوا ہے۔۔۔ پر کسی کو کچھ پتا نہیں تھا وہ سب تو گھر کے نوکر تھے۔۔۔اسی دوران جیسے ہی بڑی ماں کی گاڑی حویلی کی حدود سے باہر نکلی تو سامنے سے رامو کاکا اپنی سائیکل پر مجھے حویلی میں داخل ہوتے نظر آئے۔۔وہ تیز تیز پیڈل کے ساتھ حویلی کی طرف بڑھ رہے تھے اور میں بھی انکے قریب آنے کا انتظار کر ہی تھی کہ شاید رامو کاکا ہی کو کچھ پتا ہو۔۔۔رامو کاکا جب قریب آئے تو وہ بھی بری طرح ہانپ رہے تھے لگتا تھا جیسے دس منٹ کا سفر انہوں نے دو منٹ میں طے کیا ہو۔۔۔انہوں نے سائیکل سے اترتے ہی سائیکل کو چھوڑ دیا اور سیدھا بھاگتے ہوئے میرے پاس آئے ۔۔وہ با مشکل ہی کچھ بول پا رہے تھے۔۔۔انکے منہ سے بس اتنا نکلا۔۔۔
بی بی جی وہ۔۔۔۔ گل شیر۔۔۔۔۔۔اور وہ میرے قدموں میں گر کر رونے لگے۔۔۔اب میں اور بھی پریشان ہو گئی۔۔۔ اور گل شیر کا نام سنتے ہی میری عجیب سی حالت ہو گئی۔۔۔بڑی ماں جتنا گل شیر کو پیار کرتی تھیں اس سے کئی زیادہ گل شیر میرے دل کے قریب تھا۔یو سمجھ لیجئے کہ میرا دل دھڑکتا تھا تو وہ صرف گل شیر کے لیئے۔۔۔ ۔۔میں نے جھٹ سے رامو کاکا کو پکڑ کر اٹھایا اور پریشانی اور بے تابی کے عالم میں انھیں جھنجھوڑ کر پوچھا ۔۔’’کیا ہو گل شیر کو‘‘۔۔۔
بی بی جی۔۔۔۔ غضب ہو گیا۔۔۔۔اپنے گل شیر صاحب کو کچھ لوگوں نے بری طرح ڈنڈوں سے مارا ہے اور جاتے وقت اسکی ٹانگوں میں گولی مار گئے ہیں۔۔۔
میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آیا ہوں۔۔وہ خون میں لت پت تھا اور جس جگہ اسے مارا تھا وہاں پورے روڈ پر گل شیر کا خون بکھرا پڑا تھا۔۔۔۔میں نے بس اتنا سنا اور راموں کاکا کو دکھا دے دیا۔۔۔چپ ہو جاؤ رامو کاکا۔۔۔۔ چپ ہو جاؤ۔۔۔۔ اگر آگے ایک لفظ بھی بولا تو میں تمہیں مار دوں گی۔۔۔۔یہ خبر سن کر میرے ہاتھ پیروں سے جان نکل گئی ایسا لگا جیسے کسی نے میرے پیروں سے زمین کھینچ لی اور میں وہیں گر پڑی۔۔۔
نواز بخش نے گولی کی طرح گاڑی دورائی اورہسپتال پہنچا ۔۔جتنی دیر میں نواز بخش اتر کر بڑی ماں کے لیئے دروازہ کھولتا ۔۔بڑی ماں نے جھٹ سے دروازہ کھولا اورگاڑی سے اتر گئیں۔۔ وہ سیدھا ہسپتا ل کے اندر جانے لگیں جہاں پہلے ہی بہت سے لوگ موجود تھے اور جو بڑی ماں کی بہت عزت کرتے تھے اور انہیں آتا دیکھ کر سب نے اپنے ہاتھوں کو جوڑ دیا اور سر جھکا کر کھڑے ہو گئے۔۔بڑی ماں نے ان سب کی پروا کیئے بغیر ڈاکٹر کی طرف رخ کیا۔۔۔ ڈاکٹر نے انہیں بتایا کہ ابھی حالت نازک ہے ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں زخم بہت گھرے ہیں۔۔۔ڈاکٹر کی بات سن کر بڑی ماں وہیں سائڈ میں رکھی بینچ پر بیٹھ گئیں ۔۔۔انکے اوسان خطا تھے۔۔۔۔۔
بڑی ماں بہت ہی ہمت اور جرت والی تھیں۔۔۔انہوں نے اپنی زندگی میں بڑے بڑے غم اٹھائے تھے۔۔۔سب سے بڑا غم انکے اپنے بیٹے یعنی میرے بابا شمشیر علی کا تھا جو اپنی جوانی میں ہی فوت ہو گئے ۔۔اس وقت میں صرف پانچ برس کی تھی۔۔میں ماں نے دوسری شادی نہیں کی اور اپنی زندگی صرف ہم دو بہنوں کے نام کردی۔۔بڑی ماں کو میرے والد کی موت کا بہت صدمہ ہوا اور جیسی ہی انکی کمر ٹوٹ گئی ہو۔۔میرے والد دادا کے بعد اس جائیداد کے مالک تھے۔۔۔اور وہ واحد ہی دادا کی وراثت کے حق دار تھے لیکن انکی موت کے ساتھ ہی وراثت کا سلسلہ ختم ہو گیا۔۔۔ اور ساری زمہ داری بڑی ماں پر آگئی۔۔
بڑی ماں اچھی طرح جانتی تھیں اب وہ ہی ہیں جو اس گھر کو سنبھال سکتی ہیں۔۔۔۔کیونکہ اگر انہوں نے سہی وقت پر سہی فیصلہ نہیں کیا تو اس جائیداد کے کئے حق دار سر اٹھا لیں گے اور یہ سب تقسیم ہو جائے گا۔۔۔بڑی ماں کے اُسی ہوشمندانا فیصلے کی بدولت آج بھی کوئی اس حویلی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا تھا۔۔۔
بڑی ماں بہت ہی نرم دل اورشفقت برتنے والی عورت تھیں۔۔ بڑے تو بڑے وہ بچوں سے بھی بہت شفقت سے پیش آتی تھیں۔۔بابا کی موت کے کچھ مہینے بعدبڑی ماں ایک گاؤں کے پاس سے گزر رہی تھی ۔۔وہ اپنی سوچوں میں گم اپنے بیٹی کی موت کے غم کو دل سے لگائے گاڑی کی سیٹ سے سر ٹکائے حویلی کی جانب رواں تھیں کہ اچانک انکی نظر ایک پیڑ کے نیچے لیٹے ایک بچے پر پڑی انہوں نے فوراً گاڑی روکنے کو کہا اور گاڑی سے اتر کر سیدھا اس پیڑ کی طرف چلنے لگیں۔۔
جیسے ہی وہ قریب گئیں ایک بچہ جو تقریباً آٹھ یا نو سال کا ہو گا ۔۔جسکے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے تھے اور ننگے پیر جن پر گاؤں کی مٹی ایسی چپٹی تھی جیسے یہ بچہ کئی مہینوں سے ننگے پیر سفر کر رہا ہو۔۔ بڑی ماں نے نیچے جھک کر بچے ہو ہاتھ لگایا تو وہ بری طرح جل رہا تھا اسے تیز بخار تھا اور سانسیں تیز تیز چل رہی تھیں۔۔
بڑی ماں اسے اپنے ساتھ حویلی لے آئیں اور رانی کی ماں جو اس وقت بڑی ماں کی خاص نوکرانی تھی۔۔اسے ڈاکٹر کو فون کرنے کو کہا اور کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر آگیا اور چیک اپ کے بعد کہا کے پریشانی کی بات نہیں بھول اور پیاس کی وجہ سے کمزوری اتنی آگئی کے یہ بے ہوش ہو گیامیں نے کچھ انجیکشن اور ڈرپ لگا دی ہے کچھ ہی گھنٹوں میں ہوش میں آجائے گا۔۔۔میں بھی اس وقت قریب چھ سال کی تھی اور وہیں بیڈ کے کنارے کھڑی تھی جس پر وہ بچہ لیٹا تھا۔۔۔
کچھ گھنٹو بعد اسے ہوش آیا تو وہ ادھر اُدھر سب کی شکلیں دیکھنے لگا ۔۔بڑی ماں نے جیسے ہی اسے دیکھا اسکے گالوں کواپنے ہاتھ میں لے کر پیار کرنے لگیں اور اس سے اسکے گھر بار اور ماں باپ کے بارے میں پوچھنے لگیں۔۔ ۔لیکن وہ بچہ تو ابھی تک اپنے پورے ہوش میں نہیں آیا تھا ۔۔وہ با مشکل ہی اتنا بول پایا کہ میں کہاں ہوں۔۔
۔۔۔کچھ دیر بعد اس کے کچھ ہوش بحال ہوئے تو بڑی ماں نے اسے بگل میں ہاتھ ڈال کر بیڈ پر پیچھے ٹیک لگا کر بٹھا دیا۔۔۔اسکی نظریں ابھی بھی سب کو ایک انجان کی طرح دیکھ جارہی تھیں۔۔ لیکن بڑی ماں کی شفقت نے اسکی اس حیرانی کو کچھ سکون میں بدل دیا تھا۔۔ اسنے بتایا کہ وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ میلا دیکھنے بہت دور کے کسی گاؤں سے آیا تھا لیکن وہ بھٹک گیا اور کافی دنوں سے اسی طرح بھٹک رہا ہے۔۔ وہ کئی دن کا بھوکا تھا۔۔بڑی ماں نے ہوش میں آتے ہی اسکے لیئے جوس اور کچھ فروٹ لانے کا حکم دیا۔۔وہ جوس کو اسطرح پی رہا تھا جیسے وہ صدیوں سے پیاسا تھا۔۔بڑی ماں نے اسے تسلی دی کہ وہ اس کے ماں باپ کا پتا کروائیں گیں تم پریشان نہ ہو۔۔۔اب وہ بچہ بڑے سکون سے کھانے میں مصروف ہو گیا۔۔۔اس وقت اسے اپنے ماں باپ کی بھی یاد نہیں آئی ہو گی کیونکہ بھوک اور پیاس نے اسے کچھ بھی سوچنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔۔
اسی طرح کچھ دن گزر گئے لیکن اسکے ماں باپ کا کچھ پتا نہیں چلا ۔۔وہ بچہ بھی خوشی خوشی ہمارے ساتھ رہ رہا تھا ۔۔بڑی ماں اسے اپنے بچوں کی طرح پیار کرتیں اور اپنے ساتھ اپنے کمرے میں سلاتیں۔۔۔میری اس سے بچپن میں ہی دوستی ہو گئی تھی۔ جبکہ میری چھوٹی بہن بھی ہم دونوں کے ساتھ ہی کھیلتی۔۔
کچھ سال گزر گئے لیکن اسکے ماں باپ کا کچھ پتا نہیں چلا ۔۔۔ اور وہ بچہ بھی بڑی ماں کی شفقت پا کر اپنے ماں باپ کو بھول چکا تھا۔۔۔بڑی ماں نے اس بچے کواپنا بیٹا بنانے کا سوچ لیا۔۔میری ماں انکے اس فیصلے سے کچھ ناراض تھیں لیکن بڑی ماں کا فیصلہ اٹل ہوتا تھا اور کسی کی مجال نہیں جو انکے سامنے ایک لفظ بھی بولے۔۔۔
وہ دن ہے اور آج کا دن ہے۔۔۔گل شیر کو سب اس حویلی کا ہی فرد سمجھتے ہیں اور بڑی ماں تو گل شیر سے اتنا پیار کرتی ہیں جیسے وہ انکا اپنا سگا بیٹا ہو۔۔وہ گل شیر کو اپنا بیٹا بھی کہتیں اور کبھی کبھی اپنا پوتاکہتیں۔۔۔
گل شیر ،میں(ماہی) اور نازو میری چھوٹی بہن ہم تینوں بچپن سے ہی ساتھ کھیلے کودے تھے۔۔۔اور جب میں دس برس کی ہوئی تب سے گل شیر میری سوچوں میں بس گیا تھا۔۔ حویلی میں میرا دل نہیں لگتا تھااسکے بغیرمیں ہر وقت سایہ کی طرح اسکے ساتھ رہتی اور وہ بھی میرے بغیر اداس سا رہتا تھا۔۔۔
وقت بڑی تیزی سے گزرتا رہا اور بڑی ماں نے گل شیر کے ماں باپ کو دھونڈنے کی کوشش بھی ترک کردی تھی ۔۔گل شیر جب اٹھارہ برس کا ہوا تو میں سولہ سال کی ہو چکی تھی۔۔۔ اب وہ مجھے سے کچھ دور دور رہنے لگا تھا۔۔۔اسے اچھی طرح پتا تھا کہ وہ کسی غریب کا بیٹا ہے اور اسے اپنی اوقات میں رہنا چاہئے لیکن بڑی ماں نے آج تک یہ بات نہیں سوچی اور وہ تو بس اسے اپناپوتا مانتی تھیں ۔۔۔میں نے بھی کبھی اسے اس حویلی سے الگ نہیں سمجھا۔۔۔حویلی کا ہر شخص یہ بات جانتا تھا کہ گل شیر بڑی ماں کو راستے میں ملا تھا جسے انہوں نے اپنا بیٹا اور پوتا بنا لیا ہے۔۔
میں اب سولہ سال کی خوبصورت دوشیزہ میں بدل چکی تھی۔۔ میرا کومل نازک بدن جس نے کبھی سخت زمین پر قدم بھی نہیں رکھے تھے۔۔اتنے عیش اور آرام کی زندگی نے مجھے اور بھی نازک اور حسین کر دیا تھا۔۔۔سورج کی روشنی کو بھی میرے جسم کو چھونے کے لئے کئے دن لگ جاتے تھے۔لیکن میرے اندر تو جس سورج کی آگ جل رہی تھی وہ تو بس میری جان۔۔۔ میرا سب کچھ جسے میں بہت چاہتی تھی اور اسکے لیئے سب کچھ کرنے کو تیار تھی وہ تھا میرا گل شیر۔۔۔گل شیر ایک انتہائی سخت جسم کا مالک تھا ۔جو ہر وقت بڑی ماں کے کاموں میں لگا رہتا۔ ۔اسکی جوانی کو دیکھ کر بڑی ماں نے بھی اپنے کندھوں سے کچھ زمہ داریاں اتار کر گل شیر کے کندھو پر رکھ دی تھیں جسے گل شیر اچھی طرح اور احسن طریقے سے انجام دیتا۔۔۔
گل شیر کے ذمہ جہاں اور کام تھے وہاں ایک کام مجھے کالج چھوڑ کر آنا اور پھر واپس لانا بھی تھا۔۔۔مجھے بہت اچھا لگتا جب وہ میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھتا ۔میں پیچھے بیٹھنے کی بجائے ہمیشہ آگے اسکے ساتھ بیٹھتی وہ مجھے ہمیشہ کہتا بی بی جی پیچھے بیٹھ جائیں آپ کو یوں میرے ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھنا زیب نہیں دیتا ۔۔۔
میں اسکے منہ سے بی بی جی کا لفظ سن کر تنک جاتی۔۔۔وہ جو میری سوچوں کا محور ہے جسکے علاوہ میں کچھ اور سوچتی ہی نہیں ۔۔وہ جب مجھے ان الفاظ سے پکارتا میرے تن بدن میں آگ لگ جاتی۔۔ہماری لڑائی اکثر انہیں باتوں پر ہوتی۔۔بڑی ماں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ہم دونوں میں کتنی لڑائی ہوتی ہے ۔وہ ہمارے بیچ اس نوک چھونک کو بھائی بہن کا پیار سمجھتیں لیکن گل شیر اور میں ایسا نہیں سوچتے تھے۔۔وہ اپنے آپ کو اس گھر کا خادم سمجھتا تھا اور میں اسے اپنے جسم اور سوچوں کا مالک سمجھتی تھی۔۔۔اکثر میں کالج جاتے وقت اپنا ہاتھ گل شیر کے ہاتھ پر رکھ دیتی جسے وہ جھٹک کر پیچھے کر دیتا اور میں دوبارہ رکھ لیتی۔۔۔میں اسکے جتنا قریب آنا چاہتی وہ مجھ سے اتنا ہی دور جاتا۔۔لیکن میں بھی اپنے باپ کی ضدی اولاد تھی۔۔۔اور ہر طرح سے گل شیر کو اپنا بنانا چاہتی تھی۔۔۔لیکن وہ بڑی ماں کے احسانوں تلے دبا ہوا تھا۔ایسا سوچنا تو دور میری طرف اس طرح سے نظر اٹھاکر بھی نہیں دیکھتا تھا۔۔
جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا میرے جسم کی بناوٹ بدلتی جا رہی تھی۔۔ میرا جم جانا اور اپنے آپ کو سمارٹ رکھانا مجھے بہت ہی خوبصورت بنا رہا تھا۔۔ میری پتلی نازک کمر جس پر ایک بری موسمبی کے برابرمیری سخت گول گول چھاتیاں جن پر چھوٹے چھوٹے نپل اور انکے گرد گلابی کلر کا ایک گول دائرہ۔۔۔میں دن میں کئی بار اپنے جسم کو شیشے کے آگے کھڑی ہو کر دیکھتی اور سوچتی کہ مجھے میں کیا کمی ہے جو گل شیر مجھے نظر بھر کر دیکھتا تک نہیں۔ ۔ کالج میں لڑکے میرے اس حسن و جمال کے دیوانے ہیں اور مجھے سے دوستی کرنے کے بہانے میرے قریب بھی آتے ہیں لیکن مجھے ان سب میں کوئی انٹرسٹ نہیں ۔۔میرا تو سب کچھ میرا گل شیر ہے بس۔۔میں اسکے علاوہ کسی اور لڑکے کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتی تھی۔۔
میرے اندر جو آگ لگی تھی وہ وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھنے لگی۔۔۔اب میں داد بخش سے کھلم کھلا اظہارِ محبت کر دیتی لیکن وہ اسے میری نادانی سمجھ کر کوئی اہمیت نہیں دیتا ۔کالج سے گھر تک پورا راستہ میں بس اسے ہی تکتی رہتی لیکن وہ پتھر دل انسان میری طرف ایک نظر بھی نہیں دیکھتااور میں تڑپ کر رہ جاتی۔۔رو ز میں کالج سے واپسی پر اپنے پاؤں پٹختے ہوئے اپنے کمرے میں جا کر سیدھا اپنے بستر پر لیٹ جاتی اور کئی دیر اپنا منہ تکیہ میں دیئے ایسے ہی الٹی لیٹی رہتی اور جب تک رانی مجھے اٹھانے نہیں آجاتی میں اپنی قسمت پر آنسو بہاتی رہتی۔۔۔رانی مجھے سے تین سال بڑی تھی اسکی ماں کی موت کے بعد بڑی ماں نے اسے بھی اسی گھر میں رکھ لیا تھا اور وہ اپنی ماں کی جگہ اس گھر کی خاص نوکرانی تھی۔۔وہ کسی کے کمرے میں بھی با آسانی اندر آ جا سکتی تھی۔۔۔میں اکثر رانی سے گل شیر کے بارے میں پوچھ بیٹھی کہ وہ کیا کر رہا ہے اپنے کمرے میں ۔۔رانی مجھے بتا تو دیتی لیکن وہ پھر پوچھتی کہ میں گل شیر کا کیوں پوچھ رہی ہوں تو میں بوکھلا جاتی اور کوئی جواب نہیں دے پاتی تو وہ خود ہی مسکرا دیتی۔ وہ سمجھتی تھی میرے اندر کی آگ کو۔۔
