میرا نام شہناز ہے، میری عمر 18 سال ہے۔ میں لاہور میں اپنے خاندان کے ساتھ رہتی ہوں۔
میرے خاندان میں ابو دلدار خان، عمر 56 سال، امی آمنہ، عمر 38 سال، بھائی نعیم،
عمر 20 سال، اور میں شامل ہیں۔ ہم سب ایک کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ رضوان ہمارے
پڑوسی ہیں ۔جسے ہم چچا کہتے ہیں۔ وہ ابو کے بہت اچھے دوست بن گئے تھے ۔میرے ابو بینک میں جاب کرتے ہیں ۔ابو بہت سادہ اور مذہبی
طبیعت کے ہیں، بینک سے آنے کے بعد عبادت
میں مصروف رہتے ہیں۔ جب کہ امی ابھی بھی بھرپور جوان ہیں ۔وہ امی پر بالکل توجہ
نہیں دیتے تھے ۔ شاید انہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ ایک جوان عورت کو کیا چاہیے۔
میری امی جوان، خوبصورت، اور سڈول جسم کی مالک ہیں۔ ان
کے سینے کا سائز 38 انچ ہے، ان کے بڑے موٹے چوتڑ بہت ہی سیکسی ہیں ۔امی بہت خوش مزاج ہیں۔
کچھ دن پہلے کی بات ہے۔ جب ابو بینک چلے جاتے، تو رضوان
چچا ہمارے گھر آ کر ٹی وی دیکھتے تھے۔ امی ان کے لیے چائے بناتی تھیں۔ اس وقت شلوار
اور ٹی شرٹ میں ہوتی تھیں اور اس لباس میں امی بہت پیاری لگتی تھیں ۔امی
ہمیشہ ٹائٹ شرٹس پہنتی تھی جن میں امی کے بڑے بڑے ممے بہت ہی پیارے لگتے تھے ، ان
کے ممے بہت نمایاں ہوتے ہیں ۔
ایک دن رضوان چچا امی سے کہہ رہے تھے، کیا خوب لگ رہی
ہو، آمنہ!
امی اس بات پر مسکرا دیں۔چاچا بولے ۔آمنہ آئی لو یو۔امی پیار سے ان کی طرف دیکھ کر بولیں ۔۔لو یو ٹو رضوان
یہ سن کر میں حیران رہ گئی۔ مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ
دونوں کے درمیان کب محبت ہو گئی۔ چچا امی سے کہہ رہے تھے، میں تم سے محبت کرتا
ہوں، آمنہ!
امی نے جواب دیا، تم مجھے بہت اچھے لگتے ہو، رضوان۔
ایک دن گھر میں کوئی نہیں تھا سوائے امی اور میرے۔ تبھی
چچا آئے اور اندر والے کمرے میں جا کر امی کو گلے لگا کر چومنے لگے۔ میں نے چپکے
سے یہ دیکھا اور باہر والے کمرے سے کہا، امی، میں پڑوس کی عائشہ کے گھر جا رہی
ہوں، تھوڑی دیر میں آ جاؤں گی۔
اتنا کہہ کر میں باہر چلی گئی۔
کچھ دیر بعد میں دبے پاؤں واپس آئی تو دیکھا کہ چچا
مکمل ننگے تھے، اور امی ان کے 7 انچ کے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر چوس رہی تھیں۔ چچا
کا لن دیکھ کر میرا دل بھی کیا کہ جا کر اسے چوسوں، لیکن ہمت نہ پڑی۔ میں نے صرف
اپنی چوت میں انگلی ڈال لی۔ پہلی بار میں نے کسی مرد کا اتنا لمبا اور موٹا لن
دیکھا تھا۔ بچپن میں ایک بار نعیم بھائی کو ننگا دیکھا تھا، لیکن تب وہ بچے تھے۔
اب وہ 20 سال کے ہیں، اگر موقع ملا تو ان کے لن کے بھی درشن کروں گی۔
آہستہ آہستہ چچا نے امی کی شلوار اتار دی ۔ اب امی شرٹ
اور پینٹی میں تھیں۔ چچا امی کے 38 انچ کے
مموں کو زور زور سے سہلا رہے تھے۔ اچانک
انہوں نے امی کی شرٹ اتاردی۔امی نے نیچے برا نہیں پہنا ہواتھا۔چچا امی کے گورے
موٹے ممے دیکھ کر پاگل ہوگئے اور امی کے
مموں کو منہ میں لے کر چوسنے لگے۔
امی نے کہا، اور زور سے چوسو، میرے بادشاہ! برسوں سے
دبی جوانی کی گرمی نکال دو! شہناز کے ابو تو اب بوڑھے ہو گئے ہیں۔ 18 سال کی جوانی
میں میری شادی 35 سال کے مرد سے ہو گئی تھی۔ کئی سال ہو گئے، میری گرمی شانت کرو!
