بہن سے امی تک ۔۔۔(فل ہاٹ انسیسٹ کہانی)

 



میرا نام کامران ہے اور میں کراچی میں رہتا ہوں۔ میرے گھر میں میری بہن اور امی ہیں۔ والد صاحب نوکری کی وجہ سے دبئی میں ہوتے ہیں اور سال میں ایک دفعہ پاکستان آتے ہیں۔ میری بہن سکول میں ٹیچر ہے اور میں بینک میں نوکری کرتا ہوں۔ میری بہن کی عمر 20 سال ہے، امی کی عمر 45 سال ہے اور میری عمر 25 سال ہے۔

 

میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ گھر میں بہن اور امی کے ساتھ سیکس ہوگا۔ یہ بات ان دنوں کی ہے جب کرونا کی وجہ سے پورے ملک میں لاک ڈاؤن تھا اور سب کچھ بند تھا۔ میری بہن کا نام شازیہ ہے اور امی کا نام پروین ہے۔ اب آپ کو بتاتا ہوں کہ پہلے بہن کے ساتھ کیسے سیکس شروع ہوا۔

 

شازیہ کے سکول بند تھے اور وہ گھر پر ہی ہوتی تھی۔ میں بھی بینک سے جلدی گھر آجاتا تھا۔ میرا کمرہ اوپر تھا۔ بینک سے آنے کے بعد میں اپنے کمرے میں ہی رہتا تھا اور باقی وقت لیپ ٹاپ پر سیکسی مووی دیکھتے ہوئے گزرتا تھا۔ لائف بہت بور گزر رہی تھی۔ کرونا کی وجہ سے دوستوں کے ساتھ آؤٹنگ بھی بند تھی، تو زیادہ وقت گھر پر ہی گزرتا تھا۔

 

ہفتے کا دن تھا۔ میں صبح اٹھ کر نیچے گیا تو دیکھا ماموں بیٹھے ہوئے تھے۔ ماموں کو سلام کیا اور ماموں سے خیر خیریت پوچھی تو ماموں بولے، کامران، تمہاری نانی کی طبیعت بہت خراب ہے۔ میں پروین کو لینے آیا ہوں۔ امی بھی کچن سے ناشتہ لے کر آگئیں۔ امی بولیں، کامران بیٹا، میں تمہارے ماموں کے ساتھ جا رہی ہوں۔ تمہاری نانی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ میں 3، 4 دن کے بعد آجاؤنگی۔ شازیہ بھی اپنے کمرے سے آگئی اور امی نے اسے بھی بتایا کہ نانی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ امی نے ہم سب کے ساتھ ناشتہ کیا اور اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ امی تیار ہو کر باہر آئیں اور بولیں، کامران، بہن کا خیال رکھنا اور گھر میں ہی رہنا۔ میں بولا، امی، میں تو گھر پر ہی رہتا ہوں کرونا کی وجہ سے۔ امی بولیں، اوکے بیٹا، بس سمجھا رہی ہوں۔ میری نانی اور ماموں حیدرآباد میں ہی رہتے ہیں۔ ماموں اور نانی کا گھر ہمارے گھر سے دور ہے۔ امی ہم بھائی بہن کو سمجھا کر ماموں کے ساتھ چلی گئیں۔ میں نے چائے کا کپ لیا اور لاؤنج میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھنے لگا۔ شازیہ ناشتہ کرنے کے بعد گھر کے کام کرنے لگی۔ کرونا کی وجہ سے ہم نے میڈ کو کام سے منع کردیا تھا، تو گھر کے سارے کام امی اور شازیہ کرتی تھیں۔

 

میں ٹی وی دیکھ رہا تھا اور شازیہ کچن میں کام کر رہی تھی۔ شازیہ کچن کا کام کرکے لاؤنج میں ٹی وی دیکھنے لگی۔ شازیہ نے نائٹ ڈریس یعنی ٹراؤزر اور شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ وہ اکثر گھر میں اسی ڈریس میں ہوتی تھی، لیکن کبھی اس نظر سے نہیں دیکھا تھا۔ وہ بغیر ڈوپٹے کی تھی اور لگ رہا تھا کہ اس نے بریزیئر بھی نہیں پہنا تھا کیونکہ اس کے مموں کی شیپ نظر آرہی تھی۔ شازیہ نے پنک شرٹ اور بلیک ٹراؤزر پہنا ہوا تھا۔ شازیہ ٹی وی دیکھتے ہوئے بولی، بھائی، دوپہر میں کیا بناؤں؟ میں بولا، کچھ بھی بنا لو۔ کہنے لگی، اچھا، ابھی تو گھر کی صفائی کرکے لوں، پھر سوچتے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ گئی اور آج پہلی دفعہ غور کیا تو ٹراؤزر میں سے شازیہ کی گانڈ کافی سیکسی لگی کیونکہ اس کی شرٹ گانڈ سے کافی اوپر تھی اور ٹراؤزر میں سے شازیہ کی گانڈ کافی موٹی لگ رہی تھی۔ اب میں شازیہ کو دوسری نظر سے دیکھ رہا تھا جس میں بہن کو چودنے کا دل کر رہا تھا۔ میں نے کئی دفعہ اپنے دماغ کو ادھر ادھر کرنے کی کوشش کی، لیکن دماغ بار بار شازیہ کی گانڈ کی طرف تھا۔ میں نے سوچا کہ اوپر چل کر کوئی سیکسی مووی دیکھی جائے اور میں نے شازیہ کو کہا کہ میں اوپر جا رہا ہوں۔ کوئی کام ہو تو آواز دے لینا۔ اور اوپر آکر لیپ ٹاپ پر مووی لگا لی۔ میں نے ایک سیکسی مووی لگا لی اور ٹراؤزر نیچے کرکے لن باہر نکال کر سہلانے لگا اور مووی دیکھتے ہوئے لن پورا کھڑا ہوگیا تھا اور میں مٹھ لگانے کے اسٹائل میں لن پر ہاتھ اوپر نیچے کر رہا تھا اور پوری طرح مووی دیکھنے میں مگن تھا کہ مجھے اس بات کا پتہ ہی نہیں چلا کہ شازیہ میرے کمرے کا دروازہ کھول کر مجھے موٹھ مارتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ اچانک میری نظر دروازے کی طرف گئی جہاں شازیہ ہاتھ میں جھاڑو لے کر کھڑی تھی۔ اس پر نظر پڑتے ہی میں نے جلدی سے لن ٹراؤزر کے اندر کیا۔ شازیہ بولی، بھائی، کمرے کی صفائی کرنی تھی۔ میں بولا، کر لو، لیکن جب کسی کے کمرے میں جاؤ تو ناک کرو۔ شازیہ بولی، بھائی، دو تین دفعہ ناک کیا تھا، آپ مصروف تھے اس لیے آواز نہیں سنی ہوگی۔ میں شرمندہ ہو رہا تھا کہ شازیہ نے مجھے ایسے دیکھا تو کیا سوچے گی۔ میں بیڈ سے واش روم جانے کے لیے اٹھا تو لن ٹراؤزر میں پورا تنبو بنا کر کھڑا تھا۔ شازیہ بھی لن کو دیکھ رہی تھی۔ میں واش روم چلا گیا اور ٹراؤزر اتار کر مٹھ لگانے لگا اور فارغ ہوکر واش روم سے باہر نکل آیا۔

 

شازیہ کمرے کی جھاڑو دے رہی تھی اور اس کی گانڈ پر نظر پڑتے ہی پھر لن نے گانڈ کو سلامی دینے لگی۔ شازیہ نے مجھے دیکھا اور اس کی نظر پھر میرے کھڑے لن پر تھی۔ شازیہ بولی، بھائی، آپ نیچے چلے جائیں، میں آپ کے کمرے کی صفائی کرکے آتی ہوں۔ میں نیچے آگیا اور ٹی وی آن کرلیا اور اب سوچ رہا تھا کہ آج بہت گڑبڑ ہوگی۔ شازیہ میرے بارے میں کیا سوچے گی۔

 

میں نیچے لاؤنج میں بیٹھا یہی سوچ رہا تھا کہ شازیہ بھی اوپر سے نیچے آگئی۔ وہ بالکل نارمل تھی۔ اس کے انداز سے کہیں بھی یہ نہیں لگ رہا تھا کہ ابھی کچھ دیر پہلے اس نے اپنے بھائی کا لن دیکھا ہے اور وہ بھی موٹھ لگاتے ہوئے۔ جب میں نے اسے نارمل دیکھا تو میں بھی نارمل ہوگیا۔ شازیہ کام ختم کرکے میرے سامنے صوفے پر بیٹھ گئی اور بولی، بھائی، پانی پلا دیں۔ میں اٹھا اور فریج سے پانی نکال کر اسے پانی دیا۔ پانی دیتے ہوئے میری نظر اس کے مموں پر تھی جو قریب سے دیکھنے سے اور زیادہ واضح پتہ چل رہے تھے۔ مجھے اس طرح دیکھتے ہوئے شازیہ بولی، بھائی، کیا دیکھ رہے ہیں؟ میں گبھرا کر بولا، نہیں، کچھ نہیں۔ شازیہ نے گلاس دیا اور بولی، اب یہ بتائیں کھانا کیا بنانا ہے؟ میں بولا، جو دل کرے بنا دو۔ وہ کہنے لگی، اچھا، دیکھتی ہوں فریج میں کیا رکھا ہے۔ وہ صوفے سے اٹھ کر میرے سامنے سے گزری اور اس کی گانڈ دیکھتے ہی لن نے انگڑائی لینا شروع کردی۔ میں اس صورت حال سے پریشان تھا کہ یہ آج کیا ہو رہا ہے۔

 

شازیہ فریج کا فریزر کھولے کھڑی تھی۔ میں اٹھنے لگا تو شازیہ بولی، بھائی، ذرا میری مدد کریں۔ یہ گوشت کا پیکٹ فریزر میں سے نہیں نکل رہا ہے۔ میں شازیہ کے پیچھے گیا۔ اسے کہا، تم ہٹو، میں نکالتا ہوں۔ شازیہ بولی، بھائی، آپ بس تھوڑا سا زور لگائیں، نکل جائے گا۔ میں اس کے پیچھے کھڑا ہوا اور فریزر کے اندر سے گوشت کا پیکٹ نکالنے کی کوشش کرنے لگا۔ اب پوزیشن یہ تھی کہ میں پیچھے سے شازیہ کے ساتھ چپکا ہوا تھا۔ شازیہ کی گانڈ میرے لن کے ساتھ ٹچ تھی۔ گانڈ کی نرمی فیل ہوتے ہی لن ٹن ٹنا ٹن ہوگیا۔ شازیہ نے بھی لن کو اپنی گانڈ پر محسوس کر رہی تھی، لیکن وہ ایسے ہی کھڑی رہی۔ میں نے بھی لن کو اور اس کی گانڈ پر دبا دیا۔ ٹراؤزر کی وجہ سے لن گانڈ کی لائن میں فکس ہوگیا۔ شازیہ بولی، بھائی، زور لگائیں، بہت سخت جما ہوا ہے۔ میں بولا، لگا تو رہا ہوں۔ آگے تم جو کھڑی ہو۔ اس نے اپنی گانڈ پیچھے کی اور بولی، اب زور لگائیں۔ اس کے پیچھے ہونے سے لن پورا شازیہ کی گانڈ میں گھس گیا تھا۔ وہ گھوڑی اسٹائل میں میرے آگے تھی۔ اسے بھی مزا آرہا تھا۔ خیر، تھوڑی سی کوشش کے بعد گوشت کا پیکٹ نکل آیا اور وہ سیدھی ہوگئی اور میں پیچھے ہوا تو اس کی نظر میرے لن پر تھی جو فل کھڑا ہوا تھا۔ لن کو دیکھتے ہوئے بولی، بھائی، آپ اس پیکٹ کو پانی میں ڈال دیں۔ جب تک یہ نرم ہوجائے تو پھر کھانا بناتی ہوں اور ہاں، میں نہانے جا رہی ہوں۔ آپ ابھی اوپر کمرے میں نہیں جانا۔ میں نہا کر آتی ہوں۔ میں بولا، ٹھیک ہے، تم نہا لو۔ میں ٹی وی دیکھ رہا ہوں۔ وہ اپنے کمرے میں چلی گئی اور میں ٹی وی دیکھنے لگا، لیکن میرا دماغ تو شازیہ کی نرم گانڈ کی طرف تھا۔ اب مجھے لگ رہا تھا کہ شازیہ کو بھی اس کھیل میں مزا آرہا ہے اور میں بھی اب شازیہ کو چودنے کے بارے میں سوچنے لگا کیونکہ شازیہ کا رسپانس ایسا تھا۔ شازیہ کو چودنے کے خیال سے ہی لن جھوم جاتا تھا اور لن بھی کھڑا ہوکر اس کا اظہار کرنے لگا۔ گھر میں سیکسی بہن ہو اور اکیلی بھی تو پھر ایسا تو ہوتا ہے۔ میں انہی خیالوں میں گم تھا تو شازیہ کی آواز آئی، بھائی اور جب میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اس سے پہلے میں نے کبھی شازیہ کو اس طرح نہیں دیکھا تھا۔

