Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

جوانی کی آگ میں جلتی شریف زادیاں


میرا نام عاشق ہے میری عمر30 کے لگ بھگ ہے میں ذات کا مسلم شیخ ہوں ہم تین بھائی ہیں مجھ سے بڑا صادق 35 سال کا جبکہ مجھ سے چھوٹا عنصر 25 سال کا ہے والدہ کا انتقال ہو چکا ہے مرا گزر بسر لوگوں کے کام کاج کرکے ہی گزرتا ہے میرا والد بھی لوگوں کا کاما رہا ہے وہ اب بھی کاما ہی ہے میں نے جب سے ہوش سنبھالا پہلے ایک گاؤں کے چوہدری پر کام کرنے لگے پھر ابے نے مجھے ایک گھر پر کاما رکھوا دیا میں وہاں چند سال گزارے تو میری ان سے ان بن ہو گئی اس لیے میں واپس ابے کے پاس چلا گیا اب کچھ دن سے ابے کا ہاتھ ہی بڑا رہا تھا ابے کی عمر تو پچاس کے لگ بھگ تھی پر چوہدریوں کے ہاں اچھی خوراک اور اچھے رہن سہن سے ابا ابھی بھی جوان اور صحت مند لگتا تھا ویسے بھی ہماری ہڈی کافی مضبوط تھی اس لیے میں بھی ابے پر گیا تھا کافی لمبا چوڑا اور صحت مند کام کرنے سے جسم کافی مضبوط اور سڈول تھا تنا ہوا سینہ اونچا قد آور مضبوط جسم سے کافی چوڑا اور بھرپور مردانی وجاہت میرے اندر بھر چکی تھی میں پورا دہوش لگتا تھا ابے کا نام رحمت تھا جو سب لوگوں میں رحموں کے نام سے مشہور تھا میں اب ابے کے پاس ہی تھا کچھ دن ابے کے پاس رہا تو پھر ایک دن ابے نے مجھے کام کا بتایا پاس والے گاؤں میں جو ہمارا اپنا گاؤں بھی تھا وہاں کسی کو ایک بندے کی ضرورت تھی ابا مجھے لے کر وہاں چلا گیا گاؤں کی ایک طرف ہٹ کر ایک حویلی تھی جس میں گھر کے ساتھ ہی ڈنگروں کا باڑہ تھا ابا اور میں وہاں حویلی کے گیٹ پر پہنچے میں بڑے عرصے بعد گاؤں آیا تھا جب سے ہوش سنبھالا تھا یہاں سے نکل گیا تھا آج بڑے عرصے بعد یہاں آیا تھا جہاں تک مجھے یاد ہے یہ حویلی پہلے نہیں دیکھی تھی پہلی بار حویلی بنی تھی ابے نے دروازہ کھٹکھٹایا تو دروازہ کھلا تو سامنے ایک لمبے قد آور چوڑے جسم کی عورت کھڑی تھی اس عورت نے کسا ہو لباس ڈال رکھا تھا جس سے اس کا جسم کسے لباس میں کسا ہوا صاف نظر آرہا تھا میں نے ایک نظر اس عورت کے جسم پر گھمائی تو اس کا چوڑا جسم کافی خوبصورت اور سیکسی تھا اس نے اوپر مموں پر چھوٹا سا دوپٹہ رکھا ہوا تھا جو اسکے مموں کو ڈھانپ رہا تھا لیکن چھپے ہوئے مموں بھی بلا کے موٹے اور ابھرے ہوئے صاف نظر آ رہے تھے میں نے اوپر اس کے چہرے کی طرف دیکھا تو اس نے دوپٹہ سر پر نہیں ہے رکھا تھا اس کی گت اور بال نظر آرہے تھے اس کا پھولا ہوا گورا چہرا ہلکا سا مسکرا کر ابے کو دیکھ کر چہک کر بولی وے آ وے رحموں آج تے بڑا دل کڈھیا ہئی آج تے ساڈے ویہڑے آ وڑیا ایں خیر تے ہے نا ابا اسے دیکھ کر ہنس دیا میں نے اس عورت کے چہرے کو گھورا تو مجھے یہ چہرہ پہچانا سا لگا پر مجھے یاد نہیں آ رہا تھا میں نے اس کی نظروں دیکھا تو ابے کو گہری نظروں سے دیکھتی اس کا چہرہ دمک سا رہا تھا جبکہ اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک ا چکی تھی ابا ہنس کر بولا بس او بہزاد ( ہنٹر سٹوری چور)آکھیا ہا کہ کاما چاہی دا اس واسطے بندہ لئے کے آیا ہاں اور میری طرف اشارہ کیا اس عورت نے مسکرا کر میری طرف دیکھا بہزاد ( ہنٹر سٹوری چور)کا نام سن کر میرے ذہن نے جھٹکا لیا اور میں سمجھ گیا کہ یہ تو بہزاد ( ہنٹر سٹوری چور)کا گھر ہے سامنے کھڑی عورت کوئی اور نہیں بہزاد ( ہنٹر سٹوری چور)کی ماں رفعت تھی اتنے سالوں میں اتنا کچھ بدل گیا مجھے تو یقین نہیں آیا جب چھوٹے تھے تو ابے کے ساتھ اس گھر میں آتے تھے ابے کا ان کے ہاں بہت آنا جانا تھا آنٹی رفعت کے سسر اور خاوند سے ابے کا کافی یارانہ تھا ابا جب بھی وہلا ہوتا ان کے گھر ہی آتا تھا آنٹی رفعت بھی ابے کے ساتھ بہت فرینک تھی میری آنکھوں کے سامنے سب کچھ فلم کی طرح چلنے لگا ابا اکثر اسوقت آنٹی رفعت کے گھر جاتا تھا جب گھر میں کوئی نا ہوتا تھا اسوقت ان کا گھر گاؤں میں تھا آنٹی رفعت کا سسر اور خاوند باہر زمینوں پر ہتے تھے ابا اکثر مجھے بھی ساتھ لاتا تھا میں اسوقت بہت چھوٹا بچہ تھا آنٹی جب گھر میں اکثر اکیلی ہوتی تو ابا اس کو اندر لے جا کر اندر سے دروازہ بند کر لیتا تھا پھر کافی دیر بعد باہر نکلتا تھا میں وہیں گھر میں کھیلتا رہتا تھا آنٹی کی ایک چھوٹی بہن بھی تھی جو اکثر آنٹی کے گھر ہوتی تھی اس کا نام نذیراں تھا نذیراں اسوقت فل جوان تھی اسکی بھی شادی ہوئی تھی ابا جب آنٹی رفعت جو اندر لے جاتا تو نذیراں باہر ہی ہوتی جب آدھے گھنٹے بعد وہ نکلتے تو آنٹی رفعت کمر پکڑ کر باہر نکلتی تھی ابا نذیراں کو لے کر اندر چلا جاتا تھا جبکہ آنٹی رفعت چارپائی پر دوہری ہو کر پڑی ہوتی تھی مجھے سمجھ تو تھی نہیں میں سوچتا کہ پتا نہیں کیا بات ہے پر نہیں اندر کیا ہے۔ ایک دن جب نذیراں نہیں تھی ابا آٹنی رفعت کو اندر لے گیا تو مجھے تجسس ہوا میں کچھ دیر بعد اندر چلا گیا دروازہ ہو دھکا مارا تو دروازہ کھل گیا سامنے کا منظر دیکھ کر میں چونک گیا سامنے بیڈ پر آنٹی رفعت ننگی ہوکر لٹی تھی اس کی ٹانگیں کاندھوں سے لگی تھی جبکہ اوپر ابا پوری شدت سے گانڈ اٹھا اٹھا کر مار رہا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ ابا آٹنی کے اندر اپنا راڈ پھیر رہا تھا جس سے آنٹی تڑپ کر ارڑا کر بکاتی ہوئی حال حال کر رہی تھی آنٹی کی حال حال سے کمرہ گونج رہا تھا میں رک سا گیا ابا مجھے اندر دیکھ کر چونک گیا اور آنٹی کے اوپر گر کر مجھے چونک کر دیکھا آنٹی نے تڑپتے ہوئے ارڑا کر مجھے دیکھا تو اس کا منہ لال سرخ تھا آنکھیں اس کی باہر کو آئی ہوئی تھیں ابا ڈر گیا تھا کہ کوئی آگیا ہے جس سے ابے نے مجھے تڑک گال نکال میں آنٹی رفعت کی حالت سے سہم گیا تھا مجھے لگا کہ ابا آنٹی رفعت کو مار رہا ہے میں ڈر کر باہر بھاگ گیا ابا کچھ دیر بعد نکلا اور مجھے لے کر آگیا ڈر کے مارے میں ابے