میرا منہ بولا دیور ۔۔۔

 


میرا نام  نائمہ ہے اور میں کراچی میں رہتی ہوں ۔میری عمر اٹھائیس برس ہے اور میں ایک بہت خوبصورت شادی شدہ عورت ہوں ۔میری شادی کو چھ سال ہوگئے ہیں لیکن ابھی تک میں ماں نہیں بن سکی ۔میرے شوہر امجد بہت اچھے انسان ہیں ۔وہ کراچی میں بینک میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں ۔ہمیں دولت کی کوئی کمی نہیں مگر اولاد کی کمی کو ہم شدت سے محسوس کرتے تھے ۔ ہم نے ہر طرح کا علاج کرواکر دیکھ لیاتھا ۔کمی میرے شوہر میں ہی تھی ۔وہ ٹھیک سے سیکس بھی نہیں کرپاتے تھے اور ان کے سپرم بھی بہت کمزور تھے  ۔میرے شوہر  تو اسے اوپر والے کی مرضی سمجھتے تھے مگر میرا سسرال ہر وقت میرے شوہر پر دوسری شادی کا دباؤ ڈالتا رہتا تھا۔میں اس صورتحال سے بہت پریشان تھی ۔میرا میکہ بھی لاہور میں تھا میں صرف فون پر ہی اپنی امی اور بہنوں سے پریشانی شئیر کرسکتی تھی ۔وہ مجھے تسلی دیتی رہتی تھیں ۔ مگر سسرال کے طعنے بڑھتے ہی جارہے تھے ۔تنگ آکر میرے شوہر نے الگ فلیٹ لے لیا۔اور ہم وہاں شفٹ ہوگئے ۔تب میری زندگی میں سکون آیا۔میرے شوہر مجھے جنسی سکھ نہیں دے پاتے تھے مگر اس کے باوجود میں ان کے ساتھ پوری طرح وفادار تھی ۔مگر  میرے جسم کی گرمی مجھے بہکنے پر مجبور کرتی رہتی تھی ۔کئی مرد مجھے چودنے کے لیے بے تاب رہتے تھے ۔میرے شوہر کے کئی دوست مجھ پر لائن مارچکےتھے ۔مگر میں نے ابھی تک کسی نہ کسی طرح خود کو سنبھالا ہوا تھا۔مگر میری زندگی میں آنے والے ایک نوجوان نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔  

ہوا کچھ یوں کہ ایک دن امی نے مجھے لاہور آنے کے لیے کہا ۔وہ کسی پیر کی بہت تعریف کررہی تھیں کہ اس کی تعویز سے اولاد ہوجاتی ہے ۔یہ سن کر میرا منہ بن گیا کیونکہ میری ساس کراچی میں بھی مجھے کئی پیروں کے پاس لے کر گئی تھی ۔مگر امی کے مجبور کرنے پر مجھے لاہور جانا پڑا۔انہوں نے امجد کو بھی ساتھ لانے کی تاکید کی تھی ۔اگلے ہفتے ہم نے ٹرین کی ٹکٹ بک کروائی اور ہم لاہور کے لیے روانہ ہوگئے ۔ہم نے فرسٹ کلاس  سلیپر کی ٹکٹ لی تھیں ۔ ٹرین چلنے والی تھی کہ کمپاؤنڈ کا درازہ کھلا اور ایک بہت خوبصورت نوجوان اندر آگیا اور ہمارے سامنے والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔اس نوجوان کو دیکھتے ہی  میرے اندر عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی تھی ۔اور تو اور میری چوت ایک دم سے بھڑک اٹھی تھی ۔اس نوجوان میں ایسی کشش تھی کہ اچانک ہی اس سے چدوانے کے لیے میرا دل مچل اٹھاتھا۔ٹرین چل پڑی تو میرے میاں اور میں اس نوجوان سے باتیں کرنے لگے ۔وہ لڑکا بہت ہی پیارا تھا۔مجھے بہت اچھا لگا۔مگر وہ کافی شرمیلا تھا ۔ مگر میں نے بھی اسے پھنسانے کا پورا ارادہ کرلیاتھا۔میں نے اس سے نام پوچھاتو اس نے بتایا اس کا نام  آصف ہے ۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ لاہور ایک شادی میں جارہاتھا۔  میں نے کہا  تم رہتے کہاں ہو؟ اس نے  بتایا ویسے تو اس کا تعلق  سکھر سے ہے مگر  وہ ملیر کراچی  میں  رہتا ہے ۔ اور کسی پرائیوٹ کمپنی میں جاب کرتا ہے ۔اور ملیر میں ایک فلیٹ میں اکیلا رہتا ہے ۔ باتوں باتوں میں میں نے اسے کہا کہ میرا کوئی دیور نہیں ہے، یہ اکیلے ہی ہیں، کیا تم میرا دیور بننا پسند کرو گے؟ اس نے ہاں کہہ دی اور میرے شوہر  نے بھی اسے اپنا چھوٹا بھائی مان لیا۔ لاہور آنے تک وہ ہماری فیملی کا ہی حصہ بن گیاتھا۔لاہور اسٹیشن پر  میں نے اس سے اس کا پتہ پوچھ لیا اور اپنا پتہ دے دیا اور کہا کہ تمہیں  میرے گھر  آنا ہو گا تبھی میں مانوں گی کہ تم میرے دیور ہو۔ اس نے کہا ٹھیک ہے، میں ضرور آؤں گا، اب تو آپ میری بھابھی ہو اور بھابھی کا کہا ماننا دیور کا فرض ہے۔ہم ہنستے ہوئے اسٹیشن سے باہر آگئے ۔وہاں میرے بھائی مجھے لینے آئے ہوئے تھے ۔چار دن لاہور رہنے کے بعد ہم واپس کراچی آگئے ۔

کچھ دنوں بعد آصف ہمارے گھر آیا تو میں بہت خوش ہوئی۔ میرے شوہر  بھی خوش ہوگئے ۔ اس نے کہا کہ وہ دو دن رکے گا۔ میں نے جواب دیا آنا آنے والے کی مرضی پر ہوتا ہے اور جانا بھیجنے والے کی مرضی پر ہوتا ہے، اب تو تم میری مرضی بنا کیسے جاؤ گے؟۔وہ میری بات سن کر ہنسنے لگا۔  میں نے اس دن آصف کی خوب خاطر مدارت کی ۔وہ بھی بہت خوش تھا کہ اسے اتنی اچھی بھابھی مل گئی ہے ۔اگلے روز میرے شوہر بینک چلے گئے ۔میں اور آصف ہی اب فلیٹ میں تھے ۔ میں اپنا کام نبٹا کر اس کے پاس ہی بیٹھ گئی اور کہا ہاں تو دیور جی کوئی بات کرو۔ اس نے کہا بھابھی یہی تو کمی ہے کہ میں زیادہ باتیں کرنا نہیں جانتا، آپ ہی کچھ کہو۔ میں نے اس سے کہا تم اتنے  خوبصورت نو جوان ہو، تم پر تو کئی لڑکیاں مرتی ہوں گی، کیا تمہاری کوئی سہیلی ہے؟ نہیں بھابھی میری کوئی سہیلی نہیں ہے اور نہ میں نے کبھی کسی کو سہیلی بنانے کی کوشش کی ہے۔ دیکھو اپنی بھابھی سے شرماؤ مت اور نہ کچھ چھپانے کی کوشش کرو، میں تو مان ہی نہیں سکتی کہ تمہارے جیسے ہینڈسم نو جوان کی کوئی سہیلی نہیں ہو گی۔وہ بولا  بھابھی اب آپ  نے بات شروع کر ہی دی ہے تو یہ بتائیں کہ آپ کا  شادی سے پہلے کوئی دوست تھا؟ میں ہنستی ہوئی بولی مجھے تو کوئی تم جیسا کوئی پیارا نو جوان لڑکا ملا ہی نہیں جسے میں اپنا دوست بنا سکتی۔وہ مسکراتے ہوئے بولا  تو یہ ہی میرے ساتھ ہے، مجھے بھی کوئی  اب تک آپ جیسی پیاری اور خوبصورت لڑکی ملی ہی نہیں کہ اسے میں اپنی سہیلی بنا لیتا۔ میں ہنستی ہوئی بولی اچھا تو یہ بات ہے ۔تم جانتے ہو کہ بھابھی سے کچھ چھپایا نہیں جاتا، بھابھی سے تو دیور اپنے دل کی ہر بات کر لیتا ہے اور بھابھی بھی اپنے دل کی ہر بات اپنے دیور سے کہہ دیتی ہے۔ تمہیں یاد ہو گا میں نے تمہیں پہلی ملاقات میں ہی بتا دیا تھا کہ ہماری شادی کو چھ سال ہو گئے ہیں اور کوئی بچہ نہیں ہوا۔وہ بولا جی  ہاں یاد ہے اور آپ نے بتایا تھا کہ آپ علاج کی غرض سے لاہور جارہی تھیں ؟  وہ بولا تو میں اس کی طرف دیکھتی ہوئی بولی ،ک  اب جب میں نے کہہ ہی دیا ہے کہ دیور سے کچھ بھی نہیں چھپانا تو تمہیں  بتادوں کہ اوپر والا  بھی پھل اسی کو دیتا ہے جو پیڑ لگائے اور پیڑ لگانے کے لیے زمین میں بیج ڈالنا پڑتا ہے۔ وہ حیرت سے بولا ، میں کچھ سمجھا نہیں،آپ  کس پھل اور پیڑ اور بیج کی بات کر رہی ہیں ۔ بات تو بچے کی ہو رہی تھی۔میں  کھسک کر اس کے قریب آگئی اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں  لیتی ہوئی بولی،  میرا مطلب ہے کہ جیسے زمین میں بیج ڈالنے سے پیڑ اُگتا ہے اسی طرح عورت تو زمین ہوتی ہے اور مرد اس میں بیج ڈالتا ہے تو ہی بچہ پیدا ہوتا ہے۔ اگر بیج ہی خراب ہو تو پیڑ کیسے اُگے گا؟وہ ایک دم چونک کر بولا  اوہ  بھابھی آپ کا مطلب ہے کہ بھیا میں نقص ہے جو بچہ نہیں ہو رہا؟، میں اس کا ہاتھ دباتے ہوئے بول، بدھو  اب تو سمجھ گیا ہے میری بات کا مطلب اور یہ بات میں نے صرف تمہیں ہی بتائی ہے کیونکہ تمہیں میں نے اپنا دوست بھی بنایا ہے اور دیور بھی اور میں پہلے ہی کہہ چکی ہوں کہ دیور بھابھی اپنے دل کی بات ایک دوسرے سے کھل کر کر سکتے ہیں۔ اس لیے میں نےتمہیں اپنا  دیور بنایا تھا بھائی نہیں۔وہ الجھے ہوئے لہجے میں بولا  تو بھابھی میں اس میں آپ کی  کیا مدد کر سکتا ہوں؟، میں نے شہوت بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور اس کی رانوں پر ہاتھ پھیرتی ہوئی بولی ، ارے میرے بدھو دیور، تم نہیں تو اور کون کر سکتا ہے، تم میرے پیارے دیور ہو۔وہ حیرت سے بولا،  بھابھی مجھے صاف صاف کہو کہ میں آپ کی  مدد کیسے کر سکتا ہوں؟، میں ہنستی ہوئی بولی، ارے  تم تو بالکل اناڑی ہو اس لیے تمہیں آج تک کوئی سہیلی نہیں ملی۔ وہ بولا  اس میں سہیلی والی بات کیسے آ گئی؟ میں ہنستی ہوئی بولی ارے! کوئی بھی لڑکی اتنے بدھو سے دوستی کرنا نہیں چاہتی جو اس کے دل کی بات بھی نہ سمجھ سکے۔ آج کل کی لڑکیاں اپنے یار سے سب کچھ شادی سے پہلے چاہتی ہیں اور تم یہ جانتے ہی نہیں کہ سامنے والی کیا کہہ رہی ہے۔کیا کررہی ہے ؟۔تم اب تک نہیں سمجھے ۔میں تمہارا ہاتھ دبارہی ہوں ۔تمہاری رانوں پر ہاتھ پھیررہی ہوں ۔اس کا مطلب کیاہوتا ہے بھابھی ؟ مطلب  تو کیا لڑکیاں شادی کیے بغیر ہی سیکس کرنا چاہتی ہیں؟  آصف واقعی بہت سیدھا تھا میں اس کی بات پر زور سے ہنس پڑی اور بولی  اب تو کچھ کچھ سمجھنے لگا ہے اور اس سے پہلے سمجھتا بھی کیسے، تمہاری کوئی بھابھی تو ہے نہیں جو تمہیں یہ سب سمجھاتی۔وہ مسکراتا ہوا بولا  اب تو آپ  میری بھابھی ہو، اب سمجھا دو۔ میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا ۔کیا تم نے کسی لڑکی کو کس کیا ہے؟ وہ شرماتے ہوئے بولا نہیں ابھی تک تو نہیں کیا۔ میں ہنس کر بولی ارے تم نے تو کسی لڑکی کو چوما تک نہیں تم کچھ اور کیا کرو گے ۔لگتا ہے تمہارا کوئی پرزہ کم ہے ایسا ہی ہے ناں ؟۔میں اس کی ٹانگوں کے بیچ گھورتی ہوئی بولی ۔ ارے تمہارا  وہ ہے بھی کہ نہیں، مجھے تو تمہاری  مردانگی پر ہی شک ہونے لگا ہے۔ روئے گی وہ لڑکی جو تمہارے  ساتھ  شادی کرے گی میری طرح۔ یہ سن کر وہ ایک دم غصے میں آگیا اور بولا بھابھی اب آپ حد سے آگے بڑھ رہی ہو اور میری مردانگی کو چیلنج کر رہی ہو، ایسا نہ ہو کہ میں کچھ کر بیٹھوں۔میں اسے تاؤ دلاتی ہوئی بولی ،  ارے تو کیا کرے گا، تیرے میں اتنی ہمت ہے ہی نہیں کہ کسی سے ایک کس بھی کر سکے۔ اتنی دیر سے مجھ جیسی خوبصورت عورت تمہارے پاس بیٹھی ہے ۔تمہیں کھلی دعوت دے رہی ہے ، کوئی اور ہوتا تو ابھی تک میرے ہونٹوں کو چوس چوس کر لال کر دیتا۔اور اس کے بعد مجھے چود چود کر پاگل کردیتا۔

