ندیم تابش اٹھائیس سالہ ایک خوبرو مرد تھا اسے خدا نے مردانہ حسن سے جی بھر کر نوازا تھا کس مہ وش میں اتنا دم تھا کہ اسے ایک دفعہ دیکھ کر دوبارہ نہ دیکھنا چاہے وہ میڈیکل کا اسٹوڈنٹ تھا اور یہ اس کا آخری سال تھا ساری یونیورسٹی میں اس کی ذہانت خدا ترسی کے چرچے تھے اسے سب دوست پیار سے جان کہتے تھے ایسا کون سا میدان تھا جہاں کا وہ شہ سوار نہیں تھا شاعری ہو یا سنگنگ کے میدان ہوں یا لڑکیوں کو لوٹنے کے وہ ہر فن میں اپنی مثال آپ تھا – جب وہ اشعار کہتا تو ایک منجا ہوا شاعر لگتا اور جب وہ یونیورسٹی میں یاں کسی بھی فنکشن میں اپنی آواز کا جادو جگاتا تو سننے والا بے ساختہ کہہ اٹھتا ایسی سنگنگ تو اس سانگ کے اصل سنگر نے بھی نہیں کی ھو کیا غضب کی آواز ہے وہ بہت ساری دل پھینک لڑکیوں کا محبوب تھا وہ جس سے ملتا اس سے باتیں ہی ایسی کرتا وہ خود کو دنیا کی خوش نصیب لڑکی تصور کرتی کسی کو اس کی شاعری پسند تھی اور کسی کو سنگنگ کوئی اس کی وجاہت کی دیوانی تھی تو کوئی اس کی اعلیٰ ذہانت کی اور ان مہکتی اور مچلتی جوانیوں سے لطف اندوز ہونے کے سارے ہی گر جانتا تھا اگر کوئی لڑکی اس کو بھا جاتی اور وہ اس کی ان خوبیوں پر فدا نہ ہوتی تو بھی اس کے ترکش میں چند ایسے تیر بھی تھے جو کبھی خطا نہ جاتے اس نے اپنے بارے میں مشہور کر رکھا تھا وہ محبت کے معاملے میں زخم خوردہ ہے 'بس ؛؛ بس ان کو ہر دل عزیز کرنے کو اتنا ہی کافی تھا ہر لڑکی یہ سن کر حیران ہوتی کہ کون تھی وہ بدنصیب جس نے اس شہزادے کا دل توڑا اسے اور کیا چاہیے تھا اور ندیم کا طریقہ واردات بھی عام مردوں سے جدا تھا جب کوئی لڑکی قریب آ کر آنچ دینے لگتی تو وہ یوں گم صم ہو کر خلاؤں میں کھو جاتا جیسے اس کے پاس آگ نہیں برف کا تودہ رکھا ہے کافی دیر خلا کی آپ بیتی سننے کے بعد وہ پائپ میں خوشبو دار تمباکو بھرکر فضا میں خوشبو دار دھواں آہوں کی صورت میں چھوڑنے لگتے کڑوے دھوئیں کی جان لیوا خوشبو سے لڑکی کا ارمانوں بھرا چہرہ دھندلانے لگتا تو اس کی معصوم و مصفا آنکھوں میں اپنی ذات کی نفی کا کرب جاگ اٹھتا تب وہ ہر ندی پار کرنے کا تہیہ کر لیتی اور اگر کبھی ندیم کی کوئی دکھتی رگ اس کے ہاتھ آ جاتی تو وہ کچھ اور آگے بڑھنا چاہتی تب ندیم اپنے اسی مار ڈالنے والے انداز میں ایک ٹھنڈی سانس چھوڑتے اور کہتے ' دوست نہ کوشش کرو ! میں اب ان باتوں سے بہت دور ہوں تب وہ لڑکی تڑپ کے پوچھتی پر کیوں جان جی کیوں ؛ وہ تڑپ کے یہی سوال کرتی جاتی تو پھر ندیم ایک اور ٹھنڈی سانس چھوڑتے اور دوبارہ اپنے اندر جذب کر کے کہتے ' چوٹ کھا چکا ہوں ؛ دوبارہ نہیں کھاؤں گا بس اسی وقت وہ لڑکی تڑپ کے پوچھتی کون تھی وہ بد بخت اور کم ظرف تو جان جی اسے نرمی سے ٹوک کر کہتے پلیز اسے کچھ نہ کہو اور دوبارہ سے فضاوں میں دھواں چھوڑنے لگتے 'اہونہہ ! لڑکی کو اس بے وفا لڑکی پر انتہا کا غصہ آتا جو جاتے جاتے جان جی کا دل پتھر کر گئی تھی وہ جب اصرار کرتی کہ اسے بتائیں وہ کون تھی تب ندیم اپنی درد میں ڈوبی آواز میں کہتے میرے ساتھ کھیلتی تھی میرے ساتھ پڑھتی تھی ہم نے کوئلے سے گاؤں کی کچی دیواروں پر اپنے نام لکھتے تھے - چاک کے ٹکڑے سے بیلک بورڈ پرسلام لکھتے تھے - اور آنکھوں کی روشنائی سے ایک دوسرے کے دل پر پیغام لکھتے تھے - یہاں آ کر وہ خاموش ہو جاتے تو وہ لڑکی اضطراب میں ڈوب کر پوچھتی ' پھر ' جان جی پلیز پھر کیا ہوا بتائیں پلیز اور جان جی اس وقت سارے جہاں کا درد اپنے لہجے میں سمو کر کہتے ' پھر اسے عقل آ گئی ' اور دوبارہ سے خاموش ہو کر فضا میں کوئی ان دیکھی سی تحریر پڑھنے لگتے اس وقت وہ لڑکی بے صبری سے کہتی ' جان جی ' اس نے آپ کو چھوڑا کیوں تو جان جی کہتے دوست ہماری وفا ہی ہمارا قصور بن گئی وہ کہتی تھی آپ کو سوائے چاہت کے آتا ہی کیا ہے میں امریکہ جانا چاہتی ہوں اور ندیم آپ نہیں جاؤ گئے اس نے اپنے ایک امریکہ پلٹ کزن سے شادی کر لی اور چلی گئی ساتھ ہی جان جی اپنی آواز اب کی بار نمی پروتے اور اپنی قاتلانہ آواز میں دل نشین لہجے میں شعر کہتے کوئی اس طرح میرے ساتھ عداوت کرتا قید کر لیتا مجھے اور حکومت کرتا .... میں نے کب کہا تھا وہ چھوڑ دے سب کو وہ اپنے انداز سے ہی سہی پر محبت تو کرتا بس یہ یہ سننا تھا کہ جان جی کا شکار وہ لڑکی لرز جاتی جان جی کا اتنا ٹوٹا لہجہ دیکھ کر اور کہتی اف کتنی نادان تھی وہ لڑکی کم ظرف نے ایک ہیرے کی قدر نہیں کی دیکھنا جان جی وہ بھی کبھی سکھی نہیں رہے گئی اسی وقت جان جی اس لڑکی کے منہ پر ہاتھ رکھ کر کہتے نہیں نہیں اسے کوئی بد دعا نہ دو میں تو آج بھی دعا کرتا ہوں وہ جہاں رہے خوش رہے اور جان جی اب اپنے ترکش کا ایک اور تیر چھوڑتے خدا کرے اس کے نصیب کے سارے دکھ مجھے ملیں اور میرے سارے سکھ اس کو اور وہ لڑکی اب دل ہی دل میں سوچتی ایسے دل والے کے لئے تو سب کچھ قربان کیا جا سکتا ہے پھر وہ لڑکی جان جی سے کہتی پلیز کسی ایک ہی خطا میں سب کو تو سزا نہ دیں وہ لڑکی ڈرتی جھجھکتی اس دوراہے پر پہنچ جاتی جہاں لاج کا گھونگھٹ اتار پھینکتے ہیں جان جی آپ کسی کو اپنا لیں تو جان جی کہتے دوست کون لڑکی کسی خالی گھر میں رہنا پسند کرتی ہے میں شاید اب کسی سے پیار نہیں کر سکوں گا یہ سنتے ہی اس لڑکی کے حلق میں آنسوؤں کے گرد باد پھنس جاتے تب جان جی اس لڑکی کے پھول جیسے چہرے پر نظریں گاڑ کر کہتے تم ہی سوچوں کون لڑکی کسی ایسے مرد سے پیار کری گئی جو پہلے ہی کسی کی یاد میں اپنا آپ ہار چکا ھو اپنا سب کچھ لوٹا چکا ھو جس کی راتوں کی نیند اور دن کا سکون کھو چکا ھو نہیں دوست ایسی کوئی لڑکی نہیں ہو سکتی بس اسی وقت وہ لڑکی تڑپ کر بلکنے لگتی ' کیوں نہیں ' جان جی کیا کمی ہے آپ میں آپ جیسا کوئی نہیں ہو سکتا سب ایک جیسی نہیں ہوتیں آپ ایک دفعہ آزما کر تو دیکھیں اس وقت وہ لڑکی اپنی نسوانی آنا کو ایک طرف رکھ کرکہتی جان جی میں آپ کے لئے کچھ بھی کر سکتی ہوں اپنا سب کچھ آپ پر وار سکتی ہوں اب جان جی اپنے ترکش کا سب سے کڑھا اور سخت تیر چلاتے اس لڑکی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی آواز بوجھل کر کے کہتے دوست آپ ابھی یہ نہیں سمجھ رہی کیا کہہ رہی ہیں نادانی کی باتیں کر رہی ہیں ایسا کوئی نہیں کرتا کسی کے لئے سب کہنے کی باتیں ہیں وہ بھی اپنا تن من مجھ پر وارنے کا کہا کرتی تھی اور پھر اب جان جی ایک ٹوٹا ہوا قہقہ لگاتے اور اس لڑکی کو وہی چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے پیچھے سے وہ لڑکی اپنے آپ سے عہد کرتی اگر اس مرد کو نہ پایا تو کچھ نہ کیا اس کی چاہے مجھے کوئی بھی قیمت کیوں نہ ادا کرنی پڑھے آج یہی سب نگینہ جاوید کے ساتھ ہوا تھا وہ ندیم کے جانے کے بعد ابھی تک وہی کھڑی تھی اس کا دل تھا کہ جان جی کے لئے مچلا جا رہ تھا آج اس نے اسی سوچ میں دو پریڈ مس کر دئیے وہ یونیورسٹی کی لائبریری میں اپنا سر میز پر رکھے خاموشی کی آواز میں بلک رہی تھی جان جی جا چکے تھے لیکن ان کی خوشبو ابھی بھی اس کے چار سو پھیلی ہوئی تھی اسی لمحے اس کی دیرینہ دوست عندلیب اسے ڈھونڈتی ہوئی وہاں آ گئی اور اسے اس حال میں دیکھ کر تڑپ کے بولی نگینہ جانو کیا بات ہے تو نگینہ نے اپنی قریبی دوست کے گلے لگ کر آنسوؤں کے دریا بہا دئیے عندلیب پریشان تھی اسے کیا ہوا ہے پھر کافی دیر بعد خود کو سنبھال کر اس نے عندلیب سے کہا تم کو میری قسم سچ بتانا کیا میں خوبصورت نہیں ہوں یہ سن کر عندلیب نے کہا نگینہ صرف خوبصورت کہنا آپ کی توہین ہے آپ تو ایسے جسم کی مالک ھو جوان تو جوان آپ کو دیکھ کر بوڑھوں کے جذبات بھی مچل جاتے ہیں میں نے آج تک آپ جیسی پیاری لڑکی نہیں دیکھی یہ تھا بھی سچ نگینہ جاوید دراز قد لڑکی تھی اس کا فگر ہی ایسا تھا جس کو سب ہی للچائی نظر سے دیکھتے تھے وہ چھتیس ڈی اٹھائیس اڑتیس جیسے فیگر کی مالک تھی اوپر سے اس کا دودھیا رنگ لمبی اور اور ترچھی پلکوں کے نیچے موٹی موٹی آنکھیں اوپر کو اٹھی مغرور ناک صراحی دار لمبی گردن کولہوں سے نیچے تک لمبے اور کالے سیاہ چمکدار بال وہ کتابی حسن کا منہ بھولتا ثبوت تھا جو اسے ایک نظر دیکھ لیتا پھر وہ بے اختیارانہ اسے دوبارہ دیکھنے پر مجبور ہو جاتا عندلیب نے اس سے پوچھا کیا بات ہے تو اس نے اپنی ہمراز دوست کو سب کچھ بتا دیا جسے سن کر عندلیب نے ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا نگینہ وہ بہت رووڈ اور سخت دل کا مالک ہے اس کے خواب اپنی آنکھوں میں مت سجانا ورنہ پچھتاؤ گئی یہاں کی کافی لڑکیاں اسے پانے کے خواب دیکھتی رہی ہیں جان جی کی ایک خوبی یہ بھی تھی اس کے نیچے سے اٹھ کر جانے والی لڑکی نے کبھی اپنی زبان نہ کھولی تھی یہی وجہ تھی وہ سب کی نظر میں گھمنڈی تھا لیکن سچ تو یہ تھا وہ اس یونیورسٹی کی کافی لڑکیوں کو اپنے توانا لن سے نواز چکا تھا ایک دو تو لیکچرار بھی تھیں جن کی ترستی چوتوں کو اس نے اپنے لن سے سیراب کر کے ان کی پیاس مٹائی تھی لیکن پتہ نہیں کیا جادو تھا جہاں زیب کے لن میں جو لڑکی ایک دفعہ اسے اپنی چوت میں لے لیتی وہ ساری عمر کے لئے اس کی غلام ہو جاتی اور اس کے راز کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتی ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ تابش پیلس کے ایک شاہانہ طرز کے بیڈ روم میں آرام داہ کرسی پر ندیم آگے پیچھے جھول رہا تھا - اس نے آنکھیں بند کیں ہوئیں تھیں وہ خیالوں ہی خیالوں میں نگینہ کو بے لباس اپنے بازوؤں کے گھیرے میں دیکھ رہا تھا اسی وقت اس کا اکلوتا دوست عادل نواز تابش کمرے میں داخل ہوا یار کمال ہے ابھی تک تیار نہیں ہوئے چلو جلدی سے اٹھو اور تیار ہو جاؤ جان