Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

بیٹیاں جوان۔ رکھیں باپ کا دھیان


میرا نام ساجد ہے میں شہر کے ساتھ ہی ملے ایک قصبے کا رہائشی ہوں جو پہلے تو شہر سے الگ تھا پر ابادی بڑھنے سے اب شہر کا حصہ بن چکا ہے میرا وہیں قصبے میں جنرل سٹور ہے میری عمر 50 سال کے قریب ہے لیکن اچھی خوراک اور اچھی روٹین سے میری عمر 40 سے زیادہ نہیں لگتی میں شادی شدہ ہوں میری بیوی کا نام عارفہ ہے میری تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے سب سے بڑی بیٹی کا نام نصرت ہے نصرت کی عمر 28 سال ہے نصرت سے چھوٹی جویریہ کی عمر 27 سال ہے اس سے چھوٹی مدیحہ کی عمر 24 سال ہے سب سے چھوٹا میرا بیٹا کامران ہے کامی کی عمر 22 سال ہے نصرت اور جویریہ کی عمر میں ایک سال کا فرق ہے لیکن دونوں ایک جیسی لگتی ہیں نصرت اور جویریہ دونوں ماسٹر کر چکی ہیں اور قصبے میں ایک پرائیویٹ سکول پڑھاتی ہیں دونوں بہت ہی با حیا اور با پردہ ہیں کبھی گھر میں بھی ان کا دوپٹہ نہیں اترا تھا مدیحہ کالج میں بی اے کر رہی ہے جبکہ کامی میٹرک کے بعد تعلیم ادھوری چھوڑ کر آوارہ گرد ہو گیا میں نے بعد میں اسے ساتھ دکان پر ہی رکھ لیا اس کا محلے کے آوارہ لڑکوں کے ساتھ ہی زیادہ وقت گزرتا تھا میں بھی کوئی شریف تو نا تھا عارفہ میری بیوی چار بچے پیدا کرکے میرے قابل تو نا رہی تھی اس لیے میں ادھر ادھر منہ مارنے لگا جس کی مجھے پر پڑ گئی اور میں اس کام میں بہت ہی زیادہ پڑ گیا روز میں نئی نئی جوان لڑکیوں کی تلاش میں رہتا کیونکہ میری آگ اب جوان لڑکی ہی بجھا سکتی تھی جس کی وجہ سے میری دکان جو پہلے بہت چلتی تھی اب اس سے آمدن کم ہو گئی جو نکلتا میں نئی نئی مشوقوں کو کھلا دیتا تھا یہی وجہ تھی کہ گھر کی طرف میرا دھیان کم ہو گیا میں اپنی زندگی میں مست رہا اور پتا ہی نا چلا وقت اتنی تیزی سے گزرا کہ میری بیٹیاں بھرپور جوان ہو گئیں اور شادی کی عمر کو پہنچ گئیں تھیں میری عیاشی کی وجہ سے جانی بھی میرے نقش قدم پر تھا پر عارفہ نے بیٹیوں کو سنبھال کر ان کی تربیت سہی بڑے اچھے انداز میں کی تھی جس سے تینوں بیٹیاں بہت باحیا اور پردہ دار تھیں لیکن شادی کی عمر کو پہنچ کر بھی غیر شادی شدہ تھیں اس کی وجہ میری عیاشی کی وجہ سے گھر کے حالات اتنے اچھے نا تھے جس سے جو بھی رشتہ آتا ان کی ڈیمانڈ پوری کرنا بس میں نا ہوتا تو انکار ہوتا اس کے باوجود بھی میری بیٹیاں اپنی حد سے باہر نا نکلیں کبھی انہوں نے گھر کی حد پھلانگنے کا سوچا بھی نہیں تھا نصرت اور جویریہ گھر کا خرچ چلانے کےلیے بچوں کو ٹیوشن بھی پڑھاتی تھیں ایک طرح سے گھر کو چلا ہی نصرت اور جویریہ رہی تھیں نصرت سب سے بڑی تھی اس لیے اس نے گھر کا سارا نظام سنبھالا ہوا تھا نصرت بہت سمجھدار اور رکھ رکھاؤ والی لڑکی تھی گھر کا سارا نظام اور سارے انتظامات اس کے ذمے ہی تھے ایک طرح سے وہ گھر کی بڑی بن گئی تھی گھر میں اس کا ہی حکم چلتا تھا دن گزر رہے تھے عارفہ ان کی شادیوں کو کے کر پریشان تھی کہ عمر گزری جا رہی ہے جلد سے جلد شادی ہو جائے پر ابھی تک کوئی امید نہیں لگی تھی نصرت اور جویریہ تو اب کافی بڑی لگتی تھیں شادی کی امید نا ہونے کے باوجود بھی کبھی حد سے نہیں گزریں نا کبھی ان کے بارے میں کوئی غلط بات سنی میری بیٹیوں نے اپنی عزت کو بچا کر رکھا ہوا تھا خیر دن گزر رہے تھے۔ گرمیوں کے دن تھے اور سکول سے چھٹیاں تھیں جس کی وجہ سے نصرت اور جویریہ بھی اب گھر ہی ہوتی تھیں گھر میں ہی بچوں کو پڑھاتی تھیں گرمیوں کی وجہ سے دکان پر کسی عورت کے ساتھ چدائی کا بھی موقع کم ملتا تھا اس لیے کافی دن ہوگئے ہوئی شکار نہیں ملا تھا اس لیے شہوت عروج پر تھی بڑی کوشش کے بعد بھی کوئی عورت قابو نا آئی عجیب صورتحال تھی پر میں بھی خود کو قابو کر کے گزارہ کر رہا تھا دوپہر کا کھانا اکثر گھر ہی کھانے آتا تھا ایک دن دوپہر کو گھر آیا عارفہ صحن میں ہی بیٹھی تھی میں واشروم چلا گیا واشروم سے نکلا تو سامنے برآمدے میں میری نظر پڑی تو میں چونک گیا سامنے برآمدے میں میری بڑی بیٹی نصرت فرج کا دروازہ کھول کر کھڑی تھی نصرت سائیڈ سے مجھے نظر آرہی تھی میں تو اسے دیکھ کر چونک ہی گیا آج پہلی بار میں نے اپنی بیٹی کو بغیر دوپٹے کے دیکھا تھا میں تو دیکھتا ہی رہ گیا میری بیٹی نصرت کا جسم تو قیامت خیز تھا نصرت نے ایک کسا ہوا قمیض ڈال رکھا تھا جس نے میر بیٹی نصرت کا جسم کا کر دبا رکھا تھا نصرت کا انگ انگ نظر آرہا تھا نصرت کے ممے تو کافی موٹے اور تن کر ہوا میں اکڑے ہوئے تھے ہوا میں تن کر کھڑے ممے قیامت ڈھا رہے تھے میں نے نصرت کے پورے جسم پر نظر گھما کر نصرت کے جسم کا جائزہ لیا تو نصرت کا جسم بہت ہی سیکسی تھا میرے ذہن پر تو شہوت سوار تھی مجھے کچھ نا سمجھ تھی کہ میں اپنی بیٹی کو ہی شہوت بھری نظروں سے غور رہا ہوں میری نظر نیچے پڑی تو نصرت کی موٹی باہر کو نکلی گانڈ قیامت ڈھا رہی تھی نصرت کی شلوار پنڈلیوں سے اوپر تھی اور نصرت کی گوری پنڈلیاں نظر آ رہی تھیں میں نے نظر گھما کر نصرت کے پورے بدن کا جائزہ لے رہا تھا عارفہ باہر بیٹھی تھی اس نے مجھے کیچن سے نکلتا دیکھا اور بولی ساجی فریج وچو برف پٹ دے جمی پئی اے میں اسے دیکھ کر چونکا اور اپنے حواس میں آیا میرا دل تو اپنی سگی بیٹی کا اتنا شاندار سیکسی جسم دیکھ کر مچل کر دھک دھک کر رہا تھا میں اسے دیکھا اور بولا ہلا اور اندر برآمدے میں چلا گیا نصرت شاید برف نکالنے میں مگن تھی اسے پتا نہیں چلا میں جیسے ہی اندر برآمدے میں داخل ہوا تو نصرت برف والے برتن پر زور