Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

تڑپتی پھڑکتی جوانیاں


میرا نام افتخار ہے میری عمر 30 کے لگ بھگ ہے مجھے سب افی کے نام سے پکارتے ہیں میں آج آپ کو اپنی کہانی سنانے جا رہا ہوں میں پاکستان کے ایک گاؤں کا رہائشی ہوں میں اب کینیڈا میں رہائش پذیر ہوں میں اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا ہوں میرے والد قدرتی طور پر کالے رنگ کے اور موٹے نین نقش کے مالک تھے اس لیے میں بھی والد کی طرح کالے رنگ کا ہوں لیکن میرے نین نقش والدہ کی طرح ہیں میرا قد چھ فٹ کے قریب اور جسم بھی کافی طاقتور اور توانا چونکہ گاؤں سے تعلق ہے تھوڑی بہت زمین اور ساتھ میں والد نے جانور بھی پال رکھے تھے اس لیے گاؤں کی خوش خوراکی اور جبلت میں بھی بھرپور مردانگی ملی جس وجہ سے کافی تندرست و توانا جسامت کا مالک ہوں ابھی تک غیر شادی شدہ ہوں گاؤں میں چند گھر ہی رشتہ دار تھے ان میں سے ایک گھر ماموں نواز کا بھی تھا ماما نواز امی کا دور کا رشتہ دار تھا اس لیے میں اسے ماما ہی کہتا تھا ماما نواز کی بھی تھوڑی سی زمین تھی جس پر وہ کام کرتا تھا ساتھ میں کچھ مزارہ بھی کرتا تھا نواز کے پانچ بچے تھے سب سے بڑی بیٹی کا نام نصرت تھا جو مجھ سے لگ بھگ دو سال بڑی تھی نصرت بچپن میں اکثر ہمارے گھر رہتی جس سے اس کی اور میرے درمیان بہت بے تکلفی تھی ہمارے درمیان دوستی اور پیار کا ایک عجیب سا رشتہ تھا اتنی چھوٹی عمر میں کچھ پتا تو نا تھا پر ہماری ایک دوسرے سے بہت اچھی دوستی تھی ہم مل کر کھیلتے مل کر سکول جاتے نصرت بہت ہی اچھی اور لائق بچی تھی لڑکوں اور لڑکیوں کا سکول ساتھ ساتھ ہی تھے اس لیے وہ مجھے سکول ساتھ ہی لے جاتی وہ مجھ سے دو سال بڑی تھا اسے گھر والے مجھ سے زیادہ سمجھدار سمجھتے تھے اور شاہد میں تھا بھی اکلوتا اس لیے میرا خیال رکھنے کی ڈیوٹی بھی نصرت کے ذمے تھی اس لیے وہ مجھے ساتھ لے جاتی اور لاتی بھی ساتھ پانچویں کے بعد نصرت تو ہائی سکول چلی گئی لیکن میں بھی سمجھدار ہو گیا تھا اس لیے اب اکیلا آنے جانے لگا لیکن نصرت اور میری دوستی اب بھی کم نہیں ہوئی تھی وہ اکثر ہمارے گھر آجاتی اور کافی دیر مل کر کھیلتے نواز کے دوسرے بچوں میں دوسرے نمبر پر مدثرہ تھی جو نصرت سے دو سال چھوٹی تھی مدثرہ سے دو سال چھوٹی ماہم تھی ماہم کے بعد نوشیر تھا اور پھر سب سے چھوٹا رافع تھا نواز اپنے پانچ بچوں کی پرورش بہت ہی اچھے انداز میں کر رہا تھا وقت گزر گیا اور پتا ہی نا چلا تھا ہم جوان ہو گئے تھے لیکن ہمارے درمیان اب بھی بے تکلفی اسی طرح تھی کبھی کوئی غلط خیال نا آیا نا کسی نے ہمارے بارے میں سوچا نصرت میٹرک کر چکی تھی اور گیارہویں میں داخلے کی خواہش کر رہی تھی نصرت کافی سمجھدار اور لائق تھی میٹرک میں اچھے نمبر لیے تھے وہ آگے پڑھنا چاہتی تھی پر کالج شہر میں تھا اور پھر گاؤں کی کوئی لڑکی اب تک کالج نہیں گئی تھی وہ جانا چاہتی تھی لیکن اس کا باپ روائتی تھا جو بیٹی کو باہر نکالنے سے ڈرتا تھا پر وہ بیمار بھی تھا اور شہر آنے جانے کے مسائل بھی تھے انہی دنوں میں نواز کا انتقال ہو گیا اور نصرت کے سارے ارمان پانی میں بہ گئے کچھ عرصہ تو آس پاس اور رشتہ داروں نے سنبھالا دیا لیکن لمبی کافی بڑا تھا ابو نے بھی ان کی زمین سنبھالنے کی کوشش کی اس دوران رشتہ داروں نے گھر والوں کو ایک مرد جس کا نام گلشیر تھا کا سہارا دینے کےلئے نصرت کی شادی ایسے بندے سے کر دی جو عمر میں نصرت سے تین گنا بڑا تھا نصرت 16 17 سال کی تھی اور وہ 35 40 سال کا نصرت جیسی کلی نے اس بڑی عمر کے شخص سے شادی کی مخالف تو کی پر مجبوراً نصرت کو اس کے ساتھ جانا ہی پڑا گھر کی اور بہن بھائیوں کی خاطر اسے یہ قربانی دینا پڑی نصرت سمجھدار بھی تھی اور پڑھیں لکھی اسے اپنے گھر کا احساس تھا نصرت کی شادی کے ایک سال بعد اس کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی اس کا نام وجہہ رکھا گیا پھر وقت گزرنے لگا نصرت کے ہاں ایک اور بیٹی بھی پیدا ہوئی جس کا نام زرناب تھا پھر وقت پر لگا کر گزرنے لگا میں میٹرک کے بعد کالج چلا گیا میرا آنا جانا بھی کم ہو گیا نصرت سے کبھی کبھار ملاقات ہو جاتی وہ بھی بڑی ہوگئی تھی پھر اسے دو گھروں کے کام کرنے پڑتے تھے کچھ سالوں میں میرے والدین کا بھی انتقال ہوگیا اور میں شہر میں رشتے داروں کے پاس رہنے لگا وہاں گریجویشن کی اور سٹڈی ویزہ پر لیندے جانے کا پلان بنا کر اپنی گاؤں والی زمین بیچ کر کینیڈا چلا گیا وہاں کچھ عرصہ ملازمت کی پھر ایک ہوٹل کا کام شروع کیا اور اپنا سارا وقت اسے دے دیا پتا ہی نا چلا وقت پر لگا کر ایسے اڑا کہ دس 12 سال گزر گئے ایک چھوٹا سا ہوٹل اب پوری ایک چین میں بدل چکا تھا کینیڈا کے امیر پاکستانیوں میں شمار ہونے لگا وہیں ایک پاکستانی فیملی کی لڑکی سے شادی بھی ہو گئی جس سے دو بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا کچھ عرصہ پہلے ہی مجھے ایک نیا کام شروع کرنا تھا جس کےلئے مجھے کچھ لوگوں کی ضرورت تھی اس لیے میں نے پاکستان واپس آنے کا پلان بنایا کیونکہ میرا ارادہ تھا اب اپنے گاؤں کے لوگوں کی زندگی بدلنے کا میں اپنے نئے کام میں اپنے لوگوں کو شامل کرنا چاہتا تھا اس لیے واپس آیا کچھ دن تو شہر میں رہا اور پھر گاؤں چکا آیا گاؤں اب کافی بدل چکا تھا اس وقت بھی لوگ پکے گھر بنا رہے تھے پر کچھ کچے مکان تھے جو اب ختم ہو چکے تھے ان کی جگہ بھی پکے بن چکے تھے پکی گلیاں نالیاں سولنگی اب گاؤں جدید اور پھیل چکا تھا میں کافی عرصہ باہر رہا اس لیے گاؤں کے بچے اور نوجوان مجھے کم ہی جانتے تھے لیکن میری عمر کے اور بڑے لوگوں نے میر خوب آؤ بھگت کی اپنے پرانے لوگوں میں آکر میں بہت خوش تھا اپنے لوگوں کے ساتھ وقت بڑی رفتار سے اور بہت خوبصورت گزر رہا تھا مجھے نصرت اب بھی یاد تھی یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ میں اسے بھول جاتا اس سے میرا تو خاص تعلق تھا وہ شاید مجھے بھوک گئی ہو تو الگ بات ہے یہ زندگی ہے ہی ایسی چیز اپنی رعنائیوں میں گم کرکے بڑے بڑے دوست اور پیارے بھلا دیتی ہے دو تین دن تو نصرت کی طرف جانے کا وقت ہی نا ملا کچھ میں خود بھی جھجھک رہا تھا کہ پتا نہیں اب کتنی تبدیلیاں آ گئی ہوں گیں کوئی پہچانے گا کہ نہیں روز جانے کا سوچتا پر پتا نہیں جا نا سکا ایک دن شام سے پہلے شہر جا رہا تھا میرے پاس ہنڈا سوک تھی میں جب چوک میں پہنچا تو چوک میں مجھے ایک پتلا سا لمبے قد کا لڑکا نظر آیا ہلکے سے گردن تک لمبے گھنگریالے بال اور ہلکی ہلکی مونچھیں داڑھی صاف میری نظر اس پر پڑی تو میں اس کے پاس جا کر گاڑی روک دی شکل سے پہچانا لگ رہا تھا مجھے لگا کہ یہ نوشیر ہے میں نے اس کے پاس گاڑھی روک کر شیشہ نیچے کیا تو اس نے مجھے پہچاننے کے انداز میں دیکھا اور جھک کر اندر دیکھا میں نے مسکرا کر دیکھا اور بولا توں نوشی ہیں مامے نواز دا پتر وہ مسکرا کر ہاں جی تسی افی بھائی ہو میں ہنس دیا اس وقت نوشی بہت چھوٹا تھا اب تو بہت بڑا ہو گیا میں گاڑھی سے اتر آیا اور اسے جپھی ڈال کر سینے سے لگا لیا میں بولا ہاں میں آگی ہی آں وہ بہت خوش ہوا سلام دعا کے بعد وہ شکوے کے انداز میں بولا بھائی اے تے زیادتی ہے اتنے دن ہوگئے تسی آئے ہوئے ہو چکر ہی نہیں لایا میں مسکرا کر بولا بس یار ٹائم نہیں ملیا صبح لازمی چکر لیساں وہ بولا نہیں بھائی صبح تسی ہن ہی چکو میرے نال باجی تے تھواڈا روز پچھدی اے باجی کا سن مجھے بھی نصرت کو دیکھنے کا اشتیاق ہوا لیکن اب وقت نہیں تھا مجھے واپس کوئی کام تھا اور خالی ہاتھ تھا میں بولا نہیں یار نوشی ہن لیٹ ہورہی مینوں واپس جانا اے تے ہن خالی ہتھ اپنی بھین دے گھر جانا وی اچھا نہیں لگدا صبح سب تو پہلے گھر آساں وہ بولا افی بھائی ہن توں امیر ہوگیا ایں آگے تے ہر ویلے ساڈے گھر ہی ہوندا آئیں ہم وی او ہی گھر اے میں شرمندہ سا ہوگیا اور بولا نہیں یار اے گل نہیں ہن وی میرا اپنا گھر اے یہ کہ کر میں نوشی کو ناہ نا کرسکا اور اس کے گھر کی طرف چل پڑا نوشی کا گھر پاس ہی تھا اسی بازار کی آخری نکڑ پر تھا گھر کے پاس میں نے گاڑی کھڑی کی اور نکل آیا سامنے گھر تھا جہاں پہلے لکڑی کا دروازہ تھا اب اس پر گیٹ لگا تھا چھوٹا سا جو مالٹی کلر کا تھا اور رنگ پر زنگ لگ چکا تھا گیٹ بھی پرانا ہو چکا تھا نوشی اپنے کسی دوست کے پاس کھڑا ہوگیا میں نے دروازہ کھولا اندر داخل ہوگیا نوشی کا گھر اپنے پرانے کی جگہ نیا بن چکا تھا لیکن اسی طرح دو تین کمرے تبدیلی یہ تھی کہ نئی کیچن اور واشروم بنائے گئے تھے گے برآمدہ بھی تھا میں گھر کا جائزہ کے رہا تھا اس گھر سے میری بہت سے یادیں کڑی تھیں بچپن کی سب کچھ نظروں کے سامنے چلنے لگا تھا اتنے میں میری نظر سامنے گئی جہاں ٹوٹی تھی اس پر جھک کر ایک سولہ سترہ سال کی لڑکی پانی بھر رہی تھی لڑکی دوپٹے کے بغیر تھی اور اس نے گت کر رکھی تھی اور اس کی گت آگے لٹک کر اس پر بہت خوبصورت لگ رہی تھی اس کی جسامت زیادہ موٹی نہ تھی پتلی سی گانڈ باہر کو نکل کر دلکش نظارہ دے رہی تھی دروازے کے کھٹکنے پر اس لڑکی نے اپنی گت کو جھٹکا دے کر پیچھے لہراتی ہوئی کمر پر پھینکتی ہوئی مڑ کر دیکھا تو سامنے مجھے دیکھ کر وہ چونک سی گئی اس نے مجھے پہلی بار دیکھا تھا میں کافی تگڑا اور لمبے قد کا اوپر سے رنگ بھی سانولا تھا وہ دیکھ کر ایک بار تو گھبرا سی گئی کہ میں کون ہوں اس لڑکی کی شکل اور نین نقش بالکل نصرت کی طرح کے تھے اسے دیکھ کر ایک بار توو میں چونک گیا مجھے لگا نصرت کا بچپن لوٹ آیا ہے اس نے ایک لمحے کےلئے مجھے نظر اٹھا کر سر تا پاؤں دیکھا تو اس کی گھبراہٹ ایک لمحے کےلئے کچھ کم ہوئی اور اس نے بڑے کانفیڈنس سے مجھے گھورا جیسے میرے اندر سے کچھ تلاش کر رہی ہو میں جینز اور ٹی شرٹ میں تھا جس میں میری باڈی نظر آرہی تھا میرا جسم کافی فٹ اور خوبصورت تھا اس کی گہری موٹی