Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

بڑی بہن کے ساتھ زنا۔


میرا نام ندیم ہے میں ایک گاؤں کا رہائشی ہوں میں آج اپنی سچی کہانی آپ سب کے سامنے پیش کر رہا ہوں ہم تین بھائی بہن ہیں سب سے بڑی بہن کا نام نصرت ہے نصرت کی عمر 28 سال کے لگ بھگ ہے اس سے چھوٹی کا نام سعدیہ ہے سعدیہ کی عمر 26 سال ہے اس سے چھوٹا میں میری عمر 19 سال ہو گی ابو کا انتقال میری پیدائش کے دو سال بعد ہو گیا امی کا نام شاندانہ ہے امی کی عمر 40 سے اوپر ہے دونوں بہنیں ابھی تک کنواری ہیں ان کی شادی کیوں نہیں ہوسکی یہ بھی خاندانی روایت ہے کہ خاندان سے باہر نہیں کرنی اور خاندان میں ابھی کوئی ایسا لڑکا نہیں جس پر امی مطمئن ہو اس لیے ابھی تک دونوں کنواری ہیں ابو کے انتقال کے وقت باجی نصرت کی عمر آٹھ نوسال جب کہ سعدیہ کی عمر چھ سات سال تھی اور میں لگ بھگ دو سال کا۔ ہماری گاؤں میں کچھ زمین ہے جو ابو کے انتقال کے بعد امی نے ابو کے ایک دوست سرو جس کا نام تو سردار ہے لیکن اسے سرو بولتے ہیں اسے گڈائی پر دے دی سرو ذات کا کمہار ہے لیکن ابو کا دوست تھا اس لیے امی نے اسے گڈائی پر دے دی زمین کافی تھی اس لیے فصل کو دو حصوں میں تقسیم کرکے ایک حصہ سرو رکھ لیتا ایک ہمیں مل جاتا جس سے ہمارا گھر کا نظام اچھا خاصا چل رہا تھا کوئی تنگی نہیں تھی امی نے نصرت اور سعدیہ دونوں کو بی اے تک تعلیم دلوا دی تھی آگے ویسے بھی پڑھنا مشکل تھا کیوںکہ لڑکیاں گاؤں سے باہر کم ہی جاتی تھیں اور آگے کی تعلیم شہر میں ہونا تھا اس لیے تعلیم اتنی ہی حاصل کر سکیں باجی نصرت بی اے کے بعد آگے پڑھنے کی بجائے سلائی سکول جو گاؤں کی ہی ایک درزانی نے بنایا تھا وہاں سے کپڑے سینے سیکھ لیے اور سعدیہ نے گاؤں میں کھلنے والے ایک سکول میں پڑھانا شروع کردیا یوں دونوں نے اپنے لیے فرصت بنا لی باجی نصرت اور امی گھر کے کام دیکھتی سعدیہ سکول پڑھاتی باجی اکثر آس پاس کی عورتوں کے کپڑے سیتی تھی اور فری ہوتی تو گھر کے کام کرتی تھی ہمارے مزارے سرو کی عمر لگ بھگ پچاس سال تھی اس کا ایک بیٹا تھا جس کا نام ساجد تھا ساجد باجی نصرت کا ہم عمر تھا میں نے جب سے ہوش سنبھالا سرو اور اس کے بیٹے ساجو کو اکثر اپنے گھر ہی پایا وہ دن کا زیادہ تر وقت ہمارے گھر ہی پائے جاتے تھے کیوں ہر وقت ہمارے گھر ہوتے میں نہیں جانتا تھا لیکن سرو اور ساجو کی امی اور میری بہنوں کے ساتھ بہت بے تکلفی تھی ایسا لگتا یہ ہمارے گھر کا حصہ ہیں کبھی کبھی تو مجھے لگتا کہ سرو میرا باپ ہی ہے اس لیے ۔یں اسے بابا سرو ہی بولتا اور ساجو کو ساجو بھائی ذات کے کمہار تھے اور ہماری تو کوئی رشتہ داری بھی نہیں تھی لیکن اب تو کوئی تعلق تھا جس وجہ سے وہ اکثر ہمارے گھر ہی رہتے جیسے جیسے میں بڑا ہو رہا تھا تو میں دیکھتا کہ ساجو کی باجی نصرت کے ساتھ بہت بے تکلفی تھی دونوں کو اکثر میں اکھٹا ہی دیکھتا تھا گاؤں کے اس ماحول میں جہاں دو ہم عمر لڑکی لڑکے کا کھڑا بیٹھا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا وہاں ساجو بھائی ہر وقت باجی نصرت کے ساتھ چمٹا۔ رہتا باجی نصرت کو بھی شاید برا نہیں لگتا تھا۔ اس لیے وہ بھی ساجو سے بہت بے تکلفی سے پیش آتی ان دونوں کا آپس میں تعلق بہت ہی گہرا تھا اندر کیا تھا میں نہیں جانتا تھا مجھے تو بس یہی پتا تھا کہ ساجو ہمارا بھائی ہی ہے اور باجی نصرت کا بھی بھائی ہے میں بڑا ہوتا گیا اس دوران باجی نصرت نے مجھے اپنے قریب رکھا میں اکلوتا تھا اس لیے سب کا لاڈلہ تھا لیکن باجی نصرت کے کچھ زیادہ ہی قریب تھا باجی نے مجھے گاؤں کے ماحول سے بچائے رکھا وہ میری غلطی پر مجھ سے سختی بھی کرتی اور مجھے پیار بھی بہت کرتی بہن کے روپ میں ایک اور ماں مجھے باجی نصرت کے اندر نظر آئی یہی وجہ تھی کہ میں بہت سلجھا رہا اور میٹرک اچھے نمبرز میں کر گیا میٹرک تک تو میں بھی جوان ہو چکا تھا لیکن کبھی غلط بیٹھک میں گیا نہیں تھا اس لیے کچھ خاص پتا نہیں تھا۔ لیکن باجی نے میرے پر بہت روک ٹوک بھی نہیں کی مجھ جس چیز کا شوق ہوتا وہ پورا کرتی تھیں ہمارے مکان کے ساتھ ہی چاچے جیدی کا گھر تھا جیدی کبوتر باز تھا وہ ہر وقت کبوتر اڑاتا تھا اس لیے مجھے بھی اس کو دیکھ کر شوق ہوا تو باجی نے ساجو سے کہ کر مجھے کبوتر لے دئیے لیکن باجی نے مجھے ایک حد تک کبوتروں کے پاس رکھا کبوتر رکھنے سے میری چاچے جیدی سے بھی دوستی تھی میٹرک کے بعد میں کالج چلا آیا گاؤں کے ماحول سے تو بچ گیا لیکن کالج کے ماحول نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا پہلے ہی سال میں وہ سب کچھ سیکھ گیا جو گاؤں کے ماحول میں سولہ سال تک نا سیکھ سکا شاید صحبت کا اثر تھا