زور سے مکے مار کر اسے اکھڑنے کی کوشش کر رہی تھی جس سے نصرت کے موٹے تنے کر ہوا میں تن کر اکڑ کر کھڑے موٹے ممے ہل رہے تھے مموں کو ہلتا دیکھ کر میں مچل گیا اور میں گہر نظروں سے نصرت کے موٹے مموں کو غور رہا تھا میری نظر نصرت کے جسم کو ٹٹول رہی تھی اسی لمحے میری دوسری بیٹی جویریہ اندر کمرے سے نکلی اور سامنے مجھے نصرت کے بدن کو صورت دیکھ کر رک گئی میں نصرت کے تنے مموں کو ہلتا دیکھ کر بڑے انہماک سے دیکھتا ہوا نصرت کی طرف بڑھ رہا تھا اس لمحے نصرت کو بھی کوئی اپنی طرف آتا محسوس ہوا تو وہ مڑی اور سامنے مجھے اپنے قمیض میں کسے ہوئے ہوا میں تن کر کھڑے مموں کو غورتا دیکھ کر چونک گئی اور منہ نیچے کرکے اپنے مموں کو دیکھا نصرت کے میری طرف مڑنے سے نصرت کی تنی ہوئی چھاتیوں میرے سامنے ہو گئیں جس سے نصرت کے تنے ہوئے مموں کی ہلکی سی لکیر نظر آرہی تھی میں نصرت کا گورا چمکتا سینہ دیکھ کر مچل گیا نصرت کبھی بھی میرے سامنے دوپٹے کے بغیر نہیں آئہ تھی آج یوں سرعام اپنے باپ کے سامنے اپنے بدن کے نظر آتے انگ انگ کو واضع ہونے پر شرما سی گئی دروازے میں کھڑی جویریہ بھی مجھے نصرت کے ممے غورتا دیکھ کر چونک گئی تھی وہ بھی حیران تھی کہ میں ان کا سگا باپ ہوکر اپنی بیٹی کو گندی سے تاڑ رہا ہوں میرے ہن پر تو اسوقت شہوت سوار تھی اور ویسے بھی بازار عورتوں کو چود چود کر میرا ذہن بہت ہی گندہ ہو چکا تھا میرے لیے تو بس اس میں مزہ تھا رشتوں کا تقدس میں تو اسوقت بھول چکا تھا نصرت کا چہرہ اپنے مموں کو میرے گھورنے پر لال سا ہوگیا نصرت گھبرا سی گئی خود کو میرے سامنے بغیر دوپٹے کے لیکن وہ شرم کے مارے ہٹ بھی نہیں سکتی تھی میں نصرت کے مموں کو تاڑتا ہوا قریب پہنچ گیا تھا میری نظر دروازے میں کھڑی جویریہ پر پڑی جو حیرت سے پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھ رہی تھی کہ ابو کو کیا ہوا ہے اپنی بیٹیوں کا لحاظ ہی بھوک گیا ہے جو یوں اپنی بیٹی نصرت کے جسم کو توڑ رہا ہے میں جویریہ کے دیکھنے پر چونک کر نظر ہٹا لی اور نصرت کی طرف دیکھا تو وہ منہ جھکائے لال ٹماٹر کی طرح کھڑی تھی میں بھی سمجھ گیا کہ اس نے مجھے اپنے ممے تاڑتے ہوئے دیکھ لیا ہے میں یہ سوچ کر شرمندہ ہوگیا اور خود کو کوستا کہ ساجی توں بھی بے غیرت ہی ہوگیا ہے اگر باہر پھدی نہیں ملے گی تو اپنی بیٹیوں پر ہی گندی نظریں ڈالے گا میں یہ سوچ کر شرمندہ ہوگیا میرا منہ لال ہوگیا اتنے میں باہر سے عارفہ اندر آئی اور بولی ساجی برف پٹ وی دے چھویر نوں میں چونکا اور شرمندگی سے اپنا ہاتھ اٹھا کر برف کے کولے پرڈالا میرا ہاتھ کانپ رہا تھا میں شرمندگی اور بیٹی کے جسم کو دیکھ کر کانپ گیا تھا نصرت ابھی بھی پاس ہی کھڑی تھی میں نے زور لگانا چاہا پر مجھ سے