چوسو، رضوان! جم کر چوسو! یہ جوانی کے پہاڑ تمہارے ہیں!
چچا کافی دیر تک امی کےمموں کو چوستے اور سہلاتے رہے۔
پھر امی جھکیں اور چچا کے لن کو زور زور سے چوسنے لگیں۔
چچا بولے، اور زور سے چوسو! مزا آ رہا ہے!
امی نے کہا، ہاں، رضوان، مزا آ رہا ہے! کتنے دنوں بعد ایک تگڑا لن چوسنے کو ملا۔ کتنا نمکین ذائقہ ہے!
یہ سن کر میرے دل میں خیال آیا کہ کاش میں بھی اس کا
ذائقہ لے سکتی! میں نے طے کیا کہ ایک دن چچا کے لن کا مزا ضرور چکھوں گی۔ امی 15
سے 20 منٹ تک چچا کا لن چوستی رہیں۔ اچانک چچا کے لن سے ایک تیز پچکاری نکلی، جو
امی کے چہرے پر گری۔ امی نے وہ سفید کریم چاٹ لی اور بولی، کتنے دنوں بعد تگڑے لن کی کریم کھانے کو ملی، میرے بادشاہ!
چچا بولے، اپنے شوہر کی کریم کا کیا کرتی تھیں؟
امی نے کہا،شوہر کی کریم تو شادی کے بعد
شہناز اور نعیم کو پیدا کرنے میں لگ گئی۔ جب یہ دونوں ہو گئے، تو ان کا لن کھڑا ہی
نہیں ہوتا تھا، تو کریم کہاں سے نکلتی؟
یہ سن کر میں حیران ہو گئی کہ میری پیدائش سے اس کریم
کا کیا تعلق؟ بعد میں مجھے سمجھ آئی۔
پھر چچا کا ہاتھ امی کی پینٹی پر گیا اور اسے ایک جھٹکے
سے اتار دیا ۔ اب امی مکمل ننگی تھیں۔ چچا امی کی چوت کو ہاتھوں سے سہلا رہے تھے
اور کہہ رہے تھے، کیا شاندار چوت ہے! اتنی گداز اور پھولی ہوئی!
انہوں نے کہا کہ انہوں نے کبھی تصویر میں بھی ایسی چوت نہیں دیکھی، اتنی گوری چوت ،
ایک بھی بال نہیں چوت پر اف ، آمنہ!
یہ سن کر میں نے طے کیا کہ میں بھی اپنی چوت پر ویکسنگ
کرواؤں گی تاکہ چچا جیسے مرد میری چوت میں پھنس جائیں۔
چچا نے امی کی چوت میں انگلی ڈال کر آگے پیچھے کرنا
شروع کیا۔پھر امی کو لٹا کر ان کی چوت چاٹنےلگے ۔اف امی زور زور سے چیخ رہی تھیں
۔۔میرے جسم میں بھی مستی کی لہریں دوڑ رہی تھیں ۔ 10-12 منٹ بعد امی بولیں، اب
نہیں سہا جاتا، میرے بادشاہ! اس پیاسی چوت کو چود دو، پھاڑ دو! جم کر چودو، ساری
پیاس بجھا دو!
چچا بولے، اب لو، تیری چوت کی گرمی نکالتا ہوں!
اتنا کہہ کر چچا نے اپنا لن امی کی چوت میں ڈال دیا اور
تیزی سے چودنے لگے۔ امی کے منہ سے سسکاریاں نکل رہی تھیں، آہ، چودو یار! کیا
زبردست چدائی کرتے ہو! مزا آ رہا ہے، اور تیزی سے چودو!
