رات کا کھانا بھی زبیر نے بے دلی سے کھایا۔ اس کی بیوی نے کئی بار اس کے اترے ہوئے چہرے کی وجہ پوچھی، لیکن وہ ہر دفعہ بات ٹال گیا۔ ساری رات سوچنے کے بعد زبیر نے نہ چاہتے ہوئے بھی شمائلہ کی شادی فرحان سے کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ساری زندگی اس نے بیٹی کی کسی فرمائش کو رد نہیں کیا تھا، تو اس نے یہ فرمائش بھی پوری کرنے کا فیصلہ کیا، چاہے خاندان کے لوگ اس پر ہنسیں یا باتیں بنائیں۔
فرحان ایک خوبصورت اور لمبا چوڑا جوان تھا۔ بنیادی طور پر وہ ایک شرمیلا نوجوان تھا، جس کی وجہ سے اس کی کوئی گرل فرینڈ نہ تھی۔ اس کمی کو وہ کال گرلز سے پورا کر لیا کرتا تھا۔ اس کی سپرے اور کھاد کی دکان تھی، جہاں وہ صبح سے شام تک ہوتا تھا۔ جب کبھی جنسی خواہشات زور پکڑتیں، تو وہ کسی نہ کسی کال گرل سے رابطہ کرتا اور وہیں دکان پر اپنی جنسی نا آسودگی کی تکمیل کر لیتا۔ اس نے دکان پر آرام کے لیے ایک چھوٹا سا کمرہ بنایا ہوا تھا، جو اس کا عشرت کدہ تھا۔
فرحان مسکراتے ہوئے اس کی طرف بڑھا اور اپنی بانہیں اس کے گرد حمائل کرتے ہوئے اسے سینے سے لگا لیا۔ نینا کی نرم و گداز چھاتیاں فرحان کے سینے سے ٹکرائیں تو وہ سرور کی گہری وادی میں اتر گیا۔ اس نے پرجوش ہو کر نینا کو زور سے بھینچ لیا اور نیچے سے اس کا لن سر اٹھانا شروع کر دیا۔ ایک زوردار جھپی ڈالنے کے بعد اس نے نینا کو خود سے علیحدہ کیا اور اپنے ہونٹ اس کے رسیلے ہونٹوں سے ملا دیے۔ نینا کے ہونٹ بہت ہی نرم و نازک تھے، جنہیں فرحان نے دیوانگی سے چومنا اور چوسنا شروع کر دیا۔ نینا بھی اس کا ساتھ دینے لگی۔ فرحان نے ہونٹ چوسنے کے ساتھ ساتھ اپنا ایک ہاتھ اس کی بڑی چھاتیوں پر رکھ دیا اور انہیں دبانے لگا۔ نینا کی چھاتیاں بالکل ربڑ کی طرح نرم تھیں۔ جیسے ہی فرحان نے نینا کے ممے کچھ زور سے دبائے، اس نے فرحان کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے خود سے دور کرنے لگی۔ فرحان نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا تو نینا نے کہا، "کپڑوں پر شکنیں نہ پڑ جائیں، اس لیے پہلے میں اپنے کپڑے اتار لوں۔"
"فرحان، تمہارا والہانہ پن دیکھ کر تم سے پیسے لینے کو دل نہیں کر رہا۔ مجھے تمہاری دیوانگی بہت پسند آئی ہے۔ پچھلے دو سالوں میں میں نے ایسا والہانہ پن کسی میں نہیں دیکھا اور نہ ہی میں نے کوئی دوست بنایا ہے۔ تم مجھ سے دوستی کر لو اور جب تمہارا دل چاہے مجھے کال کر لیا کرو۔ کیا تم مجھ سے دوستی کرنا پسند کرو گے؟"
نینا نے یہ کہا تو فرحان نے جلدی سے ہاں میں سر ہلا دیا، کیونکہ اس کی بھی کوئی دوست نہیں تھی اور نینا بہت خوبصورت لڑکی تھی۔ نینا اور فرحان کی پہلی ملاقات سیکس کے ساتھ ساتھ دوستی میں بدل گئی۔