 

شازیہ نے سفید شرٹ جو بہت ہلکی تھی جسے اس نے گیلے بدن پر پہن لی تھی۔ اس کا گلا کافی کھلا تھا اور شازیہ کا بلیک بریزیئر صاف نظر آرہا تھا۔ اونچی شرٹ اور گلابی ٹائٹ پاجامہ جس سے شازیہ کی گانڈ اور چوت کا صاف پتہ چل رہا تھا۔ مجھے ایسے دیکھتے ہوئے بولی، بھائی، کیا ہوا؟ میں بولا، نہیں، کچھ نہیں۔ بہت اچھی لگ رہی ہو اس ڈریس میں۔ شازیہ خوش ہوتے ہوئے بولی، اچھا بھائی، آپ کو یہ ڈریس اچھا لگا؟ میں بولا، تم پر تو یہ ڈریس بہت سوٹ کر رہی ہے۔ شازیہ نے چاروں طرف گھوم کر مجھے ڈریس دکھایا اور اسی بہانے اپنی شرٹ کا گلا ٹھیک کیا تو شازیہ کے مموں کی لائن بھی نظر آگئی۔ شازیہ بولی، بھائی، اب میں کھانا بنا لوں۔ آپ کچن میں آجائیں اور میری مدد بھی کر دیں۔

 

اب تو میں بھی یہی چاہتا تھا کہ بس شازیہ کو ہی دیکھتا رہوں۔ آج تو ایسا لگ رہا تھا کہ شازیہ کا بھائی سے چدوانے کا موڈ ہے۔ میں کچن میں گیا تو شازیہ گوشت دھو رہی تھی۔ میں بولا، کیا مدد کرنی ہے؟ کہنے لگی، ابھی بتاتی ہوں۔ وہ سنک پر گوشت دھو رہی تھی اور ٹائٹ پاجامے سے اس کی گانڈ الگ ہی نظارہ دے رہی تھی۔ اچانک شازیہ بولی، بھائی، یہ میری شرٹ کی آستینیں اوپر کردیں۔ میں شازیہ کے پیچھے گیا اور شازیہ کے ساتھ چپک کر اس کی دونوں آستینیں اوپر کردیں۔ وہ بولی، بھائی، شکریہ۔ میں بولا، اور کچھ؟ کہنے لگی، بس گوشت دھو لوں تو پھر بتاتی ہوں۔ جب میں پیچھے ہٹا تو شازیہ کی گانڈ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پیچھے ہٹ گیا۔ شازیہ اب گوشت دھو چکی تھی۔ اس کی بیک میری طرف تھی۔ میرا لن ٹراؤزر میں بہت بے چین تھا۔ میں بولا، شازیہ، میں بھی نہا کر آتا ہوں۔ گرمی لگ رہی ہے۔ شازیہ بولی، ٹھیک ہے، آپ بھی نہا کر جلدی آجائیں۔ میں اپنے کمرے میں آیا اور نہا کر صرف انڈرویئر پہنا کہ شازیہ دیکھ کر کیا بولتی ہے۔ میں صرف انڈرویئر میں ہی نیچے آگیا اور کچن میں گیا تو شازیہ نے مجھے دیکھتے ہی بولی، بھائی، خیریت ہے؟ آپ تو انڈرویئر میں ہی آگئے۔ شرم نہیں آتی بہن کے سامنے؟ میں بولا، گرمی بہت ہے نا شازیہ۔ اچھا جی، گرمی آپ کے لیے ہی ہے۔ میں بولا، تم نے بھی تو ہلکا ڈریس پہنا ہوا ہے۔ شازیہ بولی، جی بھائی، لیکن آپ تو بس انڈرویئر میں ہی آگئے۔ میں بولا، اگر تمہیں اچھا نہیں لگ رہا تو تبدیل کر دیتا ہوں۔ شازیہ بولی، نہیں نہیں، ٹھیک ہے۔ اب آپ مجھے اوپر سے مصالحے اتار کر دیں۔ میں سالن میں ڈالوں۔ میں شازیہ کے پیچھے کھڑا ہوگیا اور لن کو پورا گانڈ سے لگا دیا۔ شازیہ مجھ سے جو مصالحے مانگتی رہی، میں اسے دے رہا تھا اور پیچھے سے لن شازیہ کی گانڈ کے مزے لے رہا تھا۔ اب شازیہ بھی گرم ہو رہی تھی۔ شازیہ اپنی گانڈ لن پر دبا رہی تھی۔ میری بھی برداشت ختم ہو رہی تھی۔ میں نے انڈرویئر نیچے کیا اور لن نکال کر بہن کی گانڈ کے اندر کر دیا۔ آخری مصالحہ ڈالنے کے بعد جب وہ مڑی تو اس کی نظر ٹراؤزر سے باہر لن پر پڑی اور بولی، بھائی، یہ کیا؟ آپ نے تو اسے باہر ہی نکال لیا۔ میں نے آگے بڑھ کر شازیہ کو اپنے گلے لگا لیا اور بولا، شازی، تم بہت پیاری اور سیکسی ہو۔ شازیہ بولی، بھائی، یہ غلط ہے۔ میں آپ کی بہن ہوں۔ میں بولا، بہن بھی تو بھائی کے سامنے ایسے سیکسی ڈریس میں آئی گی تو بھائی گرم نہیں ہوگا؟ اور نیچے سے لن شازیہ کی چوت کے ساتھ ٹچ تھا۔ میں نے شازیہ کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔ اف، کیا رسیلے ہونٹ تھے۔ تھوڑی دیر تک تو شازیہ نخرے کرتی رہی، لیکن اب وہ بھی فل گرم ہوگئی تھی اور اپنی چوت میرے لن سے رگڑتے ہوئے میرے ہونٹ چوس رہی تھی۔ میں نے شازیہ کو گود میں اٹھایا اور اس کے کمرے میں لے کر آگیا۔ شازیہ کو بیڈ پر لٹا کر اس کے اوپر لیٹ کر بہن کے رسیلے ہونٹوں کو چوسنے لگا۔ شازیہ بھی مست ہوکر میرا ساتھ دے رہی تھی۔

 

ہم دونوں کی زبانیں ایک دوسرے کے منہ میں تھیں۔ ایک دوسرے کی زبانوں کو چوس رہے تھے۔ شازیہ سیکس کی وجہ سے بہت گرم ہوگئی تھی اور مجھے اپنے ساتھ لپٹا کر نیچے سے چوت کو لن کے ساتھ رگڑ رہی تھی۔ میں اس کے اوپر سے اٹھا اور انڈرویئر اتار دیا۔ شازیہ نے لن کی طرف دیکھا تو بولی، بھائی، آپ کا تو بہت بڑا ہے۔ میں بولا، کیا؟ تو ہاتھ میں پکڑ کر بولی، یہ۔ میں بولا، اس کو کیا کہتے ہیں؟ شازیہ شرماتے ہوئے مجھے نہیں پتہ۔ میں بولا، شازی جان، جسے تم نے ہاتھ میں پکڑا ہے اسے لن کہتے ہیں۔ شازیہ بولی، بھائی، آپ کا لن بہت بڑا ہے۔ میں بولا، جان، اندر لوگی تو مزا بھی بہت آئے گا۔ میں تو پہلے ہی ننگا تھا۔ میں نے شازیہ کو اٹھایا اور شازیہ کے بھی کپڑے اتار دیے۔ اب کمرے میں دونوں بھائی بہن ننگے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ شازیہ کے 32 سائز کے ممے اور پنک نپل ایک شان سے کھڑے ہوئے تھے۔ شازیہ کا گورا اور بے داغ جسم چمک رہا تھا۔ چھوٹی سی چوت جس کی شازیہ نے آج ہی شیو کی تھی، کسی نگینے کی طرح لگ رہی تھی۔ گیلی چوت کی چمک ہی الگ ہوتی ہے جسے دیکھ کر آدمی پاگل ہوجائے۔ میں نے شازیہ کو بیڈ پر لیٹا دیا اور شازیہ کی ٹانگیں کھول کر اپنی بہن کی کنواری چوت کو چاٹنے لگا۔ میری زبان چوت سے ٹچ ہوتے ہی شازیہ نے ایک آہ بھری اور میرے سر کو پکڑ کر اپنی چوت پر دبا دیا اور میں زور شور سے اپنی بہن کی کنواری چوت کو چاٹنے لگا۔

 

شازیہ ٹانگیں کھول کر بیڈ پر لیٹی تھی اور میں شازیہ کی کنواری چوت کا رس پی رہا تھا۔ شازیہ بھی نیچے سے چوت اوپر کر رہی تھی۔ شازیہ اف، بھائی، آہ، اوہ، مزا آگیا اور چوسو۔ بہت مزا آرہا ہے۔ میں نے چوت سے منہ ہٹایا اور بولا، شازی جان، کیا چوسوں؟ شازیہ بولی، بھائی، آپ بہت بدتمیز ہو۔ میں بولا، جان، سیکس کے دوران جب تک ان کا نام نہ لیا جائے تو سیکس کا مزا نہیں آتا۔ شازیہ مجھے شرم آتی ہے۔ میں بولا، جان، اب شرم ختم کرو اور سیکس انجوائے کرو۔ شازیہ کی آنکھیں سیکس کی وجہ سے لال ہو رہی تھیں۔ میں بولا، جان، بولو نا۔ شازیہ بولی، اچھا بھائی، میری چوت کو چوسو۔ یہ سننا تھا کہ میں نے اس کی چکنی اور گیلی چوت کو پھر سے چاٹنا شروع کردیا۔ شازیہ ہاں بھائی، چاٹو اپنی بہن کی چوت۔ آہ، اس کی گرمی ختم کردو بھائی۔ بہت مزا آرہا ہے اور یہ کہتے ہوئے شازیہ نے اپنی گانڈ اوپر کردی۔ شازیہ کی پوری چوت میرے منہ پر تھی اور میں اپنی پیاری بہن کی کنواری چوت کو زبان سے چود رہا تھا۔ اسی دوران شازیہ کو ایک جھٹکا لگا اور وہ میرے منہ میں ہی فارغ ہوگئی۔ میں نے شازیہ کی چوت کو چاٹ کر صاف کیا اور شازیہ کے برابر لیٹ کر شازیہ کے ممے دبانے لگا اور اس کے ہونٹوں کو چوسنے لگا۔ میرا لن شازیہ کی ران کے ساتھ ٹچ تھا۔ میں نے پھر سے شازیہ کو گرم کیا۔ اب فائنل راؤنڈ کی باری تھی۔ شازیہ بھی میرے ہونٹوں کو چوس رہی تھی۔ میں نے شازیہ کا ہاتھ اپنے لن پر رکھ کر بولا، شازی، اسے بھی تو پیار کرو۔ شازی نے اپنے نرم ہاتھوں میں لن پکڑا اور بولی، بھائی، آپ کا لن بہت گرم ہو رہا ہے۔ میں بولا، جان، اب اسے چوت ہی ٹھنڈا کرے گی۔ شازیہ بولی، بھائی، اتنا موٹا اور لمبا آپ میری چوت میں ڈالیں گے تو بہت درد ہوگا۔ مجھے نہیں ڈلوانا۔ میں بولا، شازی جان، میں اپنی پیاری بہن کو بہت آرام سے چودوں گا۔ بس شروع میں تھوڑا برداشت کرنا پڑے گا، پھر مزا ہی مزا ہے۔ شازیہ میرے لن کو سہلاتے ہوئے بولی، بھائی، مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ میں بولا، شازی، میں ہوں نا تم۔ بس چودنے کی تیاری کرو اور بھائی کا لن بھی تو چوسنا ہے۔ شازی بولی، جیسے بھائی نے بہن کی چوت چوسی ہے تو بہن کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ بھی بھائی کا لن چوسے۔ اور شازی بیڈ سے اٹھی اور مجھے سیدھا لیٹا کر میری ٹانگوں کے بیچ میں آگئی۔ میں شازی کو اور شازی نے مجھے دیکھا اور ایک ادا سے اپنے کھلے بالوں کو پونی کی شکل میں باندھا اور میرے لن پر جھک گئی۔ شازی کی زبان جب میرے لن کے ٹوپے سے ٹکرائی تو بس میں تو ایک نئی دنیا میں پہنچ گیا اور پھر جب شازی نے لن کو چوسنا شروع کیا تو لن تو اور پھول گیا جس کی وجہ سے شازی کو پورا لن منہ میں لینے کی مشکل ہو رہی تھی، لیکن شازی بہت پیار سے اپنے بھائی کا لن چوس رہی تھی۔ یہ ایسا سین تھا کہ اس کی کوئی قیمت نہیں تھی۔ ایک بہن اپنے بھائی کا لن چوس رہی تھی۔ میری آنکھیں مزے کی وجہ سے بند تھیں۔ شازی بولی، بھائی، آپ کے لن کا جوس بہت مزے دار ہے۔ میں بولا، شازی، پورا جوس پی لو۔ یہ سنتے ہی شازی تیز تیز میرے لن کو چوسنے لگی۔ اب لن کو چوت چاہیے تھی۔ میں نے شازی کو اپنے اوپر کھینچا اور اسے پیار کرتے ہوئے بولا، شازی، اب چوت مارنی ہے۔ اب برداشت نہیں ہو رہا۔ اور شازی کو بیڈ پر سیدھا لیٹا کر میں نے شازی سے پوچھا، جان، تیل ہے؟ شازی بولی، جی بھائی، میری الماری میں ہے۔ میں نے شازی کی الماری کھولی اور تیل کی شیشی نکال کر لایا۔ پہلے بہت سارا تیل شازیہ کی کنواری چوت پر اندر تک لگایا اور پھر اپنے لن کو تیل لگایا اور شازیہ کے اوپر آگیا۔

 

لن کو چوت پر رکھا۔ تیل کی وجہ سے لن اور چوت دونوں چکنے ہو رہے تھے۔ لن کی ٹوپی جیسے ہی چوت میں گئی شازی بولی، بھائی، آرام سے۔ میں بولا، جان، بس تم حوصلہ کرو۔ شازی نے اپنے دونوں ہاتھوں سے مجھے پکڑا ہوا تھا۔ میں نے آہستہ آہستہ لن چوت میں اندر کرنے لگا۔ شازیہ کی کنواری چوت میں لن تھوڑا ہی اندر گیا شازیہ بولی، بھائی، درد ہو رہا ہے۔ میں رک گیا اور شازیہ کے ہونٹ چوسنے لگا۔ کچھ لمحوں کے بعد لن اور اندر کیا جو اندر ایک جگہ رک گیا۔ اب شازیہ کی سیل ٹوٹنے کا ٹائم آگیا تھا۔ میں نے لن تھوڑا سا پیچھے کیا اور ایک دھکا مارا اور لن شازیہ کی سیل توڑتا ہوا پورا اندر بچہ دانی سے جاکر لگا۔ جیسے ہی شازیہ کی سیل ٹوٹی شازیہ کسی مچھلی کی طرح تڑپنے لگی۔

 

بھائی، نکالو۔ اوہ، میں مر جاؤنگی بھائی پلیز۔ بہت درد ہو رہا ہے۔ میں نے شازیہ کے نپل منہ میں لے کر چوسنے لگا اور لن کو ایسے ہی رہنے دیا۔ دونوں مموں کو چوسنے کے بعد شازیہ کو کچھ درد کم ہوا۔ میں نے دیکھا شازیہ کا چہرہ پیلا ہوگیا تھا درد کی وجہ سے۔ میں بولا، جان، بولو درد کم ہوا؟ شازی نے صرف گردن ہلائی اور بولی، کچھ نہیں۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ میں نے اپنی بہن کے آنسو صاف کیے اور بولا، بس میری شہزادی، اب مزا آئے گا۔ اور شازیہ کے ہونٹوں کو چوستے ہوئے لن اندر باہر کرنے لگا۔ اب شازیہ کی حالت نارمل ہوگئی تھی۔ میں تھوڑا اوپر ہوا اور بولا، جان، اب تو درد نہیں ہے؟ شازیہ نے آنکھیں کھولیں اور میرے سینے پر مکہ مارتے ہوئے بولی، بھائی، بہت بدتمیز ہیں آپ۔ میں بولا، جان، بس اب چودائی انجوائے کرو۔ جو درد ہونا تھا وہ ہوگیا۔

 

اور پھر میں نے اپنی بہن کی چودائی شروع کردی اور اب شازیہ کو بھی مزا آرہا تھا۔ شازیہ بولی، بھائی، اور تیز۔ اف، مزا آرہا ہے۔ چودو اور زور سے۔ آہ، بہت مزا آرہا ہے۔ میں جھٹکے زور سے مار رہا تھا۔ بیڈ بھی زور زور سے ہل رہا تھا۔ ہم بھائی بہن مزے دار چودائی میں مصروف تھے۔ اسی وقت شازیہ کے موبائل کی بیل بجنے لگی۔ موبائل دیکھا تو امی کی کال تھی۔ میں نے شازیہ کو منع کیا کہ ابھی نہیں اٹھانا۔ بیل کچھ دیر بجتی رہی پھر امی کی کال میرے موبائل پر آنے لگی۔ میں نے بھی کال اٹینڈ نہیں کی اور شازیہ کی چودائی جاری رکھی اور شازیہ بھی نیچے سے چوت اٹھا کر چدوا رہی تھی۔ اب شازیہ نے سختی کے ساتھ میرے ساتھ لپٹ گئی تھی اور اب اس کی چوت نے میرے لن کو پکڑ لیا تھا۔ شازیہ کی چوت نے پانی چھوڑ دیا تھا۔ اب مجھ سے بھی برداشت نہیں ہوا اور میں بھی اپنی بہن کی چوت میں منی کا سیلاب نکال دیا اور چوت کے اندر فارغ ہونے کا اپنا ہی مزا ہے۔ ہم دونوں کی سانسیں ہانپ رہی تھیں اور دونوں بھائی بہن پسینے میں نہائے ہوئے تھے۔ میں شازیہ کے اوپر سے اٹھ کر شازیہ کے برابر لیٹ گیا۔ شازیہ آنکھیں بند کرکے بے سدھ پڑی تھی۔ میں نے شازیہ کو پیار کیا اور بولا، جان، شکریہ اور لو یو۔ شازیہ بولی، بھائی، آج آپ نے مجھے لڑکی سے عورت بنادیا۔ اب تو میں آپ کی غلام ہوگئی ہوں۔ میں بولا، شازی جان، غلام نہیں، آج سے تم میری بیگم ہوگی ہو اور آج رات ہم دونوں آپس میں نکاح کرکے میاں بیوی بن جائیں گے۔ شازیہ نے شرماتے ہوئے بولا، کیا تو ابھی جو ہوا وہ کیا تھا؟ میں بولا، جان، یہ تو بس ایسے ہی تھا۔ اصل سہاگ رات ہم رات کو منائیں گے جب میری بیوی دلہن کی طرح تیار ہوگی۔ ہم باتیں کر رہے تھے کہ امی کی کال دوبارہ شازیہ کے موبائل پر آگئی۔ امی شازیہ سے پوچھنے لگیں کہ کہاں تھیں؟ نہ تم نے فون اٹینڈ کیا اور نہ کامران نے۔ تو شازیہ بولی، امی، میں کچن میں تھی اور بھائی تو اوپر اپنے کمرے میں سو رہے ہیں۔ امی نے خیر خیریت پوچھی اور کہا کہ کل آجائیں گی۔ نانی کی طبیعت ٹھیک ہے۔ فون رکھنے کے بعد شازیہ بولی، بھائی، آپ کو ایک بات بتانی ہے۔ میں بولا، جی جان، بولو۔ شازیہ کہنے لگی کہ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ آپ کو بتاؤں یہ نہیں۔ میں بولا، نہیں، جو بھی بات ہے تم بتاؤ تو۔ شازیہ بولی، آپ وعدہ کریں امی سے اس بات کے بارے میں کوئی بات نہیں کریں گے۔ میں بولا، تم بتاؤ تو سہی۔ شازیہ بولی، بھائی، امی بھی ماموں سے چدواتی ہیں اور ماموں جو امی کو گھر لے کر گئے ہیں وہ اسی لیے لے کر گئے ہیں۔ میں یہ سنتے ہی اٹھ کر بیٹھ گیا اور بولا، شازیہ، تمہیں پتہ ہے تم کیا کہ رہی ہو؟ شازیہ بولی، بھائی، میں ٹھیک کہ رہی ہوں اور میں نے کئی بار چھپ کر امی اور ماموں کو یہ کرتے دیکھا ہے۔ شازیہ کی بات سن کر تو میرا دماغ ماوف ہوگیا۔ میں یہ بات سن کر شازیہ کی شکل دیکھ رہا تھا کہ امی اپنے بھائی سے چدواتی ہیں۔ شازی بولی، بھائی، امی بھی ایک عورت ہیں اور ابو تو کرونا کی وجہ سے نہیں آسکے تو امی کو بھی سیکس چاہیے ہے اور امی نے کہیں باہر تو اپنی عزت خراب نہیں کی اور گھر میں اپنے بھائی کے ساتھ ہی کیا ہے۔ نہ تو گھر کی بات گھر میں رہے گی اور ابھی آپ نے بھی تو اپنی بہن کو چودا ہے۔ میں بولا، تو تم نے بھی مجھ سے اس لیے چدوائی کروائی ہے کہ امی نے اپنے بھائی سے کروائی ہے تو تم نے بھی اپنے بھائی سے کروا لیا۔

 

شازیہ بولی، بھائی، میں تو آپ کو بہت پیار کرتی ہوں اور آج جب آپ اپنے کمرے میں لن کو پکڑ کر مووی دیکھ رہے تھے تو مجھے لگا میں اپنے بھائی کی مدد کروں۔ میرے بھائی کو ایک چوت چاہیے ہے۔ بس، تبھی سے میں نے سوچا کہ میں اپنی کنواری چوت اپنے بھائی کو دوں گی۔ اور مجھ سے لپٹتے ہوئے بولی، بھائی، بس اب آپ میرے ہو اور مجھے پیار کرتے ہوئے بولی کہ امی کے ٹاپک پر پھر بات کریں گے۔ مجھے پیشاب آرہا ہے۔ میں واش روم جا رہی ہوں۔ جب شازیہ اٹھی تو آہ کرکے بیٹھ گئی۔ میں بولا، کیا ہوا؟ تو بولی، بھائی، کھڑا نہیں ہو رہا۔ میں بیڈ سے اٹھا اور اسے سہارا دے کر کھڑا کیا تو اس کی نظر بیڈ شیٹ پر پڑی تو بولی، یہ بیڈ پر خون کے نشان ہیں۔ یہ ہم دونوں کے پیار کی نشانی ہے۔ اسے تو میں الماری میں چھپا کر رکھوں گی۔ شازیہ سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا۔ شازیہ کو سہارا دے کر واش روم لے گیا۔ اسے کموڈ پر بٹھایا تو اس نے پیشاب کرنا شروع کردیا۔ پیشاب کے ساتھ میری منی بھی باہر نکل رہی تھی۔ شازیہ بولی، بھائی، آپ اندر ہی فارغ ہوگئے تھے۔ کہیں میں پریگننٹ نہ ہوجاؤں۔ میں بولا، شازی، میں شام میں تم کو ٹیبلیٹ لا دوں گا۔ تم کھا لینا۔ شازیہ نے ہانی سے چوت صاف کی اور بولی، بھائی، ابھی تک درد ہو رہا ہے اور آپ رات کو سہاگ رات منانے کا کہ رہے ہیں۔ میں بولا، جان، رات تک درد کم ہوجائے گا۔ اب تم نہا لو۔ میں بھی نہا کر آتا ہوں۔ شازیہ نے میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی، ہم دونوں ایک ساتھ ہی نہاتے ہیں۔ اب تو ہم دونوں ایک ہوگئے ہیں۔ اور یہ کہتے ہوئے شازیہ نے شاور آن کردیا۔ ہم دونوں ایک ساتھ نہا کر کمرے میں آگئے۔ شازیہ نے ڈریس چینج کیا اور میں اوپر اپنا ٹراؤزر پہن کر چلا گیا۔

 

میں اپنے کمرے سے ٹراؤزر پہن کر نیچے آیا تو شازیہ بھی ٹراؤزر اور ٹی شرٹ میں لاؤنج میں بیٹھی تھی۔ اسے دیکھ کر میں بولا، جان، بہت پیاری اور گلاب کا پھول لگ رہی ہو۔ شازیہ بولی، بھائی، گلاب کا پھول آپ نے ہی بنایا ہے۔ شازیہ کے چہرے پر ایک عجیب سا نکھار آگیا تھا۔ میں نے شازیہ کو پیار کیا اور بولا، جان، بھوک لگی ہے۔ شازیہ بولی، بھائی، سالن جو بنا رہی تھی وہ تو سارا جل گیا۔ ہم دونوں پیار میں جو مصروف ہوگئے تھے۔ میں بولا، چلو کوئی بات نہیں۔ کرونا کی وجہ سے ہوٹل تو بند ہیں۔ فوڈ پانڈا سے کچھ منگوا لیتے ہیں۔ میں نے فوڈ پانڈا پر کھانے کا آرڈر دیا اور شازیہ کے پاس بیٹھ گیا اور بولا، جان، یہ بتاؤ امی کا چکر ماموں کے ساتھ کب سے چل رہا ہے؟ شازیہ بولی، بھائی، مجھے لگتا ہے ابو سے شادی سے پہلے ہی امی ماموں سے چدوا چکی ہونگی، لیکن جب سے ابو باہر گئے ہیں امی ماموں ہفتے میں ایک دو دفعہ تو کرتے ہیں۔ میں بولا، اب کیا کریں؟ شازی بولی، بھائی، ایک بات کہوں؟ میں بولا، جی جان۔ شازیہ بولی، بھائی، امی ماموں سے کرواتی ہیں۔ کبھی ماموں ہمارے گھر آکر کرتے ہیں اور کبھی ان کو بہانے سے اپنے گھر لے جاتے ہیں۔ میں بولا، تو پھر کیا کریں؟ تو شازیہ بولی، بھائی، آپ بھی امی کی پیاس بجھا دیں۔ آپ کو وہ پہلے شاندار اور جاندار ہے۔ امی خوش ہوجائیں گی۔ میں بولا، جان، یہ اتنا آسان نہیں ہے جتنا تم سمجھ رہی ہو۔ امی مجھے گھر سے نکال دیں گی۔ شازیہ بولی، لیکن آپ اس پر کچھ غور کریں۔ ہم باتیں کر رہے تھے کہ ڈور بیل بجی۔ میں باہر گیا تو فوڈ پانڈا والا کھانا لے کر آیا تھا۔ میں نے اس سے کھانا لیا اور اندر آگیا۔ ہم دونوں نے ساتھ کھانا کھایا۔ کھانا کھانے کے بعد شازیہ بولی، بھائی، مجھے بہت تھکن ہو رہی ہے اور نیند بھی آرہی ہے۔ میں سونے جا رہی ہوں اور آپ بھی آجائیں۔ آپ سے لپٹ کر سو جاؤنگی۔ میں بولا، اوکے جی۔ ہم دونوں بیڈ پر لیٹ گئے اور میں نے شازیہ کو لپٹا لیا اور کچھ دیر بعد ہم دونوں نیند کے آغوش میں چلے گئے۔

 

رات 8 بجے موبائل کی بیل سے آنکھ کھلی جو پتہ نہیں کب سے بج رہا تھا۔ موبائل دیکھا تو امی کی کال تھی۔ موبائل اٹینڈ کرکے میں بولا، جی امی۔ دوسری طرف امی کی غصے سے بھری ہوئی آواز میں بولیں کہ کہاں ہو تم دونوں؟ نہ شازیہ کال اٹھا رہی نہ تم۔ کیا ہوا ہے؟ فون کیوں نہیں اٹھا رہے تھے؟ میں بولا، امی، میں تو سو رہا تھا اور مجھے لگتا ہے شازیہ بھی سو رہی ہوگی۔ امی غصے سے بولیں، یہ کوئی ٹائم ہے؟ رات کے 8 بج رہے ہیں۔ تم اور فون نہ اٹھاتے تو میں تمہارے ماموں کے ساتھ گھر آتی۔ پتہ نہیں کیا کھا کر سوئے تھے۔ اب میں امی کو کیا بتاتا کہ بہن کی چودائی کرکے سویا تھا۔ امی بولیں، نیچے جاؤ اور شازیہ کو اٹھا کر میری بات کرواؤ۔ میں بولا، جی امی، کرواتا ہوں۔ اور امی نے فون بند کردیا۔ میں واش روم گیا، فریش ہوکر نیچے آیا تو شازیہ بے خبر سو رہی تھی۔ شازیہ سوتے ہوئے بہت پیاری لگ رہی تھی۔

 

میں نے شازیہ کو آواز دی، شازی جان، اٹھ جاؤ۔ 8 بج گئے ہیں۔ شازیہ کے ہونٹوں پر کس کی تو شازیہ نے آنکھیں کھولیں اور بولی، بھائی، سونے دیں نا۔ میں بولا، جان، اٹھ جاؤ۔ امی نے کافی کال کی ہیں اور میں بھی سو رہا تھا اور تم نے بھی فون اٹینڈ نہیں کیا۔ وہ غصے میں تھیں۔ شازیہ بولی، بھائی، آپ کے پیار کا نشہ ہی ایسا تھا کہ ٹائم کا پتہ ہی نہیں چلا۔ شازی اٹھ کر بیٹھ گئی اور اپنے موبائل کو دیکھا تو بولی، اف، امی نے کتنی کال کیں ہیں۔ شازیہ نے امی کو کال کی۔ امی نے بھی اس سے غصہ کرنے لگی کہ فون کا کوئی ریپلائی نہیں کر رہا تھا۔ امی نے تھوڑی دیر بات کی اور پھر فون کاٹ دیا۔

 

شازیہ بیڈ سے اٹھ کر مجھ سے لپٹ گئی اور بولی، بھائی، آپ کے پیار کا ایسا نشہ تھا کہ میں بتا نہیں سکتی۔ میں نے بھی اسے اپنے ساتھ ٹائٹ سے لپٹاتے ہوئے بولا، جان، اب اپنی بہن کو یہ نشہ روز ملے گا۔ شازیہ بولی، بھائی، امی آجائیں گی تو مشکل ہوجائے گی۔ میں بولا کہ جان کوئی راستہ نکال لوں گا۔ چلو تم فریش ہو جاؤ پھر کھانا کھاتے ہیں۔ شازیہ مجھے کس کرکے واش روم چلی گئی۔ میں شازیہ کے کمرے سے باہر آیا اور ٹی وی آن کرکے نیوز دیکھنے لگا۔ شازیہ بھی نہا کر لاؤنج میں آگئی۔ شازیہ بولی، بھائی، بہت بھوک لگ رہی ہے۔ 9 بج رہے ہیں۔ میں بولا، جان، پیزا آرڈر کر دیتے ہیں اور میں میڈیکل سٹور سے تمہارے لیے میڈیسن بھی لے آتا ہوں۔ شازی بولی، ٹھیک ہے بھائی، آپ میڈیسن لے آئیں۔ جب تک میں پیزا آرڈر کر دیتی ہوں۔ میں نے کہا، ٹھیک اور آج ہماری سہاگ رات بھی ہے۔ شازی شرماتے ہوئے بولی، اچھا، ابھی تو آپ جائیں۔ میں اس کے قریب گیا اور شازی کو پیار کرتے ہوئے بولا، جان، میں آتا ہوں۔ تم دلہن کی طرح تیار ہو جاؤ۔ شازی بولی، بھائی، دیر ہو رہی ہے۔ آپ جائیں۔ آپ کی دلہن تیار ہوجائے گی۔ میں نے بائیک نکالی اور مارکیٹ چلا گیا۔ میڈیکل سٹور سے مانع حمل گولیاں لیں۔ جب میڈیکل سٹور سے نکلنے لگا تو ایک بچہ موتیے اور گلاب کے ہار لیے کھڑا تھا۔ میں نے اس سے موتیے اور گلاب کے سارے ہار لیے اور گھر پہنچ گیا۔ شازیہ نے گیٹ کھولا اور اندر چلی گئی۔ پیزا بھی آگیا تھا۔ میں نے شازیہ سے پوچھا، جان، تیار نہیں ہوئیں؟ شازیہ بولی، بھائی، بس پیزا کھا کر ہوتی ہوں۔

 

شازیہ کچن میں پیزا نکالنے لگی۔ میں نے ہاروں والا شاپر اوپر اپنے کمرے میں رکھ کر نیچے آگیا۔ شازیہ پیزا اور کولڈ ڈرنک ٹیبل پر لگا چکی تھی۔ شازیہ بولی، بھائی، امی کے بارے میں کیا سوچا؟ میں بولا، شازی، اب تم نے کیا ہے تو امی کے بارے میں بھی کچھ سوچتے ہیں اور سہی بات تو یہ ہے کہ میں نے امی کو کبھی اس نظر سے نہیں دیکھا۔ تو شازی بولی، اور مجھے؟ میں بولا، جان، آج ہم دونوں اکیلے تھے اور تم بھی مجھ سے چدوانا چاہتی تھیں تو اس طرح کام آسان ہوگیا۔ امی والا کام مشکل ہے۔ شازیہ بولی، بھائی، امی کو ایک عورت کی نظر سے دیکھیں۔ امی بہت سیکسی اور گرم ہیں۔ ان کو بھی چود کر آپ کو مزا آئے گا۔ میں بولا، ٹھیک ہے۔ گھر کے لیے تو یہ کرنا پڑے گا تاکہ امی کو اپنی پیاس کہیں اور بجھانے نہ جانا پڑے۔ شازیہ بولی، جی بھائی، میں بھی یہی چاہتی ہوں کہ ہم دونوں آپ کی بیویاں بن جائیں گی۔ میں بولا، ٹھیک ہے، لیکن میری پہلی بیوی تم ہوگی ہو اور امی دوسری۔ شازیہ مسکراتے ہوئے بولی، واہ بھائی، دو بیویوں کے مزے لوگے۔ میں بولا، ابھی تو اپنی پہلی بیوی کے ساتھ مزے لینے ہیں۔ آج سہاگ رات میرے کمرے میں ہوگی۔ جان، تم تیار ہوکر میرے کمرے میں آجاؤ۔ شازیہ بولی، ٹھیک ہے بھائی، آپ کمرے میں چلے جائیں۔ آپ کی دلہن تیار ہوکر آتی ہے۔ میں اپنے کمرے میں آیا۔ اے سی آن کیا۔ بیڈ شیٹ چینج کی اور پورے بیڈ پر گلاب کی پتیاں بچھا دیں اور دروازے کے پاس بھی بہت ساری پتیاں بچھا دیں۔ آج ایک بھائی کی اپنی بہن کے ساتھ سہاگ رات تھی۔ میں بھی نہا کر تیار ہوا اور شیروانی کرتا اور پاجامہ پہن کر اپنی دلہن کا انتظار کر رہا تھا کہ موبائل کی بیل بجی۔ امی کی کال تھی۔ میں نے فون اٹینڈ کیا اور بولا، جی امی۔ امی بولیں، کہاں ہو؟ میں بولا، اپنے کمرے میں۔ امی بولیں، اور شازیہ؟ میں بولا، وہ نیچے ہوگی۔ امی کہنے لگیں، وہ فون نہیں اٹھا رہی۔ میں بولا، امی، کوئی کام کر رہی ہوگی۔ آپ دوبارہ کر لیں۔ مجھے لگ رہا تھا کہ کہیں امی کو کوئی شک تو نہیں ہوگیا ہے، لیکن اب تو جو ہونا تھا وہ ہوگیا ہے۔ کہ میرے موبائل پر پھر بیل بجی۔ دیکھا تو شازیہ کی کال تھی۔ میں نے کال اٹینڈ کی اور بولا، جی جان۔ شازیہ بولی، اپنی دلہن کو آکر لے جائیں۔ وہ تیار ہے۔ میں بولا، شازی، میں نیچے آرہا ہوں۔ میں نے فون بند کیا اور اپنی دلہن کو لینے نیچے چلا گیا۔ جب میں شازیہ کے کمرے میں گیا تو شازیہ کو دیکھتے ہی میرے ہوش اڑ گئے۔ وہ سرخ جوڑے میں گھونگھٹ نکال کر بیٹھی ہوئی تھی۔ میں اس کے پاس گیا۔ اس کے ہاتھوں کو پکڑ کر کھڑا کیا۔ اس نے سرخ لہنگا اور سرخ شرٹ پر ہلکا سا میک اپ۔ شازیہ اور ہونٹوں پر لال لپ اسٹک۔ اوف، شازیہ دلہن بنی بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ شازیہ نظریں نیچے کیے ہوئے تھی۔ میں نے شازیہ کے ماتھے پر کس کی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اوپر لے کر چل پڑا، لیکن اسے لہنگے کی وجہ سے چلنے میں مشکل ہو رہی تھی تو میں نے شازیہ کو گود میں اٹھا لیا اور اپنے کمرے میں لے آیا۔ شازیہ نے جب کمرہ دیکھا بولی، واہ بھائی، یہ کب کیا؟ میں بولا، جان، جب تم تیار ہو رہی تھیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے اتنا ہی کر سکا کیونکہ یہ ہم دونوں کی پہلی سہاگ رات ہے۔ میں نے شازیہ کو بیڈ پر بٹھایا۔ شازیہ بولی، بھائی، آپ بھی بہت پیارے لگ رہے ہیں۔ میں شازیہ کے ساتھ بیٹھا اور اپنی اور شازیہ کی سیلفی لیں۔ میں نے کہا، ان حسین لمحات کو ہم نے محفوظ کرلیا ہے۔ اور اس کے بعد میں نے شازیہ کے سرخ ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے اور شازیہ کے ہونٹوں کو چوسنے لگا۔ شازیہ بھی میرے ہونٹوں کو چوس رہی تھی۔ 4، 5 منٹ تک ہم فرنچ کسنگ کرتے رہے۔ پھر میں نے شازیہ کی جیولری اتاری تو شازیہ بولی، بھائی، میری منہ دکھائی؟ میں بولا، جان، وہ بھی مل جائے گی۔ شازیہ بولی، بھائی، سہاگ رات منانے سے پہلے نکاح تو کر لیں۔ میں نے شازیہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ کر کہا، شازیہ ولد... تم کامران شاہد کے نکاح میں دی جاتی ہو۔ کیا قبول ہے؟ شازیہ نے گردن ہاں میں ہلا دی اور تین دفعہ میں نے یہ بولا اور شازیہ نے ہاں میں گردن ہلا دی اور مجھ سے لپٹ کر مجھے پیار کرنے لگی۔ شازیہ بولی، کامران، لو یو۔ آج سے میں آپ کی بیوی بن گئی ہوں۔ آج سے آپ میرے جسم کے مالک بن گئے ہیں۔ میں اور شازیہ دونوں ایک دوسرے کو بانہوں میں لے کر پیار کر رہے تھے۔ شازیہ کے جسم سے خوشبو مجھے دیوانہ کر رہی تھی۔ میں بولا، جان، تمہارے کپڑے اتار دوں؟ شازیہ بیڈ سے کھڑی ہوگئی۔ میں نے اسے کس کیا اور شازیہ کی شرٹ اتاری۔ شازیہ نے بلیک بریزیئر پہنا ہوا تھا جو اس کے گورے جسم پر بہت سیکسی لگ رہا تھا۔ شرٹ اتارنے کے بعد میں نے شازیہ کا لہنگا بھی اتار دیا۔ شازیہ بولی، کامران، تمہارے کپڑے میں اتاروں گی۔ میں سیدھا کھڑا ہوگیا۔ شازیہ نے میری شرٹ اور بنیان اتار دی۔ پھر میرا پاجامہ بھی اتار دیا۔ مجھے ننگا کرکے شازیہ مجھ سے لپٹ گئی اور ہم دونوں کی زبانیں ایک دوسرے کے منہ میں تھیں۔ نیچے سے لن اور چوت آپس میں مل رہے تھے۔ شازی کے ممے میرے سینے میں دبے ہوئے تھے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو پاگلوں کی طرح پیار کر رہے تھے۔ بھائی بہن کے ننگے جسم ایک دوسرے کے ساتھ لپٹے ہوئے تھے۔ میں نے پیار کرتے ہوئے شازیہ کو بیڈ پر لیٹا دیا۔ شازیہ کی بریزیئر اتار دی۔ شازیہ کے ممے ایک شان سے بریزیئر کی قید سے آزاد ہوگئے۔ چھوٹے چھوٹے پنک نپل جو اکڑ کر سخت ہوگئے تھے۔ میں نے شازیہ کے پورے جسم پر ہاتھ پھیرتے ہوئے شازیہ کے نپل کو منہ میں لے لیا۔ نپل منہ میں جاتے ہی شازیہ نے اف کہا اور میرے سر کو مموں پر دباتے ہوئے بولی، کامران، چوسو میرے ممے اور نپل بڑے کر دو۔ آہ، بہت مزا آرہا ہے۔ میں شازیہ کے ممے چوس رہا تھا اور ایک ہاتھ سے شازیہ کی چکنی چوت کو سہلا رہا تھا۔ شازیہ بہت گرم ہوگئی تھی اور چوت گیلی ہو رہی تھی۔ میں مموں سے پیار کرتا ہوا نیچے آیا۔ شازیہ کے پورے جسم کو پیار کرتے ہوئے شازیہ کی چوت پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔ چوت پر ہونٹ رکھتے ہی شازیہ نے ایک آہ لی اور میرا سر چوت پر دباتے ہوئے بولی، جانی، بہن کی چوت کا جوس پی لو۔ اف، بہت مزا آرہا ہے۔ چوسو چوت کو کھا جاؤ۔ چوت کو اب میں نے انگلیوں سے کھولا اور زبان چوت کے اندر ڈال دی۔ زبان چوت کے اندر جاتے ہی شازی نے اپنی گانڈ اوپر اٹھا کر چوت کو میرے منہ سے لگا دی۔ شازی نے گانڈ اوپر کی ہوئی تھی۔ اوہ بھائی، آہ، اور اور چوسو۔ لو یو بھائی، مزا آگیا۔ شازیہ نے ایک جھٹکا لیا اور شازیہ میرے منہ میں فارغ ہوگئی۔ شازی کی چوت سے نکلنے والا مزے دار پانی پی گیا۔ شازیہ کی چوت کو ٹھنڈا کرنے کے بعد اس کے اوپر آیا اور اس کے ہونٹوں کو چوسنے لگا۔ شازیہ بولی، کامران، تم انگلش مووی دیکھ دیکھ کر بہت ایکسپرٹ ہوگئے ہو۔ میں بولا، جان، یہ تو تمہاری کنواری چوت کا کمال ہے کہ دل کرتا ہے چوستا رہوں۔ شازی بولی، بھائی، اب آپ سیدھا لیٹو۔ میں آپ کا لن چوستی ہوں۔ میں سیدھا لیٹ گیا اور شازی میری ٹانگوں کے بیچ میں آئی اور میرے لن کی ٹوپی پر زبان پھیرتے ہوئے بولی، کیسا لگا؟ میں بولا، جان، بہت اچھا۔ شازی بولی، بھائی، میں بھی آپ کا لن چوس کر آپ کو بھی مزا دوں گی۔ اور یہ کہتے ہوئے شازیہ نے میرے لن کو منہ میں لے کر چوسنا شروع کیا۔ شازیہ لن چوستے ہوئے بہت سیکسی لگ رہی تھی۔ شازیہ تم چوت میرے منہ پر رکھو اور ہم دونوں ایک دوسرے کو مزا دیں گے۔ ہم دونوں 69 کی پوزیشن میں آگئے۔ میں شازیہ کی چوت کو چاٹ رہا تھا اور شازیہ میرے لن کو چوس رہی تھی۔