سے کچھ نا پوچھا پھر اسکے بعد ابا مجھے اس طرف نہیں ہے گیا پھر کچھ عرصہ بعد مجھے یہ بات بھول گئی تھی اسی لمحے آنٹی نے ابے کو اندر آنے کا کہا ہم اندر کی طرف چل دئیے آنٹی ہمارے آگے چل رہی تھی جس سے آنٹی کے کسے ہوئے قمیض میں پتلی قمر اور باہر کو نکلی چوڑی گانڈ ہل رہی تھی آنٹی کی چوڑی گانڈ پر لمبی گت جھول رہی تھی میری نظر آنٹی کی گانڈ پر تھی آنٹی کی چوڑی کمر اور باہر کو نکلی گانڈ پر جھولتی گت کیا منظر پیش کر رہی تھی میرے تو منہ میں پانی بھر آیا تھا میرا دل کیا ابھی پیچھے سے آنٹی کو دبوچ لوں پر ابے کا بھی لحاظ تھا ہم آگے گئے اور آنٹی دروازہ کھول کر دوسرے گھر میں داخل ہو گئی باڑے کے ساتھ ہی بیٹھ تھی جس کا ایک دروازہ باڑے کی طرف کھلتا تھا جب کہ دوسرا مین گیٹ باہر سڑک کی طرف تھا یہ حویلی گاؤں سے تھوڑا باہر تھی آگے جا کر چارائیاں اور موڑھے رکھے تھے وہاں جا کر آنٹی بولی بہ جاؤ ایتھے ہم وہاں بیٹھ گئی آنٹی کے بیٹھنے سے آنٹی کی موٹی گانڈ باہر کو نکلی ہوئی تھی میری نظر وہیں پر تھی آنٹی بولی رحموں توں تے بہوں بڑا آدمی ہو گیا ایں ابا مسکرا کر بولا کیوں کی بنیا آنٹی شکوے کے انداز میں بولی وے ہنڑ توں آندا ہی نہوں کتنے دن ہو گئے ہینڑ تینوں آیا ہویاں آج آیا ہیں اور آنٹی ابے کو گہری آنکھوں ے دیکھ کر مسکرا دی ابا ہنس کر بولا بس کجھ مصروف ہاس۔ آنٹی بولی جی نہیں اونج ہنڑ توں ساتھو رج گیا ایں آنٹی ہنس دی ابا بھی ہنس دیا اور بولا نہیں ایسی کوئی گل نہیں ابا میری موجودگی میں جھجھک رہا تھا اس لیے ابے نے بات بدل دی اور بولا تھواڈے واسطے کاما لئے آیا ہاں آنٹی مجھے دیکھ کر ہنس دی جیسے وہ بھی سمجھ گئی تھی کہ ابا مجھ سے جھجھک کر بات بدل گیا ہے آنٹی مسکرا کر بولی اے تے چنگا کم کیتا ہئی چھوار ہنڑ کم نہیں کردے اے تے بڑا کم کیتا ہئی جہڑا کاما لئے آیا ہیں ابا ہنس پڑا اور بولا مینوں تے احساس ہے نا آنٹی بھی ابے کو گہری آنکھوں سے دیکھ کر ہنس دی اور بولی توں ہی ہنڑ احساس کرنا اے پر ہنڑ توں احساس گھٹ کر گیا ایں میں سمجھ گیا کہ آنٹی کے ہاں ابے کے چکر اب کم ہو گئے ہیں اس لیے آنٹی بھی شکوہ کر رہی ہے ابا ہنس کر بولا کوئی نہیں ہنڑ تیرے اولاہمے کا دیساں آگے مصروف ہاس آنٹی کا چہرہ یہ سن کر چمک سا گیا اور مسکرا دی ابا بولا چھوار ہنڑ تیرے آزاد ہو گئے ہینڑ کم نالو آوارہ گردی کرنا اوہنا نوں چنگا لگدا آنٹی بولی ہوں تیرے تے گئے ہینڑ دوویں کم چور ابا ہنس کر بولا میں کہڑی کم چوری کیتی آنٹی نے گہری آنکھوں سے دیکھا کردا تے ہیں اس بات پر دونوں ہنس دئیے میں بھی سب سمجھ گیا تھا آنٹی بولی اے ویسے ہے کون ابا بولا اے میرا پتر اے آنٹی اس بات پر چونک گئی اور بولی اے تیرا پتر اے اے عاشق تے نہیں ابا بولا ہا اے عاشق اے آنٹی مجھے دیکھ کر چہک کر بولی ہالنی میں مر جاواں وے عاشقو دسدا ہی نہوں پیا میں تاں ہی ویکھ رہی آں