اس بات کا  اس پر اتنا اثر ہوا کہ اس نے مجھے اپنی بانہوں میں کس کر میرے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا، میں نے بھی اس کا ساتھ کھل کر دیا۔ ارے اب ہونٹوں کو ہی چوستا رہے گا یا کچھ اور بھی کرے گا؟ بھابھی تم میری گرو ہو، جو سکھاتی رہو گی میں کرتا رہوں گا۔ کوئی بھی لڑکی یہ نہیں کہے گی کہ اب میری چوت مار، وہ تو اشارے سے سمجھانے کی کوشش کرے گی، اگر نہیں سمجھے گا تو کہہ دے گی تو اناڑی ہے۔ اتنا کہتے ہی اس نے اپنی شلوار قمیض اتار دی اور صرف برا اور پینٹی میں اس کے سامنے آگئی ۔وہ میرے گورے خوبصورت جسم کو دیکھ کر پاگل ہوگیا اور میرے مموں پر ٹوٹ پڑا اور میرے مموں کو چوسنے لگا۔آآآآآآہ ۔۔آآآہ ۔۔۔میں اس کا سر اپنے موٹے مموں پر دبانے لگی اور زور سے چوسو ۔۔آآآہ ۔۔آآہ ۔۔ہاں ایسے ایسے ۔۔وہ زور زور سے میرے ممے چوسنے لگا۔۔میں مزے سے ہواؤں میں اڑنے لگی ۔۔ وہ ایک دم کھڑا ہوااور اپنا پاجامہ اتار دیا۔ میں اس کا موٹا لمبا  لن دیکھ کر حیران ہو گئی اور میرے دل نے کہا کہ اب مزا آ جائے گا اور میں جو چاہتی ہوں وہ ہو جائے گا۔  میں نے جلدی سے اپنا برا اور پینٹی اتاری اور اس کو دھکا دے کر بیڈ پر گرادیا۔میں اس کا لن منہ میں لے کر چوسنے لگی ۔وہ مزے سے تڑپنے لگا۔وہ زیادہ دیر میرے منہ میں نہیں ٹک سکا اور میرے منہ میں ہی جھڑگیا۔مگر میں نے لن چوسنا جاری رکھا۔وہ فل مزے میں تھا۔اس کا لن دوبارہ سے اکڑگیاتھا۔میں اس کو لگاتار چوسے جارہی تھی ۔وہ فل گرم ہوچکاتھا۔وہ ایک دم تڑپ کر اٹھا اور مجھے بیڈ پر لٹا کر میری ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھ لیں ۔اس نے  اپنا لن میری چوت پر رکھ کر جھٹکے سے لن کو میری چوت میں دھکیلنے لگا۔ میری چوت نے اتنا بڑا لن کبھی دیکھا بھی نہیں تھا اس لیے اس کا پورا لن بڑی مشکل اور کئی دھکوں کے بعد اندر گیا۔ میں تو لن لے کر جھوم اٹھی اور میں نے دل میں کہا کہ رانی تیری کوشش کامیاب ہو گئی۔ وہ دھکے مار مار کر میری چدائی کر رہا تھا اور میں اسے اپنی بانہوں میں کس کر اپنی چھاتی سے لگا رہی تھی۔ میں نے اپنی ٹانگوں کو اس کے کولہے کے آس پاس لپیٹ لیا تاکہ لن ذرا بھی باہر نہ رہ جائے۔ آج زندگی میں پہلی بار مجھے وہ سکھ مل رہاتھا جس کے لیے میں چھ سال سے تڑپ رہی تھی ۔اس کے جاندار گھسوں نے میری چوت کی بینڈ بجادی  تھی ۔آدھے گھنٹے کی مزے دار چدائی کے بعد وہ بولا کیوں بھابھی اب تو میری مردانگی پر کوئی شک نہیں ہے؟ مردانگی پر تو شک نہیں ہے لیکن تم ہو دھکا سٹارٹ گاڑی، سیلف سٹارٹ نہیں ہو اور کوئی بھی دھکا سٹارٹ گاڑی کو پسند نہیں کرتا، آج سیلف سٹارٹ گاڑی کا زمانہ ہے۔ بھابھی تم نے آج تک کبھی کسی لڑکے کی عزت لوٹنے کا  سنا ہے، ہمیشہ لڑکیوں کی عزت لوٹنے  کی خبریں ہی آتی ہیں۔ تو کیا کہنا چاہتا ہے؟ میرا مطلب ہے کہ اگر لڑکا پہل کرے تو لڑکیاں چپل اتار لیتی ہیں یا چھیڑ خانی کا الزام  لگا دیتی ہیں، لیکن کبھی کسی لڑکے کو چپل اٹھاتے یا چھیڑ خانی کا الزام  لگاتے سنا ہے؟ نہیں، بالکل نہیں۔ یہ ہی وجہ  ہے کہ لڑکے اپنی طرف سے پہل کرنے میں گھبراتے ہیں اور اگر کچھ لڑکے چھیڑ خانی کرتے ہیں تو انہیں وہ لڑکیاں ہی ملتی ہیں جو بہت چالاک ہوتی ہیں اور جن کا مطلب صرف چدائی کے مزے لینا یا لڑکوں سے دولت اینٹھنا ہوتا ہے۔ تم میری بات تو نہیں کہہ رہے کہ میرا تمہارے سے مطلب صرف چدائی کروانا تھا۔ نہیں بھابھی آپ کا مطلب صرف چدائی کروانا نہیں رہا، آپ تو اپنے شوہر سے پوری وفادار رہی ہیں  جو اتنے سال اس مرد کے ساتھ دل وجان سے رہیں  جو اسے نہ تو سیکس میں مطمئن کر سکا نہ ایک بچہ دے سکا۔ بچے کے لیے کسی اور مرد کے ساتھ چدائی میں میری نظر میں کوئی برائی نہیں ۔ میں ہنس کر بولی ارے واہ تم تو بہت سمجھدار ہو ۔وہ مسکرا کر بولا  بھابھی میں جانتا ہوں کہ لڑکے اور لڑکی میں سیکس برابر ہوتی ہے بلکہ لڑکیوں میں زیادہ ہی ہوتی ہے، لیکن انہیں سماج اور خاندان کا جتنا دھیان ہوتا ہے اتنا لڑکوں کو نہیں، یہ ہمارے سماج کی بنائی بندش ہے۔ آج جب دور بدل رہا ہے تو لڑکیاں بھی بہادر ہوگئی ہیں ، اور لڑکوں کی طرح وہ بھی کھل کر سیکس کی باتیں بھی کرنے لگی ہیں اور سیکس بھی کرنے لگی ہیں۔ اس میں کوئی بھی برائی نہیں، ۔  میں ہنستی ہوئی بولی ارے واہ تم تو تقریر بھی اچھی کرلیتے ہو ۔ میں اس کا لن پکڑتی ہوئی بولی اب اس لیکچر بازی کو بند کرو اور  ایک بار پھر  میری چوت کی پیاس اپنے لن سے بجھا دو۔ جب تو نے کہہ ہی دیا کہ عورت اور مرد میں برابر سیکس ہوتی ہے تو پھر جب ہم کھل ہی گئے ہیں تو میں بھی آج ایڈوانس لڑکیوں میں شامل ہو جاؤں۔ کیوں نہیں بھابھی تم تو میری نظر میں پہلے سے ہی بہت ایڈوانس ہو ۔ایسے ہی تو مجھ سے بھولے بھالے لڑکے کو نہیں پھنسالیا ۔آپ نے اتنا خوبصورت جسم مجھے سونپ دیا۔پہلی بار چدائی کا مزہ چکھایا ۔میں تو آپ کا دیوانہ بن گیاہوں ۔ بلکہ میں تو آپ کو  اپنا گرو ماننے لگا ہوں۔ ہاں تو میری پیاری بھابھی گرو، میں ہو رہا ہوں شروع، لو  مزا آج اپنے دیور سے چدائی کا۔ اور اس نے میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر انہیں چوسنا شروع کر دیا اور اپنا لن میری چوت پر رکھ کر دھیرے دھیرے اندر کرنے لگا اور کہنے لگا کیوں بھابھی اب تو ٹھیک ہے؟ کیا ٹھیک ہے، جتنا پاٹھ پڑھاؤں گے اتنا ہی کرتے رہو گے کہ اس سے آگے بھی کچھ اپنے آپ کرنے کی کوشش کرو گے؟ اب کیا رہ گیا ہے؟ تجھے یہ میری چھاتی پر دو اتنے بڑے خربوزے  نظر نہیں آ رہے۔ کیا کروں ان کا؟ انہیں میری چوت میں ڈال دے بدھو۔ اس نے میرے مَمّے اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیے اور کھینچنے لگا اور کہنے لگا۔ یہ تو پکے چپکے ہوئے ہیں، انہیں تمہاری چوت میں کیسے ڈال دوں؟ تم تو بالکل اناڑی ہو، اچھا ہوا مجھے مل گئے نہیں تو تمہاری وائف تمہیں چھوڑ کر چلی جاتی۔ اتنی ٹریننگ کوئی نہیں دیتی۔ چلو اچھا ہوا اب تو تم مجھے ٹرینڈ کر ہی دو گی۔ میں اپنی وائف کو بتا دوں گا کہ مجھے تو کچھ بھی نہیں آتا تھا یہ سب میری پیاری بھابھی نے سکھایا ہے۔ ضرور تاکہ وہ چھوڑ کر اپنے میکے چلی جائے۔ میں تو اس لیے کہہ رہا تھا کہ وہ آپ کا شکریہ کرے گی کہ تم نے اس کےشوہر  کو ٹرینڈ کر دیا ہے۔ ٹھیک ہے اب جو تجھے کہا ہے وہ کر اور میرے مَمّوں کو منہ میں لے کر چوس اور اپنے لن کو میری چوت میں زور زور سے مار۔ بھابھی اب تو تم سمجھ گئی ہو گی کہ میں اس کام میں بالکل اناڑی ہوں، چلو میں اپنی وائف سے نہیں کہوں گا لیکن آپ کا زندگی بھر احسان مانوں گا۔ تو اس احسان کا بدلہ کیسے دے گا؟ زندگی بھر جب بھی تو کہے گی تیری چوت میں اپنا لن ڈال کر تیری پوری تسلی کروں گا۔یہ بول کر اس نے زور سے لن میری چوت میں گھسادیا اور بھرپور چدائی کرنے لگا۔