میری ایک بڑی بہن ہے سعدیہ، اس کی شادی کراچی میں ہوئی تھی۔
میں نویں کلاس میں پڑھتی تھی۔ پر میرا فگر اور قد کسی اٹھارہ سال کی لڑکی جتنا تھا۔
قدرت نے حسن اور دل کھول کر دیا تھا۔ مجھے ابو جٹنی کے نام سے پکارتے تھے۔ میرے ہمسائے
میں ابو کے دوست ریاض رہتے تھے، جن کے پاس میں ٹیوشن پڑھتی تھی۔ وہ اکیلے رہتے تھے۔
ان کی بیوی فوت ہو چکی تھی۔ وہ ایک گورنمنٹ ٹیچر تھے۔ وہ یکم جون کی سخت دوپہر تھی۔
ویسے تو میں شام کو جاتی تھی پڑھنے، پر پیپرز سر پر تھے اور مجھے تیاری کرنی تھی، تو
میں اسکول سے آکر کھانا کھا کر چل پڑی ٹیوشن پڑھنے۔
ریاض صاحب کے گھر کی بیل بجائی، کافی دیر تک کوئی نہیں نکلا۔
میں واپس جانے کے لیے مڑ ہی رہی تھی کہ دروازے کے کھلنے کی آواز آئی۔ سر ریاض نے دروازہ
کھولا۔ سر کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ سر نے کپڑے بھی سونے والے پہنے ہوئے تھے، انہوں
نے بنیان اور دھوتی پہنی ہوئی تھی۔ مجھے شرمندگی ہوئی کہ میں نے سر کو نیند سے اٹھا
دیا۔ میں نے کہا: سر، آپ آرام کریں، میں شام کو آ جاؤں گی۔ سر: نہیں، کوئی بات نہیں،
اندر آ جاؤ۔
میں اندر آ گئی۔ سر منہ ہاتھ دھونے واش روم میں چلے گئے۔
میں اندر آ کر بیٹھ گئی اور کتابیں کھول لیں۔ تھوڑی دیر بعد سر بھی آ کر بیٹھ گئے۔
سر کی عمر تقریباً پینتالیس سال کے لگ بھگ تھی۔ سر کا رنگ کالا تھا اور سر کا رعب ایسا
تھا کہ محلے کے چھوٹے بڑے سب سر سے ڈرتے تھے۔ سر جب ڈانٹتے تھے، میں خود ڈر جاتی تھی،
حالانکہ آج تک سر نے مارا نہیں تھا۔
میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو سر اونگھ رہے تھے۔ میں نے دل
میں سوچا کہ سر میری وجہ سے ڈسٹرب ہو رہے ہیں۔ میری اتنی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ سر
کو جگا سکوں۔ میں پھر سے کتابوں میں مگن ہو گئی تھی۔ ایک سوال سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
میں نے سوچا سر سے پوچھتی ہوں۔ میں نے کتاب سے سر اٹھایا۔ میرے اوسان خطا ہو گئے۔ سر
نیند میں تھے اور بے خیالی میں ان کی دھوتی سائیڈ پر ہو گئی تھی اور دھوتی سے ایک موٹا
تازہ کالا ناگ نما لنڈ باہر نکلا ہوا تھا۔ میرا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے
رہ گیا تھا۔ میں نے جلدی سے نظریں دوبارہ کتاب پر جما لیں۔
میں نے زندگی میں پہلی بار کسی مرد کا لنڈ دیکھا تھا۔ میرے
دماغ میں وہی منظر چل رہا تھا۔ میں نے دوبارہ نظریں اٹھا کر دیکھا کہ شاید سر نے دھوتی
سہی کر لی ہو، پر وہاں ویسے ہی ان کا کالا ناگ نظر آ رہا تھا۔ میں نے پھر نظریں جھکا
لیں۔ پتا نہیں کیسی کشمکش چل رہی تھی میرے اندر۔ میں چاہ کر بھی کتاب میں دھیان نہیں
لگا پا رہی تھی۔ میں ایسے دیکھ رہی تھی کہ اچانک سر کی آنکھ کھل گئی اور مجھے اپنے
لنڈ کو دیکھتے ہوئے دیکھ لیا۔ میں نے جلدی سے سر جھکا لیا۔
سر نے جلدی سے اپنی دھوتی ٹھیک کی۔ مارے شرمندگی کے میرا
دل چاہ رہا تھا کہ زمین پھٹ جائے اور میں اس میں سما جاؤں۔ سر پتا نہیں کیا سوچ رہے
ہوں گے میرے بارے میں کہ میں کیسی لڑکی ہوں۔ سر اب مجھے غور سے دیکھ رہے تھے۔ سر نے
کہا: کون سا سوال ہے جو سمجھ نہیں آ رہا؟
میں آٹھ کر سر کے پاس آ کر بیٹھ گئی اور سر مجھے سوال سمجھانے
لگے، پر کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ میرے دماغ میں مارے شرمندگی کے اور کچھ نہیں تھا۔
سر نے سوال سمجھا کر کہا: جاؤ جا کر سوال کر کے دکھاؤ۔ میں نے سر جھکا کر کاپی پکڑنی
چاہی جو انہوں نے گود میں رکھی ہوئی تھی۔ سر نے جان بوجھ کر کاپی سائیڈ پر کر لی، جس
کی وجہ سے میرا ہاتھ ان کے لنڈ سے جا ٹکرایا۔ میں گھبرا کر ہاتھ پیچھے کرنے لگی تو
سر نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے لنڈ پر رکھ دیا۔ گھبراہٹ کے مارے ایسا لگ رہا تھا گویا
جسم میں جان ہی نہ ہو۔
سر نے مجھے پکڑ کر اپنے ساتھ لگا لیا اور میرے ہونٹوں پر
اپنے ہونٹ رکھ دیے اور مجھے کس کرنا شروع کر دیا۔ میرے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا۔
میں نے کسنگ کافی بار فلموں میں دیکھی تھی، پر کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ کوئی مرد
مجھے اس طرح کس کرے گا۔ سر کے منہ سے سگریٹ اور ایک عجیب سی سمیل آ رہی تھی۔ میں مکمل
اس کے رحم و کرم پر تھی۔ وہ کبھی ہونٹوں کو چوستا، کبھی اپنی زبان میرے منہ میں ڈال
دیتا۔ میں گم صم سر کے لنڈ پر ہاتھ رکھے خاموش بیٹھی تھی کہ کب سر مجھے چھوڑیں گے۔
سر کا ہاتھ میرے سینے پر آزادانہ گھوم رہا تھا۔ میرے دونوں
مموں کو سر دبا رہے تھے۔ میری نپلز کو سر نے قمیض کے اوپر سے دبانا شروع کر دیا تھا۔
میری سانس پھول چکی تھی۔ میری سسکیاں نکلنا شروع ہو چکی تھیں۔ سر تھے کہ رکنے کا نام
ہی نہیں لے رہے تھے۔ میں نے زور لگا کر سر سے اپنا آپ چھڑایا تو سر نے مجھے چھوڑ دیا۔
سر نے اپنا لنڈ باہر نکال لیا تھا اور میری گردن کو پکڑ
کر مجھے اپنے لنڈ کی طرف دھکیلنا شروع کیا۔ میں نہیں سمجھی کہ سر کیا کرنا چاہ رہے
تھے۔ میں نے خود کو چھڑانے کی کوشش کرنی لگ پڑی۔ سر نے کہا: فوزیہ، اس کو منہ میں لو۔
میں ڈر گئی کہ ایک گندی چیز، جس سے پیشاب نکلتا ہے، اس کو سر منہ میں لینے کا کہہ رہے
ہیں۔ مجھے کچھ اور نہ سوجھا، میں پانی پینے کے بہانے اٹھ کھڑی ہوئی۔
سر کی فریج ان کے بیڈ روم میں رکھی ہوئی تھی۔ سر کے بیڈ
روم میں داخل ہوتے ہی میری نظر سر کی ٹیبل پر پڑی۔ میں حیران ہو گئی۔ وہاں شراب کی
بوتل، جو کہ آدھی خالی تھی، پڑی تھی۔ اب میں سمجھ گئی کہ سر کے منہ سے سمیل کیوں آ
رہی تھی اور ان کی آنکھیں لال کیوں ہو رہی تھیں۔ میں نے فلموں اور ڈراموں میں شراب
پیتے لوگوں کو دیکھا تھا، اس لیے میں بوتل دیکھتے ہی پہچان گئی تھی۔
میں ڈر گئی۔ دل میں تہیہ کر لیا کہ پانی پیتے ہی گھر چلی
جاؤں گی۔ میں نے فریج سے پانی نکالا اور بوتل کو منہ لگا لیا۔ ابھی پانی پی ہی رہی
تھی کہ سر نے مجھے پیچھے سے آ کر دبوچ لیا۔ میرے ہاتھ سے بوتل چھوٹ کر نیچے گر گئی۔
میں خود کو چھڑانا چاہ رہی تھی، پر کامیاب نہیں ہو پا رہی تھی۔ ابھی کشمکش جاری تھی
کہ سر نے مجھے ساتھ پڑے بیڈ پر پٹخ دیا۔ میں منہ کے بل بیڈ پر جا گری۔ ابھی سنبھل ہی
نہیں پائی تھی کہ سر میرے اوپر چڑھ گئے۔
میں نے اٹھنے کی کوشش کی، پر سر نے ایک ہاتھ سے مجھے گردن
سے پکڑ کر بیڈ پر الٹا لٹائے رکھا اور دوسرے ہاتھ سے میری شلوار گھٹنوں تک اتار دی۔
میں دیکھ نہیں پا رہی تھی کہ سر کیا کرنے والے ہیں۔ میں پیٹ کے بل بیڈ پر لیٹی ہوئی
تھی۔ سر نے گردن سے پکڑ رکھا تھا اور میرا منہ بیڈ کی طرف تھا۔ ٹانگوں پر سر بیٹھے
تھے۔ میں بالکل بے بس ہو چکی تھی۔
سر نے اچانک اپنے ہاتھ پر تھوک دیا اور تھوک میری چوت پر
لگا دیا اور اچانک کوئی گرم چیز میری چوت پر رگڑنا شروع کر دی۔ میں سمجھ گئی کہ یہ
سر کا لنڈ ہے۔ اب بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ میں نے سر کو واسطے دینا شروع
کر دیے۔ ابھی میں منتیں کر ہی رہی تھی کہ سر نے ایک جھٹکا دیا۔ میرے الفاظ منہ میں
ہی تھے، ان کی جگہ ایک زوردار چیخ نے لے لی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ کسی نے جلتی ہوئی
گرم سلاخ میری چوت میں ڈال دی ہو۔
میں تڑپ اٹھی۔ کوشش کرنی لگ پڑی نیچے سے نکلنے کی، پر میں
پوری طرح قابو میں آ چکی تھی۔ ابھی سنبھل ہی نہ پائی تھی کہ سر نے دوسرا جھٹکا مارا۔
میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میری ٹانگوں
کے بیچ کی جگہ چِر گئی ہو۔ میری چیخ کمرے میں گونج چکی تھی۔ ہائے امی، میں مر گئی...
اسے باہر نکالو... میں مر جاؤں گی...
