میں ہوں مِیرا۔ میری عمر 38 سال ہے۔ میرے شوہر کی ڈیتھ ہو چکی ہے۔ میرا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہے۔ بیٹا 22 سال کا ہے اور بیٹی 19 سال کی ہے۔ میرے شوہر کے جانے کے بعد گھر میں ہم تین لوگ ہی رہتے ہیں ۔ میرے بیٹے کا نام سمیر ہے اور بیٹی کا نام سونیا ہے۔
ہم لوگ گاوں سے ہیں، مگر اس وقت ہم لوگ شہر میں رہتے ہیں ۔ میرے شوہر کی نوکری کی وجہ سے ہم لوگ ادھر آ گئے تھے۔
یہاں شہر میں آنے کے بعد میرے شوہر نے شراب پینا شروع کر دیا تھا۔ اس کے بعد وہ سارے پیسے شراب میں ہی اڑانے لگے تھے۔ اس سے ان کی طبیعت بھی خراب رہنے لگی۔ ان کے علاج میں پھر ہمارے گاؤں کے کھیت بھی بک گئے۔
میرے شوہر صبح شام شراب پیتے رہتے تھے۔ شراب کی لت کی وجہ سے ہمارے پاس ایک بھی پیسہ نہیں بچا تھا۔ سب کچھ گنوانے کے بعد بھی میں ان کو نہیں بچا پائی۔ اپنے گھر کی اس حالت کے لئے میں اپنے شوہر کو ہی ذمہ دار مانتی ہوں ۔ اگر ہمارے گاؤں کے کھیت نہ بکے ہوتے تو میں اپنا گزارہ گاؤں میں کھیتوں کے سہارے ہی کر لیتی۔
شوہر کی ڈیتھ کے بعد کسی طرح میں نے بیٹے کو گریجویشن کروایا۔ اس نے موٹر پارٹس کا کام سیکھ لیا۔ اسے کافی اچھی تنخواہ ملنے لگی تھی۔ وہ دوسرے شہر اپنے دوست کے پاس رہ کر کام کر رہا تھا اور ہمیں پیسے بھیج دیا کرتا تھا۔
میری بیٹی ابھی پڑھائی کر رہی تھی۔ پیسے اسی کے اکاؤنٹ میں آتے تھے۔ دو سال کے بعد جب سمیر گھر آیا تو وہ اب جوان ہو کر ایک مرد بن چکا تھا۔ میں اسے دیکھ کر خوش ہو گئی تھی کہ میرا بیٹا اتنا بڑا ہو گیا ہے۔ میں سوچ رہی تھی کہ کچھ مہینے بعد اس کی شادی کر دوں گی۔
میں نے سمیر سے شادی کی بات کی تو وہ بولا کہ پہلے گھر بنوانا ہے، اس کے بعد میں خود ہی شادی کر لوں گا۔
اسی دوران کچھ ایسا ہوا جس نے ہماری سب کی زندگی بدل دی، جس کا مجھے اس وقت علم بھی نہ ہوا۔۔
بات یوں ہوئی کہ ایک دن سمیر گھر میں سو رہا تھا۔ رات کے 11 بجے تھے۔ اسے پیشاب کی حاجت لگی تو وہ اٹھا اور پھر اسے کچھ آہٹ سنائی دی۔ اس نے پیچھے گائے والے طویلے میں جا کر دیکھا تو سونیا ایک لڑکے کے ساتھ (سیکس کرنے میں ) لگی ہوئی تھی۔ اس نے سونیا کو ایک تھپڑ مارا اور اسے وہاں سے اندر واپس لے آیا۔
اس وقت سمیر نے سونیا کو ڈانٹا اور کہا: “اتنی محنت کرکے میں پیسے جمع کرکے تمہیں پڑھا رہا ہوں اور تم یہ سب کر رہی ہو؟”
سونیا چپ چاپ کھڑی ہو کر سب کچھ سن رہی تھی۔ ڈانٹتے ہوئے سمیر کی نظریں سونیا کو دیکھ رہی تھیں ۔ پتہ نہیں دیکھتے دیکھتے اس کے دل میں کچھ عجیب خیالات آنے لگے۔
وہ سونیا کی چھاتیوں کو گھورنے لگا۔ پھر وہ اسے سمجھانے کے لیے اندر لے آیا۔ اسے بٹھا کر سمجھانے لگا، لیکن اس کی نظریں اس کی چھاتیوں سے ہٹ نہیں رہی تھیں۔ سونیا جو تھوڑی دیر پہلے اس لڑکے کے ساتھ خماری میں ڈوبی ہوئی تھی، اس کا جسم پسینے سے ہلکا ہلکا تر تھا۔ اس کے جسم سے آنے والی سیکس کی مہک سمیر کو نا علمی میں ہی مدہوش کر رہی تھی۔ آہستہ آہستہ اس کے دل میں اپنی بہن کے ساتھ جنسی تعلقات کی خواہش پیدا ہونے لگی۔ اس کا دماغ اس وقت اپنے کنٹرول میں نہیں رہا۔
“اس نے سونیا کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا – میں تمہارے لئے ہی یہ سب کر رہا ہوں ۔ وہ اس کے کندھے کو سہلاتے ہوئے بولا – تم جو کہوگی وہ میں کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اگر تمہیں یہ سب کرنا ہی ہے تو میرے ساتھ ہی کر لو۔ گھر کی عزت کو اس طرح سے کیوں بازار میں بیچ رہی ہو؟”
سونیا سمیر کی طرف حیرانی سے دیکھنے لگی۔
سمیر نے دیکھا کہ سونیا نہ کرنے والی ہے تو تبھی سمیر نے سونیا کے ہاتھ میں 20 ہزار روپے رکھ دیے۔ چھوٹی عمر میں اتنے سارے پیسے دیکھ کر سونیا کی آنکھیں کھلی کہ کھلی رہ گئیں۔
“سمیر اسکی کمر کو سہلاتے ہوئے بولا – یہ بات تمہارے اور میرے بیچ میں ہی رہے گی۔”
سونیا پکڑے جانے سے پہلے کافی ڈری تھی کہ سمیر کیا حال کرے گا اس کے ساتھ۔ مگر سمیر کے اس طرح اس کے جسم کو سہلانے سے وہ تھوڑی ریلیکس ہو گئی تھی اور اس کے جسم کی ان بجھی انگاری ابھی وہیں پڑی تھی۔ اس لیے سونیا نے ہاں میں گردن ہلادی۔
“پھر وہ اسکے بالوں کو سہلانے لگا۔” “وہ بولا – تم بہت خوبصورت ہو۔”
“اس نے اپنی بہن کے گالوں کو سہلاتے ہوئے اسکے مموں کو چھیڑنا شروع کر دیا۔” “آہستہ آہستہ پھر اس نے سونیا کے کپڑے بھی کھولنا شروع کر دیا۔” “اس نے اپنی بہن کے مموں کو ننگی کر دیا۔ سونیا کے ممے کلی کی طرح مخمل سے تھے ۔” “پھر سمیر نے انکو آہستہ آہستہ سے دبانا اور سہلانا شروع کر دیا۔” “پھر اس نے ایک ممے کو منہ میں لیکر چوسنا شروع کر دیا۔”
سونیا ابھی 19 سال کی ہونے کو ہی تھی اسلئے سیکس میں زیادہ میچور نہیں ہو پائی تھی۔ اسکو شاید پیسے کا لالچ آ گیا تھا یا پھر اسکے جسم میں بھی اپنے بھائی کے لیے سیکس پیدا ہو گیا تھا۔ بہن کی چوت بھائی کا لنڈ لینے کے لیے تیار ہو گئی تھی۔
سمیر بھی اپنے مقصد میں کامیاب ہو رہا تھا۔ اس نے اپنی بہن کو پوری ننگی کر دیا۔ سمیر، جو کہ ایک بھاری بھرکم مرد بن چکا تھا، سونیا اسکے سامنے بچی ہی لگ رہی تھی۔ وہ اپنی بہن کو چود دینے کے لیے کافی بیچین تھا۔ ادھر سونیا بھی اپنے بھائی کے شریر کو دیکھ کر اپنی چوت گرم کرنے لگی تھی۔
پھر سمیر نے اپنے کپڑے بھی اتار دیئے۔ وہ دونوں بھائی-بہن ننگے ہو گئے تھے۔ اسکے بعد سمیر نے اپنی بہن کی چوت کو چاٹا تو سونیا ایکدم سے پاگل سی ہو گئی۔ سمیر نے سونیا کی چوت میں زبان دے دی اور اسکو زور سے چوسنے لگا۔
کچھ ہی دیر میں سونیا خود ہی اس سے چودنے کے لیے کہنے لگی۔ سمیر بھی یہی چاہ رہا تھا۔ اس نے اپنی بہن کی چوت میں لنڈ کو رکھا اور دھکا دے دیا۔ اسکا لنڈ سونیا کی چوت میں گھس گیا۔ سونیا اپنے بھائی کے لنڈ کو برداشت بہت مشکل سے ہی کر پائی لیکن جلدی ہی اسکو چوت مروانے میں مزہ آنے لگا۔
سمیر اپنی بہن کی چوت کو چودنے لگا۔ اس نے اسکی چوت میں جمکر لنڈ پیلا اور پھر اسکی چوت میں ہی جھڑ گیا۔ اس رات سمیر نے سونیا کی چوت چار بار چودی۔
اگلی صبح میں نے دیکھا کہ سونیا ٹھیک سے چل بھی نہیں پا رہی تھی۔ میں نے پوچھا کہ کیا ہوا، تو وہ بولی کہ اسکا انڈرویئر سائیڈ سے پھٹ گیا ہے اسلئے اسکو چلنے میں دکت ہو رہی ہے۔
اس رات نے ہمارے گھر کا ماحول بدل دیا۔ اب سونیا خود ہی اپنے بھائی سے چودنے لگی تھی۔ میری بیٹی اپنے بھائی کا لنڈ چوت میں لینے کے لیے خود ہی اسکو بلایا کرتی تھی۔ سمیر بھی جہاں ایک مہینے کے لیے گھر آیا تھا، اس واقعہ کے بعد وہ دھائی مہینے گھر میں رکا اور اس نے روز اپنی بہن کی چودائی کی۔
میری آنکھوں کے سامنے ہی سونیا کے شریر میں بدلائو صاف دکھائی دینے لگا تھا۔ اسکی گانڈ اور ممے اب پہلے سے زیادہ پھیلتے ہوئے لگ رہے تھے جو میں نوٹس کر پا رہی تھی۔ اسکا شریر بھی بھرنے لگا تھا۔
سمیر اسکو چپکے سے سوکھا میوا اور پھل کھلاتا تھا۔ دھائی مہینے میں ہی اسکے شریر میں بہت بدلاؤ دکھائی دینے لگا۔ وہ سیب کی طرح لال ہوتی جا رہی تھی۔ میرا دھیان چودائی کی طرف تو گیا ہی نہیں ۔
میں سوچ رہی تھی کہ سمیر کے آنے سے وہ اب بھائی کے ساتھ مل کر اچھے سے کھانا کھا رہی ہے۔ مگر وہ تو اپنی چوت کو اپنے بھائی کا لنڈ کھلا رہی تھی۔
سمیر کے ساتھ وہ چوت اور لنڈ کے کھیل میں ماہر ہوتی جا رہی تھی۔ مجھے اس دن تھوڑا شک ہوا جب میرے کہنے پر بھی سونیا میرے پاس نہیں سوئی۔ سمیر اسکو کونے والے کمرے میں سونے کے لیے کہتا تھا۔ وہ بھی اسی کی بات مانتی تھی۔ میں باہر برامدے میں سوتی تھی اسلئے بھائی-بہن کی چودائی کے بارے میں مجھے پہلے پتہ نہیں لگ پایا۔
چھٹیاں بیتانے کے بعد سمیر دوبارہ ڈیوٹی پر چلا گیا۔ مگر اب کافی کچھ بدل گیا تھا۔ اس نے سونیا کو ایک موبائل فون بھی دے دیا تھا۔ وہ دن بھر فون پر بات کرتی رہتی تھی۔
میں نے سننے کی کوشش بھی کی لیکن وہ بہت ہی دھیمے بات کی کرتی تھی۔ مجھے پتہ نہیں لگ پاتا تھا کہ وہ کس سے اور کیا بات کر رہی ہے۔ ہو نہ ہو، وہ اپنے بھائی سے چودائی کی باتیں ہی کرتی ہوگی۔
اُس کے بعد سمیر اور سونیا دونوں نے ہی مل کر اسی شہر، جدھر جاب کرتا تھا، جانے کا پلان بنا لیا۔ اُن دونوں کے سامنے اب ایک مسئلہ تھا کہ مجھکو (اپنی ماں میرا کو) کیسے تیار کیا جائے۔ وہ دونوں مجھے یہیں گھر پر چھوڑکر جانا چاہتے تھے۔
جب ان دونوں نے ساتھ جانے کی بات کہی تو میں بولی- میں یہاں گھر پر اکیلے کیسے رہوں گی؟ ویسے بھی اسکی پڑھائی لکھائی کے دن ہیں ، جو ادھوری رہ جائےگی۔
وہ بولا- ماں میں اسکو بس کھانا بنانے کے لیے ساتھ لے جانا چاہ رہا ہوں ۔ مجھے وہاں جاب کرتے ہوئے کھانے کی دکت کھاتی ہے۔ اسکی پڑھائی یہاں پر چلتی رہیگی اور ٹیوشن وہاں کر لیگی۔ یہاں پر آکر ایگزام دے دیا کریگی۔
جب میں نہیں مانی تو سمیر نے کہا- ماں ، تم بھی ساتھ چلو، کچھ دن ہم دونوں کے ساتھ وہاں پر رہ لینا۔ اسکے بعد پھر تم چاہو تو وہیں رہ لینا، اگر نہیں چاہو تو یہاں گھر پر واپس آ جانا۔
میں ان دونوں کی ضد کے سامنے مان گئی۔ ہم تینوں ماں -بیٹا-بیٹی سامان سمیٹ کر اسی شہر چلے گئے۔
وہاں پر جو واقعہ ہوا وہ بھی شاید کسی کے ساتھ نہیں ہوا ہوگا۔ وہاں پر جانے کے بعد جس گھر میں ہم رہنے والے تھے اس میں ایک کمرہ نیچے تھا اور اسکے اوپر سیمنٹ کا چھپڑا تھا۔ ساتھ میں ہی لوہے کی سیڑھی لگی ہوئی تھی۔ اوپر میں دوسرا وارڈ بنا ہوا تھا۔ مگر وہ ایسا تھا کہ وہاں پر سیدھے کھڑے ہوکر نہیں چل سکتے تھے۔ اسکی اونچائی بہت کم تھی۔
میں نے وہ گھر دیکھ کر کہا- بیٹا، یہاں تو نیچے ایک ہی کمرہ ہے۔ ہم تینوں اس چھوٹے سے کمرے میں کیسے سوئیں گے؟
سمیر بولا- ماں ، میں اوپر سو جاؤں گا اور آپ دونوں نیچے سو جانا۔ اگر آپکو پھر بھی دکتت لگے تو سونیا بھی اوپر آ جائےگی۔ آپ آرام سے یہاں سو جانا، ٹینشن مت لو۔ یہاں پر سب ایسے ہی سوتے ہیں ۔
پھر ہم لوگ ایسے ہی سونے لگے۔ دو-تین دن ہوئے تھے کہ سونیا کہنے لگی کی اسکو یہاں پر نیند نہیں آتی۔ نیچے گرمی زیادہ ہے، ہم لوگ اوپر سو جاتے ہیں ۔
میں بولی- لیکن اوپر تو تمہارا بھائی سو رہا ہے!