زور نہیں لگا پتا نہیں میرا سارا زور ہی نکل گیا تھا میری بیٹی نصرت پاس ہی کھڑی لال منہ سے مجھے برف نکالتا دیکھ رہی تھی میں برف نکالنے کی کوشش کر رہا تھا پر مجھ سے زور نہیں لگایا جا رہا تھا اتنے میں عارفہ بولی لگدا برف ڈھیر ہی جم گئی ہے اور نصرت سے بولی نصرت توں وی اگاں ہوکے پیو نوں زور مروا کے بعد پٹوا لگدا کولا جم گیا ہے نصرت چونکی اور بولا ہلا امی اور میرے تھوڑا سا قریب ہوئی اور بولی ابو مینوں وی ہتھ رکھن دیو میں نے مڑ کر نصرت کے چہرے کو دیکھا نصرت کی نظر نہ ی تھی اور چہرے پر شرمندگی ابھی بھی تھی میری نظر بے اختیار میری بیٹی نصرت کے تنے ہوئے موٹے ہوا میں تن کر اکھڑے کھڑے اور قمیض میں کسے مموں پر پڑی نصرت کے موٹے مموں کی لکیر صاف نظر آ رہی تھی میں نے ایک لمحے کےلیے اس کے مموں کی گوری لکیر کو دیکھا تو میری آنکھیں چمک سی گئی تھی میری آنکھوں کی چمک دور کھڑی میری بیوی نے بھی دیکھ کی تھی وہ سب سمجھ گئی کہ میں کیا دیکھ رہا ہوں میں نے ایک نظر اپنی بیٹی کے مموں کا نظارہ کیا اور دروازہ کھول کر سائڈ ہوکر اپنا ایک ہاتھ برف والے کولے پر رکھ دیا اتنے میں نصرت آگے ہوئی اور مجھے دور ہی کھڑی ہوکر اپنا بایاں ہاتھ آگے کرکے کوکے پر رکھ دیا نصرت میرے اتنے قریب آگئی کہ نصرت کے جسم سے نکلتی جوانی کی گرم آگ مجھے صاف محسوس ہو رہی تھی نصرت کے جسم سے نکلتی جوانی کی اور پسینے کی بھینی بھینی خوشبو میرے ناک کو چڑھ کر مجھے بتا قابو کرنے لگی نصرت نے ہاتھ رکھ جھسا مارا جس سے نصرت ممے تیزی سے ہل گئے میں نے مڑ کر اپنی بیٹی نصرت کے مموں کو دیکھا تو نصرت اپنے مموں کو ہلتا دیکھ کر رک گئی میں نے اپنی بیٹی کے مموں کو دیکھ کر زور لگا دیا نصرت نے بھی آگے ہوکر زور لگا دیا فریج کا دروازہ اتنا تنگ تھا کہ ہم دونوں زور لگاتے قریب ہوگئے جس سے نصرت کے ہوا میں تن کر کھڑے اکڑے ہوئے ممے میرے بازو میں دب سے گئے جس سے میں اپنی بیٹی نصرت کے نرم ملائم مموں کا گرم لمس محسوس کرکے مچل سا گیا نصرت اپنے مموں پر میرے جسم کا لمس محسوس کرکے مچل کر کانپ گئی میرا کاندھے نے نصرت کے ممے کو کافی دبا سا دیا تھا جس سے نصرت کانپنے لگی اسی اثنا میں برف نکل آئی اور نصرت کی سسک بھی ساتھ ہی نکل گئی میں نے مڑ کر نصرت کو دیکھا تو وہ ہلکی ہلکی ہانپتی ہوئی برف پکڑ کر نظریں جھکائے جلدی سے مڑ گئی نصرت کا منہ رنگ اڑ سا گیا اور وہ جلدی سے برف کے کر کیچن کی طرف چل دی میں اس اپنی بیٹی نصرت کی لچکتی ہوئی باہر کو نکلی گانڈ کو دیکھ رہا تھا کہ میری نظر اپنی بیوی عارفہ پر پڑی وہ مجھے دیکھ رہی تھی اس کی نظر مجھ سے ملی تو میں گھبرا گیا عارفہ گہری آنکھوں سے مجھے دیکھ رہی تھی میرے سے نظر ملنے پر وہ ہلکا سا مسکرا دی اور مڑ کر برآمدے سے نکل کر باہر چارپائی کی طرف چل دی اس کے جانے کے بعد میں نے خود کو سنبھالا تو میرا دل دھک دھک کر رہا تھا اپنی بیٹی نصرت کی آگ سے بھری جوانی ک ہنس ابھی تک مجھے محسوس ہورہا تگا نصرت کے جسم سے نکلتی گرم بھاپ مجھے مدہوش کر رہی تھی میں ابھی اپنی بیٹی نصرت کے جسم کے خمار میں ڈوبا ہوا تھا کہ اتنے میں اندر سے میری تیسی بیٹی مدیحہ نکلی جو ابھی سو کر اٹھی تھی مدیحہ کے ہاتھ میں دوپٹہ تھا مجھے دیکھ کر اس نے جلدی سے دوپٹہ لے لیا مدیحہ کا جسم بھی کچھ کم ن تھ میں نے ایک نظارہ مدیحہ کے جسم کا بھی لے لیا مدیحہ جلدی سے باہر واشروم کی طرف چل دی میں بھی نصرت کے خمار سے نکل آیا تھا کیونکہ میری بیوی نے مجھے اپنی بیٹی کو یوں تاڑتے دیکھ لیا تھا میں تھوڑا سا گھبرایا کہ پتا نہیں عارفہ کیا کہے گی میں یہ سوچ کر باہر نکلا تو اتنے میں اندر سے جویریہ نکلی جوریہ کی نظر مجھ سے ملی تو اس نے نظر چرا لی جویریہ کے ہاتھ میں کھانا تھا میں عارفہ کے ساتھ والی چارپائی پر بیٹھ گیا جویریہ نے کھانا رکھا اور بیٹھ کر مجھے ڈال دیا جوریہ اس وقت فل چادر میں لپٹی تھی میں بھی نظر جھکا کر بیٹھا تھا میں اور عارفہ کھانا کھانے لگے جبکہ نصرت جویریہ اور مدیحہ مل کر کھانا کھانے لگیں سب آج خاموشی سے کھانا کھا رہے تھے میں بھی چپ تھا میری بیٹیوں کو میرے کردار کا پتا تھا انہیں یہ بھی پتا تھا کہ میں قصبے کی کس کس عورت اور لڑکی کو چودتا ہوں۔ لیکن پھر بھی کبھی انہوں نے مجھے جتایا نہیں نا میرے کردار پر کبھی بات کی ہمیشہ مجھے باپ کی جگہ رکھا اور سمجھا اور باپ کی طرح عزت بھی دیتی کبھی انہوں نے مجھ سے کبھی گلہ یا شکوہ نہیں کیا کہ مجھے ان کا خیال رکھنا چاہئیے حالانکہ دکان کی اکثر آمدن تو میں انہی عورتوں اور لڑکیوں کو ہی کھلا دیتا تھا لیکن پھر بھی کبھی انہوں نے شکوہ نہیں کیا وہ اس قابل تھیں کہ خود کما کر کھا رہی تھیں۔ میرے ساتھ تینوں بڑی اٹیچ تھیں نصرت تو میرے ساتھ بہت ہی فرینک تھی اکثر میرے ساتھ بہت مذاق کرتی تھی مجھے تنگ بھی بہت کرتی تھی جویریہ اور مدیحہ سے بھی زیادہ نصرت میرے ساتھ اٹیچ تھی نصرت مجھے پیار بھی بہت کرتی تھی نصرت کھانے پر بھی اکثر مجھے تنگ کرتی رہتی تھی نصرت اکثر میرے کردار پر بات کرتی تھی وہ کہتی تھی کہ ابو یوں ہر کسی کے ساتھ نا یہ کام کیا کرو وہ کافی سمجھدار اور ذہین تھی وہ اکثر کھل کر بات کرلیتی تھی نصرت مجھے کہتی تھی ابو توں اے زنا نا کیتا کر ابو تینوں جو سب تو زیادہ پسند لڑکی ہے توں اس نال نکاہ کر لئے میں اس کی۔ بات پر شرمندہ ہو جاتا کہ میری بیٹی مجھے کہ رہی ہے پر مجھ پر اثر نہیں ہوتا تھا نصرت تو مجھے کہتی تھی کہ ابو تم نکاہ کر لو ہماری فکر نا کرو ہم تو اپنا کما کر کھا رہی ہیں۔ ہمارہ گزارہ ہو جائے گا میں کبھی کبھی سوچتا کہ اس کی بات مان لوں پر جو مزہ زنا میں آتا تھا وہ کہیں نا تھا نصرت کو تو میرا سب پتا تھا نصرت میری بیٹی سے زیادہ میری دوست تھی اس نے آج تک اپنی کوئی بات مجھے نہیں بتائی پر مری ساری باتیں اسے پتا تھیں کون کون میرے ساتھ کب رنگ رلیاں مناتی یہ سب اس نے مجھ سے پوچھ لیا ہوا تھا پتا نہیں اس میں کیا جدو تھا کہ وہ ہر بات پوچھ لیتی تھی خیر میں نے کھانا کھایا اتنے میں کامی بھی آگیا آوارہ گردی کرکے قصبے کے تمام اوباشوں کے ساتھ اس کی دوستیاں تھیں اکثر کبھی کبھار گھر سے غائب بھی رہتا تھا اوباشوں کے ساتھ ہی رہتا تھا پتا نہیں کیا کرتا تھا کبھی کبھار دکان پر میرے ساتھ بیٹھ جاتا تھا کامی کی بہنیں بھی اسے چاہتی تھیں ان کا اکلوتا بھائی تھا بھائی تو پھر بہنوں کو پیارے ہوتے ہیں نصرت نے شروع میں اسے بڑا سمجھایا پر وہ نہیں سمجھا تو اس نے اس کے حال پر چھوڑ دیا لیکن اسے کبھی کہا کچھ نہیں شاید بہنوں کے لاڈ پیار نے ہی بگاڑا ہوا تھا کامی کا بھی اس کی بہنوں کو سب پتا تھا نصرت اس کے ساتھ بھی کافی آتی۔ تھی پر اس نے کبھی اسے روکا نہیں تھا برے کاموں سے ہر کسی کو اپنے بہن بھائی عزیز ہوتے ہیں کامی جیسا بھی تھا میری بیٹیوں کو اپنا بھائی بہت عزیز تھا ویسے بھی کامی اور کامی کے اوباش دوست انہیں لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ مل کر زنا وغیرہ کرتے جو ان جیسی ہوتی تھیں کامی اور اس کے دوستوں نے کبھی کسی کو بلاوجہ تنگ نہیں کیا تھا اس لیے محلے والوں کو ان سے کوئی اعتراض نہیں تھا کامی آیا تو نصرت نے اسے کھانا دیا باقی سب لوگ کھانے کھا کر جا چکے تھے اسوقت وہاں کوئی نہیں تھا میں نے کامی کو دکان پر جانے کو کہا کامی اور میں اٹھ کر اندر بیٹھک میں آکر لیٹ گیا میرے ذہن میں نصرت کا جسم گھوم رہا تھا نصرت کے جسم کا لمس میرے ذہن پر سوار تھا میرے زہن میں ساری فلم گھوم رہی تھی جس سے میرا کہنی جتنا لن تن کر پھنکارنے لگا میرا ضمیر مجھے روکنے کی کوشش کرتا کہ نصرت میری سگی بیٹی ہے پر کئی دنوں سے ذہن پر چھائی شہوت بھی سکون نہیں آنے دے رہی تھی آخر ضمیر اور شہوت کی جنگ میں شہوت جیت گئی اور میں نے نالا کھول کر پانا کہنی جتنا تنا ہوا لن باہر نکال لیا میں نے اپنا لن مسل کر نصرت کے جسم کا تصور آنکھوں میں لے آیا اپنی بیٹی کو اپنے سامنے لیٹا پاکر میں کانپ گیا میں نے کراہ کر تیزی سے ہاتھ چلا کر لن کو مسلنے لگا اپنی سگی بیٹی کو اپنے تصور میں میں نے ننگا کردیا میرے تصور میں میری سگی بیٹی کے تن کر کھڑے ننگے موٹے ممے اور ننگا بدن میری جان لے گیا میں کراہ کر تیز ہاتھ چلاتا ہوا نڈھال ہوگیا اپنی سگی بیٹی نصرت کو اپنے سامنے ننگا سوچ کر میں ہمت جواب دے گئی مجھے ایسا لگا کہ یہ احساس میرا ندر سے ساری گرمی کھینچ کا رہا ہے جس سے میں کانپتی ایسا تڑپنے لگا اسی لمحے میری بیٹی نصرت بھی دروازہ کھول کر اندر آگئی وہ میرے لیے چائے لائی تھی اسے لگا کہ شاید کامی بھی اندر ہوگا جیسے ہی وہ اندر آئی تو سامنے مجھے اپنا کہنی جتنا لن ننگا کرکے ہاتھ میں پکڑ کر تیزی سے مسلتے ہوئے کراہ کر ہانپتا دیکھ کر گھبرا کر چونک گئی نصرت کی ہلکی سی چیخ نکلنے لگی جو نصرت نے منہ پر ہاتھ رکھ کر دبا لی اپنے باپ کو یوں ننگا ہوکر مٹھ مارتا دیکھ کر نصرت کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی وہ چونک کر پٹھی آنکھوں سے اپنے باپ کو کا موٹا کہنی جتنا لن دیکھ کر پٹھی آنکھوں سے حیرت سے کھڑی منہ پر ہتھ رکھے کونے میں چلی گئی تھی نصرت کی نظر اپنے باپ کے کہنی جتنے موٹے لن پر تھی میں اپنی بیٹی نصرت کو اپنے تصور میں ننگا دیکھ کر نڈھال ہوکر اسی لمحے کراہ گیا اور ایک لمبی منی کی دھار مار کر کرلاتا ہوا فارغ ہوگیا نصرت میرے لن سے گاڑھی سفید منی کی دھار ہوا میں بلد ہوکر نیچے گرتی دیکھ کر گھبرا گئی نصرت حیرت سے آنکھیں پھاڑے میرے کہنی جیسے لن کو منی ابلتا دیکھ کر ہوش کھو چکی تھی میں کراہ کر اپنا لن اپنی بیٹی کے سامنے ننگا کیے لمبی لمبی پچکاریاں مارتا نڈھال ہوچکا تھا نصرت حیرت سے اپنے باپ کے کہنی جتنے لمبے موٹے لن کو منی ابلتا دیکھ کر بے بنی کھڑی تھی اتنا بڑا اور آنکھوں کے سامنے ننگا لن شاہد میری بیٹی نے پہلی بار دیکھا تھا جس سے وہ ہوش کھو چکی تھی میری آنکھ کھلی تو سامنے اپنی بیٹی نصرت کو منہ پر ہاتھ رکھے پٹھی آنکھوں سے اپنے لن غورتے دیکھا تو میرے پاؤں سے زمین نکل گئی میں ہڑبڑا کر اوپر ہوا تو نصرت مجھے دیکھ کر ڈر کر ہلکی سی کر بولی اوئے ہالیوئے ابو اور جلدی سے چائے کے دو کپ وہیں رکھے اور میرے سیدھے ہونے سے پہلے مڑی اور بھاگ کر کمرے سے باہر نکل گئی میں ہڑبڑا کر سیدھا ہوا تو نصرت جا چکی تھی میں ایک منٹ میں ہوش میں آکر سمجھ گیا کہ سب کچھ برباد ہوچکا ہے میں اپنی بیٹی کے سامنے مٹھ لگا رہا تھا وہ کیا سوچے گی کہ اس کا باپ کہیں وہ یہ نا سوچے کہ میں اس پر مٹھ لگا رہا تھا یہ سوچ کر میرے اندر کا ضمیر مجھے کہنے طعن کرنے لگا کہ میں نے یہ کیا کر دیا اپنی ہی سگی بیٹی پر مٹھ لگا دی میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور خود کو کوسنے لگا مجھے خود پر بہر غصہ آیا نصرت مجھے بہت چاہتی تھی میں اسکا باپ تھا وہ تو مجھے اپنا سہارا سمجھتی تھی میں نے اس کے ساتھ کیا کیا یہ سوچ کر میرا ندامت سے سر پھٹا جا رہا تھا میرا دل کسی کام کو نا کیا میں نے خود کو سنبھالا اور خود کو لعن طعن کرتا لیٹ کر نیند کی وادیوں میں کھو گیا

ایک تبصرہ شائع کریں for " بیٹیاں جوان۔ رکھیں باپ کا دھیان"