میرا نام کاجل ہے اور یہ کہانی میں آپ کو سنارہی ہوں یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب میں اور میری ماں شادی میں شرکت کے لیے کانپور جا رہے تھے۔ ہم دونوں سٹیشن پہنچے، وہاں بہت زیادہ بھیڑ تھی۔ رات کے 11 بج رہے تھے۔ ہم ٹرین کا انتظار کر رہے تھے۔ جب ٹرین آئی تو بہت زیادہ بھیڑ ہو گئی۔ میں نے جینز اور شرٹ پہنی ہوئی تھی اور ماں نے جالی والی ساڑھی۔ ہم بھیڑ میں گھس گئے اور ڈبے میں جانے کی کوشش کرنے لگے۔ بھیڑ میں لوگ ایک دوسرے کو دھکا دے رہے تھے۔ ہم دونوں بھیڑ میں دبے جا رہے تھے، بہت برا حال تھا۔ دھکم دھکی کی وجہ سے میرے اور ماں کے درمیان 2 آدمی آگئے اور وہ مزے لینے لگے۔ ایک آدمی ماں کو دھکا دیتے ہوئے بولا، میڈم اندر چلو اور بولتے ہوئے اس کے کولہوں پر ہاتھ رکھ دیا۔ وہ آدمی بولا میڈم چلو اندر ورنہ باہر رہ جاؤ گی، ماں نے کہا بھائی کیسے چلوں اندر، کتنی بھیڑ ہے۔ وہ بولا دھکا دو، اپنی جگہ بن جائے گی، ماں نے کہا بھائی ایسا کرو، بھائی تم پیچھے سے دھکا دو۔ وہ بولا جھیل لو گی میرا دھکا، میں پیچھے بہت زور سے دیتا ہوں اور ہنسنے لگا۔ ماں نے کہا بھائی بڑے بڑے دھکے جھیل چکی ہوں آگے سے اور پیچھے دونوں طرف سے اور ماں مسکرا دی۔ پھر اس آدمی نے ماں کے دونوں کولہوں پر ہاتھ رکھ کر زور سے دھکا دیا اور ماں تھوڑی اندر ہو گئی۔ تھوڑی دیر بعد میں نے دیکھا تو ان کی ساڑھی اوپر تھی اور وہ نیچے سے ننگی ہو گئی تھیں، آس پاس والے خوب انگلی کر رہے تھے۔ ادھر میری شرٹ کے اندر ایک نے ہاتھ گھسا دیا تھا اور چھاتی دبا رہا تھا۔ جیسے تیسے ہم دونوں ڈبے میں گھس گئے۔ ہم دونوں کی حالت بہت بری ہو چکی تھی۔ کسی طرح ہم دونوں گیٹ کے پاس والی سیٹ کے بیچ میں پہنچ گئے تو ماں بولی کاجل یہیں زمین پر بیٹھ جاتے ہیں، اپنی سیٹ تک جانا تو مشکل لگ رہا ہے، میں نے کہا ٹھیک ہے، ہم دونوں وہیں بیٹھ گئے، دونوں سیٹوں کے بیچ زمین پر۔ بھیڑ بڑھتی گئی۔ تقریباً 1 گھنٹے بعد ٹرین چل پڑی۔ سب ایک دوسرے سے چپکے بیٹھے تھے، بالکل جگہ نہیں تھی۔ آہستہ آہستہ لوگ سونے لگے۔ میری جینز کا بٹن ٹوٹ چکا تھا اور شرٹ کے بھی اوپر کے دو بٹن ٹوٹ چکے تھے، ادھر ماں کا بھی یہی حال تھا، ان کی ساڑھی کمر سے کچھ کچھ کھل چکی تھی اور بلاؤز کا اوپر کا ہک ٹوٹ گیا تھا، بس کسی طرح سنبھالے بیٹھی تھیں۔ مجھے بھی نیند آنے لگی۔ اچانک میری نیند ٹوٹی کیونکہ میرے چھاتی پر کسی کا ہاتھ آ گیا تھا۔ میں نے دیکھا، بغل والا آدمی میری چھاتی پر ہاتھ رکھے تھا۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ مسکرایا، میں نے کہا یہ کیا کر رہا ہے، بولا ایسا مزہ لیں گے۔ میں بولی کیسا؟ اس نے میرے پیچھے کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے دیکھا ادھر ماں سو رہی تھیں اور آس پاس والے مزے لے رہے تھے۔ ان کی ساڑھی اوپر تھی اور 2 لوگ ان کی ٹانگیں سہلا رہے تھے۔ بغل والا بولا دیکھ کیسے مزے لے رہی ہے۔ میں بولی یہ سب پکڑے جائیں گے۔ تو وہ بولا ارے کچھ نہیں ہوگا، دیکھ کیسے چپ چاپ مزے لے رہی ہے، میں بولی نہیں وہ سو رہی ہے، اگر جاگ گئی تو، وہ بولا نہیں رے نہیں جاگے گی، دیکھتی جا، ہم نے بہت دیکھی ہیں اس کے جیسی، چل تو ادھر آ اور مجھے اپنی جگہ بیٹھنے دے۔ وہ میری جگہ آ گیا اور میں اس کی جگہ اور وہ بھی ان لوگوں کے ساتھ مزے لینے لگا۔ اس نے ماں کی کمر سے ساڑھی اور ڈھیلی کرنے شروع کی تو ایک بولا کیا کر رہا ہے بھائی، کبھی جاگ گئی تو آفت ہو جائے گی، ایسے ہی مزے لے لو۔ وہ بولا کچھ نہیں ہوگا، بس جیسا بولتا ہوں ویسا کرو اور تم لوگ بھی مزے لینا۔ اس نے ساڑھی پوری ڈھیلی کر دی اور نیچے کھسکنے لگا، آہستہ آہستہ ساڑھی نیچے ہو گئی اور پیروں سے باہر نکال دی، ماں نیچے سے ننگی ہو گئیں۔ پھر اس نے ساڑھی سیٹ کے نیچے اندر گھسا دی، پھر اس کے بعد اس نے اپنے بیگ سے بلیڈ نکالا اور بلاؤز کو کاٹنا شروع کیا، تھوڑی دیر میں بلاؤز کو کاٹ کاٹ کر الگ کر دیا، اب تو ماں بالکل ننگی ہو گئیں، تب وہ بولا دیکھو ہوا کچھ، سالی پوری ننگی پڑی ہے ٹرین میں، کرو مزے۔ ایک نے ایک چھاتی، دوسرے نے دوسری، ایک نے نیچے انگلی گھسا دی اور ایک نے پیچھے انگلی گھسا دی اور زبردست کام شروع ہو گیا۔ تھوڑی دیر تک یہ سب چلتا رہا، پھر ایک بولا ایسے مزہ نہیں آ رہا ہے اور کچھ کرتے ہیں۔ تبھی ماں جاگ گئیں اور دیکھا کہ وہ ننگی پڑی ہیں، وہ اٹھی اور سب کی طرف گھورنے لگیں اور بولی میرے کپڑے کہاں ہیں؟ ایک بولا تیرے کپڑے تجھے پتا ہوں گے۔ وہ رونے لگیں، تبھی ایک بولا ہمیں نہیں پتا تیرے کپڑے، یہ چھوٹی سی چادر ہے میرے پاس لے لے۔ اس نے چادر دے دی۔ چادر اتنی چھوٹی تھی کہ اگر اس سے اوڑھ کر کھڑا ہوا جائے تو وہ گانڈ تک ہی آتی تھی اور کافی ٹرانسپیرنٹ تھی۔ پر وہ کیا کرتی، لے لی چادر اور اوڑھ کر بیٹھ گئیں۔ کچھ دیر بعد اس کے پاس جو آدمی بیٹھا تھا وہ اس سے آہستہ آہستہ بات کرنے لگا۔ 15-20 منٹ بات کرنے کے وہ کافی خوش نظر آ رہا تھا۔ پھر اس نے اپنے بغل والے سے کچھ کہا، بغل والے نے اپنے بغل والے سے، آہستہ آہستہ میرے بغل والے کو پتا چلی، اس نے مجھے بتایا۔ بات سن کر میں حیران ہو گئی، اس نے بتایا کہ اس آدمی نے اس عورت سے بات کی ہے کہ وہ اسے چودنا چاہتا ہے اور وہ تیار ہو گئی ہے اور وہ بھی سب کے سامنے۔ وہ آدمی دیکھنے کے پیسے مانگ رہا ہے 100۔ سب نے پیسے دے دیے، پھر اس آدمی نے ماں کھڑا کیا اور چوت پھیلائی اور سب کو دکھائی اور پھر اپنا لنڈ نکالا اور گھسا دیا اور چودائی شروع کر دی۔ چودتے چودتے جب اس کا پانی نکلنے والا تھا، وہ پانی کہاں نکالوں، سب بولو چوت میں، اس نے چوت میں ہی پانی نکالا اور چودائی کرتا رہا، اس نے قریب تین بار پانی نکالا۔ چوت سے پانی ٹپک رہا تھا۔ دو عورتیں بھی دیکھ رہی تھیں، وہ بولی اب اس کی گانڈ مار کے دکھا، آج ہم بھی دیکھیں مارتے ہوئے۔ وہ آدمی بولا ٹھیک ہے، اس نے ماں کو جھکایا اور گانڈ اوپر کر کے اس میں انگلی کر کے پھیلایا، تھوڑی دیر تک پھیلانے کے بعد سوراخ بڑا کیا، پھر اس میں اپنا لنڈ گھسا دیا اور گانڈ چودنے لگا۔ اس نے چودتے چودتے پانی گانڈ میں ڈال دیا اور پھر چودنے لگا۔ تبھی ٹرین ایک سٹیشن پر رکی، رات کافی تھی اس لیے سٹیشن پر کوئی تھا نہیں، ایک دو لوگ ہی دکھائی دے رہے تھے، ہم اسی سٹیشن پر اترنا تھا، کانپور کے آؤٹر پر تھا۔ میں نے اپنا بیگ اٹھایا اور چلنے لگی اور اتر کر نیچے آ گئی، ادھر ماں بولی اب مجھے جانے دو، مجھے اترنا ہے اور میرے ساڑھی یا وہ چھوٹی والی چادر دے دو۔ سب بولے ارے تجھے ساڑھی یا چادر کی کیا ضرورت، تو تو ایسے ہی چلی جا۔ ماں بولی نہیں ایسے کیسے چلی جاؤں، مجھے رشتہ دار کے گھر جانا ہے، کیسے جاؤں گی باہر، سب مجھے ننگی دیکھ لیں گے۔ ایک بولا واہ بھائی واہ، صحیح کہا، اسے سب ننگی دیکھ لیں گے، یہاں سالی پوری ننگی چدوا رہی ہے سب کے سامنے اور باہر ننگی دیکھ لیں گے۔ سب ہنسنے لگے۔ ایک دوسرا آدمی بولا سالی کو ایسے ہی باہر نکال دو، جب اس کی ساری جنتا چودے گی تب اسے مزہ آئے گا اور لوگ بھی بولے ہاں ہاں صحیح کہا۔ سب نے مل کر ماں کو ننگی ہی ٹرین سے باہر کر دیا۔ ٹرین چلنے لگی اور آہستہ آہستہ سٹیشن سے دور چلی گئی۔ ماں ننگی سٹیشن پر کھڑی تھیں، میں اس کے پاس گئی بولی کیا ماں یہ سب کیا ہو رہا تھا؟ اس نے بتایا میری کوئی غلطی نہیں تھی، اس آدمی نے مجھے چاقو مارنے کی دھمکی دی تھی اس لیے میں یہ سب کر رہی تھی۔ میں بولی، 'لیکن چدوا تو ایسے رہی تھی جیسے خوب مزہ آ رہا ہو'۔ وہ بولی جب کوئی چودنے لگے تو تھوڑی دیر بعد تو مزہ آنے ہی لگتا ہے، جب چدوانا ہے تو مزے لے کر ہی چدوا لو۔ میں بولی اچھا اس کا مطلب تجھے مزہ آ رہا تھا، صحیح ہے اتنے لوگوں کے بیچ ننگی ہو کر چدوانے کا مزہ ہی کچھ اور ہے نا۔ وہ بولی سچ بولوں تو آج چودنے کا اصلی مزہ آیا ہے، جو بھی ہوا پر مزہ پورا آیا۔ میں بولی اچھا اب تو تجھے یہاں سٹیشن پر ننگی مزہ آ رہا ہوگا۔ وہ بولی کاجل سچ بولوں تو بہت مزہ آ رہا ہے، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اور یہ کھلا کھلا آسمان کتنا اچھا لگ رہا ہے، کیا بتاؤں۔ میں بولی شرم تو آ نہیں ہو گی۔ وہ بولی نہیں، لگتا ہے کبھی کپڑے نہ پہنوں، ایسے ہی رہی، دیکھنے دو جو دیکھے۔ میں بولی اچھا تو چل پھر چلیں رشتہ دار کے گھر۔ وہ بولی بنا کپڑوں کے چلوں کیا، دے بیگ سے کپڑے نکال کے دے۔ میں بولی نہیں اب ایک کپڑا نہیں ملے گا، ابھی کیا بول رہی تھی، چل اب ایسے ہی چل نا۔ وہ بولی اچھا ٹھیک ہے نا دے کپڑے، میں ایسے ہی جاؤں گی۔ رات کے 4 بج گئے تھے ابھی بھی کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا، ہم لوگ سٹیشن سے باہر چلنے لگے، تبھی میں بولی ماں میں پہلے جاؤں گی، تو میرے پیچھے آنا، میں جلدی جلدی باہر آ گئی اور ویٹ کرنے لگی، قریب ایک گھنٹہ ہو گیا، ماں آئیں نہیں، میں سوچنے لگی کہاں رہ گئیں، تبھی دیکھا وہ مٹکتی ہوئی چلی آ رہی تھیں، پوری ننگی، جب وہ پاس آئیں تو میں نے پوچھا کیا ہوا، کہاں رہ گئی تھیں؟ ماں بولی جب تو چلی آئی تو پیچھے سے ایک آدمی آیا اور مجھے پکڑ لیا، بولا ایسے ننگی کہاں گھوم رہی ہے، چل تجھے پولیس میں دیتا ہوں۔ میں بولی نہیں بھائی پولیس میں مت دو، چاہو تو مجھے چود لو یا گانڈ مار لو جو من ہو کر لو۔ وہ بولا ٹھیک ہے اور بینچ پر لٹایا اور 2 بار چوت اور 2 بار گانڈ ماری۔ پھر اس نے پوچھا یہ کہ تو ایسے کیوں ننگی ہے، میں نے اس سے ساری بات بتائی اور بولی بیٹے باہر کھڑی ہے اس سے کچھ مت کہنا، تجھے اور کرنا ہو تو کر لے، وہ بولا نہیں بس میں نے کر لیا اب ایک کام کر آگے وہ جو سیبان ہے، وہاں سٹیشن ماسٹر ہے اس کے پاس جا اور ان سے کہنا کہ انیل نے بھیجا، اگر چودنا ہو تو چود لو، میں بولی ٹھیک ہے، وہ بولا چودنے کے بعد پھر یہیں آنا، 3 لوگ اور ہیں۔ میں بولی ٹھیک ہے، میں سٹیشن ماسٹر کے پاس گئی، ماسٹر تو پہلے چونک گیا، بولا یہ کیا بدتمیزی ہے، ایسے کیسے گھوم رہی ہے؟ میں بولی جی انیل نے بھیجا ہے، اگر چودنا ہو چود لیجیے جلدی سے، ماسٹر بوڑھا سا تھا، اس نے فوراً اپنے کپڑے اتارے اور ننگا ہو کر بولا چل گھوم پیچھے، میں بولی پیچھے کریں گے کیا؟ وہ بولا جلدی گھوم ورنہ ڈنڈا گھسا دوں گا، میں گھوم گئی، وہ جلدی جلدی اپنا لنڈ گھسانے لگا، وہ 2 بار جھاڑ گیا، پر لنڈ پورا گھسا بھی نہیں پایا۔ وہ اتنے میں تھک گیا، بولا جا بھاگ یہاں سے اور ایک لات ماری گانڈ پر، میں وہاں سے بھاگی اور اس جگہ پہنچی جہاں انیل نے کہا تھا، وہ اکیلا ہی کھڑا تھا، میں بولی کہاں ہیں دونوں لوگ؟ وہ بولا نہیں ملے، میں بولی اب میں جاؤں، وہ بولا نہیں ابھی اور کروں گا، میں بولی ٹھیک ہے کر لے، اس نے پھر دو بار چوت اور دو بار گانڈ ماری۔ میں بولی اب جاؤں، وہ بولا نہیں ابھی نہیں، میں بولی اور چودو گے، وہ بولا نہیں، اچھا ایک بات بتا، تجھے بالکل شرم نہیں آتی ایسے کھلے میں ننگی گھومنے میں، تجھے ڈر نہیں لگتا؟ میں بولی ڈر کس بات کا، کوئی کیا کرے گا، زیادہ سے زیادہ چود لے گا بس اور کیا؟ وہ ہاں کہہ تو صحیح رہی ہے، میں بولی جاؤں؟ بولا نہیں رک، میں بھی دیکھتا ہوں کہ تو کتنی بہادر ہے، چل میرے ساتھ، میں بولی نہیں جو کرنا ہے کر لے، مجھے جانا ہے، وہ بولا تھوڑی دیر میں یہیں چھوڑ دوں گا، چل میرے ساتھ، میں بولی ٹھیک، 15 منٹ کیول باہر بیٹھے انتظار کر رہی ہے، بولا ٹھیک ہے، چل سامنے بائیک ہے میری، چل اس پر، اس نے بائیک سٹارٹ کی اور میں اس کے پیچھے بیٹھ گئی اور تھوڑی دور تک جانے کے واپس لوٹ لیا، میں بولی کیا ہوا؟ وہ بولا نہیں ایسے تو میں بدنام ہو جاؤں گا، چل واپس پلیٹفارم پر چلتے ہیں، دونوں وہیں واپس آ گئے۔ میں بولی اب جاؤں؟ بولا رک ذرا، 4:45am ہو گئے تھے، سٹیشن پر ایک لوگ بھی دکھائی دینے لگے، انیل بولا ٹھیک ہے تو جا، پر یہاں سے جو بھی ملے گا اس سے پوچھنا کہ کیا آپ مجھے چودنا چاہتے ہو؟ میں بولی ٹھیک ہے، جیسے ہی میں چلنے کے لیے مڑی، ایک آدمی آتا ہوا دکھائی دیا، وہ لگ بھگ پاس آ چکا تھا، اس نے مجھے دیکھا اور انیل کو اور بولا کیا رے انیل، کہاں سے یا ننگی لونڈیا پکڑ لایا ہے؟ انیل بول سن ادھر سالی، میں نے کیا بولا تھا تجھے، چل بول صاحب سے، میں بولی صاحب کیا آپ مجھے چودیں گے؟ وہ بولا کیوں ہے سالی ضرور، میں بولی تو چود لیجیے، اس نے مجھے بینچ پر لٹایا اور چودنے لگا، قریب 4 بار چوت ماری، پھر کھڑا ہوا، بولا یار انیل مست مال ہے، مزہ آ گیا، انیل بولا اور چود لے، بولا نہیں بس مزہ آ گیا۔ انیل بولا چل ادھر آ اور صاحب کا لُنڈ صاف کر منہ سے، میں گئی اور منہ ڈال کر لُنڈ چاٹنے لگی، انیل بولا جاتے جاتے صاحب کا پانی نکال دے، میں نے صاحب کا لُنڈ پی پی کر پانی نکال دیا، صاحب نے پانی منہ میں ہی گھسا دیا اور مجھے پینا پڑ گیا، پھر وہ چلا گیا، پھر اس کے بعد 5 لوگوں نے اور چودا۔ ہلکا ہلکا اجالا ہونے لگا، انیل بولا چل ماسٹر صاحب سے اچھے سے چدوایا تھا نا؟ میں بولی ہاں، وہ مجھے ماسٹر کے پاس لے گیا اور پوچھا کیوں ماسٹر صاحب اچھے سے چودا تھا لونڈیا کو؟ ماسٹر بولا ہاں خوب چودا سالی کو، میں بولی ماسٹر جی اور چودنا ہو تو چود لیجیے، ماسٹر بولا بھاگ سالی یہاں سے رانڈ۔ انیل بولا جا تو اب اور میں وہاں سے چلی آئی، اس لیے اتنی دیر ہو گئی کاجل۔ میں بولی ماں یہ کیوں کر رہی ہو؟ ہم یہاں رشتہ دار کے گھر آئے ہیں، چودائی میلے میں نہیں۔ ماں بولی چل اب چل اچھا۔ میں بولی کہاں چلو اب کپڑے پہن لو، وہ بولی نہیں میں تجھے دکھا کے رہوں گی، تو کہہ رہی تھی نا۔ میں بولی ٹھیک ہے، تو الگ رکشے میں جانا، میں الگ، وہ بولی ٹھیک ہے، میں بولی ٹھیک ہے، تجھے پہلے ماں بولی ٹھیک ہے اور آگے چل دی۔ آگے کچھ رکشے والے کھڑے تھے، کافی روشنی تھی، روڈ لائٹ کی وجہ سے، ماں جیسے ہی آگے گئیں، لائٹ میں اس کے بڑے بڑے چُتڑ اور چھاتی مست لگ رہے تھے، رکشے والوں نے دیکھا، ماں بولی اس ایڈریس پر چلو گے؟ رکشے والوں نے کچھ نہیں سنا اور ماں کو پکڑ لیا، پھر آپس میں لڑنے لگے کہ پہلے کون چودوں گا۔ ماں چلا رہی تو چھوڑو مجھے۔ تب ایک نے کہا ایک ایک کر کے چودتے ہیں سالی کو اور ان کو لے کے پاس کی چائے کی دکان جو بند تھی، اس کے بینچ پر لٹایا اور اپنا لُنڈ باہر نکالا اور چودائی شروع کر دی، پہلے چوت اور پھر گانڈ ماری۔ جب ایک کر چکا پھر اگلے کا نمبر آیا، اسی طرح 4 رکشے والے چود چکے تھے، صبح ہو رہی تھی، اجالا ہو گیا تھا، روڈ لائٹ بھی بند ہو گئی، پر رکشے والوں کو کوئی ہوش نہیں تھا، وہ چودائی میں لگے تھے، ایک دو لوگ روڈ سے آنے جانے شروع ہو گئے تھے۔ ماں دن کے اجالے میں پوری روڈ پر سب کے سامنے چُد رہی تھی، اب تک قریب 7 رکشے والے چود چکے تھے، ٹوٹل 7 رکشے والے تھے۔ ان لوگوں نے پھر سے نمبر لگا لیا، ایک آدمی ادھر سے جا رہا تھا، بولا یا کیا ہو رہا ہے، کھلے عام چودائی چل رہی ہے، سالو پولیس پکڑ لے جائے گی۔ اب تو روڈ پر بھیڑ بڑھنے لگی، پر چودائی بند نہیں ہوئی، تبھی چائے والا آ گیا، جس کی دکان تھی، اس نے چلایا سالو یہ کیا کر رہے ہو، میری دکان پر رنڈی چود رہے ہو، بھاگو یہاں سے ورنہ پولیس بلاتا ہوں، رکشے والے وہاں سے بھاگے، ماں بینچ پر پڑی تھی، چائے والا بولا بھاگ یہاں سے سالی ورنہ پولیس بلاؤں، سالی شرم نہیں آتی، ننگی سرعام چدوا رہی ہے، ماں اٹھی، اس کی پیٹ، چوت، ٹانگیں اور چُتڑوں پر لُنڈوں کا پانی لگا ہوا تھا، پانی سے پوری سانی ہوئی تھیں، بولی بھائی کہاں جاؤں، مجھے کوئی کپڑا دے دو۔ چائے والا بولا سالی جب نہیں چُدوا رہی تھیں تب کپڑے کا ہوش نہیں تھا، بھاگ یہاں سے اور اس نے ایک ڈنڈا اٹھایا اور چُتڑوں پر مارنے شروع کر دیے۔ جیسے ہی ایک ڈنڈا پڑا، ماں بھاگی وہاں سے اور روڈ پر آ گئیں، روڈ پر کافی لوگ آنے جانے لگے تھے، ایک دم ننگی عورت کو دیکھ کر لوگ رک گئے اور دیکھنے لگے، کچھ لوگ آگے آئے اور بولے پکڑ لو اس عورت کو، سالی ننگی گھوم رہی ہے، اتنے چودا سے ہے، پورا سماج گندا کر رہی ہے، وہاں تھوڑی بھیڑ لگ گئی، سب نے اس کے مرغا بنایا، جب وہ مرغا بن گئیں، لوگوں نے اس کے چُتڑوں پر چانٹے مارنے شروع کر دیے، تبھی کچھ لوگوں نے کہا یا کیا کر رہے ہیں، پہلے پوچھ تو لیجیے کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے، آپ سب ایسے ہی اسے مار رہے ہیں، پھر لوگوں نے پوچھا، ماں نے بتایا کہ کچھ لوگوں نے اس کے کپڑے چھین لیے تھے اور اس کو چودا تھا اس لیے وہ ایسے حالت میں ہے، لوگوں نے اسے چھوڑ دیا، کچھ لوگوں نے مل کر پیسے اکٹھا کیے اور کہا اس کو کپڑے دلا دو۔ چائے والا بولا چائے پیئے گی؟ ماں بولی ہاں، چائے والے نے دکان میں بٹھایا اور چائے دی، کچھ لوگ کپڑے لینے چلے گئے، ماں چائے پینے لگی، تبھی ایک آدمی نے پوچھا ایک بات بتا، کتنے بجے سے ننگی گھوم رہی ہے؟ ماں بولی رات 4 بجے سے، سبھی لوگ مسکرانے لگے، پھر نے پوچھا اچھا 4 بجے سے ننگی گھوم رہی ہے، کسی نے چودا نہیں؟ ماں بولی جو بھی آیا چود کے گیا ہے، قریب 30 لوگ چود چکے ہیں، تبھی ایک بولا اگر ہم بھی چودنا چاہے تو چدے گی؟ ماں کچھ نہیں بولی، تبھی ایک آدمی نے ماں کو پکڑ لیا اور چُچی دبانے لگا، دوسرا چُتڑ مسلنے لگا، تبھی دکان والا بولا دیکھو جسے جو کرنا ہو کرو اس کے ساتھ پر میری دکان کے باہر۔ اتنے دیر میں ایک نے ماں کو جھکایا اور گانڈ میں لُنڈ گھسا دیا اور دھکا دھک گانڈ مارنے لگا، ایک گانڈ مار کے ہٹا تو دوسرا، پھر تیسرا، اس سے طرح قریب 20 لوگوں نے گانڈ ماری، گانڈ پوری پانی سے بھر گئی تھی اور پانی باہر گر رہا تھا، جو لوگ چود چکے وہ جانے لگے، دھیرے دھیرے بھیڑ کم ہو گئی، کپڑے ابھی نہیں آپائے تھے کیونکہ کپڑے مارکیٹ میں ملتے اور مارکیٹ کافی دور تھی۔ 10 بج گئے تھے، لوگ چلے گئے تھے، کچھ لوگ ہی بچے تھے، دکان والا بولا جا نہا لے، پورے لُنڈ کے پانی سے سانی ہے، اس نے پانی دیا، ماں نہانے لگی، تھوڑی دیر بعد وہ نہا کر آ گئیں اور چائے والے کے پاس بیٹھ گئیں، چائے والے نے ماں کی طرف دیکھا اور صاف ستھری مست جوانی دیکھ کر وہ بھی مچل گیا، بولا چل بن کُتیا، میں بھی چودوں گا، اس نے کُتیا بنایا اور 3 بار چوت ماری۔ پھر اس نے 2 بار گانڈ ماری، پھر ایک بار منہ چودا۔ پھر چائے والے نے ماں سے کہا جا ادھر کاؤنٹر کے پاس بیٹھ جا، وہ کاؤنٹر کے پاس بیٹھ گئیں۔ تھوڑی دیر میں ایک آدمی آیا، بولا ذرا چائے پلاؤ، چائے والا بولا ابھی لو جی، اس آدمی نے ماں کی طرف دیکھا اور چائے والے سے بولا، کیوں بھائی یہ ننگی لونڈیا کیسے بیٹھی ہے؟ چائے والا اس آدمی کو اپنے پاس بلایا اور اس سے کچھ کہا، اس آدمی نے چائے والے کو 100/- روپے دیا اور ماں کے پاس آیا اور بولا چدے گی مجھ سے؟ ماں بولی نہیں میں بہت تھک گئی ہوں، وہ آدمی بولا چل جلدی جھک، فضول کی باتیں مت کر، اور اس نے ماں کو جھکایا اور اپنا لُنڈ نکال کر چوت میں گھسا دیا، اس آدمی نے 2 بار چوت اور 1 بار گانڈ ماری اور اس کے بعد چائے پی اور چلا گیا۔ اس آدمی کے جانے کے بعد جو بھی آتا وہ چائے والے کو پیسے دیتا اور ماں کی چوت اور گانڈ مارتا اور چلا جاتا، یہ سلسلہ 2 بجے تک چلتا رہا اور قریب 20-30 لوگوں نے چوت اور گانڈ ماری، گانڈ کا سوراخ پھیل کر چوت جیسا ہو گیا تھا۔ 2 بجے کے بعد ایک آدمی کپڑے لے کر آیا اور اس نے چائے والے سے پوچھا بھائی وہ عورت کہاں گئی؟ چائے والا بولا وہ جو بھیڑ دیکھ رہے وہاں ہے، اس آدمی نے پوچھا وہاں کیا کر رہی ہے؟ چائے والے نے بتایا کہ کچھ لڑکے پکڑ کر لے گئے تھے اور اسے ننگا نچا رہے ہیں، وہ آدمی وہاں آیا اور دیکھا ماں ننگی ناچ رہی ہے، کوئی اس کے چُتڑوں پر مارتا، کوئی چُچی دبا دیتا، کوئی اسے پکڑ کر چُتڑوں کے بیچ اپنا لُنڈ گھسا دیتا، یہی سب چل رہا تھا، اس آدمی نے سب کو ڈانٹا اور کہا شرم نہیں آتی، اس نے سب کو ہٹایا اور ماں کو چائے والے کی دکان پر لایا، اس نے نہانے کو کہا، نہانے کے بعد کپڑے دیے، ماں نے کپڑے پہن لیے، پھر اس آدمی نے ماں کو کچھ پیسے دیے اور اپنی بائیسکل پر بٹھا کر سٹی تک چھوڑ دیا اور وہاں سے رکشے کرایا۔ جب ماں گھر آئیں تو میں نے پوچھا اتنی دیر کیسے ہو گئی، تب اس نے یہ بات بتائی تھی۔ میں نے کہا اور نہ پہن کپڑے، کہتی تھی مزہ آ رہا ہے، اب آیا ہوگا مزہ، پاٹ گئے نا چوت اور گانڈ، اب مزے کر۔ ماں کچھ نہیں بولیں اور سب سے ملیں اور اس کے بعد آرام کرنے چلی گئیں۔ ہم وہاں 4 دن رکے اور شادی پوری کی، اس کے بعد رشتہ دار نے ہمارا ٹکٹ کرایا دہلی کا اور ہم واپس آ گئے۔ اس دن کے بعد ماں بدل چکی تھیں، اب وہ شرماتی نہیں تھیں، بہت ہی بولڈ ہو گئی تھیں۔ اس کے بعد اس نے اور بڑے بڑے کارنامے کیے جو پھر کبھی بتاؤں گی۔
❤️ اردو کی دلکش شہوانی، رومانوی اور شہوت انگیز جذبات سے بھرپور کہانیاں پڑھنے کے لیے ہمارے فورمز کو جوائن کریں:
Tags:
فیملی سیکس