اس گاؤں میں سب لوگ زیادتر زمینداری کر کے اپنی گزر بسر کرتے تھے۔
ادر ایک خاندان رحمت موچی کا بھی تھا۔ رحمت کی عمر 55 سال کی تھی۔ اُس کی بیوی شریفہ بی بی کی عمر اُس وقت اندازن 50 سال ہو گی۔
ان کے 5 بچے تھے۔ سب سے بڑی لڑکی مختار بی بی تھی۔ جس کی عمر اُس وقت 25 سال تھی۔ اُس کے بعد اسمت بی بی تھی۔ جس کی عمر 23 سال پھر ریحانہ بی بی 21 سال پھر ایک بیٹا تھا۔ جس کا نام وقاص حسین تھا اور اس کی عمر 19 سال اور سب سے آخر میں زکیہ خانم تھی۔ جس کی عمر اُس وقت ابھی صرف ** سال کی تھی۔
زکیہ اپنی تینوں بڑی بہنوں سے مختلف اور پیاری تھی۔ وہ بے حد حسین نہ صحیح لیکن وہ پرکشش ضرور تھی۔ اُس کا جسم دبلا پتلا مگر گرم اور نشیلا تھا۔
جوان ہوتے ہوئے سینے پر چھوٹے چھوٹے ممے تھے۔ جن کی نرمی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا۔ پتلی سی کمر، بھرپور سدول جانگھیں اور سب سے بڑی بات اُس کی مست کرنے والی چال تھی۔ زکیہ کے قد اونچا تھا اور اُس کے بال کافی لمبے تھے۔ جو کہ اُس کی چھوٹی سی گند تک آتے تھے۔
زکیہ اور اُس کا بھائی وقاص حسین ہی اپنے گھر میں دو ایسے فرد تھے جو کہ کچھ پڑھے لکھے تھے۔ اُس کا بھائی میٹرک پاس کر چکا تھا جب کہ زکیہ نے ابھی ابھی مڈل کلاس کا امتحان دیا تھا۔
بابا رحمت موچی کا خاندان بہت ہی غریب تھا۔ بابا رحمت گاؤں کے لوگوں کے جوتے اور چپل سی کر اپنی روزی روٹی چلارہا تھا۔ اُن کی گزر بسر بہت ہی مشکل سے ہو رہی تھی۔ وہ کبھی کبھی دن میں صرف ایک وقت ہی کھانا کھاتے۔
بابا رحمت موچی کی بیٹیاں جوان ہو کر شادی کی عمر کو پونچھ رہی تھیں۔ اُن کی شادی اور جہیز کے لئے ہونے والے خرچ کا سوچ کر بابا رحمت اور اُس کی بیوی شریفہ بی بی دونوں بہت پریشان تھے۔
اسی گاؤں میں ایک 42 سالہ زمیندار چودھری اکرم گجر بھی تھا۔ چودھری اکرم کے ماں باپ دونوں فوت ہو چکے تھے۔
اکرم اپنی ماں باپ کی ایک لوٹی اولاد ہے۔ اُس نے اب تک شادی نہیں کی ہی۔ اُس کو جوا کھیلنے اور گشتی عورتوں کو چھوڑنے کی لت لگی ہوئی تھی۔
جس کو پورا کرنے کے لئے وہ اپنی جدی پشتی زمین آہستہ آہستہ بیچ رہا تھا۔
چوہدری اکرم زیادہ طار وقت گاؤں سے باہر بنے اپنے ڈیڑھی پر ہی گزرتا تھا۔ رحمت موچی کا بیٹا وقاص حسین چودھری اکرم گجر کے ڈیرے پر کام کرتا تھا۔
اج دو دن سے وقاص ڈیرے پر نہیں آیا تھا۔ اس کے یوں بغیر وجہ بتائے نہ آنے سے چوہدری اکرم بہت غصے میں تھا اور وہ وقاص کا پتہ کرنے آج کافی دنوں بعد اپنے ڈیرے سے گاؤں کی طرف چل پڑا۔
بابا رحمت موچی کے گھر کے باہر پہنچ کر اکرم نے دروازہ کھٹ کھٹائی۔
چوہدری اکرم کا غصہ بابا رحمت کی بات سن کر تھوڑا ٹھنڈا ہوا۔
چوہدری اکرم نے تھوڑی دیر بابا رحمت کی دعوت تلنے کی کوشش مگر بابا رحمت کے اصرار پر چائے پینے کے لئے مان گیا۔
چوہدری اکرم اور بابا رحمت ساتھ ساتھ چلتے بابا رحمت کے گھر داخل ہوئے۔ اکرم آج گندیزگائی میں پہلی بار بابا رحمت کے گھر کے اندر آیا تھا۔
رحمت موچی کا گھر کچی اینٹوں اور گارے سے بنے ہوئے دو کمروں پر مشتمل تھا۔ ان دو کمروں کے درمیان ایک چھوٹا سا سیحان تھا۔
چوہدری اکرم سےہیان میں پڑی ایک چارپائی پر بیٹھ گیا جو رسی سے بُنی ہوئی تھی۔ ان کے بیٹھتے ہی رحمت موچھا نے آواز لگائی، “زکیہ بیٹی چائے تو پلانا۔”
زکیہ سہیان کے ایک کونے میں بنے ایک چھوٹے سے لکڑیوں والے چولے کے پاس بیٹھی تھی۔ وہ ہمیشہ کی طرح آج بھی اپنے گھر کے کام کاج میں مصروف تھی۔
وہ چائے دو پیالوں میں ڈال کر آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اپنے باپ اور چوہدری اکرم کی طرف آئی۔ اتنے میں ہوا تھوڑی تیزی سے اڑی۔
چائے کے پیالے دونوں ہاتھوں میں ہونے کی وجہ سے زکیہ اپنے دوپٹے کو سنبھل نہ سکی اور وہ اس کے سر سے اوڑ کا زمین پر گرا۔
زکیہ اس وقت قیامت دھا رہی تھی۔ دوپٹے کے بغیر اس کے نرم نرم مکھن جیسے 32 سائز کے چھوٹے چھوٹے ممے اُبھرے ہوئے تھے اور اس کا جسم دکھ رہا تھا۔
زکیہ کی شلوار پرانی اور بار بار دہونے کی وجہ سے سوکر کر کافی چھوٹی ہو چکی تھی اور نیچے سے اس کی مست گوری ٹانگوں کا نظارہ بھی صاف نظر آ رہا تھا۔
چوہدری اکرم زکیہ جیسی ایک معصوم لڑکی کو جو وقت سے پہلے ہی جوانی کی دھیلیز میں قدم رکھ چکی تھی۔ بس دیکھتا ہی رہ گیا۔
زکیہ میں کچھ ایسی بات تھی جو چودھری اکرم گجر جیسے 42 سال کے آدمی کو بھی مدہوش کر گئی۔ زکیہ نے چائے کا ایک پیالہ اپنے باپ کو دیا اور دوسرا کانپتے ہاتھوں سے چوہدری اکرم کی طرف بڑھایا۔
چوہدری اکرم نے محسوس کیا کہ اس کمسن جوانی کے ہاتھ اُسے چائے پکڑتے ہوئے کانپ رہے ہیں۔
چوہدری اکرم کا واسطہ ہمیشہ پکی عمر کی رنڈی عورتوں سے پڑا تھا جن میں ججک اور شرم نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔
اس لئے چوہدری اکرم کو زندگی میں پہلی بار ایک لڑکی کا ایس طرح شرمانا اور جھجکانا بہت اچھا لگا۔
چوہدری اکرم زکیہ کو بڑی گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اکرم کا یوں دیکھنا زکیہ کو بڑا ہی ناگوار گزرا۔
وہ اُس کو چائے کا پیالہ پکڑ کر فوراً اپنے زمین پر گرے ہوئے دوپٹے کی طرف بڑھی۔ زکیہ نے اپنے دوپٹے اٹھایا اور تیز تیز قدموں سے گھر کے ایک کمرے میں چلی گئی۔
زکیہ، چوہدری اکرم کے دل کو پاگل کر گئی تھی۔ اُس کا کمسن معصوم حسن چودھرے کو بہت بہا گیا تھا۔
اکرم، زکیہ کے دوبارہ دیدار کے لئے تھوڑی دیر بیٹھ کر بابا رحمت سے ادر اُدر کی باتیں کرتا رہا۔ مگر زکیہ پھر باہر نہیں آئی۔
اکرم مایوس ہو کر بابا رحمت سے اجازت لی اور اپنے ڈیرے پر آ کر اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ شام کا اندھیرا گہرا ہو گیا تھا۔
اکرم اپنی چارپائی پر پڑا کچھ سوچ رہا تھا۔ چوہدری اکرم کی زندگی میں ایسا معاملہ پہلی بار پیش آیا تھا۔
وہ سارا وقت زکیہ کے بارے میں سوچتا رہا۔ زکیہ کا نرم انتہائی بدن اُس کے ہوش و حواس پر چھایا ہوا تھا۔ اُسے بار بار رہ رہ کر اُس موہنی سی گوری گوری گڑیا کی یاد آ رہی تھی اور یہی سوچتے ہوئے وہ بے اختیار اپنے لنڈ کو کھجلانے لگا۔
اس بات کے باوجود کہ چوہدری اکرم اور زکیہ کی عمر میں بہت فرق تھا مگر پھر بھی زکیہ کو دیکھتے ہی اکرم نے جیسے اپنے دل میں فیصلہ کر لیا تھا۔ وہ یہ کام کس طرح اور کیسے کرے اُس بارے میں سوچتے چوہدری اکرم نیند میں چلا گیا۔
اُس دن کے بعد چھوٹے اکرم بہانے بہانے سے بابا رحمت موچی کے گھر جانے لگا۔
لیکن اُس کو زکیہ کا دیدار پھر نصیب نہ ہوا۔ کیونکہ جب بھی وہ زکیہ کے گھر جاتا، زکیہ یا تو گھر ہی نہ ہوتی یا پھر اُس کے سامنے نہ آتی۔
اکرم کو زکیہ کا دیدار نہ پا کر بہت سخت بے چینی محسوس ہونے لگی۔
تو وہ اکثر رات کو (اپنے دل اور لن کے ہاتھوں مجبور ہو کر) زکیہ کے گھر کی دیوار کے پاس آ کر زکیہ کے گھر میں جھانکنے لگتا۔
راتیں اندھیری بھی بہت تھیں اور سخت سردی بھی تھی لیکن پھر بھی اکرم کو زکیہ کے گھر میں جھانکتے ہوئے ٹھنڈے پسینے آ جاتے تھے۔
زکیہ کا گھر ترقی میں ڈوبا ہوا ہوتا تھا۔ اکرم کا دل چاہتا کے ابھی دیوار پھلانگ کر زکیہ کے گھر چلا جائے اور اس پری کو چھوڑ کر رکھ دے۔ مگر اس میں ایسا کرنے کی کبھی ہمت نہ پڑی۔
چھوٹے اکرم اپنے جوا کھیلنے کی عادت کی وجہ سے اپنی زاتی زمین بیچ کر کھا چکا تھا۔ اُس کے پاس اب صرف دیرے والی زمین اور گاؤں میں ایک مکان رہ گیا تھا۔
چھوٹے اکرم کے کچھ دوست امریکا میں رہتے تھے۔ اکرم نے ان سے امریکا کے بارے میں کافی کچھ سن رکھا تھا۔ کہ ادر لوگ تھوڑی سی محنت کر کے کافی پیسہ کماتے ہیں۔
زکیہ نے پتہ نہیں اکرم کے دل و دماغ پر کیا جادو سا کر دیا کہ اُس نے جوا کھیلنا اور رنڈی عورتوں کو چھوڑنا بند کر دیا۔
ویسے بھی اب اکرم کے پاس اپنے باپ دادا کی دی ہوئی دولت ختم ہونے لگی تھی تو اُس نے امریکا چلے جانے کا ارادہ کر لیا۔
اُس نے ایک دفعہ امریکا کا ویزا حاصل کرنے کی کوشش کی مگر اُس کا ویزا ر reject ہو گیا۔ اُس کے بعد اکرم نے چودھری ظفر نام کے ایک آدمی سے رابطہ کیا۔ چودھری ظفر فیصل آباد کا رہائشی تھا۔
چودھری ظفر ایک انسانی اسمگلر تھا اور جعلی پاسپورٹ پر بندے بیروں کے ملکوں میں بھیجتا تھا۔
اکرم نے چودھری ظفر کو امریکا جانے کے لئے پیسے دیے تاکہ وہ پی سی (یعنی ایک آدمی کے پاسپورٹ پر کسی اور کی فوٹو لگا کر) غلط طریقے سے امریکا جا سکے۔
ایک دن اکرم کو چوہدری ظفر کے آدمی کا فون آیا کہ وہ فوراً کراچی پہنچے کیونکہ اُس کا امریکا جانے کے لیے پاسپورٹ اور ٹکٹ تیار ہے۔
اکرم نے جلدی سے وقاص کو بلایا اور دیرے کی چابیاں اُس کے حوالے کیں اور اُس کو ضروری ہدایت دی کر چوہدری اکرم خود پہلے کراچی اور پھر وہاں سے نیو یارک امریکا روانہ ہو گیا۔
نیو یارک میں کچھ عرصہ فیلیگ رہنے کے بعد اکرم کو ایک گیس اسٹیشن (پٹرول پمپ) پر گاڑیوں میں گیس (پٹرول) ڈالنے کی نوکری مل گئی۔
یوں اپنے گاؤں کا ایک “چودھری” پردیس میں آ کر ایک معمولی سی نوکری پر لگ گیا۔
اس وقت امریکا میں پریزیڈنٹ ریگن کی حکومت تھی۔ اور ریگن نے غیر قانونی امیگرنٹس کے لئے 1986 میں ایک امنسٹی قانون پاس کیا تھا۔
جس کے مطابق کوئی بھی آدمی جو 1982 سے پہلے امریکا میں رہ رہا تھا امریکن ورک پرمٹ کے لئے درخواست کر سکتا تھا۔
اکرم نے جیسے یہ خبر سنی تو اُس نے اپنے ایک دوست سے رابطہ کیا۔ جو کہ امریکا کی ویسٹ کوسٹ کے ایک زراعتی شہر بیکرزفیلڈ میں رہتا تھا۔
اس دوست نے ایک گورے کو $500.00 ڈالر دے کر اکرم کے لئے کچھ پیپرز خریدے اور اس طرح اکرم کا امریکا کا ورک پرمٹ بن گیا۔
سال 1987
امریکا میں رہتے ہوئے اکرم کا وقاص سے خط کے ذریعے رابطہ قائم رہا اور اکرم کو گاؤں اور تھوڑا بہت وقاص کے گھر والوں کی خبر ملتی رہی۔
امریکا میں جوا، شراب اور شباب کی فروخت ہونے کے باوجود اکرم نے اس طرح کے کسی کام میں دلچسپی نہیں لی۔
بلکہ اس نے ان دو سالوں میں گیس اسٹیشن پر 16 سے 18 گھنٹے روزانہ کام کر کے کافی ڈالر جمع کر لیے۔
جب اکرم کو ورک پرمٹ مل گیا تو اُس نے دو مہینے کے لئے پاکستان جانے کا پروگرام بنایا۔ اکرم کی ابھی یو ایس امیگریشن سے کنڈیشنل ورک پرمٹ ملا تھا اور اُس کو امریکا سے باہر سفر کرانے کے لئے امیگریشن سے اجازت لینی ہوتی تھی۔
اکرم نے اجازت کے لئے اپلائی کیا تو اُس کو دو مہینے میں واپس یو ایس میں داخل ہونے کی اجازت مل گئی۔
اکرم کے ماں باپ تو کافی عرصہ ہوا فوت ہو چکے تھے۔ اُس کا کوئی بہن بھائی بھی نہیں تھا اور اکرم کی اپنے دوسرے رشتے داروں سے ویسے بھی خاندانی دشمنی تھی۔
اس لئے اُس کے پاکستان واپس آنے کی نہ تو کسی کو خبر تھی اور نہ کسی کو پروا۔
اکرم نے اسلام آباد ائیرپورٹ سے ٹیکسی کرایا اور اپنے گاؤں کی طرف چل پڑا۔ راستے میں کھاریاں/ڈنگہ روڈ پر ایک ڈرائیور ہوٹل سے اکرم اور ٹیکسی ڈرائیور کھانا کھایا۔
جب وہ گاؤں کے باہر بنائے اپنے ڈیرے پہنچا تو اُس وقت تک رات کافی ہو چکی تھی۔
راستہ نہ ہونے کی وجہ سے ٹیکسی ڈیرے پر نہیں جا سکتی تھی۔ اس لئے اکرم ڈیرے سے کچھ فاصلے پر ہی ٹیکسی سے اُتر گیا۔
اُس نے ٹیکسی میں سے اپنا سامان نکال کر ٹیکسی والے کو کرایہ دے کر اُس کو فارغ کر دیا اور خود ڈیرے کی طرف پیدل چل پڑا۔
ڈیرے پر اُس وقت کوئی نہیں تھا اور ڈیرے پر بنائے ہوئے کمروں کو تالا لگا ہوا تھا۔ ان دو کمروں میں سے ایک ہی چابی اکرم کے پاس اُس کے سامان میں تھی۔
اکرم نے بیگ زمین پر رکھ کر اُس میں سے اپنی چابی تلاش کرنے لگا۔
کمروں کے ساتھ ہی جانور باندھنے والا کمرا بنا ہوا تھا۔ اکرم کوس جانور باندھنے والے کمرے میں سے کچھ آوازیں آئیں۔
ایک تبصرہ شائع کریں for "مجبوری کا فیصلہ"