 

ہم دونوں 69 کی پوزیشن میں آگئے۔ میں شازیہ کی چوت کو چاٹ رہا تھا اور شازیہ میرے لن کو چوس رہی تھی۔ شازیہ کی چوت میں زبان ڈال کر چوت کا جوس پی رہا تھا۔ ادھر شازیہ میرے لن کا چوپا لگانے میں لگی ہوئی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد شازیہ میرے اوپر سے اٹھ اور بولی، جانی، بس اب برداشت نہیں ہو رہا۔ اور سیدھی لیٹ کر بولی، جانی، اندر ڈال دو۔ میں بولا، جان، پوری بات کرو۔ کیا اندر ڈال دوں؟ شازیہ نے لن کو ہاتھ میں پکڑتے ہوئے بولی، جانی، اپنا موٹا اور لمبا لن بہن کی چوت میں ڈال دو۔ آج چودو اسے۔ آج ہماری سہاگ رات ہے۔ میں شازیہ کے اوپر آیا اور لن شازیہ کی گیلی چوت کے اندر کر دیا۔ شازیہ کی چوت رس سے بھری ہوئی تھی اور ایک ہی جھٹکے میں لن شازیہ کی چوت میں پورا چلا گیا۔ شازیہ اف بھائی، ایک دم ہی پورا اندر کر دیا۔ ابھی اندر باہر نہیں کرو۔ تھوڑا رکو۔ میں نے لن کو چوت کے اندر رہنے دیا۔ پھر شازیہ بولی، جانی، اب آہستہ اندر باہر کرو۔

 

میں نے لن کو اندر باہر کرنا شروع کردیا۔ اب شازیہ نارمل ہوگئی تھی اور بولی، جانی، اب تیز تیز چودو۔ بس پھر کیا تھا، میں نے شازیہ کی دونوں ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھیں اور شازیہ کی چودائی شروع کردی۔ اب شازیہ بھی چودائی کا پورا مزا لے رہی تھی۔ آہ اف جانی، چودو اپنی بہن کو۔ اف، بہت مزا آرہا ہے۔ مجھے کلی سے گلاب بنا دو اور اپنی گانڈ اٹھانے لگی۔ میں شازیہ کے اوپر جھک کر شازیہ کی زبان چوسنے لگا اور لن چوت کے اندر باہر ہو رہا تھا۔ ہم دونوں کے جسم پسینہ پسینہ ہو رہے تھے۔ لگ ہی نہیں رہا کہ اے سی چل رہا ہے۔ کمرے میں شازیہ کی سسکیاں اور چودائی کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ اب اس پوزیشن میں شازیہ تھک گئی تھی۔ میں نے اس کی دونوں ٹانگیں نیچے کیں اور شازیہ کو اپنے ساتھ لپٹا کر چودائی شروع کی۔ شازیہ بولی، بھائی، اگر امی یہ لن اپنی چوت میں لیں گی تو وہ تو آپ کی دیوانی ہوجائیں گی۔ میں بولا، جان، ابھی تو تم چودائی کا مزا لو۔

 

شازیہ بولی، بھائی، آپ کے لن نے میری چوت کا افتتاح کیا ہے۔ اب یہ لن میرا ہے۔ مجھے پہلے پتہ ہوتا تو پہلے ہی آپ کا لن چوت میں لے لیتی۔ اس کے نپل چوستے ہوئے چودائی کا مزا ہی الگ تھا۔ میں نے شازیہ کی چوت سے لن نکالا اور شازیہ کو گھوڑی بنا کر پیچھے سے شازیہ کی چوت میں لن ڈال کر شازیہ کے اوپر چڑھ گیا اور شازیہ کی ٹائٹ چوت چودنے لگا۔ شازیہ بولی، بھائی، میرے ساتھ فارغ ہو نا۔ میں بولا، جی جان۔ میرا لن شازیہ کی بچہ دانی پر دستک دے رہا تھا اور شازیہ بولی، بھائی، اور تیز چودو۔ فک می فاسٹ۔ اور یہ کہتے ہوئے بولی، بھائی، میں آرہی ہوں۔ آپ بھی اپنی منی میری چوت میں نکال دو۔ آہ اف لو یو کامران۔ اوئی۔ اور شازیہ فارغ ہوگئی۔ شازیہ کی چوت کی گرمی نے بھی میرے لن کی بس کردی اور میرے لن سے بھی منی کا سیلاب نکلا اور شازیہ کی چوت کو بھرنے لگا۔ شازیہ کی چوت نے میرے پورے لن کو دبا کر اچھی طرح نچوڑ لیا اور جب میرا لن باہر نکلا تو لن پر شازیہ کی چوت نے صاف کردیا تھا۔ میں تھک کر سیدھا لیٹ گیا اور شازیہ الٹی لیٹی لمبی لمبی سانسیں لے رہی تھی۔ جب اس کی سانسیں کچھ بحال ہوئیں تو میری طرف کروٹ لے کر مجھے کس کرتے ہوئے بولی، جانی، سہاگ رات مبارک ہو۔ میں نے شازیہ کو ساتھ لپٹاتے ہوئے بولا، جان، تم کو بھی۔ شازیہ کی آنکھیں لال ہو رہی تھیں۔ میں بولا، جان، تم تو بہت گرم ہو۔ شازیہ بولی، بہن کس کی ہوں اور امی تو مجھ سے زیادہ گرم ہیں کیونکہ وہ تجربہ کار ہیں۔ میں بولا، جان، اب تو تم بھی چودائی شاندار کرواتی ہو۔ شازیہ بولی، جانی، ہیشاب آرہا ہے۔ میں بولا، چلو جان، میں خود کروتا ہوں۔ شازیہ کو ہاتھ پکڑ کر اٹھایا۔ شازیہ کو ابھی بھی چلنے میں مشکل تھی۔ اسے سہارا دے کر واش روم لے کر گیا اور کموڈ پر بٹھا دیا۔ شازیہ نے مجھے اپنے قریب کیا اور مرجھائے ہوئے لن کو چوستے ہوئے پیشاب کر رہی تھی۔ شازیہ کا یہ انداز بہت سیکسی تھا کہ وہ پیشاب کرتے ہوئے میرا لن بھی چوس رہی تھی۔ شازیہ نے جب پیشاب کرلیا تو لن منہ سے نکال کر بولی، بھائی، آج تو ایک نیا مزا ملا۔ اب چودائی کے بعد جب بھی پیشاب کروں گی آپ کا لن منہ میں لے کر چوسوں گی۔ میں بولا، شازی، اب یہ لن تمہارا ہے۔ جو کہو گی جان، وہی ہوگا۔ شازیہ نے اپنی چوت صاف کی اور بولی، جان، اپنی دلہن کا کیا حال کردیا ہے۔ اب مجھے گود میں اٹھا کر بیڈ پر لے کر چلو۔ میں نے شازیہ کو گود میں اٹھا لیا اور بیڈ پر لیٹا دیا۔ شازیہ کو بیڈ پر لیٹا رہا تھا تو موبائل کی بیل بجی۔ ٹائم دیکھا تو گیارہ بج رہے تھے۔ مطلب ہم دونوں دو گھنٹے سے چودائی میں مصروف تھے۔ کال امی کی تھی۔ میں نے فون اٹینڈ کیا اور بولا، جی امی۔

 