پورا دن ہم چدائی میں مست رہے ۔ رات کو میرےشوہر  نے آ کر پوچھا سارے دن کیا کرتے رہے کہیں بور تو نہیں ہوئے بھائی، مجھے تو اپنی نوکری پر جانا تھا۔ میں نے کہا ہاں بڑے آئے اپنے بھائی کا خیال رکھنے والے، آپ کا بھائی بعد میں بنا ہے، پہلے میں نے اسے اپنا دیور بنایا تھا۔ ٹھیک ہے آپ کا دیور پہلے ہے لیکن تمہارے دیور کی مجھے بھی توفکر  ہونی چاہیے۔ سارے دن کیا کرتے رہے، کیسے دن بتایا، میں تو یہ پوچھ رہا ہوں۔ آپ کا یہ بھائی تو بڑا بدھو ہے، اسے تو کچھ بات کرنی بھی نہیں آتی، میں جو کہتی ہاں کرتا رہا۔ ہاں اگر بدھو ہے تو میرا بھائی اور تیز ہو تو تیرا دیور۔ اتنا سیدھا انسان کہاں ملے گا جو تم کہتی رہی وہ مانتا رہا۔ ایک بار تو میں گھبرا گئی کہ کہیں انہوں نے کچھ دیکھ تو نہیں لیا۔ شاید یہ لنچ میں گھر آئے ہوں اور ہمیں دیکھ لیا ہو۔ میں نے کہا تم تو ایسے کہہ رہے ہو جو تم دیکھ رہے تھے کہ میں جو کہہ رہی تھی یہ مان رہا تھا۔ ارے تو تو ہر بات کا غلط مطلب نکال رہی ہے، تو نے ہی تو کہا کہ جو تو کہتی تھی یہ ہاں کر دیتا تھا۔ لیکن اسے بھی تم کچھ بات کرنی آنی چاہیے کہ نہیں؟ کیا تم برداشت کر لو گے کہ تم بولتے رہو اور دوسرا ہاں ہوں کرتا رہے۔ پہلا دن ہے، دھیرے دھیرے کھل جائے گا پھر یہ بھی تیری طرح باتیں کرنے لگے گا اور تجھے بور نہیں ہونے دے گا۔ سیکھے گا کب کل تویہ واپس جا رہا ہے۔ ایسے کیسے چلا جائے گا ہم جانے دیں گے تب نا۔ رات کو میرے شوہر جلدی سونے کے عادی تھے وہ سوگئے تم میں آصف کو لے کر دوسرے کمرے میں آگئی ۔ اس نے مجھے اپنی بانہوں میں کس کر میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔ میں نے کہا ہٹ شرارتی، تم تو  ایک دن میں ہی اناڑی سے کھلاڑی ہو گئے ہو ۔وہ میری ملائم گانڈ دباتےہوئے بولا  آپ  جیسی گرو ہو تو میں کیا کوئی بھی کھلاڑی بن جائے گا۔ اب مجھے کسی اور کو کھلاڑی بنانے کی ضرورت نہیں، ایک دیور ہی کافی ہے۔ وہ گھبرا رہا تھا کہ کہیں بھیا جاگ نہ جائے۔ میں نے کہا گھبرا مت، وہ اب صبح سے پہلے جاگنے والے نہیں۔ ہم دونوں نے اپنے کپڑے اتار کر بیڈ پر لیٹ گئے۔ رات کو مجھے کچھ کہنا نہیں پڑا اور وہ میرے ہونٹ چوستے ہوئے میرے مَمّوں کو ہاتھ میں لے کر دبانے لگا۔ پھر اس نے میرے مَمّوں کو منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا۔ کبھی وہ میرے نپل کو چوستا اور کبھی پورا مَمّا منہ میں لے لیتا۔میں فل مزے سے تڑپنے لگ پڑی تھی ۔ جب اس نے محسوس کیا کہ میری چوت اب لن لینا چاہتی ہے تو اس نے اپنا لن میری چوت میں ڈال دیا۔ سارا دن لن لینے کے بعد اب میری چوت اتنی چکنی ہو چکی تھی کہ ایک ہی جھٹکے میں پورا سات انچ کا لن میری چوت میں سما گیا۔ کبھی میں اس کے ہونٹ چوس رہی تھی اور کبھی وہ میرے ہونٹ چوس رہا تھا اور لن کو خوب زور زور سے جھٹکے مار کر میری چدائی کر رہا تھا۔ بڑی مزے دار چدائی کرنے لگا تھا وہ۔ اب میرے مَمّوں کو بھی منہ میں لے کر جب چوستا تھا تو میری چوت اس کے لن کو لینے کے لیے اچھلنے لگتی تھی۔ ساری رات کئی بار اس کے لمبے اور موٹے لن نے میری چوت کو اپنا رس پلایا۔ہم چدائی کے بعد تھک ہار کرلیٹے ہوئے تھے ۔میں اس کی بانہوں میں تھی ۔آصف میرے گال چومتا ہوا بولا  بھابھی اب تو بیج زمین میں ڈال دیا ہے، کیا یہ بیج اچھا ہے؟ میں مسکراتی ہوئی بولی  بیج اچھا ہے یا کمزور یہ تو اُگنے پر ہی پتہ لگے گا، ابھی تو میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ تو نے ہل اچھی طرح چلایا ہے۔ وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا اچھا بھابی بیج ٹھیک پڑ گیا ہے یہ کب پتہ چلے گا؟میں ہنستی ہوئی بولی  ایک مہینے بعد جب میری ماہواری نہیں ہو گی۔  اس کو آئے ہوئے چار دن ہوگئے تھے ۔ہم رات دن بس چدائی میں ہی مگن رہتے تھے ۔میں اپنی زندگی کا سب سے بیسٹ ٹائم اس کے ساتھ گزررہی تھی ۔اس کے لن سے جدائی برداشت ہی نہیں ہوتی تھی ۔وہ یا تو میری چوت میں ہوتا یا میرے منہ میں ۔مگر اس کی جاب  بھی تھی اور وہ زیادہ دن نہیں رہ سکتا تھا۔ چار دن بعد  وہ کہنے لگا اچھا بھابھی اب مجھے جانے کی اجازت دو۔ میں نے کہا اجازت دینے کو دل تو نہیں کرتا لیکن تمہیں کب تک روکوں گی۔ پھر کب ملو گے؟ بھابھی اب تمہاری باری ہے، تم ملیر  میں میرے پاس آؤ گی۔ ایک تو میں روز روزجاب  سے چھٹی نہیں کر سکتا اور دوسرے وہاں ہم دونوں اکیلے ہوں گے تو کھل کر مزے لیں گے۔آصف گیاتو گھر تو گھر میری چوت بھی سنسان ہوگئی تھی ۔میں اسے بہت مس کررہی تھی ۔رات دن میری چوت میں خارش ہوتی رہتی تھی ۔اگلے مہینے مجھے ماہواری نہیں آئی ۔میں تو خوشی سے پاگل ہوگئی تھی ۔ میں نے اپنے شوہر  سے کہہ کر کہ مجھے لگتا ہے کہ میں ماں بننے والی ہوں ملیر میں ایک بہت اچھا ڈاکٹر ہے ۔میں اس سے چیک اپ کرواتی ہوں ۔میں آصف کے گھر چلی جاتی ہوں روز آنے جانے کی زحمت بھی نہیں ہوگی ۔ میرےشوہر  نے خوش ہو کر کہا ہاں ضرور جاؤ ۔اگلے روز آصف موٹرسائیکل لے کر مجھے لینے آگیا۔ موٹر سائیکل پر میں اس کے پیچھے بیٹھ گئی تو اس نے کہا بھابھی کس کر پکڑ لینا کہیں گر نہ جانا۔ میں نے کہا تجھے تو میں اب زندگی بھر کس کے پکڑ کر رکھوں گی اور اب گروں گی تو تیری بانہوں میں یا گود میں۔ اور میں نے اس کی کمر میں اپنے ہاتھ ڈال لیے۔ کمر سے میرے ہاتھ اس کے لن پر پہنچ گئے تو میں نے کہا ارے یہ کیا، یہ تو ایسے اچھل رہا ہے جیسے یہیں میری چوت میں جائے گا۔ اسے کہہ دو کہ گھر تو پہنچ لے پھر جتنا چاہے اچھل اچھل کر اپنی پیاری چوت میں جائے۔ بھابھی میں اسے اب کیسے سمجھاؤں، یہ تو میں ہی جانتا ہوں کہ میں نے ایک مہینہ کیسے بتایا ہے۔ جب ایک مہینہ بتا دیا تو کیا ایک گھنٹہ اور نہیں رکا جاتا۔ تو کیا سمجھتا ہے کہ میں ایک مہینہ چین سے سو پائی ہوں۔ گھر پہنچتے ہی اس نے مجھے اپنی بانہوں میں کس لیا اور میرے ہونٹوں پر چمّوں کی بوچھار لگا دی۔ میں نے کہا تجھے تو میرا پڑھایا سبق  بڑی اچھی طرح سے یاد ہو گیا ہے۔ کیا اس سبق  کا استعمال کہیں کسی اور پر تو نہیں کیا؟ نہیں بھابھی آپ کا  دیور اتنا بے وفا نہیں کہ آپ کا  مال کسی کو لٹا دے۔ اچھا  آپ  نے کہا تھا  کوئی خوشخبری سنانے والی ہو، کیا ہے وہ جلدی سے سناؤ۔ وہ خوشخبری یہ ہے کہ تم باپ بننے والے ہو اور میں تیرے بچے کی ماں۔ وہ خوش ہوکر بولا تو میرا بیج کام کر گیا۔ بیج تو اُگ گیا لیکن اب اسے لگاتار پانی دینا پڑے گا نہیں تو پودا مرجھا جائے گا۔ پانی کیسے میں سمجھا نہیں۔ وہ بھی سمجھا دوں گی، پہلے مجھے باتھ روم دیکھاؤ  میں نہا دھو کر فریش ہونا چاہتی ہوں۔ تو چلو پہلے فریش ہو لو تب تک میں اور انتظار کر لیتا ہوں اس طریقے کی۔ اور وہ مجھے باتھ روم  لے گیا اور کہنے لگا لو اب فریش ہو جاؤ۔ میں نے کہا اکیلے فریش کیسے ہو سکتی ہوں، تم بھی میرے ساتھ ہو گے تو مجھے مل مل کر نہلاؤ گے تبھی تو میں فریش ہوں گی۔ اور میں نے اسے بھی باتھ روم  میں کھینچ لیا۔ میں نے کپڑے اتارتے ہی اس کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور اسے چومتے ہوئے کہا میرے پیارے لن دیوتا تو نے کمال کر دیا چھ سال سے جو میرے شوہر  کا لن نہ کر سکا تو نے ایک ہی مہینے میں وہ کام کر دیا۔ اب تجھے اپنے لگائے پودے کو لگاتار جب تک باہر نہ آ جائے اپنا پانی پلاتے رہنا ہو گا۔ اس نے کہا اب میں سمجھا کون سا پانی دینے کے لیے کہہ رہی تھی۔ تو پھر کیا خیال ہے؟ میرا کیا خیال ہونا ہے جو تم چاہو گی آپ کا دیور کرنے کے لیے حاضر ہے۔ تو اب کس بات کا انتظار ہے ہو جا شروع۔ کوئی بھی کام کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ میرا اتنا کہتے ہی اس نے مجھے اپنی بانہوں میں کس کے میرے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا اور پھر میرے مَمّوں کو ہاتھ میں لے کر کہنے لگاآپ کے ممے  ابھی تو میں چوس سکتا ہوں پھر کچھ ہی مہینوں میں انہیں  چوسنے والا آ جائے گا پھر وہ مجھے تھوڑے چوسنے دے گا۔ میں نے کہا وہ تو کچھ سال چوسے گا پھر تمہیں ہی چوسنے ہیں۔ ابھی تو آٹھ مہینے ہیں خوب دل بھر کر چوس لو۔ اس نے میرے مَمّوں کو چوسنا شروع کیا تو میں نے کہا تم اسے چوس رہے ہو اور چوت کو بھی تو کچھ چوسنے کے لیے دو، وہ بھی بڑے دنوں کی پیاسی ہے۔ چوت ہی نہیں لن بھی بہت دنوں سے چوت کا رس پینے کے لیے تڑپ رہا ہے۔ یہ نہ تو خود سوتا تھا نہ مجھے سونے دیتا تھا۔ آج رات چوت کا رس پی کر آرام سے سوئے گا اور مجھے سونے دے گا۔ کیا کہا یہ سوئے گا اور تمہیں بھی سونے دے گا۔ غلط بات مت کرو، یہ نہ تو آج سوئے گا نہ تم سوؤ گے نہ مجھے سونے دے گا۔ ٹھیک ہے بھابھی میں کئی بار غلط بول جاتا ہوں، لیکن میرے دل میں کوئی غلط بات نہیں ہوتی۔ ہاں دوسرے کی بیوی کو چودنا تو غلط نہیں ہوتا۔ ہاں بالکل غلط نہیں ہوتا اگر ارادہ نیک ہو اور کسی کے بھلے کے لیے کی جائے۔ نہانے کے بعد ہم دونوں بنا کپڑے پہنے بستر پر آ گئے اور اس نے بنا کسی دیر کیے اپنا لن میری چوت میں ڈال دیا اور اتنے زور زور سے جھٹکے مارنے لگا جیسے پورے مہینے کی کسر آج اور ابھی نکالنی ہے۔ میں نے کہا اتنے اُتاولے نہ بنو اب تو میں تمہارے پاس کافی دنوں تک رہوں گی، کیونکہ میں تیرے بھیا کو یہ کہہ کر آئی ہوں کہ میں وہاں ڈاکٹر سے چیک کروانے جا رہی ہوں، اس لیے علاج تو کتنا ہی لمبا ہو سکتا ہے۔ اور میں ایک مہینے تک اس کے پاس رہی اور خوب مزے لیے۔ ایک مہینے بعد میں واپس جاتے ہوئے اسے کہہ گئی کہ جلدی آنا اور میری بات کا دھیان رکھنا کہ اپنے لگائے پودے کو لگاتار پانی دیتے رہنا ہے۔ وہ اپنی بات پر کھرا رہا اور جب تک بچہ نہیں ہو گیا وہ اپنے پودے کو پانی دینے آتا رہا۔ بچہ ہونے کے وقت بھی وہ میرے پاس ہی رہا۔اب میرا سسرال بھی خوش ، میکہ بھی خوش اور میری چوت تو بہت ہی زیادہ خوش رہتی ہے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی