جنید میرا بہت اچھا دوست ہے اور اس کا اپنا کاروبار بھی
ہے۔ باپ دادا کی کمائی ہے، پیسے کی کوئی کمی نہیں۔ بس ایک چیز کی کمی ہے کہ وہ بہت
موٹا ہے۔ لیکن تیز اتنا ہے کہ اگر کوئی اس کے پاس تیس منٹ بیٹھ جائے تو وہ اس سے
تعلق بنا کر اس کے گھر تک پہنچ جاتا ہے، اور یہی اس کا طریقہِ واردات بھی ہے۔
فیملی سے تعلق بناتا ہے، پھر پوری فیملی کی لڑکیوں کو پھنساتا ہے۔ لیکن اگر کوئی
لڑکی نہ سیٹ ہو تو اس کا نمبر مجھے بھیج دیتا ہے۔
میں اپنے دفتر کے کام میں مصروف تھا جب موبائل کی گھنٹی
بجی۔ میں نے موبائل دیکھا تو یہ جنید تھا۔ کال اٹینڈ کی اور سلام کیا تو جواب میں
اس نے بھی سلام کیا۔ روٹین کی باتوں کے بعد وہ بولا، یار ساحر، ایک لڑکی ہے، عظمیٰ۔
اتنی خوبصورت کہ اس کے علاقے میں اس جیسی کوئی لڑکی نہیں ہوگی۔ لیکن سالی بات کرتی
ہے پر لائن پر نہیں آ رہی۔ اس کے گھر کے حالات اچھے نہیں ہیں۔ بیمار باپ ہے، دو
بھائی ہیں جو کوئی کام نہیں کرتے کیوں کہ پڑھے لکھے نہیں ہیں، اور دو اس سے چھوٹی
بہنیں ہیں۔
جنید کی بات سنتے ہی میرے دل میں لڈو پھوٹے کہ ایک نیا
شکار ہاتھ میں آنے والا تھا۔ تو میں نے کہا، جنید میری جان، اب میں کیا کروں؟ وہ
بولا، یار، میں نے اسے تمہارا نمبر دیا ہے کہ تم اس کے بھائیوں کو کام پر لگوا دو
گے۔ اس بہانے ہو سکتا ہے تمہارا بھی کام ہو جائے۔
میں نے کہا، اوکے، اس کے بھائی کتنا پڑھے ہیں اور کیا
کام کرتے ہیں؟ جس کے جواب میں اس نے وہ تفصیل بتائی جو اوپر بیان ہوئی ہے۔ تو میں
نے کہا، ٹھیک ہے میری جان، تم اس کا نمبر مجھے دے دو تاکہ جب اس کی کال آئے تو
مجھے پتہ چل جائے کہ یہ عظمیٰ ہے۔ جنید نے اس کا نمبر مجھے لکھوا دیا۔ کال ختم کر
کے میں نے نمبر سیو کیا اور اپنے کام میں لگ گیا۔
جیسا کہ میں نے آپ کو پہلے بتایا ہے کہ میں ایک کمپنی
میں انجینئر ہوں اور میرا نوے فیصد کام فیلڈ میں ہوتا ہے۔ دفتر سے نکل کر مجھے کچھ
فیلڈ کے کام کرنے تھے، اس لیے ڈرائیور کو ساتھ لیا اور کام پر چل پڑا۔ شام کے تین
بجے تھے جب میرے نمبر پر عظمیٰ کی کال آ گئی۔ میں نے انجان بن کر کال اٹینڈ کی
تاکہ اسے پتہ نہ چلے کہ اس کا نمبر پہلے سے میرے پاس ہے۔ کال اٹینڈ کی تو ایک نرم
سی آواز میرے کانوں میں پڑی۔
سلام کے بعد میں نے پوچھا، جی کون؟ تو وہ بولی، میری
ساحر صاحب سے بات ہو سکتی ہے؟ میں نے کہا، جی، میں ساحر ہی بات کر رہا ہوں، آپ
کون؟ وہ بولی، جی، میرا نام عظمیٰ ہے اور میں چکوال سے بات کر رہی ہوں۔ مجھے آپ کا
نمبر جنید بھائی نے دیا تھا۔
میں نے کہا، اوہ، اچھا اچھا، جنید کی کال آئی تھی اور
اس نے مجھے بتایا تھا کہ کسی کو میرا نمبر دیا ہے۔ بتائیں، میں آپ کی کیا خدمت کر
سکتا ہوں؟ تو وہ بولی، جنید نے بتایا تھا کہ آپ ایک انجینئر ہیں۔ پلیز، میرے
بھائیوں کو کوئی اچھی سی جاب دلا دیں۔ ہم غریب لوگ ہیں اور بہت مجبور ہیں۔ آپ کی
مہربانی ہو گی۔
تب میں نے کہا، مس عظمیٰ، مجھے جنید نے سب بتایا ہے،
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ کے بھائی پڑھے لکھے نہیں ہیں اور کوئی کام بھی نہیں جانتے،
تو ایسی صورت میں انہیں کون سا کام ملے گا؟ وہ پھر منتیں کرنے لگی کہ پلیز، آپ
ہماری مدد کریں، ہم بہت مجبور ہیں۔ تب میں نے اسے کہا، ٹھیک ہے مس عظمیٰ، میں اپنی
پوری کوشش کروں گا کہ انہیں کہیں کام لگوا دوں۔ آپ بس دعا کرو۔ اس نے خوش ہو کر
میرا شکریہ ادا کیا اور فون بند کر دیا۔
کال بند ہوئی تو میرا ڈرائیور، جو کہ میرا رازدار بھی
تھا، وہ بولا، ساحر بھائی، کوئی نیا شکار ہے کیا؟ میں نے اسے ساری بات بتائی اور
کہا، یار، تم اچھی طرح جانتے ہو کہ میں کسی کی مجبوری کا فائدہ نہیں اٹھاتا۔ وہ
لڑکی مجبور ہے، ایسی صورت میں میرا ضمیر گوارا نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کچھ غلط
کروں۔ ہاں، البتہ اگر اس کے بھائی کام پر لگ جائیں تو اس کے بعد اس سے سیدھے طور
پر بات کر سکتا ہوں۔ اگر مان جائے تو ٹھیک، ورنہ کیا ہو سکتا ہے؟
تب وہ بولا، آپ صادق کو کال کریں، وہ ایک سیکیورٹی
کمپنی میں ہے، وہ کہیں گارڈ لگوا دے گا۔ مجھے ڈرائیور کی بات پسند آئی اور میں نے
فوراً صادق کو کال ملائی۔ اس سے گول مول بات کر کے کہا کہ فوری طور پر کچھ انتظام
کرو۔ صادق نے کہا، ساحر بھائی، ایک آدمی فوراً ایڈجسٹ ہو سکتا ہے، باقی بعد میں
دیکھ لیں گے۔
میں نے صادق کو اوکے کیا اور اگلے دن عظمیٰ کو کال کر
کے کہا کہ اپنے ایک بھائی، جس کا شناختی کارڈ بنا ہوا ہے، اسے فوراً لاہور بھیج
دو۔ تمہارے بھائی کو سات ہزار روپے تنخواہ ملے گی اور بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی ہے۔ وہ