چچا نے اپنی رفتار اور تیز کر دی۔
یہ سب دیکھ کر میرے دل میں کئی سوال اٹھے۔ ان کی باتیں
سن کر میری چوت بھی گیلی ہو چکی تھی۔ دل کر رہا تھا کہ جا کر چچا کے لن پر بیٹھ
جاؤں اور اپنی چوت بھی چدوا لوں۔ تبھی میرے ہاتھ سے کھڑکی پر رکھی کٹوری گر گئی۔
امی چدائی میں مست تھیں، انہیں پتہ نہ چلا، لیکن چچا نے مجھے دیکھ لیا۔ انہوں نے
ایسے نظر انداز کیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو، اور امی کی چدائی میں لگ گئے۔
میں کھڑکی کے پاس سے انہیں دیکھتی رہی۔ چچا نے 20 منٹ
تک زور دار چدائی کی، پھر اپنا دہکتا ہوا لن امی کی چوت سے نکالا۔ امی اسے سہلانے
لگیں اور بولیں، ہو گیا کیا؟
چچا بولے، نہیں، آمنہ ڈارلنگ! ابھی تو تیری گانڈ مارنی ہے!
امی بولیں، نہیں، اس میں نہیں، یار! درد ہو جائے گا!میں نے گانڈ میں کبھی نہیں
لیا۔
چچا بولے، نہیں، آمنہ ڈارلنگ، جب تک تیری گانڈ نہ ماروں، میرا لن جھڑے گا نہیں۔
گانڈ میں چوت سے زیادہ گرمی ہوتی ہے!
اتنا کہہ کر چچا نے امی کو کمر کے سہارے پلٹ دیا۔ امی
کی گانڈ چچا کے لن کی طرف تھی۔ چچا نے اپنے لن پر کریم لگائی اور اسے امی کی گانڈ
پر رکھ کر آہستہ سے آگے بڑھایا۔
امی چیخیں، ہائے ماں! پھاڑ ڈالے گا کیا؟ بہت درد ہو رہا ہے، رضوان!
چچا نے امی کی باتوں پر توجہ نہ دی اور پورا لن امی کی گانڈ میں گھسیڑ دیا۔
امی چیخیں، ہائے ماں! گانڈ ہے، کوئی میان نہیں کہ پوری تلوار ڈال دی! بہت درد ہو
رہا ہے، جانو!
میں نے پہلی بار گانڈ مارنے کی بات سنی تھی۔ دل ہی دل
میں اس کا احساس کر رہی تھی۔ چچا امی کی گانڈ تیزی سے مارنے لگے۔ امی درد سے چیخ
رہی تھیں، لیکن چچا نے توجہ نہ دی۔ 10 منٹ بعد چچا نے امی کو کس کر پکڑ لیا، شاید
وہ جھڑ رہے تھے۔
امی بولیں، سارا مال اندر ہی نہ چھوڑ دینا!
یہ سن کر چچا نے اپنا لن نکالا اور امی کے منہ میں ڈال دیا۔ سفید کریم امی کے منہ
میں چھوٹی، اور امی اسے چاٹ گئیں۔ پھر چچا کے سینے پر سر رکھ کر مسکراتے ہوئے
بولیں، رضوان، آج تم نے برسوں کی پیاس بجھا دی! وعدہ کرو کہ میرا ساتھ ہمیشہ نبھاؤ
گے اور ہمیشہ ایسے ہی چودو گے!
چچا بولے، میں ہمیشہ تیری چدائی کروں گا، آمنہ!