وو بولی- تو پھر اس کو نیچے بلا لیتے ہیں اور ہم اوپر میں سو جاتے ہیں ۔
میں نے کہا- اگر اسکو یہاں پر نیند نہیں آئی تو پھر وہ اگلے دن ڈیوٹی پر کیسے جائیگا؟
سونیا بولی- اچھا ٹھیک ہے، میں بھائیا کے پاس اوپر میں ہی سو جاتی ہوں ۔ آپ یہیں سو جائو۔
میں نے کہا- لیکن تم دونوں وہاں پر پریشان ہو جاؤگے۔
وو بولی- نہیں ماں ، میں ایک طرف کونے میں سو جاؤں گی۔ مجھے یہاں پر نیند نہیں آ رہی۔
وو اُٹھ کر اوپر سمیر کے پاس چلی گئی۔
پھر اگلے دن بھی وہ اوپر میں ہی چلی گئی۔ مجھے ابھی تک بھی کوئی شک نہیں تھا کہ ان دونوں کے بیچ میں کیا چل رہا ہے۔ 7-8 دن ہو گئے تھے سونیا کو اوپر سوتے ہوئے۔
ایک رات کی بات ہے کہ مجھے پیٹ میں درد ہونے لگا۔ ایسا لگنے لگا کہ مجھے الٹی آئے گی۔ پھر میرے کپڑے خراب ہونے کا ڈر تھا۔ میں نے سوچا کہ اوپر سے کپڑے منگوا لیتی ہوں ۔ مگر میں بیٹے کو پریشان نہیں کرنا چاہ رہی تھی کیونکہ وہ صبح سے شام تک ڈیوٹی کرکے آتا تھا۔
میں خود ہی اوپر میں چلی گئی۔ سارے کپڑے والے بیگ اوپر میں ہی رکھے ہوئے تھے کیونکہ نیچے جگہ کم تھی۔ نیچے کچن اور باتھ روم تھا اسلئے کپڑے کے بیگ سارے اوپر میں ہی رکھ دیے تھے سمیر نے۔ جب میں سیڑھیوں سے اوپر جا رہی تھی تو وہاں اندر کا نظارہ دیکھ کر میں سنن رہ گئی۔
سمیر نیچے ننگا لیٹا ہوا تھا اور سونیا اس کے لنڈ کو منہ میں لے کر چوس رہی تھی۔ وہ اپنے بھائی کے لنڈ کے اونہ۔۔۔ اونہ۔۔۔ گونگون کرتے ہوئے چوس رہی تھی۔ میں دیکھ کر وہیں فریز سی ہو گئی۔ سمیر نے سونیا کو بھی پوری ننگی کیا ہوا تھا۔
وہ سونیا کے مموں کو ہاتھوں میں لے کر جوڑ جوڑ سے دبا رہا تھا۔ پھر سونیا اٹھی اور نیچے لیٹ گئی۔ سمیر نے اسکی چوت میں منہ لگا کر اسکی چوت کو چاٹنا شروع کر دیا۔ سونیا اتحاجنا میں سسکاریاں بھرنے لگی۔
پھر سمیر نے سونیا کو اپنے اوپر کر لیا اور اسکی چوت کو اپنے منہ پر رکھوا کر چاٹنے لگا۔ سونیا اب اپنے ہاتھوں سے اپنے ممے کو مسل مسل کر سسکاریاں لے رہی تھی۔ وہ اپنے بھائی کے ساتھ سیکس کے کھیل میں پوری منجی ہو گئی تھی۔
اسکے بعد سمیر نے سونیا کی چوت میں لنڈ لگا دیا اور اسکی چوت کو چودنے لگا۔ وہ اپنے ہاتھوں سے اسکے مموں کو دباتے ہوئے نیچے اسکی چوت میں دھکے لگا رہا تھا۔ سونیا بھی اسکے لنڈ کو پورا اپنی چوت میں لے کر مست ہوکر چود رہی تھی۔
مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں ۔ اپنی ہی آنکھوں کے سامنے جو نظارہ تھا وہ میری سمجھ سے باہر تھا۔ میں اپنے بیٹا-بیٹی کی آپس میں چودائی دیکھ کر حیران تھی اور وہیں کھڑی رہی۔ سونیا مستی میں اچھل اچھل کر اپنے بھائی کے لنڈ کو چوت میں لے رہی تھی۔ پھر سمیر نے اسکی چوت میں ہی اپنا مال چھوڑ دیا۔
پھر میں کچھ سنبھلی اور چپ چاپ نیچے آ گئی۔ مجھے پتا لگ گیا تھا کہ سمیر سونیا کو یہاں پر لے کر کیوں آیا ہے۔ اس رات کو مجھے نیند نہیں آئی۔ بار بار سمیر اور سونیا کی چودائی کی تصویر مجھے اپنی آنکھوں کے سامنے ہی دکھائی دے رہی تھی۔
میرے پیٹ کا درد بھی غائب سا ہو گیا تھا۔ پریشانی میں میری آنکھوں سے نیند ہی غائب ہو گئی۔ اپنے شوہر کے بارے میں سوچنے لگی کہ یاد رہے اگر وہ آج ہوتے تو میرے گھر میں ایسا پاپ کبھی نہیں ہوتا۔
میں سوچ رہی تھی کہ سمیر اور سونیا کو روکنے کی کوشش کروں تو کیسے کروں ۔ اگر میں شکایت بھی کروں گی تو میرے ہی بیٹے کی زندگی برباد ہو جائے گی۔ اگر نہیں کروں گی تو ان دونوں کی چودائی کا کھیل ایسے ہی چلتا رہے گا۔ میں بیچ میں پھنس گئی تھی۔
صبح جب وہ لوگ اُٹھ کر نیچے آئے تو جیسے سب کچھ نارمل تھا۔ لیکن میرے من میں یہی سوال اُٹھ رہے تھے کہ میں اس بات کی شروعات کروں تو کیسے کروں ۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا مجھے۔
جب سے بھائی بہن کی چودائی کے اس رشتے کے بارے میں مجھے پتہ لگا ہے تو میں بہت پریشان ہوں ۔
سمجھ نہیں آ رہا کہ غلطی کس کی ہے اور اس غلطی کو میں کیسے ٹھیک کروں ۔
اُس دن سمیر کام پر چلا گیا تھا۔ اُسکے جانے کے بعد میں نے اپنی بیٹی سونیا سے پوچھا- تم کافی تھکی ہوئی لگ رہی ہو، تمہاری تبیت ٹھیک نہیں ہے کیا؟ وہ بولی- نہیں ماں ، میں بالکل ٹھیک ہوں ۔ میں ہمت نہیں جُٹا پائی کہ اُسسے سمیر کے بارے میں بات کر سکوں ۔
پھر دن کسی طرح نکل گیا۔ رات کا کھانا ہونے کے بعد میں نے سونیا سے کہا کہ وہ نیچے سو جائے اور میں اُوپر سو جاتی ہوں ۔
اسی دوران سمیر بھی آ گیا۔
سمیر نے یہ بات سن لی۔ پھر دونوں ہی ایک سُر میں کہنے لگے- “ممی، آپ لوہے کی سیڑھیوں پر نہیں چڑھ پاؤگی، آپکے گر جانے کا خطرہ رہے گا۔”
میں نے کہا- “نہیں بیٹا، میں چڑھ لوں گی۔ ایسی کوئی بات نہیں ۔”
میری زور دینے پر وہ دونوں مان گئے لیکن سونیا میرے ساتھ اُوپر سونے کے لئے تیار نہیں ہوئی۔
سمیر بولا- “میں آپکے ساتھ سو جاؤں گا۔ ابھی کچھ دیر نیچے آرام کر لیتا ہوں ۔ بعد میں آ جاؤں گا۔ تب تک آپ اُوپر جاکر آرام کرو۔”
میری یہ کوشش تھوڑی کام کرتی نظر آئی۔ میں اُوپر جاکر لیٹ گئی۔ مجھے تو نیند نہیں آ رہی تھی۔ میں سوچ میں لیٹی ہوئی تھی کہ بات میرے کنٹرول سے باہر تو نہیں ہو رہی ہے؟ یہ دونوں تو ایک دوسرے سے الگ نہیں ہو رہے ہیں ۔
کچھ دیر کے بعد مجھے آہٹ سنائی دی۔ سمیر اُوپر آیا تو میں نے آنکھیں بند کر لیں ۔ اس نے سوچا کہ ماں سو گئی ہے لیکن میں جاگ رہی تھی۔ پھر وہ دیکھ کر چلا گیا۔
کچھ دیر کے بعد میں نیچے گئی چپ چاپ بِنا آواز کیے۔ میں نے دیکھا کہ میرا بیٹا پھر سے میری بیٹی کی چودائی کر رہا تھا۔
چودائی کرنے کے بعد وہ دونوں ننگے ہی لیٹ گئے۔ پھر سمیر اُٹھ کر اُوپر آنے لگا۔
میں جلدی سے اُوپر آئی۔ میں نے آکر آنکھیں بند کر لیں اور لیٹ گئی۔ سمیر آکر دیکھنے لگا۔ اُس نے سوچا کہ ماں سو گئی ہے۔ مگر میں ناٹک کر رہی تھی نیند کا۔ اسکے بعد وہ پانی پی کر پھر سے چلا گیا۔
نیچے جانے کے بعد میں بھی اُسکے پیچھے ہی جاکر دیکھنے لگی۔ سمیر سونیا سے بولا- “سو گئی کیا جان؟”
وہ بولی- “نہیں ، آپکے بغیر نیند نہیں آتی ہے بھیا۔ آپکا انتظار کر رہی تھی۔”
اسکے بعد سونیا نے سمیر کے لوءر کو نکال دیا۔ پھر اُسکے انڈر ویئر کو نکال کر اُسکے لنڈ کو چوسنے لگی۔ کچھ ہی لمحے میں سمیر کا لنڈ پھر سے کھڑا ہو گیا۔ اُس نے سونیا کے سر کو پکڑ لیا اور اپنا لنڈ اُسکو چوسوانے لگا۔
وہ سسکارتے ہوئے بولا- آہہ جان۔۔۔ اب ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے ہی جیّیں گے۔
سونیا بھی لنڈ کو منہ سے نکال کر بولی- ہاہ۔۔۔ ہاں بھائیا، آپ مجھے چھوڑکر کبھی مت جانا۔ اب میں آپکے بغیر ایک پل بھی نہیں رہ سکتی ہوں ۔
سمیر نے سونیا کو اپنی باہوں میں بھر لیا اور اسکے ہونٹوں کو چوستے ہوئے بولا- بہنا، تم میری زندگی ہو۔ دنیا میں کچھ بھی ہو جائے لیکن میں تمہیں چھوڑ کر کہیں نہیں جانے والا۔ اسکے لیے چاہے مجھے کچھ بھی کرنا پڑے۔
سونیا نے سمیر کو آئی لوو یو کہا اور اسکے ہونٹوں اور جوڑ سے چوسنے لگی۔ دونوں ایک دوسرے کو بہت زور سے چوسنے لگے۔ ایسا پیار دیکھ کر ایک بار تو میرا من بھی چھڑنے کے لیے کرنے لگا تھا۔ پانچ منٹ تک چوسنے کے بعد سمیر نے سونیا کو نیچے لٹا لیا۔
اُسکو نیچے لٹا کر اُسکی چوت میں اُسنے انگلی کرنا شروع کر دیا اور اُسکے مموں کو دبانے لگا۔ کچھ ٹائم تک چوت میں انگلی کا مزہ لینے کے بعد سونیا نے سمیر کو نیچے کر لیا۔ اُسنے اپنے چوتڑوں کو میرے بیٹے کے لنڈ پر رکھ کر اُسکے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا۔
سمیر بولا- آہہ میری جان۔۔۔ تم تو پوری کھلاڑی ہو گئی ہو۔
وہ بولی- سب آپنے ہی تو سکھایا ہے۔
پھر اسنے اپنے چوتڑوں کو سمیر کے منہ پر رکھ دیا۔ سمیر نے سونیا کو چوتڑوں کو چاٹنا شروع کر دیا۔ سونیا اچھل اچھل کر اپنے چوتڑوں کو سمیر کے منہ پر رگڑ رہی تھی۔
تب سمیر نے اسکی چوت میں زبان دے دی اور اسکو پورا اندر تک چاٹنے لگا، جیسے کہ اسکی چوت کو منہ سے چود رہا ہو۔ دس منٹ تک اسنے چوت چاٹ چاٹ کر سونیا کو مدہوش کر دیا۔ سونیا کی چوت نے پانی چھوڑ دیا اور وہ ڈھیلا پڑ گئی۔
پھر سمیر اُٹھا اور سونیا کے دونوں پیر اُوپر اُٹھا کر اسنے میری بیٹی کی چوت میں لنڈ دے دیا۔ لنڈ کو اندر گھسا کر وہ جھٹکے دینے لگا۔ سونیا مستی میں ہوکر چودنے لگی۔ سمیر نے زور زور سے جھٹکے دینا شروع کر دیا۔ سونیا اب اسکے لنڈ سے چود کر اتنا مزہ لے رہی تھی کہ اسکی آنکھیں بند ہو رہی تھیں ۔
نیچے سے گانڈ اچھال کر وہ اسکا سہارا کر رہی تھی اور اپنے مموں کو مسل رہی تھی۔ اسی طرح بیس منٹ تک اپنی بہن کی چودائی کرنے کے بعد سمیر نے اپنے لنڈ کا پانی اپنی بہن کی چوت میں ہی چھوڑ دیا۔ پھر وہ دونوں سو گئے۔
میں یہ دیکھ کر اوپر آ گئی اور لیٹ گئی۔ رات کافی ہو گئی تھی اور مجھے بھی نیند آ گئی تھی۔ صبح جب اٹھی تو سمیر میرے بغل میں ہی سو رہا تھا۔ اسکا لنڈ اسکی لوئر میں کافی موٹا سا دکھ رہا تھا۔ میری بیٹی کو اپنے بھائی کا لنڈ شاید کچھ زیادہ ہی پسند آ گیا تھا۔
صبح اُٹھنے کے بعد سب کچھ نارمل تھا۔ ان دونوں کا روز کا یہی ہو گیا تھا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ان دونوں کو کیسے روکوں۔ گھر سے بھاگ تو نہیں جائیں گے اگر سیدھا منع کیا تو؟، میرے خلاف تو نہیں ہو جائینگے؟ سونیا اور سمیر اب جیسے شوہر بیوی کی طرح رہنے لگے تھے۔
کچھ دن تک میں نے ان دونوں سے ٹھیک طرح سے بات نہیں کی۔ پھر میں نے ایک دن موبائل میں ایک سائٹ کھول کر انٹرنیٹ پر اس کا حل ڈھونڈھنے کے لیے دیکھا۔
میں نے فیملی سیکس کے بارے میں سرچ کیا۔ مجھے اس سے متعلق بہت ساری ویڈیو ملی۔ مگر مجھے جو حل ملے وہ اس کے برعکس تھا جو میں سوچ رہی تھی۔ ویب سائٹس تو فیملی سیکس سے بھری پڑی تھیں جیسے سیکس کا تو فیملی میں ہی مزا ہو، میں نے موبائل میں فیملی پورن ویڈیو دیکھے۔ میں نے سیکس کہانیوں میں بھی پڑھا۔ رشتوں میں چودائی کی کہانی پڑھی۔ ماں -بیٹے کی چودائی، بھائی-بہن کی چودائی، ماں اور موسی کی چودائی کے بارے میں پڑھا۔