روبی اور شمائلہ دونوں ایک ہی محلے میں رہتی تھیں اور بہت اچھی دوست تھیں۔ وہ ایک دوسرے کے گھر آتی جاتی رہتی تھیں۔ شمائلہ کی عادات و اطوار بہت اچھی تھیں اور اس کے امی ابو بھی خوش اخلاق اور پڑھے لکھے تھے۔ شمائلہ کی فیملی کا شمار محلے کے اچھے لوگوں میں ہوتا تھا۔ روبی خود بھی شمائلہ سے اچھی طرح واقف تھی اور ان کے خاندان میں فرحان کی ہم عمر کوئی لڑکی بھی نہ تھی، جس سے فرحان کی شادی کروائی جا سکے۔ اس لیے روبی شمائلہ کو اپنی بھابی بنانا چاہتی تھی۔
فرحان نے شمائلہ کو اپنے گھر میں کئی دفعہ دیکھا تھا، لیکن اپنی شرمیلی طبیعت کی وجہ سے کبھی غور سے نہیں دیکھا یا بات نہیں کی تھی۔ نہ ہی شمائلہ کبھی فرحان سے مخاطب ہوئی تھی۔ اب جب روبی نے شمائلہ کا ذکر کیا تو فرحان اس کا گھر میں انتظار کرنے لگا کہ وہ آئے اور وہ اس کا اچھی طرح جائزہ لے سکے۔
یہ موقع اسے چند دنوں بعد مل گیا۔ جب وہ دکان سے گھر واپس آیا تو روبی اور شمائلہ صحن میں چارپائی پر بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔ فرحان بھی ان کے پاس چلا گیا۔ اس دن اس نے پہلی دفعہ شمائلہ کو نظر بھر کر دیکھا۔ شمائلہ ایک دبلی پتلی، صاف رنگ کی لڑکی تھی۔ اس کے نین نقش تیکھے اور دلکش تھے۔ پہلی نظر میں ہی وہ ایک خوبصورت لڑکی لگتی تھی۔ شمائلہ فرحان کو اچھی لگی اور اس نے اسے اپنی دلہن بنانے کا فیصلہ کر لیا۔
روبی ایک تیز طرار لڑکی تھی۔ اس نے شمائلہ کو سیدھی بات بتانے کی بجائے اسے فرحان کی جانب مائل کرنے کی پلاننگ شروع کر دی۔ باتوں ہی باتوں میں اس نے شمائلہ کو باور کروانا شروع کیا کہ فرحان اس میں دلچسپی لیتا ہے۔ روبی کی باتوں سے شمائلہ بھی فرحان کی طرف توجہ دینے لگی۔ اب جب فرحان اور شمائلہ کا آمنا سامنا ہوتا تو وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے اور تھوڑا بہت مسکرانے لگے۔ دوسرے مرحلے میں روبی نے شمائلہ سے فرحان کی اس سے محبت کا ذکر شروع کیا اور اسے اپنی بھابی کہہ کر چھیڑنا شروع کر دیا۔ اب شمائلہ کے دل میں بھی فرحان کی محبت جاگنے لگی۔ جب ان کا آمنا سامنا ہوتا تو بات چیت بھی ہونے لگی۔ روبی جان بوجھ کر انہیں تنہائی فراہم کرنے لگی اور بہانے سے ادھر ادھر ہو جاتی۔ اب شمائلہ اور فرحان کے درمیان پیار و محبت کے عہد و پیمان ہونے لگے اور وہ دونوں ایک دوسرے کے پیار میں مکمل طور پر ڈوب گئے۔ یہ سب روبی کی محنت کا نتیجہ تھا۔
جب روبی نے شمائلہ سے شادی کا ذکر کیا تو اس نے اپنی امی سے بات کی۔ اس کی امی نے شادی سے منع کر دیا۔ کچھ دن شمائلہ نے اپنی امی کو پیار سے سمجھانے کی کوشش کی، لیکن جب وہ کسی طرح نہ مانیں تو شمائلہ نے دھمکی دی کہ اگر اس کی شادی فرحان سے نہ ہوئی تو وہ زہر کھا کر خودکشی کر لے گی۔ دفتر سے واپسی پر شمائلہ کے ابو زبیر نے یہ دھمکی سن لی تھی۔
