میرا نام بہزاد ہے میری عمر 15 سال کے قریب ہے میں ایک گاؤں کا رہائشی ہوں کچھ سال پہلے میرے والد کا انتقال ہو چکا ہے میں نویں جماعت میں پڑھتا ہوں ہمارا گاؤں شہر سے کافی دور ہے قریب کوئی بھی شہر نہیں لگتا جس کی وجہ سے گاؤں کی اکثر ابادی پسماندہ اور غریب لوگوں پر ہی مشتمل ہے چند گھر ہی مالی طور پر مستحکم ہیں باقی سب نچلے درجے پر ہی رہتے ہیں ہمارا شمار بھی نچلے درجے کے لوگوں میں ہی ہوتا ہے ابو بھی محنت مزدوری کرتے اس دنیا سے چلے گئے ہم ٹوٹل چار بہن بھائی ہیں سب سے بڑی بہن کا نام نصرت ہے نصرت کی عمر 28 سال ہے باجی نصرت ماسٹر کر چکی ہے اس سے چھوٹی سعدیہ کی عمر 26 سال ہے سعدیہ صرف گریجویشن کر سکی ہے اس سے چھوٹی کا نام اصباح ہے اصباح کی عمر18 سال ہے ہمارا گاؤں چونکہ شہر سے دور تھا اس لیے گاؤں میں کوئی سکول نہیں تھا اس لیے ایک این جی او نے نیم سرکاری ادارہ قائم کر رکھا تھا جہاں لڑکے لڑکوں کو میٹرک تک تعلیم دی جاتی تھی یہ سکول پرائیویٹ این جی کےزیر اثر چلتا تھا چونکہ باجی نصرت بھی اسی میں پڑھتی تھی وہ کافی لائق اور ذہین تھی تو میٹرک کے بعد اسی سکول کے وکالت شپ پر باجی نصرت شہر جا کے پڑھنے لگی اور اپنی تعلیم مکمل کرکے واپس گاؤں آئی تو اسی سکول میں باجی ٹیچر لگ گئی سعدیہ بھی وہیں سے گریجویشن کر کے واپس آئی تھی اس لیے وہ بھی وہیں پڑھانے لگی میں بھی اسی سکول میں پڑھتا تھا باجی نصرت اور سعدیہ کو ادارے کی طرف سے کچھ تھوڑا بہت ہی پیسے ملتے جس سے گزارہ مشکل سے ہی ہوتا ابو کے انتقال کے بعد تو اور آمدنی کم ہو گئی لیکن لیکن گزارہ ہو ہی رہا تھا ابو کے بعد گھر کا سارا نظام باجی نصرت کے ہاتھ میں تھا امی بھی گھر داری ہی سنبھالتی تھی میں بھی بڑا ہو رہا تھا باجی نصرت اور سعدیہ کی تنخواہوں سے گزر بسر مشکل سے ہی ہوتی تھی مجھے بھی شوق تھا کہ میرے پاس پیسے ہوتے کبھی کبھار ضد کرنے پر باجی چند پیسے دے دیتی میرے باہر کے کچھ دوستوں کو روز پیسے ملتے لیکن ہم کچھ دوست صرف ان کو دیکھتے ہی رہتے ہمارے دل میں بھی حسرت ہوتی کہ کاش ہمیں بھی پیسے ملتے پر یہ حسرت ہی رہتی ۔ میری حسرتیں بڑھتی جا رہی تھیں جبکہ ان کو پورا کرنے کا کوئی سین نظر نہیں آ رہا تھا ہمارے گاؤں کا ماحول ایسا تھا کہ اچھے گھر کے لڑکے ہم جیسوں کو پیسے دے کر ان سے غلط کام کرواتے تھے کچھ لڑکے بھی پیسوں کے لالچ میں کرتے تھے کھاتے پیتے گھروں کے اوباش لڑکے غریبوں کی لڑکیوں کو لالچ دے کر پھنساتے تھے کچھ پھنس جاتیں کچھ نہیں پھنستی تھیں پھر وہ بڑے لوگوں کے خلاف کوئی بات بھی نہیں کرتا تھا باجی نصرت اور سعدیہ ابھی بچی ہوئی تھیں اس کی وجہ باجی نصرت اور سعدیہ کا سخت رویہ تھا وہ تھوڑی ڈھاڈھی تھیں اکثر کئی لڑکوں کی پٹائی بھی ہو چکی تھی میں ان دنوں نیا نیا جوان ہوا تھا میرا ایک دوست اور ہم جماعت تھا اس کا نام ندیم تھا اس کے حالات توں ہم سے بھی گئے گزرے تھے لیکن اکثر سکول میں میں اس کے پاس کافی پیسے دیکھتا تھا اس کی بہن کا نام ثانیہ تھا وہ باجی نصرت کی سہیلی تھی دونوں شہر سے پڑھ کر آئی ہوئی تھیں اور پکی سہیلیاں تھیں اور سکول میں پڑھاتی تھیں ندیم روز سکول میں کچھ نا کچھ خریدتا تھا میں اس سے پوچھتا کہ وہ یہ سب کہاں سے لاتا ہے وہ کہتا کہ باجی نے دئیے ہیں حالانکہ ندیم کا خاندان ہم سے بڑا تھا وہ چھ بھائی بہن تھے اور صرف اسکی بہن سکول پڑھا کر گھر چلاتی تھی اس کا ابا نشئی تھا اور نشہ کرکے پڑا رہتا تھا میں حیران تھا کہ میری دو بہنوں کی تنخواہوں سے ہمارا گزارہ مشکل تھا جبکہ وہ اکیلی بہن کے ہوتے ہوئے بھی عیاشی کرتا تھا میں اس سے اکثر پوچھتا تھا کہ یار مجھے بھی کوئی طریقہ بتاؤ عیاشی کا وہ ہنس دیتا اور کہتا کہ تیرے سے نہیں ہو گا میں سوچتا رہتا ندیم میرا گہرا دوست تھا وہ اکثر میرے ساتھ رہتا تھا میں اس کے ساتھ گاؤں کے بڑے بڑے اوباش لڑکوں سے اس کی یاری تھی وہ اکثر ان کے ساتھ ہوتا تھا ایک دن اتوار کا دن تھا کہ ندیم اسامہ بھائی کی بیٹھک سے نکلا اور تیزی سے گھر کی طرف جانے لگا اسامہ گاؤں کے چوہدری کا بیٹا تھا اس کی عمر 28 سے 30 سال تھی اپنے باپ کی دولت پر عیاشی کرتا تھا گاؤں کے سب اوباش اس کی بیٹھک میں اکھٹے ہوتے سب مل کر انجوائے کرتے اسامہ کا ڈیرہ گاؤں سے تھوڑا باہر تھا روز ڈیرے پر اسامہ اور اس کے دوست لڑکیوں لاتے اور ساری رات لڑکیوں کا مجرہ چلتا ہر غلط کام اس ڈیرے پر ہوتا تھا چونکہ وہ چوہدری کا بیٹا تھا اس لیے کوئی کچھ نہیں کہتا تھا اسے کھلی چھٹی تھی گاؤں کے درمیان میں اس کا گھر تھا وہاں ہر وقت اوباش اکھٹے رہتے اور جب جی چاہتا اکثر راہ چلتی لڑکیوں کو چھیڑتے رہتے لوگ بھی ڈر کے مارے بولتے نہیں تھے اکثر بس تماشہ دیکھ کر مزے لیتے تھے میں نے اسے اسامہ کی بیٹھک سے نکلتا دیکھا تو اسے بلایا وہ مجھے دیکھ کر رک گیا اس کے چہرے پر پہلے تو گھبراہٹ چھائی پھر ہلکی سی شرارتی مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیل گئی میرا ذہن سوالیہ انداز میں اسے غورا وہ بولا بہزاد توں روز پچھدا ہائیں کہ میں کی کردا آجا آج تینوں دساں میں کردا آں اور مجھے لے کر گھر کی طرف چل دیا میرا زہن سوالات سے اٹا ہوا تھا کہ یہ اب کیا کرے گا کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی میں اس سے پوچھتا تھا وہ کہتی تھی خود دیکھ کے اسی دوران ہم اس کے گھر پہنچ گئے شام سے تھوڑا پہلے کا وقت تھا ہم جیسے ہی اندر داخل ہوئے تو سامنے اس کی بڑی بہن باجی ثانیہ صحن میں بیٹھ کر آٹا گوندھ رہی تھی ندیم کو دیکھ کر اس کی بہن کے چہرے پر ایک مسکراہٹ سی پھیل گئی اور چہرے پر شرارتی سا انداز اسے دیکھنے لگا وہ بولی دیمی توں نہیں سدھرنا وہ ہنس دیا ثانیہ اٹھی اور ہاتھ دھو کر دونوں بہن بھائی اندر چلے گئے میں حیران تھا کہ ایسی کیا وجہ ہو گی کہ یہ بھائی بہن اندر گئے تھوڑی دیر بعد دونوں اندر سے ہنستے ہوئے نکلے باجی ثانیہ نے مجھے دیکھا اور سرگوشی میں کوئی بات ندیم سے کی تو دونوں ہنسنے لگے باجی ثانیہ کے چہرے پر شرارتی سے مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی اور وہ مجھے دیکھ رہی تھی میں شرما سا گیا اور منہ نیچے کرگیا ندیم میرے پاس آیا اور بولا چل سکا میں اسکے ساتھ نکل آیا اور بولا دیمی توں دسی تے نہیں اس نے مجھے دیکھا اور ہنس کر بولا کی جلدی اے دس دیندا آں میں چپ ہوکر اسکے ساتھ چلنے لگا تھوڑا سا ایک ویران سی حویلی تھی جس میں گاؤں والے گند پھینکتے تھے دینی نے ادھر ادھر دیکھا اور میرا ہتھ پکڑ کر اندر لے کر چلا گیا اندر جا کر اس نے مجھے دیکھا تو اس کا منہ لال سرخ تھا میں اس کو دیکھ کر ڈر سا گیا وہ بولا دیکھ بہزاد اے میرا راز اے میں نے آج تک کسی کو نہیں دسیا میں آج صرف تینوں دسنڑ لگا ہاں تے وعدہ کر توں کسے نوں ناں دسیں گا میں نے اسے دیکھا اور بولا دیمی گل کی ہے وہ بولا اوہ وی دسدا پہلے وعدہ کر میں بولا دیمی توں مینوں جانڑدا ایں آج تک تیری کوئی گل کسے نوں دسی بچوں والی بات تھی وہ بولا پر اے ہور گل تے بڑی سیکرٹ ہے میں بولا فکر نا کر میں وعدہ کردا ہاں اس نے مجھے دیکھا اور گھونٹ بھر کر باہر دروازے کی طرف دیکھا دیمی کو پتا نہیں کیوں پسینہ چھوٹا ہوا تھا اس نے پھر گھونٹ بھرا میں بھی حیران تھا کہ ایسی کیا بات ہے جو دیمی اتنا چھپا رہا ہے میں اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا اچانک اس نے جیب سے ایک بڑا سا ٹچ فون نکالا اور میرے سامنے کردیا جسے دیکھ کر میں تو ڈر سا گیا تھا میں بولا اوئے دینی اے کدو لیا ہئی اس نے مجھے اشارے سے چپ رہنے کا کہا اور بولا بھائی اسامے دا اے میں چپ ہوگیا اس نے پھر فون ان کیا اور ایک طرف دیوار کے ساتھ لگ کر مجھے قریب کیا اور ہم دونوں دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑے ہوگئے اس نے موبائل کی سکرین میری طرف کی تو سامنے کی تصویر دیکھ کر میں دنگ رہ گیا میرا تو گلا خشک ہو گیا موبائل میں باجی ثانیہ کی بغیر دوپٹے کے تصویر تھی یہ دیکھ کر میرے تو پسینے چھوٹ گیے میں ہکا بکا اسامے کے موبائل میں باجی ثانیہ کی تصویر دیکھ کر حیران ہو رہا تھا کہ یہ سب کیا ہے باجی ثانیہ تو بڑی شریف بنتی تھی پر یہ کیا ہے مجھے حیران دیکھ کر دیمی بولا بہزاد ککھ سمجھ آئی کے نہیں میں نے سر ہلایا اس نے ایک اور تصویر مجھے دیکھائی جس میں باجی ثانیہ کسے ہوئے لباس میں تھی اور باجی کے دوپٹے کے بغیر ممے ہوا میں تن کر کھڑے نظر آرہے تھے میں یہ سب دیکھ کر دنگ تھا اس نے موبائل بند کیا میرا تو جسم کانپ گیا تھا باجی ثانیہ کو غیر مرد کے موبائل میں دیکھ کر دیمی ہنس دیا اور بولا بہزاد بھائی اسامے نوں باجی دیاں تصویراں ویچدا آں اس کے یہ الفاظ سن کر میں دنگ رہ گیا میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا اور بولا کیوں وہ بولا بہزاد کی کرئیے گزارہ وی تے کرنا میں حیرانی سے اسے دیکھ رہا تھا وہ بولا بہزاد ہک تصویر دے پنج روپے ملدے ہین میں یہ سن کر حیران ہوگیا پنج روپے اسوقت بڑی چیز تھی کم از کم میرے ایک دن کی خرچہ تو تھی مجھے تو پانچ ہی بڑے تھے میں نے گھونٹ بھر اسے دیکھا تو وہ مسکرا دیا اور بولا چل چلیے میں بھاری قدموں سے اس کے ساتھ چلتا ہوا بیٹھک کی طرف گیا میں باہر کھڑا ہوگیا ور دینی اندر چلا گیا اس نے چار تصویروں کے دینی کو بیس روپے دئیے اور بولا دیمی بھین نوں اس توں اگے وی منا اس نوں آکھ اپنی فل ننگیاں تصویراں دے یا مڑ ہک رات ساڈے کول آجاوے من مرضی دی قیمت وصول کرے دینی بولا بھائی باجی نوں آکھیا تے ہے او آکھ رہی سوچدی آں اسامہ بولا بھین یاوی نوں مہینہ ہوگیا سوچ ہی رہی وہ پھر بولا دیمی بھین دا نمبر دے چا 100 روپیہ دیساں میں یہ سن کر چونک گیا دینی کچھ نا بولا تو اسامہ بولا چل اے 50 روپیہ لئے جا باقی 50 بھین دا نمبر دے کے لئے جائیں ہنڑ چل جا یہ سن کر دیمی جلدی سے باہر آگیا میں ہکا بکا کھڑا اسے دیکھ رہا تھا وہ ہنس دیا اور میرا ہاتھ پکڑ کر دکان کی طرف چل دیا وہاں سے اس نے اور میں نے ہر چیز سے بے نیاز ہوکر اپنی پسند کی چیزیں کھائیں 50 روپیہ اس نے بچا لیا میں بولا دیمی اسدا کی کرنا ہئی وہ ہنس کر بولا اے باجی دا حصہ اے میں اسکے منہ کو دیکھ رہا تھا میں بولا۔ اجی کجھ نہیں آکھدی وہ ہنس کر بولا یار توں آپ ویکھیا تے ہے باجی آپے دتیاں ہینڑ کافی عرصے توں باجی دے رہی ہے میں ہکا بکا اسے دیکھ رہا تھا میں بولا باجی نوں منایا کنج ہئی اس نے مجھے ساری گیم بتائی میرے توں لوں لوں کھڑے تھے کام تو بڑا گھٹیا تھا پر پیسے تو آ رہے تھے دیمی اپنی من مرضی کر رہا تھا مجھے اس پر رشک آیا دیمی اور میں شام تک ساتھ رہے میں شام کو گھر آگیا باجی نصرت نے مجھ سے پوچھا کہ کدھر تھا میں نے اسے بتایا کہ دینی کے ساتھ تھا پورے محلے میں دینی میرا دوست باجی بھی میرا خاص خیال رکھتی تھی کیونکہ میں اکلوتا تھاا اور اوپر سے گاؤں کا ماحول بھی کافی خراب تھا اس لیے وہ مجھے بچا کے رکھتی تھی شام کا کھانا کھانے کے بعد میں جلد ہی بستر پر چلا یا میرے ذہن میں بار بار وہی دیمی والی بات گھوم رہی تھی مجھے یہ اچھا بھی نہیں لگ رہا تھا کہ اپنی بہن کی تصویریں بیچ کر وہ پیسے کما رہا تھا اس کی بہن بھی اس کا ساتھ دے رہی تھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایسے ہی میرے ذہن میں آیا کہ کاش باجی نصرت بھی میرا ساتھ دے تو میں بھی پیسے کماؤں یہ سوچ کر مجھے جھٹکا لگا اور میرا دل ڈر سے گیا باجی نصرت بہت سخت تھی وہ تو ایسا نہیں کرے گی اور میں ایسا سوچ ہی کیوں رہا تھا پر میرے اندر دیمی کو دیکھ کر لالچ انگڑائی لے چکا تھا لیکن میں نے وقتی خود کو سمجھایا اور سو گیا صبح اٹھا تو صبح اور سکول جانے کی تیاری کر لی میں سکول پہنچا تو دیمی آج تھوڑا لیٹ آیا اس کی بہن ثانیہ کا چہرہ بھی آج کھل رہا تھا باجی اسے دیکھ کر اس سے باتیں کرنے لگی دیمی میرے پاس آیا میں نے اس سے لیٹ آنے کی وجہ پوچھیں اس نے کہا بتاتا ہوں تفریح کے وقت ہمیں موقع ملا دیمی مجھے ہاتھ پکڑ کر کھانے کی ریڑھی پر لے گیا اور ہنس کر بولا بہزاد آج اپنی مرضی دی جو تیرا دل کردا شئے لئے میں نے وجہ پوچھے بغیر ہی اپنی پسند کی کچھ چیزیں ہیں دیمی نے بھی لیں اور اس نے جیب سے سو روپیہ نکالا میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا وہ مجھے دنگ دیکھ کر ہنس دیا ریڑھی والا بابا چھیدا اس کو اپنی چیز بکنے سے غرض تھی اس نے بھی چینی سے کچھ نہیں پوچھا دیمی باقی پیسے لے کر مجھے ہاتھ سے پکڑ کر ایک طرف لے گیا ہم بیٹھ کر کھانے لگے میں نے پوچھا دیمی 100 کدو لیا ہئی وہ ہنسا اور بولا بھائی اسمے دتا اے میں بولا او کیوں وہ ہنس کر بولا کل اس آکھیا ہا نا کہ باجی دا نمبر لئے دے میں راتی باجی نوں گل کیتی تے باجی آکھیا کہ گل کرن دا ہزار روپیہ لیساں گئی میں یہ سن کر ہکا بکا رہ گیا کہ صرف بات کرنے کا ہزار روپیہ میں نے حیرانی سے دیمی کو دیکھا اور بولا اوئے ہزار روپیہ۔ وہ بولا ہا تے ہور کی اسامے آکھیا کہ میں دیساں گیا ہزار روپیہ میں فر راتی اسامے نوں نمبر دے آیا ہاس باجی دا تے ہزار روپیہ لئے آیا ہاس اس مینوں انعام دتا 100 روپیہ اور ہنس دیا میں یہ سن کر حیرانی سے چیز کھانے لگا اور سوچنے لگا کہ دیمی کتنا لکی ہے جو چاہے مرضی کرتا ہے میں انہیں سوچوں میں چیز کھا رہا تھا کہ بریک ختم ہوئی ہم کلاس میں چلے گئے ان دنوں ہزار تو آج کے دس ہزار کے برابر تھا بہت ہی سستا دور تھا آج سے دس سال پہلے کی بات تھی میں ساری کلاس میں اس بات کو ہی سوچ رہا تھا کہ اسامے کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آتے ہیں کہ اس نے دیمی کی بہن کو ہزار دے دیا پر اس نے باجی ثانیہ سے بات بھی تو کرنی تھی میں یہ سن کر حیران تھا چھٹی کے بعد ہم گھر گئے اور کھانا کھا کر میں چھت پر چلا آیا میرا ذہن اب کشمکش کا شکار تھا دیمی کو پیسوں میں کھیلتا دیکھ کر میری لالچ بھی بڑھ رہی تھی لیکن میں کیا کروں اس کی تو بہن اس کے ساتھ تھی مجھے تو اپنی بہنوں سے ڈر لگتا تھا پھر نصرت تو تھی بھی بہت سخت مجھے آج تک کچھ نہیں کہا پر وہ سخت تھی تھوڑی گھر کی ساری ذمہداری اس کی تھی پر شاید اس وجہ سے وہ تھوڑی سخت تھی اس نے تو یہ سب نہیں کرنا تھا میں کافی دیر بیٹھا رہا پھر پڑھائی کا وقت ہوگیا باجی سے پڑھ کر میں باہر نکلا تو دیمی میری طرف ہی آ رہا تھا میں اسے دیکھ کر کھل سا گیا وہ مجھے لے کر دکان کی طرف گیا اس نے بتایا کہ باجی آج اسامہ بھائی سے باتیں کر رہی ہے فون پر اس لیے آج مجھے پڑھائی سے چھٹی ہے میں بولا واہ تیری تو موجیں ہیں ہم دکان پر گئے اور کچھ کھایا پیا اب روز ہی دیمی مجھے کھلانے پلانے لگا اس کے پاس پیسے آ رہے تھے بہن کی کمائی چل رہی تھی اسی طرح دو تین ہفتے گزر گئے میں فل انجوائے کر رہا تھا جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا میرے ذہن میں بھی یہ بات بیٹھتی جا رہی تھی کہ مجھے بھی اب پیسے چاہئیں دیمی کی طرح شاید دیمی کی ناجائز کمائی کو کھانے کا اثر تھا کہ میرا دل اب ڈر سے خالی ہوگیا تھا باجی کو سوچ کر جو ڈر لگتا تھا اس کی جگہ اب لالچ اور مزے نے لے لی تھی لیکن ابھی تک میرے اندر جھجھک تھی میں ڈر بھی رہا تھا کہ دیمی سے کیسے بات کروں اگر کروں تو کیا کروں دیمی اب پانچ دس سے آگے نکل کر 100 روپیوں میں کھیل رہا تھا۔ میں اب یہ سوچ رہا تھا کہ میں کب تک دیمی کے پیسوں پر عیاشی کروں گا اگر میں بھی باجی نصرت یا سعدیہ کی تصویریں دے کر پانچ دس روپے لے لوں تو میرے لیے یہ ہی بہت ہیں لیکن مسئلہ تھا کہ میں تصویریں لوں گا کیسے انہی سوچوں میں ہفتہ گزر گیا مجھے دیمی نے بتایا تھا کہ پہلے وہ بھی باجی ثانیہ کی چوری تصویریں لیتا تھا پھر ایک دن اس کی بہن نے پکڑ لیا ثانیہ نے اسے کچھ نہیں کہا بلکہ خود تصویریں دینے لگی اس نے بتایا کہ تصویروں کی قیمت ثانیہ خود طے کی تھی اب تو ثانیہ اسامے سے فون پر باتیں کرتی تھی بدلے میں کافی پیسے لے رہی تھی انہی سوچوں میں او کئی دن گزر گئے مجھ سے فیصلہ نہیں ہو پارہا تھا ایک دن صبح میں سکول گیا تو آج باجی ثانیہ سکول نہیں آئی تھی باجی نصرت نے دیمی سے پوچھا تو اس نے کہا کہ اس کی طبیعت نہیں ٹھیک تفریح کے وقت دیمی کے پاس آج پانچ سو دیکھ کر میں دنگ رہ گیا اور جو بات دیمی نے مجھے بتائی وہ سن کر تو میرے رونگٹے ہی کھڑے ہو گئے اس نے بتایا کہ آج رات باجی ثانیہ اسامے سے ملنے گئی تھی اور واپسی پر جب صبح گھر آئی تو 20 ہزار لائی تھی جو اس نے اماں کو دیا تھا اماں بڑی خوش تھی میں 20 ہزار سن کے ہی تڑپ گیا اور باقی کی باتیں مجھے یاد نہیں دیمی نے کیا کہا میرے ذہن میں تو بیس ہزار ہی گونج رہا تھا دیمی نے مجھے پلایا تو میں ہوش میں آیا وہ بولا کی سوچ رہیا ایں میں نے بے اختیار کہ دیا واہ یار اسامے نوں ملن دا 20 ہزار کیا بات ہے دیمی بولا ہا پپر ہک سمجھ نہیں آئی یار۔ میں بولا او کی وہ بولا یار جدو رات نوں باجی اسامے نوں ملن گئی ہا او فٹ فاٹ ہا جدو واپس آئی تے اس دی طبیعت خراب ہا۔ کمر پڑھ کے چل رہی ہا تے کنر پھد کے کراہ رہی ہا جدو میں سکول ا رہیا ہاس تے امی اس نوں دبا رہی تے میں باجی دا پتا کرن گیا تے امی اس دی شلوار اندر کجھ پا کے اس نوں ٹکور کر رہی ہا تے باجی کراہ رہی ہا اے کی ہا اسوقت دور تو اتنا جدید تھا نہیں نا ہماری سوچ اتنی کھلی تھی کہ اس کا کچھ پتا ہوتا مجھے بھی کچھ سمجھ نا آیا میں بولا یار چھڈ اے دس کہ اے کنج ہویا وہ ہنس دیا اور بولا بہزاد جے تیرا دل ہے تے تیری گل وی کراں بھائی اسامے نال پر بدلے اچ تینوں وی اپنی بھین دیاں تصویراں دینیاں پوسنڑ میں یہ سن کر چونک کر گھونٹ بھرا اور اسے گھبرا کر دیکھا پر یار میں تصویراں کنج لیساں باجی نوں پتا چل گیا تے او تے جان کڈھ لیسیں وہ بولا او یار ڈر نہیں اے وی تے ویکھ پیسے بڑے آندے موجاں لگ جاندیاں توں فکر نا کر کے باجی نوں پتا لگ گیا تے اسدا وی کجھ کر لیساں فل حال مزے لئے ہک تصویر دے پنج روپے ہینڑ توں چار پنج تصویراں دے دیویں 20 روپے ملنڑ گے میں 20 روپے کا سوچ کر اچھل سا گیا میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگا مجھے سوچ میں دیکھ کر وہ بولا وت کی خیال اے میں نے ڈرتے ڈرتے کہا ٹھیک ہے میں تیار آں میری بات پر وہ ہنس دیا اور بولا اے ہوئی نا گل ہم تفریح ختم ہوئی تو کلاس میں گئے ہم نویں کلاس میں تھے ہماری تعد پانچ سے چھ لڑکے تھے کچھ لڑکے بڑے بھی تھے زیادہ تر ہمیں باجی نصرت ہی پڑھاتی تھی وہ خود کو ہمیشہ چادر میں لپیٹ کر رکھتی تھی کلاس میں وہ ایک ڈاڈھی ٹیچر تھی سب اس سے ڈرتے تھے باہر نکلتے ہوئے وہ برکے میں جاتی تھی باجی سعدیہ بھی برکا لیتی تھی میں باجی نصرت کو چادر میں لپٹا دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کس طرح تصویریں لینی ہیں میرے دل میں عجیب سی خوشی بھی تھی اور ڈر بھی تھا کچھ ہی دیر میں ڈر تو خوشی کے نیچے دب گیا کیونکہ پیسوں کا سوچ سوچ کر میرا ذہن شیطانی ہو چکا تھا میں اب نئے نئے منصوبے بھی ذہن میں بن رہا تھا کہ اپنی ساری خواہشات پوری کرنی ہیں چھٹی ہوئی تو میں باجی کے ساتھ باجی دیمی سے بولی دیمی ثانیہ گھر ہی ہے میں اسدا پتہ کرکے جانا وہ بولا جی باجی میں باجی نصرت سعدیہ اور دیمی چھٹی کے وقت ان کے گھر گئے ثانیہ اسوقت لیٹی تھی باجی کو دیکھ کر وہ بھی اٹھ کر بیٹھ گئی اس نے اپنی کمر کسی کپڑے کے ساتھ باندھ رکھی تھی ثانیہ کا اترا چہرہ باجی کو دیکھ کر کھل سا گیا باجی کی وہ دوست تھی باجی نے اس سے حال چال پوچھا باجی کو فکر ہوئی تو اس نے بتایا کہ فکر کی کوئی بات نہیں بس کل سے بخار بڑا ہے ہم دونوں اندر آگئے اور باتیں کرنے لگے دیمی مجھے منصوبہ سمجھانے لگا کہ کیسے تصویریں لینی ہیں اتنے میں باہر سے باجی کی آواز آئی میں جلدی سے نکل آیا ور ہم گھر آگئے باجی کی عادت تھی کہ وہ کھانا کھا کر کچھ دیر آرام کرتی تھی میں کھانا کھایا تو باجی نصرت اور سعدیہ اندر آرام کرنے چلی گئیں اصباح اسوقت ساتھ والے پڑوسیوں کے ہاں جاتی تھی کیونکہ وہ اور پڑوسیوں کی لڑکی اکھٹے کالج کی پڑھائی کرتی تھیں تو وہ اکثر وہاں ہوتی امی کیچن میں تھی میں وہاں سے نکلا تو دیمی میرا انتظار کررہا تھا چھیدے کی دکان پر جو سکول میں بھی ریڑھی لگاتا تھا میں وہاں پہنچا تو وہ مجھے کے کر اسامے کی طرف چل دیا اسامے کے پاس پہنچ کر اس نے دروازہ کھٹکھٹایا تو اسامہ اسوقت شاید سو رہا تھا اس نے دروازہ کھولا اور ہم دونوں کو دیکھ کر مسکرا دیا اس نے بنیان ڈال رکھی تھی وہ بولا دیمی خیر تے اے وہ بولا چل بھائی خیر ہی سے اور مجھے کے کر اندر چلا گیا اسامے نے دروازہ بند کردیا اور بولا دیمی تیری بھین دی طبیعت کیسی ہے ہنڑ وہ بولا باجی تے ٹھیک اے وہ مجھے دیکھ کر بولا اے شہزادے نوں کدے لئے آیا ایں میں تھوڑا گھبرا رہا تھا کیونکہ ایسے کبھی اسامے سے ملاقات نہیں تھی دیمی ہنس کر بولا بھائی توں ہک دن آکھیا ہا نا یہ بات کرتے ہوئے اسامہ بولا اوئے اچھا اچھا میں جو وی آکھیا او چھڈ توں مدا دس خیر اے اور اس کو آنکھ ماری وہ بولا بھائی اے وی اپنی بھین دی تصویراں ویچنا چاہندا اے یہ سن کر اسامہ چونکا اور اچھل کر بیٹھ گیا جیسے اس کے دل کی بات کردی ہو وہ حیرانی سے مجھے دیکھ کر بولا سچی ہی میں نے ہاں میں سر ہلایا وہ خاموش ہوکر مجھے حیرت سے دیکھ کر بولا تینوں دیمی آکھیا یا آپ آیا ایں میں بولا بھائی میرا اپنا دل اے وہ بولا کیوں میں دیمی کو دیکھ کر بولا بھائی اے وی تے باجی ثانیہ دی تصویراں ویچ کے پیسے لئے رہیا اے میرا وی دل ہے وہ ہنس کر بولا دل خوش کیتا ہئی شہزادیا اوراں آ مینوں مل ہک واری میں اٹھ کر اس کے پاس گیا تو اس نے مجھے باہوں میں بھر کر سینے سے لگایا اور بولا آہ واہ یار تیرے کولوں تے تیری بھین دی خوشبو ہنئے ہی آ رہی اے میرا دماغ تو اسوقت اتنا کام کرتا نہیں تھا میں یہ سن کر چپ ہی رہا وہ بولا یار بہزاد تیری بھین دا تے میں عاشق آں کدی اسدی شکل ویکھاویں تے میں تینوں منہ مانگے پیسے دیساں میرے منہ میں یہ سن کر پانی آگیا میں جھٹ سے بولا باجی ہنڑ ستی پئی اے بھائی توں آکھ تے میں تصویراں بنا لیاندا وہ ہنس کر بولا اے دس کس بھین دی بنا لیاسیں میں بولا باجی نصرت دی بنا لیاساں وہ ہنس کر سسک کر بولا اففف نصصصررتتت تے میں مردا آں اور موبائل نکال کر مجھے دیا مجھے چلانا آتا نہیں تھا میں بولا بھائی مینوں تے چلانا نہیں آندا وہ بولا کوئی گل نہیں دیمی اس نوں سکھا یہ کہ کر میں دیمی کے پاس گیا دیمی مجھے موبائل چلانا اور تصویریں بنانا سکھانے لگا پورا گھنٹہ اسامے نے مجھے موبائل چلانا سکھیا میں اچھا خاصا ٹرین ہوگیا تو اس نے مجھے اکیلا بھیجا باہر اور بولا کچھ تصویریں بنا لاؤ میں باہر گیا اور کچھ تصویریں بنا لایا اسامہ دیکھ کر بولا کہ گزارہ ہے آج تصویراں لئے تے اگے تو توں روز میرے کول آکے موبائل چلانا تو دو تن دن اچ فل ٹرین ہو جاسیں اور پھر اپنی جیب سے 50 روپے نکال کر مجھے دئیے اور بولا چل موجاں کر آج ہلے تینوں صحیح تصویراں بناڑ دا ول نہیں آیا کل تو تصویراں لئے آویں موبائل لئے جائیں اور موبائل مجھے دے کر کہا کے اس کو چلانا سیکھوں اور خود لیٹ گیا میں اور دینی کافی دیر موبائل چلانا سیکھتے رہے دیمی نے مجھے سارے گر سکھائے 50 روپیا لے کر میں اتنا خوش تھا کہ میں جلد ہی بہت کچھ سیکھ گیا ہم وہاں سے نکلے اور دکان پر آئے آج میرا دل خوش تھاا میں خوشی سے جھوم رہا تھا آج پہلی بار احساس ہوا کہ میں بھی اپنی ساری خواہشات پوری کرسکتا ہوں چھوٹی چھوٹی خواہشات کےلیے کتنی بڑی قربانی دینے جا رہا تھا یہ مجھے اندازہ نہیں تھا خیر ہم وہاں سے نکلے اور خوب مزے کیے پھر بھی کچھ پیسے بچ گئے میں نے وہ دیمی کو دے دیے کیونکہ اپنے پاس رکھنا خطرے سے خالی نہیں تھا باجی دیکھ لیتی تو پالش ہونی تھی میں اس لیے گھر آگیا اگلے دن سکول میں دیمی کے ساتھ بچے ہوئے پیسے کھائے پھر چھٹی کے بعد باجی کے سونے کے بعد میں اسامہ کی بیٹھک پر جا پہنچا وہاں کچھ دیر تک فون چلانا سیکھتا رہا دیمی نے مجھے فل ٹرین کردیا تھا میں اب اچھی طرح فون چلانے کے اور چھپانے کے سارے گر سیکھ گیا تھا یہ دیکھ کر اسامہ بھی خوش ہوا اور بولا جا آج تصویراں لئے آ میں نے موبائل دینی کے مطابق شلوار کی جیب میں ڈال دیا اور گھر کی طرف چل دیا دیمی کو اسامے نے ساتھ بھیجا کہ میں ابھی ناتجربہ کار تھا میں تیزی سے گھر کی طرف آیا میرے ذہن پر بس ایک ہی بات سوار تھی کہ کسی طرح اپنی بہن کی تصویریں بنا کر اسمے کو دے دوں اور پیسے لوں میں گھر پہنچ کر دیمی کو باہر ہی کھڑا کیا اور خود چپکے سے اندر آیا امی کیچن میں ہی تھی میں کمرے میں آیا تو باجی نصرت اور سعدیہ سو رہی تھیں۔ باجی نصرت کی عادت تھی کہ وہ سوتی ہوئی دوپٹے کے بغیر سوتی تھی میں نے موبائل نکالا ڈر اور مزے سے میرے ہاتھ کانپ رہے تھے میں نے کیمرہ ان کیا اور اور باجی نصرت کو فوکس کیا باجی نصرت سیدھی لیٹی تھی جس سے باجی نصرت کے موٹے تنے کر ہوا میں کھڑے ممے باجی نصرت کے سانس لینے سے اوپر نیچے ہو کر ہل رہے تھے باجی نصرت کا جسم تھوڑا چوڑا تھا باجی نصرت کی چوڑی گانڈ باہر کو نکلی ہوئی تھی باجی کے سونے سے باجی نصرت کا قمیض آگے شلوار سے ہٹا ہوا تھا باجی نصرت کا گورا چوڑا سینہ چمک رہا تھا میں نے باجی نصرت کے جسم کو فوکس کیا تو باجی نصرت کا پورا جسم تصویر میں آگیا میں نے کلک کرکے تصویر محفوظ کر لی مجھے بھی جلدی تھی کہ کہیں باجی جاگ نا جائے اور اپنی بہنوں کی تصویریں اسامے کو دے کر پیسے لینے کی بھی جلدی تھی اسی کشمکشِ میں نے جلدی سے چار پانچ تصویریں بنائیں اور میں نے موبائل جلدی سے جیب میں ڈالا میرے پسینے چھوٹے ہوئے تھے میں جلدی سے باہر نکلا تو امی کیچن میں ہی تھی میں جلدی سے باہر نکلا تو دیمی مجھے دیکھ کر بولا کی بنیا میں بولا بن گئیاں ہم دونوں جلدی سے بیٹھک پہنچے اسامہ بھی بے صبری سے انتظار کر رہ تھا اس نے مجھ سے موبائل لے لیا اور کھول کر دیکھا تو باجی نصرت کی سیدھی لیٹی تصویریں دیکھ کر وہ مچل گیا میں اسے دیکھ رہا تھا کہ اب یہ پیسے دے گا کہ نہیں کہیں دا نا لگا جائے مجھے امید تھی کہ دے گا اس نے دیکھا تو ساری تصویریں ایک ہی طرح کی تھیں وہ باجی نصرت کا جسم اور تنے ہوئے ممے دیکھ کر ہائئئئے نصصصررتتت تیرے اس جسم دا تے میں دیوانہ افففف اور موبائل پر ہی میری بہن کا جسم چوم لیا اور بولا واہ بہزاد تیری بھین دا تے جسم آگ لا دیندا قسمیں یار نصرت تے بہوں سوہنی اے اے کدی مینوں مل جائے تے تیری عیش کروا دیساں میری تو اتنی ابھی سوچ نہیں تھی اس نے مجھے پچاس نکال کر دیا میں تو زیادہ کی امید میں تھا اس نے مجھے دیکھا اور ہنس کر بولا جانی اے تصویر ہک اینگل دی اے نیڑے توں تصویراں بنا کے لئے آ تاں چس اسی پیسے وہ ڈھیر ملسن میں بولا اچھا بھائی پتا ناہ ہنڑ مڑ بنا لیاندا اسامہ بولا دیمی جاندا اے تیرے گھر میں نے ہاں میں سر ہلایا وہ دیمی کو فون دے کر بولا جا دیمی اس نوں سکھا کہ تصویراں کنج بنڑدیاں دیمی نے اچھا کہا اور موبائل جیب میں ڈال کر ہم گھر کی طرف آگئے دروازے سے امی نکل رہی تھی امی بولی بہزاد میرے آنڑ تک گھر ہی رہویں میری جان میں جان آئی کہ امی نکل گئی اب کام سوکھا ہوگا میں نے چیک کرنے کےلئے اندر جھانکا تو باجی ابھی تک سو رہی تھی میں نے دیمی کو اندر بلایا وہ آیا تو باجی اسی طرح ممے نکال کر سیدھی لیٹی تھی دیمی نے پہلی تصویر بالکل باجی نصرت کے چہرے اور مموں کی بنائی دوسری اس نے پوری تصویر لی تیسری اس نے باجی نصرت کے گورے سینے کی بنائی باجی کا گورا چہرہ چمک رہا تھا دیمی نے مجھے دیکھا اور میرے قریب آ کر بولا بہزاد باہر جا کے دھیان رکھ میں بولا اچھا اور باہر نکل کر مجھے خیال آیا کہ دیکھوں تو سہی تصویریں کس طرح بنتی ہیں میں اندر جھانکا تو سامنے کا منظر دیکھ کر میں چونک گیا دیمی تصویریں نہیں بنا رہا تھا وہ باجی نصرت کے اوپر جھکا اور باجی نصرت کی گوری گال پر منہ رکھ کر باجی نصرت کی گال کو چوم لیا یہ دیکھ کر میں چونک گیا اس نے ہلکی سی چمی لی تھی جس سے باجی ہلی نہیں دیمی نے باجی کو ہلتا نا پایا کر ایک لمحے انتظار کیا اور پھر جھک ہر اپنے ہونٹ باجی نصرت کے ہونٹوں پر رکھ کر باجی نصرت کے ہونٹوں کو چوم لیا یہ دیکھ کر میرے جسم میں بھی آگ سی لگ گئی تھی دیمی کو باجی نصرت کے ساتھ مستیاں کرتے دیکھ کر مزہ آ رہا تھا باجی نصرت کے ہونٹوں کو چوم کر وہ پیچھے ہوا باجی گہری نیند میں تھی جس سے وہ ہلی ہی نہیں باجی کو بے سدھ دیکھ کر اس کا حوصلہ بڑھ گیا اس نے زبان نکال کر منہ نیچے کیا اور باجی نصرت کی گال کو ہلکا سا چاٹ لیا یہ دیکھ کر میں مستی سے مچل گیا دینی نے دو تین بار باجی نصرت کی گال کو چاٹا اور پھر اوپر زبان باجی نصرت کے ہونٹوں پر پھر کر ہونٹ چاٹنے لگا میں ہکا بکا سب دیکھ رہا تھا مجھے پہلے اس چیز کا پتا نہیں تھا پر یہ تو دیکھنے میں بہت مزہ تھا دیمی نے دو تین زبان پھیری اور پھر باجی کے ہونٹوں کو چوم لیا باجی نصرت کے ہونٹ سونے سے ہلکے سے کھلے تھے دیمی اوپر ہوا اور ہونٹوں کو گول کیا اور ایک بڑی سی تھوک سیدھی باجی نصرت کے ہلکے سے کھلے ہونٹوں میں پھینکی جو سیدھی باجی نصرت کے ہونٹوں سے باجی نصرت کے منہ میں چلی گئی میں باجی کے منہ میں دیمی کی تھوک جاتا دیکھ کر مچل گیا دینی اوپر ہوا تو اتنے میں دینی تھوک باجی کے گلے میں اتر گئی باجی نے سوتے میں ہی سر ہلایا اور گھونٹ بھر کر دینی کی تھوک نگل لی میں یہ دیکھ کر مچل گیا دینی نے ایک دو منٹ انتظار کیا اور پھر باجی کی نیند پکی ہونے پر منہ نیچے کرکے باجی نصرت کا گورا سینہ چوم لیا میں تو اب مزے سے بڑی مشکل سے کھڑا تھا دیمی نے اوپر سے باجی نصرت کے موٹے ممے ہلکے سے چوم لیے اور ایک بڑی سی تھوک باجی نصرت کے سینے پر پھینک کر ہاتھ سے سینے پر مل دی میں یہ دیکھ کر مچل گیا دینی کو تو سب پتا تھا اس نے بے اختیار سینے پر ہاتھ پھیر کر باجی نصرت کے ایک موٹے مممے کو ہاتھ میں گکگ دبا کر پکڑا تو باجی کانپ گئی میں ڈر گیا دیمی بھی ڈر گیا اور جلدی سے نیچے بیٹھ گیا باجی نے انگڑائی بڑی اور اپنا سینہ اوپر کو اٹھایا لیکن باجی کی آنکھیں بند رہیں دیمی نے باجی نصرت کے اٹھے سینے کی بھی جلدی سے تصویر کھینچ لی جس سے باجی نصرت کی انگڑائی اور اٹھے ممے موبائل میں قید ہو گئے اسی لمحے باجی نصرت نے اپنی سائیڈ تبدیل کی جس سے باجی نصرت کی موٹی گانڈ باہر کو نکل آئی باجی نے کسی ہوئی شلوار ڈال رکھی تھی جس میں سے باجی نصرت کے موٹے چوتڑ باہر کو نکلے نظر آ رہے تھے جبکہ باجی نصرت کی شلوار باجی نصرت کی گانڈ میں پھسی تھی اور باجی نصرت کی گانڈ کا چیر شلوار سے واضح ہو رہا تھا باجی کے گھومنے سے باجی کا قمیض تھوڑا اوپر ہوا اور باجی کا گورا جسم نظر آنے لگا جسے دیکھ کر دینی نے گھونٹ بھرا اور ہونٹوں پر زبان پھیر کر پیچھے آیا اور باجی کی باہر کو نکلی گانڈ کی تصویر کھینچی جسے دیکھ کر میں مچل گیا پھر یمی نے باجی نصرت کی موٹی گانڈ کے چیر میں پھسی شلوار سے نظر آتے چیر کی بھی دیمی نے دو تین تصویریں لیں اور باجی کی گانڈ کے قریب ہو کر باجی کی گانڈ پر ہاتھ لگا باجی ہلی نہیں تو اس نے جھک کر باجی نصرت کے موٹے چوتڑ کو چوم لیا دیمی کا انداز میرے اندر آگ لگا رہا تھا مجھے پتا ہی نا چلا میرا لن تن کر کھڑا ہوچکا دیمی نے دو تین بار باجی نصرت کی گانڈ کو چوما اور پھر اپنا ناک آگے باجی کی گانڈ کے چیر کے قریب کرکے سونگھنے لگا پھر اس نے زبان نکال کر باجی نصرت کے چڈوں کے قریب کر کے شلوار کے اوپر سے ہی پھیری میں یہ سب دیکھ کر حیرانی سے ہکا بکا تھا دیمی پیچھے ہوا تو اس کی نظر مجھ پر پڑی میں اسے اپنی بہن کے ساتھ چھیڑ خوانی کرتا دیکھ رہا تھا مجھے ہکا بکا دیکھ کر وہ گھبرایا نہیں بلکہ شرارتی انداز میں مسکرا کر پیچھے ہوا اور مجھے دیکھ کر باجی کی گانڈ پر ہاتھ پھیر کر میری طرف چل پڑا دیمی باہر آیا تو میں نے پوچھا اوئے باجی نوں کیوں چھیڑ رہیا ہائیں وہ مسکرایا اور بولا بس یار مزہ بڑا آندا اے انج چھیڑنے نال میں بولا میری بھین ہئی وہ بولا تے وت کی ہویا میں وی تے اپنی بھین نوں اتنا چم لیندا آں میں یہ سن کر ہکا بکا ہوگیا اور بولا او کیویں بھیناں نال تے انج نہیں کریندا وہ بولا کیوں نہیں کریندا میں بولا او تے بھیناں کے ہوندیاں وہ بولا کنجرا سواد ہی بھیناں نال آندا اے میں بولا بک بک نا کر وہ بولا قسمیں کرکے تے ویکھ میں چونک کر بولا نہیں نہیں اے ٹھیک نہیں وہ ہنس کر بولا ہلا اور آگے ہاتھ لگایا تو میرا نیم کھڑے لن کو کو ٹٹولا جس سے میں چونک کر سسک گیا وہ ہنس دیا اور بولا توں تے اکھ رہیا ہائیں کہ اے غلط ہوندا تے اے کی اے میں چونک گیا وہ بولا کجھ نہیں ہوندا یار مزہ بڑا آندا میں بولا یار توں باجی نال غلط کیتا اے وہ بولا اسامے نوں تصویراں دینا صحیح ہے میں بولا اچھا اس تے پیسے دینے وہ ہنس دیا ور بولا جناب دا مطلب میں وی پیسے دیواں میں چپ ہوگیا اس نے ہنس کر جیب میں ہاتھ ڈالا اور بیس نکال کر بولا کو جناب 20 روپے آج دے میں بیس روپے دیکھ کر چونک گیا میرا دل مچل سا گیا 20 دیکھ کر میں نے جلدی سے 20 پکڑ کر جیب میں ڈال لیے اور بولا ہنڑ ٹھیک اے وہ ہنس دیا اور بولا کی خیال اے باجی نوں چھیڑ لئے میں بولا پاگلا باجی ہے تے اس نوں پتا لگ گیا تے مار دیسی گئی وہ بولا کجھ نہیں ہوندا میں وی تے کیتو دل تو میرا بھی کر رہا فھا پر ڈر بھی لگ رہا تھا مجھے دیکھ کر اس نے میرا ہتھ پکڑا اور بولا ہولی کے ہونٹ لا کے چم لئے میں یہ سن کر گھونٹ بھرا تو اس نے مجھے اندر کھینچ لیا باجی نصرت ایسے ہی سو رہی تھی ایک سائیڈ منہ کرکے میں چلتا ہوا قریب گیا اور نیچے بیٹھ گیا باجی نصرت کی گہری سانسوں سے نکلتا گرم سانس میرے منہ پر پڑ کر مجھے نڈھال کرنے لگا میں کراہ سا گیا مجھ سے رہا نا گیا