غزالہ۔۔آپا۔۔۔ اور میں
تحریر شاہ جی
پہلی قسط
ہیلو قارئین میں ہوں شاہ جی ۔۔۔ایک بار پھر سے اپنی ایک پرانی سٹوری کو نئے رنگ میں لیئے حاضر ہوں۔ یہ کہانی بہت عرصہ پہلے رومن اردومعہ انگریزی تڑکے کے ساتھ پبلش ہو چکی ہے۔میں نے اسے آپ کے لیئے اردو فانٹ میں ڈھالا ہے۔۔۔کہانی دوبارہ لکھتے وقت حسب روایت اسے تھوڑا سا مزید بڑھا دیا ہے۔تا کہ آپ زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہو سکیں۔۔۔تاہم سٹوری کا اصل ماخذ وہی رکھا گیا ہے جو کہ تھا۔۔۔آیئے اب کہانی کی طرف چلتے ہیں۔۔۔
یہ گرمیوں کی ایک سخت دوپہر تھی ۔۔ ایڑی سے لے کر چوٹی تک پسینہ بہہ رہا تھا اور ایسے میں ۔۔۔بندہ اپنے سے بھی پرانی پھٹ پھٹی پر بیٹھا ۔۔۔ایک نہایت ضروری کام کے سلسلہ میں دوست کے گھر جا رہا تھا ۔۔کہ اچانک۔۔ سڑک کے کنارےمجھے کچھ لوگوں کا اکٹھ نظر آیا۔وہ سب ایک دائرے میں کھڑے کچھ دیکھ رہے تھے۔۔اور دوستو آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ بحثیت پاکستانی ہمارا فرض بنتا ہے کہ جہاں بھی ہم چند لوگوں کا اکٹھ دیکھیں ۔۔اس میں گھس کر یہ ضرور پوچھیں کہ یہاں کیا ہو رہا ہے؟۔۔چنانچہ اسی ملی جزبے کے تحت۔۔۔میں نے ہجوم دیکھ کر بائیک روک لی۔۔۔پھر اسے ایک سائیڈ پر کھڑا کرتے ہوئے۔۔۔۔ اس کے اندر گھس گیا۔۔ ۔ میں نے دیکھا کہ ہجوم کے عین درمیان میں ایک چھوٹا سا بچہ کھڑا رو رہا تھا۔۔۔ بہت سے لوگ اس بے چارے کے گرد گھیرا ڈالے ہوئےتھے ۔۔اور اس سے طرح طرح کہ سوال پوچھ کر۔۔ اسے مزید پریشان کر رہے تھے۔۔۔ مثلاً تم کون ہو؟۔کہاں سے آئے ہو؟۔۔ تمہارا نام کیا ہے؟۔۔کہاں رہتے ہو؟۔۔ باپ کا نام کیا ہے؟۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ میں ہجوم کو چیر کر جب عین اس کے وسط میں پہنچا ۔۔۔تو روتے ہوئے بچے کو دیکھ کر بھونچکا رہ گیا۔۔۔۔ کیونکہ وہ بچہ کوئی اور نہیں۔۔ بلکہ میرا چھوٹا کزن عدنان تھا۔۔۔۔ادھرجیسے ہی اس کی نظر مجھ پر پڑی ۔۔۔۔تو مجھے دیکھتے ہی۔۔۔ وہ دوڑ کر میری طرف لپکا اور۔۔پھر میرے ساتھ لپٹ کر زور زور سے رونے لگا۔۔اس کا جسم بری طرح سے کانپ رہا تھا۔۔ اور وہ مسلسل روئے جا رہا تھا۔۔ ۔میں اس کو تسلی دیتے ہوئے بولا ۔۔۔نہ رو یار ۔۔یہ بتا کہ تم ادھر کیا کر رہے تھے؟۔۔تو وہ روتے ہوئے بولا۔۔ماموں جان میں دکان پر ٹافیاں لینے گیا تھا۔۔۔پھرواپسی پر گھر کا راستہ بھول گیا ۔۔آپ مجھے میری ماما کے پاس لے جائیں۔۔۔اس پر میں اس سے بولا ۔۔اوکے یار لیکن پہلے رونا تو بند کرو۔۔۔۔۔ اتنا کہہ کر میں نے اس کی انگلی پکڑی اور اپنے بائیک کی طرف لے جانے لگا۔اتنے میں اس ہجوم میں سے کچھ معتبر قسم کے لوگ آگے بڑھے۔۔ اور مجھ سے پوچھنے لگے کہ کیا تم اس بچے کو جانتے ہو؟۔۔ تو میں نے جواب دیا کہ یہ میری کزن کا بیٹا ہے۔پھر تھوڑی سی انکوائری کے بعد انہوں نے مجھے بچہ ساتھ لے جانے کی اجازت دے دی۔چنانچہ میں نے اسے بائیک پر بٹھایا۔۔۔۔اور اس کے گھر کی طرف چل پڑا ۔۔
جب میں گھر کے قریب پہنچا۔۔ تو دیکھا کہ وہاں پر کافی لوگ جمع تھے۔۔۔پھٹ پھٹی کی آواز سن کر کچھ لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے ۔۔۔پھر جونہی ان کی نظر عدنان پر پڑی جو کہ بائیک کی ٹینکی پر بیٹھا تھا۔۔۔ ۔۔تو وہاں پر ایک شور سا مچ گیا کہ عدنان آ گیا عدنان آ گیا۔۔۔۔یہ آواز سنتے ہی اس کی والدہ بغیر دوپٹے کے بھاگتی ہوئی گھر سے باہر نکلی ۔۔۔اور آس پاس کے لوگوں کی پرواہ کیے بغیر۔۔ بڑی بے یقینی اور خوشی کے ملے جلے تاثرات سے شور مچاتے ہوئے، بھاگتے ہوئے بولی۔۔ کہاں ہےمیرا بیٹا؟۔۔ اتنی دیر میں ۔۔۔میں نے بائیک کوروک لیا تھا۔۔۔۔عدنان کی والدہ جو کہ میری کزن بھی لگتی تھیں نے عدنان کو اپنی گود میں اٹھایا اور اسے بےتحاشہ چومتے ہوئے بولی۔۔۔ماما کی جان تم کہاں چلے گئے تھے؟۔۔اپنے اکلوتے بیٹے کو بہت سارا پیار کرنے کے بعد۔۔۔۔۔۔وہ میری طرف مڑی اور ۔۔۔پھر کہنے لگی شاہ جی!!۔۔۔ تمہارا بہت بہت شکریہ۔۔یہ بتاؤ کہ یہ تمہیں کہاں سے ملا ؟ اس پر میں نے سارا ماجرا کہہ سنایا۔۔۔سن کر بڑے متفکر لہجے میں بولیں۔۔۔شکرہے کہ تم عین وقت پر پہنچ گئے۔۔۔اگر ایسا نہ ہوتا تو؟۔۔اتنا کہہ کر وہ ایک بار پھر جزباتی ہو گئیں۔۔اور بار بار میرا شکریہ ادا کرنے لگیں۔۔۔۔پھر مجھے ٹھنڈا پلانے کے لیئے گھر لے آئیں۔۔ میں نے کولڈ ڈرنک پی اور کچھ دیر بیٹھ کر واپس اپنے دوست کے پاس چلا گیا ۔۔۔
اسی دن شام کی بات ہے کو میری کزن جسے میں آپا کہتا تھا۔۔۔۔وہ اور اس کا میاں ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ پکڑے ہمارے گھر پہنچ گئے۔۔۔۔ پھر انہوں نے امی کے سامنے میری بڑی تعریف کی۔۔۔اور ۔۔ کچھ اس طرح سے شکریہ ادا کر نے لگے کہ جیسے میں نے کوئی معرکہ مار لیا ہو۔۔حالانکہ وہ سب محض اتفاق تھا۔۔۔۔لیکن آپا کچھ زیادہ ہی تشکر کا اظہار کر رہی تھیں کہ ان کے بار بار ایسا کرنے سے مجھے باقاعدہ شرم محسوس ہونا شروع ہو گئی۔۔۔۔۔اتنی دیر میں اماں چائے کے ساتھ کچھ لوازمات بھی لے آئیں۔۔۔۔چائے پیتے ہوئے آپا میری شکایت لگاتے ہوئے بولی ۔۔۔دیکھو نا آنٹی۔۔۔۔۔ شاہ جی۔۔ روزانہ ہی ہمارے علاقے میں آتا ہے لیکن اسے کبھی اتنی توقیق نہیں ہوئی ۔۔۔ کہ اپنی بہن کے گھر بھی چکر لگا لے۔۔اس پر اماں مجھ سے مخاطب ہو کر بولیں۔۔۔کیا تم روزانہ ان کے ایریا میں جاتے ہو؟۔۔۔ تو میں جواب دیتے ہوئے بولا۔
جی اماں جان۔۔۔اس کی وجہ یہ ہے کہ۔۔۔۔ایک تو ادھر میرے دوست کی میوزک شاپ ہے دوسرا ان کے گھر کے پاس جو بوائز سکول کاگراؤنڈ ہے وہاں میں روز کھیلنے کو جاتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس پر آپا نے اماں کی طرف دیکھا اور کہنے لگیں ۔۔۔۔۔ کیوں آنٹی۔ میں نے غلط تو نہیں کہا تھاکہ یہ روز ہمارے دروازے کے سامنے سے گزر کر جاتا ہے ۔۔۔لیکن آج تک ہمارے گھر نہیں آیا۔۔ ۔۔ اس لیئے آپ اسے سختی سے تاکید کریں کہ یہ ہمارے ہاں بھی آیا کرے۔۔۔آپا کی تائید میں اس کا خاوند ریحان بھائی کہنے لگے۔۔۔ خالہ جان آپ کی بھتیجی ٹھیک کہہ رہی ہے۔۔۔جب شاہ جی۔۔ روزانہ ہمارے علاقے کی طرف آتا ہے تو اسے ہمارے ہاں آنے میں کیا تکلیف ہے؟۔۔پھر بات کو جاری رکھتے ہوئے بولے۔۔آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ میری جاب ایسی ہے کہ اکثر میں ۔۔لیٹ نائیٹ گھر آتا ہوں۔۔۔تو ایسے میں عدنان بے چارہ سارا دن گھر میں پڑا بور ہو جاتا ہے۔۔۔آج بھی اسی بوریت سے تنگ آ کر یہ کسی کو بتائے بغیر گھر سے نکل گیا تھا۔۔۔وہ تو شکر ہے کہ شاہ نے اسے پکڑ لیا۔۔ورنہ جانے کیا ہو جاتا۔۔اس لیئے ہمارے لیئے نہ سہی۔۔ اپنے چھوٹے بھائی کے لیئے ہی۔۔۔۔گھر کا چکر لگا لیا کرے۔۔ ویسے بھی عدنان کے ساتھ اس کی بہت دوستی ہے ۔تھوڑی دیر کھیلنے سے اس کا بھی دل بہل جائے گا۔۔میاں بیوی کی التجا بھری تقریر سن کر ۔۔۔۔۔ اماں کے دل میں رحم آ گیا اور وہ ۔۔ موقع پر ہی نادر شاہی فرمان جاری کرتے ہوئے بولیں۔۔ شاہ جی آج کے بعد۔۔تم نے دن میں کم از کم ایک چکر بیٹی کے گھر ضرور ہی لگانا ہو گا۔۔۔ پھر کہنے لگیں۔۔۔۔ریحان بے چارہ تو ڈیوٹی کے سلسلہ میں آفس ہوتا ہے اسے کسی چیز کی ضرورت ہو تو وہ بھی لا دیا کر۔۔۔مرتا کیا نہ کرتا میں نے ان سے وعدہ کر لیا۔۔۔
