یہ ان دنوں کی بات ہے جب میری عمر 15 سال تھی۔
آئیے میں آپ کو 15 سال پیچھے لیے چلتا ہوں
ہم سب گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنے نانا کے گھر آئے ہوئے تھے
میں نویں کلاس میں پڑھتا تھا۔ ہوا میں گرمی کی حد کچھ زیادہ ہی تھی اور ہمیں یہاں پر آئے ہوئے دس دن سے زیادہ ہو چکے تھے
یہ سندھ کا ایک اچھا خاصا صاف ستھرا علاقہ تھا جہاں پر زیادہ تر اچھے خاصے کھاتے پیتے لوگ رہا کرتے تھے
دوپہر 2 بجے کے وقت ہوگا جب میں نے اپنی خالہ کے گھر کی گھنٹی بجائی لوہے کے گیٹ کے اوپر میرے خالو کے نام کی تختی لگی ہوئی تھی جن کا نام کامران تھا
میرے نانا کا گھر بھی وہاں سے کچھ فاصلے پر ہی تھا میری نانی نے مجھے کچھ برتنوں کا سیٹ دے کر خالہ کو دینے بھیجا تھا
پیر کا دن تھا گرمی میں کچھ زیادہ ہی حدت تھی اور میری خالہ کے گھر آج دعوت بھی تھی گھنٹی بجا کر میں بہت دیر تک انتظار کرتا رہا لیکن اندر سے کوئی جواب نہیں آیا چلچلاتی دھوپ نے شہر کو تندور کی طرح دہکا رکھا تھا۔
میں نے دوبارہ سے دروازے کی بیل بجائی اور کچھ دیر انتظار کیا لیکن جواب ندارد
میں نے پھر دوبارہ گھنٹی بجائی اور اب جھنجھلاتے ہوئے میں نے دروازے کو بھی زور زور سے کھٹکھٹایا تو ایک منٹ بعد ہی اندر سے آواز آئی۔۔۔
کون ہے۔۔؟
اور ساتھ ہی گیٹ کا دروازہ کھلا اور لبنیٰ خالہ کا گرمی کی حدت سے تپاہوا چہرہ میرے سامنے آیا۔۔
اوہ تم ہو کاشان میں تو ڈر ہی گئی تھی کہ اس بھری دوپہر میں نہ جانے کون آگیا ۔۔
لبنیٰ خالہ نے مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا اور اندر کی طرف بڑھ گئیں ۔
کاشان تم میں اکیلے ہی ہو نا تمہارے ساتھ کوئی اورتو نہیں؟؟
لبنیٰ خالہ نے پوچھا۔۔
!میں۔۔
نہیں خالہ میں اکیلے ہی ہوں اور نانی نے مجھے یہ برتن دے کر آپ کی طرف بھیجا ہے۔
دراصل میں نہا رہی تھی اور میں نے کچھ مناسب کپڑے نہیں پہنے ہوئے تو اسی لیے میں نے تم سے یہ بات پوچھی۔۔
خالہ نے کہا ۔۔
تم ایسا کرو یہ برتن یہاں ٹیبل پر رکھ دو اور ادھر صوفے پربیٹھ جاؤ میں بس ابھی نہا کے فارغ ہو کر آتی ہوں ۔۔
اب جب میں نے لبنیٰ خالہ کی طرف دیکھا تو میرے تو ہوش ہی اڑ گئے خالہ نے بدن پر ایک قمیض پہنی ہوئی تھی جو کہ گیلی تھی اور انہوں نے اپنے سینے پر ایک تولیہ ڈالا ہوا تھا جو کسی حد تک ان کے موٹے موٹےمموں کو چھپانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن پیٹ اور ناف کا گہرا گڑھا بالکل واضح طور پر قمیض کے اندر سے جھلک رہا تھا اور انہوں نے شلوار بھی نہیں پہنی ہوئی تھی اور گھٹنوں سے نیچے ان کی ٹانگیں بالکل ننگی تھیں قمیض کا دامن ایک جانب سے الٹا تھا جس کی وجہ سے ان کی موٹی گوری گوری ران ننگی نظر آرہی تھی۔ ان کے گیلے بال کندھوں پر پڑے ہوئے تھے جن سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔
ہوا کچھ یوں تھا کہ خالہ غسل خانے میں نہا رہی تھیں میرے باہر گیٹ پر بیل بجانے کی وجہ سے وہ جلدی جلدی میں ہی گیلے بدن پر قمیض پہنے اور تولیہ ڈالے بنا شلوار پہنے ایسی ہی باہر آ گئیں کہ دیکھیں دروازے پر کون ہے۔ اب جب انہوں نے گیٹ سے سر باہر نکال کر مجھے دیکھا تو انہوں نے سوچا کہ کاشان تو اپنا ہی بچہ ہے تو اسی لیے وہ مجھے اندر لے آئیں ۔
خالہ ۔۔
بیٹے تم نے بڑی تکلیف کی جو اس گرمی میں یہاں چلے آئے اصل میں میرے سسرال والے آج گھر آ رہے ہیں تو اس کے لیے مجھے برتنوں کی ضرورت تھی تو میں نے تمہاری نانی سے کہا کہ مجھے کچھ برتن بھجوادیں تو انہوں نے تمہارے ہاتھ بھیج دیے۔
!میں۔۔
خالہ جان ایسی کوئی بات نہیں۔۔
ابھی میرے منہ سے یہ الفاظ نکلے ہی تھے کہ اچانک سے خالہ جان کے سینے پر پڑا ہوا تولیہ پھسلا اور ان کا موٹا سا بایاں مما قمیض کے اندر سے جھانکنے لگا ان کی قمیض ان کے گیلے صحت مند بدن سے بری طرح چپکی ہوئی تھی اور بائیں ممے کا بڑا سا ابھار اور نپل کا موٹا سا سرا بالکل صاف دکھائی دے رہا تھا عام حالات میں وہ ہر وقت بریزر پہنے رہتی تھیں لیکن اس وقت ان کے مموں پر بریزر نہیں تھا انہوں نے جلدی سے تولیے سمیت قمیض کو اوپر کی طرف کھینچا تو ان کا بایاں مما قمیض سے رگڑ کھاتا ہوا تھوڑا سا اوپر کی طرف اٹھ گیا اور مجھے ان کے ممے کا نپل سیدھا کھڑا ہوا نظر آیا
میں نے دیکھا لبنیٰ خالہ کے ممے صحت مند ہونے کے باوجود لٹکے ہوئے نہیں تھے بلکہ ایک دم تنے ہوئے تھے۔
خالہ نے تھوڑا سا خفت آمیز لہجے میں کہا۔۔
بس مجھے 10 منٹ لگیں گے میں ابھی نہا کر آتی ہوں ۔
میں نے بے خیالی کے عالم میں سر ہلا دیا
خالہ نے تولیہ سیدھا کرا اوراپنے سینے پر پھیلالیا اور قمیض کے دامن کو بھی سیدھا کیا اور سیدھی اس کمرے کی طرف بڑھ گئیں جہاں غسل خانہ تھا۔
میں نےحیرت سے ان کے موٹے موٹے گیلے چوتڑوں کو دیکھا جن پر گیلے ہونے کی وجہ سے قمیض چپکی ہوئی تھی اور شلوار نہ پہنے ہونے کی وجہ سے خالہ کے چوتڑوں کی باہر نکلی ہوئی گوری گوری سفید گولائیاں صاف دکھ رہی تھیں ۔اور موٹے موٹے چوتڑوں کی درمیان کی گہری لکیر بالکل واضح دکھ رہی تھی نہانے سے ان کا بھیگا بدن اور زیادہ گورا دکھ رہا تھا مجھے لگا جیسے میں اپنی خالہ کے بھاری بھرکم چوتڑوں کو ہلتے ہوئے بالکل ننگا دیکھ رہا ہوں وہ چھوٹے چھوٹے مگر تیز قدموں کے ساتھ چل رہی تھیں مگر ان کے بھاری بھرکم چوتڑ ہلتے ہوئے بڑے مست انداز میں مٹک رہے تھے ان کی قمیض گھٹنوں تک لمبی تھی جس کے نیچے سے ان کی گوری گوری سفید پنڈلیوں کی رگیں مجھے صاف نظر آرہی تھیں