رانی تھی تو مجھ سے صرف تیس سال بری لیکن اسکے جسم کے ابھار ۔۔۔یعنی اس کی چھاتیاں مجھ سے بھی بری اور سخت تھیں۔ وہ بھی میری طرح پتلی کمر کی مالک تھی لیکن اسکے کولہے مجھے سے زیادہ باہر کو نکلے ہوئے تھے۔۔۔ایسا لگتا تھا جیسے یہ سب کسی دوسرے کے ہاتھوں کا جادو ہے جو رانی کے جسم پر نظر آتا ہے۔۔مجھے رانی پر کچھ کچھ شک تو ہوتا تھا کہ وہ رامو کاکا کے بیٹے جو گل شیر کا ڈرائیور تھا نواز بخش۔۔۔اسکے ساتھ رانی کے کچھ تعلقات ہیں۔کیونکہ میں اکثر اپنی بالکونی سے نواز بخش کو دیکھتی تھی اسکی نظریں رانی کو ایک بھوکے شیر کی طرح گھورتی تھیں اور رانی بھی جب اسکے پاس سے گزر تھی تو اپنے بڑے بڑے گول گول کولہوں کو مستی میں ہلاتی ہوئی جاتی اور نواز بخش اسے تب تک کھورتا جب تک وہ اسکی نظروں سے اوجھل نہ ہو جاتی۔۔۔
پھر ایک رات میں ہمیشہ کی طرح اپنے بستر پرلیٹی گل شیر کی یادوں میں گم۔۔اپنے تن بدن میں اسکے پیار کی آگ کو لگائے ۔۔اپنے ہاتھوں کو کبھی اپنے سینے کے ابھاروں پر پھیرتی اور جب کبھی گل شیر کی یاد زور پکڑ لیتی تو یہ ہاتھ ٹانگوں کے بیچ میری پھول جیسی نرم و نازک ۔۔نارنگی کی دو پھانگوں جیسی رس بھری میرن شرم گاہ پر چلا جاتا اور میں بد مستوں کی طرح اسے اپنی شلوار کے اوپر سے آہستہ آہستہ ایسے سہلاتی جیسے کسی روئی کے گالوں پر ہاتھ پھر رہی ہوں۔۔۔میں اکثر رات اسی طرح سوتی۔۔گل شیر کی یاد اور اسے اپنے سپنو کا شہزادہ مان کر میری آنکھ لگ جاتی۔۔رو ز صبح اٹھ کر جب بھی میں نہانے جاتی اور اپنی شرم گاہ کو دھوتی تو میرے ہاتھوں پر کافی چکنائی لگی ہوتی اور جب میں کافی سارا پانی بہاتی تب جا کر وہ چکنائی ختم ہوتی۔۔۔۔۔
ایسی ہی ایک رات میں ،،میں لیٹی گل شیر کی یادوں میں گم تھی۔ اس رات مجھے نیند ہی نہیں آرہی تھی۔ میں نے اپنی چھاتیوں کو دبا دبا کرخود کو گرم کر لیا تھا۔میرے چھوٹے چھوٹے نپل رگڑ کھا کھا کر سخت اور سوجھ کر موٹے ہو گئے تھے۔۔پھر میں نے اپنی شرم گاہ کو سہلانا شروع کر دیا اور کچھ ہی دیر میں میں بہت گرم ہو گئی۔۔
لیکن میں یہ سب اکیلے نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔ میں چاہتی تھی کہ میرے سپنوں کا شہزادہ گل شیر ہی پہلی دفعہ مجھے فارغ کرے اور میں اسکے ہاتھوں سے اپنا کنوارہ پن لٹا دوں۔لیکن پھر جیسے ہی مجھے گل شیر کی بے رخی یاد آتی میرے تن بدن میں ایک عجیب سی آگ لگ جاتی جو میرے اندر کی اس آگ کو ختم کر دیتا جو میں اپنی شرم گاہ میں لگائے بیٹھی تھی۔۔میں نے اپنی شرم گاہ سے ہاتھ ہٹا لیا اور بیڈ پراٹھ کر بیٹھ گئی۔۔رات کے دو بج رہے تھے۔۔میں اٹھ کر بالکونی میں آ کر بیٹھ گئی۔۔حویلی کی تمام ہی لائیٹیں بند تھیں اور ایک گھپ اندھیرا تھا لیکن چاند جو تیرا دن کا ہو چکا تھا پوری طرح جگما رہا تھا اور حویلی کے باہر کی چیزوں کو با آسانی دیکھا جا سکتا تھا۔۔۔
میرا کمرہ حویلی کے پہلے فلور پر ایک کونے کی جانب تھا جہاں سے حویلی کے سائڈ میں جو نوکروں کے کواٹر بنے تھے وہ صاف نظر آتے تھے۔۔۔۔مجھے ایسا لگا جیسے کسی کے باتیں کرنے کی آوازیں آرہی ہیں اور میں بالکونی کے کرانے پر کھڑی ہو کر حویلی کے سائڈ بنے کواٹر وں کی طرف دیکھنے لگی۔۔ان کواٹروں میں رامو کاکا ،رانی اور میری ماں کی ایک الگ خاص نوکرانی تھیں وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہتی تھی۔۔۔
کچھ ہی دیر بعد مجھے رانی کے کواٹر کی لائٹ جلی ہوئی نظر آئی۔۔۔میری کچھ سمجھ نہیں آیا کہ اتنی رات رانی لائٹ جلا کر کیا کر رہی ہے۔۔کافی دیر تک لائٹ جلتی رہی تو مجھے کچھ شک ہوا اور میں حویلی کے سائڈ والے دروازے سے باہر آئی جو دورازہ نوکروں کے کواٹروں کی طرف کھلتا تھا۔۔میں دبے پاؤں رانی کے کواٹر کی طرف بڑھی۔ مجھے ڈر بھی تھا کہ کہیں کوئی مجھے نوکروں کے کواٹروں کے پاس دیکھے گا تو کیا سمجھے گا اسی لیئے میں بہت احتیات کے ساتھ کواٹر کے دورازے تک پہنچی جو کہ بند تھا پھر میں کواٹر کے سائد کی طرف گئی جہاں سے کھڑکی میں سے لائٹ کی روشنی آرہی تھی۔شاید کھڑکی کھلی تھی۔۔جیسے ہی میں کھڑکی کے قریب گئی مجھے اندر سے رانی اور ایک مرد کی آواز سنائی دی وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے۔۔۔کچھ ہی دیر میں میں نے وہ آواز پہچان لی وہ آواز رامو کاکا کے بیٹے نواز بخش کی تھی جو رانی سے کہ رہا تھا کہ وہ اسے بہت چاہتا ہے اور رانی بھی اسے یہی کہ رہی تھی۔۔میری ہمت نہیں ہورہی تھی کہ میں آگے بڑھ کر کچھ دیکھوں۔۔کچھ دیر کھڑے رہنے کے بعد میں نے کچھ ہمت کر کے اندر جھانکا تو اندر کا نظارہ دیکھ کر میرے تو رونگٹے ہی کھڑے ہو گئے۔۔۔۔رانی چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی اور اسکی بلائز کھلا ہوا تھا جس میں سے اسکے انتہائی سخت اور گول گول سینے کے دونوں ابھار باہر نکلے ہوئے تھے اور نوازبخش جو خود بھی صرف شلوار پہنے ہوئے تھا رانی کے برابر میں لیٹا اسکی چھاتیوں سے کھیل رہا تھا۔۔۔رانی پوری طرح بے چین تھی اسکے پیر ایک ٹرپتی مچھلی کی طرح مچل رہے تھے۔۔اور نواز اسکی چھاتیوں کے ساتھ کھیلتا ہوا اسکے نپل کو باری باری اپنے منہ میں لیتا اور ہونٹوں کے بیچ دبا کر کھینچتا ۔۔نواز کی اس حرکت سے رانی تڑپ سی جاتی اور اسکے منہ سے آہ ہ ہ ہ ۔۔۔ام م م م ۔۔۔کی سسکاری نکل جاتی۔۔۔پھر رانی اٹھی اور نواز کے اوپر آگئی۔اب رانی کے دونوں ممے لٹک گئے اور نواز انہیں اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر باری باری چوستااور اسکا ہاتھ رانی کی کمر کو سہلاتا ہوا اسکے کولہوں تک چلا جاتا۔وہ رانی کی شلوار کے اوپر سے اسکے کولہوں کو خوب سہلاتا رہا اور انہیں بھی دباتا رہا۔۔رانی بری طرح بے چین تھی اور کمرے کا ماحول ایک دم گرم اور سیکسی تھا۔
رانی اور نواز کے اس پیار محبت نے مجھے اور بھی گرما دیا جسکی وجہ سے میری شرم گاہ سے بھی پانی کے دھارے بہ نکلے جو مجھے اپنی ٹانگوں کے بیچ محسوس ہو رہا تھا۔۔میرے نپل میری قمیض میں سخت کھڑے ہو چکے تھے جو بریزر نہ ہونے کی وجہ سے میری قمیض کے اوپر سے ہی صاف نظر آ سکتے تھے۔۔۔
پھر کچھ دیر بعد شاید رانی جھڑ چکی تھی اسنے نواز کو رکنے کو کہا اور وہ دونوں ایک دوسرے کے برابر میں لیٹ گئے رانی نے اسکی باہوں میں ہاتھ ڈال لیا۔۔لیکن نواز مجھے کچھ خوش نظر نہیں آیا کیونکہ اسکے اندر کا لاوا ابھی بھی ابل رہا تھا جس پر رانی نے اپنا پانی چھوڑ کر اسکی آگ کو بجھا دیا تھا۔۔وہ را نی سے کہنے لگا کب تم مجھے پورا پیار دو گی۔۔میں کب تک صرف تمہارے مموں سے کھیلتا رہوں گا۔۔۔رانی کچھ نہ بولی اور نواز غصے میں اٹھ کر اپنے کپڑے پہننے لگا ۔۔میں فوراً وہاں سے نکلی اورحویلی کے دروازے پر کھڑی ہو کر جھرکی میں سے دیکھنے لگی۔۔کچھ ہی دیر میں نواز غصے میں نکلا اور اپنے کواٹر کی طرف بڑھ گیا۔ رانی بغیر قمیض پہنے اسکے پیچھے دروازے تک آئی لیکن نواز دور جا چکا تھااسی لیئے اس نے آواز دینا بہتر نہیں سمجھا اور اپنے دروازے پر صرف شلورا پہنے ننگی گھڑ ہو کر نواز کی ناراضگی پر آنسو بہانے لگی۔۔۔پھر وہ بھی اندر جا کر سو گئی۔۔
صبح نواز کا منہ کچھ پھولا پھولا تھا میرے پوچھنے پر اسنے کچھ نہیں کہا اور چپ رہا لیکن میں تو ساری کہانی جانتی تھی۔۔پھر جب رانی میرے سامنے آئی تو وہ بھی کچھ بجھی بجھی تھی۔۔۔میں نے رانی سے بھی پوچھا لیکن اسنے بھی کچھ نہ کہا اور بس اتنا کہا کہ کل رات نیند پوری نہیں ہوئی اسی لیئے۔۔خیر میں نے کچھ زیادہ زور بھی نہیں دیا اور میں ان دونوں کو برا بھی نہیں جانتی تھی کیونکہ میرے اندر بھی گل شیر کے لیئے کچھ ایسی ہی آگ جل رہی تھی جسے گل شیر اپنی پاک دامنی کے ذریعے ہمیشہ کچل دیتا تھا۔۔میرے ساتھ یہ سب کچھ کرنا تو بہت دور کی بات تھی وہ تو میری طرف ایک پیار بھری نظر سے بھی نہیں دیکھتا تھا۔۔۔
دن بھر رانی اور نواز کے چہرے بجھے بجھے رہے لیکن شام کے وقت میں بالکونی پر کھڑی تھی تو کیا دیکھا کہ وہ دونوں نیچے باغ میں کھڑے ہیں اور نواز رانی کی طرف دیکھ کر مسکرا رہا ہے اور رانی شرم کے مارے پانی پانی ہوئے جا رہی ہے۔ایسا لگتا تھا جیسے رانی نے آج راجت اپنا سب کچھ نواز کو سونپنے کے لیئے حامی بھر لی ہو اور اس مارے وہ شرم سے پانی پانی ہو رہی ہو۔۔پھر وہ پلٹ کر اندر حویلی میں داخل ہو گئی اور نواز ہمیشہ کی طرح رانی کے کولہوں کو مٹکتا دیکھتا رہا۔۔۔نواز نے صرف رانی کی چھاتیاں دیکھی تھیں رانی نے آج تک اسے اپنی شلوار اتارنے نہیں دی۔۔۔لیکن آخر کب تک رانی اپنے اندر اپنی شرم گاہ میں لگی آگ سے بچ سکتی تھی آخر ایک دن تو رانی کو ہار ماننی ہی تھی اور وہ آج ہی کی رات تھی۔۔۔رات ہوتے ہی حویلی میں ہر طرف سناٹا چھا جاتا۔حویلی کے باہر جھینگڑوں کی ٹرٹر ٹرٹرٹرٹر۔۔ٹرٹرٹرٹر۔۔۔ کی آوازیں گونجتی رہتیں اور دور سے بہت سے کتوں کے بھوکنے کی آوازیں رات کے سناٹے کا علم دیتے۔۔۔
آج چاند کی چودہ تاریخ تھی ۔۔آسمان کے ساتھ ساتھ زمین بھی جگ مگا رہی تھی۔۔اور میں روز کی طرح اپنے بستر پر لیٹی اپنے جسم کے ساتھ کھیل رہی تھی۔۔کل رات رانی اور نواز کی محبت نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ وہ رانی اور نواز نہیں بلکہ میں اور گل شیر تھے ۔۔اور میرے اسی بستر پر وہ میرے ننگے بدن پر اپنی انگلیوں کو نچاتا ہوا میرے انگ انگ سے کھیل رہا ہواور میں ایک پانی سے باہر نکلی مچھلی کی تڑپ رہی ہوں۔۔۔میں انہیں خیالوں میں گم اس بات کا احساس تک نہیں ہوا کہ میں اپنی ٹانگوں کے بیچ اپنی شرمگاہ کو سہلاتے سہلاتے اتنی بے چین ہو گئی کہ میں نے اپنی شلوار میں ہاتھ ڈال دیا اور میری ندیا سے بہتا ہوا چکنا چکنا پانی میری انگلیوں کو میری ندی کی گہرائی میں کھینچے چلے جا رہا ہو۔۔۔میں ایک بد مست دوشیزہ کی طرح اپنے بستر پر اپنی ٹانگوں کو کبھی اٹھاتی اور کبھی بیڈ کی چادر پر رگڑنے لگ جاتی۔۔۔
اسی اثنا میں میرے بدن کی آگ بھڑک گئی اور ایک لاوا میرے اندر پوری طرح پھٹنے کو تیار تھا۔۔انجانے میں میراہاتھ تیز تیز ندی میں تیرنے لگا۔۔میری بند آنکھوں میں گل شیر میرے خیالوں میں چھایا ہوا تھا ۔۔رانی کی جگہ میں اور نواز کی جگہ گل شیر۔۔۔میں گل شیر کے اوپر اور وہ میری چھاتیوں کو اپنے ہونٹوں سے پکر کر کھینچتا ۔۔ اور نیچے میری ٹانگوں کے بیچ گل شیر کا لوہے سے بھی زیادہ سخت اور گرم لن میری چوت پر رگڑ کھا رہا تھا ۔۔میں خیالوں ہی خیالوں میں گل شیر کے لن کی رگڑ سے فارغ ہونے لگی اور ایک عجیب سا احساس ہونے لگا جیسے میرے اندر کی ساری آگ میری چوت میں سمٹ آئی ہے اور ایک ہی جھٹکے سے یہ آگ ایک لاوے کی طرح پھٹ پڑی۔۔میں اپنے بستر پر زور زور سے اپنے ہاتھ سے اپنی چوت کو سہلا رہی تھی اور میرا جسم جھٹکے لے رہا تھا۔۔۔جب میرے جسم سے وہ تمام کا تمام لاوا پھٹ کر نکل گیا تم میرے بدن کے انگ انگ کو ایک راحت ملی۔۔مجھے ہلکے ہلکے میٹھے میٹھے جھٹکے ابھی بھی لگ رہے تھے۔۔اب جو میں نے آنکھ کھولی اور اپنے ہوش میں آئی تو میرا ہاتھ ابھی بھی میری شلوار کے اندر میری شرم گاہ کے اوپر تھا جو پوری طرح میری ندی کے چکنے چکنے پانی سے لیس تھا۔۔میں نے فوراً ہاتھ باہر نکالا ۔۔۔
مجھے ایک میٹھا میٹھا سا مزہ آرہا تھا لیکن ذہن ملامت کر رہا تھا کہ یہ میں نے کیا کر دیا۔۔ یہ سب تو میرے گل شیر کو کرنا تھا۔۔ لیکن پھر مجھے آہستہ آہستہ یاد آنے لگا کہ یہ سب تو میرا گل شیر ہی کر رہا تھا جو میرے خیالوں میں مجھے سکون دے گیا۔۔۔اب میں بیڈ پر بیٹھی بیٹھی مسکرا دی اور شرم سے اپنا سر اپنے گھٹنوں میں گھسا لیا۔۔