اُسکے بعد مجھے حوصلہ سا ہوا کہ شاید یہ سب بھی ہوتا ہے۔ مگر سونیا اور سمیر کے لیے میرا دل یہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھا۔ ان پر میری کڑی نظر رہتی، مگر پھر بھی مجھے یقین تھا وہ کہیں نہ کہیں ٹائم نکال لیتے ہوں گے۔ میں اس بارے بے بس سی تھی۔
میں نے دوبارہ ان کو کبھی نہ پکڑ پائی۔ مگر پھر ایک رات کو میں نے ان دونوں کو آپس میں باتیں کرتے ہوئے سن لیا۔ وہ دونوں شادی کی بات کر رہے تھے۔
سمیر بولا- تم سے جلدی ہی میں شادی کر لوں گا۔
سونیا بولی- ہاں بھائی، میں آپکا بچہ پیدا کرنا چاہتی ہوں ۔
یہ سن کر میرے پیروں کے نیچے سے زمین سرک گئی۔
چودائی کچھ اور بات ہے، جو ویب سائٹس میں دکھایا گیا تھا کہ لوگ فیملی میں چھپ چھپ کے کرتے ہیں، لیکن وہ دونوں تو آپس میں شادی اور بچہ پیدا کرنے کی بات کر رہے تھے۔
وہ دونوں سوچ رہے تھے کہ مجھے کچھ نہیں پتہ لگ رہا ہے لیکن میں سب کچھ جان بوجھ کر اگنور کر دیتی تھی۔
ایک دن رات کو ایسا ہوا کہ اوپر والے کمرے میں زیرو واٹ کا بلب جلاکر میں لیٹی ہوئی تھی۔ اچانک مجھے بجلی کے بورڈ کے پاس سانپ جیسا کچھ دکھایا۔ زیادہ کلیئر تو نہیں دکھایا دے رہا تھا لیکن وہ سرک رہا تھا۔ میں ڈر گئی اور جلدی سے اُتر کر نیچے آ گئی۔
میں نیچے آکر بلب جلا دیا۔ یہ سب اتنی جلدی میں ہوا کہ سمیر اور سونیا کو سنبھلنے کا موقع نہیں ملا۔ وہ دونوں چودائی کا مزہ لے رہے تھے۔
روشنی ہوتے ہی سونیا اٹھ کر کھڑی ہوگئی اور مجھے دیکھ کر خود کو ڈھکنے کی کوشش کرنے لگی۔ میری بیٹی پوری ننگی تھی۔
اُس دن میں نے روشنی میں اسکے بڑے بڑے ممے دیکھیں جو لڑکی کی بجائے ایک عورت کے مافیک ہوگئے تھے ۔ اپنے بھائی سے چودواکر اسکی گانڈ اور ممے دونوں ہی اکار میں بڑے ہوتے جا رہے تھے۔
میرا بیٹا سمیر 6 فٹ لمبا اور 28-30 سال کا گبرو جوان مرد لگ رہا تھا۔ اسکا موٹا اور لمبا لنڈ کھڑا ہوا تھا۔ وہ بھی مجھے دیکھ کر اپنے لنڈ کو ڈھکنے لگا۔
سونیا ہڈبڑاہٹ میں ایک کونے میں جاکر اپنے کپڑے پہننے لگی اور سمیر نے جلدی سے اپنا لوئر پہن لیا۔ وہ دونوں کافی گھبرائے ہوئے لگ رہے تھے۔
میں سمیر سے بولی- تمہیں شرم نہیں آئی اپنی بہن کے ساتھ یہ (سیکس) کرتے ہوئے؟
سانپ کی بات اب میرے دماغ سے نکل ہی گئی تھی۔ مجھے کافی غصہ آ رہا تھا اور میں نے غصے میں سونیا کو تین-چار ذپڑے لگا دئے۔ اسکا گال لال ہو گیا۔ میں سمیر کے سامنے ہی اسکو ڈانٹ رہی تھی اور تھپڑ لگا رہی تھی۔ سمیر چپچاپ سب دیکھ رہا تھا۔
میں نے دونوں سے کہا- اتنے دن سے میں سب نوٹس کر رہی تھی لیکن اپنے گھر کی عزت کے لیے میں کچھ نہیں بول پا رہی تھی۔ مجھے تم دونوں کے مستقبل کی فکر تھی۔
سمیر اور سونیا کو جیسے سانپ سا سونگ۔ وہ دونوں چپ چاپ گردن نیچے کرکے میری باتوں کو سن رہے تھے لیکن کچھ نہیں بول رہے تھے۔
سمیر نے اُوپر جا کر سانپ کو مار دیا لیکن اُس نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے اُس سے کھڑکی میں جالی لگوانے کو کہا لیکن اُس نے کچھ بھی نہیں کہا اور چپچاپ اپنے بستر پر لیٹ کر سو گیا۔
اُسکے بعد میں بھی نیچے آ گئی۔ میں نے سونیا کو اپنے پاس بٹھایا اور بولی- تمہیں شرم نہیں آتی کیا یہ سب کرنے میں ؟ وہ تمہارا سگا بھائی ہے۔
سونیا فورا بول پڑی- ہم دونوں بہت دنوں سے ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں ماں ۔ سمیر میرے لیے میرا سب کچھ ہے۔ مجھے تو کوئی شرم نہیں آتی اپنے بھائی سے پیار کرنے میں ۔ میں نے کسی کا قتل تھوڑا ہی کیا ہے؟ میں نے تو پیار ہی کیا ہے، اور یہ کہاں لکھا ہوا کہ اپنے بھائی سے پیار کرنا غلط ہے؟
میں بولی- لیکن ہم لوگ سماج کو کیا منہ دکھائیں گے، تم سماج کا سامنا کیسے کروگی، سمیر کو بھی ٹانے سننے پڑینگے۔
سونیا بولی- ماں ، جب میرا بھائی کما نہیں رہا تھا، جب ہمارے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں تھا، سبزی نہیں بنتی تھی، دال روٹی بھی مہینے بھر میں تین-چار بار ہی ٹھیک سے بنتی تھی، اُس وقت آپکا یہ سماج کہاں تھا؟
اس کی بات کا میں کوئی جواب نہیں دے پائی۔ میرے لاکھ سمجھانے کے بعد بھی اُس پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہوا دکھائی دے رہا تھا مجھے۔ میری تعلیم کے بیچ میں اُسکی ناسمجھی اور کم عمری کی نادانی آ گئی تھی۔ وہ میری بات کو سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرنا چاہ رہی تھی کہ اس راستے پر کتنی مشکلیں ہو سکتی ہیں ۔
اس واقعہ کو ہوئے ایک ہفتہ بیت گیا تھا۔ سمیر مجھ سے بات نہیں کرتا تھا۔ پھر ایک دن وہ شراب پیکر آ گیا۔
میں نے کہا- تم پیکر آئے ہو؟
وہ کچھ نہیں بولا اور جا کر سو گیا۔
اگلی صبح میں نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بچ کر نکل گیا۔ جب رات ہوئی تو وہ اُس دن پھر سے شراب پیکر لوٹا۔ اب مجھ سے برداشت نہ ہوا۔
وہ اُوپر جانے لگا اور میں بھی اُسکے پیچھے پیچھے اُوپر چلی گئی۔
میں نے کہا- تیرا دماغ خراب ہو گیا ہے کیا سمیر؟ ایک تو تم دونوں بھائی بہن نے مل کر اتنی بڑی غلطی کر دی ہے اور پھر اُوپر سے تم مجھ سے ہی بات نہیں کر رہے ہو، اور اب شراب بھی پینے لگے ہو، یہ سب چل کیا رہا ہے؟
سمیر نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اُسکے پاس سے شراب کی بدبو آ رہی تھی۔
میں نے اُسکو پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا- دیکھ بیٹا، میں تیرے بھلے کے لیے کہ رہی ہوں ۔ میں تیری اچھی شادی بھی کروا دونگی۔ لیکن یہ جو تو کر رہا ہے یہ ٹھیک نہیں ہے، میں یہ بھی جانتی ہوں کہ یہ سب جو ہوا ہے وہ انجانے میں ہی ہوا ہے، اسمیں تم دونوں کی غلطی نہیں ہے۔
وہ بولا- مجھے شادی وادی کرنی ہی نہیں ہے۔ تم یہاں سے جاؤ ماں ، میں تم سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتا ہوں ۔ تم گھر واپس چلی جاؤ۔ میں نے تمہارا ٹکٹ نکالوانے کے لیے بھی بول دیا ہے۔ آج کے بعد میں تم سے کچھ نہیں کہوں گا۔ اگر سونیا بھی تمہارے ساتھ جانا چاہ رہی ہے تو اسکو بھی لے جاؤ اپنے ساتھ۔ اگر نہیں جانا چاہ رہی ہو تو کوئی بات نہیں ۔
میں نے کہا- لیکن بیٹا، میں یہ تمہارے اچھے کے لیے کہ رہی ہوں ۔ ٹائم کے ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ہم سونیا کی شادی کر دیں گے۔ وہ اپنے گھر چلی جائے گی۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔
وہ بولا- تمہیں جو کرنا ہے وہ کرو۔ مجھے ان سب باتوں سے کوئی مطلب نہیں ہے۔
ایتنے میں ہی سونیا بھی چھت پر آ گئی۔ سونیا کو دیکھ کر سمیر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ سونیا بھی سمیر کی یہ حالت دیکھ کر خود کو روک نہیں پایا۔ وہ اسکے گلے سے جا کر لپٹ گئی اور اسکے بالوں میں ہاتھ پھیراتے ہوئے اسکو چپ کروانے لگی۔
سونیا بولی- آپ رو کیوں رہے ہو بھائیا، میں ہوں نا آپکے ساتھ۔ دنیا اور سماج چاہے کچھ بھی کہے، میں ہمیشہ آپکے ساتھ میں رہوں گی۔ اگر ہم اپنے رشتے کے بارے میں کسی کو کچھ بتائیں گے ہی نہیں تو کسی کو کیا پتا چلےگا کہ ہم دونوں کے بیچ میں کیا رشتہ ہے؟
ایتنا بول کر وہ سمیر کا ہاتھ پکڑ کر اسکو اپنے ساتھ نیچے لے کر جانے لگی۔
میں وہیں پر بیٹھی بیٹھی سوچتی رہ گئی۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کروں ۔ بہت ہی عجیب کشمکش تھی یہ۔ مجھے کوئی راستہ نہیں سوجھ رہا تھا۔
پھر میں بھی نیچے جانے لگی۔ نیچے وہ دونوں بیٹھ کر آہستہ آہستہ کچھ بات کر رہے تھے۔ میں ان دونوں کی باتوں کو سننے کی کوشش کر رہی تھی لیکن مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ دونوں آپس میں کیا باتیں کر رہے ہیں ۔
سمیر بھی اب نارمل سا ہو گیا تھا۔ ان دونوں کے دماغ میں ضرور کچھ ن کچھ پلان چل رہا تھا۔ میں ان دونوں کے چہرے کو پڑھنے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ دونوں بہت خوش دکھائی دے رہے تھے۔ سونیا نے سمیر سے پتہ نہیں کیا کہا کہ وہ تھوڑی ہی دیر میں ایسا چینج ہو گیا تھا۔
اُس رات میں نے کھانا نہیں کھایا اور ایسے ہی سو گئی۔ سونیا بھی چھت پر ہی سو رہی تھی۔ سمیر نیچے سو رہا تھا۔ صبح اُٹھا تو وہ بہت خوش دکھائی دے رہا تھا۔ پھر کھانا کھا کر وہ آفس چلا گیا۔ سونیا کے چہرے پر بھی مسکراہٹ فیلی ہوئی تھی۔ میں سمجھ نہیں پا رہی تھی ان دونوں کے بیچ میں کیا بات ہوئی ہے جو دونوں کے دونوں اتنے خوش نظر آ رہے ہیں ۔
پھر سونیا نے مجھے کھانا لا کر دیا۔ کھانا کھانے کے بعد میں آرام کرنے کے لیے چھت پر چلی گئی لیکن لیٹنے کے بعد مجھے نیند بھی نہیں آ رہی تھی۔ پھر ایسے ہی دن گزر گیا۔
شام ہو گئی تھی۔ 7 بجنے والے تھے۔ تبھی سمیر گھر آ گیا۔ وہ باقی دنوں میں تو 8 بجے کے بعد ہی گھر پہنچ پاتا تھا لیکن آج وہ 7 بجے ہی گھر آ گیا تھا۔ آتے ہی اُس نے سونیا کو گلے سے لگا لیا اور اُسکو کچھ سامان تھما دیا۔
سامان دے کر وہ سیدھا چھت کی طرف چلا گیا۔ سونیا بھی بہت خوش لگ رہی تھی۔ وہ پھر کھانا بنانے میں لگ گئی۔ سمیر چھت پر ہی بیٹھا تھا۔
لگبھگ 9 بجے سونیا نے مجھے کھانا لاکر دیا۔ پھر وہ واپس چلی گئی۔
سمیر اوپر تھا۔ میں نے سوچا اُسکو کھانے کے لیے پوچھ لیتی ہوں ۔ میں تھالی لے کر اُوپر گئی۔ وہ اُوپر میں بیٹھ کر شراب پی رہا تھا۔
میں نے کہا – کیا بات ہے بیٹا؟
وہ بولا – بہت تینشن ہو رہی ہے، مجھے ابھی اکیلا رہنا ہے، آپ جاؤ۔
میں بولی – لا میں تجھے کھلایا دیتی ہوں ۔
وہ بولا – نہیں ، میں بعد میں کھا لوں گا۔ ابھی آپ جاؤ۔
میں نہیں مانی اور میں نے اُسکو کھلایا دیا۔ پھر آدھا کھانا لے کر میں نیچے آ گئی اور میں نے باقی کھانا خود ہی کھا لیا۔
سونیا سے میں نے پوچھا – تو نے کھا لیا کیا؟
وہ بولی – میں بعد میں کھا کر سو جاؤں گی۔ آپ آرام کرو۔
میں نے کہا – تو پھر سمیر کو بھی کھلایا دینا۔ اس نے تھوڑا بہت ہی کھایا ہے۔
سونیا بولی – وہ پہلے سے باہر سے ہی کھا کر آیا ہے۔