شمائلہ کی امی نے اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی، لیکن شمائلہ اپنی ضد پر قائم رہی۔ جب وہ ہر طریقے سے ناکام رہی تو اس نے شمائلہ کے ابو سے بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک رات باتوں باتوں میں شمائلہ کی امی نے اس کے ابو سے شادی کی بات کی۔ زبیر نے تو پہلے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ بیٹی کی اس ضد کو نہ چاہتے ہوئے بھی پورا کرے گا، چاہے خاندان میں لوگ باتیں بنائیں۔ تھوڑی بحث و مباحثے کے بعد شمائلہ کے امی ابو اس کی شادی فرحان سے کرنے پر تیار ہو گئے۔
چند ماہ بعد شمائلہ اور فر بیک گراؤنڈ میں، فرحان شادی کے رشتے میں بندھ گئے۔ آج ان کی سہاگ رات تھی۔ جب فرحان نے کمرے کی کنڈی لگا کر سہاگ کی سیج پر قدم رکھا، شمائلہ گھونگھٹ نکالے سکڑی سمٹی سی بیٹھی تھی۔ کنڈی لگنے کی آواز سن کر اس کے جسم میں ایک سرسراہٹ دوڑ گئی اور آنے والے لمحات کا سوچ کر اس کا جسم ہولے ہولے کانپنے لگا۔
فرحان آ کر شمائلہ کے سامنے بیٹھ گیا۔ اندر سے وہ بھی گھبرایا ہوا تھا، لیکن وہ جانتا تھا کہ اس رات مرد کا پراعتماد ہونا ضروری ہے۔ اس نے ہمت کرتے ہوئے شمائلہ کا گھونگھٹ اٹھایا۔ شمائلہ ایک پرکشش چہرے کی مالک تھی اور اس پر روپ بھی بہت آیا تھا۔ فرحان کی نظر اس کے چہرے پر پڑی تو بے ساختہ اس کے منہ سے "واہ" نکلا۔ شمائلہ مزید شرما گئی اور اس کے گال مزید سرخ ہو گئے۔ فرحان نے اس کے حسن کی تعریف کی اور منہ دکھائی میں انگوٹھی پہنائی۔ پہلے پہل تو شمائلہ بول نہیں رہی تھی، لیکن فرحان نے آہستہ آہستہ اس کی جھجک کم کر دی تو وہ اس کی باتوں کا تھوڑا بہت جواب دینے لگی۔
سیکس کی طرف پہلا قدم بڑھاتے ہوئے فرحان نے باتوں باتوں میں اپنا ایک ہاتھ اس کی ران پر رکھا اور آہستہ آہستہ اس پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا۔ اس پر شمائلہ کی سانسیں تیز ہو گئیں اور اس نے فرحان کا ہاتھ ہٹانے کی کوشش کی۔ فرحان نے مزید پیش قدمی کرتے ہوئے اپنے ہاتھ اس کے گالوں پر رکھے اور اسے اپنی طرف کھینچتے ہوئے اپنے ہونٹ شمائلہ کے ہونٹوں پر رکھ دیے اور چومنے لگا۔ چند سیکنڈز بعد شمائلہ کی سانس اس طرح پھول گئی جیسے وہ میلوں بھاگ کر آئی ہو۔ اس نے اپنے ہونٹ فرحان کے ہونٹوں سے علیحدہ کیے اور تیز تیز سانسیں لینے لگی۔
فرحان کا لن مکمل طور پر تن چکا تھا۔ اس نے بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے شمائلہ کے کپڑے اتارنے چاہے تو شمائلہ نے پہلے لائٹ بند کرنے کو کہا۔ فرحان نے اٹھ کر لائٹ بند کر دی۔ اب کمرے میں مکمل اندھیرا تھا۔ شمائلہ نے لہنگا وغیرہ روبی کے کہنے پر فرحان کے آنے سے پہلے ہی بدل لیا تھا اور وہ سرخ رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس تھی۔ فرحان نے بیڈ پر جاتے ہی سب سے پہلے شمائلہ کی قمیض اتاری اور اس کے مموں پر ہاتھ رکھ دیا۔ شمائلہ دبلی پتلی تھی، لیکن اس کی چھاتیاں بہت جاندار تھیں۔ فرحان نے شمائلہ کا بریزیئر اوپر کیا اور اس کے مموں کو دبانے لگا۔ شمائلہ کے چھوٹے چھوٹے نپلز بھی اکڑے ہوئے تھے۔ فرحان نے ایک دو منٹ اس کے نپلز پر ہاتھ پھیرا، انہیں دبایا، اور پھر ایک مما منہ میں بھر کر چوسنے لگا۔ فرحان کی کوشش تھی کہ وہ شمائلہ کا سارا مما منہ میں بھر لے، لیکن چھاتی بھاری ہونے کی وجہ سے وہ ایسا نہ کر سکا۔ شمائلہ پہلی بار لذت کی گہرائیوں میں ڈوب رہی تھی اور اس سے یہ مزا برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ وہ مزے کی شدت سے اپنا سر ادھر ادھر پٹک رہی تھی۔ جب فرحان نے اس کے نپل کو چوسنا شروع کیا تو مزے کی شدت سے اس کا جسم اکڑنا شروع ہو گیا اور اونچی اونچی سسکیوں کے ساتھ اس کی پھدی نے پانی چھوڑ دیا۔ شمائلہ سہاگ رات میں بن چدے فارغ ہو چکی تھی۔
شمائلہ کی سہاگ رات بھی عام دلہنوں کی طرح گزری۔ مزا تب آتا ہے جب لڑکی بھی بھرپور ساتھ دے، لیکن پہلی دفعہ کے ڈر کی وجہ سے عام طور پر لڑکی ساتھ نہیں دے پاتی۔ ایک رات میں فرحان نے دو دفعہ شمائلہ کے ساتھ سیکس کیا۔ شمائلہ روایتی دلہنوں کی طرح ڈری ہوئی تھی، اس لیے زیادہ لطف اندوز نہ ہو سکی۔ درد زیادہ اور مزا کم تھا، لیکن اگلے کچھ دنوں میں درد کم ہوتا گیا اور مزا بڑھتا گیا۔ اب اس کی ہر رات لطف و سرور میں گزرتی تھی اور وہ فرحان کے ساتھ بھرپور سیکس انجوائے کرتی تھی۔
پہلا ماہ بنا حمل ٹھہرے گزر گیا، لیکن فرحان اور شمائلہ کی نئی نئی شادی تھی، اس لیے انہوں نے حمل نہ ٹھہرنے کی کوئی ٹینشن نہ لی۔ تیسرے ماہ شمائلہ کا پاؤں بھاری ہو گیا۔ جب فرحان کو پتا چلا کہ شمائلہ امید سے ہے تو اس نے اس کا پہلے سے بھی زیادہ خیال رکھنا شروع کر دیا۔
شمائلہ بہت خوش تھی کہ اسے پیار کرنے والا شوہر ملا اور اوپر والے نے اسے جلد ہی امید سے بھی کر دیا تھا۔ وہ خود کو ہر لحاظ سے خوش قسمت لڑکی تصور کرتی تھی، لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ "ماں باپ کا دل دکھا کر اگر خوشیاں حاصل ہوں تو وہ ناپائیدار ہوتی ہیں۔"
نینا اور شمائلہ میں ایک فرق یہ بھی تھا کہ نینا ایک کال گرل تھی، جبکہ شمائلہ ایک عام گھریلو لڑکی تھی۔ نینا کے لیے چوپے لگانا اور گانڈ مروانا عام بات تھی، لیکن شمائلہ ان چیزوں کو بہت برا سمجھتی تھی۔ اس لیے فرحان کو شمائلہ سے سیکس کرتے ہوئے ایک خلش محسوس ہوتی تھی، دوسرے لفظوں میں ایک کمی کا احساس ہوتا تھا، جبکہ نینا کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے شادی کے بعد بھی فرحان کا نینا سے رابطہ رہا اور کبھی کبھار وہ اس سے ملتا بھی تھا۔
"آج مجھے اپنی امی کے گھر جانا ہے اور شام تک واپس آ جاؤں گی،" شمائلہ نے صبح صبح فرحان سے اجازت مانگی تو فرحان نے بخوشی اسے میکے جانے کی اجازت دے دی۔ جب فرحان دکان پر گیا تو اس نے سوچا کہ دوپہر کو گھر تو جانا نہیں، کیوں نہ نینا کے ساتھ دوپہر کو رنگین بنایا جائے۔ چنانچہ اس نے نینا کو کال کی اور دوپہر میں آنے کو کہا۔ نینا نے دوپہر میں آنے کی حامی بھر لی۔
