دوستو، سب کو میری پیار بھری سلام۔ یہ میری ایک سہیلی
کی کہانی ہے ۔جس نے مجھے خود یہ سنائی۔ تو
میں اس واقعے کو آپ کے ساتھ شئیر کرنا چاہوں گی۔ کہانی آپ خود اس کی زبانی سنیں ۔
تو میں اپنا تعارف کرواتی ہوں آپ سب کو۔ جی میرا نام
پرینکا ہے اور سب مجھے پریا کہتے ہیں۔ میں ایک گھریلو خاتون ہوں۔ اور میری عمر 24
سال ہے۔ میرا فگر ہے 36″27″35″۔
میں بہت خوبصورت اور سیکسی ہوں ۔
اب زیادہ وقت ضائع کیے بغیر، سیدھا کہانی پر آتی ہوں۔
ابھی 4 ماہ پہلے ہم نئے ٹاؤن میں شفٹ ہوئے تھے۔ بات یہ
ہے کہ ہم جس ٹاؤن میں شفٹ ہوئے تھے، وہاں میری ایک سہیلی بھی اپنے شوہر کے ساتھ
رہتی تھی۔ ایک دن میں گھر پر اکیلی بور ہو رہی تھی، تو اس سے ملنے کے لیے نکلی۔
میں نے شوہر کو بھی فون کر کے بتا دیا کہ میں سہیلی سے ملنے جا رہی ہوں۔ (پونیت،
میرے شوہر، عمر 28 سال)
میں نے ساڑھی پہننا ہی مناسب سمجھا، اور نیٹ والی ساڑھی
کے ساتھ سلیو لیس بلاؤز پہن کر نکلی۔ بس میں بیٹھ کر میں اس کے علاقے میں پہنچ
گئی۔ وہاں اتر کر میں پیدل چلنے لگی۔ پھر کچھ دیر بعد اچانک بارش شروع ہو گئی۔
بارش کی وجہ سے میں جلدی سے ایک آٹو میں بیٹھ گئی اور
اسے ایڈریس بتایا۔ ہم جا ہی رہے تھے کہ بارش اور زور سے ہونے لگی۔ آٹو میں پانی
اندر بھی آ رہا تھا۔ 5 منٹ میں ہم میری سہیلی کے گھر پہنچ گئے۔
پھر میں نے پیسے دے کر وہاں اتر گئی۔ میں جب اندر گئی
تو گھر بند تھا۔ تب مجھے یاد آیا کہ میں نے اس کو فون کرنا ہی بھول گئی تھی۔ پھر
جلدی سے میں نے باہر آ کر دیکھا، تو آٹو بھی آہستہ آہستہ جا رہا تھا۔ میں
"آٹو-آٹو رکو" کہتے ہوئے دوڑنے لگی۔
خوش قسمتی سے آٹو رک گیا، اور میں 100 میٹر دوڑتے ہوئے
آٹو کے پاس پہنچ گئی۔ تب تک میں پوری بھیگ چکی تھی۔ اوپر سے دوڑنے کی وجہ سے میں
ہانپ بھی رہی تھی۔
میں: اچھا ہوا بھائی صاحب آپ رک گئے۔
آٹو والا: کیا ہوا؟
میں: ارے وہ گھر بند ہے۔ تو…
آٹو والا: اوہ، اچھا ٹھیک ہے۔ آپ بیٹھیں، بھیگ کیوں رہی
ہیں آپ؟
پھر میں آٹو کے اندر آ گئی۔
میں: میری آواز سنائی دی کیا آپ کو؟
آٹو والا: نہیں، میں تو آئینہ دیکھ کر رکا تھا۔ آپ تو
پوری بھیگ گئی ہو۔ کہاں جانا ہے بولو، میں ڈراپ کر دوں گا آپ کو۔ بارش ہو رہی ہے،
تو میں بھی گھر جاؤں گا نا میڈم۔
پھر میں نے اپنے علاقے کا نام بتایا، تو اس نے سیدھا
منع کر دیا۔ وہ بولا، کہ اتنی دور اس بارش میں وہ نہیں جائے گا۔ پھر وہ بولا-
