پیارے رشتے پیاری آپی ۔۔۔(ہاٹ انسسیٹ اسٹوری)

 


ہر طرف مکمل خاموشی کا عالم تھا۔ سورج اپنی پوری آب و تاب سے آگ برسا رہا تھا۔ گرمیوں کی اس تپتی دوپہر میں جب لوگ اپنے گھروں میں دبکے سکون کی گہری نیند سو رہے تھے، قسمت کا مارا روفی چھت کے ایک کونے پر لیٹا اپنی قسمت کو کوس رہا تھا۔ واہ، کیا قسمت تھی جو اسے آج اس موڑ پر لے آئی تھی کہ وہ اپنے تمام خدشات اور شکوک و شبہات کو دور کرنے کا پختہ ارادہ کر چکا تھا۔

 

اسے شدت سے نائلہ کے چھت پر آنے کا انتظار تھا۔ وقت کافی بیت چکا تھا اور یوں لگ رہا تھا کہ آج وہ شاید نہ آئے گی۔ پھر نیچے سیڑھیوں پر کسی کی آہٹ سنتے ہی اسے لگا کہ اس کا انتظار رائیگاں نہیں گیا۔

 

چھت کی سیڑھیوں کے دروازے سے نمودار ہوتی نائلہ دبے قدموں سے چھت کے سرے پر واقع پانی کی ٹینکی کی طرف بڑھ رہی تھی۔ کافی عرصے سے اسے یہ شک ہو چلا تھا کہ نائلہ کا پڑوس میں کسی سے کوئی چکر چل رہا ہے۔ پہلے تو اس نے اسے اپنا وہم جانا اور اپنی سوچ کو انتہائی لغو تصور کیا، مگر پھر نائلہ کو بڑی باقاعدگی سے بے مقصد چھت پر جاتے دیکھا تو اسے بھی کھٹک رہنے لگی۔ نائلہ کی شوخ اور بے باک طبیعت کا تو اندازہ تھا، مگر شک کرنے پر بھی دل آمادہ نہ ہوتا۔

 

آخر مجبور ہو کر سارے معاملے کی کھوج لگانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت بھی چلچلاتی دھوپ میں وہ پسینے سے شرابور چھپ کر چھت پر تاک لگائے بیٹھا تھا۔ نائلہ کو چھت پر آئے کچھ دیر ہو چلی تھی اور بے سکونی کے ساتھ ٹہلتے ہوئے کسی کا انتظار اس کے چہرے پر صاف عیاں تھا۔ روفی کو بھی اس کی طرح اب کسی دوسرے مرد کی آمد کا انتظار تھا۔

 

اس کی نگاہیں چھت پر ہی لگی ہوئی تھیں، پر کافی دیر سے چھپ کر اس طرح الٹا لیٹے روفی کو اکتاہٹ ہو رہی تھی۔ تھکاوٹ اور گرمی سے اس کے اعصاب ڈھیلے پڑتے جا رہے تھے۔ اپنے اندیشے بھی بے بنیاد ثابت ہوتے دکھائی دے رہے تھے۔ پھر اس کی سوئی ہوئی حسیات جاگنے لگیں اور رگوں میں خون کی گردش تیز ہونے لگی۔ دوسرا فریق بھی اب ظاہر ہو چکا تھا۔ اسے دیکھ کر روفی کو شدید حیرت نے آ لیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ نائلہ کا پڑوس کے کسی نوجوان سے آنکھ مٹکا چل رہا ہوگا، مگر اس کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ وہ اس وقت برابر والی چھت پر خضر انکل کو دیکھے گا۔

 

روفی کو خضر انکل سے ہرگز ایسی امید نہیں تھی۔ اس کی جوانی اور عمر سے کئی گنا بڑے مرد سے بھی چکر ہو سکتا تھا؟ پھر ان دو گھروں کے اہل خانہ میں رابطہ بھی کافی پرانا تھا۔ بڑا ہونے کے ناطے وہ ان کی عزت بھی بہت کرتا تھا اور پڑوسی ہونے کی وجہ سے کچھ بے تکلفی بھی تھی۔ گھر پر کوئی بڑا نہ ہونے کی وجہ سے وہ اکثر مختلف امور میں اس کی مدد بھی کرتے رہتے تھے۔

 

یہ تو اسے معلوم تھا کہ پچاس سے اوپر ہونے کے باوجود محلے کی بہت سی عورتیں ان کی شاندار شخصیت اور مردانہ وجاہت پر مرتی تھیں۔ ان کا اونچا قد و قامت اور مضبوط کسرتی جسم اس عمر میں بھی اچھے اچھے جوانوں کو حسد میں مبتلا کر دیتا تھا۔ بڑی میچور عمر کی عورتیں تو ایک طرف، بہت سی جوان لڑکیاں بھی دل و جان سے ان پر فدا تھیں۔ یہ بھی اسے اندازہ تھا کہ بہت سی حسین لڑکیوں کو وہ فیض یاب بھی کر چکے ہیں۔

 

بہرحال، اپنی بڑی آپی کو خضر انکل کے لیے بے تاب دیکھ کر روفی کو دکھ اور افسوس نے آ لیا۔ انیس برس کا خوبرو مگر سیدھا سادہ روفی گھر میں سب سے چھوٹا اور کالج کے دوسرے سال میں تھا۔ ماں باپ تو بچپن میں گزر گئے تھے۔ ایک بڑا بھائی تھا جو روزگار کے لیے بیرون ملک مقیم تھا۔ گھر کے کل افراد فل وقت دو بڑی بہنوں اور ایک پیاری بھابی پر ہی مشتمل تھے۔ صحت مند، سیکسی جوان بدن کی مالک ستائیس برس کی نائلہ دونوں بہنوں میں بڑی اور شادی کو تیار بیٹھی تھی۔

 

چھوٹی بہن چوبیس سالہ نورین ابھی کالج کے چوتھے سال میں تھی اور بی اے کی تیاری میں مصروف تھی۔ اوپر والے نے دونوں بہنوں کو حسن و جمال سے اس طرح نوازا تھا کہ ان کی جوانی اور سیکسی پن بہت سے دیکھنے والوں کو مشکل میں ڈال دیتا تھا۔ شروع جوانی سے ہی اپنی قیامت خیز جوانی پر اٹھنے والی پرستائش نظروں اور پذیرائی نے نائلہ کو شوخ اور بے باک بنا دیا تھا۔ اپنی خوبصورتی سے بھی واقف تھی اور اپنی جوانی پر کچھ ناز بھی تھا۔ اس جوانی کے عاشق اور طلبگار تو کئی تھے اور اسے بھی ان کی توجہ اچھی محسوس ہوتی تھی۔

 

مگر وہ ہر کسی کو گھاس نہیں ڈالتی تھی۔ مغرور لڑکی مشہور ہو چکی تھی۔ کالج کے آغاز میں کئی لوگ دوستی اور قربت کے خواہشمند ہوئے تو اس نے اپنی تمام تر بے باکی کو چند لو لیٹرز کے تبادلے، تحفوں نذرانوں کی وصولی، اور ایک آدھ خوش نصیب کے ساتھ باہر گھومنے پھرنے تک محدود رکھا۔ اس نے کبھی کسی کو چوت کا اصل دیدار تک نہ کرایا تھا۔ سب اس کی پھدی لینے کے دعوے دار تو بن چکے تھے، لیکن سچ پوچھیں تو جہاں تک میرا خیال ہے، اس نے پھدی اوپر اوپر سے لن رکھنے کے لیے بھی نہیں دی ہوگی۔ کیونکہ لڑکی پھدی اگر ایک بار کسی مرد کے سامنے ننگی کر لے تو پھر اسے لن لینے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ عورت تمام تر شرم و حیا کے باوجود بھی لن لینے سے ناکام نہیں لوٹتی۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ شلوار نہ اتر چکی ہو، چوما چاٹی تک رکھا ہو تو چوت دینے سے بچ سکتی ہے۔

 

ادھر بھی معاملہ کچھ اسی طرح کا دکھائی دینے لگا تھا، نائلہ کی خوبصورتی جوانی بے قابوہوچکی تھی ،  وہ اس مرد کی اسیر ہو جانے کے لیے بہت بے قرار ہو چکی تھی۔ جوانی کے منہ زور گھوڑے کے آگے اب اس کا بس نہیں چل رہا تھا۔ کیسے اسے روکے؟ جوانی ایک دم سے آتی ہے اور اپنے ساتھ بہت کچھ بہا کے لے جاتی ہے۔ اس کے ساتھ بھی اب ایسا ہی سین ہونے والا تھا۔ اس کی الہڑ جوانی کو انکل روندنے والا تھا اور اپنی مردانگی کی دھاک بٹھانے کو وہ بھی بہت بے قرار ہو چکا تھا۔

 

یوں تو انکل خضر  کئی لڑکیوں کے ساتھ سیکس کر چکے تھے ، لیکن ان  کے خیال کے مطابق نائلہ کے ساتھ سہانی دوپہر جو گرم ہونے کے باوجود بھی کسی سہاگ رات سے کم دکھائی نہ دیتی تھی۔وہ سب سے زیادہ لطف انگیز تھی ۔ وہ میچور مرد تھا، بڑی عمر کا۔ اس کی عمر میں کچھ بڑی اور محلے کے رنگین سہانے سے واقف ایک سہیلی  سے جب انکل خضر کی تعریف سنی تو نائلہ کا بھی انکل کو دیکھنے کا انداز اور خیال ہی بدل گیا۔ جوانی کی ترنگ نے انکل سے دوستی اور آغوش کی خواہش کو جنم دیا۔ کچھ جھجک بھی ہوئی تھی اور ڈر بھی لگا، پر انکل کی اس جاندار اور زندہ دلی میں چھپی مزیدار باتوں اور انداز کے سامنے رہا نہ گیا۔ انکل کے ہاں آمد و رفت تو پہلے سے بھی تھی۔ نگاہوں کی زبان سے دل کا پیغام پہنچایا۔ یہ تو اندازہ تھا کہ اس سیکسی خوبصورت پیشکش سے انکار کون بدنصیب کرے گا۔ اور انکل کے ساتھ بات راز ہی میں رہنے کا سکون بھی تھا۔

 

ابھی کالج نہیں چھوڑا تھا کہ نائلہ کی خضر انکل سے پہلی سیکسی سہانی ملاقات ہوئی۔ چھت پر ہی ملاپ ہوا اور وہیں کلی سے پورا پھول بنی۔ انکل نے بھی اس کے کنوارپن کی کچی تند دھاگے بڑے چاؤ سے توڑے اور کھولے۔ لیکن ایک بات تو آپ بھی جانتے ہیں، کھلنے کے بعد سلتے نہیں۔ پھر مزید اور لڑکی سے عورت کا روپ دیا۔ مرد سے اپنے پہلے وصال کی پر کیف لذت نے نائلہ کو کافی دن مسرور اور شاداں رکھا۔ جسم کے زیریں حصے سے اٹھتی درد کی میٹھی سی ٹیس بھی کچھ دن اسے مزہ دیتی رہی اور چھت پر انکل کے ساتھ گزارے ان رنگین لمحات کی رنگینی کا احساس دلاتی رہی۔ اس کی منہ زور جوانی کو بھی جیسے ایک بھرپور مرد کی تلاش تھی۔

 

سلسلہ چل نکلا اور ملاقات بلکہ کئی ایک ملاقاتیں ہونے لگیں۔ انکل کا دل بھی اس کی الہڑ اور بھرپور جوانی پر خوب آیا۔ گرمیوں کی ایسی کئی دوپہریں انکل نے اس کے بدن کی گہرائی ناپنے اور اس کی جوانی کو آسودگی دینے پر صرف کیں۔ پہلی سیکسی اور بھرپور ملاقات میں آشکار ہونے والے درد دور ہوئے تو نائلہ بھی اس کھیل کی ماہر کھلاڑی کی طرح ہوتی گئی۔ برابر کا کھلاڑی ملا تو انکل بھی سب کو چھوڑ کر پوری توجہ اور زور اسی پر لگانے لگے۔ اب تک وہ نائلہ کے جسم کا ہر سیکسی انگ اور اس کی ترنگ کو ناپ چکے تھے اور بدن کا ہر ایک انگ کھول چکے تھے۔ وہ مکمل عورت تھی، اب وہ بھی نکھر کر ایک بھرپور جوان عورت کے روپ میں ڈھل چکی تھی۔ اس کے صحت مند کسے ہوئے جوان لچکیلے بدن پر غضب ڈھاتی چھاتیوں، بوبز کی اٹھان اور اس کی چونچوں کی کشادگی دیکھنے والوں کے جسم کے کچھ حصوں میں خون کی گردش میں اور بھی تیزی کر دیتی تھی۔

 

کافی مدت ہو چلی تھی۔ روفی اب بڑا ہو گیا تھا اور سمجھنے لگا تھا۔ نائلہ اب اس سے محتاط رہنے لگی تھی۔ ویسے تو وہ بدھو پن کی حد تک سادہ بھی تھا، پر اس سے کافی مانوس بھی تھا۔ اس کے گھر پر موجودگی میں وہ کم کم ہی اوپر جاتی تھی یا پھر اس کے باہر دوستوں کے پاس نکلنے کا انتظار کرتی۔ ابھی تک تو سارے معاملے کی واحد رازدار صرف ایک ہی تھی۔ رازدار نورین تھی، جو پیچھے گھر پر نظر رکھتی تھی، کام کو سنبھالتی تھی۔ شاید کہ کبھی اس کی باری بھی آئے تو نائلہ بھی اس کا اچھا ساتھ دے کر اس کی کنواری چوت کھلنے میں مدد دے گی۔

 

کچھ دنوں سے روفی کا معمول تھا کہ کالج سے واپسی پر اچھے اور کچھ نئے دوستوں کی طرف نکل جاتا۔ آج بھی کھانے سے فارغ ہوتے ہی وہ شام تک واپس لوٹنے کا کہہ کر جلدی باہر نکل گیا۔ نائلہ کو اب اپنی بھابی کے سونے کا انتظار تھا اور نورین کے پیارے اشارے کا بھی انتظار تھا۔ جانے کب سگنل ملے اور وہ چدائی لگوانے چلی جائے۔ ہفتے میں آج کے دن انکل سے ملاقات اس کا معمول بنا ہوا تھا اور پھر وہ کل شام خضر انکل سے ملنے کی فرمائش بھی کر آئی تھی، کیونکہ اس کی چوت گرم ہو چلی تھی۔

 

بھابی کے سوتے  ہی نورین کا اشارہ پا کر وہ بھی چھت کی جانب بڑھی اور اس کے قدم نہ جانے کیوں آج تھوڑے لرز رہے تھے، جیسے کچھ انہونی ہونے جا رہی ہو۔ روفی آج نائلہ کو موقع پر ہی رنگے ہاتھوں پکڑنے کا ارادہ کر کے آیا تھا۔ پاپی خضر انکل کو دیکھ کر روفی کو حیرت بھی ہوئی تھی اور افسوس بھی ہو رہا تھا کہ اس کی آپی نے یہ کیا ظلم کیا ہے۔ کاش کسی نوجوان لڑکے سے دوستی کر لیتی تو اس کی کم از کم شادی بھی اس کے ساتھ ہو سکتی تھی۔

 

انکل کو دیکھ نائلہ کے چہرے پر کھیلتی مسکراہٹ بھی روفی کو بالکل زہر لگ رہی تھی۔ آس پاس کا جائزہ لینے کے بعد خضر انکل خاموشی کے ساتھ دبے قدموں اس جانب بڑھنے لگے جہاں نائلہ بے صبری اور بے قراری سے ان کی منتظر تھی۔ ان کا لن لینے کی طلبگار تھی۔ قریب پہنچتے ہی انکل نے اسے اپنی بانہوں میں کھینچ لیا اور ان کے ہونٹ اس کے گرم رسیلے ہونٹوں کا رس پینے لگے اور انہیں تر کرنے لگے۔ ان کے ہاتھوں کو اپنی آپی کی سیکسی گدازگانڈ  پر ابھری بھری بھری گولائیوں میں پیوست ہوتے دیکھ کر روفی کا خون کھولنے لگا تھا، لیکن وہ شش و پنج میں پڑتا گیا۔

 

روفی نے اس طرح کر کے بھی کافی ہمت کر کے یہاں تک تو آ گیا تھا، پر اب عجیب منظر اور کشمکش کا شکار ہو چلا تھا۔ سامنے کی صورتحال دیکھ کر شدید غصہ اور نہ جانے کیا کیا اس کے دماغ میں چل رہا تھا اور شرم آ رہی تھی، مگر اس پر قابو پانے کا کوئی راستہ اس روفی کو دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اپنی آپی کی جسمانی کشش اور لڑکوں کی اس میں دلچسپی کا اندازہ تھا اور وہ جانتا تھا مرد اس پر مرتے ہیں، پر اس کا خیال تھا سارا معاملہ رومانس اور نظر بازی تک محدود ہوگا۔ اس طرح کبھی نہیں سوچا تھا۔ عین موقع پر اس کی چوری پکڑنے کے بعد وہ اسے اکیلے میں کیسے برا بھلا کہے گا اور وہ کچھ شرم کرے گی اور باز آ جائے گی۔ لیکن معاملہ کافی آگے نکل چکا تھا۔ یہ معاملہ تو اس کی سوچ اور قابلیت سے کہیں آگے کا تھا۔ آپی کی مار پیٹ تو نہیں کر سکتا تھا، یہ حل نہیں تھا کہ ایک تو وہ اس سے کافی بڑی تھی اور دوسرا شور شرابے سے بات کھلنے کا ڈر تھا۔ ان کی بدنامی پکی بات تھی۔ یہ بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ انکل سے کیسے نبٹے گا۔ کیا اس کے ساتھ کرے گا؟ وہ عمر میں اس سے کہیں آگے جہاندیدہ بھی تھے اور جسمانی طور پر بھی قوی تھے۔ پرانے ماہر کھلاڑی تھے اور دنیا بھی بڑی دیکھی تھی۔ ان کو زیر کرنا آسان نہیں تھا۔ ویسے بھی اس وقت ان کا پلڑا بھاری تھا کہ خود اس کی اپنی آپی ہی ان کے لیے مری جا رہی تھی۔

 

اس وقت وہ ان کو جتنا مرضی بدنام کر لے، مگر بعد میں ان کے سامنے آنکھیں کیسے اٹھائے گا؟ معاملہ بگڑ گیا تو اصل بدنامی اپنی آپی کے حصے میں ہی آئے گی۔ یہ سب کچھ سوچ کر اس کا غصہ اور پریشانی گبھراہٹ میں تبدیل ہونے لگی تھی۔ اس کشمکش ادھیڑ بن میں کافی وقت بیت چکا تھا۔ تجسس سے مجبور ہو کر انسانی خصلت کی بنا پر دھیرے سے سر اٹھا کر دیکھا تو نائلہ کی ریشمی شلوار فرش پر ڈھیر ہوئی نظر آئی۔ سیاہ قمیض کے اونچے چاک سے جھلکتا نائلہ کا سفید مرمریں زیریں بدن اپنی عریانی کو چھپانے سے بے بس تھا۔

 

ٹھرکی انکل نے دونوں ہاتھوں سے قمیض کو اوپر سرکایا تو بدن کے باقی نشیب و فراز بھی نمایاں ہوتے چلے گئے۔ اور سین دیکھنے والا تھا۔ انکل کو نائلہ کی برہنہ چھاتیوں، گورے کبوتروں کی طرح، اور ان پر جھکتے دیکھ کر روفی کی شرم و حیا سے خون کی رفتار پھر سے تیز ہو رہی تھی۔ کسی عورت کو بے لباس دیکھنے کا پہلا واقعہ تھا، بلکہ تجربہ تھا جو کہ تلخ ہو چکا تھا، مگر نائلہ تو اس کی اپنی آپی تھی۔ سانس لینا تو شاید وہ پہلے ہی بھول گیا تھا۔ بند آنکھوں کے پیچھے سماعت سے ٹکرانے والی سرگوشیوں اور دھیمے سروں میں اٹھنے والے نقرئی قہقہے اس کے دل کا سکون برباد، بلکہ تہہ و بالا کر رہے تھے۔ نائلہ کے کھلکھلانے کی آواز پر اس نے دھیرے سے آنکھ کھولی تو ٹھرکی انکل اپنا باقی ماندہ شاندار لباس بدن سے الگ کر رہے تھے۔ اور پسینے سے چمکتے ٹھوس کسرتی پہلوانی والے بدن اور وجود پر جمی نائلہ کی رشک بھری نظریں اس کی شدید رغبت اور جوش کا احساس دلا رہی تھیں۔ انکل کی چوڑی کشادہ رانوں، کے بیچ جوش سے اوپر اٹھا مردانہ لن تناسل ان کی جسمانی قوت اور ذہنی ہیجان اور جوش سیکس کا پتہ دے رہا تھا۔

 

اس بڑھتی عمر میں بھی انکل کی صحت قابل رشک حد تک شاندار تھی اور جسم مضبوط اور توانا تھا۔ مردانگی سے بھرپور لگ رہا تھا۔ ایک خاص طرح کے بھرپور مردوں سے تسکین پانے والی عورتوں کے لیے ٹھرکی انکل کی ذات میں دلچسپی کا کافی سامان سیکس موجود تھا۔ لن  کی شکل، جسامت، لمبائی اور موٹائی  کو دیکھ کر روفی کو بھی حیرت ہوئی تھی۔ کیا شاندار لنڈ تھا اس کا۔ اپنی آپی کی ان میں دلچسپی کی وجہ بھی اب سمجھ آ رہی تھی اور اس کے حوصلے اور قوت برداشت پر بھی حیرانی ہوئی تھی کہ کیسے اتنا بڑا اندر لیتی ہے۔

نائلہ نے بڑے پیار سے انکل کا موٹا لن اپنے مرمریں ہاتھ میں پکڑلیا، اور اسے ہلانے لگی ، انکل کی سسکیاں نکلنےلگیں ، نائلہ بڑی ادا کے ساتھ انکل کی آنکھوں میں دیکھتی ہوئی ان کے  پاؤں میں بیٹھ گئی اور لن پر اپنی زبان پھیرنےلگی ، روفی کے لیے یہ سین تباہ کن ثابت ہوا،  زبان وہ انکل کےلن پر پھیررہی تھی ، لیکن انکل کے ساتھ وہ بھی مزے سے کانپ گیاتھا۔نائلہ نے پورا لن چاٹ لینے کے بعد اسے منہ میں  لے لیااور اسے لالی پاپ کی طرح چوسنے لگی ۔انکل اپنی گانڈ ہلا ہلا کر لن کو اس کے منہ کے اور اندر دھکیل رہے تھے ۔ان کے ہونٹوں سے لذت بھری سسکیاں نکل رہی تھیں ، کافی دیر تک نائلہ انکل کا لالی پاپ مزے سے چوستی تھی ۔پھر انکل نے اسے اوپر اٹھالیا اورا سکے ٹائٹ ممے چوسنے لگے ۔کچھ دیر کے بعد نائلہ نیچے تھی اور انکل اس کے اوپر ۔کچھ پل سے اس کے کان میں پڑتی آوازوں کی نوعیت یکسر تبدیل ہو چکی تھی۔ اس سیکس کے کھیل سے متعلق کوئی عملی باقاعدہ بات چیت کا تجربہ نہ ہونے اور معلومات نہ ہونے کے باوجود روفی کا زور تخیل اسے قریب ہی جاری مشق کے اسرار و رموز پر اندازے لگانے اور قیاس کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔ نائلہ کی مستی بھری سسکیوں، مستی والی جوان گرم سانسوں اور انکل کی گہری سانسوں کے بیچ میں دو تڑپتے جسموں کے مسلسل ٹکرانے کی آواز میں شدت آ رہی تھی اور وہ بڑھتی ہی جا رہی تھی۔ روفی کی موجودہ ذہنی کیفیت کا اندازہ لگانا انتہائی مشکل تھا، لیکن سمجھا جا سکتا تھا۔ کسی مخصوص سوچ اور تجزیے سے عاری وہ اس وقت بالکل بے حس لیٹا ہوا تھا اور انجان بے رحم سوچوں میں گم ہوا جا رہا تھا۔ آغاز میں جنم لینے والا اشتعال، غصہ، گبھراہٹ اور اب سب کچھ بے بسی میں تبدیل ہو چکا تھا۔ بے زاری اور حالات کی نزاکت بھی اسے یہ سوچنے پر مجبور کیے جا رہی تھی کہ جب ان دونوں کو کسی بات کی شرم، حیا اور فکر نہیں تو وہ کیوں اپنی جان عذاب کر رہا تھا۔ وہ دونوں تو اس سے بڑے تھے، سمجھدار تھے۔ اگر ان کو بدنامی کا ڈر نہیں تو وہ کیوں پریشان ہوا جا رہا ہے۔

 

آخر کیوں؟ روفی نے بے زاری سے ان کی جانب ایک نگاہ ڈالی تو مردانہ طاقت اور نسوانی قوت برداشت کا شاندار مظاہرہ ابھی بھی جا رہا تھا، بلکہ فل عروج پر تھا۔ انکل کا لن  پوری شدت اور قوت کے ساتھ نائلہ کی ہوا میں بلند ٹانگوں کے بیچ حرکت کر رہا تھا، گویا سب کچھ تباہ کرنے والا تھا۔ کشادہ سیکسی مست رانوں کے بیچ گیلا پڑتا نرم حصہ گداز ہر چوٹ پر اپنی وسعت اور گہرائی کا پتہ دے رہا تھا کہ اس میں کس قدر سما جانے کا ظرف ہے۔ انکل کسی پرانے اور ماہر جوکی کی طرح اپنی مست پالتو منہ زور گھوڑی کی منہ زور جوانی کو رام کرنے، بلکہ نکیل ڈالنے میں لگے تھے۔

 

دونوں انتہائی  لذت انگیز  چدائی میں مصروف تھے۔ روفی کا بھی شدید غصہ آ رہا تھا کیونکہ کوئی اس کی بہن کی چدائی لگا رہا تھا۔ اور تھوڑی دوری ہونے کی بنا پر پچ پچ کھچ کھچ چوتڑوں کو ٹکرانے سے پٹک پٹک کی دھیمی سروں میں جب آواز اس کے کان پڑتی تھی تو وہ چونک کے دوبارہ لائیو بہن کی مست چدائی کا منظر دیکھنے لگتا تھا۔

 

اور اسے ایک دم بہن بھول جاتی، بلکہ ایک مرد عورت کی چدائی کا سین نظر آنے لگتا تھا۔ اس کی بہن منہ زور گھوڑی تھی، جسے خوب شکنجہ کس کے ٹھرکی انکل کا توانا لن چود رہا تھا اور یوں لگ رہا تھا کہ اس کی بہن کی پھدی اس قدر شاندار لن  کو نہ جانے کیسے گم اندر چوت کے کرتی تھی۔

 

اس کی تو حیرت گم ہو رہی تھی کہ اتنا بڑا لن  جاتا کہاں ہے۔ ابھری ہوئی  پریم نگر والی چوتڑوں میں چھپی گھاٹی میں اس قدر گنجائش اس وقت نکلتی ہے جب لڑکی سے فل عورت بنا دی جائے۔ اس کا کریڈٹ بھی اس ٹھرکی انکل کو جاتا تھا، جس نے اس کی بہن کو لڑکی سے عورت بنا دیا تھا۔ نائلہ بھی پورے جوش اور لگن سے مست ہو کے اپنی جوانی کا خراج وصول کر رہی تھی۔ اسے ایسی ہی جوانی والا لنڈ چاہیے تھا۔ دنیا اور گرد و پیش سے بے خبر دونوں اس وقت مستی اور سرور میں فل ڈوبے ہوئے تھے۔

 

روفی نے ڈھیلا پڑتے ہوئے پیچھے ہو کر اپنی نگاہیں بند کر لیں اور سارے واقعے حالات پر غور کرنے لگا۔ وہ سوچنے لگا کہ پتہ نہیں کب سے یہ سلسلہ جا رہا ہے اور یہ دھندہ چل رہا ہے اور انکل پتہ نہیں کب سے نائلہ کو یوں اس طرح سے چود رہا ہے۔ ان کے انداز سے تو یہی لگ رہا تھا کہ نائلہ کے ٹھرکی خضر انکل سے جسمانی تعلقات کافی پرانے ہیں اور وہ پہلے بھی ایسی کئی دوپہریں ٹھرکی انکل کے ساتھ گزار چکی ہے۔ نائلہ کی شوخ اور الہڑ جوانی اور طبیعت کا تو پہلے سے واقف تھا، پر اس کے اصل رنگ ڈھنگ تو اس سین کو دیکھ کے آج واضح ہوئے تھے۔ اس کے بدن کی حشر سامانی، اف کیا بتاؤں، اور تو دیکھ ہی چکا تھا۔ محلے کے کئی نوآموز بظاہر خوبصورت جوانوں کو گھاس نہ ڈالنے کی وجہ بھی اب سمجھ آ رہی تھی۔

 

اپنے صحت مند، چھلکتے سیکسی جوان جسم کی تڑپ اور پیاس سے بے بس ہو کے وہ منہ زور گھوڑے کی طرح تگڑے گھوڑے کی تلاش میں تھی۔ وہ اپنی منہ زور جوانی ایک پختہ، تجربہ کار اور قوی مرد کے سپرد کر چکی تھی۔ اب اسے کسی بات کی پرواہ نہ تھی۔ روفی کو بارعب خضر انکل کے اپنے ساتھ خصوصی لگاؤ اور برتاؤ کی وجہ بھی اب سمجھ آ رہی تھی۔ وہ ان کی منظورِ نظر اور سیکسی حسینہ کا بھائی جو تھا۔

 

ایک دم روفی نے فیصلہ کیا اور اس کی آنکھوں میں روشنی کی چمک آئی۔ اس نے اپنے گول مٹول بھرے بھرے گوشت والے بدن کو دیکھا اور اچانک بے خیالی میں اس نے اپنے لن کو دیکھا اور اب اس کے چہرے پر اطمینان تھا۔ مزید چدائی کو دیکھنے کی بجائے اسے عملی ورک کرنا تھا۔ ایک گھنٹے کے بعد وہ اپنے دوست کے جم میں پہنچ چکا تھا اور اس کے ساتھ اس کی فرینک نیس تھی۔ صاف بول دیا، دوست، مجھے اپنے مسلز اور باڈی کو بہت شاندار بنانا ہے اور میں ڈائیٹ اور ورزش جیسے کہوں گا، کروں گا۔ اس نے بدن دیکھا اور بولا، موٹے ہو، جلد مسلز نکل سکتے ہو۔ تین ماہ کی بہترین ایکسر سائز سے میں تم کو جاندار مردانہ وجاہت کا شاہکار بنا دوں گا۔

 

اس نے مزید پوچھا، میرا لن بھی بہت شاندار بن سکتا ہے؟ اس نے بتایا، کیوں نہیں، اب جدید دور ہے۔ میڈیسن اور ورزش میں کروں گا۔ روفی نے اسے باقاعدہ استاد جان کے اس کے ہاتھ چوم لیے۔ گھر پہنچ کے اس نے جم جانے کے لیے کٹ پہنی۔ اس کی آپی اس وقت نہا کے باتھ روم سے نکل رہی تھی۔ اسے بتایا کہ وہ جا رہا ہے اور مزید جواب سنے وہ جم پہنچ گیا۔

 

اور اس کے دوست نے اس کے ساتھ بہت وفا کی اور تین ماہ کے بعد اب روفی کا لن انکل کے لن سے بھی نکلتے قد اور موٹائی والا بن چکا تھا۔ اس نے لن کو بہت شاندار اور پورے بدن کو کسرتی پہلوان نما بنا دیا تھا۔ اس کے مسلز دیکھ کے اس کی آپی اب حیران ہو جاتی تھی۔ روفی نے اب اگلے ٹارگٹ پر کام شروع کر دیا اور مزید ایک ماہ کے بعد آج وہ اس قابل ہو گیا تھا کہ انکل کی ایک کنواری بیٹی کو اس طرح اس سین اسی وقت میں چودنے کے لیے لا چکا تھا۔

 

ایک روز قبل اس نے باتھ روم میں لن ننگا کر کے دیکھا۔ تیل کی مالش کرتے ہوئے اس نے پیمائش کی۔ ساڑھے آٹھ انچ اور تین انچ سے موٹائی ڈایا گرام کا لن اوپر تنا ہوا تھا کہ اس کی شریانیں اوپر نمایاں تھیں۔ رگوں میں توانا خون تھا۔ اس وقت انکل سکھر  گئے ہوئے تھے۔

 

اس نے جم کے اس کی بیٹی کی  کنواری چوت، پریم نگر کی گھاٹی کو وسیع و عریض بنا دیا تھا۔ اسے سردی میں بھی پسینہ آ گیا تھا اور اس نے جی بھر کے اسے چودا اور دل میں انکل کو گالیاں دیتا رہا، سالا کتا کیا سمجھتا ہے اپنے آپ کو؟ آ دیکھ تیری کنواری بیٹی کی پھاڑ ڈالی ہے، جیسے تو نے میری آپی کو چودا تھا۔

 

تین دن بعد اسے موقع مل گیا تھا۔ اس کی آپی اور وہ رات کو اکیلے تھے۔ اس نے بولا، آپی، کیوں نہ ہم ایک ہی کمرے میں سو جائیں؟ اس نے کہا، اچھا ٹھیک ہے۔ پھر اس نے جان بوجھ کے انگریزی فلم لگا دی۔ لیپ ٹاپ سامنے رکھا تھا اور ڈبل ایکس مووی تھی۔ نہ جانے کب اس کی آپی کو انکل کی یاد نے ستانا شروع کر دیا تھا۔

 

رات کا ایک بج گیا۔ روفی جاگ رہا تھا۔ اس کی آپی بھی نہیں سوئی تھی۔ دونوں کروٹیں بدل رہے تھے۔ اس نے فلم لگاتے وقت آپی سے بولا تھا کہ آپ سو جاؤ، میں فلم دیکھے بنا نہیں سو پاؤں گا۔ اور اس نے جان بوجھ کے اس طرح کیا تھا۔ اس کی پی تھی، کچھ شرم باقی تھی۔ کیسے منہ سے کہتا، مجھے چودنا ہے؟

 

اس نے بہانہ بنا کے چودنی تھی۔ جون کا مہینہ تھا جب ٹھرکی انکل کو اس نے بہن کو چودتے دیکھا تھا اور اب دسمبر آ گیا تھا۔ نہ جانے کتنی بار انکل مزید چود چکا تھا اور چوت کو کھول چکا تھا۔ لیکن روفی کو یقین تھا کہ اس کا لن ایک بار آپی کی چوت میں چلا گیا تو پھر کبھی کسی غیر سے نہیں چدائے گی اور گھر کی بات گھر میں رہے گی۔ کمرے میں ہیٹر چل رہا تھا۔

 

اب کمرہ کافی گرم ہو گیا تھا یا ان کے جذبات بھڑک گئے تھے۔ اس نے نوٹ کر لیا تھا کہ اس کی گرم آپی چوری چوری ڈبل ایکس انگلش مووی کو انجوائے کرتی رہی ہے اور پھر اس نے یہ بھی نوٹ کیا کہ اس کی آپی نے ہولے سے پاؤں کے ساتھ گرم کمبل کو پیچھے کر دیا تھا اور اس کی حیرت سے آنکھیں کھل گئیں۔ وہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اس کی پی بیڈ پر یوں سیکسی نائٹی پہن کے برابر سوئے گی۔ اف کیا سین تھا۔

 

اس نے چوری سے دیکھا کہ اس کی پی کا گورا دودھیا رنگ تھا اور اس کے سیکسی کسرتی مسلز چوتڑ تھے جو عام طور پر کم ہوتے ہیں۔ بھرے بھرے چوتڑ مسلز مرد کو اتیجیت کرتے ہیں۔ اس کی سیکسی نائٹی بمشکل اس کے چوتڑ ڈھانپ رہی تھی اور اس کی ٹانگوں پر ایک بھی بال نہیں تھا۔ تازہ ویکس ہو جیسے ریشمی ملائم ٹانگیں اور روفی دھیرے کے ساتھ اس کے پیچھے سے لگ کے سونے کا پلان کرنے لگا تھا۔

 

اور اس نے آپی کے قریب ہو جانا مناسب سمجھا۔ اس کی آپی کی کمر اب اس کے سینے کو ٹچ کرنے لگی تھی اور اس نے نوٹ کر لیا تھا کہ وہ بھی اندر سے جاگ رہی تہی۔ اس نے سانسوں کا گولا اس کی گردن پر پھینکا۔ گردن کے بال ہلے اور اس کا لن تن گیا۔ ساتھ ہی اس کی آپی نے سمٹ جانا مناسب سمجھا تھا۔ ہی لمس کا اثر تھا۔ روفی نے حتمی کام کرنے کا سوچا۔

 

اور ایک دم آپی سے لپٹ گیا۔ اب اس کا لن آپی کی گانڈ کے سوراخ اور عین لائن کے اوپر، بلکہ بیچوں بیچ گھسنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا۔ ایک دم موٹا لن، اس نے آپی کو بازووں کے شکنجے میں لیا۔ اس نے چھڑانے کی کوشش کی۔ اسے پیچھے مڑ کے دیکھا، جیسے تسلی کر رہی ہو۔ روفی نے مزید کر کے دبوچ لیا اور بولا، اب نہیں چھوڑوں گا۔

 

اور اس کی نازک کلائیوں کو مضبوطی سے قابو کر لیا تھا۔ وہ کسمسائی اور چھڑانے لگی اور بولے سے بولی، بھیا کیا کر رہے ہو؟ اس نے جواب دینے کی بجائے ایک جملہ بول کے اسے ٹھنڈا کر دیا، تو اب کبھی اس حرامی انکل کے پاس نہیں جائے گی۔ گھر میں فصل کاٹی جائے گی۔ وہ کتا سالا کون ہوتا ہے میری بہن کو چودنے والا؟ میں نے اس کی بیٹی چود کے تمہارا بدلہ لے لیا ہے۔ اب میں ہی تم کو ٹھنڈا کیا کروں گا۔ اس کے ساتھ ہی روفی نے لپس یوں چوسنے شروع کر دیے تھے جیسے صدیوں کا پیاسا ہو۔

 

اور وہ یوں ڈھہ گئی جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ اس کا بھائی اس کے انگ انگ میں اب آگ بھرنے لگا تھا۔ اس نے سوچا بھی نہ تھا کہ اس کے بھائی کا لن انکل کے لن کو بھی مات دے سکتا ہے۔ اس نے وہی دیکھا اور اس پر فدا ہو گئی تھی۔ نہ جانے کب اسے اس وقت علم ہوا جب اس کے بھائی کا دندناتا ہوا ہتھوڑا نما لن اس کی گرم گھاٹی میں اتر کے چھلنی چھلنی کرنے لگا تھا۔

 

اور اسے یوں لگا کہ اب دوبارہ کنواری چوت کسی نے پھاڑ ڈالی ہو۔ اس کی چیخ نہ نکل سکی کیونکہ روفی نے اس کا منہ اپنے منہ کو اوپر رکھ کے بند کر دیا تھا۔ اور اس وقت اگر رفتار ناپی جا سکتی تو سو میل فی گھنٹہ سے کم نہ تھی۔ وہ تو نان سٹاپ چوت کی دھجیاں بکھیرنے پر تلا ہوا تھا۔ کل کا بچہ اس وقت گھبرو جوان بن کے بہن کی تسلی کرنے کا کافی تھا۔

 

اس کی آپی کی آنکھیں باہر کو نکل چکی تھیں۔ اتنا بڑا لن لے کر کس کی آنکھیں باہر نہ نکلیں؟ وہ تو چود بھی غصے اور جنون سے رہا تھا، بنا رکے۔ اور اب اس کی بہن نے اسے اپنے ساتھ خود ہی لپیٹ لیا تھا۔ اس کا بھائی جو مزہ اسے دے رہا تھا، اس کا کبھی تصور بھی اس نے نہیں کیا ہو گا۔

 

لیکن وہ تھا کہ چودے ہی جا رہا تھا، چودے ہی جا رہا تھا اور بولا، اب تو کسی کے پاس نہیں جائے گی۔ اگر کسی کا لن تیرے بھائی سے شاندار ہو تو چلی جانا۔ نہ جانے وہ کیا کیا بکتا رہا۔ اس کی مردانگی کو اس وقت قرار ملا جب اچانک اسے علم ہوا کہ وہ فارغ اندر ہو کے پھر بھی چودے ہی جا رہا ہے۔

 

وہ نیچے سے نکل کے بھاگی اور زور لگا کے منی نکالنے لگی۔ وہ ڈر گئی، حمل کا خطرہ بن گیا تھا۔ لیکن روفی نے اسے پر سکون کر دیا جب اس نے گولیوں کا پیکٹ اس کا خالی ریپر آپی کو دکھا کے کہا، تیرے مشروب میں ملا دی تھی تاکہ تو بھائی کا حمل نہ کر لے۔ وہ واش روم کی دیوار اور ٹوٹی کو تھام کے نیچے بیٹھتی ہی گئی۔  روفی آج بہت مطمئن تھا ۔اس کی انا کو تسکین مل گئی تھی ۔ مرد جو ٹھہرا، اب کوئی مرد اس کے سوا اس کی آپی کو نہیں چود سکتا تھا۔ اس کے بھائی نے اس کی چوت ادھیڑ کے رکھ دی تھی اور ابھی بھی اس کے نرم پیٹ کے زیریں حصے میں درد ہو رہی تھی۔ لیکن اب وہ خوش تھی کہ اس کا بھائی کسی سے کم نہیں ہے۔ ختم شد۔

ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی