میں فروا کے اوپر گرتا گیا اور فروا بھی نیچے بیڈ پہ لیٹ گئی میرے لن نیم اکڑا ہوا اس کی گانڈ میں تھا وہ زرا ڈرامائی انداز میں روہانسی ہوتی ہوئی بولی افف میں تو سوچ رہی تھی ایک بار کافی ہوتی ہے یہ تو دو بار مشین تو دو بار بورنگ کر کہ بھی تیار کھڑی ہے ہائے میری گانڈ گئی۔ اس کے انداز سے میں بے اختیار ہنس پڑا اور اس سے کہا گڑیا تم پچاس سال پرانی مشین کے کارنامے دیکھتی رہی ہو یہ مشین تو ابھی نئی ہے اور اس راستے پہ تو پہلی بار استعمال ہوئی ہے جو راستہ اس کا پسندیدہ بھی ہے ۔ فروا بھی کسمساتے ہوئے بولی تو پسندیدہ راستے کو پہلی ہی بار اتنا وسیع تو نہ کرو کہ تیس سال سے استعمال شدہ راستے کی طرح پہلی بار ہی ہو جائے۔ میں نے اس کے سر کو سہلایا اور کہا فکر مت کرو مشین باہر نکلتے ہی راستہ پہلے جیسا ہو جائے گا ۔ وہ پھر اسی انداز میں بولی یہ مشین نکلے گی تو پہلے جیسا ہو گا اب تو میں اس منحوس مشین کو پاس سے بھی نہ گزرنے دوں یہ پھر چھوڑتی ہی نہیں۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا بھائی مشین تو چھوڑ رہی ہے لیکن تمہاری یہ پہاڑیاں ہی اسے جدا نہیں ہونے دے رہی یہ دیکھو میں نے اپنا وزن گھٹنوں پہ ڈال کہ لن کو ہلکا سا کھینچا جو ظاہر ہے تنگ سوراخ میں پھنسا ہوا تھا ۔ میں نے کہا یہ دیکھو گڑیا کیسے جھکڑا ہوا ہے تو فروا نے شرم سے چہرہ چھپا لیا اور بولی بدتمیز انسان وہ سوراخ تنگ ہے تبھی پھنسا ہوا ہے ورنہ کوئی جھکڑا نہیں ہے۔ میں بھی ہنس پڑا اور لن کو کھینچ کر باہر نکالا تو فروا نے ایک ہاتھ فورا سوراخ پہ رکھا اور اٹھ کہ بیڈ سے نیچے اتری مگر نیچے قدم رکھتے ہی لڑکھڑا کہ گرنے لگی لیکن میں نے ایک دم اسے تھام لیا اور کہا گڑیا سنبھل کہ ۔۔ اس نے مجھے دیکھ کہ ہونٹ بھینچے اور مسکرا کہ میرے گلے لگ گئی اور بولی واش روم جانا مجھے ۔ مین اسے سہارا دے کر واش روم لے گیا واش روم کے دروازے پہ پہنچ کہ وہ رکی اور میرے ہونٹ چوس کہ بولی ۔۔ بس اب یہین تک رکو میں آئی اور یہ کہتے ہی باتھ میں گھس گئی ۔ میں ہنس کہ باتھ کہ دروازے پہ کھڑا ہو گیا تھوڑی دیر بعد وہ باتھ سے نکلی تو اسی برح ننگی تھی میں بھی باتھ میں گھس گیا اور خود کو دھو کہ باہر نکلا تو دیکھا وہ اپنے کپڑے پہن چکی تھی اور بیڈ پہ بچھی چادر بھی اس نے اٹھا دی تھی اور تیل کی بوتل بھی اٹھا کہ ڈریسنگ ٹیبل پہ رکھ چکی تھی ۔ مجھے باہر نکلتے دیکھ کہ ہنستے ہوئے بولی ساری چیزیں جگہ پہ چلی گئیں سوائے ایک جگہ کے۔ میں اس کے قریب ہوا اور اسے گلے سے لگا لیا اور بولا صبح جب سو کہ اٹھو گی تو وہ بھی اپنی جگہ پہ چلی جائے گی فکر مت کرو۔ فکر ہوتی تو میں آپ کے پاس آتی ہی کیوں؟ یہ کہہ کر اس نے میری چھاتی پہ مکا مارا اور بولی اب جاتی ہوں پھر ملیں گے ۔ اور میرے گلے ملتی ہوئی میرے ہونٹ چوم کہ پیچھے ہٹتی گئی دل تو میرا نہیں کر رہا تھا لیکن اسے جانا بھی تھا اور وہ بیتے ہوئے لمحوں کی یادیں چھوڑتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی وقت کا کیا ہے وقت تو گزر ہی جاتا ہے پیچھے صرف یادیں رہ جاتی ہی
فروا کمرے سے نکل گئی اور میں بھی بیڈ پہ لیٹ گیا سکون کی ایک لہر میرے جسم میں دوڑ گئی تھی جیسے میں مکمل ہو چکا تھا بیڈ پہ لیٹتے ہی تھوڑی دیر بعد مجھے نیند آ گئی اور میں سو گیا۔ صبح جب جاگا تو مجھے دیر ہو چکی تھی روٹین سے میں لیٹ تھا نہا دھو کہ نیچے گیا تو فروا بھی کچن میں ناشتہ بنا رہی تھی وہ بھی نہائی ہوئی تھی اور اس کے گیلے بالوں کی وجہ سے اس کی کمر پہ قمیض گیلی ہو رہی تھی کیونکہ امی کی موجودگی کا خدشہ تھا تو میں انتہائی شرافت سے گیا اور کچن میں جا کہ فروا سے امی کا پوچھا تو وہ ہنستے ہوئے بولی کہتیں ہے سر میں درد ہے ابھی اٹھا نہیں جا رہا اب پتہ نہیں سر درد ہے یا کچھ اور ۔ اور ابو؟؟ وہ تو دفتر چلے گئے ہیں جیسے ہی فروا کے منہ سے یہ نکلا میں نے اسے فورا پیچھے سے دبوچ لیا اور دونوں بازو اس کے بازو کے نیچے سے گزارتے ہوئے اس کے سڈول ممے اپنے ہاتھوں میں پکڑے اور لن کو اس کے چوتڑوں میں دبا دیا اور وہ میرے بازو میں ہنستی گئی بدتمیز بس بھی کرو ابھی تک دل نہیں بھرا میں نے اس کی گردن اور گال چومتے کہا تم چیز ایسی ہو کہ دل بھر ہی نہیں سکتا ۔ حوصلہ دیکھو میرا رات اتنا کچھ ہو کہ بھی کھڑی ہوں اور تیس سالہ تجربہ دیکھو ہل نہیں سکتی اب ۔ فروا نے ہنستے ہوئے کہا اس کی بات سے میں بھی ہنسنے لگا اور کہا یار تم تو تازہ تازہ جوان ہو نا وہ اب بڈھی ہو گئی ہیں اس لیے ۔ اور ساتھ اس کے ممے مسلتا گیا ۔ ارے تو بندہ اپنی عمر دیکھ کہ کام کرے نا اس عمر میں کس نے کہا اتنی مروا لیں ۔ فروا نے اسی ٹون میں کہا ۔ اچھا تم آج دن میں انہین سمجھا دینا نا میں نے بھی فروا کو چھیڑا تو ہنس پڑی اور بولی چلیں اب ناشتہ بنانے دیں امی آ نہ جائین مجھے بھی یہ خطرہ تھا تو میں نے بہتر سمجھا کہ امی کو جا کہ دیکھ آوں میں نے فروا سے کہا اوئے امی کو دیکھ آوں کیا ؟ تو وہ معنی خیز انداز میں بولی ہاں ہاں جاو مگر دیکھ کہ ہی آنا کچھ اور نہ کرنے لگ جانا ۔ مجھے اس کی بات خاص تو سمجھ نہ آئی مگر میں امی کے ممرے کی طرف بڑھ گیا اور ان کے کمرے کا دروازہ کھولا تو سامنے کا نظارہ دیکھ کر میرے ہوش اڑ گئے اور آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور میں ایک دم دروازے سے پیچھے ہٹ گیا میرا دل جیسے دھک دھک کرنے لگ گیا امی سامنے لیٹی ہوئی تھیں کہ ان کے جسم پہ صرف قمیض تھی اور شلوار ان کی آدھی ٹانگوں سے نیچے اتری ہوئی تھی اور قمیض کمر تک اوپر تھی اور وہ سائیڈ کے بل لیٹی ہوئی تھیں اور ان کی کمر گانڈ اور گھٹنوں تک ٹانگیں ننگی تھیں ۔ میں نے ایک نظر امی کو دیکھا تو پیچھے ہٹ گیا اور دروازے سے باہر نکل آیا ۔ میں جیسے ہی دروازے سے باہر نکلا تو فروا آگے کھڑی تھی مجھے دروازے سے نکلتے دیکھ کہ وہ اچھل کر تیزی سے میرے سینے سے آ لگی اور مجھے چومنے لگ گئی ۔ میں گھبرا گیا کہ امی کسی بھی وقت اٹھ سکتی ہیں اور میں نے اس کے بازو پکڑے اور اسے سرگوشی میں کہا پاگل کیا ہو گیا امی اٹھ جائیں گی ۔ مگر اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور وہ مجھے مسلسل چومے ہی جا رہی تھی ۔ مین یہ صورتحال دیکھ کر بوکھلا سا گیا کہ مجھے اس کے رویے کی کوئی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ میں نے دونوں بازو اس کی گانڈ کے نیچے سے گزارے اور اسے بازو میں اٹھا لیا اور لے کر کچن کی طرف آ گیا لیکن وہ مسلسل روئے اور مجھے چومے جا رہی تھی ۔ میں نے اسے بازو سے نیچے اتارا مگر وہ مجھ سے الگ نہ ہوئی اور مجھ سے اور چپکتی گئی ۔ مین نے اس کا سر سہلایا اور کہا بتاو تو سہی مسئلہ کیا ہے، اس نے ڈبڈبائی آنکھوں سے مجھے دیکھا اور بولی بھیا لو یو بھیا ۔۔ ارے پاگل تو اس میں رونے والی کیا بات ہے ؟ میں نے اس سے پوچھا۔ ہچکچیاں لیتے ہوئے اس نے کہا کہ امی نے کہا میرے سر میں درد ہے تو میں نے ان کو نیند کی گولی دے دی اور پھر جب وہ سو گئیں تو ان کو ننگا میں نے کیا تھا کہ آپ مجھ سے ہوس پورا کرنا چاہتے تھے یا محبت ہے اور اگر آپ امی کے کمرے میں رک جاتے تو میں سمجھ جاتی آپ میں صرف ہوس ہے لیکن آپ باہر نکل آئے تو ۔۔ اس کے ساتھ ہی اس نے بات ادھوری چھوڑ دی اور ایک بار پھر میرے گلے لگ کہ رونے لگ گئی۔ میں نے اسے دل سے لگایا اور اسے چپ کرانے لگا۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ اگر مجھے نیند کی گولی کا علم ہوتا تو شائد میں جلدی باہر نا نکلتا لیکن جو ہوا تھا بہتر ہوا تھا ۔ مجں نے اسے فریج سے پانی نکال کہ پلایا اور اسے سینے سے لگا کہ چپ کرایا تو تھوڑی دیر میں وہ نارمل ہو گئی ۔ پھر ہم نے ناشتہ کیا اور میں آفس کے لیے نکلنے لگا تو وہ بولی چلو آو نا امی کی شلوار اوپر کروا جاو میں نے اس کی طرف دیکھا اور نا میں سر ہلا دیا لیکن اس نے میرا بازو پکڑا اور مجھے کھینچتے ہوئے امی کے کمرے کی طرف لے گئی ۔
امی کے کمرے کے پاس جاتے ہی وہ دروازے کے پاس مجھے کھینچتے ہوئے پہنچی مین نے ایک دو بار واجبی سی مزاحمت بھی لیکن اندر سے میرا دل بھی امی کو دیکھنے کا کر رہا تھا دروازے کے پاس پہنچ کر اس نے مجھے رکنے کا اشارہ کیا اور خود کمرے میں داخل ہو گئی ۔ کمرے میں داخل ہو کہ اس نے امی کو تین چار بار اونچی آواز میں پکارا لیکن وہ اسی طرح مدہوش سوئی ہوئی تھیں فروا دروازے پہ آئی اور مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا لیکن میں دروازے پہ پہنچ کہ رک گیا ۔ فروا نے امی کے اوپر ہوتے ہوئے ان کے بازو سے پکڑ کر ہلایا مگر امی ہلیں اس کے کھینچنے سے لیکن انہوں نے کوئی رسپانس نہ دیا اس نے امی کے ننگے پیٹ پہ ہاتھ رکھ کہ جھنجورا مگر وہ اسی طرح بے سدھ پڑی رہیں فروا نے مڑ کہ میری طرف دیکھا اور مجھے آنکھ ماری۔ مجھے اس آفت کی پرکالہ کی کوئی سمجھ نہ آ رہی تھی کہ یہ کیا کرنا چاہتی ہے ۔ فروا نے ان کی ننگی گانڈ پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے مجھے دیکھا اور مسکرا کہ امی کی طرف اشارہ کیا میں کچھ بھی سمجھ نہیں رہا تھا فروا نے امی کی اوپری ٹانگ کو پکڑ کر اگے دھکیلا تو امی نیم الٹی ہو گئیں پھر اس نے ان کے اوپری جسم کو بھی الٹا دیا ۔ میں اس کے پیچھے حیران کھڑا تھا کہ یہ کیا کرنا چاہتی ہے ؟ امی کے موٹی بنڈ جب اس کے الٹا کرنے سے ہلی تو میرا لن جیسے پھٹنے والا ہو گیا لیکن میں خود سے کچھ نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ وہ پہلے مجھے امی کے جلوے دکھا کہ پھر امتحان لینے والی بات بھی کر چکی تھی اور مجھے کوئی اندازہ نہ تھا کہ اس کا اگلا قدم کیا ہو گا۔ فروا نے ایک نظر مجھے دیکھا اور ان کے ساتھ بیڈ پہ چڑھ کہ الٹی لیٹ گئی اور اپنی شلوار اتار کر اپنی گانڈ امی کی طرح ننگی کر کہ اشارہ کیا کہ ایک کے ساتھ ایک فری۔ میں اس کے قریب ہوا اور اس کی ننگی گانڈ پہ ایک تھپڑ مار کہ اس کے کان میں کہا مجھے بس ایک یہی چاہیے ۔ اس نے مجھے کہا اور اشارہ کیا یہ یہ دو ہیں دیکھ لو۔ لیکن میں نےامی کو بالکل اگنور کرتے ہوئے فروا کی گانڈ کو چوم لیا وہ پیچھے مڑ کہ مجھے دیکھ رہی تھی میں نے اس کے گورے چوتڑ ہاتھ سے پھیلائے اور اس کی گانڈ کے سوراخ کو زبان کی نوک سے چاٹنے لگا اور اس کی کمر کو سہلایا اور اوپر ہو کہ کہا جانی بس ایک تم ہی ہو میرے لیے مجھے اور کچھ نہیں چاہیے ۔ دل تو میرا بہت کر رہا تھا کہ امی کی طرف دیکھوں لیکن مجھے یقین تھا کہ جتنا صبر کروں گا اتنا پھل پکتا جائے گا۔ فروا اوپر اٹھی اور اپنی شلوار اوپر کی اور میرا ہاتھ پکڑ کہ امی کے پاس بیٹھ گئی ۔ اور میری ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کہ میری آنکھوں میں دیکھا اور میرا چہرا امی کی ننگی گانڈ کی طرف موڑا ۔ لیکن میں نے اسے اپنے سینے سے لگا لیا فروا نے مجھے زور سے بھینچا اور سرگوشی میں بولی لو یو بھیا ۔ مین نے اس کے سر پہ کس کی تو اس نے مجھے چھوڑا اور امی کی طرف مڑی اور کہا کہ ان کو پیٹ سے پکڑ کہ اٹھائیں میں نے امی کے پیٹ کے نیچے سے بازو گزارتے ہوئے ان کو اوپر اٹھایا تو فروا نے ان کے چوتڑوں کو پکڑ کہ مخالف سمت میں کھول دیا تو گلی میں موجود دونوں سوراخ اپنی گہرائی تک سامنے نظر آئے ۔ میں نے ایک نظر دیکھ کہ فروا کو دیکھنا شروع کر دیا جس کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی اس نے مجھے دیکھا کہ میں امی کی طرف نہیں دیکھ رہا تو اس نے امی کی شلوار اوپر کر دی میں نے انہیں بیڈ پہ لیٹا دیا اور ہم کمرے سے باہر نکل آئے ۔ باہر نکلتے ہی فروا ایک بار پھر میرے گلے لگ گئی اور میرے ہونٹ اور گال چوس کہ بولی بھیا جانی لو یو یار ۔۔ اور پھر اچھل کہ میرے گلے لگ گئی۔ میں نے بھی اسے بازووں میں بھر کہ چوم لیا ۔ لیکن وہ ایک دم بولی اب دفتر جاو بہت دیر ہو رہی ہے پہلے ہی بہت دیر کر چکے ہو میں نے کہا ہاں ٹھیک ہے دل تو میرا نہیں کر رہا تھا مگر جانا تو تھا اور پھر میں گھر سے دفتر کی طرف نکل گیا۔
میں دفتر چلا گیا اور دفتر میں میرا دل نا لگا اس لیے میں نے گھنٹے بعد ہی طبیعت خرابی کا بہانہ بنایا اور چھٹی لیکر گھر کی طرف نکل پڑا اور جب دفتر سے جب چھٹی کر کہ گھر پہنچا اور گیٹ کھولا اور اندر داخل ہوا تو سامنے کوئی بھی نہیں تھا میں نے آرام سے دروازہ بند کیا اور اندر داخل ہوا تو پورے گھر میں خاموشی کا راج تھا ۔ میرے دل میں خیال آیا کہ ایک نظر امی کو دیکھ لوں اور میں دبے پاوں ان کے کمرے کے دروازے کی طرف بڑھا اور نیم وا دروازے سے اندر جھانکا تو مجھے حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا امی سائیڈ کروٹ لیٹی ہوئی تھیں اور بیڈ کے نیچے فروا گھٹنے ٹیکے ان کی ننگی گانڈ میں منہ ڈالے ہوئے چاٹنے کی کوشش کر رہی تھی اور اس کا ایک ہاتھ اپنی شلوار کے اندر اپنی پھدی مسل رہا تھا وہ دنیا سے بے خبر امی کی گانڈ کو کھول کر چاٹنے کی کوشش کر رہی تھی میں تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا مجھے گھر میں یہ نظارہ ملے گا۔ فروا ارد گرد کے ماحول سے بالکل بے خبر اپنے کام میں لگی تھی اور اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا اور اس کا جسم ہلکا ہلکا کانپ رہا تھا۔ میں اس کے پاس کھڑا ہو کہ اسے دیکھنے لگ گیا اور وہ اسی طرح امی کی گانڈ کے اندر زبان پھیرتی رہی کیونکہ امی کی گانڈ موٹی تھی اور وہ سوئی ہوئی بھی تھیں اس لیے وہ زبان کو سوراخ تک نہیں پہنچا پا رہی تھی اگلے ہی لمحے جیسے فروا کو احساس ہوا کوئی اس کے پاس کھڑا ہے تو وہ بجلی کی تیزی سے پیچھے ہٹی اور جب اس کی نظر مجھ پہ پڑی تو اچھلتی ہوئی میرے سینے سے آ لگی اور بولی میرے اندازے سے بیس منٹ لیٹ پہنچے ہو مجھے یقین تھا کہ ضرور جلدی آو گے۔ اس کی سانسیں بہت تیز چل رہی تھیں اور جسم بھی بہت گرم ہو رہا تھا میں نے بھی اسے بازووں میں بھر لیا اور ادھر ہی اس کے ہونٹ چوسنے لگا ۔ اس کے ہونٹ چوستے چوستے میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھیں بند ہو چکی تھیں ۔ میں نے اس کے کان میں سرگوشی کی او گندی لڑکی یہ کیا کر رہی ہو اگر وہ جاگ جائیں تو؟ وہ نہیں جاگ رہی ہیں میں نے ان میں انگلیاں بھی ڈال کہ دیکھا ہے فروا نے شرماتے ہوئے کہا۔ میں نے اسے پکڑا اور دروازے سے باہر لے آیا اور اسے دل سے لگا کہ کہا اوئے یہ لڑکوں والے کام کیوں کرنے لگ گئی ہو اور اس کے چہرے کو چوم لیا ۔ وہ شرماتے ہوئے بولی آپ مجھے ادھر سے چاٹ رہے تھے تو میں دیکھنا چاہتی تھی کہ یہ کیسا نشہ ہے تو۔۔ وہ میرے سینے سے چپکتی گئی اور اس کے گول ممے میرے سینے سے دب گئے ۔ میں نے ہاتھ اس کے کولہوں پہ رکھے ہی تھے کہ اس نے چہرہ میرے سینے سے پیچھے کیا اور بولی بھیا آپ نے وعدہ کیا تھا کہ جیسے میں کہوں گی ویسے کرو گے نا؟ میں نے کہا ہاں کروں گا گڑیا تمہارے لیے تو جان بھی حاضر ۔ اس نے آنکھیں پھیلا کہ پوچھا پکا؟؟ میں نے سر ہلایا تو وہ بولی چلو مجھے امی کی گانڈ چاٹ کے دکھاو۔ میرے چہرے پہ ایک دم الجھن کے تاثرات آ گئے میرے کچھ بولنے سے پہلے ہی وہ پھر بول اٹھی جان دینے کا وعدہ کیا ہے اور ابھی سے ڈر گئے۔ میں نے کہا چلو میں ڈرا تو نہیں لیکن میں تم سے ہٹ کہ کسی اور کی طرف نہیں جانا چاہتا تھا۔ حنا بھابھی کے پاس بھی تو جاو گے تو ایک بار میرے کہنے پہ بھی کر دو۔ اس نے مجھے چھاتی پہ مکا مارا اور میرا ہاتھ پکڑ کہ اندر کمرے میں داخل ہوتی گئی امی کے بیڈ کے پاس جا کہ اس نے امی کو پھر جھنجورا اور ان کو ہلایا مگر وہ نیند کے گولی کے زیر اثر بالکل کچھ نہ بولیں فروا نے بیڈ کی ایک سائیڈ پہ پڑا موٹا تکیہ اٹھایا اور امی کے پیٹ کے آگے رکھا اور مجھے امی کو پکڑتے ہوئے مجھے اشارہ کیا تو میں نے امی کے گداز جسم کو اٹھاتے ہوئے ان کا پیٹ تکیے پہ رکھ دیا امی کی بھرپور موٹی تازی گانڈ کھل کہ سامنے آ گئی اور ان کی گانڈ کا گئرا براون سوراخ اور پھدی کے براون ہونٹ اور ان کے درمیان سوراخ واضح ہو گیا ۔ میں نے فروا کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی میں نے اسے گھسیٹ کہ پاس کیا اور کہا فرحی یہ سب ضروری ہے ؟ اس نے کہا ہاں بس دو منٹ کر دو بس ۔ میں نے سر ہلاتے ہوئے اسے چھوڑا اور امی کے چوتڑ پکڑ کہ کھولے اگر فروا نہ ہوتی تو شائد میں اس صورتحال سے لطف لیتا لیکن اس کی موجودگی میں مجھے بالکل اچھا نہیں لگ رہا تھا میں نے مجبورا سوراخ پہ زبان رکھی اور اسے ہلکا ہلکا دبایا تو میری زبان کی نوگ سوراخ میں دھنس گئی ظاہر ہے وہ سوراخ کافی کھلا تھا۔ میں نے نظر اٹھا کہ دیکھا تو فروا مجھے دیکھ رہی تھی اور میرے چہرے پہ بے بسی تھی اس نے میرے چہرے پہ بے بسی دیکھی تو فورا میرے پاس آ گئی اور مجھے پکڑ کہ اٹھا لیا میں امی کے اوپر سے اٹھا تو فروا نے ان کے نیچے ہاتھ ڈال کہ ان کی شلوار اوپر کی اور ان کے نیچے سے تکیہ نکال دیا میں سائیڈ پہ کھڑا اسے یہ کرتا دیکھ رہا تھا۔ ایک چھوٹی لڑکی میرے ہواس پہ ایسے چھا چکی تھی کہ مجھے کچھ سمجھ نہ آتی تھی ۔ فروا مجھے لیکر ان کے کمرے سے باہر آ گئی اور باہر نکلتے ہی میرے گلے لگ گئی میں نے بھی اسے سینے سے لگا لیا اور خاموشی سے اسے چومنے چاٹنے لگا پھر ہم ایک دوسرے کو چومتے اس کے کمرے میں گھس گئے اور پھر ڈوگی سٹائل میں میں نے اس کی گانڈ مارتے اسے فارغ کیا اور امی کے جاگنے سے پہلے ایک بار پھر اس کی گانڈ ماری۔ بعد میں امی بھی جاگ گئین ان کا سر بوجھل تھا لیکن وہ اس سب سے ناواقف تھیں جو ہم نے ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی۔ شام میں حنا بھی واپس آ گئی۔ پھر زندگی کے لمحے گزرتے گئےدن پر لگا کہ اڑنے لگے جب بھی حنا میکے جاتی تو فروا میری آدھی بیوی بن جاتی۔ میرے بھی دو بچے ہو گئے اور فروا ان پہ جان چھڑکنے لگی۔ محبت کا سفر دن بہ دن جاری رہا اور پھر وہ دن بھی آ گیا جب اس کی منگنی ایک بہت اچھے نوجوان سے ہو گئی اپنے ہی خاندان میں جس کے دو تین جنرل سٹور تھے پہلے منگنی ہوئی اور پھر شادی ۔ اس کی شادی پہ میں اور وہ بہت روئے بہت دن تک روز ہم روتے ہی رہتے اور سب یہی سمجھ رہے تھے کہ یہ ایک بہن بھائی کا پیار ہے ۔اس کی شادی کے بعد بھی ہمیں جب بھی وقت ملا تو ہم نے اس موقعہ سے فائدہ اٹھایا اور پیار کرتے رہے میرے بھی اب چار بچے ہیں اور فروا کے بھی دو بچے ہیں ۔ اس کے بچے بھی مجھے میرے بچوں کی طرح بابا بولتے ہیں اور وہ ہنستی رہتی ہے اور ہم سب محبت سے رہتے ہیں پردے کے پیچھے کی کہانی ابھی تک پردے کے پیچھے ہے اور زندگی گزرتی جا رہی ہے ۔
ایک تبصرہ شائع کریں for "انوکھا حادثہ"