بہت خوش ہوئی اور میرا بار بار شکریہ ادا کرنے لگی۔
اگلے دن اس کا بھائی لاہور آ گیا۔ میرے کہنے پر صادق نے
خود اسے پک کیا اور جہاں ڈیوٹی کرنی تھی، وہاں چھوڑ آیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ لڑکے
کی ڈیوٹی ایک پرائیویٹ ہسپتال میں ہے، جہاں وہ گارڈ کے ساتھ ساتھ پارٹ ٹائم پارکنگ
میں بھی ڈیوٹی کر سکتا ہے، جس سے اس کی تنخواہ زیادہ ہو جائے گی۔ میں نے اس کا
شکریہ ادا کیا اور کام میں مصروف ہو گیا۔
اسی رات عظمیٰ نے مجھے کال کی، لیکن اپنی بیوی کے پاس
ہونے کی وجہ سے کال اٹینڈ نہیں کی اور کاٹ دی۔ صبح ڈیوٹی پر پہنچ کر عظمیٰ کو کال
کی، اور یہ پہلی دفعہ تھا کہ ہماری بات ایک گھنٹے سے زیادہ ہوئی۔ میں نے عظمیٰ کو
بتا دیا کہ میں شادی شدہ ہوں اور جب میں گھر پر ہوں گا تو اس کی کال اٹینڈ نہیں
کروں گا۔ اگر اسے کوئی بات کرنی ہے تو ڈیوٹی ٹائم پر کر سکتی ہے یا مجھے میسج کر
دے، فری ہو کر میں اسے کال کر لوں گا۔
اس طرح روزانہ بات ہونے لگی۔ اس نے بتایا کہ اس کے ماں
باپ بوڑھے ہیں اور وہ گھر میں سب سے بڑی ہے، اسی لیے اس نے مجھے کال کی تھی۔ میں
نے اس کے ساتھ بہت ہمدردی والا سلوک کیا، جس کی وجہ سے اس نے اپنے بارے میں مجھے
بہت کچھ بتا دیا۔ ان باتوں میں ایک بات ایسی بھی تھی جس سے مجھے پتہ چلا کہ وہ خود
فیصل آباد میں جاب کرنے گئی تھی اور وہاں اس کے ایک ماموں نے اس کے ساتھ سیکس کرنے
کی کوشش کی تھی۔
مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ چونکہ اس کی عمر پچیس سال ہے
اور اسے بھی سیکس کی طلب ہے، لیکن وہ جنید کو موٹا ہونے کی وجہ سے پسند نہیں کرتی
تھی۔ اس طرح ہم بہت کھل کر باتیں کرنے لگے۔ اس طرح دو ماہ گزر گئے۔ اس دوران میں
نے عظمیٰ کو کچھ پیسے بھی بھیجے اور اس کے بھائی کی تنخواہ بھی ٹائم پر بھجواتا
رہا۔
پھر ایک دن اس کی کال آ گئی۔ وہ فون پر کہہ رہی تھی کہ
وہ کسی کام کے سلسلے میں لاہور آ رہی ہے، کیا آپ سے ملاقات ہو سکتی ہے؟ میں نے
پوچھا، کب آنا ہے؟ تو اس نے کہا، چھ دن بعد۔ میں بہت خوش تھا کہ چلو، دو ماہ کی
محنت رنگ لا رہی ہے۔
میں نے اسے کہا، عظمیٰ، تم لاہور میں رہو گی کہاں؟ کیوں
کہ تمہارا بھائی تو بیچلر لڑکوں کے ساتھ رہتا ہے۔ وہ بولی، میرا ایک کزن اپنی
فیملی کے ساتھ شاد باغ میں رہتا ہے، وہاں رہ لوں گی۔ میں نے کہا، اگر مجھ سے ملنا
ہے تو پھر میرے پاس رہنا پڑے گا۔ وہ بولی، آپ اپنی بیوی کو کیا کہیں گے؟ اور ویسے
بھی میری امی نے کزن کو کال کر دی ہے۔ تو میں نے کہا، میری بیوی کی تم ٹینشن نہ
لو، اور کزن کو خود ہینڈل کرو۔ تم میرے پاس رہو گی، یہ میرا آخری فیصلہ ہے، ورنہ
ہماری ملاقات نہیں ہو سکتی۔ تو اس نے کہا، اوکے، آپ مجھے کزن کے گھر سے لے لینا۔
اب میرے پاس چھ دن تھے، اور ان چھ دنوں میں مجھے عظمیٰ
کو راضی کرنا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے میرے ساتھ سیکس کرے، نہ کہ مجبور ہو کر۔
دوسرے دن میں نے اسے کال کی اور بتایا کہ میں نے انتظام کر لیا ہے۔ جس دن تم آؤ
گی، میں اپنی بیوی کو اس کے میکے بھیج دوں گا۔ تب وہ بولی، کیا میں اکیلی آپ کے
ساتھ رہوں گی؟ میں نے کہا، ہاں، تم اکیلی رہو گی۔ وہ بولی، یہ بہت مشکل ہے۔
میں نے دل میں فیصلہ کیا کہ آج دو ٹوک بات کر لوں۔ تب
میں بولا، عظمیٰ، میں نے جنید سے تمہاری بہت تعریف سنی ہے، اور باتیں کر کے بھی
اندازہ ہو گیا ہے کہ تم بہت اچھی اور خوبصورت ہو۔ اب میرا دل تم پر آ گیا ہے، لیکن
میں تمہیں دھوکا نہیں دینا چاہتا اور نہ ہی زبردستی کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن میں تم
سے پیار کرنا چاہتا ہوں۔ آگے تمہاری مرضی ہے۔ اگر تم ہاں کہو گی تو میں ملوں گا،
ورنہ نہیں۔ اور اگر تم انکار کر بھی دو تو ہماری دوستی کبھی ختم نہیں ہو گی۔ لیکن
اگر تم مان جاؤ تو یہ بات ہم دونوں کے درمیان رہے گی اور کبھی کسی کو پتہ نہیں چلے
گا۔ میرا وعدہ ہے تم سے۔
وہ بولی، نہیں ساحر، یہ نہیں ہو سکتا۔ میں ایسا کر ہی
نہیں سکتی۔ میں نے اسے کہا، عظمیٰ، اگر تمہیں دھوکا دینا ہوتا تو میں تمہیں کچھ نہ
بتاتا اور گھر لے آتا۔ لیکن میں ایسا نہیں کرنا چاہتا۔ میں تمہاری مرضی سے تم سے
پیار کرنا چاہتا ہوں۔ تم سوچ لو اور پھر مجھے فون کر دینا۔ یہ کہہ کر میں نے کال
بند کر دی۔
اس دن اور اس سے اگلے دن ہماری بات نہیں ہوئی۔ اب تین
دن باقی تھے۔ تب اس کی کال آ گئی اور وہ بولی، ساحر، میں آپ کو ناراض نہیں کر
سکتی۔ لیکن میری شادی نہیں ہوئی۔ آپ وعدہ کرو کہ صرف پیار کرو گے اور کچھ نہیں کرو
گے، تو میں آ جاؤں گی۔
میں نے پھر کہا، دیکھو عظمیٰ، جب ایک خالی گھر میں ایک