آٹو والا: ایک کام کرو میڈم۔ میرا گھر پاس میں ہی ہے۔
آؤ چلتے ہیں وہاں۔ بارش ختم ہونے کے بعد چلے جانا۔
مجھے آٹو والا صحیح لگا، تو میں اس کے ساتھ جانے کے لیے
راضی ہو گئی۔ پھر ہم اس کے گھر پہنچے۔ اس نے مجھے اندر بلایا۔ میں اس کے ساتھ اندر
گئی اور جا کے دیکھا کہ اس کی حاملہ بیوی کچھ کام کر رہی تھی۔ اور ایک 4 سال کا
لڑکا ننگا گھوم رہا تھا گھر پر۔
میں نے اس کی بیوی کو نمستے کی، پر اس کا کوئی رسپانس
نہیں آیا۔ پھر آٹو والا بولا-
آٹو والا: میڈم آؤ آپ اندر آؤ۔
میں آٹو والے کے کمرے کے اندر گئی۔ اس نے مجھے بیٹھنے
کو کرسی دی، تو میں بیٹھ گئی۔
آٹو والا: میڈم، آپ بھیگ گئی ہیں۔ ایک کام کیجیے، آپ
چینج کر لیجیے۔
میں: نہیں کوئی بات نہیں، میں ٹھیک ہوں۔
آٹو والا: ارے آپ کی طبیعت خراب ہو سکتی ہے۔ چینج کر کے
آپ اندر بیٹھیں، میں باہر جا رہا ہوں۔
یہ بول کر اس نے مجھے بس ایک لمبی تولیہ دی۔
میں: تھینکس، اچھا تمہارا نام کیا ہے؟
آٹو والا: راجو (راجو، عمر 30)۔
میں: راجو۔
راجو: آپ چینج کر لیجیے میڈم۔
پھر راجو چلا گیا اور میں نے اپنی ساڑھی، پیٹیکوٹ اور
بلاؤز اتار دیے۔ اب بس پینٹی اور برا میں ہی راجو کی دی ہوئی تولیہ لپیٹ لی۔ بارش
رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ اتنے میں میرے شوہر کی کال آئی، تو میں نے جھوٹ
بول دیا، کہ میں سہیلی کے وہاں تھی۔ میں نے کہا، کہ میں بارش کی وجہ سے نکل نہیں
پا رہی تھی۔ پھر میں نے کال کاٹ دی۔
تب راجو بغیر شرٹ کے صرف ایک پینٹ پہن کر اندر آیا۔ اس کے
ہاتھ میں کچھ نمکین اور اچار تھا۔ پینٹ سے اس کا کھڑا لنڈ مجھے بالکل صاف دکھ رہا تھا۔
پھر الماری سے شراب کی ایک بوتل نکال کر وہ میرے سامنے ہی بیٹھ کر پینے لگا۔
پیتے وقت وہ مجھے ہی گھور رہا تھا اور اپنے لنڈ کو دباتے
جا رہا تھا۔ اب مجھے عقل آئی کہ میں پوری طرح سے پھنس چکی تھی۔ تو میں دوسری طرف منہ
کر کے بیٹھ گئی۔ اب اسے میری چھاتیاں سائیڈ سے دکھ رہی تھیں۔
کچھ دیر پینے کے بعد اس نے اپنا لنڈ پینٹ سے باہر نکالا
اور ہلانے لگا۔ میں چپکے چپکے دیکھ رہی تھی۔ اب سب کچھ کنٹرول سے باہر جا چکا تھا۔
اس کا کالا موٹا لنڈ اور گلابی ٹوپی دیکھ کر میں بھی بہت ہاٹ ہو گئی تھی۔ میں جان گئی
تھی کہ میرا چدنا طے ہے۔
پھر راجو شراب ختم کر کے پینٹ بھی اتار کر میری طرف آیا۔