آنکھیں میرا جسم ٹٹول رہی تھیں اس کی نظر بار بار میرے جسم پر گھوم رہی تھیں جس سے میں سمجھ گیا کہ اس کی تلاش کیا ہے اور مجھ میں کیا ڈھونڈ رہی ہے اتنے میں پیچھے سے نوشی داخل ہوا تو وہ اور میں سنبھل گئے میں بھی اس کے ہلکے ہلکے ابھرے مموں کو دیکھ رہا تھا جو زیادہ بڑے تو نہیں تھے پر نظر آ رہے تھے میں سمجھ گیا تھا کہ یہ نصرت کی بیٹی وجیہ ہے جو اس وقت ایک سال کی تھی اب کافی بڑی ہوگئی تھی وہ مجھے بھی اپنے مموں میں مدہوش دیکھ کر میرے ساتھ پینگھیں بڑھانے کی کوشش میں تھی نوشی کو دیکھ کر وہ سنبھل گئی میں بھی سنبھل گیا اور ایسے ظاہر کیا کہ میں گھر کو دیکھ رہا ہوں نوشی آگے بڑھا اور بولا افی بھائی اے باجی دی وڈی بیٹی وجیہ ہے وجیہ اے بھائی افی اے تیرا ماموں کینیڈا آلا یہ سن کر وجیہ کے چہرے پر ہلکی سی خوشی کی لہر سی دوڑ گئی اور وہ مسکرا دی میں بھی مسکرا دیا وہ میرے پاس آئی اور اپنا سر آگے کردیا میں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تو اس نے مسکرا کر اپنی موٹی آنکھیں میری آنکھیں میں گاڑھ کر مجھے سگنل دے دیا تھا اس کی گالیں لالی سے لا اور ہونٹوں پر مسکراہٹ سجی تھی میں سب سمجھ گیا تھا اور حیران بھی ہو رہا تھا کہ اتنی چھوٹی سی عمر میں وجیہ کو سب پتا تھا وجیہ مجھے مسکراتی ہوئی دیکھتی اندر کیچن میں چلی گئی نوشی بولا گھر ٹھیک بن گیا میں بولا صیح بن گیا اے اتنے میں اندر سے نصرت نکلی وہ دیکھنے آئی تھی باہر کون ہے وہ نکلی تو اس کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ چونک سی گئی میں آج اتنے عرصے بعد نصرت کو دیکھا تو حیرانی سے اسے ہی دیکھتا رہ گیا اس وقت تو شاید اتنی سمجھ نہیں تھی پر اب نصرت کے انگ انگ کو دیکھ کر ایک عجیب سی کیفیت ہو رہی تھی نصرت کا قد پہلے ہی ٹھیک ٹھاک تھا پر اب وہ کافی بڑی ہوگئی تھی نصرت دوپٹے کے بغیر تھی نصرت کا جسم بھرا بھرا سا لگ رہا تھا نصرت کے تنے ہوئے ممے ہوا میں اکڑ کر کھڑے تھے نصرت نے کسا ہوا قمیض ڈال رکھا تھا جو اس کے انگ انگ واضح کر رہا تھا نصرت کے موٹے چوتڑ بھی صاف نظر آ رہے تھے میں نے ایک نظر نصرت کے جسم پر گھمائی تو میں دنگ سا رہ گیا نصرت کہیں سے بھی شادی شدہ اور دو بچیوں کی ماں نہیں لگ رہی تھی وہ فل ہاٹ اور سیکسی جسم کی مالک تھی جو دس پندرہ سال پہلے تو اتنا نہیں تھا شاید اس عرصے میں اس نے وہ سب سیکھ لیا تھا جو اسے پتا نہیں تھا نصرت تو حیرانی سے مجھے ہی دیکھ رہی تھی جبکہ میں اس کے مست جسم کو غور رہا تھا اس کو بھی شاید اندازہ ہوگیا تھا میری نظر میں شہوت وہ صاف دیکھ چکی تھی لیکن نصرت نے فی الحال اس کو اگنور کرکے مجھے حیرانگی سے دیکھ رہی تھی نصرت نے بھی ایک لمبی گت کر رکھی تھی جو اس پر بھی جچ رہی تھی اتنے سالوں بعد نصرت تو بہت خوبصورت ہو گئی تھی میں اس کی بیٹی کو پہلے ہی دیکھ کر بے تاب سا ہو چکا تھا اب نصرت خود بھی قیامت ڈھا رہی تھی نصرت مجھے دیکھ کر بولا ہالنی اماں میں مر جاواں آج بڑے دناں بعد میرے بھرا نوں ساڈے گھر دا راہ لبھ پیا میں نصرت کی یہ بات سن کر شرمندہ سا ہوگیا اور کچھ بولا نا سکا نصرت پاس آکر میرے کاندھے پر ہاتھ پھیر کر بولی میرا بھرا بہوں امیر ہوگیا اتنے دن ہو گئے میں رستہ ویکھ رہی ہاس کہ توں آسیں پہلے ساڈے گھر میں شرمندہ سا ہوکر بولا نہیں ایسی گل نہیں بس کجھ مصروفیت ہی ایسی ہا کہ ٹائم ہی نہیں ملیا ہن آ نہیں گیا نوشی بولا باجی ہن وی میں لئیے آیاں اے تے آؤ ہی ناہ نصرت بولی اے ہن وڈا ہوگیا ناں ساڈے تے اس دی تک کیویں پوندی میں بولا ہلا ہن شرمندہ ہی کردا رہنا یا بہون دا وی اکھسو یہ کہ کر میں ہنس دیا نصرت نے گہری نظر سے مجھے مسکرا کر دیکھا میرے سر پر چپاٹ مار کر بولی الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے اور ہنس دی میں بھی نصرت کی چپاٹ سے ہلکا سا سر نیچے دبا دیا نصرت کے اٹھے ہوئے موٹے تازے ممے مجھے دعوت نظارہ دے رہے تھے میں رہ نہیں پا رہا تھا میری نظر بار بار نصرت کے ممے غور رہی تھی نیچے سر دبا کر میں نے نصرت کے مموں کے قریب ہو کر نصرت کے مموں کی ہلکی سے نظر آتی لکیر میں جھانکا اور اوپر ہوتے ہوئے میری نظر نصرت سے ملی تو وہ مجھے اپنے مموں کو غورتا دیکھ کر ہلکی سی مسکرا سی دی نصرت کی آنکھوں میں ہلکی سی لالی اتر چکی تھی اور نصرت کی پھولی ہوئی موٹی گالوں کا ماس مسکراہٹ سے اکٹھا ہوکر قابل دید نظارہ پیش کرنے لگیں پتا نصرت کو بھی لگ گیا کہ میں اس کے مموں کو تاڑ رہا ہوں اس لیے وہ بھی مسکرا سی گئی لیکن ابھی بھی اس نے خود کو ڈھانپا نہیں تھا وہ مڑی اور بولی آجا ایتھے بہ جا صحن میں پڑی چارپائیوں کی طرف اشارہ کیا نصرت کے گھومنے سے نصرت کے موٹے تنے ہوئے باہر کو نکلے چتڑ نظر آنے لگے میری نظر ان پر پڑی تو میں ان کو ایک بار تسلی سے گھورا نصرت میری طرف گھومی تو جلدی سے میں نے نظر چرا کر اس کو دیکھا سمجھ تو وہ بھی گئی کہ میری نظر کہاں