رات کے دو بج چکے تھے کہ اچانک مجھے رانی اور نواز کی یاد آئی میں جھٹ سے اٹھی اور کل کی طرح بالکونی سے دیکھا تو کمرے کی لائٹ جل رہی تھی میں فوراً نیچے آئی اور کواٹر کی طرف چل دی۔۔آج میں تھوڑا جلدی آگئی تھی۔۔۔شاید نواز ابھی ہی آیا تھا ۔میں نے جب اندر جھانکا تو رانی قمیض اتار کر لیٹی ہوئی تھی اور نواز چارپائی کے پاس کھڑا اپنی قمیض اتار رہا تھا۔وہ فوراً قمیض اتار کر رانی کے اوپر چڑھ گیا ۔اور اپنے مضبوط ہاتھوں میں رانی کے نرم ملائم مموں کو دبوچ لیا۔۔رانی کی ایک دم آؤچ ۔۔۔نکلی اور وہ کہ رہی تھی آرام سے میرے راجا۔۔۔لیکن نواز نے اسی بے دردی سے اسکی نازک نارنگیوں کو نچوڑ ڈالا اور نپل کو منہ میں لے کر نارنگیوں کا رس چوسنے لگا۔۔۔رانی بھی اپنے ہاتھوں سے اسکے سر کو پکڑ کر اپنے سینے پر زورسے دباتی اور کبھی اپنا ہاتھ اسکی کمر اور کولہوں تک لے جاتی۔۔۔رانی اور نواز دونوں پوری طرح بے چین ہو چکے تھے انکے اندر کی آگ اتنی بھڑک گئی تھی کہ رانی نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنی شلوار کا ازاربند کھولا اور اسے نیچے کرنے لگی۔۔۔نواز نے رانی کا ساتھ دے کر اسکی شلوار گھٹنوں تک اتار دی۔۔اسی اثنا میں رانی نے اپنی ٹانگوں کو نواز کی رانوں پر رکھ کر ایک کینچی سی باندھی اور نواز کو اپنی چوت کی جانب کھینچنے لگی۔جیسے ہی نواز کینچی کے زور سے اسکی چوت کے قریب ہوا اسکا لن رانی کی چوت سے ٹکرا گیا اور اسکی شہوت مزید بڑھ گئی۔۔نواز نے خود بھی زور لگا کر لن کو چوت پر گھسالا لیکن شلوار کی وجہ سے وہ صرف اسکی چوت کے اوپر ہی زور لگا پایا۔۔رانی اب پوری طرح بے چین تھی۔۔ شاید وہ نواز کے لن کو چوت میں لے کر اپنے اندر لگی نا جانے کتنے دنوں کی آگ کو بجھانا چاہتی تھی۔۔۔۔ اور آخر کار رانی سے صبر نہیں ہوا اور اسنے نواز کا ازاربند بھی کھول دیا اور شلوار نیچے کردی۔۔جیسے ہی شلوار نیچے کی نواز کا لن پھنپھناتا ہوا باہر نکل آیا۔۔رانی نے اپنے ہاتھ سے اسکے لن کو پکڑا تو نواز کے منہ سے بھی سسکاری نکلی۔۔آآآآ رانی۔۔۔میری جان۔۔۔۔رانی نواز کے لن کو پکڑ کر اس سے نکلنے والے رس کو اپنی ہتھیلی میں لیتی اور پھر نواز کو پورے لن پر مسل کر اسے چکنا کردیتی۔۔اور جب لن کافی چکنا ہو گیا تو اسنے خود اپنے ہاتھ سے لن کو پکڑ کر اپنی چوت کے منہ پر رکھا۔۔۔ادھر نواز کو جب رانی کی چوت کی مہک پہنچی تو اسکے لن نے ایک بار اکڑ کر اسے اشارہ دیا کہ وہ پوری طرح تیار ہے رانی کے سمندر میں اترنے کے لیئے۔۔۔پھر نواز نے رانی کی چوت بہتی دھارا میں اپنے لن کو خوب چکنا کیا ۔۔رانی جب بھی لن کو اپنی چوت پر رگڑ گھاتے محسوس کرتی تو اسکے تن بدن میں ایک بجلی کی رفتار جیسا کرنٹ گزر جاتا اور وہ مست ہو کر خود اپنی چوت کو رگڑنے لگ جاتی۔۔اسی اثنا میں رگڑتے رگڑتے لن اتنا چکنا ہو گیا کہ ایک دم سے پھسل کر رانی کی چوت میں گھسنے لگا اور رانی کے منہ سے ایک چیخ نکل پڑی۔۔آآآآآآ۔۔۔۔نواز۔۔۔ام م م م ۔۔۔۔لن ابھی پورا اندر نہیں گیا ہو گا شاید کیونکہ رانی ابھی شانت تھی۔۔ابھی صرف لن کی ٹوپی ہی اندر گئی تھی کہ اچانک نواز نے تھوڑا جھٹکا مارا تو رانی کی زور دار چیخ نکل گئی جو کمرے سے باہر تک نکل گئی۔۔نواز نے ڈر کے مارے فوراً ہاتھ سے رانی کا منہ دبوچ لیا۔۔۔ام م م م ۔۔۔۔۔رانی کے منہ پر ہاتھ تھا اور بس اسکے منہ سے گوں گوں گوں گوں کی آواز ہی نکل پائی۔۔نواز رانی کے سمندر میں اتر چکا تھا۔۔وہ ابھی سمندر کی آدھی گھرائی میں ہی گھڑا تھا۔اور رانی کو شانت کرنے کے لیئے اسنی اپنی حرکت وہیں روک دی۔۔کچھ دیر میں اسنے رانی کے منہ سے ہاتھ ہٹایا تو رانی در د سے کراہ رہی تھی۔۔آآآ۔۔۔۔نواز۔۔تم نے تو میری چوت کو چیر ڈالا نواز۔۔۔بہت درد ہو رہا ہے نواز۔۔۔اور نواز کچھ بولے بغیر اسکے منہ پر جھک کر اسکے ہونٹوں کا لمس لینے لگا۔۔وہ اسکی ہونٹوں کی پنکھڑیوں کو باری باری اپنی ہونٹوں میں دباتا اور انہیں چوستا۔۔۔رانی درد کی کیفیت سے باہر نکل چکی تھی۔۔۔نواز نے جس طرح اسکے ہونٹوں کو چوسا تو رانی پھر سے بے قابو ہو گئی ۔۔اب اسے لنڈ کی چوت میں موجودگی درد کی بجائے ایک عجیب سے مزے کا احساس دے رہی تھی جس نے رانی کو اتنا بے چین کر دیا کہ وہ خود سے اپنے جسم کو دھکیل کر باقی لن کو اندر لینے لگی۔۔اب درد کی لہریں ہلکی ہو چکی تھی اور ایک ایک انچ اندر جاتے ہوئے مزے کا احساس ہو رہا تھا۔۔نواز کا پورا لن اب رانی کے اندر تھا اور وہ دونوں ایک دوسرے سے چپک چکے تھے۔۔۔۔نواز جیسے ہی لن کو دوبارہ باہر نکالنے لگا رانی نے جھٹ سے اپنی ٹانگوں سے نواز کے گرد کینچی باندھی اور زور لگا کر نواز کو پھر سے پورا اندر کر لیا اور کچھ دیر وہ اسی طرح نواز کے لن کو پوری طرح اپنے اندر سموئے رہی اور خود اپنے جسم کو گھما گھما کر لن کے مزے لینے لگی۔کہ اچانک سے اسے جھٹکے لگنے لگے اور اسکی سسکاریوں کی آواز تیز ہو گئی۔۔رانی فارغ ہو چکی تھی۔۔۔۔کچھ دیر بعد اسنے اپنی گرفت دھیلی کی تو نواز کو یہ اشارہ ملا کہ رانی کی ندی میں سیلاب آچکا ہے۔۔۔لیکن نواز کے اندر اٹھتا ہوا سمندر ابھی اپنے پورے جوش پر تھا۔۔نواز نے پورا لن باہر نکالا اور دوبارہ اندر کیا۔۔آہستہ آہستہ اسنے اپنی رفتار تیز کی اور پانچ منٹ کی اس اندر باہر کی مشق کے بعد اسنے ایک دم سے اپنا لند باہر نکالا اور باہر نکلتے ہی ایک لمبی دھارا بہہ نکلی جو سیدھا رانی کے منہ اور مموں پر گئی۔۔۔اب نواز کی حالت بھی غیر ہو رہی تھی اسے بھی جھٹکے لگنے لگے۔۔اور وہ آخری قطرے تک اپنے لن کو مسل مسل کر خالی کرنے لگا۔۔۔نواز بھی تھک ہار کر رانی کی باہوں میں لیٹ گیا ۔۔
یہ سب نظارہ دیکھ کر تو میری حالت اب کنٹرول سے باہر تھی۔۔اب مجھے بھی گل شیر کے لن سے اپنی پیاس بجھانا تھی۔۔۔میں اپنے بستر پر آگئی اور گل شیر کے خیالوں میں نا جانے کب آنکھ لگ گئی۔۔صبح اٹھی تو جسم ایسا جیسے میرا انگ انگ ٹوٹ رہا ہو۔۔۔مجھے سر سری سا کچھ یاد آنے لگا۔پھر میری آنکھوں کے سامنے پوری تصویر آگئی اور رات کا خواب میرے آنکھوں کے سامنے ایسے آگیا جیسے حقیقت کوئی۔۔میں رات کے خواب کو پوری طرح یاد کرنے لگی جسمیں میری جان گل شیر میری باہوں میں ہے اور وہ مجھے ایسے نہار رہا ہے جیسے کل رات نواز رانی کو۔۔۔۔مجھے اپنی ٹانگوں کے بیچ کچھ زیادہ ہی گیلا گیلا لگنے لگا تو میں نے نا چاہتے ہوئے بھی اپنی شلوار نیچے کی اور بیڈ سے ٹیک لگا کر اپنے گھٹنوں کو موڑ لیا۔اب میری شرم گاہ پوری طرح کھلی ہوئی تھی لیکن میں تھیک سے دیکھ نہیں پارہی تھی تومیں نے سائڈ ٹیبل پر رکھے اسٹینڈ پر لگے شیشے کو اٹھایا اور اپنی ٹانگوں کے بیچ اپنی شرم گاہ کے بلکل قریب لے آئی۔۔آج میں زندگی میں پہلی بار اپنی شرم گاہ کودیکھ رہی تھی۔۔میں خود کی شرمگاہ کو دیکھ کر پھر سے بے چین ہونے لگی۔۔گلابی گلابی پنکھڑیوں کے بیچ چکنا چکنا رس اور جیسے ہی میں نے ہاتھ لگایا تو میرے اندر جیسے کرنٹ سا لگنے لگا۔۔میں نے فوراً ہاتھ ہٹالیا لیکن جو مزہ مجھے ملا تھا اسنے مجھے پھر سے مجبور کیا کہ میں ہاتھ لگاؤں۔اور ابکی بار میں نے نہ صرف ہاتھ لگایا بلکہ اپنی ایک فنگر ان پنگھڑیوں کے بیچ ایک چھوٹے سے سوراخ میں ڈالنے کی کوشش کی لیکن میرے ہاتھ پیروں میں جھٹکے لگنے لگے اورمیں رک گئی۔۔میں ڈر گئی کہیں میرا پردہ بکارت نہ پھٹ جائے اور میں گل شیر سے نظریں نہ ملا پاؤں۔۔جیسے ہی میں نے انگلی باہر نکالا تو ساتھ ہی کچھ گاڑھا گاڑھا پانی بھی نکل آیا۔۔شاید میں رات خواب میں بری طرح فارغ ہوئی تھی اور یہ میرا خود کا پانی تھا۔۔۔اب میں نے شیشہ رکھا اور شلوار پہن کر نہانے چلی گئی۔۔آج مجھے کافی کمزوری لگ رہی تھی۔۔۔اور جب رانی میرے کمرے میں آئی تو وہ بھی کافی خوش تھی لیکن اسکی چال ہلکی سے بدلی ہوئی تھی جیسے اسکی جھانگیں چھل گئی ہوں اور اسے چلنے میں تکلیف ہو رہی ہو۔میں نے پوچھا کہ چلنے میں کوئی تکلیف ہو رہی ہے تو وہ بولی نہیں باجی ایسے ہی تھوڑا پیروں میں درد ہے بس۔۔۔پھر میں نے اسے کہا جاؤ آج تم آرام کرو میں بڑی ماں کو سمجھا دوں گی اور وہ خوشی خوشی میرا شکریہ ادا کر کے اپنے کواٹر میں چلی گئی۔۔
یوں میں اب پورا پورا دن اداس رہتی اور میرے اندر کی آگ مجھے چین نہیں لینے دیتی اور اُدھر وہ گل شیر جو کسی پتھر سے کم نہیں میرے سامنے جھکنے کو تیار نہیں۔۔
اب میں گل شیر کو اپنے جال میں پھنسانے کے لیئے ترکیبیں سوچنے لگی لیکن کوئی کامیابی نہیں ملی۔۔۔پھر اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا اور میں اس پر عمل کرنے کے لیئے رات کا انتظار کرنے لگی۔۔۔
جیسے ہی رات دھلی سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔۔۔سردیوں کی کچھ آمد سی تھی تو سبھی جلدی کمروں میں چلے جاتے تھے سوائے گل شیر کے۔۔ وہ باہر گارڈن میں چادر اوڑھے اور ایک انگیٹھی میں آگ جلائے کئی کئی گھنٹو سوچوں میں گم رہتا۔۔۔آج رات بھی وہ اسی طرح بیٹھا تھا لیکن آج کچھ سردی زیادہ تھی تو رات بارہ بجے کے قریب بڑی ماں نے گل شیر کو آواز دی اور کہا کہ بیٹا آج کچھ زیادہ سردی ہے تم بھی اپنے کمرے میں چلے جاؤ بیمار ہو جاؤ گے۔۔گل شیر جو بڑی ماں کی ایک ایک بات سر جھکا کر سنتا تھا اس بات پر بھی سر ہلا کر منہ سے جی کہ کر انگیٹھی میں لگی آگ بجھا کر اپنے کمرے میں چلا گیا اور یوں میں نے بڑی ماں کی اس مہربانی پر جو انہوں نے گل شیر کو اس کے کمرے میں بھیج کر مجھ پر کی،انکا دل ہی دل میں شکریہ ادا کیا۔۔۔
اب تقریباً رات کے ایک بجے میں اپنے کمرے سے باہر نکلی اور سیڑیوں سے اتر کر نیچے آئی اور گل شیر کے کمرے کی طرف جانے لگی جو راہ داری سے ہوتا ہو سب سے آخر میں تھا۔۔۔بڑی ماں نے تو کتنی بار کہا کہ وہ اوپر کے کمروں میں سے ایک کمرہ لے لے لیکن ان جناب کو تو بس ایک کونے میں کوٹھری جیسی جگہ پسند تھی ۔اور وہ اکثر بڑی ماں سے کہہ دیتے ماں مجھے میرا کمرہ بہت پسند ہے اور میں اسی میں خوش ہو تو بڑی ماں بھی دوبارہ سے کچھ نہ بولتیں۔۔دراصل جتنا گل شیر بڑی ماں کا کہنا مانتا تھا بڑی ماں بھی اتنا ہی اسکے فیصلوں کا احترام کرتیں اور جو وہ کہتا آنکھ بند کر کے مان لیتیں۔۔۔
میں جیسے ہی گل شیر کے کمرے کے پاس پہنچی تو ادھر اُدھر نظر دوڑا کر آہستہ سے کمرے کا دروازہ کھولا جسے وہ کبھی بھی لاک نہیں کرتا تھا۔۔میں جیسے ہی اندر گئی وہ اپنے بیڈ پر کروٹ لیئے دوسری جانب منہ کر کے لیٹا ہوا تھا ۔وہ شاید سو رہا تھا اور اسے میرے آنے کی زرا بھی ہوا نہیں لگی تھی۔۔۔اب میں نے اپنی چادر اتاری اور دوپٹہ بھی گلے سے اتار کر بیڈ کے کنارے رکھ دیا ۔۔میں نے بریزر بھی نہیں پہنی ہوئی تھی اور میرے نپل ایک دم سخت کھڑے ہوئے تھے۔۔کیونکہ میں صبح سے رات آنے کا انتظار کر ہی تھی اور اسی خیال نے میری شلوار کو بھی گیلا کر رکھا تھا۔۔۔۔خیر میں آہستہ آہستہ بیڈ پر بیٹھنے لگی تو بیڈ میرے وزن سے اندر دھسنے لگا ۔میں بڑی احتیات سے بیڈ پر چڑھ گئی اور گل شیر کے پیچھے لیٹ گئی اور پھر کروٹ لے کر اس سے چپکنے لگی کہ اسکی آنکھ کھل گئی اور وہ جھٹ سے اٹھ بیٹھا ۔۔۔جیسے ہی اسنے کمرے کی مدھم روشنی میں مجھے اپنے بیڈ پر دیکھا وہ فوراً بیڈ سے کھڑا ہو گیا اور کمرے کی لائٹ کھول دی۔۔لائٹ کھلتے ہی اسکی نظر مجھ پر پڑی جو اپنے لمبے لمبے بال کھولے ایک بہت ہی باریک قمیض پہنے ، جسمیں سے میرے سخت کھڑے نپل اور گلابی گلابی چھاتیاں روشنی میں صاف ہی نظر آرہی تھیں۔۔۔گل شیر نے ایک نظر میرے پورے بدن پر ڈالی پھر اچانک گھوم کردوسری طرف منہ کر کے کھڑا ہو گیا اور بولا بی بی جی آپ یہاں اتنی رات میں کیا کر رہی ہیں پلیز اپنا دوپٹہ اوڑھیں کیوں مجھے گنا ہ گار بنا رہی ہیں۔۔۔ میں نے دوپٹہ اوڑنے سے صاف انکار کر دیا ۔۔وہ پھر بولا لیکن میں نے اب بھی انکارکیااور کہا کہ پہلے مجھے میرے نام سے پکارو۔۔مجھے بی بی جی کے لفظ سے سخت نفرت ہے اور وہ بھی خاص طور پر تمہارے منہ سے ۔۔وہ کچھ دیر خاموش رہا اور پھر بولا پلیز ماہی۔۔۔۔۔۔اسکے منہ سے ماہی کا لفظ سننا تھا کہ میں بیڈ سے اتری اور پیچھے سے اسکی باہوں میں ہاتھ ڈال کر اس سے ایسے چپک گئی کہ میری چھاتیاں جو ایک دم سخت ہو کر سیدھی کھڑی تھی اب وہ گل شیر کی کمر سے لگ کر ایسے چپک گئی تھیں کہ جیسے ہم دونوں کے بدن کے بیچ کچھ بھی نہیں اور میرا سینا گل شیر کی کمر سے ٹکرا رہا ہو۔۔میرے ہاتھ اسکے سینے کو جیسے ہی پکڑنے لگے اسنے ایک جھٹکے سے میرا ہاتھ چھڑایا اور مجھے سے آگے ہو گیااور فوراً ہی پیچھے مڑ گیا۔۔۔اسکی نظر ایک بار پھر میرے چہرے پر پڑی۔۔میرے اندر کی گرم نے اتنی ہلچل مچا دی تھی کہ میری سانس پھولتی ہو ئی محسوس ہو رہی تھی اور ہر سانس کے ساتھ میری چھاتیاں اوپر نیچے ہو نے لگیں۔۔۔میں ایک بار پھر سے اسکے نزدیک جانے لگی تو وہ اور پیچھے ہٹ گیا ۔۔لیکن میں نہ روکی اور آگے بڑہتی گئی۔۔گل شیر پیچھے ہٹتا رہا اور اچانک میں بھاگی تو وہ بھی جھٹ سے پیچھے ہوا تو اسکا پاؤں قالین میں پھنسا اور وہ پیچھے پڑے صوفے پر جا گرا اور میں بھی اس پر چڑھ گئی۔۔لیکن اگلے ہی لمحے وہ سنبھل گیا اور مجھے اپنے اوپر سے اتارنے کے لیئے میرے بغل میں ہاتھ ڈالا تو اسکے انگھوٹے میری دونوں چھاتیوں سے ٹکرا گئے اور ایک عجیب سا لمس مجھے مست کر گیا۔۔میں نے پہلی بار گل شیر کا ہاتھ اپنے بدن پر محسوس کیا تھا۔۔۔گل شیر نے مجھے پیچھے کیا اور ایک زور دار تھپڑ میرے منہ پر مارا جسکے نشان فوراً ہی میرے گال پر نظر آنے لگے۔۔۔اب تو میرے ہوش ہی اڑ گئے تھے اور جہاں مجھے پر پیار محبت کا بھوت سوار تھا وہیں اب میرا سارا نشہ اتر گیا۔۔میں گل شیر سے دور کھڑی اپنے گال پر ہاتھ رکھے اسے گھورنے لگی۔۔۔اور کچھ ہی لمحے میں میرے گالوں پر آنسوؤں کی ایک لمبی قطار بندھ گئی جو سیدھا میرے گالوں سے ہوتے ہوئے میری چھاتیوں پر گرنے لگے ۔۔آنسوں اتنے زیادہ تھے کہ میری چھاتیوں کی نپل میرے آنسوؤں کی وجہ سے گیلی قمیض پر صاف نظر آنے لگے۔۔لیکن اس پتھر دل سے کوئی امید نہیں ۔۔اسنے مجھے پھر بھی ایک نظر نہیں دیکھا۔۔۔اور ظالموں کی طرح میرے جذبات کو روندتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔۔میں کچھ دیر تو وہیں کھڑی اپنی قسمت پر آنسو بہاتی رہی لیکن پھر نا جانے میرے من میں کیا آئی اور میں نے اپنی چادر اٹھائی اور کمرے سے ایک آندھی کی طرح نکل گئی۔۔۔گل شیر حویلی سے باہر باغ میں چلا گیا تھا اور میں سیدھا سیڑیوں پر بھاگتی اور روتی ہوئی اپنے کمرے کی جانب دوڑی۔۔۔
میں کمرے میں داخل ہوئی اور دروازہ بند کر کے اپنے بیڈ پر جا کر ایک لاش کر طرح گر گئی۔۔میری آنکھ سے آنسوؤں کی لمبی لمبی قطاریں جاری تھیں۔۔ اور میں صبح تک ایسے ہی لیٹی رہی۔۔سخت سردی اوپر سے اتنے باریک کپڑے اور سب سے بڑا گل شیر کی اس بے رخی نے مجھے بیمار کر دیا۔۔صبح جب رانی میرے کمرے میں آئی تو میں بے ہوش زمین پر پڑی تھی وہ بھاگی بھاگی بڑی ماں کو بلا لائی اور ساتھ ہی گل شیر جو حویلی سے باہر نکل رہا تھا اسنے جب یہ سنا تو وہ بھی بڑی ماں کے ساتھ بھاگا بھاگا میرے کمرے میں آیا۔۔۔رانی اور گل شیر نے مجھے پکڑ کر اٹھایا اور بیڈ پر لٹایا۔۔میں اب تک انہیں کپڑوں میں تھی جسمیں سے میری چھاتیا ں صاف صاف نظر آرہی تھیں اور گل شیر نے مجھے اٹھاتے وقت ضرور انہیں دیکھا ہو گا۔۔۔۔خیر بے ہوش ہو کر گرنے سے میرے ماتھے پر بیڈ کا کنارہ لگ گیا تھا جسکی وجہ سے کافی خون بھی بہہ گیا تھا۔۔بڑی ماں میرا خون دیکھ کر اور بھی پریشان ہو گئیں۔۔انہوں نے رانی کو کہا نواز بخش سے گاڑی نکالنے کو بولو اور گل شیر سے کہا کہ وہ مجھے گود میں اٹھا کر گاڑی تک لے آئے اور وہ یہ کہ کر خود نیچے کو اتر آئیں۔۔اب کمرے میں گل شیر اور میں اکیلے تھے۔۔۔وہ میرے چہرے کو دیکھ کر دل میں کہ رہا تھا آخر تم نے ایسا کیوں کیا۔۔کیوں تم میری عزت کے پیچھے پڑی ہو۔۔۔پھر اسنے وہی چادر اٹھائی اور میرے پوری بدن پر ڈال کر مجھے اپنی گود میں اٹھا لیا اور نیچے گاڑی میں لٹا دیا ۔
گل شیر نے خود گاڑی چلائی اور بڑی ماں اور میری ماں دونوں بھی میرے ساتھ بیٹھ گئے اور ہم کچھ ہی دیر میں ہسپتال پہنچ گئے۔۔۔
ڈاکٹرز مجھے فوراً علاج کے لیئے ایمرجنسی میں لے گئے۔۔اور میرے زخم کو سینے لگے۔کچھ دیر بعد ڈاکٹر نے مجھے ڈرپ وغیرہ لگا دی اور مجھے کمرے میں شفٹ کر دیا۔۔ ڈاکڑنے بڑی ماں کو کچھ تسلی دی اور کہا کہ زیادہ خون بہنے کی وجہ سے بے ہو ش ہو گئی ہیں آپ کی پوتی ۔ہم نے دوا تو دے دی ہے لیکن ابھی دو بوتل خون کی ضرورت ہے ۔۔جس پر بڑی ماں نے کہا تو آپ خون فوراً چڑہا دیں تو ڈاکٹر بولا بڑی ماں خون کے لیئے شہر جانا پڑے گا لیکن اگر آپ لوگوں میں سے کسی کا خون میچ ہو جائے گا تو وقت ضائع کیئے بغیر بی بی کو خون چڑھایا جا سکتا ہے۔۔خون کا سن کر میری ماں نے ڈاکٹر سے کہا کہ میرا خون نکال لیں اور میری بیٹی کو ٹھیک کر دیں پلیز۔۔اس پر ڈاکٹر بولا پہلے آپ کا خون ٹیسٹ ہو گا اگر میچ ہوا تو چڑہا دیں گے۔۔اور جب خون کی رپوٹ آئی تو ماں کا خون تو میچ نہیں ہوا لیکن جسے میں نے اپنی پوری زندگی اپنا سب کچھ مانا اور سب کچھ اسی کے نام کر دیا اسکا خون میچ ہو گیا ۔۔ہاں۔۔گل شیر نے مجھے اپنا خون دیا ۔۔جب میں ہوش میں آئی تو بڑی ماں اور ماں میرے پاس تھیں اور گل شیر کمرے سے باہر بیٹھا بے چینی سے میرے ہوش میں آنے کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔ ہو ش آنے پر بڑی ماں پوچھنے لگیں کہ کیا ہوا تھا تو میری کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کیا بولوں پھر میں نے کہ دیا کہ وہ میرا پاؤں پسل گیا تھا اورمیں جیسی ہی گری تو بے ہوش ہو گئی پھر مجھے کچھ یاد نہیں ۔۔یہ سن کر بڑی ماں نے اور ماں نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور مجھے پیار کر کر بہت دعائیں دینے لگیں۔۔اور ساتھ ہی گل شیر کو بھی بہت ساری دعائیں دیں کہ اگر آج گل شیر نہ ہوتا تو تمہاری جان کو خطرہ ہو جاتا۔۔آج اسی کے دیئے خون سے تم دوبارہ اس حالت میں ہو۔۔گل شیر نے مجھے خون دیا؟؟؟؟میں نے بڑے حیرت کے انداز میں پوچھا تو بڑی ماں بولیں ہاں بیٹا اسی نے تیری جان بچائی۔۔۔ اب میں بہت خوش تھی کہ میری رگوں میں گل شیر کا خون ہے۔۔۔ اتنے میں ماں نے گل شیر کو بھی اندر بلا لیا تھا ۔۔میرے ماتھے پر پٹی بندھی ہوئی تھی اور چہرے پر مسکراہٹ اور پیار کے آثار تھے۔۔گل شیر اندر آیا تو اسنے نظر اٹھا کر میری طرف نہیں دیکھا اور بس نظریں جھکائے مجھ سے تبعیت پوچھی تو میں نے اسکا شکریہ ادا کیا کہ تم نے میری جان بچائی۔۔جس پر وہ کچھ نہ بولا ۔۔اور مجھے آرام کرنے کا بول کر خود باہر چلا گیا۔۔۔
دن اسی طرح گزر گیا لیکن ڈاکٹر نے چھتی دینے سے منع کر دیا اور ایک دن رکنے کا کہا۔تو ماں نے کہا بڑی ماں آپ گل شیر کے ساتھ گھر جاؤ میں رک جاتی ہوں۔۔ لیکن میں نے ماں سے کہا آ پ دونوں کیوں پریشان ہوتی ہیں گل شیر یہاں ہے نہ آپ پریشان نہ ہوں اور آپ دونوں گھر چلی جائیں کل صبح چھٹی ہوتے ہی میں گل شیر کے ساتھ گھر آجاؤں گی۔۔۔بڑی ماں تو مان گئیں لیکن گل شیر کے چہرے پر کچھ خاص خوشی نہیں تھی ۔۔بڑی ماں نے گل شیر سے کہا کیوں شیر بیٹا تو یہیں رک جا ۔ گل شیر جو بڑی ماں کی ایک بات بھی نہیں ٹالتا تھا یہ بات بھی سر ہلا کر مان گیا۔۔اب میں دل ہی دل میں بہت خوش تھی۔۔۔
بڑی ماں اورماں تو چلے گئے اور گل شیر انہیں چھوڑ کر واپس ہسپتال آگیا اور کمرے کے باہر ہی بیٹھا رہا ۔۔میں کافی دیر تک اسکا انتظار کرتی رہی لیکن وہ کمرے میں نہیں آیا۔پھر جب نرس کمرے میں آئی تو میں نے اس سے کہا کہ گل شیر اگر باہر بیٹھے ہیں تو انہیں اندر بھیج دینا ۔۔نرس کے بولنے پروہ اندر تو آگیا لیکن بیٹھنے کی بجائے ہاتھ باندھے کھڑا ہو کر مجھے سے بلانے کی وجہ پوچھنے لگا۔۔میں نے کہا تم کمرے میں کیوں نہیں آئے میں کب سے تمہارا انتظار کر رہی ہوں۔۔۔تو وہ کچھ نہ بولا ۔میں نے اسے کمرے میں ہی بیٹھنے کو کہا تو وہ سائڈ پر رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔وہ مجھ سے خفا لگ رہا تھا۔۔میں نے اس سے کہا کیا تم مجھ سے ناراض ہو تو وہ کچھ نہ بولا پھر میں نے دوبارہ پوچھا تو وہ مجھ پر چلا پڑا کہ آخر میں اپنے اآپ کو سمجھتی کیا ہوں۔۔میں کیوں کر رہی ہوں اس طرح اسکے ساتھ۔۔وہ ایک ہی سانس میں بہت ساری باتیں مجھے سنا گیا۔۔لیکن میں خاموشی سی اسکی باتیں سن کر صرف اتنا کہ پائی کہ تم میری جان ہو۔اور میں تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی اور اگر تم نے مجھے اسی طرح اپنے سے دور رکھا تو میں اب اس سے بھی زیادہ کرلو ں گی اپنے ساتھ ۔۔اور ہو سکتا ہے میں اپنی جان بھی لے لوں۔۔۔یہ سنتے ہی وہ فوراً کرسی سے اٹھا اور باہر چلا گیا اسنے کمرے کا دروازہ کافی زور سے بند کیا جسمیں اسکے غصے کا اظہار تھا۔۔اب میں بھی بیڈ پر بیٹھی اپنا سر اپنے گھٹنوں میں رکھ کر رونے لگی۔۔۔وہ رات بھی میں نے رو تے روتے گزاری۔۔صبح ڈاکٹر نے چھٹی دے دی اور میں اپنی چادر اوڑھے خاموشی سے گاڑی میں جا کر بیٹھ گئی۔۔۔اب میں فیصلہ کر چکی تھی کہ اگر اب بھی گل شیر میری پیاس بجھانے کے لیئے راضی نہیں ہوا تو میں اپنے کالج کے کسی لڑکے کو اپنے جسم کا مالک بنا لوں گی اور میری عزت کے لٹ جانے کا ذمہ دار گل شیر ہو گا۔
۔۔۔۔
راستے میں ہم دونوں خاموش رہے اور کچھ دور جا کر میں نے گل شیر سے کہ دیا کہ اگر آج رات تم میرے کمرے میں نہیں آئے تو کل کا دن میں کالج کے کسی لڑکی کی باہوں میں گزاردوں گی اور اسکے ذمہ دار تم ہو گے۔۔۔میرے منہ سے یہ الفاظ سن کر نا جانے گل شیر کو کیا ہوا اور اسنے تیز رفتار گاڑی کو ایک دم بریک لگا دیا۔۔اوراگر میں نے سیٹ بیلٹ نہیں باندھا ہوتا تو میرا سر سامنے جا کر لگتا۔۔۔
گل شیر نے غصے سے میری طرف دیکھا لیکن میں اب فیصلہ کر چکی تھی ۔گل شیر نے جب میری آنکھوں میں اترتے بغاوت کے خون کو دیکھا تو اسکی آنکھوں میں کچھ نرمی آگئی اور اسنے اپنا چہرہ دوسری طرف کر کے گاڑی سے باہر دیکھنے لگا اور نہ جانے کیا سوچ کر دوبارہ گاڑی چلا دی۔۔۔کچھ ہی دیر میں ہم گھر پہنچ گئے اور گاڑی سے اترتے وقت میں نے ایک بار پھر اسے کہا کہ میں نے جو کہا ہے وہ میں کر کے دکھاؤں گی کیونکہ میں بھی اپنے باپ کی ایک ضدی اولاد ہوں اور میری رگوں میں اب تم جیسے ضدی کا خون بھی ڈور رہا ہے۔۔۔اتنا کہ کر میں نے گاڑی کا دروازہ اس زور سے بند کیا کے حویلی کے اندر تک اسکی آواز گئی ۔۔۔گل شیر کے پاس اب کوئی راستہ نہیں تھا وہ کچھ دیر گاڑی میں بیٹھا کچھ سوچتا رہا اور پھر گاڑی سے اتر کر نواز کو گاڑی پارک کرنے کو کہا۔۔
میں سیدھا اپنے کمرے میں چلی گئی اور بڑی ماں اور ماں بھی وہیں آگئیں اور میری تبعیت پوچھنے لگیں تو میں نے کہ دیا اب تھیک ہوں اور کل تک بلکل تھیک ہو جاؤں گی۔۔کچھ دیر بیٹھنے کے بعد وہ لوگ اپنے اپنے کام سے لگ گئیں اور میں بیڈ پر لیٹی صرف اور صرف گل شیر کی خیالوں میں گم رات کا انتظار کرنے لگی۔۔
شام جب میں بالکونی میں آکر کھڑی ہوئی تو نیچے باغ میں گل شیر کافی پریشانی کی حالت میں ادھر سے ادھر چکر لگا رہا تھا اور میں بالکونی کی دیوار سے ٹیک لگائے اپنے ہاتھوں کو اپنی چھاتیوں سے نیچے باندھے کھڑی گل شیر کی اس کیفیت کو نوٹ کر رہی تھی ۔۔مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ میری بات کو لے کر بہت پریشان ہو اور اسکا کوئی حل سوچ رہا ہو۔۔۔ میں کچھ دیر اسے ایسے ہی دیکھتی رہی کہ اچانک اسکی نظر مجھ پر پڑ ی تو وہ فوراً باغ سے نکل کر گاڑی لے کر کھیتوں کی طرف نکل گیا۔۔
سردیوں کی رات تھی۔ شام ہوتے ہی اندھیرا چھا جاتا تھا ۔۔اور گل شیر ابھی تک گھر نہیں لوٹا تھا۔۔کافی دیر بعد میں نے جب محسوس کیا کہ اب بڑی ماں سے پوچھنا چاہئے تو میں انکے کمرے میں گئی اور پوچھا کہ گل شیر ابھی تک نہیں آیا بڑی ماں ۔۔کیا آپ نے کہیں بھیجا ہے اسے۔۔تو بڑی ماں نے کہا ہاں بیٹا میں نے اسے شہر بھیجا ہے اس دفعہ کی فصل کا سودا کرنے وہ کل صبح تک واپس لوٹ آئے گا۔۔
اب تو میرے سارے ارمانوں پر پانی پھر گیا ۔۔آج رات بھی گل شیر میرے نصیب میں نہیں تھا۔۔۔میں بڑی ماں کے کمرے سے مزید کچھ پوچھے بغیر ہی باہر نکل آئی اور روتی ہوئی سیدھا اپنا کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔ایسا لگتا تھا جیسے گل شیر میری قسمت میں نہیں اور میں اسے کبھی حاصل نہیں کر پاؤں گی۔۔۔
میں روتی روتی سو گئی اور صبح میری آنکھ کھلی تو میں نہا دھو کر کالج کے لیئے تیار ہو کر نیچے گئی تو بڑی ماں باغ میں کھڑی تھیں انہوں نے مجھے روکا کہ میں کہاں جا رہی ہوں تو میں نے کہا بڑی ماں کالج تو انہوں نے جانے سے منع کیا کہ ابھی ایک دن اور آرام کر لو بیٹا لیکن میں جانے پر بضد تھی اور گاڑی میں بیٹھ کر نواز کو کہا کہ گاڑی آج تم چلاؤ گل شیر شہر گیا ہوا ہے۔۔۔۔۔میں گاڑی میں بیٹھی اور کالج کی طرف نکل پڑی ابھی حویلی سے نکلی ہی تھی کہ سامنے سے گل شیر کی گاڑی آتے ہوئے نظر آئی لیکن میں نے کوئی توجہ نہیں دی۔۔
گل شیر حویلی پہنچا اور پوچھا کہ ماہی کہاں گئی ہے بڑی ماں؟؟؟؟ بڑی ماں نے بتا یا کہ میرے لاکھ منع کرنے پر بھی چلی گئی کہ رہی تھی آج کالج میں بہت اہم دن ہے۔۔اور یہ میری زندگی کا بہت اہم دن۔۔۔بس اتنا کہا اور چلی گئی۔۔۔
گل شیر نے بڑی ماں سے اجازت لی اور مجھے واپس لانے اپنی گاڑی میں بیٹھ کر حویلی سے نکل پڑا اور کچھ ہی دور اسنے ہماری گاڑی کو روکا اور مجھے اپنی گاڑی میں بیٹھنے کو کہا۔۔۔پہلے میں نہ اتری تو وہ خود اتر کر میری طرف آیا اور بولا ماہی بی بی پلیز آپ میرے ساتھ آئیں۔۔اسکے منہ سے ماہی کا لفظ سن کر میرے اندر کا غصہ کچھ کم ہوا اورمیں خاموشی سے اتر کر اس کی گاڑی میں بیٹھ گئی۔۔۔گل شیر نے نواز بخش کو کہا کہ وہ گاڑی حویلی لے جائے ۔۔نواز بخش نے گاڑی موڑی اور حویلی کی جانب نکل پڑا ۔گل شیر نے بھی گاڑی موڑی اور حویلی کی طرف جانے لگا لیکن میں نے اسے گاڑی روکنے کو کہا۔۔۔اب میں اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی کہ آخر اسنے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا۔۔۔وہ رات شہر کیوں چلا گیا جبکہ اسے تو میرے پاس آنا تھا۔۔۔یہ سارے سوالات میری آنکھوں میں تھے اور شاید گل شیر کے دل تک میرے سوالات پہنچ گئے اور کچھ ہی دیر خاموشی کے بعد وہ بولا کہ ماہی۔۔۔۔۔یہ لفظ اسکے منہ سے سن کر میں تو جیسے پوری ہو جاتی۔۔۔مجھے ایسا لگتا جیسے گل شیر نے مجھے صرف ماہی نہیں بلکہ ’’میری ماہی‘‘ کہہ کر پکارا ہو اور میرے دل میں خوشی کے لڈو پھوٹ پڑے ہوں۔۔اس نے گفتگو آگے بڑھائی اور بولا کہ تم نے جب کل رات مجھے باغ میں تہل لگاتے دیکھا تو میں اس وقت یہ نہیں سوچ رہا تھا کہ میں تمہارے کمرے میں جاؤں یا نہ جاؤں بلکہ میں یہ سوچ رہا تھا کہ بڑی ماں نے مجھے شہر جانے کو کہا ہے اگر میں شہر چلا گیا تو کل شام تک واپسی ہو گی اور ادھر اگر میں رات تم سے ملنے نہ آیا تو تم صبح کالج چلی جاؤ گی او رنہ جانے جوانی کے اس جوش میں تم کوئی غلط قدم نہ اٹھا لو۔۔۔میں رات بھر یہی سوچتا ہوا شہر کے لیئے نکل گیا اور اپنی پوری رفتار سے گاڑی کو بھگاتا ہوا اپنی جان پر کھیلتا ہوا شام کی بجائے صبح ہی شہر سے واپس آگیا۔۔۔ماہی میں تمہیں کوئی غلط قدم نہیں اٹھانے دینا چاہتا تھا۔۔۔راستے بھر میں نے یہی سوچا کہ تمہیں کیسے سمجھاؤں لیکن میری کچھ سمجھ نہیں آیا۔۔پلیز ماہی تم مت کرو یہ سب ۔۔ہم دونوں میں بہت فرق ہے میں کبھی بھی تمہارا نہیں ہو سکتا ۔۔۔لوگ کیا کہیں گے کہ بڑی ماں نے جسے پال پوس کر اپنی اولاد سے بھی زیادہ پیار کیا آج اسی نے انکی پیٹھ پر چہرا گھونپ دیا اور انکی عزت پر ہاتھ ڈالا۔۔۔نہیں ماہی نہیں۔۔۔یہ مجھ سے ہر گز نہیں ہو گا چاہے تم میری جان لے لو لیکن پلیز مجھے سے یہ کام مت کرواؤ۔۔۔ماہی میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ تم کسی اور کے ساتھ کچھ غلط کر بیٹھو اور یہ بھی نہیں چاہتا کہ تم میرے ماتھے پر یہ داغ لگاؤ۔۔۔
گل شیر کی باتیں میری سمجھ میں نہیں آرہی تھیں۔ میں تو بس اس آگ میں جل رہی تھی جس کی تپش نے گل شیر کی باتوں کو میرے دل تک پہنچنے سے پہلے ہی جلا کر راکھ کر دیا۔اور میں وہیں اپنی ضد پر اڑی رہی۔۔اور گل شیر سے صاف صاف کہہ دیا کہ آج رات میں تمہارا انتظار کروں گی اپنے کمرے میں اور اس بار اگر تم نہیں آئے تو تم مجھے اچھی طرح جانتے ہو ۔۔۔
گل شیر نے میرا وہی جواب سنا تو ایک دم سے غصہ میں آگیا اور گاڑی کو فل رفتار کے ساتھ حویلی کی طرف ڈورا دیا۔۔اور میں سکون سے کھڑکی سے باہر منہ کیئے اپنی آنکھ سے نکلنے والے آنسوں کو چھپانے لگی۔۔
حویلی پہنچ کر میں گاڑی سے اتر کر سیدھا اپنے کمرے میں چلی گئی ۔بڑی ماں جو ابھی بھی باغ میں کھڑی تھیں مجھ سے کچھ کہہ پاتیں اتنی دیر میں ،میں حویلی کی سیڑیوں پر چڑھ کر اندر داخل ہو رہی تھی پھر دوسری طرف سے گل شیر اپنے غصہ کو چھپاتا ہوا گاڑی سے اترا تو بڑی ماں نے اس سے پوچھا کہ ماہی اتنا غصہ میں کیوں ہے تو اس نے بات کو ٹال دیا کہ بڑی ماں دراصل میں نے اسے کالج جانے سے روک دیا اسی لیئے ناراض ہو گئی اور آپ تو جانتی ہو مجھے سے تو وہ ہر وقت بس لڑتی ہی ہے۔۔
بڑی ماں گل شیر کی بات پر مسکرا دیں اور وہ بھی تھوڑا مسکرانے کا ناٹک کر کے اپنے کمرے کی جانب چل دیا۔۔۔
میں اپنے کمرے جاتے ہی بیڈ پر لیٹ گئی۔اور لیٹے لیٹے نا جانے کیسے میری آنکھ لگ گئی اور دوپہر کا وقت ہو گیا۔
بڑی ماں اور میری ماں کسی رشتہ دار کے گھر شادی کی تقریب میں جا رہے تھیں بڑی ماں نے رانی کو بھیجا کہ وہ مجھ سے پوچھ لے اگر چلنا ہے تو لیکن جب رانی میرے کمرے میں آئی تو میں تو سوئی پڑی تھی ۔رانی نے بڑی ماں کو بتایا تو انہوں نے کہا چلو اسے سونے دو اور گل شیر سے کہا کہ تم حویلی پر ٹہرو ماہی اکیلی رہ جائے گی ورنہ ۔۔گل شیر نے آج زندگی میں پہلی بار بڑی ماں کے فیصلے کو انکار کرتے ہوئے نہایت ہی عاجزانا انداز میں کہا کہ بڑی ماں آپ لوگ اکیلے کیسے جاؤ گے میں چلتا ہوں نہ آپ کے ساتھ۔۔۔لیکن بڑی ماں نے صاف انکار کرتے ہوئے کہاکہ نہیں تم یہیں ٹہرو ماہی کی تبعیت بھی تھیک نہیں اور ہمارے ساتھ تو نواز بخش ہے تم فکر مت کرو اور گل شیر کے گالوں پر ہاتھ رکھ کر اسے پیار دے کر گاڑی کی جانب چل دیں۔ حویلی پر اب صرف گل شیر اور ،میں رہ گئے تھے۔ اور کچھ نوکر تھے جو بغیر اجازت کسی کے کمرے میں نہیں جاتے تھے۔۔
کچھ دیر بعد میں نیند سے جاگی اورٹائم دیکھا دو بج رہے تھے۔ بڑی ماں کو گئے ایک گھنٹہ ہو گیا ۔ میں اپنے کمرے سے نکل کر نیچے آئی تو بلکل سناٹا تھا رانی بھی کہیں نظر نہیں آرہی تھی۔پھر میں نے باغ میں موجود رامو کاکا سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ وہ تو کسی رشتہ دار کی شادی میں گئے ہیں اور شام تک لوٹیں گے پھر میں نے گل شیر کے بارے میں پوچھا تو رامو کاکا نے بتایا کہ وہ اپنے کمرے میں ہیں بڑی ماں نے انہیں خاص ہدایت کی تھی حویلی پر ٹہرنے کی کیونکہ آپ کی تبیعت تھیک نہیں اس وجہ سے۔۔پھر میں نے رامو کاکا کو کہا تھیک ہے آپ جائیں اور کسی کو حویلی میں آنے مت دینا میں سونے جا رہی ہوں۔۔یہ کہ کر میں نے مین دروازہ بند کیا اور اندر سے لاک کر کے موقع کو اپنے حق میں پا کر رات کی بجائے ابھی ہی گل شیر سے ملنا مناسب سمجھا اور سیدھا اسکے کمرے کی جانب چل پڑی۔۔۔
ہمیشہ کی طرح اسکے کمرے کا دروازہ کھلا تھا میں آہستہ سے اندر گئی اور اندر جا کر دروازہ لاک کر کے اسکے بیڈ کے پاس آکر کھڑی ہو گئی۔۔۔حویلی میں ہم دونوں کے اکیلے ہونے کے احساس نے ہی مجھے گرما دیا تھا اور میری شرمگاہ کے لاوے نے جوش مارنا شروع کر دیا تھا۔۔۔میں نے اپنا دوپٹہ اتار کر نیچے پھینک دیا اور بیڈ پر جھک کر گل شیر کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے۔اچانک سے گل شیر کی آنکھ کھلی اور وہ مجھے اپنے اوپر دیکھ کر ہڑبڑا کر اٹھنے لگا لیکن میں نے اسے اپنے ہاتھوں سے دھکا دے کر واپس لٹا دیا اور خود جھٹ سے اسکے اوپر آگئی ۔۔گل شیرنے مجھے نیچے اترنے کو کہا لیکن میں نہیں اتری اور اسکے ہونٹوں پر دوبارہ کس کرنے لگی۔۔وہ اپنا منہ ادھر ادھر کرنے لگا تو میں نے اپنے ہاتھ سے پکڑ کر اسکے چہرے کو روکا اور اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں پر رکھ دیئے۔۔۔میں بس اسکے ہونٹوں کو چھو ہی پائی تھی اور اسنے اپنے طاقت ور ہاتھوں سے مجھے روک دیا۔میں نے سر اوپر اٹھایا اور گل شیر سے کہا ۔۔میری جان ۔۔۔پلیز اب مجھے مت روکو۔۔۔آج مجھے اپنا بنا لو گل شیر۔۔۔ پلیز گل شیر۔۔
لیکن ہمیشہ کی طرح وہ انکار کرتا رہا۔۔پھر میں نے اسے صاف صاف کہ دیا اگر تمہیں مجھ سے پیار نہیں اور تم نے آج میری خواہش پوری نہیں کی تو میں اپنے کمرے میں جا کر اپنے آپ کو پنکھے سے لٹکا لوں گی۔۔یہ کہ کر میں گل شیر کے اوپر سے اترنے لگی تو اتنے میں اسنے خود میرے ہاتھ کو ایک جھٹکے سے پکڑ کر کھینچا اور اپنے اوپر اپنے سینے پر گرا لیا۔۔میں گل شیر پر ایسے گری کہ میری چھاتیاں اسکے سینے سے چپک گئیں اور میرا منہ بلکل اسکے منہ کے قریب تھا۔۔۔کچھ دیر گل شیر میری آنکھوں میں دیکھتا رہا ۔آج اسکی نظر میں ایک عجیب سی کشش تھی۔۔آج وہ غصہ سے نہیں بلکہ پیار بھری نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔۔میں اسکے اتنے قریب اپنی چھاتیوں پر اسکے بدن کو محسوس کرتی اور اسکے منہ سے نکلنے والی گرم گرم سانسوں میں گم۔۔۔کہ اچانک گل شیر نے میرے چہرے کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں پکڑا اور اپنے ہونٹوں کی جانب کھینچ کر میرے لب سے لب ملا دیئے۔۔۔مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ مجھے میرا گل شیر مل گیا ۔۔اب میں نے بھی مدحوشی میں اپنی آنکھیں بند کیں اور اسکے ہونٹوں کا لمس اپنے ہونٹوں پر محسوس کرنے لگی۔۔۔گل شیر کی سانسوں میں ایک عجیب سی مدحوش کر دینے والی مہک تھی جو مجھے بے چین کیئے جا رہی تھی۔۔اور جیسے ہی اسنے میرے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے چوما میں پوری طرح گرما گئی اور خود ہی اسکے ہونٹوں کو ایسے چومنے لگ گئی جیسے نا جانے میں صدیوں سے اسکے ہونٹوں کی پیاسی تھی۔۔۔آخر میری ضد کے آگے گل شیرنے ہتھیار ڈال دیئے ۔۔اسکا ہاتھ آہستہ آہستہ میری کمر کو سہلانے لگا ۔اور جب وہ میرے بالوں میں ہاتھ پھیرتا تو میرا بدن خود بہ خود حرکت میں آجاتا اور میں اپنی چھاتیاں اسکے سینے سے رگڑنے لگ جاتی۔۔۔میں پوری طرح گرم ہو چکی تھی جسکا ثبوت میری پینٹی تھی جو اسطرح گیلی تھی جیسے ابھی پانی میں بھگو کر نکالی ہو۔۔میں نے کس کرتے کرتے اپنے آپ کو اسطرح ایڈجسٹ کیا کہ گل شیر کی ران میری ٹانگوں کے بیچ تھی اور میں نے اپنی ٹانگوں کو تھوڑا کھول کر اپنی چوت کو گل شیر کی ران سے چپکا لیا اور آہستہ آہستہ آگے پیچھے ہو کر چوت کو رگڑنے لگی۔۔۔میرے اندر جو اتنے دنوں سے لاوا ابل رہا تھا ۔۔اور ہر وقت گل شیر کی یادوں میں کھوئے رہنے کہ وجہ سے میں اتنی بے چین رہتی تھی کہ کچھ ہی دیر گل شیر کی رانوں سے چوت رگڑنے سے ہی میں اپنی منزل کو پہنچنے لگی۔۔میرے منہ سے اب سسکاریاں نکل رہی تھی۔۔۔جنہوں نے گل شیر کو بھی مست کر دیا تھا۔۔۔میرے رگڑنے کی رفتار تیز ہو گئی اور میرے منہ سے آہ آہ آہ آہ آہ۔۔۔ام م م م م ۔۔۔کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔۔میرے بدن میں جیسے کرنٹ کی لہریں دوڑ رہی ہوں ۔۔اور ایسا لگتا تھا جیسے میرے بدن کی ساری جان کھنچ کر میری چوت کی جانب دوڑ رہی ہو۔۔ایک آتش فشاں تھا جو بس پھٹنے کو تیار تھا جسکے منہ سے پہلی ہی بہت سارا لاوا بہہ بہہ کر میری پینٹی کو گیلا کر چکا تھا۔۔۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ مجھے اتنی جلدی اس آتش فشاں کو پھٹنے سے روکنا پڑے گا ورنہ گل شیر مجھے ٹھنڈا ہوتا دیکھ کر مجھے ادھورا ہی چھوڑ دے گا۔۔۔یہ سوچتے ہی میں نے اپنی چوت کو تھوڑا اوپر اٹھا لیا تاکہ میں اتنی جلدی فارغ نہ ہو جاؤں۔۔۔ادھر گل شیر کے ہاتھ میری کمر کو ٹٹول رہے تھے اور اسکے ہونٹوں کا میٹھا میٹھا رس پی پی کر میری پیاس اور بڑھتی جا رہی تھی۔
گل شیر اب پوری طرح میرے قابو میں تھا اور میرے پیار نے آخر اسے اپنی طرف کھینچ لیا تھا۔اب وہ مجھے ایسے پیار کر رہا تھا جیسے وہ بھی صدیوں سے میری چاہ میں جل رہا ہو۔اسکے ہاتھوں نے میرے قمیض کے اندر رینگنا شروع کر دیا اور وہ رینگتے رینگتے میرے بریزر کی اسٹرپ تک پہنچ گئے ۔۔کچھ دیر ہاتھوں سے کمر سہلانے کے بعد گل شیر نے میری بریزر کے ہک کھول دیئے اور میری چھاتیاں اب آزاد تھیں۔۔اب گل شیر اٹھ کر بیٹھ گیا پھر اس نے دوبارہ بیٹھ کر میرے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا اور پھر میرے دونوں ہاتھوں کو ہوا میں بلند کر کے میری قمیض کو اوپر اٹھانے لگامیں نے اسکا ساتھ دیا اور ہاتھوں کو نیچے کھینچا تاکہ آستین نکل جائیں ۔۔
اب میں گل شیر کے سامنے آدھی ننگی تھی۔۔بریزر کے ہک پہلے ہی دھیلے تھے جسکے کپ میری چھاتیوں پر اٹکے ہوئے تھے۔۔گل شیر پہلے تو میرے بدن کو گھورتا رہا ۔۔زندگی میں آج پہلی بار اس نے کسی لڑکا کا ننگا بدن اتنے قریب سے دیکھا تھا۔۔اسنے اپنے دونوں ہاتھوں سے میرے مموں پر موجود کپوں پررکھ کر بریزر کے اوپر سے ہی انہیں دبانے لگا۔۔گل شیر کے ہاتھوں نے جیسے مجھے پاگل کر دیا ہو۔۔۔لیکن ابھی بھی اسکا ہاتھ میرے مموں کو چھو نہیں رہا تھا۔۔جسکا کچھ اور ہی مزہ ہے۔۔ میں نے اپنے کندھوں سے بریزر کی اسٹرپ کو نیچے کر دیا تاکہ بریزر پوری اتر جائے اور پھر گل شیر نے کپوں کو پکڑ کر میرے مموں کو بلکل آزاد کر دیا۔۔میرے سخت ممے اور ان پر چھوٹے چھوٹے نپل جو اب تھوڑا پھول کر پہلے سے موٹے ہو گئے تھے۔گل شیر کو اپنی جانب کھینچنے لگے۔گل شیر نے آہستہ آہستہ ہاتھ آگے بڑھایا اور میرے گول مٹول نارنگی جیسے مموں کو اپنے سخت ہاتھوں میں پکڑنے لگا۔ اور جیسے ہی اسنے میرے مموں کو چھوا میری تو جیسے جان سی نکل گئی۔۔ ایک سردی کی لہر سی میرے اندر ڈور گئی۔۔۔گل شیر نے مجھے پیچھے تکیہ پر لٹایا اور خود میرے برابر میں تکیہ لگا کر ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور اپنے ہاتھوں سے میرے مموں کو سہلانے لگا۔۔میں آنکھیں بند کیئے ایک مچھلی کی طرح اپنی ٹانگوں کو بیڈ پر رگڑنے لگی۔۔پھر میں نے آنکھ کھولی اور گل شیر کے چہرے کو پکڑ کر اسے پھر سے ہونٹوں پر کس کرنے لگی۔۔کس کرتے کرتے میں اتنا مدحوش ہو گی کہ میں گل شیر کے اوپر آگئی اور وہ سیدھا لیٹ گیا۔۔کچھ دیر کس کرنے کے بعد میں نے اپنے مموں کو اسکے منہ کے قریب کیا اور نپل کو اسکے ہونٹوں پر رگڑنے لگی۔یہ احساس مجھے اتنا پاگل کر رہا تھا کہ میرے بدن میں اپنے آپ جھٹکے سے لگتے اور ان جھٹکوں کی رفتار بڑھ گئی۔۔۔میں فارغ ہو رہی تھی۔۔