لڑکا اور لڑکی پیار کریں گے، وہ بھی رات کے وقت، تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ سیکس نہ
ہو؟ ابھی اگر میں تم سے وعدہ کر لوں اور اس وقت جوش میں وعدہ ٹوٹ جائے، اور بعد
میں تم مجھے غلط یا برا بھلا کہو، اور ہم ایک دوسرے سے بات کرنے سے ہی جائیں، تو
اس سے پہلے بات کلیئر ہونی چاہیے۔ ہم پیار بھی کریں گے اور سیکس بھی، لیکن میرا
وعدہ ہے کہ اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ اب بھی تم سوچ لو، اگر دل کرے تو آؤ، ورنہ
میں مجبور نہیں کروں گا۔
اس کے بعد فون بند ہو گیا۔ مجھے پورا یقین تھا کہ عظمیٰ
مان جائے گی کیوں کہ دو ماہ کی باتوں سے مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ اسے سیکس کے
بارے میں بہت کچھ معلوم ہے اور اسے سیکس کی طلب ہے۔ جس کا ایک ہی مطلب تھا کہ وہ
پہلے سیکس کر چکی ہے، لیکن مجھے دکھانا نہیں چاہتی۔
اور میرا اندازہ بالکل ٹھیک نکلا۔ ایک گھنٹے بعد اس کی
کال آ گئی اور وہ راضی تھی۔ اب مسئلہ تھا اسے کزن کے گھر سے اپنے گھر لانا اور
اپنی بیوی کو میکے بھیجنا۔ اگلے دن میں نے پورا پلان بنا لیا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔
میں نے عظمیٰ کو سمجھا دیا کہ تم اپنے گھر بتا دینا کہ ساحر کے گھر اس کی بیوی کے
پاس رہنا ہے۔
میں نے منصوبے کے مطابق اپنے گھر فون کر کے بیگم کو
بتایا کہ میں دو دن کے لیے سیالکوٹ کمپنی کے کام سے جا رہا ہوں، اس لیے تم تیار ہو
جاؤ، میں تمہیں تمہاری امی کے گھر چھوڑ دوں گا۔ شام کو اپنی فیملی کو سسرال چھوڑ
کر میں واپس آ گیا۔ میں نے اپنے ڈرائیور شکیل، جو کہ ڈرائیور کم اور میرا دوست
زیادہ تھا، اسے سارا پلان سمجھا دیا۔
وہ رات میں نے گھر میں اکیلے عظمیٰ کے خواب دیکھتے ہوئے
گزاری۔ اگلے دن گیارہ بجے عظمیٰ کی کال آ گئی۔ وہ اپنے کزن کے گھر تھی۔ اس نے کزن
سے میری بات کروائی تاکہ میں اس کے گھر کا ایڈریس سمجھ کر اسے وہاں سے پک کر لوں۔
میں نے شکیل کو کال کر کے بتا دیا کہ وہ تیار رہے، پانچ بجے مجھے عظمیٰ کو پک کرنا
ہے۔
چار بجے شکیل اپنی ایک گرل فرینڈ کے ساتھ مجھے لینے آ
گیا۔ پلان یہی تھا کہ شکیل کی گرل فرینڈ میری بیوی بن کر عظمیٰ کو اس کے کزن کے
گھر سے لائے گی۔ پانچ بجے ہم اس کے ایڈریس پر پہنچے اور محناز، جو کہ شکیل کی گرل
فرینڈ تھی، اس کے ساتھ لے کر ان کے گھر پر دستک دی۔ دروازہ اس کے کزن نے کھولا اور
ہمیں اندر آنے کو کہا، لیکن میں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ کچھ ضروری کام ہے اور
ہم میاں بیوی نے جلدی گھر پہنچنا ہے۔
تب اس کے کزن نے عظمیٰ کو آواز دی اور عظمیٰ بیگ اٹھائے
باہر آ گئی۔ یہ پہلی دفعہ تھا جب میں نے عظمیٰ کو دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا۔ وہ
بہت ہی خوبصورت تھی۔ بھرا بھرا جسم تھا، قد تقریباً ساڑھے پانچ فٹ۔ فیگر تقریباً
36-28-36 ہوگا۔ آنکھیں بڑی بڑی اور گورا رنگ ۔ عظمیٰ کو دیکھ کر تو جیسے میرے دل
میں لڈو پھوٹ رہے تھے۔ میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ اسے گاڑی میں ہی چوم لوں۔ عظمیٰ
نے بھی مجھے پہلی دفعہ دیکھا تھا۔
میں نے عظمیٰ کا بیگ پکڑا اور اس کے کزن کو خدا حافظ
کہہ کر باہر نکل آئے۔ میں اور عظمیٰ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے اور شکیل اور
اس کی گرل فرینڈ فرنٹ سیٹ پر۔ راستے میں ہم نے شکیل کی گرل فرینڈ کو مزنگ ڈراپ کیا
اور علامہ اقبال ٹاؤن اپنے گھر کی طرف چل پڑے۔
علامہ اقبال ٹاؤن میں ہی عظمیٰ کا بھائی ہسپتال میں
گارڈ تھا اور میری بیوقوفی کہ میں نے عظمیٰ کو یہ بات بتا دی۔ وہ فوراً بولی، میں
بھائی سے مل کر آپ کے ساتھ جاؤں گی۔ خیر، میں نے شکیل کو کہا کہ میں اور عظمیٰ
اقبال پارک میں انتظار کرتے ہیں، تم جا کر عظمیٰ کے بھائی کو لے آؤ کیوں کہ ہسپتال
میں اور لوگ بھی ہوں گے، تو عظمیٰ کا وہاں جانا اچھا نہیں لگتا۔
شکیل چلا گیا تو میں نے عظمیٰ کی تعریف شروع کر دی۔ وہ
شرما رہی تھی۔ ہم پارک میں ایک بینچ پر بیٹھ گئے۔ تب میں نے عظمیٰ سے پوچھا کہ وہ
دل سے تیار ہے ناں، کہیں مجبور ہو کر تو یہ سب نہیں کر رہی؟ وہ بولی، نہیں، مجھے
آپ پر پورا یقین ہے کہ آپ مجھے مجبور نہیں کریں گے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ میں
آپ کو پسند کرتی ہوں اور اب میرا بھی دل کر رہا ہے کہ ہم ہمیشہ کے لیے تو ایک ہو
نہیں سکتے، کم از کم ایک رات تو اکٹھے گزاریں۔
اتنی دیر میں شکیل عظمیٰ کے بھائی کو لے کر آ گیا۔ وہ
دونوں باتیں کرنے لگے اور میں اور شکیل تھوڑا دور چلے گئے۔ شکیل نے مجھے آہستہ سے