میں نے سوچا کہ کاش میں کسی طرح اپنی پیاری سی خالہ جان کی پھدی میں اور گانڈ میں اپنا لنڈ ڈال سکتا۔۔
میں برتن ٹیبل پر رکھ کر کمرے میں داخل ہوا تو مجھے اپنے کان کی لوویں گرم ہوتی ہوئی محسوس ہوئیں خالہ جان کو اس حالت میں دیکھ کر میرے ذہن میں ایک قیامت سی برپا ہو گئی تھی۔ میں ایک اچھی شکل و صورت کا سلجھا ہوا خوش مزاج لڑکا تھا اور خالہ جان پر تو میں بہت پہلے سے ہی عاشق تھا اور میں کس عمر میں خالہ جان کے اوپر عاشق ہوا اس کا اندازہ تو مجھے خود بھی نہیں تھا ۔میں سینکڑوں دفعہ خالہ جان کے بھاری ممے اور موٹی سی گانڈ کا تصور کرتے مٹھ مار چکا تھا آج یہ پہلا اتفاق تھا کہ میں نے ان کے بدن کو اس طرح بنا کپڑوں کے دیکھا تھا خالہ جان کے کندھوں پر گیلے بال قمیض سے جھانکتا ہوا ان کا موٹا تازہ بایاں مما ناف کا گہرا گڑھا اور گانڈ کی تیز حرکت جیسے میرے ذہن پر نقش ہو کر رہ گئی تھی ۔کمرے میں آکر میں صوفے پر بیٹھ گیا اور غیر ارادی طور پر اپنے لنڈ کو سہلانے لگا جو کہ کھڑا ہو چکا تھا پتہ نہیں کتنی دیر تک میں اپنی خالہ جان کے جسم کے نشیب و فراز کو اور ان کے سحر انگیز بدن کو تصور میں سوچتا ہوا اپنے لنڈ کو مسلتا رہا پھر غسل خانے کے دروازے کے کھلنے کی آواز آئی تو مجھے ہوش آیا کچھ دیر بعد خالہ جان غسل خانے سے باہر آگئیں اب انہوں نے معمول کے مطابق کپڑے پہنے ہوئے تھے دوپٹہ انہوں نے اپنے موٹے موٹے مموں پر ڈالا ہوا تھا اور انہیں چھپانے کی ناکام کوشش کر رہی تھیں ۔میں نے صوفے پر بیٹھے بیٹھے ہی خالہ جان کی طرف دیکھا اور سوچا کہ یہ شیفون کا پتلا سا باریک سا دوپٹہ بھلا خالہ جان کے مموں کو دنیا کی نظروں سے پوشیدہ کیسے کر سکتا ہے۔ خالہ جان میرے برابر آ کر صوفے پر بیٹھ گئیں۔
لبنیٰ خالہ بلا شبہ ایک خوبصورت اور باوقار عورت تھیں کشادہ پیشانی، ستواں ناک، نوکیلی ٹھوری اور چمچماتا ہوا گورا رنگ وہ نسبتاً لمبے قد کی اور بڑے صحت مند گداز بدن کی عورت تھیں ۔
ان کے ممے بڑے بڑے اور موٹے تھے جن کے گول ابھار کسی مقناطیس کی طرح مردوں کو اپنی جانب کھینچتے تھے بھاری بھرکم ہونے کے باوجود خالہ جان کا جسم حیرت انگیز طور پر چست، لچکدار اور پھرتیلا تھا ان کی گانڈ نہ صرف موٹی اور بھاری تھی بلکہ کسی ہوئی اور توانا بھی تھی دونوں چوتڑ سختی کے ساتھ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے ایسا لگتا تھا کہ بنانے والے نے کسی مہارت کے ساتھ ان چوتڑوں کی گولائیوں کو بڑے دل نشین انداز میں تراشا ہے۔ پیٹ بالکل تھوڑا سا نکلا ہوا تھا مگر ان کے بدن پر ہرگز برا نہیں لگتا تھا گو کہ خالہ جان ایک لحیم شحیم عورت تھیں مگر ان کے بدن میں نسوانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی خالہ جان کو خود بھی اپنے موٹے مموں اور بھاری چوتڑوں کا احساس تھا وہ جانتی تھیں کہ گھر سے باہر نکلنے پر کیا مرد اور کیا عورتیں سب ہی ان کے بھاری بھرکم مموں اور موٹے موٹے چوتڑوں کو بہت گھور گھور کر دیکھتے ہیں ۔گزشتہ 20 برس سے ان کے ساتھ یہی کچھ ہوتا آیا تھا 15، 16 سال کی عمر میں ہی خالہ جان کے ممے اپنی ہم عمر لڑکیوں کے مقابلے میں اچھے خاصے موٹے، کسے ہوئے اور توانا ہو چکے تھے پھر چند سالوں کے اندر اندر ان کے ممے اور چوتڑ خوب موٹے ہوتے چلے گئے گویا کہ وہ ایک سیکس بم کی طرح ہو گئیں جیسے قدرت نے ان کے نشیلے بدن کو سیکس کی علامت بنا دیا ہو اور اسی لیے باہر کے مردوں کی شہوت انگیز نگاہوں نے خالہ جان کے مموں اور چوتڑوں کا پیچھا نہ چھوڑا ۔
شریف اور باکردار ہونے کی وجہ سے انہیں یہ بات کبھی بھی پسند نہیں آئی ۔حالانکہ وہ جانتی تھیں کہ اتنا سیکسی بدن ہونے کے وجہ سے وہ مردوں کے لیے ایک خاص جنسی کشش رکھتی ہیں اپنا خاندانی پس منظر اور اخلاقی اقدار ہونے کی وجہ سے انہوں نے کبھی بھی کسی غیر مرد کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا وہ اپنے شوہر کے علاوہ کسی اور غیر مرد کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھیں انہیں یہ بات بہت ناگوار گزرتی تھی کہ کوئی غیر مرد ان کے شوہر کے علاوہ ان کی پھدی مارنے کا خیال بھی دل میں لائے لیکن اب کا کیا کیا جائے انہیں باہر جاتے ہوئے ہر مرد کی نگاہیں اپنے مموں پر محسوس اس طرح ہوتی تھیں کہ وہ سمجھتی تھیں کہ باہر ہر مرد جو انہیں دیکھتا ہے اوران کے مموں کو تاڑتا ہے ابھی انہیں پکڑ لے گا اور ان کے مموں کو پکڑ کر ننگا کرتے ہوئے چوسنا شروع کر دے گا ایسے موقع پر وہ کسی کی طرف دھیان نہیں دیتی تھیں اور ایسے گندے خیالات کو فورا ہی اپنے ذہن سے جھٹک دیا کرتی تھیں ۔خالہ جان اپنی طرف آنے والی نگاہوں سے بچنے کے لیے اپنے منہ زور مموں پر بڑی ہی ٹائٹ بریزر ہر وقت پہنے رہا کرتی تھیں تاکہ وہ بریزر کے ذریعے اپنے موٹے صحت مند مموں کو قابو میں کر سکیں اور وہ کسی کو ہلتے ہوئے نظر نہ آئیں لیکن ان کے مموں کا بس نہیں چلتا تھا کہ کسی طرح بریزر کو پھاڑ کر باہر نکل آئیں بالکل اسی طرح وہ اپنے بھاری بھرکم چوتڑوں کو قمیض کے دامن اور دوپٹے سے چھپائے رکھنے کی کسی حد تک کوشش کرتیں مگر قمیض کا چھوٹا سا دامن ان کے پھیلے ہوئے اور موٹے تازے چوتڑوں کے سامنے بے بس تھا خالہ جان کو یہ بھی علم تھا کہ ان کے چوتڑ چلتے وقت بری طرح سے ہلتے ہوئے مردوں کے جذبات کو برانگیختہ کر دیا کرتے تھے اسی لیے وہ اپنے آپ کو دبلا کرنے کی کوششیں