نو بجے کے قریب سمیر بھی نیچے آ گیا۔ اُس وقت سونیا کچن میں برتن صاف کر رہی تھی۔ پھر وہ بھی آ گئی اور اُس نے ٹی وی چالو کر دیا۔
سمیر نے ٹی وی میں ایک چھوٹی سی چپ لگا دی۔ اُسکے بعد وہ بھی ہمارے پاس آکر بیٹھ گیا۔ مجھے پھر آہستہ آہستہ نشہ سا ہونے لگا۔ جب مجھے اُسکا احساس ہوا تو میں نے سونیا سے کہا – مجھے کچھ ہو رہا ہے سونیا۔
وہ بولی – کچھ نہیں ہے ماں ، آپکو آرام کی ضرورت ہے۔
پھر میں نے دیکھا کہ ٹی وی پر پورن مووی شروع ہو گئی۔ اسمیں ایک عورت کو دو مرد چود رہے تھے۔ وہ عورت چیخ چیخ کر آواز نکال رہی تھی۔ مجھے آدھا ہوش تھا اور آدھا نہیں ۔ میں جانتی تھی کہ سمیر اور سونیا اب چودائی کریں گے۔ ویسے بھی سمیر نے شراب پی رکھی تھی۔ اس لئے میں آہستہ سے اٹھ کر اوپر جانے لگی۔
جیسے ہی میں اٹھی تو سمیر نے مجھے پکڑ کر اپنے پاس لیٹا لیا۔ مجھے سمجھ نہیں آیا کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔
سمیر نے میری ساڑی کے اوپر سے ہی میرے بلاؤز کے اندر میرے مموں کو دبانا شروع کر دیا۔
تب سونیا ہنستے ہوئے بولی- بھائیا، آج ماں کو سارے معاشرے کے بندھنوں سے آزاد کر دو۔ انکو بتا دو کہ رشتہ کون کون سا ہوتا ہے۔ رشتہ چوت اور لنڈ کے بیچ میں بھی ہوتا ہے۔ چوت اور لنڈ کے اس رشتے کا کیا مذا ہوتا ہے ماں کو سمجھا دو آج۔
سمیر نے میری ساڑی کو اٹھا دیا اور میری چوت کو ننگی کرکے میری چوت پر اپنا منہ رکھ دیا۔ میری چوت پر اس وقت بہت بڑے بڑے بال تھے۔ میں نے کئی مہینوں سے چوت کے بالوں کی صفائی نہیں کی تھی۔
میرے بیٹے نے میری چوت کو چاٹنا شروع کر دیا۔ میرے اوپر مدہوشی چھانے لگی۔ شوہر کے جانے کے بعد پہلی بار کسی نے میرے ممے کو چھیڑا تھا۔ اتنے دنوں کے بعد کسی نے میری چوت میں انگلی کی تھی۔ میں پوری گرم ہو گئی تھی۔
سمیر میری چوت میں انگلی کر رہا تھا اور میں اب جور جور سے آواز کرنے لگی۔ اُدھر ٹی وی پر سیکس مووی چل رہی تھی۔ اس میں ایک بیٹا اپنی ماں کی چوت کو چاٹ رہا تھا اور بیٹی ان دونوں کا چودائی میں مدد کر رہی تھی۔
ویسے سچ کہوں تو اپنے بیٹے اور بیٹی کی چودائی کو دیکھ کر میرا دل بھی چودائی کے لیے کرنے لگا تھا۔ یہ خواہش میں نے اپنے اندر ہی دبا کر رکھی ہوئی تھی۔ روز روز بیٹا-بیٹی کی چودائی دیکھ کر میرا دل بھی اپنے بیٹے کا لنڈ چاکھنے کے لیے کرنے لگا تھا۔
میں نے اپنے شریر کو پورا ڈھیلا چھوڑ دیا تھا۔ سمیر میرے مموں کو مسل رہا تھا۔ میں نے اپنی چوت کو بھی ڈھیلا چھوڑ دیا تھا۔ اب سمیر نے اپنے کپڑے اُتار لیے اور اس نے میری چوت پر اپنے لنڈ کو رگڑنے لگا۔ میں تڑپ اُٹھی۔
پھر سمیر نے مجھے پکڑ کر اپنا لنڈ اندر کر دیا اور مجھے چودنے لگا۔ اسکا لنڈ بہت ہی کڑک تھا۔ میری چوت میں لنڈ اندر گیا تو مجھے درد ہونے لگا۔ مگر میرا بیٹا پورے نشے میں تھا۔ اسکو چوت کا بھوت چڑھا ہوا تھا۔
اُس نے ایک زور کا دھکا مارا اور پورا لنڈ گھسے ڈال دیا۔ میرے منہ سے چیخ نکل گئی۔
سونیا خوشی سے اُچھل پڑی۔ وہ بولی – “سمیر بھیا، ماں کی سیل ٹوٹ گئی ہے۔”
پانچ سالوں سے میں نے بھی سیکس نہیں کیا تھا۔ میری چوت پوری ٹائٹ ہو چکی تھی۔ اس لئے اسکے لنڈ کے گھستے ہی ایسا لگا جیسے سچ میں میری چوت کی سیل ٹوٹ گئی ہوتی۔
میرے درد کی پرواہ کئے بغیر ہی سمیر جھٹکے مار مار کر مجھے چود رہا تھا۔ میں اب پوری ننگی ہو گئی تھی۔ سونیا میرے مموں کو پی رہی تھی۔ میرے اندر کی ہوس اب میرے بیٹے کے لنڈ کو سلام کر رہی تھی۔
آج میرا خود کا بیٹا میری چوت میں لنڈ لینے کی عادت کو دوبارہ سے ڈال رہا تھا۔ بہت دنوں سے میں نے لنڈ کو یاد کرنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ بیٹے کے لنڈ کی رفتار بلیٹ ٹرین سے بھی زیادہ ہو گئی تھی۔ میں تو جھڑ چکی تھی۔
سمیر ابھی بھی میری چوت میں زور زور سے لنڈ کو چلا رہا تھا اور اندر باہر کرتے ہوئے زور زور سے ٹھوک رہا تھا۔ میں پوری مدہوش ہو گئی تھی۔ پھر 2 منٹ کے بعد اس کا بھی پانی نکل گیا۔ اس نے اپنی چدائی کی ٹرین روک دی۔
اپنی بیٹی سونیا کی بات سن کر میں حیران تھی۔ مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ میری بیٹی اتنی حرامی ہو گئی ہے۔ کس طرح سے وہ میری چوت کی سیل توڑنے کی بات کہہ رہی تھی۔ اگر سونیا نے سمیر کو نہیں اکسایا ہوتا تو سمیر کبھی اپنی ماں کی چوت چودنے کی بات شاید نہیں سوچ پاتا۔
پھر سمیر اپنا لنڈ میرے منہ میں ڈالنے لگا۔ مگر میں نے اپنا منہ نہیں کھولا۔ اتنے میں ہی سونیا نے سمیر کے لنڈ کو منہ میں لے لیا۔ اس کے لنڈ کو منہ میں لے کر وہ چوسنے لگی۔
سمیر کا لنڈ سکڑ چکا تھا۔ مگر سونیا پھر بھی اس کے لنڈ کو زور زور سے چوسنے لگی۔
سمیر بولا- آرام سے کر… مجھے درد ہو رہا ہے۔
سونیا مستی میں اس کے لنڈ کو چوسنے میں لگی ہوئی تھی۔ وہ سمیر کی بات بھی نہیں سن رہی تھی۔ وہ سمیر کا لنڈ پھر سے کھڑا کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی تھی۔
اب میں بھی ان دونوں کا پلان سمجھ گئی تھی۔ مجھے سمجھ آ گیا تھا کہ یہ دونوں آپس میں پلان بنا کر یہ سب کر رہے ہیں اور آج میری چوت کا کباڑا کر کے ہی چھوڑیں گے۔ ہوا بھی بالکل ویسا ہی۔
سونیا نے اپنے بھائی کا لنڈ چوس چوس کر کھڑا کر دیا۔ اب سونیا نے میری چوت میں زبان دے دی اور چوسنے لگی۔ پہلی بار میں نے دیکھا کہ ایک بیٹی اپنی ماں کی چوت کو چاٹ رہی تھی۔
کئی منٹ تک وہ میری چوت کو چاٹتی رہی اور پھر میں بھی گرم ہوتی چلی گئی۔
وہ بولی- ماں ، آپ کی چوت کی سیل ٹوٹ گئی ہے۔ آپ بہت خوش نصیب ہو کہ آپ کی چوت کی سیل آپ کے بیٹے کے لنڈ سے ٹوٹی ہے۔
اس کے بعد ایک بار پھر سے سمیر نے میری چوت میں لنڈ دے دیا اور مجھے چودنے لگا۔ پندرہ منٹ تک اس نے میری چوت کو رگڑا اور میں جھڑ گئی۔ اس کے بعد وہ بھی میری چوت میں جھڑ کر ٹھنڈا ہو گیا۔ ہم تینوں ایسے ہی پڑے ہوئے سو گئے۔
اگلے دن صبح سمیر نہا دھو کر اپنے آفس چلا گیا۔ میں بھی کافی تھکی ہوئی تھی۔
اس رات اپنی ماں کی چدائی کرنے کے بعد وہ اگلے دن جلدی گھر آ گیا۔
گھر آ کر وہ کہنے لگا- اگر آپ میرا ساتھ دو تو میں آپ کا دامن خوشیوں سے بھر دوں گا۔ ہم تینوں کو مل کر زندگی کی ایک دوسری زندگی شروع کر دینی چاہیے۔ جو ہونا تھا وہ تو اب ہو ہی چکا ہے۔ اب پرانی باتوں کو بھول کر ہمیں آگے بڑھنا چاہیے۔
میں نے اس کے گال پر ایک تھپڑ مارا اور بولی- اب ہونے یا نہ ہونے کو بچا ہی کیا ہے! تم میرے بیٹے تھے ہی اور اب زبردستی میرے شوہر بھی بن رہے ہو۔ تمھیں سارا پتا ہے میرے پاس تم دونوں کے سوا اور کچھ نہیں ۔ میں نے کدھر جانا ہے، تم جو کرنا چاہتے ہو کر لینا، اب تم مجھے خوش رکھو یا دکھی رکھو، اب تو سب کچھ تم پہ ہی ہے۔
سمیر نے مجھے بانہوں میں بھر لیا۔
سمیر بولا- میں آپ کو ایسے زبردستی کبھی نہ کرتا مگر پہلے صرف آپ کو بلیک میل کرنے کے لیے کیا تھا مگر اب میرے جسم کو آپ کی طلب ہونے لگی ہے۔ کچھ ہی دنوں میں آپ کو بھی کی اس کی طلب ہونے لگے گی۔
میں اب مخالفت نہیں کر پا رہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں نا چاہتے ہوئے بھی میرا جسم میرے قابو سے باہر نکل گیا، اس کے ہاتھوں میں عجیب سا نشہ تھا۔
پھر اس نے میرے مموں کو ننگا کر دیا۔
میرے مموں کو دباتے ہوئے وہ بولا- آپ کی بریسٹ کے سائز کی برا بھی بہت مشکل سے ملتی ہے۔ آپ کے مموں کو دبانے میں مجھے سکونت ملتی ہے۔
دنیا میں اتنی خوشی دوسری چیز میں نہیں ملتی جتنی کہ آپ کے مموں سے کھیلنے میں ملتی ہے۔ بچپن میں میں ان کو دودھ کے لئے پیتا تھا اور اب مزے کے لئے پیتا ہوں ۔ اب آپ ماں -بیٹے کے رشتے کو بھول جاؤ ماں , اب ہم ایسے ہی مزے لے کر رہیں گے۔
میرا بیٹا مجھے اوپر سے نیچے تک بہت ہی دھیان لگا کر دیکھ رہا تھا۔ میں شرم کے باعث اپنے سر کو نیچے کی طرف جھکائے ہوئے تھی۔ اس نے میری ران پر ہاتھ پھیر کر دیکھا۔
میری ران پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ کہنے لگا- ممی آپ کی چوت, ران اور پیر سب کے سب بہت ہی چکنے ہیں ، تم میری ہو جاؤ۔ میں ، سونیا اور تم ہم تینوں مل کر اپنی فیملی بنائیں گے۔
وہ بولا- ہم تینوں کو زندگی نے ایک نیا تاریخ بنانے کا موقع دیا ہے۔ ہمیں اس موقع کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔ خون کے سارے رشتوں کو بھول کر ہم تینوں کو ایک نئے رشتے کی شروعات کرنی چاہیے۔
میں کچھ نہیں بول پا رہی تھی۔ سمیر میرے بدن کو چومنے لگا۔ میں اس کو دور ہٹانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن مجھے اچھا بھی لگ رہا تھا۔ شوہر کے جانے کے بعد کسی مرد کے چھونے کا مزہ بہت دنوں کے بعد میں محسوس کر رہی تھی۔
سونیا کھانا بنانے کے لئے چلی گئی۔ سمیر میری چوت میں منہ لگا کر اسکو چاٹنے لگا۔
وہ بولا- آہہ مممی، یہ وہی چوت ہے نا جسسے میں باہر آیا تھا۔ – آہہ ۔۔۔ اس چوت سے میں باہر آیا تھا اور اسی چوت سے میں اپنے بچے کو بھی باہر نکال لوں گا۔
ایسا بول کر سمیر نے میری چوت کو زور زور سے چاٹنا شروع کر دیا۔ میری چوت اندر تک گرم ہو گئی۔
سونیا کچن میں کھڑی ہوکر میری طرف دیکھ رہی تھی۔ مجھے بھی عجیب سا لگ رہا تھا۔ اتنے دن سے وہ اپنے بھائی کا لنڈ لے رہی تھی۔ مجھے پتا چل رہا تھا کہ وہ سمیر کو اتنا پسند کیوں کرتی ہے۔
سمیر کا انداز بہت ہی گرم کر دینے والا تھا۔ وہ میری دونوں ٹانگوں کو پھیلا کر میری چوت میں اپنی زبان کو اندر باہر کر رہا تھا اور میری چوت میں بہت مزا آ رہا تھا۔ اب میں بھی چودنے کے لئے تیار ہوتی جا رہی تھی۔
سونیا بھی اپنے ممے دبانے لگی تھی۔ پھر سمیر نے اپنے کپڑے اتارنے شروع کر دیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے اپنی شرٹ کھول دی اور اس کو نکال کر ایک اور ڈال دیا۔
اس کا لمبا اور موٹا سا لنڈ اس کی پینٹ کو اوپر اٹھائے ہوئے تھا۔ میں نے سمیر کو اس طرح کی نظر سے نہیں دیکھا تھا۔ میرا بیٹا سچ میں بالکل جوان ہو گیا تھا۔ اس کو دیکھ کر کسی بھی چوت میں پسینہ آ جائے۔
پھر اس نے اپنی پینٹ اتار دی۔ اب وہ صرف ایک سپورٹس والے شارٹس میں تھا اور اس کا انڈرویئر پورا اٹھا ہوا تھا۔ اس نے اپنے لنڈ کو اپنے ہاتھ سے رگڑ کر مسلا اور مجھے دکھایا۔
اس کے بعد اس نے آہستہ سے اپنے شارٹس کو اتار دیا۔ اب وہ پورا کا پورا ننگا ہو گیا تھا۔ اس کا لنڈ 7 انچ لمبا اور کافی موٹا تھا۔ میرے شوہر کا لنڈ بھی اتنا دم دار نہیں تھا۔
سونیا اپنے بھائی کے لنڈ سے چود کر اسی وجہ سے اتنی خوش رہتی تھی۔ سمیر کا لنڈ کسی بھی چوت کو خوش کرنے کے لیے کافی اچھا تھا۔ پھر سمیر میرے اوپر آیا اور اپنے لنڈ کو میرے منہ کے پاس کر دیا۔
اس کا لنڈ بہت ہی رسیلا سا تھا لیکن میں اس کو آنکھ دکھانے لگی۔ پھر وہ پیچھے ہو گیا۔ اس نے میرے ممے دبا دیے اور پھر میری رانوں کو چومنے لگا۔ اس نے میری چوت میں انگلی دے دی اور اس کو تیزی سے چلانے لگا۔
میں کافی ہاٹ ہو گئی۔ اس کی انگلی تیزی سے میری چوت میں اندر باہر ہو رہی تھی۔ میری چوت میں پہلے سے ہی گیلہ پن آ گیا تھا۔ جب سمیر میری چوت کو چاٹ رہا تھا اسی وقت میری چوت گیلہ ہونا شروع ہو گئی تھی۔
اب میری چوت کی گرمی اور زیادہ ہو گئی تھی اور میرا من چودنے کے لیے کرنے لگا تھا۔ سمیر بھی کمینا میرے چہرے کو دیکھ کر سمجھ رہا تھا کہ مجھے کتنا اچھا لگ رہا ہے اس کے ساتھ یہ کرنے میں ۔
میں نے کہا- کیا کر رہا ہے حرامی، مجھے کیوں تڑپا رہا ہے ایسے؟
وہ بولا- ممی، کیا تم میرا لنڈ لینا چاہتی ہو؟
میں کچھ نہیں بولی۔
اس نے پھر پوچھا- ممی کیا تم میرا لنڈ اپنی چوت میں لوگی؟
میں نے کچھ نہیں کہا۔
اس نے انگلی نکالی اور میری چوت کی پھانکوں کو پھیلا کر اپنی زبان کو نوکیلی بنا کر میری چوت کے دانے کو چھیڑنے لگا۔ میرے پورے بدن میں چیونٹیاں دوڑنے لگیں ۔ میں گانڈ کو اوپر اٹھاتے ہوئے اپنی چوت کو اس کے ہونٹوں پر رگڑنے کی کوشش کرنے لگی۔
وہ تیزی سے اپنی زبان کو میری چوت کے دانے پر چلا رہا تھا۔ کبھی اپنے دانتوں سے میری چوت کی پھانکوں کو کھینچ لیتا تھا اور کبھی پوری زبان کو ہی چوت میں گھسا دیتا تھا۔
میں چودنے کے لیے تڑپ اٹھی تھی۔
وہ بولا- اب بتاؤ ممی، کیا تم میرے لنڈ کو اپنی چوت میں لینا چاہتی ہو؟
مجھے غصہ آ رہا تھا مگر کس بات پہ، اس کا پتا نہیں تھا۔
میں اسکے گال پر تماچہ مارتے ہوئے بولی- ہاں کتّے، چود دے مجھے۔ اب اور برداشت نہیں ہو رہا۔
یہ سنتے ہی اسکے چہرے پر ایک مسکان پھیل گئی۔ میرے بیٹے نے اپنے لنڈ کو اپنے ہاتھ میں لیکر میری طرف دیکھ کر ایک دو بار ٹوپے کو آگے پیچھے کیا اور ہلہ ہلہ کر مجھے دکھانے لگا۔
اسکے بعد اس نے نیچے بیٹھ کر میری ٹانگوں کو پھیلا دیا اور اپنے لنڈ کو میری چوت پر لگا دیا۔ لنڈ کو چوت پر لگا کر وہ رگڑنے لگا۔
میں نے سسکارتے ہوئے کہا- آہہ ۔۔۔ سمیر بیٹا، پلیز میرے بچے۔
میرے بیٹے نے میری چوت میں ایک دھکا لگایا اور اسکا لنڈ چوت میں گھس گیا۔ لنڈ کو اندر پیل کر وہ تیز تیز جھٹکے مارنے لگا۔ اسکے جھٹکے اتنے تیز تھے کہ ایسا لگا کہ مانو سمیر کا لنڈ میری چوت کو چیرتا ہوا اندر جا رہا ہے۔
اُسکے دھکوں کی رگڑ سے میری چوت کی دیواریں چھلنے لگی تھیں ۔ بیتی رات کو بھی اُسنے میری چوت کی جوردار چودائی کی تھی۔ اسلئے اب اُسکے موٹے اور لمبے لنڈ کو برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ مگر اس درد میں مزہ بھی آ رہا تھا۔
سمیر نے میری چوت میں لنڈ کو پورا گھسا دیا تھا اور میرے اوپر لیٹ کر میرے ہونٹوں کو کس کر چوسنے لگا۔ میں بھی اُسکا ساتھ دینے لگی۔ اُسکی چھاتی میرے بوبس کو دبائے ہوئے تھی۔ میں نے اُسکی پیٹھ کو جور سے اپنی باہوں میں جکڑا لیا تھا اور اُسکی گانڈ کے اوپر اپنے پیروں کو لپیٹ کر میں اُسکے ہونٹوں کو چوسنے لگی تھی۔
ایک دو منٹ تک ہم دونوں ایک دوسرے کے ہونٹوں کو پیتے رہے۔ اُسکے بعد وہ پھر سے اُٹھا اور اُسنے میری ٹانگوں کو پکڑ کر اُوپر اُٹھاتے ہوئے پھر سے میری چوت میں اپنے لنڈ کو تھوکنا شروع کر دیا۔
اب میں بھی اپنی گانڈ کو اُوپر اُٹھاتے ہوئے اُسکی طرف دھکیلنے لگی۔ میں نیچے سے دھکے لگا رہی تھی اور وہ اُوپر سے لنڈ کو تھوک رہا تھا۔ اس طرح سے پندرہ منٹ تک اُسنے میری چوت کو رگڑ کر رکھ دیا۔
پھر وہ پوری سپیڈ میں تیز تیز میری چوت کو پٹکنے لگا۔ میں درد سے کراہنے لگی۔ وہ تھمنے کا نہیں سوچ رہا تھا۔ میں کسی طرح اُسکے لنڈ کو اپنی چوت میں برداشت کر رہی تھی لیکن برداشت کر پانا بہت مشکل ہو رہا تھا۔
دو-تین منٹ میں ہی اُسنے میری جان نکال دی اور پھر میری چوت میں ہی جھڑنے لگا۔ اُسنے لنڈ کو پورا جڑ تک گھسا دیا اور میرے اوپر لیٹ کر پانی کو چوت میں چھوڑنے لگا۔
اُسنے اپنا سارا مال میری چوت کو پلا دیا۔ میری چوت نے اُسکے مال کو اندر کھینچ لیا۔ بیٹے کے لنڈ کا مال پیکر میری چوت خوش ہو گئی۔ اُسکے بعد اُسنے لنڈ کو نکال لیا اور میں نے بھی اپنی چوت کو ڈھیلا چھوڑ دیا۔
وہ ایک طرف لیٹ گیا۔ میں بھی تھوڑی ٹھنڈا ہوئی۔ پھر وہ اُٹھا اور چلا گیا۔ میں ویسے ہی سوئی رہی۔ میں نے اپنی ساڑی کو ٹھیک کیا اور کپڑے پہن لیے۔
سونیا چائے بنا کر لے آئی۔ وہ بولی – کیسا لگ رہا ہے ممی؟
میں نے کچھ نہیں کہا۔
میری بیٹی کے سامنے ہی میری چوت بُری طرح سے چدھی تھی۔ میں چپ رہ گئی، کچھ نہ بول سکی۔
پھر میں آرام کرنے لگی۔
2 گھنٹے کے بعد سونیا انار کا جوس لے آئی۔
میرے پاس آ کر بولی – ماں ، یہ انار کا جوس بھائی نے آپ کے لیے بھیجا ہے۔
جوس کا گلاس مجھے تھما کر سونیا واپس چلی گئی۔
سمیر بھی واپس کام پر چلا گیا تھا۔ پھر میں نہانے کے لیے چلی گئی۔ فریش ہونے کے بعد میں بیٹھ کر دو دنوں کے دوران ہوئی واقعہ کے بارے میں سوچنے لگی۔
میں سوچ رہی تھی کہ یہ سب کیا سے کیا ہو گیا ہے۔ میں نے ایسا تو کبھی سپنے میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن میرا بیٹا میری ہی چوت کا دیوانہ ہو جائے گا اور میری چوت کو اس طرح سے چودیگا۔
اب میں جان گئی تھی کہ وہ ہم دونوں میں سے کسی کو چھوڑنے والا نہیں تھا۔ کچھ دیر کے بعد پھر سونیا میرے لیے کھانا لے کر آئی۔
وو بولی – ماں ، یہ کھانا کھا لو۔ آپ کافی تھک گئی ہوں گی۔
میں نے سونیا سے کہا – مجھے بھوک نہیں ہے۔ تم ہی کھا لو۔
وو میرے پاس بیٹھ گئی اور مجھے اپنے گلے سے لگا کر بولی – آپ ابھی بھی ناراض ہو کیا؟
میں نے کہا – نہیں ۔ مجھے بھوک نہیں ہے۔
وو بولی – یہ کیا بات ہوئی، تھوڑا سا کھا لو۔
سونیا مجھے زبردستی کھلانے لگی لیکن میرا من نہیں تھا۔ میں نے تھوڑا سا کھایا اور پھر منع کر دیا۔
پھر وہ بولی – اس میں زیادہ سوچنے والی بات نہیں ہے۔ ایسا تو بہت سے لوگ کرتے ہیں ۔ کوئی اپنی ماں کے ساتھ کرتا ہے، کوئی بہن کے ساتھ کرتا ہے، کوئی خالہ کے ساتھ کرتا ہے اور کوئی چاچی کے ساتھ کرتا ہے۔
اُس نے پھر اپنے موبائل میں مجھے کوئی سیکس کہانی سائٹ کھول کر دکھائی۔ اُس میں اُس نے ماں بیٹے کی چودائی سرچ کیا اور اُس میں بہت ساری کہانیاں نکل کر آئیں ۔
سونیا نے اپنا موبائل مجھے تھما دیا اور بولی – اس میں آپ پڑھ کر دیکھ لو ممّی۔ اب پہلے جیسا کچھ بھی نہیں رہا ہے۔ اب بہت کچھ بدل گیا ہے۔ یہ سب کہانیاں نہیں ہیں ، ایسا اب ریئل زندگی میں بھی ہونے لگا ہے۔
جو سونیا مجھے دکھانا چاہ رہی تھی وہ سب دیکھ چکی تھی اس لئے میں نے اُسکے موبائل میں کچھ نہیں کیا اور میں پھر اوپر چلی گئی۔
تبھی سونیا نے آواز دی – ماں ، بھائیا نے آپکے لیے فون کیا ہے، آپسے بات کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ کہ رہے ہیں کہ یہ موبائل ماں کو دے دو، اب یہ انکے پاس ہی رہے گا۔
میں نے اس کال کو رسیو نہیں کیا۔ مگر سونیا نے فون کو لاوڈ سپیکر پر کر دیا اور میرے منہ کے سامنے کر دیا۔
اُدھر سے سمیر بولا- ماں ، میں تمہارے لئے برا اور پینٹی خرید رہا ہوں ۔ یہ بتاؤ کتنے نمبر کی ہوتی ہے۔ مجھے آپ کا سائز نہیں معلوم ہے۔
سمیر کے سوال کا میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
پھر سونیا بولی- بتا دو ماں ، اب کیسا شرمانا؟
مگر میں نے کچھ نہیں کہا۔
تب سونیا بول پڑی- بھائیا، 36 کا لے آنا۔ مجھے پتہ ہے ماں کی برا-پینٹی کا سائز۔
شام کو سمیر گھر پر آیا۔ اس نے سیدھا آکر سونیا کو کس کیا اور میرے پاس آکر میرے مموں کو دبانے لگا۔ وہ برا اور پینٹی کے 4 سیٹ لے کر آیا تھا اور 2 نائٹی بھی تھی۔
کھانا کھانے کے بعد اس نے اپنے ہاتھ سے مجھے بھی جبردستی کھلایا دیا۔ اس کے بعد اس نے منہ ہاتھ دھو لیا اور مجھے اپنی گود میں اُٹھا کر بیڈ پر لیٹا دیا۔ میں اسکا احتجاج کرنے کے لئے کھڑی ہوتی اس سے پہلے ہی سمیر نے میرے کپڑے اُتارنے شروع کر دیے۔
اسنے مجھے اپنی بہن یعنی کہ میری بیٹی کے سامنے ہی ننگی کر دیا۔ اسنے مجھے پینٹی پہنا کر اور برا بھی پہنا دیا۔
اُسکے بعد اُسنے میرے ہاتھ میں فون تھماتے ہوئے کہا- آج سے یہ فون آپکے پاس ہی رہے گا۔ فون کا تو میرے پاس کوئی کام ہی نہیں تھا۔ عمر کے اس موڑ پر مجھے فون کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی تھی۔ میرے پاس فون میں کرنے کے لیے ایسا کچھ تھا ہی نہیں جو میرے کام آ سکے۔ ن کوئی بات کرنے والا تھا۔
پھر رات کو کھانا ہونے کے بعد سب لوگ سونے لگے۔ سمیر نے اُس رات مجھے ننگی کر دیا۔ اسنے کہا کہ آج وہ میری چوت کے بال صاف کرے گا۔
مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کروں ، یہ تو میں خود بھی کر سکتی تھی مگر اس کو شاید شک تھا میں اس لیے شیو نہ کروں کہ اگر میں نے شیو کی تو اس سے وہ مزید میرا دیوانہ ہو جائے گا، جو میں شاید نہ چاہوں ۔
اس لیے اسنے یہ کام خود ہی کرنے کا سوچ لیا تھا۔
مجھے ننگی کرنے کے بعد وہ میری چوت پر بال صاف کرنے کی کریم لگانے لگا۔ میں تھوڑا بہت احتجاج کر رہی تھی لیکن سونیا نے میرے پیروں کو پکڑ رکھا تھا اور پھیلا رکھا تھا۔
آپ سوچ کر دیکھیے کہ ایک ماں اپنے بچوں کے سامنے ننگی بیٹھی ہوئی ہے جسکے پیروں کو اُسکی بیٹی نے پھیلا رکھا ہے اور اُسکا بیٹا اپنی ماں کی چوت پر بال صاف کرنے والی کریم لگا رہا ہے!
پھر سمیر نے میری چوت کے بالوں کو صاف کر دیا۔
میری چوت کو کلین شیو کرنے کے بعد سمیر نے میرے مموں کو اپنے ہاتھوں میں کس کر پکڑ لیا اور انکو بال کی طرح دبا کر دیکھنے لگا۔
پھر وہ بولا- ممی، اب آپ اپنی ٹانگوں کو چوڑی کرکے صحیح پوزیشن میں بیٹھ جاؤ۔
میں کچھ نہیں بولی۔
پھر سے سمیر نے کہا- اب مان بھی جاؤ ممی، اب کیا بچا ہے؟
میں ابھی بھی چپ ہی رہی۔
پھر سونیا نے کہا- بھائی، آپ امی کو اکیلے نہیں چود سکتے ہو کیا؟
وہ بولا- نہیں ، ایسا نہیں ہو سکتا۔ ماں اب ہم دونوں کے ساتھ میں ہی چودا کریں گی۔
سونیا نے میرے پیروں کو پھیلا دیا اور سمیر نے میری چوت میں منہ دے دیا اور میری چوت کو چوسنے لگا۔ میں بھی گرم ہونے لگی۔ سمیر نے پوری زبان اندر ڈال دی اور میں نے سمیر کے سر کو اپنی چوت پر دبانا شروع کر دیا۔
کچھ ہی دیر میں میری چوت کا پانی نکل گیا۔
سمیر نے سونیا کو دکھاتے ہوئے کہا- دیکھ سونیا، ماں کی چوت کا پانی نکل رہا ہے۔
سونیا بولی- چاٹ لو بھائیا۔
سمیر بولا- تو کیا کر رہی ہے، چل آکر اب ماں کے بوبس کو دبا۔
پھر سمیر نے میری چوت میں اپنا لنڈ ڈالنے کی کوشش کی لیکن میں نہیں ہلی۔
وہ بولا- مان جاؤ ممی، نہیں تو ہم آپکو اس طرح سے چھوڑنے والے نہیں ہیں ، آپکے ساتھ ایسے ہی کرتے رہیں گے۔
اس نے مجھے گھما کر میری چوت میں لنڈ دے دیا اور مجھے چودنے لگا۔ میں ایک بار پھر سے چودنے کے لیے تیار ہو گئی لیکن اندر سے میری خواہش نہیں ہو رہی تھی۔ اس رات میں بھی سمیر نے مجھے بری طریقے سے چودا۔
اگلی صبح وہ تیار ہوکر اپنے آفس میں چلا گیا۔ پھر سونیا ناشتہ لے کر آ گئی۔ وہ مجھے سمجھانے لگی۔
سونیا بولی- ممی آپ دنیا میں اکیلی نہیں ہیں جو اپنے بیٹے سے چوت مروا رہی ہیں ۔
انکو بھی پڑھ کر دیکھ لو۔
اس نے میرے سامنے سیکس سٹوری سائٹ کھول کر دے دی۔
اس میں ننگی لڑکی دکھائی دے رہی تھی۔ جوان لڑکی کی ننگی فوٹو دیکھ کر میرا دھیان اس پر گیا لیکن میں نے سٹوری پڑھنے سے منع کر دیا۔
سونیا وہاں سے چلی گئی۔ اسکے جانے کے بعد میں پھر سے فون اٹھا کر وہی سائٹ پر وہ پیج کھولا اور دیکھنے لگی۔
کچھ دیر سوچنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی کہ اگر یہ سب جو لکھا ہوا ہے وہ صحیح ہے تو واقعی میں بیٹے کے ساتھ سیکس اور بھائی بہن کا سیکس ہوتا ہوگا۔ مگر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ یہ کسی کے دماغ کی خواہش یا فینٹسی ہی ہو۔
مگر میرے لیے ایک بات یہ بھی تھی کہ دونوں نے مل کے جو کچھ سازش کی تھی اس کا مجھے بہت غصہ تھا۔ لیکن میری زندگی میں ان دونوں کے سوا اور کچھ بھی نہیں تھا، اور دوسری بات میرے اپنے جسم کا ردعمل تھا۔ سمیر کے لنڈ سے چودتے ہوئے میرا جسم بھی بے قابو ہو جاتا تھا اور مزا تو مجھے بھی آتا تھا جس کو میں انکار نہیں کر سکتی ہوں ۔
اگلے دن ہسبنڈز ڈے تھا، جو کہ انڈیا میں اپنے شوہر کی لمبی عمر کے لیے منایا جاتا ہے۔ میں صبح اُٹھی اور نہا دھوکر تیار ہو گئی۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتی اُسی وقت سونیا آئی اور بولی – ممی، میں سمیر کی بیوی بن چکی ہوں ۔ اس لیے میں نے اسکے ساتھ ہسبنڈز ڈے رکھا ہے۔ شام کو ہم آپکے لئے باہر سے کھانا منگوا دیں گے۔
میں نے اس کی بات پر سوچ لیا کہ سمیر مجھے چاہتا ہی رہے گا اور میں نے بھی اپنے جسم کے آگے بے بس ہو جانا ہے، کیوں نا میں بھی آج ہسبنڈز ڈے کے دن اپنے بیٹے کی ہو جاؤں گی۔ جیسا سمیر نے کہا تھا ویسے ہی آج میرے جسم کو بھی سیکس کی طلب ہو رہی تھی۔ آج میرا دل کر رہا تھا کہ میں اپنی خوشی سے اپنے بیٹے کے ساتھ چدائی کروں ۔ میں اسکے جسم کا سواد ایسے لینا چاہتی تھی جیسے میں اپنے شوہر کے ساتھ چدائی کا سواد لیا کرتی تھی۔
سونیا کی بات سن کر میں نے پیٹ خراب ہونے کا بہانہ کر دیا اور بولی – مجھے بھی آج بھوک نہیں ہے۔ میں تو سونے جا رہی تھی۔
سونیا بولی – ٹھیک ہے آپ سو جائیں ، ویسے آج سمیر جی باہر سے کھاکر آئیں گے اور کچھ سامان لیکر آئیں گے۔
میں بنا کچھ بولے ہی چھت پر چلی گئی۔ شام کو 6۔30 بجے سمیر چھٹی لیکر آ گیا۔
سونیا نے لال ساڑی پہن رکھی تھی اور وہ کھڑکی کے پاس کھڑی ہوکر چاند کو دیکھ رہی تھی۔
جب سونیا تیار ہو رہی تھی اسی وقت میں نیچے تیار ہو چکی تھی۔ میں نے سمیر کی دی ہوئی برا پینٹی پہنی تھی اور ساڑی بھی پہن لی تھی۔ کچھ دیر کے بعد سمیر نیچے آیا اور جیسے ہی اس کی نظر مجھ پر پڑی وہ مجھے دیکھ کر ایک دم سے دنگ سا رہ گیا۔ اس کو میرا یہ روپ دیکھ کر یقین ہی نہیں ہوا۔
وہ بولا- ممی آپ بھی؟
میں نے کہا- مجھے ممی نہ بولا کرو اب۔ آج سے میں آپ کی بیوی بننے کے لیے پیش ہوں ، بس مجھے استعمال کر کے پھینک نہ دینا پلیز۔
سمیر نے پچکارتے ہوئے مجھے چپ کرنے کا کہا اور میرے دونوں ہاتھوں کو تھام لیا۔ مجھے اس کا جواب مل گیا تھا جس پر میں مسکرا دی۔
سمیر مجھے چھت پر لے کر گیا۔ سونیا بھی مجھے دیکھ کر دنگ رہ گئی۔
وہ حیران ہوکر بولی- ممی!