کہ اے سگواں تیرے آر لگ رہیا اے آنٹی اٹھ کر کھڑی ہوئی اور بولی وے کملیا آٹھ کے مینوں مل توں تے اپنے گھر دا چھور نکلیا ہیں نی میں صدقے جاواں آنٹی کے کھڑے ہونے پر میں بھی کھڑا ہوگیا اور آنٹی کے آگے جھک گیا آنٹی نے مجھے ہاتھ پھیرا اور بولی وے عاشقا تینوں نہیں پتا تیرا پیو تے ساڈا بھرا بنیا ہویا اے توں تے اپنا پتر ہیں میں یہ سن کر ہنس دیا اور دل میں بولا کہ میں جنتا ہوں جو یہ بھرا ہے تیرا آنٹی مجھ سے مل کر کافی خوش لگ رہی تھی امی بولی رحموں اے تے چنگا کیتا ہئی جہڑا اپنا پتر رکھیا ہئی ساڈے کول گھر دا چھور ہے تینوں پتا گھر اچ جوان چھوریں پینٹ اے اپنا بندہ اے گھر آندا جاندا رہیا تے کوئی مسئلہ نہیں آنٹی کا گھر گاؤں میں ہی تھا حویلی یہاں تھی آنٹی نے ابے سے بات فائنل کی اور مجھے وہاں چھوڑ کر ابا گھر کی طرف چل دیا آنٹی مجھے دیکھ کر مسکرا دی اور بولی وے توں تے گھر دا بندہ ایں ہنڑ توں سارا کجھ سنبھال لئے تیرے بھرا تے گھر آندے ہی نہیں توں ہی سنبھالنا اے سارا کجھ آنٹی نے مجھے سارا کچھ سمجھایا میں کام کرنے لگا شام سے پہلے بہزاد ( ہنٹر سٹوری چور)بھی آگیا بہزاد ( ہنٹر سٹوری چور)مجھ سے ملا میں بہزاد ( ہنٹر سٹوری چور)کو دیکھ کر حیران بھی ہو رہا تھا بہزاد ( ہنٹر سٹوری چور)سے ابے کی ہلکی ہلکی جھلک نظر آرہی تھی میں سمجھ گیا کہ یہ بھی ابے کی پیداوار ہے میرا دل یہ سوچ کر نا جانے کیوں خوش سا ہو گیا بہزاد ( ہنٹر سٹوری چور)نے ابے جیسا ہونا ہی تھا اس کی ماں کا میرے ابے سے چکر جو تھا اس کی شکل ابے پر ہی جانی تھی بہزاد ( ہنٹر سٹوری چور)مجھ سے ملا اور مجھے کام سمجھانے لگا کچھ دیر ہی بعد بہزاد ( ہنٹر سٹوری چور)کا دوسرا بھائی بھی آگیا وہ جیسے ہی اندر داخل ہوا میں اسے دیکھ کر چونک گیا وہ تو ہو بہو ابے کی طرح تھا وہ آنٹی کا بڑا بیٹا تھا نام تو اس کا کچھ اور تھا لیکن لوگ اسے ندیم ( ہنٹر سٹوری چور)کے نام سے جانتے تھے ندیم ( ہنٹر سٹوری چور)بھی ہو بہو ابے کی شکل کا تھا میں سمجھ گیا کہ یہ ان دنوں کی ابے کی محنت کا نتیجہ ہے جب ابا اور میں آنٹی کے گھر جاتے تھے ندیم ( ہنٹر سٹوری چور)جتنا حرامی تھا اس کی چلتی پھرتی تصویر بھی تھا ہر برا کام اس کا تھا علاقے کے اوباشوں سے اس کی دوستیاں تھیں غلط کاموں میں پڑا ہوا تھا ہر وقت آوارہ گردی کرتا تھا بہزاد ( ہنٹر سٹوری چور)بھی کچھ کم نا تھا وہ بھی آوارہ گرد ہی تھا دونوں گھر سے غائب ہی رہتے تھے آنٹی رفعت کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں بڑا بیٹا ندیم ( ہنٹر سٹوری چور)تھا جو میرا ہم عمر ہی ہے اس چھوٹی کا نام نصرت تھا نصرت کی عمر 28 سال تھی نصرت سے چھوٹی سونیا کی عمر 26 سال ہے اس سے چھوٹی سعدیہ ہے سعدیہ کی عمر 24 سال ہے اس سے چھوٹا بہزاد ( ہنٹر سٹوری چور)22 سال کا جبکہ اس سے چھوٹی صدف کی عمر 18 سال ہے آنٹی رفعت کے دونوں بیٹے تو