امی کہاں ہو؟ میں بولا، اپنے کمرے میں اور شازیہ؟ میں بولا، وہ نیچے ہوگی۔ امی بولیں کہ وہ فون نہیں اٹھا رہی۔ میں بولا، امی، سو گئی ہوگی۔ امی بولیں، اتنی جلدی تو نہیں سوتی۔ میں بولا، امی، تھک گئی ہوگی۔ آپ کہتی ہیں تو نیچے جاکر اٹھا دوں۔ شازیہ یہ سب سنتے ہوئے مسکرا رہی تھی اور اسی دوران شازیہ نے میرا لن منہ میں لے لیا۔ میرے منہ سے سسکی نکل گئی۔ ایک طرف فون پر امی بات کر رہی تھیں اور نیچے بہن بھائی کا لن چوس رہی تھی۔ میری سسکی سن کر امی بولیں، کیا ہوا؟ میں بولا، کچھ نہیں، پاؤں سن ہوگیا۔ امی بولیں، اوکے، چلو تم بھی سو جاؤ۔ میں کل آجاؤنگی۔ میں نے فون کاٹ کیا اور شازیہ سے بولا، جان، ابھی تم مروا دیتیں۔ امی کو لگتا ہے شک ہوگیا ہے۔ شازیہ بولی، آپ سے مروا تو لی ہے۔ میں بولا، جان، جب تم نے لن منہ میں لیا تو میری مزے والی سسکی امی نے سن لی تھی۔ تو شازیہ بولی، تو سن لیں۔ اب تو ہم میاں بیوی بن گئے ہیں۔ شازیہ میرے لن کو سہلاتے ہوئے بولی، بھائی، آپ خوش ہیں؟ میں نے شازیہ کے ممے دباتے ہوئے کہا، جان، میں بہت لکی ہوں کہ تم مجھے مل گئی ہو جو میری طرح گرم ہے۔ شازیہ مجھ سے لپٹتے ہوئے بولی، بس میری خواہش ہے کہ آپ کے بچے کی ماں بنوں۔ میں بولا، جان، ابھی اس کا ٹائم نہیں آیا۔ ابھی بس اس لائف کو انجوائے کرو۔ شازیہ اپنے ممے میرے سینے سے دباتے ہوئے بولی، بھائی، وہ تو انجوائے کر رہی ہوں۔ شازیہ بولی، اب سو جائیں۔ میں بولا، جان، آج سہاگ رات ہے۔ آج تو پوری رات چودوں گا۔ ابھی جان جو ٹھنڈا جوس پلا تا ہوں پھر چودائی شروع کرتے ہیں۔ شازیہ مسکراتے ہوئے بولی، جانی، آج تمہاری مرضی۔ جیسا میرا شوہر چاہے گا ویسا ہی کروں گی اور بولی جاؤ جوس لے کر آؤ۔ میں نیچے فریج سے نیسلے کا مینگو جوس نکال کر لایا اور ہم دونوں نے مل کر جوس پی رہے تھے کہ شازیہ بولی، کامران، کھڑے ہو۔ میں کھڑا ہوا۔ شازیہ نے گلاس سے جوس میرے لن پر ڈالا اور لن چوسنے لگی۔ میں بولا، شازی، یہ کیا اف جان۔ شازی بولی، لن اور جوس کا مزا ایک ساتھ لے رہی ہوں۔ اور شازی کے اس طرح کرنے سے لن کھڑا ہوگیا۔ شازی دیکھا میرے چوسنے سے لن تیار ہوگیا چودنے کے لیے۔ میں بولا، تمہارے منہ میں جادو ہے۔ لن منہ میں جاتے ہی کھڑا ہوجاتا ہے۔

 

شازی ٹانگیں کھول کر بولی، تو جانی آجاؤ اور چوت جو چاٹو پھر اپنے لن کو میری چوت کی سیر کرواؤ۔ اب شازی کھل کر بات کرنے لگی تھی۔ شازیہ کی چوت پھڑک رہی تھی۔ بس پھر اس کے بعد ہمارا کھیل شروع ہوگیا اور اس رات شازیہ کو دو دفعہ جم کر چودا۔ چودائی کے بعد پتہ ہی نہیں چلا کہ ہم دونوں ننگے ایک دوسرے سے لپٹ کر سوگئے۔

 

میری آنکھ موبائل کی بیل سے کھلی۔ ٹائم دیکھا تو صبح کے گیارہ بج رہے تھے۔ فون اٹینڈ کیا تو امی کی غصے والی آواز آئی، کامران، دروازہ کھولو۔ میں باہر کھڑی ہوں۔ یہ سنتے ہی میرے ہوش اڑ گئے۔ جلدی سے شازی کو اٹھا کر بولا، جانی، اٹھو امی آگئیں ہیں۔ شازیہ کے کانوں میں جب یہ آواز گئی تو وہ ایک دم اٹھ گئی اور اپنے کپڑے ڈھونڈنے لگی۔ میں بولا، جانی، تم نیچے جاؤ اور باتھ روم میں چینج کر لینا۔ شازیہ ننگی ہی اپنے کمرے میں بھاگ گئی۔ میں نے بھی جلدی سے ٹراؤزر پہنا اور نیچے چلا گیا۔ گیٹ کھولا تو امی سامنے کھڑی تھیں۔ غصے سے بولیں، اتنی دیر سے ڈور بیل بجا رہی تھی۔ کہاں تھے تم اور شازیہ؟ میں بولا، امی، میں تو سو رہا تھا۔ شازیہ ہو سکتا ہے واش روم میں ہو۔ امی گیٹ سے اندر داخل ہوکر میرے آگے جانے لگیں۔ میں نے گیٹ بند کیا تو امی نے عبایا پہنا ہوا تھا جو گانڈ سے ٹائٹ تھا جس کی وجہ سے امی کی گانڈ بہت سیکسی لگ رہی تھی۔ یہ نظارہ کچھ دیر کا ہی تھا۔ امی گھر کے اندر چلی گئیں۔ میں بھی لاؤنج میں پہنچ گیا۔ شازیہ واش روم میں تھی۔ امی بولیں، کامران، پانی پلاو۔ میں نے فریج سے پانی کی بوتل نکالی اور جب گلاس لے کر امی کے پاس گیا تو امی اپنے دونوں ہاتھ اوپر کرکے عبایا اتار رہی تھیں۔ عبایا اتارتے ہوئے وہ امی کے مموں میں اٹک گیا۔ امی کا عبایا ٹائٹ ہونے کی وجہ سے مموں پر رک گیا تھا۔ امی نے اپنے موٹے موٹے مموں کو پریس کیا تو عبایا اوپر ہوگیا اور آج پہلی دفعہ اتنے قریب سے امی کے ممے جو وائٹ شرٹ میں قید تھے ان کو دیکھ رہا تھا۔ امی عبایا اتارتے ہی مجھے دیکھتے ہی اپنا منہ دوسری طرف کرکے ڈوپٹہ اپنے مموں پر پھیلا دیا اور پانی کا گلاس لے کر صوفہ پر بیٹھ گئیں۔

 

میں اوپر جانے لگا تو شازیہ بھی نہا کر کمرے سے نکل آئی۔ شازیہ نے امی کو سلام کیا اور اس کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے بولیں، یہ کون سا ٹائم ہے نہانے کا؟ تو شازیہ بولی، امی، گرمی لگ رہی تھی۔ امی اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولیں، مجھے تو لگتا ہے رات بھر جاگتی رہی ہو۔ شازیہ بولی، جی امی، رات لائٹ چلی گئی تھی تو نیند پوری نہیں ہوئی۔ امی بولیں، اچھا، ایک کپ چائے بنا دو۔ شازیہ مجھے دیکھتے ہوئے بولی، بھائی، آپ کا ناشتہ بھی بنا دوں؟ میں بولا، ہاں بنا دو۔ میں فریش ہوکر آتا ہوں۔ کمرے میں آتے ہی میں نے شازیہ کے کپڑے اٹھا کر الماری میں رکھے۔ بستر کو ٹھیک کیا کیونکہ بستر کی حالت رات والی کہانی بتا رہی تھی۔ کمرے کو جلدی ٹھیک کیا کہ کہیں امی اوپر نہ آجائیں۔ پھولوں کی پتیاں وغیرہ سب کو صاف کیا اور نہانے چلا گیا۔ نہا کر نیچے چلا گیا تو شازیہ ناشتہ بنا چکی تھی۔ شازیہ نے امی کو چائے دی اور ہم دونوں نے ناشتہ کیا۔ امی ٹی وی دیکھ رہی تھیں۔ شازیہ نے امی سے پوچھا کہ نانی کیسی ہیں؟ امی بولیں، ہاں اب ٹھیک ہیں۔ شازیہ بولی، امی، آپ کس کے ساتھ آئیں؟ تو امی بولیں، تمہارے ماموں چھوڑ کر گئے تھے۔ امی نے تھوڑی دیر ٹی وی دیکھا اور بولیں کہ میں تھوڑا لیٹنے جا رہی ہوں پھر کھانا بناؤنگی۔ تم جب تک گھر کی صفائی کر لو۔ یہ کہ کر امی اپنے کمرے میں چلی گئیں۔ شازیہ نے مسکرا کر مجھے موبائل پر میسج کیا۔

 

جانی، آپ کی ساس دو دن فل مزا کرکے آئی ہے۔ اب آرام کرنے گی ہیں۔

 

میں نے ریپلائی دیا، جان، ساس کیسے؟ تو بولی، اب تو ڈبل رشتہ ہوگیا ہے۔ ساسو ماں۔

 

میں نے میسج کیا، ہاں اس طرح تو ڈبل رشتہ ہوگیا ہے۔ شازیہ کا میسج آیا، جان، رات تو آپ نے ایسی چودائی کی کہ پورے جسم میں میٹھی میٹھی دکھن ہو رہی ہے۔ اتنا اچھا چودائی کا نشہ تھا کہ اٹھنے کا دل ہی نہیں کر رہا تھا۔ وہ تو آپ نے جب امی کا بتایا تو ایک دم سے رات کا نشہ اتر گیا۔ بس ابھی بھی دل کر رہا ہے آپ سے لپٹ کر سو جاؤں۔

 

میں نے ریپلائی دیا، جان، اب تو دل کرتا ہے کہ رات دن تم کو چودتا رہوں۔

 

شازیہ نے لکھا، نہ بابا نہ۔ میرے میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ رات دن آپ کی چودائی برداشت کر سکوں۔ لن دیکھا ہے آپ کا اپنا جب اندر جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے۔

 

میں نے میسج کیا، جان، لن کا پتہ تو چوت میں ہی چلتا ہے کہ کتنا جاندار ہے۔

 

شازیہ نے لکھا، جی جناب، آپ کا لن تو بہت جاندار اور شاندار ہے۔ اب یہ لن ساسو ماں کی چوت میں کب جائے گا؟

 

میں بولا، جب موقع ملے گا۔

 

ہم دونوں میسج کرنے میں بزی تھے کہ امی اپنے کمرے سے نکل کر آگئیں اور شازیہ کو دیکھتے ہوئے بولیں، شازیہ، تم نے صفائی نہیں شروع کی؟ شازیہ ایک دم اٹھتے ہوئے بولی، بس امی شروع کر رہی ہوں۔ اور مجھے دیکھتے ہوئے اٹھ گئی۔ میں نے لاؤنج میں ٹی وی آن کرلیا اور ٹی وی دیکھنے لگا۔ امی نے شازیہ سے کہا کہ تم نیچے کی صفائی کرو۔ میں کامران کے کمرے کی صفائی کر دیتی ہوں۔ یہ سنتے ہی میرے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی، لیکن پھر میں نے اپنے آپ کو مطمئن کیا کہ اوپر سب ٹھیک تو کر آیا ہوں۔ شازیہ نے بھی آنکھوں آنکھوں میں مجھ سے پوچھا تو میں نے بھی اسے جواب دیا کہ سب ٹھیک ہے۔ شازیہ نے کہا بھی، امی، میں بھائی کے کمرے کی صفائی کر دوں گی۔ لیکن امی نے کہا، نہیں، تم نیچے کی کرو۔ میں اوپر کی کر لوگی۔

 

یہ کہتے ہوئے امی اوپر چلی گئیں۔ شازیہ نیچے کی صفائی کرنے لگی۔ میں ٹی وی دیکھ رہا تھا، لیکن اندر سے کچھ گھبراہٹ تھی کہ امی کو کمرے میں کچھ نظر نہ آجائے۔ میں چینل آگے پیچھے کرکے ٹی وی دیکھ رہا تھا کہ امی کی اوپر سے آواز آئی، کامران، اوپر آؤ۔ میرا دل دھڑک سے رہ گیا۔ شازیہ بھی مجھے دیکھنے لگی۔ میں اوپر گیا تو امی کمرے کے درمیان کھڑی تھیں اور ان کے ہاتھ میں شازیہ کی بریزیئر اور پینٹی تھی۔ میں نے جب یہ دیکھا تو میرے تو دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا۔

 