مجھے لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی چاقو میری چوت میں مارا گیا
ہو۔ میں بری طرح تڑپ رہی تھی۔ آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ میں سر کے نیچے ذبح کی ہوئی
مرغی کی طرح پھڑپھڑا رہی تھی۔ سر کو میری حالت پر کوئی رحم نہیں آ رہا تھا۔ وہ کسی
وحشی کی طرح مجھ پر ٹوٹے پڑے تھے۔ پیچھے سے میری گردن پر کاٹ رہے تھے، کبھی میری کان
کی لو کو منہ میں لے کر چوس رہے تھے۔
سر نے جھٹکوں کی رفتار تیز کر دی تھی۔ ابھی چوت کا درد سے
سنبھل نہ پائی تھی کہ سر کا لنڈ، جو میری چوت میں تباہی پھیلا رہا تھا، وہ باہر نکل
آیا۔ سر نے دوبارہ اندر ڈالنے کی کوشش کی، پر نشے میں ہونے کی وجہ سے سر کو پتا نہیں
لگا اور سر نے لنڈ میری گانڈ پر رکھ کر زور سے جھٹکا مارا تو لنڈ کا کچھ حصہ میری گانڈ
کو چیرتا ہوا اندر داخل ہو گیا۔
مجھے لگا میرا سانس رک گیا ہو۔ میں مچھلی کی طرح تڑپ اٹھی۔
میری اتنی زور سے چیخ نکلی کہ سر بھی گھبرا کر میرے اوپر سے اتر آئے۔ میں پورے بیڈ
پر پانی سے نکالی ہوئی مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی۔ لگ رہا تھا کہ کسی نے گانڈ میں مرچیں
ڈال دی ہوں۔ کچھ دیر بعد درد برداشت کے قابل ہوا تو میں اٹھ بیٹھی۔
میری نظر اپنی ٹانگوں اور بیڈ شیٹ پر پڑی تو خون دیکھ کر
میں گھبرا گئی تھی۔ رو رو کر پہلے ہی گلا خشک ہو چکا تھا۔ سر نے پانی لا کر مجھے پلایا۔
میں نے سر کے آگے ہاتھ جوڑ دیے کہ سر، مجھے جانے دیں۔ سر نے دیکھا کہ میں کچھ سنبھل
گئی ہوں تو مجھے پیچھے دھکیل کر میری شلوار اتار دی اور دونوں ٹانگوں کے بیچ میں آ
کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے: پریشان نہ ہو، اب درد نہیں ہوگا اور نہ ہی اور خون نکلے
گا، اور میں خیال رکھوں گا کہ میرا لنڈ اب تمہاری گانڈ میں نہیں جائے۔
میرے منہ سے بس ایک ہی جملہ نکل رہا تھا: سر، مجھے جانے
دیں۔ سر نے کہا: بس پانچ منٹ اور، اس کے بعد تم چلی جانا۔ سر نے دوبارہ لنڈ پر تھوک
لگایا اور میری چوت پر رگڑنے لگے۔ میں نے خود کو دوبارہ درد کے لیے ذہنی طور پر تیار
کر لیا تھا۔ سر نے اب آہستہ آہستہ اندر ڈالنا شروع کیا۔ درد کی لہر دوبارہ اٹھی چوت
میں، پر اس بار اتنا درد نہیں ہو رہا تھا، برداشت کے قابل تھا۔
سر نے کہا: تمہاری چوت میں ابھی تک آدھا لنڈ ڈال سکا ہوں۔
میں سوچ میں پڑ گئی کہ آدھے لنڈ نے مجھے اتنا تڑپایا ہے تو پورا لنڈ کیا غضب ڈھائے
گا۔ میں نے روتے ہوئے ہاتھ جوڑ دیے کہ جتنا گیا ہے، اتنا بہت ہے۔ سر نے کہا: ٹھیک ہے،
پر میرے ساتھ تعاون کرو، جیسا کہوں گا کرنا پڑے گا۔
میں نے کہا: ٹھیک ہے۔ تو سر نے کہا: قمیض اوپر کرو۔ میں
نے اپنی قمیض اوپر کر دی۔ سر نے میرے پستانوں پر اپنا منہ رکھ دیا اور بھوکے جانور
کی طرح نوچنے اور کاٹنے لگا۔ میری نپلز کو منہ میں لے کر چوسنے لگا، ساتھ ہی ساتھ جھٹکے
مار رہا تھا۔ مجھے ہر جھٹکے پر یہ محسوس ہو رہا تھا کہ میری چوت چِرتی جا رہی ہے۔ پورے
کمرے میں میری سسکیاں اور آہیں گونج رہی تھیں۔
میں دعا کر رہی تھی کہ جلد سے جلد یہ کام پورا ہو اور میں
گھر جاؤں۔ تھوڑی دیر بعد سر نے ایک زوردار چنگھاڑ کی آواز نکال کر میرے اوپر گر گئے۔
مجھے ایسا لگا کہ کسی نے کوئی گرم ابلتا ہوا سیسہ اندر ڈال دیا ہو۔ سر کے جسم کو جھٹکے
لگ رہے تھے۔ میرے اندر لگ رہا تھا کہ کسی نے گرم فوارہ چلا دیا ہو۔
تھوڑی دیر بعد سر نے اپنا لنڈ نکال دیا اور اٹھ کر بیٹھ
گئے۔ میں بے سدھ لیٹی ہوئی تھی۔ میرے جسم میں جان نہیں تھی کہ میں اٹھ سکوں۔ جیسے تیسے
کر کے اٹھ کر میں نے بے اختیار چوت کی طرف نگاہ ماری کہ کہیں دوبارہ خون تو نہیں نکل
آیا، پر اب خون کی جگہ گاڑھا زرد پانی نکل رہا تھا۔ میری ٹانگیں اور بستر چوت سے نکلنے
والے پانی نے گیلی کر دی تھیں۔
میں نے روتے ہوئے شلوار پہننا شروع کر دی۔ حالانکہ میرے
جسم میں جان تک نہ تھی، پر جیسے تیسے کر کے شلوار پہن لی۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں یہ کھیل
دوبارہ نہ شروع ہو جائے۔ سر بے سدھ ہو کر سو گیا تھا۔ میری عزت کو تار تار کر کے کیسے
مزے سے سو گیا تھا۔ اور میں گرتے پڑتے جیسے تیسے کر کے اپنے گھر پہنچ گئی۔
میری چال اور بکھرے بال میرے اوپر گزرے حال کا بتا رہے تھے۔
مجھے کچھ بتانا ہی نہ پڑا۔ میری حالت دیکھ کر امی کے ہاتھ سے برتن گر گئے۔ ان کی جہاندیدہ
آنکھوں نے مجھ پر گزری قیامت کو بھانپ لیا تھا۔ امی نے جلدی سے مجھے پکڑ کر کمرے میں
لے گئیں۔ امی نے مجھے بیڈ پر لٹا دیا۔ میری آنکھوں سے آنسو نہیں تھم رہے تھے۔
امی نے پوچھا: کون تھا وہ بدبخت؟ میرے منہ سے صرف اتنا نکلا:
سر ریاض۔ اور میں دوبارہ رونے لگ پڑی۔ امی نے کہا: بیٹا، اپنے آپ کو سنبھالو۔ تمہارا
ابو گرم دماغ کا آدمی ہے۔ اس نے جو ش میں آ کر ریاض کو کچھ کر دیا تو اور جتنا ڈھنڈورا
پیٹیں گے، بدنامی اپنی ہو گی۔ ہم لڑکی والے ہیں۔ باقی ریاض کو میں خود دیکھ لوں گی۔
تم کپڑے بدل لو، میں تمہارے لیے گرم دودھ لے کر آتی ہوں۔
میں لیٹی رہی۔ اٹھنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا، نہ جسم میں
ہمت تھی اٹھنے کی۔ آنکھیں بند کرتی تو وہ سارا منظر آنکھوں کے سامنے آ جاتا۔ تھوڑی
دیر بعد امی میرے لیے گرم دودھ لے کر آ گئی۔ فوزیہ، ابھی تک کپڑے نہیں پہنے تم نے؟
تمہارا ابو آتا ہو گا، اس حالت میں تم کو دیکھ کر وہ سمجھ جائے گا۔ تمہاری شلوار پر
خون کے داغ ہیں۔
امی نے مجھے کپڑے پہنانے میں مدد کی۔ میں دوبارہ بیڈ پر
گر گئی۔ امی نے مجھے دودھ پکڑایا اور ساتھ تین گولیاں پکڑا دیں کہ: یہ کھا لو۔ میں
نے کہا: یہ کس چیز کی گولیاں ہیں؟ امی نے کہا: ایک پین کلر ہے اور دو گولیاں مانع حمل
کی ہیں۔
میں نے حیرت سے پوچھا: وہ کس لیے؟ امی نے کہا: بس چپ کر
کے کھا لو۔ میں نے گولیاں کھا کر دودھ پی کر دوبارہ لیٹ گئی۔ میری آنکھ لگ گئی۔ شام
کو ابو کی بائیک کی آواز سن کر میری آنکھ کھل گئی۔ جب سے ہوش سنبھالا تھا، میری عادت
تھی کہ جیسے ابو گھر آتے، میں سب سے پہلے ان کو ملتی تھی اور ان سے سامان پکڑ کر رکھتی
تھی۔ وہ روز میرے لیے بازار سے کچھ کھانے کے لیے لاتے تھے۔ اس دن مجھے سامنے نہ پا
کر پریشان ہو گئے تھے۔ امی سے پوچھا: فوزیہ بیٹی کہاں ہے؟ امی نے کہا: اس کی طبیعت
ٹھیک نہیں ہے۔
ابو نے جلدی سے سامان زمین پر رکھا اور میرے کمرے کی طرف
چل دیے۔ کمرے میں ابو داخل ہوئے اور کہا: کیا ہوا ہے میری جٹنی کو؟ میں نے ابو کی آواز
سن کر بھی آنکھیں نہیں کھولیں۔ میری ہمت نہیں ہو رہی تھی ابو سے آنکھ ملانے کی۔ ابو
نے میرے ماتھے کو چھو کر دیکھا۔ بے اختیار میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ مجھے روتا دیکھ
کر ابو پریشان ہو گئے اور کہا: روتی کیوں ہے پگلی؟ چل ڈاکٹر کو دکھا آتے ہیں۔
امی نے گھبرا کر کہا: نہیں، اب ٹھیک ہے۔ میں نے اس کو گولیاں
کھلا دی تھیں۔ بخار اتر گیا ہے۔ اس نے دراصل امتحانات کی کچھ زیادہ ہی ٹینشن لے لی
ہے۔ ابو نے کہا: چلو ٹھیک ہے، تم آرام کرو۔
ابو کے جانے کے بعد پتا نہیں کب آنکھ لگ گئی۔ اچانک رات
کو ڈراونا خواب دیکھ کر آنکھ کھل گئی تھی۔ خواب میں ایک خوفناک درندے کو اپنے اوپر
حملہ کرتے دیکھا تھا۔ دوبارہ سونے کی کوشش کرتے کرتے کافی دیر لگ گئی۔ صبح نو بجے دوبارہ
آنکھ کھلی تو ابو جا چکے تھے۔ جسم میں پورا درد تھا۔ اٹھتے کا دل نہیں کر رہا تھا۔
اٹھ کر کمرے سے باہر نکلی تو امی ناشتہ بنا رہی تھیں۔
امی نے کہا: جاؤ نہا لو، پھر ناشتہ کرتے ہیں۔ میں نے واش
روم کی طرف چل پڑی۔ چلنے میں ٹانگوں کے بیچ اور گانڈ میں ہلکی ہلکی درد ہو رہی تھی۔
واش روم میں جا کر میں نے کپڑے اتارے تو دیکھا کہ میرے پستانوں پر ریاض کے دانتوں کے
نشان تھے، جو اب باقاعدہ زخم کی صورت اختیار کر چکے تھے۔ چوت بھی سوجھی ہوئی لگ رہی
تھی۔
نہا کر میں باہر نکلی تو امی نے ناشتہ لگا دیا تھا۔ ہم دونوں
نے مل کر ناشتہ کیا، پر ہم دونوں کے بیچ کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ میں نے خاموشی سے
ناشتہ کیا، ورنہ میں پورے گھر میں سب سے زیادہ ہنس مکھ مشہور تھی۔ امی نے کہا: میں
ذرا بازار تک جا رہی ہوں، کنڈی لگا لینا۔
میں نے کہا: بازار سے زخموں پر لگانے والی مرہم تو لیتے
آنا۔ امی نے پوچھا: کہاں لگانی ہے؟
اس واقعے کے اثر سے نکلنے کے لیے مجھے ہفتہ لگ گیا۔ ایک
ہفتے تک میں اسکول بھی نہیں گئی۔ آہستہ آہستہ میں دوبارہ اپنی روٹین لائف میں واپس
آتی گئی اور میری ہنسی اور قہقہے بھی واپس آتے گئے، جس کی سب سے زیادہ خوشی میرے والد
کو ہوئی تھی، کیونکہ میری ہنسی کو دیکھ کر وہ جیتے تھے۔
میں نے اسکول جانا شروع کر دیا تھا۔ میری اسکول میں ایک
ہی دوست تھی، جس کا نام ماریہ تھا۔ اسکول میں اس کی ریپوٹیشن کچھ اچھی نہیں تھی۔ اس
کے بارے میں بہت سے قصے مشہور تھے۔ اس کا کافی لڑکوں کے ساتھ نام جوڑا جاتا تھا۔ پر
میں نے کبھی اس سے اس بارے میں بات نہیں کی تھی۔
میں جیسے اسکول میں داخل ہوئی تو سامنے سے ماریہ کو آتے
دیکھا۔ ماریہ نے کہا: کہاں گم ہو؟ ہفتے سے...
میں نے کہا: یار، میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔
ماریہ: یار، آج خدا سے کچھ اور مانگتی تو وہ بھی مل جاتا۔
شکر ہے تم آج آ گئی، مجھے تم سے ایک کام ہے۔
میں نے پوچھا: کیا کام ہے؟
ماریہ: یار، اسکول سے واپسی پر میں نے کام سے جانا ہے۔ اگر
میری امی کا فون آئے تو تم کہنا ماریہ میرے ساتھ ہے۔
میں: کہاں جانا ہے جو امی سے چھپا رہی ہو؟
ماریہ: پاگل، ڈیٹ پر جانا ہے۔ اب کیا امی کو بتا کر جاؤں؟
میں: یار، تم کب سدھرو گی؟
ماریہ نے مجھے جھپی ڈال کر آنکھ مار کر کہا: یار، زندگی
کا مزا جتنا لے سکتی ہو لوٹ لو، کل ہو نہ ہو۔
میں نے ہامی بھر لی تو ماریہ نے میرا گال چوم لیا۔ میں نے
ہنس کر کہا: بدتمیز، اب چھوڑو بھی مجھے۔ ہم دونوں ہنستے ہوئے کلاس میں داخل ہو گئے۔
آدھی چھٹی ہوئی تو ہم دونوں جا کر لان میں بیٹھ گئے۔ وہ
ہماری پسندیدہ جگہ تھی۔ وہاں درخت لگے ہوئے تھے، جن کی ٹھنڈی ہوا ہم دونوں کو بہت پسند
تھی۔ مجھے کچھ نوٹس اتارنے تھے، کیونکہ میں ایک ہفتے سے اسکول نہیں آئی تھی، تو کافی
کام جمع ہو گیا تھا۔ اگلے ہفتے پیپر تھے۔ لان میں بیٹھ کر میں نے ماریہ کو کہا: جاؤ
کچھ کھانے کو لے آؤ۔
ماریہ جانے لگی تو میں نے کہا: اپنا موبائل دینا، مجھے نوٹس
اتارنے ہیں، کیونکہ ہماری ٹیچرز نے ایک واٹس ایپ گروپ بنا رکھا تھا، جس میں سارے نوٹس
مل جاتے تھے۔ میں اپنا موبائل نہیں لاتی تھی اسکول، کیونکہ میڈم منع کرتی تھی موبائل
لانے کو۔ مجھے پتا تھا ماریہ اسکول میں موبائل لاتی تھی چوری چھپے۔
ماریہ تھوڑا ہچکچائی، پھر موبائل کا پاس ورڈ کھول کر واٹس
ایپ چلا کر مجھے دے دیا۔ خود کینٹین کی طرف چل دی۔ میں موبائل میں ابھی نوٹس پڑھ ہی
رہی تھی کہ ایک میسج آ گیا۔ میری عادت نہیں تھی ماریہ کے میسج پڑھنے کی، پر جیسے میرا
دھیان میسج بھیجنے والے کے نام پر پڑا تو بے اختیار میسج کھول لیا، کیونکہ وہ میسج
میرے نام سے آیا تھا۔
میں نے جب میسج کھولا تب پتا چلا کہ ماریہ نے میرے نام سے
کسی لڑکے کا نمبر سیو کیا ہوا تھا تاکہ کبھی اس کی کال آئے تو اس کی امی کو شک نہ پڑ
جائے۔ میں بے خیالی میں اوپر اسکرول کیا تو تصاویر دیکھ کر میں بری طرح چونک گئی۔ ماریہ
نے اس لڑکے کو اپنی ننگی تصاویر بھیجی تھیں، جن میں اس کے پستانوں اور چوت کی تصاویر
شامل تھیں۔ لڑکے نے بھی اس کو اپنے لنڈ کی تصاویر بھیجی تھیں۔ ماریہ نے اپنے میسجز
میں اس کو اپنی چوت میں لینے کے لیے بے تابی کا اظہار کیا تھا۔ ان سب کے علاوہ اور
بہت سی انگریزی ننگی تصاویر شامل تھیں۔
میں نے سامنے سے ماریہ کو آتے دیکھا تو جلدی سے موبائل لاک
کر دیا۔ ماریہ سموسے لے کر آئی تھی۔ میری اڑی ہوئی رنگت دیکھ کر اس کو کچھ شک پڑ گیا۔
اس نے جیسے ہی موبائل کو اوپن کیا تو سامنے وہی میسجز کھل گئے، کیونکہ میں نے گھبراہٹ
میں واٹس ایپ کو بند کرنا بھول گئی تھی۔ میں سر جھکا کر بیٹھی تھی۔ ہم دونوں کے بیچ
کوئی بات نہیں ہوئی کافی دیر۔
آخر کار ماریہ نے خاموشی کا پردہ چاک کیا۔ ماریہ: تم نے
میرے میسجز پڑھ لیے ہیں؟ کوئی بات نہیں، ہم دوست ہیں۔ ہم دونوں کے بیچ کوئی پردہ نہیں
ہونا چاہیے۔
میں: تم نے اپنی ایسی تصاویر کیوں اس کو بھیجی ہیں؟
ماریہ: یار، یہ سب چلتا ہے۔
میں: تم شادی سے پہلے اس انجان لڑکے کے ساتھ سیکس کرنا چاہ
رہی ہو؟
ماریہ ہنستے ہوئے: جان، سیکس بھی انسان کی بھوک کی طرح ایک
ضرورت ہے۔
میں: تم کب سے اس لڑکے کے ساتھ یہ سب کر رہی ہو؟
ماریہ: اس کے ساتھ فرسٹ ٹائم ہے، پر اس سے پہلے دو اور لڑکے
تھے، جن کے ساتھ میرا تعلق تھا۔
میں: اگر تمہاری امی کو پتا چل گیا تو؟
ماریہ: ان کو کیسے پتا چلے گا؟ تم بس کوئی بھانڈا نہ پھوڑ
دینا۔
میں: میں نہیں بتاؤں گی، پر تمہارے خون والے کپڑے دیکھ کر
امی سمجھ جائیں گی۔
ماریہ ہنستے ہوئے: پاگل، خون کیوں نکلے گا؟ میرا کون سا
پہلی بار ہے؟
میرے منہ سے اچانک نکل گیا: پر میری امی کو تو پتا چل گیا
تھا۔
ماریہ نے چونکتے ہوئے کہا: کیا مطلب؟ اس کا مطلب تم نے بھی
کسی سے سیکس کیا ہے؟
میں نے دل ہی دل میں خود کو کوسا کہ چلو کلاس کا ٹائم ہو
گیا ہے۔ وہ میرے پیچھے پڑ گئی۔ میں نے کہا: اچھا، کل بتاؤں گی۔ میں نے دل میں سوچا
کہ کل تک اس کے ذہن سے بات نکل جائے گی۔
ہم کلاس میں چلے گئے۔ چھٹی کے بعد میں اسکول سے نکلی تو
ماریہ میرے پیچھے چل پڑی۔ میں نے کہا: تمہارا گھر اس سائیڈ تو نہیں ہے؟ تو کہنے لگی:
میں کچھ دور تمہارے ساتھ چلوں گی۔ جب کچھ لڑکیوں کا رش کم ہو جائے گا تو میں اپنے فرینڈ
کی گاڑی میں بیٹھ جاؤں گی، جو کچھ فاصلے پر کھڑی ہے۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے بلیک
کلر کی گاڑی دکھائی۔
میں خاموشی سے چل پڑی۔ تھوڑی دور چلنے کے بعد جب کافی رش
کم ہو گیا تو ماریہ نے فون پر اپنے فرینڈ کو کہا: گاڑی لے آؤ۔ گاڑی ہمارے نزدیک آ کر
رکی۔ ماریہ دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گئی۔
ماریہ: آؤ، تم کو گھر چھوڑ دیتے ہیں۔
میں: نہیں، میں چلی جاؤں گی پیدل۔
ماریہ: اچھا، چلو جیسے تمہاری مرضی۔
ماریہ نے دروازہ بند کر دیا اور گاڑی چل پڑی۔ اور میں سوچوں
میں گم گھر کی طرف چل پڑی۔
گھر پہنچی تو پتا لگا کہ گاؤں سے میرا کزن ارشد آیا ہوا
تھا۔ ارشد میرے چچا کا لڑکا تھا۔ وہ فرسٹ ایئر میں پڑھتا تھا۔ اس کو دیکھ کر میں بہت
خوش ہوئی، کیونکہ میری اس کے ساتھ بہت جمتی تھی۔ میں نے اس کو سلام کیا۔
ارشد: لگتا ہے آج کل بہت زوروں سے پڑھائی جاری ہے۔
میں: جی، ارشد بھائی، پیپرز جو سر پر آ گئے ہیں۔
ارشد: اچھا جی، اس کا مطلب ہے لڈو اب ہم پیپرز کے بعد کھیل
سکیں گے۔
اصل میں ہم دونوں کی شرطیں لگا کرتی تھیں لڈو میں۔ کئی بار
ہم لڑ پڑتے تھے۔
میں: نہیں، ایسی بات نہیں ہے۔ ہم لڈو آج ہی کھیلیں گے۔
ارشد: اس کا مطلب ہے تم نے تیاری خوب کر لی ہے۔
ہم دونوں کی نوک جھونک دیکھ کر امی ہنس پڑی۔ امی نے کہا:
ارشد، بیٹے کو کھانا تو کھانے دو نہ، حال نہ حوال، بس آتے ہی لڈو کی پڑ گئی۔
ہم دونوں ہنس پڑے۔ میں نے کمرے میں آ کر یونیفارم تبدیل
کیا اور اپنا موبائل اٹھا لیا۔ ابھی موبائل میں میسجز پڑھ ہی رہی تھی کہ ماریہ کی امی
کی کال آ گئی۔ میں نے ان کو جھوٹ بول دیا کہ ماریہ میرے ساتھ ہے، ہم پیپرز کی تیاری
کر رہی ہیں۔ جیسے ہی ان کا فون بند ہوا، میں نے ماریہ کو میسج کر دیا کہ تم جتنا جلدی
ہو سکے گھر پہنچ جاؤ۔
مجھے پریشانی رہی کہ دوبارہ ماریہ کی امی کا فون نہ آ جائے،
پر ایسا کچھ نہ ہوا۔ صبح اٹھ کر تیار ہو کر اسکول کے لیے روانہ ہو گئی۔ اسکول پہنچ
کر میری نظریں ماریہ کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ کلاس میں جیسے داخل ہوئی، ماریہ کو سامنے دیکھ
کر سکون کا سانس لیا۔
آدھی چھٹی جیسے ہوئی، ہم دونوں اپنی پسندیدہ جگہ کی طرف
چل دیے۔ لان میں بیٹھ کر میرا پہلا سوال یہ تھا:
میں: تمہاری امی کو شک تو نہیں پڑا؟
ماریہ: نہیں، ان کو ذرا بھی شک نہیں پڑا۔ اس کو چھوڑو، تم
بتاؤ اپنی اسٹوری، کس نے تم کو کلی سے پھول بنا دیا؟
میں: چھوڑو، ایسی کوئی بات نہیں۔ دل میں خود کو کوسنے لگ
پڑی کہ کل خامخواہ منہ سے بات نکل گئی، اب ماریہ کی بچی پیچھا نہیں چھوڑے گی۔
ماریہ: اگر مجھ پر اعتبار نہیں ہے تو مت بتاؤ۔
اس نے زیادہ زور لگایا تو میں نے سب کچھ بتا دیا۔ ماریہ
مزے لے کر سب کچھ سن رہی تھی اور کرید کرید کر پوچھ رہی تھی۔ میں نے سب کچھ بتانے کے
بعد اس سے وعدہ لیا کہ کسی کو مت بتانا۔
ماریہ: پاگل ہوں کیا؟ اپنی سب سے پیاری سہیلی کا راز کسی
کو بتاؤں گی؟
اس کے بعد میں نے اس سے اس کے کل والے واقعے کے بارے میں
پوچھا۔ ماریہ نے اپنی سیکس کی اسٹوری مزے لے لے کر سنانا شروع کر دی تھی۔ اس آدھے گھنٹے
میں اس نے مجھے سیکس کی اتنی نالج دی۔ ٹپس دیں، نیٹ سے سیکسی تصاویر دکھائیں۔ نیٹ میرے
موبائل میں بھی تھا، میں نے آج تک ایسی کوئی تصاویر نہیں دیکھی تھیں۔ کچھ ایسی تصاویر
تھیں جن میں لڑکی نے مرد کا لنڈ منہ میں لیا ہوا تھا۔
میں: کتنی گندی لڑکی ہے، مرد کا لنڈ منہ میں لیا ہوا ہے۔
ماریہ: پاگل، اس کو اورل سیکس کہتے ہیں۔ یہ سیکس کی جان
ہے، اس کے بغیر سیکس ادھورا ہے۔ رکو، ایک اور تصویر دکھاتی ہوں۔
ماریہ نے موبائل میں کچھ اور ٹائپ کیا اور ایک تصویر دکھائی،
جس میں مرد عورت کی پھدی کو چاٹ رہا تھا۔ دوسری تصویر میں دو لڑکیاں ایک دوسرے کی پھدیاں
چاٹ رہی تھیں۔
میں: ایسا صرف انگریز کرتے ہوں گے۔
ماریہ: نہیں پاگل، سب کرتے ہیں۔ میں خود اپنے تمام بوائے
فرینڈز کے ساتھ ایسا ہی کرتی ہوں۔
میں: تم کرتی ہو تو اس کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ سب کرتے ہوں
گے؟
ماریہ: یار، سب کرتے ہیں۔ اس کے بغیر سیکس کا کوئی مزہ نہیں
ہے۔ میرے ابو امی بھی اورل سیکس کرتے ہیں۔
میرا منہ کھلا رہ گیا۔ میں: تم نے ان کو کہاں دیکھا؟
ماریہ: میں نے چوری چھپے ان کا سیکس کافی بار دیکھا ہے۔
میں حیران رہ گئی اس کی باتیں سن کر کہ کیسی اولاد ہے جو
اپنے ماں باپ کو سیکس کرتے چوری چھپے دیکھتی ہے۔ ماریہ کا باپ ایک مولوی تھا، اس کو
دیکھ کر نہیں لگتا تھا کہ وہ ایسا کرتا ہوگا۔
ماریہ: تم سوچ رہی ہو گی کہ میرا باپ مولوی ہے، وہ ایسا
کام کیسے کر سکتا ہے؟
میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
ماریہ: میرے باپ نے ہمارے گھر کام کرنے والی آتی ہے، اس
کو بھی نہیں چھوڑا ہے۔ میں نے ان دونوں کو کافی بار پکڑا ہے۔
میں: تو تم اپنی ماں کو کیوں نہیں بتاتی اس کے بارے میں؟
ماریہ: جان، یہ سیکس کی بھوک ہے جو ہر انسان میں ہوتی ہے۔
اس کو حق ہے کہ وہ اپنی بھوک مٹائے، جیسے انسان کو کھانے پینے کی ضرورت ہوتی ہے، ویسے
ہی سیکس کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہم کافی دیر تک باتیں کرتے رہے۔ اتنے میں بیل بج گئی۔ میں
نے ماریہ کو کہا: باتوں میں ہم نے کچھ کھایا بھی نہیں۔ ہم کلاس میں چلے گئے۔
چھٹی کے بعد میں گھر پہنچی تو امی کو پریشانی میں گھر سے
نکلتے دیکھا۔ مجھے دیکھ کر بولیں: شکر ہے تم آ گئیں۔ زبیدہ کے بیٹے کو چوٹ لگ گئی ہے،
میں اس کے ساتھ ہسپتال جا رہی ہوں۔ تم گھر کا خیال رکھنا۔ ارشد آئے تو اس کو کھانا
بنا کر دے دینا۔
زبیدہ ہمارے محلے میں رہتی تھی۔ اس کا ایک ہی بیٹا تھا،
جو بہت شرارتی تھا۔ ابھی اسکول جانا شروع کیا تھا، پانچ سال کا تھا، پر شرارتوں میں
پورے محلے میں مشہور تھا۔
امی کے جانے کے بعد میں نے یونیفارم بدلا اور لیٹ کر ماریہ
کی باتوں کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ اپنا موبائل اٹھا کر اس میں گندی تصاویر اور
ویڈیوز سرچ کرنا شروع کر دیں۔ ویڈیوز دیکھ کر میری چوت میں کچھ کچھ ہونے لگ پڑا۔ کچھ
دیر ویڈیوز دیکھنے کے بعد میں نے اپنی چوت پر ہاتھ لگایا تو کچھ گیلی پن محسوس کیا۔
ماریہ نے مجھے بتایا تھا کہ جب عورت کو مزہ آنے لگتا ہے تو چوت میں گیلی پن بڑھ جاتا
ہے۔
کچھ ویڈیوز میں لڑکی گھوڑے یا کتے کے ساتھ سیکس کر رہی تھی۔
ماریہ کی بات ذہن میں آ گئی کہ سیکس کی بھوک انسان یا جانور نہیں دیکھتی۔ ایک ویڈیو
میں لڑکی اپنی چوت کو مسل رہی تہی اور انگلی ڈال رہی تھی۔ میں نے بھی ایسا کرنا شروع
کر دیا۔ ایک عجیب سی لذت میرے پورے جسم میں دوڑنے لگ پڑی۔
میں نے موبائل سائیڈ پر رکھا اور ایک ہاتھ سے اپنے مموں
کو دبانے لگی، دوسرے ہاتھ سے اپنی چوت کو مسلنے لگ پڑی۔ ابھی ایک دو منٹ گزرے تھے کہ
دروازہ کھڑکھڑایا۔ میں گھبرا کر جلدی سے اٹھ پڑی۔ مجھے ایسا لگا جیسے میری چوری پکڑی
گئی ہو۔ میں نے اپنے کپڑے ٹھیک کیے اور دروازے کی طرف چل دی۔
دروازہ کھولا تو سامنے ارشد کھڑا تھا۔ میں سائیڈ پر ہو گئی۔
ارشد اندر آ گیا۔ ارشد اور میں بہت بار اکیلے گھر پر رہ چکے تھے، اس لیے میں نے اس
کو اندر آنے دیا۔ ارشد نے امی کا پوچھا۔ میں نے بتایا کہ امی ہسپتال گئی ہیں۔
ارشد نے کہا: یار، بہت بھوک لگی ہے۔ کیا پکایا ہے؟
میں نے کہا: پکایا تو کچھ نہیں ہے۔ چپس بنا لیتے ہیں، تم
آلو چھیل دو۔
ارشد: ٹھیک ہے، تم آلو مجھے کمرے میں لا دو۔
میں نے کچن سے آلو لیے اور دھونے کے بعد کمرے میں گئی تو
ارشد بیڈ پر لیٹا تھا۔ مجھے اچانک اپنے موبائل کا خیال آیا۔ اس میں گندی ویڈیوز والا
پیج کھلا ہوا تھا اور میرے موبائل کو پاس ورڈ بھی نہیں لگا ہوا تھا۔ میں نے آج تک اپنے
موبائل کو پاس ورڈ نہیں لگایا تھا۔ موبائل میں بیڈ پر رکھ کر گئی تھی، پر وہ ٹیبل پر
پڑا ہوا تھا۔
میں نے جلدی سے موبائل اٹھا لیا۔ شاید ارشد نے بیڈ سے موبائل
اٹھا کر ٹیبل پر رکھ دیا تھا تاکہ وہ بیڈ پر لیٹ سکے۔ میں نے آلو اس کو دیے۔ وہ آلو
کاٹنے لگ پڑا۔ میں ابھی موبائل کھول کر پیج کو بند ہی کیا تھا کہ ارشد اچانک تیز سسکاری
مار کر اٹھ کھڑا ہوا۔ آلو کاٹتے ہوئے چھری اس کی انگلی پر لگ گئی تھی۔
میں نے بے اختیار اس کی انگلی کو منہ میں ڈال کر چوسنا شروع
کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد میری نظر اس کے ٹراؤزر پر پڑی۔ وہاں ابھار محسوس ہوا۔ میں سمجھ
گئی کہ میرے انگلی چوسنے کی وجہ سے اس کا لنڈ کھڑا ہو گیا ہے۔ میں نے منہ سے انگلی
نکالی تو خون رک چکا تھا۔ میں نے بینڈیج لا کر اس کی انگلی پر لگا دی۔
میں نے کہا: پیچھے ہٹو، تم کیا آلو کاٹو گے؟ خود زخمی ہو
گئے ہو۔
میں جھک کر آلو اٹھانے لگی تو مجھے پیچھے سے ارشد نے پکڑ
لیا۔ میرے ہاتھ سے آلو والی ٹوکری گر گئی۔ میں نے کہا: ارشد بھائی، چھوڑو مجھے۔
ارشد نے مجھے چھوڑ دیا۔ میں جانے لگی تو اس نے میرا ہاتھ
پکڑ لیا اور کہا: موبائل میں تو بہت کچھ دیکھ رہی تھی، اب کیا ہو گیا؟
میں سمجھ گئی کہ اس نے میرا موبائل چیک کیا ہے۔ ابھی میں
کچھ بولنے ہی لگی تھی کہ اس نے مجھے اپنے گلے لگا لیا اور میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ
رکھ دیے اور میرے ہونٹ چوسنا شروع کر دیے۔ اس کے ہاتھ میرے سینے پر آزادانہ گھوم رہے
تھے۔ میں نے کوئی مزاحمت نہیں کی، شاید میں نے اپنے جسم کی بھوک مٹانے کا سوچ لیا تھا۔
میں نے بھی کسنگ میں اس کا ساتھ دینا شروع کر دیا۔ میں نے
اپنی زبان اس کے منہ میں ڈال دی، جس کو اس نے چوسنا شروع کر دیا۔ اب اس کا ہاتھ میری
قمیض کے اندر تھا، میری نپلز کو مسل رہا تھا۔ تین چار منٹ کسنگ کرنے کے بعد اس نے مجھے
بیڈ پر لٹا دیا اور میری قمیض اوپر کر کے میرے مموں کو باہر نکالا۔ میرے گلابی ممے
دیکھ کر ارشد پاگل سا ہو گیا۔ وہ بے تحاشا میرے ممے چوسنے لگا۔
چوسنے سے میں نشے میں مدہوش ہونے لگی تھی اور میری چوت پانی
سے گیلی ہو رہی تھی۔ اس نے ممے چوستے ہوئے میری شلوار میں ہاتھ ڈال دیا۔ اس کے ہاتھ
نے جیسے ہی میری چوت کو چھوا، مجھے کرنٹ سا لگا۔ اس نے میری چوت کے دانے کو مسلنا شروع
کر دیا اور اپنی انگلی اندر باہر کرنے لگ پڑا۔
تھوڑی دیر بعد اس نے مجھے ہاتھ سے پکڑ کر بٹھایا اور میرے
سامنے کھڑا ہو کر اپنا ٹراؤزر نیچے کیا اور اپنا چھ انچ لمبا لنڈ باہر نکال لیا۔ مجھے
کہا: اس کو چوسو۔
میں نے کہا: مجھے نہیں آتا۔
ارشد: جیسے تھوڑی دیر پہلے میری انگلی چوس رہی تھی۔
میں نے اس کے لنڈ کو اپنے ہاتھ سے پکڑا اور اپنی زبان نکال
کر اس کی ٹوپی پر رکھ دی۔ اس کی ٹوپی پر ایک لیس دار سا پانی لگا ہوا تھا، جس کو میں
نے زبان سے چکھا تو نمکین سا لگا۔ میں نے آہستہ آہستہ اس کی ٹوپی کو منہ میں ڈال لیا۔
اس کو قلفی کی طرح چوسنے لگ پڑی۔ میرے چوسنے سے اس کے منہ سے آہ آہ کی آوازیں آنا شروع
ہو گئیں۔ میں سمجھ گئی کہ اس کو مزہ آ رہا ہے۔ میں اس کے لنڈ کو اپنے منہ میں اندر
باہر کرنے لگی۔
کچھ دیر تک ایسے ہی کرتی رہی۔ ارشد نے میرے منہ سے لنڈ نکال
لیا اور مجھے دوبارہ لیٹنے کو کہا۔ میں لیٹ گئی تو اس نے میری شلوار اتار دی اور خود
میری ٹانگوں کے بیچ بیٹھ گیا اور میری ٹانگوں کو کھول کر اچانک اس نے اپنا منہ میری
چوت پر رکھ دیا۔ اس کے چوت چوسنے سے مزے کی لہر پورے جسم میں پھیل گئی۔ وہ بہت مزے
سے میری چوت کو چاٹ رہا تھا۔ اس کی زبان میری چوت کے اندر باہر ہو رہی تھی۔ میری چوت
سے جتنا رس نکل رہا تھا، اس کو وہ مزے سے پی رہا تھا۔
میں بہت گرم ہو چکی تھی، زور زور سے سسکاریاں لے رہی تھی۔
میرے منہ سے مستی بھری آہیں نکل رہی تھیں۔ ارشد کے بالوں پر ہاتھ پھیر رہی تھی، اس
کے سر کو اپنی چوت پر زور سے دبا رہی تھی اور مزے کی شدت کی وجہ سے اپنے سر کو بیڈ
پر بار بار پٹخ رہی تھی۔
اب وہ کھڑا ہو گیا اور اپنا ٹراؤزر اتار دیا اور میری ٹانگوں
کو تھوڑا سا اوپر کر کے اپنے لنڈ کی ٹوپی کو میری چوت پر سیٹ کیا۔ وہ لنڈ کو چوت کے
سوراخ پر رگڑ رہا تھا۔ تبھی اس نے ایک زور دار دھکے کے ساتھ نصف سے زیادہ لنڈ میری
چوت کی گہرائی میں اتار دیا۔ میری چیخ نکل گئی۔ وہ دو منٹ تک ویسے ہی پڑا رہا اور مجھے
چومتا رہا۔ پھر دھیرے دھیرے جھٹکے شروع کیے اور تیز ہوتے گئے۔
اب درد بھی کم ہو گیا تھا اور مزا بھی آنے لگا تھا۔ حیرت
انگیز طور پر جب پہلی بار سیکس کیا تھا تو کوئی مزہ نہیں آیا تھا۔ ارشد نے پوچھا: درد
ہو رہا ہے؟ تو لنڈ باہر نکالوں؟ لیکن میں نے کوئی جواب نہ دیا تو وہ پھر سے جھٹکے مارنا
شروع ہو گیا۔ تین چار منٹ کے بعد اس نے اپنا لنڈ میری چوت سے نکالا اور ایک زور دار
چنگھاڑ نکالی۔ اس کے لنڈ سے گرم گرم منی نکل کر میرے پیٹ پر گرنا شروع ہو گئی۔ اس کی
منی سے میرا سارا پیٹ اور ممے بھر گئے۔
فارغ ہوتے ساتھ ہی میرے ساتھ بیڈ پر گر گیا۔ اس نے مجھے
چومنا شروع کر دیا۔ ہم دونوں کو سانس چڑھا ہوا تھا۔ میں نے اٹھ کر اپنے دوپٹے سے اپنا
پیٹ صاف کیا اور کپڑے پہننے لگ پڑی۔ اس نے مجھے ہاتھ سے پکڑ کر دوبارہ گرا لیا اور
کہنے لگا: ابھی دل نہیں بھرا ہے، ایک بار اور کرتے ہیں۔
میں نے کہا: امی آتی ہوں گی، کپڑے پہن لو۔ مجھے پتا تھا
کہ امی اتنی جلدی نہیں آنے والی، پر میں خود اب تھوڑا آرام کرنا چاہتی تھی۔ پر اس کی
ضد کے آگے میں ہار گئی۔ اس کے ساتھ میں لیٹ گئی۔ وہ اٹھا اور کچن سے دو گلاس گرم دودھ
کے لے آیا۔ دودھ پی کر کچھ جسم میں جان آ گئی۔ کچھ دیر ہم ننگے لیٹے باتیں کرتے رہے۔
تھوڑی دیر بعد اس نے مجھے دوبارہ کسنگ کرنا شروع کر دی۔
اب کی بار میں کھل کر اس کا ساتھ دے رہی تھی۔ میں اس کے ہونٹ اور زبان چوس رہی تھی،
ساتھ ساتھ میرا ہاتھ اس کے بالوں کو سہلا رہا تھا۔ کسنگ کرتے کرتے میں اس کی گردن اور
چھاتی پر اپنے ہونٹ چلانے لگ پڑی۔ میری کسنگ کرنے سے اس کا لنڈ دوبارہ کھڑا ہو چکا
تھا۔
کسنگ کرتی ہوئی میں نے ایک ہاتھ سے اس کا لنڈ تھام لیا۔
اب اس کے لنڈ کو اپنے منہ میں لے کر چوسنا شروع کیا۔ اس کے لنڈ پر ابھی تک میری چوت
کا رس اور اس کی اپنی منی لگی ہوئی تھی، جس کا ذائقہ میں اپنے منہ میں محسوس کر رہی
تھی۔ ایک اچھا ذائقہ لگ رہا تھا منی کا۔ میں نے انگریز لڑکیوں کو مرد کی منی کو نگلتے
ہوئے دیکھا تھا ویڈیوز میں۔ اس وقت اس کے لنڈ سے ہلکا ہلکا پانی نکل رہا تھا، جسے میں
چاٹ اور چوس کر صاف کرتی جا رہی تھی۔
اس کے مزیدار نمکین پانی کے موٹے موٹے قطروں کو میں نے پینا
شروع کر دیا۔ میرے لنڈ چوسنے سے دوسری طرف ارشد سسکیاں بھرتا جا رہا تھا۔ اچانک باہر
کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں نے جلدی سے اٹھ کر اپنی قمیض ٹھیک کی اور جلدی سے شلوار پہن
کر اپنے بال وغیرہ سیٹ کیے اور جلدی سے کمرے سے نکل آئی۔
ارشد نے اٹھ کر اپنے کپڑے پہننا شروع کر دیے تھے۔ میں نے
دروازہ کھولا تو کوئی مانگنے والا تھا۔ میں نے دل میں اس کو کوسا کہ بابا، معاف کرو
اور دروازہ دوبارہ بند کر دیا۔
میں کمرے میں داخل ہوئی تو ارشد نے پوچھا: کون تھا؟
میں نے بتایا کہ کوئی فقیر تھا۔ اس نے کہا: آؤ بیڈ پر دوبارہ
کام شروع کرتے ہیں۔
میں: نہیں، امی آتی ہوں گی، کافی دیر ہو چکی ہے۔
ارشد: اس کا کیا کروں؟ اس نے اپنے کھڑے لنڈ کی طرف اشارہ
کیا۔
میں: مجھے کیا پتا؟
ارشد: اچھا، تم اس کا رس اپنے منہ سے ہی نکال دو، اس کو
آرام آ جائے گا۔
یہ کہہ کر اس نے اپنا ٹراؤزر تھوڑا نیچے کر کے اپنا لنڈ
باہر نکال دیا۔ میں نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس کے لنڈ کو منہ میں لے لیا اور چوسنے
لگ پڑی۔ اس کے لنڈ کو منہ میں آگے پیچھے کرنے لگ پڑی اور میرے لنڈ چوسنے سے ارشد مزے
کی وادیوں میں کھوتا جا رہا تھا۔
اب اس نے میرے بال پکڑ کر میرے منہ کو چودنا شروع کر دیا
تھا۔ آہستہ آہستہ اس کے جھٹکے بڑھنے جا رہے تھے۔ اس نے ایک زور دار جھٹکا کھایا اور
اپنی منی کو میرے منہ میں ہی نکال دیا۔ میں نے اس کے لنڈ کو منہ سے نکالنے کی کوشش
کی، پر اس نے میرے سر کو اپنے لنڈ پر دبائے رکھا، جس کی وجہ سے اس کی منی میرے حلق
کے اندر تک گئی۔ مجھے ابکائی آنے لگی تو اس نے میرا منہ چھوڑ دیا۔
ابھی میں اس کی منی منہ سے تھوکنے ہی لگی تھی کہ باہر دروازہ
زور زور سے کھٹکھٹایا۔ میں نے جلدی سے اس کی گرم گرم منی کو نگل لیا اور اس کو دروازہ
کھولنے کا اشارہ دیا۔ وہ دروازہ کھولنے چلا گیا۔ میں نے جلدی سے منہ صاف کیا دوپٹے
سے اور کمرے میں ایک جلدی سے نظر ماری کہ کوئی نشان رہ تو نہیں گیا ہے۔
جب سب کچھ ٹھیک ٹھاک ملا تو میں نے ایئر فریشنر نکال کر
کمرے میں چھڑک دیا تاکہ امی منی کی بدبو نہ سونگھ لیں۔ اور خود کمرے سے باہر نکل آئی۔
دروازے پر امی ہی تھیں۔ امی اندر آ کر چارپائی پر بیٹھ گئیں۔ میں نے ان سے آنٹی زبیدہ
کے بچے کا پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس کے سر پر تین ٹانکے لگے ہیں۔
پھر امی نے مجھ سے پوچھا: ارشد کو کچھ کھلایا ہے؟
ارشد نے شرارتی لہجے میں کہا: آنٹی، اس نے مجھے آم کھلا
دیے تھے۔
امی نے کہا: چلو، اچھا ہے۔
میں جا کر کمرے میں چلی گئی اور لیٹ گئی۔ صبح اٹھ کر اسکول
چلی گئی۔ اسکول میں جیسے آدھی چھٹی ہوئی، ماریہ مجھے لے کر لان میں جا کر بیٹھ گئی۔
ماریہ: آج بہت کھلی کھلی لگ رہی ہو، خیر ہے۔
میں نے مسکرا کر اس کو کل والی بات بتا دی۔ ماریہ نے خوشی
سے مجھے چوم لیا اور کہا: واہ، کیا بات ہے۔ پھر اس نے مزے لے لے کر مجھ سے سوالات پوچھنے
شروع کر دیے۔
میں نے کہا: یار، وہ میرے بھائیوں جیسا تھا۔
ماریہ: ارے، سیکس میں کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ میرا بس چلے
تو میں اپنے سگے باپ اور بھائی کو نہ چھوڑوں، تم کزن کی بات کرتی ہو۔
میں اس کی بات سن کر حیران ہو گئی۔ دل میں اس پر لعنت بھیجی
کہ کیسی بے شرم لڑکی ہے جو اپنے سگے باپ اور بھائی کے لیے ایسی سوچ رکھتی ہے۔ اس کے
بعد اس نے مجھے موبائل پر کلپ دکھانا شروع کر دیے۔
چھٹی کے بعد گھر پہنچی تو پتا لگا کہ ارشد واپس گھر چلا
گیا ہے۔ اس کی والدہ کی طبیعت خراب ہو گئی تھی۔ مجھے یہ جان کر تھوڑی مایوسی ہوئی۔
میرا دل ابھی اور کر رہا تھا سیکس کی بھوک مٹانے کا۔
میں نے کمرے میں جا کر موبائل اٹھا لیا۔ سب سے پہلا کام
یہ کیا کہ اس پر کوڈ لگایا، کیونکہ ماریہ نے کہا تھا کہ میں تم کو ڈیلی سیکسی ویڈیوز
بھیجا کروں گی۔ میرا موبائل گھر پر ہوتا تھا، اس لیے میں نے اس کو کوڈ لگا دیا تھا۔
ماریہ نے وعدے کے مطابق مجھ کو ویڈیوز بھیج دیں، جن کو دیکھ
کر چوت میں آگ سی بھڑک اٹھی۔ میں نے شلوار میں ہاتھ ڈال کر چوت کو مسلنا شروع کر دیا۔
انگلی اندر ڈال کر چوت میں گھمانے لگی۔ چوت کی آگ تھی کہ بجائے بجھنے کے بھڑکتی جا
رہی تھی۔ ہاتھ تھک گیا۔
میں نے ایک ویڈیو دیکھی تھی، جس میں لڑکی کھیرا کو چوت میں
ڈال کر اندر باہر کر رہی تھی۔ میں نے فریج میں جا کر دیکھا، کھیرا تو نہیں ملا، گاجر
پڑی تھی۔ میں نے اس کو ہی غنیمت جانا اور کمرے میں آ گئی۔ گاجر کو چوت میں ڈال کر اندر
باہر کرنے لگ پڑی۔
کافی دیر بعد اچانک ایسا محسوس ہوا کہ میرا سارے جسم کا
خون سمٹ کر میری چوت کی طرف منتقل ہو گیا ہو۔ خود بخود میرے ہاتھ کی حرکت میں تیزی
آ گئی۔ پورے جسم میں اکڑاہٹ شروع ہو گئی اور یک دم چوت سے پانی کا فوارہ نکلا، ساتھ
ہی پورے جسم میں مزے کی لہر سی دوڑ گئی۔ یہ ایک نیا تجربہ تھا میرے لیے۔
میں نے اپنے ہاتھ کی طرف دیکھا تو ہاتھ پورا میری چوت سے
نکلے ہوئے رس سے بھرا پڑا تھا۔ میں نے اپنا ہاتھ چاٹ لیا۔ اس کے بعد گاجر، جس پر میری
چوت کا رس لگا ہوا تھا، اس کو کھا لیا۔ گاجر بہت مزے کی تھی، نمکین رس اس پر لگا ہوا
تھا۔ اس کے بعد میں نے شلوار اوپر کی اور لیٹ گئی۔ پورے جسم میں سکون آ گیا تھا۔
یہ میرا معمول بن گیا تھا۔ اسکول میں ہم دونوں ایک دوسرے
سے سیکس کے ٹاپک پر بات چیت کرتے تھے۔ گھر آ کر میں اپنی چوت سے کھیلا کرتی تھی۔ کبھی
گاجر، کبھی مارکر میری آگ بجھایا کرتے تھے۔
میں اور ماریہ ایک دوسرے سے بہت حد تک فری ہو چکی تھیں۔
میں نے ماریہ کو ایک دن کہا: یار، کسی طرح کوئی لنڈ کا بندوبست کروا دو، اب گاجر وغیرہ
سے کام نہیں چلتا۔
ماریہ: یار، پیپرز ختم ہو جائیں، پھر کچھ کراتی ہوں تیرا۔
پیپرز شروع ہو چکے تھے۔ میرا پہلا پیپر انگلش کا تھا، جو
میں نے حسب معمول دو گھنٹوں میں کر لیا تھا۔ میری اس کی بہت اچھی تیاری تھی۔ ویسے میرا
معمول تھا کہ میں پیپر حل کرنے کے بعد بھی کلاس میں بیٹھی رہتی تھی۔ پر اگلے دن میرا
میتھ کا پیپر تھا، تو میں نے سوچا جا کر اس کی تیاری کر لیتی ہوں۔
میں نے مس کو پیپر دیا اور اسکول سے نکل آئی۔ ابھی دس کا
ٹائم ہوا تھا۔ میرا پیپر ویسے بارہ بجے ختم ہونا تھا۔ میں اپنے گھر کی طرف چل دی۔ جیسے
ہی گلی میں داخل ہوئی تو میں نے امی کو سر ریاض کے گھر میں داخل ہوتے دیکھا۔ میں سمجھ
گئی کہ آج سر ریاض کی شامت آئی ہے۔ اس نے اس دن جو کچھ میرے ساتھ کیا، امی آج اس کی
خوب بے عزتی کریں گی، کیونکہ اس دن امی نے کہا تھا کہ تم اپنے ابو کو مت بتانا، میں
خود اس ریاض کے بچے کو دیکھ لوں گی۔
میں خود اس کی بے عزتی اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتی تھی۔
میں سر ریاض کے گھر کے سامنے پہنچ کر دروازے کو دھکا دیا تو وہ اندر سے بند تھا۔ میں
اپنے گھر آ گئی۔ میں نے گیٹ پر لگے ہوئے تالے کو چابی سے کھولا اور سیڑھیوں سے چھت
پر چلی گئی۔ وہاں سے سر کے صحن میں جھانکا، پر وہاں بھی کوئی نہیں تھا۔
میں نے سوچا کہ امی نے اس کو کمرے میں لے جا کر بے عزت کرنے
کا سوچا ہوگا تاکہ شور سن کر محلے والے اکٹھے نہ ہو جائیں۔ ہماری اور سر ریاض کی چھت
ایک دوسرے سے ملی ہوئی تھیں۔ بیچ میں چار فٹ کی دیوار تھی، جس کو پھلانگنا میرے لیے
کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ میں دیوار پھلانگ کر سر کی چھت پر آ گئی۔
میرے دل میں سر کی بے عزتی دیکھنے کا شوق جاگ پڑا تھا۔ میں
سر کی سیڑھیوں سے ہوتی ہوئی سر کے صحن میں پہنچ گئی۔ وہاں دروازے کی کی ہول سے آنکھ
لگا کر دیکھا تو اندر کچھ نظر نہیں آیا۔ اب سر کا بیڈ روم رہتا تھا۔ میں سوچ میں پڑ
گئی کہ امی سر کے بیڈ روم میں کیوں گئی ہوں گی؟
میں سر کے بیڈ روم کی کھڑکی کی طرف آ گئی۔ میں نے کوشش کر
کے ایک سوراخ ڈھونڈ لیا۔ میں نے جیسے اندر کا منظر دیکھا، میرے چودہ طبق روشن ہو گئے۔
سر ریاض ننگے لیٹے ہوئے تھے اور میری امی ان کا لنڈ مزے سے چوس رہی تھیں۔ امی کی عمر
چالیس سال تھی، پر وہ لگتی تیس کی تھیں۔ جسم تھوڑا بھاری تھا۔
سر کا لنڈ میرے اندازے کے مطابق کم از کم نو انچ کا تھا،
کالا سیاہ ناگ کی مانند۔ میں نے جب سر کا لنڈ دیکھا تھا تو آدھا دھوتی میں تھا اور
بعقول سر کے انہوں نے آدھا ہی میرے اندر گھسایا تھا۔ اب سر کا پورا ننگا چمکتا ہوا
موٹا تازہ لنڈ دیکھا تو میری چوت میں خارش شروع ہو گئی تھی۔
سر نے امی کو کہا: اب اپنی چوت کا رس بھی پلا دو ہمیں۔
امی: جان، یہ سارا رس تمہارے لیے ہی ہے۔ میرا دل تو نہیں
کر رہا تھا تمہارے پاس آنے کو، تم نے جو میری بچی کے ساتھ کیا، پر اپنی چوت کی گرمی
سے تنگ آ کر آ گئی تمہارے پاس۔
ریاض: معاف کر دو، اس دن میں نشے میں تھا، میں ہوش کھو بیٹھا
تھا۔
امی: میں جو اتنے سالوں سے تمہارے لنڈ کی آگ کو بجھاتی آئی
ہوں، تو لازمی میری بیٹی پر ہاتھ ڈالنا تھا؟ شکر کرو فوزیہ کے ابو کو پتا نہیں چلا،
ورنہ بہت ہنگامہ ہونا تھا۔
ریاض: اچھا، اب آؤ بھی، ٹائم ضائع مت کرو۔
امی نے کپڑے اتار دیے۔ اب امی بھی پوری ننگی ہو چکی تھیں۔
مجھے شرمندگی ہو رہی تھی امی کو ننگا دیکھتے ہوئے، پر چوت کی خارش مجھے ان کا سیکس
دیکھنے پر مجبور کر رہی تھی۔ امی اس کے منہ پر بیٹھ گئی۔ دونوں 69 کی پوزیشن میں
تھے۔ امی سر کا لنڈ چوس رہی تھیں، جبکہ سر امی کی چوت کا رس چاٹ رہے تھے۔ کافی دیر
تک وہ ایک دوسرے کے اعضاء کو چاٹتے رہے۔ سر نے امی کو نیچے اتارا اور کہا، چلو، اب
گھوڑی بن جاؤ۔ امی جلدی سے بیڈ پر گھوڑی کی پوزیشن میں آ گئیں۔ سر نے اپنے لنڈ کو
امی کی چوت پر سیٹ کیا اور ایک جھٹکے سے پورا لنڈ امی کی چوت میں گھسا دیا۔ امی کے
جسم کو جھٹکا لگا۔ امی نے کہا، بہنچود، آہستہ چود، میں کہیں بھاگ رہی ہوں؟ تیرا
لنڈ گھوڑے جیسا ہے۔ ریاض ہنستے ہوئے بولے، یار، تم کون سی پہلی بار چد رہی ہو؟ امی
نے کہا، تم نے میری بیٹی کا کیا حال کیا ہوگا؟ وہ ابھی بچی تھی۔ ریاض نے جواب دیا،
اس میں بھی صرف آدھا ہی ڈال سکا تھا۔
سر نے اب امی کی چوت کی ٹھکائی شروع کر دی تھی، اور اس
کے ساتھ ہی کمرہ چدائی کی مخصوص آوازوں سے گونجنے لگا، جن میں امی کی لذت آمیز
سسکیوں کے ساتھ ساتھ سر کے زور دار دھکوں کی آوازیں بھی شامل تھیں۔ کچھ دیر بعد سر
نے اپنا لنڈ باہر نکال لیا اور امی سے کہا، جان، اب یہ تیری گانڈ میں جانے کے لیے
بے تاب ہے۔ یہ سن کر مجھے وہ منظر یاد آ گیا جب سر کا لنڈ غلطی سے میری گانڈ میں
چلا گیا تھا۔ اس وقت درد سے میں مرنے والی ہو گئی تھی۔ امی نے اپنے دونوں ہاتھ
پیچھے کیے اور اپنی انگلیوں کی مدد سے اپنی گانڈ کی دونوں پہاڑیوں کو الگ کیا۔ سر
نے اپنے لنڈ پر کافی سارا تھوک لگایا اور پھر اسے امی کی گانڈ پر رکھ کر دھکا لگا
دیا۔ اس کے ساتھ ہی سر کا لنڈ پھسلتا ہوا جڑ تک امی کی گانڈ میں چلا گیا۔ امی نے
مستی کے عالم میں اپنی گانڈ کو خود بخود آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا۔
یہ سب دیکھ کر میری چوت میں مرچیں سی لگنے لگیں۔ میں نے
ایک ہاتھ اپنی شلوار میں ڈال دیا اور اپنی چوت کو مسلنے لگ پڑی۔ کمرہ دھپ دھپ کی
آوازوں سے گونجنے لگا۔ امی کی چدائی سر نے جم کر کی۔ امی تھک چکی تھیں، لیکن سر
اپنے پورے زور سے امی کی چدائی کر رہے تھے۔ امی نے کہا، مادرچود، فارغ بھی ہو جا،
میرا برا حال ہو گیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد سر کے دھکوں میں تیزی آ گئی۔ میں سمجھ گئی
کہ سر فارغ ہونے والے ہیں۔ سر نے سپیڈ سے گھسے مارنے شروع کر دیے۔ امی ان دھکوں کی
تاب نہ لاتے ہوئے چلانے لگیں۔ اس کے ساتھ ہی سر امی کے اوپر ڈھے گئے۔ اس وقت ان کا
لنڈ امی کی گانڈ میں پچکاری مار رہا تھا۔ سر کی ٹائمنگ کم از کم تیس منٹ تھی۔ ارشد
تو بے چارہ چار منٹ میں ہی فارغ ہو گیا تھا۔ اس دن جب سر نے مجھے چودا تھا، شاید
میری چوت کی تنگی کی وجہ سے وہ پندرہ منٹ میں فارغ ہو گئے تھے، لیکن ان پندرہ
منٹوں نے ہی مجھے بے حال کر دیا تھا۔
ان کی چدائی ختم ہوتے دیکھ کر میں بڑی آہستگی سے واپس
مڑی اور دبے پاؤں چلتی ہوئی اسی سمت واپس چلی گئی جہاں سے آئی تھی۔ چھت سے ہوتی
ہوئی میں اپنے گھر میں داخل ہو گئی اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد
دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں نے دروازہ کھولا تو امی اندر داخل ہو گئیں۔ امی نے پوچھا، پیپر
ہو گیا؟ آج جلدی کیسے آ گئی؟ میں نے دل میں سوچا کہ اگر جلدی نہ آتی تو آپ کی چوری
کیسے پکڑتی؟ لیکن میں نے کہا، اگلے پیپر کی تیاری کرنی ہے اس لیے۔ اب مجھے سمجھ آ
گیا تھا کہ امی روز سبزی لینے کے بہانے گھر سے نکلتی تھیں اور ریاض صاحب کے گھر جا
کر چدواتی تھیں۔ یہ سلسلہ پتا نہیں کتنے عرصے سے چل رہا تھا۔
میں کمرے میں داخل ہو کر کنڈی لگائی اور بیڈ پر لیٹ کر
بستے سے مارکر نکالا۔ میری چوت میں آگ لگی ہوئی تھی، اسے لنڈ چاہیے تھا۔ سر کا
موٹا تازہ لنڈ میری آنکھوں کے سامنے آ رہا تھا۔ میں نے جم کر چوت میں مارکر سے
اندر باہر کیا، لیکن چوت کی آگ ٹھنڈی نہیں ہو رہی تھی۔ تھک ہار کر میں نے مارکر
رکھ دیا اور نہانے کے لیے چل پڑی۔ نہا کر کچھ سکون ملا۔
شام کو ابو جلدی گھر آ گئے اور امی کو بتایا کہ ارشد کی
امی کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے، انہیں ہسپتال لے کر گئے ہیں، ہمیں جانا پڑے گا۔ ارشد
والے ٹوبہ ٹیک سنگھ میں رہتے تھے۔ امی نے کہا، ہم کیسے جا سکتے ہیں؟ صبح فوزیہ کا
پیپر ہے، اور اسے گھر میں اکیلے بھی نہیں چھوڑ سکتے۔ میں نے کہا، امی، آپ میری فکر
نہ کریں، میں ماریہ کو بلا لوں گی، ہم دونوں مل کر پیپرز کی تیاری بھی کر لیں گی۔
امی نے کہا، میرا دل تو نہیں مان رہا، لیکن جانا بھی ضروری ہے، ورنہ خاندان والے
باتیں بنائیں گے۔ میں نے کہا، امی، آپ میری فکر نہ کریں، آپ آرام سے جائیں۔ میں
ابھی ماریہ کو فون کر دیتی ہوں۔
میں کمرے میں چلی آئی۔ میرا ارادہ ماریہ کو بلانے کا
نہیں تھا، میرے دماغ میں کچھ اور ہی چل رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد میں کمرے سے باہر
نکلی۔ امی نے پوچھا، کیا کہا ماریہ نے؟ میں نے کہا، ماریہ کا بھائی آ جائے گا، وہ
اسے چھوڑ جائے گا، آپ پریشان نہ ہوں۔ امی کا دل تو نہیں مان رہا تھا، لیکن انہوں
نے بہرحال تیاری کر لی اور ساتھ ساتھ مجھے نصیحتیں اور تاکیدیں کرتی جا رہی تھیں،
جنہیں میں ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکالتی جا رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد ابو
اور امی گھر سے بس اسٹینڈ کی طرف چل دیے۔
میں تیار ہونے لگ پڑی۔ میرا ارادہ آج سر ریاض کے لنڈ کا
مزہ چکھنے کا تھا۔ میں خوب تیار ہو کر شام سات بجے کا انتظار کرنے لگ پڑی۔ ایک تو
مجھے یہ کنفرم کرنا تھا کہ امی والے کوچ پر بیٹھ گئے ہیں۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ سر
چھ بجے تک ٹیوشن پڑھاتے تھے۔ تھوڑی دیر بعد امی کا فون آ گیا۔ امی کا پہلا سوال
ماریہ کے بارے میں تھا۔ میں نے جھوٹ بول دیا کہ ماریہ آ گئی ہے، آپ پریشان نہ ہوں۔
پھر امی نے بتایا کہ وہ کوچ میں بیٹھ گئے ہیں۔ امی کے فون بند ہونے کے بعد میں شدت
سے سات بجنے کا انتظار کرنے لگ پڑی۔
جیسے ہی سات بجے، میں نے تھوڑا انتظار کیا کہ باہر
تھوڑا اندھیرا ہو جائے۔ جیسے رات کی تاریکی بڑھنا شروع ہوئی، میں چھت پر آ گئی اور
اسی طرح چھت پھلانگ کر سر کے گھر میں داخل ہو گئی۔ سر کے گھر میں چوری چھپے داخل
ہو کر میں سر کی بیٹھک میں آ گئی۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ میں نے سمجھ لیا کہ سر بیڈ
روم میں ہوں گے۔ میں نے بیڈ روم کے دروازے کو ہلکا سا دھکا دیا تو وہ کھل گیا۔ میں
آہستہ سے بیڈ روم میں داخل ہو گئی۔ سر بیڈ روم میں نہیں تھے، شاید واش روم میں تھے
کیونکہ واش روم سے پانی چلنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ میں چپ چاپ جا کر بیڈ پر لیٹ
گئی۔
تھوڑی دیر بعد سر واش روم سے نکلے۔ مجھے بیڈ پر لیٹا
دیکھ کر بری طرح چونک گئے۔ سر نے کہا، تم میرے بیڈ روم میں کیسے داخل ہوئی؟ باہر
کا گیٹ تو لاک ہے۔ میں نے کہا، جس طرح میں اس دن داخل ہوئی تھی جب آپ اور میری ماں
مزے لے رہے تھے۔ سر نے کہا، اچھا، تو تم نے سب کچھ دیکھ لیا تھا؟ میں نے کہا، ہاں،
میں سب کچھ جان چکی ہوں۔ سر نے پوچھا، اب تم کیا چاہتی ہو؟ میں نے کہا، کچھ نہیں،
بس اپنی جسم کی آگ کو بجھانا چاہتی ہوں، جسے تم نے بھڑکایا ہے۔ یہ کہہ کر میں نے
اپنی ٹانگیں تھوڑا کھول دیں۔ میرا یہ سیکسی انداز دیکھ کر سر جیسے پاگل سے ہو گئے۔
سر نے ایک جھرجھری لی اور میرے پر ٹوٹ پڑے۔
سر نے میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھے اور مجھے کس کرنا
شروع کر دیا۔ میں نے بھی سر کا بھرپور ساتھ دینا شروع کر دیا۔ کبھی سر کی زبان
میرے منہ میں ہوتی تو کبھی میری زبان سر کے منہ میں۔ ہم نے کافی دیر تک ایک دوسرے
کو کس کیا۔ سر کا ہاتھ میرے مموں سے کھیل رہا تھا۔ میں نے اپنی قمیض خود ہی اتار
لی۔ سر میرے مموں کو دیکھ کر پاگلوں کی طرح ٹوٹ پڑے اور نپلز پر کاٹنے لگ پڑے۔ سر
کا انداز وحشیانہ تھا۔ اس کے بعد سر میرے پیٹ پر کسنگ کرنے لگ پڑے، پھر انہوں نے
میری شلوار اتار دی۔ پیٹ سے ہوتے ہوئے وہ میری چوت پر آئے اور میری چوت کو چاٹنے
لگے۔ چوت کے لب کھول کر انہوں نے اپنی زبان اندر ڈال دی۔ میں مزے کی دنیا میں جیسے
کھو سی گئی تھی۔
واقعی ماریہ نے سہی کہا تھا کہ جسم کی بھوک بہت ظالم
ہوتی ہے۔ یہی وہ شخص تھا جس نے میری عزت کو تار تار کیا تھا، لیکن میں اپنی جسم کی
بھوک سے مجبور ہو کر اس کے سامنے لیٹی ہوئی تھی۔ سر میری چوت کو چاٹتے جا رہے تھے،
ساتھ ساتھ میری چوت کے اوپر جو دانہ سا بنا تھا اسے مسلتے جا رہے تھے۔ پھر انہوں
نے اپنا منہ میری چوت کے اوپر لگے دانے پر رکھ دیا اور اسے چوسنے لگے۔ اس سے مجھے
اتنا مزہ آیا کہ میں بیڈ پر بری طرح تڑپنے لگی۔ سر کو کبھی دائیں کبھی بائیں مارنے
لگی۔ سر دوبارہ چوت کے اندر اپنی زبان ڈال کر مجھے زبان سے چودنے لگ پڑے۔ سر کی
زبان کے اندر باہر ہونے سے مجھے مزہ آ رہا تھا۔ کمرہ میری سسکیوں اور آہوں سے گونج
رہا تھا۔
تھوڑی دیر بعد میرے جسم نے آکڑنا شروع کر دیا اور سانسں
تیز ہو گئیں۔ میں سمجھ گئی کہ میری چوت پانی چھوڑنے والی ہے۔ میں نے ریاض کو پیچھے
ہٹانا چاہا، لیکن وہ نہیں ہٹے۔ میری چوت نے اچانک پانی چھوڑ دیا، جسے ریاض صاحب نے
کچھ پی لیا اور کچھ منہ میں رکھ کر میرے منہ میں انڈیل دیا، جسے میں نے پی لیا۔
پھر میں نے زبان سے ریاض صاحب کے منہ پر لگے ہوئے اپنی چوت کے رس کو صاف کیا۔
سر میرے ساتھ ہی لیٹ گئے تھے۔ میں نے سر کے ہونٹوں پر
کسنگ شروع کر دی اور سر کی گردن سے ہوتی ہوئی سر کے پیٹ پر آئی۔ سر نے حسبِ معمول
دھوتی پہنی ہوئی تھی، جس میں سے سر کا لنڈ باہر آنے کے لیے مچل رہا تھا۔ میں نے سر
کی دھوتی اتاری تو اندر سے کالا شیش نما لنڈ باہر آ گیا۔ سر کا لنڈ میں نے اب قریب
سے دیکھا تھا۔ سر کا لنڈ تقریباً نو انچ کے لگ بھگ تھا اور اچھا خاصا موٹا تھا،
میری بازو کے جتنی موٹائی تھی۔ میں نے سر ریاض کی لنڈ کی ٹوپی پر اپنی زبان گھمائی
اور مزے سے اسے چاٹنے لگ پڑی۔ سر کے لنڈ کی ٹوپی اور ایک یا دو انچ میرے منہ میں
جا سکا۔ جیسے تیسے کر کے میں نے سر کے لنڈ پر اپنے منہ کو چلانا شروع کر دیا۔ کبھی
سر کے لنڈ کی ٹوپی پر اپنے دانت گاڑ دیتی تو سر مزے اور تکلیف سے تھوڑا کراہ
اٹھتے۔ سر کے لنڈ سے نکلنے والے لیس دار پانی کو میں پیتی جا رہی تھی۔
سر کے لنڈ کو اچھی طرح اپنی زبان اور تھوک سے گیلی کیا
اور سر کو لیٹنے کو کہا۔ سر سیدھے لیٹ گئے۔ سر کا لنڈ کسی بانس کی طرح سیدھا کھڑا
تھا۔ میں نے اوپر آ کر اپنی چوت کو سر کے لنڈ کے اوپر سیٹ کیا اور آہستہ آہستہ
اندر لینا شروع کیا۔ تھوڑا سا اندر جانے کے بعد میں نے خود کو روک لیا۔ اب آہستہ
آہستہ درد ہونا شروع ہو گیا تھا۔ میں نے دوبارہ باہر نکالا اور پھر اندر ڈالا۔ میں
نے نیچے نظر ماری تو دیکھا کہ ابھی تک آدھا ہی اندر گیا تھا۔ میں نے سر کے لنڈ پر
اوپر نیچے ہونا شروع کیا۔ میں مزے کی انتہا پر پہنچ چکی تھی۔ میں نے بے اختیار سر
سے کہا، مجھے گالیاں نکالو۔
سر نے کہا، بہنچود، مجھے بھی ریاض کہہ کر پکارو۔ میں نے
مزے سے سیکسی آواز میں جواب دیا، مادرچود، آج پھاڑ دے، میں سر سے پاؤں تک تیری
ہوں۔ ریاض نے کہا، گشتی، تیرے اندر بہت آگ ہے۔ میں نے اس دن ہی سمجھ لیا تھا کہ تو
اپنی ماں پر گئی ہے۔ ماں کا نام سن کر غصے میں آئی اور میں نے سر کے ہونٹوں پر کاٹ
لیا۔ بدلے میں سر نے نیچے سے زور دار جھٹکا مارا، جس سے ان کا لنڈ میری چوت کی
دیواروں کو چیرتا ہوا اندر گھس گیا۔ میرے منہ سے زور دار چیخ نکلی اور میں نے سر
کا ہونٹ چھوڑ دیا۔ نیچے دیکھا تو سر کا لنڈ ابھی بھی دو انچ باہر تھا۔ میں نے دل
میں سوچا کہ سر کا لنڈ واقعی گھوڑے جیسا ہے، اور میری ہمت مزید اندر لینے کی نہیں
تھی۔
میری ٹانگیں جواب دے رہی تھیں۔ سر نے مجھے پکڑ کر نیچے
لٹایا اور میرے اوپر آ گئے۔ اب وہ جم کر میری چدائی کر رہے تھے۔ ان کے زور دار
جھٹکوں سے میری چوت کا برا حال ہو رہا تھا۔ ایک زور دار جھٹکے کے ساتھ ان کا لنڈ
جڑ تک میری چوت میں فٹ ہو گیا۔ درد سے میری چیخ نکل گئی، اور میں نے اپنے ناخن
ریاض کی پیٹھ پر گاڑ دیے۔ ریاض نہیں رکے۔ میرے منہ سے گالیاں نکل رہی تھیں، ہر
جھٹکے پر میں تڑپ جاتی۔ ان کا لنڈ میری بچہ دانی سے ٹکراتا تھا۔ پتہ نہیں کتنی دیر
تک وہ میری چدائی کرتے رہے، شاید بیس منٹ گزر چکے تھے۔ ہم دونوں پسینے سے شرابور
تھے، حالانکہ ایئر کنڈیشنر چل رہا تھا۔ میری چوت نے دوبارہ پانی چھوڑ دیا، لیکن سر
رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ میں نے ہاتھ جوڑ کر منتیں شروع کیں۔ آخر کار سر
نے رحم کھا کر اپنا لنڈ باہر نکال دیا۔ میری جان میں جان آئی۔
سر نے کہا، اب اسے منہ میں لو اور مجھے فارغ کرو۔ میں
نے ان کے لنڈ کو منہ میں لیا اور چوسنے لگی۔ کافی دیر چوسنے کے باوجود سر فارغ
نہیں ہو رہے تھے۔ میرا منہ تھک گیا تھا۔ سر نے اپنا لنڈ باہر نکالا اور مٹھ مارنے
لگے۔ میں منہ کھول کر بیٹھی رہی۔ تھوڑی دیر بعد سر کے جسم کو جھٹکے لگنے لگے۔ میں
سمجھ گئی کہ وہ فارغ ہونے والے ہیں۔ میں نے جلدی سے ان کا لنڈ منہ میں لے لیا۔ سر
نے زور دار چنگھاڑ نکالی، اور اچانک میرے منہ میں منی کا سیلاب آ گیا۔ میں نے جلدی
سے اسے نگلنا شروع کیا۔ سر کی منی گاڑھی تھی اور رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
واقعی وہ گھوڑے جیسے تھے، چدائی میں بھی اور منی بھی گھوڑے کی طرح نکل رہی تھی۔
کافی ساری منی میری گردن اور سینے پر بھی گر گئی۔ میں نے چوس کر سر کے لنڈ سے ایک
ایک قطرہ نکال دیا۔
سر بیڈ پر گر پڑے، اور میں بھی بے حال ہو کر لیٹ گئی۔
میں نے دوپٹے سے اپنا منہ اور سینہ صاف کیا اور سر کے بازوؤں میں لیٹ گئی۔ ریاض نے
پوچھا، تمہیں جانا نہیں ہے؟ میں نے بتایا کہ آج گھر میں اکیلی ہوں اور رات ان کے
پاس گزاروں گی۔ سر خوش ہو کر مجھے چومنے لگے اور کہا، جان، آج کی رات کو ہم یادگار
بنائیں گے۔ میں کچھ کھانا لاتا ہوں۔ سر نے کپڑے پہنے، مجھے بھی کپڑے پہنائے، اور
کھانا لینے باہر چلے گئے۔
میں نے امی کو فون کیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ابھی
راستے میں ہیں۔ انہوں نے ماریہ کے بارے میں پوچھا تو میں نے کہا کہ وہ کھانا بنا
رہی ہے، اور ہم کھانا کھا کر سو جائیں گے۔ میں نے جان بوجھ کر سونے کی بات کی تاکہ
امی بار بار فون نہ کریں۔ تھوڑی دیر بعد سر کھانا لے کر آ گئے۔ میں نے کہا کہ
کھانا لگاتی ہوں، لیکن سر نے کہا کہ کھانا بعد میں کھائیں گے۔ انہوں نے جیب سے
شراب کی بوتل نکالی۔ میں نے کہا، آپ یہ کیوں پی رہے ہیں؟ کیا میرا نشہ کافی نہیں؟
سر نے کہا، پاگل، اس سے تیری جوانی کا نشہ دوگنا ہو جائے گا۔ انہوں نے دو گلاس
نکالے اور پیگ بنانے لگے۔ میں نے کہا کہ میں نہیں پیوں گی۔ سر کے اصرار پر میں نے
ایک پیگ پینے کی حامی بھر لی۔ سر نے اپنے گلاس میں پانی ڈالا اور میرے گلاس میں
کولڈ ڈرنک۔ انہوں نے کہا، جان، کولڈ ڈرنک سے یہ اتنی کڑوی نہیں لگے گی۔ میں نے ایک
گھونٹ لیا، جو کچھ کڑوا لگا، لیکن میں نے پی لیا۔ سر نے ایک ہی سانس میں اپنا گلاس
ختم کر دیا۔ انہوں نے دو پیگ پئے، جبکہ میں نے بڑی مشکل سے ایک ختم کیا۔
کھانا کھانے کے بعد میرا سر گھوم رہا تھا، جسم ہلکا لگ
رہا تھا۔ میں نے سر کی طرف نشیلی نگاہوں سے دیکھا۔ سر میرے قریب آئے اور ریموٹ سے
ٹی وی آن کیا۔ انہوں نے ایک سی ڈی لگائی، اور تھوڑی دیر بعد ٹی وی پر سیکسی فلم
شروع ہو گئی۔ اسے دیکھ کر میری چوت میں دوبارہ خارش ہونے لگی۔ سر نے مجھے چومنا
شروع کیا اور میرے کپڑے اتارنے لگے۔ پھر انہوں نے مجھے گھوڑی بننے کو کہا۔ میں
گھوڑی کی پوزیشن میں آ گئی۔ سر نے کہا، فوزیہ، تیری گانڈ بہت اچھی ہے۔ اب میں اپنا
لنڈ تیری گانڈ میں ڈالوں گا۔ میں گھبرا گئی، کیونکہ مجھے گانڈ میں درد کا تجربہ
یاد تھا۔ میں نے کہا، نہیں، گانڈ میں بہت درد ہوتا ہے۔ سر نے کہا، مجھ پر بھروسہ
رکھ، میں اتنا ہی اندر ڈالوں گا جتنا تو برداشت کر سکے گی۔ ان کے اصرار پر میں مان
گئی۔
سر نے واش روم سے تیل لایا اور اپنے لنڈ پر اچھی طرح
تیل لگایا۔ تیل سے ان کا لنڈ اور بھی خوفناک لگنے لگا۔ انہوں نے میری گانڈ پر بھی
تیل لگایا اور اپنی انگلی سے اندر تیل ڈالا۔ پھر انہوں نے اپنے لنڈ کی ٹوپی میری
گانڈ پر سیٹ کی۔ میں نے کہا، بہنچود، اگر جھٹکا مارا تو کبھی تیرے پاس نہیں آؤں
گی۔ سر نے کہا، مجھ پر بھروسہ رکھ، میں ایسی حرکت نہیں کروں گا جس سے تجھے تکلیف
ہو۔ انہوں نے میری گانڈ کھولنے کو کہا۔ میں نے ہاتھ سے اپنی گانڈ کا سوراخ کھولا۔
سر نے اپنا لنڈ میری گانڈ پر رکھا اور زور سے ٹوپی اندر ڈال دی۔ گھپ کی آواز کے
ساتھ مجھے درد شروع ہو گیا۔ میں کراہنے لگی۔ سر نے آہستہ آہستہ لنڈ اندر گھسانا
شروع کیا۔ دو یا تین انچ اندر جانے کے بعد میری ہمت جواب دے گئی۔ میں نے کہا، بس،
اتنا کافی ہے۔ سر نے کہا، مادرچود، آدھا تو اندر لے۔ میں نے کہا، گشتی کے بچے،
اپنی ماں سے کہہ کہ وہ لے، تیرا لنڈ گھوڑے جیسا ہے۔
سر نے لنڈ اندر باہر کرنا شروع کیا۔ درد کی شدت سے میری
آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے۔ میں نے تکیہ کاٹنا شروع کر دیا اور سوچنے لگی کہ سر
کے گھر آ کر شاید غلطی کر دی۔ سر نے کہا، تیری گانڈ بہت ٹائٹ ہے، لگتا ہے میرے لنڈ
کی کھال اتر رہی ہے۔ میں نے کہا، بہنچود، جلدی فارغ ہو، مجھے گانڈ میں تکلیف ہو
رہی ہے۔ دس منٹ بعد سر نے میری گانڈ میں ہی اپنی منی نکال دی۔ میں نے سکون کا سانس
لیا۔ سر لیٹ گئے۔ میری گانڈ میں درد ہو رہا تھا۔ اس رات ہم نے چار بار سیکس کیا۔
تھک ہار کر ہم لیٹ گئے۔ صبح چار بجے ہم سوئے۔
صبح سات بجے الارم سے میری آنکھ کھلی۔ میں نے جلدی سے
کپڑے پہنے اور چھت سے ہوتی ہوئی اپنے گھر آ گئی۔ یونیفارم پہنا، چائے پی اور گھر
سے نکل پڑی۔ رات کی نیند پوری نہیں ہوئی تھی، اور شاید شراب کے نشے کی وجہ سے سر
پھٹ رہا تھا۔ کسی طرح امتحان دیا۔ چھٹی کے وقت ماریہ کو ساتھ لیا اور ہم لان میں
بیٹھ گئے۔ ماریہ نے میری لال آنکھیں دیکھ کر پوچھا، خیر ہے؟ ساری رات پڑھتی رہی؟
میں نے کہا، اسے چھوڑ، تم سے ایک کام ہے۔ ماریہ نے کہا، حکم کرو، جان حاضر ہے۔ میں
نے کہا، جان نہیں چاہیے۔ بس اگر امی پوچھیں تو بتا دینا کہ کل رات تم ہمارے گھر
تھیں۔ ماریہ نے کہا، تو یہ آنکھوں کی خماری پڑھائی سے نہیں، رات بھر جاگنے سے
ہوئی؟ کون تھا وہ خوش نصیب؟ میں نے اسے سب بتا دیا۔ ماریہ نے کہا، واہ، تم نے مجھ
سے لنڈ کا بندوبست مانگا اور خود کر لیا؟ میں نے کہا، یار، اس کا لنڈ دیکھ کر
کنٹرول نہیں ہوا۔ ماریہ نے سر کے لنڈ کے سائز کے بارے میں پوچھنا شروع کیا۔ میں نے
کہا، سمجھو گھوڑے جتنا ہے۔ ماریہ نے موبائل سے کچھ تصاویر دکھائیں اور پوچھا کہ کس
سے ملتا ہے۔ میں نے ایک تصویر پر ہاتھ رکھ کر کہا، تقریباً اس کے سائز کا ہوگا۔
ماریہ نے کہا، یار، تو خوش نصیب ہے۔ مجھے تو اب تک چھ انچ تک کے لنڈ ہی ملے۔ ہم
دونوں گھر چلے گئے۔
شام کو امی کا فون آیا۔ انہوں نے بتایا کہ ارشد کی امی
کو فالج ہو گیا ہے اور ان کی حالت خراب ہے۔ انہوں نے ماریہ کی امی کا نمبر مانگا
تاکہ ایک اور دن ماریہ ہمارے گھر رہ سکے۔ میں نے کہا کہ انہیں کوئی اعتراض نہیں۔
ماریہ کو فون کیا اور کہا کہ آج رات میرے گھر آ جاؤ۔ ماریہ کی امی سے اجازت لے لی،
اور اس کا بھائی اسے ہمارے گھر چھوڑ گیا۔ ماریہ بریانی لائی تھی۔ ہم نے مل کر
کھانا کھایا۔ شام کو ہم دونوں چھت سے ہوتی ہوئی سر کے گھر پہنچ گئیں۔ میں نے ماریہ
سے کہا کہ وہ انتظار کرے، میں سر سے بات کر کے آتی ہوں۔
سر ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر چونک گئے اور کہا،
تم ہمیشہ سرپرائز دیتی ہو۔ میں نے کہا، ابھی اور سرپرائز باقی ہیں۔ سر نے پوچھا، تمہارے
گھر والے نہیں آئے؟ میں نے کہا، نہیں۔ پھر میں نے سر کے کپڑے اتارے اور انہیں
لیٹنے کو کہا۔ میں باہر آئی اور ماریہ کو اندر لے گئی۔ سر نے ماریہ کو دیکھ کر
حیرانی سے پوچھا، یہ کون ہے؟ میں نے کہا، یہ میری دوست ماریہ ہے، جو اسکول میں
میرے ساتھ پڑھتی ہے۔ اس کے جسم میں بھی آگ لگی ہے، اسے بجھانے کے لیے آپ کی ضرورت
ہے۔ ماریہ سر کے لنڈ کو بھوکی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔ میں نے ماریہ کو سر کے پاس
بٹھایا اور کہا کہ میں دوسرے کمرے میں انتظار کرتی ہوں۔ سر نے کہا، ایک شرط ہے۔ تم
دونوں پہلے میرے سامنے ایک دوسرے کے ساتھ سیکس کرو، میں دیکھتا ہوں۔ میں نے کہا، نہیں،
مجھے شرم آئے گی۔ سر نے کہا، بہنچود، مجھ سے سیکس کرتے وقت شرم نہیں آتی؟ انہوں نے
ایک گولی کھائی اور کہا کہ اس سے وہ ہم دونوں کی چدائی جم کر کریں گے۔
ماریہ نے میرے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیے۔ میں حیران رہ
گئی۔ شاید اسے سر کا لنڈ دیکھ کر صبر نہیں ہو رہا تھا۔ ہم نے ایک دوسرے کو چومنا
شروع کیا۔ سر سامنے بیٹھ کر شراب پیتے ہوئے ہمارا سیکس انجوائے کر رہے تھے۔ ہم نے
کافی دیر تک کسنگ کی۔ ماریہ نے میری قمیض اتاری اور اپنی بھی اتار دی۔ اس کے ممے
میرے جتنے بڑے نہیں تھے، لیکن خوبصورت تھے۔ میں نے اس کے نپلز چوسنے شروع کیے اور
اس کی چوت پر ہاتھ پھیرا۔ وہ پانی چھوڑ رہی تھی۔ پھر اس نے میرے مموں کو چوسا اور
میری شلوار میں ہاتھ ڈال کر چوت کو مسلنا شروع کیا۔ اس کے بعد ہم 69 کی پوزیشن میں
آ گئے اور ایک دوسرے کی چوت چاٹنے لگے۔ کمرہ ہماری آہوں اور سسکیوں سے گونج رہا
تھا۔
سر سے برداشت نہیں ہوا۔ انہوں نے میری چوت چاٹنا شروع
کی۔ کبھی وہ اور ماریہ مل کر میری چوت چاٹتے، کبھی ایک دوسرے کو چومتے۔ سر نے اپنا
لنڈ میری چوت میں ڈالا اور دھکے مارنے شروع کیے۔ میں ماریہ کی چوت چوس رہی تھی۔ دس
منٹ کی چدائی کے بعد میری چوت نے پانی چھوڑ دیا۔ سر نے ماریہ کو لیٹنے کو کہا اور
اس کی چوت میں لنڈ ڈال دیا۔ ماریہ کی چیخ نکل گئی۔ سر نے کوئی رعایت نہ کی کیونکہ
وہ کنواری نہیں تھی۔ ماریہ کے جسم کو جھٹکے لگ رہے تھے۔ سر نے اس کی پوزیشن بدل کر
چدائی کی۔ ماریہ کی چوت نے بھی پانی چھوڑ دیا، جسے میں نے چاٹ لیا۔
سر نے ماریہ کو الٹا لیٹنے کو کہا۔ میں سمجھ گئی کہ اب
اس کی گانڈ کی باری ہے۔ سر نے مجھے ماریہ کی کمر پر بیٹھنے کو کہا تاکہ وہ نہ نکل
سکے۔ میں نے سر کا لنڈ چوس کر گیلا کیا اور ماریہ کی گانڈ پر تھوک لگایا۔ سر نے
ایک جھٹکے سے لنڈ اس کی گانڈ میں ڈال دیا۔ ماریہ کی زور دار چیخ نکل گئی۔ اس کی
گانڈ پہلے بھی چد چکی تھی، لیکن سر کا لنڈ الگ تھا۔ وہ رونے لگی۔ سر نے جم کر اس
کی گانڈ ماری۔ پھر انہوں نے مجھے اپنے لنڈ پر بیٹھنے کو کہا۔ میں نے لنڈ اپنی گانڈ
میں لیا اور اوپر نیچے ہونے لگی۔ ماریہ سر کے منہ پر بیٹھ گئی۔ دس منٹ بعد میری
ٹانگیں جواب دے گئیں۔ سر کھڑے ہو گئے، اور ہم دونوں زمین پر بیٹھ کر ان کا لنڈ
چوسنے لگے۔ کافی محنت کے بعد سر کی منی ہمارے منہ، چہرے اور گردن پر گر گئی۔ ہم نے
ایک دوسرے کے چہرے چاٹ کر صاف کیے۔
ہم تینوں ایک گھنٹہ سیکس کر کے تھک گئے تھے۔ ہم نے ایک
ایک پیگ پیا اور کھانا کھایا۔ ماریہ واش روم میں تھی جب سر نے مجھے چوم کر کہا، تمہارا
شکریہ، تم نے بہت مزہ دیا۔ میں نے کہا، بس ایک کام کرنا ہوگا۔ آئندہ امی کے ساتھ
سیکس نہیں کرو گے۔ میں اور ماریہ جب تم کہو گے، حاضر ہوں گی۔ سر نے حامی بھر لی۔
اس رات ہم نے خوب سیکس کیا اور مل کر نہایا۔ صبح چار بجے ہم اپنے گھر آ گئے۔ ماریہ
نے مجھے گلے لگایا، وہ بہت خوش تھی۔
اگلی صبح ہم دوپہر کو اٹھے۔ میرے گھر والے آ چکے تھے۔
ماریہ شام کو اپنے گھر چلی گئی۔ امتحانات ختم ہونے کے بعد میرا جسم پھر انگڑائیاں
لینے لگا۔ امی کے گھر سے نکلتے ہی میں سر ریاض کے گھر چلی جاتی۔ امی نے کئی بار سر
سے سیکس کی کوشش کی، لیکن سر نے انکار کر دیا کیونکہ میں نے منع کیا تھا۔ وہ میری
جوانی کھونا نہیں چاہتے تھے۔ میں روز اپنی چوت سے ان کا احسان چکاتی۔
ایک دن امی جلدی گھر آ گئیں۔ انہوں نے مجھے پورے گھر
میں ڈھونڈا۔ جب میں چھت سے گھر آئی تو امی نے پوچھا، کہاں تھی؟ میں نے کہا، چھت پر
تھی۔ امی نے غصے سے کہا، میں نے چھت پر دیکھا، تم وہاں نہیں تھیں۔ میں نے کہا، میں
سر ریاض کے گھر تھی۔ امی نے غصے سے تھپڑ مارنے کے لیے ہاتھ اٹھایا۔ میں نے کہا، آپ
کو شرم نہیں آئی اس شخص کے ساتھ سوتے ہوئے جس نے آپ کی بیٹی کو داغدار کیا؟ اب
سمجھ آया آپ نے مجھے ابو کو بتانے
سے کیوں روکا۔ آپ اپنے یار کو بچانا چاہتی تھیں۔ امی نے ہاتھ نیچے کر لیا اور رونے
لگ گئیں۔ میں نے کہا، اب آپ کی بھلائی اسی میں ہے کہ جو ہو رہا ہے، چپ کر کے ہونے
دیں، ورنہ آپ کے کرتوت ابو کو بتا دوں گی۔
اس دن کے بعد میرا ڈر ختم ہو گیا۔ میں امی کی موجودگی
میں بھی سر کے گھر چلی جاتی۔ میں نے ٹیوشن دوبارہ شروع کی، جو صرف بہانہ تھا۔
ماریہ نے بھی ٹیوشن شروع کی۔ ہم تینوں روز نئے سیکس اسٹائل آزماتے۔ امی اندر ہی
اندر کڑھتی تھیں لیکن کچھ کہہ نہ پاتیں۔
ایک دن ماریہ نے کہا، امی سے شام تک کی چھٹی لے لو، ہم
میرے بوائے فرینڈ کی سالگرہ پر جائیں گی۔ میں نے کہا، میں انہیں نہیں جانتی۔ ماریہ
نے اصرار کیا، اور میں مان گئی۔ امی نے منع کیا، لیکن میں نے کہا کہ میں اجازت
نہیں مانگ رہی، بتا رہی ہوں۔ اگلی صبح ماریہ آئی، اور ہم اس کے بوائے فرینڈ عدنان
کے ساتھ گئے۔ عدنان ایک خوبصورت کالج بوائے تھا، جس کا باپ بڑا بزنس مین تھا۔ وہ
ہمیں ایک فارم ہاؤس پر لے گیا، جہاں پارٹی چل رہی تھی۔ وہاں بگڑے ہوئے امیر زادوں
کی بھیڑ تھی۔ شراب اور چرس کھلے عام چل رہی تھی۔ میں نے شراب نہیں پی کیونکہ ان کے
سامنے کھلنا نہیں چاہتی تھی۔
کھانے کے بعد سب کھسک گئے۔ صرف میں، ماریہ، عدنان اور
اس کا دوست جنید رہ گئے۔ عدنان نے کہا کہ یہ پارٹی ماریہ کے لیے ہے۔ تھوڑی دیر بعد
ماریہ اور عدنان کمرے میں چلے گئے۔ میں سمجھ گئی کہ ماریہ عدنان کو اپنی چوت کا
تحفہ دینے گئی ہے۔ جنید نے رومانٹک میوزک لگایا اور مجھ سے ڈانس مانگا۔ ہم ڈانس
کرنے لگے۔ اس کے ہاتھ میرے جسم پر پھر رہے تھے۔ اس نے میری گانڈ پر ہاتھ پھیرنا
شروع کیا۔ میں نے کہا، بس، ڈانس نہیں کرنا۔ وہ میرے ساتھ صوفے پر بیٹھ گیا اور
شراب پیتے ہوئے مجھے گھورنے لگا۔
میرے اندر جنگ چل رہی تھی۔ چوت لنڈ مانگ رہی تھی، لیکن
دماغ منع کر رہا تھا۔ اچانک جنید نے مجھے بانہوں میں لے لیا۔ میں نے ہتھیار ڈال
دیے۔ اس نے میرے ہونٹ چوسنے شروع کیے۔ اس کی زبان میرے منہ میں گھوم رہی تھی۔ اس
نے میری قمیض اتاری اور مموں کو دبانے لگا۔ پھر اس نے میری شلوار اتاری اور چوت پر
منہ رکھ کر چوسنے لگا۔ اس کی زبان میری چوت میں اندر باہر ہو رہی تھی۔ کافی دیر
چوسنے کے بعد میری چوت نے پانی چھوڑ دیا۔ جنید نے سارا پانی پی لیا۔
اس نے اپنا لنڈ نکالا، جو چھ انچ کا موٹا تھا۔ میں نے
اسے چوسنا شروع کیا۔ جنید نے کہا، تم تو پورن اسٹار ہو۔ میں نے اس کے لنڈ پر بیٹھ
کر سواری شروع کی۔ دو منٹ بعد عدنان کمرے سے ننگا نکل آیا۔ میں شرما کر جنید سے
اتر گئی۔ ماریہ بھی ننگی باہر آئی۔ عدنان کا لنڈ ابھی تک تنا ہوا تھا۔ ماریہ نے
کہا، فوزیہ، شرما کیوں رہی ہو؟ یہ روٹین ہے۔ عدنان نے کہا کہ اس نے ٹائمنگ والی
گولی کھائی ہے، اور ماریہ سے فارغ نہیں ہو رہا۔ اس نے مجھ سے مدد مانگی۔ جنید نے
کہا کہ وہ پہلے فارغ ہوگا۔
میں دوبارہ جنید کے لنڈ پر بیٹھی اور سواری شروع کی۔
عدنان میرے پیچھے آ گیا اور اپنا لنڈ میری گانڈ پر رکھ دیا۔ میں نے منع کیا، لیکن
جنید نے مجھے کس کر پکڑ لیا۔ عدنان نے اپنا لنڈ میری گانڈ میں ڈال دیا۔ دونوں نے
جم کر چدائی کی۔ دس منٹ بعد جنید نے میری چوت میں منی نکال دی۔ عدنان نے میری گانڈ
میں فارغ کیا۔ پھر ماریہ ان کے پاس آئی، اور وہ دونوں اس پر پیشاب کرنے لگے۔ ماریہ
مزے سے پی رہی تھی۔ انہوں نے مجھ پر بھی پیشاب کیا۔ میں نے غصے سے کہا، یہ کیا
بدتمیزی ہے؟ ماریہ نے کہا، یار، تم بھی اپنا رس پلا دو۔ میں نے غصے میں ماریہ پر
پیشاب کر دیا۔ ہم سب نے مل کر نہایا اور عدنان ہمیں گھر چھوڑ آیا۔
گھر پہنچ کر امی نے غصے سے پوچھا، اتنی دیر کہاں تھی؟
میں نے کوئی جواب نہیں دیا اور فریج سے مانع حمل گولی نکال کر کھائی۔ امی نے دیکھ
لیا اور کہا، کہاں منہ کالا کر کے آئی؟ میں نے کہا، امی، میں آپ پر گئی ہوں۔ امی
رونے لگیں اور کہا کہ ابو شوگر کے مریض ہیں اور ان کی ضرورت پوری نہیں کر سکتے۔
انہوں نے مجھ سے معافی مانگی۔ میں نے امی کو گلے لگایا اور کہا کہ میں اب ان کے
اور سر کے بیچ نہیں آؤں گی۔
میں نے سر سے ملنا کم کر دیا اور امی کو ان کے ساتھ وقت
گزارنے دیا۔ میں عدنان کے فارم ہاؤس پر اپنی آگ بجھاتی رہی۔ ایک دن اطلاع ملی کہ
ارشد کی امی کو ڈاکٹروں نے جواب دے دیا۔ ہم سب گاؤں گئے۔ وہاں میری بہن اور ان کا
شوہر بھی آ چکے تھے۔ ارشد کو دیکھ کر میرے دل میں اس سے سیکس کی خواہش جاگی، لیکن
گھر مہمانوں سے بھرا تھا۔ اگلے دن رات کو لائیٹ چلی گئی۔ کسی نے مجھے پیچھے سے پکڑ
کر ممے دبائے۔ میں نے سوچا کہ یہ ارشد ہے۔ میں نے کہا، ارشد، چھوڑ دو، کہیں لائیٹ
نہ آ جائے۔ لیکن جب لالٹین جلی تو ارشد وہاں نہیں تھا۔
رات کو میں نے انور کو اپنی بھابھی کے کمرے میں جاتے
دیکھا۔ میں کھڑکی سے جھانکنے لگی۔ بھابھی انور کو ڈانٹ رہی تھیں کہ مہمانوں کے
جانے تک صبر کرے۔ انور نے کہا کہ اس نے مجھے فوزیہ سمجھ کر دبوچ لیا تھا۔ بھابھی
نے کہا کہ کل اس کا شوہر آ جائے گا، پھر موقع نہیں ملے گا۔ انور نے اپنا لنڈ
نکالا، جو موٹا اور تازہ تھا۔ میری چوت نے بغاوت شروع کر دی۔ بھابھی نے اس کا لنڈ
چوسنا شروع کیا۔ اچانک کچن سے برتن گرنے کی آواز آئی۔ میں گھبرا کر اپنی چارپائی
پر بھاگ گئی۔ سب جاگ اٹھے۔ انور نے کہا کہ وہ پانی پی رہا تھا۔
صبح میں انور کے ساتھ باڑے میں گئی جہاں وہ دودھ نکال
رہا تھا۔ میں نے کہا، مجھے دودھ نکالنا سکھاؤ۔ پھر اچانک پوچھا، تم نے رات مجھے
کیوں دبوچا؟ وہ گھبرا گیا۔ میں نے کہا، تمہارا بھابھی کے ساتھ چکر ہے۔ انور نے
کہا، تم رات کو ہمیں دیکھ رہی تھیں؟ میں نے کہا، میں کسی کو نہیں بتاؤں گی، لیکن
تم ارشد والی بات نہ بتانا۔ میں نے اس کے ٹراؤزر کی طرف اشارہ کیا اور کہا، میں اس
دودھ کی بات کر رہی ہوں۔ انور مجھ سے لپٹ گیا۔ ہم نے کسنگ شروع کی۔ انور نے کہا کہ
کوئی آ جائے گا، دوپہر کو کھیتوں میں چلیں گے۔ میں نے کہا، ابھی اپنا رس پلا دو۔
انور نے اپنا لنڈ نکالا۔ میں نے اسے چوسنا شروع کیا۔ اس کی موٹی ٹوپی میرے گلے تک
جا رہی تھی۔ کافی دیر چوسنے کے بعد انور نے اپنی منی میرے منہ میں ڈال دی۔ میں نے
سارا رس پی لیا۔
دوپہر کو میں کھیتوں کی طرف چلی گئی۔ انور نے کہا کہ
ارشد وہاں ہے، اس لیے ہم اس کے دوست کے ڈیرے پر جائیں گے۔ وہاں دو بوڑھے آدمی تاش
کھیل رہے تھے۔ انور نے کہا کہ یہ اس کے دوست ہیں۔ میں نے کہا، یہ یہاں کیا کر رہے
ہیں؟ انور نے کہا، تمہاری آگ ایک آدمی نہیں بجھا سکتا۔ میں غصے سے جانے لگی تو
انور نے مجھے بستر پر پٹخ دیا۔ اس کے دوستوں نے مجھے دبوچ لیا۔ انور نے میری شلوار
اتاری اور اپنا لنڈ میری چوت پر رگڑ کر اندر ڈال دیا۔ اس نے جم کر چدائی کی۔ اس کے
دوست میرے مموں کو چوس رہے تھے۔ ایک نے اپنا دس انچ کا لنڈ میرے منہ میں ڈال دیا۔
اس کے لنڈ سے بدبو آ رہی تھی۔ انور نے اپنی منی میرے پیٹ پر گرائی۔ اس کے دوست نے
میری چوت چاٹی اور اپنا لنڈ اندر ڈال دیا۔ دوسرے نے میری گانڈ میں لنڈ ڈالا۔ دونوں
نے تیس منٹ تک چدائی کی۔ میری چوت نے پانی چھوڑ دیا۔ انہوں نے اپنی منی میرے منہ
میں ڈالی۔
انور نے میری ویڈیو بنائی اور کہا کہ اگر بھابھی کی بات
بتائی تو وہ میری ویڈیوز نیٹ پر ڈال دے گا۔ اگلے دن ارشد کی امی فوت ہو گئیں۔ ہم
واپس گھر آ گئے۔ میری بہن نے امی سے کہا کہ مجھے کراچی بھیج دیں۔ امی مان گئیں۔
کراچی میں باجی کے فلیٹ پر رہنے لگی۔ ایک دن بارش میں بھیگ گئی اور چابی بھول گئی۔
پڑوس کے فلیٹ سے ندیم نکلا۔ اس نے مجھے اپنے فلیٹ میں بلایا اور کپڑے بدلنے کو
دیے۔ ہم گھل مل گئے۔ اس نے میری تصاویر بنائیں اور ماڈلنگ کا مشورہ دیا۔
اگلی صبح میں اس کے فلیٹ پر گئی۔ اس نے شراب پینے کو
کہا۔ ہم نے پیگ پیا اور کسنگ شروع کی۔ اس نے میری چوت چاٹی اور میں نے اس کا لنڈ
چوسا۔ ہم نے خوب سیکس کیا۔ اس نے میری گانڈ بھی ماری۔ ہم روز سیکس کرتے اور نئی
ٹیکنیکس آزماتے۔ ایک دن اس نے میرے ہاتھ باندھے اور آنکھوں پر پٹی باندھی۔ اچانک
مجھے مونچھوں والا چہرہ محسوس ہوا۔ پٹی ہٹائی تو وہ قادر بھائی تھے۔ انہوں نے کہا
کہ یہ راز ہمارے بیچ رہے گا۔ انہوں نے اور ندیم نے مل کر میری چوت اور گانڈ ماری۔
ایک دن شاپنگ سے واپسی پر میں نے باجی کو تین مردوں کے
ساتھ سیکس کرتے دیکھا۔ قادر بھائی نے مجھے ندیم کے فلیٹ پر بھیج دیا۔ ندیم نے
بتایا کہ باجی پورے محلے میں مشہور ہے۔ اچانک تین غنڈوں نے ندیم کے فلیٹ پر آ کر
مجھے دبوچ لیا۔ میں نے ایک کو تھپڑ مار دیا۔ اس کا نام جانی تھا۔ قادر بھائی نے
معافی مانگی، لیکن جانی نے کہا کہ میں اس کی بے عزتی کا بدلہ رات کو اس کا بستر
گرم کر کے دوں گی۔ میں نے انکار کیا۔ وہ غصے میں چلا گیا۔
چند دن بعد جانی کے آدمیوں نے مجھے اغوا کر لیا۔ وہ
مجھے ایک کوٹھی میں لے گئے۔ جانی نے کہا کہ میں نے اس کی بے عزتی کی سزا بھگتنی
ہوگی۔ اس نے اپنے آدمی شیرو کو بلایا، جو ایک جن نما انسان تھا۔ اس نے مجھے مارا
اور کپڑے پھاڑ دیے۔ اس نے میری چوت اور گانڈ کو بے رحمی سے چودا۔ کمرے میں موجود
دیگر مردوں نے بھی میری چدائی کی۔ رات بھر یہ سلسلہ چلتا رہا۔ صبح وہ مجھے ہسپتال
کے سامنے پھینک کر چلے گئے۔
ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد میں نے پولیس کو جانی کا
نام بتایا، لیکن کوئی ایکشن نہ ہوا۔ جانی نے میرے گھر آ کر مجھے نشے کا انجکشن
لگایا اور ڈرگ چھوڑ کر چلا گیا۔ پولیس نے مجھے ڈرگ بیچنے اور جسم فروشی کے الزام
میں گرفتار کر لیا۔ عدالت نے مجھے سات سال قید کی سزا دی۔ جیل میں جیلر اور اس کے
مہمان مجھ سے سیکس کرتے تھے۔ پانچ سال بعد اچھے چال چلن کی وجہ سے رہائی مل گئی۔
باہر نکل کر پتا لگا کہ ابو دل کا دورہ پڑنے سے فوت ہو
گئے۔ امی نے سر ریاض سے شادی کر لی اور دوسرے شہر چلی گئیں۔ ماریہ کی شادی ہو چکی
تھی۔ ارشد نے بھی رابطہ توڑ دیا۔ میں کراچی واپس آئی اور ایک دارالامان میں رہنے
لگی، جو دراصل جسم فروشی کا اڈہ تھا۔ وہاں سے میں بڑے بڑے لوگوں سے ملتی رہی۔ ایک
پارٹی میں میری ملاقات اس کہانی کے رائٹر سے ہوئی۔ اس نے میری کہانی سنی اور
کرداروں کے نام اور جگہ تبدیل کر کے لکھ دی۔
اب میں دارالامان میں ہی رہتی ہوں۔ کبھی کبھی سوچتی ہوں
کہ میری زندگی تباہ کرنے میں کون زیادہ قصوروار ہے—میں، سر ریاض، ندیم یا جانی؟
لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلتا۔
(ختم شد)