آوارہ تھے پر اس کی بیٹیاں اچھی شہرت رکھتی تھیں کبھی ان کے بارے غلط بات نہیں سنی نصرت اور سونیا دونوں ماسٹر کر چکی تھیں سعدیہ یونیورسٹی پڑھ رہی تھی جبکہ صدف ابھی کالج میں تھی چاروں بہت ہی شریف اور باپردہ لڑکیاں تھیں شام کو کام کرنے کے بعد میں نے دودھ دوہا اور دودھ لے کر گھر کی طرف چل دیا آنٹی نے کہا تھا کہ کھانا گھر ہی آکر کھانا ہے میں گھر گیا میں نے دروازہ کھٹکایا تو آنٹی نے دروازہ کھولا سامنے مجھے دیکھ کر آنٹی مسکرا دی آنٹی دوپٹے کے بغیر تھی جس سے آنٹی کے تنے ہوئے ہوا میں اکڑے موٹے ممے صاف نظر آرہے تھے میری نظر سیدھی مموں سے ہوتی آنٹی رفعت سے ملی آنٹی نے مسکرا کر مجھ سے دودھ کے لیا اور اندر چلی گئی کچھ دیر بعد بہزاد ( ہنٹر سٹوری چور)نے بیٹھک کا دروازہ کھولا اور مجھے اندر چلا لیا کھانا کھا کر میں ڈیرے پر آکر سو گیا صبح اٹھا اور دودھ نکالا میں نے دیکھا تو گدھا کھڑا کچھ جانوروں کو تنگ کر رہا تھا میں نے اسے باڑے کی پچھلی طرف کے درخت سے باندھ دیا بہزاد ( ہنٹر سٹوری چور)آیا اور دودھ لے گیا اور مجھے کھانا دے گیا میں نے کھانا کھایا اور کچھ کام کرنے لگا میری عادت تھی میں کام کرتے وقت قمیض اتار دیتا تھا میں قمیض اتار کر کام کر رہا تھا کام ختم کیا تو بدن ہلکا سا پسینے سے گیلا ہو رہا تھا مجھے اب چارہ لینے جانا تھا میں پچھلی طرف بندھے گدھے کو لینے گیا میں جیسے ہی نکلا سامنے کا منظر دیکھ کر میں چونک گیا سامنے کھوتا فل ہوشیار کھڑا تھا کھوتے کا بازو جتنا لن فل تیار تھا وہ ہلکے ہلکے جھٹکے مار رہا تھا کھوتے کا لمبا موٹا کالا لن اتنا لمبا تھا کہ زمین کو چھو رہا تھا اتنے میں میری نظر دوسری طرف گئی تو سامنے دو عورتیں نظر آئیں جو چادر میں لپٹی ایک درخت کے نیچے کھڑی تھیں دونوں میں ایک تھوڑی بڑی عمر کی لڑکی لگ رہی تھی جیسے اس کی عمر 35 سال کے قریب تھی جبکہ دوسری کی عمر 30 کے قریب پگ رہی تھی دونوں بھرپور جوان تھی۔ اور دونوں گدھے کے لن ے موٹے کالے پن کو گہری آنکھوں سے دیکھ کر ہنس کر ایک دوسرے سے بات کر رہی تھی دونوں بڑی دلچسپی سے گدھے کو دیکھ رہی تھی دونوں کی آنکھوں کی لالی سب بتا رہی تھی میں ان کو یوں گدھے کو دیکھتا چونک گیا وہ بھی مجھے دیکھ کر چونک گئیں میری نظر سامنے کی طرف وہ مجھے دیکھ کر سنبھل سی گئی تھی ایک لڑکی تو یوں گدھے کو دیکھنے پر شرمندہ سی ہو کر منہ دوسری طرف کر گئی جبکہ دوسری جو ذرا بڑی تھی وہ مجھے دیکھ کر چونک گئی میں قمیض کے بغیر تھا جس سے میرا چوڑا بھرا ہوا سخت جسم وہ آنکھوں سے ٹٹول رہی تھی میں نے اسے نظر بھر کر دیکھا تو میں اسے پہچان گیا وہ آنٹی رفعت کی بہن نذیراں تھی میں نے اسے پہچان تو گیا پر میں بھی تھوڑا شرمندہ تھا اس لیے میری اس سے بات کرنے کی ہمت نا ہوئی وہ بدستور مجھے ہی دیکھ رہی تھی میں مڑا اور سوچا کہ جلدی سے گدھا کھول کر اندر کے جاؤں ان کو مزید شرمندہ نا کروں میں گدھے کی طرف بڑھ رہا تھا کہ اسی لمحے نذیراں بولی وے توں ہیں نواں کاما میں چونک کر مڑ گیا اور بولا ہاں جی نذیراں بولی اچھا جی باجی دس رہی ہا توں رحموں دا پتر ہیں میں مسکرا کر سر ہلایا تو نذیراں ہنس دی اور میرے بدن پر ایک نظر گھما کر بولی توں عاشق ہیں میں بولا جیا وہ بولی اچھا مینوں پہچانیاں ہئی میں مسکرا کر بولا توں نذیراں ہیں آنٹی دی بھین یہ سن کر نذیراں ہنس کر بولی واہ جی واہ توں تے بڑی پہچان رکھی ہوئی ہے نکا جیا ہائیں جدو آندا ہائیں ہنڑ تے وڈا سارا ہو گیا ایں اور میری طرف چلتی ہوئی قریب آکر بولی ہتھ تے پھرا میں نچے جھکا تو نذیراں نے میرے ننگے کندھے پر ہاتھ رکھ کر دبا کر پھیرا نذیراں کا ملائم ہاتھ مجھے سرور سا دے گیا نذیراں مسکرا دی اور بولی وے چنگا کیتا ہئی جہڑا رہ پیا ایں سادے کول ساڈا وی دل لگ جاسی میں چونک گیا جبکہ نذیراں اس لڑکی کو دیکھ کر مسکرا دی جو کن اکھیوں سے میرے ہی بدن کو ٹٹول رہی تھی وہ بھی مسکرا دی میں نے اسے دیکھا تو وہ مستی سے مجھے دیکھ رہی تھی مجھ سے نظریں ملتے ہی وہ نظریں چرا گئی میں مسکرا دیا نذیراں اس لڑکی طرف اشارہ کرکے بولی اس نوں جانڑردا ایں میں نے مسکرا کر سر ہلایا تو وہ ہنس کر بولی چلو ہنڑ توں آگیا ہیں نا ہنڑ توں جانڑ جاسیں اے نصرت ہئی تیری آنٹی دی دھی میں یہ سن کر چونک گیا اور ایک نظر نصرت کو گہری نظروں سے دیکھا نصرت بھی ٹھیک ٹھاک چوڑے جسم کی لمبے قد والی لڑکی تھی اس کا چادر میں لپٹا جسم اپنا جلوہ دکھا رہا تھا میں نے اسے دیکھا تو وہ مسکراتی آنکھوں سے مجھے غور رہی تھی میں اسے دیکھ کر مسکرا دیا نذیراں بولی اے وی تیری مالکن سے اس دا حکم وی منی رکھیں اور مسکرا کر نصرت کو دیکھا نصرت نذیراں کو غورا اور منہ پھیر گئی میں ہنس دیا اتنے میں دوسری طرف بائیک کے آنے کی آواز آئی نذیراں بولی لگدا بہزاد ( ہنٹر سٹوری چور)آگیا اے آجا نصرت چلیے یہ کہ کر دونوں چکی گئیں میں گدھا کے کر۔ آرہ لینے چلا گیا میں سمجھ گیا تھا کہ یہاں صرف ڈیرے کا کام نہیں گھر کی عورتوں کا کام بھی کرنا پڑے گا میرا دل تو باغ باغ ہو رہا تھا پر میں جھجھک بھی رہا تھا کہ بات کیسے بڑھاؤں کیونکہ اکثر لڑکیاں صرف اشارہ دیتی ہیں ان کے ساتھ تو بات خود ہی بڑھانی پڑتی ہے میرے اندر جھجھک بہت تھی جس کی وجہ سے میں اکثر عورتوں کو گھیر نہیں پاتا تھا جو خود بخود نیچے آجاتیں وہ چد جاتی تھیں جو کہ بہت کم تھی اور میں اکثر ان کو پسند بھی نہیں کرتا جس کی وجہ سے میں ان کے قریب بھی نہیں جاتا تھا یہاں بھی یہی مسئلہ درپیش تھا کہ بات کیسے بڑھاؤں سب کی سب ہی مجھے پسند تھیں یہ سوچ کر میرا بازو جتنا لن تن کر فل کھڑا تھا میرے چوڑے جسم کے ساتھ میرے اندر مردانی وجاہت بھی کوٹ کوٹ کر بھری تھی جہاں پہلے ہوتا تھا وہاں میں کثر گدھی کو چودتا رہتا تھا کیونکہ عورت تو ملتی نہیں تھی