میری سانسیں تیز ہونے لگی تھیں۔ اس کا لنڈ دیکھ کر میں بھی گرم ہو گئی تھی۔ تبھی میرے
کندھوں پر اس کا ہاتھ لگا۔ پھر اس نے مجھے اٹھا کر بستر پر لٹا دیا اور خود میرے اوپر
چڑھ کر مجھے چومنے لگا۔
اس پر شراب کا نشہ تھا اور مجھے اس کے لنڈ کا نشہ چڑھا ہوا
تھا۔ میں بھی اسے کچھ نہیں بول رہی تھی۔ پھر ہم نے لپ کس شروع کر دیا۔ لپ کس کرتے وقت
اس نے کب میرا تولیہ اور برا اتار دیا، مجھے پتا ہی نہیں چلا۔
پھر وہ میری چھاتیوں پر ٹوٹ پڑا۔ کبھی وہ چھاتیاں دباتا
تو کبھی چوستا۔ ایسے ہی کرتے کرتے اس کا ہاتھ میری چوت تک پہنچ گیا۔ پینٹی کے اندر
ہاتھ ڈال کر وہ میری چوت میں انگلی کرنے لگا۔ چوت پر ہاتھ لگتے ہی میں تڑپ اٹھی۔
کچھ دیر انگلی کرنے کے بعد اس نے میری پینٹی بھی اتار دی
اور چوت پر تھوک لگا کر چاٹنے لگ گیا۔ دس منٹ چاٹنے کے بعد وہ پھر سے میرے اوپر چڑھ
گیا۔ اس نے چومتے ہوئے کب لنڈ میری چوت میں ڈال دیا، مجھے پتا ہی نہیں چلا۔
میں چیخ بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ وہ مجھے چومے جا رہا تھا۔
جب اس نے مجھے چھوڑا تو میں چیخنے لگی۔ پھر وہ بولا-
راجو: چپ، چپ ہو جا رنڈی۔
اور زور سے چودتے ہوئے وہ بولا-
راجو: چیخ مت سالی۔ کیا مست تنگ چوت ہے ری تیری۔
میں بس چیخ رہی تھی۔ راجو بس میری توڑ پھوڑ چدائی کرتا جا
رہا تھا۔ مشنری پوزیشن میں پندرہ منٹ زبردست چدائی کے بعد وہ میرے اندر ہی جھڑ گیا۔
پھر وہ کچھ دیر میرے اوپر ہی لیٹا رہا۔ اس کے بعد وہ کنارے لیٹ گیا۔
پھر میں نے اپنی چوت پر ہاتھ پھیرا تو چوت بالکل سوج گئی
تھی۔ اس کے جھٹکوں سے چوت چاروں طرف پانی پانی ہو گئی تھی۔ لیکن میں اب بھی مطمئن نہیں
تھی کیونکہ مجھے اس کا لنڈ چوسنے کو نہیں ملا تھا۔
پھر میں بستر پر بیٹھ گئی اور اس کا لنڈ ہاتھ میں لے کر
ہلانے اور چوسنے لگی۔ سویا ہوا لنڈ میرے ہاتھ کے چھوتے ہی اٹھنے لگا، اور جیسے ہی میرے
منہ کے اندر گیا، وہ جھٹکے دیتے ہوئے سخت ہونے لگا۔
راجو: تو سالی پکی رنڈی ہے۔ تیرا پتی تجھے خوش نہیں رکھتا
کیا؟
میں بغیر کچھ بولے بس اس کا لنڈ چوسنے لگی۔ کچھ دیر چوسنے
کے بعد راجو بستر پر ہی کھڑا ہو گیا اور میرے منہ کو چودنے لگا۔ میں ٹھیک سے سانس نہیں
لے پا رہی تھی۔
راجو: کتی بن تو حرامی کتیا۔ کتی بن جلدی۔ اب دکھاتا ہوں
تجھے پھر سے میری طاقت۔
پھر میں ڈوگی سٹائل میں آ گئی۔ میری گانڈ دیکھ کر وہ بولا-
راجو: کیا مست گانڈ ہے ری تیری۔
یہ بول کر راجو نے میری گانڈ پر 10-12 زور کے تھپڑ مارے۔
ہر ایک تھپڑ کے ساتھ میری آہ نکل جاتی۔ پھر وہ لنڈ میری چوت کے اندر ڈالنے لگا۔ وہ
میرے بالوں کو پکڑ کر کھینچتے ہوئے زوردار دھکے مارنے لگا۔
بیچ بیچ میں وہ کبھی چھاتیاں دباتا تو کبھی گانڈ پر تھپڑ
مارتا۔ میں بس چیخ رہی تھی، اور وہ مجھے بے رحمی سے چودتا رہا۔ اس کا ہر ایک جھٹکا
میں اندر تک محسوس کر رہی تھی۔
تقریباً 20 منٹ ڈوگی سٹائل میں چودنے کے بعد میں خود ہی
بستر پر لیٹ گئی۔ اور وہ بھی میرے اوپر لیٹ گیا۔ پھر وہ بولا-
راجو: کیوں سالی سہہ نہیں پائی کیا؟ چل الٹی ہو جا اب۔ باقی
ہے اور بھی۔
تو میں الٹی ہو گئی۔ اب ہم پھر سے مشنری پوزیشن پر آ گئے۔
مشنری پوزیشن میں چودتے وقت وہ کبھی میری چھاتیوں کو چوستا تو کبھی دباتا، کبھی گلے
پر چومتا تو کبھی ہونٹوں کو۔
میں بس اس کے جھٹکوں سے چیخ رہی تھی۔ تقریباً 15 منٹ کی
زبردست چدائی کے بعد وہ جھڑنے والا تھا۔ پھر وہ میرے منہ کے اندر جھڑ گیا۔ میں نے اس
کا سارا پانی پی لیا اور لنڈ چوسنے لگی۔
راجو: آج تک بہت عورتوں کو چودا ہے، لیکن تجھے چود کر مزہ
ہی آ گیا۔
پھر میں بستر سے اٹھی، اور تب مجھے خیال آیا کہ بارش کب
کی رک گئی تھی۔ چدائی کے نشے میں کیا ہو رہا تھا کچھ پتا بھی نہیں چلا۔ میں اپنے کپڑے
پہننے لگی، تب کمرے کے اندر اس کی بیوی آئی۔
اس کی بیوی بولی: یہ لے 500۔ پتا نہیں کہاں کہاں سے رنڈیاں
لے کر گھر آتا ہے۔ تیری چیخوں سے مجھے لگا تو اس لائن میں نئی آئی ہے۔ سب کو تو
100 دیتی ہوں، پر تجھ جیسی نئی رنڈی مال کے لیے 500 دے رہی ہوں۔ لے رکھ لے۔
میں اس سے پیسے نہیں لے رہی تھی کیونکہ میں کوئی پروفیشنل
رنڈی نہیں تھی۔ پھر راجو بولا-
راجو: رکھ لے جان۔
پھر راجو کے منہ سے جان سن کر میں نے پیسے لے لیے۔
راجو: رُک تجھے گھر چھوڑ دیتا ہوں۔
میں: نہیں تم نشے میں ہو، میں خود چلی جاؤں گی۔
ان کی بیوی: ارے واہ، تو بولتی بھی ہے۔ اب تک اوہ آہ اوف
کے علاوہ اور کچھ نہیں سنا میں نے۔
پھر میں جانے لگی۔
راجو: ارے نمبر تو دیتی جا۔
پھر میں نے اسے اپنا نمبر دیا اور اس کا نمبر بھی لے لیا۔
اور میں وہاں سے گھر آ گئی۔
کچھ دنوں میں میری ماہواری بند ہو گئی، تو میں سمجھ گئی
کہ یہ راجو کا ہی بچہ تھا۔ پھر میں نے راجو کو کال کر کے خوشخبری دی۔ وہ تو پاگل ہی
ہو گیا۔ اور تو اور اس نے بتایا کہ اس کی بیوی نے ابھی ایک اور بیٹے کو جنم دیا تھا۔
میں نے اسے مبارکباد دی۔ پھر وہ بولا-
راجو: آج میرا سب سے بڑا خوشی کا دن ہے۔
پھر میں نے اپنے پتی کو بتایا، تو وہ بھی خوش ہو گئے کیونکہ
وہ پاپا بننے والے تھے۔ انہیں کیا پتا تھا کہ وہ بچہ ان کا نہیں بلکہ کسی اور کا تھا۔
پھر راجو بولا: تم حاملہ ہو، اس لیے تمہیں دیکھ بھال کی
ضرورت ہے۔ اس لیے تم میرے گھر آ جاؤ۔
لیکن یہ ہو نہیں سکتا تھا۔ پھر میں نے دماغ لگا کر اس کی
فیملی کو اپنے یہاں بلا لیا۔ میں نے پتی کو بول دیا-
میں: میں نے ہمارا گیراج ایک فیملی کو کرائے پر دے دیا ہے۔
پتی آٹو چلاتا ہے اور اس کی بیوی ہمارے گھر کا کام کرے گی۔
تو میرے پتی بھی مان گئے۔ وہ دونوں کہاں کرایہ دینے والے
تھے، الٹا میں اس کے بچے کی ماں بننے والی تھی۔ اور بچہ ہونے کے بعد میں اسے چوت دینے
والی تھی۔
خیر، راجو اپنی فیملی لے کر ہمارے یہاں شفٹ ہو گیا۔ راجو
کی بیوی کو میرے بارے میں سچ پتا چلا تو اس نے مجھ سے اس دن کی بات کے لیے معافی مانگی۔
اب وہ میرا اچھے سے خیال رکھنے لگی اور گھر کے سارے کام کرنے لگی۔
وقت پر مجھے ایک بیٹی ہوئی۔ ہم سب خوش ہو گئے۔ راجو بس میری
ڈلیوری کا ہی انتظار کر رہا تھا کہ کب اسے میری چوت چودنے کو ملے۔ جب میں نارمل ہوئی
تو ہم روز چدائی کرنے لگے۔ میری بیٹی کا خیال اس کی بیوی رکھ رہی تھی۔
وہ میری بیٹی کو بھی اپنا دودھ پلاتی تھی۔ میں بھی اس کے
بیٹے کو کبھی کبھار اپنا دودھ پلاتی تھی۔ کئی بار تو اس کا بڑا بیٹا جو کہ 5 سال کا
تھا، وہ بھی ضد کر کے میرا دودھ پی لیتا تھا اور ہاتھوں سے دبا بھی لیتا تھا۔ سچ بولوں
تو میں کبھی منع نہیں کرتی تھی کیونکہ مجھے بھی مزہ آتا تھا اور اس کی ماں کو یہ سب
دیکھ کر کوئی فکر نہیں تھی۔ راجو بھی سب دیکھ کر بس ہنستا رہتا تھا۔ لیکن میرا زیادہ
دودھ تو خود راجو ہی پی جاتا تھا۔ وہ بچوں کے لیے بھی دودھ نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔
ایک سال بعد اس کی بیوی کی موت ہو گئی تو راجو ٹوٹ سا گیا۔
اب اسے سہارا دینے والی اکیلی میں ہی تھی۔ اس نے کہا کہ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا
ہے، تو ہم نے پھر شادی کر لی۔ اب میرے دو پتی ہو گئے تھے۔ سب بچوں کی ذمہ داری اب مجھ
پر تھی۔ دو پتیوں اور تین بچوں کے ساتھ میں خوش رہنے لگی اور انہیں بھی خوش رکھنے لگی۔(ختم
شد)