امی اور رضوان چچا کے تعلقات کو دیکھ کر میرا دل بھی
بےقرار رہنے لگا تھا۔ میں 18 سال کی تھی، اور جوانی کے تقاضوں نے میرے دل و دماغ
پر قبضہ کر لیا تھا۔ رضوان چچا کی مضبوط شخصیت اور ان کا پرکشش جسم میری نظروں میں
بس گیا تھا۔ ہر بار جب وہ گھر آتے، میری نگاہیں ان کے جسم پر ٹھہر جاتی تھیں۔ میں
سوچتی کہ کاش میں بھی ان کے قریب جا سکوں، ان کا لمس محسوس کر سکوں۔
ایک دن دوپہر کا وقت تھا۔ ابو بینک گئے ہوئے تھے، اور
امی پڑوس میں کسی تقریب کے لیے گئی تھیں۔ نعیم بھائی کالج میں تھے۔ گھر میں صرف
میں تھی جب رضوان چچا آئے۔ وہ ہمیشہ کی طرح مسکراتے ہوئے اندر آئے اور ٹی وی آن کر
کے بیٹھ گئے۔ میں نے موقع دیکھ کر چائے بنائی اور ان کے لیے لے گئی۔
واہ، شہناز! آج تو تم نے خود چائے بنائی؟ انہوں نے
ہنستے ہوئے کہا۔
ہاں، چچا، سوچا آپ کے لیے کچھ خاص کروں۔ میں نے شرماتے ہوئے جواب دیا۔
میں نے جان بوجھ کر اپنا دوپٹہ تھوڑا سا سرکایا تاکہ
میرا بلاؤز نظر آئے۔ میری عمر کم تھی، لیکن میرا جسم جوانی کی طرف بڑھ رہا تھا۔
رضوان چچا کی نظریں مجھ پر ٹھہریں، اور ان کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔
شہناز، تم تو بڑی ہوشیار ہو گئی ہو! انہوں نے معنی خیز
لہجے میں کہا۔
میں شرما گئی، لیکن دل ہی دل میں خوشی سے جھوم اٹھی۔ چچا، بس آپ کی طرح اچھے لوگوں
سے سیکھ رہی ہوں۔
وہ ہنس دیے اور اٹھ کر میرے قریب آ گئے۔ تمہاری امی کی
طرح تم بھی بڑی باتونی ہو۔
میں نے ہمت کر کے کہا، امی سے تو آپ بہت قریب ہیں نا؟
ان کا چہرہ ایک لمحے کے لیے سنجیدہ ہوا، پھر وہ بولے، ہاں، لیکن تم بھی تو اب بڑی
ہو گئی ہو۔
میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ میں نے نظریں جھکائیں
اور کہا، چچا، کیا میں آپ کو اچھی لگتی ہوں؟
انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور آہستہ سے بولے، شہناز، تم تو اپنی امی سے بھی
زیادہ خوبصورت ہو۔
ان کے لمس سے میرے جسم میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی۔ میں
نے خود کو روکنے کی کوشش کی، لیکن جوانی کی آگ میرے اندر بھڑک رہی تھی۔ رضوان چچا
نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا۔ ان کی سانسیں گرم تھیں، اور ان کی آنکھوں میں وہی ہوس
بھری چمک تھی جو میں نے امی کے ساتھ دیکھی تھی۔
چچا، یہ غلط تو نہیں؟ میں نے ہکلاتے ہوئے کہا۔
شہناز، جب دل مانے، تو کچھ غلط نہیں ہوتا۔ انہوں نے میرا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا
اور میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔
میں سکتے میں آ گئی، لیکن ان کا چومنا اتنا گرم تھا کہ
میں خود کو روک نہ سکی۔ میں نے بھی ان کے ہونٹوں کا جواب دیا۔ ان کے ہاتھ میرے
بلاؤز کے بٹنوں تک پہنچے اور آہستہ سے اسے کھول دیا۔ میری چھوٹی، لیکن سڈول
چھاتیاں ان کے سامنے تھیں۔ انہوں نے انہیں ہلکے سے سہلایا، اور میرے منہ سے ایک آہ
نکل گئی۔
شہناز، تمہاری جوانی تو ابھی کھل رہی ہے! انہوں نے کہا
اور میری چھاتیوں کو چومنا شروع کر دیا۔
میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ ان کا لمس مجھے پاگل کر رہا تھا۔ چچا، اور... اور
کرو! میں نے ہانپتے ہوئے کہا۔
انہوں نے میری شلوار کا ناڑا کھول دیا۔ میری چوت پہلے
ہی گیلی ہو چکی تھی۔ انہوں نے آہستہ سے اسے سہلایا، اور میں تڑپ اٹھی۔ چچا، اب بس
کرو... مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا!
انہوں نے اپنی پتلون اتاری۔ ان کا تنا ہوا لن میرے سامنے تھا، وہی جو میں نے امی
کے ساتھ دیکھا تھا۔ میں نے ہمت کر کے اسے ہاتھ میں پکڑا۔ وہ گرم اور سخت تھا۔ میں
نے اسے سہلایا، اور رضوان چچا کے منہ سے ایک سسکی نکلی۔
شہناز، تم یہ کیا کر رہی ہو؟ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا۔
وہی جو امی نے کیا تھا! میں نے شرارت سے کہا اور آہستہ سے ان کے لن کو منہ میں لے
لیا۔ اس کا نمکین ذائقہ مجھے عجیب سا مزا دے رہا تھا۔
چچا نے میرے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور کہا، تم تو اپنی
امی سے بھی آگے نکل جاؤ گی!
کچھ دیر تک میں نے ان کے لن کو چوسا، پھر انہوں نے مجھے اٹھایا اور صوفے پر لٹا
دیا۔ اب تیری باری ہے، شہناز!۔چچا نے میری کنواری چوت پر اپنے ہونٹ لگادئیے ۔اف اففف
میں مزے سے تڑپ اٹھی ۔ چچا میری چوت چاٹ رہے تھے اور میں مزے سے ہواؤں میں اڑ رہی
تھی اس دن مجھے پتا چلا کہ چوت چٹوانے میں کتنا مزا آتا ہے ۔اس وقت میں نے پہلی
بار جنسی لذت کا مزا بھی چکھا۔اب میں لن لینے کے لیے بے چین تھی ۔چچا کو بھی پتا
چل گیاتھا۔انہوں نے اپنا لن میری چوت پر رکھا اور آہستہ سے اندر دھکیلا۔ پہلے تو
درد ہوا، لیکن پھر ایک میٹھا سا احساس جسم میں دوڑ گیا۔ چچا، آہستہ! میں نے کہا۔
ٹھیک ہے، میری جان، آرام سے! انہوں نے میری کمر پکڑ کر آہستہ آہستہ جھٹکے دینا
شروع کیے۔
میں ہوس کے سمندر میں ڈوبتی چلی گئی۔ ان کے جھٹکوں سے
میرا جسم جھوم اٹھا۔ چچا، اور زور سے! میں نے کہا، اور انہوں نے اپنی رفتار تیز کر
دی۔
کچھ ہی دیر میں میرا جسم اکڑ گیا، اور میں عروج پر پہنچ
گئی۔ میری سسکاریوں سے کمرہ گونج اٹھا۔ رضوان چچا بھی زیادہ دیر نہ روک سکے اور ان
کا لن جھڑ گیا۔ انہوں نے فوراً اسے باہر نکالا اور میری چھاتیوں پر اپنا مال چھوڑ
دیا۔
میں ہانپتی ہوئی لیٹ گئی۔ چچا میرے پاس لیٹ کر مسکرائے۔
شہناز، تم نے تو آج کمال کر دیا!
میں شرما کر بولی، چچا، یہ راز راز ہی رہنا چاہیے۔ امی کو پتہ چلا تو قیامت آ جائے
گی!
انہوں نے ہنستے ہوئے کہا، فکر نہ کرو، یہ ہمارا راز ہے۔
اس دن کے بعد میں اور رضوان چچا جب بھی موقع ملتا، چپکے
سے قریب آ جاتے۔ لیکن میں ہمیشہ ڈرتی کہ کہیں امی یا ابو کو پتہ نہ چل جائے۔ میری
جوانی کی پیاس تو بجھ گئی تھی، لیکن دل میں ایک عجیب سا خوف بھی رہتا تھا کہ یہ
راز کب تک چھپے گا؟
رضوان چچا کے ساتھ میرا راز اب ہم دونوں کے درمیان ایک
بندھن بن چکا تھا۔ لیکن دل میں ایک عجیب سی بےچینی تھی۔ امی کے ساتھ ان کے تعلقات
کی بات مجھے پریشان کرتی تھی، اور میں سوچتی کہ اگر امی کو میرے اور چچا کے راز کا
پتہ چل گیا تو کیا ہوگا؟ لیکن جوانی کی آگ اور دل کی خواہشات نے مجھے ایک ایسی راہ
پر ڈال دیا جہاں شرم و حیا کی دیواریں گرتی چلی گئیں۔
ایک دن شام کا وقت تھا۔ ابو بینک سے دیر سے واپس آنے
والے تھے، اور نعیم بھائی اپنے دوستوں کے ساتھ باہر گئے ہوئے تھے۔ میں اور امی گھر
پر اکیلے تھے جب رضوان چچا آئے۔ وہ ہمیشہ کی طرح مسکراتے ہوئے اندر آئے اور صوفے
پر بیٹھ گئے۔ امی نے ان کے لیے چائے بنانے کی تیاری شروع کی، اور میں نے موقع دیکھ
کر ان کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔
چچا، آج موسم بڑا سہانا ہے نا؟ میں نے شرارت سے کہا۔
رضوان چچا نے میری طرف دیکھا اور مسکرا دیے۔ ہاں، شہناز، موسم تو سہانا ہے، لیکن