اس سے پہلے کہ وہ کچھ اور بولتی سمیر نے اس کو چپ رہنے کا اشارہ کر دیا۔
اسکے بعد اسنے میری مانگ میں سندور بھرا۔ پھر اسنے منگل سوتر اٹھایا اور میرے گلے میں پہنا دیا۔
سمیر نے اسکے بعد مجھے اپنی بانہوں میں لے کر کہا – مجھے آج بہت خوشی ہو رہی ہے مما۔
میں بولی – میں تمہاری مما نہیں , میں میرا ہوں اور بیوی ہوں آپکی۔
سونیا بولی – میں نے انکو آپکی بیوی بنانے میں بہت مدد کی ہے بھیا۔ اگر میں ان کو راضی نہ کرتی تو آج یہ آپکی بیوی نہیں بن پاتی۔
سمیر بولا – ہاں ، میں سب جانتا ہوں ۔
اسکے بعد ہم تینوں لوگوں نے ساتھ میں کھانا کھایا۔
سمیر کی نظریں مجھ پر ہی رہیں اور وہ بار بار مسکرا رہا تھا، اس کا بس نہیں تھا چل رہا کہ کب وہ مجھے میری خوشی سے چود سکے گا۔
اسکے بعد ہم چھت پر ہی آ گئے۔
اندر آتے ہی اس نے مجھے دبوچ لیا، بہت بے صبرا تھا وہ۔
سمیر نے آہستہ آہستہ میرے سارے کے سارے کپڑے اتار دئے۔ اب میں صرف برا اور پینٹی میں ہی رہ گئی۔
اسکے بعد سمیر نے سونیا کے بھی سارے کپڑے اتار دئے۔ سونیا نے بلیک رنگ کی برا اور پینٹی پہنی ہوئی تھی۔ اب ہم دونوں نے سمیر کے کپڑے بھی اتار دئے۔
سمیر بہت خوش نظر آ رہا تھا۔ آج کے دن میں بھی اندر سے بہت خوش تھی۔ مجھے میرا شوہر مل گیا تھا۔ اب میں بھی سہاگن ہو گئی تھی۔ اب مجھے کسی سے کوئی گلے شکوے نہیں رہ گئے تھے۔ میں نے سمیر کے جسم کو غور سے دیکھا اور پھر اس کے مست موٹے لنڈ کو اپنے ہاتھ سے چھوکر دیکھنے لگی۔
سونیا کے چہرے پر آج خوشی نہیں تھی۔ اس کے چہرے کی مسکراہٹ کہیں غائب سی ہو گئی تھی۔ اب میں سمیر کے لنڈ کو چوس رہی تھی۔ مجھے سمیر کے لنڈ کو چوسنے میں اصلی مزا آ رہا تھا۔ میں نے پوری طبیعت کے ساتھ تقریباً دس منٹ تک اس کے لنڈ کو لالیپاپ کی طرح چوس ڈالا۔
اب سمیر نے میری چوت میں انگلی ڈال دی اور اپنی انگلی کو میری چوت میں چلانے لگا۔
میں نے کہا- جب تمہارے پاس اتنا اچھا لنڈ ہے تو انگلی کیوں ؟ اگر انگلی ہی کرنی تھی تو پھر یہ لنڈ کس کام کا؟ مجھے اپنے شوہر کے لنڈ کا رس چاہیے۔ میں بہت سالوں سے پیاسی ہوں ۔
سمیر بولا- جان، تھوڑا صبر تو کرو۔ اس کا رس بھی ملے گا۔ پہلے تو میں آپکی چوت کا رس پینے والا ہوں ۔
سمیر نے مجھ سے اپنی چوت کو اس کے منہ پر لگانے کے لیے کہا۔ میں نے اپنی چوت کو سمیر کے ہونٹوں پر رکھ کر دبا دیا۔ اس کے ہونٹوں پر میری چوت کی دراڑ لگی تو بدن میں سرسری دوڑ گئی۔
اب وہ میری چوت کو نیچے سے چاٹنے لگا۔ کچھ دیر چاٹنے کے بعد اس نے میری چوت میں نیچے سے لنڈ ڈال دیا۔
نیچے سے میری چوت میں لنڈ ڈالتے ہوئے وہ بولا- دیکھ سونیا، آج مما اپنی خواہش سے ہی سب کچھ کروا رہی ہے۔ آج مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے مما کو اس طرح سے خوش ہوتے ہوئے دیکھ کر۔
میں نے سمیر سے کہا- آپ مجھے مما نہ بولیے، میرا نام میرا ہے، مجھے میرا ہی کہا کیجیے۔
سمیر نے سونیا کو اشارہ کیا- ممے تم چوس لو۔
سونیا نے بے دلی سے میرے ممے چوسنا شروع کیے۔
میں بھی جوش میں آ کر بولی- سونیا، ابھی تو شروعات ہے بیٹی۔ ابھی تو بہت کچھ دیکھنا باقی ہے۔ تم دونوں نے میرے اندر کی بجھی ہوئی آگ میں گھی ڈال دیا ہے۔ اتنے سال سے میں نے کسی طرح خود کو خاموش رکھا ہوا تھا۔
سمیر بولا- یہ ہوئی نہ بات، اب میں اپنی بیوی کے ساتھ خوب مزہ لے سکتا ہوں ۔
سونیا بولی- مما کو پا کر آپ ہمیں بھول ہی گئے ہیں ۔ سونیا نے شکایتی انداز میں کہا۔
میں سونیا کے ممے دباتے ہوئے بولی- بھول کیسے جائیں گے جان، تمہارے چوتڑوں میں انکے لنڈ کو تو میں ہی ڈالوں گی۔
وہ بولی- تو پھر آپکی چوت کا رس میں لے سکتی ہوں ؟
میں نے کہا- اس کے بارے میں تو میرے شوہر سے پوچھو۔ ان سے پوچھے بغیر تو تم کچھ نہیں لے سکتی۔ لینا تو کیا، تم میری چوت کو ٹچ بھی نہیں کر سکتی۔
سمیر بولا- مما، آپ مجھے خوش کر دیں ۔ اس کے بعد آپ جو کہیں گے وہ میں کرنے کے لیے تیار ہوں ۔ بس آپ میرا ساتھ دیجیے۔
میں بولی- اب تو آپ شوہر بن گئے ہیں ، آپ کا پورا حق ہے ہم پر۔
ایسا بولتے ہی سمیر نے میرے منہ میں لنڈ دے دیا۔ میرے ہونٹوں کو چودتے ہوئے وہ بولا- آہہ جان، تمہارا یہ انداز بہت پسند آیا۔
اتنے میں ہی میں نے اس کے لنڈ پر دانتوں سے کاٹ لیا۔
وہ درد میں کراہتے ہوئے بولا- اوہہ ۔۔۔ اگر ایسے کرو گی اور لنڈ کو کھانے لگو گی تو پھر چوت میں کیا لو گی؟
میں نے اس کے لنڈ کو منہ سے نکال کر کہا- چوت میں آپ لنڈ کو ڈال کہاں رہے ہو؟
تبھی اس نے میری ٹانگوں کو کھول کر میری چوت میں لنڈ کو ڈال دیا اور تیزی کے ساتھ پیلنے لگا۔
اس نے پوری تیز اسپیڈ سے میری چوت کو چودنا شروع کر دیا۔ دس منٹ تک اس نے میری چوت کو پھاڑ دینے والی چودائی کی۔ پھر اس کے لنڈ سے پانی کے فوارے میری چوت میں گرنے لگے۔
میری چوت میں پانی کو بھر کر وہ میرے اوپر چپک کر لیٹ گیا اور تھک کر سو گیا۔ میں سونیا کو اپنی بانہوں میں لے کر ممے دبانے لگی۔ تبھی سمیر اٹھ گیا۔
وہ بولا- مما، پہلے آپ بہن کو گرم کرو۔ اس کے بعد میرا لنڈ تیار ہوگا۔
سونیا نے کہا- پہلے لنڈ کو تیار کر لو۔ جب لنڈ تیار ہو جائے گا تو میں تیار ہی ہوں ۔
جب اس کو پتا لگا کہ میں اس کی بیوی بن کر رہنا چاہتی ہوں تو وہ بہت خوش ہو گیا۔ اس رات اس نے میری چوت میں اپنے پانی کے کئی فوارے چھوڑے اور میری چوت کو بھر دیا۔ مجھے بھی بہت سکون ملا۔ میری سہاگ رات میرے بیٹے کے ساتھ ہو گئی اور میں نے اس کو شوہر بنا لیا۔
سمیر میری چوت کو چود کر میرے اوپر لیٹا ہوا تھا کہ سونیا نے کہا کہ مجھے بھی لنڈ چاہیے۔
سمیر بولا- پہلے اس کو گرم کرو ماں ، اس کے بعد میں اس کو چود دوں گا۔
سونیا بولی- پہلے لنڈ کو تیار کرو، اگر لنڈ تیار ہے تو میں بھی تیار ہوں ۔
میں نے سمیر کے لنڈ کو چوسنا شروع کیا۔ دس منٹ تک میں نے خوب زور سے اس کے لنڈ کو چوسا اور اس کا لنڈ تیار ہو گیا۔
اب اس نے سونیا کو نیچے لٹایا اور اس کی چوت میں لنڈ کو لگا کر اس کے اوپر لیٹ گیا۔ میں نے سونیا کے ممے تھام لیے اور ان کو پینے لگی۔
سمیر نے سونیا کی چوت میں لنڈ گھسا کر دھکے لگانا شروع کر دیا۔ سونیا کی مدہوشی بھری سسکاریاں نکلنے لگیں – آہھ بھائی, مجھے آپ سے پیار ہے, آپ ہی میرے شوہر ہو۔
سونیا میرے بیٹے کے موٹے لنڈ سے چدت ہوئے مدہوش ہو چکی تھی اور میں اس کے ممے کے نپلز پر زبان سے چاٹ رہی تھی۔ پانچ منٹ کی چدائی میں ہی سونیا کی چوت نے پانی چھوڑ دیا۔
اس کے بعد پانچ منٹ اور بعد تک سمیر نے اس کی چدائی کی اور پھر وہ بھی جھڑ گیا۔ اب ہم تینوں ہی تھک کر لیٹ گئے تھے۔ سمیر نے میرے مموں کے درمیان میرے سینے پر سر رکھ لیا۔ سونیا نے سمیر کی رانوں کے درمیان میں منہ رکھ لیا اور اس کے لنڈ کو سہلانے لگی۔
میں سمیر کے سر کے بالوں میں ہاتھ پھیر کر اس کو پیار کرنے لگی۔ میرا بیٹا اب میرا شوہر بن چکا تھا۔ اس رات کے بعد میں خون کے سارے رشتے ختم ہو گئے تھے۔ اب ہمارے درمیان میں رشتوں کے نام بدل گئے تھے۔
اب سمیر ہر روز مجھے چودنے لگا۔ ہم لوگ ساتھ میں شاپنگ کرنے کے لیے جاتے۔ کبھی مووی دیکھنے کے لیے جاتے۔ موقع پاکر باہر بھی سمیر میرے مموں کو دبا دیتا تھا۔ اس طرح سے زندگی بہت خوشحال گزر رہی تھی۔ میں اپنے بیٹے کی رکھیل, بیوی اور ماں سب کچھ بن چکی تھی۔
مگر سمیر نے اب ایک ضد پکڑ لی تھی۔ وہ کہنے لگا کہ اس کو میری کوکھ سے ایک بچہ چاہیے۔ میری کوکھ سے بچے کا مطلب تھا کہ سمیر کا ایک اور بھائی۔ مگر اب وہ میرا شوہر بن گیا تھا اور اسی حق سے مجھ سے ایک بچہ چاہتا تھا۔
میں نے اس کو بہت سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ مان نہیں رہا تھا۔ اس کو مجھ سے ہی اپنا بچہ چاہیے تھا۔
میں نے کہا- یہ نہیں ہو سکتا۔ اپنی بہن کو کیا جواب دو گے؟
وہ بولا- بہن کو سب پتا ہے۔ وہ کچھ نہیں بولے گی۔ ویسے مجھے اس بات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے کہ سونیا کیا سوچے گی۔ مجھے اس کے ساتھ سیکس کرنے میں اتنا مزا نہیں آتا جتنا تمہارے ساتھ آتا ہے۔ اس لیے میں کہہ رہا ہوں کہ بس مجھے تم ایک بچہ دے دو اس کے بعد میں تمہیں فری چھوڑ دوں گا۔ تم جہاں جانا چاہو, جہاں رہنا چاہو, وہاں رہ سکتی ہو۔
اب میں پھنس گئی تھی کہ اسکو شوہر تو بنا لیا، اب اسکے لیے بچہ کیسے پیدا کروں ۔ اس عمر میں اگر میں بچہ پیدا کرنے لگی تو لوگ کیا کہیں گے۔ اگر کسی نے پوچھ لیا کہ کسکا بچہ تو پھر میں کیا جواب دوں گی۔ یہ سارے سوال مجھے پریشان کر رہے تھے۔
میری بیٹی بھی اب مجھ سے جھگڑا کرنے لگی تھی۔ اسکو سمیر کا میرے ساتھ رہنا چبھنے لگا تھا۔ وہ بولی- کیوں ماں ، پہلے تو تمکو بہت بورا لگتا تھا جب میں اور سمیر بھائی آپس میں پیار کرتے اور ایک دوسرے کے ساتھ سیکس کرتے تھے۔ اب تم بھی بیٹے کا لنڈ لینے کی عادی ہو گئی ہو!
اس بات کو لیکر سونیا کے ساتھ میرا اب آئے دن جھگڑا ہونے لگا تھا۔ اسکو اب مجھ سے جلن ہونے لگی تھی۔ وہ بات بات پر مجھ سے جھگڑا کرتے ہوئے کہتی رہتی تھی کہ ماں تم اب میری سوتن ہو گئی ہو۔
میں نے کہا- ایسا نہیں ہے سونیا۔ میں تو اسکو بہت سمجھاتی ہوں ۔ وہ میری بات نہیں سنتا اور بار بار میرے پاس ہی آ جاتا ہے ضدی ہوکر۔
مگر سونیا میری بات سمجھنے کو راضی نہیں تھی۔ اس دن ہم لوگوں کا جھگڑا اتنا بڑھ گیا کہ آخر میں مجھے اپنے بیٹے کو ہی کال کرنا پڑا۔
سمیر گھر پر آیا اور اس نے سونیا کو بہت ڈانٹا اور مارا بھی اس کو۔ میں اس کو مارنے سے روکنے کی کوشش کرتی رہی لیکن وہ نہیں رک رہا تھا۔ میں نے اس کو الگ کرنے کی بہت کوشش کی مگر وہ اس کو ڈانٹتا پیٹتا رہا۔
جب اس کا غصہ تھوڑا ٹھنڈا ہوا تو اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس نے اپنی بہن سونیا کو گود میں اٹھایا اور اس کو باتھروم میں لیکر گیا۔ وہاں لے جاکر اس نے اس کے کپڑے اتار دئے۔
ننگی کرنے کے بعد اس نے شاور چلا دیا اور وہ اسکے مموں کو مسلنے لگا تھا کہ اتنے میں میں بھی باتھروم میں ہی اندر چلی گئی۔ میں اندر گئی تو دیکھا کہ سونیا کے مموں پر پانی گر رہا تھا۔
میری بیٹی کے مموں سے جو پانی گر رہا تھا وہ اس کے پیٹ سے ہوکر اس کی چوت کے اندر سے بہتا ہوا سمیر کے منہ میں گر رہا تھا۔ سمیر اپنی بہن کی چوت سے گرتے ہوئے پانی کو منہ لگا کر پی رہا تھا۔ ساتھ میں وہ دونوں ہاتھوں سے سونیا کے مموں کو بھی دبا رہا تھا۔
تبھی سمیر بولا- میں تم دونوں سے ہی پیار کرتا ہوں ۔
سونیا بولی- ہاں کرتے ہوگے لیکن دن-رات تو تم ماں کے ساتھ ہی ہوتے ہو۔ ہر رات کو ماں کے ساتھ ہی سوتے ہو۔ اب تمکو میری ضرورت نہیں ہے۔ میں تو تمہارے لیے بس ایک مہرہ تھی تاکہ تم ماں کو پا سکو۔ اب ماں تمہیں مل گئی ہے اب میری تمہیں ضرورت نہیں رہی۔