کر رہی تھیں اور جدید تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ایکسرسائز بھی کرتی تھیں ان کے سر پر دبلا ہونے کا بھوت سوار تھا وہ یہ چاہتی تھیں کہ لوگ ان کے مموں اور چوتڑوں کو بھوکی نظروں سے دیکھنے کے بجائے ان کے پورے جسم کی شخصیت سے متاثر ہوں اس کے لیے انہوں نے ڈائٹنگ پلان اور وزن کم کرنے والی دوائیاں تک استعمال کر لیں مگر اس کے باوجود بھی نہ تو ان کا وزن کم ہوا اور نہ ہی ان کے مموں اور چوتڑوں کے سائز میں کوئی فرق پڑا
یہاں تک تو لبنیٰ خالہ کا کچھ تھوڑا سا تعارف تھا اب آگے کی طرف چلتے ہیں۔
خالہ جان غسل خانے سے نکل کر میرے پاس آ کر صوفے پر بیٹھ گئیں اور مجھ سے کہا۔۔۔
بیٹا کچھ ٹھنڈا پی لو بڑی گرمی ہو رہی ہے۔
!میں۔۔۔
ٹھیک ہے خالہ جان کچھ ٹھنڈا لے آئیں میرے لیے ۔۔
اصل میں خالہ جان گھر میں اکیلی تھیں اور میں خالہ جان کے ساتھ اکیلے میں وقت گزارنا چاہتا تھا اور یہ موقع میرے لیے کسی نعمت سے کم نہیں تھا خالہ جان اٹھیں اور کمرے سے باہر نکل گئیں
میں نے خالہ جان کے چوتڑوں پر اپنی نظریں گاڑ دیں خالہ جان کے کمرے سے باہر نکلتے ہوئے ان کے چوتڑ ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے تھرک رہے تھے ایسا لگتا تھا جیسے کہ خالہ جان کے چوتڑوں میں بجلیاں سی بھر گئی ہوں میں اس وقت تک ان کے موٹے تازے اور بےقابو تھرتھراتے ہوئے ،ہلتے ہوئے اورمٹکتے ہوئے چوتڑوں کو دیکھتا رہا جب تک وہ کمرے سے باہر نہ نکل گئیں ۔خالہ جان کی پھدی اور گانڈ مارنا اب میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش بن گئی تھی میں نے تصور ہی تصور میں نہ جانے کتنی بار خالہ جان کی گانڈ ماری اور نہ جانے کتنی بار ان کے مموں کا سوچتے ہوئے مٹھ ماری اور اپنی منی لنڈ سے باہر نکالنے کا مزا لیا تھا مجھے بہت ہی پہلے سے عورتوں کی گانڈ مارنے کا شوق رہا تھا میں پہلے یہی سمجھتا تھا کہ عورتیں شاید اپنی گانڈ میں ہی لنڈ لیا کرتی ہیں لیکن پھدی کے بارے میں علم ہو جانے کے بعد بھی عورتوں کی گانڈ میں میری دلچسپی بجائے کم ہونے کے اور مزید بڑھ گئی تھی عورتوں کے موٹے تازے چوتڑوں کے بیچ چھپاہوا چھوٹا سا گانڈ کا سوراخ ہر وقت میرے ذہن میں ہلچل مچائے رکھتا تھا اور اسی لیے موٹے موٹے چوتڑوں والی عورتیں مجھے بڑی پسند تھیں خالہ جان اس معاملے میں قدرت کا بڑا ہی شاہکار تھیں اور اگر میں انہیں چودنا چاہتا تھا تو اس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں تھی موٹی گانڈ کا میں بہت ہی شوقین تھا اور اگر یہ کہا جائے تو اس میں کوئی بڑی بات نہیں کہ عورتوں کی موٹی گانڈ میری بہت بڑی کمزوری تھی
ایک تبصرہ شائع کریں for "میری پیاری خالہ جان"