کہا، باس، آپ کی تو لاٹری نکل آئی ہے، لڑکی واقعی کمال ہے۔ تو میں مسکرا دیا۔
پندرہ منٹ تک وہ دونوں بہن بھائی باتیں کرتے رہے۔ جب ہم جانے لگے تو اس کے بھائی
کو شاید شک ہو گیا۔ وہ بولا، آپ کا گھر تو پاس ہی ہے، میں بھی آپ کے ساتھ چلتا ہوں
اور عظمیٰ کو ڈراپ کر کے واپس آ جاؤں گا۔
لیکن اب میں اسے مجبور نہیں کر سکتا تھا کہ وہ ہمارے
ساتھ نہ آئے۔ اور دوسری طرف میرا گھر تو پہلے ہی باہر سے لاک تھا۔ میں پھنس چکا
تھا اور دل ہی دل میں خود کو کوس رہا تھا کہ کیوں عظمیٰ کو اس کے بھائی کے بارے
میں بتایا۔ لیکن اب پچھتانے سے کیا جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ عظمیٰ بھی پریشان لگ
رہی تھی۔
ہم بوجھل دل کے ساتھ گاڑی میں بیٹھے اور شکیل نے گاڑی
سٹارٹ کر کے گھر کی طرف موڑ دی۔ میرا دماغ بہت تیزی سے سوچ رہا تھا کہ اس مصیبت سے
کیسے جان چھڑاؤں۔ تب میں نے شکیل کی طرف دیکھا اور اسے اشارہ کیا کہ کچھ کرو۔ وہ
میری بات سمجھ گیا اور جیسے ہی بھیک وال موڑ سگنل آیا، گاڑی سگنل کے بیچ میں اچانک
بند ہو گئی۔
میں نے پریشانی ظاہر کرتے ہوئے پوچھا، شکیل، گاڑی کیوں
بند ہو گئی؟ تو وہ بولا، معلوم نہیں کیا ہوا، اچانک بند ہو گئی ہے۔ اور گاڑی کو
دوبارہ سٹارٹ کرنے لگا، لیکن گاڑی کہاں سٹارٹ ہونا تھی، سو نہ ہوئی۔ میں نے عظمیٰ
کے بھائی نعیم کو باہر آنے کا اشارہ کیا اور شکیل کو کہا کہ وہ اندر بیٹھے، ہم
دھکا لگا کر گاڑی سائیڈ پر کرتے ہیں۔
میں نے اور نعیم نے دھکا لگایا اور گاڑی کو سگنل سے ہٹا
کر سائیڈ پر کر دیا۔ تقریباً بیس منٹ تک ہم گاڑی کے ساتھ کھپے، گاڑی نے نہ سٹارٹ
ہونا تھا نہ ہوئی۔ تب شکیل نے مجھے اور نعیم کو کہا، ہمارے ساتھ ایک لڑکی ہے اور
بہت برا لگ رہا ہے کہ ہم روڈ پر کھڑے ہیں۔ آپ ایسا کریں، رکشہ لے کر گھر پہنچیں،
بھابی انتظار کر رہی ہو گی۔ میں گاڑی سہی کروا کر نعیم کو ساتھ لے کر آ جاتا ہوں۔
میں نے فوراً ہاں کی اور اس سے پہلے کہ نعیم کچھ بولتا،
قریب آتے رکشے کو میں نے ہاتھ دیا اور عظمیٰ کو آنکھ ماری۔ وہ تیزی سے رکشے میں
بیٹھ گئی۔ گھر کے پاس پہنچ کر بازار میں اتر گیا تا کہ کھانے کے لیے کچھ لے لوں
کیوں کہ اس سب چکر میں رات کے آٹھ بج گئے تھے۔
گھر پہنچتے ہی عظمیٰ بولی، کیا گاڑی واقعی خراب ہوئی
تھی؟ تو میں ہنس دیا اور بولا، نہیں یار، وہ سب ڈرامہ تھا۔ اس نے مصنوعی غصے سے
مجھے دیکھا اور کہا، بہت ہوشیار ہو! اور مزید کوئی بات کیے بغیر میں نے اسے اپنی
طرف کھینچ کر گلے سے لگا لیا۔ وہ بھی میرے مموں سے چمٹ گئی اور ہم ایک دوسرے کو
پیار کرنے لگے۔
پھر عظمیٰ نے مجھے دور ہٹایا اور بولی، تھوڑا صبر کرو،
میں آج رات کہیں نہیں جا رہی۔ میں نے بھی اسے چھوڑ دیا۔ وہ مجھ سے باتھ روم پوچھ
کر باتھ روم میں چلی گئی اور میں سامان رکھنے کچن میں۔ تھوڑی دیر بعد وہ واپس آ
گئی۔ اس نے کپڑے تبدیل کیے ہوئے تھے اور ہلکا پنک کلر کا سوٹ پہنا ہوا تھا، جس میں
وہ اور بھی قیامت لگ رہی تھی۔
مجھ سے برداشت نہ ہو رہا تھا۔ میں نے اسے بیڈ پر کھینچ
کر گرایا اور جھپٹ کر چومنے لگا۔ وہ بھی میرا ساتھ دینے لگی۔ میں نے کہا، عظمیٰ،
اب مت روکو، اب برداشت نہیں ہوتا۔ ایک تو تم بہت خوبصورت ہو اور ہاٹ بھی۔ اور پھر
میرا پسندیدہ کلر پہن کر تو تم کوئی حور لگ رہی ہو۔ وہ بولی، مجھے معلوم ہے کہ یہ
آپ کا پسندیدہ کلر ہے، اسی لیے پہنا ہے۔
یہ کہہ کر وہ بیڈ پر میری طرف مڑی اور اچانک اپنے ہونٹ
میرے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ میں نے بھی اس کے سر کو پکڑ کر دبایا اور اس کے منہ میں
اپنی زبان داخل کر دی۔ وہ بڑے مزے سے میری زبان چوس رہی تھی اور میرا ہاتھ اس کے مموں
کو دبا رہا تھا۔ اب میں آہستہ آہستہ اس کی کمر پر ہاتھ پھیر رہا تھا۔ ایک بار پھر
میں نے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے اور ایک زوردار بوسہ شروع کر دیا۔ چند
سیکنڈ بعد وہ مجھے پیچھے کرتے ہوئے بولی، ساحر، آپ بہت ہاٹ ہو۔
میں نے کہا، میری جان، اگر میں ہاٹ نہ ہوں تو یہ رات
کیسے کٹے گی؟ اور ایک بار پھر اسے بیڈ پر لٹا کر بوسہ شروع کر دیا۔ میرا ہاتھ قمیض
کے اندر اس کے مموں سے کھیل رہا تھا۔ وہ بھی گرم ہونے لگی۔ اب میں نے بوسہ چھوڑ کر
اس کی قمیض اتارنی شروع کر دی۔ اس نے مجھے روکنے کی کوشش نہیں کی اور میں نے اس کی
قمیض اتار کر ایک سائیڈ پر پھینک دی۔ اب نیچے سیاہ کلر کا برا تھا۔
میں نے عظمیٰ کوسینے سے لگا کر اس کی کمر پر ہاتھ پھیرنا شروع کیا
اور ساتھ ہی اس کی برا کے ہک بھی کھول دیے۔ اب وہ بغیر قمیض اور برا کے میرے سامنے
تھی۔ آپ یقین کریں کہ میں نے بہت کم اس طرح کے خوبصورت گول گول ممے دیکھے ہوں گے جو کہ بہت ٹائٹ بھی تھے اور اس کے
براؤن کلر کے نپلز بھی بہت ٹائٹ تھے۔
میں نے اس کا ایک مما منہ میں ڈال کر چوسنا شروع کر دیا اور دوسرے ممے
کے نپل کو ہاتھ کی دو انگلیوں میں پھنسا کر مسلنا شروع کیا تو وہ جیسے تڑپنے لگی
اور مجھے دور کرنے لگی۔ تب وہ بولی، ساحر، میں مر جاؤں گی، پلیز نہ کرو۔ لیکن میں
روکنے والوں میں نہ تھا۔ اس کے مموں کو چوستا ہوا آہستہ آہستہ نیچے پیٹ کی طرف آ
رہا تھا۔ میری زبان ایک لکیر بناتی ہوئی نیچے آ رہی تھی۔ ناف کے پاس پہنچ کر میں
نے ذرا نیچے بوسہ دیا تو وہ اچانک اچھل پڑی۔
مجھے اس کا کمزور پوائنٹ مل گیا تھا۔ ناف کے نیچے بوسہ
کرنے سے وہ اور مست ہو رہی تھی۔ میں نے بوسہ کرتے کرتے اس کی شلوار کو نیچے کرنا
چاہا تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ میں نے بھی شلوار چھوڑ دی اور دوبارہ بوسہ کرنے
لگا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کرتی، میں نے بہت تیزی سے ہاتھ اس کی شلوار کے اندر
ڈالا اور میرا ہاتھ سیدھا اس کی چوت پر جا کر لگا۔ اسے جیسے 440 وولٹ کا جھٹکا
لگا۔ وہ میرا ہاتھ پکڑنے لگی، لیکن میں اس کے اوپر لیٹ گیا اور اسے اپنے نیچے
پھنسا کر تیزی سے اس کی چوت پر ہاتھ رگڑنے لگا۔
تھوڑی دیر میں وہ مزاحمت چھوڑ چکی تھی اور میرا پورا
پورا ساتھ دے رہی تھی۔ میں اس کی چوت کو کافی دیر اوپر سے رگڑتا رہا۔ پھر میں نے
اپنی شرٹ اتاری اور اس کی شلوار اتارنی لگی تو وہ بولی، ساحر، پلیز لائٹ آف کر دو،
مجھے شرم آتی ہے۔ میں بولا، عظمیٰ میری جان، شرم تب تک تھی جب تک ہم ملے نہیں تھے۔
اب تو میرا ہاتھ تمہاری چوت تک پہنچ چکا ہے، اب کیا شرم؟ اور ویسے بھی آج مجھے
لائٹ آن کر کے تمہارے حسن کا نظارہ کرنا ہے۔ میں تمہارے ایک ایک انگ کو دیکھنا اور
چھونا چاہتا ہوں۔
یہ کہہ کر میں نے دوبارہ اس کی شلوار اتارنا شروع کی تو
اس نے خود ہی اپنی گانڈ اٹھا کر شلوار اتار دی اور انڈر ویئر بھی اتار دیا۔ اب وہ
بالکل ننگی میرے سامنے تھی۔ میں نے اس کی چوت کو غور سے دیکھا۔ اس کی چوت کے ہونٹ
فل ریڈ ہو رہے تھے، لیکن آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ میں نے آرام سے اپنا ہاتھ اس کی چوت
پر رکھ دیا جب کہ عظمیٰ نے اپنی آنکھیں بند کی ہوئی تھیں۔ مجھے اس کی چوت گیلی
گیلی محسوس ہوئی تو میں نے پاس سے ٹشو اٹھا کر اسے اچھی طرح خشک کیا۔
پھر میں نے اپنی ایک انگلی اس کی چوت کے اندر ڈالی تو
وہ تڑپی، لیکن اسے معلوم تھا کہ اب میں نہیں چھوڑوں گا۔ پہلے ایک انگلی کافی دیر
اس کی چوت میں اندر باہر کرنے کے بعد دوسری انگلی بھی ڈال دی۔ پھر میں نے اس کے
دانے کو مسلنا شروع کر دیا تو وہ سرور سے مست ہونے لگی اور میرے ہاتھ کو روکنے کی
کوشش کرنے لگی، لیکن میرا ہاتھ نہ رکا۔
تب اس کے جسم نے سخت ہونا شروع کر دیا۔ مجھے سمجھ آ گئی
کہ وہ فارغ ہونے والی ہے تو میرے ہاتھوں کی رفتار میں بھی اضافہ ہو گیا۔ تب اس کے
جسم کو ایک زوردار جھٹکا لگا اور اس نے میرے ہاتھ کو زور سے پکڑ لیا۔ مجھے ایسا
لگا جیسے کسی نے میرے ہاتھ پر گرم پانی کا نلکا کھول دیا ہو۔ میرا ہاتھ اس کی
رطوبت سے بھر گیا۔
میں نے ہاتھ اس کے سامنے کیا تو وہ ہنسنے لگی۔ میں نے
ہاتھ اس کی قمیض سے صاف کیا اور اس سے پوچھا، کیسا لگا؟ تو اس نے کہا، یار، تم نے
تو پاگل کر دیا۔ میں نے کہا، ابھی کہاں، میرا کام تو اب شروع ہوا ہے۔
میں نے ایک بار پھر ٹشو سے اس کی چوت کو صاف کیا اور
اپنی پینٹ اور انڈر ویئر بھی اتار دیا۔ اپنا چھ انچ لمبا اور تین انچ موٹا لن اس
کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ پہلے تو وہ تھوڑا جھجکی، پھر اس نے میرے لن کو مسلنا شروع
کر دیا۔ میں نے اسے کہا، عظمیٰ، میرے لن کو پیار کرو۔ وہ انکار کرنے لگی کہ مجھے
اچھا نہیں لگتا۔
میں اپنا لن اس کے منہ کے پاس لے گیا تو اس نے منہ سختی
سے بند کر لیا۔ لیکن میں بھی ضد کر رہا تھا۔ آخر اس نے صرف جلدی سے بوسہ دیا اور
منہ پیچھے ہٹا لیا۔ لیکن میں کہاں ماننے والا تھا۔ اسے بالوں سے پکڑ کر منہ لن کے
پاس کیا۔ آخر اس نے ہار مان لی اور لن کی ٹوپی کو منہ میں لے لیا۔
میں نے اس کے سر کو پیچھے سے پکڑ کر آگے دبایا اور اپنے
لن کو جھٹکا مارا تو میرا پورا لن اس کے حلق تک اندر چلا گیا اور اسے اچانک کھانسی
آ گئی۔ میں نے لن کو اس کے منہ سے باہر نکال لیا تو اس کا سانس نارمل ہوا۔ اب اس
نے اپنے ہاتھ سے میرے لن کو اپنے منہ میں لیا اور میں حیران ہوا جب وہ بڑے سٹائلش
طریقے سے چوسنے لگی۔
اس نے آدھے سے زیادہ لن منہ میں لے کر منہ کے اندر ہی
اپنی زبان اس کے چاروں طرف پھیرتی تو میں سرور اور مستی کی عجیب سی کیفیت میں ڈوب
جاتا۔ اگر میں نے چوری چھپے میجک پلز نہ کھائی ہوتیں تو یقیناً فارغ ہو جاتا۔ اس
کی چوسنے کی مہارت سے لگتا تھا کہ وہ بہت ماہر ہے، لیکن اس کی چوت بالکل سیل پیک
تھی۔
کافی دیر چوسنے کے بعد میں نے اسے لٹا دیا اور خود اس
کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیا۔ میرا ارادہ وہ سمجھ گئی اور اس نے ایک بار پھر اپنی
چوت پر ہاتھ رکھ کر کہا، ساحر، پلیز ایسا نہ کرو، میں برداشت نہیں کر سکوں گی،
اتنا لمبا۔ میں مر جاؤں گی۔ لیکن اس وقت میرے اندر ایک لاوا جل رہا تھا۔
میں نے اس کے ہاتھ پکڑ کر پیچھے کیے اور بولا، عظمیٰ،
کچھ نہیں ہوگا۔ صرف پہلی بار تھوڑی تکلیف ہوگی۔ اس کے بعد ایسا مزہ آئے گا کہ تم
کہو گی کہ یہ باہر نہ نکالوں۔ اب ایک ہاتھ سے میں نے اس کے ہاتھ پکڑے اور دوسرے
ہاتھ سے اپنا لن اس کی چوت پر رکھ کر رگڑنے لگا۔ وہ پھر مست ہو رہی تھی۔
اس کی حالت دیکھ کر میں نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا اور اس
کی ٹانگوں کو کھول کر اپنے لن کی ٹوپی اس کی چوت کے اوپر رکھی۔ اس نے ایک بار پھر
نیچے سے ہٹنے کی کوشش کی تو میں اس کے اوپر لیٹ گیا اور بوسہ شروع کر دیا۔ اپنا لن
ایک ہاتھ سے اس کی چوت پر سیٹ کر کے اندر ڈالنے کی کوشش کرنے لگا۔ تھوڑا سا لن اس
کی چوت کے اندر پھنسا تو میں رک گیا اور بولا، اوکے عظمیٰ، اتنا کافی ہے، اب مزید
نہیں کرتا۔ لیکن تم پلیز نیچے سے نہ ہلو۔
وہ میری بات مان کر رک گئی۔ میں نے اپنا لن باہر نکالا
اور پھر سے اس کی چوت میں پھنسا دیا۔ ایسا میں نے کوئی پانچ بار کیا۔ جب وہ بالکل
مطمئن ہو گئی تو میں نے لن تھوڑا سا پھنسا کر اس کے ہونٹوں کو چوسنا شروع کیا۔ وہ
بھی میرا ساتھ دے رہی تھی۔ میری کوشش تھی کہ اس دوران میرا لن باہر نہ نکلے۔ پھر
بوسہ کرتے کرتے میں نے اچانک ایک زوردار جھٹکا مارا، جس سے تقریباً پورا لن اندر
جا چکا تھا۔ اس نے ایک زوردار چیخ ماری، لیکن اس کی چیخ میرے اور اس کے ہونٹوں کے
درمیان ہی رہ گئی کیوں کہ میں پہلے ہی اسے فرنچ کس کرتے ہوئے اس کے ہونٹوں کو دبا
چکا تھا۔
وہ نیچے تڑپنے لگی جب کہ میں لن اندر جاتے ہی رک گیا تا
کہ وہ ریلکس ہو سکے۔ اب میں نے اس کا منہ چھوڑا تو وہ رو رہی تھی۔ اس کی آنکھوں
میں آنسو نظر آ رہے تھے۔ میں نے اسے پیار کیا اور حوصلہ دیا کہ بس اتنی بات تھی،
اب جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ تھوڑی دیر میں یہ درد ختم ہو جائے گا اور تمہیں مزہ آنے
لگے گا۔
وہ بولی، ساحر، آپ بہت ظالم ہو۔ اور اس نے مجھے جھپٹ کر
میرے کان پر کاٹ لیا۔ جب کہ میرا لن اندر ہی تھا۔ کچھ دیر بعد جب میں نے محسوس کیا
کہ وہ نارمل ہو رہی ہے تو میں نے لن کو آہستہ آہستہ باہر نکالنا شروع کیا۔ مجھے
ایسا لگا کہ جیسے وہ فارغ ہو گئی ہے کیوں کہ مجھے اپنے لن پر گیلی پن محسوس ہو رہا
تھا۔
میں نے پورا لن نکالنے کی بجائے تھوڑا باہر نکل کر پھر
اندر کر دیا۔ اس طرح گھسائیں مارتے ہوئے کافی دیر بعد مجھے یقین ہو گیا کہ اب وہ
درد برداشت کر چکی ہے اور لن کو اندر جانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ تب میں نے لن
کو باہر نکالا تو پورا لن خون سے بھرا ہوا تھا۔ میں سمجھ رہا تھا کہ وہ فارغ ہوئی
تھی، لیکن یہ اس کا خون تھا۔ اپنا خون دیکھ کر دوبارہ اس کی آنکھوں میں آنسو آ
گئے۔
میں نے اسے حوصلہ دیا اور اب میں نے پاس پڑے ٹیبل کے
خانے سے کنڈوم نکال کر چڑھا لیا۔ اب میں نے دوبارہ اس کی ٹانگوں کو کھولا اور لن
کو اس کی چوت کے سوراخ پر رکھ دیا۔ لیکن اب عظمیٰ کی طرف سے کوئی مزاحمت نہیں تھی۔
اب وہ برداشت کرنے کے قابل ہو گئی تھی۔
میں نے ایک جھٹکے سے لن اندر کیا تو وہ آسانی سے اندر
چلا گیا۔ اب میں نے پورا لن اندر کر دیا۔ پھر تو جیسے مشین چلتی ہے، میں ویسے شروع
ہو گیا۔ تھوڑی دیر میں عظمیٰ بھی نیچے سے ساتھ دینے لگی۔ اب وہ میرے برابر نیچے سے
گانڈ اٹھا اٹھا کر جھٹکے دے رہی تھی۔ تب اچانک اس کی چوت نے میرے لن کو دبانا شروع
کر دیا۔ میں سمجھ گیا کہ اب وہ فارغ ہو رہی ہے۔
میں نے بھی اپنے جھٹکوں کی رفتار تیز کر دی اور چند
سیکنڈ بعد میں بھی فارغ ہو کر اس کے اوپر لیٹ گیا۔ اس نے مجھے زور سے بھینچ لیا
اور مجھے کاٹتی کبھی کان پر تو کبھی گال پر۔ میں اس سے الگ ہوا تو وہ کہنے لگی، تم
بہت تیز اور بہت ظالم ہو۔ تمہیں مجھ پر ذرا بھی رحم نہیں آیا کہ میری چوت بالکل
کنواری ہے اور میرا اتنا خون بھی نکال دیا۔
میں بولا، میری جان، ایسی رات دوبارہ ملے نہ ملے اور