۔۔۔۔ اگلے دن میں حسب ہدایت آپا کے گھر چلاگیا ۔۔۔انہوں نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ میرا استقبال کیا۔۔۔ابھی میں وہاں بیٹھا ہی تھا کہ عدنان بولا۔۔۔ماموں آئیں ناں میرے ساتھ کرکٹ کھیلیں۔۔۔اور میں اس کے ساتھ صحن میں کرکٹ کھیلنے لگا۔۔اسی دوران عدنان کو چھو چھو (پیشاب ) آگیا ۔اور گیم تھوڑی دیر کے لیئے رک گئی۔عدنان تو پیشاب کرنے واش روم چلا گیا اور ۔۔میں صحن میں پڑی کرسی پر بیٹھ کر اس کا ویٹ کرنے لگا۔۔ ۔اتنے میں آپا کے گھر ایک دلکش سی خاتون داخل ہوئی۔۔۔۔اور مجھے دیکھتے ہی بڑی بے تکلفی سے کہنے لگی۔۔۔ تم وہی ہیرو ہو نا۔۔۔۔۔ جس نے کل عدنان کو ڈھونڈا تھا؟۔۔۔ اس پر میری بجائے آپا بڑے فخر سے بولیں۔۔۔ہاں یہ وہی ہیرو اور میراچھوٹا بھائی شاہ جی ہے۔۔اس پر وہ ایک بار پھر مجھ سے مخاطب ہو کر بولی۔۔۔ شکر ہے کہ تم بچے کو لے آئے۔۔ ورنہ میری دوست نے تو کل صدمے سے ہی فوت ہو جانا تھا۔۔وہ جو میرے ساتھ پہلی ہی ملاقات میں اتنی بے تکلفی سے گفتگو فرما رہی تھی۔۔۔اس دل کش اور سیکسی خاتون کا نام غزالہ تھا ۔۔۔اور وہ آپا کی پڑوسن ہونے کے ساتھ ساتھ ۔۔ان کی بہت اچھی دوست بھی تھی ۔۔
خوبصورت تو وہ تھی ہی۔۔۔لیکن سیکسی بھی کمال کی تھی۔۔۔وہ یوں کہ اس کے فگر۔۔۔مطلب زنانہ آلات قتل۔۔ جیسے کہ سینے پہ بڑے بڑے ابھار۔۔۔بھاری کولہے۔۔۔اور جھیل سی گہری آنکھیں ۔۔سب اے ون تھیں۔۔۔اس کی چھاتیوں کا سائز میرے خیال میں میں تو 40 اور کپ ڈی ہونا چایئے تھا۔۔چہرہ قدرے لمبوترا۔۔ لیکن دلکش ۔۔۔جبکہ اصل زنانہ آلہ قتل میرا مطلب ان کی گانڈ سے ہے جو کہ بہت موٹی ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت دلکش بھی تھی۔۔چنانچہ جب وہ موڈ میں آ کر مٹک مٹک کر چلتی تھیں۔۔تو ان کی شرابی چال کو دیکھ کر۔۔۔۔ ہم جیسے بہت سوں کے۔۔ دل اور لن پر بیک وقت چھریاں چل جاتی تھیں ۔۔ قبل اس کے کہ میں اس حسین خاتون کو جواب دیتا ۔۔۔آپا اس کا تعارف کراتے ہوئے بولیں شاہ جی!۔۔۔ یہ میری دوست غزالہ ہے جو کہ ہمارے گھر کے بلکل سامنے رہتی ہے۔۔۔چونکہ میری طرح اس کا شوہر بھی نوکری سے ہمیشہ لیٹ آتا ہے۔۔پیچھے گھر میں یہ اور اس کی ساس ہی ہوتی ہیں۔۔جو کہ اس کی ہر بات پر روک ٹوک کرتی رہتی ہے۔۔۔۔۔اس لیئے یہ اپنی ساس کی ٹائیں ٹائیں سے بچنے کے لیئے زیادہ تر میرے گھر میں ہی پائی جاتی ہے۔۔تم اسے غزالہ آپی یا باجی کہہ سکتے ہو۔۔۔اس پر میں ان سے بولا۔۔۔آپا تو بس اکیلی آپ ہی ہو۔۔۔ میں انہیں غزالہ باجی کہوں گا۔۔۔
اس خاتون مطلب غزالہ باجی کے آنے سے۔۔۔۔ آپا کے گھر میں ایک رونق سی لگ گئی تھی۔یا میرے ٹھرکی من کو ایسا لگ رہا تھا۔۔۔۔اس دن میں نے ان کے ساتھ بہت سی باتیں کیں۔وہ اچھی خاصی فرینڈلی خاتون تھیں۔۔۔۔وہ میرے ہر سوال کا جواب بڑی لگاوٹ ۔۔۔اور بے تکلفی سے دیتی تھیں۔اس لیئے پہلے ہی دن میری ان کے ساتھ کافی بے تکلفی ہو گئی تھی۔۔۔۔جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہی چلی گئی۔۔۔اس دن میں کافی دیر تک وہاں بیٹھا رہا۔ اور ان دونوں خواتین کے ساتھ بہت سی باتیں کیں۔ ۔وہ چونکہ ان کے ساتھ میرے تعارف کا پہلا دن تھا ۔۔اس کے ساتھ ساتھ آپا بھی وہاں بیٹھیں تھیں۔۔۔اس لیئے مجھے ا ن کے ساتھ کسی خاص موضوع پر بات کرنے کا موقع نہیں ملا۔۔۔۔یہ علیٰحدہ بات کہ ان سے باتیں کرتے ہوئے جانے کیوں میرے تن ۔۔من۔۔۔۔اور شاید میں۔۔کہیں دور ۔۔مدھر سی گھنٹیاں بجنے لگیں تھیں ۔
پھر یہ ہمارا روز کا معمول بن گیا۔۔۔میں عدنان کے ساتھ تھوڑی دیر کھیلتا۔۔اور پھر غزلہ باجی کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ لگاتا۔۔جس میں ظاہر ہے آپا بھی شامل ہوتیں۔۔۔لیکن وہ زیادہ تر گھر کے کام کاج میں ہی بزی رہتی تھیں۔۔اس دوران باجی کے ساتھ میری بے تکلفی کچھ اور بڑھ گئی تھی۔۔۔۔مثلا ایک دن کا واقعہ ہے کہ باہر کڑاکے کی گرمی پڑ رہی تھی۔۔جبکہ میں اور عدنان کھیل رہے تھے کہ اچانک بجلی چلی گئی۔۔۔کچھ دیر تو معاملہ ٹھیک رہا۔۔پھر عدنان آپا سے کہنے لگا۔۔۔ ماما بہت گرمی لگ رہی ہے۔۔۔ تو آپا بولیں۔۔۔آؤ میں تمہیں نہلا دیتی ہوں۔۔اس سےتمہیں گرمی کم لگے گی۔۔۔چنانچہ وہ عدنان کو ساتھ لیئے باتھ روم میں گھس گئیں۔۔ جبکہ میں نے وہاں پر پڑے اخبار کو اٹھایا۔۔۔اور اس کا پنکھا بنا کر جھلنا شروع ہو گیا ۔۔۔یہ حالات دیکھ کر غزالہ مجھ سے کہنے لگیں۔۔۔ اگر زیادہ گرمی لگ رہی ہے تو اپنی شرٹ اتار دو ۔ تم مردوں کے پاس تو اس کی چوائس بھی ہوتی ہے ۔۔ ۔۔ ۔۔اس پر میں پنکھا جھلتے ہوئے بولا۔۔۔ نہیں باجی۔۔۔ایسے ہی ٹھیک ہے۔۔۔اسی دوران وہ میری پینٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولیں ۔۔۔پتہ نہیں تم بوائز لوگ اتنے موٹے کپڑے کی پینٹ کیسے پہن لیتے ہو؟۔
اس گرمی میں یہ تو آگ بنی ہوتیں ہیں۔۔۔۔پھر مزاق کرتے ہوئے بولیں۔۔۔ ۔۔میں تو کہتی ہوں شرٹ اتارو نہ اتارو۔۔۔لیکن اسے ضرور اتار دو۔تا کہ تمہیں کچھ تو ہوا لگے۔۔۔۔اس پر میں ان سے بولا۔۔آپ کو گرمی نہیں لگ رہی؟۔۔تو وہ بڑے ہی ذومعنی لہجے میں بولیں۔۔۔۔گرمی تو اتنی لگ رہی ہے کہ مت پوچھ۔۔۔۔اس پر میں شرارت سے بولا۔۔۔۔ویسےباجی چوائس تو آپ کے پاس بھی ہے۔۔اگر آپ کو اتنی زیادہ گرمی لگ رہی ہے۔۔۔تو آپ بھی شرٹ اتار سکتی ہیں ۔۔۔۔۔تو وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔۔۔ اتار تو میں دوں ۔۔لیکن تیری آپا سے ڈر لگتا ہے۔۔سالی اس معاملے میں بہت سخت لیڈی ہے۔۔۔پھر مجھے مخاطب کرتے ہوئے بولیں شاہ جی!۔۔۔ یہ جو میں آپ سے اس طرح کی باتیں کرتی ہوں۔۔۔پلیز اس کا ذکر اپنی آپا سے نہ کرنا۔۔اس پر میں شرارت سے بولا۔اگر میں کردوں تو؟؟۔۔ وہ بھی میرے ہی انداز میں کہنے لگیں۔۔۔کر دو گے تو میرا کیا جائے گا؟۔۔خود ہی محروم رہ جاؤ گے۔۔۔اس پر میں دل چسپی لیتے ہوئے بولا۔۔۔اور اگر نہ کروں تو؟؟۔۔تو۔۔تو وہ آنکھیں مٹکاتے ہوئے بڑی بے تکلفی سے کہنے لگیں۔۔نہ کرو گے۔۔تو۔اس میں تمہارا ہی بھلا ہو گا۔۔۔میں بولا وہ کیسے؟ ۔۔تو وہ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے۔