اس لیے گدھی سے کام چلا لیتا تھا گدھی کی تنگ پھدی کے کھینچاؤ اور پکڑ نے میرے لن کو بازو جتنا لمبا اور موٹا کر دیا تھا میرے کالے پن کی کھردری چمڑی عورت کو دوہرا کر دیتی تھی آج تک کسی عورت نے میرا پورا لن نہیں لیا تھا میرا لن فل تن کر کھڑا تھا میں شام تک کام کرتا رہا اور پلان بناتا رہا کہ نذیراں اور آنٹی کو کیسے گھیروں پر کوئی پلان نا بنا جو بھی بنتا پسند نہیں آیا خیر شام کو میں دودھ لے کر گھر آیا میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو سامنے ایک نئی لڑکی نے دروازہ کھولا جو دوپٹے کے بغیر ہی تھی میں اسے دیکھ کر چونک گیا وہ بھی کسے ہوئے قمیض میں تھی تنے ہوئے اکڑ کر ہوا میں کھڑے موٹے ممے قیامت ڈھا رہے تھے پتلی کمر باہر کو نکلی موٹی گانڈ مست لگ رہی تھی وہ یقیناً نصرت سے چھوٹی سونیا تھی مجھے دیکھ کر چونک گئی میں بھی چونک گیا وہ بولی کون پھر خود ہی میرے ہاتھ میں ڈرمی دیکھ کر سمجھ گئی اور بولی دودھ مینوں دے چا میں نے ڈرمی اسے پکڑا دی گورے ہاتھوں نے ڈرمی مجھ سے لے لی اس نے مجھے گہری آنکھوں ے دیکھا اور دروازہ گھما کر اندر چلی گئی میں بیٹھک کھلنے کا انتظار کرنے لگا کہ اتنے میں دروازہ پھر کھلا اور سامنے آنٹی رفعت سفید شلوار قمیض میں کھڑی تھی آنٹی کے موٹے ہوا میں اکڑے ہوئے تھن مجھے سلامی دے رہے تھے آنٹی نے گت کرے آگے مموں پر ڈالی ہوئی تھی آنٹی کا قمیض آنٹی کے جسم سے چپک کر جسم واضح کر رہا تھا آنٹی مجھے دیکھ مسکرا دی اور بولی عاشقو اپنا ہی گھر ہے اندر ہی آجا آنٹی کے یوں اندر گھر میں بلانے پر میں جھجھک سا گیا میں نے آنٹی کے مموں سے نظر ہٹا کر آنٹی کو دیکھا تو آنٹی مسکرا دی میں بولا مٹی اندر کیویں آنٹی بولی وے اے اپنا ہی گھر سمجھ اور میرے بازو سے پکڑ کر اندر کھینچ لیا میں بے اختیار کھٹکا کھا کر اندر چلا گیا جیسے ہی اندر گیا تو میرا دل دھک دھک کرنے لگا آنٹی مجھے دیکھ کر بولی وے اے اپنا گھر ہی سمجھ ہنڑ توں سادے گھر دا حصہ ایں میں نے مڑ کر آنٹی کو دیکھا تو آنٹی ہانپ رہا ہوئی مجھے مستی سے دیکھ رہی تھی میں سمجھ گیا کہ آج میں گیا آنٹی کے تنے ہوئے ممے قیامت ڈھا رہے تھے آنٹی کا انگ انگ نظر آرہا تھا میں جھجھک بھی رہا تھا کبھی کسی کے گھر گیا نہیں تھا آنٹی آگے چل پڑی آنٹی کی پھدکتی گانڈ کو میں کن اکھیوں سے دیکھ رہا تھا آنٹی آگے صحن میں پڑی چارپائی پر جا کر بیٹھ گئی اور بولی عاشق ایتھے بہ جا میں روٹی بنا رہی آں تینوں وی دیندی آں میں وہیں بیٹھ گیا اسی لمحے سامنے میری نظر پڑی تو نصرت ٹوٹی سے برتن اٹھا کر ا رہی تھی میری نظر اس سے ملی تو وہ مسکرا کر مجھے گہری آنکھوں سے غور رہی تھی نصرت بغیر دوپٹے ہے تھی نصرت نے بھی ایک کسا ہوا لباس ڈال رکھا تھا جس سے نصرت کا کسا پھول کی طرح کا گداز ہوا بدن قمیض سے جھانک رہا تھا نصرت کا جسم ہلکا سا بھرا ہوا تھا نصرت کا چوڑا اٹھا ہوا سینہ قیامت ڈھا رہا تھا نصرت نصرت کے تن کر ہوا میں کھڑے ممے میرا دل چیر رہے تھے نصرت کی پتلی کمر چپٹا پیٹ باہر کو نکلی موٹی گانڈ موٹے شلوار میں کسے ہوئے پٹ قیامت ڈھا رہے تھے نصرت کے کپڑے جسم کے ساتھ چپک کر نصرت کا بھی انگ انگ دکھا رہے تھے نصرت نے چلتے ہوئے مجھے دیکھتی ہوئی کیچن کی طرف مڑ گئی نصرت کی لمبی گت نصرت کی پھڑکتی گانڈ پر کھیل رہی تھی میں تو اس منظر میں کھو سا گیا تھا نصرت نے کیچن میں داخل ہوتے ہوئے مجھے دیکھا میں اس کی گانڈ کو غور رہا تھا وہ مجھے اپنی گانڈ دکھاتی ہوئی مسکرا دی میں چونک کر نظر چرا گیا میری نظر کیچن کے دروازے پر ہی تھی کہ اسی لمحے اندر سے ایک اور لڑکی نکلی اور اندر کمرے میں جانے لگی وہ بھی دوپٹے کے بغیر ایک کسے ہوئے لباس میں تھی میں اسے دیکھ کر چونک گیا اور سمجھ گیا کہ یہ سعدیہ ہے سعدیہ نے ایک گہری نظر مجھے دیکھا اور آگے چلتی ہوئی اندر جانے لگی سعدیہ کا قد تھوڑا لمبا تھا لیکن اس کا جسم تھوڑا پتلا تھا لیکن اتنا بھی نہیں تھا اس کے جسم کے خدو خال باقی بہنوں سے کم نہیں تھے سعدیہ کے ممے بھی کافی اٹھے ہوئے ایسا لگ رہا تھا کہ یہ سب اپنے مموں کا خاص خیال رکھتی تھیں میں تھوڑا جھجھک بھی رہا تھا پر ان میں کوئی جھجھک نہیں تھی وہ بے دھڑک میرے سامنے چل پھر کر اپنا جسم مجھے دکھا رہی تھیں مجھے لگ رہا تھا کہ میں کسی رنڈی خانے میں آگیا ہوں تینوں بہنیں آگے پیچھے مجھے اپنے بدن کا نظرانہ کروا رہی تھیں میں بھی خوش تھا اتنے میں آنٹی کھانا لائی اور مجھے دیا آنٹی پاس ہی بیٹھ گئی میں کھانا کھانے لگا آنٹی بولی عاشق توں اپنا بندہ ہیں ہنڑ اے تیرا اپنا گھر بے فکر ہوکر گھر آیا گیا کر گھبراون دی ضرورت نہیں جو مرضی کردا کر کھا پی اپنا گھر اے میرے تو کان کھڑے ہو گئے میں سمجھ گیا کہ آنٹی سب کچھ کھانے کی آفر کر رہی ہے میں نے بھی ہاں میں سر ہلا دیا آنٹی پاس ہی بیٹھی رہی اس دوران نصرت سونیا اور سعدیہ بھی میرے اوپر نیچے ہوکر مجھے اپنا آپ دکھاتی رہتی۔ میں حیران بھی ہو رہا تھا کہ کیسے یہ گاؤں میں شریف آر باپردہ مشہور ہیں پر یہاں مجھے سب کچھ دکھا رہیں میں اتنے خوبصورت نظارے کرکے خوش بھی ہو رہا تھا آنٹی کی بیٹیاں اچھی تک کنواری بیٹھی تھیں شاید انہیں بھی کسی ایسے مرد کی تلاش تھی جو ان کا راز بھی رکھے اور ان کی خواہش بھی پوری کرے یں خوش بھی تھا اور ایک دھڑکا بھی تھا کہ میں ان کو کیسے سنبھال پاؤں گا یہ تو ایک سے بڑھ کر ایک جوانی تھی میں کھانا کھا کر ڈیرے پر آگیا میرے ذہن پر نصرت اور اس کی بہنیں سوار تھیں آنٹی نے مجھے کھلی چھٹی دے تو دی تھی پر میں بھی اتنی جلدی میں گرم دودھ کو منہ نہیں لگانے والے تھا ٹھنڈا کرکے پینا تھا میں ڈیرے پر آکر کچھ کام کیا اور پھر آنٹی اور نصرت لوگوں کا سوچتا ہوا جلد ہی سو گیا

ایک تبصرہ شائع کریں for "جوانی کی آگ میں جلتی شریف زادیاں"