کالج میں ہر جگہ اور ہر قسم کے لڑکے تھے اس لیے جلد ہی میں بھی ان میں گھل مل گیا اور جلد ہی سب کچھ سیکھ گیا کالج کی لائف کے دوران ہی عجیب عجیب رازوں سے پردہ اٹھا کہ میں بھی دنگ رہ گیا اسی میں ایک راز انسیسٹ بھی تھا انسیسٹ سے تعارف اسی کالج کی صحبت میں ہوا میں پڑھائی میں اچھا تھا اور باجی نصرت کے سائے میں بھی تھا اس لیے کالج میں بھی پڑھائی اچھی رہی لیکن ایک واقعے نے میری زندگی ہی بدل دی کالج میں ہم چند دوستوں کا گروپ تھا جو بریک ٹائم اپنے من پسند ٹاپک پر گفتگو کرتا لیکن زیادہ تر گفتگو سیکس پر ہی ہوتی تھی یہ وہی صحبت تھی جس سے میں سب کچھ سیکھ چکا تھا ایک دن ایک دوست نے عجیب بات کی انسیسٹ کے بارے میں تو اب حیران ہوئے یہ ہمارا پہلا تعارف تھا تو سب نے نا ممکن کہ کر اس کو جھٹک دیا اور اسے جھوٹا ثابت کیا لیکن اس نے کہا کہ میرے پاس ثبوت ہے ہم نے اس سے ثبوت مانگا تو وہ اگلے دن ایک انسیسٹ کہانی لے کر آیا جس میں بھائی بہن باپ بیٹی ماں بیٹے کی آپس میں سیکس کی کہانیاں تھیں جسے دیکھ کر ہم سب ہکا بکا تھے کہ یہ کیسے ممکن ہے لیکن ایک عجیب بات تھی کہ پہلی ہی کہانی پڑھ کر ہم سب بے قرار ہوچکے تھے عجیب سی مستی جسم میں چڑھ چکی تھی پہلی کہانی ہی بھائی بہن کے بارے تھی اس لیے میرا تو لوں لوں کھڑا ہوچکا تھا مجھے رہ رہ کر باجی نصرت کا خیال آ رہا تھا میرا لن اس کہانی کو پڑھ کر پھٹ رہا تھا بہت گرم کہانی تھی میں باجی کو سوچ کر شرمندہ بھی ہو رہا تھا ضمیر نہیں مان رہا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے ہم سب کا یہی حال تھا اس لیے ہم سب بے قرار اور بے حال تھے سب نے باری باریجا کر واشروم میں مٹھ لگا کر خود کو ٹھنڈا کیا مٹھ بھی کالج میں آ کر میں نے سیکھی تھی جب کبھی زیادہ گرمی بڑھتی تو میں مٹھ لگا کر ٹھنڈا ہوجاتا لیکن اس دن تو کہانی میں پتا نہیں کیا جادو تھا گرمی اتر پی نہیں رہی تھی اگلے دن وہ کہانی نہیں لایا تو ہم نے اسے برا بھلا کہا اگلے دن سے وہ کہانی لانے لگا تو ہم بھی شوق سے پڑھنے لگے ایک ہفتے میں ہم نے دو کتابیں پڑھ ڈالیں انسیسٹ کہنیاں پڑھ پڑھ کر میرے ذہن پر بیٹھ سی گئیں تھیں مجھے لگنے لگا کہ یہ سب حقیقت ہوگی لیکن دل مانتا نہیں تھا انسسٹ کہانیاں پڑھ پڑھ کر میری گرمی بڑھ رہی تھی میں اب انجانے میں اپنی سگی بہن نصرت کے جسم کو تاڑنے لگا تھا پہلے پہل تو اچھا نہیں لگا ضمیر نے بھی برا بھلا کہا لیکن مسلسل کہانیاں پڑھنے سے اور شہوت بڑھنے سے اب برا نہیں لگنے لگا تھا دوسری طرف میں بھی خیال رکھتا کہ کوئی دیکھ نا لے بہت نازک معاملہ تھا باجی نصرت کا جسم کافی چوڑا اور قد اچھا خاصہ لمبا تھا جس سے باجی نصرت پوری گھوڑی لگتی اوپر سے باجی نصرت کا انگ انگ جوانی سے بھرپور تھا جس سے باجی کے موٹے تھن ابھرے ہوئے آگے کو ہر وقت تن کر کھڑے رہتے نیچے چپٹا پیٹ اور چوڑی ابھری ہوئی باہر کو نکلی گانڈ بہت دلکش لگتی تھی باجی نصرت کے موٹے پٹ کسی سلوار میں باہر کو نکلے نظر آتے تھے باجی نصرت کی عادت تھی گھر میں وہ دوپٹہ کم ہی لیتی تھی اوپر سے ٹائیٹ کپڑے بھی ڈالتی تھی جس سے باجی نصرت کا انگ انگ واضع نظر آتا تھا باجی نصرت بالوں کی گت بنا کر اکثر پراندہ ڈالے رکھتی تھی جو باجی نصرت کی کمان کی طرح تنی ہوئی پتلی کمر سے ہوتا ہوا نیچے گانڈ کی لکیر پر پڑا رہتا باجی جب چلتی تو باجی کی ابھری باہر کو نکلی گانڈ جب اتھل پتھل کرتی تو باجی کا پراندہ بھی باجی کی گانڈ کی خوب چمیاں لیتا باجی نصرت کا جسم ہلکا سا بھرا ہوا تھا جس سے کسے لباس میں باجی نصرت کا انگ انگ قیامت ڈھاتا تھا باجی نصرت کے ناک میں کوکا تو باجی کے حسن پر قیامت ڈھاتا تھا میں جلد ہی باجی نصرت کے شباب کا دیوانہ ہوگیا لیکن میں کر کچھ نہیں سکتا تھا میرا بڑا دل کرتا کے باجی کے ساتھ کچھ کروں لیکن میں ڈرتا بھی بہت تھا باجی سے کیوں کہ وہ میری بہن تھی اگر وہ مجھے اپنے ساتھ کچھ ایسا ویسا کرتے پکڑ لیتی تو مجھے جان سے کی مار دیتی اس لیے میں نے اس کا حل یہی سوچا کہ میں انسیسٹ کہانیوں والی کتاب گھر کے آیا اور اپنے کمرے میں چھپا رکھی تھی میں جب موقع ملتا باجی کے جسم کو جی بھر کر دیکھتا اور کہانی پڑھتا ہوا باجی کو اپنے تصور میں لا کر خوب مٹھ لگاتا اس سے بہت مزہ آتا اور میری تسکین ہو جاتی جس سے میں مطمئن تھا کہ چلو اتنا ہی کافی ہے میں باجی کو چھپ کے ہی دیکھتا تھا باجی جب پاس ہوتی تو میں ظاہر نا کرتا کہ میری نظر میں کیا ہے اس لیے باجی کو پتا نہیں چل پایا کافی دن میں بھی مزے میں تھا انہیں دنوں میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ سب کچھ بدل گیا مجھے چونکہ کبوتروں کی بازی