وو بولا- نہیں ، تم غلط سوچ رہی ہو، تم تو میری جان ہو۔ ماں کو پاکر تو مجھے اور بھی زیادہ خوشیاں مل گئی ہیں ۔ تم ہی تو کہتی تھی کہ اگر ماں بھی ہمارے ساتھ مل جائے تو ہم تینوں مل کر اپنی زندگی میں ایک نئی ریتی رواج کو مل کر ایک ساتھ نبھائیں گے۔ آج وہ کام پورا ہو گیا ہے۔ ماں سب بات مان رہی ہیں اور بیوی والا سب سکھ دے رہی ہے۔ مجھے یہ سب اپنی بہن کی وجہ سے ہی تو ملا ہے۔ اگر تم نہیں ہوتی تو شاید مجھے یہ سب کبھی ن مل پاتا۔ میں تم دونوں کو ہی پیار کرتا ہوں ۔
سونیا پلٹ کر بولی- اگر مجھ سے پیار کرتے تو رات بھر تمہارے ساتھ نہیں سوتے۔ سمیر نے سونیا کو سمجھاتے ہوئے کہا- میں تم سے بھی بہت پیار کرتا ہوں ۔ ماں کے ساتھ میرا جسمانی تعلق تب تک ہے جب تک وہ میرا ساتھ دے سکتی ہے، جب اس نے مجھے بتایا کہ میرا ساتھ نہیں دے پاتی تو پھر بس، مگر تمہارے ساتھ تو میں جیون بھر رہوں گا۔
سونیا بولی- آپنے بولا تھا کہ جب ماں راضی ہو جائے گی تو ہم لوگ شادی کر لیں گے، اسی لئے تو آپ ماں کو چودنے کا پلان کیے تھے۔ مگر آج جب ماں راضی ہو گئی ہے تو آپکو بس ماں ہی ماں دکھائی دے رہی ہے۔ میری طرف تو آپکا دھیان ہی نہیں ہے، آپ ہمیشہ ہی ماں کو خوش کرنے میں لگ رہتے ہیں ۔ انکو بھی پہلے تو شروع شروع میں یہ سب کرنا بہت پاپ لگتا تھا۔ مگر اب سارے پاپ ختم ہو گئے ہیں ۔ انکو بھی اب اپنے بیٹے کے ساتھ چودنے میں مزہ آتا ہے۔ اب یہ بھی ہمیشہ ہی بیٹے سے ہی چپکی رہتی ہے جیسے انکا ہی شوہر ہو گیا ہو، اور تو کوئی ہے ہی نہیں گھر میں ! اب انکو بیٹے کے لنڈ سے چودنے میں کوئی پاپ نہیں دکھتا ہے۔
ویسے اس وقت میرے پاس موقع تھا کہ میں کچھ مہینوں سے شروع ہونے والے اپنے اس نئے رشتے کو ادھر ہی ختم کر دوں، مگر سچ بات یہ تھی کہ مجھے بھی اس بات کا نشہ سا تھا ایک جوان مرد میرے جسم پہ پاگل ہوا پڑا ہے، اور اس بات نے مجھے بھی جوانی کا ایک احساس دلایا تھا۔
اور اس احساس کو لینے کے لیے میں تھوڑی بے ایمان سی ہو رہی تھی، حالانکہ یہ مجھے بھی معلوم تھا کہ سونیا سمیر کو اپنا سب کچھ مانتی ہے۔
میں نے پھر اپنی موجودگی کو ظاہر کرتے ہوئے سونیا سے کہا- بیٹی، جو کچھ بھی ہوا اب اس کو بدلہ نہیں جا سکتا۔ اب تم میری بیٹی نہیں رہیں ، میری سوتن بن گئی ہو۔
بیٹی بولی- سوتن تو تب ہو گی جب وہ میری ضرورت کو بھی دیکھے مگر میرا شوہر تو بس تمہاری چوت کا عاشق ہو چکا ہے۔ آپکے بیٹے کو آپکی چوت زیادہ پسند ہے۔ مجھے بھی لنڈ چاہیے ہوتا ہے، میرے پاس بھی ایک چوت ہے، اسکی پیاس کو کون بجھائے گا؟
اُسکی بات سن کر میں نے کہا- اگر ایسی بات ہے تو پھر یہ ہم دونوں کی چوت کو ٹھنڈا کرے گا۔ ہمیں ہی اس کو بانٹا سیکھنا پڑے گا۔
میں نے بیٹی کو سمجھایا لیکن وہ مجھ سے غصہ ہی رہی۔ رات کو جب سمیر اُوپر میرے پاس سونے کے لئے آنے لگا تو اُس نے سونیا کو بھی بولا کہ تم بھی چلو اُوپر لیکن سونیا نے اُسکے ساتھ آنے سے منع کر دیا۔
پھر سمیر بھی سونیا کے ساتھ ہی لیٹ گیا۔ جب تک سونیا کو نیند نہیں آئی تو وہ اُسکے پاس ہی لیٹا رہا۔ جب وہ سو گئی تو سمیر آہستہ سے بغیر آواز کئے اُٹھ کر اُوپر میرے پاس آکر لیٹ گیا۔
میں نے سمیر سے پوچھا – تم کرنا کیا چاہتے ہو؟ تم جانتے ہو سونیا ناراض ہو جائے گی جاو واپس اس کے پاس۔
سمیر بولا۔ اس نے ناراض ہونا ہی ہے ہم جو مرضی کر لیں وہ تو بالکل بچوں جیسی حرکت کر رہی ہے۔ اس کی حرکتوں کی وجہ سے اس کے لیے میرے پیار میں بھی کمی آ رہی ہے۔
میں بولی۔ بات تو ٹھیک ہے لیکن تم اس کو بھی تھوڑا پیار دے دیا کرو۔
میں پھر لالچی سوچ کے ساتھ بات کر رہی تھی۔
سمیر بولا مجھے اس کے پیار کی فکر نہیں ہے مجھے اس کے آپ کے لیے پیار کی فکر ہے۔ میں نے سوچ لیا ہے کہ جب تک وہ آپ کو خوشی سے قبول نہیں کرے گی میں بھی اس کے قریب بھی نہیں جاؤں گا۔
میں بولی۔ تو پھر اس نے یہ سمجھنا ہے کہ میں نے تم کو منع کیا ہے۔
سمیر بولا- تو پھر میں سونیا سے جھگڑا کروں گا۔ اس سے پیار نہیں کروں گا۔ جتنا میں سونیا کے ساتھ جھگڑا کروں گا اتنا ہی تم اسکو پیار کرنا۔ اس طرح آہستہ آہستہ سونیا مان جائے گی۔ اسمیں تھوڑا وقت ضرور لگے گا لیکن سب ٹھیک ہو جائے گا۔
اسکے اگلے دن سے ہی سمیر اسکے ساتھ جھگڑا کرنے لگا تھا۔ اس نے سونیا پر دھیان دینا چھوڑ دیا تھا۔ میں سونیا کے قریب جانے کی کوشش کرنے لگی۔ مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا میری کوششوں کا۔ کچھ دن بعد صبح اونچی آوازوں سے میری انکھ کھلی تو تو معلوم ہوا کہ سمیر سونیا کو ڈانٹ رہا تھا میرا دل کیا جا کے دیکھوں کہ کیا ہو رہا ہے لیکن پھر میں نے سوچا کہ ابھی رہنے دیتی ہوں ۔
تقریبا گھنٹے بعد میں نے جا کے باہر جا کے دیکھا تو سمیر جا چکا تھا لیکن سونیا کی حالت ایسی تھی جیسے کوئی مردا پڑا ہوا ہو، جس نے سب کچھ کھو دیا ہو۔ میری طرف دیکھ کے اس نے بغیر کسی ایموشن کے صرف اتنا کہا۔
سمیر آئے گا تو اس کو کہہ دینا کہ میں نے شادی کرنی ہے وہ چاہے جس سے بھی کروا دو میں تم دونوں کی زندگی سے چلی جاؤں گی۔
اس وقت جیسے مجھے ہوش آگیا ہو، مجھے وہ وقت یاد آیا جب سونیا اور سمیر آپس میں چدائی کر رہے تھے اور وہ کتنے پریمی لگتے تھے۔
مجھے یاد آیا کہ مجھے اتنا غصہ آیا تھا ان پہ، مگر اس کے باوجود میں غصے میں بھی دیکھ سکتی تھی کہ سونیا سمیر کو اپنے پیار سے نہار رہی ہوتی تھی۔
اور وہ ایک جوانی کے پیار کا اظہار کر رہے تھے، ان کا وہ نظارہ اب میری یادوں میں پاپ کی بجائے ایک خوبصورت لمحے کی یاد بن چکا تھا۔
کہاں میں چالیس سال کی عورت اور کدھر ان دونوں کی خوبصورت جوڑی۔ مجھے اب ان کو جوڑی کہنا برا نہیں تھا لگ رہا۔
شام کو سمیر گھر آیا تو تو اس نے مجھے پیچھے سے آ کے اپنی باہوں میں لے لیا، سونیا نے کن انکھیوں سے ہمیں دیکھا اور پھر منہ پھیر لیا دوسری طرف۔ لیکن آج میرا موڈ کچھ اور ہی تھا۔
میں نے اس کو دھکا دے کے اپنے سے دور کیا تو وہ سوالیہ نظر سے میری طرف دیکھنے لگا۔
میں نے اس سے کہا: تو یہی تمہارا کام ہے کہ تم کسی سے وعدہ کرو اور جھوٹے خواب دکھاو اور پھر کچھ دیر بعد اپنے کیے وعدے کو بھول جاؤ؟ کل کو میرے ساتھ بھی ایسا ہی کرو گے؟
کون سا وعدہ؟ اس نے حیرانی سے پوچھا۔
میں نے کہا، تم نے جو وعدہ سونیا سے کیا تھا، کہ تم سونیا سے شادی کرو گے اور اس کی گود میں بچہ ڈالو گے۔ تم اسے شادی کہتے ہو؟
آپ کو کس نے بتایا ہے یہ بچے کا؟ اس نے سونیا کی طرف غصے سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
میں نے خود سنا تھا اور مجھے یاد ہے مجھے کتنا عجیب لگا تھا لیکن اب میں اب اس وقت کو یاد کرتی ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ کاش وہ بات ٹھیک ہو گئی ہوتی تو اس گھر میں کتنی خوشی ہوتی۔ مگر آج ہر کوئی ایک دوسرے سے تنگ آیا ہوا ہے۔
سونیا بھی عجیب نظر سے میری طرف دیکھ رہی تھی کہ آج مجھے کیا ہو گیا ہے۔
ماں! چلو کمرے میں ہم اکیلے بات کرتے ہیں اس پہ؟ سمیر نے مجھے کہا۔
تو میں نے اسے کہا، نہیں!! میں نے بس سوچ لیا ہے کہ تم اب سونیا کہ ساتھ ہی سویا کرو اسی لیے مجھے بھی شامل کیا تھا نا اپنے اس کھیل میں؟ اگر اسے لگے کے وہ کسی وجہ سے تمہاری سیکس کی طلب کو پورا نہیں کر سکتی تو پھر میرے پاس آ جانا۔ وہ بھی سونیا کی اجازت کے ساتھ۔
مگر ماں ۔۔۔۔
میں نے اپنا ہاتھ اٹھا کر اسے اشارہ کیا اور وہ چپ ہو گیا۔ آج کتنے عرصے بعد مجھے فیل ہوا جیسے میں ان کی ماں ہوں ۔ وہ پھر خاموش ہو گیا۔
مگر پھر بھی شاید سمیر کی ضد تھی یا مجھ سے ناراض تھا کہ وہ کچھ دن کسی کے پاس نہیں گیا نہ میرے پاس نہ سونیا کے پاس۔
کچھ دن بعد سمیر کے آنے کا ٹائم تھا تو میں کچن میں کھانا بنا رہی تھی کہ مجھے کسی نے پیچھے سے آ کے باہوں میں لے لیا۔
مجھے لگا کہ شاید سمیر ہے اس لیے میں نے اس کو پیچھے کرنے کے لیے کوشش کی لیکن پھر میں نے مڑ کر دیکھا کہ وہ تو سونیا تھی، میں نے آگے بڑھ کے اس کو اپنے ساتھ چپکا لیا۔
مجھے اپنے دل میں ایک ٹھنڈک کا احساس ہوا۔ ہمیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی ہم صرف ایک دوسرے کو اسی طرح تھامے کھڑے رہے۔
کچھ دیر بعد ہی ہمیں کسی کے قدموں کی احساس ہوا تو ہم نے جلدی سے ایک دوسرے کو ایک دوسرے کو چھوڑا اور دیکھا سمیر ہماری طرف ہی دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔
اگلے ہی لمحے وہ ہمارے پاس آیا ہے اور جلدی سے سونیا کا ہاتھ پکڑ کر کھینچتا ہوا کچن سے باہر لے گیا۔ میں نے تقریبا گھنٹے بعد جا کے ان کو کھانے پر بلانے کے لیے دیکھا تو وہ ایک دوسرے میں کھوئے ہوئے تھے۔ اور سمیر بہت ہی آہستہ آہستہ سے اسے سٹروک لگا رہا تھا۔ ان دونوں کی زبانیں آپس میں مل کر ایک دوسرے کی گرمی کو اپنے اندر سمانے میں مصروف تھیں۔
لگتا تھا یہ ان کا دوسرا راونڈ تھا اس لیے ان کو چھوٹنے کی جلدی نہیں تھی۔
میں نے ان کو ڈسٹرب کرنا مناسب نہ سمجھا اور کھانا لگانے لگی۔ آدھے گھنٹے بعد وہ دونوں ہاتھ تھامے آئے اور آکر بغیر کوئی بات کے کیے کھانا کھانے لگے۔
آج سونیا کے چہرے پر چھائی ہوئی خوشی دیکھ کر مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا اور میں سوچ رہی تھی کہ اب جو بھی ہو، ان دونوں کے بیچ میں کبھی نہیں آوں گی، اور سمیر کو بہانہ کر دوں گی کہ اب میرے جسم میں اتنی ہمت نہیں کہ اس کا ساتھ دے سکے۔ میں اپنی بیٹی کی خاطر اپنی چوت کی آگ کو جلتا رہنے کی قربانی دینے کو تیار تھی۔
ادھر سونیا بھی شاید انہیں سوچوں میں گم تھی، کیونکہ کھانا ختم کرنے کے بعد وہ اٹھتے ہوئے مجھ سے کہنے لگی، ماں ہفتے میں دو تین دفعہ میری طبیعت خراب ہو جاتی ہے تو اگر تب آپ میری جگہ ایک بہت ضروری کام کر دیا کرو گی تو آپ کی بہت مہربانی ہوگی۔
میرے جواب دینے سے پہلے سمیر کہنے لگا: کیا ہوا؟ کل ہی میں ڈاکٹر کے پاس لے کے جاتا ہوں مجھے بتایا کیوں نہیں پہلے۔۔۔۔؟
مجھے سونیا کی بات سمجھ آ گئی تھی کہ وہ کیا اشارہ کر رہی ہے، اس لیے ہم دونوں سمیر کی بات جواب دینے کی بجائے اس پر مسکرا دیے۔ ادھر میری بیٹی نے بھی شاید سوچ لیا تھا کہ پیار بانٹنے سے بڑھتا ہی ہے، کم نہیں ہوتا۔ میرے چہرے پر بھی مسکراہٹ چھا گئی۔
میں نے سونیا کا ہاتھ تھام کر کہا، اگر میں تمہاری اس کام میں مدد کر دوں تو یہ مجھ پر احسان ہوگا تمہارا۔
سمیر ابھی بھی پریشان سا ہو کر ہمیں دیکھ رہا تھا۔
جب میں اگلی دفعہ سونیا کی مانگی ہوئی مدد کروں گی تو اس کو سمجھ لگ جائے گی کہ ہم کیا بات کر رہے تھے۔
ہوم
/ میں اور میرے بیٹا بیٹی
ایک تبصرہ شائع کریں for "میں اور میرے بیٹا بیٹی"