جی نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا اور زیر لب مسکرا کر بولا آج خیر ہے میرے جگر پرآج بہت جلدی کا بھوت سوار ہے عادل نے اسے گھورتے ہوئے دیکھا اور بولا آج کیا تاریخ ہے ندیم نے بے ساختہ کہا سات جنوری اور ساتھ خود بھی چونک اٹھا اوہ مائی گاڈ آج تو فریال آپی کی شادی کی سالگرہ ہے یہ کہتے ہی وہ تیزی سے اٹھا اور اٹیچ باتھ روم میں گھس گیا وہ آج اپنی روٹین سے ہٹ کر صرف سات منٹ میں غسل کر کے باہر آیا ڈریسنگ روم میں جا کر اس نے ایک سفاری رنگ کا بہترین اور انتہائی قیمتی کپڑے کا لباس پہنا وہ اور عادل دونوں سگے چچا زاد تھے عادل اکلوتا تھا اور ندیم دو بہن بھائی تھے فریال ان دونوں سے دو سال بڑھی تھی دونوں ہی اسے دیوانوں کی طرح پیار کرتے تھے اور دنیا میں اگر ندیم کسی سے مخلص تھا تو وہ دو ہی ہستیاں تھیں ایک عادل دوسری اس کی آپی فریال عادل نے آج بلیک کلر کا سوٹ پہنا تھا جو اس پر کافی جچ رہا تھا لیکن جب ندیم ڈریسنگ روم سے باہر آیا تو بے ساختہ اسے دیکھ کر عادل کے لبوں سے دعا نکلی خدا تجھے نظر بد سے بچائے میرے شہزادے تو واقعی تابش خاندان کا پرنس ہے ندیم کے والد شہباز حیدر تابش جاگیر دار ہونے کے ساتھ ہی بیورو کریٹ بھی تھے وہ وزارت داخلہ میں فرسٹ سیکرٹری تھے - اور عادل کا والد نواز حیدر تابش اپنے حلقے سے ممبر صوبائی اسمبلی بھی تھا اور ساتھ میں اس نے ایک بزنس ایمپائر بھی کھڑی کر رکھی تھی ان کی کئی گھی ملز اور شوگر ملیں تھیں اب عادل نے خود اپنی ذاتی کھاد بنانے کی فیکٹریاں لگائیں تھیں جس میں اس نے جان جی کو پارٹنر رکھا تھا وہ جان جی سے کچھ نہیں چھپاتا تھا لیکن جان جی نے اسے اپنی لوز حرکتوں کی ہوا بھی نہیں لگنے دی تھی وہ خاندان کا سب سے خوبصورت اور مغرور لڑکا تھا جان جی ایک اصول بنا رکھا تھا کہ وہ کسی جاننے والے کی لڑکی سے سیکس نہیں کرے گا یہی وجہ تھا وہ آج بھی اپنے خاندان کی لڑکیوں کے خوابوں کا شہزادہ تھا اب وہ دونوں ہی اپنی ذاتی مرسڈیز میں بیٹھے اور آگے پیچھے ہی ملک ہاؤس ،میں داخل ہوئے جہاں کافی سارے مہمان آ گئے تھے فریال اپنے خاوند کامران ملک کے ساتھ سب کو ویلکم کر رہی تھی ان دونوں کو دیکھتے ہی کامران نے کہا لو جی آ گئے آپ کے شہزادے عادل اور ندیم دونوں نے اپنی گاڑی کھڑی کی اور اپنے اپنے گفٹ کے ڈبے نکال کر اپنی بہن کی طرف بڑھے فریال نے پیار سے دونوں کو ایک ساتھ ہی اپنے گلے لگایا اور باری باری دونوں کا ماتھا چوم کر کہا یار اتنا لیٹ اب عادل نے جان جی کی طرف دیکھا اور کہا آپی کچھ بزی سوری ابھی وہ باتیں کر رہے تھے کہ اسی وقت ان کے والدین کی گاڑیاں بھی داخل ہوئیں وہ سب آگے بڑھے اور سب کو سلام کیا اسی وقت نواز صاحب نے کہا دیکھا بھائی جی میں نہ کہتا تھا عادل یہ دن کبھی مس نہیں کرے گا اب شہباز صاحب نے پائپ کا کش لاگا کر خوشبو دار تمباکو کا دھواں چھوڑا اور بولے بیٹا آپ میرے ساتھ ہی آ جاتے تو جان جی نے حیرت سے پوچھا کہاں سے پاپا تب وہ بولے یار ایک بزنس میٹنگ تھی آج عادل کی اسلام آباد میں یہ صبح تو وہی تھا کیا بنا اس میٹنگ کا مجھے باقری صاحب بتا رہے تھے آپ نے ان سے کہا ہے کل کا وقت رکھ لیں بیٹا وہ پارٹی بیرون ملک سے آئی تھی آپ آج ہی مل لیتے تو عادل نے کہا بڑے پاپا میٹنگ تو روز چلتی ہے پر میری بہن کی سالگرہ سال بعد آتی ہے یہ سن کر جہاں جان جی کو اپنے دوست اور کزن پر پیار آیا وہاں فریال تو واری صدقے گئی بھائی کے اور کامران ملک بھی متاثر ہوا ان بہن بھائیوں کی محبت دیکھ کر پھر وہ سب مہمانوں سے ملے کامران ملک شوقین مزاج آدمی تھا اس نے آج کے فنکشن کو چار چاند لگوانے کے لئے سنگنگ اور شاعری کہنے والوں کا بھی بندو بست کر رکھا تھا پھر جوں جوں رات چھاتی گئی محفل بڑھتی ہی گئی پھر فریال اور کامران ملک نے اپنی شادی کا کیک کاٹا سب ہی نے ان کو وش کیا اور اپنے اپنے تحائف دئیے بعد میں سب ہی نے ہلکا پھلکا کھانا کھایا اب جو جانے والی تھے وہ چلے گئے اور جو آج کی محفل کی رونقیں دیکھنا چاہتے تھے وہ یہی رہے ساری رات یہ پروگرام چلتا رہا آج جان جی نے جان بوجھ کر خود شرکت نہ کی کیوں کہ وہ اپنے والد اور چچا کے سامنے ایسی حرکتیں نہیں کرتا تھا ٭ ٭ ٭٭ ٭ نگینہ اپنے بیڈ پر کروٹیں بدل رہی تھی اسے کسی پل بھی چین نہیں آ رہا تھا اس کی تو جیسے نیند ہی اڑ گئی تھی آج اس کی خالہ زاد کزن مہ وش بھی آئی ہوئی تھی لیکن پھر بھی اس کا دل کہیں نہیں لگ رہا تھا مہ واش جو اس کے ساتھ ہی آج سوئی تھی اس کی ان کروٹوں سے اس کی آنکھ کھل گئی اس نے نگینہ کا جو حال دیکھا تھا وہ سمجھ گئی کہ نگینہ دل کا روگ لگا بیٹھی ہے مہ وش خود بھی اس میدان سے گزر چکی تھی وہ بھی انتہا کی خوبصورت لڑکی تھی اس نے جسے چاہا وہ نہ مل سکا تو اس نے اپنے والدین کے فیصلے کے آگے سر تسلیم خم کر لیا اور وہ شہریار سومرو کی دلہن بن کر سومرو ہاؤس میں چلی گئی اسے شہریار نے اتنا پیار دیا تھا وہ پچھلا سب کچھ بھول گئی اور آج اس نے اپنی جان سے عزیز کزن کا یہ حال دیکھا تو اسے سمجھانے لگی لیکن یہ عشق ہے ہی ایسا نامراد اس نے کہاں کسی کی مانی ہے یہ تو ایسا جادو ہے جس پر چل جائے پھر اس کے سر چڑھ کر بولتا ہے یہی حال نگینہ کا تھا اب تنگ آ کر مہ وش نے کہا نگینہ تم میری بات کو فالو کرو یار یہ روگ جان لیوا ہے اور مجھے تو شہریار جیسا وسیع ظرف کا مالک ملا ہے جسے میں نے شادی سے پہلے ہی سب کچھ بتا دیا تھا لیکن سب مرد ایسے نہیں ہوتے اور پھر آپ یہ بھی دیکھو آپ کا بچپن سے ہی رحیل ملک سے نکاح ہو چکا ہے وہ دو مہینے تک پاک آ رہا ہے تب کیا کرو گئی تم کو پتا بھی ہے وہ کتنا ضدی ہے اور یہ سب خالہ جان اور خالو جی کی مرضی بھی ہے پلیز مت چلو اس راستے پر جس کی کوئی منزل ہی نہ ھو اب نگینہ نے روتے ہوئے کہا مہ وش کیسی دوست ھو مدد کرنے کی بجھائے مجھے ڈرا رہی ھو تو مہ وش نے سرد آہ بڑھ کر کہا اس لئے کہ میں جانتی ہوں وہ ندیم کبھی تم سے شادی نہیں کرے گا نگینہ تڑپ کر بولی صرف پانے کا نام ہی تو محبت نہیں ہے وہ بے شک شادی نہ کر ے لیکن میں اسے نہیں چھوڑ سکتی یہ سن کر مہ وش نے غصے سے اسے گھورا اور بولی بیوقوف لڑکی جب وہ تم سے جی بھر کر کھیل لے گا تو اس کا کیا جائے گا نگینہ ان مردوں کا کچھ نہیں جاتا لیکن لڑکی اپنی اور معاشرے کی نظر میں گر جاتی ہے چلو معاشرے سے ہٹ کر جیا جا سکتا ہے لیکن اگر تم کل کو اپنی ہی نظر میں گر گئی تو نہیں جی پاؤ گئی پلیز مان جاؤ میری بات پھر نگینہ نے کہا چھوڑو یار ان باتوں کو چلو سو جاؤ اور خود بھی اپنے منہ پر کمبل ڈال کر لیٹ گئی مہ وش نے ٹھنڈی سانس چھوڑی اور وہ بھی کروٹ بدل کر چوسنے لگی اس کی نیند اڑ گئی تھی وہ جانتی تھی اس کی کزن کتنی نرم اور کمزور دل کی مالک ہے وہ تو بعد میں بکھر جائے گئی لیکن اسے کوئی راہ نہیں دکھائی دے رہا تھا اگلے دن یونیورسٹی میں ہاف ٹائم کے بعد نگینہ نے جان جی کو لان کی طرف جاتے دیکھا تو وہ بھی تیزی سے اس کے پیچھے ہی چل دی ایک طرف درختوں کے سائے میں ایک بنچ پر بیٹھ کر جان جی خلا میں دیکھنے لگا وہ جانتا تھا نگینہ پیچھے آ رہی ہے اس لئے وہ یہ سب کرنے لگا نگینہ نے اسے اتنا دکھی دیکھا تو تڑپ کر اس کے پاس آئی اور بولی جان جی مت کرو ایسا اپنے ساتھ جو آپ کو بھول گیا ہے اسے آپ بھی بھول جاؤ ایک بار میری طرف دیکھو تو سہی کیا میں اس لڑکی سے کم ہوں مجھے یوں نہ دھاتکارو اب جان جی نے اس کی طرف دیکھا اور اپنی آواز میں درد سموتے ہوئے بولا نگینہ آپ اس یونیورسٹی کی سب سے خوبصورت لڑکی ھو میں مانتا ہوں اسی لئے آپ کو سمجھا رہا ہوں آپ کہاں مجھ جیسے بد نصیب سے اپنا سر پھوڑ رہی ھو یہاں کا ہر لڑکا آپ سے دوستی کرنے کی حسرت لئے پھرتا ہے جاؤ کسی ایسے لڑکے سے دوستی کرو جو آپ کے قابل ھو میں تو ایک ٹوٹا اور بکھرا انسان ہوں آپ کو کیا دے سکوں گا اب یہ سب سن کر نگینہ نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا جان جی میں تھوکتی بھی نہیں کسی لڑکے پڑ مجھے بس آپ کی دوستی مطلوب ہے اور اگر آپ نے مجھ سے دوستی نہ کی تو آپ کی قسم میں اپنی جان دے دوں گی یہ سنتے ہی جان جی سمجھ گیا مچھلی کانٹا نگل چکی ہے اب بس آخری چوٹ لگانے کی دیر ہے اس نے گھمبیر لہجے میں نگینہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا نگینہ تم کیا جانتی ھو میرے بارے میں تم میرے ساتھ ایک دن بھی نہیں گزار پاؤ گی ' کیوں نہیں گزار پاؤں گی کیوں ' جان جی ؛؛' مجھے بتائیں تو جان جی نے کہا اس لئے کہ میں اب کسی پر یقین نہیں کر پا رہا بہت درد ہے اس دل میں نگینہ بہت درد ہے ؏ سنا ہو گا کسی سے کہ درد کی اک حد بھی ہوتی ہے ملو ہم سے کہ ہم اس حد کے اکثر پار ہوتے ہیں اور نگینہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑیاں پھوٹ نکلیں نہیں جان جی ایک دفعہ مجھے آزما کر تو دیکھیں میں آپ کے لئے اپنا تن من دھن سب قربان کر دوں اسی وقت نگینہ کی دوست فرح اس طرف آتی دکھائی دی تو نگینہ نے کہا میں آج آپ کا انتظار کروں گی سی ویو پر اگر آپ نہ آئے تو کل کے اخباروں میں میری موت کی خبر پڑھ لیجئے گا یہ کہہ کر وہ اٹھی اور اپنی دوست کی طرف چل دی فرح نے اس سے پوچھا خیر ہے آج کل کس پتھر سے سر پھوڑ رہی ھو یہ تو بالکل ہی پتھر ہے کاش اس سے آگے وہ خاموش ہو گئی اور نگینہ سمجھ گئی فرح بھی جان جی کی مریض ہے لیکن اسے یقین تھا آج اس کا محبوب اس کی بانہوں میں ہو گا وہ گھر آتے ہی چینج کر کے ایک پارلر میں گئی اور وہاں سے وہ دلہن کی طرح تیار ہو کر سی ویو چلی گئی وہاں بیٹھ کر وہ اپنے جان جی کا انتظار کرنے لگی وہاں جوان تو جوان عمر رسیدہ لوگ بھی اس کی ٹوٹتی جوانی کو دیکھ کر ٹھنڈی آہیں بھرنے لگے جوں جوں وقت گزر رہا تھا وہ بے تاب ہوئی جا رہی تھی پھر اس نے جیسے ہی ندیم کی بلیک مرسڈیز دیکھی وہ کھل اٹھی جان جی نے آج بوسکی کا سوٹ اور نیچے تلے کے کام والا جوتا پہن رکھا تھا جس میں وہ کسی مشرقی ملک کا شہزادہ لگ رہا تھا جیسے ہی وہ ریستوران میں داخل ہوا مردوں کی آنکھوں میں جلن اور حسد تھا اور خواتین کی آنکھوں میں پسندیدگی وہ اپنی مخصوس مغرورانہ چال چلتا ہوا اس کی طرف آیا اس نے ایک دفعہ بھی دائیں بائیں نہیں دیکھا تھا اور نگینہ سوچ رہی تھی ایسا مرد کسی قسمت والی کو ہی ملتا ہے میں اسے پاؤں گئی ہر قیمت پر جان جی نے اس کے سامنے بیٹھ کر کہا نگینہ مجھے کیوں پریشان کرتی ھو میں پہلے ہی بہت ڈسٹرب رہتا ہوں آپ پلیز اس راستے سے واپس لوٹ جاؤ اس راستے کی کوئی منزل نہیں ہے یار نہ میں آپ سے شادی کر سکوں گا اور پھر آپ کو کیا فائدہ میرے پیچھے یوں خوار ہونے کا تو نگینہ نے دلبری سے کہا جان مجھے آپ ایک پل ہی میرے ہو کر مل جاؤ میں اسی پل کی یاد کے ساتھ زندگی گزر سکتی ہوں اب جان جی نے کہا او میرے ساتھ وہ اٹھی اور جان جی کے ہمراہ چلنے لگی باہر نکلتے ہوئے ان دونوں کو دیکھ کر کافی لوگوں نے رشک سے کہا یہ جوڑا ایک دوسرے کی ہمراہی میں ہی جچتا ہے لڑکی اگر صنف نازک کی شہزادی ہے تو لڑکا مردانہ وجاہت کا بے تاج بادشاہ ہے یہ سن کر نگینہ کی خوبصورت گردن غرور سے تن گئی جان جی اسے لے کر اپنی کار میں آیا اور اسے لے کر وہ وہاں سے چل دیا نگینہ کی اپنی گاڑی وہی کھڑی تھی وہ جان جی کی قربت کے نشے میں ڈوبی ہوئی تھی جان جی نے اس کام کے لئے ایک مخصوس فارم ہاؤس بنا رکھا تھا جہاں وہ داد عیش کرتا تھا جو اس نے اپنے ایک جاننے والے سے خریدا تو اسی کے نام رہنے دیا کیوں کہ وہ یہ ملک چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے آسٹریلیا شفٹ ہو چکا تھا پھر جان جی نے فارم ہاؤسکے سامنے جا کر گاڑی روکی اس نے ہارن دیا تو گیٹ کیپر نے گیٹ کھولا وہ اپنی گاڑی اندر لے جا کر سیدھا انڈر گرونڈ پارکنگ میں گیا وہاں اس نے اپنی گاڑی پارک کی اور نیچے اتر کر نگینہ کی طرف آیا اس نے سب فاصلے ایک دم سے ختم کئے نگینہ کو اپنے بازوؤں میں اٹھا کر آوپر اپنے مخصوص کمرے میں لے گیا وہ کمرہ بہت بڑا تھا کمرے کی سج دھج سے ہی نظر آتا تھا اس عشرت کدے کو لاکھوں لگا کر تیار کیا گیا ہے کمرے میں ایک طرف سنگ مر مر کا حوض بنا ہوا تھا اس میں فوارہ لگا تھا جس کے اندر ہر رنگ کی واٹر پروف لائٹس تھیں اور کمرہ جگ مگ جگمگ کر رہا تھا نگینہ نے کمرے کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا اسی وقت جان جی نے اسے شاہی طرز کے بیڈ پر آرام سے لٹایا اور خود اس کے سامنے کرسی پر بیٹھ کر بولا اب بھی سوچ لو نگینہ میں دوستی میں کسی لمٹ کا عادی نہیں ہوں نگینہ نے جذبات سے بوجھل آواز میں کہا جان نگینہ سر سے پاؤں تک آپ کی ہے اور اپنی چیز کے لئے کسی سے پوچھا نہیں جاتا یہ سنتے ہی جان جی اٹھا اور اٹیچ ڈریسنگ روم میں جا کر اس نے اپنا لباس بدلہ اور اپنی ایک سفید شرٹ لے کر واپس کمرے میں آیا نگینہ سے کہا جاؤ یہ پہن کر آؤ نگینہ پر اس کا جادو چل چکا تھا اس نے کچھ نہ سوچا اور ملحقہ کمرے میں جا کر اپنے کپڑے اتار دئیے پھر اس نے اپنی پینٹی کے ساتھ برازئیر بھی اتارا اور وہ شرٹ جو اسےرانوں تک آ رہی تھی وہ پہن کر باہر آ گئی ندیم نے جب اس کا تراشا ہوا صندلی جسم دیکھا اس کا لن انگڑائیاں لے کر بیدار ہوا اس نے نگینہ کا بازو پکڑا اور اسے اپنی طرف کھینچا وہ تو ایسے چلی آئی جیسے کچے دھاگے سے بندھی ھو اسے اپنی بانہوں کے گھیرے میں لے کر جان جی نے اس کے ہونٹوں کا بوسہ لیا نگینہ کا کنوارہ بدن اس کا لمس پا کر کانپنے لگا جان جی نے اسے پیار سے اٹھا کر بیڈ پر دراز کیا اور خود بھی اس کے ساتھ ہی نیم دراز ہو گیا پھر جان جی نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں نگینہ کے ہونٹوں پر یوں پھیرنی شروع کیں جیسے وہ کسی ان دیکھی تحریر کو اپنی انگلیوں کے پوروں کی مدد سے پڑھ رہا ھو اس کے پوروں کی اس حرکت نے نگینہ کے اندر جذبات کے الاؤ روشن کر دیے تھے وہ اب بے قراریوں کے مدارج طے کرتی جا رہی تھی جان جی ایک شاطر کھلاڑی تھا وہ سیکس سے پہلے ہی لڑکی کو آدھ مووا کر دیتا تھا اس کی یہی تو خوبیاں تھیں جن کی بدولت کوئی بھی لڑکی اس سے اپنے تعلق کا چرچا نہیں کرتی تھی آج بھی یہیں ہونے جا رہا تھا جیسے جیسے اس کے پوروں کی گستاخیاں بڑھ رہی تھیں نگینہ کی جان پہ بنتی جا رہی تھی اب نگینہ کے نچلے ہونٹ پر وہ لمبائی اور کبھی دائرے کی شکل میں اپنی انگلی پھیرتا جا رہا تھا
ساتھ میں اس نے اپنا منہ نگینہ کے کانوں کے قریب کیا اور ہلکے سے سرگوشی کی زبان میں بولا جان ندیم او آج ان لمحات کو امر کر دیں محبت کے حوالوں میں ہمارا ذکر رہتی دنیا تک چلے نگینہ مجھے کبھی دھوکہ مت دینا ورنہ اب کی بار میں مر جاؤں گا یہ سن کر نگینہ نے اپنا مرمریں ہاتھ اس کے ہونٹوں پر رکھا اور بھرائی آواز میں بولی پلیز جان آج کے بعد یہ لفظ موت کبھی نہ بولنا میں اپنی زندگی بھی اپنے یار کے نام کر دوں اور پھر جان جی نے اٹھ کر کمرے کے چاروں طرف موجود کھڑکیاں کھولیں اور اس نے کمرے میں مدھم لائٹس کا ایک جال سا جلا دیا اب اس نے دوبارہ سے بیڈ کی طرف آ کر نگینہ کو اپنے بازوؤں میں اٹھایا اور حوض کی طرف بڑھا اس نے حوض کے صاف شفاف پانی میں نگینہ کو بیٹھایا خود بھی اس کے ساتھ ہی حوض میں داخل ہوا اور فوارہ چلا دیا ٹھنڈا پانی تیزی سے اوپر گیا اور بارش کی بوندوں کی شکل میں ان پر گرنے لگا نگینہ کی سفید شرٹ اس کے جسم سے چپک گئی گیلی ہو کر اس باریک شرٹ سے نگینہ کے نشیب و فراز ظاہر ہونے لگے جن کو دیکھ کر جان جی کا لن بے تابی ظاہر کرنے لگا اب جان جی نے نگینہ کو اپنی بانہوں کی گرفت میں لے کر اپنے ساتھ لپٹا لیا اور سرگوشی کی زبان میں بولا اف کیا خوبصورت نپل ہیں میری جان کے ایسی چھاتی کسی لڑکی کی نہیں ہو سکتی یہ سن کر نگینہ نے شرما کر اپنی نظر جھکا لی اور جان جی کی بغل میں اپنا منہ چھپانے لگی جان جی شرم و حیا کی ان اداؤں کو دیکھ کر تڑپ اٹھا اس نے اپنے ہاتھ کی انگلی نگینہ کی تھوڑھی کے نیچے رکھی اس کا منہ اوپر کیا نگینہ کی پلکیں ابھی تک شرم کے وزن سے جھکی ہوئیں تھیں جان جی نے پیار سے اس کی جھکی پلکوں کو چوما اور بولا اک بھیگی ہوئی سی رات ملے اس رات میں تیرا ساتھ ملے تیرے لب سے ٹپکے جو بوندیں انہیں میرے لبوں کا ساتھ ملے کچھ تم بھی بہکے بہکے سے کچھ مجھ پہ نشہ سا طاری ہو ہر پل میں جان، مدہوشی ہو اک ایسی رات ہماری ہو پھر آؤ جو میری بانہوں میں میں پیار کروں تمہیں جی بھر کے تم مجھ سے تھوڑا شرماؤ شرما کے گلے سے لگ جاؤ میں جتنا تم کو پیار کروں تم اتنے ہی بیتاب بنوں ہمیں پیار کے کچھ لمحات ملیں اک بھیگی ہوئی سی رات ملے اس رات میں تیرا ساتھ ملے یہ کہتے ہی جان جی نے اپنے جلتے ہونٹوں کو نگینہ کے گلاب کی پنکھڑیوں سے نازک ہونٹوں میں پیوست کر دئیے اور ساتھ ہی اسے اپنی بانہوں میں دبوچ لیا جان جی کے لمس نے پانی میں آگ لگا دی جان جی مستی میں ڈوب کر نگینہ کے ہونٹوں سے رس چوس رہا تھا وہ بے تابیوں کی انتہا پر جا چکی تھی اور اس کے شہد ،میں بھیگے ہونٹوں کو بے تابی سے چوسی جا رہا تھا پھر جان جی نے اس کے منہ میں زبان داخل کی اور وہاں سے زبان نے اپنی من مرضی شروع کی اور نگینہ کا جسم اب کانپنے لگا تھا فوارے کا پانی اب بارش کی طرح سے چھم چھم ہم دونوں پر گر رہا تھا جان جی نے اب اپنے ہونٹ اس کی گالوں پے رکھے اور وہاں سے بارش کے قطرے چاٹنے لگا جان جی نے زور سے نگینہ کو اپنی بانہوں میں دبا لیا میں نے دھیرے دھیرے سے نگینہ کے سارے چہرے سے بارش کے قطروں ( فوارے کے پانی ) کو چاٹا بارش مسلسل ہو رہی تھی جان جی جتنا چاٹتا اتنے ہی اور آ جاتے اب تو نگینہ کی سانسیں بہک رہی تھیں اس کا جسم جان جی کے بازوؤں میں کانپ رہا تھا جان نے دیکھا اس کی تھوڑی سے پانی کی ایک لکیر سی بہ کر اس کی چھاتی کی طرف آئی جیسے ہی وہ نگینہ کے گریبان میں داخل ہونے لگی جان نے اسے اپنی زبان سے چاٹ لیا اس کی زبان کے لمس نے تو جیسے پانی میں آگ لگا دی نگینہ ایک دم سے تڑپی اور ایک سسکی نگینہ کے ہونٹوں سے چھوٹ گئی جان جی نے اس کے ہونٹوں کے بلکل پاس اپنے ہونٹ لے جاکر سرگوشی کی نگینہ پھر سے ان ہونٹوں سے کچھ شبنم چڑا لوں اب ان دونوں کی سانسیں آپس میں مل رہی تھیں نگینہ نے لرزتی آواز میں کہا جان جی میں آپ کے قدموں کی خاک ہوں میرے محبوب جو آپ کا دل آئے وہ کرو جان جی نگینہ کے ساتھ خود بھی لیٹ گیا اور کروٹ لے کر اپنی ایک ٹانگ اس کی ٹانگوں پے رکھ دی جان جی کے ہونٹوں نے نگینہ کے ہونٹوں سے سرگوشیاں کرنا شروع کر دیں وہ بہت نرمی سے نگینہ کے ہونٹ چوس رہا تھا اوراس کے ہاتھ نگینہ کی کسی ہوئی چھاتی کی پیمائش لے رہے تھے اب کی بار نگینہ نے کہا جان جی ہائےمجھے کچھ ہو رہا ہے (یہاں سے یہ سیکس کی کاروائی جان کی زبانی )میں نے اب اس کی سفید شرٹ کو اتار دیا اور خود اپنا لباس اتار کر خود کو بے لباس کر کے اس کے ساتھ ہی حوض میں ہی دوبارہ سےلیٹ گیا میں نے اب کی بار اپنا ہاتھ اس کے پیٹ پے رکھا اور وہاں ہاتھ سے مساج کرنے لگا پھر اس کے پیٹ سے نیچے آیا اس نے ایک دم سے میرا ہاتھ پکڑ کے کہا جان جی اسے مت ہاتھ لگانا میں جل جاؤں گئیں اب نگینہ یوں سانس لے رہی تھی جیسے وہ بہت دور سے بھاگتی ہوئی آئی ھو میں نے اس کے ہونٹوں کو شدت کے ساتھ چوسنا شروع کر دیا کچھ ہی در بعد نگینہ بھی میرا ساتھ دینے لگی اس نے اپنے ہاتھوں