یہ کہتے ہوئے فرحان نے آہستگی سے اپنا لن کا ٹوپا نینا کی پھدی میں ڈال دیا۔ نینا کی پھدی بالکل خشک تھی۔ فرحان نے اپنا ٹوپا دو تین دفعہ اندر باہر کیا اور آگے سے نینا کی چھاتی منہ میں لے کر اس کی نپل چومنے اور چوسنے لگا، جس سے نینا کی پھدی میں تھوڑا سا گیلی پن آنا شروع ہو گیا۔ گیلی پن محسوس کرتے ہی فرحان نے ایک زوردار جھٹکا مارا اور اس کا پورا لن نینا کی پھدی کی گہرائیوں میں اتر گیا۔ نینا کے منہ سے ایک ہلکی سی آہ نکلی۔
فرحان نے اپنے لن سے نینا کی پھدی میں دو تین پورے جھٹکے دیے اور پھر تیزی سے لن کو اندر باہر کرنا شروع کر دیا، جس سے نینا کو بھی لطف آنے لگا۔ اس کا ثبوت اس کے منہ سے نکلنے والی سسکاریاں تھیں۔ نینا کی لذت آمیز سسکاریاں سن کر فرحان کی سپیڈ اور تیز ہو گئی۔ نینا ایک کال گرل تھی، وہ مردوں کی نفسیات سے اچھی طرح واقف تھی۔ وہ جانتی تھی کہ مرد کو ذہنی تسکین تب ہی حاصل ہوتی ہے جب عورت اس کی مردانگی کا اعتراف کرے۔ عورت کی چیخیں مرد کو ذہنی سکون پہنچاتی ہیں۔ نینا فرحان کے پاس پیسوں کے لیے نہیں، بلکہ دوستی اور مزے کے لیے آتی تھی۔ اس لیے فرحان کی سپیڈ اور جوش کو بڑھانے کے لیے نینا نے ہولے ہولے چیخنا شروع کر دیا اور ساتھ میں اسے آہستہ کرنے کی التجا کرنے لگی تاکہ فرحان کا جوش اور بڑھے۔ ہوا بھی ویسے ہی۔ فرحان نینا کی چیخیں سن کر مزید تیز ہو گیا اور زور سے گھسے مارنے لگا، جس سے نینا کو اور زیادہ مزا ملنے لگا۔ دو سے تین منٹ بعد ہی فرحان فارغ ہونے کے قریب پہنچ گیا اور تیز تیز جھٹکوں کے ساتھ نینا کی پھدی میں پانی چھوڑنے لگا۔ جیسے ہی فرحان کے لن نے نینا کی پھدی میں پانی چھوڑا، گرم گرم منی نے اس کے جسم میں اکڑاہٹ پیدا کرنا شروع کر دی اور فرحان کے آخری جھٹکوں نے نینا کی پھدی کو بھی پانی چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ فرحان اور نینا دونوں منزل کو پہنچ چکے تھے۔
نینا نے فرحان کو اپنی رضامندی دی تو فرحان نے اس کے ہونٹوں کو چوم لیا اور اس کے چوتڑوں کو دبانے لگا۔ کچھ دیر نینا کے جنسی اعضاء سے چھیڑ چھاڑ کے بعد فرحان کے لن نے ایک نئے جہان کی دریافت کے لیے پھر سے انگڑائی لی اور تن گیا۔ جب فرحان نے دیکھا کہ اس کے لن میں پھر سے جان پڑ گئی ہے تو اس نے نینا کو الٹا لیٹنے کو کہا۔ نینا الٹ گئی۔ اس کے چوتڑ ابھرے ابھرے بہت سیکسی لگ رہے تھے۔ فرحان نے اپنے منہ سے تھوک نکال کر اپنے لن پر ملا اور نینا کی گانڈ کے سوراخ پر لگایا۔ وہ اس کے اوپر لیٹ گیا اور اپنا لن اس کی گانڈ کے سوراخ پر ٹکایا۔ لن کے ٹوپے سے اس کی گانڈ کے سوراخ پر دباؤ بڑھانے لگا۔ جیسے ہی لن کی ٹوپی نینا کی گانڈ میں داخل ہوئی، اس کے منہ سے درد بھری کراہ نکلی۔ فرحان نے ہلکا سا جھٹکا مارا اور اس کا آدھا لن نینا کی گانڈ میں چلا گیا۔ ایک اور جھٹکے سے سارا لن نینا کی گانڈ میں اتر گیا۔ فرحان کو نینا کی گانڈ پھدی کی نسبت تنگ لگی، کیونکہ لن پر گانڈ کے سوراخ کی پکڑ پھدی سے زیادہ تھی۔ فرحان نے نینا کی گانڈ میں اپنے لن کو اندر باہر کرنا شروع کر دیا اور آہستہ آہستہ اپنی سپیڈ تیز کر دی۔ جب فرحان نینا کی گانڈ میں لن اندر کرتا تو نینا اپنی گانڈ فرحان کے لن کی طرف دباتی تاکہ لن زیادہ سے زیادہ گانڈ کی گہرائی کو ماپ سکے۔
جس وقت فرحان نینا کی گانڈ مار رہا تھا، اسی وقت کوئی اس کی بیوی کی عزت سے کھیلنے کی کوشش کر رہا تھا۔
جب فرحان نینا کی گانڈ مار رہا تھا، ٹھیک اسی وقت فرحان کے سسرال میں شمائلہ کا کزن اس کی عزت سے کھیلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ جب شمائلہ فرحان سے اجازت لے کر اپنے میکے گئی تو اس کے ابو دفتر جا چکے تھے اور گھر میں اس کی امی اکیلی تھیں۔ شمائلہ کی امی اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور ماں بیٹی آپس میں باتیں کرنے لگیں۔ باتوں باتوں میں دوپہر ہو گئی تو شمائلہ کی امی کے دل میں خیال آیا کہ شام کو جب فرحان شمائلہ کو لینے آئے گا تو اس کی خاطر تواضع کا بندوبست ہونا چاہیے۔ یہ سوچ کر انہوں نے شمائلہ سے کہا، "بیٹی، تم تھوڑا آرام کر لو، میں ایک گھنٹے میں بازار سے چکر لگا کر آتی ہوں۔" یہ کہہ کر شمائلہ کی امی بازار کے لیے روانہ ہو گئیں۔
شمائلہ کے کزن کا نام سلیم تھا۔ وہ ایک نمبر کا ٹھرکی لڑکا تھا۔ اکیلی لڑکی دیکھ کر تو اس کی رالیں بہنا شروع ہو جاتی تھیں۔ اس کی شمائلہ پر شادی سے پہلے ہی نظر تھی، لیکن شمائلہ کے ساتھ اسے کبھی تنہائی میسر نہ آئی تھی، اس لیے وہ اب تک سلیم کے شر سے بچی ہوئی تھی۔ لیکن آج سلیم کو تنہائی مل گئی تو اس نے موقع کا فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کر لیا۔
وہ جا کر شمائلہ کے ساتھ بیٹھ گیا اور ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا۔ باتوں کے ساتھ ساتھ وہ شمائلہ کے ہاتھ پر ہاتھ اس انداز میں مارتا جیسے لاشعوری طور پر کر رہا ہو۔ شمائلہ نے یہ محسوس کرتے ہوئے وہاں سے اٹھنا چاہا تو سلیم نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ شمائلہ نے غصے سے اس کی طرف دیکھا اور اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی تو سلیم نے اسے اپنی طرف کھینچا اور اپنی گود میں گرا لیا۔ شمائلہ نے سلیم کی گود سے اٹھنا چاہا تو اس نے شمائلہ کے گرد اپنی بانہوں کا شکنجہ کس لیا۔ شمائلہ نے خود کو بچانے کی جدوجہد میں سلیم کے بازو پر کاٹ لیا۔ سلیم کے منہ سے ایک زوردار چیخ نکلی اور شمائلہ کے گرد اس کی بانہوں کا گھیرا ڈھیلا پڑ گیا۔ شمائلہ چکنی مچھلی کی طرح اس کی بانہوں سے پھسل کر دروازے کی طرف بھاگی، لیکن سلیم نے تیزی سے اسے باہر نکلنے سے پہلے پکڑ لیا اور اسے بالوں سے کھینچ کر چارپائی پر دھکیل دیا۔