تمہاری مسکراہٹ اس سے بھی زیادہ سہانی ہے۔
امی چائے لے کر آئیں اور ہم تینوں باتیں کرنے لگے۔ امی
نے اپنا دوپٹہ ہلکا سا سرکایا، اور ان کی شرٹ ہمیشہ کی طرح ٹائٹ تھی ۔ رضوان چچا کی نظریں امی
کے مموں پر ٹھہر گئیں، اور میں نے دیکھا
کہ امی بھی ان کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔ میرا دل زور زور سے دھڑکنے
لگا۔ میں جانتی تھی کہ اب کچھ ہونے والا ہے۔
شہناز، ذرا پانی لے آؤ نا۔ امی نے کہا، لیکن ان کا لہجہ
کچھ عجیب تھا۔ میں سمجھ گئی کہ وہ مجھے کمرے سے باہر بھیجنا چاہتی ہیں۔ لیکن اس
بار میں نے ہمت کی۔
امی، پانی تو بعد میں بھی آ سکتا ہے۔ آج تو ہم سب مل کر بیٹھیں نا۔ میں نے شرماتے
ہوئے کہا۔
رضوان چچا نے میری طرف دیکھا اور پھر امی کی طرف۔ آمنہ،
شہناز تو اب بڑی ہو گئی ہے۔ اسے بھی سب سمجھ آتی ہے۔
امی ایک لمحے کے لیے چونکیں، پھر ہنسنے لگیں۔ ہاں، رضوان، یہ تو میری بیٹی ہے۔ اسے
سب پتہ ہوتا ہے۔
امی کی بات سن کر میرا دل اور تیز دھڑکنے لگا۔ رضوان
چچا اٹھے اور امی کے قریب جا کر بیٹھ گئے۔ انہوں نے امی کا ہاتھ پکڑا اور آہستہ سے
ان کے گال پر ایک چوما دیا۔ میں خاموشی سے دیکھتی رہی۔ امی نے میری طرف دیکھا اور
کہا، شہناز، تو بھی آ جا۔ اب ہمارے درمیان کوئی پردہ نہیں۔
میں ہچکچائی، لیکن دل کی خواہش نے مجھے آگے بڑھنے پر
مجبور کر دیا۔ میں امی کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔ رضوان چچا نے میرا ہاتھ پکڑا اور
مجھے اپنی طرف کھینچ لیا۔ انہوں نے میرے ہونٹوں پر ایک گرم چوما دیا، اور امی نے
مسکراتے ہوئے میرا سر سہلایا۔
شہناز، ہم سب ایک دوسرے کے رازدار ہیں۔ امی نے کہا۔ رضوان
ہم دونوں کی جوانی کی پیاس بجھاتا ہے۔ تو بھی اس سے اپنی خواہش پوری کر۔میں سب
جانتی ہوں اس دن رضوان نے تمہیں کلی سے پھول بنایاتھا۔ماں سے بیٹی کی کوئی چیز چھپ
نہیں سکتی ۔مجھے خوشی ہے رضوان نے تمہیں بھی اپنالیا ہے ۔
میں شرما گئی، لیکن امی کی باتوں نے میری ہچکچاہٹ دور
کر دی۔ رضوان چچا نے امی کی شرٹ اتار دی ،
اور ان کے سڈول مموں کو سہلانے لگے۔ پھر
انہوں نے میری طرف دیکھا اور میرا دوپٹہ اتار دیا۔ انہوں نے میری قمیض اور برا
اتاردیا ، اور ان کے ہاتھ میری چھوٹی لیکن سڈول چھاتیوں پر پھرنے لگے۔
امی نے رضوان چچا کی قمیض اور شلوار اتار دی، اور ان کا مضبوط جسم ہم
دونوں کے سامنے تھا۔ امی نے ان کے لن کو ہاتھ میں لیا اور سہلانے لگیں۔ میں نے بھی
ہمت کی اور ان کے لن کو چھوا۔ وہ گرم اور سخت تھا، اور اسے چھونے سے میری چوت گیلی
ہو گئی۔
شہناز، دیکھ، یہ کتنا مضبوط ہے! امی نے ہنستے ہوئے کہا۔
رضوان چچا نے ہنستے ہوئے کہا، آمنہ، تم نے تو اسے ہر بار آزمایا ہے۔ اب شہناز کی
باری ہے۔
امی نے مجھے اپنی طرف کھینچا اور میرے ہونٹوں کو چوما۔
یہ احساس عجیب لیکن پرلطف تھا۔ پھر انہوں نے میری شلوار کا ناڑا کھول دیا۔ رضوان
چچا نے امی کی شلوار بھی اتار دی ، اور اب ہم تینوں الگ ننگے غیر کسی پردے کے ایک
دوسرے کے سامنے تھے۔
رضوان چاچا نے ہم دونوں ماں بیٹی کو صوفے پر بیٹھادیا ۔انہوں
نے پہلے امی کے منہ میں اپنا لن دے دیا امی زور زور سے لن چوسنےلگیں ۔کچھ دیر کے
بعد چچا نے لن میرے منہ میں دے دیا۔میں لن چوسنےلگی امی بڑے پیار سے مجھے لن
چوستےہوئے دیکھنے لگیں ۔اس کے بعد چچا رضوان باری بار ی میری اور امی کی چوت چاٹنے
لگے ۔افففف کیا مست ماحول تھا۔میں اور امی مستی سے چیخنےلگ گئی تھیں ۔چچا نے اب
امی کو میری چوت چاٹنے کو بولا۔امی نے
مجھے لٹادیا اور میری ایسی چوت چاٹی کہ میں مزے سے پاگل ہوگئی ۔
رضوان چچا نے امی کو صوفے پر لٹایا اور ان کی چوت میں
اپنا لن ڈال دیا۔ امی سسکاریاں لینے لگیں۔ رضوان، اور زور سے! امی نے کہا۔
میں خاموشی سے دیکھتی رہی، لیکن میرا جسم بھی گرم ہو رہا تھا۔ امی نے میرا سر پکڑ
کر اپنے مموں رکھ دیا۔میں امی کے ممے چوسنے لگی ۔امی چدائی اور ممے چسائی سے فل
مزے لے رہی تھیں۔
رضوان چچا نے امی کی چدائی جاری رکھی، اور پھر وہ میری
طرف مڑے۔ انہوں نے مجھے اپنی طرف کھینچا اور میری چوت پر اپنا ہاتھ پھیرا۔ شہناز،
تیری جوانی تو تیری امی سے بھی زیادہ گرم ہے! انہوں نے کہا۔
انہوں نے اپنا لن میری چوت پر رکھا اور آہستہ سے اندر
دھکیلا۔ درد کے ساتھ ایک میٹھا سا احساس جسم میں دوڑ گیا۔ امی نے میرا ہاتھ پکڑ کر
مجھے حوصلہ دیا۔ شہناز، بس آرام سے۔ یہ جوانی کا مزا ہے!
رضوان چچا نے آہستہ آہستہ جھٹکے دینا شروع کیے۔ امی ان
کے ساتھ لپٹ گئیں اور ان کے ہونٹ چومنے لگیں۔ ہم تینوں ایک عجیب سی ہوس کے عالم
میں ڈوب گئے۔ رضوان چچا ایک وقت امی کو چود رہے تھے، اور پھر میری طرف مڑ کر میری
چدائی کر رہے تھے۔ امی اور میں ایک دوسرے کے جسم کو سہلا رہے تھے، اور یہ احساس ہر
پل مزید شدید ہوتا جا رہا تھا۔
کچھ ہی دیر میں میرا جسم اکڑ گیا، اور میں عروج پر پہنچ
گئی۔ امی بھی سسکاریاں لیتے ہوئے جھڑ گئیں۔ رضوان چچا نے اپنا لن باہر نکالا اور
ہم دونوں کے جسموں پر اپنا مال چھوڑ دیا۔ ہم تینوں ہانپتے ہوئے صوفے پر لیٹ گئے۔
رضوان، تم نے آج ہم دونوں کی پیاس بجھا دی! امی نے
ہنستے ہوئے کہا۔
میں شرما کر بولی، چچا، یہ راز بس ہم تینوں تک رہنا چاہیے۔
رضوان چچا نے مسکراتے ہوئے کہا، فکر نہ کرو، یہ ہمارا راز ہے۔ ہم تینوں اب ایک
دوسرے کے رازدار ہیں۔
اس دن کے بعد ہم تینوں جب بھی موقع ملتا، ایک دوسرے کے
ساتھ اپنی جوانی کے مزے لیتے۔ ہمارے
درمیان کوئی پردہ نہ تھا، لیکن یہ راز ہمارے گھر کی چار دیواری تک محدود رہنا تھا۔