دیکھنے کا بھی شوق تھا اس دن کبوتری کی بازی تھی اور چاچے جیدی نے لگانی تھی اس لیے مجھے گھر میں ہی دیکھنے کا موقع مل گیا میں اس دن کالج سے جلدی نکلا کالج شہر میں تھااور شہر گاؤں کے پاس ہی تھا آدھے گھنٹے کی مسافت پر ہم بس پر کالج جاتے تھے میں کالج سے واپس آیا تو مجھے چاچا جیدی راستے میں ملا مجھ سے مل کر وہ بولا آ بھتیجے توں وی آگیا میں بولا ہاں چاچا آگیا ہاں وہ بولا چل آ بازی لگن والی ہے میں اپنے گھر جانے کی بجائے سیدھا چاچے جیدی کے گھر گیا ہم چھت پر آگئے جیدی نے آسمان کی طرف دیکھا تو آسمان ابھی صاف تھا اس نے موبائل لگایا کسی کو تو آگے سے اسے کسی نے بتایا کہ ابھی کچھ وقت ہے جیدی مجھ سے بھتیجے توں جا گھر ہلے کجھ ٹائم ہے کھا پی لئے فر جدو لگن لگی میں بلا لواں گا میں بولا اچھا جیدی اور ہمارے گھر کی چھت ملتی تھی جس سے میں نے سوچا کہ جو گھوم کر جانا ہے یہیں سے چلتے ہیں گھر مارچ کا مہینہ تھا اتنی زیادہ گرمی نہیں تھی میں نے جیدی کی چھت سے گھر کا جنگلا پھلانگا اور اپنی چھت پر آگیا میں آج جلدی آیا تھا اس لیے سوچنے لگا باجی کو کیا بہانہ لگانا ہے پھر سوچا کہ سچ ہی بتا دوں گا اتنا تو باجی کچھ نہیں کہتی یہ سوچ کر میں سیڑھیاں اتر کر برامدے میں آیا ہمارا گھر تھوڑا پرانی طرز کا تھا ابو نے بنا کر دیا اس کے بعد کچھ نہیں بنایا تین کمرے تھے آگے برآمدہ تھا سیڑھیاں اوپر سے برآمدے میں اترتی تھی ساتھ ہی کچن تھی جس سے ایک اور کمرہ بن جاتا تھا سیڑھیوں والی جگہ پر جو آگے سے کھلا تھا وہاں گھر کا فالتو سامان پڑا ہوتا ایک کمرہ دونوں بہنوں کا ایک مجھے ملا ہوا تھا ایک امی کا کمرہ تھا باقی دہیاتی مکانوں کی طرح آگے کافی صحن تھا پھر ایک طرف بیٹھک اور ساتھ واشروم تھا میں اندر آیا تو کافی خاموشی تھی باجی نصرت اور امی تو گھر ہوتی تھی لیکن باجی سعدیہ سکول ہوتی تھی لگتا آج وہ بھی نہیں تھی میں چلتا ہوا کمرے میں پہنچا اپنا بیگ رکھا جوتے اتارے میں نے سوچا دیکھو تو سہی میں اپنے کمرے سے نکلا تینوں کمرے ایک سیدھ میں تھے میرے کمرے کی کھڑکی نہیں تھی درمیان والا کمرہ دونوں بہنوں کا تھا جس کی پرانی طرز کی کھڑی تھی جس کی باریاں کہیں کہیں سے ٹوٹی ہوئی تھی اور اندر نظر آتا تھا میں کھڑکی کے پاس پہنچا تو مجھے اندر ہلچل سی سنائی دی ساتھ ہی چارپائی کی آواز بھی آئی اور ساتھ ہی ایک لمبی سی سسکی سسسسسسسسییییی سنائی دی میں باری کے پاس تک سا گیا مجھے کچھ سجھائی دیا تو میں نے وہیں کھڑے ہوکر باری میں جھانکا تو سامنے کا منظر دیکھ کر میرے پیروں کے نیچے سے زمین ہی نکل گئی میرا گلہ خشک ہو گیا مجھے ایسا لگا میرے اندر جان ہی نہیں اندر میری بڑی بہن نصرت چارپائی پر ساجو کے ساتھ لیٹی تھی باجی نے پھولوں والا گلابی سا لباس ڈال رکھا تھا ساجو باجی نصرت کو ساتھ چپکا تھا ساجو نے قمیض اتار رکھا تھا اور باجی نصرت کے ہونٹ دبا کر چوس رہا تھا باجی نصرت بھی ساجو کا بھرپور ساتھ دیتی جواب میں ساجو کے ہونٹوں کو چوستی ہوئی ہانپ رہی تھی میں یہ منظر دیکھ کر ہکا بکا بت بنا کھڑا تھا میں تو اپنی بہن کو بہت شریف سمجھتا تھا یہ کیا نکلی اور ساجو جس کو میں بھائی سمجھتا تھا وہ تو میری بہن کا یار نکلا یہ سب دیکھ کر میری سوچوں میں وہ سب دوڑ رہا تھا کہ کیسے میری بہن ساجو سے بے تکلف رہتی تھی ان کے بیچ یہ رشتہ تھا کب سے تھا میں نہیں جانتا یہ سوچتے ہوئے میری نظر نیچے گئی تو باجی نصرت کا قمیض اوپر کو ہٹا ہوا تے اور باجی نصرت کا گورا پیٹ ننگا مجھے نظر آیا میں اپنی بہن کا گورا ننگا پیٹ دیکھ کر مچل کر سب کچھ بھول گیا باجی نصرت کے پیٹ کی گہری موری کو دیکھ کر میں پگھل گیا میرے لن نے تیزی سے انگڑائی لی تو میں بھی مچل گیا پہلے تو مجھے اچھا نہیں لگ رہا تھا لیکن باجی نصرت کا ننگا پیٹ دیکھ کر میں بھی پگھل گیا باجی کے تیز تیز سانسیں لینے سے پیٹ بھی اوپر نیچے ہوکر بہت ہی مزے دار منظر بنا رہا تھا میری نظر گھوم کر نیچے کی طرف گئی تو میں کانپ گیا نیچے میری بہن نصرت کی شلوار کے اندر ساجو کے ہاتھ کی انگلیاں گھسی تھیں اور تیزی سے باجی کی شلوار میں کچھ مسل رہی تھیں جس سے باجی نصرت کی سسکاریاں نکل کر ساجو کے منہ میں دب رہی تھیں میں یہ منظر دیکھ کر سمجھ گیا کہ ساجو میری بہن کی پھدی مسل رہا ہے اور باجی مزے سے مچل رہی ہے میں ابھی سہی طریقے سے اس منظر کو دیکھ بھی نہیں پایا تھا کہ باجی نے کرلا کر جھٹکے مارتی ہوئی سسکنے لگی باجی ساتھ ہی اپنی گانڈ اوپر نیچے کرتی اٹھا کر نیچے مارتی ہوئی سسکنے لگی جس کو دیکھ کر میں چونک گیا باجی ایک منٹ تک یونہی جھٹکے مارتی پھر رک کر سسکنے لگی ساجو بھی رک گیا باجی کچھ دیر ہانپتی رہی پھر ساجو کے ہونٹوں کو چھوڑ کر سانس بحال کیا ساجو کا ہاتھ باجی نصرت کی شلوار کے اندر ہی تھا ابھی تک دو منٹ تک دونوں نے کوئی چل نہیں کی ساجو نے باجی نصرت کی شلوار کے اندر سے ہاتھ نکالا اور اپنی ایک انگلی کو مسلتا ہوا باجی نصرت کے ننگے پیٹ پر مسلتا ہوا باجی نصرت کی دھنی کی طرف لے کر آیا اور دھنی میں گھمائی شلوار سے دھنی تک باجی نصرت کے گورے پیٹ پر پانی کی لکیر سی بن گئی جسے دیکھ کر میں مچل گیا میں اتنا تو جانتا تھا کہ لڑکی بھی پانی چھوڑتی ہے آج اپنی سگی بہن کا پانی دیکھ میں مچل گیا باجی جھٹکے کھانے سے پانی چھوڑا تھا وہ کچھ ساجو کے ہاتھ پر بھی لگا تھا ساجو باجی کے قمیض سے ہاتھ صاف کرکے بولا کڑی یاوئیے توں تے سواد لئے لیا مینوں تے دے چا اور قمیض پکڑ دونوں ہاتھو سے اوپر کرکے باجی نصرت کے سینے کو ننگا کر دیا باجی نے کمر اٹھا کر قمیض اتارنے میں مدد کی جس سے باجی نصرت کے سکن کلر برا میں قید موٹے تنے ہوئے گول ممے باہر نکل آئے جنہیں دیکھ کر میں مچل گیا مجھے باجی کے سب سے زیادہ یہی ممے پسند تھے جنہیں دیکھ کر میرے منہ میں پانی بھر آیا باجی کے مموں کی گہری لکیر سے لگ رہا تھا کہ ممے کافی موٹے ہیں قمیض اتر کر گلے میں آ چکی تھی جس سے باجی سسکی مار کر بولی سسسی ساجو توں تے مینوں کھا گیا ہیں اور ہلکی سی ہنسی ہنس دی باجی کی بے تکلفی اسی طرح برقرار تھی جس طرح وہ پہلے تھی میں سمجھ گیا کہ باجی اور ساجو کی جاتی کافی پرانی ہے تبھی اتنی بے تکلفی ہے ساجو ہنس کر کر بولا تے توں وی تے مینوں روز نچوڑدی رہندی ہیں میں چونک گیا کہ روز کا مطلب باجی اور ساجو یہ کام روز کرتے ہیں امی کہاں ہوتی ہے کہیں امی بھی تو اس میں شامل نہیں میں نے سوچا کہ امی تو اس وقت ڈیرے کی طرف جاتی ہے کھیتوں کو دیکھنے ویسے بھی ایک بھینس بھی رکھی ہوئی تھی ڈیرے پر جس کو چارہ وغیرہ ساجو لوگ ہی ڈالتے تھے ہمیں صبح شام دودھ مل جاتا تھا مجھے اب سمجھ آ رہی تھی کہ یہ سب خدمتیں کیوں ہوتی تھیں ساجو باجی نصرت کا یار جو تھا اس لیے میں ہکا بکا تھا نصرت بولی میں تے کوئی نہیں تینوں آکھدی توں آپ ہی آ جاندا ایں ساجو ہنس کر بولا اچھا جی وت میں اگاں نا آساں گیا نصرت ہنس دی اور بولی اچھا جی بڑی جلدی غصہ ہو جاندا ایں ساجو ہنس دیا اور بولا ہلا توں تے ٹھڈا ہو لیا مینوں وی کر ہنڑ اور باجی نصرت کی برا کو نیچے کھینچ کر باجی نصرت کے ممے ننگے کردئیے میں اپنی سگی بہن نصرت کے ننگے گورے مموں کے گلابی نپلز دیکھ کر مچل گیا پہلی اپنی بہن نصرت کے گورے گلابی نپلز دیکھ کر میرے تو پسینے چھوٹ گئے کھڑکی میں لگے سریوں ہو میں پکڑ کر خود کو قابو کیا تو باجی بولی ساجو کل تے کیتا ہئی توں رجدا ہی نہوں ساجو ہنس کر بولا سوہنیے تیرے ایڈے سوہنے جسم دے وچ وڑیاں رہن کانڑ دل کردا باجی ہنس دی اور بولی ہائے صدقے جاواں ساجو تیریاں اے گلاں پی تے تیتھوں دور نہیں ہونڑ دیندیاں باجی تو بالکل گشتی کی طرح ری ایکٹ کر رہی تھی ساجو جھکا اور باجی نصرت کے مموں کو دبا کر نپلز چوسنے لگا باجی سسک کر ساجو کا سر دبانے لگی میں یہ دیکھ کر مچل گیا باجی بھی سسکتی ہوئی اپنے نپلز چسوا کر مزے لے رہی تھی میرا لن تن کر

میری پینٹ پھاڑ رہا تھا میں نے زپ کھول کر لن کھینچ لیا اور مسلنے لگی اپنی بہن کو ساجو کے ساتھ مزے کرتا دیکھ کر لن مسلنے کا مزہ ہی اور تھا ساجو اوپر ہوا اور بولا ہلا ہن مینوں تے ٹھڈا کر نصرت ساجو کو چھیڑ کر بولی ساجو آج رہن دے روز تے ماردا ایں پھدی میری تیرا لن بہوں وڈا اے مار دیندا اے ساجو بولا تے روز اپنی فرمائش تے لیندی ہیں آج میری وی من لئے باجی نصرت ہنس دی اور بولی ساجو کی کھا کے آیا ہیں آج ایڈی آگ چڑھی ہوئی ساجو ہنس کر بولا سوہنیے تیرے نیڑے آکے کسے شئے نوں کھانا دی لوڑ نہیں رہندی تیری جوانی دا سیک ہی آگ کا دیندا یہ کہ کر ساجو نے باجی کے نپلز دبا کر مسل دئیے جس سے باجی نصرت کرلا کر تڑپ سی گئی ساجو ہنس دیا باجی سسک کر مسکرا کر بولی ساجو لگدا ایویں توں جان نہیں چھڈنی چل تیرا چوپا مار دیندی آں میں یہ سن کر تڑپ گیا باجی چوپا بھی مارتی ہے ویسے جتنا میں جانتا ہوں باجی کے کسی طرح سے بھی ایسی نہیں لگ رہی تھی ساجو کے نیچے پڑی یہ کوئی اور لڑکی تھی میری بہن نصرت نہیں تھی۔ گھر میں میرے سامنے باجی نے آج تک بھول کر بھی کوئی ایسا لفظ نہیں بولا جا پر شرمانا پڑے یا جو لڑکی کو زیب نا دیتا ہوا پر باجی کا انداز تو پورا گشتی جیسا تھا سچ پی جب جوانی کہ آگ بھڑکتی ہے تو بڑی بڑی شریف لڑکیاں یار کے پاس جا کر گشتیاں بن جاتی ہیں میں لن کو مسل رہا تھا کہ باجی نصرت اٹھی اور اپنا قمیض اور برا اتار کر اوپر سے فل ننگی ہوگئی باجی نصرت کی گوری کمر میری طرف تھی کمان کی طرح نکلی کمر قیامت ڈھا رہی تھی باجی کی ابھری گانڈ شلوار میں بھی دل پر چھریاں چلا رہی تھی باجی نصرت کی کسی شلوار نے باجی کے دونوں چتڑ واضح کر رکھے تھے اور درمیان سے گانڈ کی لکیر صاف نظر آرہی تھی جو چڈوں سے گیلی تھی باجی نصرت کی پراندے والی گت گوری کمر سے ہوتی ہوئی باجی کی ابھری گانڈ پر پڑی قیامت لگ رہی تھی میں تو باجی کے مست جسم کو دیکھ کر بے حال تھا ساجو لیٹ چکا تھا باجی اٹھ کر اس کی ٹانگوں کے اوپر آئی اور ہاتھ آگے کرکے ساجو کا نالا کھولنے لگی میں اپنی بہن نصرت کے گورے لوگوں کو ساجو کا نالا کھولتا کر سسک گیا اور سوچنے لگا کہ کاش کبھی میرا بھی نالہ اس طرح کھولے باجی نے بڑے ماہرانہ انداز میں نالا کھولا کر شلوار کھینچ کر اندر ہاتھ ڈالا اور ساجو کا کالا پھن باہر کھینچ لیا میں ساجو کا لن دیکھ کر ہکا بکا تھا باجی کے گورے ہاتھوں میں چمکتا کالا لن کالے ناگ کی طرح پھنکارنے لگا تھا ساجو کا رنگ سانولا تھا جس کی وجہ لن کالا تھا جو باجی کے گورے ہاتھ میں جب رہا تھا ساجو کا لن پورا کہنہ جتنا لمبا اور موٹا تھا میں ہکا بکا تھا کہ باجی یہ لن پورا کے کس طرح لیتی ہے میں سوچ ہی رہا تھا کہ باجی نصرت آگے کو جھکی اور دونوں ہاتھوں میں ساجو کا لن دبا کر مسلتی ہوئی بولی افففف سسسسییی میرا شہزادہہہہ اور منہ نیچے کرکے ساجو نے لن کے ٹوپے پر ہونٹ رکھ کر دبا کر کس کر چما لیا اور پچ کی آواز سے بولی میں صدقے جاواں اپنے شہزادے تے یہ کہ کر باجی نے اپنے مموں کو آگے کیا اور لن کا ٹوپہ اپنے نپلز پر مسلتے ہوئی لن کو اپنے مموں میں دبا کر لن کو چھپا کر مموں کی لکیر میں مسل دیا جس سے باجی اور ساجو کی سسکی نکل گئی نصرت کے جھکنے سے گانڈ باہر کو نکل آئی تھی باجی نے اوپر ہوکر لن کا ٹوپہ اپنے ہونٹوں میں بھر کر دبا کر چوس کیا جس سے ساجو سسک گیا باجی نصرت نے مستی سے چوپا مارتے ہوئے اپنا منہ لن پر دبا کر آدھے سے زیادہ لن منہ میں دبا کر تیزی سے منہ اوپر نیچے کرتی ساجو کے لن کے دبا کر چوپے لگانے لگی جس سے ساجو اور نصرت دونوں مزے سے سسکنے لگے باجی نصرت کے تین چار زبردست چوپوں سے ساجو کا لن تھوک سے گیلا ہوگیا جس سے باجی نے منہ اٹھا کر دونوں ہاتھوں سے تھوک لن پر مسل دیا جس سے ساجو کراہ گیا باجی جھک کر لن ہونٹوں میں دبا کر کس کر ایک منٹ تک لگاتار چوپے مارتی رہی جس سے باجی نصرت کا سانس پھول گیا اور باجی تیزے سے اوپر ہوکر کرلا گئی باجی کے منہ سے بھی تھوک بہنے لگا اور باجی دونوں ہاتھوں سے لن کو مسل کر فل گیلا کردیا باجی کے انداز سے لگ رہا تھا کہ باجی فل ٹرین ہے اس کام میں باجی اوپر ہوئی اور کالو کی ٹانگوں سے شلوار کھینچ دی کالو سمجھ گیا اور ہنس کر بولا گشتیے میں جانڑدا ہاس توں مینوں تنگ کر رہی ہیں باجی نشلیے انداز میں ساجو کو دیکھ کر ہنستی ہوئی بولی ساجو تینوں پتا تے جس دن تیرا لن میری پھدی اچ نا جاوے مینوں سکون نہیں اندا وت توں کیویں اندازہ لا رہیا ہائیں کہ میرا دل کوئی نہیں پھدی مروان تے ساجو ہنس کر پھرتی سے اوپر اٹھا اور اسی پھرتی سے نصرت نیچے چارپائی پر لیٹ کر اپنی ٹانگیں اٹھا کر اپنی شلوار گانڈ سے اتار دی باجی نصرت کی گوری گانڈ ننگی ہوئی تو ساجو اتنے میں باجی نصرت کی ٹانگوں میں آچکا تھا ساجو نے باجی نصرت کی شلوار پکڑی اور اوپر باجی نصرت کے پیروں تک کھینچ کر رک کر باجی نصرت کی شلوار کو مروڑا دے کر دوہرا کر شلوار کے پائنچے باجی نصرت کے پیروں میں پھنسا کر باجی نصرت کے پیر دبا کر باجی شلوار باجی نصرت کی گردن میں دبا کر اس طرح پھنسائی کہ باجی نصرت کے پاؤں شلوار سے بند کر گردن کے ساتھ اٹک گئے جس سے باجی نصرت فل دوہری ہوگئی اور باجی نصرت کی موٹے چتڑوں والی گانڈ فل کھل کر سامنے آگئی میری نظر اپنی بہن کی گانڈ پر پڑی تو میری سگی بہن نصرت کی پھدی کھل کر میری آنکھوں کے سامنے آگئی جسے دیکھ کر میری تو حالت غیر ہوگئی میرا جسم کانپنے لگا میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ میں اپنی بہن کی پھدی کا نظارہ اتنی جلد کروں گا میرا جسم کانپ رہا تھا میری نظر اپنی بہن کی پھدی پر تھی باجی کی پھدی کا دہانہ کھل رہا تھا باجی نصرت کی پھدی کے ہونٹ ایک دوسرے سے جڑے تھے ساجو کے لن کی رگڑ نے باجی نصرت کی پھدی کھول کر رکھ دی تھی باجی نصرت کی پھدی کے ہونٹ رگڑ سے موٹے اور ہلکے سے براؤن ہو رہے تھے جبکہ باجی کی پھدی کا دانہ ابھر کر صاف نظر آنے لگا تھا باجی کی گلابی پھدی کا دہانہ پانی چھوڑ رہا تھا ساجو اگے ہوئے اور اپنا لن باجی نصرت کی پھدی کے دہانے پر رکھا اور باجی کے اوپر جھک کر گانڈ اٹھا کر کس کر دھکا مارا جس سے ساجو کا کہنی جتنا لن باجی نصرت کی پھدی کو چیرتا ہوا پورا جڑ تک اتر گیا ساتھ ہی باجی نصرت کی چیخ نکلی اور باجی کرلا کر بولی اوئے ہال ہوئے امممممااااں میں مر گئی ساجججوووووو اڈاااا کے رکھ دیندا ہیں ہائے ہائے ہائے اماااااں ساجو لن پورا یک لخت جڑ تک اتار کر رک گیا باجی کراہیں بھرتی ہوئی کانپ رہی تھی ساجو کا کہنی جتنا لن پورا اتر کر نصرت کی پھدی چیر کر رکھ دیتا گا باجی آہیں بھرتی کانپ رہی تھی ساجو ایک لمحے کےلیے رکا اور پھر لن کھینچ کر آہستہ آہستہ لن نصرت کی پھدی کے اندر باہر کرتا باجی کو چودنے لگا ساجو کی سپیڈ بالکل آہستہ تھی باجی سسکتی ہوئی کراہنے لگی اور آہیں بھرتی کرلا رہی تھی میں بھی اپنی بہن کی پھدی میں لن اندر باہر ہوتا دیکھ کر مچل رہا تھا باجی کی پھدی کے موٹے ہونٹ ساجو کے لن کو دبوچ کر مسل رہے تھے ساجو باجی کے اوپر جھک کر ہونٹ دبا کر چوسے اور اپنی سپیڈ تیز کرتا ہوا گانڈ اٹھا اٹھا کر پوری شدت سے دھکے مارتا ہوا لن کھینچ کھینچ کر نصرت کی پھدی کے آر پار کرنے لگا جس سے باجی نصرت کی بکاٹیاں نکل کر کمرے میں پھیلنے لگی ساجو کا کس کر دھکے مارتا ہوا پوری شدت سے لن نصرت کی پھدی میں آر پار کرتا نصرت کو چود رہا تھا جس سے نصرت تڑپتی ہوئی بکا رہی تھی ساجو رکے بغیر اپنی سپیڈ تیز کرتا ہوا پوری شدت سے کھینچ کھینچ کر پورے زور سے دھکے مارتا ہوا باجی نصرت کی پھدی کو مدلھولنے لگا ساجو کا کہنی جتنا لن پورا نکل کر باجی نصرت کی پھدی چیر کر پوری شدت سے پھدی چیر کر تیزی سے اندر باہر ہونے لگا ساجو اپنا فل زور لگا کر دھکے مارتا ہوا نصرت کی پھدی کو پوری شدت سے پیلنے لگا جس سے چارپائی بھی ہلتی ہوئی اب آوازیں دینے لگی ساجو کے لن کی چوڑی اب باجی نصرت کی پھدی کے ہونٹ رگڑ کر مسلنے لگی سے باجی نصرت بے اختیار تڑپی اور زور زور سے بکاٹ مارتی حال ایک کرنے لگی باجی کا جسم کانپنے اور باجی ارڑا کر حال حال کرتی اوئے ہالیوئے امااااااں اوئے ہالیوئے امااااااں میں مر گئی اوئے ہالیوئے امااااااں کرتی ہوئی مسلسل حال حال کرنے لگی ساجو نصرت کی حال حال کی پرواہ کیے بغیر پوری شدت سے لن نصرت کی پھدی کے آرپار کرتا ہوا کراہنے لگا ایک سے دو منٹ کے زبردست دھکوں نے نصرت اور ساجو دونوں کا کام تمام کردیا ساجو کراہ کر کرلاتا ہوا دھکا مار کر کہنہ جتنا لن پورا جڑ تک نصرت کی پھدی میں اتار کر کرلا کر نصرت کے اوپر ڈھے کر جھٹکے مارتا باجی نصرت کی پھدی میں فارغ ہونے لگا ساتھ ہی نصرت بھی کرلا کر ہینگتی ہوئی آہیں بھرتی جھٹکے مارتی فارغ ہونے لگی نصرت نے زور لگا کر گردن میں اٹکی شلوار سے پیر نکال لیے اور اپنے پاؤں نیچے ساجو کی گانڈ کے گرد ولیٹ کر گانڈ اپنی طرف دبوچ کر ساجو جو باہوں میں بھر کر ہانپتی ہوئی کراہتی ساجو کو اپنے ساتھ باہوں اور پاؤں میں دبوچ کر ساجو کے ہونٹوں کو چوستی ہوئی ساجو کا لن پھدی میں دبوچ کر نچوڑنے لگی ساجو باجی نصرت کے ہونٹ دبا کر چوستا جھٹکے مارتا باجی نصرت کی پھدی میں لن دبا کر فارغ ہورہا تھا ساجو کے ٹٹے جھٹکے مارتے منی میری بہن نصرت کی پھدی کو بھر رہے تھے دونوں عاشق معشوق ایک دوسرے کو دبوچ کر چوستے ہوئے کچھ دیر میں نڈھال پڑے تھے اس منظر کشی میں مجھے بھی پتا نہیں چلا میرا کام بھی ہو چکا تھا دیوار پر میری منی کا نشان نظر آ رہا تھا میں ہانپ سا گیا ساجو ہانپ کر بولا نصرت بہوں حال حال کردی ایں نصرت بولی کی کراں تیرا لن تے پھدی چیر کے ہاں نوں ا لگدا اے حال حال ناں کراں تے کی کراں ساجو بولا ہولی کرن دتا کر تیری حال حال باہر کسے سن لئی تے مارے جاساں گئے نصرت بولی کجھ نہیں ہوندا میری حال حال کمرے توں باہر میں جاندی اے گھر اچ کوئی وی نہیں ہوندا باہر کسے نوں نہیں پتا لگدا ساجو بولا ہولی کرن دتا کر نصرت بولی ساجو ہولی کرن نال سواد نہیں اندا تیرے کئے مرد دا پورا زور ازاماون تے مزہ آندا اے تینوں پتا میرے اندر کیڈی آگ اے تیرا لن جدوں دل تے سٹ ماردا سکون جاندا ساجو بولا تینوں تے آکھیا اے تیری کسے ہورنال وی یاتی کراواں نصرت ہنس کر ساجو کو چھیڑ مار کر بولی ناں وے میں ہور کسے نال نہیں کرنا جو وی کرنا توں ہی کرنا میرے نال میں تے تیرے کولو ہی پھدی مروانی ساجو بولا کیوں نصرت بولی بس بندہ بندہ یار بناوئیے تے بندہ چگلی جاندا بدنامی وی ہوندی مینوں عزت بڑی پیاری ہے میرے تے توں ہی بڑا ہیں ساجو بولا وت تیرا دل بھتیندا تے ہے نہیں روز میرے کولو پھدی مروندی ہیں نصرت بولی بس تیرے لن کولو اسے تو تے سٹاں مرویندی آں کہ دن لنگ جاوے نہیں تے اے میرے قابو میں اندی اے تے میرا من نہیں کردا کہ میں کسے ہور کول جاواں بس تیرے نال ہی رہنا ساجو ہنس کر بولا ہلا اے دس گولیاں لئے رہی ہیں حمل روکنے آلیاں تو نصرت بولی ساجو بڑے دن ہو گئے ہینڑ توں میرے اندر انج ہی فارغ ہو رہیا ایں آگے آر میں حاملہ ہو گئی نا تے تک لویں ساجو نصرت کے سینے سے سر اٹھا کر نصرت کو دیکھ کر ہنس کر تیرا اپنا دل کردا کے تیرے اندر فارغ ہوواں نہیں تے میں تے باہر فارغ ہو لواں گولیاں وی نہیوں کھاندی تے مینوں ساتھ وی استعمال نہیں کرنا دیندی نصرت بولی باہر فارغ ہونے دا سواد نہیں اندا دل کردا تیرا پانی اندر لواں بولا نصرت میں تینوں ہوڑدا ہاں بھلا توں آپ ہی نہوں لیندی میں تے تینوں لیا دیندا گولیاں نصرت یہ سن کر ہنس دی اور بولی چنگا نہیں ساجو بولا نصرت چار وار تے ہو گئیاں ہینڑ توں حاملہ ہوجاندی ہیں تیرا حمل صاف کرنے آلی ڈاکٹر مینوں ہر وار شرمندہ کردی کہ کیوں حاملہ کردا ایں پروٹیکشن استعمال کیتی کر میں کی دساں کہ میری سوانی آپ نہیں استعمال کرن دیندی نصرت زور سے ہنسی اور بولی تے دس دیویں اس وقت بے شک ساجو بولا اس وار میں تینوں لئے ہی نہیں جانا صفائی کروانے آپے جمسیں گئی نصرت ہنس کر بولی کوئی گل نہیں میں جم لیساں گئی جے کسے پچھیا تے اکھساں ساجو دا اے ساجو ہنس دیا اور بولا کیوں انج کردی ایں نصرت ہنس کر بولی ویسے پتا نہیں انج قسمت اچ بچہ پیدا کرنا ہے کہ نہیں انج ہی میں تیرے کولو حاملہ ہوکے سدھر لاہ لیندی آں ساجو ہنس کر بولا وت اس وار نا ضائع کروائیے اس وار بچہ جم لئے نصرت ہنس کر بولی سچی میرا دل وی کردا تے ہے پر ڈردی وی ہاں ساجو بولا کس تو ڈردی ہیں نصرت بولی بس لوگوں دا ڈر نا ہوندا ساجو آج تیرے اچو 4 واری جہڑی حاملہ ہوئی ہاں نا اے چار بچے پیدا کردی ساجو ہنس دیا نصرت بولی ساجو تیری گل سہی اے اس وار پراں جم ہی چھڈاں کی ہوسی گیا ساجو بولا کیوں مروانا ہئی نصرت ہنس دی اور بولی بڑی جلدی پھر گیا ہیں اپنی گل توں ساجو بولا نصرت لوگاں تو لوکانا اوکھا ہوجانا نصرت بولی میں لوکا لیساں توں فکر نا کر توں بس ہک وار ہور پھدی مار کے مینوں ٹھنڈا کر میں یہ سن کر ہکا بکا کھڑا تھا میری بہن نصرت اس حد تک پہنچ چکی تھی مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا ویسے بھی میری گرمی اتر چکی تھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ باجی نصرت کی بکاٹ سے میں چونکا میری بہن نصرت کی دوسری چدائی شروع ہو چکی تھی ساجو کا کس کر دھکے مارتا نصرت کو چودنے لگا اؤر نصرت کراہتی ہوئی حال حال کرتی جا رہی تھی مجھ سے کھڑا نا ہوا گیا میں واپس مڑا لن اندر ڈالا اور اپنے کمرے میں آکر سرپکڑ کر بیٹھ گیا جس بہن کو شریف اور نیک سمجھتا تھا وہ تو یک نکلی دو منٹ تک باجی کی چدائی کی آوازیں آتی رہیں پھر ساجو اور باجی فارغ ہوکر چپ ہوگئے مجھے بھی پتا تھا کہ اب ان کی بس ہو گئی ہے اس لیے میں نہیں چاہتا تھا کہ اب یہ نکلیں تو مجھے دیکھ کر شرمائیں میں جوتا ڈالا اور بیگ اٹھا کر سیڑھیوں کے راستے نکل گیا میرا سر چکرا رہا تھا مجھے نصرت سے یہ امید نہیں تھی مجھے غصہ بھی تھا غصہ اس لیے تھا کہ وہ کیسے بے باکی سے ساجو سے چدوا رہی تھی اسے کچھ تو لحاظ کرنا چاہئیے تھا خاموشی سے بی چدوا سکتی تھی میں دس منٹ تک بازار گھومتا رہا پھر مجھے جیدی ملا وہ بولا آجا بازی لگنے والی ہے پر میری بازی تو بن چکی تھی مجھے اب باشی سے کوئی سروکار نہیں رہا تھا میں گھر کی طرف آیا میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو کچھ دیر بعد باجی نصرت نے دروازہ کھولا مجھے دیکھ کر باجی کا رنگ ہی اڑ گیا اس کا ایک رنگ آنے اور جانے لگا میں سمجھ گیا کہ ساجو ابھی تک اندر ہے پہلے بھی ساجو ہمارے گھر آتا تھا پر اپنے ابے کے ساتھ یوں اکیلے میں نصرت اپنے ساتھ ساجو کو دیکھ کر میری موجودگی سے گھبرا گئی میں سب کچھ دیکھ چکا تھا اس لیے میں نے باجی کے بدلتے رنگ کا کوئی نوٹس نہیں کیا اور نارمل ہی رہا تاکہ باجی کو شک نا پڑے باجی بولی دیمی خیر ہے آج جلدی آگیا ایں میں بولا ہاں آج دو ٹیچر نہیں آئے سی تے فری سی باجی نے یہ بات اونچی آواز میں کی تھی کہ اندر ساجو سن لے جو اس نے سن بھی کی اور وہ سمجھ گیا کہ میں آگیا ہوں وہ ابھی تک غالباََ ننگا تھا اس لیے وہ کپڑے پہن کر چھپ گیا میں اپنی بہن کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے میں نے بھی وہیں کھڑے ہوکر ان کو سنبھلنے کا وقت دیا ساجو جب چھپ گیا تو باجی نے مجھے اندر آنے کا کہا باجی اس وقت چادر میں تھی میری نظر بھی جھکی تھی میں جان بوجھ کر نہیں دیکھ رہا تھا میں اسوقت ہی باجی کو غورتا تھا جب باجی اپنے دھیان میں ہو میں سیدھا اپنے کمرے میں جانے لگا تو میری نظر کھڑکی پر پڑی جہاں میری منی سم رہی تھی اب اس کا نشان باقی تھا میں اندر کمرے میں داخل ہوگیا بیگ رکھ کر میں نے جوتے اتارے اور دروازہ بند کرنے آیا تو باجی برآمدے میں کھڑی کھڑکی پر گری اس منی کو دیکھ رہی تھی باجی کا رنگ اڑا تھا میں نے باجی کو غورتا دیکھا تو میں بھی سمجھ گیا کہ باجی ضرور اندازہ لگا رہی ہے کہ یہ کیا ہے یہ سوچ کر میں نے بغیر کوئی تاثر دیے دروازہ بند کیا اور کپڑے بدلے باجی کو اپنی منی دیکھتا پا کر میرے لوں لوں کھڑے ہوئے میرے لن نے پھر انگڑائی لی پر میں نے خود کو روک لیا میں نکلا اور واشروم میں جا کر نہانے لگا باجی کو شک تھا میرے ذہن میں یہ بات نہیں تھی کہ باجی نے کچھ نوٹس کیا ہے پر باجی کو شک پڑ چکا تھا کہ کوئی ہمیں آ کر دیکھتا رہا ہے کیوں میں جب واشروم میں تھا تو باجی اور ساجو دیوار پر لگی اس منی کا بغور جائزہ لے رہے تھے کہ یہ کیا ہے باجی کو مجھ پر شک تھا پر اس نے ساجو سے یہ بات نہیں کی کیونکہ باجی کو پتا تھا کہ میری چاچے جیدی سے دوستی ہے اور اکثر میں گھر سے اسکے گھر اتر جاتا اور کبھی کبھار وہاں سے اپنے گھر بھی جاتا تھا باجی کو دھڑکا لگا ہوا تھا کہ میں نے دیکھ لیا ہے ساجو کے ساتھ اپنی بہن کو اسلیے اس نے ساجو کو جانے کا کہ دیا ساجو چلا گیا میں نکلا تو باجی نے کھانے کا پوچھا باجی کا چہرہ اترا تھا اور باجی بجھی ہوئی سی لگ رہی تھی شاید باجی کو اب غلٹ فیل ہو رہا تھا کہ کوئی آیا تھا اور اسے سجو سے چدواتا دیکھ لیا کیونکہ یہ منی کسی مرد کی ہی تھی جس کا نشان ابھی تک تھا اس کا شک مجھ پر تھا جبکہ میں نے اپنے آپ کو یوں نارمل رکھا کہ مجھے کچھ علم نہیں میں باجی کے ساتھ نارمل رہا باجی کو لگا کہ آنے والا میں نہیں تھا میں کھانا کھا کر چھت کی طرف جانے لگا تو باجی نے پوچھے کدے جاؤں ہیں میں بولا چاچے جیدی دی آج بازی ہے او ویکھو ہاں یہ سن کر باجی کا رنگ فک ہوگیا اور باجی سمجھ گئی کہ جیدی یا اس کے بیٹے محسن نے انہیں دیکھ لیا ہے اور انہیں دیکھتے وہ خود بھی مٹھ لگاتا رہا ہے جس کی وجہ سے وہ فارغ ہوا باجی کا رنگ اڑتا دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ باجی اندازہ لگا رہی ہے کہ جیدی یا محسن آیا ہوگا لیکن حقیقت میں جانتا تھا اس لیے میں مطمئن ہوگیا کہ جیدی یا محسن کو تو پتا ہی نہیں اس لیے بات جب باہر نہیں نکلے گی تو کسی کو پتا نہیں چلے گا یوں باجی مطمئن ہو جائے گی میں باجی جو پریشان چھوڑ کر اوپر چڑھتا ہوا جیدی کی طرف آگیا جہاں دونوں باپ بیٹا بازی کی تیاری کر رہے تھے میں دیوار کراس کرکے جیدی کی چھت پر اتر گیا اور واپس مڑ کر دیکھا تو باجی دروازہ بند کرتی ہوئی آڑے رنگ سے ہمیں دیکھ رہی تھی میں باجی کو اگنور کرکے جیدی کے ساتھ کبوتروں میں بزی ہوگیا کچھ دیر تک میں بزی رہا پھر مجھے گھر سے کچھ لینا تھا میں گھر کی طرف آیا تو سیڑھیوں والا دروازہ بند تھا دروازہ تھوڑا پرانا تھا اور درمیان سے ہاتھ ڈال کر کندی جھولی جا سکتی تھی میں نے ہنڈی کھول لی اور آہستہ سے نیچے اتر آیا باجی نصرت کے کمرے سے پھر آوازیں آ رہی تھیں میں نے سوچا کہ باجی ابھی تک ساجو سے چدوا رہی ہے بڑی آگ ہے باجی میں میں آگے جا کر کھڑکی میں جھانکا تو آگے کا منظر دیکھ کر میں حیران ہوا ساجو تو جا چکا تھا شاید پر اس بار ساجو کا باپ اور چاچا سرو میری بہن نصرت کو گھوڑی بنا کر نصرت کو چود رہا تھا سرو کا لمبا کہنی جتنا لن باجی کی پھدی میں تیزی سے اندر باہر ہورہا تھا سرو نے باجی نے گت دبا کر مروڑ کر کھینچ رکھی تھی جس سے باجی درمیان سے دوہری ہوکر گانڈ ہوا میں اٹھا رکھی تھی پیچھے سے سرو کس کس کر دھکے مارتا باجی نصرت کو پوری شدت سے چود رہا تھا باجی کی پھدی کا دہانہ مسلسل چدائی سے لال ہو رہا گا باجی کرسکتی ہئی تڑپ رہی تھی سرو آگے جھکتے ہوئی باجی نصرت کو چومتا ہوا چود رہا تھا کہ دو چار دھکے مار کر باجی نصرت کا جسم کانپتا ہوا جھٹکے مارنے لگا ساتھ ہی سرو بھی باجی کی پھدی میں لن جڑ تک اتار کر فارغ ہونے لگا باجی آہیں برتی مزے سے سرو کے ہونٹ چومتی فارغ ہو رہی تھی باجی کا جسم جھٹکے کھا رہا تھا جبکہ سرو کے ٹٹے اچھل اچھل کر منی باجی کے اندر پھینک رہے تھے میں یہ سب دیکھ کر ہکا بکا تھا کہ جس بہن کو بہت شریف سمجھتا تھا وہ تو پوری گشتی نکلی باجی نصرت اور سرو فارغ ہوکر کھڑے ہوگے لن ابھی تک باجی کی پھدی میں تھا دونوں ایک دوسرے کو چومنے لگے مجھے حیرانی کے ساتھ خوشی بھی تھی حیرانی اس لیے کہ باجی ایسی لگتی تو نہیں تھی خوشی اس لیے کہ باجی کے ساتھ اب کوئی چکر چلا کر مزے لیے جا سکتے تھے میں یہ سوچتا ہوا واپس پلٹا اور دروازے کو بند کرنا بھول کر واپس چلا گیا​

ایک تبصرہ شائع کریں for "بڑی بہن کے ساتھ زنا۔"