سلیم اب زبردستی پر اتر آیا تھا۔ شمائلہ چارپائی پر گر چکی تھی اور سلیم اس کے اوپر آن گرا۔ اس نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھا اور اس کی چھاتی پکڑ کر دبانے اور مسلنے لگا۔ شمائلہ نے اب اس کی منت سماجت شروع کر دی، لیکن سلیم ہاتھ آیا موقع ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ویسے بھی جب شیطان سر پر سوار ہو تو منت سماجت پر کون کان دھرتا ہے؟ سلیم نے اس کی شلوار پر ہاتھ رکھا اور ایک دم نیچے کھینچ دی۔ شمائلہ کی پھدی دیکھ کر سلیم کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس نے جلدی سے اپنی شلوار اتاری۔ سلیم کا لن شمائلہ کی پھدی کو دیکھ کر پورے جوش سے کھڑا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھ پر تھوک پھینکا اور لن کو تھوک سے گیلی کر لیا۔ لن کے ٹوپے کو شمائلہ کی پھدی کے ہونٹوں کے درمیان ایڈجسٹ کیا اور ایک زوردار جھٹکا دیا۔ سلیم کا لن شمائلہ کی چوت میں اتر گیا۔ شمائلہ کے منہ سے ایک چیخ نکلی اور اس نے خود کو سلیم کے نیچے سے نکالنے کی کوششیں شروع کر دیں۔
سلیم نے شمائلہ کو مضبوطی سے جکڑا ہوا تھا۔ شمائلہ اپنی پوری قوت لگانے کے باوجود خود کو سلیم کے چنگل سے نہ بچا پائی۔ سلیم نے پوری طاقت سے اپنے لن کو شمائلہ کی پھدی میں آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا۔ ادھر فرحان نینا کی گانڈ مار رہا تھا، ادھر سلیم شمائلہ کی پھدی سے مستفید ہو رہا تھا۔ اسی کا نام مکافات عمل ہے۔ بیشک ہم انجان رہتے ہیں، لیکن ہمارے عمل کا ردعمل کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی رشتے پر اثر انداز ہو رہا ہوتا ہے، لیکن ہم اس سے واقف نہیں ہوتے۔ ایک حساب سے دیکھا جائے تو لاعلمی بھی ایک نعمت ہے، لیکن لاعلم رہنے سے حقیقت نہیں بدلتی۔
شام جب فرحان شمائلہ کو گھر واپس لے کر گیا تو دونوں ایک دوسرے سے آنکھیں چرا رہے تھے۔ دونوں کے دل میں ایک چور تھا، جھجک تھی، اور دونوں ہی ضمیر کے مجرم تھے۔ رات جب دونوں لیٹے ہوئے تھے تو شمائلہ کے دل میں بار بار یہ خیال آ رہا تھا کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی زبردستی کا اپنے شوہر کو بتا دے۔ لیکن ایک ڈر تھا، خوف تھا کہ پتا نہیں اس کا ردعمل کیسا ہو گا۔ اسی خوف کے زیر اثر شمائلہ کچھ نہ بتا سکی اور لاشعوری طور پر وہ فرحان کے ساتھ جڑ گئی اور اس کے سینے میں سمانے کی کوشش کرنے لگی۔