امی غصے سے دیکھتے ہوئے بولیں، کامران، یہ کیا ہے؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اچانک شازیہ کمرے میں داخل ہوئی اور بولی، امی، بھائی سے کیا پوچھ رہی ہیں؟ کل میں بھائی کے واش روم میں نہائی تھی تو بھول گئی ہوں گی۔ امی نے یہ سنا اور الماری کھول کر شازیہ کا جوڑا بھی نکال کر میرے اور شازیہ کے سامنے پھینکتے ہوئے بولیں، اور یہ کیا ہے؟ اور آگے بڑھ کر میرے منہ پر تھپڑ مارتے ہوئے بولیں، بے شرم، بہن کے ساتھ یہ کام کیا۔ تجھے شرم نہیں آئی۔ دور ہوجا میری نظروں سے۔ میں نے امی سے کہا، آپ کو کوئی غلط فہمی ہو رہی ہے۔ ایسی بات نہیں ہے۔ امی مجھے غصے سے دیکھتے ہوئے بولیں، مجھے شک تھا کہ کچھ گڑبڑ ہے گھر میں اور شازیہ تم کو شرم نہیں آئی اپنے بھائی کے ساتھ یہ سب کچھ کرتے ہوئے۔ میں نے تو صبح تم کو دیکھتے ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ تم اب کنواری نہیں رہی۔ امی غصے میں شازیہ کو مارنے لگیں۔ شازیہ نے امی سے اپنے آپ کو چھڑایا اور بولی، میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔ جب ماں بھی اپنے سگے بھائی کے ساتھ یہ کام کرتی ہے تو اگر میں نے اپنے بھائی کے ساتھ کچھ کیا تو کوئی غلط نہیں کیا۔ امی نے جب شازیہ کے منہ سے یہ سنا تو امی ایک دم سناٹے میں آگئیں۔ میں دونوں کو چھوڑ کر نیچے آیا۔ اپنی بائیک نکالی اور گھر سے باہر نکل گیا کہ اب شازیہ خود امی کو ہینڈل کر لے گی۔ میں اپنے دوست کے گھر آگیا۔ دوست بولا، یار، کرونا میں کیا نکل آیا؟ میں بولا، یار، گھر والے نانی کی طرف گئے ہوئے تھے تو بور ہو رہا تھا تو تیرے پاس آگیا۔

 

دوست نے مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا اور ہم دونوں موجودہ کرونا کے حالات پر بات کرنے لگے، لیکن میرا دل تو گھر کی طرف تھا کہ پتہ نہیں وہاں اس ٹائم کیا حالات ہوں گے۔ کئی دفعہ سوچا کہ شازیہ کو میسج کروں، لیکن ہمت نہیں ہوئی۔ میں نے اور دل میں عجیب عجیب خیالات آرہے تھے۔ دوپہر کا کھانا کھایا اور دوست کے ڈرائنگ روم میں ہی سو گیا کہ اچانک موبائل کی بیل سے آنکھ کھلی تو دیکھا شازیہ کی کال تھی۔ میں نے فون اٹینڈ کیا تو شازیہ بولی، بھائی، آپ کہاں ہو؟ میں بولا، کہیں نہیں۔ تم بتاؤ کال کیوں کی ہے؟ شازیہ بولی، امی بات کریں گی۔

 

میں نے فون کاٹ دیا۔ شازیہ نے دوبارہ کال کی۔ میں بولا، مجھے امی سے کوئی بات نہیں کرنی ہے۔ شازیہ بولی، پلیز بھائی، ایک دفعہ کر لو۔ میں کچھ نہیں بولا۔ امی بولیں، گھر آؤ۔ میں بولا، میں اپنے دوست کے گھر ہوں اور آج نہیں آؤں گا۔ امی بولیں، گھر آجاؤ۔ تم سے بات کرنی ہے۔ اور فون شازیہ کو دے دیا۔ شازیہ بولی، بھائی، آپ آجاؤ پلیز۔ میری قسم۔ میں نے کہا، اوکے، آتا ہوں۔

 

میں گھر آیا تو گیٹ شازیہ نے کھولا۔ میں نے بائیک اندر کھڑی کی۔ اس وقت رات کے 9 بج رہے تھے۔ شازیہ سے میں نے کوئی بات نہیں کی اور بائیک کھڑی کرکے اندر گیا تو اندر امی لاؤنج میں بیٹھی تھیں۔ میں نے کوئی بات نہیں کی اور اوپر اپنے کمرے میں آکر بیڈ پر لیٹ گیا اور سوچنے لگا کہ اب کیا ہوگا۔ میں انہی سوچوں میں گم تھا تو امی کمرے میں آگئیں اور میرے بیڈ کے سانے کرسی پر بیٹھ گئیں۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ امی نے کہا، کامران۔

 

میں بولا، جی۔ امی نے کہا، کامران، مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ کیسے بات کروں۔ میں بولا، آپ نے جو بات کرنی ہے کریں۔ امی نے کہا، کامران، یہ جو کچھ بھی ہوا ٹھیک نہیں ہوا۔ میں بیڈ سے اٹھا اور امی کے قدموں میں بیٹھ کر امی کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر بولا، امی، اب جو کچھ ہونا تھا ہوگیا اور آپ بھی تو ماموں سے کرواتی ہیں۔ امی بولیں کہ میری بات اور ہے۔ میں شادی شدہ ہوں اور تمہارے ابو کے باہر ہونے کی وجہ سے میں نے ایسا کیا، لیکن شازیہ تو ابھی کنواری تھی اور تم نے اس کو کردیا۔ اب اس کی شادی کیسے ہوگی؟ میں نے امی کے ہاتھوں کو سہلاتے ہوئے کہا، امی، شازیہ بھی جوان ہوگی ہے اور اس نے بھی آپ کو ماموں کے ساتھ کرتے دیکھا ہے تو اس کا بھی دل ہے۔ جب شازیہ نے دیکھا کہ اس کی امی اپنے بھائی سے کرواتی ہیں تو اس نے بھی اپنے بھائی سے کروا لیا تو کیا ہوا؟ امی بولیں، کامران، اس کی شادی کیسے ہوگی؟ مجھے یہ فکر ہے اور خاندان میں کسی کو پتہ چل گیا تو کتنی بدنامی ہوگی۔ میرے ہاتھ امی کے ہاتھ میں تھے اور امی کے ہاتھوں کو سہلاتے ہوئے بولا، امی، آپ پریشان نہ ہوں۔ یہ جو کچھ ہوا ہے ہم تینوں کے درمیان ہے اور میں بھی شازیہ کو بہت پیار کرتا ہوں اور ہم دونوں نے آپس میں شادی کرلی ہے۔ امی نے یہ سنا اور پہلی دفعہ اپنی نظریں اوپر کرتے ہوئے بولیں، کامران، کیسے کی شادی؟ میں نے ان کو کہا کہ ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ نکاح کی طرح قبول ہے قبول ہے کیا تو شادی ہوگی۔ امی کے ہاتھ ابھی بھی میرے ہاتھ میں تھے۔ میں نے امی کے ہاتھوں کو دباتے ہوئے کہا کہ امی آپ پریشان نہ ہوں۔ بس میں آپ دونوں کا خیال رکھوں گا۔ امی نے مجھے دیکھا اور بولیں کہ شازیہ حاملہ ہوگی تو۔ میں بولا کہ امی اس کو گولیاں لا کر دے دی ہیں۔ امی سے بات کرتے ہوئے امی کا ڈوپٹہ ایک طرف سے نیچے گر گیا جس کی وجہ سے امی کا ایک ممہ میرے سامنے تھا۔ امی کا ممہ پہلی دفعہ اتنے قریب سے دیکھ رہا تھا۔ امی نے بھی ڈوپٹہ ٹھیک نہیں کیا تھا اور امی کا بڑا ممہ دیکھ کر میرے منہ میں پانی آگیا۔ بالکل میرے سامنے تھا۔ دل کر رہا تھا کہ پکڑ کر دبا دوں، لیکن ابھی حالات ایسے نہیں تھے۔ میں نے امی کو کندھوں سے پکڑتے ہوئے کہا، امی، بس اب نارمل ہوجائیں اور آپ بھی اس بات کو قبول کرلیں۔ باقی بعد میں جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ میرے دونوں ہاتھ امی کے کندھوں پر تھے۔ امی نے مجھے دیکھا اور بولیں، کامران، بس اس کا خیال رکھنا کہ ہماری بدنامی نہ ہو۔ میں بولا، امی، بس آپ پریشان نہ ہوں اور نارمل ہوجائیں۔ اور یہ کہتے ہوئے امی اٹھنے لگیں اور امی کے اس طرح اٹھنے سے میرا ایک ہاتھ امی کے ممہ سے ٹچ ہوگیا اور امی کھڑی ہوگئیں۔ میں بھی کھڑا ہوگیا اور امی سے بولا، امی، ایک بات کہوں؟ امی بولیں، ہاں بولو۔ تو میں بولا، امی، مجھے اور شازیہ کو اس بات سے کوئی پرابلم نہیں ہے کہ آپ ماموں سے کرواتی ہیں۔ آپ کے بھی جذبات اور احساسات ہیں۔ آپ کو بھی مرد کی ضرورت ہے۔ آپ نے کسی باہر والے کے بجائے گھر میں ہی ماموں سے کروا لیا تو کیا ہوا؟ اور اب تو آپ اور ہم دونوں ایک طرح کے ہوگئے ہیں۔ آپ اپنے بھائی سے کرواتی رہیں اور شازیہ مجھ سے۔ امی میرے سامنے کھڑی تھیں اور ہاف ڈوپٹہ امی کے مموں پر تھا۔ امی کے بڑے ممے دیکھ کر لن کھڑا ہو رہا تھا۔ میں نے امی کے کندھوں سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے بولا، امی، لو یو۔ امی نے مجھے دیکھا اور میری نظر مموں پر تھی۔ امی نے ڈوپٹہ ٹھیک کیا اور بولیں، اوکے۔ اور اتنی دیر میں شازیہ کمرے میں داخل ہوئی اور بولی، ماں بیٹے کی میٹنگ ختم ہوگی ہے تو امی آکر کھانا کھا لیں۔ امی نے شازیہ کو کہا، تم چلو کھانا لگاؤ۔ میں آتی ہوں۔ شازیہ جب چلی گئی تو امی کچھ کہنا چاہ رہی تھیں، لیکن جھجھک رہی تھیں۔ میں بولا، امی، آپ کچھ کہنا چاہ رہی ہیں؟ امی اپنے دونوں ہاتھ ملتے ہوئے بولیں، کامران، بات یہ ہے کہ تم... میں بولا، امی، جو کہنا ہے کہ دیں۔ امی نے کچھ نہیں کہا اور نیچے چلی گئیں۔ میں سوچنے لگا کہ امی کے دماغ میں کیا چل رہا ہے۔ امی کچھ کہنا چاہتی ہیں، لیکن امی کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ میں نیچے نہیں گیا اور بیڈ پر لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد موبائل پر شازیہ کا میسج آیا۔ میں نے میسج دیکھا۔

 

شازیہ: جان، ساسو ماں سے کیا باتیں ہو رہی تھیں؟

 

میں نے شازیہ کو پوری تفصیل بتادی کہ کیا باتیں ہوئیں۔ شازیہ نے ریپلائی دیا۔

 

بھائی، آپ کو ایک بات بتاؤں۔ ماموں کا لاہور ٹرانسفر ہوگیا ہے۔ امی بتا رہی تھیں کہ ایک دو دن میں ماموں لاہور چلے جائیں گے اور امی پھر اکیلی ہوجائیں گی۔

 

میں نے میسج کیا، چلو یہ تو اچھا ہوگیا۔ اب امی کو بھی چودنے کا موقع مل جائے گا۔

 

شازیہ: جان، آپ کو کتنی جلدی ہے ماں کو چودنے کی۔ جس کے ساتھ ابھی شادی کی ہے اس کا خیال نہیں ہے۔ میں نے میسج کیا، جان، کہو تو ابھی آجاؤں اپنی جان کی چودائی کرنے۔

 

شازیہ: جی نہیں۔ آج چوت کو آرام کرنے دیں اور جب تک گھر کے حالات بھی نارمل ہوجائیں گے۔

 

میں نے ریپلائی کیا، اوکے جان، لو یو۔

 

صبح آٹھ بجے آنکھ کھلی۔ اٹھ کر فریش ہوا اور تیار ہوکر نیچے آیا تو شازیہ کچن میں ناشتہ بنا رہی تھی۔ امی کہیں نظر نہیں آرہی تھیں۔ میں کچن میں گیا اور شازیہ کو پیچھے سے جاکر لپٹ گیا اور بولا، بیگم، کیا کر رہی ہو؟ شازیہ اپنی گانڈ میرے لن سے دباتے ہوئے بولی، اپنے شوہر کے لیے ناشتہ بنا رہی ہوں۔ میں شازیہ کی گانڈ سے لن ٹچ کرکے کھڑا ہوا تھا کہ اچانک امی کچن میں داخل ہوئیں۔ میں شازیہ سے الگ ہوا۔ امی پتہ نہیں کب سے کھڑی تھیں۔ امی شازیہ ناشتہ بن گیا تو شازیہ بولی، جی امی۔ میں بھی کچن سے نکل گیا۔

 

امی کچن سے ناشتہ لا کر ٹیبل پر رکھنے لگیں۔ شازیہ بھی کچن سے باہر آگئی۔ ہم تینوں نے ناشتہ کیا۔ ناشتہ کے بعد میں بینک چلا گیا۔ ایک گھنٹے بعد شازیہ کا موبائل پر میسج آیا۔

 

شازیہ: سرتاج، کیا ہو رہا ہے؟

 

میں: جی جان، کام کر رہا ہوں۔

 

شازیہ: جان، میں خالہ کے گھر جا رہی ہوں۔ شام تک واپس آجاؤنگی۔ آپ جلدی گھر آجانا اور آج امی کی چودائی بھی کر دو۔

 

میں بولا، ٹھیک ہے جان۔

 

شازیہ: پھر رات کو مجھے بھی چودنا۔

 

میں نے کہا، لو یو جان۔

 

میں کام میں بزی ہوگیا۔ ٹائم دیکھا تو 2 بج رہے تھے۔ لاک ڈاؤن میں بینک 1 بجے تک کام ہوتا ہے۔ میں نے بینک سے آف کیا اور گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ گھر پہنچ کر گیٹ کی بیل دی تو تھوڑی دیر کے بعد امی گیٹ کھولنے آئیں۔ امی نے گیٹ کھولا تو اس ٹائم امی نے ڈوپٹہ نہیں لیا ہوا تھا جس کی وجہ سے امی کے بڑے بڑے ممے بریزیئر میں قید نظر آرہے تھے۔ امی نے مجھے ممے تاڑتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ امی جلدی سے واپس مڑ کر اندر چلی گئیں۔ میں نے بائیک کھڑی کی اور لاؤنج میں آگیا۔ امی کچن میں تھیں۔ میں نے فریج سے پانی کی بوتل نکالی تو امی پر نظر پڑی۔ امی آٹا گوندھ رہی تھیں۔ امی کی گانڈ دیکھ کر مزا آگیا جو آگے پیچھے ہو رہی تھی۔ میں پانی پیتے ہوئے امی کی گانڈ کا نظارہ کر رہا تھا تو امی نے محسوس کرلیا تھا کہ میری نظریں امی کی گانڈ پر ہیں۔

 

امی نے میری طرف دیکھا اور بولیں، کامران، پانی مجھے بھی پلا دو۔ میں نے گلاس میں پانی دیا۔ امی نے کریم کلر کی شرٹ اور شلوار پہنی ہوئی تھی۔ قریب سے مجھے امی کی برا بھی نظر آرہی تھی۔ امی نے گلاس مجھے واپس کیا۔ میں نے گلاس لیا اور امی کے کندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کہ امی آپ ناراض ہیں؟ امی نے آٹا گوندھتے ہوئے کہا کہ اب تو تم نے جو کرنا تھا کرلیا۔ میں پیچھے سے تھوڑا اور قریب ہوا اور بولا، امی، بس آپ ناراض نہ ہوں۔ میں آپ کو خوش دیکھنا چاہتا ہوں۔ امی بولیں، لیکن صبح تم کچن میں شازیہ کے ساتھ کیسے چپکے ہوئے تھے؟ میں بولا، امی، آپ کو تو پتہ ہے کہ اب ہم میاں بیوی بن گئے ہیں اور میں اپنی بیوی کو پیار کر رہا تھا۔ اب میں پیچھے سے اور قریب ہوا اور بولا، امی، میں آپ کو بھی بہت پیار کرتا ہوں۔ آپ کو بھی خوش کرنا چاہتا ہوں۔ اب لن پیچھے سے امی کے چوتڑوں پر ٹچ ہو رہا تھا۔ امی لن کو اپنے چوتڑوں پر محسوس کرتے ہوئے ایک دم رک گئیں اور بولیں، کامران، یہ کیا کر رہے ہو؟

 

میں بولا، امی، بچپن میں بھی تو آپ خود مجھے نہلانے کے لیے ننگا کرتی تھیں۔ امی بولیں، اب تو جوان ہوگیا ہے۔ اچھا مجھے پانی دو۔ میں ننگا ہی پانی لینے چلا گیا۔ پانی لے کر امی کو دیا۔ امی کا لن اب بالکل سامنے تھا۔ لن دیکھتے ہی امی کی آنکھوں میں چمک آگئی۔ پانی پینے کے بعد امی نے گلاس رکھا اور میں امی کے ساتھ بیٹھ گیا اور امی کے گال پر پیار کرتے ہوئے بولا، کیسا لگا؟ امی انجان بنتے ہوئے بولیں، کیا کیسا لگا؟ میں بولا، میرا لن۔ یہ سنتے ہی امی گرم ہوگئیں اور بولیں، اتنا لمبا اور موٹا لن تم نے میری معصوم بیٹی کی چوت میں ڈال دیا۔ میں بولا، امی، وہ تو اس کی دیوانی ہوگئی ہے۔ اور امی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے لن پر رکھتے ہوئے بولا، آپ بھی اندر لوگی تو سب بھول جاؤگی۔ اور یہ کہتے ہوئے امی کا ہاتھ پکڑ کر امی کو ان کے کمرے میں لے کر آگیا اور امی کو اپنے ساتھ لپٹاتے ہوئے بولا، جان، آج سے تم میری دوسری بیوی ہو۔ اور یہ کہتے ہوئے امی کے ہونٹوں کو اپنے منہ میں لے کر چوسنے لگا اور نیچے سے لن امی کی چوت کے ساتھ جوڑ دیا۔ امی اب میرا ساتھ دے رہی تھیں۔ ہم دونوں لپٹے ہوئے ایک دوسرے کی زبانوں کو چوس رہے تھے۔ امی اپنی چوت میرے لن سے رگڑ رہی تھیں۔ شازیہ نے ٹھیک کہا تھا امی بہت گرم ہیں۔ امی بہت اچھی کسنگ کر رہی تھیں۔ ہم لوگ کسنگ سے تھک گئے تو میں نے امی کو بیڈ پر لیٹا دیا اور نائٹی اوپر کی تو امی کی چکنی اور کلین شیو چوت میرے سامنے تھی۔ امی کی چوت ہانپ رہی تھی اور ڈبل روٹی کی طرح تھی اور چوت گیلی ہونے کی وجہ سے چمک رہی تھی۔ میں چوت کے نظارے میں گم تھا کہ امی کی آواز آئی کہ کامران کیا ہوا۔ میں بولا، کچھ نہیں آپ کی چوت تو شازیہ سے بہت اچھی اور زبردست ہے۔ امی بولیں، تو اس چوت کی گرمی نکال دے۔ میں نے یہ سنا اور اپنے ہونٹ امی کی چوت پر رکھ دیے اور چکنی چوت کو چاٹنے لگا۔ چوت کا چاٹنا تھا کہ امی پاگل ہوگئیں۔ آہ اوف کامی، چاٹ اپنی ماں کی چوت۔ اوف، آج تک کسی نے چوت نہیں چاٹی۔ شاباش چاٹ ماں کی چوت۔ اوہ لو یو۔ میں بڑے زور شور سے اپنی ماں کی چوت چاٹنے میں لگا ہوا تھا۔ امی چوت اٹھا اٹھا کر چوت چٹوا رہی تھیں۔ میں نے جب زبان چوت میں ڈالی تو امی نے ایک لمبی آہ بھری اور اپنی گرم چوت کا سارا پانی میرے منہ میں چھوڑ دیا۔ میں نے سارا پی گیا۔ امی نے مجھے اوپر اٹھایا اور بولیں، کامران، بیڈ پر لیٹو۔ اور خود کھڑی ہوگئیں اور اپنی نائٹی اتار دی۔ امی میرے سامنے ننگی کھڑی تھیں۔ امی کے بڑے بڑے ممے براؤن نپل جو اکڑے ہوئے تنے ہوئے مموں کو اور سیکسی بنا رہے تھے۔ امی کے مموں کو پکڑ کر دبایا تو امی بولیں، ابھی دبا لینا۔ مجھے میرا کام کرنے دو۔ امی نے میری ٹانگیں کھولیں اور میرے لن کو منہ میں لے کر لالی پاپ کی طرح چوسنے لگیں۔ اوف، کیا لن چوس رہی تھیں کہ جیسے لن ابھی پانی چھوڑ دے گا۔ امی کا چوپا لگانے کا اسٹائل ٹرپل ایکس مووی کی طرح تھا۔ اس سے پہلے کہ میں فارغ ہوجاتا۔

 

میں نے امی کو بیڈ پر لٹا دیا۔ امی نے ٹانگیں کھول کر بولیں، جان، ڈال دے اپنا موٹا لن میری چوت میں۔ میں نے لن چوت پر سیٹ کیا اور پہلے ہی دھکے میں پورا لن چوت کے اندر تھا۔ امی زور سے چیختی ہوئی بولیں، بہن چود، آرام سے ڈال بیٹا درد ہوا ہے۔ امی کے منہ سے گالی سن کر مجھے بھی جوش آگیا اور میں نے اپنا لن اور زور سے اندر باہر کرنے لگا۔ امی کے منہ سے گالیوں کا طوفان نکل کر آرہا تھا۔ بہن چود گانڈو آرام سے چود۔ آہ چوت پھاڑ دی۔ اوہ اوف۔ میں امی کے اوپر آیا اور مموں کو دبانے لگا۔ ممے بہت ٹائٹ تھے۔ میں نے منہ نیچے کیا اور نپل منہ میں لے کر چوسنے لگا۔ نپل چوستے ہی امی نے مجھے اپنے ساتھ لپٹا لیا اور لن کو چوت میں دبا لیا کہ میں ہل نہیں سکتا تھا۔ آج پتہ چلا کہ تجربہ کار عورت کیسے چدواتی ہے کہ پاگل کر دے۔ لن چوت میں پھنسا ہوا تھا اور میں کبھی نپل چوستا اور کبھی امی کے منہ میں زبان ڈال کر ان کی زبان چوستا۔ میں تھوڑا اوپر ہوا۔ امی نے چوت کو ڈھیلا کیا تو پھر میں نے لن کو چوت کے اندر باہر کرنا شروع کیا۔ امی کی ٹانگیں کندھوں پر رکھ کر زور دار چودائی شروع کردی۔

 

کمرے میں گپھا گپھ اور امی کی سسکیوں کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ امی بولیں، کامران اور زور سے چودو۔ پورا لن ڈال کر چود۔ بہن چود اب تو تو مادر چود بھی بن گیا ہے۔ شاباش مار میری چوت۔ اس کی گرمی نکال دے۔

 

اسی ٹائم میرے فون کی بیل بجی۔ میں نے فون اٹھایا تو شازیہ تھی۔ میری ہانپنے کی آواز سن کر بولی، میرے شیر، ساسو ماں کو چود رہے ہو؟ میں نے بس ہاں کہا اور فون کاٹ دیا۔ امی بولیں، شازیہ کا فون تھا؟ امی مسکراتے ہوئے تو بول دو اسے کہ اس کی ماں بھی اپنے بیٹے سے چود رہی ہے۔ میں نے امی کی ٹانگیں نیچے کیں اور پھر جم کر چودائی شروع کردی۔ امی کا جسم اکڑ گیا اور امی بولیں، جان، میں فارغ ہو رہی ہوں اور جب امی کی چوت کا گرم پانی لن کو فیل ہوا تو لن کی بھی بس ہوگی اور امی کامران چوت میں فارغ ہوجا۔ ہم دونوں ایک ساتھ فارغ ہوں گے۔ میری منی نے چوت کو منی سے بھر دیا۔ جب چوت سے لن باہر نکالا تو اس کے ساتھ ہی چوت سے میری منی بھی نکلنے لگی۔ امی نے چوت کو ہاتھ لگا کر دیکھا اور بولیں، کامران، اتنی ساری منی نکلی ہے تمہارے لن سے۔ یہ پہلی دفعہ ہوا کہ چوت سے منی اس طرح نکل رہی ہے۔

 

یہ کہتے ہوئے امی مجھ سے لپٹ گئیں اور بولیں، جانی، دوسری بیوی مبارک ہو۔ بس اب تم نے ہم دونوں کو خوش رکھنا ہے۔ آج پہلی بار چودائی کا مزا آیا ہے۔ لو یو جان۔ بس اب ہم دونوں بیویاں تمہاری غلام ہیں اور شازیہ نے اپنے ساتھ ساتھ ماں کا بھی خیال رکھا۔ وہ آج اس لیے گئی تھی کہ ہم لوگ آرام سے چودائی کر لیں اور جانی تم سوچ نہیں سکتے کہ آج اس لن نے چوت کو جو مزا دیا ہے کہ میں بتا نہیں سکتی۔ امی مجھے کس کرکے اٹھنے لگیں تو تھوڑا چلنے میں مشکل ہوئی تو بیٹھ گئیں۔ میں بولا، کیا ہوا؟ امی بولیں، نہیں کچھ نہیں۔ کھڑا نہیں ہو رہا۔ میں نے امی کو سہارا دے کر کھڑا کیا تو امی بولیں، اتنا جاندار لن چوت میں جائے گا تو ایسا ہوگا۔ امی بولیں، مجھے واش روم لے کر چلو۔ پیشاب کرنا ہے۔ امی کو واش روم لے کر گیا۔ امی نے میرے سامنے پیشاب کیا۔ چوت صاف کی اور ہم دونوں ساتھ نہا کر باہر نکلے۔ میں اور امی ننگے ایک دوسرے سے لپٹ کر لیٹ گئے اور یہ تھی میری سٹوری بہن سے امی تک۔(ختم شد)

 


ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی