Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

ماں بیٹا



میرا نام فکراز بیگم ھے بیوہ ہوں عمر 36 سال ھے فگر 36 اور گانڈ 42 ھے اور میں سرگودھا کی رہنے والی ہوں کچھ عرصہ پہلے میرے شوہر کا انتقال ہوگیا تھا ہمارا ایک ہی اکلوتا بیٹا تھا کاشف میری جند جان کاشف ہی میرا سب کچھ تھا مگر میرے شوہر کے انتقال کے بعد وه میرا کل اثاثہ بھی ہوگیا اب آتی ہوں اصل کہانی کی طرف میرے فگر سے آپکو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ میں ایک ہری بھری عورت ہوں شوہر جب تک تھا تب تک روز کھل کے مزے لیتی تھی ہر رات سہاگ رات ہوتی تھی لیکن اس کے جانے کے بعد میں کچھ عرصہ تک تو میرے جذبات دبے رہے مگر جب پھبدی کی گرمی نے اپنا آپ یاد دلایا تو میں تڑپ تڑپ گئی ۔میں کافی عرصہ تو پیاسی رھی لیکن آخر کب تک رہتی پھدی ایسا تندور ھے جو مرد کی لکڑی جیسا لوڑا لئے بغیر نہیں رہ سکتی ۔مگر صبر کرتی رہی اور دن گزرتے گئے۔مگر ایک دن وہ ہوگیا جو کبھی سوچا بھی نہیں تھا ۔یہ تب ہوا جب کاشف 20 سال کا ہوگیا اور آجکل کے بچے بھی بہت گرم 12 سے 13 سال کی عمر میں ہی لوڑے تیار ہوجاتے میں یعنی فكراز بیگم بہت پیاسی تھی اور کاشف بھی نیا نیا جوان ہورا تھا ایک دن اسے جگانے آئی تو دیکھا اسکا لوڑا فل کھڑا سلامی دے رہا تھا اندھا کیا مانگے دو آنکھیں کاشف کا لوڑا دیکھ کر میرے تو تن بدن میں آگ بھڑک اٹھی پھر سے میری پهدی رونے لگی بڑی مشکل سے خود پہ قابو کیا ۔ کاشف میرا بیٹا ہے ایک ماں اپنے ہی بیٹے کا لوڑا کیسے لے سکتی ہے؟۔میں نے توبہ توبہ کی مگر پھدی کہاں توبہ کرتی ہے میرے دل و دماغ میں کاشف کا لوڑا ایلفی کی طرح چپک گیا تھا۔اوپر سے مجھ جیسی گرم پیاسی عورت ۔ اس دن اور شام تک اس کا لوڑا سوچ سوچ کے میرا برا حال تھا سمجھ نہیں آرہی تھی کیا کروں پھر مجھے خیال آیا باہر کسی مرد سے چدوانے سے بہتر ھے گھر کا مال ہی استعمال کیا جائے۔ بس یہ سوچ میرے دماغ میں ایک دم پکی ہوگئی اور میری پھدی دھمال ڈالنے لگی ۔ سردیوں کے دن تھے میں نے اچھی طرح اپنی پهدی صاف کی جیسے اپنے شوہر کیلئے رکھتی تھی اور رات کا انتظار کرنے لگی رات ہوئی روز کی طرح میں نے کاشف کو اپنا دولہا سمجھ کے دودھ دیا گرم تاکہ اسے طاقت ملے اور پھر ھم سونے کیلئے لیٹ گئے ھم گھر میں دو ہی لوگ ہوتے تھے تو ایک ہی کمرے میں سوتے تھے ایک ہی رضائی تھی وه میرے ساتھ سوتا تھا وه تو کچھ دیر بعد سوگیا مگر میری پهدی میں تو آگ لگی ہوئی تھی میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے خود ہی پہل کرنی پڑے گی وه تو بچہ میں نے اپنی 42 کی گانڈ اسکے لوڑے کے ساتھ لگا دی اور آہستہ آہستہ رگڑنے لگی کچھ دیر تو اس نے کوئی ری ایکشن نہیں دیا مگر کچھ دیر بعد مجھے محسوس ہواکاشف کا لوڑا فکراز بیگم کی موٹی گانڈ کو چومنے لگا میں نے یہی شو کروایا کے سب کچھ نیند میں ہورا کچھ دیر تو اسنے اندھیرے میں کچھ سمج نہ سکا کاشف کے یہ کیا ہورا مگر اسکا لن فل جاگ چکا تھا اور میری پھدی تو صبح سے ہی تیار تھی کاشف کے لن کیلئے میری گانڈ رگڑ کا اب وه بھی بھرپور جواب دے رہا تھا اور کچھ دیر بعد ہی اس نے اپنے ہاتھ ڈرتے هوے میری موٹی گانڈ پر رکھ دیے اور اور تقریبا جھٹکے مارنے لگا میں سمجھ گئی کے اب لوڑا گرم ہوگیا اب دیر نہیں کرنی چاہیے میں نے اچانک منہ اسکی طرف کروٹ کر دی وه ایک دم رک گیا فل اندھیرا تھا اسے لگا میں جاگ گئی ہوں وه کچھ دیر بعد پھر اگے بڑھا اور لوڑا میری ٹانگوں میں گھسانے لگا میں تھوڑی سی ٹانگے کھول دی وه سمجھ گیا کہ آگ دونو طرف لگ چکی مگر کچھ نہ بولا میں بھی یہی چاہتی تھی کہکاشف خود مجھے ڈالے اب اس سے صبر نہیں ہورا تھا اسنے ڈرتے ڈرتے میرے ممے پکڑے اور لوڑا میرے پھودے پہ رکھ کے جھٹکے دیے اور اسے پتہ چل گیا کہ میں گیلی ہوں اس نے ہمت کر کے میری شلوار نیچے کرنے کی کوشش کی جو میں نے کرنے دی کیونکہ میرا ہی فائدہ تھا اب کاشف میرے قریب ہوا اور کان میں بولا فكراز میں ڈالنے لگا ہوں میری تو خوشی کی انتہا نہ رہی مگر میں پھر بھی چپ رہی کاشف نے میری ایک ٹانگ اوپر کی جیسے قینچی کھولتے اور اپنا 8 انچ کا لوڑا میری گیلی پھدی پہ رکھ کے پھر میرے قریب ہوا اور کان میں بولا فکراز میں تیری گیلی پهدی میں اپنا لوڑا ڈالنے لگا ہوں تیار ہو میں پھر بھی چپ رہی حالانکہ میری پهدی چیخ چیخ کہ کہ رہی تھی فکراز لوڑا لے لے لے لے

اب بھی میں کچھ نہ بولی تو اس نے میری ایک ٹانگ جو اوپر اٹھا کہ مجھے تقریبا سامنے سے گلے لگا رکھا تھا اور کاشف کا لوڑا میری پهدی پہ پہلے سے ہی سیٹ تھا اسنے فل مجھے کس کے جپھی ڈالی اور اسی دوران میرے کانوں پہ اپنا منہ رکھ کے ایک زور دار جھٹکا مارا اور کاشف کا 8 انچ کا لوڑا میری یعنی فیكراز بیگم کی گیلی اور پیاسی پهدی کو چیرتا ہوا اندر گھسگیا اور نہ چاھتے ھوے بھی میری ایک زور دار چیخ نکل گئی ھاے کاشف افففففففففف مر گئی اور میںنے اسے کس کے پکڑ لیا وه کچھ دیر کیلئے رکا مگر جب میں کچھ اور نہ بولی تو کاشف نے اپنی گانڈ کا پورا زور لگا کے دوسرا جھٹکا مارا اور اسکا 8 انچ کا لوڑا اندر پورا گھس گیا اور ٹوپا جا کے میری کب سے پیاسی بچہ دانی کو جاکے چوم لیا اب میری بس ہو چکی تھی میں بول پڑی کاشف بیٹا آرام سے افففف مار لو فیكراز تمہاری ہی ھے بس پھر کیا تھا یہ بات کاشف کیلئے گرین سگنل تھی اب اس نے ردهم کے ساتھ ایک تجربہکار کھلاڑی کی طرحمیری پهدی مارنا شروع کردی اب پورے کمرے میں میری گیلی پهدی سے نکلنے والی آواز شڑپ شڑپ اور کاشف کے زور دار جھٹکوں کی دھک دھک گونج رہی تھی تقریبا 15 سے 20 منٹ میری یعنی فیكراز بیگم کی جم کے پهدی بجی اور میں تو صبح سے تڑپ رہی تھی لوڑے کیلئے اسکے پہلے 10 12 منٹ میں ہی میری اتنے عرصے سے پیاسی پهدی جواب دے گئی اور ایک سیلاب نکلا مگر کاشف نہیں رکا 5 7 منٹ بعد جا کے اسنے مری پهدی کے اندر اپنا جوان اور گاڑھا پانی چھوڑا اور میرے اوپر ہی ڈھیر ہوگیا اور نجانے کب تک ہم ایسے ہی شرم میں ننگے ایک دوسرے سے چپکے رهے اور ایسے ہی ننگے سوگئے صبح ہونے والی تھی جب میری آنکھ کھلی تو میں فل ننگی تھی اور کاشف میرے اوپر چڑھا ہوا میرے 38 کے دودھ چوس رہا تھا میں نے پیار سے اس کے سر پہ ہاتھ پھیرا کاشف بیٹا دل نہیں بھرا ابھی تو وه بولا فیكراز ابھی تو اب اصل مزہ آئے گا اور پھر سے نیچے ہاتھ لے گیا میری گیلی پهدی کو چک کیا اور میری دونوں ٹانگیں اٹھا دیں اور اپنی گرم زبان سے میری پهدی چاٹنے لگا اور میں بھی اسکا سر پکڑ کے دبانے لگا کاشف بیٹا چاٹ میری پهدی زور سے پھر کچھ دیر بعد وه اٹھا اور لوڑا لے کے میرے اوپر چڑھ آیا اور میرے ہونٹوں پہ اپنا گرم ٹوپا رکھ کے دبانے لگا تھوڑی کوشس کے بعد ہی میں نے منہ کھول دیا اور کاشف کا لوڑا چوسنے لگی بس کچھ دیر بعد ہی وه نیچے گیا اور لوڑا سیٹ کر کے دوبارہ سے مری پهدی بجانا شروع کردی اب کی بار تقریبا آدھا گھنٹہ لگایا اس نے اور میری بس ہوگئی اور وه بھی فارغ ہوگیا اس کے بعد سے وه میرا بیٹا اور شوہر دونوں بن گیا

اب ہر رات پھر سے سہاگ رات ہوتی وه بھی خوش میں بھی خوش اسکو ماں اور بیوی دونوں کا پیار مل جاتا اور مجھے بیٹے اور شوہر دونو کا پیار مل جاتا اسی طرح ہماری زندگی بہت اچھی گزر رہی ہے ۔

ختم شد

ایک تبصرہ شائع کریں for "ماں بیٹا"