لیکن میں نے گل شیر کو اس بات کا احساس نہیں ہونے دیا اور اسے ایسا لگا جیسے مموں کو چھونے سے مجھے یہ جھٹکے لگ رہے ہوں۔۔۔گل شیر نے میرے نپل کو پکڑ کر چوسنا شروع کر دیا اور نیچے میں اپنی چوت کو اسکے بدن سے رگڑ کر اپنی چوت کو شانت کر رہی تھی۔۔گل شیر کا لن پوری طرح جوبن پر تھاجو اسکی شلوار میں لوہے کی ایک راڈ کی طرح اکڑا ہوا تھا۔۔ادھر گل شیر نے میرے مموں کو چوس چوس کر میرے اندر کی گرمی کو پھر سے جگا دیا اور میں دوبارہ سے بے چین ہونے لگی۔۔اب میں اور زیادہ صبر نہیں کر سکتی تھی اسی لیئے میں نے اپنی لاسٹک والی شلوار کو پکڑ کرنیچے کھینچا اور گھٹنوں تک اتار دی۔۔گل شیر ابھی بھی میرے مموں میں مست تھا اسکا ہاتھ جب میری کمر سے میرے کولہوں تک گیا تب اسے احساس ہوا کہ میں نے شلوار بھی اتار دی۔۔اور اب میرا ہاتھ اسکے بدن پر رینگ رہا تھا اور رینگتے ہوئے اسکے ازاربند تک چلا گیااور آہستہ سے پکڑ کر کھینچنے لگا۔۔جیسے ہی اسکا ازاربند کھلا میں نے ازاربند کو ڈھیلا کیا اور اسکے تنے ہوئے لن کو باہر نکال لیا۔۔گل شیر کا لن بھی پانی چھوڑ رہا تھا جو مجھے اسکے لن کی ٹوپی پر محسوس ہوا۔۔اب میں نے لن کو پکڑ کر ایک دو بار اوپر نیچے کیا اور زیادہ صبر نہ کر سکی۔اور گل شیر کے لن کو پکڑ کر اپنی چوت پر رگڑنے لگی۔۔گل شیر کے لن کو بھی چوت کی خوشبو آچکی تھی اور وہ خود بھی اپنے کولہوں کواوپر اٹھا کر میری چوت پر رگڑتا۔۔میرا پورا بدن گل شیر کے بدن سے چپک چکا تھا ۔میرے ممے اسکے سینے پر تھے اور اسکے ہونٹ میرے ہونٹوں پر۔۔گل شیر کا آگ کی طرح تپتا ہوا لن میری چوت کے آتش فشاں کے کنارے پر تھاکہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ آتش فشاں میں کودنے لگااور ایک ہی انچ کاصفر طے کیا تھا کہ رک گیا۔۔۔گل شیر کا لن جس جگہ رکا تھا وہ میرے آتش فشاں کا وہ پردہ تھا جس کے پھٹتے ہی سارا کا سارا لاوابہہ نکلتا۔۔۔ میں اس کھیل میں اتنی مست تھی کہ لن کے چوت میں ایک انچ تک گھس جانے پر زرا بھی درد محسوس کرنے کی بجائے اپنی چوت میں میں ابلنے والے لاوے کی گرمی کو محسوس کرنے لگی۔۔۔اور اچانک ہی میرے منہ سے ایک چیخ نکلی جو گل شیر کے ہونٹوں سے ہونٹ لگانے کی وجہ سے کہیں گم ہو گئی۔۔۔۔میری چوت کے آتش فشاں کا پردہ پھٹتے ہی میری چوت بھی ایک لاوا ابلتے ہوئے آتش فشاں کے منہ کی طرح لال ہو گئی۔۔۔میرے زور لگانے پر گل شیر کا لن میری چوت کے پردہ بکارت کو چیرتا ہوا اسکی گہرائی میں تین انچ اتر گیا۔۔میں نے اپنی چھاتیوں کو تھوڑا اٹھا کر اپنے اور گل شیر کے درمیان سے اپنی نظروں کو نیچے کی طرف دوڑایا تو گل شیر کا موٹا سخت لن مجھے دکھائی دیا ۔۔۔میں زندگی میں دوسری بار کسی مرد کا لن دیکھ رہی تھی ایک نواز بخش کا رانی کے ساتھ سمبھوک کرتے وقت اور دوسرا گل شیر کا جو آدھا تو میری چوت میں جا چکا تھا اور ابھی آدھا باقی تھاجس پر میرے چوت کے آتش فشاں کا سرخ سرخ لاوا بہتا ہوا نیچے کی طرف جا رہا تھا۔۔میری ٹانگیں یہ منظر دیکھ کر کانپ رہی تھیں جیسے میرے بدن سے جان نکلی جا رہی تھی اور میرے بدن کا سارا خون کھنچ کر میری چوت کی طرف ڈور رہا ہو اور چوت سے بہتے ہوئے لاوے کے ساتھ نکل جانا چاہتا ہو۔۔۔۔میں نے پھر سے چھاتیوں کو گل شیر کے سینے سے چپکا لیا اور خود اسکے ہونٹوں کو چومنے لگی۔۔
گل شیر بلکل سیدھا لیٹا ہوا تھا اور وہ اپنے لن کو زرا بھی حرکت نہیں دے رہا تھا۔۔کچھ دیر بعد میری چوت میں لگی چنگاری جو لن کے اندر جانے سے لگی تھی اس میں کچھ کمی آئی تو میں نے آہستہ آہستہ اپنے بدن کو اوپر اٹھانا شروع کیا اور لن میری چوت کے آتش فشاں کے کنارے پرواپس آگیا ۔۔لن کے باہر نکلتے ہی باقی کاسرخ لاوا جسے میری چوت کے آتش فشاں سے باہر نکلنے کا راستہ نہیں ملا تھا ۔فوراً ہی گل شیر کے لن پر بہتا ہوا باہر کی جانب نکلا اور اس سرخ لاوے کے ساتھ ساتھ کچھ گاڑھا گاڑھا دودھ جیسا میری چوت کا وہ پانی جو کچھ ہی دیر پہلے میرے فارغ ہونے کی وجہ سے نکلا تھا لیکن میری چوت سے باہر نہیں آپایا تھا۔وہ بھی ساتھ ہی بہہ نکلا ۔میں نے ایک بار پھر ہم اپنے جسم کو اوپر اٹھا کر درمیان سے نیچے کی طرف دیکھا تو گل شیر کا لن میرے سرخ لاوے میں نہا چکا تھا اور ساتھ ہی اس پر میری چوت کا گاڑھا سفید پانی بھی لپٹا ہوا تھا ۔ اب میں دوبارہ گل شیر پر جھگ گئی اور مسلسل گل شیر کے ہونٹوں کو چومے جا رہی تھی اور وہ اس میں میرا بھر پور ساتھ دے رہا تھا۔۔میرے ممے اور سخت نپل گل شیر کے سینے میں جڑے ہوئے تھے۔۔ہمارے پیار محبت کے اس کھیل کو آدھا گھنٹے سے زیادہ ہو چکا تھا اور مجھے گھر میں کسی کی آمد کی کوئی امید نہیں تھی۔۔۔
کچھ ہی دیر میں میری چوت میں لگی چنگاریاں کچھ ٹھنڈی ہوئیں تو میں نے پھر سے اپنے بدن کو نیچے کیا اور گل شیر کے لن کو دوبارہ چوت کے دھانے پر رکھ لیا۔۔۔
گل شیر کا لن اب ایک بھوکے سانپ کی طرح اپنی گردن اکڑائے ایک دم سیدھا کھڑا تھا اور میری چوت بھی کسی دوسرے سانپ کی طرح اپنے دونوں پھنوں کو پھیلائے اپنا منہ کھولے ہوئے تھی اور گل شیر کے اس ناگ کو جوگردن اکڑائے کھڑا تھا،، نگل جانا چاہتی تھی۔۔اور پھر وہی ہوا ادھر میں نے اپنے جسم کو تھوڑی حرکت دی اور وہاں گل شیر نے بھی اپنے کولہوں کو تھوڑا اٹھایا ۔۔اور جیسے ہی دونوں ناگو نے ایک دوسرے سے جنگ شروع کی تو میری چوت کی ناگن نے جو پھن پھیلائے تھی ایک دم سے گل شیر کے ناگ کو اپنی طرف آتا دیکھا تو اسے اپنے پھنوں میں جکڑ کر نگلنے لگی اور گل شیر کے ناگ کوجڑ تک اپنے اندر کھینچ لیا۔۔۔
اب میری حالت غیر ہو رہی تھی۔۔۔کیونکہ میں ناگ کو نگل تو گئی لیکن وہ میری سوچوں سے بھی زیادہ موٹا تھا جس نے میری چوت کو چیر ڈالا تھا۔۔۔ اس بار بھی میرے منہ سے نکلی درد سے بھری چیخ گل شیر کے منہ میں کہیں گم ہو گئی۔۔اب میرے بدن میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ میں گل شیر کے ناگ کو اگل دوں۔۔گل شیر کا لن پوری طرح اندر سما گیا تھا ۔۔۔اور اگر میری چوت اپنا گاڑھا گاڑھا چکنا چکنا لاوا نہ بہاتی تو آج گل شیر کا لن میری چوت کے رگڑتا ہوااسے زخمی کر دیتا۔۔۔۔۔
میں کچھ دیر گل شیر کے اوپر پڑی رہی اور پھر گل شیر نے مجھے کروٹ دلا کر نیچے بیڈ پر لٹا دیا اور خود میرے اوپر آگیا۔۔اس طرح اوپر نیچے ہونے میں گل شیر کالن تھوڑا باہر نکلا اور پھر تھوڑا اندر گیا جس نے مجھے تڑپا دیا۔۔۔اب میں سیدھی لیٹی آنکھیں بند کیئے اپنے ہاتھوں سے اپنے مموں پر موجود نپل کو جو پہلے سے کافی موٹے ہو گئے تھے انہیں اپنی انگلیوں میں پکڑ کر کھینچنے لگی۔۔اس طرح پکڑ کر کھینچنے اور چھوڑنے سے کچھ ہی دیر میں مجھے نپل کچھ لمبی بھی لگنے لگیں۔۔ادھر گل شیر نے اپنی پوزیشن بنانے کے لیے اپنا لن پورا باہر نکال لیا اور میری شلوار کو تن سے جدا کر دیا۔۔گل شیر پہلی بار کسی لڑکی کی کنواری چوت دیکھ رہا تھا جو اس وقت خون میں لت پت تھی۔۔
اب گل شیر نے میری ٹانگوں کو ہوا میں بلند کیا اور انہیں میرے سینے کی طرف کو جھکا دیا۔ اب وہ پوری طرح میری چوت کا نظارہ کر رہا تھا اور اسکا لن ابھی بھی اس ناگ کی طرح گردن اکڑائے کھڑا تھا جسے میں نے کچھ دیر پہلے ہی اگل دیا تھا۔اب وہ پھر سے میری چوت کی گہرائیوں میں جانے کو تیار تھا۔۔۔اور دیکھتے ہی دیکھتے گل شیر کا ناگ دوبارہ سے میری ناگن کے پھنوں کو چیرتا ہوا جڑ تک اندر چلا گیا۔۔۔اب کی بار مجھے درد کا احساس کچھ کم ہوا اور تھوڑا بہت لطف آنے لگا۔۔اب کی بار میں بلکی سیدھی لیٹی تھی اور گل شیر میری ٹانگوں کو اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑے پوری طرح میرے اندر سما چکا تھا پھر اسنے دھیرے دھیرے لن کو باہر نکالا اور دوبارہ سے اندر کیا۔۔گل شیر کے اسطرح اندر باہر کرنے سے میرے پورے وجود میں ایک سنسنی سے لہر ڈوڑنے لگی اور میں دوبارہ سے اپنے ہوش کھونے لگی۔میری چوت نے گل شیر کے لن کو قبول کر لیا تھا اور وہ اب پوری طرح اس کا سواگت کر رہی تھی۔۔میں اب پھر سے اس آگ میں جلنے لگی اور دوبارہ سے میرے اندر کا آتش فشاں ابلنے لگا۔۔میری چوت سے رستہ ہوا پانی گل شیر کے لن کو مزید چکنا کر رہا تھا اور وہ بہت آسانی سے میرے اندر باہر کر رہا تھا۔۔۔گل شیر ایک سخت جسم کا مالک تھا ۔ کھیتوں میں کام کر کے اس نے اپنے آپ کو بہت مضبوط کر لیا تھا ۔اور وہ جس طرح مجھے چود رہا تھا مجھے نہیں لگتا تھا کہ وہ بیس پچیس منٹ سے پہلے فارغ ہو گا۔۔۔اسکی دھیمی دھیمی رفتار اب تیز ہو رہی تھی جو مجھے میری منزل کی طرف پہنچا رہی تھی۔۔اگلے پانچ منٹ بعد ہی میں پہلی بار اتنے تیز جھٹکوں کے ساتھ فارغ ہوئی کہ میرا جسم ایک دم اکڑ گیا اور جیسے ہی میری چوت کا آتش فشاں پھٹامیں نے اپنی کمر اٹھا کر گل شیر کو یہ احساس دلایا کہ میں فارغ ہو رہی ہوں اور اسکا لن جڑ تک اپنی چوت میں سما ء لیا۔گل شیر نے بھی جب یہ دیکھا تو اس نے میری ٹانگیں چھوڑ کر اپنا لن پوری طرح میر ی چوت میں گھسا دیا اور میری کمر میں ہاتھ ڈال کر مضبوطی سے مجھے پکڑ لیا تاکہ جھٹکے لگنے سے لن باہر نہ نکلے۔۔اسکا لن میری چوت میں اتنی گہرائی میں چلا گیا تھا کہ لن کی ٹوپی میری بچہ دانی کو چھو رہی تھی اور جیسے ہی وہ بچہ دانی کو چھوتا میں اچھل پڑتی۔۔مجھے ایسا لگتا جیسے کوئی چیز اندر زور سے ٹکرا رہی ہے اور مجھے ایک درد سامحسوس ہوتا تو میں جھٹکا لیتی تو لن تھوڑا ہل جاتا اور دوسری سائڈ ہو جاتا۔۔
قریب دو منٹ تک مجھے وقفہ وقفہ سے جھٹکے لگتے رہے اور پھر ایک دم شانت ہو کر اپنی آنکھیں بند کر کے سکون میں آگئی۔۔۔آج میرے تن بدن کی وہ آگ جو کئی سالوں سے لگی ہو ئی تھی ایک دم سے شانت ہو گئی اور مجھے ایسا لگنے لگا جیسے میرے بدن کا انگ انگ جو ابھی کچھ دیر پہلے شعلوں کی زد میں تھا اب کسی نے اس پر پانی چھڑک دیا ہو اوروہ تمام کے تمام شعلے اب بجھ کر ٹھنڈی راکھ بن گئے ہوں۔۔۔میں اس سکون میں اتنی مگن ہو گئی کہ یہ احساس بھی نہیں کہ گل شیر ابھی تک میری چوت کے اس آتش فشاں کی گہرائی میں اترا ہوا ہے جو کب کا پھٹ چکا اور سارا کا سارا لاوا ٹھنڈا ہو گیا۔۔۔گل شیر نے جب دیکھا کہ میں شانت ہو گئی ہوں اور ہاتھ پھر دھیلے چھوڑ دیئے تب اس نے مجھے پھر سے گرما نے کے لیئے اپنے لن کو دوبارہ اندر باہر کرنا شروع کر دیا ۔وہ آہستہ آہستہ اندرباہر کرتا کرتا اب اپنی رفتار بڑھانے لگا۔۔اور قریب دس منٹ میں میں دوبارہ سے پہلے کی طرح بے چین ہو گئی۔۔۔۔گل شیرنے اب لن کو باہر نکالا اور مجھے کروٹ دلا دی اور خود میرے پیچھے لیٹ کر میرے کولہوں کے بیچ سے لن میری چوت میں ڈالنے لگا۔ اسطرح لن پورا اندر تو نہیں جا رہا تھالیکن مجھے اسطرح بہت مزہ آرہا تھا اور قریب پانچ منٹ اسی طرح کرتے کرتے گل شیر کی آواز کچھ بھرائی۔۔اسکے منہ سے آآآہ ہ ہ ۔۔آآآ۔۔۔کی آوازیں نکل رہی تھیں شاید اب وہ بھی جھڑنے والا تھا۔۔میں نے گل شیر کے جھڑنے کو احساس کو محسوس کیا اور اپنی چوت کو تھوڑا کسا تاکہ میں بھی اسکے ساتھ ہی فارغ ہو جاؤں۔۔اور کچھ ہی دیر میں میری چوت جو دوبارہ سے گرم آتش فشاں بن گئی تھی۔۔اس بار بھی پھٹنے کو تیارہو گئی تھی۔۔مجھے ایسا لگتا تھا جیسے گل شیر میرے اندر ہی فارغ ہونا چاہتا ہے اور میں اسے منہ بھی کیسے کر سکتی تھی۔میں تو چاہتی ہی تھی کہ میں پوری طرح اسکی ہو جاؤں۔۔۔اور پھر وہ وقت آگیا۔۔گل شیر کی رفتار اور جھٹکے اتنے تیز کو گئے کے بیڈ کے ہلنے اور چڑ چڑ کی آوازیں آنے کے ساتھ ساتھ گل شیر کے منہ سے ایک لمبی آآآآآآآآآآآآآآآ۔۔۔۔۔نکلی اور اب کی بارمیرے پھٹنے سے پہلے گل شیر نے گرم گرم لاوا میرے اندر ڈال دیا جسکی گرمائش اور احساس نے میرے اندر کے آتش فشاں کو بھی پھاڑ دیا اور میں بھی گل شیر کے ساتھ جھٹکے لینے لگی۔۔گل شیر نے مجھے مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا اسکے ہاتھوں کے نشانات میری چھاتیوں پر گڑ گئے تھے۔۔۔کچھ ہی دیر میں وہ ٹھنڈا ہونے لگا اور اسکا لن جو کچھ دیر پہلے تک بہت سختی کے ساتھ اکڑا ہوا تھا اب دھیرے دھیرے میری چوت میں سکڑ کر باہر کی طرف نکل رہا تھا۔۔۔ایسا لگتا تھا جیسے اس بار میری چوت کی ناگن جیت گئی اور گل شیر کے ناگ کا دم گھوٹ دیا اور اسکی ساری اکڑ ختم کر کے اپنے منہ سے اگل رہی ہو۔۔۔
۔۔۔لن رستے رستے پورا باہر نکل آیا اور ایک گوشت کے لوٹھرے کی طرح گل شیر کی ٹانگوں کے بیچ لٹک گیا۔۔۔لن کے باہر آنے کے بعد مجھے اسکے منہ سے اُگلی ہوئی منی بھی باہر نکلتی محسوس ہوئی۔۔۔۔
اب میں نے گل شیر کی طرف کروٹ لے لی اور وہ مجھے اتنے پیار بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا جو اس نے اپنی پوری زندگی میں نہیں دیکھا ہو گا۔۔۔اس نے مجھ سے کہا کہ تم نے اپنی ضد کے آگے بڑی ماں کے اعتماد توڑ دیا۔۔۔میں انکے احسان تلے تبا ہوں اور تم نے مجھ سے یہ سب کروا کر مجھے انکی نظر میں گرا دیا ہے ماہی۔۔۔میں اب بڑی ماں سے نظریں ملانے کے قابل نہیں رہا۔۔۔۔۔
گل شیر کی باتیں اپنی جگہ درست تھی لیکن مجھے اس بات کا احساس نہیں ہوتا تھا کیونکہ میرے اندر جو آگ تھی اسنے مجھے اپنی حدوں کو توڑنے پر مجبور کردیا تھا۔۔لیکن جب آج میں نے اپنی خواہش پوری کر لی اور اپنے اندر لگی اُس آگ کو بجھالیا اب مجھے بھی گل شیر کی باتوں کا کچھ احساس ہونے لگا لیکن اب تو سب کچھ ہو چکا تھا۔
میں نے گل شیر کی باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا ۔۔وہ اٹھا اور اپنے کپڑے پہننے لگا اور مجھ سے بھی اپنے کمرے میں جانے کو کہا لیکن میرے اندر اب اتنی ہمت نہیں تھی کہ میں بستر سے زمین پر قدم رکھ سکوں ۔۔۔میں نے کپڑے تو پہن لیئے لیکن چلنے کی ہمت نہیں ہو سکی اور چند قدم چل کر ہی میں گر گئی۔۔گل شیر نے بھاگ کر مجھے اٹھایا اور اپنی گود میں لے لیا۔۔۔گل شیر نے اسطرح مجھے دوسری بار اپنی گود میں اٹھایا ۔۔میں نے بھی اپنے ہاتھ اسکی گردن میں ڈال کر اسے پکڑ لیا۔۔
وہ مجھے اپنے کمرے سے لے کر نکلا اور سیدھا میرے کمرے کی جانب بڑھا اور اوپر سیڑھیوں چڑھ کر مجھے میرے کمرے میں بیڈ پر لے گیااور لٹا کر خود واپس جانے لگا۔۔لیکن میں نے جھٹ سے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنی جانب کھینچ کراسکے ہونٹوں پر کس کی اور اسکا شکریہ ادا کیا۔۔۔اسنے میری طرف مسکرا کر دیکھا لیکن میں ان مسکراتی آنکھوں کے پیچھے چھپے اس احساس کو محسوس کر رہی تھی جو گل شیر کے من میں بڑی ماں سے بے وفائی اور انہیں دھوکا دینے کی وجہ سے پیدا ہو رہا تھا۔۔۔
اسکا دل اسے بہت ملامت کر رہا تھا اور وہ میری خاطر اپنے چہرے پر مسکراہٹ لا کر مجھ سے وہ سب کچھ چھپا رہا تھاجسے میں جانتی تھی۔۔۔
اس دن کے بعد سے گل شیر نے مجھے سے بات نہیں کی اور ایک ہفتہ اسی طرح گزر گیا۔وہ مجھ سے بہت دور دور رہنے لگا۔۔دن کا سارا وقت کھیتوں میں گزار دیتا اور رات کو جب آتا تو سیدھا اپنے کمرے میں جا کر کمرہ بند کر لیتا۔۔۔میں نے کئی بار اس سے ملنے کی کوشش کی لیکن اسنے ملنے سے صاف انکا ر کر دیا۔۔میں نے اس سے کہا کہ وہ بڑی ماں سے ہماری شادی کی بات کرے اس طرح تمہیں بڑی ماں کو دھوکا دینے کی سزا مل جائے گی اور مجھے میرا جیون ساتھ ۔۔۔۔لیکن وہ مجھے اس بات کا کوئی جواب نہیں دیتا اور میں وجہ جانتی تھی۔۔۔وہ کس طرح میرا ہاتھ مانگ سکتا تھا۔وہ تو کسی غریب کسان کا لڑکا تھا جسے بڑی ماں نے پال پوس کر اپنے احسانوں تلے اتنا دبا لیا تھا کہ وہ اس طرح کی جرائت کبھی نہیں کر سکتا تھا۔۔۔اور دوسرا میری خود کی ماں تو گل شیر کو بچپن سے پسند نہیں کرتی تھیں وہ کیسے اپنی بیٹی کاہاتھ ایک کسان کے بیٹے کے ہاتھ میں دے سکتی تھیں۔۔۔یہ سب سوچ کر مجھے میری منزل بہت دور نظر آتی ۔۔
دوسرے ہی دن گھر میں بہت تیاریاں ہونے لگیں اور میں حیران تھی کہ اتنا سب کچھ کس کے لئے ہو رہا ہے۔۔۔میں اسی تجسس میں تھی کہ رانی میرے کمرے میں آئی تو میں نے اس سے پوچھا کہ آج اتنی تیاریاں کس کے لیئے ہو رہی ہیں تو اسنے بتایا کہ آپ کی پھوپھی جان شہر سے آرہی ہیں۔۔پھوبھی جان۔۔۔۔میں نے حیرت سے پوچھا۔۔۔کیونکہ آج کئی برس گزر جانے کے بعد اچانک پھوپھی جا ن کو کہاں سے ہماری یاد آگئی۔۔خیر میں نے رانی کو جانے کو کہا اور خود بڑی ماں کے کمرے میں چلی گئی اور ان سے اچانک پھوپھی کے آنے کی وجہ پوچھی تو بڑی ماں کا جواب سن کر میرے تو اوسان ہی خطا ہو گئے۔۔پھوپھی جان اپنے بیٹے کے لیئے میرے رشتہ کی بات کرنے آرہی تھیں جو بچپن میں ہی میرے والد نے میری پیدائش کے بعد ہی پھوپھی کے بیٹے سے طے کر دیا تھا۔۔ویسے تو پھوپھی کو مجھ سے زیادہ میرے حصے کی جائیداد سے پیار تھا شاید ورنہ وہ شہر کے ماڈرن ماحول میں پلے بڑھے بیٹے کے لیئے ایک گاؤں کی حویلی میں رہنے والی سیدھی سادھی لڑکی کو کہاں پسند کرتیں اور خود انکا بیٹا سب سے پہلے انکار کر دیتا۔۔۔۔
میں اب بوکھلا گئی۔مجھے اپنی خوشیوں کا جنازہ نکلتا نظر آیا۔۔۔میں نے اپنی بھرائی ہوئی آواز میں بڑی ماں سے کہا ۔۔بڑی ماں۔۔۔ آپ لوگوں نے اتنی بڑی بات مجھے بتائی تک نہیں۔۔۔کم از کم مجھ سے تو پوچھ لیا ہوتا۔۔۔ میری اس جرائت مندانا بات کو سن کر بڑی ماں نے کچھ غصے سے میری طرف دیکھا اور کہا ماہی۔۔۔کیا تم بھول گئی ہو ہمارے ہاں لڑکیوں کے رشتہ بچپن میں ہی طے ہو جایا کرتے ہیں اور ایک بار جو زبان دے دی جائے اس سے کبھی پیچھے نہیں ہٹتے۔۔اور تمہاری پھوپھی(رابعہ)کو میں نے اپنی طرف سے ہاں کہہ دی ہے لہذا جو میں فیصلہ کر چکی ہوں تمہیں اسی پر عمل کرنا ہو گا۔۔۔بڑی ماں یہ کہہ کر غصے میں اپنے کمرے سے باہر چلی گئیں اور میں وہیں کھڑے کھڑے صوفے پر گر گئی۔۔میری نظریں نیچے زمین پر گڑ گئی اور مجھے ایسا لگنے لگا جیسے یہ زمین گول گھول گھوم رہی ہے اور میں ابھی چکرا کر گر جاؤں گی۔۔کچھ دیر ہوش سنبھال کر میں اپنے کمرے میں آئی اور دروازہ بند کر کے بہت روئی۔۔اتنا روئی کہ میری آنکھوں میں لالی اتر آئی اور آنکھوں کے گرد گہرے بن گئے۔۔۔رانی نے جب میرے کمرے کا دروازہ کھٹکٹایا تو میں نے دروازہ نہیں کھولا اور وہ واپس جا کر بڑی ماں سے کہنے لگی تو بڑی ماں نے گل شیر کو بھیجا کہ تم جاؤ اور ماہی کو نیچے بلا لاؤ۔۔ گل شیر اوپر آیا اور مجھے آواز دی۔ گل شیر کی آواز سن کر میں فوراً بھاگی اور جھٹ سے دروازہ کھول دیا۔۔گل شیر نے میری یہ حالت دیکھی تو وہ کمرے میں اندر آگیا اور دروازے کی کنڈی لگا لی۔۔میں جھٹ سے اسکی باہوں میں لپٹ گئی اور رونے لگی۔۔۔گل شیر۔۔۔۔میں مر جاؤں گی تمہارے بغیر۔۔۔میری آنکھوں سے آنسوں کی دھارا بہہ نکلی۔۔۔جو میرے گالوں سے ہوتے ہوئے گل شیر کے کندھوں پر گرنے لگی۔۔۔گل شیر نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے ہاتھوں کو میری کمر کے گرد کس لیا اور مجھے اپنے سینے سے لگا لیا۔۔۔شاید اس خبر سے وہ خود بھی ٹوٹ گیا تھا لیکن اسے اپنی چاہت اور محبت سے زیادہ بڑی ماں کا فیصلہ عزیز تھا ۔وہ اپنی محبت تو چھوڑ سکتا تھا لیکن بڑی ماں کے فیصلے سے کبھی انکار نہیں کر سکتا تھا۔۔۔کچھ دیر میرے سینے سے لگے رہنے کے بعد اسے فوراً یاد آیا کہ وہ مجھے بلانے آیا تھا۔ ۔میں نے جانے سے انکار کر دیا تو اسنے مجھے سے نیچے چلنے کی درخواست کی اور میں اسے منع نہ کر پائی ۔۔میں نے اسے کہا چلو تو اسنے مجھے روکا اور کہا میں نیچے جاتا ہوں تم اپنا چہرہ زرا ٹھیک کر آؤ۔تمہاری آنکھیں لال پڑ گئی ہیں اور چہرہ بھی بجھ سا گیا ہے۔۔
میں نیچے پہنچی تو بڑی ماں اور میری ماں نیچے میرا انتظار کر رہے تھیں کیونکہ کچھ ہی دیر میں پھوپھی آنے والی تھیں نواز بخش انہیں لینے اسٹیشن گیا ہوا تھا۔۔۔میرے چہرے کو دیکھ کر بڑی ماں کو اچھی طرح اندازہ تھا کہ میں بہت روئی ہوں اور میں اس رشتہ سے خوش نہیں ہو ں لیکن ہمارے ہاں ایک بار زبان دے دی جائے تو واپس نہیں ہوتی۔۔میں بیٹھ گئی اور نظریں نیچے کرے فرش کو گھوڑتی رہی اور دل میں گل شیر سے جدائی کا صدمہ مجھے اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا کہ باہر سے گاڑی کے ہارن کی آواز آنے لگی۔بڑی ماں اپنی جگہ بیٹھی رہیں اور میری ماں اور گل شیر جو پاس ہی کھڑا تھا باہر مہمانوں کو لینے چلے گئے۔۔بڑی ماں نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا دیکھو ماہی۔۔۔ تمہاری پھوپھی سے یہ رشتہ میں نے نہیں تمہارے باپ نے تمہارے پیدا ہوتے ہی کر دیا تھا اور میں جانتی ہوں تم اپنے باپ کے اس فیصلے کو ٹھکرا کر اسے تکلیف نہیں دو گی۔۔۔میں یہ بھی جانتی ہوں کہ تمہاری پھوپھی کو تم سے محبت کم اور تمہارے حصے کی جائیداد سے زیادہ محبت ہے اسی لیئے وہ اس اتنے عرصے بعد اس رشتے کو نبھانے چلی آئی۔۔۔مجھے خود یہ رشتہ پسند نہیں لیکن میں اپنے بیٹے کی دی ہوئی زبان سے کبھی مکر نہیں سکتی اور تم سے بھی یہی امید رکھتی ہوں۔۔
بڑی ماں نے اتنی ہی باتیں کہیں تھیں کہ دورازے سے پھوپھی اور پھوپھا اور انکا بیٹا بلال میری ماں اور گل شیر کے حمراہ ہماری جانب آنے لگے۔۔۔ پھوپھی آتے ہی بڑی ماں کے گلے لگ گئیں اور بڑی ماں نے اپنی بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھا۔پھر انکے شوہر کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر بلال کو گلے لگایا۔۔ اتنے میں پھوپھی میری طرف بڑھیں اور میری چہرے کو جو نیچے زمین کی جانب دیکھ رہا تھا اپنے ہاتھ سے اٹھایا اور چشمے بد دور کہتی ہوئی مجھے گلے سے لگا لیا۔۔۔پھوپھا نے بھی میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور سب لوگ بیٹھ گئے اور پرانی باتیں یاد کر کے کبھی ٹھٹھا لگاتے اور کبھی کسی غمگین بات پر اداس ہو جاتے۔۔۔ لیکن میں ان سب کے بیچ بیٹھی ایک بت کی طرح نہ اپنے چہرے پر ہنسی لائی اور نہ کوئی بات کہی۔۔۔بڑی ماں کافی دیر سے مجھے نوٹ کر رہی تھیں انہوں نے مجھے کہا کہ میں اوپر چلی جاؤں اور پھوپھی لوگوں کو بھی انکے کمرے دکھانے کے لیئے میری ماں کو انکے ساتھ روانہ کر دیا۔۔۔۔پھوپھی لوگوں کے وہاں سے جاتے ہی میں بھی اپنے کمرے کی جانب جانے لگی تو بڑی ماں نے ایک بار پھر مجھ سے کہا کہ ماہی۔۔۔مجھے تم سے اچھی امیدیں ہیں۔تم اپنے باپ کی عزت کو کبھی مٹی میں نہیں ملاؤ گی۔۔۔اور میں ہلکی سی گردن ہاں میں ہلا کر سیڑیوں پر چڑہتی ہو ئی اپنے کمرے میں آگئی اور دروازہ بند کر کے کنڈی لگاتے ہی دروازے سے ٹیک لگاکر وہیں زمین پر بیٹھ گئی اور زارو قطار رونے لگی۔روتے روتے میری ہچکیاں بندھ گئیں۔۔اور میں با مشکل اپنے بیڈ تک پہنچی اور ایک لاش کی طرح گر گئی۔۔۔
رات کھانے پر میں نے تبعت کا بہانا کر کے نیچے جانے سے منع کر دیا اورسب لوگوں نے میرے بغیر کھانا کھا لیا۔ بڑی ماں سب کو میری تبعیت کا کہ کر میرے نیچے آنے کی معزرت کر لی کیونکہ وہ جانتی تھیں مجھ پر کیا بیت رہی ہے اور میں نیچے آئی تو پھوپھی اسکی سرخ ہوتی آنکھوں سے اندازہ لگا لیں گی کہ وہ اس رشتہ سے خوش نہیں ۔۔۔کھانا کھاتے کھاتے پھوپھی نے بڑی ماں کو بتایا کہ وہ صرف ایک دن کے لیئے آئی ہیں انکے شوہر ایک بزنس مین ہیں اور بڑی مشکل سے ایک دن کا ٹائم نکال کر یہاں آئے ہیں اس رشتہ کہ لیئے اور ہم چاہتے ہیں کہ جلد سے جلد بلال اور ماہی کی شادی کی تاریخ طے کر لیں ۔ بڑی ماں نے ابھی کچھ وقت مانگا کہ ماہی کی پڑھائی ختم ہو جانے دو پھر کر لینا شادی لیکن پھوپھی کی ضد پر بڑی ماں نے اگلے مہینے کی تاریخ دے دی۔۔۔سب لوگ بہت خوش تھے سوائے ہم تینوں کے۔۔میں ،بڑی ماں اور تیسرا میرے سپنوں کا شہزادہ گل شیر۔۔۔۔
اگلے دن وہ لوگ واپس چلے گئے اور میں نے بڑی ماں سے ایک بار پھر شکوہ کر دیا کہ آپ نے اتنی جلدی شادی کی تاریخ کیوں دے دی۔۔تو بڑی ماں نے صرف اتنا کہا کہ وہ زیادہ دن میرا اداس چہرہ نہیں دیکھ سکتیں۔۔۔شادی جتنی لیٹ ہو گئی ماہی تم اتنا ہی اس آگ میں جلو گی اور مجھ سے یہ سب نہیں دیکھا جاتا۔۔
اب میں روز گھنٹوں اپنے کمرے میں قید رہتی کسی سے کوئی بات نہ کرتی سوائے گل شیر کے۔ ۔۔ وہ جب بھی مجھے نظر آجاتا میرے چہرے سے اداسی ایسے بھاگ جاتی جیسے میری زندگی میں صرف بہار ہی بہار ہو۔۔۔
ایک روز پھوپھی کا فون آیا کہ ماہی کو شہر بھیج دیں وہ شادی کا جوڑا ماہی کی پسند کا خریدنا چاہتی ہیں۔بڑی ماں نے انکار نہ کیا اور گل شیر کو بلا کر کہہ دیا کہ وہ کل ماہی کو شہر رابعہ کے گھر لے جائے اور شاپنگ وغیرہ کر کے اپنے ساتھ ہی واپس لے آنا۔۔۔میں جانا تو نہیں چاہتی تھی لیکن گل شیر کے ساتھ کچھ گھنٹے اکیلے میں مل جائیں گے اس سے بڑھ کر میرے لیئے اور کیا بات ہو سکتی تھی۔۔