میں نے بے اختیار منہ آگے کیا اور باجی نصرت کی پھولی ہوئی نرم گال پر ہونٹ رکھ کر چوم لیا باجی کی نرم گال کا لمس محسوس کرکے میرے اندر ایک سرور سا اتر گیا میں بے اختیار سکک کر باجی نصرت کی نرم گال چومتا گیا مجھے عجیب سا نشہ آ رہا تھا جس سے میں تڑپ گیا تھا میرا جسم کانپنے لگا تھا اور سانسیں تیر ہو گئیں باجی بے سدھ پڑی تھی میں نے بے اختیار زبان نکال کر باجی نصرت کی گال چاٹ لی اور پیچھے ہوگیا میں مزے سے کانپ رہا تھا میری تھوک باجی نصرت کی گال پر چمک رہی تھی باجی نصرت کے ہونٹوں کو دیکھ کر مجھے سے رہا نا گیا میں نے بے اختیار منہ آگے کیا اور باجی کے نرم ہونٹوں کو چوم لیا باجی تھوڑا سا ہلی تو میں ڈر سا گیا اور جلدی سے اٹھ کر باہر کی طرف بھاگ گیا دینی بھی باہر نکل گیا باجی کافی تو نہیں بس ہلی تھی مجھے ہانپتا دیکھ کر بولا سنا مزہ آیا کہ نہیں میں سسک کر بولا یار نا پچھ اس اچ تے بڑا سواد اے باجی نوں چھڑنے دا وہ بولا ہلے ہور وی مزہ آئے گا چل چلیے ہم وہاں سے نکلے اور اسامے کی طرف آگئے اور اسے باجی کی تصویریں دکھائی وہ باجی نصرت کو دیکھ مچل گیا اور باجی نصرت کو چومنے لگا میں اسے باجی کو چومتا دیکھ رہا تھا مجھے اس سے کوئی غرض نہیں تھی مجھے بس پیسے چاہئیں تھے وہ باجی کو پہلی بار دیکھ رہا تھا باجی ہمیشہ برکے میں رہتی تھی اس نے باجی کی شکل پہلی بار دیکھی تھی جس سے وہ مچل گیا تھا اور باجی کو دیکھ کر شلوار میں ہاتھ ڈال کر اپنا مسل رہا تھا میں اسے دیکھ کر مچل رہا تھا وہ شاید باجی کو دیکھ کر مٹھ مار رہا تھا مٹھ کا ہمیں پتا تھا کلاس کے بڑے لڑکے اکثر اس پر بات کرتے تھے اسمے کو مٹھ مارتا دیکھ کر ہم بے قرار ہو رہے تھے اس نے ہمیں دیکھا اور مسکرا کر مجھے باجی نصرت کی تصویروں کا100 روپے دے دئیے میں یہ دیکھ کر مچل گیا اسامہ مجھے پیسے دے کر باجی کی تصویریں دیکھ کر اپنا موٹا لمبا لن باہر نکال کر مسلنے لگا میں اسے دیکھ رہا تھا اسامہ ہنسا اور بولا تیرا کم ہوگیا توں جا ہنڑ میں سمجھ گیا کہ اب اسامہ باجی نصرت کے جسم کو دیکھ کر مٹھ لگائے گا یہ سوچتے ہم دکان پر اگئے دکان پر آکر ہم نے کچھ کھایا پیا اور باقی بچے پیسے میں نے دینی کو دے دئیے دیمی پیسے محفوظ رکھتا تھا اگر میں پاس رکھتا تو پکڑے جانے کا خطرہ تھا میں گھر آیا اور پڑھائی کے بعد میں اپنی روٹین میں رہا اگلے دن پھر سکول سے واپسی پر میں کھانا کھا کر کچھ دیر لیٹ گیا باجی نصرت اور سعدیہ پھر سو گئیں میں نکلا اور سیدھا اسامے کی طرف چلا گیا وہاں دیمی پہلے سے موجود تھا اسامہ مجھے دیکھ کر خوش ہوا اور بولا آ او شہزادے تیرا کی حال ہے میں بولا میں فٹ کچھ دیر باتیں ہوتی رہیں اسامہ باجی نصرت کی تعریف کرتا رہا کہ تیری بہن بڑی سوہنی ہے کچھ دیر بعد اس نے مجھے فون دیا اور بولا بہزاد آج کدی اپنی بھین نصرت دے جسم دے کسے ننگے حصے دی تصویراں لئے آ تینوں منہ ننگیاں انعام دیساں میں بولا کتنا وہ بولا چل توں دس میں بولا 500 میں نے ایسے ہی کہ دیا تھا مجھے امید نہیں تھی اس نے کہا چل ٹھیک ہے یہ سن کر میرے تو طوطے اڑ گئے کہ 500 ملے گا میں تو آج تک 500 کا نام سنا تھا دیکھا نہیں تھا آج 500 ملے گا کا سوچ کر میں تو ہواؤں میں اڑنے لگا تھا لیکن میں نے سوچا کہ باجی کو ننگا کیسے کروں گا میں نے سوچا چل جو ہو گا دیکھیں گے میں نے موبائل لیا اور گھر کی طرف چل دیا میں جیسے ہی اندر داخل ہوا تو باجی سیدھی لیٹی تھی میری نظر پڑی تو باجی نصرت کے پیٹ سے کافی سارا کپڑا ہٹا ہوا تھا جس کو دیکھ کر میں چونک گیا باجی نصرت کا گورا پیٹ ننگا تھا باجی نصرت کی دھنی صاف نظر آ رہی تھی باجی نصرت کی دھنی تھوڑی گہری تھی میں یہ دیکھ کر مچل گیا میں نے فون ان کیا اور باجی نصرت کے ننگے پیٹ کی دو تین تصویریں بنائیں اور ایک پورے جسم کی تصویر بھی لی باجی نصرت کا ننگا پیٹ مجھے نڈھال کر رہا تھا میں مزے سے مچل رہا تھا مجھ سے رہا نہیں گیا میں باجی کے جسم کے قریب بیٹھ گیا اور غور سے جسم دیکھنے لگا میری سانسیں تیز ہو رہی تھیں میں نے چیک کرنے کےلیے باجی نصرت کے ننگے گورے پیٹ پر ہاتھ لگایا باجی نے کوئی حرکت نا کی میں نے بے اختیار آگے ہو کر باجی نصرت کے پیٹ کے قرب منہ کیا اور اپنے ہونٹوں سے باجی نصرت کے پیٹ کو چوم لیا جس سے میں باجی کا نرم پیٹ محسوس کرکے مچل کر کراہ گیا مجھ سے رہا نہیں جا رہا تھا میرے اندر آگ لگی تھی اتنی چھوٹی عمر میں بھی میرے اندر آگ بھری تھی میں نے زبان نکال کر ہلکا سا پیٹ چاٹ لیا باجی کی سسکی نکلی میں جلدی سے پیچھے ہوکر چارپائی کے نیچے ہوگیا باجی نے سر ہی ہلایا تھا میں اوپر ہوا تو باجی ایسے ہی پڑی تھی میری جان میں جان آئی باجی گہری نیند سوتی تھی میں اوپر ہوا مجھے شرارت سوجھی میں نے باجی نصرت کے پیٹ کی گہری دھنی کو دیکھا اور قریب ہوکر ایک تھوک باجی نصرت کی دھنی کے اندر پھینک دی جس سے باجی نصرت کی دھنی میری تھوک سے بھر گئی اور باجی کے گورے پیٹ کی دھنی میرے تھوک سے بھری چمکنے لگی کیا ہی منظر تھا مجھ سے رہا نا گیا میں نے بے اختیار نیچے ہوکر باجی نصرت کے پیٹ کو چوم لیا اس بار میرے ہونٹ زیادہ دب گئے جس کو باجی نے محسوس کرلیا اور باجی کو کرنٹ سا لگا جس سے باجی نصرت ہلی میں جلدی سے پیچھے ہوکر چارپائی کے نیچے لیٹ گیا میرا تو دل ڈوب گیا کہ باجی کو پتا نا لگ جائے باجی ہلی اور گھوم کر دوسری طرف منہ کر لیا میں کچھ دیر پڑا رہا اور پھر نکلا التو باجی مست پڑی تھی میں اٹھا تو باجی اسی طرح گانڈ نکال کر پڑی تھی جس سے باجی نصرت کے موٹے چوتڑ باہر کو نکل کر کھل سے گئے تھے باجی نے گھٹنے سینے سے لگا رکھے تھے میں جیسے ہی پیچھے کی طرف آیا تو باجی نصرت کی باہر کو گانڈ کو دیکھ کر میرے تو پاؤں نیچے سے زمین نکل گئی باجی نے اپنی گانڈ اٹھا رکھی تھی باجی نصرت آج کسی پرانے سوٹ میں تھی کیونکہ ہمارے حالات اچھے نہیں تھے اس لیے باجی لوگ اکثر پرانے ہی کپڑے استعمال کرتی تھیں گھر میں باہر جانے کےلیے ایک دو ہی سوٹ تھے جو وہ خیال سے رکھتی تھیں باجی نصرت کی شلوار درمیان سے کافی ادھڑی ہوئی تھی جس سے شلوار میں بڑا سا کھپا تھا اور وہاں سے باجی نصرت کی باہر کو نکلی گانڈ کی گلابی موتی اور باجی نصرت کی پھدی کا نیچے والا حصہ کافی سارا نظر آرہا تھا میں تو یہ دیکھ کر تڑپ گیا باجی نصرت نے اپنی گانڈ باہر کو نکال رکھی تھی جس سے باجی نصرت کی پھدی کے آپس میں ملے ہونٹ اور باجی نصرت کی پھڈی کا گلابی دہانہ صاف نظر آ رہا تھا یہ دیکھ کر میں کانپ گیا تھا میرے ذہن میں اسامے کی بات گونجی پانچ سو والی میں نے اپنے پانچ سو کےلیے اپنی بہن کی عزت نیلام کرنے کےلیے سوچا بھی نہیں کہ یہ میری عزت ہے میں نے جلدی سے موبائل نکالا اور کیمرہ آن کرکے باجی نصرت کے پیچھے حصے پر فوکس کرکے اچھی طرح تصویریں بنا کر باجی نصرت کی پھدی اور گانڈ کو صحیح طرح سے کیمرے میں فوکس کیا اور باجی نصرت کی پھڈی اور انڈ میں اچھی طرح تصویریں لیں میرا ذہن اپنی سگی بہن نصرت کو ننگا دیکھ کر ماؤف ہو چکا تھا میں کراہ کر سسک رہا تھا میرا دل کیا کہ دیکھوں تو سہی یہ سب کیسی ہوتی ہیں میرے ذہن میں کل والی دیمی کی حرکت تھی میں بے اختیار باس بیٹھ گیا اور اپنی ناک باجی نصرت کی گانڈ کے قریب کرکے سونگھ لیا جس سے عجیب سا مشک میرے ناک کو چڑھ گیا میں مچل گیا اور دو تین بار باجی نصرت کی گانڈ کو سونگھ کر منہ آگے کیا اور باجی نصرت کی گانڈ کا ننگا حصہ چوم لیا باجی ہلی میں جلدی سے پیچھے ہو گیا باجی پھر اپنی نیند میں چلی گئی میں نے بے اختیار انگلی باجی نصرت کی گانڈ اور پھدی پر رکھ کر ہلکی سے گھمائی تو باجی کی نرم پھدی سے رستا پانی میری انگلی میں لگ گیا جس سے باجی نے سسکی بھری اور ہلنے لگی میں جلدی سے پیچھے ہوا اور باہر نکل گیا باجی نصرت کی پھدی کا پانی میری انگلی پر لگا تھا میرے ذہن پر باجی نصرت کی گانڈ اور پھدی کے مشک کا نشہ چڑھا ہوا تھا میں نے بے اختیار انگلی کو سونگھا تو وہی خوشبو تھی میں نے بے اختیار مچل کر زبان نکال کر اپنی بہن کی پھدی کا پانی چاٹ لیا باجی نصرت کی پھدی کا نمکین پانی چکھ کر میں مچل گیا ایک کرنٹ سا میرے اندر اتر گیا باجی کی پھدی کا نمکین پانی میرے اندر اتر کر مجھے نڈھال سا کر گیا میں سسک کر مچل گیا میرا لن فل تن کر کھڑا تھا میں نے لن نیچے ہونے کا انتظار کیا اور سیدھا اسامے کی بیٹھک پر پہنچا اسامہ میرا ہی انتظار کر رہا تھا میں نے اسے موبائل دیا وہ بولا کوئی ول بنا لیا ہیں میں ہنس کر بولا ویکھ تے سہی یہ سن کر اس نے تصویریں دیکھنے لگا باجی نصرت کا ننگا پیٹ دیکھ کر وہ مچل کر اففف میری جان نصرتت کیا سوہنا پیٹ ہے تیرا اور باجی کے ننگے پیٹ کی تصویریں کلوز کرکے دیکھ کر مچل رہا تھا آگے باجی نصرت کی ننگی گانڈ اور پھدی کی تصویر آئی تو اسامہ اچھل گیا اور مجھے دیکھ کر بولا اے کی میں ہنس دیا اور بولا بھائی آپ ہی تے آکھیا ہایا ننگی تصویروں لئے ا آج موقع مل گیا تے میں لئے آیا وہ بولا اففف بہزادی میں مر جاواں اور باجی نصرت کی پھڈی کی پکچرز کلوز کرکے دیکھنے لگا جس سے وہ مچل کر سسکنے لگا میری بہن کی ننگی پھدی اور گانڈ اسے نڈھال کر رہی تھیں کمرے میں اندھیرا تھا اس لیے پکچرز تھوڑی دھندلی تھیں پر اسامے کےلیے یہ ہی بہت تھا وہ بولا اففف بہزادی اے کیویں لیاں نی میں بولا باجی دی شلوار پاٹی ہوئی ہا تے اگے ہی ننگی ہا میں بس لئے لیاں وہ بولا کیوں آپ پاڑہ ہایا میں بولا نہیں آگے ہی پاٹی ہوئی ہا وہ بولا کیوں میں بولا پتا نہیں پتا ے کپڑے اس پائے ہوئے ہانڑ وہ بولا اففف یار تیری بھین نصرت دی پھدی تے سواد دیسی اور پھدی کو دیکھتا ہوا اپنا کہنی جتنا لن نکلا کر مسلنے لگا میں اور دینی اسے دیکھ رہے تھے اس نے رک کر اپنی جیب سے پیسے نکال کر بولا بہزادی توں تے مینوں خوش کیتا ہے میں وی تینوں خوش کرساں اور ہزار روپیہ مجھے پکڑا دیا یہ دیکھ کر میں تو خوشی سے اچھل گیا باجی نصرت کی پھدی کی تصویر دکھنے پر ہزار روپیہ مل گیا میری تو خوشی سے جان ہی نکل رہی تھی میں نے جلدی سے پیسے پکڑ اور مچل گیا ہزار کا نوٹ ہاتھ میں پہلی بار پجڑ کر مجھے امیدوں جیسی فیلنگ آنے لگی اسامہ بولا چلو ہنڑ جاؤ میں اور دینی جلدی سے باہر نکل آئے دیمی بولا واہ یار توں تے پہلے دن ہی امیر ہو گیا ایں میں ہنس دیا وہ بولا سچی دس باجی نصرت دی شلوار آگے ہی پاٹی ہوئی ہا میں بولا ہور کی وہ بولا بہزادی ہک گل منسیں میں بولا کی وہ بولا یار مینوں وی ویکھن دے چا باجی دی پھدی مجھے تو پیسوں کی لے لگ چکی تھی میں بولا مفتی ہی ویکھا دیواں وہ بولا بڑا بھین چود ہیں یار میری وجہ تو ہی توں پیسے کما رہیا ایں اتنی جلدی میری لاٹری نہیں لگی جتنی جلدی تیری لگ گئی میں بولا چل یار ویکھ لئے پر صرف ویکھنا ہورکجھ نہیں کرنا وہ بولا یار کے ہور کجھ کراں تے اس دے پیسے دیساں گیا ہنڑ راجی ہیں میں ہنس دیا اور بولا چل سہی اے اور ہم دونوں گھر کی طرف چل دئیے گھر کی طرف پہنچ کر میں نے جائزہ لیا تو امی چھت پر تھی وہاں کپڑے دھونے لگی تھی ہم اندر کمرے میں گئے تو باجی نصرت اسی کروڑ لیٹی تھی اور باجی نصرت نے اب گھٹنے سینے سے لگا رکھے تھے جس سے باجی نصرت کی گانڈ اور پھدی مزید کھل کر پھٹی شلوار میں سے نظر۔ رہی تھی یہ دیکھ کر دیمی مزے سے مچل گیا اور گھونٹ بھر کر رہ گیا اس نے حیرانی سے مجھے دیکھا اور مسکرا کر باجی نصرت قریب کھڑا ہوگیا جس سے باجی نصرت کی پھدی اور گانڈ اسے صاف نظر آنے لگی میں یہ منظر دیکھ کر مچل رہا تھا اس نے باجی نصرت کی گانڈ کو ہاتھ لگایا اور اپنی انگلی باجی نصرت کی ننگی گانڈ کی گلابی موری پر پھیر کر چیک کیا باجی نہیں ہلی تو اس نے انگلی دو تین بار باجی نصرت کی ننگی گانڈ اور پھدی پر پھیری پھر وہ نیچے جھکا اور قریب ہوکر باجی کی گانڈ اور پھدی کو سونگھنے لگا جس سے وہ مچل گیا دینی کو اپنی کی ننگی گانڈ اور پھدی سونگھتا دیکھ کر میں مچل سا گیا اس نے بے اختیار زبان نکالی اور باجی نصرت کی پھدی کے گلابی دہانے پر زبان کی نوک رکھ کر باجی نصرت کی پھدی کا دہانہ چاٹ لیا جس سے وہ سسک گیا ساتھ ہی باجی نصرت بھی سسک کر کانپ گئی اور آپ بھر کر اپنے گھٹنے مزید سینے سے جوڑ لیے دیمی اوپر ہو گیا اور ایک لمحے کےلئے رک کر منہ نیچے کیا اور گانڈ کے قریب لے جا کر باجی نصرت کی گانڈ کی موری پر ہونٹ رکھ کر چوم لیے اور پھر گانڈ کو چوم کر آگے باجی نصرت کی پھدی کا گلابی دہانہ بھی چوم لیا میں یہ دیکھ کر سسک گیا دیمی اوپر ہوا اور باجی کے منہ کی طرف جا کر باجی نصرت کا گال بھی چوم کر میری طرف بڑھا میں اسے دیکھ رہا تھا کہ وہ بس کر گیا ہو وہ میرے پاس آیا اور جب سے 500 کا نوٹ نکال کر مجھے تھما کر بولا بہزاد باہر دا دھیان رکھ میں باجی نصرت دی پھدی ویکھ کے مٹھ مارنی ہے میں تو دیمی کے ہاتھ سے 500 پکڑ کر ہکا بکا کھڑا تھا اتنی جلدی اتنے پیسے آئیں گے میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا وہ مجھے دیکھ کر بولا کی ہویا ہنڑ تے پیسے ایڈوانس دے دتے ہنڑ وی کوئی اعتراض میں ہنس کر بولا نہیں اور مڑ کر باہر نکل گیا باہر کوئی نہیں تھا میں نے سوچا دیکھوں تو سہی دیمی باجی نصرت کے ساتھ کیا کرتا ہے یہ سوچ کر اندر جھانکا تو دیمی شرٹ اور شلوار میں تھا اس نے شلوار کھول کر نیچے گرا دی تھی اس کا موٹا لیکن تھوڑا لمبا لن باہر اس کے ہاتھ میں تھا جس سے وہ باجی نصرت کی پھدی دیکھ کر مسل رہا تھا میں دینی کا ننگا پن باجی نصرت کی ننگی گانڈ کے سامنے دیکھ کر مچل گیا تھا دیمی لن مسلتے ہوئے تھوک منہ سے انگلی پر نکالی اور باجی نصرت کی گانڈ اور پھدی پر مل دی باجی نصرت کی گانڈ اور پھدی پر دیمی کی تھوک چمکنے لگی میں یہ دیکھ کر مچل گیا باجی نصرت کی گانڈ بالکل چارپائی کے کنارے تک آئی ہوئی تھی دیمی نے باجی کو دیکھا اور آگے ہوکر اپنا لن باجی نصرت کی گانڈ کے چیر میں دے پر باجی نصرت کی گانڈ کی موری کے اوپر رکھ کر مسل دیا جس سے دینی سسک کر مچل گیا اور رک گیا باجی کی قدرتی ہی نیند بہت گہری تھی اسے اٹھانا ہوتا تو بہت شور اور ہلا جلا کر اٹھانا پڑتا تھا باجی نصرت دیمی کے لن کو محسوس کرکے بھی ہلی نہیں میں دیمی کا پن اپنی بہن کی ننگی گانڈ میں دیکھ کر مچل رہا تھا دیمی نے سسک کر لن مسلا اور دبا کر لن گانڈ پر رکھ آگے پھدی کی طرف دھکیل دیا جس سے دینے کے لن کا ٹوپہ باجی نصرت کی پھدی کے دہانے اوپر پہنچ گیا دیمی نے سسک دو تین بار لن باجی نصرت کی پھدی کے اوپر دبا کر مسلا اور سسک کر کراہ گیا اور پیچھے ہوکر اپنی تھوک باجی نصرت کی پھدی کے گلابی دہانے پر مل دی باجی کی گاڈ باہر کو نکلنے سے پھدی کا دہانہ ہلکا سا کھلا تھا دیمی نے دونوں انگلیوں باجی نصرت کی پھدی کا دہانہ کھول کر دیکھا اور قریب ہو کر ایک تھوک باجی نصرت کی پھدی کے اندر پھینک دی جو باجی نصرت کی پھدی کے اندر چلی گئی اوپر سے دیمی نے انگلی دبا کر ہلکی سی پھدی کے دہانے میں داخل کر دی انگلی پھدی میں جاتے ہی باجی سسک کر کانپ گئی دیمی رک گیا دیمی کہ انگلی کا ایک پوٹا باجی نصرت کی پھدی میں اتر چکا تھا جسے باجی نصرت کی پھدی کھلتی بند ہوتی دبا رہی تھی باجی بس ہلی اور ہل کر رک گئی دیمی بھی کچھ دیر رکا رہا وہ تو پورا کھلاڑی تھا باجی جب واپس گہری نیند میں گئی تو دیمی نے اپنا زور لگا کر انگلی دوبارہ پھدی کے اندر دبا دی جس سے آہستہ سے دیمی کی انگلی کے دو پوٹے اندر چلے گئے سا تھ ساتھ ہی باجی نصرت کی سسکی نکلی اور وہ کانپ کر اپنی گانڈ کو دبا لیا جس سے باجی نصرت سسک کر گھوم کر سیدھی ہونے لگی باجی کے گانڈ دبانے سے دیمی کی انگلی باجی نصرت کی پھدی میں پھنس گئی نصرت کے گھومنے سے دیمی نے سمجھا کہ باجی جاگ گئی ہے اس نے جلدی سے ہاتھ کھینچنا چاہا جس سے باجی کی پھدی کو مسل کر دیمی کی انگلی باہر نکل آئی انگلی نے نکلتے ہی باجی نصرت کو مزے سے نڈھال کر دیا جس سے باجی کی کراہ نکلی اور باجی سسک کر کراہ گئی جس سے ان کر میں بھی جلدی سے باہر ہٹ گیا اور دیمی جلدی سے چارپائی کے نیچے چلا گیا باجی سیدھی ہو کر لیٹ گئی باجی انگلی کے نکلنے سے مزے سے ایک بار جاگ تو گئی لیکن انگلی کے نکلتے ہی مزہ بھی ختم ہوا تو باجی نے آنکھیں کھول کر ادھر ادھر دیکھا باجی نیند میں ہی تھی اس وقت باجی نصرت کو کچھ سمجھ نا آیا کہ کیا تھا باجی سیدھی ہوکر اپنے پاؤں کھول کر دونوں گھٹنے ہوا میں کھڑے کر سیدھی لیٹ گئی باجی نصرت کی پھدی کا دہانہ بے اختیار کھلنے بند ہونے لگا باجی نے ہاتھ نیچے کرکے آنکھیں بند کرکے اپنی پھدی کو ایک بار مسلا اور منہ دوسری طرف کرکے سو گئی دیمی نیچے ہی لیٹا رہا باجی سعدیہ باجی نصرت کی کراہ سے جاگ گئی اور اٹھ کر باجی نصرت کو دیکھا اور بولی باجی کی ہویا پر باجی گہری نیند میں جا چکی تھی دیمی سانس روکے چارپائی کے نیچے تھا اچھی بات یہ تھی کہ اندھیرا تھا اور دینی نظر نہیں آیا میں بھی پکڑے جانے کے خوف سے ڈر کر بھاگ کر دوسرے کمرے میں چھپ گیا کہ اب جو ہوگا دیمی اکیلا ہی بھگتے گا میں دروازے سے باہر دیکھنے لگا کہ اب شور مچے گا کیونکہ سعدیہ جاگ رہی تھی تھوڑی دیر تک کچھ نا ہوا اور سعدیہ دروازہ کھول کر باہر نکلی اتنے میں امی بھی چھت سے اتری اور بولی سعدو جاگ گئی ہیں وہ بولی جی امی بولی تے نصرت سعدو بولی امی او تے ایڈی جلدی نہیں جاگن آلی امی بولی تے بھرا کدے ہے وہ بولی پتا نہیں امی بولی ہک تے اے چھور وی اج کل غائب رہندا پتا نہیں کدے گیا سعدو بولی امی خیر اے امی بولی ہاں تیرے جانے آل جانا ہے ہمارے ماموں پنڈ کی دوسری نکڑ پر ہی رہتے تھے امی بولی جا فر نایاب نوں سد لیا گھر باجی کوک بہوے میں سمجھ گیا کہ دیمی کا کسی کو نہیں پتا چلا میں نے سوچا کہ نایاب کی بجائے میں ہی گھر آجاتا ہوں امی یہ کہ کر اندر کیچن میں گئی میں نے پسینہ صاف کیا اور اپنی حالت ٹھیک کرکے باہر نکلا سعدیہ واشروم میں تھی میں جلدی سے گیٹ ہلکا سا کھولا اور دو تین منٹ باہر کھڑا رہا اور پھر جلدی سے اندر آگیا امی کیچن سے نکل رہی تھی مجھے دیکھ کر بولی گلیاں ہی پھردا رہندا ایں گھر وی بہ کیاا کر میں بولا کی ہویا امی بولی اسی تیرے مامے آل جاؤں آں نصرت گھر ہلکی تے گھر بہوں میں بولا اچھا اتنے میں سعدیہ اندر سے نکلی وہ ہاتھ منہ دھو کر چادر کے کر امی کے ساتھ جانے کےلیے باہر نکلی میں نے گیٹ بند کیا اور جلدی سے اندر چلا گیا تو دیمی ابھی تکہ چھپا ہوا تھا میں نے اسے پکارا تو اس نے منہ باہر نکالا میں ہنس دیا اور بولا باہر آجا وہ جلدی سے باہر آیا اور بولا یار آج تے بڑے بچے آں میں بولا تینوں ہی شوق ہا وہ بولا یار تیری بھین نصرت تے بڑا سواد دیندی ہے میں بولا ہا وہ بولا ہک گل دس باقی لڑکیا تے ہتھ لگدیاں ہی جاگ جاندیاں باجی نصرت نال اتنا کجھ ہویا اے نہیں جاگی میں بولا باجی دی نیندر بڑی گہری اے اس نوں اکثر امی جھنجھوڑ کے جگاندی اے وہ بولا ہلا توں ہی میں بولا ہک مزے دی گل اے باجی اگر کچی نیند اچ جاگ کے فر دستی ہی سین جاوے تے فر باجی دی نیندر ہور پکی تے گہری ہو جاندی وہ مجھے دیکھ کر بولا نا کر میں بولا ہور کی وہ بولا انج کیویں میں بولا پتا نہیں باجی اچ اے عجیب ہی گل اے وہ بولا کجن ہو سگدا میں بولا ٹرائی کر لئے وہ بولا او کنج میں اسے بولا اندر آ میں اندر گیا اور باجی کو ہلکی سی چٹکی کاٹی تو باجی بس ہلی دوسری چٹکی ہر باجی ہلی بھی نہیں وہ بولا یار سے تے بے ہوش لگ رہی میں بولا انج ہی اے وی بولا ہلا فر پنچ سو تے پورا کروں دے میں بولا کر لئے وہ ابھی شلوار کے بغیر ہی تھا باجی سیدھی لیٹی تھی اور گھٹنے کھول کر ہوا میں کھڑے کر رکھے تھے باجی کے گھٹنوں کا بیلنس ٹوٹ گیا تھا سونے سے اس لیے ایک طرف ہو ڈھلکے ہوئے تھے اس نے مجھے دیکھا اور بولا باجی دی پھدی نال لن ٹچ کرلوں میں بولا یار توں پیسے دتے ہیں جو مرضی کر وہ یہ سن کر ہنس دیا اور باجی نصرت کی چارپائی پر چڑھ کر باجی نصرت کی ٹانگوں کی طرف آکر باجی نصرت کے گھٹنے پکڑ کر سیدھے کر دیے جس سے باجی نصرت کی پھدی کھل کر سامنے آگئی اس نے مسکرا کر مجھے دیکھا اور باجی نصرت کے گھٹنوں کے نیچے سے ہاتھ ڈال کر گھٹنے اوپر اٹھا دئیے جس سے باجی نصرت کے چڈے کھلنے لگے باجی بھی سیدھی لیٹی تھی دیمی آہستہ آہستہ باجی نصرت کے گھنٹے دباتا ہوا گھٹنے باجی نصرت کے پیٹ کے ساتھ لگا دیے جس سے باجی نصرت کے پیر ہوا میں کھڑے ہو گئے اور باجی نصرت کے چڈے کھل کر واضح ہو گئے جس سے باجی نصرت کی پھدی کا دہانہ کھل کر سامنے آگیا میں مزے سے دیمی کو اپنی بہن کے ساتھ کھیلتا دیکھ رہا تھا دیمی نے نیچے ہوکر اپنے ہونٹوں کو باجی نصرت کی پھدی کے اوپر رکھ کر چوم کر زبان نکال کر چاٹ لیا باجی نصرت کی صرف سسک نکلی تو دیمی اوپر ہو کر مجھے دیکھ کر بولا بہزادی باہر دس دھیان رکھیں اور خود اپنے گھنٹوں کے اوپر اٹھ کر اپنا تنا ہوا لن کا ٹوپہ باجی نصرت کی پھدی کے ساتھ لگا کر سسک گیا دیمی کا جسم کانپ گیا اور وہ سسک کر اوپر نیچے ہوکر اپنا لن باجی نصرت کی پھدی سے مسلنے لگا اس نے ایک ہاتھ سے اپنا لن باجی نصرت کی پھدی پر دبا دیا اور آگے پیچھے ہوکر لن باجی کی پھدی پر مسلتا ہوا سسکنے لگا دینی کے سانس تیز ہو رہے تھے اور وہ کراہ کر مچل رہا تھا دیمی اپنا لن باجی نصرت کی پھدی پر ہاتھ سے دبا کر مسلتا ہوا سسکتا ہوا کراہنے لگا دیمی کی مزے سے ہلکی ہلکی آہیں نکل رہی تھی دیمی کا جسم کانپنے لگا ایک مینٹ میں ہی دیمی کرا کر اچھلا اور دینے کے لن کے دہانے سے ایک پانی کی پتلی سی دھار نکلی کر باجی نصرت کی پھدی پر پھیلنے لگی دیمی دوہرا ہو کر کراہتا ہوا فارغ ہوگیا میں نے پہلی بار کسی کو فارغ ہوتا دیکھا تھا میں بھی حیران تھا کہ اسے کیا ہوا وہ دو منٹ تک پڑا رہا باجی نصرت بھی بے خبر پڑی تھی وہ بھی ہلی نہیں دیمی کراہ کر پیچھے ہوا اس کا لن مرجھا گیا تھا اس نے سانس بحال کیاا ور نیچے اتر آیا باجی کے گھٹنے ایک طرف لڑھک گئے تھے اور اس کا پانی باجی کی پھدی پر پھیل سا گیا تھا دیمی نے باجی کے چڈے کھولے اور باجی نصرت کی پھدی پر پڑی اپنی منی سے انگلی بھر لی اور اوپر آکر باجی نصرت کے ہونٹوں پر منی والی انگلی پھری باجی کے ہونٹوں پر دیمی کی منی لگ گئی اس نے پھر باجی کی پھدی پر لگی منی کو انگلی سے اٹھا کالر باجی کے ہونٹوں کو دبا کر کھولا اور اوپر سے منی باجی نصرت کے منہ میں پھینکتا ہوا اپنی انگلی باجی کے منہ میں داخل کرکے ساری منی باجی نصرت کے منہ میں پھیل دی جو باجی نصرت کے منہ میں چلی گئی میں یہ سب دیکھ کر مزے سے نڈھال تھا دیمی بولا افففف بہزادی باجی دی پھدی تے آتے ہی فارغ کروا دتا اندر گیا تے اکا سواد آ جاسی میں بولا اندر وی پانا ہوندا وہ بولا اصل سواد تے اندر ہی آندا میرا کم تے باہر ہی ہو گیا اور شلوار ڈال کر نکل گیا میرا لن بھی تن کر کھڑا تھا میں بھی پیچھے آیا وہ بولا بہزاد توں وی سواد لئے لے میں بولا چولاں نا مار میری باجی ہے اس نے میرا لن پر ہاتھ لگایا جو تن کر کھڑا تھا اور ہنس کر بولا بھین یکا اے تے پھدی منگ رہیا کجھ نہیں ہوندا میرے آر اتے آتے رگڑ لئے اندر نا پائیں میں وی کدی کدی باجی دی پھدی تے لن پھیر لیندا ہاس میں حیرانی سے اسے دیکھنے لگا وہ ہنس کر بولا دیمی اندر نا پائیں اگر پانا وی ہے تے ٹوپے تک پائیں میں بولا کیوں وہ بولا اندر لڑکی دا پردہ ہوندا تے او پھٹ جاسی فر تیری بھین دے پیسے نہیں ملن گے میں یہ سن کر سوچ میں پڑ گیا اور وہ بولا یار آتے آتے پھیر لئے کجھ نہیں ہوندا میں بولا تینوں کس دسیا وہ بولا باجی ہی دسیا اے اور بولا چل میں جاندا اور ہندی کھول کر چلا گیا میں اسے حیرانجمئ سے جاتا ہوا دیکھنے لگا اسوقت اتنا پتا نہیں تھا حیرانی ہی تھی میں دروازہ بند کیا اور اندر کی طرف چل دیا میرے ذہن پر عجیب سا نشہ سوار تھا جس کی مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی باجی نصرت کی پھدی میری آنکھوں کے سامنے تھی میں چلتا ہوا اندر گیا تو باجی اسی طرح پڑی تھی باجی نصرت کے گھٹنے ایک طرف لڑھکے ہوئے تھے میں بھی پاس جا کر کھڑا ہو گیا شہوت سے میرا دماغ ماؤف تھا مجھ سے رہا نا گیا میں نے بے اختیار اپنا لن باہر نکالا اور مسلنے لگا میں نے باجی نصرت کے گھٹنے ہٹا کر پھدی کا نظارہ کرتا ہوا مٹھ لگانے لگا مجھے مزہ ا رہا تھا میں دو منٹ تو مٹھ لگائی مجھے شہوت فل چڑھی ہوئی تھی مجھے خیال آیا کہ دیمی کو باجی کے ساتھ کرکے مزہ آیا تھا میں بھی یہی کرتا ہوں یہ سوچ کر عجیب سا مزہ میرے اندر تک اتر گیا ور میں بے اختیار اپنا قمیض اور شلوار ننگا کرکے فل ننگا ہوکر اپنی سگی بہن نصرت کی ٹانگوں کی طرف چارپائی پر چڑھ آیا میں بالکل ننگا تھا میں باجی نصرت میرے سامنے پڑی تھی میں مزے اور ڈر سے کانپ رہا تھا میرا لن جھٹکے لینے لگا تھا مزے سے میں نے آہستہ سے باجی نصرت کے گھٹنے پکڑے اور ہلکے سے کھول دیے باجی نصرت کی پھدی پر دیمی کا پانی سوکھ رہا تھا میں نے بے اختیار ہاتھ آگے کرکے باجی نصرت کی پھڈی کو چھوا باجی نصرت کی پھدی کے دونوں ہونٹوں ایک دوسرے سے سختی سے ملے تھے صرف پھدی کا گلابی دہانہ ہلکا سا کھلا تھا میں نے گھٹنے نیچے پکڑ کر دینی کی طرح باجی نصرت کے پیٹ سے لگا دیے جس سے باجی نصرت کے چڈے کھل گئے اور باجی نصرت کی پھدی کھل کر سامنے آگئی میں باجی کی پھدی کا کھلا دہانہ دیکھ کر مزے سے مچل گیا میں نے دیمی کی طرح اپنا لن باجی نصرت کی پھدی کے ساتھ ملایا باجی کی پھدی کے لمس سے میں مزے سے سسک کر کراہ گیا میں نے لن پھدی کے اوپر رکھا میرا لن دینی ہے لن سے لمبا اور موٹا تھا میرا چار انچ تک لمبا اور دو انچ تک بڑا تھا میں باجی کے چڈوں میں بڑھ کر باجی کے گھٹنے اٹھا کر پیٹ سے لگا باجی نصرت کی پھدی سے لگا کر اپنا لن باجی کی پھدی پر مسل رہا تھا مزہ تو بہت آرہا تھا میں مزے سے کراہ کر مچل رہا تھا شہوت مجھے بے حال کر رہی تھی میرے ذہن میں دیمی کی بات گونج اوئے پھدی اچ صرف ٹوپہ پائیں یہ سوچ کر میں مچل گیا میرا دل کیا کہ لن اندر تو ڈالوں میں نے بے اختیار سسک کر پیچھے ہوا اور اپنا لن مسل کر باجی نصرت کی پھدی کے دہانے پر رکھا اور ہلکا سا دبا دیا جس سے ٹوپے کی نوک میری بہن نصرت کی پھدی میں داخل ہوئی اسی لمحے باجی کی بھی کراہ نکلی اور باجی ہلی میں جلدی سے پیچھے ہو گیا باجی پرسکون ہوگئی میں دو منٹ رہا اور پھر لن کو گیلا کرکے باجی کی پھدی کے ہونٹ کو پکڑ کر کھول کر اندر تک باجی کی پھدی کو گیلا کیا اور پھر لن باجی نصرت کی پھدی کے دہانے پر رکھ کر باجی نصرت کی پھدی کا دہانہ دونوں ہاتھوں سے کھول کر اپنا لن اندر رکھ دیا دہانہ اتنا ہی کھلا کہ میرے لن کے ٹوپے کا کچھ ہی حصہ اندر گیا میں اپنے گھٹنوں کے بل ہوا اور ہلکا سا زور لگا کر لن باجی نصرت کی پھدی میں دبانے لگا جس سے میرا لن باجی نصرت کی پھدی کا دہانہ کھول کر اندر جانے لگا جس سے باجی نصرت کی بھی آہ نکل کر گونجنے لگی اور باجی نصرت ہلتی ہوئی کراہنے لگی باجی کی نیند بہت پکی تھی میرے لن کا ٹوپہ باجی نصرت کی پھدی میں گھس گیا باجی بھی کرہا کر ہل رہی تھی اور آہیں بھرتی ہلکی ہلکی نیند میں ہی گڑبڑانے لگی مجھے امید تھی باجی نہیں جاگے گی لیکن میں پھر بھی رک گیا باجی کا جسم ہل رہا تھا اور باجی آہیں بھرتی پر سکون ہو گئی میں ایک منٹ رہا رہا باجی نصرت کی پھدی بہت ٹائیٹ تھی پھدی نے میرا لن جکڑ رکھا تھا میں کراہ کر مچل رہا تھا پھدی کے اندر آگ لگی تھی جو میرے لن کو کھینچ رہی تھی میں بھی آگ سے جل رہا تھا مجھ سے رہا نا گیا میں نے بے اختیار لن کو ہلکا سا دبا کر اندر مزید ڈالنے لگا جس سے میرے لن کے ٹوپے سے مزید کچھ حصہ اندر چلا گیا میں حیران ہوا کہ دینی تو کہ رہا تھا کہ لڑکی سیل پیک ہوتی ہے لڑکی کے اندر تو پردہ ہوتا ہے لیکن باجی نصرت کے اندر تو کوئی پردہ نہیں تھا میں نے بے اختیار لن ہلکا سا پش کیا میرا لن اندر جانے لگا میں حیران تھا پردہ تو تھا ہی نہیں دیمی ایسے ہی کہ رہا تھا جیسے لن اندر جا رہا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ پھدی میں آگ کا تندور جل رہا ہو میں مزے سے تڑپ رہا تھا باجی نصرت بھی اب ہلتی ہوئی کراہ رہی تھی میرا آدھا لن باجی نصرت کی پھدی کے اندر چلا گیا تھا کہ اسی لمحے میرا لن آگے کسی رکاوٹ کے ساتھ ٹچ ہوا محسوس ہوا میں وہیں رک گیا میں مزے سے تڑپ کر ہانپ رہا تھا مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میرا لن آگ میں چکا گیا ہوا باجی نصرت کے اندر آگ لگی تھی میرا آدھا لن باجی نصرت کی پھدی کے اندر جا چکا تھا میں مزے سے کانپنے لگا تھا میں سمجھ گیا کہ باجی نصرت کی پھدی کا پردہ ا گیا ہے باجی بھی مسلسل آہیں بھرتی کانپ رہی تھی میں نے لن کھینچا اور آہستہ آہستہ اپنا لن وہیں اندر باہر کرتا ہوا باجی نصرت کی پھدی میں پھیرتا باجی نصرت کو چودنے لگا باجی بھی کراہ کر مچلنے لگی باجی کا پیٹ تیزی سے اوپر نیچے ہونے لگا لن اندر باہر ہونے سے پھدی کی لن پر گرفت اور رگڑ سے میرے ہوش اڑ رہے تھے مزے سے میری حالت خراب تھی ایک آدھا منٹ ہی میں نے لن باجی نصرت کی پھڈی ہے اندر باہر کیا ہوگا کہ باجی نے اونچی کراہ بھری اور درمیان سے اٹھ گئی اسی لمحے مجھے ایسا لگا کہ میرے لن پر کسی نے گرم پانی انڈیل دیا ہو اسی لمحے میری ہلکی سی چیخ نکلی اور میری جان گرم پانی نے کھینچ لی باجی نصرت فارغ ہوکر پانی کی دھاریں میرے لن پر مارتی فارغ ہورہی تھی باجی کی آگ نے میری منی بھی کھینچ اور میں بھی اپنا آدھا لن باجی کی پھدی میں اتارے کراہ کر فارغ ہونے لگا مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میرے ٹانگوں اور جسم سے جان نکل کر لن سے باجی نصرت کے اندر جا رہی تھی عجیب سا نشہ اور سرور مجھے چھایا ہوا تھا میں کراہ کر تڑپتا ہوا فارغ ہورہا تھا باجی نصرت کی پھدی نے میرا لن نچوڑ لیا تھا مجھ سے باجی کی آگ برداشت نا ہوئی اور میں نے لن پیچھے کھینچ لیا باجی نصرت نے غراہٹ بھری اور کانپتی ایک سائیڈ پر ہوکر اپنے گھٹنے سینے سے لگا کر کانپتی ہوئی جھٹکے مارتی ابھی تک فارغ ہو رہی تھی باجی نصرت کی پھدی کا دہانہ پچ پچ کرتا کھلتا بند ہوتا پانی کی دھاریں چھوڑ رہا تھا میں سسک کر کراہتا ہوا گھوما اور ایک طرف ہوکر چارپائی سے نیچے اتر کر لیٹ گیا کہ باجی اٹھے تو میں اسے نظر نا آؤ میں دو منٹ پڑا رہا باجی دو منٹ تک آہیں بھرتی فارغ ہوتی پانی چھوڑ رہی تھی باجی نصرت آہستہ آہستہ آہیں بھرتی ہلکی ہلکی کانپنے لگی باجی نصرت کی پھدی نے اتنا پانی چھوڑا کہ چارپائی سے نیچے گرنے لگا تھا میں یہ سب دیکھ کر حیران تھا کہ باجی نصرت اتنا پانی چھوڑتی ہے میں یہ سب دیکھ کر اوپر ہوا تو باجی ہلکی ہلکی ہانپتی ہوئی گھٹنے سینے سے لگا کر پڑی تھی میں نے اپنے کپڑے اٹھائے اور باہر نکل کر پہن لیے میں ڈر بھی گیا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا تھا اور تھوڑا پریشان بھی ہوا کہ میں نے باجی نہیں دے کے ساتھ یہ سب غلط ہی کیا ہے انہیں سوچوں میں باہر چارپائی پر لیٹ کر سو رہا تھا کہ اتنے میں گیٹ کھڑکا تو مجھے جاگ ہوئی میں نے گیٹ کھولا تو باجی اور امی تھی امی لوگ اندر آئے باجی سعدیہ سیدھی اندر گئی مجھے تھوڑا ڈر لگا کہ کہیں وہ سب دیکھ نا کے دو منٹ میں سعدیہ نے امی کو پکارا امی امی جلدی اندر آویں میں تو ڈر گیا اور سوچنے لگا کہ بچوں اب تو پکڑا گیا باجی نے امی کو بلایا تو امی بولی خیر تے ہے میں جان بوجھ کر اپنے دھیان میں رہا امی اندر گئی میں نے سوچا کہ دیکھوں تو سہی کیا کہتے ہیں میں بھی کان لگا کر کھڑا ہوگیا امی بول رہی تھی نصرت نصرت جاگ جا نصرت ہڑبڑا کر اٹھی امی بولی نصرت پانی نکل گیا تیرا باجی بولی ہلا امی بولی اسدا مطلب حکیم دی دوائی کم کر رہی ہے میں حیران ہوا کیسی دوائی باجی بولی امی حکیم دی دوائی تے کم کیتا پر ہنڑ مینوں کمزوری محسوس ہو رہی امی نیچے ہوئی اور باجی کا امتھا چوم کر بولی میری دھی ہنڑ دس کی کریے کے اے نا کرئیے تے حکیم آکھ رہیا اے نال توں مر جاسیں گئی جدو تک تیری شادی نہیں ہوندی اے تے کرنا پوسی باجی بولی اس دی تے امید کوئی نہیں امی بولی نصرت وت تینوں آکھیا تے ہے کوئی بندہ بنا لئے جس کولو اپنی آگ کڈھا کئی نصرت بولی امی اے میرے کولو نہیں ہوندا اے من نہیں چنگا لگدا امی میری دھی پنڈ دیاں ہور چھوریں وی تے اپنی آگ پنڈ دے چھوراں کولو کڈھیںدیاں ہینڑ تینوں وی کجھ نہیں ہوندا باجی بولی امی پتا نہیں میرے کولو نہیں ہوندا امی بولا ہلا وت اس تے ہی گزارہ کر۔ سعدو باجی کی پھٹی شلوار دیکھ کر بولی باجی اے کی شلوار پاٹی ہوئی ہئی باجی نصرت بولی ہا اے میں آپ ہی پاڑی ہا تا کہ جدو پانی نکلنا ہوے نکل جاوے شلوار لاہنی نا پوے امی بولی ہلا ہنڑ نکل گیا اے پر منجی تے ساری سے چھڈی ہئی ہنڑ کپڑے تبدیل کر لئے باجی بولی ہلا اماں میں کردیںاں مجھے اب ساری بات سمجھ آگئی میری بھی جان میں جان آئی کہ باجی کا پانی کیوں نکلا اتنا یہ ساری آگ تھی جو باہر نکلی تھی اور باجی نے اپنی شلوار بھی خود پانی نکالنے کےلیے پھاڑ رکھی تھی یہ سوچ کر مجھے اطمینان ہوا اور میں باہر نکل گیا میں باہر نکلا تو مجھے دیمی ملا مجھے دیکھ کر ہنس دیا اور بولا سنا باجی دا سواد آیا کہ نہیں میں ہنس دیا اور بولا ن پچھ یار بڑا سواد آیا وہ بولا واقعی اندر تے نہوں پایا میں بولا پایا اے وہ بولا وت میں بولا یار میر تے آدھا لن باجی نصرت دی پھدی دے اندر چلا گیا وہ حیران ہوکر بولا نا کر یار میں بولا تے ہور کی وہ بولا باجی دا پردہ نہیں آیا میں بولا آدھا گیا تے آگو آگیا ہا وہ بولا اس دا مطلب تیری بھین دی پھدی گہری ہے کافی میں ہنس دیا وہ بولا باجی جاگ گئی میں نے ہاں میں سر ہلایا وہ بولا چل میں وی کل ٹرائی کرساں گیا ہم کچھ دیر اکٹھے رہے میرے پاس اب کافی پیسے جمع ہو گئے تھے جس سے ہم نے ایک گیم خرید لی اگلے دن پھر سکول سے آکر وہی روٹین تھی میں کھانا کھا کر نکلا تو آج اسامے کی بیٹھک پر گاؤں کے اور بھی اوباش لڑکے بیٹھے تھے اسامہ ان کو باجی نصرت کی پھدی والی تصویریں دکھا رہا تھا سب دیکھ کر مچل رہے تھے مجھے دیکھ کر اسامہ بولا آ او شہزادے کی حال اے تیرا میں بولا ٹھیک آں توں سنا وہ بولا باجی دی سنا میں بولا ٹھیک اے اسامے نے مجھے موبائل دیا اور بولا آج وت بنا لیا تصویراں میں نکلا تو مجھے دیمی بھی مل گیا ہم دونوں گھر گئے آج باجی سعدیہ امی کے ساتھ چھت پر کپڑے دھو رہی تھی باجی نصرت اکیلی سو رہی تھی دیمی بولا یار نصرت نوں جگا ہک واری باجی ایک طرف منہ کرکے سو رہی تھی میں نے پاس جا کر باجی کو ہلایا دو تین بار ہلانے سے باجی نے آنکھیں کھولیں اور تھوڑی سی ہلی اور سیدھی ہوکر لیٹ گئی باجی نصرت کے سیدھے لیٹنے سے باجی نصرت کے تنے ممے ہوا میں اٹھے جان نکال رہے تھے میں بھی یہ دیکھ کر مچل گیا باجی نصرت کے پھولے گال بھی چومنے کو دل کر رہا تھا اتنے میں دیمی اندر آیا اور باجی نصرت کی ٹانگیں پکڑ کر کھڑی کرکے کھول دیں باجی نے آج پھر وہی پھٹی ہوئی شلوار ڈال رکھی تھی میں نے کیمرے کی لائٹ آن کرکے باجی نصرت کی پھدی کی تصویریں لیں دیمی نے باجی نصرت کی پھدی کا دہانہ کھول کر باجی نصرت کی پھدی کے اندر کا گلابی حصہ کھول دیا جس کی میں نے تصویریں لیں دیمی کے منہ میں پانی آ رہا تھا میں تصویر لے کر فری ہوا تو دیمی بولا بہزاد تو کل باجی دی پھدی اچ لن پا دتا ہا میں نے سر ہلایا وہ بولا یار میں وی پا لواں 500 روپیہ دیساں میں پانچ سو کا سن کر چونک گیا اور گھونٹ بھر کر رہ گیا میں نے باجی کو دیکھا وہ بے سدھ سو رہی تھی میں بولا ٹھیک اے پا لئے وہ یہ سن کر مسکرا دیا اور بولا باہر دا خیال رکھیں اور جلدی سے اپنی شلوار اتار کر ننگا ہو گیا اور باجی نصرت کہ ٹانگوں کی طرف بڑھ گیا باجی کی ٹانگیں دونوں طرف لڑھک کر کھلیں تھی اس نے قمیض آگے سے ہٹایا اور جلدی سے ٹانگیں اوپر باجی نصرت کے پیٹ سے ملا دیں اور منہ نیچے کرکے باجی نصرت کی پھدی کو چوم کر باجی کی پھدی کا دہانہ کھول کر باجی نصرت کی پھدی کے اندر تک اپنی زبان دلا کر پھیری جس سے باجی نصرت سسک گئی دیمی نے زبان دبا کر اندر پھدی کے اندر ڈال دی جس سے باجی سسک کر کانپ گئی دیمی نے زبان نکال لی تو باجی بھی پرسکون ہو گئی دیمی نے رک کر پھر اوپر ہوا اور اپنا لن باجی نصرت کی پھدی کے دہانے پر رکھا دیمی کا لن میرے لن سے آدھا تھا اس نے باجی نصرت کی پھدی کے دہانے پر اپنا لن دبا دیا جو باجی نصرت کی پھدی کو کھول کر اندر اتر گیا جس سے باجی ہلکی سی ہلی وہ رک گیا اور ایک لمحے کے بعد اپنی گانڈ دبا کر لن باجی نصرت کی پھدی کے اندر ڈالنے لگادیمی کا لن انگلی جتنا تھا وہ آسانی سے سارا ہی باجی نصرت کی پھدی میں اتر گیا باجی نصرت کی پھدی کے تنگ دہانے نے دیمی کا لن دبوچ لیا جس سے باجی نصرت کی سسکی نکلی اور دینی بھی کانپ گیا باجی نے سسکی بھر کر اپنا سر سیدھا کیا اور خود ہی اپنی ٹانگیں اٹھا کر پیٹ سے لگا لیں دیمی رک گیا اور باجی کو حیرانی سے دیکھا باجی نے تیز سانس لیتی ہوئی دو منٹ تک سسکتی رہی پھر اس نے اپنی ٹانگیں نیچے کر لیں جس سے دیمی نے مجھے دیکھا اور اپنا لن آہستہ سے اندر باہر کرنے لگا دینی کا لن باجی نصرت کی پھڈی میں پھرتا ہوا ہلکی ہلکی پچ پچ کر رہا تھا دیمی ایک منٹ میں ہی باجی نصرت کی گرمی کے آگے ہمت ہار گیا اور کراہتا ہوا باجی نصرت کے اندر فارغ ہوکر نڈھال ہوگیا باجی کو کچھ بھی محسوس نا ہوا باجی لیٹی رہی دیمی ہانپتا ہوا پیچھے ہو کر اپنا لن باجی نصرت کی پھدی سے کھینچ کر نکال لیا جس سے دیمی کی منی باجی نصرت کی پھدی سے بہنے لگی دیمی نے باجی کی پھدی سے نکلتی منی انگلی پر بھری اور آگے ہوکر باجی نصرت کے کھلے منہ میں پھینک دی اور اپنی انگلی باجی کے منہ میں ڈال دی دیمی کی منہ باجی نصرت کے منہ میں چلی گئی میں یہ دیکھ کر گھونٹ بھر کر رہ گیا دیمی پیچھے ہوا اور نیچے اتر کر شلوار ڈال لی دیمی کو باجی کی پھدی مارتا دیکھ کر میں بھی مچل گیا تھا پر دیمی کے سامنے میں باجی نصرت کی پھدی مارنا نہیں چاہتا تھا اس لیے ہم وہاں سے نکل آئے باہر آکر دیمی نے مجھے پانچ سو دیا جسے دیکھ کر میں مچل گیا ہم اسامے کے پاس گئے اور اسے باجی نصرت کی ننگی پھدی دکھا کر پیسے لیے کچھ دیر ہم نے کچھ کھایا پیا اور میں پھر گھر آگیا امی اور باجی سعدو چھت پر کپڑے ہی دھو رہی تھیں میں اندر گیا تو باجی اپنی گانڈ نکال کر پڑی تھی باجی نصرت کی پھدی نظر آ رہی تھی جس پر لگی دیمی کی منی نظر آ رہی تھی میں یہ دیکھ کر سسک گیا باجی کی موٹی چوڑی گانڈ باہر کو نکل ہو ئیں تھی باجی نے ٹانگیں سینے سے لگا رکھی تھیں جس سے باجی کی موٹی گانڈ باہر کو نکلی ہوئی تھی میں نے بے اختیار اپنی شلوار اتار کر ننگا ہوا گیا اور باجی نصرت کے پیچھے لیٹ گیا باجی نصرت کے چوڑے جسم سے گرمی نکل رہی تھی میں قریب ہوکر باجی نصرت کے ساتھ لگ گیا جس سے باجی نصرت کے جسم سے ایک مزے کی لہر میرے اندر اتر گیا میں آگے ہوا اور باجی نصرت کی موٹی گال کو منہ میں بھر کر دبا کر چوس کر اپنا لن باجی نصرت کی پھدی سے ٹچ کیا اور ہلکا سا زور لگا کر لن باجی نصرت کی پھڈی کے پار کردیا جس سے باجی سسک گئی میں نے اپنا آدھا لن باجی نصرت کی پھدی کے پردے تک اتار کر آگے پیچھے کرنے لگا میرے لن کا ٹوپہ باجی نصرت کی پھدی کے پردے سے ٹچ ہو رہا تھا میں کراہ کر سسکتا ہوا باجی نصرت کی پھدی میں لن پھیرنے لگا باجی نصرت کی پھدی میں لگی آگ مجھے نڈھال کر رہی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ باجی کے اندر آگ لگ رہی تھی باجی نصرت کی پھدی میرا لن جلا رہی تھی دو منٹ کی پھدی میں لن پھیر کر میں نڈھال ہوکر فارغ ہو گیا سا تھی ہی باجی نصرت کا جسم بھی اکڑا اور باجی نصرت کی کرلاٹ نکل کر مجھے ڈرا گئی ساتھی ہی باجی نصرت کی پھڈی سے ایک لمبی دھار سے پانی نکل کر بہنے لگا ایسا لگ رہا تھا جیسے پائپ کھل گیا ہو باجی نصرت کا جسم کانپنے لگا اور باجی نصرت کراہتی ہوئی اپنی گانڈ زور سے پیچھے مار کر پانی چھوڑ رہی تھی باجی نصرت کی گانڈ کی ٹکر سے میں بے اختیار چارپائی سے نیچے جا گرا میں تو مزے سے بے قرار تھا باجی مسلسل کراہتی ہوئی پانی کے فوارے چھوڑ رہی تھی میں جلدی سے اٹھا اور کپڑے ڈال کر نکل گیا میں شام کو گھر آیا تو مجھے باجی فریش نظر آئی میں باجی کی لال گلابی ہوتی گالوں کو دیکھ کر مچل رہا تھا باجی بھی آج پہلے سے زیادہ فریش لگ رہی تھی شاید گرمی نکلنے کی وجہ سے تھا اگلے دن سکول سے بعد میں باجی کو سوتا چھوڑ کر اسامے کے پاس پہنچ گیا اسامے کا فون لے کر میں گھر کی طرف چل پڑا میں گھر آیا تو آج کمرے میں باجی نصرت نہیں تھی میں یہ دیکھ کر تھوڑا مایوس ہوا باجی سعدیہ پڑی تھی میں نے سوچا اس کی پکچرز بناؤں پر اس کا کوئی ویو نظر نہیں آیا میں نے دو تین تصویریں لیں باجی سعدیہ کی عادت تھی وہ کپڑااںکے کر سوتی تھی باجی اوپر کپڑا ڈال کر پڑی تھی میں نے ایک دو تصویریں لیں اور موبائل ہاتھ میں پکڑے ہی جلدی سے باہر نکلا تو سامنے میں سیدھا باجی نصرت سے ٹکرا گیا جو اندر آرہی تھی جس سے وہ اور میں دونوں بوکھلا سے گئے باجی نصرت مجھے دیکھ کر بولی بھائی کی ہویا کدے جااؤ ایں اتنے میں باجی کی نظر موبائل پر پڑی میں باجی کو دیکھ رہا تھا۔ موبائل کی گیلری کھلی تھی اور سامنے باجی نصرت کی ہی تصویریں تھیں میں نے جلدی سے موبائل نیچے جیب میں ڈالا میرا رنگ اڑ گیا تھا میں بھاگنے کی کوشش کی پر باجی نصرت نے مجھے بازو سے پکڑ لیا میرا دل ڈوب سا گیا تھا آج مارا گیا تھا باجی سے میں نے چھڑوانے کی کوشش کی باجی بولی بہزاد اے فون کو دا تے کدو لیا ہئی میرا رنگ لال سرخ ہو چکا تھا کان سائیں سائیں کر رہے تھے باجی نے اتنے میں میری جیب میں ہاتھ ڈالا پر میں نے اوپر ہاتھ رکھ لیا باجی تھوڑا سختی سے بولی بہزاد سچی سچی دس اے کدو لیا ہئی تے کی ڈرامے کر رہیا ایں میں کچھ بول نہیں رہا تھا باجی مجھ سے بڑی تھی باجی میں زور بھی تھا باجی نے میری جیب سے فون کھینچ لیا اور سامنے باجی کی نظر اپنی تصویر پر پڑی تو باجی کا رنگ اڑ گیا باجی نے سرخ غصیلی آنکھوں سے مجھے دیکھا اور اگلے لمحے باجی نے کس کر مجھے تھپڑ مارا اور بولی بغیرت انسان اے کی کم کردا وداں ایں باجی کو بھی سمجھ لگ گئی تھی کہ یہ میرا ہی کرتوت تھا امی جو شاید کیچن میں تھی باجی کی بات سن کر نکلی اور ہمیں دیکھ کر بولی نی کی بنیا ہئی باجی امی کو دیکھ کر چونک گئی اور گھونٹ بھر کر بولی اے ویکھ امی تیرا لاڈلا نویں کرتوت کر رہیا اے موبائل لئی ودا اے امی بولی ہااا وے اے کدو لیا ہئی تے کی کردا ودا ایں میرا دل بجھ گیا تھا کہ آج باجی تو نہیں چھوڑے گی باجی نصرت نے میرا ہاتھ پکڑا اور کھینچتی ہوئی دوسرے کمرے میں ہے کر چلی گئی اور بولی بغیرت انسان سچی سچی دس اے فون کس دا تے اے میریاں تصویراں وچ کدو آیاں باجی نصرت کی صرف سوتے کی تصوریں تھی باجی نصرت کی پھدی کی تصویریں نہیں تھیں شاید وہ اسامے نے چھپا لیں تھیں صرف باجی کے مموں اور دوسری تصویر تھیں باجی نے جب اپنی تصویریں دیکھیں تو باجی غصے سے کھول رہی تھی باجی نے مجھے غصے سے دیکھا پر میری تو آواز ہی نہیں نکل رہی تھی باجی نے کس کر میری گال پر تھپڑ مارے اور بولی دس وی میں نے ڈرتے ڈرتے باجی کو بتایا اسامے دا اے باجی کا تو خون کھول گیا باجی تڑپ سی گئی اور کس کر میری گال پر تھپڑ مار کر بولی بغیرت انسان اس اوباش نال توں دوستی کیری ودا ایں تے اے دس میری تصویرں کنج اس کول اپڑ گئیاں توں چھکدا ایں میں نے ہاں میں سر ہلایا یہ سن کر باجی بولا بغیرت کمینہ انسان توں تے ہر حد توں گر گیا ایں بغیرتا میری عزت تار تار کر دتی ہئی اور تھپڑوں سے میرا منہ لال کر دیا اور پھر اپنا جوتا اتار کر کس کس کر کمر میں مارتی مجھے مارنے لگی باجی کے غصے سے لگ رہا تھا کہ آج میں نہیں بچوں گا میں نیچے اپنے پیروں میں جھک گیا اور درد سے اونچا اونچا رونے لگا اتنے میں دروازہ کھلا اور امی اندر آگئی اور مجھے پڑتا دیکھ کر بولی نی نصرت کی ہویا ہئی کیوں بھرا نوں ماردی پئی ایں یہ سن کر باجی رہی اور بولی امی اے ویکھ تیرے لاڈلے میری عزت تار تار کر دتی اور امی کو موبائل میں اپنی تصویریں دکھائیں امی دیکھ کر ہکا بکا ہوکر بولی جا وے کنجرا توں مر کیوں نہیں گیا اے گند کرن توں پہلے لعنتیاں امی نے مجھے مارا تو نہیں پر لعن طعن بہت کی باجی بولی جا دفعہ ہو جا ہنڑ گھر نا آویں توں ساڈا بھرا کوئی نہوں اسے اوباش جول رہویں ہنڑ بغیرتا کتیا باجی گالیاں نہلاتی ہوئی اپنی تصویریں ڈیلیٹ کر دیں اور میرے ہاتھ سے پکڑ کر مجھے گھر سے نکالنے لگی امی بولی ہلا بس کر نصرت ہنڑ جا وے دے آ اس نوں فون تے اگاں نا جاویں امی نصرت کو لے کر نکل گئی میں اٹھا اور فون اٹھا کر نکل گیا میری تو جان ہی جیسے نکل گئی تھی میں اب اپنے آپ کو ہوس رہا تھا کہ میں نے ایسا کیوں کیا نصرت میری سگی بہن تھی اس کی عزت تار تار کر دی میں اسامے کے پاس گیا اور اسے ساری بات بتا دی وہ بھی پریشان اور دکھی سا ہوگیا میں وہاں سے نکلا اور شام تک باہر پھرتا رہا گھر جانے کو دل ہی نہیں کیا شام تک اپنے آپ کو لعن طعن ہی کرتا رہا شام ہو میں نے سوچا کہ جو ہوگیا ہو گیا اب باجی سے معافی مانگ لوں گا یہ سوچ کر میں گھر گیا تو باجی نے مجھے غصے سے دیکھا اور اندر چلی گئی میں اندر کیچن میں گیا تو امی نے کھانا دیا میں کھانا کھا کر اندر چلا آیا میں لیٹ کر سوچنے لگا کہ کتنا بڑا بلنڈر ہوگیا ہے مجھے یہ نہیں کرنا چاہئیے تھا میں باجی سے سوری کرنا چاہتا تھا پر اب تو باجی غصے میں تھی اس نے میری ایک نہیں اننی تھی میں لٹا تھا کہ اتنے میں امی اندر آئی اور مجھے لیٹا دیکھ کر میرے پاس آگئی میں تھوڑا پریشان تھا امی مجھے پریشان دیکھ کر میرے پاس بیٹھ گئی میں اٹھ کر بیٹھ گیا امی بولی پتر کیڈا کملا ہیں توں تیریاں بھیناں تیری عزت ہینڑ توں لوگوں دے آکھے تے اے کم کردا رہیا ایں میں منہ نیچے کر بیٹھا تھا میرے پاس کوئی جواب نا تھا امی بولی بہزاد میرا پتر بھیناں فی عزت دی رکھوالی کری دی اے انج غیرمرداں نوں بھیناں دیاں تصویراں نہیں وکھیندیاں میں بولا امی بس پتا نہیں مینوں کی ہویا کجھ سمجھ نہیں آئی امی بولی ویسے اے دس اے کدو توں کر رہیا ایں میں بولا امی بس دو تین دناں توں امی بولی تے کر کیوں رہیا ہائیں میں بولا بس او پیسیاں واسطے امی حیران ہوکر بولی اسامہ تینوں پیسے دیندا ہے میں نے ہاں میں سر ہلایا امی بولی کتنے میں بولا ڈھیر سارے امی بولی کدے کردا وت میں بولا بس کھانڑ پینٹ دیاں چیزاں لیندا امی بولی ساریاں دے میں بولا نہیں باقی بچ جانے او دیمی کول ہینڑ امی بولی او وی اس کم اچ شامل اے میں نے ہاں میں سر ہلایا امی بولی بھیناں تیریاں دے پیسے او وی کھاندا اے میں بولا نہیں امی او اپنی بھین دے کھاندا اے امی بولی او وی تصویراں دیندا اے اپنی بھین دیاں میں بولا ہا او آگے دیندا ہا اس ہی مینوں وی اس کم تے لایا امی بولی ہلا تے اسدی بھین نوں نہیں پتا میں بولا امی باجی ثانیہ تے اس نوں آپ تصویراں بنا کے دیندی اے تے پیسے لیندی اے امی اس بات پر چونک سی گئی اور بولی ثانیہ آپ اسامے نوں تصویرں گھلدی میں نے ہاں میں سر ہلایا امی بولی ہور کی تینوں پتا ہوتا وی کجھ کردی میں بولا امی ہور تے پتا نہیں پر دیمی دس رہیا ہا کہ کج دن پہلے باجی ثانیہ اسامے نوں ملنڑ گئی ہا تے اسامے نوں ملنڑ دا 25000 لئے کے آئی ہا میری اس بات پر امی کا منہ حیرانی سے کھل گیا اور امی چونک کر بولی وے توں اے کی آکھ رہیا ایں میں بولا امی اے دیمی آپ دسیا مینوں امی حیرانی سے کچھ سوچتی ہوئی بولی توں ہی میں اکھاں او کنجری نوے نوے سوٹ لئی ودی ہا میں بولا امی او وی اسامہ دیندا اے امی نے مجھے دیکھا اور بولی سچی ہے نا اے سب میں بولا امی سچ اے امی اب کچھ نرم سی پڑ گئی تھی امی بولی توں اسامے نوں کی دسیا ہنڑ میں بولا اے ہی دسیا کہ باجی موبائل پھد لیا اے امی چپ کرکے مجھے دیکھ کر کچھ سوچنے لگی امی کا اوپر کا سانس اوپر تھا اور نیچے کا نیچے امی کو ہلکا سا پسینہ بھی اتر آیا تھا میں امی کو سوچتا دیکھ کر بولا امی میرے کولو غلطی ہو گئی میں اگاں ایو جہیا کجھ وی نہیں کردا توں باجی نوں آکھ مینوں معاف کر دیوے امی مجھے دیکھ کر ہنس دی اور میرے قریب ہوکر میرا ماتھا چوم کر بولی میری جان فکر نا کر ہنڑ تے میں وی تیرے تے راضی ہاں کوئی گل نہیں توں بے فکر ہوجا تیری بھین نوں میں آپ منا لیساں اور میرا ماتھا چوم کر باہر نکل گئی پہلے بھی باجی نصرت سعدیہ اور عابدہ اسی کمرے میں سوتے تھے میں اور امی اسی کمرے میں امی نکل گئی اور میں سوچنے لگا کہ باجی سے صبح معافی مانگ لوں گا مجھے پڑا پڑا کافی دیر ہو گئی تھی امی نہیں آئی تھی مجھے ڈر لگنے لگا تھا کہ امی کہاں گئی مجھے اب نیند بھی نہیں آ رہی تھی عجیب سے وسوسے آنے لگے تھے کہ آدھی رات کو دروازہ کھلا اور امی اندر آئی میں امی کو دیکھ کر بولا امی کدے ہائیں اتنی دیر امی ہنس دی اور بولی میری جان اپ ماہیا آکھیا کہ باجی نوں منا دے تیری بھین نوں ہی منیندی رہی آں میں بےقراری سے بولا باجی منی کہ نہیں امی ہنس کر اپنی چارپائی پر لیٹ گئی اور بولی میری جان من جاسی گئی ہلے غصے اچ ہے من جاسی میں چپ کرکے لیٹے گیا امی کچھ دیر بعد بولی بہزاد اس گل دا ہور کسے نوں تے نہیں پتا میں بولا نہیں باجی صرف دینی تے مینوں پتا امی بولی اسامے دے نال ہور کہڑا لڑکا ہا پنڈ دا میں بولا ہور تے کوئی نا جدو اسی جاندے پاسے اسامہ کلا پی ہوندا امی بولی اسامہ تیرا بیلی اے میں پریشان ہو گیا کیونکہ وہ اوباش تھا اور باجی اس بات پر پہلے ناراض تھی میں بولا نہیں امی او تے میں دو تن دن ہو گئے دیمی نال ہی گیا آگے تے کوئی نہیں گیا امی مسکرا کر میری طرف منہ کرکے بولی میری جان توں کل جاویں اس کول اس نوں اپنا بیلی بنا میں کچھ سمجھا نہیں یہ بات اور امی کو دیکھ کر بولا پر امی باجی تے ناراض ہو رہی ہا امی بولی نہیں ہوندی ناراض او تے کملی ہے توں چھور ہیں تے چھوراں دے ہر قسم دے بیلی ہوندے ناں پریشان ہو نصرت ہنڑ کجھ نہیں آکھدی تو کل جاویں تے اس نوں آکھیں کہ میرے نال دوستی کر لئے سمجھ آئی میں بولا اچھا امی بولی تے کل دیمی کولوں اپنے پیسے لئے آویں سارے کتنے ہک ہینڑ میں بولا پتا نہیں امی اس کول ہی ہنڑ امی بولی کل سارے لئے آویں نہیں بولا اچھ امی بولی ہنڑ سین میں جلد ہی سو گیا صبح اٹھا اور تیار ہوکر سکول کو چل دیا باجی ابھی تک ناراض ہی تھی میں سکول پہنچا تو مجھے دیمی ملا باجی نصرت جو پہلے سکول میں صرف دوپٹے میں ہوتی تھی آج اس نے خلود کو چادر میں ڈھانپ رکھا تھا اور تھوڑی سخت بھی لگ رہی تھی آج بریک ٹائم دیمی مجھے ملا تو اس نے مجھ سے پوچھا پکڑے جانے کی بات شاید کل اسامے نے بتا دیا تھا اس نے مجھ سے پوچھا میں نے اسے ساری بات بتا دی وہ بھی تھوڑا پریشان ہوا کہ اس کا نام بھی آیا تھا میں بولا یار وہ امی آکھ رہی ہا کہ پیسے سارے دینی کولو لئے کے مینوں دے دے دینی ہنس دیا اور بولا ہلا لئے لئیں میں بولا ہک گل ہور وہ بولا کی میں بولا اسامے نال دوستی کروا دے وہ بولا کیوں میں بولا امی آکھیا ہے کہ اسامے نال دوستی کر لئے وہ مسکرا دیا چھٹی کے بعد باجی جو پہلے مجھے ساتھ ملا کر گھر لے جاتی تھی آج باجی مجھے کوئی لفٹ نا کروائی اور خود چل دی میں باجی عابدہ کے ساتھ گھر کی طرف آگیا کھانا کھا کر میں نکلا تو دیمی ملا اس نے مجھے دو پانچ سو کے نوٹ اور کچھ سو کے نوٹ بھی پکڑا دئیے اور مجھے کے کر اسامے کی طرف چل دیا ہم بیٹھک میں پہنچے تو اسامہ مجھے دیکھ کر چونکا اور ابھائی شہزادے توں کدے بچ گیاں ہیں نصرت توں میں نے مسکرا کر سر ہلایا وہ بولا آج خیر اے دینی بولا بھائی بہزاد آکھ رہیا تیرے نال دوستی کرنی اے اسامہ ہنس دیا اور بولا کیوں میں بولا بھائی او امی آکھیا ہا کہ اسامے نال دوستی کر لئے اسامہ اس بات پر چونک کر سیدھا ہوا اور بولا کس آکھیا میں بولا امی آکھیا اس نے ایک نظر مجھے دیکھا اور بولا کیوں میں بولا بس ایویں ہی امی آکھیا کہ توں اسامے نوں دوست بنا لئے اسامہ مجھے دیکھ کر ہنس دیا اور بولا چل فر توں اج توں میرا پکا دوست میں آگے ہوکر اس سے ہاتھ ملایا مجھے تو اس دوستی کی سمجھ نہیں آئی پر اسامہ کھلاڑی تھا وہ سمجھ گیا تھا کہ مجھے امی نے اس سے دوستی کرنے کو کیوں کہا ہے وہ اپنے بٹوے سے ہزار روپیہ نکال کر بولا چل فر جے تیری امی آکھیا اے تے اے میری طرفو اپنی امی نوں اے پیسے دیویں تے میرا سلام وی اپنی امی نوں دیویں تے آکھیں کہ اے میری طرفو تھواڈے واسطے اے امی نوں آکھیں کسے چیز دی ضرورت ہووے بے جھجھک آکھ دئیں ہنڑ توں میرا دوست ہیں تیرا گھر ہنڑ میرا گھر ہی اے توں مینوں اپنے گھر دا فرد سمجھ ہنڑ میں ہنس دیا اور پیسے کے کر جیب میں ڈال کر کچھ دیر وہاں بیٹھا اور پھر گھر آگیا امی کیچن میں تھی میں اندر گیا تو باجی نصرت اور عابدہ اندر سو رہی تھیں سعدیہ ہمسائی کے پاس پڑھنے گئی تھی میں اندر گیا تو امی مجھے دیکھ کر مسکرائی اور بولی اسامے آلو ا رہیا ایں میں بولا ہاں جی امی مسکرا دی اور بولی بیلی بن گیا ہئی میں بولا جی امی اور جیب سے پیسے نکال کر امی کو دکھائے تو امی کا حیرت سے منہ کھلا رہ گیا امی نے کام چھوڑ دیا اور بولی وے اتنے پیسے میں بولی کی امی اے پیسے او ہنڑ باجی دی تصویراں اہے تے اے ہزار اس دوستی کرن دا دتا اے سب ملا کے 2500 ہو گئے تھے امی نے جلدی سے پکڑ لیے اور گننے لگے امی کی آنکھوں میں پیسے دیکھ کر عجیب سی چمک آ گئی اور امی سمائل کرتی مسکرانے لگی امی کی چہرہ بھی چمک رہا تھا امی بولی واہ بہزاد آج تے خوش کیتا ہئی میں بولا امی اسامہ تینوں سلام دے رہیا ہا امی بولی وعلیکم السلام میرا وی سلام دیویں اکھیں تیری ماں وی سلام دے رہی ہا میں بولا امی او آکھ رہیا ہا کہ میں ہنڑ تیرا دوست نہیں تیرے گھر دا فرد بن گیا ہاں امی مجھے دیکھ کر مسکرا دی اور بولی بے شک ہنڑ اسمہ سادے گھر دا فر ہی بنسی میں بولا امی اور آکھ رہیا ہا کہ کسے چیز دی لوڑ ہووے تے دس دینا امی مسکرا دی اور بولی اچھا جی میں بولا جی امی نے مجھے پچاس روپیہ دیا اور بولی جا توں کھا پی میں پچاس کے کر خوش ہوگیا امی کام چھوڑ کر پیسے پکڑ کر اندر باجی کے کمرے میں چلی گئی میں باہر نکل آیا میں کچھ دیر باہر ہی رہا کچھ کھایا پیا اور گھر آگیا شام کو گھر ہی رہا باجی مجھ سے اب بات نہیں کرتی تھی دو تین دن یہی کچھ چلتا رہا امی رات کو اکثر باجی والے کمرے میں جاتی پھر وہ رات کو لیٹ واپس آتی تھی میں یہ سب سے سوچتا تھا کہ ایسی کیا بات ہو تی ہے ایک دن میں گھر سے باہر واپس آیا اور کمرے میں بیٹھا کام کر رہا تھا کہ اتنے میں باجی نصرت دروازہ کھول کر اندر آئی میں باجی کو آج اپنے کمرے میں دیکھ کر چونک گیا مجھے وہ دن یاد آگیا جب باجی نے مجھے پکڑا تھا اور پھینٹی لگائی تھی جس سے میں ڈر سا گیا اور باجی نصرت کو دیکھنے لگا میرا رنگ اڑ سا گیا باجی مجھے دیکھ کر مسکرا دی اور چلتی ہوئی میرے پاس آکر بیٹھ گئی میں نے باجی کو دیکھا مجھے ہلکا سا پسینہ آگیا باجی مجھے دیکھ کر مسکرا دی باجی نصرت نے آج کوکا ڈال رکھا تھا اور ہلکا سا میک اپ کر کے ہونٹوں پر لال سی سرخی لگا رکھی تھی باجی کی مسکرا ے سے باجی نصرت کی پھولی گالیں بہت خوبصورت لگ رہی تھی باجی نے مجھے دیکھا اور مسکرا کر بولی بہزاد تیرا رنگ کیوں اڈ گیا میں تے تینوں کجھ نہیں آکھیا میں نے باجی کو مسکراتا دیکھا تو میری بھی جان میں جان آئی میں بولا نہیں باجی بس ایویں باجی نے کسا ہوا سوٹ ڈال رکھا تھا جس سے باجی نصرت۔ کی موٹی گانڈ ی کسی ہو نظر آ رہی تھی باجی نصرت کے موٹے چوتڑ پھولے ہوئے شلوار میں پھنسے نظر آ رہے تھے میں بھی حیران تھا باجی اس لباس میں کیوں ہے باجی نصرت نے میری کتاب اٹھا کی اور بولی پڑھائی کیو کہی جا رہی اور ورق الٹانے لگی میں بولا ٹھیک جا رہی باجی مسکرا کر بولی ہنڑ تے گندے کم نہیں کر رہیا میں جلدی سے بولا نہیں باجی ہنڑ تے کوئی نہیں باجی مسکرا کر مجھے دیکھا اور بولی ہنڑ پیسے کنج کنا رہیا ایں میں اس بات پر شرما کر منہ نیچے کیا اور بولا سوری باجی میں اپنے مزے واسطے تیری عزت خراب کیتی باجی نے ہنس کر مجھے دیکھا اور میرا چہرا ہاتھ سے پکڑ کر اوپر کیا اور بولی میری جان کوئی گل نہیں ہنڑ اس گل نوں بھل جا میں وی بھل گئی ہاں میں باجی کو مسکراتا دیکھ کر مسکرا دیا باجی نصرت کتاب کو دیکھتی بولی اے دس اسامہ تینوں کتنے پیسے دیندا ہا میری ہک تصویر دے میں نے چونک کر باجی کو دیکھا باجی کے چہرے پر کوئی ناراضگی کا آثار نہیں تھا باجی نے مجھے دیکھ کر مسکرا کر کہا دس وی میں بولا باجی میں تن چار لئے جاندا ہاس 50 روپے دے دیندا ہا باجی بولی بس 50 روپے میں نے منہ جھکا لیا باجی مسکرا دی اور بولی وے نا ڈر کجھ نہیں آکھدی میں بولا باجی اگر کوئی پرائیویٹ حصے دیاں تصویراں ہوون تے 100 مل جاندا ہا باجی بولی پرائیویٹ کیویں میں بولا باجی چھاتیاں یاں تھلے آلی باجی بولی ہلا توں میرے پرائیویٹ دیاں وی لئے جاندا ہائیں میں بولا باجی نہیں باجی صرف چھاتیاں دی لئے جاندا ہاس باجی بولی وت امی نوں توں 2500 لیا کے دتا او کنج بن گئے میں ڈر سا گیا کہ باجی کو پتا لگا کہ اس کی پھدی کی بنا کر دیتا تھا تو باجی تو مار دے گی باجی بولی بھائی سہی دس کجھ نہیں آکھدی میں بولا نہیں باجی باجی ہنس دی اور بولی میری تھلے آلی دیاں وی بنا کے لئے جاندا ہائیں میری شلوار کے پاٹی ہوئی ہوندی ہا میں یہ سن کر ڈر کر باجی کو دیکھا باجی ہنس دی اور بولی وے کملیا تیری بھین دا اے حصہ آج تک کسے نہیں ویکھیا اسامے نوں وکھایا ہی پایا تے پیسے ہی ول لئے لویں ہا میں یہ سن کر چونک کر سر اٹھا کر باجی نصرت کو دیکھا باجی ہنستی ہوئی مجھے دیکھ رہی تھی میں ہکا بکا رہ گیا کہ باجی نصرت خود کہ رہی تھی باجی نے مجھے دیکھا اور بولی جے اگر ہنڑ میں اپنی پرائیویٹ تصویراں دیواں تے کتنے پیسے لئے آسیں اسامے کولوں میں تو چونک گیا اور باجی کو ہکا بکا دیکھنے لگا باجی نصرت نے مسکرا کر مجھے دیکھا اور بولی کی پسند نہیں آئی گل میں بولا نہیں باجی توں دس دے کتنے لئے آواں باجی بغیر جھجھکے بولی اپنے بیلی اسامے نوں آکھ میرے پرائیویٹ ننگے حصے دی توہر دا 100 روپیہ کے ویڈیو بنانی تے 500 لیساں میں بولا باجی اے تے ڈھیر سارا ہے باجی بولی تے تیری بھین دی عزت کوئی سستی اے اس نوں آکھیں کے منظور ہووے تے موبائل لئے آؤیں میں بولا اچھا اور باجی کو حیرانی سے دیکھنے لگا کہ باجی خود ہی اب کام کر رہی ہے مجھے دیکھتا دیکھ کر بولی کی بنیا کی ویکھ رہیا میں بولا نہیں کجھ نہیں میں ہنڑ جاواں فر اسامے آل باجی بولی تے انتظار کس گل دا اگر اس نوں منظور ہووے تے لئے آویں موبائل میں بولا اچھا اور کتاب بند کرکے سائیڈ پر رکھ کر باہر نکلا تو سامنے امی مجھے دیکھ کر مسکرا دی میں بھی مسکرا کر باہر نکلا اور اسامے کی طرف چل دیا اسامے کے پاس پہنچا تو وہ مجھے دیکھ کر بولا آ شہزادے کی حال ہے میں بولا ٹھیک میں اس کے پاس بیٹھ گیا وہ موبائل میں بزی تھا میں چپ کرکے بیٹھا تھا وہ مجھے خاموش دیکھ کر بولا کی گل اے کیوں چپ ایں میں بولا کجھ نہیں بس ایویں وہ بولا کوئی خبر ہے کہ نہیں میں بولا ہا خبر ہے وہ بولا کی خبر اے میں بولا باجی دا پیغام ہے ہک وہ چونک کر مجھے دیکھا اور سیدھا ہوکر بیٹھ کر بولا او کی میں بولا باجی آکھ رہی ہے کہ ننگی تصویروں دا 100 روپیہ لیساں تے ننگی وڈیو دا 500 یہ سن کر اسامہ چونک کر اچھلا اور بولا اے توں کی اکھ رہیا میں بول جو توں سنیا وہ بولا نہیں سچی آکھ رہیا۔ ایں اے سارا کجھ نصرت ہی آکھیا اے میں بولا ہور کی وہ بولا نا کر یار میں بولا سچی وہ بولا مینوں منظور ہے بلکہ اے فون لئے جا تے بنوا لیا وا شہزادے آج تے خوش کیتا ہی میں نے فون پکڑ لیا وہ بولا ٹھہر اے پیسے پکڑ اس نے مجھے ہزار روپیہ دیا اور بولا ایڈوانس پیسے لئے جا اپنی بھین نوں دیویں اور مجھے 100 پکڑا کر بولا اے تیرا انعام تے اس نوں میرا وی ہک پیغام دیویں میں بولا کی وہ بولا اس نوں آکھیں اسامہ آکھ رہیا ہا کہ نصرت توں بڑی سوہنی ایں اسامہ تیرا دیوانہ ہے جے ہو سگے تے ہک ملاقات کر لئے میں بولا اچھا اور فون لے کر گھر آگیا باجی اندر کمرے میں تھی میں اندر گیا تو باجی مجھے دیکھ کر چونک گئی اور بولی کی بنیا میں نے ہزار روپیہ نکالا اور باجی کو دے کر بولا باجی او آکھ رہیا منظور ہے باجی کے چہرے پر چمک آگئی اور باجی مسکرا کر پیسے پکڑ لیے اور بولی فون لئے آندا میں نے فون نکالا تو باجی نے پکڑ لیا میں باجی کو دیکھنے لگا باجی بولی کی ہنڑ توں وی مینوں ویکھنا باہر جا میں بنا کے دیندی آں میں شرما گیا اور مڑتے ہوئے بولا باجی اسامے ہک پیغام دتا اے تیرے واسطے باجی بولی او کی میں بولا باجی او آکھ رہیا ہا کہ توں بہوں سوہنی ایں میں تیرا دیوانہ ہاں ہو سگے تے او آکھ رہیا ہک واری مل جا باجی نصرت اپنی تعریف دیکھ کر مسکرا کر شرما گئی اور ہنس کر مجھے دیکھ کر بولی اس نوں آکھ ایڈی کی کاہلی اے اپنی تصویروں دے رہی آں اس تے گزارہ کر میں بولا اچھا اور میں باہر نکل آیا کچھ دیر بعد باجی نے مجھے باہر آکر موبائل پکڑا دیا امی پاس ہی بیٹھی تھی وہ یہ دیکھ کر مسکرا دی میں سمجھ گیا کہ امی بھی شامل ہے اس میں میں اٹھا اور باہر نکل گیا میں نے سوچا دیکھوں تو سہی کیسی بنائی ہیں باجی نے میں نے گیلری کھولی تو باجی نصرت کی پوری ننگی تصویر تھی جس میں باجی نصرت اپنا ممے کو اٹھا کر ننگی کھڑی تھی اگلی تصویر میں باجی نصرت کی پھدی کی تصویر تھی باجی نے ٹانگیں اٹھا کر ایک تصویر بنائی ہوئی تھی اور پھر باجی نے پھدی کے ہونٹ کھول کر کلوز تصویر بنا رکھی تھی باجی نے ایک پپی لینے کے انداز بھی تصویر بنائی ہوئی تھی آگے باجی نے ویڈیو بھی بنائی تھی میں نے ویڈیو پلے کی تو باجی نصرت فل ننگی تھی باجی نے ایک کیمرے کو دیکھ کر چمی لی اور فلائنگ کس پھینکی پھر باجی نے اپنے ممے دیکھائے اور ہلکی ہلکی سسکنے لگی ساتھ ہی باجی لیٹ گئی اور اپنی ٹانگیں اٹھا کر اپنی ننگی پھدی کے ہونٹ کھول کر اچھی طرح دکھائے اور پھر باجی نصرت نے اپنی انگلی تھوڑی سی پھدی میں ڈال کر سسکی اور پھدی کو مسلتی ہوئی کھول کر دکھاتی رہی پھر باجی نے اپنی شکل دکھائی اور ودیو بند کر کردی میں نے موبائل جا کر اسامے ہو دے دیا اسامہ موبائل لے کر کھول کر ویڈیو دیکھا تو سسک گیا اور بولا اففف یار تیری بھین تے مار دیندی کی اکھدی ملسی کہ نہیں میں بولا باجی آکھ رہی اس تے ہی گزارہ کر وہ بولا نہیں یار اس نوں آکھ جتنے پیسے چاہیے لئے کوے پر ہک واری ملے مینوں میں بولا اچھا میں وہاں سے نکلا اور گھر آگیا اگلے دن باجی کو میں نے کہا کہ اسامہ آکھ رہیا ہا کہ جتنے پیسے لینے نہ لئے لئے پر ہک واری مل چا باجی مسکرا دی اور بولی بھائی اتنا کافی اے میںبولا اچھا اور اسی طرح پھر میں گیا تو اس نے مجھے موبائل دیا اور بولا بھین نوں آکھیا کہ نہیں میں بولا آج آکھیا اے پر او آکھ رہی اتنا کافی اے وہ بولا اس نوں آکھ صرف ہک واری دروازے تے ہی آ جاوے میں نیڑیو ویکھ لیساں گیا منہ مانگے پیسے دیساں میں بولا اچھا اور موبائل لے کر گھر آگیا میں نے باجی نصرت کو موبائل دیا باجی نصرت اندر چلی گئی اور کچھ دیر بعد اپنی تصویریں اور ویڈیوز بنا کر لائیں اسامے نے آج مجھے 2000 روپے دئیے تھے میں نے باجی کو 2000 روپے دئیے تو باجی نصرت بولی دو ہزار کیوں میں بولا باجی اس ہزار ایڈوانس دتا ہے باجی بولی کیوں میں بولا باجی او آکھ رہیا اے کہ ہک واری نیڑے ہو کے ویکھن دے تے اپنی مرضی دے پیسے لئے باجی بولی کیویں ویکھن دیواں میں بولا باجی او آکھ رہیا کہ صرف ہک واری دروازے تے آ کے دروازہ کھول کے دو تین منٹ مینوں ویکھن دے باجی بولی وے جے کسے ویکھ لیا تے مڑ میں بولا باجی تینوں اسامے دا پتا اس نوں کوئی کجھ نہیں آکھ سگدا باجی سوچ میں پڑ گئی اور بولی صرف میں دروازے تے آساں گئی اس نوں اپنا آپ ویکھا کے ہٹ اساں گئی ہور کجھ نا کرساں میں بولا سہی اے باجی بولی چل اس نوں آکھیں 5000 لیساں دروازے تے آکے اپنا جسم ویکھانڑا دا میں بولا اچھا باجی اور آکھ رہیا ہا بغیر دوپٹے آنا باجی ہنس دی اور بولی ہلا میرا بھرا توں تے پورا دلال ہو گیا ایں میرا اور ہنس دی مجھے سمجھ نہیں آئی کہ دلال کیا ہوتا ہے میں 5000 کا سن کر مچل سا گیا تھا اور جلدی سے نکل کر اسامے کی طرف گیا وہ بے قراری سے میرا ہی انتظار کر رہا تھا میں پہنچا تو وہ بولا کی بنیا وت نصرت کی آکھیا میں مسکرا کر بولا باجی آکھ رہی 5000 لیساں دروازے تے آ کے ویکھانڑا دا وہ یہ سن کر مچل سا گیا اور بولا اففف بہزاد آج تے شہزادہ لگا ہیں اور جلدی سے اپنے بٹوے سے 5000 کے پانچ نوٹ نکال کر مجھے پکڑا دئیے میں نوٹ پکڑ کر مچل گیا اس نے پھر ایک پانچ سو کا نوٹ نکالا اور مجھے دے کر بولا اے تیرا انعام تے جا بھین کولو پچھ کس ٹائم آواں میں بولا اچھا میں وہاں سے نکلا تو مجھے سامنے دینی مل گیا اور بولا واہ بھائی آج کل تے لفٹ ہی کوئی نہیں میں ہنس دیا اور بولا بس یار ایویں ہی میں اسے لے کر دکان پر گیا کچھ دیر باتیں کرتے رہے باجی نصرت نے مجھے دیمی سے بات کرنے کو منع کی تھا اس نے مجھ سے پوچھا تو میں مکر گیا اور بولا کہ باجی نصرت سے چوری آتا ہوں وہ بولا اچھا اس نے آج مجھے چیز کھلائی اس کے پاس بھی کافی پیسے تھے پوچھنے پر بولا کہ آج رات باجی ثانیہ پھر اسامے سے ملنے آئی تھی اس لیے آج پھر کافی پیسے ملے ہیں مجھے بھی اب اپنی بہن نصرت کے پیسے مل رہے تھے میں مزے میں تھا دیمی سے اٹھ کر گھر آیا تو باجی نصرت اندر کیچن میں تھی میں اندر گیا تو باجی مجھے دیکھ کر مسکرا دی میں باجی کو پیسے دینا چاہتا تھا پر وہاں امی تھی اس لیے میں جھجھک گیا امی مجھے چپ دیکھ کر بولی بہزاد کی بنیا فر کی آکھیا اسامے میں گھونٹ بھر کر رہ گیا کہ امی کو بھی پتا ہے باجی سنک پر برتن دھو رہی تھی میں نے باجی کو دیکھا تو باجی مسکرا دی اور بولی بول وی امی نوں پتا اے میں جیب سے پانچ ہزار کے نوٹ نکال کر بولا باجی اس پنج ہزار دے دتے ہینڑ تے اکھ رہیا کس ٹائم آواں پانچ ہزار دیکھ کر امی کی آنکھوں میں چمک سی آگئی اور امی گھونٹ بھر کر مجھے دیکھا اور باجی نصرت کو دیکھ کر مسکرا کر بولی نصرت ویسے تیرے ہتھ تے سونے دی ککڑ آگئی اے دوواں ہتھاں نال کے لئے باجی مسکرا دی اور میرے ہاتھ سے پیسے پکڑ کر امی کو پکڑا دئیے امی نے پیسے پکڑ کر اکھٹے مروڑ کر اپنے سینے میں جلدی سے ڈال لیے جیسے بندہ سامنے والی جیب میں ڈالتا ہے امی کے دوپٹہ اٹھانے سے پہلی بار بڑے بڑے موٹے ممے مجھے نظر آئے امی کے موٹے تنے مموں کی لکیر بھی نظر آئی میں نے اوپر امی کو دیکھا تو امی مجھے دیکھ کر مسکرا دی اور بولی بہزاد چل توں جا باہر نصرت دس دیندی اے جھٹ تک کہ اسامہ کس ٹائم آوے میں باہر نکلا اور دروازے پر رک گیا کہ امی اور باجی کیا بات کرتی ہیں امی بولی نصرت توں تے اسامے نوں دیوانہ کہتا ہویا نصرت ہنس دی اور بولی امی توں ویسے سہی ہی آکھدی ہیں اے امیروں کولو پیسے کڈھواںڑ دا اے ہی طریقہ اے انج تے اے نہیں کڈھدے ساڈے جئے لوگ دورو ہی ویکھدے رہندے اے لوگ سادہ کمزوریاں دا فائیدہ اٹھانے امی بولی نصرت اے تیرا بڑا دیوانہ اے اسامہ توں اس کولو اپنا ریٹ لوا کے اکھٹا ہی مال چھک لئے باجی نصرت ہنس دی اور بولی امی توں وی بولی ہیں تینوں نظر آ رہیا اے کہ اسامہ میرے آکھنڑ تے میرے آتے پیسے وار رہیا اے توں ہک واری مینوں اسدی کمزوری دا فائیدہ فل اٹھانڑ دے جتنے پیسے انج نکلدے کڈھ لوئیے میں اسامے دے ہولی ہولی قریب ہوکے فل مال کڈھساں جتنا دل کیتا امی ہنس دی اور بولی واہ میری دھی توں تے میرے نالوں وی چالاک نکلی ہیں باجی ہنس کر امی تیری ہی دھی آں توں ویکھی جا میں کی کی کردی امی ہنس کر بولی ہلا اس نوں ہنڑ ویکھاویں کس وقت اپنا جسم باجی بولی امی شام نوں سہی اے کسے نوں پتا وی نا لگسی امی بولی نصرت ہنیرے وچ اس تینوں کی ویکھنڑا مڑ اس آکھنا میں پیسے وی دتے تے تیرے جسم دا نظارہ نہیں ملیا باجی بولی امی کے ہنڑ سد لواں تے لوکی ویکھ کے گلاں کراں امی بولی اوئے ہوئے نصرت ہلے تک ڈر رہی ہیں تینوں پتا نہیں اسامے دی کیڈی دہشت اے کوئی ویکھ کوے کسے تینوں گل وی نہیں کرنی کسے دی مجال ہی نہیں جتھے اسامہ جاوے تے کوئی اس پاسے آکھ چا کے وی ویکھ لوے نصرت بولی اچھا امی بولی ہاں تے ہنڑ ہی وکھا دے بہزاد نوں آکھ اس نوں سد لیاوے تے اے اپنی برا لاہ کے اس نوں اپنا جسم ویکھاویں باجی ہنس کر بولی امی میرا کوارا جسم آج تک کسے نہیں ویکھیا اسامے نوں پہلی واری ویکھا رہی آں اتنا کافی نہیں۔ امی بولی اسامہ ناراض ہوسی باجی نصرت بولی ہوندا تے ہووے پیا جے مینوں برا تے بغیر ویکھنا تے ہور پیسے دیسی تے امی تینوں پتا کل اس مینوں کھنا اے تے کل وی تے اس کولوں پیسے چھپنے امی ہنس کر بولی نصرت تیرا دماغ تے بڑا چلدا اس کم اچ باجی نصرت بولی امی ہنڑ تک محرومیاں ہی ویکھیاں ہینڑ ہن اس کم اچ آئی آں تے ہنڑ پورے شوق پورے کرساں امی ہلا میری دھی آگے تے توں مندی ناہی۔ ہنڑ آپ ہی سارے پلان بنا رہی ہیں باجی ہنس دی اور بولی ہلا میں بہزاد نوں آکھدی آں اسامے نوں سد لیاوے میں یہ سن کر جلدی سے کمرے کی طرف چل دیا میں کمرے میں جا رہا تھا کہ پیچھے سے باجی نے آواز دی میں رک کر دیکھا تو باجی نصرت چلتی ہوئی میری طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی باجی نصرت کی آنکھوں میں مستی چھلک رہی تھی باجی نصرت کے ناک کا کوکا باجی نصرت کے حسن پر قیامت ڈھا رہا تھا میں مچل سا گیا باجی پاس آئی اور بولی جا اپنے دوست اسامے نوں آکھ آجاوے گھر اس نوں آکھ گلی ابو ویکھ کے گھر آکے دروازہ کھٹکائے تے تیرا پچھے میں بولا اچھا میں باہر نکلا اور اسمے کی طرف گیا وہ تو جیسے انتظار میں ہی تھا اس کی بے قراری دیکھ کر میں بولا بھائی باجی آکھ رہی اے کہ گلی اچو ویکھ کے گھر آجا تے میرا پچھے یہ سن کر اسامہ ہنس دیا اور بولا اپنی بھین نوں آکھ ڈر کیوں رہی ہیں اسامے نال یاری لا کے کسے دی مجال ہی نہیں تینوں کوئی گل کر جاوے اس نوں آکھ میں ا رہیا میں نکلا اور گھر آکر باجی کو بتایا کہ اسامہ آ رہا ہے اور وہ کہ رہا ہے کہ اسامے نال یاری لا کے ڈر نہیں کسے دی مجال ہی نہیں تینوں کوئی گل کرجائے یہ سن کر باجی نصرت مسکرا دی باجی نصرت کی آنکھوں میں چمک سی آ گئی تھی اور چہرے پر لالی اتر آئی باجی نے گلے میں دوپٹہ ڈالا ہوا تھا باجی نصرت نے ایک کسا ہوا لباس ڈال لیا تھا جس میں باجی نصرت کا انگ انگ نظر آ رہا تھا باجی نصرت بےقراری سے انگلیاں مروڑ رہی تھی جیسے باجی نصرت کو بھی اسامے کا نتظار تھا باجی عابدہ چھت پر بچوں کو پڑھا رہی تھیں ور سعدیہ ہمسائی کی طرف اتنے میں دروازہ کھٹکا تو باجی نصرت نے چونک کر ادھر دیکھا امی باجی نصرت سے بولی نصرت اے دوپٹہ وی لاہ چا کجھ نہیں ہوندا امی پاسس ہی کھڑی تھی امی نے یہ کہتے ہوئے باجی نصرت کا دوپٹہ گلے سے کھینچ لیا باجی نے خود بھی اتار دیا باجی نصرت کو میں نے پہلی بار دوپٹے کے بغیر دیکھا تھا باجی نصرت تو پوری سیکس بمب تھی باجی نصرت کے ہوا میں تن کر کھڑے موٹے ممے قیامت ڈھا رہے تھے باجی نصرت کا ہلکا سا بھرا ہوا چوڑا جسم بہت خوبصورت تھا کسے قمیض میں کسا ہوا پیٹ بھی نظر آ رہا تھا جس سے باجی نصرت کی دھنی بھی باہر کو جھانک رہی تھی باجی نصرت کا لک پتلا اور نیچے چوڑی گانڈ پھیلی ہوئی باہر ہو نکل کر کیا منظر پیش کر رہی تھی باجی نصرت کے موٹے باہر کو نکلے چتڑ کس کر شلوار سے جھانک رہے تھے باجی کی کمر کمان کی طرح تن رہی تھی امی باجی نصرت سے بولی نصرت اپنا سینہ تھوڑا ہور باہر کڈھ یہ سن کر باجی نصرت نے اپنا سینہ آگے کو نکال لیا جس سے باجی نصرت کا چوڑا سینہ مزید آگے کو نکل آیا باجی نصرت کے کھلے گلے سے نظر آتا چوڑا گورا سینہ قیامت لگ رہا تھا باجی نصرت کی ہلی سی مموں کی لکیر صاف نظر آنے لگی تھی جسے دیکھ کر باجی نصرت کے چہرے پر لالی سی پھیل گئی امی نے باجی کی گت اٹھائی اور باجی کو بتاتی ہوئی بولی نصرت جدو اسامے دے سامنے جاویں اپنی گت چا کے اپنی چھاتیاں تے رکھ کے اسامے فی اکھیاں وچ اکھیاں پا کے ہک واری ویکھیں او تیرے تے مر جاوے اور آگے ہوکر باجی نصرت کا سر دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر اپنے قریب کیا اور باجی نصرت کا ماتھا چوم کر بولی جا میری دھی آج تو توں آزاد ہیں جا آج توں اپنا آپ ویکھا کے کما لیا یہ سن کر باجی نصرت مسکرا کر گیٹ کی طرف چل پڑی چلتے ہوئے باجی نصرت کی چوڑی گانڈ باہر کو نکل کر ادھ پتھل کر رہی تھی باجی نصرت دروازے پر پہنچی اور دروازہ کھول کر ہلکا سا باہر دیکھا تو اسامہ کھڑا تھا باجی نصرت اسامے ہو دیکھا اور ایک لمحے کےلیے پورا دروازہ کھول کر اسامے کے سامنے آگئی اسامہ باجی نصرت کے جسم کو دیکھ کر مچل سا گیا اس نے باجی نصرت کی آنکھوں دیکھا اور ایک لمحے کےلیے مسکرا گیا اور نیچے باجی نصرت کے چوڑے پھولے سینے کو دیکھا جہاں باجی نصرت کے موٹے تنے کر کھڑے ابھرے ہوئے ممے اس کی آنکھوں میں کھب سے گئے باجی نصرت کے تنے ہوا میں کھڑے ممے دیکھ کر اسامہ مچل گیا اور سسک گیا باجی نصرت کے مموں جیسے ممے شاید اس نے پہلی بار دیکھے تھے اتنا چوڑا اور تنا ہوا سینہ اس نے پہلی بار دیکھا تھا اس نے گھونٹ بھر کر ٹکٹکی باندھ کر باجی نصرت کے تنے مموں کو دیکھتا ہوا باجی نصرت کے جسم پر نظر گھماتا ہوا باجی نصرت کا پیٹ اور نیچے گانڈ پر نظر گھمانے لگا اسامہ اور باجی نصرت باہر گیٹ پر کھڑے تھے باجی نصرت اسے اپنا جسم دکھا رہی تھی اسامہ باجی نصرت کے جسم سے نظروں نظروں میں کھیل رہا تھا باجی نصرت اس کے سامنے کھڑی اپنی انگلیاں مروڑ تی کسی وقت نظر اٹھا کر اسے دیکھ لیتی پھر باجی نصرت نے اپنی گت اٹھا کر آگے مموں پر رکھی اور ایک ہاتھ پیچھے دروازے پر رکھا اور دوسرا آگے رکھ کر اپنا سینہ مزید آگے کی طرف کھینچ کر نکال دیا جس سے باجی نصرت کے موٹے ممے باہر کو مزید نکل آئے باجی نصرت اپنی گت پر انگلیاں پھیرتی گہری مدہوش نظروں سے ہلکا سا مسکرا کر دیکھتی ہوئی شرما بھی رہی تھی باجی کو مسکراتا دیکھ کر اسامہ باجی نصرت کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا باجی نصرت اور اسامے کو پانچ منٹ سے زیادہ وقت ہوگیا تھا باہر کھڑے ہوئے دونوں ایک دوسرے میں مگن تھے کہ اتنے میں گلی میں ان کے پیچھے سے ایک عورت گزری جو باجی نصرت کو اسمے کے پاس کھڑا دیکھ کر چونک گئی باجی نصرت کی نظر پڑی تو باجی نصرت چونک گئی اسامے نے مڑ کر دیکھا تو اس عورت نے جلدی سے نظر ہٹا لی اور جلدی جلدی آگے کو چلتی ہوئی جانے لگی باجی نصرت یہ دیکھ کر ڈر سی گئی اور جلدی سے پیچھے مڑ گئی اور دروازہ بند کرنے کا سوچا تو اسامہ بھی مسکرا کر ہٹنے لگا باجی دروازہ بند کرکے واپس مڑی تو باجی کا رنگ اڑا دیکھ کر امی بولی کی بنیا باجی نصرت بولی امی او سامنے آلی آنٹی ویکھ کیا اے امی ہنس دی اور بولی نی نصرت نا ڈر کجھ نہیں ہوندا تینوں دسیا تے ہے اسامے دا ڈر اتنا ہے کسے گل نہیں کرنی نصرت بولی سچی امی امی بولی نصرت ہنڑ جے توں اس کم اچ آگئی این تے ڈر نہیں تینوں نہیں پتا پنڈ دیاں پتوں نہیں کتنیقں چھوریں دے اسمے نال تعلق ہینڑ آج تک اس نوں جسے نہیں روکیا چھوریں دے گھر دے مرد وی کدی نہیں بولے تے تینوں جسے کی آکھنا یہ سن کر باجی کو کچھ حوصلہ ہوا اور وہ بولا اچھا امی بولی توں آپ ویکھ کئیں تینوں اس ویکھیا اے جے اس کوئی گل کیتی تے شام تک تیرے تک پہنچ اسی نصرت بولی اچھا امی اسامے وی اس آلو ویکھیا تے او جلدی جلدی بھج گئی امی ہنس کر بولی نا پریشان ہو کجھ نہیں ہوندا میں کچھ دیر بیٹھا رہا پھر ہم پڑھنے لگے باجی نصرت کپڑے تبدیل کرے چھت پر آئی اور پڑھانے لگی شام کو میں باہر سے گھر آیا تو اتنے میں سامنے والی آنٹی اندر آئی جسے دیکھ کر باجی نصرت پریشان سی ہو گئی اس نے امی کا پوچھا میں بولا کیچن میں ہے وہ کیچن کی طرف جاتی ہوئی باجی نصرت سے بولی نصرت میری دھی کی حال اے اور باجی کو باہوں میں بھر کر ملی باجی بھی ملی اور بولی آوروں آ گل سنڑ اور اندر چلی گئی میں بھی پیچھے چلا گیا اندر جا کر وہ امی سے ملی اور پاس بیٹھ گئی دو تین باتوں کے بعد بولی میں آئی تے اس کانڑ ہاں کہ آج نصرت اسامے کول کھلی ہا گیٹ تے میری نظر پئے گئی مینوں اسامے آکھ گھلیا اے کہ نصرت پریشان ہو گئی ہا کہ میں ویکھ لیا نصرت نوں اسامے کول کھلا ہویا دسنڑ تے اے آئی آں کہ نصرت میری دھی پریشان ناں ہو میں کسے نوں نہیں دسدی توں تے اسامہ جو مرضی کرو ساڈا کوئی جھیڑا ہی نہیں ویسے وی نصرت چنگی گل اے اے چوہدریاں نال بنا کے رکھیںدی اے تیری ماں نوں تے پتا اسامے دے پیو نال تے اساں دوواں ہنڑ تک بنا کے رکھی اے میں یہ سن کر چونک گیا باجی بولی ہاں امی دس رہی ہائے کے تسی دوویں اکثر رات اسامے دے ابے کول ہی ہوندے ہائے وہ بولی ہا پر ہنڑ تے اسدی ساتھے تک نہیں پوندی میرے نالو تے تیری ماں ہلے وی سواد دیندی اے ایڈی بڈھی تے نہیں ہوئی امی ہنس دی اور بولی کدی کدی مینوں تے سد لیندا اے میں جاندی آں وہ بولی اچھا نصرت اسامے نوں دس دیویں کہ میں آئی ہاس تینوں دسنڑ او آگے وی کڑی رہیا یا میں اس نوں وی آکھیا اے کہ جو مرضی کر نصرت بولی آنٹی میں دس دیساں کجھ نہیں آکھدا اور کچھ دیر بیٹھ کر وہ چلی گئی میں یہ انکشاف سن کر حیران بھی تھا اور عجیب سی خوشی بھی تھی اگلے دن میں سکول گیا سکول سے واپس آکر کچھ دیر آرام کو لیٹ گیا کچھ دیر آرام کرکے میں باہر نکلا میں نے سوچا کہ اسامے کی طرف جاؤں اب مجھے بھی عادت سی ہو گئی تھی باجی کی تصویریں اسامے کو دینے کی میں باہر نکلا تو باجی نصرت صحن میں بیٹھی تھی مجھے دیکھ کر مسکرا دی اور بولی بہزاد گل سن میں باجی نصرت کے پاس گیا باجی بولی اے دس اسامے آل گیا ایں میں بولا جاؤں آں ہنڑ باجی نصرت بولی اچھا جے اگر او آکھے نا کہ اپنی بھین نوں آکھیں کہ ہور کلوز ویکھنا اے مینوں مطلب میرا جسم برا تو بغیر ویکھنا اے تے دس ہزار روپیہ لگسی میں بولا اچھا باجی نصرت بولی گل سن اس نوں آکھیں کہ سامنے آلی آنٹی آئی ہا اس نوں آکھیں کوئی مسئلہ نہیں میں بولا اچھا اور نکل آیا میں اسامے کے پاس پہنچا تو اسامہ مجھے دیکھ کر خوشی سے بولا آ بھائی میرے شہزادے کی حال اے میں بولا فٹ آں وہ بولا نصرت دی سنا میں بولا باجی فٹ اے وہ بولا یار تیری بھین تے پوری بمب ہے ایسیاں تنیا ں ہویاں چھاتیاں آج تک نہیں ویکھیاں قسمیں دل کر رہیا آں کہ پھد کے مروڑ دیواں میں مسکرا کر بولا بھائی باجی آکھ رہی ہا کہ چھاتیاں برا توں بغیر ویکھنیاں ہینڑ تے دس ہزار لگسی اسامہ یہ سن کر خوشی سے چونک کر بولا واہ یار تیری بھین تے میری جان وی لیسی گئی چل اس نوں آکھ سہی اے پر ہک میری وی خواہش اس نوں آکھ پوری کردے میں بولا کی وہ بولا جتنی دیر میں اس کول کھلوساں اس نوں آکھ اپنا ہتھ میرے ہتھ اچش دینڑا ہیس میں بولا اچھا میں دس دیساں اس نے بٹوے سے ہزار والے دس نوٹ اور میرا نعام نکال کر مجھے دے دیا میں نوٹ لے کر باہر نکلا اور گھر آگیا باجی میرا ہی انتظار کر رہی تھی مجھے دیکھ کر ہنس دی اور بولی اسامہ کی آکھدا میں نے جیب سے دس نوٹ نکالے اور باجی نصرت کو پکڑا دئیے باجی دس ہزار دیکھ کر مچل سی گئی باجی نصرت کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا میں بولا باجی اسامہ وی آکھ رہیا ہا کہ میری وی ہک من لئے باجی مسکرا کر بولی اس نوں آکھ ساریاں تیری ہی من رہی آں اور مسکرا کر پیسے امی کو پکڑا کر بولی دس کی آکھدا میں بولا باجی او آکھ رہیا جدو تک میں ملاقات کرنی ہتھ میرے ہتھ وچ پکڑائی رکھیں باجی مسکرا کر بولی بس اتنا ہی میں بولا باجی بولی جا اس نوں آکھ آجا میری کوئی ناہں اے میں مسکرا کر باہر نکل آیا اور۔ اسامے کو بتایا کہ باجی بلا رہی اے میں پیغام دے کر گھر آیا تو باجی نصرت کل والے لباس میں تھی پر باجی نے برا اتار رکھی تھی جس سے باجی نصرت کے موٹے تنے ہوئے اکڑ کر کھڑے نپلز کسے ہوئے قمیض سے جھانک رہے تھے میں یہ منظر دیکھ کر مچل گیا باجی مجھے دیکھ کر بولی کی بنیا میں بولا آ رہیا اے کچھ دیر بعد دروازہ کھٹکا اور باجی نصرت مسکرا دی باجی نصرت خود ہی دروازے کی طرف چلی گئی اور دروازے کو کھول کر باہر دیکھا تو سامنے اسامہ کھڑا تھا باجی نصرت اسے دیکھ کر مسکرا دی اور دروازہ کھول کر اسامے کے سامنے آگئی اسامہ باجی نصرت کے تن کر کھڑے کر اکڑے ممے اور نپلز دیکھ کر مسکرا دیا باجی اسے دیکھ کر مسکرا دی اسامہ بولا وہ میری جان آج تے بہوں سوہنی لگ رہی ہیں باجی نصرت نے مسکرا کر سے دیکھا۔ اور بولی اچھا جی وہ بولا ہاں جی نصرت بولی کتھو کتھو سوہنی لگ رہی ہاں باجی نصرت کی آج جھجھک کم تھی وہ باہر دروازے پر گلے میں کھڑی ہوکر آج اسامے کو اپنا جسم دکھا رہی تھی اسامے نے ہاتھ آگے کرکے باجی نصرت کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیا اور باجی نصرت کے ہاتھ دبا کر بولا نصرت باہر ہی آجا میرے کول باجی تھوڑی جھجھکی کیوں کہ باہر گلی میں یوں اس حالت میں اسامے کے ساتھ کھڑا ہونا ٹھیک نہیں لگا باجی کو پر اسامہ باجی نصرت کی جھجھک دیکھ کر بولا میری جان پریشان کیوں ہو رہی ہیں توں اسامے دی مشوق ہیں کسے دی ہمت ہی نہیں تینوں کوئی گل کر جاوے کوئی گل کرے تے میں جان ناں کڈھ لواں توں نا گھبرا باہر آجا میرے کول باجی بولی اسامہ توں ہی اندر آجا اسامہ مسکرا کر بولا میں وی اندر آجاساں پر تیری جھجھک وی تے لاہنی اے تا کہ توں میرے کول آونڑ لگیاں تینوں کوئی پریشانی نا ہووے یہ کہ کر اسامے نے باجی نصرت کو اپنی طرف کھینچ لیا باجی نصرت خود بخود ہی چلتی ہوئی دروازے سے باہر نکل کر گلی میں کھڑے اسامے کے پاس چلی گئی باجی نصرت نے ادھر ادھر دیکھا تو اسامہ بولا نصرت میری جان تینوں میرے تے اعتبار نہیں میں آکھ رہیا ہاں نا کجھ نہیں ہوندا باجی تھوڑی سی جھجھک رہی تھی کیونکہ باجی نصرت کبھی چادر کے بغیر باہر گئی نہیں تھی اور اب تو اسامے کے ساتھ باہر جا رہی تھی نصرت اس لیے تھوڑا جھجھک رہی تھی اسامہ باجی نصرت کو جھجھکتا دیکھ کر بولا میری جان اسدا مطلب تینوں میرا یقین نہیں آ رہیا تے فر چلی جا گھر نصرت اسامے کی بات سن کر اسے دیکھا اور گھبرا سی گئی اسامہ غصے کا تیز تھا اس لیے سب ڈرتے تھے نصرت بولی نہیں میری جان بس میں کدی انج باہر آئی نہیں ناں اس توں تھوڑا گھبرا رہی آں اسامہ بولا میری جان گھبرا نہیں میں آکھ رہیا آں ناں نصرت کا منہ شرم سے گلابی ہو گیا اتنے میں پاس سے ایک لڑکا قریب آیا تو باجی سمٹ سی گئی وہ لڑکا باجی نصرت کو اسامے کے پاس کھڑا دیکھ کر نظر جھکا لی جیسے اس نے دیکھا ہی نہیں اسے گزرتا دیکھ کر اور باجی کو سمٹتا دیکھ کر اسامہ بولا اوئے وہ لڑکا سن کر رک گیا اور بولا جی بھائی اسامہ بولا تینوں کوئی اعتراض ہے میں نصرت کول کھڑا ہاں قابل اعتراض حالت اچ وہ بولا نہیں بھائی مینوں کیوں اعتراض ہونا تھواڈی مرضی جو مرضی کرو اسامہ چل جا اور نصرت کو دیکھ کر بولا ویکھ توں ایویں گھبرا رہی ایں تینوں میرے تے یقین نہیں نصرت مسکرا کر اسامے کے قریب ہوکر سائیڈ سے اسامے کے ساتھ لگ گئی باجی نصرت کا ایک موٹا ممے اسامے کے سینے میں دب گیا باجی گلی میں سب کے سامنے اسامے کے ساتھ لگ گئی تھی یہ سب دیکھ کر باجی کی کچھ جھجھک تو اتر گئی تھی باجی مسکرا کر بولی میری جان تینوں پتا تے ہے میں ہک شریف لڑکی ہاں آج تک برکے توں بغیر باہر نہیں نکلی ہنڑ مینوں سب دے سامنے تینوں ملنڑ تے کجھ تے جھجھک ہونی ہولی ہولی لہ جاسی گئی نا پریشان ہو باجی نصرت گلی کھڑے ہوئے اسامے کے بالکل ساتھ لگی ہوئی تھی اسامے نے باجی نصرت کی کمر میں۔ ہاتھ ڈالا اور باجی نصرت کو اپنے قریب کرکے اپنا منہ باجی نصرت کے منہ کے پالکل قریب کرکے بولا میری جان ہنڑ توں اسامے دی مشوق ہیں جھجھکنا چھڈ دے جو تیری مرضی اب آوے توں او کر تینوں پتا نہیں میں تیرا دیوانہ ہاں۔ باجی نصرت باہر گلی میں سب کے سامنے اسامے کے ساتھ لگ کر کھڑی اسامے کی آنکھوں میں مدہوشی سے دیکھ رہی تھی پاس سے لوگ گزر رہے تھے پر سب اپنے آپ میں ایسے مگن رہے کہ جیسے وہ کچھ دیکھ ہی نہیں رہے اسامے کا ڈر تھا اسامہ بولا میری جان اجازت ہے ہک وارچم لواں تینوں باجی نصرت مسکرا دی اور بولی مشوقاں کولو پچھیندا نہیں حکم دیویندا اے اسامہ بولا میری جان توں میری مشوق وی ہیں تے جان وی ہیں میں تے تیرا بڑا وڈا عاشق آں میں آج تک اپنی مرضی کیتی پر ہنڑ تیری مرضی نال چلساں گیا باجی نصرت نے مسکرا کر اسے دیکھا اور بلی اچھا جی اور اسامے کے سر کے پیچھے ہاتھ لے جا کر اپنے ہونٹ اسامے کے ہونٹوں سے جوڑ کر چومنے لگی اسامہ بھی باجی نصرت کے ہونٹوں کو چومنے لگا میں باجی نصرت اور اسامے کو گلی میں کھڑے ہوکر سب کے سامنے فرنچ کس کرتا دیکھا رہا تھا پاس سے گزرے لوگ باجی نصرت اور اسامے کو فرنچ کسنگ کرتے دیکھ کر اپنی راہ جا رہے تھے نصرت اور اسامہ دونوں گلی میں کھڑے ہوکر لوگوں کے سامنے کس کر ایک دوسرے کو چوم رہے تھے دونوں اتنے مگن تھے کہ چومنے سے پچ پچ کی آوازیں آنے لگیں تھیں جو لوگ ان رہے تھے باجی نصرت مزے سے ہانپنے لگی تھی باجی نے اسامے کی زبان کھینچ کر اپنے منہ بھر کر دبا رک چوسنے لگی باجی نصرت اور اسامہ دونوں باقاعدہ گلی میں کھڑے ہوکر دبا کر کسنگ کرتے ایک دوسرے کی زبان کو چوس رہے تھے پانچ منٹ دونوں ایک دوسرے کو کسنگ کرتے رہے اس دوران اسامے نے نصرت کو چھوڑ دیا اور دونوں ہانپنے لگے دونوں ایک دوسرے کےسںاتھ لگے تھے اسامہ باجی نصرت کے ہونٹوں کو چوس کر بولا افففف نصرتتتت میری جان میں تے تیرا رس پی کے دیوانہ ہوگیا باجی مسکرا دی اور بولی میں آپ تیری دیوانی ہو گئی آں وہ بولا نصرت اپنا نمبر دے دے نصرت مسکرا دی اور بولی نمبر کی کرنا ہئی وہ بولا تیرے نال گلاں کرساں گیا باجی نصرت بولی اچھا جی اے لئو جناب اور اس کے ساتھ لگی ہی اپنا نمبر اسے دے دیا۔ وہ بولا ہنڑ جھجھک تے کوئی نہیں ناں باجی مسکرا دی اور بولی کجھ آج لہ گئی کجھ کل لہ جاسی گئی وہ بولا چلو چنگی گل اے اور بولا کل ملدے آں اور وہ چلا گیا باجی نصرت بھی اندر آگئی امی مسکرا دی اور بولی نصرت توں تے اج کجھ ڈھیر ہی وٹی گئی نصرت دیوار کے ساتھ لگ کر سسک کر تیز تیز سانس لیتی اپنے سینے کو دبا کر بولی اففف اماں ناں پچھ رہیا ہی نہیں گیا میرا تے دل پیا کردا ہا کہ اوتھے بازار اچ ہی لیٹ جاواں تے اسامے نوں اکھاں کہ چڑھ جا میرے آتے امی بولی تے وت انتظار کس چیز دا باجی ہنس کر بولی امی ہلے نہیں اسامے تے جتنا ہتھ صاف ہوندا کرئیے جانا تے اودے ہیٹھ ہے ہی پر کجھ مال۔بنا ہوئیے اور ہنس دی امی بولی جیویں توں آکھ باجی بولی ویسے امی ہک گل اے امی بولی او کی امی گلی اچ کھلو کے لوگوں دے سامنے اسامے نوں ملنڑ دا سواد بڑا آیا اے میرا تے دل پھڑک رہیا اے دل کردا پیا کہ باہر اسامے کول کھلی رہواں امی مسکرا دی اور بولی نصرت تیری آگ تیرے کولو بہوں کجھ کریسی امی بولی ہلا ہنڑ مینوں پہلاں ٹھنڈا کر وت گلاں بعد دیاں میں سمجھا نہیں امی اور باجی اندر چلی گئی میں کچھ دیر بعد گیا تو امی باجی نصرت کے چڈوں میں سر دے کر باجی نصرت کی ننگی پھدی کو چاٹ رہی تھی باجی مزے سے کراہ رہی تھی دو منٹ میں باجی نصرت پانی کے پھوارے چھوڑتی فارغ ہو گئی میں یہ دیکھ کر باہر نکل گیا کچھ دیر باہر رہا اور پھر گھر آ کر باجی نصرت سے پڑھنے لگا اگلے دن میں سکول سے آیا باجی نصرت اب خوش رہنے لگی تھی پہلے باجی نصرت کا چہرہ مرجھایا رہتا اب باجی نصرت کا چہرہ کھل سا گیا تھا شاید اسامے سے مل کر باجی کی دلی خواہش پوری ہوہی تھی اس لیے ہم کھانا کھا کر بیٹھے تو نصرت کا فون بجا باجی نے فون اٹھایا تو اسامہ تھا اسامہ بولا ہاں میری جان کی حال اے نصرت بولی میری جان ٹھیک آں توں سنا وہ بولا ٹھیک اے دس کوئی پریشانی تے نہیں میری جان نوں باجی ہنس دیا ور بولی تیرے ہوندیاں کی پریشانی اے وہ بولی خوش کیتا ہئی میری جان اے دس کی کر رہی ایں باجی بولی بس تیرا انتظار وہ بولا اچھا جی گل ایتھو تک پہنچ گئی باجی بولی اسامہ ہک گل ویسے ہے لوگاں دے سامنے تینوں ملنڑ تے بڑا سواد آندا اے وہ ہنس کر بولا اچھا اسدا مطلب وت اسی روز ملیے باجی نصرت بولی تے ہور کی آپ نہوں آکھدا کسے توں ڈرنا نہیں وہ ہنس دیا اور بولا جناب آکھو تے ڈیرے ہی تھوڈے گھر دے سامنے لا لوئیے باجی ہنس دی اور بولی نہیں ہلے نہیں وہ بولا وت باجی بولی اے دس آج کی پروگرام اے وہ بولا میری جان جیویں اکھو پر کل ار نہیں باجی بولی نہیں ہنڑ میری شرم لاہ گئی اے ہنڑ بے جھجھک ملساں اسامہ بولا نصرت پر ہک گل مننی ہوسی باجی بولی او کی اسامہ بولا نصرت تیرے موٹے ممیاں دا نظارہ کرنا اے باجی ہنس دی اور بولی ایڈی جلدی ہلے تے دو دن ہوئے ہینڑ وہ بولا نصرت میری جان ایڈا امتحان نا لئے باجی ہنس دی اور بولی ایڈا امتحان کوئی نہیں بس 25000 ہزار لئی آ اسامہ باجی نصرت کی بات سن کر ہنس دیا اور بولا میری جان بس اتنا ہی توں آکھ تے میری جان وی حاضر سے باجی نصرت بولی وے نہیں ہک واری اے ہی چاہیدی وہ ہنس کر بولا اچھا میں آیا نصرت نے کال کاٹی اور اندر چلی گئی کچھ دیر بعد دروازہ کھٹکا تو نصرت باہر نکلی باجی نصرت کو دیکھ کر میں چونک گیا باجی نصرت بالکل باریک قمیض میں تھی جس سے باجی نصرت کا انگ انگ واضح نظر آرہا تھا باجی نصرت کا جسم باریک قمیض میں سے جھانک رہا تھا باجی نصرت کے تنے ہوئے گورے ممے صاف نظر آ رہے تھے باجی نصرت کے گلابی نپلز قمیض میں سے صاف نظر آ رہے تھے باجی نصرت کے جسم سے قمیض چپک کر سب کچھ واضح دکھا رہا تھا باجی نصرت نے دروازہ کھولا تو سامنے اسامہ کھڑا تھا باجی نصرت نے مسکرا کر اسے دیکھا اور دروازے سے باہر قدم رکھتی ہوئی باہر گلی میں نیم ننگی حالت میں اسامے کی طرف چلی گئی باجی جیسے ہی نکلی تو گلی سے گزرتے لوگ باجی نصرت کو نیم ننگا دیکھ کر چونک گئے پر پاس کھڑے اسامہ کو دیکھ کر چپ چاپ گزرنے لگے باجی نصرت باہر نکلی اور سیدھی اسامے کے قریب ہوکر اپنے آپ کو اسامے کے ساتھ جوڑ لیا جس سے باجی نصرت کے موٹے ممے اسامے کے سینے میں دب گئے اسامے نے باجی نصرت کو گلی میں سب کے سامنے اپنی باہوں میں بھر کر دبوچ لیا نصرت نے بھی اسامے کو باہوں میں بھر کدبوچ لیا اور ایک دوسرے کے ہو توں سے ہونٹ جوڑ کر چومنے لگے باجی نصرت گلی میں سب لوگوں کے سامنے اسامے کے گلے لگی اسامے کو باہوں میں بھر کر اسامے سے مل کر اسامے کو چوم رہی تھی اسامہ باجی نصرت کو باہوں میں دبوچ کر باجی نصرت کی زبان کھینچ کر چوس رہا تھا باجی نصرت کے موٹے ممے نصرت کے سینے میں دبے ہوئے تھے جنہیں باجی اسامے کے سینے میں نسل رہی تھی اسامہ باجی نصرت کے ہونٹوں کو چھوڑ کر منی پیچھے کیا اور فوجی کو باہوں بھرے ہوئے بولا نصرت آج تے خوش کیتا ہئی آپے ہی میرے سینے آلگی ایں کوئی جھجھک نہیں نصرت مسکرا بولا وے تیرے جیا یار ہووے تے وت لوکاں توں کیوں ڈراں وہ بولا واہ میری جان تینوں ڈرنا چاہیدا وی نہیں اور باجی نصرت کی گال کو چوم کر باجی نصرت کی کمر کو مسلتا ہوا باجی نصرت کی گال کو منہ میں میں بھر کر دبا کر چوس لیا اور چھوڑ کر بولا نصرت اپنے ممے تے ویکھنڑ دے ہک واری نصرت مسکرا کر اسامہ کو چھوڑ کر پیچھے ہوئی باجی نصرت کے تنکر کھڑے تنگ باریک قمیض میں سے گورے ممے جھانک رہے تھے نصرت نیم ننگی گلی میں اسامے پاس کھڑی تھی لوگ پاس سے گرلزر رہے تھے نصرت کا اوپر والا جسم نظر آ رہا تھا باجی نصرت کے گلابی نپلز دیکھ کر اسامہ بولا اففف مہررری جان تیرا حسن تے میری جان کڈھ رہیا اے نصرت بولی اسامہ رک کیوں گیاں ایں اے تیرا ہی مال اہناں نوں نچوڑ باجی نصرت کی بات سے اسامہ سسک گیا اور سسکار بولا اففف نصصصررتتت گلی اچ ہی مروڑ دیواں سب دے سامنے نصرت بولی سب دے سامنے ہی تے تینوں ملنڑ دا سواد آیا اے یہ کہ کر باجی نے اس کے ہاتھ کپڑے اور اپنے مموں پر رکھ دئیے باجی نصرت اسامے کے ہاتھوں کا لمس محسوس کرکے مچل گئی اسامے نے ہاتھ میں ممے آتے ہی دبا کر باجی نصرت کے ممے نچوڑ لئے باجی نصرت ممے اسامے کے ہاتھوں میں دبتے ہی مزے سے مچل زوردار کراہ بھر کر کرلا گئی باجی نصرت کی کراہ پوری گلی گونج گئی باجی نصرت تھر تھر کانپتی آنکھیں بند کیے سسکتی ہوئی کراہنے لگی اسامہ میں گلی میں سب کے سامنے میری بہن نصرت کے موٹے ممے ہاتھوں میں دبا کر نچوڑتا ہوا مسل رہا تھا جس سے باجی نصرت کانپتی ہوئی کرلا رہی تھی پاس گزرتے لوگ چپ چاپ گزر رہے تھے اسامے نے نصرت کے ممے دبا کر نچوڑ کر مسلتا ہوا باجی نصرت کے نپلز کو دبا کر کھینچ لیا باجی نصرت کی سسکیاں نکلنے لگی اور باجی کانپتی ہوئی کراہنے لگی اسامہ باجی نصرت کے دونوں نپلز ہاتھوں میں بھر کر مسلنے لگا جس سے باجی نصرت کراہ کر مچلنے لگی اور گھوم کر پیچھے سے اپنی کمر اسامے کے ساتھ جوڑ کر اپنی گانڈ اسامے کے لن پر مسل دی جس سے اسامہ سسک گیا اسامی کی شلوار می لمبا سا ٹینٹ بنا نظر آ رہیا تھا باجی نصرت کی موٹی گانڈ میں لن پھسلنے لگا اسامے نے آگے سے قمیض ہٹایا اور گلی میں ہی سب کے سامنے اپنا لن باجی نصرت کے چڈوں میں پھنسا دیا جسے باجی نے اپنے چڈوں میں دبوچ لیا میں باجی نصرت کو گلی میں کھڑے ہوکر سب کے سامنے لن چڈوں میں لیتا دیکھ کر مچل سا گیا اسامے نے باجی نصرت کا منہ گلی کی طرف کیا جس سے باجی نصرت کے قمیض سے جھانکتے ممے گلی کے لوگوں کی طرف ہوگئے اور ہاتھوں میں بھر کر دبا کر باجی نصرت کے ممے مسلتا ہوا باجی نصرت کے ہونٹوں کو چومتا گلی میں سب کے سامنے ہلکے ہلکے جھٹکے مارتا باجی نصرت کے چڈوں میں لن گھمانے لگا جس سے باجی نصرت پہلی بار کسی مرد کا لن چڈوں میں لے کر تڑپ سی گئی اور کراہ کر ہانپتی ہوئی کراہنے لگی باجی نصرت کی کراہیں اور سسکیاں پوری گلی میں گونج رہی تھی اسامہ اور باجی نصرت باہر گلی میں کھڑے ہوکر ایک دوسرے سے مستیاں کر رہے تھے لوگ گزرتے دیکھ کر آگے چلتے جا رہے تھے باجی نصرت بھی گلی میں سب کے سامنے اپنے ممے نکال کر سب کو دکھا رہی تھی جن کو مروڑتس ہوا اسامہ باجی کے مموں سے کھیل رہا تھا ویسے تو اسامہ اوباش اوت سنائی لڑکا تھا دن کے وقت بھی کئی لڑکیاں اس کے ساتھ اس کی بیٹھک میں جاتی دیکھی گئی پر یوں گلی میں کھڑے ہوکر ساب لوگوں کے سامنے کسی لڑکی کے ساتھ مستیاں پہلی بار کر رہا تھا باجی نصرت بھی مزے سے کراہ رہی تھی دو تین منٹ میں ہی دونوں کا کام تمام ہوگیا اور اسامہ کانپتا ہوا کراہ کر ہیں بھرتا گلی میں ہی سب لوگوں کے سامنے باجی نصرت کے مموں سے کھیلتا باجی نصرت کے چڈوں میں فارغ ہوگیا باجی نصرت بھی کراہتی ہوئی ہانپتی ہوئی اسامے کے ساتھ فارغ ہوکر کراہنے لگی دونوں اہنپتے ہوئے ایک دوسرے کے سانس بحال کرنے لگے دو تین منٹ میں دنوں سنبھلے اسامہ بولا اففف نصرت سواد آگیا نصرت ہانپتی بولی اففف میری جااااننن آج گلی اچ کھول کے سب لوگوں دے سامنے مستیاں کرنے دا سواد آگیا انج آر مزہ آج تک نہیں ملیا وہ سسکار کر بولا میری جان آکھ تے روز مزہ ملسی انج دا باجی نصرت بولی سسچی وہ بولا ہور کی اور باجی نصرت ہو چومنے لگا دو تین منٹ تک باجی نصرت کے موٹے ممے دبا رک مسلتا ہوا باجی نصرت کو چومتا رہا دونوں ایک دوسرے کو گلی میں کھڑے ہوکر ایک دوسرے سے سب ہے سامنے پیار کرتے رہے پھر اسامے نے لن باجی کے چڈوں سے نکال لیا تو اس پر لگی منی صاف نظر آ رہی تھی جو سب لوگ دیکھ رہے تھے اسامہ پیچھے ہوا اور جیب سے ایک بڑی سی گدی ناکل کر باجی کو تھما کر بولا آج دا تیرا انعام پورا 50 ہزار اے باجی یہ سن کر مچل گئی اور پیسے پکڑ کر بولی سچی وہ بولا مچی باجی پیسے پکڑ کر سینے سے لگا رک بولی تھینک یو میری جان سب لوگ باجی کو پیسے پکڑتا دیکھ کر سمجھ گئے کہ یہ اسامے کو گلی میں ملنے اور مستیاں کرنے اور اسامے کا پانی اپنے چڈوں میں نکالنے کی اسامے نے قیمت وصول کی ہے میں یہ سب دیکھ کر مزے سے مچل گیا تھا باجی نے اسے ایک بار پھر جپھی میں بھر کر پیار کیا اور باجی نصرت اندر آگئی امی نصرت سے بڑی خوش ہوئی کہ وہ پچاس ہزار لائی تھی میں بھی خوش ہوا اس سے مجھے بھی ہزار روپیہ ملا جس سے میں نے خوب مزے کیے اگلے دو تین دن یہی چلتا رہا باجی نصرت اسامے سے گلی میں ملتی اور پھر گلی میں کھڑے ہوکر سب لوگوں کے سامنے دونوں پیار بھری مستیاں کرتے اور باجی کے چڈوں میں اسامہ فارغ ہوکر باجی کو پچاس ہزار دیتا ایک ہفتے میں باجی نصرت نے کافی پچاس ہزار کما لیے تھے باجی کا سارا شرم حیا اتر گیا تھا باجی عابدہ اور سعدیہ بھی اس سے خوش تھیں کسی کو اعتراض نہیں تھا گاؤں والوں کو بھی مفت کا نظارہ ملتا تھا جب گلی میں باجی نصرت اور اسامہ کھڑے ہوکر مستیاں کرتے ایک دوسرے کے ساتھ اس لیے گاؤں والوں کو بھی کوئی اعتراض نا تھا بات تو پورے گاؤں میں پھیل گئی تھی پر اعتراض کسی کو نہیں تھا اسامے کی وجہ سے اور پھر گاؤں کے اکثر گھر کی لڑکیاں روز رات کو اسامے کے ڈیرے پر اس کے ساتھ اور اس کے دوستوں کے ساتھ انجوائے کرتی تھیں وہ سب چھپ کے کرتی تھیں پر باجی نصرت سرعام سب کے سامنے گلہ میں کھڑی ہوکر اسامے سے ملتی تھی یہ سلسلہ ایک ہفتے تک تو خوب چلتا رہا باجی نصرت رات کو کافی دیر فون پر بات بھی کرتی تھی اسامے سے ایک دن باجی نصرت اسامے سے گلی میں پیار کر رہی تھی اسامہ بولا میری جان کدو تک انج ملساں گئے باجی بولی وت کیویں ملیے اسامہ بولا نصرت اپنے کول آونڑ دے ہنڑ پھدی اچ لن لئے لئے باجی بولی میں سیل پیک آن ہلے تک اسامہ بولا وت سیل دے کتنے پیسے لیسیں باجی نصرت بولی 6 لکھ اسامہ بولا میری جان منظور اے اور باجی کو جپھی میں بھر کر ہی بولا لئے آواں وت باجی نصرت مسکرا کر بولی وے تیرے تے یقین اے آگے توں ایڈوانس دیندا ہائیں آج میں ایڈوانس پھدی دیساں گئی اور پیچھے ہوکر بولی چل اندر اسامہ بولا نصرت ایتھے سب دے سامنے کیوں نہیں باجی بولی وے اتنا ہی بڑا اے پھدی سب سے سامنے نہیں مارنی یہ سن کر اسامہ ہنس دیا اور باجی کے ساتھ اندر چل دیا باجی نصرت اسامے کو پکڑ کر اندر لائی تو سامنے امی اسامے کو دیکھ کر کھڑی ہو گئی اور بولی آؤ جی جناب آج تسی ساڈے غریب خانے تے تشریف لئے آئے ہو وہ بولا نہیں مٹی غریب خانہ کی اے تے میرا گھر ہے اپنا نصرت میری مشوق اے تے اے میرا گھر ہی ہویا امی بولی انج ہی ہے آ بہو کجھ کھا پی لئے باجی نصرت جو لن لینے کو بے قرار تھی وہ بولی امی اسامے نوں اپنے گھر دی سب تو منگی چیز کھواؤ ان امی بولی اچھا جا وت کھوا اور آگے ہوکر نصرت اور اسامے کا ماتھا چوم لیا باجی نصرت اسامے کو ہاتھ سے پکڑ کر اندر لے کر چلی گئی امی کیچن میں گئی میں دیکھنے کےلیے اندر چلا کہ باجی اور اسامہ کیا کریں گے یہ سوچ کر میں نے دروازے سے جھانکا تو باجی نصرت ننگی ہوچکی تھی اور اسامہ بھی ننگا ہو کر باجی نصرت کے موٹے تنے ہوئے ممے دبا کر مسلتا ہوا باجی نصرت کو چوم رہا باجی نصرت سسک کر کراہتی ہوئی اسامے کو چوم رہی رہی تھی باجی نے اسامے کو جپھی میں بھر کر دبا کر چومنے لگی اسامہ بولا نصرت باہر سب دے سامنے تیری پھدی مارن دا سواد ہی ہور ہونا ہا باجی مسکرا کر نیچے ہاتھ کیا اور اسامے کے لن کو پکڑ کر مسل کر بولی میری جان اتنا ہک تے لوگاں دے سامنے کیتا اے ہنڑ کجھ سڈی وی پردہ داری اے اسامہ بھی کا ہتھ لن محسوس کرکے سسک گیا اور باجی کو چومنے لگا باجی نصرت اسمے کو چومتی ہوئی لن مسلتی ہوئی ہاتھ سے خود ہی اسامے ک نالا کھول کر ہاتھ اندر ڈالا اور اسامے کا کہنی جتنا لمبا موٹا لن باہر کھینچ لیا میں اسامے کا اتنا لمبا اور موٹا لن دیکھ کر چونک گیا میرا لن تو ہتھیلی تک لمبا تھا پر اسامے کا پوری کہنی جتنا لن دیکھ کر میں چونک گیا باجی نصرت کا لمس ننگے لن پر محسوس کرکے اسامہ سسک گیا باجی نصرت نے ہاتھ لن پر پھیرا تو باجی نصرت بھی کراہ کر ہانپتی ہوئی چونک گئی باجی نصرت کا سانس بھی تیز ہونے لگا تھا باجی نے نیچے دیکھا اور کہنی جتنا لمبا لن دیکھ کر ایک بار حیرانی سے منہ کھل گیا باجی منہ پر ہاتھ رکھ کر بولی ہالنی اماں میں صدقے جاواں ایڈا وڈا لن اسامہ سسک کر مسکرا دیا اور بولا میری جان پسند آیا کہ نہیں باجی حیرانی سے بولی وے ایڈا لمبا تے موٹا کدو لیا ہئی اسامہ مسکرا کر بولا میری جان تیرے واسطے لیا اے نصرت بولی ایڈا تے میں فلماں وچ ویکھدی ہاس اسامہ بولا آج اصل اچ ویکھ کے دس باجی نصرت سسک کر لن کو ہاتھ میں پکڑ کر ہال وے مار گھتیا ہئی آج تے میری تے توں خواہش پوری کر دتی میں وی سوچدی ہاس ایڈا لمبا لن لبھے کدی جہڑا میرے کڑاکے کڈھ دیوے باجی یہ بات کرتی ہوئی نیچے اسامے کے لن کے سامنے بیٹھ گئی اور مسلتی ہوئی ہانپنے لگی اسامہ بولا نصرت اپنے شہزادے نوں پیار تے کر یہ سن کر نصرت نے مستی سے اسامے کو دیکھ کر لن کے قریب ہوئی اور اسامے کے لن کی ٹپ پر ہونٹ رکھ کر چوم لیا باجی نصرت کے ہونٹوں کا لمس محسوس کرکے اسامہ مچل کر سسک گیا میں بھی باجی نصرت کو اسامے کے لن کو چومتا دیکھ کر مچل گیا میرے لن نے جھٹکا مارا اور پورا تن کر کھڑا ہوگیا باجی اسامے کا پن مسلتی ہوئی چومنے لگی باجی نصرت کبھی ٹوپہ چومتی اور کبھی لن کو چومتی ہوئی اپنے منہ پر ملنے لگتی باجی نصرت اسامے کے لن کو پیار کر رہی تھی جبکہ اسامہ مزے سے سسک رہا تھا باجی نے لن کو مسل کر اپنے مموں کے درمیان رکھا اور مموں کے بیچ لن کو دبا کر مسلنے لگی جس سے اسامہ سسک کر کراہ گیا سامہ مزے سے کانپنے لگا تھا باجی نصرت بھی کراہ کر مچلتی ہوئی اسامے کے لن کو اپنے مموں میں دبا کر اپنے سینے کو لن کے ساتھ لگا کر اپنے بازو اسامے کی گانڈ کے گر گھیر کر کس کر لن کو سینے کے ساتھ دبا رک سسک کر بولی اففف میرا شہزادہ میں تیرے واسطے کتنا تڑپی ہاں
میری گرم بہنوں کی جوانی کی بھڑکتی آگ
میرا نام بہزاد ہے میری عمر 15 سال کے قریب ہے میں ایک گاؤں کا رہائشی ہوں کچھ سال پہلے میرے والد کا انتقال ہو چکا ہے میں نویں جماعت میں پڑھتا ہوں ہمارا گاؤں شہر سے کافی دور ہے قریب کوئی بھی شہر نہیں لگتا جس کی وجہ سے گاؤں کی اکثر ابادی پسماندہ اور غریب لوگوں پر ہی مشتمل ہے چند گھر ہی مالی طور پر مستحکم ہیں باقی سب نچلے درجے پر ہی رہتے ہیں ہمارا شمار بھی نچلے درجے کے لوگوں میں ہی ہوتا ہے ابو بھی محنت مزدوری کرتے اس دنیا سے چلے گئے ہم ٹوٹل چار بہن بھائی ہیں سب سے بڑی بہن کا نام نصرت ہے نصرت کی عمر 28 سال ہے باجی نصرت ماسٹر کر چکی ہے اس سے چھوٹی سعدیہ کی عمر 26 سال ہے سعدیہ صرف گریجویشن کر سکی ہے اس سے چھوٹی کا نام اصباح ہے اصباح کی عمر18 سال ہے ہمارا گاؤں چونکہ شہر سے دور تھا اس لیے گاؤں میں کوئی سکول نہیں تھا اس لیے ایک این جی او نے نیم سرکاری ادارہ قائم کر رکھا تھا جہاں لڑکے لڑکوں کو میٹرک تک تعلیم دی جاتی تھی یہ سکول پرائیویٹ این جی کےزیر اثر چلتا تھا چونکہ باجی نصرت بھی اسی میں پڑھتی تھی وہ کافی لائق اور ذہین تھی تو میٹرک کے بعد اسی سکول کے وکالت شپ پر باجی نصرت شہر جا کے پڑھنے لگی اور اپنی تعلیم مکمل کرکے واپس گاؤں آئی تو اسی سکول میں باجی ٹیچر لگ گئی سعدیہ بھی وہیں سے گریجویشن کر کے واپس آئی تھی اس لیے وہ بھی وہیں پڑھانے لگی میں بھی اسی سکول میں پڑھتا تھا باجی نصرت اور سعدیہ کو ادارے کی طرف سے کچھ تھوڑا بہت ہی پیسے ملتے جس سے گزارہ مشکل سے ہی ہوتا ابو کے انتقال کے بعد تو اور آمدنی کم ہو گئی لیکن لیکن گزارہ ہو ہی رہا تھا ابو کے بعد گھر کا سارا نظام باجی نصرت کے ہاتھ میں تھا امی بھی گھر داری ہی سنبھالتی تھی میں بھی بڑا ہو رہا تھا باجی نصرت اور سعدیہ کی تنخواہوں سے گزر بسر مشکل سے ہی ہوتی تھی مجھے بھی شوق تھا کہ میرے پاس پیسے ہوتے کبھی کبھار ضد کرنے پر باجی چند پیسے دے دیتی میرے باہر کے کچھ دوستوں کو روز پیسے ملتے لیکن ہم کچھ دوست صرف ان کو دیکھتے ہی رہتے ہمارے دل میں بھی حسرت ہوتی کہ کاش ہمیں بھی پیسے ملتے پر یہ حسرت ہی رہتی ۔ میری حسرتیں بڑھتی جا رہی تھیں جبکہ ان کو پورا کرنے کا کوئی سین نظر نہیں آ رہا تھا ہمارے گاؤں کا ماحول ایسا تھا کہ اچھے گھر کے لڑکے ہم جیسوں کو پیسے دے کر ان سے غلط کام کرواتے تھے کچھ لڑکے بھی پیسوں کے لالچ میں کرتے تھے کھاتے پیتے گھروں کے اوباش لڑکے غریبوں کی لڑکیوں کو لالچ دے کر پھنساتے تھے کچھ پھنس جاتیں کچھ نہیں پھنستی تھیں پھر وہ بڑے لوگوں کے خلاف کوئی بات بھی نہیں کرتا تھا باجی نصرت اور سعدیہ ابھی بچی ہوئی تھیں اس کی وجہ باجی نصرت اور سعدیہ کا سخت رویہ تھا وہ تھوڑی ڈھاڈھی تھیں اکثر کئی لڑکوں کی پٹائی بھی ہو چکی تھی میں ان دنوں نیا نیا جوان ہوا تھا میرا ایک دوست اور ہم جماعت تھا اس کا نام ندیم تھا اس کے حالات توں ہم سے بھی گئے گزرے تھے لیکن اکثر سکول میں میں اس کے پاس کافی پیسے دیکھتا تھا اس کی بہن کا نام ثانیہ تھا وہ باجی نصرت کی سہیلی تھی دونوں شہر سے پڑھ کر آئی ہوئی تھیں اور پکی سہیلیاں تھیں اور سکول میں پڑھاتی تھیں ندیم روز سکول میں کچھ نا کچھ خریدتا تھا میں اس سے پوچھتا کہ وہ یہ سب کہاں سے لاتا ہے وہ کہتا کہ باجی نے دئیے ہیں حالانکہ ندیم کا خاندان ہم سے بڑا تھا وہ چھ بھائی بہن تھے اور صرف اسکی بہن سکول پڑھا کر گھر چلاتی تھی اس کا ابا نشئی تھا اور نشہ کرکے پڑا رہتا تھا میں حیران تھا کہ میری دو بہنوں کی تنخواہوں سے ہمارا گزارہ مشکل تھا جبکہ وہ اکیلی بہن کے ہوتے ہوئے بھی عیاشی کرتا تھا میں اس سے اکثر پوچھتا تھا کہ یار مجھے بھی کوئی طریقہ بتاؤ عیاشی کا وہ ہنس دیتا اور کہتا کہ تیرے سے نہیں ہو گا میں سوچتا رہتا ندیم میرا گہرا دوست تھا وہ اکثر میرے ساتھ رہتا تھا میں اس کے ساتھ گاؤں کے بڑے بڑے اوباش لڑکوں سے اس کی یاری تھی وہ اکثر ان کے ساتھ ہوتا تھا ایک دن اتوار کا دن تھا کہ ندیم اسامہ بھائی کی بیٹھک سے نکلا اور تیزی سے گھر کی طرف جانے لگا اسامہ گاؤں کے چوہدری کا بیٹا تھا اس کی عمر 28 سے 30 سال تھی اپنے باپ کی دولت پر عیاشی کرتا تھا گاؤں کے سب اوباش اس کی بیٹھک میں اکھٹے ہوتے سب مل کر انجوائے کرتے اسامہ کا ڈیرہ گاؤں سے تھوڑا باہر تھا روز ڈیرے پر اسامہ اور اس کے دوست لڑکیوں لاتے اور ساری رات لڑکیوں کا مجرہ چلتا ہر غلط کام اس ڈیرے پر ہوتا تھا چونکہ وہ چوہدری کا بیٹا تھا اس لیے کوئی کچھ نہیں کہتا تھا اسے کھلی چھٹی تھی گاؤں کے درمیان میں اس کا گھر تھا وہاں ہر وقت اوباش اکھٹے رہتے اور جب جی چاہتا اکثر راہ چلتی لڑکیوں کو چھیڑتے رہتے لوگ بھی ڈر کے مارے بولتے نہیں تھے اکثر بس تماشہ دیکھ کر مزے لیتے تھے میں نے اسے اسامہ کی بیٹھک سے نکلتا دیکھا تو اسے بلایا وہ مجھے دیکھ کر رک گیا اس کے چہرے پر پہلے تو گھبراہٹ چھائی پھر ہلکی سی شرارتی مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیل گئی میرا ذہن سوالیہ انداز میں اسے غورا وہ بولا بہزاد توں روز پچھدا ہائیں کہ میں کی کردا آجا آج تینوں دساں میں کردا آں اور مجھے لے کر گھر کی طرف چل دیا میرا زہن سوالات سے اٹا ہوا تھا کہ یہ اب کیا کرے گا کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی میں اس سے پوچھتا تھا وہ کہتی تھی خود دیکھ کے اسی دوران ہم اس کے گھر پہنچ گئے شام سے تھوڑا پہلے کا وقت تھا ہم جیسے ہی اندر داخل ہوئے تو سامنے اس کی بڑی بہن باجی ثانیہ صحن میں بیٹھ کر آٹا گوندھ رہی تھی ندیم کو دیکھ کر اس کی بہن کے چہرے پر ایک مسکراہٹ سی پھیل گئی اور چہرے پر شرارتی سا انداز اسے دیکھنے لگا وہ بولی دیمی توں نہیں سدھرنا وہ ہنس دیا ثانیہ اٹھی اور ہاتھ دھو کر دونوں بہن بھائی اندر چلے گئے میں حیران تھا کہ ایسی کیا وجہ ہو گی کہ یہ بھائی بہن اندر گئے تھوڑی دیر بعد دونوں اندر سے ہنستے ہوئے نکلے باجی ثانیہ نے مجھے دیکھا اور سرگوشی میں کوئی بات ندیم سے کی تو دونوں ہنسنے لگے باجی ثانیہ کے چہرے پر شرارتی سے مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی اور وہ مجھے دیکھ رہی تھی میں شرما سا گیا اور منہ نیچے کرگیا ندیم میرے پاس آیا اور بولا چل سکا میں اسکے ساتھ نکل آیا اور بولا دیمی توں دسی تے نہیں اس نے مجھے دیکھا اور ہنس کر بولا کی جلدی اے دس دیندا آں میں چپ ہوکر اسکے ساتھ چلنے لگا تھوڑا سا ایک ویران سی حویلی تھی جس میں گاؤں والے گند پھینکتے تھے دینی نے ادھر ادھر دیکھا اور میرا ہتھ پکڑ کر اندر لے کر چلا گیا اندر جا کر اس نے مجھے دیکھا تو اس کا منہ لال سرخ تھا میں اس کو دیکھ کر ڈر سا گیا وہ بولا دیکھ بہزاد اے میرا راز اے میں نے آج تک کسی کو نہیں دسیا میں آج صرف تینوں دسنڑ لگا ہاں تے وعدہ کر توں کسے نوں ناں دسیں گا میں نے اسے دیکھا اور بولا دیمی گل کی ہے وہ بولا اوہ وی دسدا پہلے وعدہ کر میں بولا دیمی توں مینوں جانڑدا ایں آج تک تیری کوئی گل کسے نوں دسی بچوں والی بات تھی وہ بولا پر اے ہور گل تے بڑی سیکرٹ ہے میں بولا فکر نا کر میں وعدہ کردا ہاں اس نے مجھے دیکھا اور گھونٹ بھر کر باہر دروازے کی طرف دیکھا دیمی کو پتا نہیں کیوں پسینہ چھوٹا ہوا تھا اس نے پھر گھونٹ بھرا میں بھی حیران تھا کہ ایسی کیا بات ہے جو دیمی اتنا چھپا رہا ہے میں اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا اچانک اس نے جیب سے ایک بڑا سا ٹچ فون نکالا اور میرے سامنے کردیا جسے دیکھ کر میں تو ڈر سا گیا تھا میں بولا اوئے دینی اے کدو لیا ہئی اس نے مجھے اشارے سے چپ رہنے کا کہا اور بولا بھائی اسامے دا اے میں چپ ہوگیا اس نے پھر فون ان کیا اور ایک طرف دیوار کے ساتھ لگ کر مجھے قریب کیا اور ہم دونوں دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑے ہوگئے اس نے موبائل کی سکرین میری طرف کی تو سامنے کی تصویر دیکھ کر میں دنگ رہ گیا میرا تو گلا خشک ہو گیا موبائل میں باجی ثانیہ کی بغیر دوپٹے کے تصویر تھی یہ دیکھ کر میرے تو پسینے چھوٹ گیے میں ہکا بکا اسامے کے موبائل میں باجی ثانیہ کی تصویر دیکھ کر حیران ہو رہا تھا کہ یہ سب کیا ہے باجی ثانیہ تو بڑی شریف بنتی تھی پر یہ کیا ہے مجھے حیران دیکھ کر دیمی بولا بہزاد ککھ سمجھ آئی کے نہیں میں نے سر ہلایا اس نے ایک اور تصویر مجھے دیکھائی جس میں باجی ثانیہ کسے ہوئے لباس میں تھی اور باجی کے دوپٹے کے بغیر ممے ہوا میں تن کر کھڑے نظر آرہے تھے میں یہ سب دیکھ کر دنگ تھا اس نے موبائل بند کیا میرا تو جسم کانپ گیا تھا باجی ثانیہ کو غیر مرد کے موبائل میں دیکھ کر دیمی ہنس دیا اور بولا بہزاد بھائی اسامے نوں باجی دیاں تصویراں ویچدا آں اس کے یہ الفاظ سن کر میں دنگ رہ گیا میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا اور بولا کیوں وہ بولا بہزاد کی کرئیے گزارہ وی تے کرنا میں حیرانی سے اسے دیکھ رہا تھا وہ بولا بہزاد ہک تصویر دے پنج روپے ملدے ہین میں یہ سن کر حیران ہوگیا پنج روپے اسوقت بڑی چیز تھی کم از کم میرے ایک دن کی خرچہ تو تھی مجھے تو پانچ ہی بڑے تھے میں نے گھونٹ بھر اسے دیکھا تو وہ مسکرا دیا اور بولا چل چلیے میں بھاری قدموں سے اس کے ساتھ چلتا ہوا بیٹھک کی طرف گیا میں باہر کھڑا ہوگیا ور دینی اندر چلا گیا اس نے چار تصویروں کے دینی کو بیس روپے دئیے اور بولا دیمی بھین نوں اس توں اگے وی منا اس نوں آکھ اپنی فل ننگیاں تصویراں دے یا مڑ ہک رات ساڈے کول آجاوے من مرضی دی قیمت وصول کرے دینی بولا بھائی باجی نوں آکھیا تے ہے او آکھ رہی سوچدی آں اسامہ بولا بھین یاوی نوں مہینہ ہوگیا سوچ ہی رہی وہ پھر بولا دیمی بھین دا نمبر دے چا 100 روپیہ دیساں میں یہ سن کر چونک گیا دینی کچھ نا بولا تو اسامہ بولا چل اے 50 روپیہ لئے جا باقی 50 بھین دا نمبر دے کے لئے جائیں ہنڑ چل جا یہ سن کر دیمی جلدی سے باہر آگیا میں ہکا بکا کھڑا اسے دیکھ رہا تھا وہ ہنس دیا اور میرا ہاتھ پکڑ کر دکان کی طرف چل دیا وہاں سے اس نے اور میں نے ہر چیز سے بے نیاز ہوکر اپنی پسند کی چیزیں کھائیں 50 روپیہ اس نے بچا لیا میں بولا دیمی اسدا کی کرنا ہئی وہ ہنس کر بولا اے باجی دا حصہ اے میں اسکے منہ کو دیکھ رہا تھا میں بولا۔ اجی کجھ نہیں آکھدی وہ ہنس کر بولا یار توں آپ ویکھیا تے ہے باجی آپے دتیاں ہینڑ کافی عرصے توں باجی دے رہی ہے میں ہکا بکا اسے دیکھ رہا تھا میں بولا باجی نوں منایا کنج ہئی اس نے مجھے ساری گیم بتائی میرے توں لوں لوں کھڑے تھے کام تو بڑا گھٹیا تھا پر پیسے تو آ رہے تھے دیمی اپنی من مرضی کر رہا تھا مجھے اس پر رشک آیا دیمی اور میں شام تک ساتھ رہے میں شام کو گھر آگیا باجی نصرت نے مجھ سے پوچھا کہ کدھر تھا میں نے اسے بتایا کہ دینی کے ساتھ تھا پورے محلے میں دینی میرا دوست باجی بھی میرا خاص خیال رکھتی تھی کیونکہ میں اکلوتا تھاا اور اوپر سے گاؤں کا ماحول بھی کافی خراب تھا اس لیے وہ مجھے بچا کے رکھتی تھی شام کا کھانا کھانے کے بعد میں جلد ہی بستر پر چلا یا میرے ذہن میں بار بار وہی دیمی والی بات گھوم رہی تھی مجھے یہ اچھا بھی نہیں لگ رہا تھا کہ اپنی بہن کی تصویریں بیچ کر وہ پیسے کما رہا تھا اس کی بہن بھی اس کا ساتھ دے رہی تھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایسے ہی میرے ذہن میں آیا کہ کاش باجی نصرت بھی میرا ساتھ دے تو میں بھی پیسے کماؤں یہ سوچ کر مجھے جھٹکا لگا اور میرا دل ڈر سے گیا باجی نصرت بہت سخت تھی وہ تو ایسا نہیں کرے گی اور میں ایسا سوچ ہی کیوں رہا تھا پر میرے اندر دیمی کو دیکھ کر لالچ انگڑائی لے چکا تھا لیکن میں نے وقتی خود کو سمجھایا اور سو گیا صبح اٹھا تو صبح اور سکول جانے کی تیاری کر لی میں سکول پہنچا تو دیمی آج تھوڑا لیٹ آیا اس کی بہن ثانیہ کا چہرہ بھی آج کھل رہا تھا باجی اسے دیکھ کر اس سے باتیں کرنے لگی دیمی میرے پاس آیا میں نے اس سے لیٹ آنے کی وجہ پوچھیں اس نے کہا بتاتا ہوں تفریح کے وقت ہمیں موقع ملا دیمی مجھے ہاتھ پکڑ کر کھانے کی ریڑھی پر لے گیا اور ہنس کر بولا بہزاد آج اپنی مرضی دی جو تیرا دل کردا شئے لئے میں نے وجہ پوچھے بغیر ہی اپنی پسند کی کچھ چیزیں ہیں دیمی نے بھی لیں اور اس نے جیب سے سو روپیہ نکالا میں یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا وہ مجھے دنگ دیکھ کر ہنس دیا ریڑھی والا بابا چھیدا اس کو اپنی چیز بکنے سے غرض تھی اس نے بھی چینی سے کچھ نہیں پوچھا دیمی باقی پیسے لے کر مجھے ہاتھ سے پکڑ کر ایک طرف لے گیا ہم بیٹھ کر کھانے لگے میں نے پوچھا دیمی 100 کدو لیا ہئی وہ ہنسا اور بولا بھائی اسمے دتا اے میں بولا او کیوں وہ ہنس کر بولا کل اس آکھیا ہا نا کہ باجی دا نمبر لئے دے میں راتی باجی نوں گل کیتی تے باجی آکھیا کہ گل کرن دا ہزار روپیہ لیساں گئی میں یہ سن کر ہکا بکا رہ گیا کہ صرف بات کرنے کا ہزار روپیہ میں نے حیرانی سے دیمی کو دیکھا اور بولا اوئے ہزار روپیہ۔ وہ بولا ہا تے ہور کی اسامے آکھیا کہ میں دیساں گیا ہزار روپیہ میں فر راتی اسامے نوں نمبر دے آیا ہاس باجی دا تے ہزار روپیہ لئے آیا ہاس اس مینوں انعام دتا 100 روپیہ اور ہنس دیا میں یہ سن کر حیرانی سے چیز کھانے لگا اور سوچنے لگا کہ دیمی کتنا لکی ہے جو چاہے مرضی کرتا ہے میں انہیں سوچوں میں چیز کھا رہا تھا کہ بریک ختم ہوئی ہم کلاس میں چلے گئے ان دنوں ہزار تو آج کے دس ہزار کے برابر تھا بہت ہی سستا دور تھا آج سے دس سال پہلے کی بات تھی میں ساری کلاس میں اس بات کو ہی سوچ رہا تھا کہ اسامے کے پاس اتنے پیسے کہاں سے آتے ہیں کہ اس نے دیمی کی بہن کو ہزار دے دیا پر اس نے باجی ثانیہ سے بات بھی تو کرنی تھی میں یہ سن کر حیران تھا چھٹی کے بعد ہم گھر گئے اور کھانا کھا کر میں چھت پر چلا آیا میرا ذہن اب کشمکش کا شکار تھا دیمی کو پیسوں میں کھیلتا دیکھ کر میری لالچ بھی بڑھ رہی تھی لیکن میں کیا کروں اس کی تو بہن اس کے ساتھ تھی مجھے تو اپنی بہنوں سے ڈر لگتا تھا پھر نصرت تو تھی بھی بہت سخت مجھے آج تک کچھ نہیں کہا پر وہ سخت تھی تھوڑی گھر کی ساری ذمہداری اس کی تھی پر شاید اس وجہ سے وہ تھوڑی سخت تھی اس نے تو یہ سب نہیں کرنا تھا میں کافی دیر بیٹھا رہا پھر پڑھائی کا وقت ہوگیا باجی سے پڑھ کر میں باہر نکلا تو دیمی میری طرف ہی آ رہا تھا میں اسے دیکھ کر کھل سا گیا وہ مجھے لے کر دکان کی طرف گیا اس نے بتایا کہ باجی آج اسامہ بھائی سے باتیں کر رہی ہے فون پر اس لیے آج مجھے پڑھائی سے چھٹی ہے میں بولا واہ تیری تو موجیں ہیں ہم دکان پر گئے اور کچھ کھایا پیا اب روز ہی دیمی مجھے کھلانے پلانے لگا اس کے پاس پیسے آ رہے تھے بہن کی کمائی چل رہی تھی اسی طرح دو تین ہفتے گزر گئے میں فل انجوائے کر رہا تھا جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا میرے ذہن میں بھی یہ بات بیٹھتی جا رہی تھی کہ مجھے بھی اب پیسے چاہئیں دیمی کی طرح شاید دیمی کی ناجائز کمائی کو کھانے کا اثر تھا کہ میرا دل اب ڈر سے خالی ہوگیا تھا باجی کو سوچ کر جو ڈر لگتا تھا اس کی جگہ اب لالچ اور مزے نے لے لی تھی لیکن ابھی تک میرے اندر جھجھک تھی میں ڈر بھی رہا تھا کہ دیمی سے کیسے بات کروں اگر کروں تو کیا کروں دیمی اب پانچ دس سے آگے نکل کر 100 روپیوں میں کھیل رہا تھا۔ میں اب یہ سوچ رہا تھا کہ میں کب تک دیمی کے پیسوں پر عیاشی کروں گا اگر میں بھی باجی نصرت یا سعدیہ کی تصویریں دے کر پانچ دس روپے لے لوں تو میرے لیے یہ ہی بہت ہیں لیکن مسئلہ تھا کہ میں تصویریں لوں گا کیسے انہی سوچوں میں ہفتہ گزر گیا مجھے دیمی نے بتایا تھا کہ پہلے وہ بھی باجی ثانیہ کی چوری تصویریں لیتا تھا پھر ایک دن اس کی بہن نے پکڑ لیا ثانیہ نے اسے کچھ نہیں کہا بلکہ خود تصویریں دینے لگی اس نے بتایا کہ تصویروں کی قیمت ثانیہ خود طے کی تھی اب تو ثانیہ اسامے سے فون پر باتیں کرتی تھی بدلے میں کافی پیسے لے رہی تھی انہی سوچوں میں او کئی دن گزر گئے مجھ سے فیصلہ نہیں ہو پارہا تھا ایک دن صبح میں سکول گیا تو آج باجی ثانیہ سکول نہیں آئی تھی باجی نصرت نے دیمی سے پوچھا تو اس نے کہا کہ اس کی طبیعت نہیں ٹھیک تفریح کے وقت دیمی کے پاس آج پانچ سو دیکھ کر میں دنگ رہ گیا اور جو بات دیمی نے مجھے بتائی وہ سن کر تو میرے رونگٹے ہی کھڑے ہو گئے اس نے بتایا کہ آج رات باجی ثانیہ اسامے سے ملنے گئی تھی اور واپسی پر جب صبح گھر آئی تو 20 ہزار لائی تھی جو اس نے اماں کو دیا تھا اماں بڑی خوش تھی میں 20 ہزار سن کے ہی تڑپ گیا اور باقی کی باتیں مجھے یاد نہیں دیمی نے کیا کہا میرے ذہن میں تو بیس ہزار ہی گونج رہا تھا دیمی نے مجھے پلایا تو میں ہوش میں آیا وہ بولا کی سوچ رہیا ایں میں نے بے اختیار کہ دیا واہ یار اسامے نوں ملن دا 20 ہزار کیا بات ہے دیمی بولا ہا پپر ہک سمجھ نہیں آئی یار۔ میں بولا او کی وہ بولا یار جدو رات نوں باجی اسامے نوں ملن گئی ہا او فٹ فاٹ ہا جدو واپس آئی تے اس دی طبیعت خراب ہا۔ کمر پڑھ کے چل رہی ہا تے کنر پھد کے کراہ رہی ہا جدو میں سکول ا رہیا ہاس تے امی اس نوں دبا رہی تے میں باجی دا پتا کرن گیا تے امی اس دی شلوار اندر کجھ پا کے اس نوں ٹکور کر رہی ہا تے باجی کراہ رہی ہا اے کی ہا اسوقت دور تو اتنا جدید تھا نہیں نا ہماری سوچ اتنی کھلی تھی کہ اس کا کچھ پتا ہوتا مجھے بھی کچھ سمجھ نا آیا میں بولا یار چھڈ اے دس کہ اے کنج ہویا وہ ہنس دیا اور بولا بہزاد جے تیرا دل ہے تے تیری گل وی کراں بھائی اسامے نال پر بدلے اچ تینوں وی اپنی بھین دیاں تصویراں دینیاں پوسنڑ میں یہ سن کر چونک کر گھونٹ بھرا اور اسے گھبرا کر دیکھا پر یار میں تصویراں کنج لیساں باجی نوں پتا چل گیا تے او تے جان کڈھ لیسیں وہ بولا او یار ڈر نہیں اے وی تے ویکھ پیسے بڑے آندے موجاں لگ جاندیاں توں فکر نا کر کے باجی نوں پتا لگ گیا تے اسدا وی کجھ کر لیساں فل حال مزے لئے ہک تصویر دے پنج روپے ہینڑ توں چار پنج تصویراں دے دیویں 20 روپے ملنڑ گے میں 20 روپے کا سوچ کر اچھل سا گیا میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگا مجھے سوچ میں دیکھ کر وہ بولا وت کی خیال اے میں نے ڈرتے ڈرتے کہا ٹھیک ہے میں تیار آں میری بات پر وہ ہنس دیا اور بولا اے ہوئی نا گل ہم تفریح ختم ہوئی تو کلاس میں گئے ہم نویں کلاس میں تھے ہماری تعد پانچ سے چھ لڑکے تھے کچھ لڑکے بڑے بھی تھے زیادہ تر ہمیں باجی نصرت ہی پڑھاتی تھی وہ خود کو ہمیشہ چادر میں لپیٹ کر رکھتی تھی کلاس میں وہ ایک ڈاڈھی ٹیچر تھی سب اس سے ڈرتے تھے باہر نکلتے ہوئے وہ برکے میں جاتی تھی باجی سعدیہ بھی برکا لیتی تھی میں باجی نصرت کو چادر میں لپٹا دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کس طرح تصویریں لینی ہیں میرے دل میں عجیب سی خوشی بھی تھی اور ڈر بھی تھا کچھ ہی دیر میں ڈر تو خوشی کے نیچے دب گیا کیونکہ پیسوں کا سوچ سوچ کر میرا ذہن شیطانی ہو چکا تھا میں اب نئے نئے منصوبے بھی ذہن میں بن رہا تھا کہ اپنی ساری خواہشات پوری کرنی ہیں چھٹی ہوئی تو میں باجی کے ساتھ باجی دیمی سے بولی دیمی ثانیہ گھر ہی ہے میں اسدا پتہ کرکے جانا وہ بولا جی باجی میں باجی نصرت سعدیہ اور دیمی چھٹی کے وقت ان کے گھر گئے ثانیہ اسوقت لیٹی تھی باجی کو دیکھ کر وہ بھی اٹھ کر بیٹھ گئی اس نے اپنی کمر کسی کپڑے کے ساتھ باندھ رکھی تھی ثانیہ کا اترا چہرہ باجی کو دیکھ کر کھل سا گیا باجی کی وہ دوست تھی باجی نے اس سے حال چال پوچھا باجی کو فکر ہوئی تو اس نے بتایا کہ فکر کی کوئی بات نہیں بس کل سے بخار بڑا ہے ہم دونوں اندر آگئے اور باتیں کرنے لگے دیمی مجھے منصوبہ سمجھانے لگا کہ کیسے تصویریں لینی ہیں اتنے میں باہر سے باجی کی آواز آئی میں جلدی سے نکل آیا ور ہم گھر آگئے باجی کی عادت تھی کہ وہ کھانا کھا کر کچھ دیر آرام کرتی تھی میں کھانا کھایا تو باجی نصرت اور سعدیہ اندر آرام کرنے چلی گئیں اصباح اسوقت ساتھ والے پڑوسیوں کے ہاں جاتی تھی کیونکہ وہ اور پڑوسیوں کی لڑکی اکھٹے کالج کی پڑھائی کرتی تھیں تو وہ اکثر وہاں ہوتی امی کیچن میں تھی میں وہاں سے نکلا تو دیمی میرا انتظار کررہا تھا چھیدے کی دکان پر جو سکول میں بھی ریڑھی لگاتا تھا میں وہاں پہنچا تو وہ مجھے کے کر اسامے کی طرف چل دیا اسامے کے پاس پہنچ کر اس نے دروازہ کھٹکھٹایا تو اسامہ اسوقت شاید سو رہا تھا اس نے دروازہ کھولا اور ہم دونوں کو دیکھ کر مسکرا دیا اس نے بنیان ڈال رکھی تھی وہ بولا دیمی خیر تے اے وہ بولا چل بھائی خیر ہی سے اور مجھے کے کر اندر چلا گیا اسامے نے دروازہ بند کردیا اور بولا دیمی تیری بھین دی طبیعت کیسی ہے ہنڑ وہ بولا باجی تے ٹھیک اے وہ مجھے دیکھ کر بولا اے شہزادے نوں کدے لئے آیا ایں میں تھوڑا گھبرا رہا تھا کیونکہ ایسے کبھی اسامے سے ملاقات نہیں تھی دیمی ہنس کر بولا بھائی توں ہک دن آکھیا ہا نا یہ بات کرتے ہوئے اسامہ بولا اوئے اچھا اچھا میں جو وی آکھیا او چھڈ توں مدا دس خیر اے اور اس کو آنکھ ماری وہ بولا بھائی اے وی اپنی بھین دی تصویراں ویچنا چاہندا اے یہ سن کر اسامہ چونکا اور اچھل کر بیٹھ گیا جیسے اس کے دل کی بات کردی ہو وہ حیرانی سے مجھے دیکھ کر بولا سچی ہی میں نے ہاں میں سر ہلایا وہ خاموش ہوکر مجھے حیرت سے دیکھ کر بولا تینوں دیمی آکھیا یا آپ آیا ایں میں بولا بھائی میرا اپنا دل اے وہ بولا کیوں میں دیمی کو دیکھ کر بولا بھائی اے وی تے باجی ثانیہ دی تصویراں ویچ کے پیسے لئے رہیا اے میرا وی دل ہے وہ ہنس کر بولا دل خوش کیتا ہئی شہزادیا اوراں آ مینوں مل ہک واری میں اٹھ کر اس کے پاس گیا تو اس نے مجھے باہوں میں بھر کر سینے سے لگایا اور بولا آہ واہ یار تیرے کولوں تے تیری بھین دی خوشبو ہنئے ہی آ رہی اے میرا دماغ تو اسوقت اتنا کام کرتا نہیں تھا میں یہ سن کر چپ ہی رہا وہ بولا یار بہزاد تیری بھین دا تے میں عاشق آں کدی اسدی شکل ویکھاویں تے میں تینوں منہ مانگے پیسے دیساں میرے منہ میں یہ سن کر پانی آگیا میں جھٹ سے بولا باجی ہنڑ ستی پئی اے بھائی توں آکھ تے میں تصویراں بنا لیاندا وہ ہنس کر بولا اے دس کس بھین دی بنا لیاسیں میں بولا باجی نصرت دی بنا لیاساں وہ ہنس کر سسک کر بولا اففف نصصصررتتت تے میں مردا آں اور موبائل نکال کر مجھے دیا مجھے چلانا آتا نہیں تھا میں بولا بھائی مینوں تے چلانا نہیں آندا وہ بولا کوئی گل نہیں دیمی اس نوں سکھا یہ کہ کر میں دیمی کے پاس گیا دیمی مجھے موبائل چلانا اور تصویریں بنانا سکھانے لگا پورا گھنٹہ اسامے نے مجھے موبائل چلانا سکھیا میں اچھا خاصا ٹرین ہوگیا تو اس نے مجھے اکیلا بھیجا باہر اور بولا کچھ تصویریں بنا لاؤ میں باہر گیا اور کچھ تصویریں بنا لایا اسامہ دیکھ کر بولا کہ گزارہ ہے آج تصویراں لئے تے اگے تو توں روز میرے کول آکے موبائل چلانا تو دو تن دن اچ فل ٹرین ہو جاسیں اور پھر اپنی جیب سے 50 روپے نکال کر مجھے دئیے اور بولا چل موجاں کر آج ہلے تینوں صحیح تصویراں بناڑ دا ول نہیں آیا کل تو تصویراں لئے آویں موبائل لئے جائیں اور موبائل مجھے دے کر کہا کے اس کو چلانا سیکھوں اور خود لیٹ گیا میں اور دینی کافی دیر موبائل چلانا سیکھتے رہے دیمی نے مجھے سارے گر سکھائے 50 روپیا لے کر میں اتنا خوش تھا کہ میں جلد ہی بہت کچھ سیکھ گیا ہم وہاں سے نکلے اور دکان پر آئے آج میرا دل خوش تھاا میں خوشی سے جھوم رہا تھا آج پہلی بار احساس ہوا کہ میں بھی اپنی ساری خواہشات پوری کرسکتا ہوں چھوٹی چھوٹی خواہشات کےلیے کتنی بڑی قربانی دینے جا رہا تھا یہ مجھے اندازہ نہیں تھا خیر ہم وہاں سے نکلے اور خوب مزے کیے پھر بھی کچھ پیسے بچ گئے میں نے وہ دیمی کو دے دیے کیونکہ اپنے پاس رکھنا خطرے سے خالی نہیں تھا باجی دیکھ لیتی تو پالش ہونی تھی میں اس لیے گھر آگیا اگلے دن سکول میں دیمی کے ساتھ بچے ہوئے پیسے کھائے پھر چھٹی کے بعد باجی کے سونے کے بعد میں اسامہ کی بیٹھک پر جا پہنچا وہاں کچھ دیر تک فون چلانا سیکھتا رہا دیمی نے مجھے فل ٹرین کردیا تھا میں اب اچھی طرح فون چلانے کے اور چھپانے کے سارے گر سیکھ گیا تھا یہ دیکھ کر اسامہ بھی خوش ہوا اور بولا جا آج تصویراں لئے آ میں نے موبائل دینی کے مطابق شلوار کی جیب میں ڈال دیا اور گھر کی طرف چل دیا دیمی کو اسامے نے ساتھ بھیجا کہ میں ابھی ناتجربہ کار تھا میں تیزی سے گھر کی طرف آیا میرے ذہن پر بس ایک ہی بات سوار تھی کہ کسی طرح اپنی بہن کی تصویریں بنا کر اسمے کو دے دوں اور پیسے لوں میں گھر پہنچ کر دیمی کو باہر ہی کھڑا کیا اور خود چپکے سے اندر آیا امی کیچن میں ہی تھی میں کمرے میں آیا تو باجی نصرت اور سعدیہ سو رہی تھیں۔ باجی نصرت کی عادت تھی کہ وہ سوتی ہوئی دوپٹے کے بغیر سوتی تھی میں نے موبائل نکالا ڈر اور مزے سے میرے ہاتھ کانپ رہے تھے میں نے کیمرہ ان کیا اور اور باجی نصرت کو فوکس کیا باجی نصرت سیدھی لیٹی تھی جس سے باجی نصرت کے موٹے تنے کر ہوا میں کھڑے ممے باجی نصرت کے سانس لینے سے اوپر نیچے ہو کر ہل رہے تھے باجی نصرت کا جسم تھوڑا چوڑا تھا باجی نصرت کی چوڑی گانڈ باہر کو نکلی ہوئی تھی باجی کے سونے سے باجی نصرت کا قمیض آگے شلوار سے ہٹا ہوا تھا باجی نصرت کا گورا چوڑا سینہ چمک رہا تھا میں نے باجی نصرت کے جسم کو فوکس کیا تو باجی نصرت کا پورا جسم تصویر میں آگیا میں نے کلک کرکے تصویر محفوظ کر لی مجھے بھی جلدی تھی کہ کہیں باجی جاگ نا جائے اور اپنی بہنوں کی تصویریں اسامے کو دے کر پیسے لینے کی بھی جلدی تھی اسی کشمکشِ میں نے جلدی سے چار پانچ تصویریں بنائیں اور میں نے موبائل جلدی سے جیب میں ڈالا میرے پسینے چھوٹے ہوئے تھے میں جلدی سے باہر نکلا تو امی کیچن میں ہی تھی میں جلدی سے باہر نکلا تو دیمی مجھے دیکھ کر بولا کی بنیا میں بولا بن گئیاں ہم دونوں جلدی سے بیٹھک پہنچے اسامہ بھی بے صبری سے انتظار کر رہ تھا اس نے مجھ سے موبائل لے لیا اور کھول کر دیکھا تو باجی نصرت کی سیدھی لیٹی تصویریں دیکھ کر وہ مچل گیا میں اسے دیکھ رہا تھا کہ اب یہ پیسے دے گا کہ نہیں کہیں دا نا لگا جائے مجھے امید تھی کہ دے گا اس نے دیکھا تو ساری تصویریں ایک ہی طرح کی تھیں وہ باجی نصرت کا جسم اور تنے ہوئے ممے دیکھ کر ہائئئئے نصصصررتتت تیرے اس جسم دا تے میں دیوانہ افففف اور موبائل پر ہی میری بہن کا جسم چوم لیا اور بولا واہ بہزاد تیری بھین دا تے جسم آگ لا دیندا قسمیں یار نصرت تے بہوں سوہنی اے اے کدی مینوں مل جائے تے تیری عیش کروا دیساں میری تو اتنی ابھی سوچ نہیں تھی اس نے مجھے پچاس نکال کر دیا میں تو زیادہ کی امید میں تھا اس نے مجھے دیکھا اور ہنس کر بولا جانی اے تصویر ہک اینگل دی اے نیڑے توں تصویراں بنا کے لئے آ تاں چس اسی پیسے وہ ڈھیر ملسن میں بولا اچھا بھائی پتا ناہ ہنڑ مڑ بنا لیاندا اسامہ بولا دیمی جاندا اے تیرے گھر میں نے ہاں میں سر ہلایا وہ دیمی کو فون دے کر بولا جا دیمی اس نوں سکھا کہ تصویراں کنج بنڑدیاں دیمی نے اچھا کہا اور موبائل جیب میں ڈال کر ہم گھر کی طرف آگئے دروازے سے امی نکل رہی تھی امی بولی بہزاد میرے آنڑ تک گھر ہی رہویں میری جان میں جان آئی کہ امی نکل گئی اب کام سوکھا ہوگا میں نے چیک کرنے کےلئے اندر جھانکا تو باجی ابھی تک سو رہی تھی میں نے دیمی کو اندر بلایا وہ آیا تو باجی اسی طرح ممے نکال کر سیدھی لیٹی تھی دیمی نے پہلی تصویر بالکل باجی نصرت کے چہرے اور مموں کی بنائی دوسری اس نے پوری تصویر لی تیسری اس نے باجی نصرت کے گورے سینے کی بنائی باجی کا گورا چہرہ چمک رہا تھا دیمی نے مجھے دیکھا اور میرے قریب آ کر بولا بہزاد باہر جا کے دھیان رکھ میں بولا اچھا اور باہر نکل کر مجھے خیال آیا کہ دیکھوں تو سہی تصویریں کس طرح بنتی ہیں میں اندر جھانکا تو سامنے کا منظر دیکھ کر میں چونک گیا دیمی تصویریں نہیں بنا رہا تھا وہ باجی نصرت کے اوپر جھکا اور باجی نصرت کی گوری گال پر منہ رکھ کر باجی نصرت کی گال کو چوم لیا یہ دیکھ کر میں چونک گیا اس نے ہلکی سی چمی لی تھی جس سے باجی ہلی نہیں دیمی نے باجی کو ہلتا نا پایا کر ایک لمحے انتظار کیا اور پھر جھک ہر اپنے ہونٹ باجی نصرت کے ہونٹوں پر رکھ کر باجی نصرت کے ہونٹوں کو چوم لیا یہ دیکھ کر میرے جسم میں بھی آگ سی لگ گئی تھی دیمی کو باجی نصرت کے ساتھ مستیاں کرتے دیکھ کر مزہ آ رہا تھا باجی نصرت کے ہونٹوں کو چوم کر وہ پیچھے ہوا باجی گہری نیند میں تھی جس سے وہ ہلی ہی نہیں باجی کو بے سدھ دیکھ کر اس کا حوصلہ بڑھ گیا اس نے زبان نکال کر منہ نیچے کیا اور باجی نصرت کی گال کو ہلکا سا چاٹ لیا یہ دیکھ کر میں مستی سے مچل گیا دینی نے دو تین بار باجی نصرت کی گال کو چاٹا اور پھر اوپر زبان باجی نصرت کے ہونٹوں پر پھر کر ہونٹ چاٹنے لگا میں ہکا بکا سب دیکھ رہا تھا مجھے پہلے اس چیز کا پتا نہیں تھا پر یہ تو دیکھنے میں بہت مزہ تھا دیمی نے دو تین زبان پھیری اور پھر باجی کے ہونٹوں کو چوم لیا باجی نصرت کے ہونٹ سونے سے ہلکے سے کھلے تھے دیمی اوپر ہوا اور ہونٹوں کو گول کیا اور ایک بڑی سی تھوک سیدھی باجی نصرت کے ہلکے سے کھلے ہونٹوں میں پھینکی جو سیدھی باجی نصرت کے ہونٹوں سے باجی نصرت کے منہ میں چلی گئی میں باجی کے منہ میں دیمی کی تھوک جاتا دیکھ کر مچل گیا دینی اوپر ہوا تو اتنے میں دینی تھوک باجی کے گلے میں اتر گئی باجی نے سوتے میں ہی سر ہلایا اور گھونٹ بھر کر دینی کی تھوک نگل لی میں یہ دیکھ کر مچل گیا دینی نے ایک دو منٹ انتظار کیا اور پھر باجی کی نیند پکی ہونے پر منہ نیچے کرکے باجی نصرت کا گورا سینہ چوم لیا میں تو اب مزے سے بڑی مشکل سے کھڑا تھا دیمی نے اوپر سے باجی نصرت کے موٹے ممے ہلکے سے چوم لیے اور ایک بڑی سی تھوک باجی نصرت کے سینے پر پھینک کر ہاتھ سے سینے پر مل دی میں یہ دیکھ کر مچل گیا دینی کو تو سب پتا تھا اس نے بے اختیار سینے پر ہاتھ پھیر کر باجی نصرت کے ایک موٹے مممے کو ہاتھ میں گکگ دبا کر پکڑا تو باجی کانپ گئی میں ڈر گیا دیمی بھی ڈر گیا اور جلدی سے نیچے بیٹھ گیا باجی نے انگڑائی بڑی اور اپنا سینہ اوپر کو اٹھایا لیکن باجی کی آنکھیں بند رہیں دیمی نے باجی نصرت کے اٹھے سینے کی بھی جلدی سے تصویر کھینچ لی جس سے باجی نصرت کی انگڑائی اور اٹھے ممے موبائل میں قید ہو گئے اسی لمحے باجی نصرت نے اپنی سائیڈ تبدیل کی جس سے باجی نصرت کی موٹی گانڈ باہر کو نکل آئی باجی نے کسی ہوئی شلوار ڈال رکھی تھی جس میں سے باجی نصرت کے موٹے چوتڑ باہر کو نکلے نظر آ رہے تھے جبکہ باجی نصرت کی شلوار باجی نصرت کی گانڈ میں پھسی تھی اور باجی نصرت کی گانڈ کا چیر شلوار سے واضح ہو رہا تھا باجی کے گھومنے سے باجی کا قمیض تھوڑا اوپر ہوا اور باجی کا گورا جسم نظر آنے لگا جسے دیکھ کر دینی نے گھونٹ بھرا اور ہونٹوں پر زبان پھیر کر پیچھے آیا اور باجی کی باہر کو نکلی گانڈ کی تصویر کھینچی جسے دیکھ کر میں مچل گیا پھر یمی نے باجی نصرت کی موٹی گانڈ کے چیر میں پھسی شلوار سے نظر آتے چیر کی بھی دیمی نے دو تین تصویریں لیں اور باجی کی گانڈ کے قریب ہو کر باجی کی گانڈ پر ہاتھ لگا باجی ہلی نہیں تو اس نے جھک کر باجی نصرت کے موٹے چوتڑ کو چوم لیا دیمی کا انداز میرے اندر آگ لگا رہا تھا مجھے پتا ہی نا چلا میرا لن تن کر کھڑا ہوچکا دیمی نے دو تین بار باجی نصرت کی گانڈ کو چوما اور پھر اپنا ناک آگے باجی کی گانڈ کے چیر کے قریب کرکے سونگھنے لگا پھر اس نے زبان نکال کر باجی نصرت کے چڈوں کے قریب کر کے شلوار کے اوپر سے ہی پھیری میں یہ سب دیکھ کر حیرانی سے ہکا بکا تھا دیمی پیچھے ہوا تو اس کی نظر مجھ پر پڑی میں اسے اپنی بہن کے ساتھ چھیڑ خوانی کرتا دیکھ رہا تھا مجھے ہکا بکا دیکھ کر وہ گھبرایا نہیں بلکہ شرارتی انداز میں مسکرا کر پیچھے ہوا اور مجھے دیکھ کر باجی کی گانڈ پر ہاتھ پھیر کر میری طرف چل پڑا دیمی باہر آیا تو میں نے پوچھا اوئے باجی نوں کیوں چھیڑ رہیا ہائیں وہ مسکرایا اور بولا بس یار مزہ بڑا آندا اے انج چھیڑنے نال میں بولا میری بھین ہئی وہ بولا تے وت کی ہویا میں وی تے اپنی بھین نوں اتنا چم لیندا آں میں یہ سن کر ہکا بکا ہوگیا اور بولا او کیویں بھیناں نال تے انج نہیں کریندا وہ بولا کیوں نہیں کریندا میں بولا او تے بھیناں کے ہوندیاں وہ بولا کنجرا سواد ہی بھیناں نال آندا اے میں بولا بک بک نا کر وہ بولا قسمیں کرکے تے ویکھ میں چونک کر بولا نہیں نہیں اے ٹھیک نہیں وہ ہنس کر بولا ہلا اور آگے ہاتھ لگایا تو میرا نیم کھڑے لن کو کو ٹٹولا جس سے میں چونک کر سسک گیا وہ ہنس دیا اور بولا توں تے اکھ رہیا ہائیں کہ اے غلط ہوندا تے اے کی اے میں چونک گیا وہ بولا کجھ نہیں ہوندا یار مزہ بڑا آندا میں بولا یار توں باجی نال غلط کیتا اے وہ بولا اسامے نوں تصویراں دینا صحیح ہے میں بولا اچھا اس تے پیسے دینے وہ ہنس دیا ور بولا جناب دا مطلب میں وی پیسے دیواں میں چپ ہوگیا اس نے ہنس کر جیب میں ہاتھ ڈالا اور بیس نکال کر بولا کو جناب 20 روپے آج دے میں بیس روپے دیکھ کر چونک گیا میرا دل مچل سا گیا 20 دیکھ کر میں نے جلدی سے 20 پکڑ کر جیب میں ڈال لیے اور بولا ہنڑ ٹھیک اے وہ ہنس دیا اور بولا کی خیال اے باجی نوں چھیڑ لئے میں بولا پاگلا باجی ہے تے اس نوں پتا لگ گیا تے مار دیسی گئی وہ بولا کجھ نہیں ہوندا میں وی تے کیتو دل تو میرا بھی کر رہا فھا پر ڈر بھی لگ رہا تھا مجھے دیکھ کر اس نے میرا ہتھ پکڑا اور بولا ہولی کے ہونٹ لا کے چم لئے میں یہ سن کر گھونٹ بھرا تو اس نے مجھے اندر کھینچ لیا باجی نصرت ایسے ہی سو رہی تھی ایک سائیڈ منہ کرکے میں چلتا ہوا قریب گیا اور نیچے بیٹھ گیا باجی نصرت کی گہری سانسوں سے نکلتا گرم سانس میرے منہ پر پڑ کر مجھے نڈھال کرنے لگا میں کراہ سا گیا مجھ سے رہا نا