تھی اس لیے وہ ایک لمحے کےلئے چپ سی ہوئی اور پھر مجھے دیکھ کر مسکرا گئی میں اس کے یوں انداز سے مسکرا کر شرما گیا نصرت بولی ایتھے بہ جا میں نے بیٹھتے ہوئے نظر اٹھا کر نصرت کو دیکھا تو نصرت بھی گہری آنکھوں سے مجھے ہی دیکھ رہی تھی نصرت جس چارپائی پر بیٹھ رہی تھی اس پر اسی کا دوپٹہ پڑا تھا شاید وہ دوپٹہ اتار کر کام کر رہی تھی گھر میں خواتین اکثر کام کرتے وقت دوپٹہ اتار دیتی ہیں نصرت کے پاس دوپٹہ پڑا تھا پر اس نے ابھی لیا نہی تھا میرے دل کی آواز مجھے بتا رہی تھی کہ شاید وہ مجھے اپنے ممے دکھانے کے لیے دوپٹہ نہیں لے رہی میں مسکرا کر اسے ایک نظر دیکھا تو وہ بھی ہلکا سا مسکرا دی نصرت کا گورا رنگ چمک رہا تھا ناک میں کوکے کا نشان بہت خوبصورت لگ رہا تھا پر اس میں کوکا نہیں تھا نصرت نے بیٹھتے ہوئے ایک نظر مجھے دیکھا اور دوپٹہ اٹھا کر اپنے اوپر لے لیا اتنے میں اندر سے آنٹی بھی نکل آئی آنٹی کافی بوڑھی لگ رہی تھی میں اٹھ کر آنٹی کو ملا تو آنٹی بڑی خوش ہوئی آنٹی میرے پاس بیٹھ گئی نوشی بھی پاس ہی بیٹھا تھا اتنے میں اندر سے پھر نصرت کی بیٹی وجیہ نکلی جسے دیکھ کر نصرت بولی اے وجیہ ہے میری دھی میں ہنس کر بولا اے تے بڑی وڈی ہو گئی نصرت بولی توں وی تے پندرہ سالاں بعد آیا ایں میں ہنس دیا اتنے میں اندر سے مدثرہ اور ماہم بھی نکل آئیں ان کے ساتھ بھی میری جان پہچان تھی پر وہ بھی کافی بڑی ہو چکی تھیں دونوں مجھ سے ملیں نصرت بولی ماہم بھائی واسطے چائے بناؤ میں بولا نہیں اس تکلف دی ضرورت نہیں مدثرہ جو پاس ہی کھڑی تھی بولی جی نہیں تکلف کہڑا توں گھر دا ہی بندہ ہیں مدثرہ میری ہم عمر تھی وہ بھی اب کافی بڑی ہو چکی تھی اس وقت یہ بھی سنگل پسلی تھی ماہم جو اس سے چھوٹی تھی اس کے ساتھ میرا میل جول کم تھا وہ اندر جا چکی تھی مدثرہ کا جسم بھی کافی بھرا بھرا تھا مدثرہ کی آواز پر میں نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا تو اس کی براؤن آنکھوں میں چمک مجھے نظر آئی اور وہ میرے کسے سینے کو تاڑ رہی تھی شاید اسے بھی میری اندر دلچسپی تھی میں ہنس کر اسے دیکھا تو اس نے نظر چرا کر مجھے دیکھا اور بولی بہو توں میں چاہ بنا لواں اور مسکراتی آنکھوں سے مجھے دیکھا میرا دل تو دھڑک سا گیا تھا نصرت اور مدثرہ کے نین نقش ایک جیسے تھے پیچھے سے وجیہ بھی بالکل اس جیسی تھی مدثرہ کیچن میں چلی گئی میں واپس بیٹھ گیا اتنے میں اندر سے ایک اور چھوٹی سی لڑکی نکلی جو وجیہ سے چھوٹی تھی نصرت بولی اے نکی دھی ہے زرناب زرناب ماموں نوں مل زرناب نے ایک نظر گھما کر مجھے دیکھا اور مجھے سلام کیا اس کے نرم ہاتھ کو محسوس کرکے میں مچل سا گیا میں بولا بڑی جلدی وڈیاں ہوگئیںاں تیریاں دھیاں نصرت تیرے کیڈیاں لگ رہیاں نصرت ہنس دی میں بولا ہور بچے کوئی نہیں نصرت مسکرا دی اور بولی اتنے ہی بڑے ہین میں بولا نہیں فر وی آنٹی بولی بچے تاں ہوندے جے کوئی قابل ہووے نصرت شرما سی گئی اور بولی کچھ نہیں میں بولا کی مطلب آنٹی بولی آبی تینوں پتا تے ہا گلشیر آگے ہی بڈھا ہا مسیں دو دھیاں ہی جم سگیا اپنے پلے کجھ ناہس تے سارا قصور میری دھی دا بنا دتا کہ اے بچے پیدا نہیں کر سگدی نصرت شرما کر بولی امی بس کر اے گلاں بھلا افی نال کرن آلیاں میں بولا کیوں مینوں اپنا وی آدھے ہوتے اپنی پریشانی وی نہیں دسدے ۔ نصرت بولی نہیں کوئی پریشانی نہیں۔ جدو کوئی عزت نا دیوے وت سانوں کی لوڑ اس نوں عزت دیونڑ دی جو کوئی بوئے او کھٹے میں بولا فر وی گل کی بنی آنٹی بولی گل ایو کجھ ہی بنی کہ اس کولو آپ تو کجھ ہو نہیں آیا تے سارا نصرت دے ذمے لا دتا کہ اے بچے پیدا نہیں کر سگدی 4 5 سال ہو گئے نصرت گھر ہی چھوڑ کے آگئی اے میں بولا اے تے غلط گل اے آنٹی پہلے دن ہی غلط فیصلہ ہویا گلشیر آلا آنٹی بولی میرا تے اپنا دل کوئی نا پر مجبوری ہا تاں سانوں وی سہارے دی لوڑ ہا اتو میرے بھرا تے دیر وی ساتھوں تنگ ہانڑ ٹھہو ٹھہو کر دتا میں بولا تے ہن فر کی حالات ہین آنٹی بولی کوئی نہیں گزارا ہو ہی رہیا اے اتنے میں مدثرہ چائے لے کر آگئی اور میرے سامنے رکھ دیے ٹرے میں چائے اور کچھ بسکٹ تھے مدثرہ چائے رکھ کر نصرت کے پاس بیٹھ گئی میں چائے پینے لگا چائے پیتے ہوئے میری نظر بھی بار بار نصرت اور مدثرہ کی طرف اٹھ رہی تھی دونوں بہنیں ہی ایک دوسرے سے بڑھ کر تھیں نصرت کی گہری کالی آنکھیں مجھ سے ٹکرا کر جھک جاتیں مدثرہ کی بھوری آنکھوں میں عجیب خمار تھا جیسے اسے عجیب سی خوشی تھی میں چائے پیتے ہوئے ان دونوں بہنوں کو ہی تاڑ رہا تھا نصرت اور مدثرہ دونوں ایک سے بڑھ کر حسین اور سیکسی لگ رہی تھیں میں ان دونوں کو غورنے میں اتنے مگن تھا کہ چائے ختم بھی ہوگئی مجھے کوئی کام تھا اس لیے صبح آنے کا کہ کر میں چلا گیا جاتے ہوئے میرے ذہن میں نصرت اور مدثرہ کا حسین جسم ہی گھومتا رہا رات بڑی مشکل سے نکالی ساری رات ان کے خیال ہی ذہن میں گھومتے رہے صبح میں اٹھا تو آج فریش سا فیل کر رہا تھا کافی دن ہو گئے تھے سیکس کیے ہوئے کینیڈا میں بیوی کے باوجود بھی کافی فرینڈز تھیں سیکس کےلئے یہاں کافی دنوں سے مس کر رہا تھا میں ناشتہ کرکے بازار گیا اور وہاں نصرت مدثرہ اور سب گھر والوں کےلیے شاپنک کی میری ذہن میں نصرت کے ناک کا کوکا تھا اس لیے نصرت کےلئے ایک بڑا سا سونے کا کوکا لے لیا میں ایک ڈیڑھ گھنٹے میں نصرت کے گھر پہنچ گیا دروازہ بند تھا میرے ہاتھ میں شاپر تھے میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو کچھ دیر بعد دروازہ کھلا تو سامنے وجیہ کھڑی تھی وجیہ اسی طرح دوپٹے کے بغیر تھی میں آج کپڑوں میں تھا وجیہ نے مجھے ایک نظر سر تا پاؤں غورا میں اندر آگیا وجیہ تھوڑا سا پیچھے ہوئی گیٹ خود ہی بند ہو گیا وجیہ نے میرے ہاتھ میں شاپر دیکھے تو سمجھ گئی اس نے ایک نظر مجھے دیکھا اور ہلکی سا مسکرا کر میری آنکھوں میں دیکھا میں بھی مسکرا دیا میری نظر اس کے چھوٹے چھوٹے مموں پر پڑی وجیہ نے مجھے اپنے ممے تاڑتا دیکھ کر اپنی گت اٹھا کر آگے اپنے مموں پر ڈال لی اور ایک نظر مجھے غور کر دیکھا میں بھی اسے دیکھا تو اسی کی نظروں میں عجیب سی کشش تھی اس نے ہاتھ باندھ کر اپنے مموں کو اٹھا لیا اور دوسرے ہاتھ سے اپنی گت اٹھا کر اس سے کھیلنے لگی میری آنکھوں میں غورتے ہوئے اس کے چہرے پر مسکراہٹ سج رہی تھی میں نے اس کی آنکھوں میں جھانک کر پوچھا نصرت کدے ہے اس نے اشارے سے کہا کیچن میں میں نے ادھر دیکھا اور اس کو شاپر پکڑا کر بولے تھوڈے واسطے کجھ سامان لئے آیاں آں وجیہ نے مسکرا کر پکڑ لیا اور مڑنے لگی میں نے اس کا بازو ٹ لیا اس نے مڑ کر دیکھا میں نے ادھر ادھر دیکھا اور اپنا منہ قریب کرکے وجیہ کی گال چوم لی وجیہ کاہن کر سسک گئی اور سسسسی کر کے آنکھیں بند کرلیں مجھے بھی وجیہ کی نرم گال کا لمس بے قرار کر گیا میں نے گال چوم کر وجیہ کو دیکھا اور منہ کھول کر وجیہ کی کافی ساری گال ہونٹوں میں دبا کر چوس لی وجیہ کانپ کر سسکنے لگی اور گھٹی گھٹی آپیں بھرنے لگی میرا ہاتھ بے اختیار وجیہ کے مموں پر گیا جس سے وجیہ کانپ کر سسک گئی وجیہ کا چھوٹا سا مما ابھی تک میرے ہاتھ میں تھا جو بالکل چھوٹا تھا اور ابھی تک سہی طرح سے بنا نہیں تھا ممے کو دبانے سے وجیہ ہلکی سی کراہ گئی ممے میں ابھی تک گلٹیاں تھیں جس کا مطلب تھا وجیہ کے ممے ابھی پک رہے تھے میں نے پچ کی آواز سے وجیہ کی گال چھوڑی تو وجیہ نے مدہوشی سے مجھے دیکھا میں نے آگے ہوکر وجیہ کے ہونٹوں سے ہونٹ ملا کر چوس لیے وجیہ نے میرا ساتھ دیتے ہوئے میرے ہونٹ چوستی ہوئی چاٹنے لگی میں ایک ہاتھ سے وجیہ کا سر دبا کر چوسنے لگا وجیہ نے ہونٹ کھول کر میری زبان کھینچ کر دبا کر چوس لی جس سے میں سسک گیا وجیہ نے میری زبان کھینچ کر اپنے منہ میں دبا کر چوس لی جس سے میں مزے سے کراہ سا گیا وجیہ جیسی اس عمر کی لڑکی کا ذائقہ کبھی چکھا نہیں تھا آج وجیہ کا ذائقہ چھک کر عجیب سا مزہ آرہا تھا وجیہ کا تھوک مجھے نڈھال کر رہا تھا وجیہ بھی کافی بے قراری سے مجھے چوس رہی تھی مجھے وجیہ کو چوستے ہوئے دو منٹ ہو چکے تھے کہ میری نظر سامنے پڑی وہاں سامنے وجیہ کی چھوٹی بہن زرناب بڑے انہماک سے ہمیں دیکھ رہی تھی میں زرناب کے دیکھنے پر چونک گیا اور وجیہ کے منہ سے زبان کھینچ لی پچ کی آواز سے زبان وجیہ کے منہ سے نکل آئی جو وجیہ اپنے ہونٹوں میں کس کر چوس رہی تھی میرا لن تن کر کھڑا ہوچکا تھا وجیہ نے سوالیہ آنکھوں سے مجھے دیکھا میرے چھوڑنے پر زرناب بھی اندر چلی گئی میں بولا باقی فرسہی کوئی ویکھ لیسی وجیہ نے ادھر ادھر دیکھا اور مسکرا کر مجھے مدہوشی سے دیکھا میں نے جیب سے 1000 کا نوٹ نکالا اور وجیہ کو پکڑا کر بولا تیری محنت دی کمائی زرناب نوں حصہ ونڈائیں وہ مسکرا کر ہنس کر پیسے پکڑ کر اندر جانے لگی میں مڑا اور کیچن کی طرف چلا گیا کیچن میں جیسے ہی میں داخل ہوا تو سامنے نصرت سنک پر کھڑی تھی نصرت نے سفید شلوار قمیض ڈال رکھا تھا جو ہلکا سا کسا ہوا تھا جس میں نصرت کا نگ انگ نظر آرہا تھا تنے ہوئے ہوا میں اکڑے ممے صاف نظر آرہے تھے جبکہ پتلی کمر کے نیچے موٹی باہر کو نکلی گانڈ بہت زبردست تھی نصرت وائٹ سوٹ میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی وہ آج بھی دوپٹے کے بغیر تھی لمبی گت گانڈ پر پڑی قیامت ڈھا رہی تھی نصرت نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا اور سامنے مجھے کھڑا دیکھ کر مسکرا کر منہ نیچے کرکے کام کرنے لگی میں اس کے جسم کو غور رہا تھا جو وہ دیکھ کر شرما گئی نصرت کی دو بڑی بڑی بیٹیاں تھیں لیکن پھر بھی وہ کافی جوان لگ رہی تھی نصرت کی شادی بہت چھوٹی عمر میں ہو گئی تھی اس لیے اس کی بیٹیاں بھی اب اس جیسی تھیں نصرت کی عمر 32 سال تھی لیکن پھر بھی نصرت بالکل جوان تھی نصرت کا قد بھی کافی اچھا تھا اور جسم بھی کافی بھرا سا خوبصورت تھا نصرت بالکل گھوڑی کی طرح