اگلے دن میں تیار ہو کر گل شیر کے ساتھ شہر کے لیئے روانہ ہو گئی ۔۔کافی دور تک گل شیر نے مجھ سے ایک لفظ بھی بات نہ کی ۔اب وہ بھی چاہتا تھا کہ میں اسے بھول کر اپنے ہونے والے شوہر کے بارے میں سوچوں۔۔۔سفر اسی طرح چلتا رہا اور میری آنکھوں سے مسلسل جاری آنسوں نے میرے گالوں پر ایک لکر سی بنا دی تھی اور آنسوں کے گرنے سے میرے سینے پر سے میری قمیض بھی گیلی ہو گئی تھی۔۔گل شیر سے یہ برداشت نہیں ہوا اور وہ خود ہی بول پڑا۔۔۔ ماہی۔۔۔پلیز ایسا مت کرو۔۔۔ تمہیں اپنے والد کی دی ہوئی زبان کے لیئے اپنے پیار کی قربانی دینی پڑے گی۔۔اور میں بھی بڑی ماں کے احسانوں کا بدلا اپنی جان کو اپنے سے دور کر کے چکا دوں گا۔۔۔گل شیر کے منہ سے ’’اپنی جان‘‘ کا لفظ سن کر میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔گل شیر نے گاڑی سائڈ میں روک لی اور گاڑی کے رکتے ہی میں نے اپنا سر اسکے کندھوں پر رکھ دیا ۔۔۔میرے آنسوں میرے ضبط کے اختیار سے باہر تھے۔۔گل شیر نے اپنا ہاتھ میرے گالوں پر رکھ دیا اور اپنا سر میرے سر سے ٹکا دیا۔۔۔ مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ اتنی ہمت والا شخص بھی کبھی رو سکتا ہے۔۔۔ گل شیر کی آنکھ سے ایک آنسوں نکلا اور میرے گالوں پر گرا تو میں نے فوراً اپنی گردن اسکے چہرے سے اٹھائی اور اسکی طرف دیکھا تو دونوں آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔۔میں نے اپنے ہاتھ کی ہتھیلی سے اسکے گالوں پر بہتے آنسوؤں کو صاف کیا اور خود بھی اپنے دوپٹہ سے اپنے آنسو صاف کیئے اور گل شیر سے کہنے لگی پلیز تم مت رو۔۔۔ میرا سینا پھٹ جائے گا ورنہ ۔۔۔اور یہ کہ کر میں ایک بار پھر پھوٹ کر رو دی۔۔۔ اب کی بار میں نے اپنے دونوں ہاتھوں میں اپنا چہرہ چھپا لیا اور خوب روئی۔۔۔گل شیر کچھ نورمل ہوا تو گاڑی اسٹارٹ کر دی ۔۔اسنے مجھے رونے دیا تاکہ میرے دل کا غبار نکل جائے۔۔۔
وقت کا پتا بھی نہیں چلا اور شام سے پہلے ہم شہر پہنچ گئے۔۔گھر پہنچتے ہی پھوپھی نے میرا استقبال کیا ۔پھوپھا تو اپنے بزنس میٹنگ میں مصروف رہتے اور بلال کا کچھ پتا نہیں کہا تھا۔۔۔خیر کچھ دیر آرام اور فریش ہونے کے بعد پھوپھی نے مجھے بازار چلنے کو کہا۔شام ہو گئی تھی اور سورج ڈھلنے والا تھا۔ لیکن شہر میں تو دوکانیں اصل میں رات کو ہی چلتی تھیں۔۔۔گل شیر نے ہمیں اپنی گا
گل شیر نے ہمیں اپنی گاڑی میں لے جانا مناسب سمجھا اور کچھ ہی دیر میں ہم لوگ بازار پہنچ گئے۔۔پھوپھی نے گل شیر کو گاڑی میں ہی بیٹھنے کو کہا لیکن میں نے ساتھ چلنے کو کہا تو پھوپھی نے منع کر دیا ۔۔شاید وہ بھی میری ماں کی طرح گل شیر کو ایک غریب کسان کی اولاد سمجھتی تھیں جسے بڑی ماں نے اپنا نوکر بنا رکھا ہے۔۔وہ اسے اپنے ساتھ لے جانا اپنی شان کے خلاف سمجھتی تھیں۔۔خیر کافی دیر شاپنگ کے بعد ہم واپس آئے تو رات کے بارہ بج چکے تھے جو شہر میں آم سی بات تھی لیکن گاؤں میں تو یہ ہماری آدھی رات ہوتی تھی۔۔۔کھانا وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد پھوپھی نے گل شیر کو باہر نوکروں کے ایک کواٹر میں جا کر سوجانے کو کہا لیکن میں نے پھوپھی سے مزاحمت کرنی چاہی تو گل شیر نے مجھے آنکھ کے اشارے سے روک دیا اور خود باہر کواٹر کی طرف چلا گیا۔۔۔پھوپھی کی اس حرکت نے میرا خون جلا دیا تھا۔۔۔جو میرے سپنو کاشہزادہ ۔میرا راج کمار تھا اسے پھوپھی نے ایک نوکر کہ کر میرا سارا سکون چھین لیا تھا۔۔۔
پھوپھی نے مجھے میرا کمرہ دکھایا اور خود نیچے آگئیں۔۔وہ کافی دیر نیچے ٹہلتی رہیں کیونکہ بلال ابھی تک گھر نہیں آیا تھا اور قریب رات ایک بجے وہ نشہ کی حالت میں دھت لڑکھراتا ہوا آیا تو پھوپھی نے اسے جھٹ سے پکڑ کر اوپر میرے کمرے کے برابر والے کمرے میں لے گئیں تاکہ کہیں ہمیں اس کی اصلیت پتا نہ چل جائے۔۔
انہوں نے کمرے میں لے جا کر اسے خوب بکا اور کہا کہ برابر والے کمرے میں ماہی ہے خبردار اگر تم اس حالت میں اسکے سامنے گئے۔۔وہ کافی سمجھا بجھا کر اپنے کمرے میں چلی گئیں۔۔اور کچھ ہی دیر میں جب اسکا نشہ سر چڑھ کر بولنے لگا وہ اپنے بستر سے اٹھا اور میرے کمرے کی جانب بڑھا لیکن دروازہ اندر سے لاک تھا ۔۔۔۔ اسے ڈپلیکیٹ چابی کا پتا تھا وہ فوراً گیا اور چابی سے دروازہ کھول کر چابی دروازے میں لگی چھوڑ دی اور اندر سے لاک کر لیا۔۔۔میری ابھی ابھی آنکھ لگی تھی۔ دن بھرسفر کی تھکاوٹ اور پھر بازار میں رات تک شاپنگ نے مجھے چکنا چور کر دیا تھا اور میں لیٹتے ہی سو گئی۔۔بلال میرے نزدیک آیا اور پہلے میرے چہرے کو دیکھتا رہا پھر اس نے جیسے ہی کمرے کی لائٹ کھولی تو میں نے اپنا دوپٹہ اتار رکھا تھا اور کروٹ لینے کی وجہ سے میرے گلے سے میرے ممے باہر کو نکل رہے تھے۔۔جنہیں دیکھ کر وہ اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا اور میری چھاتیوں کو پکڑ کر دبا دیا ۔۔میں ایک دم سے گھبرا کر اٹھ گئی۔۔میں نے بلال کو کہا تم یہاں کیا کر رہے ہو اور تم اندر کیسے آئے۔۔
وہ لڑکھڑاتا ہوا میرے نزدیک آنے لگا جس سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ شراب پیا ہوا ہے۔۔۔اب مجھے اس سے گھن آنے لگی اور میں دروازے کی طرف ڈوری تو اسنے جھٹ سے مجھے پیچھے سے پکڑ کر زمین پر گرا دیا۔۔میں چیخنے لگی اور ایک ہی چیخ نکل پائی تھی کہ اسنے اپنے ہاتھ سے میرا منہ بند کر دیا۔۔۔اور میرے اوپر میرے کولہوں پر بیٹھ گیا۔۔۔ادھر گل شیر کو بھی شاید نیند نہیں آرہی تھی اور وہ بیٹھا سوچوں میں گم تھا کہ اسکے موبائل کی بیل بجی اسنے جیسے ہی موبائل اٹھایا تو بڑی ماں کا فون تھا۔ انہیں بھی نیند نہیں آرہی تھی اور ایک انجان سا خوف تھا ماہی کی طرف سے۔۔انہوں نے گل شیر سے پوچھا کہ سب تھیک تو ہے نہ۔۔ تو گل شیر نے بتایا ہاں بڑی ماں سب تھیک ہے۔۔۔ابھی گل شیربڑی ماں سے باتیں ہی کر رہا تھا کہ اچانک اسے کسی کے چیخنے کی آواز سنائی دی ۔۔۔وہ جھٹ سے اٹھا اور بڑی ماں سے کہا کہ گھر میں کسی کے چیخنے کی آواز آرہی ہے میں جا کر دیکھتا ہوں۔۔بڑی ماں نے بھی میری چیخنے کی آواز سنی ہو گی۔ انکا دل دھڑکنے لگا اور گل شیر لائن کاٹ کر اندر کی طرف بھاگا۔۔آواز اوپر سے ماہی کے کمرے سے آرہی تھی وہ جھٹ سے سیڑیوں پر چڑہتا ہوا دروازے تک پہنچا جہاں جابیاں پہلے ہی لگی تھیں گل شیر نے جیسے ہی دروازہ کھولا بلال نے ماہی کو دبوچا ہوا تھا اور اسکی قمیض بھی سینے کی طرف سے پھاڑ دی تھی جسمیں سے ماہی کی بریزر تک نظر آرہی تھی۔۔۔گل شیر ایک شیر کی طرح بلال پر لپکا اور اسے خوب مارا۔۔اتنے میں پھوپھی بھی آگئی اور انہوں نے جب اپنے بیٹے کو پٹتے ہوئے دیکھا تو بھاگ کر گل شیر کو روکا اور اپنے بیٹے کو بچایا۔۔۔گل شیر کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا ۔ میں اپنی پھٹے ہوئے کپڑوں میں سے نظر آتے اپنے جسم کو چھپانے کے لیئے گل شیر کے پیچھے کھڑی ہو گئی۔۔۔
اتنے میں بلال جسکی ناک سے خون نکل رہا تھا اسکا سارا نشہ اب اتر چکا تھا۔۔اسنے فوراً چالاکی دکھائی اور بولا مما میں اپنے کمرے سے نکل کر نیچے آرہا تھا تو مجھے ماہی کے کمرے سے باتیں کرنے کی آوازیں آئیں میں نے دیکھا تو دروازہ کھلا تھا میں اندر آیا تو ماہی گل شیر کے ساتھ بیڈ پر مستی کرنے میں مصروف تھی اور مجھے دیکھتے ہی یہ دونوں مجھے پھنسانے کے لیئے مجھے مارنے لگے اور ماہی نے اپنے کپڑے خود پھاڑ لیئے مجھ پر الزام لگانے کے لیے۔۔۔
پھوپھی جو اپنی اولاد کو اچھی طرح جانتی تھیں انہیں پتا تھا کہ یہ کام انکی اپنی اولاد کا ہے اور الزام گل شیر پر لگا رہا ہے۔۔پھوپھی نے بھی بلال کی طرف داری شروع کر دی اور یہ سب سن کر میرے اوسان خطا ہو نے لگے۔۔اتنے میں گل شیر کا موبائل بجا تو پھوپھی نے جھٹ سے موبائل چھین لیا اور گل شیر پھوپھی کے بڑے ہونے کی وجہ سے کچھ نہ کہ سکا ۔۔ فون بڑی ماں کا تھا۔۔اور پھوپھی نے فون کان سے لگاتے ہی ناٹک کرنا شروع کردیا اور سارا قصور گل شیر کا بتا دیا کہ وہ ماہی کے کمرے میں گھس کر اس کی عزت سے کھیلنا چاہتا تھا ۔۔۔بڑی ماں نے فوراً فون رکھا اور رات کے دو بجے گاؤں سے شہر کے لیئے روانہ ہو گئیں۔۔۔ہم سب بھی نیچے آگئے اور بڑی ماں کے آنے کا انتظار کرنے لگے۔۔پھوپھی کو اس بات کا اطمینان تھا کہ بڑی ماں گل شیر کو اپنے گھر سے دھکے دے کر نکال دیں گیں۔۔
صبح کے پانچ بجے باہر سے گاڑی کی آواز آئی۔۔نواز بخش ہواؤں کی طرح بڑی ماں کو اڑاتا ہوا شہر لے آیا تھا۔۔۔بڑی ماں جیسے ہی اندر آئیں پھوپھی نے اپنا ناٹک شروع کر دیا اور روتے روتے سارا الزام گل شیر پر ڈال دیا۔۔گل شیر ایک سائڈ پر کھڑا تھا اور میں صوفے پر بیٹھی گل شیر کی چادر کو اپنے تن سے لگائے بیٹھی تھی۔ بڑی ماں کے آتے ہی میں بھی اپنی جگہ کھڑی ہو گئی اور رونے لگی ۔۔بڑی ماں نے پھوپھی کی بات سن کر گل شیر کی طرف دیکھا جو سر جھکائے کھڑا تھا۔۔اور تیز قدموں سے اس کی طرف بڑھنے لگیں۔ انہوں نے مجھ سے کچھ نہیں پوچھا اور میرے برابر سے نکل کر گل شیر کے پاس جا کر رک گئیں اور اسکے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اوپر کیا۔۔اور ایک نظر اسکی جھکی نظروں میں دیکھا اور پھر فوراً ہی پلٹ کر بلال کی طرف آئیں اور ایک زور دار تھپڑ ایسا مارا کہ وہ سیدھا زمین پر جا گرا۔۔بڑی ماں کا یہ روپ میں نے پہلی بار دیکھا۔۔پھوپھی نے جب اپنے بیٹے کو چماٹا کھاتے دیکھا تو بھاگ کر اسے اٹھایا اور بڑی ماں سے بولیں کہ قصور آپ کے اس چہیتے نوکر کا جسے آپ نے اتنا سر چڑھا لیا کہ اسنے آپ کی عزت پر ہاتھ ڈال دیا ۔۔آ پ اسے مارنے کی بجائے میرے بیٹے کو مار رہی ہیں۔۔۔
بڑی ماں نے جب گل شیر کی شان میں نوکر کا لفظ سنا تو ان سے یہ برداشت نہ ہوا اور انہوں نے پھوپھی کو بھی ایک زور دار تھپڑ مارا کہ ان کے چودہ تبق روشن ہو گئے۔۔
وہ بھی خاموش سر جھکائے کھڑی ہو گئیں۔۔۔پھر انہوں نے گل شیر کے بارے میں جو کہا وہ سن کر میرا سینا خوشی سے چوڑا ہو گیا۔۔۔۔بڑی ماں نے کہا’’ جسے تم نوکر سمجھتی ہو یہ نوکر نہیں میرا بیٹا ہے۔۔۔یہ میرے شمشیر کا وہ شیر بیٹا ہے جس نے میر اپنی اولاد سے زیادہ میری عزت کی اور میرے فیصلوں کا احترام کیا۔مجھے فخر ہے ایسے بیٹے پراور میں لانت بھیجتی ہوں تم پر تمہاری گھر پر اور اس رشتہ پر۔میں تو شروع سے اس رشتہ کے خلاف تھی لیکن اپنے بیٹے کی دی ہوئی زبان کی لاج رکھی میں نے اور تم نے اسکا یہ سلا دیا‘‘‘ بڑی ماں کے یہ الفاظ گل شیر کی شان کے عین مطابق تھے۔وہ سچ میں اتنی محبت اور عزت کا حق دار تھا۔۔
پھر بڑی ماں نے پھوپھی کو کہا سچ یہ ہے۔۔انہوں نے اپنا موبائی نکالا اوربتایا کہ جب تمہارا بیٹا ماہی کے کمرے میں زبردستی گھسا اور ماہی نے چیخ ماری اسوقت میں گل شیر سے فون پر بات کر رہی تھی اور میں نے خود اپنے کانوں سے ماہی کی آواز سنی تھی۔۔۔اگر میرے پاس یہ ثبوت نہ ہوتا تو آج تم میرے بیٹے کو میری نظروں میں گرا دیتیں۔۔۔بس اتنا کہ کر ہم وہاں سے نکل پڑے ۔۔میں ،بڑی ماں اور گل شیر ایک ہی گاڑی میں واپس آئے اور واپسی پر بڑی ماں نے گل شیر کے سر پر ہاتھ پھر کر اسے میری عزت بچانے پر شکریہ ادا کیا ۔یہ منظر دیکھ کر پیچھے کی سیٹ پر بیٹھی میں اپنی آنکھ سے خوشی سے نکلنے والے آنسوؤں کو نہ روک پائی۔۔۔
گھر پہنچے تو دوپہر کا وقت تھا ۔۔۔ میں ابھی تک گل شیر کی چادر اوڑھے ہوئے تھی۔۔۔ اندر آتے ہی بڑی ماں نے میری ماں کو آواز دی اور ایک ایسا فیصلہ سنایاکہ جسے سن کر میں خوشی سے رونے لگی۔۔
بری ماں نے سب کے سامنے گل شیر کو اپنا بیٹا بنایا اور جائیداد کا وارث بھی۔۔اور ساتھ ہی میرا ہاتھ پکڑ کر گل شیر کے ہاتھ میں دیتے ہوئے یہ کہا کہ آج سے یہ ماہی کا ہونے والا شوہر اور اس گھر کا نیا وارث ہے۔۔۔
یہ سنتے ہی میں تو خوشی سے روتے ہوئے بڑی ماں کے گلے لگ گئی اور گل شیر ابھی تک اپنے اوسان بحال نہیں کر پایا تھا۔۔بڑی ماں نے میرے ساتھ اسے بھی اپنے دوسرے کنڈھے سے لگا لیا ۔۔۔
ابھی ہماری شادی کو کچھ ہی دن گزرے تھی کہ رامو کاکا یہ خبر لے آئے۔۔۔بڑی ماں ابھی تک ہسپتال میں بیٹھی تھیں اتنے میں پولیس بھی آگئی اور بڑی ماں نے پولیس کو اصلی قاتل کا بتا یا ۔۔انکا شک بلکل تھیک تھا ۔۔وہ بلال کے بھیجے ہوئے آدمی تھے جنہوں نے گل شیر کو گولی ماری۔۔پولیس نے فوراً ہی شہر سے بلال کو گرفتار کر وا لیا۔
یہ میری خوش قسمتی تھی کہ گل شیر کی جان بچ گئی اور کچھ ہفتوں ہپستال میں رہنے کے بعد وہ لکڑی کے سہارے چلتے ہوئے دوبارہ حویلی میں آگئے اور آہستہ آہستہ انکا زخم بھر گیا اور وہ ٹھیک ہو گئے۔۔۔گل شیر اب بھی مجھے اسی طرح پیار کرتے ہیں۔۔اوریہ میرے اندر کی آگ ہے جو ختم ہی نہیں ہوتی لیکن اب میرے پاس گل شیر ہیں جیسے ہی میری چوت کا آتش فشاں میرے اندرگرمی پیدا کرتا ہے میں اسے گل شیر کے لن سے ٹھنڈا کر لیتی ہوں۔۔۔نو مہینے بعد میں گل شیر کے بچے کی ماں بن گئی اور بڑی ماں کو ایک وارث مل گیاجسمیں انکے بیٹے شمشیر کا خون بھی شامل تھا۔۔۔۔
ایک تبصرہ شائع کریں for "ہوس کا الاؤ"