سے میری گردن کو پکڑا اور میرا ساتھ دینے لگی ہونٹ چوسنے کے ساتھ میں نے اپنے ہاتھوں کی گستاخیاں جاری رکھیں اب کی بار میں دوبارہ اس کی چوت کی طرف اپنا ہاتھ لے گیا اس نے کچھ نہ کہا اور میں اس کی چوت کو سہلانے لگا وہ اور بھی مچل کے میرے ہونٹ چوسنے لگی میں نے اپنی زبان اس کے منہ میں ڈالی اور وہ اسے چوسنے لگی میں اس کی چھاتیاں مسلتا رہا اب اس کی چھاتی کے نپلز فل تن گئے تھے پانچ منٹ تک میں نے اسے ہونٹوں سے چوما تو وہ بولی جان جی میں جل گئی ہوں میں اب اس کی تھوڑی کو چومتا ہوا نیچے آنے لگا پھر اس کی چھاتی کی کلیوج کو چوما اور اپنی زبان اس کے ابھاروں کی طرف لیا اس کی چھاتی کو چوما اس کی نپل کو اپنے منہ میں لیا اور چوسنے لگا نگینہ اب سسکیاں لے رہی تھی آہ آہ آہ جان جی سس اف ف اب دوسری نپل کو بھی یوں ہی چوسا اور نیچے پیٹ پے آیا اف کیا سڈول اور گورا پیٹ تھانگینہ کا میں نے اس پے اپنے ہونٹ رکھے اور اسے چومنے لگا نگینہ کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں اور وہ مزے سے آہیں بھر رہی تھی میں نے اُسکے پیٹ پے اچھے سے اپنی زبان پھیری میں نے چھاتی کے نیچے والی جگہ پے اپنی زبان پھیری اورچاٹنے لگا وہ اب مچل رہی تھی میں نے پھر سے اس کی چھاتی کی طرف آیا اور اسے چومنے لگا نگینہ کا بدن ایسے تھا جیسے وہ دودھ اور میدے سے بنی ھو اب مزے سے بیتاب ہو کر نگینہ نے میرے سر کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہی تھی میں نے اس کی تنی ہوئی نپل کو چوسنے لگا بارش کافی تیز ہو گئی تھی اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں تھیں اور فوارے کا پانی اب سپیڈ سے اس کی چھاتی پے گر رہا تھا اسے کچھ ہلکا سے درد بھی ہوا لیکن وہ درد بھول کر مزہ لے رہی تھی میں نگینہ کی چھاتی پے دوبارہ سے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کی پوروں کو پھیرنے لگا اب جیسے ہی میں نے اس کی چھاتی کی نپلز پے اپنی پور کو پھیرا وہ اب مزے سے چلا اٹھی ہ اف ف ف ف ف م جان جی میں ہاتھ کو ویسے ہی پھیرتا رہا اور نیچے اس کے پیٹ پے آیا وہاں بھی اس کی ناف پے بھی ہاتھ نرمی سے پھیرنے لگا وہ مسلسل مچل رہی تھی جان جی اوہ میرے محبوب میں مر گئی نگینہ اپنا سر پٹخ رہی تھی مزے سے کوئی تین منٹ ایسے ہی کیا پھر میں اس کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھااور اپنا منہ ان کی چھوٹی سی چوت میں گھسا دیا ساتھ میں اپنی زبان بھی وہاں پے پھیرنے لگا وہ یہ دو طرفہ رگڑ برداشت نہ کر سکی اور اس کی چوت نے بھی برسات میں ہی برسات کر دی وہ لمبے لمبے سانس لے رہی تھی میں نے دوبارہ سے اوپر آ کر اس کی چھاتی کو چوسنے لگا اب کی بار وہ میری کمر پے ہاتھ پھیرنے لگی میں اس کی چھاتی کو مزے سے چوستا جا رہا تھا اور اس کی گلابی نپلز بہت ٹائٹ ہو گئے تھے اب نگینہ نے کہا جان جی پی لو جتنا بھی دودھ پیناہے میرے سوہنے میں اب مسلسل اس کی چھاتی کو چوستا جا رہا تھا اب میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے لن پے رکھا وہ پہلے تو جھچکی پھر اس نے اپنے ہاتھوں سے میرے لن کوپکڑا اور بولی باپ رے اتنا بڑا میں نے اب اس کی چھاتی کو چوستا ہوا اوپر ہونٹوں پے آیا اور ہونٹ چوسنے لگا وہ مزے سے تڑپ کے بولی جان جی اب بس کرو مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا اس نے مجھے اپنی بانہوں میں لیا اور کروٹ بدل کے میرے اوپر آ گئی اس نے میرا لن اپنے ہاتھوں میں یوں پکڑا جیسے وہ کسی بہت نایاب چیز کو چھوڑ رہی ھو میں نے اسے کہا ، میرا لن چوسو اس نے ایک دفعہ میری آنکھوں میں دیکھا اور بولی جان جی مجھے نہیں آتا میں نے کہا جیسے لولی پوپ چوستے ہیں ویسے ہی چوسو پھر وہ منہ میں لے کر لن کو لولی پوپ کی طرح چوسنے لگی نگینہ نے بہت مزے سے مرالن کوئی تین منٹ تک چوسا اس کے منہ کی گرمی سے میں چھوٹنے ہی لگا تھا میں نے بڑی مشکل سے اسے ہٹایا اور خود کو کنٹرول میں کیا میں نے اسے پکڑ کے ایک طرف کیا اور اس کی ٹانگوں میں آ کر بیٹھ گیا اپنا لن نگینہ کی ان چھوئی چوت پے فٹ کیا نگینہ کو کمر سے پکڑکے اوپر اٹھایا اور لن کو اندر کر دیا وہ ایک دم سے چیخ اٹھی آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ جان جی میں مرگئی میں نے اب ہلکے سے لن کو باہر نکال کر کہا ابھی تو بس ٹوپی بھی سہی طرح اندر نہیں گئی باتیں بڑی بڑی کر رہی تھی یہ سن کر وہ ہونٹ کاٹتے ہوئے بولی میری پہلی بار ہے اور آپ کا لن بھی بہت بڑا ہے میں اب نہیں کہوں گئی کچھ بھی آپ کا جو دل چاھے وہ کریں میں نے دوبارہ سے اب کی بار لن چوت میں پھنسایا اور ایک ہی دھکے سے جڑھ تک اندر کیا نگینہ بن پانی کے مچلی کی طرح تڑپی اس کے منہ سے زوروں کی چیخیں نکلیں میں نے اپنا لن جھٹکے سے باہر نکالا تو ساتھ ہی اس کی چوت سے خون کے قطرے بھی گر کر پانی میں مل گئے میں نے اس کے ہونٹ چوم کر کہا آئی لو یو نگینہ وہ یہ سن کر قربان جانے والے لہجے میں بولی اب جو مرضی کرو آپ کے ان لفظوں سے ساری درد کو کھینچ لیا ہے اب میں نے کچھ نرمی سے لن اندر باہر کرنا شروع کیا اور اب وہ مزے سے آہیں بھر رہی تھی یاہائے ہائے ہائے جان جی ہائے مجھے بس ایسے ہی چودو میرے دوست اور میں نے اس کے اوپر جھک کر اس کے ممے چوسنے لگا وہ میرے بازوؤں میں تھی میں کچھ تیز ہوا اور اس نے بھی میری گردن میں بازو ڈال لئے اور میرا ساتھ دینے لگی نیچے سے اپنی گانڈ کواوپر اٹھا کر میں نے اسے ایسے ہی اپنے ساتھ لگائے رکھا اور اٹھا کھڑا ہوا پھرمیں نے اسے اٹھ کر نگینہ کو حوض کے کنارے پر بٹھایا اس کی ٹانگیں میری رانوں سے نیچے پانی میں لٹک رہی تھیں اور میں نے لن اندر کر کے اسے چودنا شروع کر دیا اب وہ مزے بھری آواز میں چلانے لگی آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م مر گئی جان جی میں اب زور زور سے اپنے کولہے ہلا کر لن کو اندر باہر باہر کر رہا تھا چوت کے اور میرا اوپر والا جسم نہیں ہل رہا تھا ساتھ میں اس کے ممے بھی دبانے لگا میں نے ایک منٹ تک اس سٹائل میں اسے چودہ اب وہ لرزتی آواز میں بولی جان جی میں آنے ہی والی ہوں میرا جسم پھر پہلے کی طرح کانپ رہا ہے میں بس چھوٹنے والی ہوں میں نے کہا چھوٹ جاؤ اور ساتھ ہی اپنے دھکوں کی سپیڈ کچھ اور تیز کی پھر نگینہ ایک زور دار آوچ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے چیخ کے ساتھ ہی چھوٹ گئی میں بنا رکے اپنے دھکے جاری رکھےپھر دوبارہ سے پوزیشن بدلنے کا سوچا اور اب کی بار نگینہ سے کہا آپ اپنی ایک ٹانگ فوارے کی چھوٹی حوضی پر رکھو اس نے ایسا ہی کیا اب میں کچھ نیچے ہوا اور اپنے گھٹنے فولڈ کر کے اس کی چوت میں دوبارہ سے لن ڈالا وہ میرے ہر دھکے پر لذت کے سمندر میں غوطہ زن ہوتی گئی وہ دل کھول کر مجھے آہوں اور سسکیوں کی صورت میں داد دے رہی تھی اور میں اس کی آواز سے اور جوش میں آتا جا رہا تھا میں نے پھر سے پوزیشن بدلی اب اس کو کہا تم چھوٹی حوضی پر بیٹھو ٹانگیں پھیلا کر جیسے پاٹ پر بیٹھتے ہیں باتھ روم میں وہ ویسے ہی بیٹھ
اس کا منہ میری طرف تھا میں نے اپنا لن پھر سے اس کی چوت کے حوالے کیا اور زور زور سے اندر کرتا پھر سارا باہر نکال کر دوبارہ سے اندر کرتا میں نے اسے دو منٹ تک چودا تو وہ بولی میں پھر سے قریب ہوں اب میں بھی آنے ہی والا تھا مجھے پانچ منٹ ہو گئے تھے اسے بنا رکے چودتے ہوئے پھر ہم دونوں ایک ساتھ ہی فارغ ہوئے میں اسے اٹھا کر حوض سے باہر لایا اسے بیڈ پر اپنی گود میں بیٹھا کر اس کے ہونٹ چومنے لگا مجھے اس کی چھاتی اتنی پسند آئی تھی میرا دل کرتا تھا بس اسے ہی چوسی جاؤں وہ اب کسنگ میں میرا بھر پور ساتھ دے رہی تھی میں نے اس کے ہونٹ جی بھر کے چوسے پھر اس کی گالوں پر زبان پھیرنے لگا ساتھ ہی میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کوئی رات میرے آشنا مجھے یوں بھی تو نصیب ہو نہ خیال ہو لباس کا تو اتنا میرے قریب ہو بدن کی گرم آنچ سے میری آرزو کو آگ دے میرا جوش بھی بہک اٹھے میرا حال بھی عجیب ہو تیرے چاشنی وجود کا میں سارا رس نچوڑ لوں پھر تو ہی میرا مرض ہو پھر تو ہی میرا طبیب ہو نگینہ تڑپ کے بولی جان جی میری اب ہر رات آپ کی اور ہر دن آپ کا کیوں اتنا تڑپتے ہیں میں ہوں نہ آپ کے لئے آپ اپنا ہر ارمان مجھ پر پورا کرومیرے یار اب ہم دونوں کافی دیر تک ایک دوسرے کے جسموں سے کھیلتے رہے پھر ہم دونوں ہی دوبارہ سے گرم ہو گئے اب میں نے نگینہ سے کہا اپنا کمر سے اوپر کا جسم صوفے کی ٹیک پر رکھو اور اپنی ٹانگیں پھیلا کر اپنی گانڈ میری طرف کرو اس نے ایسا ہی کیا میں نے کہا نگینہ اب آپ کی اس موٹی گانڈ سے بھی ایک دفعہ اپنے لن کا ملاپ کرا دوں پلیز ہمت کرنا پہلے درد ہو گا وہ بولی آپ بے فکر ہو کر اپنے دل کے سارے ارمان پورے کرو مجھے کچھ نہیں ہوتا اب اپنا لن نگینہ کی گانڈ میں فٹ کیا اور ہلکے سے دھکے سے کچھ اندر کیا وہ ایک دم سے چلائی اوہ اوہ اوہ آوچ یاہ مر گئی میں بہت درد ہے جان جی آپ مت رکو جانو اب میں نے اس کی گردن پے کس کی اب اپنے ہاتھوں سے نگینہ کے ممے دبانے لگا کوئی دو منٹ بعد جب دیکھا اب وہ ٹھیک ہے تو ایک اور دھکا دیا میرا لن اب آدھا اس کی گانڈ میں تھا وہ اب کی بار تو درد سے بلبلا اٹھی ہائے جان جی آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ اف میں نے کہا دوست بس تھوڑی دیر میں ہی مزہ آنے لگے گا اب اتنا ہی رکھا اور اسے اندر باہر کرنے لگا دومنٹ بعد ہی وہ مزے سے آہیں بھرنے لگی میں اب سمجھ گیا اسے مزہ آنے لگا ہے میں نے کچھ دیر یوں ہی اسے چودا پھر ایک آخری دھکا مارا اور میرا لن سارا اب نگینہ کی گانڈ میں تھا وہ اب دوبارہ سے چلانے لگی تھی میں اب ویسے ہی روکا رہااسے چومتا اور ممے دباتا جا رہا تھا پھر وہ بولی اب کرو اندر باہر میں نے اب ہلکے سے اندر باہر کرنے لگا پھر اپنی سپیڈ بڑھا دی اور وہ اب میرا ساتھ دینے لگی اپنی گانڈ کو پیچھے کی طرف دھکے دے کر پھر سات منٹ بعد اس کی چوت نے دوبارہ سے پانی چھوڑا اور وہ بولی جان جی بہت مزہ مل رہا ہے میں نے اسے اب سیدھا کیا اور اپنے بازوؤں میں اٹھا لیا اب اس نے اپنے ہاتھوں کے ہار میری گردن میں ڈال کے لٹک سی گئی اور میں نے اس کی گانڈ کے نیچے اپنے دونوں ہاتھ رکھے اور لن اس کی گانڈ میں ڈال کے زور زور سے دھکے لگانے لگا وہ مزے سے اب تڑپ رہی تھی جان جی اف ف ف ف ف م م م م م م میں اب اس کی بغل کوچاٹنے لگا اور وہ سسکنے لگی یوں میرا لن اب زور زور سے نگینہ کی گانڈ میں جا رہا تھا اور وہ مزے سے مچل رہی تھی پھر کوئی تین منٹ بعد اس نے کہا جان جی میں میں آگئی میں نے بھی محسوس کیا میں بھی اب آنے والا ہوں تو اسے اور زور سے دھکے مارنے لگا پھر اس نے ایک زور دار جھرجھری لی اور ساتھ ہی وہ میری گردن پے ہاتھ ڈال کے مجھ سے لپٹ گئی میں مر جاؤں میرے یار نے مجھے آج وہ مزہ دیا ہے جو کبھی کسی کو نہیں ملا ہو گا اور ساتھ ہی وہ چلا اٹھی آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ وہ میں گئی جان جی اب میرے لن نے بھی پچکاریاں مارنی شروع کیں ہم دونوں ایک ساتھ ہی فارغ ہو گئے میں نے اب اسے اٹھا کر بیڈ پر لٹایا تو نگینہ جیسے اوندھے منہ گر گئی بیڈ پے وہ چار دفع فارغ ہوئی تھی اب میں بھی اس کے ساتھ ہی لیٹ گیا اس نے میری طرف دیکھااور شرما کے نظر جھکا لی میں نے اسکی جھکی نظروں کو کس کیا اور کہا نگینہ لو یو وہ میری آنکھوں میں دیکھ کر بولی لو یو ٹو میری جان اور مجھ سے لپٹ گئی اس نے مجھے اپنی بانہوں میں زور سے بھرا ہوا تھا اور ہماری ٹانگیں اب ایک دوسرے کی ٹانگوں سے گھتم گتھا ہو گئیں تھیں اب نگینہ نے اپنا سر میرے سینے سا لگا لیا اور میری بالوں سے بھرے سینے میں انگلیاں پھیرنے لگی جان جی مجھے کبھی مت چھوڑنا دوست کبھی کبھی ہفتے میں کوئی شام میرے نام بھی کر دیا کرنا اور پھر ہم یوں ہی باتیں کرتے ہوئے ایک دوسرے سے چھیڑ خانیاں بھی کر رہے تھے دس منٹ بعد میں اٹھا اور اسے بھی اپنے ساتھ ہی واش روم لے گیا میں نے اب شاور کھولا تو نیم گرم پانی میرے اوپر گرا میں نےاسے بھی اپنے ساتھ ہی پکڑ کے شاور کے نیچے کیا اب اس نے مجھے بھی زور سے اپنے بازوں مین جھکڑ کے کہا جانو کیا موڈ ہے میں نے اس کےہونٹ چھونے لگا اور ساتھ میں اس کے مموں کو بھی دبانے لگا وہ بھی اب میرے لن کو ہاتھ میں لے کر سہلانے لگی میں نے کافی دیر اس کے ممے دباۓ پھر اتنی دیر میں میرا لن بھی تن گیا تھا اب میں نے نیچے بیٹھ کر اس کی چوت سے اپنا منہ لگا کے چوت کو چاٹنے لگا وہ ایک دم سے تڑپ کے بولی اوئی ماں جان جی اور میرے سر کو اپنی چوت میں دبانے لگی میں نے جی بھر کے اسکی چوت کوچاٹا اور چوسا اب اس نے مجھے بازو سے پکڑ کے اوپر کیا اور نیچے بیٹھ کے میرا لن چوسنے لگی کوئی دو منٹ تک اس نے لن کو مزے سے لولی پوپ کی طرح چوسا اسے میں نے کھڑا کیا اور اس کے پیچھے جا کر اس کی دونوں ٹانگیں چوڑی کر کے پھیلا دیںاب خود بھی اپنے گھٹنوں کو کچھ موڑا اور اپنا لن اس کی چوت میں فٹ کر کے ایک زور دار دھکا مارا نگینہ ایک دم سے چلا اٹھی آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ وہ مر گئی اب میں یوں ہی زور زور سے دھکے مارنے لگا اور وہ مزے سے اور درد سے آہیں بھرنے لگی اب اس نے مضبوطی سے شاور کو پکڑا رکھا تھا اور ہم دونوں ہی نیم گرم پانی میں بھیگ رہے تھے اور وہ مزے سے سسکیاں بھر رہی تھی میں کبھی آگے سے کبھی پیچھے سے اس کی چوت کو چودتا رہا کبھی اس کا پاؤں ٹپ پر رکھتا کبھی پاٹ پر پانچ منٹ تک ہم دھواں دھار چدائی میں مگن رہے پھر ہم دونوں ایک ساتھ ہی فارغ ہوئے اور مل کر غسل کیا باہر آ کر اپنے اپنے کپڑے پہنے اور ایک ساتھ صوفے پر بیٹھ گئے نگینہ نے کہا جان جی اب آپ اسے بھول جاؤ وہ بے وفا تھی میں آپ کی باندی ہوں آج سے ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ نگینہ آج کل بہت پریشان تھی کیوں کہ ندیم نے اس دن کے بعد اسے کوئی لفٹ تک نہیں کرائی تھی وہ یونیورسٹی میں بھی اس سے بات نہیں کر رہا تھا آج بھی اس نے اسے موبائل پر کال کی تو آگے سے جان جی نے جواب دیا دیکھو نگینہ میں آپ سے نہیں مل سکتا میرا ضمیر مجھے اس دن سے ہی ملامت کر رہا ہے میں نے اپنی محبت کو دھوکہ دیا ہے یہ سن کر نگینہ نے روتے ہوئے کہا جان جی بس کبھی کبھی ہی مل لیا کریں تو جان جی نے رابطہ منقطع کر دیا اب نگینہ جو مریض عشق بن گئی تھی وہ اس کے بے رکھی سے بیمار پڑھ گئی آج اس کا خاوند رحیل ملک بھی آ رہا تھا یو ایس اے سے اور نگینہ کو اب افسوس ہو رہا تھا اس نے اتنا بڑا قدم کیوں اٹھایا وہ جان جی کو قصور وار کیسے ٹھہراتی اس نے تو اس کو قدم قدم پر روکا تھا وہ خود ہی مری جا رہی تھی اس کے لئے یہ کمال تھا ندیم کا کہ آج اتنا کچھ ہونے کے بعد بھی نگینہ خود کو ہی قصور وار سمجھ رہی تھی آج اسے دیکھنے اس کی کزن آئی مہ واش نے اسے دیکھتے ہی کہا تم کو سمجھایا تھا نہ اب کیا کرو گئی میں جانتی ہوں تم انتہائی قدم تک اٹھا چکی ھو یہ مرد ذات ایسی ہی ہوتی ہو کون مرد ہو گا جسے تم جیسی حسین ترین لڑکی ملے اور وہ اسے چھوڑ دے اب نگینہ نے روتے ہوئے کہا مہ وش مجھے وہ پل بہت یاد آتے ہیں میں پاگل ہو جاؤں گئی ماہ وش نے کہا رحیل آ رہا ہے اب اپنی رخصتی کرا لو روز ویسا ہی مزہ ملے گا تو تڑپ کر نگینہ نے کہا نہیں جان جی جیسا کوئی مرد مزہ نہیں دے سکتا پھر اس کا کیا قصور اس نے تو ہر موقع پر مجھے روکا تھا یہ سن کر مہ وش چونک گئی اس نے نگینہ سے کہا مجھے سب کچھ تفصیل سے بتاؤ اور حسن اتفاق ہی تھا یہ جب نگینہ مہ وش کو ساری تفصیل بتا رہی تھی اس وقت رحیل اسے ملنے آیا تھا وہ کمرے کے باہر ہی روک گیا اس نے ساری تفصیل سنی تو اسے یوں لگا جیسے اس کی دنیا ہی اندھیر ہو گئی ھو وہ نگینہ کو بچپن سے ہی شدت سے چاہتا تھا اس نے تو پچھلے پانچ سالوں میں بھی اس کی یاد کے سہارے سارا وقت گزارا تھا اور آج وہ آیا تو اس کی محبت لٹ چکی تھی اسے ایک دم سے چکر آیا تو اس کا ہاتھ دروازے پر لگا مہ وش اب تیزی سے دروازے کی طرف آئی اس کی حالت دیکھ کر وہ گھبرا گئی رحیل کا تو جیسے خون ہی کسی نے نچوڑ لیا تھا اس کی یہ شدتیں دیکھ کر نگینہ کو اپنے آپ سے گھن آنے لگی اس نے آگے بڑھ کر رحیل کے پاؤں پر اپنا سر رکھ دیا اور بولی میں آپ کے قابل نہیں رہی مجھے معاف کر دینا رحیل جو سارے خاندان کا اتھرا تھا جس نے کبھی ناک پر مکھی نہ بیٹھنے دی وہ آج اپنی محبت کے ہاتھوں ہار گیا اس نے نگینہ کو بازو سے پکڑ کر اوپر اٹھایا اسی وقت اسے دیکھنے کو ڈاکٹر تنزیلہ جو ان کی ہمسائی تھی وہ اندر داخل ہوئی اور یہ سین دیکھ کر چونک گئی پھر اس نے رحیل کو سلام کیا وہ رحیل کے قریبی دوست کی کزن تھی اس نے بھی ایک دو لفظ سنا تھا لفظ جان جی اس کے دماغ سے اٹک گیا تھا کیوں کہ کسی وقت میں وہ بھی ندیم کا شکار ہو چکی تھی اس نے اب ہونٹ کاٹتے ہوئے کہا رحیل میں ایک سوال کروں آپ سے اگر آپ کو برا نہ لگے تو پلیز یہ نام جان جی ابھی آپ نے لیا تھا کیا اس آدمی کا اصل نام ندیم تابش ہے نہ یہ سنتے ہی نگینہ نے چونک کر کہا آپ اسے کیسے جانتی ہیں اب تنزیلہ سب سمجھ گئی اس نے نگینہ کو ہمدردی سے دیکھا اور بولی بہن میں اسے یوں جانتی ہوں میں اس کی بہن فریال کی دوست تھی اور میں اکثر ان کے گھر آتی جاتی رہتی تھی مجھے وہ اچھا لگنے لگا میں اس کی طرف بڑھی لیکن اس نے مجھے اگنور کرنا شروع کر دیا میں اسے اپنی نسوانیت کی توہین سمجھ کر ایک دفعہ اس سے ہوٹل میں ملی اور وہاں اس نے مجھے اپنی پچھلی زندگی کا حال سنایا پھر سیم وہی سب کچھ جو نگینہ کے ساتھ ہوا تھا وہ پہلے ہی تنزیلہ کے ساتھ ہو چکا تھا یہ سن کر مہ وش نے کہا حیرت ہے آپ نے کسی کو بتایا ہی نہیں تو تنزیلہ نے سوگوار سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا میں کوئی پہلی لڑکی نہیں تھی جان جی بھنورا صفت مرد ہے اس نے آج تک بہت ساری لڑکیوں کو عصمت جیسے قیمتی موتی سے محروم کیا ہے بعد میں بہت ساری میری نظر میں آئیں لیکن اس کمبخت کا طریقہ واردات ہی ایسا جداگانہ ہوتا ہے بعد میں لڑکی اپنا ہی قصور گنتی ہے نگینہ کی طرح اور کسی کو کچھ نہیں بتاتی پھر اس کا شکار ہی وہ لڑکیاں ہوتیں ہیں جو کنواری ہوں اور اس کے پیار اور سیکس کی شدت کے آگے کنواری لڑکی سب کچھ ہار جاتی ہے اسے بعد میں بھی نہیں بھول پاتی میں آج چار سال بعد بھی اس سے ملاپ کے وہ لمحے نہیں بھول پائی حتی کہ میرا شوھر مجھے بہت پیار کرتا ہے لیکن ؛ چلیں چھوڑیں اب مہ وش نے دل میں ایک عہد کیا اور پھر اس نے رحیل سے بھی مشورہ کیا رحیل اور تنزیلہ نے کہا ہم آپ کے ساتھ ہیں نگینہ اب خود اپنی ہی آنکھوں میں گر گئی تھی وہ کچھ نہ بولی