اتھری جوانی کی مالک تھی میں نصرت کو دیکھتا ہوا اندر چلا گیا نصرت کے پاس کھڑا ہوکر بولا سناؤ جناب کی حال اے نصرت بولی ٹھیک توں سنامیں کم کر رہی آں آج تینوں ٹائم نہیں دے سگدی میں ہنس کر بولا اچھا جی آپ کل بڑیاں گلاں کر رہی ہائیں نصرت ہنس دی اور بولی اے وی مجبوری اے کم تے کرنا اے میں نصرت کو دیکھ کر ہنس دیا اور بولا نصرت توں اپنے آپ نوں ضائع ہی کردتا نصرت نے مسکرا کر نظر اٹھا کر مجھے دیکھا اور منہ نیچے کرکے بولی کوئی گل نہیں جو قسمت اچ ہووے او ہی ملدا میں بولا طلاق نہیں لئی نصرت بولی نہیں ہوسگدا اس نوں کسے ویلے وی پتا لگ جاوے کے غلطی کس دی توں سنا توں خوش ہیں اپنی بیوی نال میں بولا میں تے خوش ہاں توں ہن اس اچو کڈھنا کی اس دے پلے ہے کجھ نہیں توں ہلے جوان ہیں تیرے اچ کی کمی اے چھڈ اس نوں کوئی اپنے جیا کچھ نصرت نے نظر گھما کر مجھے دیکھا اور بولی سر دا سائیں تے ہے نا سارا کجھ او ہی نہیں ہوندا میں بولا توں کملی ایں نصرت سارا کجھ ایو ہی ہوندا۔ وہ بولی ہن بچیاں وڈیاں ہین ہن اوہناں دا کجھ سوچساں میں نے ایک نظر اسے دیکھا اور بولا مدثرہ دی شادی کیوں نہیں کیتی وہ مسکرا کر بولی کیویں کردے آج ہر بندہ پیسے نوں ویکھدا سادے کول اتنا پیسہ کدو آیا جہڑا وی رشتہ آندا ڈیمانڈز ہی نہیں مکدیاں ساڈے کول ہمت ناہی ڈیمانڈ پوری کرن دی گھر دے خرچے مسیں پورے ہوندے اس توں بیٹھی ہی ہین دوویں میں بولا ہین کدے نصرت بولی مدثرہ تے ماہم دوویں ماسٹر کیتا ہویا ہے سکول پڑھاندیاں ہین میں بولا تے تیریاں دھیاں وہ بولی وجیہ میٹرک کر گئی اے پر اگاں میں نہیں پڑھائی زرناب نویں پڑھدی اے میں بولا اگاں کیوں نہیں پڑھائی وہ بولی اتنی ہمت ہی نہیں میں بولا تے گلشیر نوں آکھ وہ ہنس کر بولی اس نوں تے پتر چاہی دا اس نوں دھیاں دی لوڑ نہیں میں نے نصرت کو چھیڑا اور بولا تے وت دے اس نوں پتر اس نے نظر گھما کر مجھے دیکھا اور بولی میں ہکلیاں پیدا کرنا اے کر لوے پیدا میں روکیا اور منہ نیچے کر گئی میں مسکرا کر بولا تے اس نوں پیدا کردے وت اس کولو نہیں ہوندا نصرت نے نظر گھما کر مجھے دیکھا اور مجھے مسکراتا دیکھ کر سمجھ گئی کہ میں مذاق کر رہا ہوں اور مسکرا کر بولی بکواس نا کر شرم کر بھرا سمجھدی ہا تینوں میں بولا میں وی بھین بنا کے ہی مشورہ دے رہیا وہ ہنس دی اور بولی کوئی ہور گل کر میں بولا نوشی تے رافع کی کردے وہ بولی دوویں فیکٹری اچ کم کردے ہین ہلے نکے ہین کماندے ہی اتنا کجھ ہین کہ مسیں سودا ہی گھر دا آندا یا اپنے خرچے پورے کردے میں مسکرا کر بولا وت توں چاہویں تے اس نوں کینیڈا لے جاواں نصرت نے نظر گھما کر مجھے دیکھا وہ سمجھ گئی اور بولی تیرا بھرا ہے اس کولو پچھ میں کی آکھنا نصرت کو سمجھ لگ گئی تھی کہ میں کیا چاہتا ہوں اس لیے وہ بار بار ہمارے درمیان بہن بھائی ہے رشتے کو یاد دلا رہی تھی نصرت شروع سے ہی بہت باحیا اور پاکدامن تھی اب بھی وہ ویسی ہی تھی مشکل حالات کے باوجود بھی اس نے غلط قدم نہیں اٹھایا تھا وہ بار بار مجھے بھی اس قدم سے دور رکھنے کےلئے وہی کہ رہی تھی ہمارے درمیان کے بہن بھائی کے رشتے کو بار بار اجاگر کر رہی تھی میں بولا نصرت تیری کی خیال ہے وہ اب شرما سی گئی تھی اس کے چہرے پر ہلکی سی لالی اتر آئی تھی وہ بولی میں کی آکھنا میں نے آگے ہاتھ کرکے نصرت کا ہاتھ پکڑنا چاہا نصرت برتن رکھ رہی تھی نصرت نے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا اور بولی ناں کر افی میں بولا کیوں نا کراں نصرت بولی بس ایویں ہی میں بولا کوئی وجہ وہ کچھ نا بولی اور برتن رکھتی رہی پھر بولی جے میں اے کرنا ہوندا تے پہلے ہی کر لیندی میں نصرت کو دیکھنے لگا نصرت کا سفید خوبصورت چہرہ بہت ہی خوبصورت لگ رہا تھا میں نصرت کو دیکھنے لگا نصرت کا خالی ناک دیکھ کر مجھے نصرت کےلیے لایا کوکا یاد آیا تو میں نے جیب سے کوکے والے ڈبی نکال کر بولا تیرے واسطے ہک شئے لئے آندی نصرت دیکھ کر بولی اے کی ہے میں کھول کر بولا تیرا خالی نک ویکھ کے کوکا لئے آندا اے نصرت مجھے دیکھ کر ہنس دی اور بولی اس دی کی لوڑ ہا میں ہنس دیا اور بولا لوڑ ہا تے لئے آندا سوہنا لگسی تینوں نصرت ہنس دی اور بولی مینوں کوئی نہیں لوڑ اس دی میں نے کوکا نصرت کی طرف کر دیا اور بولا لل لئے نصرت نے مسکرا کر مجھے دیکھا اور میرے ہاتھ سے پکڑ لیا میں مسکرا دیا نصرت کام کررہی تھی نصرت کچھ دیر بعد آنکھیں نیچے کیے بولی میں تے تینوں ایو جیا ناہس سمجھدی باہر جاکے توں تے بڑا کجھ سکھ گیا ایں اور ہنس دی میں ہنس کر بولا دنیا بڑا کجھ سکھا دیندی توں باہر نکلی جے نہوں نصرت ہنس دی اور بولی بڑا تیز ہوگیا ایں میں بولا وت کی خیال اے نصرت بولی کس بارے میں بولا گلشیر نوں بیٹا دیون تے نصرت نے رک کر مجھے دیکھا اور مسکرا کر بولی بڑا بدتمیز ہیں میں ہنس دیا اور بولا کجھ نہیں ہوندا اس نوں کی پتا لگنا نصرت شرما گئی اور بولی بہوں بے حیا وی ہوگیا ایں میں بولا ہلا کوکا تے پا لویں نصرت بولی کس واسطے میں بولا میرے واسطے نصرت نے نظر اٹھا کر مجھے دیکھا اور مسکرا دی میں بھی مسکرا دیا اتنے میں دروازہ کھٹکا اور میں چونک سا گیا نصرت مسکرا دی نصرت نے باہر نکل کر دروازہ کھولا تو کوئی عورت تھی محلے کی نصرت کپڑے سینے کے کام بھی کرتی تھی جو نصرت کو دینے آئی تھی نصرت اس کے پاس بیٹھ کر باتیں کر رہی تھی میں بھی کچھ دیر بیٹھا پھر مجھے کسی کام جانا تھا میں وہاں سے نکل آیا میں فری ہوا تو نصرت کے ساتھ گزرے لمحات کے بارے میں سوچنے لگا مجھے فیل ہوا کہ کچھ زیادہ ہی ہوگیا نصرت جیسی پاک دامن لڑکی میرے ساتھ بھلا یہ سب کیوں کرے گی وہ تو اس کا اور میرا تعلق ہی ایسا تھا کہ سب کچھ ہنس کر سہہ گئی تھی میں سوچ رہا تھا کہ صبح نصرت سے معذرت کر لوں گا یہ سوچ کر سو گیا صبح اتوار کا دن تھا میں کھانا کھا کر نکلا کچھ ضروری کام کرنے کے بعد میں دوپہر کو نصرت کے گھر کی طرف چل دیا گاڑی سامنے ہی کھڑی کرکے میں جیسے ہی گھر میں داخل ہوا تو سامنے صحن میں نصرت مشین رکھ کر کپڑے سی رہی تھی ایسا کا دوپٹہ اترا ہوا تھا جس سے نصرت کا ہلکا سا کسا قمیض نے اس کے موٹے مموں کو ہوا میں کھڑا کر رکھا تھا مموں کی ہلکی سی لکیر واضح نظر آرہی تھی میرے اندر داخل ہونے پر نصرت نے آنکھیں اٹھا کر مجھے دیکھا میں اس کے موٹے تازے مموں میں گم سا ہوچکا تھا نصرت مجھے دیکھ کر چونک سی گئی میں چلتا ہوا اس کا جسم گھور رہا تھا نصرت کا جسم ہلکا سا بھرا بھرا لیکن چست جسم تھا بالکل نوخیز دوشیزہ کی طرح اس سے ثابت ہوتا تھا کہ وہ اپنے جسم کا بھرپور خیال رکھتی ہے میں نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا تو وہ مجھے دیکھتی ہوئی سیدھی ہوئی اور اپنا دوپٹہ اٹھا کر اپنے جسم کر ڈھانپ لیا میں نصرت کو یوں سنبھلتے ہوئے سمجھ گیا کہ اس نے ایسا کیوں کیا ہے جس سے میں شرمندہ سا ہوگیا اور خود کو کوسا کہ میں نے ایسا کیوں کیا جس پر میں شرمندگی سے آنکھیں نیچے کرلیں جسے دیکھ کر نصرت کو بھی شاید شرمندگی ہوئی نصرت ایسی ویسی لڑکی تو تھی نہیں وہ اپنے شوہر سے الگ ہوکر بھی اپنے آپ کو قابو میں رکھ رہی تھی ورنہ اکثر شادی شدہ لڑکیاں شادی کے بعد زیادہ کھل جاتی ہیں اور پھر مرد کے بغیر نہیں رہ سکتیں لیکن نصرت بہت ہی با حیا اور خود پر کنٹرول رکھنے والی لڑکی تھی ویسے بھی اس پر اب دو بیٹیوں کی زمہ داری تھی بھی ساتھ میں دو جوان بہنیں بھی گھر میں تھیں اگر وہ بھٹک جاتی تو سب پر اثر پڑا تھا اس لیے وہ بھی خود پر قابو رکھ رہی تھی میں شرمندہ سا ہوکر آگے بڑھتا گیا اور پاس ہی پڑی چارپائی پر بیٹھ گیا نصرت کے چہرے پر ہلکی سی لالی تھی شاید وہ بھی کسی مرد کے سامنے پہلی بار یوں آئی تھی ورنہ باہر تو وہ نقاب میں نکلتی تھی جس سے اس کا جسم دھکا ہوتا نصرت کو کوئی نا دیکھ پاتا میں نے نصرت کے چہرے کو غور کر دیکھا تو وہ اپنے کام میں مگن تھی میں بھی چپ تھا شرمندگی سے نصرت نے آنکھیں اٹھا کر مجھے دیکھا تو میں اسے گھور رہا تھا جس سے اس کی نظریں میری نظروں سے ایک لمحے ٹکرائی جس سے اکی آنکھوں میں گلابی ڈورے تیر گئے اور پھر اس نے نظریں چرا لیں میں نصرت کو دیکھ کر مچل بھی رہا تھا اور شرمندہ بھی ہورہا تھا دماغ کا کوئی کونہ مجھے روک رہا تھا پر دل بہت بے قابو ہو رہا تھا میں کچھ نا بولا تو اتنے میں اندر سے مدثرہ نکلی جس نے مجھے دیکھا تو چہک کر بولی واہ جی واہ سرکار آوری آئے ہین مدثرہ کافی کھلے انداز میں ایسے بولی جیسے بہت جان پہچان ہو میں ہنس دیا اور بولا جیا ہنڑ ہی آئے ہاں اور میرے قریب آکر اپنا ہاتھ آگے کردیا میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر سلام کا جواب دیا مدثرہ کا موم کی طرح نرم ہاتھ محسوس کرکے میں مچل گیا تھا میرا دل دھک دھک کرنے لگا مدثرہ نصرت سے چھوٹی اور میری ہم عمر تھی ابھی تک شادی نہیں ہوئی تھی اور شاید وہ بھی نصرت کی طرح غیر مرد کے قریب نہیں گئی تھی اس لیے وہ بھی اندر سے پک چکی تھی اس سے اب مرد کے بغیر رہا نہیں جا رہا تھا اس لیے وہ بھی اب مجھ پر جال پھینک رہی تھی میں نے اس کا نرم ہاتھ چھوڑنا چاہا پر مجھے جھٹکا لگا مدثرہ نے میرا ہاتھ دبا سا دیا میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو اس کی آنکھوں میں لالی دوڑ رہی تھی اس نے آنکھوں کے اشارے سے مجھے کچھ کہا میں سمجھ گیا مدثرہ کی گول ابھرے ماس والی گالیں لال ہو رہی تھیں میں یہ دیکھ کر مچل س گیا مدثرہ نے گہری آنکھوں سے مجھے دیکھا اور ہلکا سا مسکرا دی مدثرہ نے ایک لمحے کےلئے مجھے دیکھتے ہوئے میرا ہاتھ پکڑے رکھا میں بھی اس کے ہاتھ کا جواب دے رہا تھا ایک لمحے میں ہی اس کے دل کی ساری بات میں سمجھ چکا تھا میں مسکرا دیا تو اس نے ہاتھ دبا کر اپنی انگلی اٹھا کر میری ہتھیلی پر گھمائی اس کی نرم انگلی کا لمس مجھے نڈھال کرگیا اور میں اس کی اس حرکت سے مچل سا گیا مدثرہ میرا ہتھ چھوڑ دیا اور سیدھی ہوکر اپنی بہن کے پاس جا کر بیٹھ گئی میں بولا اگے توں نظر نہیں ائی وہ مسکرا دی اور بولی میں سکول گئی ہاس پڑھاون میں بولا سکول کیوں وہ بولی بس ایویں ماسٹر کرکے وہلے رہن نالو بہتر ہے گھر دیاں دی کجھ خدمت کر لئو میں مسکرادیا نصرت بولی مدثرہ تے ماہم ماسٹ کیتا ہویا ہے پڑھیاں لکھی ہینڑ سکول پڑھاندیاں ہین اپنا خرچہ تے کڈھ لیندیاں ہین اتنے ہک ہما لیندیاں ہین کہ اپنا خرچہ بنا لینڑ میں بولا اسدا مطلب تسی ساریاں ہی محنت کر رہیاں او وہ مسکرا دی نصرت بولی مدثرہ بھائی واسطے چاہ بنا لیا وہ بولی بھائی تیرا ہے میرا تے کوئی نہیں ہم دونوں اس بات پر چونک سے گئے اور مدثرہ کو غورنے لگے مدثرہ فلو میں بول گئی تھی اسے بھی احساس ہوا کہ غلط کہ دیا ہے یہ کہ کر مدثرہ شرمندہ ہو ہر بولی مذاق کر رہی ہاں اور جلدی سے اٹھ کر چلی گئی میں ہنس دیا نصرت بھی مسکرا کر مجھے غورا اور کام میں مگن ہو گئی اسے کام میں مگن دیکھ کر میں بولا بڑے مصروف ہو جناب کوئی لفٹ ہی نہیں۔ یہ سن کر اس نے سر اٹھا کر ادھر ادھر دیکھا اور مجھے غور کر بولی حیا کر کجھ کوئی سن لیسیا میں مسکرا فیا اور بولا میں کی اکھیا ہے وہ خقموشی سے گہری آنکھوں سے مجھے غور کر منہ نیچے کر گئی میں مسکرا دیا اور ایک لمحے بعد بولا جناب اگر تھوانوں اچھا نہیں لگ رہیا تے میں اپنی افر واپس لئے لیندا انج اگنور تے نا کر یہ سن کر اس نے نظر اٹھا کر مجھے غورا اور مجھے چھیڑ کر بولی کہڑی افر میں بولا جہڑی صبح تینوں دتی ہا۔ نصرت مجھے دیکھ کر مسکرا سی گئی اس کی موٹی گالوں پر لالی اتر آئی اور وہ میری انکھوں میں غورنے لگی نصرت نے نظر نیچے کی اور کپڑے کو سوئی سے ٹانکا لگاتی بولی بہوں بدتمیز ہوگیا ایں۔ میں مسکرا کر بولا انگریزاں دے ملک اچ رہندا آں وہ بولی انگریزاں دے ملک اچ جہڑا جاوے او انج ہو جاندا میں مسکرا کر بولا انگریزاں فی صحبت دا اثر تے ہوجاندا اے انگریز اپنے ار کرکے بھیجدے ہین اس بات پر نصرت نے اپنی گہری نظر اٹھا کر مجھے غورا اور مجھے مدہوش انکھوں سے دیکھنے لگی میں نے بھی انکھیں نصرت کی انکھوں سے لاک کرکے پیار بھرے انداز میں دیکھنے لگا نصرت نے مجھ سے آنکھیں نہیں چرائی اور لگاتار ہم دونوں کافی دیر تک ایک دوسرے کو غور کر دیکھتے ہوئے انکھیں ایک دوسرے سے لاک کیے رکھیں نصرت نے میرے ساتھ انکھیں لاک کیے ہوئے ہی دھاگا منہ میں ڈال کر گیلا کیا اور مجھ سے انکھیں چرا کر سوئی میں ڈالنے لگی نصرت کی انکھوں میں لالی اتر ائی اور شرم سے اس کا منہ لال ہونے لگا اتنی میں اندر سے وجیہ نکلی وہ دوپٹے کے بغیر تھی مجھے دیکھ کر اس نے اپنی ماں کو دیکھا اور پھر میری طرف دیکھ کر ہلکا سا مسکرا کر میری انکھوں میں انکھیں ڈال کر لاک کر لیں میں اسے دیکھ کر مچل سا گیا وجیہ دوپٹے کے بغیر تھی اس کے قمیض میں اس کی چھوٹی چھوٹی چھاتیاں نظر ارہی تھی جو کہ ابھی تک سہی طرح سے بنی نہیں تھیں میں حیراں بھی ہوا کہ وجیہ ابھی تک پوتی جوان تو ہوئی نہیں پر وہ مرد ہو پٹانے کے سارے گر جانتی ہے میں تھوڑا سا حیران بھی ہوا پر اسوقت میں اسکے جسم کی گولایوں کے مزے لے رہا تھا وہ مجھے دیکھ کر مسکراتی ہوئی واشروم میں چلی گئی میں نصرت سے بولا اے تیری دھی وہلی ہی ہوندی وہ مجھے دیکھے بغیر بولی نہیں پنڈ اچ ہی ہک درزائن ہے اس کو جاندی اے ول سکھن میں وہیں سمجھ گیا کہ یہ اتنی تیز کیوں ہے۔ وہاں اس جیسی ہی لڑکیاں ہوں گی جن سے یہ سارے گر سیکھ رہی ہے۔ وہ پھر اس نے مجھے غور کر کہا وے توں وجیہ نوں اتنے پیسے کیوں دتے میں چونک گیا اور اسے فیکھا تو وہ عجیب نظروں سے مجھے غور رہی تھی مجھے خیال ایا اس وقت زرناب دیکھ رہی تھی اس نے بتایا ہوگا۔ میں بولا کیوں نہیں دے سگدا میں ڈر سا گیا تھا کہ کہیں کچھ کہ نا دے پھر اس نے ایک لمحے مجھے غورا اور پھر منہ نیچے مشین کی طرف کرکے بولی وجیہ ہلے نکی ہے اس نوں تے پتا نہیں تینوں تے پتا ہے۔ ویسے وی او گلشیر دی دھی اے اس نوں پتا لگ گیا تے میرے نال اس دی وی جان کڈھ لیسی۔ میں چونک گیا اسے پتا چل چکا تھا زرناب نے اسے بتا دیا۔ میں بولا کجھ نہیں ہو دا اسدا اپنا دل ہا تے میں اس نوں کجھ اکھیا اے میں بھلا اپے اس نوں کجھ اکھ سگدا ہاں۔ نصرت نے نظر اٹھا کر مجھے غورا اور بولی افی توں اس نوں سمجھانا ہا اسدی عمر بہوں چھوٹی اے اس عمر اچ اے کم کرکے کیوں میری عزت دا جنازہ کڈھو ایں میں بولا ناں پریشان ہو میں کسے نوں نہیں دسدا میرے نال ای کجھ کر رہی ہے پرایا تے جوئی نہیں نصرت نے نظر اٹھا کر مجھے غورا اور پھر مجھے ایک لمحے کےلئے اسی طرح غورتی رہی میں بھی اس سے نظریں ملائے اسے غورتا رہا اتنے میں پچھے سے کیچن سے مدثرہ نکلی تو اس کی نظر ہم پر پڑی اس نے ہم دونوں کو ایک دوسرے سے اکھ مٹکا کرتے دیکھ لیا لیکن جلدی سے نصرت نے نظر چرا لی اور نیچے منہ کرکے اپنا کام کرنے لگی

ایک تبصرہ شائع کریں for "تڑپتی پھڑکتی جوانیاں"