فرحان نے جب شمائلہ کو خود سے چمٹتے دیکھا تو اس نے بھی شمائلہ کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا اور اس کی کمر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ فرحان کے دل میں بھی چور تھا۔ وہ سمجھا کہ شاید شمائلہ جذبات کی شدت سے ایسا کر رہی ہے۔ دونوں ہی ایک دوسرے کو دھوکہ دے رہے تھے۔ پہلے ہاتھ کمر پر تھا، کمر سے پستانوں پر گیا، پستانوں سے پیٹ پر، اور پھر کچھ منٹوں بعد دونوں کے کپڑے اتر گئے اور لن پھدی کا ملاپ ہو گیا۔ دونوں ہی محسوس کر رہے تھے کہ آج ان کا پارٹنر پہلے سے زیادہ پرجوش ہے۔ ایک زوردار اور پرلطف چدائی کے بعد دونوں سو گئے۔
اس رات فرحان کا شمائلہ سے ہم بستری کرنا اس کی زندگی کی بھیانک غلطی تھی۔ اس غلطی کا خمیازہ اسے تا عمر بھگتنا پڑا۔
اگلے دن دکان پر فرحان کو دوپہر کے وقت پیشاب کی حاجت ہوئی تو اسے پیشاب کی نالی میں جلن سی محسوس ہوئی، لیکن وہ قابل برداشت تھی۔ اس نے زیادہ توجہ نہ دی۔ اگلے دن جلن میں اضافہ ہو چکا تھا اور اس کی پیشاب کی نالی سے ریشہ نما مواد بھی آنا شروع ہو گیا۔ فرحان نے اپنے ایک دوست سے اس کا ذکر کیا تو اس نے بتایا کہ یہ ایک جنسی بیماری ہے اور عام طور پر کال گرلز سے لگتی ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ بیماری تمہیں ناکارہ بنا دے، تم کسی مستند ڈاکٹر سے رابطہ کرو۔
فرحان اسی شام ایک حکیم کے پاس چلا گیا اور اسے سارا مسئلہ بتایا۔ حکیم نے اسے دوائی دی اور اسے اپنی بیوی سے ہم بستری سے ٹھیک ہونے تک روک دیا۔ لیکن فرحان تو اپنی بیوی سے پہلے ہی ہم بستری کر چکا تھا اور نینا سے لیے ہوئے جراثیم شمائلہ میں منتقل کر چکا تھا۔ تین دن بعد فرحان بیماری سے نجات پا چکا تھا۔
تقریباً ایک ہفتے بعد جب صبح شمائلہ اٹھی تو اس نے شلوار پر خون کا دھبا دیکھا۔ وہ پریشان ہو گئی اور اس نے اس کا ذکر فرحان سے کیا۔ فرحان اسے لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ لیڈی ڈاکٹر نے الٹراساؤنڈ کرنے کے بعد شمائلہ کو بتایا کہ وہ شدید قسم کے اندرونی انفیکشن سے متاثر ہے۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ ابارشن کروایا جائے، ورنہ زچہ کی زندگی بھی جا سکتی ہے۔ بادل نخواستہ فرحان کو شمائلہ کا ابارشن کروا نا پڑا۔
شمائلہ کے لیے یہ صدمہ ناقابل برداشت اور اذیت ناک تھا۔ اس کی ذہنی اور جسمانی حالت کافی ابتر ہو گئی۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ بچے سے محرومی کی سزا سلیم سے سیکس تھا، حالانکہ اس میں اس کی مرضی شامل نہ تھی، لیکن وہ خود کو قصوروار سمجھ رہی تھی۔ دوسری طرف ان حالات کا ذمہ دار فرحان خود کو سمجھ رہا تھا۔ اگر ایک طرح سے دیکھا جائے تو وجہ وہ خود ہی تھا۔ نہ وہ نینا سے سیکس کرتا اور نہ اس کی بیوی انفیکشن کا شکار ہوتی اور نہ ہی ابارشن کروا نا پڑتا۔
قصہ مختصر، فرحان نے جنسی بیماری سے نجات تو حاصل کر لی تھی، لیکن اس کے لن میں پہلے جیسی طاقت نہ رہی۔ نینا سے اس کی دوستی ختم ہو گئی اور اس کی بیوی دوبارہ حاملہ بھی نہ ہو سکی۔ شمائلہ جنسی لطف سے بھی محروم ہے اور اولاد کی نعمت سے بھی۔