فریال آج شاپنگ کر کے جیسے ہی اپنے گھر جانے والی سڑک پر مڑی اس کی کروزر کے آگے ایک ٹرک ایک چوک سے نکل کر سامنے آیا اس نے تیزی سے بریک لگائی جیسے ہی اس کی جیپ رکی اسی وقت روڈ کی دونوں طرف سے پانچ نقاب پوش آئے اور اس کی جیپ کا دروازہ کھول کر اسے باہر کھینچ لیا ان میں سے ایک بولا واہ یار کیا گرم مال ہے اب ہم کو ایک مہینے تک کسی اور کی ضرورت نہیں پڑھے گئی اسے ہی تہہ خانے میں چھپا دیں گے یہ سن کر فریال کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا وہ سمجھ گئی وہ سیکس کے بھوکے مردوں کے ہتھے چڑھ گئی ہے ان لوگوں نے اسے پکڑ کر اپنی کار میں ڈالا ہی تھا کہ اسی وقت پیچھے سے ایک پجارو آئی اور اس میں سے کسی نے ہوائی برسٹ چلایا گولیوں کی آواز سن کر وہ پانچوں ہی ٹھٹکے ان میں سے ایک بولا اسے باہر پھینکو لگتا ہے اس کے ساتھ گن مین تھے نکلنے کی کرو اور وہ فریال کو وہ سڑک پر پھینک کر اپنی کار بھگا لے گئے پیچھے والی جیپ رکی اس میں سے ایک شاندار مردانہ وجاہت کا نمونہ ایک خوبصورت نوجوان نکلا اس نے آگے بڑھ کر فریال کو سہارا دے کر کھڑا کیا اب فریال نے خود کو سنبھال کر اس جوان کا شکریہ ادا کیا تو اس نے کوئی جواب نہ دیا وہ ٹرک کی طرف گیا اس میں ٹرک کا ڈرائیور بندھا ہوا تھا اس نے اسے کھولا اور کرخت سی آواز میں بولا اسے ہٹاؤ راستے سے مجھے دیر ہو رہی ہے جیسے ہی اس نے راستے سے ٹرک ہٹایا وہ اپنی جیپ میں بیٹھا اور اسے دوڑا لے گیا اب فریال اپنی کروزر میں بیٹھی اسے اسٹارٹ کیا اور گھر آنے تک وہ اس نوجوان کے بارے میں ہی سوچتی رہےپتہ نہیں کیوں اسے وہ بار بار یاد آ جاتا اس کی بڑی بڑی آنکھیں اس کے گلابی ہونٹوں پر وہ تراشی ہوئی مونچھیں جو اس کے وقار میں اضافہ کر رہی تھیں گھوم گھوم کر اس کا چہرہ فریال کی آنکھوں کے سامنے آ جاتا رات کو جب کامران ملک اس سے ہم بستری کر رہا تھا اس وقت بھی فریال کو وہ مرد یاد آنے لگا جس نے اس کی جان اور عزت بچائی لیکن اس سے کلام تک کرنا اپنی توہین سمجھی جب کامران ملک نے دیکھا آج وہ اس کا ساتھ نہیں دے رہی تو وہ بھی جدا ہو کر کروٹ بدل کر لیٹ گیا وہ جانتا تھا فریال اپنی مرضی کی مالک ہے پھر فریال کروٹیں بدل بدل کر سو گئی پھر ایک ہفتہ وہ مصروف رہی لیکن اسے وہ مرد نہ بھولا آج بھی وہ مارکیٹ سے اپنے سلائی شدہ سوٹ لینے نکلنے لگی تو اسی وقت ندیم آ گیا وہ اسے بھی ساتھ ہی لے کر مارکیٹ چلی گئی تو جان جی نے اسے کہا آؤ آج اپنی لاڈلی بہن کو کچھ شاپنگ کرا دوں وہ ایک پلازے میں داخل ہوئے اسی وقت اسے وہ جوان نظر آیا جو ایک پیاری سی لڑکی کے ساتھ اپنی گاڑی پارک کر کے اسی طرف آ رہا تھا جان جی کی نظر بھی اس لڑکی پر گئی تو وہ چونک اٹھا کیا متناسب جسم ہے اس لڑکی کا اس کا دل اس کے لئے مچل اٹھا اب فریال نے آگے بڑھ کر اس نوجوان کو سلام کیا تو وہ اور لڑکی دونوں ہی چونک گئے مرد نے اسے بے رخی سے ہی سلام کا جواب دیا لیکن وہ لڑکی تپاک سے ملی فریال سے اس لڑکی نے کہا میرا نام مہ وش ہے یہ میرے بھی رحیل ملک ہیں اب جان جی بھی آگے بڑھا اور ان سے سلام دعا کی وہ رحیل ملک جان جی سے بہت پیار سے ملا یہ دیکھ کر فریال نے دل میں سوچا لگتا ہے موصوف صنف نازک کو ہی یوں بھاؤ دکھاتے ہیں پھر پہلی ملاقات میں ہی جان جی نے ان سے اچھی خاصی راہ رسم بڑھا لی جان جی خوش تھا اسے مہ وش جیسی لڑکی کے سامنے بیٹھنے کا موقعہ مل رہا ہے وہ ان کو لے کر ایک آئیس بار میں آ گیا فریال نے اب اس لڑکی سے پوچھا یہ آپ کے بھی صاحب کیا لڑکیوں سے خوف کھاتے ہیں تو وہ لڑکی اپنی سریلی آواز میں کھنک مار کر ہنسی اور جواب دیا نہیں یار اصل میں بھائی جان خواتین سے بات کرنا پسند نہیں کرتے مجھے آج تک میری سب سہیلیاں یہی گلہ کرتی رہی ہیں لیکن بھائی جان اپنی فطرت کے ہاتھوں مجبور ہیں یہ پانچ سال امریکہ گزار کر کچھ دن پہلے ہی واپس آئے ہیں وہاں بھی ان کی یہی روٹین تھی یہ سن کر فریال کا دل اور بھی رحیل کی طرف راغب ہونے لگا تھا پھر رحیل اور مہ وش اپنے اپنے منصوبے کے مطابق آگے بڑھے باتوں ہی باتوں میں رحیل نے ذکر کیا اپنی بہن کی شادی کا ادھر پتہ نہیں کیوں ندیم کا دل بھی مچل اٹھا اس لڑکی کو اپنی ہم سفر بنانے کو وہ ایک دوسرے کو اپنے اپنے سیل نمبرز دے کر ہی اٹھے پھر اس دن کی دونوں طرف کی شاپنگ کا بل رحیل نے جان بوجھ کر دیا جان جی نے زد کی لیکن وہ بولا نہیں یہ ھمارے اصول کے خلاف ہے یا تو ہم اپنی اپنی پیمنٹ کریں گے یا میں ہی ساری اب فریال نے کہا کوئی بات نہیں ندیم پھر وہ اپنے گھر کو آ گئے گھر آ کر فریال نے مہ وش کو کال کی اور اسے اگلے دن کھانے کی دعوت دی وہ بولی میں تو آ جاؤں گئی پر بھائی نہیں آئیں گے آپ ایسا کریں ندیم سے کہیں وہ کال کری پھر بھائی آ جائے گا لیکن فریال تو اسے اپنے سامنے دیکھنا چاہتی تھی وہ بے اختیارانہ بولی مہ وش آپ ایک لڑکی ھو میں نے آپ کی آنکھوں میں جان جی کے لئے پسندیدگی دیکھ لی تھی آپ میری ہیلپ کریں میں وعدہ کرتی ہوں آپ ہی میری بھابھی بنو گئی میں میرڈ ہوں یار لیکن پھر بھی آپ کا بھائی میرا سب کچھ چڑا لے گیا ہے کچھ کرو یار دوسری طرف سے مہ وش نے کچھ دیر سوچا پھر بولی وعدہ کرتی ھو ندیم کا پرپوزل بجھواؤ گئی تو میں کچھ کرتی ہوں یہ سنتے ہی فریال نے ہاں کر دی پھر اگلے دن وہ آمنے سامنے تھے مہ وش جان بوجھ کر رحیل کو اکیلا چھوڑ کر چلی گئی اب فریال نے رحیل سے کہا آپ نے اس دن مجھے تھینکس بھی نہیں بولنے دیا رحیل نے سرد لہجے میں کہا آپ نے شکریہ ادا کر دیا تھا اسی دن اب میں چلتا ہوں یہ سن کر فریال تڑپ کے بولی پلیز رحیل کچھ دیر رک جاؤ رحیل نے اسے دیکھتے ہوئے کہا تم ایک میرڈ لڑکی ھو یہ کس چکر میں آ رہی ھو تو فریال نے بھی صاف بات کرنے کا سوچا اور بولی رحیل کامران مجھے خوش نہیں رکھ پاتا فریال نہیں جانتی تھی اس کے ساتھ والے کیبن میں کامران بھی موجود تھا جسے رحیل نے ہی کال کر کے بلایا تھا وہ یہ سب سن کر غصے میں کھولنے لگا اب رحیل نے کہا اس بات کی کیا گارنٹی ا ہے میں تم کو وہ خوشی دے پاؤں گا تو فریال بولی مجھے تم ہر حال میں قبول ھو میں آپ کو پانے کے لئے کامران سے طلاق تک لے لوں گی اب بھی رحیل نے کوئی مثبت رسپانس نہ دیا تو فریال بولی رحیل میری طرف غور سے دیکھو کیا کمی ہے مجھ میں اب رحیل نے اپنی پلاننگ کے مطابق کہا اچھا یہ بتاؤ میرے لئے کیا کر سکتی ھو فریال جذبوں میں ڈوب کر بولی سب کچھ تو رحیل نے کہا یہ بتاؤ تمہارا سائز کیا ہے فریال نے کہا چھتیس چھاتی سے اور ستائیس پیٹ اڑتیس ہپ ہے یہ سن کر تو کامران کا دل چاہ رہا تھا اس گھٹیا عورت کو ابھی طلاق دے رحیل نے قدم آگے بڑھایا میں تم کو بے لباس دیکھنا چاہتا ہوں تو فریال ایک دفعہ تو چپ ہو گئی پھر کچھ سوچ کر بولی کیسے دیکھو گئے رحیل نے کہا اسی ہوٹل میں روم لے لیتے ہیں فریال نے کہا ٹھیک ہے پھر رحیل نے کہا میں ابھی آیا پھر وہ کاؤنٹر پر گیا ار اس نے ایک ایسا کمرہ بک کروایا جس کے دو کمروں کے پیچھے گیلری ھو وہ وہاں سے ہٹا تو کامران نے اس کے ساتھ والا کمرہ لیا اور ان سے پہلے وہ گیلری میں چلا گیا اب رحیل اور فریال اس کمرے میں آئے رحیل تو اپنی نگینہ کا بدلہ لینا چاہتا تھا وہ جل رہا تھا کمرے میں آ آتے ہی رحیل نے فریال کو اپنی بانہوں میں بھرا اور بولا تم جیت گئی ھو اب اپنی دوستی کی خوشی میں منہ نہیں میٹھا کراؤ گئی تو فریال بولی جانو ابھی میں مٹھائی کا کہتی ہوں ابھی آپ کا منہ بھی میٹھا کرواؤں گیں جاتے ہوئے رحیل نے کہا جی نہیں میں وہ مٹھائی نہیں کھاتا اس میں کوئی مٹھاس ہی نہیں ہوتی اگر منہ میٹھا کروانا ہے میرا تو اپنے ان شبنمی ہونٹوں سے مجھے مٹھاس چکھنے دو فریال شرما کر بولی بولی جاؤ کام کرو کتنے تیز ھو اور رحیل کے ہاتھوں سے نکل کر صوفے پر جا بیٹھی میں اب فریال کے صوفے کے پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا اب اس پے جھک کر میں نے اپنی تھوڑی اس کے سر پے رکھی اور اسے کندھوں سے پکڑ کے بولا فریال آج مجھے یہ مٹھاس چکھنے دو اور ساتھ ہی اب میرے ہاتھ اس کے گریبان میں طرف رینگنے لگے وہ اب کی بار بولی رحیل کیا ہے یار اتنے میں میرے ہاتھوں کی انگلیاں فریال کے گریبان میں گھس گیں تھیں اور جیسے ہی اس کی چھتیس سائز کی چھاتی کو میرے ہاتھوں نے چھوا اسے ایک کرنٹ سا لگا وہ ایک سسکی لے کر بولی رحیل کوئی آ نہ جاۓ میں نے کہا کوئی نہیں آئے گا اب میں نے اس کی گالوں کی طرف اپنا منہ کیا اور اس کی گالوں سے لالی چرانے لگا میرے ہونٹ اب فریال کے گالوں کو چوم رہےتھے اور ہاتھ اس کی چھاتی کو مسل رہے تھے اب آہستہ سے اپنے ہونٹوں کو اس کے ہونٹوں سے جوڑا اور ان کو چوسنے لگا میرے ہونٹ یوں چمٹ گئے تھے اس کے ہونٹوں کے ساتھ جیسے لوہا مقنا تیس سے چمٹ جاتا ہے میں مزے سے فریال کے ہونٹوں کو چوس رہا تھا اور ہاتھوں سے اس کی چھاتی کو دباتا ہوا نیچے گیا اس کے سڈول پیٹ پے ہاتھ پھیرا اور اب وہ بہت گرم ہو گئی تھی اس نے کہا رحیل اف ف ف کیا ہے آپ کے ہاتھوں میں آج تک ایسا مزہ کامران نے نہیں دیا میں اب کی طرف آگے سے آیا اور اسے اپنی بانہوں میں بھر کے چومنے لگا دوبارہ سے اب کی بار وہ بولی رحیل ایسے ہی چوسو میرے ہونٹوں کو اب میں دوبارہ سے اس کے ہونٹ چوسنے لگا اور وہ مزے سے تڑپنے لگی پھر اپنے ہاتھ اس کی کمیض میں ڈالے اور اس کی کمیض کو اوپر کر کے اتار دیا اب اس نے بھی اپنے ہاتھ اوپر کیے اور میں نے اس کی کمیض کو اتارا اب اس کی بھری چھاتی صرف ایک ریڈ کلر کے برا میں تھی میں اسے ہونٹوں سے چوسنے لگا پھر سے اور ساتھ میں اس کے ممے بھی دبانے لگا برا کے اوپر سے ہے اب اس کی بے تابی بڑھ گئی تھی اس نے کہا رحیل اب آؤ بیڈ پے چلتے ہیں میں نے اسے وہاں صوفے پے ہی بیٹھنے کو کہا اور اب اس نے خود ہی اپنا برا اتار دیا میں اب اس کے سامنے بیٹھ کر اس کے ممے چوسنے لگا اب وہ بہت مچل رہی تھی میں ایک ممے کی نیپل کو منہ میں ڈالا اور چوسنے لگا اور دوسری طرف والی ممے کو اپنے ہاتھ میں لے کر مسلنے لگا وہ اب بہت بیتاب ہو رہی تھی فریال نے اب ہلکی آواز میں سسکنا شروع کر دیا تھا اب کی بار اس کے مموں کو کوئی دس منٹ تک چوسا اور پھر نیچے پیٹ کی طرف آیا اس کے ملائم پیٹ پے بھی اپنی زبان سے چاٹنے لگا اور ساتھ میں اپنا ایک ہاتھ اس کی چوت کی طرف لایا اور وہ ایک دم سے جیسے تڑپ سی گئی اب میرا ہاتھ فریال کی چوت کو سہلا رہا تھا اور میری زبان اس کے پیٹ کو چوم رہی تھی پھر میں اس کی شلوار کو اپنی طرف کھینچا اور اتار دیا ساتھ میں اب کی ریڈ پینٹی کو بھی اتارا اب اس کی پھولی ہوئی چوت دیکھ کر میرا لن تڑپ کے کھڑا ہو گیا میں نے اپنے ہاتھ کی دو انگلیوں سے اس کی چوت کے لب کھولے اور اپنی زبان وہاں رکھ کر چوسنے لگا ساتھ میں میرے ہاتھ کی ایک انگلی بھی اب اندر باہر ہونے لگی تھی اس کی چوت کے وہ بہت مزے سے سسک رہی تھی اب میں نے اب اپنی زبان اس کی چوت میں اندر باہر کرنے لگا وہ اب ہلکی آواز میں سسکی آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف رحیل ایسے ہی آج میری چوت کو چوس چوس کے اس کی پیاس بجھا دو مجھے کبھی نہیں چوسا یہاں سےکامران نے وہ بہت زیادہ مزہ محسوس کر رہی تھی میں نے اب ساتھ میں ایک انگلی اس کی چوت میں ڈال کر اندر باہر کرنے لگا اور ساتھ ہی اسکی چوت کے دانے پر زبان پھیرنے لگا وہ با زیادہ دیر نہ خود کو روک سکی اور مزے سے بے تاب ہو کر آخر کار اس کی چوت نے پانی چھوڑ دیا وہ اب لمبی سانس لے کر بولی رحیل یہ کیسا مزہ تھا جو مجھے آج تک نہیں ملا کبھی بھی اب اس نے مجھے اپنی بانہوں میں لیا کس کی مجھے پھر میں اس کے ساتھ ہی بیٹھا صوفے پے اب کی بار اس نے اپنا ہاتھ میری گود میں رکھا اور ہلکے سے اسے میرے لن کی طرف لے گئی پھر اس نے میرے لن کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور سہلانے لگی میں نے بھی اب دوبارہ سے اسے ہونٹوں سے کسنگ شروع کر دی تھیں اب اس نے میری گود میں جھک کر میری پینٹ کی زپ کھولی اور انڈر ویر سے میرا لن باہر نکالا اور اسے دیکھ کر بولی اف ف ف ف کافی توانا ہے اور ساتھ ہی اس نے اس پے جھک کر اسے اپنے منھ میں لے لیا اور چوسنے لگی اب وہ مزے سے میرا لن چوس رہی تھی اور میں اس کی کمر کو سہلا رہا تھا کوئی پانچ منٹ بعد اسے کھڑا کیا اور اپنے سارے کپڑے اتار کے اس کے پیچھے آیا اسے کہا اب آگے صوفے کی ٹیک پے ہاتھ رکھوں اس نے ایسا ہی کیا اب اسے کہا چلو اباپنی ٹانگیں فل کھول کر چوڑی کرو اس نے اپنی ٹانگیں کھول دیں اب میں نے اس کی پیچھے کو ابھری ہوئی چوت کو ہلکے سے سہلایا اور اپنا لن اس میں ڈال دیا فریال ایک دم سے تڑپ اٹھی اور ہلکی آواز میں درد بھری سسکاری لے کر بولی پیار سے ایک دفع سارا ہی اندر کر دو میں نے ایسے ہی کیا اور پھر اس کی نیچے کو لٹکی چھاتی کو اپنے ہاتھوں میں پکڑا اور زور سے لن کو دھکے مارنے لگا یاہ یاہ یاہائے ہائے ہائے اف ف ف ف ف اب وہ میرے ہر دھکے سے آگے کی طرف جھک جاتی میں نے اب کی بار اسے کمر سے مضبوطی سے پکڑا اور زور زور سے لن کو دھکے دینے لگا تین منٹ یوں ہی چودا فریال کو گیلری میں ایک کھڑکی اتفاق سے کھلی تھی اس میں موجود درز سے کامران سب دیکھ رہا تھا لیکن وہ مجبور تھا کیوں کہ اس کا سارا بزنس فریال کے نام تھا اب اس نے دیکھا رحیل نے اب پزیشن بدلی ہے اور اور فریال کی ایک ٹانگ پکڑ کے صوفے کی ٹیک پے رکھی اور اپنا لن اس کی چوت میں ڈال کے مزے لینے لگا اب کی بار وہ کچھ زیادہ ہی آہو پکار کر رہی تھی لیکن رحیل نے اسے یوں ہی چودنا جاری رکھا اور فریال سسکیاں بھرتی رہی پھر کوئی پدو منٹ بعد اس نے رحیل سے کہا اب کچھ دیر آرام کرنے دو بہت درد ہے آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ رحیل نے اس کی وہ ٹانگ نیچے کی جو صوفے پے رکھی تھی اور فریال کو لے کر بیڈ پے آ گیا اسے لٹایا اور خود اس کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھ کر لن کو اندر کیا وہ ایک دم درد اور مزے کے ملے جلے احساس سے سسک اٹھی رحیل زور زور سے لن کو اندر کرتا اور باہر نکالتا پھر کوئی ایک منٹ اسے یوں ہی چودا اور اب کی بار اسے اپنے سینے سے لگا لیا اور نیچے سے فریال دونوں طرف اپنی ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ گئی ہائے ہائے ہائے ایسے ہی لگے رہو ہائے میں اب اور جوش سے فریال کی چوت کو چودنے لگا اب وہ مزے سے آنکھیں بند کر کے سسکیاں بھر رہی تھی اسے درد بھی ہو رہا تھا اور مزہ بھی شدید قسم کا مل رہا تھا اور رحیل اب کی بار بیدردی سے چوت میں لن کو ڈالتا اور زور سے دھکے مارکر اسے چود رہا تھا یاہ یاہ یاہ ہائے ہائےکی آوازوں کے ساتھ فریال اب مسلسل سسک رہی تھی پھر مجھے اب اسے چودتے کوئی سات منٹ ہی ہووے ہوں گے اس کی چوت نے دوبارہ سے پانی چھوڑ اب میں نے اسے کہا چلو اب لیٹ جاؤ وہ لیٹ گئی اب میں بھی اس کی طرف ٹانگیں کر کے لیٹ گیا اور اب میں نے اس کی ٹانگوں میں اپنی ٹانگیں پھنسا لیں اور اپنا لن اس کی چوت میں ڈالا اب ہم دونوں ہی ایک دوسرے کے مخالف لیٹ کر وہ میری طرف زور لگاتی میں اس کی طرف اور یوں میرا لن اب جیسے اس کے پیٹ میں جڑ تک جاتا آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف م م م م م م م رحیل اور زور سے فریال اب مسلسل چلا رہی تھی اور اب میں بھی کافی زور لگا رہا تھا اور وہ تو جیسے مزے سے پاگل سی ہو رہی تھی وہ اب زور سے میری طرف زور لگاتی اور پھر ساتھ ہی درد بھری سسکیاں لینے لگتی رحیل نے اب کی بار اسے زور سے چودنا جاری رکھا پھر وہ فریال کے اوپر لیٹ گیا اور اس کے ہونٹ چوسنے لگا آہ آہ آہ آہ آہ اوہ او وہ اف ف ف ی اہ فریال تو مزے کی وادیوں میں سیر کرتی پھر رہی تھی مزے سے تڑپ رہی تھی میرے ہر دھکے نے اب جیسے اس کی چوت کی بنیادیں تک ہلا دیں تھیں اور وہ ہلکی آواز میں مسلسل ہی چیخی جا رہی تھی آہ آہ آہ آہ آہ اوہ اوہ وہ رحیل میں مار گئی اب کوئی چار منٹ بعد مجھے لگا میں بھی نزدیک ہی ہوں تو فریال کو اپنی بانہوں میں بھرا اور زور زور سے دھکے مارنے لگا اب ایک زور دار دھکے کے ساتھ ہی فریال فارغ ہو گئی اور ساتھ میں بھی اب ہم دونوں ہی اپنی منی خارج کر چکے تو میں اس کے ساتھ ہی لیٹ گیا اب وہ مجھے اپنی بانہوں میں لئے ہی بولی رحیل پلیز اپنا لن میری چوت میں ہی رہنے دو تو لن کو میں نے فریال کی چوت میں ہی رہنے دیا اور خود بھی آنکھیں بند کر لیں کافی دیر ہم یوں ہی لیٹے رہے میں بہت خوش تھا کیوں کہ میں نے آج جان جی کی بہن سے سارا بدلہ لے لیا تھا پھر میں نے کہا فریال بھوک لگی ہے تو میں کھانا منگواؤں اس نے اپنی نشیلی آنکھیں اٹھا کر مجھے دیکھا اور بولی "... رحیل میں نے ابھی بس اسے کھانا ہے یہ کہ کر اس نے میرے ، لن کو پکڑ لیا اوراس پے نرمی سے ہاتھوں سے مساج کرنے لگی - پھر وہ اٹھی اور واش روم گئی وہاں سے وہ آئل کی شیشی لے کر باہر آئی - اس نے کافی سارا آئل اپنے ہاتھ میں ڈالا اور اسے میرے لن پے ملنے لگی اب فریال ایک ہاتھ سے میرے لن کی کیپ کو مسل رہی تھی (اور باہر کھڑا اس کا شوھر کامران ملک دل ہی دل میں اسے گالیاں دے رہا تھا سالی رنڈی میرے لن کو کبھی ایسے پیار سے مساج نہیں کیا اور آج اپنے اس یار پر کتنا پیار نچھاور کر رہی ہے ) – دوسرے ہاتھ کی مٹھی بند کر کے وہ لن کا مساج کرنے لگی کچھ دیر یوں ہی اس نے لن کی تھکاوٹ اتاری اور دوبارہ سے اب کی بار لن کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر نرمی سے اوپر نیچے کرنے لگی - لن کی رگیں اب پھول گئی تھیں وہ اسے یوں پھن اٹھاتے دیکھ کر بولی اب میں اس سانپ کو اپنی چوت کی بل میں داخل؛ کروں گئی - یہ کہ کر فریال نے نے اب اپنے پرس سے ایک مخملی کپڑے کا چھوٹا سا رومال نکالا اور اس سے میرے لن کو نرمی سے صاف کرنے لگی - فریال نے اپنے ہاتھ بھی اچھی طرح صاف کیے اور پھر اپنی دونوں ٹانگوں کو میری گردن کے دائیں بائیں رکھا اور خود میرے لن پے بیٹھ گی - میں سیدھا لیٹا ہوا تھا اس نے اب لن کو ایک بار ہلکے سے اپنی چوت میں لیا اور کچھ دیر روک کر سانس لیتی رہی پھر اس نے ایک دم سے اپنے ہاتھ میرے سینے پے رکھے اور زور زور سے اپنی گانڈ کو ہلانے لگی- اب فریال اچھل اچھل کر لن پے اوپر نیچے ہو رہی تھی -کچھ دیر بعد وہ مزے سے سسکنے لگی اس نے اپنے ہاتھوں کو میرے ہاتھوں میں ڈالا اور میرے اوپر لیٹ گئی میرے دونوں ہاتھ دائیں بائیں تھے اور فریال کے ہاتھوں کی گرفت میں تھے - فریال اب مزے سے چیخ رہی تھی – کوئی دس منٹ اس نے اسی اینگل سے میرے لن پے سواری کی پھر میرے ہاتھوں کو چھوڑ کر اس نے اپنی ٹانگیں اب فولڈ کیں اور میرے پیٹ پے آلتی پالتی مار کے بیٹھ گئی - اب وہ ہلکے ہلکے سے اچھلنے لگی - اس کے اچھلنے سے مجھے بھی اب درد سا ہونے لگا تھا کیوں کے اس کا سارا وزن میرے پیٹ پے ہی تھا – لیکن میں نے برداشت کیا اور مزے کو ذھن میں رکھ کر اس کا ساتھ دینے لگا اپنی رانوں کو کچھ سکیڑ کر اب میں بھی اوپر کی طرف زور لگانے لگا تھا - اس اینگل میں فریال پانچ منٹ بعد ہی تھک سی گئی اب اس نے اپنی ٹانگیں بیڈ پے رکھیں اور اپنے ہاتھوں کو اپنی گردن کے پیچھے باندھ لیا اب وہ اپنی رانوں کے بل پے میرے لن کے اوپر نیچے ہو رہی تھی اس کے جسم کا کوئی حصہ مجھے نہیں چھو رہا تھا - میں اب اس کی ہلتی چھاتی میں کھو سا گیا - اس نے میری طرف دیکھا اور مسکرا کے بولی رحیل ان کو چھونا بھی نہیں - میں نے کہا ٹھیک ہے ظالم وہ اب کھلکھلا کے ہنس دی – فریال نے اپنی دونوں ٹانگیں جوڑی اور ایک ہی طرف کر دیں - اب وہ اپنے گھٹنوں میں سر دے کر میرے لن پے بیٹھی تھی -اور اس کی گانڈ نیچے سے ہل رہی تھی -فریال کا اوپر والا جسم بلکل ساکت تھا صرف وہ گانڈ کو ہلا رہی تھی - میں اب سوچنے لگا کم بخت کیسے کیسے اینگل بدل رہی ہے - اب تین منٹ تک فریال نے ایسے ہی لن پے اچھلتی رہی - پھر وہ اپنے ہاتھ آگے بیڈ پے رکھ کر لمبے لمبے سانس لینے لگی اور اس کی چوت سے منی نکل کر میرے ٹٹوں کو بھگو رہی تھی - فریال اس وقت تک رکی رہی جب تک منی ساری نہ نکل گئی ہو – پھر اس نے وہی مخملی کپڑا لیا اور میرے لن کو اچھے سے صاف کیا - بعد میں اپنی چوت کو صاف کرنے کے بعد فریال دوبارہ سے میری رانوں پے بیٹھ گئی اس دفع اس نے میری طرف اپنی کمر کر لی تھی - میرا لن اپنی چوت میں لیا اب اس نے اپنے دونوں ہاتھ میری پنڈلیوں پے رکھے اور میری رانوں پے جیسے لیٹ سا گئی – اب اس نے زور سے اپنی گانڈ اوپر نیچے کرنا شروع کیا اب کی بار میں بھی کافی زور سے نیچے سے لن کو اوپر کی طرف دھکا لگا رہا تھا - فریال نے مزے سے تڑپنا شروع کیا - اوئی ئی ئی ئی رحیل اف ف ف اور ساتھ ہی زور سے ہلنے لگی میں بھی کافی سپیڈ سے لن کو اوپر کی طرف دھکے دینے لگا - اور فریال کی سسکیاں کافی تیز تھیں اب تک وہ اپنی مرضی سے لن کو اندر لیتی تھی کبھی تھوڑا کبھی زیادہ لیکن میں نے اب کی بار لن کو جڑھ تک اندر کرنا شروع کر دیا تھا - اب میرے طوفانی دھکوں نے جیسے فریال کے اندر سے سب کچھ ہلا دیا تھا وہ زور سے چلا رہی تھی فریال نے اپنے آپ کو میرے اوپر گرا لیا اور میرے سینے پے لیٹ کر میرے ہونٹ چومنے کی کوشش کی میں نے اپنا منہ سائیڈ پے کر لیا مجھے کتنا تڑپایا تھا اس نے اپنی چھاتی تک کو ہاتھ نہیں لگانے دے رہی تھی میں نے بھی سوچ لیا اسے اب کچھ دیر یوں ہی ترپاؤں گا وہ میری یہ حرکت دیکھ کر ہنس دی اور بولی میری جان ناراض ھو اپنی فریال سے تو رحیل بولا ابھی بتاؤں گا آپ کو تو فریال اٹھلا کے بولی جانو آج وہ سکون مل رہا ہے جسے میں آج تک نہیں پا سکی - میں اپنی جان کو جیسے تم کہو ویسے راضی کروں گئی یہ کہہ کر اس نے اٹھ کر اپنا منہ میری طرف کیا اور میرے لن کو اپنی چوت میں لے کر اس نے میرے دونوں ہاتھ پکڑے اور اپنی چھاتیوں پے رکھ کر بولی رحیل ان کو جیسے مرضی مسلوں میں اب ہنس دیا اور اسے اپنے اوپر کھینچ کے اس کے ہونٹ چوسنے لگا وہ بھی اب مزے کی لذت سے بے تاب سی ہو گئی تھی میں نیچے سے نان سٹاپ دھکے مارنے لگا فریال کی گانڈ کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیا تھا وہ مزے سے مسلسل تڑپ رہی تھی اس کی آہیں اب کمرے میں گونجنے لگیں - کوئی پانچ منٹ بعد فریال نے کانپتے ہونٹوں سے کہا رحیل میں بس آنے ہی والی ہوں میں نے جواب دیا میں بھی پاس ہی ہوں اب ہم دونوں ہی زور سے ایک دوسرے کی طرف دھکےمارنے لگے پھر ایک منٹ بعد ہی اس کی چوت نے میرے لن کو گیلا کر دیا اور میرے لن نے اس کی چوت میں منی کا چھڑکاؤ کرنا شروع کیا - اب وہ میرے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ اٹھا کر بولی رحیل میں ساری زندگی یہ مزہ نہیں بھول سکتی -میں نے ہنس کے کہا - میں بھی نہیں بھولوں گا آپ کا سیکس کرنے کا انداز کمال کا ہے فریال وہ اب کچھ شرما کے بولی نہیں صرف جان کہو اور یہ کہہ کر مجھے اپنی بانہوں میں بھر کے میرے ساتھ ہی لیٹ گئی ہم دونوں کوئی پندرہ منٹ ایسے ہی لیٹے رہے - پھر دونوں ہی واش روم میں گئے اور اچھی طرح خود کو صاف کر کے باہر نکل آئے باہر کھڑا کامران اب سوچ رہا تھا میں کیا کروں پھر اس کی مردانگی جیت گئی اس نے فیصلہ کیا اب فریال اس کے قابل نہیں رہی اور وہ یہ فیصلہ کر کے مطمئن ہو گیا وہ وکیل کے پاس گیا اور طلاق کے کاغذات تیار کروا کر گھر آ گیا فریال جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی اس نے کہا روک جو بے حیا عورت یہ لو طلاق نامہ اور واپس جاؤ اپنے رحیل کے پاس یہ سن کر ایک دفعہ تو فریال لڑکھڑا گئی لیکن پھر اس کے دل نے کہا تم بھی تو یہی چاہتی تھی اب رحیل کو اپنی زندگی میں شامل کر لو اور روز ایسے ہی مزے لیا کرنا وہ خاموشی سے وہ کاغذات لے کر اپنے کمرے میں آئی اس نے کامران کی جائیداد کے ڈاکومینٹ اس کے حوالے کئے کامران سے کہنے لگی جب میں آپ کی نہیں رہی تو آپ کی دولت سے میرا کیا تعلق اور سب کاغذات پر سائن کر کے وہ کامران کو دئیے اور وہاں سے اپنے باپ کے گھر آ گئی گھر آ کر اس نے یہ سب کسی کو نہ بتایا وہ ندیم کا انتظار کرنے لگی ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ادھر جان جی کو مہ وش نے اتنا دیوانہ کر دیا تھا کہ اس نے گھر میں سب کو کہہ دیا تھا رشتے کا وہ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اسے چاہنے لگا تھا جو اس کے ہاتھ نہیں لگ رہی تھی پھر اس کو کال کر کے اس نے سب کچھ کہا تو اس نے شرط رکھی وہ اپنا پرپوزل اس کے گھر بیجھے سو آج اس کے گھر والے نگینہ کے گھر مہ وش کا رشتہ لینے گئے تو جاوید ملک نے شہباز تابش کو کافی آڑھے ہاتھوں لیا اور کہا تابش صاحب مہ وش میری بھانجی ہے بیٹی نہیں اور دوسری بات وہ تو چار سال سے شادی شدہ ہے میری اکلوتی بیٹی نگینہ ہے تب نگینہ ان کے سامنے آئی تو انہوں نے اسے پسند کر لیا اب نگینہ کی والدہ نے کہا اس کا نکاح ہو چکا ہے ھمارے گھر تو کوئی لڑکی اور نہیں ہے آپ کو کس نے ایسے مس گائیڈ کیا ہے جب وہ وہاں سے نکلنے لگے تو نگینہ نے ندیم کی والدہ کو سب کچھ بتا دیا حسن اتفاق سے وہ سب کچھ شہباز تابش نے بھی سن لیا وہ اپنے لاڈلے بیٹے کا یہ اصل چہرہ دیکھ کر حیران تھا جان جی کی ماں نہ مانی تو نگینہ ان کو ڈاکٹر تنزیلہ کے پاس لے گئی اس نے نگینہ سے بھی زیادہ جان جی کے ماں باپ کی بے عزتی کی وہ شہباز تابش جس سے کوئی آنکھ ملا کر بات نہیں کرتا تھا آج اپنے بیٹے کی وجہ سے ان دو دھان پان سی لڑکیوں سے آنکھ نہیں ملا پا رہا تھا وہ دل میں درد لئے گھر آ رہے تھے کہ ان کو کامران ملک نے کال کر کے طلاق کا بتا دیا اور وجہ بھی صاف بتا دی اب جس بیٹی کے باپ سے یہ کہا جائے تمہاری بیٹی بے حیا اور بد چلن ہے وہ زندہ کب رہتا ہے گھر آتے ہی شہباز نے اپنی بیٹی اور بیٹے کو اپنے سامنے کھڑا کیا ان دونوں کے منہ پر تھپڑوں کی بارش کر دی اس کا بھی بھی نواز اور بھتیجا عادل تڑپ کے آگے بڑھا تو شہباز تابش اپنے چھوٹھے بھائی کے گلے لگ کر بچوں کی طرح رونے لگا اور سب سچائی بتا دی عادل یہ سن کر بولا یہ نہیں ہو سکتا فریال نے تڑپ کے کہا نہیں پاپا کامران نے بکواس کی ہے رحیل ایسا نہیں ہے اس نے اسی وقت رحیل کو کال کی تو اس کی جگہ مہ وش نے کال رسیو کی اور ہنس کر بولی فریال جانو طلاق مبارک ھو اب فریال بولی تم نے یہ سب کیوں کیا تو اسی وقت رحیل کی aوض آئی یہ سب اپنے حرامی بھائی سے پوچھ جس نے میری منکوحہ نگینہ کے ساتھ یہ سب کیا یہ مکافات عمل ہے وہی سب تمہارے ساتھ ہوا تمہارے ذلیل بھائی نے نہ جانے کتنی معصوم لڑکیوں کی زندگیاں تباہ کیں ہیں آج اسے احساس ہو گا جب اس کی اپنی بہن سے یہ سب ہوا ہے یہ سن کر فریال کا دل چاہ رہا تھا زمین پٹھے اور وہ اس میں سما جائے عادل نے آگے بڑھ کر جان جی کے منہ پر تھپڑ مارا اور روتے ہوئے کہا کیوں کیا تم نے ایسا ظالم کیوں فریال تو سکتے کی حالت میں آ گئی تھی اب اور شہباز تابش نے کہا میں اس حرام زادے کو عاق کرتا ہوں بیگم یہ سب تمہاری کوتاہی ہے میں جب بھی اسے ٹوکتا تم اس کے سامنے آ جاتی جان جی کی والدہ رو کر بولی تابش صاحب اکلوتا بیٹا تھا یہ سنتے ہی شہباز تابش نے غصے سے پھنکارتے ہوئے کہا عادل بھی اکلوتا تھا اس نے یہ سب کیوں نہیں کیا یہ بات ثابت کرتی ہے تم نے بچوں کی تربیت ٹھیک نہیں کی اور بھابھی بیگم نے اپنے اکلوتے بیٹے کو بگڑنے نہیں دیا اب اپنی یہ منحوس اولاد لے کر میری نظروں سے دور ہو جاؤ تم تو اپنی بیٹی کی بھی تربیت نہ کر سکی تم کو صرف فنکشنوں سے ہی فرصت نہیں ملتی تھی میری والدہ صحیح کہتی تھیں میں نے زندگی میں ایک ہی بھول کی ہے اور وہ تم سے اپنی پسند کی شادی کر کے اب نواز صاحب نے روتے ہوئے کہا بھائی جان خود کو سنبھالیں تو شہباز صاحب رو کر بولے کیسے سنبھالوں میرا داماد ہی مجھے کہتا ہے تمہاری بیٹی بد چلن ہے اس نے سب اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے آہ فریال تم یہ سب کچھ کرنے سے پہلے مر کیوں نہیں گئی شہباز صاحب روتے ہوئے اپنے کمرے میں گھس گئے جان جی کی والدہ نے اپنے بیٹے کے سامنے کھڑے ہو کر کہا ندیم تم نے مجھے ان کی نظروں سے گرا دیا کاش دنیا کی مائیں مجھ سے سبق سیکھیں اور اپنے اکلوتے بیٹوں کی چھوٹی چھوٹی غلطی پر بھی کبھی پردہ نہ ڈالیں بیگم شہباز ویسے ہی دل کی مریض تھیں یہ کہہ کر وہ بیٹی کے سامنے آئیں اور بولیں بیٹی میں فارن میں پڑھی تھی لیکن اتنا فارورڈ تو میں بھی نہیں ہو سکی تم کو میں نے جتنا پیار دیا آج اس کا یہی صلہ تھا میرا میں نے ساری زندگی تابش صاحب کے نام پر گزار دی اس کی خاطر اپنا میکہ چھوڑ دیا اور آج تم دونوں نے مجھے ان کی نظروں سے ہی گرا دیا اس سے تو اچھا تھا میں بے اولاد ہی رہتی اب مجھے جی کر کیا کرنا ہے پھر ان کی حالت خراب ہونے لگی تو سب تڑپ کر ان کو ہسپتال لے جانے کے لئے آگے بڑھے فریال تڑپ کے سامنے کمرے میں گئی اور رروتے ہوئے بولی پاپا ماما کو کچھ ہو رہا ہے اندر سے شہباز صاحب کی ڈوبتی آواز سنائی دی اچھا ہے تم جیسی بے حیا اولاد سے تو موت اچھی ہے اور پھر ان کی آواز ساکت ہو گئی فریال اب بھاگ کر اپنے پاپا کے پاس گئی اور ان کے ہاتھوں میں نیند کی گولیوں کی شیشی دیکھ کر وہ چیخی چچا ابو پاپا کو کیا ہو گیا ہے اب نواز صاحب بھی کی طرف دوڑے اور ندیم اپنی ماں کو لے کر گاڑی کی طرف بڑھا لیکن اس کی گود میں ہی ماں نے آخری ہچکی لی اور اندر سے اسی وقت نواز چچا کے چیخنے کی آواز سن کر وہ ماں کی لاش لے کر واپس بھاگا تو فریال نے روتے ہوئے کہا بھائی پاپا نے سلیپنگ پلز کھا کر خود کشی کر لی ندیم کو یوں لگا جیسے اس کے سر پر چھت آ گری ھو ۔۔۔۔
ایک تبصرہ شائع کریں for "جان جی "