گیا میں نے بے اختیار منہ آگے کیا اور باجی نصرت کی پھولی ہوئی نرم گال پر ہونٹ رکھ کر چوم لیا باجی کی نرم گال کا لمس محسوس کرکے میرے اندر ایک سرور سا اتر گیا میں بے اختیار سکک کر باجی نصرت کی نرم گال چومتا گیا مجھے عجیب سا نشہ آ رہا تھا جس سے میں تڑپ گیا تھا میرا جسم کانپنے لگا تھا اور سانسیں تیر ہو گئیں باجی بے سدھ پڑی تھی میں نے بے اختیار زبان نکال کر باجی نصرت کی گال چاٹ لی اور پیچھے ہوگیا میں مزے سے کانپ رہا تھا میری تھوک باجی نصرت کی گال پر چمک رہی تھی باجی نصرت کے ہونٹوں کو دیکھ کر مجھے سے رہا نا گیا میں نے بے اختیار منہ آگے کیا اور باجی کے نرم ہونٹوں کو چوم لیا باجی تھوڑا سا ہلی تو میں ڈر سا گیا اور جلدی سے اٹھ کر باہر کی طرف بھاگ گیا دینی بھی باہر نکل گیا باجی کافی تو نہیں بس ہلی تھی مجھے ہانپتا دیکھ کر بولا سنا مزہ آیا کہ نہیں میں سسک کر بولا یار نا پچھ اس اچ تے بڑا سواد اے باجی نوں چھڑنے دا وہ بولا ہلے ہور وی مزہ آئے گا چل چلیے ہم وہاں سے نکلے اور اسامے کی طرف آگئے اور اسے باجی کی تصویریں دکھائی وہ باجی نصرت کو دیکھ مچل گیا اور باجی نصرت کو چومنے لگا میں اسے باجی کو چومتا دیکھ رہا تھا مجھے اس سے کوئی غرض نہیں تھی مجھے بس پیسے چاہئیں تھے وہ باجی کو پہلی بار دیکھ رہا تھا باجی ہمیشہ برکے میں رہتی تھی اس نے باجی کی شکل پہلی بار دیکھی تھی جس سے وہ مچل گیا تھا اور باجی کو دیکھ کر شلوار میں ہاتھ ڈال کر اپنا مسل رہا تھا میں اسے دیکھ کر مچل رہا تھا وہ شاید باجی کو دیکھ کر مٹھ مار رہا تھا مٹھ کا ہمیں پتا تھا کلاس کے بڑے لڑکے اکثر اس پر بات کرتے تھے اسمے کو مٹھ مارتا دیکھ کر ہم بے قرار ہو رہے تھے اس نے ہمیں دیکھا اور مسکرا کر مجھے باجی نصرت کی تصویروں کا100 روپے دے دئیے میں یہ دیکھ کر مچل گیا اسامہ مجھے پیسے دے کر باجی کی تصویریں دیکھ کر اپنا موٹا لمبا لن باہر نکال کر مسلنے لگا میں اسے دیکھ رہا تھا اسامہ ہنسا اور بولا تیرا کم ہوگیا توں جا ہنڑ میں سمجھ گیا کہ اب اسامہ باجی نصرت کے جسم کو دیکھ کر مٹھ لگائے گا یہ سوچتے ہم دکان پر اگئے دکان پر آکر ہم نے کچھ کھایا پیا اور باقی بچے پیسے میں نے دینی کو دے دئیے دیمی پیسے محفوظ رکھتا تھا اگر میں پاس رکھتا تو پکڑے جانے کا خطرہ تھا میں گھر آیا اور پڑھائی کے بعد میں اپنی روٹین میں رہا اگلے دن پھر سکول سے واپسی پر میں کھانا کھا کر کچھ دیر لیٹ گیا باجی نصرت اور سعدیہ پھر سو گئیں میں نکلا اور سیدھا اسامے کی طرف چلا گیا وہاں دیمی پہلے سے موجود تھا اسامہ مجھے دیکھ کر خوش ہوا اور بولا آ او شہزادے تیرا کی حال ہے میں بولا میں فٹ کچھ دیر باتیں ہوتی رہیں اسامہ باجی نصرت کی تعریف کرتا رہا کہ تیری بہن بڑی سوہنی ہے کچھ دیر بعد اس نے مجھے فون دیا اور بولا بہزاد آج کدی اپنی بھین نصرت دے جسم دے کسے ننگے حصے دی تصویراں لئے آ تینوں منہ ننگیاں انعام دیساں میں بولا کتنا وہ بولا چل توں دس میں بولا 500 میں نے ایسے ہی کہ دیا تھا مجھے امید نہیں تھی اس نے کہا چل ٹھیک ہے یہ سن کر میرے تو طوطے اڑ گئے کہ 500 ملے گا میں تو آج تک 500 کا نام سنا تھا دیکھا نہیں تھا آج 500 ملے گا کا سوچ کر میں تو ہواؤں میں اڑنے لگا تھا لیکن میں نے سوچا کہ باجی کو ننگا کیسے کروں گا میں نے سوچا چل جو ہو گا دیکھیں گے میں نے موبائل لیا اور گھر کی طرف چل دیا میں جیسے ہی اندر داخل ہوا تو باجی سیدھی لیٹی تھی میری نظر پڑی تو باجی نصرت کے پیٹ سے کافی سارا کپڑا ہٹا ہوا تھا جس کو دیکھ کر میں چونک گیا باجی نصرت کا گورا پیٹ ننگا تھا باجی نصرت کی دھنی صاف نظر آ رہی تھی باجی نصرت کی دھنی تھوڑی گہری تھی میں یہ دیکھ کر مچل گیا میں نے فون ان کیا اور باجی نصرت کے ننگے پیٹ کی دو تین تصویریں بنائیں اور ایک پورے جسم کی تصویر بھی لی باجی نصرت کا ننگا پیٹ مجھے نڈھال کر رہا تھا میں مزے سے مچل رہا تھا مجھ سے رہا نہیں گیا میں باجی کے جسم کے قریب بیٹھ گیا اور غور سے جسم دیکھنے لگا میری سانسیں تیز ہو رہی تھیں میں نے چیک کرنے کےلیے باجی نصرت کے ننگے گورے پیٹ پر ہاتھ لگایا باجی نے کوئی حرکت نا کی میں نے بے اختیار آگے ہو کر باجی نصرت کے پیٹ کے قرب منہ کیا اور اپنے ہونٹوں سے باجی نصرت کے پیٹ کو چوم لیا جس سے میں باجی کا نرم پیٹ محسوس کرکے مچل کر کراہ گیا مجھ سے رہا نہیں جا رہا تھا میرے اندر آگ لگی تھی اتنی چھوٹی عمر میں بھی میرے اندر آگ بھری تھی میں نے زبان نکال کر ہلکا سا پیٹ چاٹ لیا باجی کی سسکی نکلی میں جلدی سے پیچھے ہوکر چارپائی کے نیچے ہوگیا باجی نے سر ہی ہلایا تھا میں اوپر ہوا تو باجی ایسے ہی پڑی تھی میری جان میں جان آئی باجی گہری نیند سوتی تھی میں اوپر ہوا مجھے شرارت سوجھی میں نے باجی نصرت کے پیٹ کی گہری دھنی کو دیکھا اور قریب ہوکر ایک تھوک باجی نصرت کی دھنی کے اندر پھینک دی جس سے باجی نصرت کی دھنی میری تھوک سے بھر گئی اور باجی کے گورے پیٹ کی دھنی میرے تھوک سے بھری چمکنے لگی کیا ہی منظر تھا مجھ سے رہا نا گیا میں نے بے اختیار نیچے ہوکر باجی نصرت کے پیٹ کو چوم لیا اس بار میرے ہونٹ زیادہ دب گئے جس کو باجی نے محسوس کرلیا اور باجی کو کرنٹ سا لگا جس سے باجی نصرت ہلی میں جلدی سے پیچھے ہوکر چارپائی کے نیچے لیٹ گیا میرا تو دل ڈوب گیا کہ باجی کو پتا نا لگ جائے باجی ہلی اور گھوم کر دوسری طرف منہ کر لیا میں کچھ دیر پڑا رہا اور پھر نکلا التو باجی مست پڑی تھی میں اٹھا تو باجی اسی طرح گانڈ نکال کر پڑی تھی جس سے باجی نصرت کے موٹے چوتڑ باہر کو نکل کر کھل سے گئے تھے باجی نے گھٹنے سینے سے لگا رکھے تھے میں جیسے ہی پیچھے کی طرف آیا تو باجی نصرت کی باہر کو گانڈ کو دیکھ کر میرے تو پاؤں نیچے سے زمین نکل گئی باجی نے اپنی گانڈ اٹھا رکھی تھی باجی نصرت آج کسی پرانے سوٹ میں تھی کیونکہ ہمارے حالات اچھے نہیں تھے اس لیے باجی لوگ اکثر پرانے ہی کپڑے استعمال کرتی تھیں گھر میں باہر جانے کےلیے ایک دو ہی سوٹ تھے جو وہ خیال سے رکھتی تھیں باجی نصرت کی شلوار درمیان سے کافی ادھڑی ہوئی تھی جس سے شلوار میں بڑا سا کھپا تھا اور وہاں سے باجی نصرت کی باہر کو نکلی گانڈ کی گلابی موتی اور باجی نصرت کی پھدی کا نیچے والا حصہ کافی سارا نظر آرہا تھا میں تو یہ دیکھ کر تڑپ گیا باجی نصرت نے اپنی گانڈ باہر کو نکال رکھی تھی جس سے باجی نصرت کی پھدی کے آپس میں ملے ہونٹ اور باجی نصرت کی پھڈی کا گلابی دہانہ صاف نظر آ رہا تھا یہ دیکھ کر میں کانپ گیا تھا میرے ذہن میں اسامے کی بات گونجی پانچ سو والی میں نے اپنے پانچ سو کےلیے اپنی بہن کی عزت نیلام کرنے کےلیے سوچا بھی نہیں کہ یہ میری عزت ہے میں نے جلدی سے موبائل نکالا اور کیمرہ آن کرکے باجی نصرت کے پیچھے حصے پر فوکس کرکے اچھی طرح تصویریں بنا کر باجی نصرت کی پھدی اور گانڈ کو صحیح طرح سے کیمرے میں فوکس کیا اور باجی نصرت کی پھڈی اور انڈ میں اچھی طرح تصویریں لیں میرا ذہن اپنی سگی بہن نصرت کو ننگا دیکھ کر ماؤف ہو چکا تھا میں کراہ کر سسک رہا تھا میرا دل کیا کہ دیکھوں تو سہی یہ سب کیسی ہوتی ہیں میرے ذہن میں کل والی دیمی کی حرکت تھی میں بے اختیار باس بیٹھ گیا اور اپنی ناک باجی نصرت کی گانڈ کے قریب کرکے سونگھ لیا جس سے عجیب سا مشک میرے ناک کو چڑھ گیا میں مچل گیا اور دو تین بار باجی نصرت کی گانڈ کو سونگھ کر منہ آگے کیا اور باجی نصرت کی گانڈ کا ننگا حصہ چوم لیا باجی ہلی میں جلدی سے پیچھے ہو گیا باجی پھر اپنی نیند میں چلی گئی میں نے بے اختیار انگلی باجی نصرت کی گانڈ اور پھدی پر رکھ کر ہلکی سے گھمائی تو باجی کی نرم پھدی سے رستا پانی میری انگلی میں لگ گیا جس سے باجی نے سسکی بھری اور ہلنے لگی میں جلدی سے پیچھے ہوا اور باہر نکل گیا باجی نصرت کی پھدی کا پانی میری انگلی پر لگا تھا میرے ذہن پر باجی نصرت کی گانڈ اور پھدی کے مشک کا نشہ چڑھا ہوا تھا میں نے بے اختیار انگلی کو سونگھا تو وہی خوشبو تھی میں نے بے اختیار مچل کر زبان نکال کر اپنی بہن کی پھدی کا پانی چاٹ لیا باجی نصرت کی پھدی کا نمکین پانی چکھ کر میں مچل گیا ایک کرنٹ سا میرے اندر اتر گیا باجی کی پھدی کا نمکین پانی میرے اندر اتر کر مجھے نڈھال سا کر گیا میں سسک کر مچل گیا میرا لن فل تن کر کھڑا تھا میں نے لن نیچے ہونے کا انتظار کیا اور سیدھا اسامے کی بیٹھک پر پہنچا اسامہ میرا ہی انتظار کر رہا تھا میں نے اسے موبائل دیا وہ بولا کوئی ول بنا لیا ہیں میں ہنس کر بولا ویکھ تے سہی یہ سن کر اس نے تصویریں دیکھنے لگا باجی نصرت کا ننگا پیٹ دیکھ کر وہ مچل کر اففف میری جان نصرتت کیا سوہنا پیٹ ہے تیرا اور باجی کے ننگے پیٹ کی تصویریں کلوز کرکے دیکھ کر مچل رہا تھا آگے باجی نصرت کی ننگی گانڈ اور پھدی کی تصویر آئی تو اسامہ اچھل گیا اور مجھے دیکھ کر بولا اے کی میں ہنس دیا اور بولا بھائی آپ ہی تے آکھیا ہایا ننگی تصویروں لئے ا آج موقع مل گیا تے میں لئے آیا وہ بولا اففف بہزادی میں مر جاواں اور باجی نصرت کی پھڈی کی پکچرز کلوز کرکے دیکھنے لگا جس سے وہ مچل کر سسکنے لگا میری بہن کی ننگی پھدی اور گانڈ اسے نڈھال کر رہی تھیں کمرے میں اندھیرا تھا اس لیے پکچرز تھوڑی دھندلی تھیں پر اسامے کےلیے یہ ہی بہت تھا وہ بولا اففف بہزادی اے کیویں لیاں نی میں بولا باجی دی شلوار پاٹی ہوئی ہا تے اگے ہی ننگی ہا میں بس لئے لیاں وہ بولا کیوں آپ پاڑہ ہایا میں بولا نہیں آگے ہی پاٹی ہوئی ہا وہ بولا کیوں میں بولا پتا نہیں پتا ے کپڑے اس پائے ہوئے ہانڑ وہ بولا اففف یار تیری بھین نصرت دی پھدی تے سواد دیسی اور پھدی کو دیکھتا ہوا اپنا کہنی جتنا لن نکلا کر مسلنے لگا میں اور دینی اسے دیکھ رہے تھے اس نے رک کر اپنی جیب سے پیسے نکال کر بولا بہزادی توں تے مینوں خوش کیتا ہے میں وی تینوں خوش کرساں اور ہزار روپیہ مجھے پکڑا دیا یہ دیکھ کر میں تو خوشی سے اچھل گیا باجی نصرت کی پھدی کی تصویر دکھنے پر ہزار روپیہ مل گیا میری تو خوشی سے جان ہی نکل رہی تھی میں نے جلدی سے پیسے پکڑ اور مچل گیا ہزار کا نوٹ ہاتھ میں پہلی بار پجڑ کر مجھے امیدوں جیسی فیلنگ آنے لگی اسامہ بولا چلو ہنڑ جاؤ میں اور دینی جلدی سے باہر نکل آئے دیمی بولا واہ یار توں تے پہلے دن ہی امیر ہو گیا ایں میں ہنس دیا وہ بولا سچی دس باجی نصرت دی شلوار آگے ہی پاٹی ہوئی ہا میں بولا ہور کی وہ بولا بہزادی ہک گل منسیں میں بولا کی وہ بولا یار مینوں وی ویکھن دے چا باجی دی پھدی مجھے تو پیسوں کی لے لگ چکی تھی میں بولا مفتی ہی ویکھا دیواں وہ بولا بڑا بھین چود ہیں یار میری وجہ تو ہی توں پیسے کما رہیا ایں اتنی جلدی میری لاٹری نہیں لگی جتنی جلدی تیری لگ گئی میں بولا چل یار ویکھ لئے پر صرف ویکھنا ہورکجھ نہیں کرنا وہ بولا یار کے ہور کجھ کراں تے اس دے پیسے دیساں گیا ہنڑ راجی ہیں میں ہنس دیا اور بولا چل سہی اے اور ہم دونوں گھر کی طرف چل دئیے گھر کی طرف پہنچ کر میں نے جائزہ لیا تو امی چھت پر تھی وہاں کپڑے دھونے لگی تھی ہم اندر کمرے میں گئے تو باجی نصرت اسی کروڑ لیٹی تھی اور باجی نصرت نے اب گھٹنے سینے سے لگا رکھے تھے جس سے باجی نصرت کی گانڈ اور پھدی مزید کھل کر پھٹی شلوار میں سے نظر۔ رہی تھی یہ دیکھ کر دیمی مزے سے مچل گیا اور گھونٹ بھر کر رہ گیا اس نے حیرانی سے مجھے دیکھا اور مسکرا کر باجی نصرت قریب کھڑا ہوگیا جس سے باجی نصرت کی پھدی اور گانڈ اسے صاف نظر آنے لگی میں یہ منظر دیکھ کر مچل رہا تھا اس نے باجی نصرت کی گانڈ کو ہاتھ لگایا اور اپنی انگلی باجی نصرت کی ننگی گانڈ کی گلابی موری پر پھیر کر چیک کیا باجی نہیں ہلی تو اس نے انگلی دو تین بار باجی نصرت کی ننگی گانڈ اور پھدی پر پھیری پھر وہ نیچے جھکا اور قریب ہوکر باجی کی گانڈ اور پھدی کو سونگھنے لگا جس سے وہ مچل گیا دینی کو اپنی کی ننگی گانڈ اور پھدی سونگھتا دیکھ کر میں مچل سا گیا اس نے بے اختیار زبان نکالی اور باجی نصرت کی پھدی کے گلابی دہانے پر زبان کی نوک رکھ کر باجی نصرت کی پھدی کا دہانہ چاٹ لیا جس سے وہ سسک گیا ساتھ ہی باجی نصرت بھی سسک کر کانپ گئی اور آپ بھر کر اپنے گھٹنے مزید سینے سے جوڑ لیے دیمی اوپر ہو گیا اور ایک لمحے کےلئے رک کر منہ نیچے کیا اور گانڈ کے قریب لے جا کر باجی نصرت کی گانڈ کی موری پر ہونٹ رکھ کر چوم لیے اور پھر گانڈ کو چوم کر آگے باجی نصرت کی پھدی کا گلابی دہانہ بھی چوم لیا میں یہ دیکھ کر سسک گیا دیمی اوپر ہوا اور باجی کے منہ کی طرف جا کر باجی نصرت کا گال بھی چوم کر میری طرف بڑھا میں اسے دیکھ رہا تھا کہ وہ بس کر گیا ہو وہ میرے پاس آیا اور جب سے 500 کا نوٹ نکال کر مجھے تھما کر بولا بہزاد باہر دا دھیان رکھ میں باجی نصرت دی پھدی ویکھ کے مٹھ مارنی ہے میں تو دیمی کے ہاتھ سے 500 پکڑ کر ہکا بکا کھڑا تھا اتنی جلدی اتنے پیسے آئیں گے میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا وہ مجھے دیکھ کر بولا کی ہویا ہنڑ تے پیسے ایڈوانس دے دتے ہنڑ وی کوئی اعتراض میں ہنس کر بولا نہیں اور مڑ کر باہر نکل گیا باہر کوئی نہیں تھا میں نے سوچا دیکھوں تو سہی دیمی باجی نصرت کے ساتھ کیا کرتا ہے یہ سوچ کر اندر جھانکا تو دیمی شرٹ اور شلوار میں تھا اس نے شلوار کھول کر نیچے گرا دی تھی اس کا موٹا لیکن تھوڑا لمبا لن باہر اس کے ہاتھ میں تھا جس سے وہ باجی نصرت کی پھدی دیکھ کر مسل رہا تھا میں دینی کا ننگا پن باجی نصرت کی ننگی گانڈ کے سامنے دیکھ کر مچل گیا تھا دیمی لن مسلتے ہوئے تھوک منہ سے انگلی پر نکالی اور باجی نصرت کی گانڈ اور پھدی پر مل دی باجی نصرت کی گانڈ اور پھدی پر دیمی کی تھوک چمکنے لگی میں یہ دیکھ کر مچل گیا باجی نصرت کی گانڈ بالکل چارپائی کے کنارے تک آئی ہوئی تھی دیمی نے باجی کو دیکھا اور آگے ہوکر اپنا لن باجی نصرت کی گانڈ کے چیر میں دے پر باجی نصرت کی گانڈ کی موری کے اوپر رکھ کر مسل دیا جس سے دینی سسک کر مچل گیا اور رک گیا باجی کی قدرتی ہی نیند بہت گہری تھی اسے اٹھانا ہوتا تو بہت شور اور ہلا جلا کر اٹھانا پڑتا تھا باجی نصرت دیمی کے لن کو محسوس کرکے بھی ہلی نہیں میں دیمی کا پن اپنی بہن کی ننگی گانڈ میں دیکھ کر مچل رہا تھا دیمی نے سسک کر لن مسلا اور دبا کر لن گانڈ پر رکھ آگے پھدی کی طرف دھکیل دیا جس سے دینے کے لن کا ٹوپہ باجی نصرت کی پھدی کے دہانے اوپر پہنچ گیا دیمی نے سسک دو تین بار لن باجی نصرت کی پھدی کے اوپر دبا کر مسلا اور سسک کر کراہ گیا اور پیچھے ہوکر اپنی تھوک باجی نصرت کی پھدی کے گلابی دہانے پر مل دی باجی کی گاڈ باہر کو نکلنے سے پھدی کا دہانہ ہلکا سا کھلا تھا دیمی نے دونوں انگلیوں باجی نصرت کی پھدی کا دہانہ کھول کر دیکھا اور قریب ہو کر ایک تھوک باجی نصرت کی پھدی کے اندر پھینک دی جو باجی نصرت کی پھدی کے اندر چلی گئی اوپر سے دیمی نے انگلی دبا کر ہلکی سی پھدی کے دہانے میں داخل کر دی انگلی پھدی میں جاتے ہی باجی سسک کر کانپ گئی دیمی رک گیا دیمی کہ انگلی کا ایک پوٹا باجی نصرت کی پھدی میں اتر چکا تھا جسے باجی نصرت کی پھدی کھلتی بند ہوتی دبا رہی تھی باجی بس ہلی اور ہل کر رک گئی دیمی بھی کچھ دیر رکا رہا وہ تو پورا کھلاڑی تھا باجی جب واپس گہری نیند میں گئی تو دیمی نے اپنا زور لگا کر انگلی دوبارہ پھدی کے اندر دبا دی جس سے آہستہ سے دیمی کی انگلی کے دو پوٹے اندر چلے گئے سا تھ ساتھ ہی باجی نصرت کی سسکی نکلی اور وہ کانپ کر اپنی گانڈ کو دبا لیا جس سے باجی نصرت سسک کر گھوم کر سیدھی ہونے لگی باجی کے گانڈ دبانے سے دیمی کی انگلی باجی نصرت کی پھدی میں پھنس گئی نصرت کے گھومنے سے دیمی نے سمجھا کہ باجی جاگ گئی ہے اس نے جلدی سے ہاتھ کھینچنا چاہا جس سے باجی کی پھدی کو مسل کر دیمی کی انگلی باہر نکل آئی انگلی نے نکلتے ہی باجی نصرت کو مزے سے نڈھال کر دیا جس سے باجی کی کراہ نکلی اور باجی سسک کر کراہ گئی جس سے ان کر میں بھی جلدی سے باہر ہٹ گیا اور دیمی جلدی سے چارپائی کے نیچے چلا گیا باجی سیدھی ہو کر لیٹ گئی باجی انگلی کے نکلنے سے مزے سے ایک بار جاگ تو گئی لیکن انگلی کے نکلتے ہی مزہ بھی ختم ہوا تو باجی نے آنکھیں کھول کر ادھر ادھر دیکھا باجی نیند میں ہی تھی اس وقت باجی نصرت کو کچھ سمجھ نا آیا کہ کیا تھا باجی سیدھی ہوکر اپنے پاؤں کھول کر دونوں گھٹنے ہوا میں کھڑے کر سیدھی لیٹ گئی باجی نصرت کی پھدی کا دہانہ بے اختیار کھلنے بند ہونے لگا باجی نے ہاتھ نیچے کرکے آنکھیں بند کرکے اپنی پھدی کو ایک بار مسلا اور منہ دوسری طرف کرکے سو گئی دیمی نیچے ہی لیٹا رہا باجی سعدیہ باجی نصرت کی کراہ سے جاگ گئی اور اٹھ کر باجی نصرت کو دیکھا اور بولی باجی کی ہویا پر باجی گہری نیند میں جا چکی تھی دیمی سانس روکے چارپائی کے نیچے تھا اچھی بات یہ تھی کہ اندھیرا تھا اور دینی نظر نہیں آیا میں بھی پکڑے جانے کے خوف سے ڈر کر بھاگ کر دوسرے کمرے میں چھپ گیا کہ اب جو ہوگا دیمی اکیلا ہی بھگتے گا میں دروازے سے باہر دیکھنے لگا کہ اب شور مچے گا کیونکہ سعدیہ جاگ رہی تھی تھوڑی دیر تک کچھ نا ہوا اور سعدیہ دروازہ کھول کر باہر نکلی اتنے میں امی بھی چھت سے اتری اور بولی سعدو جاگ گئی ہیں وہ بولی جی امی بولی تے نصرت سعدو بولی امی او تے ایڈی جلدی نہیں جاگن آلی امی بولی تے بھرا کدے ہے وہ بولی پتا نہیں امی بولی ہک تے اے چھور وی اج کل غائب رہندا پتا نہیں کدے گیا سعدو بولی امی خیر اے امی بولی ہاں تیرے جانے آل جانا ہے ہمارے ماموں پنڈ کی دوسری نکڑ پر ہی رہتے تھے امی بولی جا فر نایاب نوں سد لیا گھر باجی کوک بہوے میں سمجھ گیا کہ دیمی کا کسی کو نہیں پتا چلا میں نے سوچا کہ نایاب کی بجائے میں ہی گھر آجاتا ہوں امی یہ کہ کر اندر کیچن میں گئی میں نے پسینہ صاف کیا اور اپنی حالت ٹھیک کرکے باہر نکلا سعدیہ واشروم میں تھی میں جلدی سے گیٹ ہلکا سا کھولا اور دو تین منٹ باہر کھڑا رہا اور پھر جلدی سے اندر آگیا امی کیچن سے نکل رہی تھی مجھے دیکھ کر بولی گلیاں ہی پھردا رہندا ایں گھر وی بہ کیاا کر میں بولا کی ہویا امی بولی اسی تیرے مامے آل جاؤں آں نصرت گھر ہلکی تے گھر بہوں میں بولا اچھا اتنے میں سعدیہ اندر سے نکلی وہ ہاتھ منہ دھو کر چادر کے کر امی کے ساتھ جانے کےلیے باہر نکلی میں نے گیٹ بند کیا اور جلدی سے اندر چلا گیا تو دیمی ابھی تکہ چھپا ہوا تھا میں نے اسے پکارا تو اس نے منہ باہر نکالا میں ہنس دیا اور بولا باہر آجا وہ جلدی سے باہر آیا اور بولا یار آج تے بڑے بچے آں میں بولا تینوں ہی شوق ہا وہ بولا یار تیری بھین نصرت تے بڑا سواد دیندی ہے میں بولا ہا وہ بولا ہک گل دس باقی لڑکیا تے ہتھ لگدیاں ہی جاگ جاندیاں باجی نصرت نال اتنا کجھ ہویا اے نہیں جاگی میں بولا باجی دی نیندر بڑی گہری اے اس نوں اکثر امی جھنجھوڑ کے جگاندی اے وہ بولا ہلا توں ہی میں بولا ہک مزے دی گل اے باجی اگر کچی نیند اچ جاگ کے فر دستی ہی سین جاوے تے فر باجی دی نیندر ہور پکی تے گہری ہو جاندی وہ مجھے دیکھ کر بولا نا کر میں بولا ہور کی وہ بولا انج کیویں میں بولا پتا نہیں باجی اچ اے عجیب ہی گل اے وہ بولا کجن ہو سگدا میں بولا ٹرائی کر لئے وہ بولا او کنج میں اسے بولا اندر آ میں اندر گیا اور باجی کو ہلکی سی چٹکی کاٹی تو باجی بس ہلی دوسری چٹکی ہر باجی ہلی بھی نہیں وہ بولا یار سے تے بے ہوش لگ رہی میں بولا انج ہی اے وی بولا ہلا فر پنچ سو تے پورا کروں دے میں بولا کر لئے وہ ابھی شلوار کے بغیر ہی تھا باجی سیدھی لیٹی تھی اور گھٹنے کھول کر ہوا میں کھڑے کر رکھے تھے باجی کے گھٹنوں کا بیلنس ٹوٹ گیا تھا سونے سے اس لیے ایک طرف ہو ڈھلکے ہوئے تھے اس نے مجھے دیکھا اور بولا باجی دی پھدی نال لن ٹچ کرلوں میں بولا یار توں پیسے دتے ہیں جو مرضی کر وہ یہ سن کر ہنس دیا اور باجی نصرت کی چارپائی پر چڑھ کر باجی نصرت کی ٹانگوں کی طرف آکر باجی نصرت کے گھٹنے پکڑ کر سیدھے کر دیے جس سے باجی نصرت کی پھدی کھل کر سامنے آگئی اس نے مسکرا کر مجھے دیکھا اور باجی نصرت کے گھٹنوں کے نیچے سے ہاتھ ڈال کر گھٹنے اوپر اٹھا دئیے جس سے باجی نصرت کے چڈے کھلنے لگے باجی بھی سیدھی لیٹی تھی دیمی آہستہ آہستہ باجی نصرت کے گھنٹے دباتا ہوا گھٹنے باجی نصرت کے پیٹ کے ساتھ لگا دیے جس سے باجی نصرت کے پیر ہوا میں کھڑے ہو گئے اور باجی نصرت کے چڈے کھل کر واضح ہو گئے جس سے باجی نصرت کی پھدی کا دہانہ کھل کر سامنے آگیا میں مزے سے دیمی کو اپنی بہن کے ساتھ کھیلتا دیکھ رہا تھا دیمی نے نیچے ہوکر اپنے ہونٹوں کو باجی نصرت کی پھدی کے اوپر رکھ کر چوم کر زبان نکال کر چاٹ لیا باجی نصرت کی صرف سسک نکلی تو دیمی اوپر ہو کر مجھے دیکھ کر بولا بہزادی باہر دس دھیان رکھیں اور خود اپنے گھنٹوں کے اوپر اٹھ کر اپنا تنا ہوا لن کا ٹوپہ باجی نصرت کی پھدی کے ساتھ لگا کر سسک گیا دیمی کا جسم کانپ گیا اور وہ سسک کر اوپر نیچے ہوکر اپنا لن باجی نصرت کی پھدی سے مسلنے لگا اس نے ایک ہاتھ سے اپنا لن باجی نصرت کی پھدی پر دبا دیا اور آگے پیچھے ہوکر لن باجی کی پھدی پر مسلتا ہوا سسکنے لگا دینی کے سانس تیز ہو رہے تھے اور وہ کراہ کر مچل رہا تھا دیمی اپنا لن باجی نصرت کی پھدی پر ہاتھ سے دبا کر مسلتا ہوا سسکتا ہوا کراہنے لگا دیمی کی مزے سے ہلکی ہلکی آہیں نکل رہی تھی دیمی کا جسم کانپنے لگا ایک مینٹ میں ہی دیمی کرا کر اچھلا اور دینے کے لن کے دہانے سے ایک پانی کی پتلی سی دھار نکلی کر باجی نصرت کی پھدی پر پھیلنے لگی دیمی دوہرا ہو کر کراہتا ہوا فارغ ہوگیا میں نے پہلی بار کسی کو فارغ ہوتا دیکھا تھا میں بھی حیران تھا کہ اسے کیا ہوا وہ دو منٹ تک پڑا رہا باجی نصرت بھی بے خبر پڑی تھی وہ بھی ہلی نہیں دیمی کراہ کر پیچھے ہوا اس کا لن مرجھا گیا تھا اس نے سانس بحال کیاا ور نیچے اتر آیا باجی کے گھٹنے ایک طرف لڑھک گئے تھے اور اس کا پانی باجی کی پھدی پر پھیل سا گیا تھا دیمی نے باجی کے چڈے کھولے اور باجی نصرت کی پھدی پر پڑی اپنی منی سے انگلی بھر لی اور اوپر آکر باجی نصرت کے ہونٹوں پر منی والی انگلی پھری باجی کے ہونٹوں پر دیمی کی منی لگ گئی اس نے پھر باجی کی پھدی پر لگی منی کو انگلی سے اٹھا کالر باجی کے ہونٹوں کو دبا کر کھولا اور اوپر سے منی باجی نصرت کے منہ میں پھینکتا ہوا اپنی انگلی باجی کے منہ میں داخل کرکے ساری منی باجی نصرت کے منہ میں پھیل دی جو باجی نصرت کے منہ میں چلی گئی میں یہ سب دیکھ کر مزے سے نڈھال تھا دیمی بولا افففف بہزادی باجی دی پھدی تے آتے ہی فارغ کروا دتا اندر گیا تے اکا سواد آ جاسی میں بولا اندر وی پانا ہوندا وہ بولا اصل سواد تے اندر ہی آندا میرا کم تے باہر ہی ہو گیا اور شلوار ڈال کر نکل گیا میرا لن بھی تن کر کھڑا تھا میں بھی پیچھے آیا وہ بولا بہزاد توں وی سواد لئے لے میں بولا چولاں نا مار میری باجی ہے اس نے میرا لن پر ہاتھ لگایا جو تن کر کھڑا تھا اور ہنس کر بولا بھین یکا اے تے پھدی منگ رہیا کجھ نہیں ہوندا میرے آر اتے آتے رگڑ لئے اندر نا پائیں میں وی کدی کدی باجی دی پھدی تے لن پھیر لیندا ہاس میں حیرانی سے اسے دیکھنے لگا وہ ہنس کر بولا دیمی اندر نا پائیں اگر پانا وی ہے تے ٹوپے تک پائیں میں بولا کیوں وہ بولا اندر لڑکی دا پردہ ہوندا تے او پھٹ جاسی فر تیری بھین دے پیسے نہیں ملن گے میں یہ سن کر سوچ میں پڑ گیا اور وہ بولا یار آتے آتے پھیر لئے کجھ نہیں ہوندا میں بولا تینوں کس دسیا وہ بولا باجی ہی دسیا اے اور بولا چل میں جاندا اور ہندی کھول کر چلا گیا میں اسے حیرانجمئ سے جاتا ہوا دیکھنے لگا اسوقت اتنا پتا نہیں تھا حیرانی ہی تھی میں دروازہ بند کیا اور اندر کی طرف چل دیا میرے ذہن پر عجیب سا نشہ سوار تھا جس کی مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی باجی نصرت کی پھدی میری آنکھوں کے سامنے تھی میں چلتا ہوا اندر گیا تو باجی اسی طرح پڑی تھی باجی نصرت کے گھٹنے ایک طرف لڑھکے ہوئے تھے میں بھی پاس جا کر کھڑا ہو گیا شہوت سے میرا دماغ ماؤف تھا مجھ سے رہا نا گیا میں نے بے اختیار اپنا لن باہر نکالا اور مسلنے لگا میں نے باجی نصرت کے گھٹنے ہٹا کر پھدی کا نظارہ کرتا ہوا مٹھ لگانے لگا مجھے مزہ ا رہا تھا میں دو منٹ تو مٹھ لگائی مجھے شہوت فل چڑھی ہوئی تھی مجھے خیال آیا کہ دیمی کو باجی کے ساتھ کرکے مزہ آیا تھا میں بھی یہی کرتا ہوں یہ سوچ کر عجیب سا مزہ میرے اندر تک اتر گیا ور میں بے اختیار اپنا قمیض اور شلوار ننگا کرکے فل ننگا ہوکر اپنی سگی بہن نصرت کی ٹانگوں کی طرف چارپائی پر چڑھ آیا میں بالکل ننگا تھا میں باجی نصرت میرے سامنے پڑی تھی میں مزے اور ڈر سے کانپ رہا تھا میرا لن جھٹکے لینے لگا تھا مزے سے میں نے آہستہ سے باجی نصرت کے گھٹنے پکڑے اور ہلکے سے کھول دیے باجی نصرت کی پھدی پر دیمی کا پانی سوکھ رہا تھا میں نے بے اختیار ہاتھ آگے کرکے باجی نصرت کی پھڈی کو چھوا باجی نصرت کی پھدی کے دونوں ہونٹوں ایک دوسرے سے سختی سے ملے تھے صرف پھدی کا گلابی دہانہ ہلکا سا کھلا تھا میں نے گھٹنے نیچے پکڑ کر دینی کی طرح باجی نصرت کے پیٹ سے لگا دیے جس سے باجی نصرت کے چڈے کھل گئے اور باجی نصرت کی پھدی کھل کر سامنے آگئی میں باجی کی پھدی کا کھلا دہانہ دیکھ کر مزے سے مچل گیا میں نے دیمی کی طرح اپنا لن باجی نصرت کی پھدی کے ساتھ ملایا باجی کی پھدی کے لمس سے میں مزے سے سسک کر کراہ گیا میں نے لن پھدی کے اوپر رکھا میرا لن دینی ہے لن سے لمبا اور موٹا تھا میرا چار انچ تک لمبا اور دو انچ تک بڑا تھا میں باجی کے چڈوں میں بڑھ کر باجی کے گھٹنے اٹھا کر پیٹ سے لگا باجی نصرت کی پھدی سے لگا کر اپنا لن باجی کی پھدی پر مسل رہا تھا مزہ تو بہت آرہا تھا میں مزے سے کراہ کر مچل رہا تھا شہوت مجھے بے حال کر رہی تھی میرے ذہن میں دیمی کی بات گونج اوئے پھدی اچ صرف ٹوپہ پائیں یہ سوچ کر میں مچل گیا میرا دل کیا کہ لن اندر تو ڈالوں میں نے بے اختیار سسک کر پیچھے ہوا اور اپنا لن مسل کر باجی نصرت کی پھدی کے دہانے پر رکھا اور ہلکا سا دبا دیا جس سے ٹوپے کی نوک میری بہن نصرت کی پھدی میں داخل ہوئی اسی لمحے باجی کی بھی کراہ نکلی اور باجی ہلی میں جلدی سے پیچھے ہو گیا باجی پرسکون ہوگئی میں دو منٹ رہا اور پھر لن کو گیلا کرکے باجی کی پھدی کے ہونٹ کو پکڑ کر کھول کر اندر تک باجی کی پھدی کو گیلا کیا اور پھر لن باجی نصرت کی پھدی کے دہانے پر رکھ کر باجی نصرت کی پھدی کا دہانہ دونوں ہاتھوں سے کھول کر اپنا لن اندر رکھ دیا دہانہ اتنا ہی کھلا کہ میرے لن کے ٹوپے کا کچھ ہی حصہ اندر گیا میں اپنے گھٹنوں کے بل ہوا اور ہلکا سا زور لگا کر لن باجی نصرت کی پھدی میں دبانے لگا جس سے میرا لن باجی نصرت کی پھدی کا دہانہ کھول کر اندر جانے لگا جس سے باجی نصرت کی بھی آہ نکل کر گونجنے لگی اور باجی نصرت ہلتی ہوئی کراہنے لگی باجی کی نیند بہت پکی تھی میرے لن کا ٹوپہ باجی نصرت کی پھدی میں گھس گیا باجی بھی کرہا کر ہل رہی تھی اور آہیں بھرتی ہلکی ہلکی نیند میں ہی گڑبڑانے لگی مجھے امید تھی باجی نہیں جاگے گی لیکن میں پھر بھی رک گیا باجی کا جسم ہل رہا تھا اور باجی آہیں بھرتی پر سکون ہو گئی میں ایک منٹ رہا رہا باجی نصرت کی پھدی بہت ٹائیٹ تھی پھدی نے میرا لن جکڑ رکھا تھا میں کراہ کر مچل رہا تھا پھدی کے اندر آگ لگی تھی جو میرے لن کو کھینچ رہی تھی میں بھی آگ سے جل رہا تھا مجھ سے رہا نا گیا میں نے بے اختیار لن کو ہلکا سا دبا کر اندر مزید ڈالنے لگا جس سے میرے لن کے ٹوپے سے مزید کچھ حصہ اندر چلا گیا میں حیران ہوا کہ دینی تو کہ رہا تھا کہ لڑکی سیل پیک ہوتی ہے لڑکی کے اندر تو پردہ ہوتا ہے لیکن باجی نصرت کے اندر تو کوئی پردہ نہیں تھا میں نے بے اختیار لن ہلکا سا پش کیا میرا لن اندر جانے لگا میں حیران تھا پردہ تو تھا ہی نہیں دیمی ایسے ہی کہ رہا تھا جیسے لن اندر جا رہا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ پھدی میں آگ کا تندور جل رہا ہو میں مزے سے تڑپ رہا تھا باجی نصرت بھی اب ہلتی ہوئی کراہ رہی تھی میرا آدھا لن باجی نصرت کی پھدی کے اندر چلا گیا تھا کہ اسی لمحے میرا لن آگے کسی رکاوٹ کے ساتھ ٹچ ہوا محسوس ہوا میں وہیں رک گیا میں مزے سے تڑپ کر ہانپ رہا تھا مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میرا لن آگ میں چکا گیا ہوا باجی نصرت کے اندر آگ لگی تھی میرا آدھا لن باجی نصرت کی پھدی کے اندر جا چکا تھا میں مزے سے کانپنے لگا تھا میں سمجھ گیا کہ باجی نصرت کی پھدی کا پردہ ا گیا ہے باجی بھی مسلسل آہیں بھرتی کانپ رہی تھی میں نے لن کھینچا اور آہستہ آہستہ اپنا لن وہیں اندر باہر کرتا ہوا باجی نصرت کی پھدی میں پھیرتا باجی نصرت کو چودنے لگا باجی بھی کراہ کر مچلنے لگی باجی کا پیٹ تیزی سے اوپر نیچے ہونے لگا لن اندر باہر ہونے سے پھدی کی لن پر گرفت اور رگڑ سے میرے ہوش اڑ رہے تھے مزے سے میری حالت خراب تھی ایک آدھا منٹ ہی میں نے لن باجی نصرت کی پھڈی ہے اندر باہر کیا ہوگا کہ باجی نے اونچی کراہ بھری اور درمیان سے اٹھ گئی اسی لمحے مجھے ایسا لگا کہ میرے لن پر کسی نے گرم پانی انڈیل دیا ہو اسی لمحے میری ہلکی سی چیخ نکلی اور میری جان گرم پانی نے کھینچ لی باجی نصرت فارغ ہوکر پانی کی دھاریں میرے لن پر مارتی فارغ ہورہی تھی باجی کی آگ نے میری منی بھی کھینچ اور میں بھی اپنا آدھا لن باجی کی پھدی میں اتارے کراہ کر فارغ ہونے لگا مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میرے ٹانگوں اور جسم سے جان نکل کر لن سے باجی نصرت کے اندر جا رہی تھی عجیب سا نشہ اور سرور مجھے چھایا ہوا تھا میں کراہ کر تڑپتا ہوا فارغ ہورہا تھا باجی نصرت کی پھدی نے میرا لن نچوڑ لیا تھا مجھ سے باجی کی آگ برداشت نا ہوئی اور میں نے لن پیچھے کھینچ لیا باجی نصرت نے غراہٹ بھری اور کانپتی ایک سائیڈ پر ہوکر اپنے گھٹنے سینے سے لگا کر کانپتی ہوئی جھٹکے مارتی ابھی تک فارغ ہو رہی تھی باجی نصرت کی پھدی کا دہانہ پچ پچ کرتا کھلتا بند ہوتا پانی کی دھاریں چھوڑ رہا تھا میں سسک کر کراہتا ہوا گھوما اور ایک طرف ہوکر چارپائی سے نیچے اتر کر لیٹ گیا کہ باجی اٹھے تو میں اسے نظر نا آؤ میں دو منٹ پڑا رہا باجی دو منٹ تک آہیں بھرتی فارغ ہوتی پانی چھوڑ رہی تھی باجی نصرت آہستہ آہستہ آہیں بھرتی ہلکی ہلکی کانپنے لگی باجی نصرت کی پھدی نے اتنا پانی چھوڑا کہ چارپائی سے نیچے گرنے لگا تھا میں یہ سب دیکھ کر حیران تھا کہ باجی نصرت اتنا پانی چھوڑتی ہے میں یہ سب دیکھ کر اوپر ہوا تو باجی ہلکی ہلکی ہانپتی ہوئی گھٹنے سینے سے لگا کر پڑی تھی میں نے اپنے کپڑے اٹھائے اور باہر نکل کر پہن لیے میں ڈر بھی گیا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا تھا اور تھوڑا پریشان بھی ہوا کہ میں نے باجی نہیں دے کے ساتھ یہ سب غلط ہی کیا ہے انہیں سوچوں میں باہر چارپائی پر لیٹ کر سو رہا تھا کہ اتنے میں گیٹ کھڑکا تو مجھے جاگ ہوئی میں نے گیٹ کھولا تو باجی اور امی تھی امی لوگ اندر آئے باجی سعدیہ سیدھی اندر گئی مجھے تھوڑا ڈر لگا کہ کہیں وہ سب دیکھ نا کے دو منٹ میں سعدیہ نے امی کو پکارا امی امی جلدی اندر آویں میں تو ڈر گیا اور سوچنے لگا کہ بچوں اب تو پکڑا گیا باجی نے امی کو بلایا تو امی بولی خیر تے ہے میں جان بوجھ کر اپنے دھیان میں رہا امی اندر گئی میں نے سوچا کہ دیکھوں تو سہی کیا کہتے ہیں میں بھی کان لگا کر کھڑا ہوگیا امی بول رہی تھی نصرت نصرت جاگ جا نصرت ہڑبڑا کر اٹھی امی بولی نصرت پانی نکل گیا تیرا باجی بولی ہلا امی بولی اسدا مطلب حکیم دی دوائی کم کر رہی ہے میں حیران ہوا کیسی دوائی باجی بولی امی حکیم دی دوائی تے کم کیتا پر ہنڑ مینوں کمزوری محسوس ہو رہی امی نیچے ہوئی اور باجی کا امتھا چوم کر بولی میری دھی ہنڑ دس کی کریے کے اے نا کرئیے تے حکیم آکھ رہیا اے نال توں مر جاسیں گئی جدو تک تیری شادی نہیں ہوندی اے تے کرنا پوسی باجی بولی اس دی تے امید کوئی نہیں امی بولی نصرت وت تینوں آکھیا تے ہے کوئی بندہ بنا لئے جس کولو اپنی آگ کڈھا کئی نصرت بولی امی اے میرے کولو نہیں ہوندا اے من نہیں چنگا لگدا امی میری دھی پنڈ دیاں ہور چھوریں وی تے اپنی آگ پنڈ دے چھوراں کولو کڈھیںدیاں ہینڑ تینوں وی کجھ نہیں ہوندا باجی بولی امی پتا نہیں میرے کولو نہیں ہوندا امی بولا ہلا وت اس تے ہی گزارہ کر۔ سعدو باجی کی پھٹی شلوار دیکھ کر بولی باجی اے کی شلوار پاٹی ہوئی ہئی باجی نصرت بولی ہا اے میں آپ ہی پاڑی ہا تا کہ جدو پانی نکلنا ہوے نکل جاوے شلوار لاہنی نا پوے امی بولی ہلا ہنڑ نکل گیا اے پر منجی تے ساری سے چھڈی ہئی ہنڑ کپڑے تبدیل کر لئے باجی بولی ہلا اماں میں کردیںاں مجھے اب ساری بات سمجھ آگئی میری بھی جان میں جان آئی کہ باجی کا پانی کیوں نکلا اتنا یہ ساری آگ تھی جو باہر نکلی تھی اور باجی نے اپنی شلوار بھی خود پانی نکالنے کےلیے پھاڑ رکھی تھی یہ سوچ کر مجھے اطمینان ہوا اور میں باہر نکل گیا میں باہر نکلا تو مجھے دیمی ملا مجھے دیکھ کر ہنس دیا اور بولا سنا باجی دا سواد آیا کہ نہیں میں ہنس دیا اور بولا ن پچھ یار بڑا سواد آیا وہ بولا واقعی اندر تے نہوں پایا میں بولا پایا اے وہ بولا وت میں بولا یار میر تے آدھا لن باجی نصرت دی پھدی دے اندر چلا گیا وہ حیران ہوکر بولا نا کر یار میں بولا تے ہور کی وہ بولا باجی دا پردہ نہیں آیا میں بولا آدھا گیا تے آگو آگیا ہا وہ بولا اس دا مطلب تیری بھین دی پھدی گہری ہے کافی میں ہنس دیا وہ بولا باجی جاگ گئی میں نے ہاں میں سر ہلایا وہ بولا چل میں وی کل ٹرائی کرساں گیا ہم کچھ دیر اکٹھے رہے میرے پاس اب کافی پیسے جمع ہو گئے تھے جس سے ہم نے ایک گیم خرید لی اگلے دن پھر سکول سے آکر وہی روٹین تھی میں کھانا کھا کر نکلا تو آج اسامے کی بیٹھک پر گاؤں کے اور بھی اوباش لڑکے بیٹھے تھے اسامہ ان کو باجی نصرت کی پھدی والی تصویریں دکھا رہا تھا سب دیکھ کر مچل رہے تھے مجھے دیکھ کر اسامہ بولا آ او شہزادے کی حال اے تیرا میں بولا ٹھیک آں توں سنا وہ بولا باجی دی سنا میں بولا ٹھیک اے اسامے نے مجھے موبائل دیا اور بولا آج وت بنا لیا تصویراں میں نکلا تو مجھے دیمی بھی مل گیا ہم دونوں گھر گئے آج باجی سعدیہ امی کے ساتھ چھت پر کپڑے دھو رہی تھی باجی نصرت اکیلی سو رہی تھی دیمی بولا یار نصرت نوں جگا ہک واری باجی ایک طرف منہ کرکے سو رہی تھی میں نے پاس جا کر باجی کو ہلایا دو تین بار ہلانے سے باجی نے آنکھیں کھولیں اور تھوڑی سی ہلی اور سیدھی ہوکر لیٹ گئی باجی نصرت کے سیدھے لیٹنے سے باجی نصرت کے تنے ممے ہوا میں اٹھے جان نکال رہے تھے میں بھی یہ دیکھ کر مچل گیا باجی نصرت کے پھولے گال بھی چومنے کو دل کر رہا تھا اتنے میں دیمی اندر آیا اور باجی نصرت کی ٹانگیں پکڑ کر کھڑی کرکے کھول دیں باجی نے آج پھر وہی پھٹی ہوئی شلوار ڈال رکھی تھی میں نے کیمرے کی لائٹ آن کرکے باجی نصرت کی پھدی کی تصویریں لیں دیمی نے باجی نصرت کی پھدی کا دہانہ کھول کر باجی نصرت کی پھدی کے اندر کا گلابی حصہ کھول دیا جس کی میں نے تصویریں لیں دیمی کے منہ میں پانی آ رہا تھا میں تصویر لے کر فری ہوا تو دیمی بولا بہزاد تو کل باجی دی پھدی اچ لن پا دتا ہا میں نے سر ہلایا وہ بولا یار میں وی پا لواں 500 روپیہ دیساں میں پانچ سو کا سن کر چونک گیا اور گھونٹ بھر کر رہ گیا میں نے باجی کو دیکھا وہ بے سدھ سو رہی تھی میں بولا ٹھیک اے پا لئے وہ یہ سن کر مسکرا دیا اور بولا باہر دا خیال رکھیں اور جلدی سے اپنی شلوار اتار کر ننگا ہو گیا اور باجی نصرت کہ ٹانگوں کی طرف بڑھ گیا باجی کی ٹانگیں دونوں طرف لڑھک کر کھلیں تھی اس نے قمیض آگے سے ہٹایا اور جلدی سے ٹانگیں اوپر باجی نصرت کے پیٹ سے ملا دیں اور منہ نیچے کرکے باجی نصرت کی پھدی کو چوم کر باجی کی پھدی کا دہانہ کھول کر باجی نصرت کی پھدی کے اندر تک اپنی زبان دلا کر پھیری جس سے باجی نصرت سسک گئی دیمی نے زبان دبا کر اندر پھدی کے اندر ڈال دی جس سے باجی سسک کر کانپ گئی دیمی نے زبان نکال لی تو باجی بھی پرسکون ہو گئی دیمی نے رک کر پھر اوپر ہوا اور اپنا لن باجی نصرت کی پھدی کے دہانے پر رکھا دیمی کا لن میرے لن سے آدھا تھا اس نے باجی نصرت کی پھدی کے دہانے پر اپنا لن دبا دیا جو باجی نصرت کی پھدی کو کھول کر اندر اتر گیا جس سے باجی ہلکی سی ہلی وہ رک گیا اور ایک لمحے کے بعد اپنی گانڈ دبا کر لن باجی نصرت کی پھدی کے اندر ڈالنے لگادیمی کا لن انگلی جتنا تھا وہ آسانی سے سارا ہی باجی نصرت کی پھدی میں اتر گیا باجی نصرت کی پھدی کے تنگ دہانے نے دیمی کا لن دبوچ لیا جس سے باجی نصرت کی سسکی نکلی اور دینی بھی کانپ گیا باجی نے سسکی بھر کر اپنا سر سیدھا کیا اور خود ہی اپنی ٹانگیں اٹھا کر پیٹ سے لگا لیں دیمی رک گیا اور باجی کو حیرانی سے دیکھا باجی نے تیز سانس لیتی ہوئی دو منٹ تک سسکتی رہی پھر اس نے اپنی ٹانگیں نیچے کر لیں جس سے دیمی نے مجھے دیکھا اور اپنا لن آہستہ سے اندر باہر کرنے لگا دینی کا لن باجی نصرت کی پھڈی میں پھرتا ہوا ہلکی ہلکی پچ پچ کر رہا تھا دیمی ایک منٹ میں ہی باجی نصرت کی گرمی کے آگے ہمت ہار گیا اور کراہتا ہوا باجی نصرت کے اندر فارغ ہوکر نڈھال ہوگیا باجی کو کچھ بھی محسوس نا ہوا باجی لیٹی رہی دیمی ہانپتا ہوا پیچھے ہو کر اپنا لن باجی نصرت کی پھدی سے کھینچ کر نکال لیا جس سے دیمی کی منی باجی نصرت کی پھدی سے بہنے لگی دیمی نے باجی کی پھدی سے نکلتی منی انگلی پر بھری اور آگے ہوکر باجی نصرت کے کھلے منہ میں پھینک دی اور اپنی انگلی باجی کے منہ میں ڈال دی دیمی کی منہ باجی نصرت کے منہ میں چلی گئی میں یہ دیکھ کر گھونٹ بھر کر رہ گیا دیمی پیچھے ہوا اور نیچے اتر کر شلوار ڈال لی دیمی کو باجی کی پھدی مارتا دیکھ کر میں بھی مچل گیا تھا پر دیمی کے سامنے میں باجی نصرت کی پھدی مارنا نہیں چاہتا تھا اس لیے ہم وہاں سے نکل آئے باہر آکر دیمی نے مجھے پانچ سو دیا جسے دیکھ کر میں مچل گیا ہم اسامے کے پاس گئے اور اسے باجی نصرت کی ننگی پھدی دکھا کر پیسے لیے کچھ دیر ہم نے کچھ کھایا پیا اور میں پھر گھر آگیا امی اور باجی سعدو چھت پر کپڑے ہی دھو رہی تھیں میں اندر گیا تو باجی اپنی گانڈ نکال کر پڑی تھی باجی نصرت کی پھدی نظر آ رہی تھی جس پر لگی دیمی کی منی نظر آ رہی تھی میں یہ دیکھ کر سسک گیا باجی کی موٹی چوڑی گانڈ باہر کو نکل ہو ئیں تھی باجی نے ٹانگیں سینے سے لگا رکھی تھیں جس سے باجی کی موٹی گانڈ باہر کو نکلی ہوئی تھی میں نے بے اختیار اپنی شلوار اتار کر ننگا ہوا گیا اور باجی نصرت کے پیچھے لیٹ گیا باجی نصرت کے چوڑے جسم سے گرمی نکل رہی تھی میں قریب ہوکر باجی نصرت کے ساتھ لگ گیا جس سے باجی نصرت کے جسم سے ایک مزے کی لہر میرے اندر اتر گیا میں آگے ہوا اور باجی نصرت کی موٹی گال کو منہ میں بھر کر دبا کر چوس کر اپنا لن باجی نصرت کی پھدی سے ٹچ کیا اور ہلکا سا زور لگا کر لن باجی نصرت کی پھڈی کے پار کردیا جس سے باجی سسک گئی میں نے اپنا آدھا لن باجی نصرت کی پھدی کے پردے تک اتار کر آگے پیچھے کرنے لگا میرے لن کا ٹوپہ باجی نصرت کی پھدی کے پردے سے ٹچ ہو رہا تھا میں کراہ کر سسکتا ہوا باجی نصرت کی پھدی میں لن پھیرنے لگا باجی نصرت کی پھدی میں لگی آگ مجھے نڈھال کر رہی تھی ایسا لگ رہا تھا کہ باجی کے اندر آگ لگ رہی تھی باجی نصرت کی پھدی میرا لن جلا رہی تھی دو منٹ کی پھدی میں لن پھیر کر میں نڈھال ہوکر فارغ ہو گیا سا تھی ہی باجی نصرت کا جسم بھی اکڑا اور باجی نصرت کی کرلاٹ نکل کر مجھے ڈرا گئی ساتھی ہی باجی نصرت کی پھڈی سے ایک لمبی دھار سے پانی نکل کر بہنے لگا ایسا لگ رہا تھا جیسے پائپ کھل گیا ہو باجی نصرت کا جسم کانپنے لگا اور باجی نصرت کراہتی ہوئی اپنی گانڈ زور سے پیچھے مار کر پانی چھوڑ رہی تھی باجی نصرت کی گانڈ کی ٹکر سے میں بے اختیار چارپائی سے نیچے جا گرا میں تو مزے سے بے قرار تھا باجی مسلسل کراہتی ہوئی پانی کے فوارے چھوڑ رہی تھی میں جلدی سے اٹھا اور کپڑے ڈال کر نکل گیا میں شام کو گھر آیا تو مجھے باجی فریش نظر آئی میں باجی کی لال گلابی ہوتی گالوں کو دیکھ کر مچل رہا تھا باجی بھی آج پہلے سے زیادہ فریش لگ رہی تھی شاید گرمی نکلنے کی وجہ سے تھا اگلے دن سکول سے بعد میں باجی کو سوتا چھوڑ کر اسامے کے پاس پہنچ گیا اسامے کا فون لے کر میں گھر کی طرف چل پڑا میں گھر آیا تو آج کمرے میں باجی نصرت نہیں تھی میں یہ دیکھ کر تھوڑا مایوس ہوا باجی سعدیہ پڑی تھی میں نے سوچا اس کی پکچرز بناؤں پر اس کا کوئی ویو نظر نہیں آیا میں نے دو تین تصویریں لیں باجی سعدیہ کی عادت تھی وہ کپڑااںکے کر سوتی تھی باجی اوپر کپڑا ڈال کر پڑی تھی میں نے ایک دو تصویریں لیں اور موبائل ہاتھ میں پکڑے ہی جلدی سے باہر نکلا تو سامنے میں سیدھا باجی نصرت سے ٹکرا گیا جو اندر آرہی تھی جس سے وہ اور میں دونوں بوکھلا سے گئے باجی نصرت مجھے دیکھ کر بولی بھائی کی ہویا کدے جااؤ ایں اتنے میں باجی کی نظر موبائل پر پڑی میں باجی کو دیکھ رہا تھا۔ موبائل کی گیلری کھلی تھی اور سامنے باجی نصرت کی ہی تصویریں تھیں میں نے جلدی سے موبائل نیچے جیب میں ڈالا میرا رنگ اڑ گیا تھا میں بھاگنے کی کوشش کی پر باجی نصرت نے مجھے بازو سے پکڑ لیا میرا دل ڈوب سا گیا تھا آج مارا گیا تھا باجی سے میں نے چھڑوانے کی کوشش کی باجی بولی بہزاد اے فون کو دا تے کدو لیا ہئی میرا رنگ لال سرخ ہو چکا تھا کان سائیں سائیں کر رہے تھے باجی نے اتنے میں میری جیب میں ہاتھ ڈالا پر میں نے اوپر ہاتھ رکھ لیا باجی تھوڑا سختی سے بولی بہزاد سچی سچی دس اے کدو لیا ہئی تے کی ڈرامے کر رہیا ایں میں کچھ بول نہیں رہا تھا باجی مجھ سے بڑی تھی باجی میں زور بھی تھا باجی نے میری جیب سے فون کھینچ لیا اور سامنے باجی کی نظر اپنی تصویر پر پڑی تو باجی کا رنگ اڑ گیا باجی نے سرخ غصیلی آنکھوں سے مجھے دیکھا اور اگلے لمحے باجی نے کس کر مجھے تھپڑ مارا اور بولی بغیرت انسان اے کی کم کردا وداں ایں باجی کو بھی سمجھ لگ گئی تھی کہ یہ میرا ہی کرتوت تھا امی جو شاید کیچن میں تھی باجی کی بات سن کر نکلی اور ہمیں دیکھ کر بولی نی کی بنیا ہئی باجی امی کو دیکھ کر چونک گئی اور گھونٹ بھر کر بولی اے ویکھ امی تیرا لاڈلا نویں کرتوت کر رہیا اے موبائل لئی ودا اے امی بولی ہااا وے اے کدو لیا ہئی تے کی کردا ودا ایں میرا دل بجھ گیا تھا کہ آج باجی تو نہیں چھوڑے گی باجی نصرت نے میرا ہاتھ پکڑا اور کھینچتی ہوئی دوسرے کمرے میں ہے کر چلی گئی اور بولی بغیرت انسان سچی سچی دس اے فون کس دا تے اے میریاں تصویراں وچ کدو آیاں باجی نصرت کی صرف سوتے کی تصوریں تھی باجی نصرت کی پھدی کی تصویریں نہیں تھیں شاید وہ اسامے نے چھپا لیں تھیں صرف باجی کے مموں اور دوسری تصویر تھیں باجی نے جب اپنی تصویریں دیکھیں تو باجی غصے سے کھول رہی تھی باجی نے مجھے غصے سے دیکھا پر میری تو آواز ہی نہیں نکل رہی تھی باجی نے کس کر میری گال پر تھپڑ مارے اور بولی دس وی میں نے ڈرتے ڈرتے باجی کو بتایا اسامے دا اے باجی کا تو خون کھول گیا باجی تڑپ سی گئی اور کس کر میری گال پر تھپڑ مار کر بولی بغیرت انسان اس اوباش نال توں دوستی کیری ودا ایں تے اے دس میری تصویرں کنج اس کول اپڑ گئیاں توں چھکدا ایں میں نے ہاں میں سر ہلایا یہ سن کر باجی بولا بغیرت کمینہ انسان توں تے ہر حد توں گر گیا ایں بغیرتا میری عزت تار تار کر دتی ہئی اور تھپڑوں سے میرا منہ لال کر دیا اور پھر اپنا جوتا اتار کر کس کس کر کمر میں مارتی مجھے مارنے لگی باجی کے غصے سے لگ رہا تھا کہ آج میں نہیں بچوں گا میں نیچے اپنے پیروں میں جھک گیا اور درد سے اونچا اونچا رونے لگا اتنے میں دروازہ کھلا اور امی اندر آگئی اور مجھے پڑتا دیکھ کر بولی نی نصرت کی ہویا ہئی کیوں بھرا نوں ماردی پئی ایں یہ سن کر باجی رہی اور بولی امی اے ویکھ تیرے لاڈلے میری عزت تار تار کر دتی اور امی کو موبائل میں اپنی تصویریں دکھائیں امی دیکھ کر ہکا بکا ہوکر بولی جا وے کنجرا توں مر کیوں نہیں گیا اے گند کرن توں پہلے لعنتیاں امی نے مجھے مارا تو نہیں پر لعن طعن بہت کی باجی بولی جا دفعہ ہو جا ہنڑ گھر نا آویں توں ساڈا بھرا کوئی نہوں اسے اوباش جول رہویں ہنڑ بغیرتا کتیا باجی گالیاں نہلاتی ہوئی اپنی تصویریں ڈیلیٹ کر دیں اور میرے ہاتھ سے پکڑ کر مجھے گھر سے نکالنے لگی امی بولی ہلا بس کر نصرت ہنڑ جا وے دے آ اس نوں فون تے اگاں نا جاویں امی نصرت کو لے کر نکل گئی میں اٹھا اور فون اٹھا کر نکل گیا میری تو جان ہی جیسے نکل گئی تھی میں اب اپنے آپ کو ہوس رہا تھا کہ میں نے ایسا کیوں کیا نصرت میری سگی بہن تھی اس کی عزت تار تار کر دی میں اسامے کے پاس گیا اور اسے ساری بات بتا دی وہ بھی پریشان اور دکھی سا ہوگیا میں وہاں سے نکلا اور شام تک باہر پھرتا رہا گھر جانے کو دل ہی نہیں کیا شام تک اپنے آپ کو لعن طعن ہی کرتا رہا شام ہو میں نے سوچا کہ جو ہوگیا ہو گیا اب باجی سے معافی مانگ لوں گا یہ سوچ کر میں گھر گیا تو باجی نے مجھے غصے سے دیکھا اور اندر چلی گئی میں اندر کیچن میں گیا تو امی نے کھانا دیا میں کھانا کھا کر اندر چلا آیا میں لیٹ کر سوچنے لگا کہ کتنا بڑا بلنڈر ہوگیا ہے مجھے یہ نہیں کرنا چاہئیے تھا میں باجی سے سوری کرنا چاہتا تھا پر اب تو باجی غصے میں تھی اس نے میری ایک نہیں اننی تھی میں لٹا تھا کہ اتنے میں امی اندر آئی اور مجھے لیٹا دیکھ کر میرے پاس آگئی میں تھوڑا پریشان تھا امی مجھے پریشان دیکھ کر میرے پاس بیٹھ گئی میں اٹھ کر بیٹھ گیا امی بولی پتر کیڈا کملا ہیں توں تیریاں بھیناں تیری عزت ہینڑ توں لوگوں دے آکھے تے اے کم کردا رہیا ایں میں منہ نیچے کر بیٹھا تھا میرے پاس کوئی جواب نا تھا امی بولی بہزاد میرا پتر بھیناں فی عزت دی رکھوالی کری دی اے انج غیرمرداں نوں بھیناں دیاں تصویراں نہیں وکھیندیاں میں بولا امی بس پتا نہیں مینوں کی ہویا کجھ سمجھ نہیں آئی امی بولی ویسے اے دس اے کدو توں کر رہیا ایں میں بولا امی بس دو تین دناں توں امی بولی تے کر کیوں رہیا ہائیں میں بولا بس او پیسیاں واسطے امی حیران ہوکر بولی اسامہ تینوں پیسے دیندا ہے میں نے ہاں میں سر ہلایا امی بولی کتنے میں بولا ڈھیر سارے امی بولی کدے کردا وت میں بولا بس کھانڑ پینٹ دیاں چیزاں لیندا امی بولی ساریاں دے میں بولا نہیں باقی بچ جانے او دیمی کول ہینڑ امی بولی او وی اس کم اچ شامل اے میں نے ہاں میں سر ہلایا امی بولی بھیناں تیریاں دے پیسے او وی کھاندا اے میں بولا نہیں امی او اپنی بھین دے کھاندا اے امی بولی او وی تصویراں دیندا اے اپنی بھین دیاں میں بولا ہا او آگے دیندا ہا اس ہی مینوں وی اس کم تے لایا امی بولی ہلا تے اسدی بھین نوں نہیں پتا میں بولا امی باجی ثانیہ تے اس نوں آپ تصویراں بنا کے دیندی اے تے پیسے لیندی اے امی اس بات پر چونک سی گئی اور بولی ثانیہ آپ اسامے نوں تصویرں گھلدی میں نے ہاں میں سر ہلایا امی بولی ہور کی تینوں پتا ہوتا وی کجھ کردی میں بولا امی ہور تے پتا نہیں پر دیمی دس رہیا ہا کہ کج دن پہلے باجی ثانیہ اسامے نوں ملنڑ گئی ہا تے اسامے نوں ملنڑ دا 25000 لئے کے آئی ہا میری اس بات پر امی کا منہ حیرانی سے کھل گیا اور امی چونک کر بولی وے توں اے کی آکھ رہیا ایں میں بولا امی اے دیمی آپ دسیا مینوں امی حیرانی سے کچھ سوچتی ہوئی بولی توں ہی میں اکھاں او کنجری نوے نوے سوٹ لئی ودی ہا میں بولا امی او وی اسامہ دیندا اے امی نے مجھے دیکھا اور بولی سچی ہے نا اے سب میں بولا امی سچ اے امی اب کچھ نرم سی پڑ گئی تھی امی بولی توں اسامے نوں کی دسیا ہنڑ میں بولا اے ہی دسیا کہ باجی موبائل پھد لیا اے امی چپ کرکے مجھے دیکھ کر کچھ سوچنے لگی امی کا اوپر کا سانس اوپر تھا اور نیچے کا نیچے امی کو ہلکا سا پسینہ بھی اتر آیا تھا میں امی کو سوچتا دیکھ کر بولا امی میرے کولو غلطی ہو گئی میں اگاں ایو جہیا کجھ وی نہیں کردا توں باجی نوں آکھ مینوں معاف کر دیوے امی مجھے دیکھ کر ہنس دی اور میرے قریب ہوکر میرا ماتھا چوم کر بولی میری جان فکر نا کر ہنڑ تے میں وی تیرے تے راضی ہاں کوئی گل نہیں توں بے فکر ہوجا تیری بھین نوں میں آپ منا لیساں اور میرا ماتھا چوم کر باہر نکل گئی پہلے بھی باجی نصرت سعدیہ اور عابدہ اسی کمرے میں سوتے تھے میں اور امی اسی کمرے میں امی نکل گئی اور میں سوچنے لگا کہ باجی سے صبح معافی مانگ لوں گا مجھے پڑا پڑا کافی دیر ہو گئی تھی امی نہیں آئی تھی مجھے ڈر لگنے لگا تھا کہ امی کہاں گئی مجھے اب نیند بھی نہیں آ رہی تھی عجیب سے وسوسے آنے لگے تھے کہ آدھی رات کو دروازہ کھلا اور امی اندر آئی میں امی کو دیکھ کر بولا امی کدے ہائیں اتنی دیر امی ہنس دی اور بولی میری جان اپ ماہیا آکھیا کہ باجی نوں منا دے تیری بھین نوں ہی منیندی رہی آں میں بےقراری سے بولا باجی منی کہ نہیں امی ہنس کر اپنی چارپائی پر لیٹ گئی اور بولی میری جان من جاسی گئی ہلے غصے اچ ہے من جاسی میں چپ کرکے لیٹے گیا امی کچھ دیر بعد بولی بہزاد اس گل دا ہور کسے نوں تے نہیں پتا میں بولا نہیں باجی صرف دینی تے مینوں پتا امی بولی اسامے دے نال ہور کہڑا لڑکا ہا پنڈ دا میں بولا ہور تے کوئی نا جدو اسی جاندے پاسے اسامہ کلا پی ہوندا امی بولی اسامہ تیرا بیلی اے میں پریشان ہو گیا کیونکہ وہ اوباش تھا اور باجی اس بات پر پہلے ناراض تھی میں بولا نہیں امی او تے میں دو تن دن ہو گئے دیمی نال ہی گیا آگے تے کوئی نہیں گیا امی مسکرا کر میری طرف منہ کرکے بولی میری جان توں کل جاویں اس کول اس نوں اپنا بیلی بنا میں کچھ سمجھا نہیں یہ بات اور امی کو دیکھ کر بولا پر امی باجی تے ناراض ہو رہی ہا امی بولی نہیں ہوندی ناراض او تے کملی ہے توں چھور ہیں تے چھوراں دے ہر قسم دے بیلی ہوندے ناں پریشان ہو نصرت ہنڑ کجھ نہیں آکھدی تو کل جاویں تے اس نوں آکھیں کہ میرے نال دوستی کر لئے سمجھ آئی میں بولا اچھا امی بولی تے کل دیمی کولوں اپنے پیسے لئے آویں سارے کتنے ہک ہینڑ میں بولا پتا نہیں امی اس کول ہی ہنڑ امی بولی کل سارے لئے آویں نہیں بولا اچھ امی بولی ہنڑ سین میں جلد ہی سو گیا صبح اٹھا اور تیار ہوکر سکول کو چل دیا باجی ابھی تک ناراض ہی تھی میں سکول پہنچا تو مجھے دیمی ملا باجی نصرت جو پہلے سکول میں صرف دوپٹے میں ہوتی تھی آج اس نے خلود کو چادر میں ڈھانپ رکھا تھا اور تھوڑی سخت بھی لگ رہی تھی آج بریک ٹائم دیمی مجھے ملا تو اس نے مجھ سے پوچھا پکڑے جانے کی بات شاید کل اسامے نے بتا دیا تھا اس نے مجھ سے پوچھا میں نے اسے ساری بات بتا دی وہ بھی تھوڑا پریشان ہوا کہ اس کا نام بھی آیا تھا میں بولا یار وہ امی آکھ رہی ہا کہ پیسے سارے دینی کولو لئے کے مینوں دے دے دینی ہنس دیا اور بولا ہلا لئے لئیں میں بولا ہک گل ہور وہ بولا کی میں بولا اسامے نال دوستی کروا دے وہ بولا کیوں میں بولا امی آکھیا ہے کہ اسامے نال دوستی کر لئے وہ مسکرا دیا چھٹی کے بعد باجی جو پہلے مجھے ساتھ ملا کر گھر لے جاتی تھی آج باجی مجھے کوئی لفٹ نا کروائی اور خود چل دی میں باجی عابدہ کے ساتھ گھر کی طرف آگیا کھانا کھا کر میں نکلا تو دیمی ملا اس نے مجھے دو پانچ سو کے نوٹ اور کچھ سو کے نوٹ بھی پکڑا دئیے اور مجھے کے کر اسامے کی طرف چل دیا ہم بیٹھک میں پہنچے تو اسامہ مجھے دیکھ کر چونکا اور ابھائی شہزادے توں کدے بچ گیاں ہیں نصرت توں میں نے مسکرا کر سر ہلایا وہ بولا آج خیر اے دینی بولا بھائی بہزاد آکھ رہیا تیرے نال دوستی کرنی اے اسامہ ہنس دیا اور بولا کیوں میں بولا بھائی او امی آکھیا ہا کہ اسامے نال دوستی کر لئے اسامہ اس بات پر چونک کر سیدھا ہوا اور بولا کس آکھیا میں بولا امی آکھیا اس نے ایک نظر مجھے دیکھا اور بولا کیوں میں بولا بس ایویں ہی امی آکھیا کہ توں اسامے نوں دوست بنا لئے اسامہ مجھے دیکھ کر ہنس دیا اور بولا چل فر توں اج توں میرا پکا دوست میں آگے ہوکر اس سے ہاتھ ملایا مجھے تو اس دوستی کی سمجھ نہیں آئی پر اسامہ کھلاڑی تھا وہ سمجھ گیا تھا کہ مجھے امی نے اس سے دوستی کرنے کو کیوں کہا ہے وہ اپنے بٹوے سے ہزار روپیہ نکال کر بولا چل فر جے تیری امی آکھیا اے تے اے میری طرفو اپنی امی نوں اے پیسے دیویں تے میرا سلام وی اپنی امی نوں دیویں تے آکھیں کہ اے میری طرفو تھواڈے واسطے اے امی نوں آکھیں کسے چیز دی ضرورت ہووے بے جھجھک آکھ دئیں ہنڑ توں میرا دوست ہیں تیرا گھر ہنڑ میرا گھر ہی اے توں مینوں اپنے گھر دا فرد سمجھ ہنڑ میں ہنس دیا اور پیسے کے کر جیب میں ڈال کر کچھ دیر وہاں بیٹھا اور پھر گھر آگیا امی کیچن میں تھی میں اندر گیا تو باجی نصرت اور عابدہ اندر سو رہی تھیں سعدیہ ہمسائی کے پاس پڑھنے گئی تھی میں اندر گیا تو امی مجھے دیکھ کر مسکرائی اور بولی اسامے آلو ا رہیا ایں میں بولا ہاں جی امی مسکرا دی اور بولی بیلی بن گیا ہئی میں بولا جی امی اور جیب سے پیسے نکال کر امی کو دکھائے تو امی کا حیرت سے منہ کھلا رہ گیا امی نے کام چھوڑ دیا اور بولی وے اتنے پیسے میں بولی کی امی اے پیسے او ہنڑ باجی دی تصویراں اہے تے اے ہزار اس دوستی کرن دا دتا اے سب ملا کے 2500 ہو گئے تھے امی نے جلدی سے پکڑ لیے اور گننے لگے امی کی آنکھوں میں پیسے دیکھ کر عجیب سی چمک آ گئی اور امی سمائل کرتی مسکرانے لگی امی کی چہرہ بھی چمک رہا تھا امی بولی واہ بہزاد آج تے خوش کیتا ہئی میں بولا امی اسامہ تینوں سلام دے رہیا ہا امی بولی وعلیکم السلام میرا وی سلام دیویں اکھیں تیری ماں وی سلام دے رہی ہا میں بولا امی او آکھ رہیا ہا کہ میں ہنڑ تیرا دوست نہیں تیرے گھر دا فرد بن گیا ہاں امی مجھے دیکھ کر مسکرا دی اور بولی بے شک ہنڑ اسمہ سادے گھر دا فر ہی بنسی میں بولا امی اور آکھ رہیا ہا کہ کسے چیز دی لوڑ ہووے تے دس دینا امی مسکرا دی اور بولی اچھا جی میں بولا جی امی نے مجھے پچاس روپیہ دیا اور بولی جا توں کھا پی میں پچاس کے کر خوش ہوگیا امی کام چھوڑ کر پیسے پکڑ کر اندر باجی کے کمرے میں چلی گئی میں باہر نکل آیا میں کچھ دیر باہر ہی رہا کچھ کھایا پیا اور گھر آگیا شام کو گھر ہی رہا باجی مجھ سے اب بات نہیں کرتی تھی دو تین دن یہی کچھ چلتا رہا امی رات کو اکثر باجی والے کمرے میں جاتی پھر وہ رات کو لیٹ واپس آتی تھی میں یہ سب سے سوچتا تھا کہ ایسی کیا بات ہو تی ہے ایک دن میں گھر سے باہر واپس آیا اور کمرے میں بیٹھا کام کر رہا تھا کہ اتنے میں باجی نصرت دروازہ کھول کر اندر آئی میں باجی کو آج اپنے کمرے میں دیکھ کر چونک گیا مجھے وہ دن یاد آگیا جب باجی نے مجھے پکڑا تھا اور پھینٹی لگائی تھی جس سے میں ڈر سا گیا اور باجی نصرت کو دیکھنے لگا میرا رنگ اڑ سا گیا باجی مجھے دیکھ کر مسکرا دی اور چلتی ہوئی میرے پاس آکر بیٹھ گئی میں نے باجی کو دیکھا مجھے ہلکا سا پسینہ آگیا باجی مجھے دیکھ کر مسکرا دی باجی نصرت نے آج کوکا ڈال رکھا تھا اور ہلکا سا میک اپ کر کے ہونٹوں پر لال سی سرخی لگا رکھی تھی باجی کی مسکرا ے سے باجی نصرت کی پھولی گالیں بہت خوبصورت لگ رہی تھی باجی نے مجھے دیکھا اور مسکرا کر بولی بہزاد تیرا رنگ کیوں اڈ گیا میں تے تینوں کجھ نہیں آکھیا میں نے باجی کو مسکراتا دیکھا تو میری بھی جان میں جان آئی میں بولا نہیں باجی بس ایویں باجی نے کسا ہوا سوٹ ڈال رکھا تھا جس سے باجی نصرت۔ کی موٹی گانڈ ی کسی ہو نظر آ رہی تھی باجی نصرت کے موٹے چوتڑ پھولے ہوئے شلوار میں پھنسے نظر آ رہے تھے میں بھی حیران تھا باجی اس لباس میں کیوں ہے باجی نصرت نے میری کتاب اٹھا کی اور بولی پڑھائی کیو کہی جا رہی اور ورق الٹانے لگی میں بولا ٹھیک جا رہی باجی مسکرا کر بولی ہنڑ تے گندے کم نہیں کر رہیا میں جلدی سے بولا نہیں باجی ہنڑ تے کوئی نہیں باجی مسکرا کر مجھے دیکھا اور بولی ہنڑ پیسے کنج کنا رہیا ایں میں اس بات پر شرما کر منہ نیچے کیا اور بولا سوری باجی میں اپنے مزے واسطے تیری عزت خراب کیتی باجی نے ہنس کر مجھے دیکھا اور میرا چہرا ہاتھ سے پکڑ کر اوپر کیا اور بولی میری جان کوئی گل نہیں ہنڑ اس گل نوں بھل جا میں وی بھل گئی ہاں میں باجی کو مسکراتا دیکھ کر مسکرا دیا باجی نصرت کتاب کو دیکھتی بولی اے دس اسامہ تینوں کتنے پیسے دیندا ہا میری ہک تصویر دے میں نے چونک کر باجی کو دیکھا باجی کے چہرے پر کوئی ناراضگی کا آثار نہیں تھا باجی نے مجھے دیکھ کر مسکرا کر کہا دس وی میں بولا باجی میں تن چار لئے جاندا ہاس 50 روپے دے دیندا ہا باجی بولی بس 50 روپے میں نے منہ جھکا لیا باجی مسکرا دی اور بولی وے نا ڈر کجھ نہیں آکھدی میں بولا باجی اگر کوئی پرائیویٹ حصے دیاں تصویراں ہوون تے 100 مل جاندا ہا باجی بولی پرائیویٹ کیویں میں بولا باجی چھاتیاں یاں تھلے آلی باجی بولی ہلا توں میرے پرائیویٹ دیاں وی لئے جاندا ہائیں میں بولا باجی نہیں باجی صرف چھاتیاں دی لئے جاندا ہاس باجی بولی وت امی نوں توں 2500 لیا کے دتا او کنج بن گئے میں ڈر سا گیا کہ باجی کو پتا لگا کہ اس کی پھدی کی بنا کر دیتا تھا تو باجی تو مار دے گی باجی بولی بھائی سہی دس کجھ نہیں آکھدی میں بولا نہیں باجی باجی ہنس دی اور بولی میری تھلے آلی دیاں وی بنا کے لئے جاندا ہائیں میری شلوار کے پاٹی ہوئی ہوندی ہا میں یہ سن کر ڈر کر باجی کو دیکھا باجی ہنس دی اور بولی وے کملیا تیری بھین دا اے حصہ آج تک کسے نہیں ویکھیا اسامے نوں وکھایا ہی پایا تے پیسے ہی ول لئے لویں ہا میں یہ سن کر چونک کر سر اٹھا کر باجی نصرت کو دیکھا باجی ہنستی ہوئی مجھے دیکھ رہی تھی میں ہکا بکا رہ گیا کہ باجی نصرت خود کہ رہی تھی باجی نے مجھے دیکھا اور بولی جے اگر ہنڑ میں اپنی پرائیویٹ تصویراں دیواں تے کتنے پیسے لئے آسیں اسامے کولوں میں تو چونک گیا اور باجی کو ہکا بکا دیکھنے لگا باجی نصرت نے مسکرا کر مجھے دیکھا اور بولی کی پسند نہیں آئی گل میں بولا نہیں باجی توں دس دے کتنے لئے آواں باجی بغیر جھجھکے بولی اپنے بیلی اسامے نوں آکھ میرے پرائیویٹ ننگے حصے دی توہر دا 100 روپیہ کے ویڈیو بنانی تے 500 لیساں میں بولا باجی اے تے ڈھیر سارا ہے باجی بولی تے تیری بھین دی عزت کوئی سستی اے اس نوں آکھیں کے منظور ہووے تے موبائل لئے آؤیں میں بولا اچھا اور باجی کو حیرانی سے دیکھنے لگا کہ باجی خود ہی اب کام کر رہی ہے مجھے دیکھتا دیکھ کر بولی کی بنیا کی ویکھ رہیا میں بولا نہیں کجھ نہیں میں ہنڑ جاواں فر اسامے آل باجی بولی تے انتظار کس گل دا اگر اس نوں منظور ہووے تے لئے آویں موبائل میں بولا اچھا اور کتاب بند کرکے سائیڈ پر رکھ کر باہر نکلا تو سامنے امی مجھے دیکھ کر مسکرا دی میں بھی مسکرا کر باہر نکلا اور اسامے کی طرف چل دیا اسامے کے پاس پہنچا تو وہ مجھے دیکھ کر بولا آ شہزادے کی حال ہے میں بولا ٹھیک میں اس کے پاس بیٹھ گیا وہ موبائل میں بزی تھا میں چپ کرکے بیٹھا تھا وہ مجھے خاموش دیکھ کر بولا کی گل اے کیوں چپ ایں میں بولا کجھ نہیں بس ایویں وہ بولا کوئی خبر ہے کہ نہیں میں بولا ہا خبر ہے وہ بولا کی خبر اے میں بولا باجی دا پیغام ہے ہک وہ چونک کر مجھے دیکھا اور سیدھا ہوکر بیٹھ کر بولا او کی میں بولا باجی آکھ رہی ہے کہ ننگی تصویروں دا 100 روپیہ لیساں تے ننگی وڈیو دا 500 یہ سن کر اسامہ چونک کر اچھلا اور بولا اے توں کی اکھ رہیا میں بول جو توں سنیا وہ بولا نہیں سچی آکھ رہیا۔ ایں اے سارا کجھ نصرت ہی آکھیا اے میں بولا ہور کی وہ بولا نا کر یار میں بولا سچی وہ بولا مینوں منظور ہے بلکہ اے فون لئے جا تے بنوا لیا وا شہزادے آج تے خوش کیتا ہی میں نے فون پکڑ لیا وہ بولا ٹھہر اے پیسے پکڑ اس نے مجھے ہزار روپیہ دیا اور بولا ایڈوانس پیسے لئے جا اپنی بھین نوں دیویں اور مجھے 100 پکڑا کر بولا اے تیرا انعام تے اس نوں میرا وی ہک پیغام دیویں میں بولا کی وہ بولا اس نوں آکھیں اسامہ آکھ رہیا ہا کہ نصرت توں بڑی سوہنی ایں اسامہ تیرا دیوانہ ہے جے ہو سگے تے ہک ملاقات کر لئے میں بولا اچھا اور فون لے کر گھر آگیا باجی اندر کمرے میں تھی میں اندر گیا تو باجی مجھے دیکھ کر چونک گئی اور بولی کی بنیا میں نے ہزار روپیہ نکالا اور باجی کو دے کر بولا باجی او آکھ رہیا منظور ہے باجی کے چہرے پر چمک آگئی اور باجی مسکرا کر پیسے پکڑ لیے اور بولی فون لئے آندا میں نے فون نکالا تو باجی نے پکڑ لیا میں باجی کو دیکھنے لگا باجی بولی کی ہنڑ توں وی مینوں ویکھنا باہر جا میں بنا کے دیندی آں میں شرما گیا اور مڑتے ہوئے بولا باجی اسامے ہک پیغام دتا اے تیرے واسطے باجی بولی او کی میں بولا باجی او آکھ رہیا ہا کہ توں بہوں سوہنی ایں میں تیرا دیوانہ ہاں ہو سگے تے او آکھ رہیا ہک واری مل جا باجی نصرت اپنی تعریف دیکھ کر مسکرا کر شرما گئی اور ہنس کر مجھے دیکھ کر بولی اس نوں آکھ ایڈی کی کاہلی اے اپنی تصویروں دے رہی آں اس تے گزارہ کر میں بولا اچھا اور میں باہر نکل آیا کچھ دیر بعد باجی نے مجھے باہر آکر موبائل پکڑا دیا امی پاس ہی بیٹھی تھی وہ یہ دیکھ کر مسکرا دی میں سمجھ گیا کہ امی بھی شامل ہے اس میں میں اٹھا اور باہر نکل گیا میں نے سوچا دیکھوں تو سہی کیسی بنائی ہیں باجی نے میں نے گیلری کھولی تو باجی نصرت کی پوری ننگی تصویر تھی جس میں باجی نصرت اپنا ممے کو اٹھا کر ننگی کھڑی تھی اگلی تصویر میں باجی نصرت کی پھدی کی تصویر تھی باجی نے ٹانگیں اٹھا کر ایک تصویر بنائی ہوئی تھی اور پھر باجی نے پھدی کے ہونٹ کھول کر کلوز تصویر بنا رکھی تھی باجی نے ایک پپی لینے کے انداز بھی تصویر بنائی ہوئی تھی آگے باجی نے ویڈیو بھی بنائی تھی میں نے ویڈیو پلے کی تو باجی نصرت فل ننگی تھی باجی نے ایک کیمرے کو دیکھ کر چمی لی اور فلائنگ کس پھینکی پھر باجی نے اپنے ممے دیکھائے اور ہلکی ہلکی سسکنے لگی ساتھ ہی باجی لیٹ گئی اور اپنی ٹانگیں اٹھا کر اپنی ننگی پھدی کے ہونٹ کھول کر اچھی طرح دکھائے اور پھر باجی نصرت نے اپنی انگلی تھوڑی سی پھدی میں ڈال کر سسکی اور پھدی کو مسلتی ہوئی کھول کر دکھاتی رہی پھر باجی نے اپنی شکل دکھائی اور ودیو بند کر کردی میں نے موبائل جا کر اسامے ہو دے دیا اسامہ موبائل لے کر کھول کر ویڈیو دیکھا تو سسک گیا اور بولا اففف یار تیری بھین تے مار دیندی کی اکھدی ملسی کہ نہیں میں بولا باجی آکھ رہی اس تے ہی گزارہ کر وہ بولا نہیں یار اس نوں آکھ جتنے پیسے چاہیے لئے کوے پر ہک واری ملے مینوں میں بولا اچھا میں وہاں سے نکلا اور گھر آگیا اگلے دن باجی کو میں نے کہا کہ اسامہ آکھ رہیا ہا کہ جتنے پیسے لینے نہ لئے لئے پر ہک واری مل چا باجی مسکرا دی اور بولی بھائی اتنا کافی اے میںبولا اچھا اور اسی طرح پھر میں گیا تو اس نے مجھے موبائل دیا اور بولا بھین نوں آکھیا کہ نہیں میں بولا آج آکھیا اے پر او آکھ رہی اتنا کافی اے وہ بولا اس نوں آکھ صرف ہک واری دروازے تے ہی آ جاوے میں نیڑیو ویکھ لیساں گیا منہ مانگے پیسے دیساں میں بولا اچھا اور موبائل لے کر گھر آگیا میں نے باجی نصرت کو موبائل دیا باجی نصرت اندر چلی گئی اور کچھ دیر بعد اپنی تصویریں اور ویڈیوز بنا کر لائیں اسامے نے آج مجھے 2000 روپے دئیے تھے میں نے باجی کو 2000 روپے دئیے تو باجی نصرت بولی دو ہزار کیوں میں بولا باجی اس ہزار ایڈوانس دتا ہے باجی بولی کیوں میں بولا باجی او آکھ رہیا اے کہ ہک واری نیڑے ہو کے ویکھن دے تے اپنی مرضی دے پیسے لئے باجی بولی کیویں ویکھن دیواں میں بولا باجی او آکھ رہیا کہ صرف ہک واری دروازے تے آ کے دروازہ کھول کے دو تین منٹ مینوں ویکھن دے باجی بولی وے جے کسے ویکھ لیا تے مڑ میں بولا باجی تینوں اسامے دا پتا اس نوں کوئی کجھ نہیں آکھ سگدا باجی سوچ میں پڑ گئی اور بولی صرف میں دروازے تے آساں گئی اس نوں اپنا آپ ویکھا کے ہٹ اساں گئی ہور کجھ نا کرساں میں بولا سہی اے باجی بولی چل اس نوں آکھیں 5000 لیساں دروازے تے آکے اپنا جسم ویکھانڑا دا میں بولا اچھا باجی اور آکھ رہیا ہا بغیر دوپٹے آنا باجی ہنس دی اور بولی ہلا میرا بھرا توں تے پورا دلال ہو گیا ایں میرا اور ہنس دی مجھے سمجھ نہیں آئی کہ دلال کیا ہوتا ہے میں 5000 کا سن کر مچل سا گیا تھا اور جلدی سے نکل کر اسامے کی طرف گیا وہ بے قراری سے میرا ہی انتظار کر رہا تھا میں پہنچا تو وہ بولا کی بنیا وت نصرت کی آکھیا میں مسکرا کر بولا باجی آکھ رہی 5000 لیساں دروازے تے آ کے ویکھانڑا دا وہ یہ سن کر مچل سا گیا اور بولا اففف بہزاد آج تے شہزادہ لگا ہیں اور جلدی سے اپنے بٹوے سے 5000 کے پانچ نوٹ نکال کر مجھے پکڑا دئیے میں نوٹ پکڑ کر مچل گیا اس نے پھر ایک پانچ سو کا نوٹ نکالا اور مجھے دے کر بولا اے تیرا انعام تے جا بھین کولو پچھ کس ٹائم آواں میں بولا اچھا میں وہاں سے نکلا تو مجھے سامنے دینی مل گیا اور بولا واہ بھائی آج کل تے لفٹ ہی کوئی نہیں میں ہنس دیا اور بولا بس یار ایویں ہی میں اسے لے کر دکان پر گیا کچھ دیر باتیں کرتے رہے باجی نصرت نے مجھے دیمی سے بات کرنے کو منع کی تھا اس نے مجھ سے پوچھا تو میں مکر گیا اور بولا کہ باجی نصرت سے چوری آتا ہوں وہ بولا اچھا اس نے آج مجھے چیز کھلائی اس کے پاس بھی کافی پیسے تھے پوچھنے پر بولا کہ آج رات باجی ثانیہ پھر اسامے سے ملنے آئی تھی اس لیے آج پھر کافی پیسے ملے ہیں مجھے بھی اب اپنی بہن نصرت کے پیسے مل رہے تھے میں مزے میں تھا دیمی سے اٹھ کر گھر آیا تو باجی نصرت اندر کیچن میں تھی میں اندر گیا تو باجی مجھے دیکھ کر مسکرا دی میں باجی کو پیسے دینا چاہتا تھا پر وہاں امی تھی اس لیے میں جھجھک گیا امی مجھے چپ دیکھ کر بولی بہزاد کی بنیا فر کی آکھیا اسامے میں گھونٹ بھر کر رہ گیا کہ امی کو بھی پتا ہے باجی سنک پر برتن دھو رہی تھی میں نے باجی کو دیکھا تو باجی مسکرا دی اور بولی بول وی امی نوں پتا اے میں جیب سے پانچ ہزار کے نوٹ نکال کر بولا باجی اس پنج ہزار دے دتے ہینڑ تے اکھ رہیا کس ٹائم آواں پانچ ہزار دیکھ کر امی کی آنکھوں میں چمک سی آگئی اور امی گھونٹ بھر کر مجھے دیکھا اور باجی نصرت کو دیکھ کر مسکرا کر بولی نصرت ویسے تیرے ہتھ تے سونے دی ککڑ آگئی اے دوواں ہتھاں نال کے لئے باجی مسکرا دی اور میرے ہاتھ سے پیسے پکڑ کر امی کو پکڑا دئیے امی نے پیسے پکڑ کر اکھٹے مروڑ کر اپنے سینے میں جلدی سے ڈال لیے جیسے بندہ سامنے والی جیب میں ڈالتا ہے امی کے دوپٹہ اٹھانے سے پہلی بار بڑے بڑے موٹے ممے مجھے نظر آئے امی کے موٹے تنے مموں کی لکیر بھی نظر آئی میں نے اوپر امی کو دیکھا تو امی مجھے دیکھ کر مسکرا دی اور بولی بہزاد چل توں جا باہر نصرت دس دیندی اے جھٹ تک کہ اسامہ کس ٹائم آوے میں باہر نکلا اور دروازے پر رک گیا کہ امی اور باجی کیا بات کرتی ہیں امی بولی نصرت توں تے اسامے نوں دیوانہ کہتا ہویا نصرت ہنس دی اور بولی امی توں ویسے سہی ہی آکھدی ہیں اے امیروں کولو پیسے کڈھواںڑ دا اے ہی طریقہ اے انج تے اے نہیں کڈھدے ساڈے جئے لوگ دورو ہی ویکھدے رہندے اے لوگ سادہ کمزوریاں دا فائیدہ اٹھانے امی بولی نصرت اے تیرا بڑا دیوانہ اے اسامہ توں اس کولو اپنا ریٹ لوا کے اکھٹا ہی مال چھک لئے باجی نصرت ہنس دی اور بولی امی توں وی بولی ہیں تینوں نظر آ رہیا اے کہ اسامہ میرے آکھنڑ تے میرے آتے پیسے وار رہیا اے توں ہک واری مینوں اسدی کمزوری دا فائیدہ فل اٹھانڑ دے جتنے پیسے انج نکلدے کڈھ لوئیے میں اسامے دے ہولی ہولی قریب ہوکے فل مال کڈھساں جتنا دل کیتا امی ہنس دی اور بولی واہ میری دھی توں تے میرے نالوں وی چالاک نکلی ہیں باجی ہنس کر امی تیری ہی دھی آں توں ویکھی جا میں کی کی کردی امی ہنس کر بولی ہلا اس نوں ہنڑ ویکھاویں کس وقت اپنا جسم باجی بولی امی شام نوں سہی اے کسے نوں پتا وی نا لگسی امی بولی نصرت ہنیرے وچ اس تینوں کی ویکھنڑا مڑ اس آکھنا میں پیسے وی دتے تے تیرے جسم دا نظارہ نہیں ملیا باجی بولی امی کے ہنڑ سد لواں تے لوکی ویکھ کے گلاں کراں امی بولی اوئے ہوئے نصرت ہلے تک ڈر رہی ہیں تینوں پتا نہیں اسامے دی کیڈی دہشت اے کوئی ویکھ کوے کسے تینوں گل وی نہیں کرنی کسے دی مجال ہی نہیں جتھے اسامہ جاوے تے کوئی اس پاسے آکھ چا کے وی ویکھ لوے نصرت بولی اچھا امی بولی ہاں تے ہنڑ ہی وکھا دے بہزاد نوں آکھ اس نوں سد لیاوے تے اے اپنی برا لاہ کے اس نوں اپنا جسم ویکھاویں باجی ہنس کر بولی امی میرا کوارا جسم آج تک کسے نہیں ویکھیا اسامے نوں پہلی واری ویکھا رہی آں اتنا کافی نہیں۔ امی بولی اسامہ ناراض ہوسی باجی نصرت بولی ہوندا تے ہووے پیا جے مینوں برا تے بغیر ویکھنا تے ہور پیسے دیسی تے امی تینوں پتا کل اس مینوں کھنا اے تے کل وی تے اس کولوں پیسے چھپنے امی ہنس کر بولی نصرت تیرا دماغ تے بڑا چلدا اس کم اچ باجی نصرت بولی امی ہنڑ تک محرومیاں ہی ویکھیاں ہینڑ ہن اس کم اچ آئی آں تے ہنڑ پورے شوق پورے کرساں امی ہلا میری دھی آگے تے توں مندی ناہی۔ ہنڑ آپ ہی سارے پلان بنا رہی ہیں باجی ہنس دی اور بولی ہلا میں بہزاد نوں آکھدی آں اسامے نوں سد لیاوے میں یہ سن کر جلدی سے کمرے کی طرف چل دیا میں کمرے میں جا رہا تھا کہ پیچھے سے باجی نے آواز دی میں رک کر دیکھا تو باجی نصرت چلتی ہوئی میری طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی باجی نصرت کی آنکھوں میں مستی چھلک رہی تھی باجی نصرت کے ناک کا کوکا باجی نصرت کے حسن پر قیامت ڈھا رہا تھا میں مچل سا گیا باجی پاس آئی اور بولی جا اپنے دوست اسامے نوں آکھ آجاوے گھر اس نوں آکھ گلی ابو ویکھ کے گھر آکے دروازہ کھٹکائے تے تیرا پچھے میں بولا اچھا میں باہر نکلا اور اسمے کی طرف گیا وہ تو جیسے انتظار میں ہی تھا اس کی بے قراری دیکھ کر میں بولا بھائی باجی آکھ رہی اے کہ گلی اچو ویکھ کے گھر آجا تے میرا پچھے یہ سن کر اسامہ ہنس دیا اور بولا اپنی بھین نوں آکھ ڈر کیوں رہی ہیں اسامے نال یاری لا کے کسے دی مجال ہی نہیں تینوں کوئی گل کر جاوے اس نوں آکھ میں ا رہیا میں نکلا اور گھر آکر باجی کو بتایا کہ اسامہ آ رہا ہے اور وہ کہ رہا ہے کہ اسامے نال یاری لا کے ڈر نہیں کسے دی مجال ہی نہیں تینوں کوئی گل کرجائے یہ سن کر باجی نصرت مسکرا دی باجی نصرت کی آنکھوں میں چمک سی آ گئی تھی اور چہرے پر لالی اتر آئی باجی نے گلے میں دوپٹہ ڈالا ہوا تھا باجی نصرت نے ایک کسا ہوا لباس ڈال لیا تھا جس میں باجی نصرت کا انگ انگ نظر آ رہا تھا باجی نصرت بےقراری سے انگلیاں مروڑ رہی تھی جیسے باجی نصرت کو بھی اسامے کا نتظار تھا باجی عابدہ چھت پر بچوں کو پڑھا رہی تھیں ور سعدیہ ہمسائی کی طرف اتنے میں دروازہ کھٹکا تو باجی نصرت نے چونک کر ادھر دیکھا امی باجی نصرت سے بولی نصرت اے دوپٹہ وی لاہ چا کجھ نہیں ہوندا امی پاسس ہی کھڑی تھی امی نے یہ کہتے ہوئے باجی نصرت کا دوپٹہ گلے سے کھینچ لیا باجی نے خود بھی اتار دیا باجی نصرت کو میں نے پہلی بار دوپٹے کے بغیر دیکھا تھا باجی نصرت تو پوری سیکس بمب تھی باجی نصرت کے ہوا میں تن کر کھڑے موٹے ممے قیامت ڈھا رہے تھے باجی نصرت کا ہلکا سا بھرا ہوا چوڑا جسم بہت خوبصورت تھا کسے قمیض میں کسا ہوا پیٹ بھی نظر آ رہا تھا جس سے باجی نصرت کی دھنی بھی باہر کو جھانک رہی تھی باجی نصرت کا لک پتلا اور نیچے چوڑی گانڈ پھیلی ہوئی باہر ہو نکل کر کیا منظر پیش کر رہی تھی باجی نصرت کے موٹے باہر کو نکلے چتڑ کس کر شلوار سے جھانک رہے تھے باجی کی کمر کمان کی طرح تن رہی تھی امی باجی نصرت سے بولی نصرت اپنا سینہ تھوڑا ہور باہر کڈھ یہ سن کر باجی نصرت نے اپنا سینہ آگے کو نکال لیا جس سے باجی نصرت کا چوڑا سینہ مزید آگے کو نکل آیا باجی نصرت کے کھلے گلے سے نظر آتا چوڑا گورا سینہ قیامت لگ رہا تھا باجی نصرت کی ہلی سی مموں کی لکیر صاف نظر آنے لگی تھی جسے دیکھ کر باجی نصرت کے چہرے پر لالی سی پھیل گئی امی نے باجی کی گت اٹھائی اور باجی کو بتاتی ہوئی بولی نصرت جدو اسامے دے سامنے جاویں اپنی گت چا کے اپنی چھاتیاں تے رکھ کے اسامے فی اکھیاں وچ اکھیاں پا کے ہک واری ویکھیں او تیرے تے مر جاوے اور آگے ہوکر باجی نصرت کا سر دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر اپنے قریب کیا اور باجی نصرت کا ماتھا چوم کر بولی جا میری دھی آج تو توں آزاد ہیں جا آج توں اپنا آپ ویکھا کے کما لیا یہ سن کر باجی نصرت مسکرا کر گیٹ کی طرف چل پڑی چلتے ہوئے باجی نصرت کی چوڑی گانڈ باہر کو نکل کر ادھ پتھل کر رہی تھی باجی نصرت دروازے پر پہنچی اور دروازہ کھول کر ہلکا سا باہر دیکھا تو اسامہ کھڑا تھا باجی نصرت اسامے ہو دیکھا اور ایک لمحے کےلیے پورا دروازہ کھول کر اسامے کے سامنے آگئی اسامہ باجی نصرت کے جسم کو دیکھ کر مچل سا گیا اس نے باجی نصرت کی آنکھوں دیکھا اور ایک لمحے کےلیے مسکرا گیا اور نیچے باجی نصرت کے چوڑے پھولے سینے کو دیکھا جہاں باجی نصرت کے موٹے تنے کر کھڑے ابھرے ہوئے ممے اس کی آنکھوں میں کھب سے گئے باجی نصرت کے تنے ہوا میں کھڑے ممے دیکھ کر اسامہ مچل گیا اور سسک گیا باجی نصرت کے مموں جیسے ممے شاید اس نے پہلی بار دیکھے تھے اتنا چوڑا اور تنا ہوا سینہ اس نے پہلی بار دیکھا تھا اس نے گھونٹ بھر کر ٹکٹکی باندھ کر باجی نصرت کے تنے مموں کو دیکھتا ہوا باجی نصرت کے جسم پر نظر گھماتا ہوا باجی نصرت کا پیٹ اور نیچے گانڈ پر نظر گھمانے لگا اسامہ اور باجی نصرت باہر گیٹ پر کھڑے تھے باجی نصرت اسے اپنا جسم دکھا رہی تھی اسامہ باجی نصرت کے جسم سے نظروں نظروں میں کھیل رہا تھا باجی نصرت اس کے سامنے کھڑی اپنی انگلیاں مروڑ تی کسی وقت نظر اٹھا کر اسے دیکھ لیتی پھر باجی نصرت نے اپنی گت اٹھا کر آگے مموں پر رکھی اور ایک ہاتھ پیچھے دروازے پر رکھا اور دوسرا آگے رکھ کر اپنا سینہ مزید آگے کی طرف کھینچ کر نکال دیا جس سے باجی نصرت کے موٹے ممے باہر کو مزید نکل آئے باجی نصرت اپنی گت پر انگلیاں پھیرتی گہری مدہوش نظروں سے ہلکا سا مسکرا کر دیکھتی ہوئی شرما بھی رہی تھی باجی کو مسکراتا دیکھ کر اسامہ باجی نصرت کو دیکھ کر مسکرا رہا تھا باجی نصرت اور اسامے کو پانچ منٹ سے زیادہ وقت ہوگیا تھا باہر کھڑے ہوئے دونوں ایک دوسرے میں مگن تھے کہ اتنے میں گلی میں ان کے پیچھے سے ایک عورت گزری جو باجی نصرت کو اسمے کے پاس کھڑا دیکھ کر چونک گئی باجی نصرت کی نظر پڑی تو باجی نصرت چونک گئی اسامے نے مڑ کر دیکھا تو اس عورت نے جلدی سے نظر ہٹا لی اور جلدی جلدی آگے کو چلتی ہوئی جانے لگی باجی نصرت یہ دیکھ کر ڈر سی گئی اور جلدی سے پیچھے مڑ گئی اور دروازہ بند کرنے کا سوچا تو اسامہ بھی مسکرا کر ہٹنے لگا باجی دروازہ بند کرکے واپس مڑی تو باجی کا رنگ اڑا دیکھ کر امی بولی کی بنیا باجی نصرت بولی امی او سامنے آلی آنٹی ویکھ کیا اے امی ہنس دی اور بولی نی نصرت نا ڈر کجھ نہیں ہوندا تینوں دسیا تے ہے اسامے دا ڈر اتنا ہے کسے گل نہیں کرنی نصرت بولی سچی امی امی بولی نصرت ہنڑ جے توں اس کم اچ آگئی این تے ڈر نہیں تینوں نہیں پتا پنڈ دیاں پتوں نہیں کتنیقں چھوریں دے اسمے نال تعلق ہینڑ آج تک اس نوں جسے نہیں روکیا چھوریں دے گھر دے مرد وی کدی نہیں بولے تے تینوں جسے کی آکھنا یہ سن کر باجی کو کچھ حوصلہ ہوا اور وہ بولا اچھا امی بولی توں آپ ویکھ کئیں تینوں اس ویکھیا اے جے اس کوئی گل کیتی تے شام تک تیرے تک پہنچ اسی نصرت بولی اچھا امی اسامے وی اس آلو ویکھیا تے او جلدی جلدی بھج گئی امی ہنس کر بولی نا پریشان ہو کجھ نہیں ہوندا میں کچھ دیر بیٹھا رہا پھر ہم پڑھنے لگے باجی نصرت کپڑے تبدیل کرے چھت پر آئی اور پڑھانے لگی شام کو میں باہر سے گھر آیا تو اتنے میں سامنے والی آنٹی اندر آئی جسے دیکھ کر باجی نصرت پریشان سی ہو گئی اس نے امی کا پوچھا میں بولا کیچن میں ہے وہ کیچن کی طرف جاتی ہوئی باجی نصرت سے بولی نصرت میری دھی کی حال اے اور باجی کو باہوں میں بھر کر ملی باجی بھی ملی اور بولی آوروں آ گل سنڑ اور اندر چلی گئی میں بھی پیچھے چلا گیا اندر جا کر وہ امی سے ملی اور پاس بیٹھ گئی دو تین باتوں کے بعد بولی میں آئی تے اس کانڑ ہاں کہ آج نصرت اسامے کول کھلی ہا گیٹ تے میری نظر پئے گئی مینوں اسامے آکھ گھلیا اے کہ نصرت پریشان ہو گئی ہا کہ میں ویکھ لیا نصرت نوں اسامے کول کھلا ہویا دسنڑ تے اے آئی آں کہ نصرت میری دھی پریشان ناں ہو میں کسے نوں نہیں دسدی توں تے اسامہ جو مرضی کرو ساڈا کوئی جھیڑا ہی نہیں ویسے وی نصرت چنگی گل اے اے چوہدریاں نال بنا کے رکھیںدی اے تیری ماں نوں تے پتا اسامے دے پیو نال تے اساں دوواں ہنڑ تک بنا کے رکھی اے میں یہ سن کر چونک گیا باجی بولی ہاں امی دس رہی ہائے کے تسی دوویں اکثر رات اسامے دے ابے کول ہی ہوندے ہائے وہ بولی ہا پر ہنڑ تے اسدی ساتھے تک نہیں پوندی میرے نالو تے تیری ماں ہلے وی سواد دیندی اے ایڈی بڈھی تے نہیں ہوئی امی ہنس دی اور بولی کدی کدی مینوں تے سد لیندا اے میں جاندی آں وہ بولی اچھا نصرت اسامے نوں دس دیویں کہ میں آئی ہاس تینوں دسنڑ او آگے وی کڑی رہیا یا میں اس نوں وی آکھیا اے کہ جو مرضی کر نصرت بولی آنٹی میں دس دیساں کجھ نہیں آکھدا اور کچھ دیر بیٹھ کر وہ چلی گئی میں یہ انکشاف سن کر حیران بھی تھا اور عجیب سی خوشی بھی تھی اگلے دن میں سکول گیا سکول سے واپس آکر کچھ دیر آرام کو لیٹ گیا کچھ دیر آرام کرکے میں باہر نکلا میں نے سوچا کہ اسامے کی طرف جاؤں اب مجھے بھی عادت سی ہو گئی تھی باجی کی تصویریں اسامے کو دینے کی میں باہر نکلا تو باجی نصرت صحن میں بیٹھی تھی مجھے دیکھ کر مسکرا دی اور بولی بہزاد گل سن میں باجی نصرت کے پاس گیا باجی بولی اے دس اسامے آل گیا ایں میں بولا جاؤں آں ہنڑ باجی نصرت بولی اچھا جے اگر او آکھے نا کہ اپنی بھین نوں آکھیں کہ ہور کلوز ویکھنا اے مینوں مطلب میرا جسم برا تو بغیر ویکھنا اے تے دس ہزار روپیہ لگسی میں بولا اچھا باجی نصرت بولی گل سن اس نوں آکھیں کہ سامنے آلی آنٹی آئی ہا اس نوں آکھیں کوئی مسئلہ نہیں میں بولا اچھا اور نکل آیا میں اسامے کے پاس پہنچا تو اسامہ مجھے دیکھ کر خوشی سے بولا آ بھائی میرے شہزادے کی حال اے میں بولا فٹ آں وہ بولا نصرت دی سنا میں بولا باجی فٹ اے وہ بولا یار تیری بھین تے پوری بمب ہے ایسیاں تنیا ں ہویاں چھاتیاں آج تک نہیں ویکھیاں قسمیں دل کر رہیا آں کہ پھد کے مروڑ دیواں میں مسکرا کر بولا بھائی باجی آکھ رہی ہا کہ چھاتیاں برا توں بغیر ویکھنیاں ہینڑ تے دس ہزار لگسی اسامہ یہ سن کر خوشی سے چونک کر بولا واہ یار تیری بھین تے میری جان وی لیسی گئی چل اس نوں آکھ سہی اے پر ہک میری وی خواہش اس نوں آکھ پوری کردے میں بولا کی وہ بولا جتنی دیر میں اس کول کھلوساں اس نوں آکھ اپنا ہتھ میرے ہتھ اچش دینڑا ہیس میں بولا اچھا میں دس دیساں اس نے بٹوے سے ہزار والے دس نوٹ اور میرا نعام نکال کر مجھے دے دیا میں نوٹ لے کر باہر نکلا اور گھر آگیا باجی میرا ہی انتظار کر رہی تھی مجھے دیکھ کر ہنس دی اور بولی اسامہ کی آکھدا میں نے جیب سے دس نوٹ نکالے اور باجی نصرت کو پکڑا دئیے باجی دس ہزار دیکھ کر مچل سی گئی باجی نصرت کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا میں بولا باجی اسامہ وی آکھ رہیا ہا کہ میری وی ہک من لئے باجی مسکرا کر بولی اس نوں آکھ ساریاں تیری ہی من رہی آں اور مسکرا کر پیسے امی کو پکڑا کر بولی دس کی آکھدا میں بولا باجی او آکھ رہیا جدو تک میں ملاقات کرنی ہتھ میرے ہتھ وچ پکڑائی رکھیں باجی مسکرا کر بولی بس اتنا ہی میں بولا باجی بولی جا اس نوں آکھ آجا میری کوئی ناہں اے میں مسکرا کر باہر نکل آیا اور۔ اسامے کو بتایا کہ باجی بلا رہی اے میں پیغام دے کر گھر آیا تو باجی نصرت کل والے لباس میں تھی پر باجی نے برا اتار رکھی تھی جس سے باجی نصرت کے موٹے تنے ہوئے اکڑ کر کھڑے نپلز کسے ہوئے قمیض سے جھانک رہے تھے میں یہ منظر دیکھ کر مچل گیا باجی مجھے دیکھ کر بولی کی بنیا میں بولا آ رہیا اے کچھ دیر بعد دروازہ کھٹکا اور باجی نصرت مسکرا دی باجی نصرت خود ہی دروازے کی طرف چلی گئی اور دروازے کو کھول کر باہر دیکھا تو سامنے اسامہ کھڑا تھا باجی نصرت اسے دیکھ کر مسکرا دی اور دروازہ کھول کر اسامے کے سامنے آگئی اسامہ باجی نصرت کے تن کر کھڑے کر اکڑے ممے اور نپلز دیکھ کر مسکرا دیا باجی اسے دیکھ کر مسکرا دی اسامہ بولا وہ میری جان آج تے بہوں سوہنی لگ رہی ہیں باجی نصرت نے مسکرا کر سے دیکھا۔ اور بولی اچھا جی وہ بولا ہاں جی نصرت بولی کتھو کتھو سوہنی لگ رہی ہاں باجی نصرت کی آج جھجھک کم تھی وہ باہر دروازے پر گلے میں کھڑی ہوکر آج اسامے کو اپنا جسم دکھا رہی تھی اسامے نے ہاتھ آگے کرکے باجی نصرت کے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام لیا اور باجی نصرت کے ہاتھ دبا کر بولا نصرت باہر ہی آجا میرے کول باجی تھوڑی جھجھکی کیوں کہ باہر گلی میں یوں اس حالت میں اسامے کے ساتھ کھڑا ہونا ٹھیک نہیں لگا باجی کو پر اسامہ باجی نصرت کی جھجھک دیکھ کر بولا میری جان پریشان کیوں ہو رہی ہیں توں اسامے دی مشوق ہیں کسے دی ہمت ہی نہیں تینوں کوئی گل کر جاوے کوئی گل کرے تے میں جان ناں کڈھ لواں توں نا گھبرا باہر آجا میرے کول باجی بولی اسامہ توں ہی اندر آجا اسامہ مسکرا کر بولا میں وی اندر آجاساں پر تیری جھجھک وی تے لاہنی اے تا کہ توں میرے کول آونڑ لگیاں تینوں کوئی پریشانی نا ہووے یہ کہ کر اسامے نے باجی نصرت کو اپنی طرف کھینچ لیا باجی نصرت خود بخود ہی چلتی ہوئی دروازے سے باہر نکل کر گلی میں کھڑے اسامے کے پاس چلی گئی باجی نصرت نے ادھر ادھر دیکھا تو اسامہ بولا نصرت میری جان تینوں میرے تے اعتبار نہیں میں آکھ رہیا ہاں نا کجھ نہیں ہوندا باجی تھوڑی سی جھجھک رہی تھی کیونکہ باجی نصرت کبھی چادر کے بغیر باہر گئی نہیں تھی اور اب تو اسامے کے ساتھ باہر جا رہی تھی نصرت اس لیے تھوڑا جھجھک رہی تھی اسامہ باجی نصرت کو جھجھکتا دیکھ کر بولا میری جان اسدا مطلب تینوں میرا یقین نہیں آ رہیا تے فر چلی جا گھر نصرت اسامے کی بات سن کر اسے دیکھا اور گھبرا سی گئی اسامہ غصے کا تیز تھا اس لیے سب ڈرتے تھے نصرت بولی نہیں میری جان بس میں کدی انج باہر آئی نہیں ناں اس توں تھوڑا گھبرا رہی آں اسامہ بولا میری جان گھبرا نہیں میں آکھ رہیا آں ناں نصرت کا منہ شرم سے گلابی ہو گیا اتنے میں پاس سے ایک لڑکا قریب آیا تو باجی سمٹ سی گئی وہ لڑکا باجی نصرت کو اسامے کے پاس کھڑا دیکھ کر نظر جھکا لی جیسے اس نے دیکھا ہی نہیں اسے گزرتا دیکھ کر اور باجی کو سمٹتا دیکھ کر اسامہ بولا اوئے وہ لڑکا سن کر رک گیا اور بولا جی بھائی اسامہ بولا تینوں کوئی اعتراض ہے میں نصرت کول کھڑا ہاں قابل اعتراض حالت اچ وہ بولا نہیں بھائی مینوں کیوں اعتراض ہونا تھواڈی مرضی جو مرضی کرو اسامہ چل جا اور نصرت کو دیکھ کر بولا ویکھ توں ایویں گھبرا رہی ایں تینوں میرے تے یقین نہیں نصرت مسکرا کر اسامے کے قریب ہوکر سائیڈ سے اسامے کے ساتھ لگ گئی باجی نصرت کا ایک موٹا ممے اسامے کے سینے میں دب گیا باجی گلی میں سب کے سامنے اسامے کے ساتھ لگ گئی تھی یہ سب دیکھ کر باجی کی کچھ جھجھک تو اتر گئی تھی باجی مسکرا کر بولی میری جان تینوں پتا تے ہے میں ہک شریف لڑکی ہاں آج تک برکے توں بغیر باہر نہیں نکلی ہنڑ مینوں سب دے سامنے تینوں ملنڑ تے کجھ تے جھجھک ہونی ہولی ہولی لہ جاسی گئی نا پریشان ہو باجی نصرت گلی کھڑے ہوئے اسامے کے بالکل ساتھ لگی ہوئی تھی اسامے نے باجی نصرت کی کمر میں۔ ہاتھ ڈالا اور باجی نصرت کو اپنے قریب کرکے اپنا منہ باجی نصرت کے منہ کے پالکل قریب کرکے بولا میری جان ہنڑ توں اسامے دی مشوق ہیں جھجھکنا چھڈ دے جو تیری مرضی اب آوے توں او کر تینوں پتا نہیں میں تیرا دیوانہ ہاں۔ باجی نصرت باہر گلی میں سب کے سامنے اسامے کے ساتھ لگ کر کھڑی اسامے کی آنکھوں میں مدہوشی سے دیکھ رہی تھی پاس سے لوگ گزر رہے تھے پر سب اپنے آپ میں ایسے مگن رہے کہ جیسے وہ کچھ دیکھ ہی نہیں رہے اسامے کا ڈر تھا اسامہ بولا میری جان اجازت ہے ہک وارچم لواں تینوں باجی نصرت مسکرا دی اور بولی مشوقاں کولو پچھیندا نہیں حکم دیویندا اے اسامہ بولا میری جان توں میری مشوق وی ہیں تے جان وی ہیں میں تے تیرا بڑا وڈا عاشق آں میں آج تک اپنی مرضی کیتی پر ہنڑ تیری مرضی نال چلساں گیا باجی نصرت نے مسکرا کر اسے دیکھا اور بلی اچھا جی اور اسامے کے سر کے پیچھے ہاتھ لے جا کر اپنے ہونٹ اسامے کے ہونٹوں سے جوڑ کر چومنے لگی اسامہ بھی باجی نصرت کے ہونٹوں کو چومنے لگا میں باجی نصرت اور اسامے کو گلی میں کھڑے ہوکر سب کے سامنے فرنچ کس کرتا دیکھا رہا تھا پاس سے گزرے لوگ باجی نصرت اور اسامے کو فرنچ کسنگ کرتے دیکھ کر اپنی راہ جا رہے تھے نصرت اور اسامہ دونوں گلی میں کھڑے ہوکر لوگوں کے سامنے کس کر ایک دوسرے کو چوم رہے تھے دونوں اتنے مگن تھے کہ چومنے سے پچ پچ کی آوازیں آنے لگیں تھیں جو لوگ ان رہے تھے باجی نصرت مزے سے ہانپنے لگی تھی باجی نے اسامے کی زبان کھینچ کر اپنے منہ بھر کر دبا رک چوسنے لگی باجی نصرت اور اسامہ دونوں باقاعدہ گلی میں کھڑے ہوکر دبا کر کسنگ کرتے ایک دوسرے کی زبان کو چوس رہے تھے پانچ منٹ دونوں ایک دوسرے کو کسنگ کرتے رہے اس دوران اسامے نے نصرت کو چھوڑ دیا اور دونوں ہانپنے لگے دونوں ایک دوسرے کےسںاتھ لگے تھے اسامہ باجی نصرت کے ہونٹوں کو چوس کر بولا افففف نصرتتتت میری جان میں تے تیرا رس پی کے دیوانہ ہوگیا باجی مسکرا دی اور بولی میں آپ تیری دیوانی ہو گئی آں وہ بولا نصرت اپنا نمبر دے دے نصرت مسکرا دی اور بولی نمبر کی کرنا ہئی وہ بولا تیرے نال گلاں کرساں گیا باجی نصرت بولی اچھا جی اے لئو جناب اور اس کے ساتھ لگی ہی اپنا نمبر اسے دے دیا۔ وہ بولا ہنڑ جھجھک تے کوئی نہیں ناں باجی مسکرا دی اور بولی کجھ آج لہ گئی کجھ کل لہ جاسی گئی وہ بولا چلو چنگی گل اے اور بولا کل ملدے آں اور وہ چلا گیا باجی نصرت بھی اندر آگئی امی مسکرا دی اور بولی نصرت توں تے اج کجھ ڈھیر ہی وٹی گئی نصرت دیوار کے ساتھ لگ کر سسک کر تیز تیز سانس لیتی اپنے سینے کو دبا کر بولی اففف اماں ناں پچھ رہیا ہی نہیں گیا میرا تے دل پیا کردا ہا کہ اوتھے بازار اچ ہی لیٹ جاواں تے اسامے نوں اکھاں کہ چڑھ جا میرے آتے امی بولی تے وت انتظار کس چیز دا باجی ہنس کر بولی امی ہلے نہیں اسامے تے جتنا ہتھ صاف ہوندا کرئیے جانا تے اودے ہیٹھ ہے ہی پر کجھ مال۔بنا ہوئیے اور ہنس دی امی بولی جیویں توں آکھ باجی بولی ویسے امی ہک گل اے امی بولی او کی امی گلی اچ کھلو کے لوگوں دے سامنے اسامے نوں ملنڑ دا سواد بڑا آیا اے میرا تے دل پھڑک رہیا اے دل کردا پیا کہ باہر اسامے کول کھلی رہواں امی مسکرا دی اور بولی نصرت تیری آگ تیرے کولو بہوں کجھ کریسی امی بولی ہلا ہنڑ مینوں پہلاں ٹھنڈا کر وت گلاں بعد دیاں میں سمجھا نہیں امی اور باجی اندر چلی گئی میں کچھ دیر بعد گیا تو امی باجی نصرت کے چڈوں میں سر دے کر باجی نصرت کی ننگی پھدی کو چاٹ رہی تھی باجی مزے سے کراہ رہی تھی دو منٹ میں باجی نصرت پانی کے پھوارے چھوڑتی فارغ ہو گئی میں یہ دیکھ کر باہر نکل گیا کچھ دیر باہر رہا اور پھر گھر آ کر باجی نصرت سے پڑھنے لگا اگلے دن میں سکول سے آیا باجی نصرت اب خوش رہنے لگی تھی پہلے باجی نصرت کا چہرہ مرجھایا رہتا اب باجی نصرت کا چہرہ کھل سا گیا تھا شاید اسامے سے مل کر باجی کی دلی خواہش پوری ہوہی تھی اس لیے ہم کھانا کھا کر بیٹھے تو نصرت کا فون بجا باجی نے فون اٹھایا تو اسامہ تھا اسامہ بولا ہاں میری جان کی حال اے نصرت بولی میری جان ٹھیک آں توں سنا وہ بولا ٹھیک اے دس کوئی پریشانی تے نہیں میری جان نوں باجی ہنس دیا ور بولی تیرے ہوندیاں کی پریشانی اے وہ بولی خوش کیتا ہئی میری جان اے دس کی کر رہی ایں باجی بولی بس تیرا انتظار وہ بولا اچھا جی گل ایتھو تک پہنچ گئی باجی بولی اسامہ ہک گل ویسے ہے لوگاں دے سامنے تینوں ملنڑ تے بڑا سواد آندا اے وہ ہنس کر بولا اچھا اسدا مطلب وت اسی روز ملیے باجی نصرت بولی تے ہور کی آپ نہوں آکھدا کسے توں ڈرنا نہیں وہ ہنس دیا اور بولا جناب آکھو تے ڈیرے ہی تھوڈے گھر دے سامنے لا لوئیے باجی ہنس دی اور بولی نہیں ہلے نہیں وہ بولا وت باجی بولی اے دس آج کی پروگرام اے وہ بولا میری جان جیویں اکھو پر کل ار نہیں باجی بولی نہیں ہنڑ میری شرم لاہ گئی اے ہنڑ بے جھجھک ملساں اسامہ بولا نصرت پر ہک گل مننی ہوسی باجی بولی او کی اسامہ بولا نصرت تیرے موٹے ممیاں دا نظارہ کرنا اے باجی ہنس دی اور بولی ایڈی جلدی ہلے تے دو دن ہوئے ہینڑ وہ بولا نصرت میری جان ایڈا امتحان نا لئے باجی ہنس دی اور بولی ایڈا امتحان کوئی نہیں بس 25000 ہزار لئی آ اسامہ باجی نصرت کی بات سن کر ہنس دیا اور بولا میری جان بس اتنا ہی توں آکھ تے میری جان وی حاضر سے باجی نصرت بولی وے نہیں ہک واری اے ہی چاہیدی وہ ہنس کر بولا اچھا میں آیا نصرت نے کال کاٹی اور اندر چلی گئی کچھ دیر بعد دروازہ کھٹکا تو نصرت باہر نکلی باجی نصرت کو دیکھ کر میں چونک گیا باجی نصرت بالکل باریک قمیض میں تھی جس سے باجی نصرت کا انگ انگ واضح نظر آرہا تھا باجی نصرت کا جسم باریک قمیض میں سے جھانک رہا تھا باجی نصرت کے تنے ہوئے گورے ممے صاف نظر آ رہے تھے باجی نصرت کے گلابی نپلز قمیض میں سے صاف نظر آ رہے تھے باجی نصرت کے جسم سے قمیض چپک کر سب کچھ واضح دکھا رہا تھا باجی نصرت نے دروازہ کھولا تو سامنے اسامہ کھڑا تھا باجی نصرت نے مسکرا کر اسے دیکھا اور دروازے سے باہر قدم رکھتی ہوئی باہر گلی میں نیم ننگی حالت میں اسامے کی طرف چلی گئی باجی جیسے ہی نکلی تو گلی سے گزرتے لوگ باجی نصرت کو نیم ننگا دیکھ کر چونک گئے پر پاس کھڑے اسامہ کو دیکھ کر چپ چاپ گزرنے لگے باجی نصرت باہر نکلی اور سیدھی اسامے کے قریب ہوکر اپنے آپ کو اسامے کے ساتھ جوڑ لیا جس سے باجی نصرت کے موٹے ممے اسامے کے سینے میں دب گئے اسامے نے باجی نصرت کو گلی میں سب کے سامنے اپنی باہوں میں بھر کر دبوچ لیا نصرت نے بھی اسامے کو باہوں میں بھر کدبوچ لیا اور ایک دوسرے کے ہو توں سے ہونٹ جوڑ کر چومنے لگے باجی نصرت گلی میں سب لوگوں کے سامنے اسامے کے گلے لگی اسامے کو باہوں میں بھر کر اسامے سے مل کر اسامے کو چوم رہی تھی اسامہ باجی نصرت کو باہوں میں دبوچ کر باجی نصرت کی زبان کھینچ کر چوس رہا تھا باجی نصرت کے موٹے ممے نصرت کے سینے میں دبے ہوئے تھے جنہیں باجی اسامے کے سینے میں نسل رہی تھی اسامہ باجی نصرت کے ہونٹوں کو چھوڑ کر منی پیچھے کیا اور فوجی کو باہوں بھرے ہوئے بولا نصرت آج تے خوش کیتا ہئی آپے ہی میرے سینے آلگی ایں کوئی جھجھک نہیں نصرت مسکرا بولا وے تیرے جیا یار ہووے تے وت لوکاں توں کیوں ڈراں وہ بولا واہ میری جان تینوں ڈرنا چاہیدا وی نہیں اور باجی نصرت کی گال کو چوم کر باجی نصرت کی کمر کو مسلتا ہوا باجی نصرت کی گال کو منہ میں میں بھر کر دبا کر چوس لیا اور چھوڑ کر بولا نصرت اپنے ممے تے ویکھنڑ دے ہک واری نصرت مسکرا کر اسامہ کو چھوڑ کر پیچھے ہوئی باجی نصرت کے تنکر کھڑے تنگ باریک قمیض میں سے گورے ممے جھانک رہے تھے نصرت نیم ننگی گلی میں اسامے پاس کھڑی تھی لوگ پاس سے گرلزر رہے تھے نصرت کا اوپر والا جسم نظر آ رہا تھا باجی نصرت کے گلابی نپلز دیکھ کر اسامہ بولا اففف مہررری جان تیرا حسن تے میری جان کڈھ رہیا اے نصرت بولی اسامہ رک کیوں گیاں ایں اے تیرا ہی مال اہناں نوں نچوڑ باجی نصرت کی بات سے اسامہ سسک گیا اور سسکار بولا اففف نصصصررتتت گلی اچ ہی مروڑ دیواں سب دے سامنے نصرت بولی سب دے سامنے ہی تے تینوں ملنڑ دا سواد آیا اے یہ کہ کر باجی نے اس کے ہاتھ کپڑے اور اپنے مموں پر رکھ دئیے باجی نصرت اسامے کے ہاتھوں کا لمس محسوس کرکے مچل گئی اسامے نے ہاتھ میں ممے آتے ہی دبا کر باجی نصرت کے ممے نچوڑ لئے باجی نصرت ممے اسامے کے ہاتھوں میں دبتے ہی مزے سے مچل زوردار کراہ بھر کر کرلا گئی باجی نصرت کی کراہ پوری گلی گونج گئی باجی نصرت تھر تھر کانپتی آنکھیں بند کیے سسکتی ہوئی کراہنے لگی اسامہ میں گلی میں سب کے سامنے میری بہن نصرت کے موٹے ممے ہاتھوں میں دبا کر نچوڑتا ہوا مسل رہا تھا جس سے باجی نصرت کانپتی ہوئی کرلا رہی تھی پاس گزرتے لوگ چپ چاپ گزر رہے تھے اسامے نے نصرت کے ممے دبا کر نچوڑ کر مسلتا ہوا باجی نصرت کے نپلز کو دبا کر کھینچ لیا باجی نصرت کی سسکیاں نکلنے لگی اور باجی کانپتی ہوئی کراہنے لگی اسامہ باجی نصرت کے دونوں نپلز ہاتھوں میں بھر کر مسلنے لگا جس سے باجی نصرت کراہ کر مچلنے لگی اور گھوم کر پیچھے سے اپنی کمر اسامے کے ساتھ جوڑ کر اپنی گانڈ اسامے کے لن پر مسل دی جس سے اسامہ سسک گیا اسامی کی شلوار می لمبا سا ٹینٹ بنا نظر آ رہیا تھا باجی نصرت کی موٹی گانڈ میں لن پھسلنے لگا اسامے نے آگے سے قمیض ہٹایا اور گلی میں ہی سب کے سامنے اپنا لن باجی نصرت کے چڈوں میں پھنسا دیا جسے باجی نے اپنے چڈوں میں دبوچ لیا میں باجی نصرت کو گلی میں کھڑے ہوکر سب کے سامنے لن چڈوں میں لیتا دیکھ کر مچل سا گیا اسامے نے باجی نصرت کا منہ گلی کی طرف کیا جس سے باجی نصرت کے قمیض سے جھانکتے ممے گلی کے لوگوں کی طرف ہوگئے اور ہاتھوں میں بھر کر دبا کر باجی نصرت کے ممے مسلتا ہوا باجی نصرت کے ہونٹوں کو چومتا گلی میں سب کے سامنے ہلکے ہلکے جھٹکے مارتا باجی نصرت کے چڈوں میں لن گھمانے لگا جس سے باجی نصرت پہلی بار کسی مرد کا لن چڈوں میں لے کر تڑپ سی گئی اور کراہ کر ہانپتی ہوئی کراہنے لگی باجی نصرت کی کراہیں اور سسکیاں پوری گلی میں گونج رہی تھی اسامہ اور باجی نصرت باہر گلی میں کھڑے ہوکر ایک دوسرے سے مستیاں کر رہے تھے لوگ گزرتے دیکھ کر آگے چلتے جا رہے تھے باجی نصرت بھی گلی میں سب کے سامنے اپنے ممے نکال کر سب کو دکھا رہی تھی جن کو مروڑتس ہوا اسامہ باجی کے مموں سے کھیل رہا تھا ویسے تو اسامہ اوباش اوت سنائی لڑکا تھا دن کے وقت بھی کئی لڑکیاں اس کے ساتھ اس کی بیٹھک میں جاتی دیکھی گئی پر یوں گلی میں کھڑے ہوکر ساب لوگوں کے سامنے کسی لڑکی کے ساتھ مستیاں پہلی بار کر رہا تھا باجی نصرت بھی مزے سے کراہ رہی تھی دو تین منٹ میں ہی دونوں کا کام تمام ہوگیا اور اسامہ کانپتا ہوا کراہ کر ہیں بھرتا گلی میں ہی سب لوگوں کے سامنے باجی نصرت کے مموں سے کھیلتا باجی نصرت کے چڈوں میں فارغ ہوگیا باجی نصرت بھی کراہتی ہوئی ہانپتی ہوئی اسامے کے ساتھ فارغ ہوکر کراہنے لگی دونوں اہنپتے ہوئے ایک دوسرے کے سانس بحال کرنے لگے دو تین منٹ میں دنوں سنبھلے اسامہ بولا اففف نصرت سواد آگیا نصرت ہانپتی بولی اففف میری جااااننن آج گلی اچ کھول کے سب لوگوں دے سامنے مستیاں کرنے دا سواد آگیا انج آر مزہ آج تک نہیں ملیا وہ سسکار کر بولا میری جان آکھ تے روز مزہ ملسی انج دا باجی نصرت بولی سسچی وہ بولا ہور کی اور باجی نصرت ہو چومنے لگا دو تین منٹ تک باجی نصرت کے موٹے ممے دبا رک مسلتا ہوا باجی نصرت کو چومتا رہا دونوں ایک دوسرے کو گلی میں کھڑے ہوکر ایک دوسرے سے سب ہے سامنے پیار کرتے رہے پھر اسامے نے لن باجی کے چڈوں سے نکال لیا تو اس پر لگی منی صاف نظر آ رہی تھی جو سب لوگ دیکھ رہے تھے اسامہ پیچھے ہوا اور جیب سے ایک بڑی سی گدی ناکل کر باجی کو تھما کر بولا آج دا تیرا انعام پورا 50 ہزار اے باجی یہ سن کر مچل گئی اور پیسے پکڑ کر بولی سچی وہ بولا مچی باجی پیسے پکڑ کر سینے سے لگا رک بولی تھینک یو میری جان سب لوگ باجی کو پیسے پکڑتا دیکھ کر سمجھ گئے کہ یہ اسامے کو گلی میں ملنے اور مستیاں کرنے اور اسامے کا پانی اپنے چڈوں میں نکالنے کی اسامے نے قیمت وصول کی ہے میں یہ سب دیکھ کر مزے سے مچل گیا تھا باجی نے اسے ایک بار پھر جپھی میں بھر کر پیار کیا اور باجی نصرت اندر آگئی امی نصرت سے بڑی خوش ہوئی کہ وہ پچاس ہزار لائی تھی میں بھی خوش ہوا اس سے مجھے بھی ہزار روپیہ ملا جس سے میں نے خوب مزے کیے اگلے دو تین دن یہی چلتا رہا باجی نصرت اسامے سے گلی میں ملتی اور پھر گلی میں کھڑے ہوکر سب لوگوں کے سامنے دونوں پیار بھری مستیاں کرتے اور باجی کے چڈوں میں اسامہ فارغ ہوکر باجی کو پچاس ہزار دیتا ایک ہفتے میں باجی نصرت نے کافی پچاس ہزار کما لیے تھے باجی کا سارا شرم حیا اتر گیا تھا باجی عابدہ اور سعدیہ بھی اس سے خوش تھیں کسی کو اعتراض نہیں تھا گاؤں والوں کو بھی مفت کا نظارہ ملتا تھا جب گلی میں باجی نصرت اور اسامہ کھڑے ہوکر مستیاں کرتے ایک دوسرے کے ساتھ اس لیے گاؤں والوں کو بھی کوئی اعتراض نا تھا بات تو پورے گاؤں میں پھیل گئی تھی پر اعتراض کسی کو نہیں تھا اسامے کی وجہ سے اور پھر گاؤں کے اکثر گھر کی لڑکیاں روز رات کو اسامے کے ڈیرے پر اس کے ساتھ اور اس کے دوستوں کے ساتھ انجوائے کرتی تھیں وہ سب چھپ کے کرتی تھیں پر باجی نصرت سرعام سب کے سامنے گلہ میں کھڑی ہوکر اسامے سے ملتی تھی یہ سلسلہ ایک ہفتے تک تو خوب چلتا رہا باجی نصرت رات کو کافی دیر فون پر بات بھی کرتی تھی اسامے سے ایک دن باجی نصرت اسامے سے گلی میں پیار کر رہی تھی اسامہ بولا میری جان کدو تک انج ملساں گئے باجی بولی وت کیویں ملیے اسامہ بولا نصرت اپنے کول آونڑ دے ہنڑ پھدی اچ لن لئے لئے باجی بولی میں سیل پیک آن ہلے تک اسامہ بولا وت سیل دے کتنے پیسے لیسیں باجی نصرت بولی 6 لکھ اسامہ بولا میری جان منظور اے اور باجی کو جپھی میں بھر کر ہی بولا لئے آواں وت باجی نصرت مسکرا کر بولی وے تیرے تے یقین اے آگے توں ایڈوانس دیندا ہائیں آج میں ایڈوانس پھدی دیساں گئی اور پیچھے ہوکر بولی چل اندر اسامہ بولا نصرت ایتھے سب دے سامنے کیوں نہیں باجی بولی وے اتنا ہی بڑا اے پھدی سب سے سامنے نہیں مارنی یہ سن کر اسامہ ہنس دیا اور باجی کے ساتھ اندر چل دیا باجی نصرت اسامے کو پکڑ کر اندر لائی تو سامنے امی اسامے کو دیکھ کر کھڑی ہو گئی اور بولی آؤ جی جناب آج تسی ساڈے غریب خانے تے تشریف لئے آئے ہو وہ بولا نہیں مٹی غریب خانہ کی اے تے میرا گھر ہے اپنا نصرت میری مشوق اے تے اے میرا گھر ہی ہویا امی بولی انج ہی ہے آ بہو کجھ کھا پی لئے باجی نصرت جو لن لینے کو بے قرار تھی وہ بولی امی اسامے نوں اپنے گھر دی سب تو منگی چیز کھواؤ ان امی بولی اچھا جا وت کھوا اور آگے ہوکر نصرت اور اسامے کا ماتھا چوم لیا باجی نصرت اسامے کو ہاتھ سے پکڑ کر اندر لے کر چلی گئی امی کیچن میں گئی میں دیکھنے کےلیے اندر چلا کہ باجی اور اسامہ کیا کریں گے یہ سوچ کر میں نے دروازے سے جھانکا تو باجی نصرت ننگی ہوچکی تھی اور اسامہ بھی ننگا ہو کر باجی نصرت کے موٹے تنے ہوئے ممے دبا کر مسلتا ہوا باجی نصرت کو چوم رہا باجی نصرت سسک کر کراہتی ہوئی اسامے کو چوم رہی رہی تھی باجی نے اسامے کو جپھی میں بھر کر دبا کر چومنے لگی اسامہ بولا نصرت باہر سب دے سامنے تیری پھدی مارن دا سواد ہی ہور ہونا ہا باجی مسکرا کر نیچے ہاتھ کیا اور اسامے کے لن کو پکڑ کر مسل کر بولی میری جان اتنا ہک تے لوگاں دے سامنے کیتا اے ہنڑ کجھ سڈی وی پردہ داری اے اسامہ بھی کا ہتھ لن محسوس کرکے سسک گیا اور باجی کو چومنے لگا باجی نصرت اسمے کو چومتی ہوئی لن مسلتی ہوئی ہاتھ سے خود ہی اسامے ک نالا کھول کر ہاتھ اندر ڈالا اور اسامے کا کہنی جتنا لمبا موٹا لن باہر کھینچ لیا میں اسامے کا اتنا لمبا اور موٹا لن دیکھ کر چونک گیا میرا لن تو ہتھیلی تک لمبا تھا پر اسامے کا پوری کہنی جتنا لن دیکھ کر میں چونک گیا باجی نصرت کا لمس ننگے لن پر محسوس کرکے اسامہ سسک گیا باجی نصرت نے ہاتھ لن پر پھیرا تو باجی نصرت بھی کراہ کر ہانپتی ہوئی چونک گئی باجی نصرت کا سانس بھی تیز ہونے لگا تھا باجی نے نیچے دیکھا اور کہنی جتنا لمبا لن دیکھ کر ایک بار حیرانی سے منہ کھل گیا باجی منہ پر ہاتھ رکھ کر بولی ہالنی اماں میں صدقے جاواں ایڈا وڈا لن اسامہ سسک کر مسکرا دیا اور بولا میری جان پسند آیا کہ نہیں باجی حیرانی سے بولی وے ایڈا لمبا تے موٹا کدو لیا ہئی اسامہ مسکرا کر بولا میری جان تیرے واسطے لیا اے نصرت بولی ایڈا تے میں فلماں وچ ویکھدی ہاس اسامہ بولا آج اصل اچ ویکھ کے دس باجی نصرت سسک کر لن کو ہاتھ میں پکڑ کر ہال وے مار گھتیا ہئی آج تے میری تے توں خواہش پوری کر دتی میں وی سوچدی ہاس ایڈا لمبا لن لبھے کدی جہڑا میرے کڑاکے کڈھ دیوے باجی یہ بات کرتی ہوئی نیچے اسامے کے لن کے سامنے بیٹھ گئی اور مسلتی ہوئی ہانپنے لگی اسامہ بولا نصرت اپنے شہزادے نوں پیار تے کر یہ سن کر نصرت نے مستی سے اسامے کو دیکھ کر لن کے قریب ہوئی اور اسامے کے لن کی ٹپ پر ہونٹ رکھ کر چوم لیا باجی نصرت کے ہونٹوں کا لمس محسوس کرکے اسامہ مچل کر سسک گیا میں بھی باجی نصرت کو اسامے کے لن کو چومتا دیکھ کر مچل گیا میرے لن نے جھٹکا مارا اور پورا تن کر کھڑا ہوگیا باجی اسامے کا پن مسلتی ہوئی چومنے لگی باجی نصرت کبھی ٹوپہ چومتی اور کبھی لن کو چومتی ہوئی اپنے منہ پر ملنے لگتی باجی نصرت اسامے کے لن کو پیار کر رہی تھی جبکہ اسامہ مزے سے سسک رہا تھا باجی نے لن کو مسل کر اپنے مموں کے درمیان رکھا اور مموں کے بیچ لن کو دبا کر مسلنے لگی جس سے اسامہ سسک کر کراہ گیا سامہ مزے سے کانپنے لگا تھا باجی نصرت بھی کراہ کر مچلتی ہوئی اسامے کے لن کو اپنے مموں میں دبا کر اپنے سینے کو لن کے ساتھ لگا کر اپنے بازو اسامے کی گانڈ کے گر گھیر کر کس کر لن کو سینے کے ساتھ دبا رک سسک کر بولی اففف میرا شہزادہ میں تیرے واسطے کتنا تڑپی ہاں
ایک تبصرہ شائع کریں for "میری گرم بہنوں کی جوانی کی بھڑکتی آگ"