۔بڑے ہی پراسرار لہجے میں بولیں۔۔۔اگر تم ان باتوں کا ذکر اپنی آپا سے نہیں کرو گے تو تمہیں اس کا پھل ملے گا۔۔تو میں ازراہ تففن بولا۔۔۔ کون سا پھل۔۔؟؟۔۔مجھے تو آم بہت پسند ہے۔۔جو کہ میٹھا ہوتا ہے۔۔تو وہ میری طرف دیکھتے ہوئے عجیب سے لہجے میں بولیں۔۔واقعی آم بہت میٹھا ہوتا ہے۔۔۔پھر چٹخارہ لیتے ہوئے بولیں۔۔۔مجھے تو آم “چوسنے ” میں بڑا مزہ آتا ہے۔۔یہ بات کرتے ہوئے انہوں نے جس طرح لفظ چوسنے پر زور دیا تھا۔۔اسے سن کر جانے کیوں میرا دھیان چوپے کی طرف چلا گیا۔۔۔۔جس کا تصور کرتے ہی میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔۔پھر میں نے ان سے کہا۔۔باجی آپ کون سا فروٹ زیادہ پسند کریں ہیں ؟ ۔ تو وہ جواب دیتے ہوئے۔۔ بڑی ادا سے بولیں ۔۔۔۔ مجھے کیلا بہت پسند ہے۔۔ وہ بھی بہت میٹھا ہوتا ہے ۔۔لیکن میں جس پھل کی بات کر رہی تھی۔۔۔۔ تیرے کیس میں ۔۔۔۔یہ پھل میٹھا نہیں بلکہ سالٹی ہو گا۔۔۔تو میں برا سا منہ بناتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔سالٹی پھل کا تو میں پہلی دفعہ سن رہا ہوں۔۔تو وہ چسکہ لیتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔۔ ارے کیا بات کر رہے ہو شاہ جی۔۔۔۔اس پھل کے پیچھے تو ایک دنیا پاگل ہوئی پڑی ہے۔
غزالہ باجی کا مجھ پر توجہ دینا۔۔ان کی باتوں کا انداز۔۔۔۔اور خاص کر اس کاسیکسی جسم ۔۔۔میرے جیسے ٹھرکی آدمی کے لیئے اتنا کافی تھا۔۔اس واقعہ کے بعد ہم دونوں اکثر ہی ذومعنی باتیں کرنے لگے۔۔لیکن اس قسم کی چسکے دار باتیں۔۔ ہم اس وقت کرتے جب آپا کچن میں ۔۔یا کہیں اور مصروف ہوتیں۔۔جبکہ ان کے سامنے ہم روٹین کی باتیں ہی کیا کرتے تھے۔۔۔۔اور ہاں اس واقعہ کے بعد۔۔۔ ہم دونوں کے درمیان ایک میٹھی میٹھی ۔۔اور ان جان سی۔۔۔شہوت پروان چڑھنا شروع ہو گئی ۔۔۔اور میں محض غزالہ باجی کی خاطر ۔۔۔۔۔باقاعدگی سے آپا کے گھر جانے لگا۔۔۔پتہ نہیں یہ اتفاق تھا یا کیا تھا کہ میں جب بھی ان کے گھر میں داخل ہوتا ۔۔۔۔ کچھ دیر بعد وہ بھی آ جاتیں ۔۔اور میرے پاس بیٹھ کر باتیں کیا کرتی تھیں۔رہی آپا کی بات ۔۔۔۔تو وہ اکثر ہی کچن میں یا عدنان کے ساتھ پائی جاتی تھیں۔۔
وہ ہمارے ساتھ شریک گفتگو تو ہوتیں ۔۔لیکن زیادہ تر عدنان کی فرمائیشیں پوری کرنے میں ہی جتی رہتی تھیں۔۔۔۔مثلاً وہ کوئی بات کر رہی ہوتیں ۔۔۔تواس دوران اچانک ہی عدنان فرمائش کر دیتا کہ اسے چپس کھانے ہیں۔۔۔اور وہ بے چاری فورا ہی کچن کی طرف روانہ ہو جاتی تھیں ۔۔اکلوتا بیٹا ہونے کی وجہ سے وہ اس کی کوئی بات بھی نہ ٹالتی تھیں۔۔ایک دن کی بات ہے کہ میں عدنان کو ساتھ لے کر جھولوں پر گیا۔۔۔واپسی پر گرمی کی وجہ سے اس چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔۔۔یہ دیکھ کر آپا مجھ سے بولیں۔۔۔تم غزالہ کے پاس بیٹھو میں اسے نہلا کر ابھی لاتی ہوں ۔۔چنانچہ میں غزالہ باجی سے ملنے کمرے میں پہنچا ۔۔۔تو ایک انہیں دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔۔ ہوا کچھ یوں کہ۔۔۔ وہ اپنی بیٹی جو کہ عدنان کی ہم عمر تھی۔۔پر کچھ زیادہ ہی جھک کر۔۔۔۔ اس کے چہرے سے پسینہ صاف کر رہیں تھیں۔۔میرے ٹھٹھکنے کی وجہ یہ تھی کہ ان کی پشت دروازے کی طرف تھی۔۔۔اور جھکنے کی وجہ سے ۔۔۔ان کی دلکش گانڈ بڑی ہی نمایاں نظر آ رہی تھی۔۔سونے پہ سہاگہ یہ کہ پتہ نہیں کیسے ۔۔ان کی شرٹ بھی گانڈ سے اوپر کو اٹھی ہوئی تھی۔ جس کی وجہ سے ان کی گول مگول سی۔۔ بنڈ بہت ہی صاف نظر آ رہی تھی۔۔۔جبکہ ۔۔ گانڈ کی دراڑ بہت گہری تھی۔۔۔جو کہ بہت ہی سیکسی لگ رہی تھی۔۔۔۔جس پر میرا جی چاہ رہا تھا کہ۔۔۔کاش میں اس خوبصورت دراڑ میں اپنا لن پھنسا سکتا۔۔لیکن۔۔افسوس میں ایسا نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔دوسری طرف انہوں نے شاید جان بوجھ کر۔۔۔یا مجھے دکھانے کرنے کے لیئے ایسا پوز بنایا ہوا تھا۔۔جسے دیکھتے ہوئے۔۔میری شہوت بڑھتی ہی جا رہی تھی۔۔۔۔ ادھر میری آہٹ کے باوجود بھی وہ کچھ دیر تک ایسے ہی جھکی رہیں۔۔۔پھر وہ اچانک اوپر اٹھیں۔۔اور مجھے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے ہوئے حسب معمول ذو معنی لہجے میں بولیں۔۔۔بری بات ۔۔کسی کے پلاٹ پر ایسے نظریں نہیں جماتے۔۔
اتنا کہہ کر وہ کرسی پر بیٹھ گئیں۔۔اس پر میں بولا۔۔۔ میں تو بس شاندار پلاٹ کو دیکھ رہا تھا۔ میں نے کون سا اس پر قبضہ کر لینا تھا۔۔۔میری بات سن کر وہ بڑی ادا سے بولیں۔۔۔۔منہ دھو رکھو ۔۔۔اس کا قبضہ تمہیں ملنا بھی نہیں ہے۔۔اس پر میں بڑی بے تکلفی سے بولا۔۔۔قبضہ نہ سہی۔۔ پلاٹ پر تھوڑی دیر کے لیئے ۔۔ انجوائے تو کر سکتے ہیں نا؟۔۔۔تو وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولیں۔۔ہاں اس کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔پھر تھوڑی دیر چپ رہنے کے بعد کہنے لگیں ۔۔۔یار میری بیٹی کو بھی جھولوں پر لے جانا تھا۔۔اس پر میں بولا۔۔۔۔باجی آپ نے کبھی کہا ہی نہیں ورنہ ضرور لے جاتا۔۔۔اس پر وہ خاص انداز سے بولیں ۔۔بدتمیز انسان۔۔ ہر بات مونہہ سے نہیں کہی جاتی۔۔۔کچھ باتیں کامن سینس سے بھی جان لیا کرو۔۔۔اس پر میں ان کی جھیل سی گہری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔ ڈرتا ہوں کہ اگر کامن سینس غلط ہو گئی۔۔ تو کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔۔اس پر وہ بڑے سیکسی انداز میں بولیں ۔۔۔شاہ جی!۔۔۔ یاد رکھو۔۔۔۔کامن سینس کبھی غلط نہیں کہتی۔۔۔تم لینے والے بنو۔۔ہم دینے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔۔۔۔ان کی طرف سے اتنا واضع پیغام سن کر میرے لن نے تو اسی وقت دھمالیں ڈالنا شروع کر دیں۔۔ابھی میں جواب دینے ہی والا تھا۔۔۔کہ اچانک آپا عدنان کو نہلا کر ہمارے پاس لے آئیں۔۔پھر اسے میرے حوالے کرتے ہوئے بولیں ۔۔۔شاہ جی تم نے اسے ہلنے نہیں دینا ۔۔تب تک میں اس کے کپڑے لاتی ہوں۔۔۔اتنے میں عدنان اپنے مسل دکھاتے ہوئے بولا۔۔۔ماموں جی !۔۔ آپ کے کہنے پر میں نے انڈا کھانا شروع کر دیا ہے۔۔۔۔ دیکھو میرے مسل بن گئے ہیں نا؟۔۔ تب میں اس کا بازو اٹھا کر بولا۔۔۔ جیو میرے شیر۔۔۔ ایک ہی دن میں تم تو پہلوان بن گئے ہو۔۔پھر میں غزالہ باجی کی طرف دیکھ کر بولا۔۔۔ کیوں باجی حنا کی ساتھ کشتی کروانی ہے؟ (حنا اس کی بیٹی کا نام تھا جو کہ تھوڑی موٹی تھی) اس پر غزالہ مجھ پر نظریں جماتے ہوئے بولی۔۔۔اتنی چھوٹی عمر میں کشتی کرانے کا کیا فائدہ؟۔۔
تو میں جھٹ سے بولا تھوڑی سی تفریح ہو جائے گی۔۔۔تو وہ بڑے خاص انداز سے بولیں۔۔۔نہیں یار۔۔اس عمر میں تفریح سے انہیں کیا خاک مزہ آئے گا؟۔۔۔زرا ان کو بڑا ہو لینے دو۔۔۔ خود ہی کشتی کا مزہ لیا کریں گے۔مجھے ان سے اتنی کھلی بات کی توقع نہ تھی۔۔۔اس لیئے کچھ دیر کے لیئے۔۔۔ حیرت کے مارے میری تو بولتی ہی بند ہو گئی ۔۔۔ پھر جب میرے اوسان کچھ بحال ہوئے ۔۔ تو میں موقع کی مناسبت سے کہنے لگا۔۔۔اگر ایسی بات ہے تو کیوں نہ ہم دونوں آپس میں کشتی کر لیں؟۔۔۔میری اس بات سے۔۔۔ ایک لمحے کے لیئے ان کا چہرہ سرخ ہو گیا۔۔۔۔قبل اس کے کہ وہ جواب میں کچھ کہتیں۔۔۔۔۔ آپا آ گئیں۔
اس طرح کی ذومعنی باتیں کر تے ہوئے۔۔۔ ۔۔۔ غزالہ باجی میرے آتش شوق کو ہوا دیتی رہتی تھیں ۔۔۔یہ اس سے اگلے دن کی بات ہے کہ میں عدنان اور حنا کو لے کر جھولوں سے واپس آیا۔۔۔میرے آتے ساتھ ہی آپا تو عدنان کو لے کر واش روم گھس گئی۔۔جبکہ غزلہ باجی جیسے ہی حنا کو لے جانے کے لیئے اٹھی۔۔۔۔۔۔تو میں نے دیکھا کہ ان کی شلوار کا آزار بند (نالا) نیچے لٹک رہا تھا۔۔۔جیسے ہی میری نظر ان کے نالے پر پڑی۔۔۔۔تو وہ تھوڑی شرمندہ ہو کر بولیں۔۔۔اور سوری۔۔ایک تو یہ ناڑا (آزار بند) بھی ایک اچھی خاصی مصیبت ہے۔۔۔۔اور پھر میرے سامنے ہی قمیض اٹھا کر۔۔۔اسے اپنی شلوار کے اندر کر دیا۔۔اس وقت انہوں نے لان کی پتلی سی قمیض پہنی ہوئی تھی ۔۔۔۔اس دوران میں نے ان کا ہموار پیٹ دیکھ لیا۔۔۔جو کہ انتہائی خوبصورت تھا ۔۔۔ادھر آزار بند کو شلوار کے اندر ڈالنے کے بعد وہ مجھ سے کہنے لگیں۔۔۔سوری یار نیا نیا نالا پہننا شروع کیا ہے اس لیئے یاد نہیں رہا۔۔۔اس پر میں ان سے بولا۔۔۔تو باجی اس سے قبل آپ کیا کرتی تھیں؟۔۔
۔تو وہ کہنے لگیں۔۔اس سے پہلے میں شلوار میں الاسٹک ڈالا کرتی تھی۔۔۔یہ تو اس بچی نے ایک دو دفعہ میاں کے سامنے شلوار کھینچی۔۔۔تو مجبوراً مجھے نالہ ڈالنا پڑا۔۔۔۔اس پر جانے کیسے۔۔میرے منہ سے نکل گیا۔۔۔ پھر تو قیمض کے نیچے والی۔۔۔ بھی ابھی پہننا شروع کیا ہو گا ؟۔۔۔ میری بات سن کر ان کا گورا منہ لال ہو گیا۔۔۔۔اور وہ بڑی بے تکلفی سے بولیں۔۔۔ نہیں یار تمہیں معلوم ہی ہے کہ میرے” اثاثے “بہت بڑے ہیں۔۔۔سو انہیں شروع سے ہی ڈھک کر رکھتی ہوں۔۔اس پر میں ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولا۔۔۔ویسے باجی۔۔آپ کے اثاثے بہت شاندار ہیں ۔۔۔کاش ۔۔۔۔تو وہ میری بات کاٹتے ہوئے بولیں۔۔۔کیا تم انہیں دیکھنا چاہتے ہو؟ ۔۔۔تو میں نے سر ہلا دیا۔۔۔۔اس پر انہوں نے ایک نظر واش روم کی طرف دیکھا۔۔۔۔وہاں سے ابھی تک نہلانے کی آواز آ رہی تھی۔۔تب وہ حنا کی طرف مڑی اور اسے کہنے لگی۔۔۔۔دیکھ کر آؤ ۔۔کہ اس وقت تمہاری دادو کیا کر رہی ہے؟
باجی کی بات سن کر حنا کمرے سے باہر نکل گئی۔۔تب انہوں نے ادھر ادھر دیکھا۔۔۔اور پھر قمیض اوپر اٹھا دی۔۔قمیض اٹھاتے ہی۔۔۔۔۔ نیچے سے ان کی پنک کلر کی برا نظر آ گئی۔۔۔تو میں ان سے بولا۔۔۔ باجی پلیز۔۔۔۔اسے بھی اٹھا دیں۔۔تو وہ تھوڑا سا نخرہ دکھاتے ہوئے بولیں۔۔۔یار مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں تیری آپا نہ آ جائے۔۔۔اس پر
میں ان سے کہنے لگا۔۔۔غور سے سنیں ۔۔
۔ابھی تو عدنان کو صابن لگایا جا رہا ہے۔میری بات سن کر انہوں نے ایک نظر میری طرف دیکھا۔۔۔شدت جزبات سے ان کو چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔۔۔۔تب انہوں نے ہاتھ بڑھا کر اپنی برا سے ایک چھاتی کو باہر نکالا۔۔اور کہنے لگیں ۔۔۔آپا کے آنے سے پہلے دیکھ لو۔۔۔۔ان کی چھاتی مخروطی ٹائپ کی تھی۔۔۔۔پیچھےسے موٹی۔۔۔اور آگے سے نوک دار۔۔۔ اور اس شاندار چھاتی پر نپل اکڑا کھڑا تھا۔۔۔۔مطلب باجی بھی فل ہیٹ میں تھیں۔۔۔۔میں اس شاندار چھاتی کو دیکھتے ہوئے غزالہ باجی سے بولا۔۔۔باجی اجازت ہو تو اسے چھو لوں؟۔۔تو وہ ہلکا سا مسکراتے ہوئے بولیں۔۔۔۔چھونے دیا ۔۔تو پھر اس کو چومنے کا بولو گے۔۔اور اگر چومنے دیا۔۔۔تو پھر اسے چوسنے کا بولو گے۔۔۔۔لیکن ابھی اتنا وقت نہیں ہے۔۔پھر مستی بھرے لہجے سے بولیں۔۔ ۔کیا یاد کرو گے۔۔۔۔ تمہاری خاطر میں اتنا کر سکتی ہوں۔۔۔یہ کہہ کر وہ اپنی دو انگلیوں کو منہ کے قریب لے گئیں۔۔اور ان پر تھوک دیا۔۔۔۔پھر اس تھوک کو اپنے نپل پر لگا کر مساج کرنے لگیں۔۔۔۔۔پھر میری طرف دیکھتے ہوئے۔۔۔انہوں نے اپنی مخروطی چھاتی کو ایک ہاتھ میں پکڑا۔۔۔
۔۔اور اسے اپنے منہ کے بلکل قریب لے گئیں۔۔پھر اپنی لمبی سی زبان کو منہ سے باہر نکلا۔۔۔۔۔۔اور نپل کر چاٹنا شروع ہو گئیں۔۔اف ۔اففف۔۔۔یہ اس قدر سیکسی منظر تھا کہ اسے دیکھتے ہوئے۔۔۔۔ایک منٹ ہی میں لن صاحب مست ہو کر جھومنے لگے۔۔۔دوسری طرف انہوں نے بس چند سیکنڈز کے لیئے ہی۔۔۔۔اپنے نپل کو چاٹا۔۔۔۔پھر بڑی تیزی کے ساتھ۔۔۔چھاتی کو برا کے اندر کر دیا ۔اور میری طرف دیکھتے ہوئے بولیں۔۔۔ فی الحال اسی پر گزارا کرو۔۔۔ ۔۔ادھر باجی کی ننگی چھاتی کو دیکھنے کے بعد۔۔۔۔۔ اچانک ہی مجھ پر بری طرح سے شہوت کا غلبہ ہو گیا۔۔۔اور آن کی آن میں میرا لن کھڑا ہو گیا۔۔۔باجی میری اس حالت کو بڑے غور سے دیکھ رہیں تھیں۔۔۔۔جیسے ہی میرا لن کھڑا ہوا۔۔۔۔تو پینٹ میں ایک جانب بنے ابھار کو دیکھتے ہوئے وہ کہنے لگیں ۔۔۔۔ارے۔۔ارے۔۔میرا “اثاثہ” دیکھنے کے بعد۔۔۔تیرا تو برا حال ہو گیا ہے۔۔۔۔تو میں زپ کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولا۔۔۔باجی۔۔۔کیاآپ بھی میرا میرا اثاثہ دیکھنا چاہو گی؟ ۔۔یہ سن کر وہ بڑی ہی خوف زدہ آواز میں بولیں۔۔۔کیوں مرواتے ہو یار۔۔۔۔۔اگر۔۔تیری آپا نے دیکھ لیا تو قیامت آ جائے گی۔۔اس سے پہلے کہ میں کچھ مزید کہتا۔۔۔وہ اپنی جگہ سے اٹھیں اور تیزی سے باہر نکل گئیں۔۔تاہم باہر نکلتے وقت وہ ۔۔۔۔ میری پینٹ میں بنے ابھار کو ٹچ کرنا نہیں بھولیں تھیں۔
دوستو آپ نے وہ محاورہ تو ضرور سنا ہو گا کہ عشق اندھا ہوتا ہے۔۔۔۔لیکن ہمسائے نہیں۔۔۔یہ جو میرے اور غزالہ باجی کے بیچ چل رہا تھا ۔۔شاید اس کی بھنک آپا کو بھی پڑ گئی تھی۔۔۔ویسے بھی آپ کو تو معلوم ہی کہ ان معاملات میں عورتوں کی چھٹی حس کچھ زیادہ ہی تیز ہوتی ہے ۔۔چنانچہ میری اور غزالہ باجی کی بڑھتی ہوئی بے تکلفی کو ۔۔۔ آپا نے بھی ۔۔محسوس کر لیا۔۔پتہ نہیں کیسے انہیں معلوم ہو گیا تھا ۔۔کہ ہمارے بیچ کچھ گڑ بڑ چل رہی ہے۔۔ ایک دن جب میں عدنان کے ساتھ کرکٹ کھیل رہا تھا۔ لیکن میری نظریں بار بار دروازے کی طرف اٹھ رہی تھیں۔۔۔دراصل میں غزالہ باجی کی راہ دیکھ رہا تھا۔۔۔مجھے آئے کافی دیر ہو گئی تھی۔۔۔لیکن وہ ابھی تک نہیں پہنچی تھی۔۔۔ آپا جو کافی دیر سے میری تاڑ میں تھی۔۔۔مجھے یوں بے چین دیکھ کر بولیں۔۔۔۔ “شاہ جی!۔۔ زرا میرے پاس تو آنا۔”۔ان کی بات سن کر میں ترنت ہی بولا۔۔۔ “اوکے اپا” ۔۔۔اور ان کے قریب چلا گیا۔۔۔تو وہ میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولیں۔۔۔۔یہ تم بار بار دروازے کی طرف کیوں دیکھ رہے تھے؟۔۔۔کسی کا انتظار ہے کیا؟۔۔تو میں آئیں بائیں شائیں کرتے ہوئے بولا۔۔کک کچھ نہیں آپا۔۔۔وہ۔۔۔میں تو نہیں دیکھ رہا۔۔۔۔ تب وہ بڑی سنجیدگی سے کہنے لگیں۔
۔ “۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
ایک تبصرہ شائع کریں for "غزالہ۔۔آپا۔۔۔ اور میں۔۔۔۔۔۔ تحریر ۔۔۔شاہ جی"