میں یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ مسکرا کر بولی، ایک بات ہے، تم بہت ہاٹ
ہو یار۔ میں بھی مسکرا دیا۔ وہ اٹھی اور باتھ روم میں چلی گئی۔ میں ننگا ہی بیڈ پر
لیٹ گیا۔
باتھ روم سے پانی گرنے کی آواز آ رہی تھی۔ میں چپکے سے
اٹھا اور باتھ روم کے پاس جا کر دروازے کو ہلکا سا دبایا۔ اس نے دروازہ لاک نہیں
کیا تھا، جس کی وجہ سے دروازہ کھل گیا۔ میں نے اندر دیکھا تو وہ شاور کے نیچے نہا
رہی تھی اور پانی اس کے اوپر گر رہا تھا۔ ایسی حالت میں وہ مجھے اور بھی خوبصورت
اور سیکسی لگی اور میرے لن نے ایک بار پھر
سر اٹھانا شروع کیا۔
میں اس کے پاس گیا اور اسے گلے سے لگا کر ایک بار پھر
بوسہ شروع کر دیا۔ وہ بھی میرا ساتھ دینے لگی۔ ہم شاور کے نیچے دوبارہ رومانس شروع
کر چکے تھے۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے ایک بار پھر بیڈ پر لے آیا۔ بیڈ کی
چادر خون سے لال ہو چکی تھی۔ چادر کو ایک سائیڈ پر کیا اور اسے ایک بار پھر بیڈ پر
لٹا دیا۔
اب پھر بوسہ شروع ہو گیا، لیکن اس بار میرے کہنے کے
بغیر اس نے مجھے نیچے لٹا کر میرا لن اپنے منہ میں ڈالا اور اسے چوسنا شروع کر
دیا۔ اس کی چوسنے کی مہارت کو دیکھ کر پھر میرا ذہن کہنے لگا کہ یہ پورا سیکس تو
نہیں، لیکن کسی حد تک یہ سب وہ پہلے کر چکی ہے۔
اب میں نیچے لیٹا ہوا تھا اور وہ پوری مستی سے چوس رہی
تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ بولی، چلو ساحر، اب اندر ڈالو اور اس بار اپنا پورا زور لگا
دو۔ پھاڑ دو میری چوت کو۔ بہت انتظار کیا ہے میں نے اس دن کا۔ بہت خواب دیکھے ہیں
میں نے اس طرح چدوانے کے، لیکن تم نے اس سے بڑھ کر مجھے مزہ دیا ہے۔
میں ایک بار پھر اٹھا۔ میرا لن تو پہلے ہی جوبن پر تھا۔
اب میں نے اسے بیڈ پر گھوڑی بنا دیا اور خود بیڈ سے نیچے کھڑا ہو کر لن اس کی چوت
میں ڈالا اور زور زور سے جھٹکے لگانے شروع کر دیے۔ میں پورا لن باہر نکالتا اور
ایک جھٹکے سے اندر ڈال دیتا۔ سات منٹ ایسا کرنے کے بعد میں دوبارہ بیڈ پر لیٹ گیا
اور اس سے کہا کہ اب وہ اوپر بیٹھ کر لن خود اپنی چوت کے اندر ڈالے۔
وہ جلدی سے اوپر بیٹھ گئی اور لن کو اپنی چوت میں ڈال
کر اوپر نیچے ہونے لگی۔ اب وہ پھر رک گئی اور میرے اوپر لیٹ کر میرے لن کو چوت سے
دبانے لگی، یعنی وہ پھر فارغ ہو رہی تھی۔ لیکن مجھے ابھی تھوڑا وقت لگنا تھا۔ میں
نے اسے سیدھا کر کے بیڈ پر لٹایا اور ایک بار پھر کنڈوم نکال کر اپنے لن پر چڑھا
دیا۔ اور پھر اسے چودنا شروع کر دیا۔ چند منٹ بعد میں بھی فارغ ہو گیا اور اس کے
اوپر لیٹ گیا۔
کافی دیر ایسے لیٹے رہنے کے بعد میں نے اس سے پوچھا، عظمیٰ،
ایک بات سچ سچ بتاؤ گی؟ وہ بولی، ہاں، بتاؤ گی۔ میں نے کہا، پرومِس کرو۔ تو اس نے
پرومِس کر دیا۔ پھر میں نے اس سے پوچھا، تم جس طرح چوستی ہو، کوئی نئی لڑکی اس طرح
نہیں کرتی۔ تو کیا تم نے پہلے کبھی سیکس کیا ہے؟
تو وہ بولی، ساحر، سچی بات یہ ہے کہ میں نے کبھی اس طرح
سیکس نہیں کیا جیسے آج ہم نے کیا ہے۔ لیکن جب میں فیصل آباد میں تھی تو میرے ماموں
نے مجھ سے سیکس کرنے کی کوشش کی۔ تب میں نے انکار کر دیا تو انہوں نے کہا کہ
تمہارے ماں باپ نے مجھے ستر ہزار روپے دینے ہیں۔ اگر تم میرے ساتھ سیکس کرو تو میں
وہ پیسے چھوڑ دوں گا۔ لیکن میں نے انکار کر دیا تو وہ بولے، ‘چلو، ہم پورا سیکس
نہیں کریں گے، تم صرف مجھے بوسہ کرنے دو اور میرا لن چوس دیا کرو ۔ تو میں سارے پیسے معاف کر دوں گا۔
مجھے پتہ تھا کہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں۔ ماموں سے پکا
وعدہ لے کر میں ان کے ساتھ جب موقع ملتا ان کا لن چوستی اور جب وہ فارغ ہونے والے ہوتے تو میں منہ سے
نکال کر ہاتھ سے انہیں فارغ کروا دیتی۔
پھر ہم کافی دیر ایسے ہی ننگے باتیں کرتے رہے اور عظمیٰ
میرے کندھے کے ساتھ کھیلتی اور بار بار اسے چھیڑتی۔ میں نے اسے روکا اور ہاتھ دھو
کر کچن سے کھانا نکال لایا۔ وہ بھی واش روم میں جا کر کلی کرتی رہی اور ہاتھ دھو
کر آ گئی۔ ہم دونوں نے کھانا کھایا اور عظمیٰ کا سونے کا موڈ تھا، اس لیے وہ کمبل
اوڑھ کر لیٹ گئی۔
لیکن میں آج کی رات کا پورا پورا مزہ لینا چاہتا تھا۔
اس لیے میں نے کمبل کو ایک سائیڈ پر کیا اور اس کی ٹانگوں پر ہاتھ پھیر کر سیدھا
کیا اور دونوں ٹانگوں کو کھول دیا۔ عظمیٰ آنکھیں بند کیے لیٹی تھی۔ اسے نہیں پتہ
تھا کہ میں کیا کرنا چاہتا ہوں۔ اچانک میں نے اپنا منہ اس کی چوت پر رکھا تو وہ
اچانک ہڑبڑا گئی، لیکن تب تک میری زبان اس کی چوت کو چاٹنا شروع کر چکی تھی۔
اس کی چوت کی خوشبو مجھے پاگل کر رہی تھی۔ میں نے زبان چوت
کے اندر گھسا دی اور عظمیٰ کی مزے سے لبریز سسکاریاں مجھے سنائی دے رہی تھیں۔ وہ
میرے سر کو پکڑ کر اور دباتی اور میں اپنی پوری زبان چوت کے اندر گول گول گھماتا،
کبھی اس کے دانے کو زور زور سے رگڑتا۔
پھر میں نے سائیڈ بدلی اور اپنی ٹانگیں اس کے منہ کے
اوپر لے گیا۔ وہ میرا مطلب سمجھ کر اپنا منہ میری ٹانگوں کے درمیان لائی اور میرے لن
کو چوسنا شروع کر دیا۔ اب میرا لن اس کے منہ میں اور اس کی چوت میرے منہ میں تھی۔
ہم دونوں سرور کی آخری منزلوں پر تھے۔
پھر میں اٹھا اور اسے گھوڑی بنا دیا۔ وہ سمجھی کہ میں
اس کی چوت ماروں گا، لیکن میں نے پاس پڑے ڈریسنگ ٹیبل سے لوشن اٹھایا اور مکمل کر
کے اس کی خوبصورت سیکسی گانڈ کے سوراخ پر
ڈال دیا۔ وہ اچانک مڑی اور بولی، پلیز، یہ نہیں، تمہارا لن بہت موٹا اور لمبا ہے،
اس میں نہیں جائے گا۔ ایسا نہ کرو پلیز۔
لیکن میں نے اسے کہا، کچھ نہیں ہوتا، میں پہلے اسے رواں
کروں گا، پھر کوشش کروں گا۔ اگر اندر نہ گیا تو زبردستی نہیں کروں گا۔ تم بس ریلکس
ہو جاؤ اور گانڈ کو ڈھیلا چھوڑ دو۔ اس نے میری بات مانی اور دوبارہ گھوڑی بن گئی۔
اب میں نے ایک انگلی اس کی گانڈ میں اندر باہر کرنا
شروع کی۔ تھوڑی دیر بعد مزید لوشن لگا کر دوسری اور پھر تیسری انگلی بھی اندر باہر
کرنا شروع کر دی۔ کچھ دیر میں میری تین انگلیاں اور ایک انگوٹھا چاروں اکٹھے اس کی
گانڈ میں اندر باہر ہو رہے تھے۔
جب میں نے دیکھا کہ اب اس کی گانڈ کافی نرم ہو گئی ہے
تو میں نے لن کی ٹوپی اس پر رکھ کر دبا دی تو عظمیٰ ایسی تڑپی جیسے اس کی جان نکل
گئی ہو۔ ایک بار پھر وہ بولی، ساحر، پلیز اسے چھوڑ دو اور میری چوت کی آگ بجھا دو۔
اسے پھاڑ دو پلیز۔
لیکن میں ارادہ کر چکا تھا کہ سونے سے پہلے اس کی اتنی سیکسی گانڈ ضرور پھاڑوں گا۔ میں نے کہا، عظمیٰ،
پلیز تھوڑا برداشت کرو، یقین مانو تمہیں چوت سے زیادہ مزہ اس میں آئے گا۔ وہ میری
بات مان کر ایک بار پھر گھوڑی بن گئی اور نیچے سے بولی، ساحر، پلیز آرام سے، پہلے
کی طرح جھٹکا نہ مارنا، میری چیخ نکل جائے گی۔
میں نے اسے وعدہ کیا کہ آرام سے کروں گا، اور ایک بار
پھر سے لوشن لگا کر اپنے لن کی ٹوپی اس کی گانڈ پر رکھی اور آہستہ آہستہ دبانا
شروع کیا۔ عظمیٰ کی جان نکل رہی تھی، لیکن وہ برداشت کر رہی تھی۔ جب مجھے لگا کہ
میری ٹوپی اندر جا چکی ہے تو میں رک گیا اور اس کی کمر سے ہاتھ گھما کر اس کے مموں
کو دبانے لگا تا کہ اس کا دھیان اس تکلیف سے ہٹ جائے۔
چند سیکنڈ بعد میں نے مزید لوشن لگایا اور اپنے ہاتھ اس
کی گانڈ پر رکھ کر ایک زور سے جھٹکا مارا۔ عظمیٰ کی زوردار چیخ نکلی، لیکن میرا
آدھا لن اس کی گانڈ میں تھا۔ٹائٹ گانڈ کی گرمی مجھے فل مزا دے رہی تھی ۔میں مزے سے
اڑنے لگاتھا ۔ وہ نیچے سے نکلنے کی کوشش کر رہی تھی جب کہ میں نے اس کی گردن پر
زور دے کر نیچے دبایا ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ سے اس کی ٹانگوں کو قابو کر کے اپنے لن
کو اندر روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔
عظمیٰ نیچے سے رونے والے انداز میں منتیں کر رہی تھی، ساحر،
پلیز چھوڑ دو، میری گانڈ پھٹ جائے گی۔ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا، میری جان نکل رہی
ہے۔
میں نے اسے کہا، عظمیٰ میری جان، جو ہونا تھا وہ ہو چکا
ہے۔ جتنا اندر جانا تھا وہ جا چکا۔ اگر تم چند منٹ ریلکس کرو تو یہ تکلیف خود بخود
مزے میں بدل جائے گی۔ میری بات سن کر وہ پرسکون ہو گئی۔
اب میں نے لن کو ہلکا سا پیچھے کیا اور پھر آگے کر دیا۔
یہ عمل آٹھ دس دفعہ کیا۔ جب دیکھا کہ عظمیٰ اب مکمل سکون میں ہے تو میں نے لن کو
پورا باہر کھینچا، لیکن ٹوپی اندر رہنے دی اور پھر ایک جھٹکے سے آگے کر دیا۔ اب عظمیٰ
بھی انجوائے کر رہی تھی تو میری رفتار بڑھنے لگی۔
چونکہ اس کی گانڈ کا سوراخ تنگ تھا، اس لیے میں چند
جھٹکوں کے بعد اس کی گانڈ کے اندر فارغ ہو گیا۔ اور لن باہر نکال کر عظمیٰ کے ساتھ
لیٹ گیا۔ اب اس نے مجھے پکڑ کر مکے مارنے شروع کر دیے اور کبھی مجھے ٹانگیں مارتی۔
ساحر، تم نے تو میری جان ہی نکال دی تھی، بہت ظالم ہو تم، قسم سے۔
میں نے اسے پیار سے اپنے پاس کھینچا اور گلے سے لگا
لیا۔ اگلی صبح میں نے عظمیٰ کو واپس اس کے کزن کے گھر چھوڑا۔ اس سے چلا بھی نہ جا
رہا تھا اور سچ پوچھیں تو میرا اپنا پورا جسم درد کر رہا تھا۔
اس کے بعد بھی عظمیٰ تین بار خاص طور پر میرے لیے لاہور
آئی، لیکن آنے سے پہلے وعدہ لیتی کہ میں اس کی گانڈ نہیں ماروں گا۔ اور پھر ایک
بار میں نے عظمیٰ کی ایک بھابھی، یعنی کزن کی بیوی کو بھی چودا، لیکن وہ ایک دلچسپ
واقعہ ہے جو پھر کبھی سناؤں گا۔