Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

چائے والا



یہ ہلکی ٹھنڈ ی ایک شام تھی ۔۔دارالحکومت کے غریب سے علاقے میں راشد اپنے چائے والی دکان پر کھڑا تھا ۔۔راشد اسی شہر میں پیدا ہوا تھا ۔کافی عرصے پہلے اس کی فیملی سرحد کے ایک شہرسے یہاں شفٹ ہوئے تھے ۔۔۔اس سے پہلے یہ اسٹال اس کے والد چلاتے تھے ۔۔اور اب یہ کام اس کے ذمے داری تھا۔۔ اسٹال چھوٹا سا ہے ۔۔اندر اور باہر کرسیاں اور ٹیبل رکھے ہوئے ہیں ۔۔۔سامنے ہی اتواربازار کا مشہور گراؤنڈ ہے ۔۔۔۔۔جہاں اوپر کی طرف ایک پینا فلیکس بورڈ لگا ہوا ہے ۔۔
روزانہ صبح آ کر راشد اپنے اسٹال کھولتا اور محنت مزودوری کرنے والوں سے لے کر اچھی جاب کرنے والوں سب کو اچھی سی چائے پلاتا۔۔۔۔کام کے لئے اس نے ایک دو لڑکے رکھے ہوئے تھے ۔۔جو پورا دن اس کی مدد بھی کرتے اور دوسرے کام بھی کرتے ۔۔۔
آج اتوار کا دن تھا ۔۔سامنے اتوار بازار لگا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔اور خواتین کی اک بڑی تعداد کا ہجوم ہے ۔۔۔مختلف چیزوں کو دیکھتی ہوئی۔۔۔۔کچھ دکاندار سے بھاؤ تاؤ کرتی ہوئی , کوئی بھاری بھرکم شاپرز اٹھائے ہوئے اور کچھ آس پاس لگے سستے مگر چٹپٹے اور مزیدار ٹھیلوں کے پاس آ کر منہ کے ذائقہ چینج کر رہی تھی ۔ان میں ہر عمر کی خواتین شامل تھیں ۔۔شوخ اور چنچل لڑکیوں سے لے کر سنجیدہ اور عمر رسیدہ خواتین تک۔۔۔۔
راشد اسٹال کے سامنے کھڑا چائے بنا رہا تھا ۔۔۔۔ایک ہاتھ میں چائے کی چھانی سے چائے کو ہلاتا اور چمچے سے اس کو اٹھا تا ہوا دھار بنا رہا تھا۔۔۔۔۔چائے کی مزیدار سے خوشبو آس پاس کے ماحول کو معطر کر رہی تھی۔۔ آس پاس سے گزرنے والے اس ہلکی ٹھنڈ والی شام میں اس کے پاس آتے اور اپنے جسم میں گرمی دوڑاتے ۔۔۔۔۔۔۔البتہ اتوار بازار والے دن چائے کی شوقین خواتین بھی آتی ۔۔۔اور چائے پینے کے ساتھ ساتھ خوش گپیاں بھی لگاتیں ۔۔۔۔
یہ اتوار کی ایسی ہی شام تھی ۔۔۔جب انہیں خواتین میں سے کچھ چائے پینے آئیں ۔۔۔اور چائے کے ساتھ ساتھ سیلفی بھی لے ڈالی ۔۔۔۔رات گئے تک یہ سیلفی سوشل میڈیا پر پھیلنے لگی ۔۔۔کچھ شئیرنگ کے بعدخاتوں کی تصویر منظر عام سے ہٹتی گئی ۔۔اور اس کی جگہ چائے والے کی تصویر پھیلتی رہی ۔۔۔۔۔۔نیلی آنکھوں والے اس پٹھان نوجوان کی تصویر جنگل میں آگ کی طر ح پھیلی کہ قریبی ملک کے میڈیا نے بھی اس کی تصویر کو اپنی نیوز میں لگانا شروع کردیا۔۔۔۔کوئی اسے ٹام کروز کا ہمشکل تو کوئی اسے ہاٹ ترین نوجوان کاخطاب دے رہا تھا۔۔۔۔۔اور ان سب سے بے خبر راشد اپنی روزانہ کی مصروفیات میں مگن ۔۔۔۔۔
سوشل میڈیا پر چائے والے کی تصویر پھیلنے کے بعد اس کے اسٹال کے آ س پاس کے بھی کافی لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور شوق سے چائے پینے کے ساتھ سیلفی بھی بناتے ۔۔۔راشد ان سب سے بےخبر اپنی بڑھتی ہوئی انکم سے خوش تھا۔۔۔
راشد کی خوبصورتی دیکھ کر جیا نامی ایک یونیورسٹی اسٹوڈنٹ اس کی طرف متوجہ ہوئی ۔۔۔۔جیا پارٹ ٹائم ایک چینل پر فوٹو گرافر کابھی کام کرتی تھی ۔۔۔اس نے اس چائے والے کوڈھونڈے کا بیڑ ا اٹھایا ۔۔۔اور ڈھونڈتے ہوئے بالاخر اس کے اسٹال تک پہنچ گئی ۔۔۔۔۔۔راشد کے قریب آ کر اس نے اپنا تعار ف کروایا ۔۔اور اس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے بارے میں بتایا ۔جو خود بے خبر تھا۔۔۔۔۔جیا نے اس سے بات کرتے ہوئے سیلفی لی ۔۔اور شام کو ہی اپنے چینل پر ایک چھوٹی سی رپورٹ بنا کر بھیج دی ۔۔۔۔۔۔اگلے دن چائے والے کے اسٹال پر کافی رش لگا رہا ۔۔۔۔مختلف نوجوان لڑکیاں اور لڑکے اس کے اسٹال پر پہنچے اور چائے کے ساتھ بے شمار سیلفیاں بنائی ۔۔۔کچھ چینل والے بھی پہنچے اور انٹرویو لینے لگے۔

اگلے دنوں میں بی بی سی کی رپورٹ نے بھی اسے جگہ دی ۔۔۔اور ہاٹ ترین نوجوان کا خطاب دے ڈالا جس نے سوشل میڈیا کو ہلا ڈالا تھا۔۔۔
راشد کی سوشل میڈیا نے فیس بک کی شئیرنگ اور ٹوئٹر پر ایسے قبضہ جمایا کہ پاک انڈی جنگ میں اپنے مصالحوں کے رنگ بھرنے والے خود ہی ہٹتے چلے گئے ۔۔۔۔بی بی سی نے بھی اسے امن کی علامت قرا ر دیا۔۔۔۔
راشد اپنی اس بڑھتی ہوئی مقبولیت سے بہت خوش تھا۔۔اسے اندازہ نہیں تھا کہ یہ سلسلہ کہاں تک جائے گا۔۔۔مشہور ہونے کے بعد کچھ اور ٹی وی چینل والے اس کے پاس پہنچے اورانٹر ویوز کئے ۔۔۔۔۔اس کے پاس سوشل میڈیا تو دور ، چھوٹا سا موبائل بھی نہیں تھا۔۔جہاں وہ اپنی ایڈٹ شدہ تصویر یں دیکھتا۔۔۔جیا اس کے پاس کچھ اور مرتبہ آئی اور اسے اس کی پھیلتی ہوئی تصویریں دکھانے لگی۔۔۔۔۔۔۔اس نےایف بی پر اس کا ایک پیج بھی بنایا ۔۔۔کیونکہ آلریڈی کافی فیک پیجز اس کے نام سے بننے لگے تھے ۔۔۔اور اسی طرح جیا نے اسے بتایا کہ کل اسے ایک مارننگ شو میں جانا ہے ۔۔۔ندا یاسر نامی ایک خوبصورت خاتون یہ شو ہوسٹ کر رہی تھی ۔۔۔اور اسی نے ہی جیا سے راشد کو بلانے کا کہا تھا۔۔۔۔۔راشد کچھ پریشان تھا ۔۔وہ ٹی وی تو کیاکبھی موبائل ویڈیو بھی نہیں آیا تھا۔۔۔اس نے جیا سے مدد کرنے کا کہا ۔۔۔جیا نے جلد ہی ہامی بھر لی ۔۔۔۔راشد نے رات کو اپنا اسٹال بند کیا ۔۔اور جیا کے ساتھ چل پڑا ۔۔۔۔جیا اپنی کار لے کر آئی تھی ۔۔۔۔۔۔راشد کو بٹھانے کے بعد وہ اسٹوڈیو کی طرف چل پڑی ۔۔راستے میں وہ راشد سے پرسنل سوال کر نے پوچھنے لگی۔۔۔۔راشد اپنی ازلی معصومیت سے جواب دے رہا تھا۔۔۔۔اس انگلش تو کیا اردو میں بھی روانی نہیں تھی ۔۔۔وہ اپنے گلابی لہجے میں جواب دیتا رہا ۔۔۔۔۔سفر جلد ہی ختم ہو ا تھا۔۔۔
اسٹوڈیو میں داخل ہوئے تھے ۔۔۔تو سب لوگ راشد کو ہی دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔راشد مزید کنفیوژ ہو تا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔جیا اسے لے کر اندر چلتی گئی ۔۔۔۔اور ایک ڈریسنگ روم میں پہنچی جہاں پر ندایاسر اپنا میک اپ کرواتی ہوئی اس کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔۔۔جیا کے آنے پر اس نے آرٹسٹ کو رکنے کا اشار ہ کیا ۔۔اوراٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔۔۔راشد اپنی نیلی آنکھوں کے ساتھ اس کے سامنے کھڑا تھا ۔۔ایک لمحے کے لئے تو ند ا یاسر بھی ششدر رہ گئی ۔۔۔۔نیلی آنکھوں میں بے پناہ چمک تھی ۔۔۔جو قریب آنےوالے کو حصار میں لے لیتی۔۔۔۔۔ساتھ ہی اس کے جسم سے اٹھنے والا مقناطیسیت کا ایک دائرہ تھا۔۔۔جو آس پاس والوں کو لپیٹ کر اپنے قابو میں کرلیتا۔۔۔۔حرا نے ارشد سے تعارف کیا ۔۔اور ہلکی پھلکی بات چیت شروع کر دی ۔۔۔۔وہ اسے بتانے جا رہی تھی کہ وہ اسے ایک مارننگ شو میں شامل کرنے جا رہی ہے ۔۔جہاں سے وہ اسے مزید اونچائیاں پر پہنچا سکتی ہے ۔۔۔۔معصوم نظر آنے والاراشد اس کی کرم نوازی کا احسان مند ہو رہا تھا۔۔۔۔۔اور حقیقت میں ندا یاسر کو بھی اس سے کافی مقبولیت ملنے والی تھی ۔۔۔۔سوشل میڈیا کے اس راجہ کو وہ سب سے پہلے مارننگ شو میں انوائٹ کر رہی تھی ۔۔۔۔
راشد کا میک اپ شروع ہو چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔ایک ٹیبل پر لیٹا ہوا راشد اپنی قسمت پر رشک کر رہا تھا ۔۔جس نے ایک رات میں اسے اتنا مشہور کر دیا تھا۔۔۔۔لیزر ٹریٹمنٹ کے بعد اب اس پر میک اپ شرو ع تھا۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں راشد ایک خوبرہ شہزادہ بن چکا تھا ۔۔۔۔۔۔گوری رنگ پر نیلی آنکھیں مزید قاتل ہوچکی تھیں ۔۔۔۔۔گہری بھنویں اور چہرے کی مخصوص بناوٹ نے اسے ایشیاء کا ٹام کروز بنادیا تھا۔۔۔۔۔
شو کی ریکارڈنگ شروع تھی ۔۔جیا اس کے ساتھ تھی ۔۔وہ اسے ہر اسٹیپ کے بارے میں پہلے سے گائیڈ کرتی جا رہی تھی ۔۔۔۔ندا یاسر کی بھی نظریں اس پر جمی ہوئی تھیں۔شو سے پہلے اس نےجیا کو کسی کام سے بھیج دیا تھا۔۔۔
۔شو شروع ہو چکا تھا۔۔۔سامنے بہت سے مہمان خواتین بھی تھیں ۔۔۔۔اسے شیروانی پہنا کر ایک صوفے پر بٹھا گیا۔۔۔ایک طرف ندا یاسر اور دوسری طرف اسے تیار کرنے والا میک آپ آرٹسٹ بیٹھا ہوا تھا۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں ماڈلنگ شروع ہوئی ۔۔...یہ ایک برائیڈل ٹائپ فوٹو سیشن تھا ۔۔جس میں ایک تیار دلہن اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے ہوئے تصویر کھنچوانے لگی۔۔۔۔۔راشد کے لئے یہ پہلا موقع تھا کہ ایک الڑا ماڈرن ماڈل اس کے برابر میں کھڑی تھی ۔۔۔اس کی عمر اٹھا رہ سال تھی ۔۔مگر کام اور مصروفیت میں وہ لڑکی ذات سے دور ہی رہا تھا۔۔۔۔اور اب ملی تو ہر کوئی حد سےزیادہ خوبصورت اور پرکشش تھی ۔راشد خود کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔۔مگر اس کے اندر کی سنسنی بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔
کچھ دیر بعد اسے دوبارہ میک روم میں لے جایا گیا۔۔۔اب کی باروہ پینٹ کوٹ میں تھا۔۔۔بلیو کلر کا یہ پینٹ کوٹ اس پر بےحد سوٹ کر رہا تھا۔۔اور وہ پہلے سے زیادہ پرکشش نظر آنے لگا۔۔۔
اب اس کے برابر میں ساڑھی پہنے دو خواتین آئی تھیں۔۔۔فیروزی کلر اور ڈارک بلو کلر کی ساڑھی پہنے ہوئے دونوں خواتین بہت خوبصورت تھیں ۔۔۔۔۔۔۔فیروزی رنگ کی ساڑھی والے کے سینےکے ابھار نے راشد کو بہت ہی ہوٹ کر دیا تھا۔۔۔۔۔اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے ۔۔۔۔ندا یاسر نے اس کی بے چینی کو محسوس کر لیا تھا۔۔۔۔شو کے ختم ہونےکے بعد ندا یاسر اسے اوپر بنے ہوئے اپنے آفس میں لے گئی ۔۔یہ آفس اس کا پرسنل تھا ۔۔جہاں ایک طرف چھوٹا ڈریسنگ ٹیبل ، میز ، صوفہ سیٹ ، کرسی کے ساتھ لیپ ٹاپ بھی رکھا ہوا تھا۔۔۔
ندا نے راشد سے اس کی بے چینی کی وجہ پوچھی مگر وہ ہونٹوں پر زبان پھیرتا ہی رہ گیا۔۔۔۔
نہیں میڈم ایسی بات نہیں ہے ۔۔بس ان چیزوں کا عادی نہیں ہو ۔۔اس لئے ۔۔۔۔۔۔راشد کا منہ اب بھی خشک تھا۔۔
ندا کچھ سمجھی اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے اسے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود میز کے اس طرف آ کر کرسی پر بیٹھ گئی ۔۔
گھومتی ہوئی کرسی پر بیٹھے اس نے فون اٹھا کر چائے کا آرڈر دینے لگی ۔آر ڈر دیتے ہوئے کچھ خیال آیا۔۔۔پھر خود ہی ہنسنے لگی ۔۔
راشد حیران ہو کر دیکھ رہا تھا کہ ندا یاسر بولی ۔۔یار تمہار ے ہوتے ہوئے میں چائے منگوا رہی ہوں ۔۔تم سے اچھی کوئی چائے کون تیار کرتا ہوگا۔
میڈم آپ لوگوں کا کچن کیدھر ہے ۔۔۔۔۔ہم ابی آپ کے لئے چائے تیار کرے گا۔۔۔راشد جلدی سے کھڑا ہونے لگا۔
نہیں نہیں ۔۔اب تم اسٹار بننے جا رہے ہو ۔۔۔۔ماڈلنگ لائن میں تو قدم رکھ ہی لیا ہے ۔۔۔اب یہ چائے وائے چھوڑو ۔۔۔اور آگے کا سوچو۔ ندا یاسر نے اسے مذاقا ڈانٹتے ہوئے کہا تو راشد بیٹھ گیا۔
وہ ابھی بھی ندا یاسر کو دیکھ رہا تھا۔۔جو لائٹ بلیو شرٹ اور وائٹ ٹراوزر میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔ٹراؤزر کچھ فٹ تھا ۔۔اور کرسی پر بیٹھنے کے بعد ٹانگ پر جو ٹانگ رکھی تو سائیڈ سے خوبصورت رانیں اور واضح ہو گئیں۔۔
ندا یاسر نے اسے ایسے دیکھتے ہوئے دیکھا تو پوچھنے لگی ۔۔۔۔کیا ہوا ۔۔۔۔پہلی بار دیکھ رہے ہو کیا ۔۔
نہیں میڈ م ۔۔۔۔آپ کا شادی ہو گیا ہے کیا ۔۔۔؟۔ راشد نے پوچھا
تمہار ا کیاخیال ہے لڑکے ۔۔۔۔۔تم بتاؤ ۔۔۔۔۔ندا نے شرارتی نظروں سے اسے دیکھا تھا۔(راشد ابھی صرف اٹھارہ سال کا ہی تھا)۔
میڈم ہم کیا بتا سکتا ہے ۔۔۔۔۔ہماری توسوچ بی نہیں تھا کہ ہم آپ سے کبی ملتا۔۔۔راشد کی گلابی اردو جاری تھی۔
ندا یاسر اس چارمنگ پرنس کو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔جو انتہا کا معصوم تھا۔۔اور شریف بھی ۔۔مگرا س کی بے چینی کیسی تھی ۔۔یہ ابھی تک ندا یاسر کو نہیں پتا تھا۔
کچھ ہی دیر میں چائے پہنچ گئی ۔۔۔۔۔۔راشد نے منہ بسورتے ہوئے چائے دیکھی ۔۔۔میڈم اس سے اچھا تو آپ ہم کو بولتا ۔۔۔ہم آپ کو کڑک پتی چائے پلاتا۔
ندایاسر نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا ۔۔۔خان یہاں ایسی ہی چائے ہوتی ہے ۔۔۔ہر کوئی تمہارے جیسے تو نہیں ہوتا۔
ندا چائے پیتے ہوئے سوچ میں گم تھی ۔۔۔۔خان یہاں سے جا نے کے بعد کہاں جاؤ گے ۔۔۔۔؟
میڈم ہمارا تو وہی چائے کا ٹھیلہ ہے ۔۔۔۔۔یہاں سے بس پکڑ کر سیدھا وہیں جائے گا۔۔۔
اگر تم آج کا دن میرے ساتھ گزار لو تو کوئی حرج تو نہیں ہے ۔۔ندا نے پھر پوچھا ۔
نہیں میڈم ایسا کوئی بات نہیں ہے ۔۔۔آپ جب چاہو ہم ادھر آپ کے پاس رہ لے گا۔۔۔راشد نے جلدی سے کہا۔

بےوقوف ادھر نہیں ۔۔۔۔ چلو چلتے ہیں ۔۔باہر کھانا کھاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ندا نے جیا کو میسج کیا کہ وہ راشد کو اپنے گھر لے جارہی ہے ۔۔۔وہ فارغ ہو کر وہیں آ جائے ۔۔
ندا نے گاڑی کی چابی اٹھائی اور باہر نکل آئی ۔۔۔خوبرو راشد اس کے پیچھے پیچھے تھا۔۔
ندا راشد کو لئے اپنے گھر پہنچی ۔شوہر اور بچے اپنے دادی کے گھر تھے ۔۔اور گھر میں وہ اکیلی تھی ۔۔راستے سے کھانا پک کر لیا تھا۔۔۔۔ندا گھر میں داخل ہوئی تو راشد کافی حیران تھا۔۔۔ایسا شاندار گھر اس نے کبھی خوابوں میں بھی نہیں دیکھا تھا۔۔۔گاڑی گیراج میں کھڑی ہوئی تو۔۔۔وہ حیران پریشان نیچے اترا ۔۔۔۔چاروں طرف نظریں گھماتا دیکھ کر ندا یاسر نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اندر بڑھ گئی ۔۔۔
ڈائننگ ٹیبل پر کھا نا رکھا ۔۔۔۔اور کھانے پر بیٹھ گئے ۔۔کھانا مزے کا تھا ۔۔اور راشد کے لئے بہت ہی مزے کا تھا۔۔۔اسے تو ہوٹل کے ایک ہی طرز کے کھانےکی عادت تھی ۔۔جو کبھی باسی اور کبھی وہ چائے کے ساتھ کیک رس لے کر پیٹ بھر لیتا۔
کھانا کے بعد راشد نے ہاتھ مسلے اور پوچھنے لگے ۔۔میڈم آپ کے لئے چائے بنائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ندا یاسر نے اسے دیکھا جو اپنے ہاتھ کی چائے پلانے کے لئے بے چین ہوئے جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔چلو ٹھیک ہے ۔۔مگر مجھے بھی چائے بنانا سکھاؤ ۔۔۔اپنی جیسی ۔۔جیسے تم اپنے اسٹال پر بناتے ہو۔۔
میڈم مسئلہ ہی نہی ہے ۔۔۔آپ کچن بتاؤ کدھر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ندا اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔اور اسے لئے کچن میں پہنچی ۔۔۔
چائے کی کیٹل کو چولہے پر رکھا ۔۔۔۔اور پانی کی مقدار پوچھنے لگی ۔۔۔۔۔راشد نے ایک کپ بتایا ۔۔ندا یاسر نے پانی ابالنے رکھ دیا۔۔۔راشد قریب ہی تھا۔۔۔راشد نے ندا یاسر کو سائیڈ پر ہونے کاکہا اورخود ایک چمچہ اٹھا کر آگے آگیا۔پتی کو ڈال کر وہ کھولانے لگا ۔۔۔ندا یاسر نے آگے بڑھ کر پتی کا ڈبہ پکڑنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔اور ادھر راشد پیچھے ہٹا تھا۔۔۔۔ندا کا سینہ اس کے کندھے اور بازو سے ٹکرایا تھا۔۔۔۔
راشد کے جسم میں وہی بے چینی شروع ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔ندا نے پیچھے ہٹتے ہوئے ا س سے پتی کی مقدار پوچھی کہ کتنی پتی ڈالی ہے ۔۔۔۔دو چمچے میڈم ۔۔بہت اچھی چائے بنے گا۔
راشد نے پتی کھولانےکے بعد پیچھے مڑتے ہوئے دودھ کا پوچھا ۔۔۔۔اس کی نظریں بےاختیاری طور پر ندا یاسر کے سینے پر پڑی تھی ۔۔۔۔جہاں موٹے اورصحت مند ممے باہر کو ابھرے ہوئے تھے ۔۔۔ندا نے اس کی نظریں پہچان لی تھی۔۔۔۔وہ فریج کی طرف گئی ۔۔اور دودھ نکالنےلگی۔۔۔۔۔دو کپ دودھ ڈالنے کے بعد راشد نے ایک ابالا اور دیا ۔۔۔۔۔مزیدار چائے تیار تھی ۔۔۔چائے لئے وہ ڈرائنگ روم میں آ گئے ۔۔۔۔۔۔ندا یاسر اپنی ٹیب اٹھا لائی ۔۔۔
چائے پینے کے ساتھ ساتھ وہ راشد کو سوشل میڈیا کے بارے میں بتانے لگی ۔۔۔ٹیب پر اپنی تصویر پر حیرت سے ہاتھ پھیرتا ہوا راشد اپنی خوش قسمتی پر ناز کر رہا تھا۔۔۔
چائے رکھتے ہوئے راشد کھسکتا ہوا ندا یاسر کے قریب آ یا ۔۔۔۔۔ٹیب پر جھانکتے ہوئے اس کی نظریں پھر سے ندا کے سینے پر پڑی تھی ۔۔۔۔۔موٹے اور بھاری ابھار اس کی دھڑکن کو تیز کر رہے تھے ۔۔ ۔۔جسم میں چنگاریاں بھڑکا رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے جسم سے بے تحاشہ پسینہ بہا ۔۔۔ندا نے اس کی توجہ محسوس کر لی ۔۔۔وہ کچھ آگے کو جھکتے ہوئے ۔۔اسے شئیرز اور لائک بتانےلگی ۔۔۔۔راشد نے ندا کے سینے پر ابھرنے والی گہرائیوں کو دیکھا تو بے اختیار ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگا۔۔۔دونوں مموں کے درمیان بننے والی یہ کلیویج اسے بارود بنا رہی تھی ۔۔
ندا بھی آپس میں بننے والی اس اٹریکشن کو محسوس کر رہی تھی ۔۔اسے مہکی مہکی پسینے کی بو محسوس ہوئی ۔۔۔جو اسے اپنی طرف کھینچ رہی تھی ۔۔۔۔راشد کے جسم سے خالص مردانہ مہک امڈ رہی تھی ۔۔۔۔جو تیزی سے بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔ندا نے ٹیب راشد کو پکڑا یا اور تھوڑا اور قریب کھسکی تھی ۔۔۔۔راشد کی آنکھیں پھیلیں ۔۔۔۔دل دھڑکا ۔۔۔۔جسم کانپا ۔۔۔۔اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کیسی قوت ہے جو اسے پریشان کر رہی ہے ۔۔۔۔اسے آج تک لڑکی ذات سے واسطہ نہیں پڑا تھا۔۔۔اور اب یہ قربت اسے دہلائے جا رہی تھی ۔۔۔ندا بھی اب اس سمندر میں بہنے کو تیار تھی ۔۔۔۔خان کے جسم سے اٹھتا ہوا کشش کا ایک بھنور تھا جو اسے اپنی لپیٹ میں لئے جا رہا تھا۔۔۔کھینچے جا رہا تھا۔۔۔بلائے جا رہا تھا۔۔۔۔
قریب کھسکتی ہوئی ندا کو راشد نے دیکھا۔۔۔۔ہونٹوں پر زبان پھیری ۔۔۔مم میڈم ۔۔۔۔۔وہ ہکلایا تھا۔
ندا کی بس ہو چکی تھی ۔۔۔۔۔۔اس نے ٹیب پکڑے ہوئے سائیڈ پر رکھا۔۔۔۔ہاتھ سے ہاتھ ٹکرا یا اورچنگاری نے آگ پکڑ لی۔۔۔راشد بے حد گرم ہو چکا تھا۔۔۔اور ندا یاسر بھی کچھ کم نہیں تھی۔۔۔۔ندا نے راشد کا ہاتھ اٹھاتے ہوئے اپنے سینے پر رکھا تھا۔۔۔خان کے جسم نے جھٹکا کھایا ۔۔۔۔۔ابھار بڑے اور پھولے ہوئے تھے ۔۔۔وہیں پر نرم نرم بھی تھے ۔۔وہ کسی اسفنج کی طرح دبانے لگا۔۔تبھی ندا یاسر نے دوسرا ہاتھ اٹھاتے ہوئے دوسری سائیڈ پر رکھ دیا۔
خان کے دونوں ہاتھ دبے تھے ۔۔۔موٹے موٹے ابھار اس کے ہاتھ کو نیچے مچل رہے تھے ۔۔۔۔۔اس کے بدن میں سنسنی دوڑ گئی ۔۔۔۔۔جو پورے بدن سے دوڑتی ہوئی اس کے سوئے ہو ئے لن تک پہنچی اور جگانے لگی۔۔۔۔جو پہلی بار اپنی اہمیت جتانے جا رہا تھا۔۔۔۔
خان کے ہاتھوں کا دباؤ بڑھا تھا ۔۔۔ندا یاسر کے منہ سے گر م گرم سسکیاں نکلی ۔۔۔۔اس نے نشیلی آنکھوں سے خان کو دیکھا ۔۔۔جس کی اپنی نیلی آنکھیں بھی کم نشیلی نہیں تھی ۔۔۔ندا نے اس کے ہاتھ کو پکڑے ہوئے کھینچا تھا۔۔۔اور خان کسی ہلکے پھلکے وجود کی طرح اس کے سینے سے آن لگا۔۔۔سینے سے سینے ٹکرا ئے تھے ۔۔۔ہونٹ سے ہونٹ ۔۔۔۔۔ایک طرف فولادی جسم ۔۔۔دوسری طر ف نرم گرم نازک سا وجود تھا۔۔خان ہونٹ سے ہونٹ لگا کر رکا رہا ۔۔جیسے آگے سمجھ نہ آ رہی ہو ۔۔۔۔۔ندا نے اس کے ہونٹوں پر گرفت قائم کی اور دبانے لگی ۔۔۔۔خان کو سمجھ آگئی کہ ہونٹوں کا یہ کام ہوتا ہے ۔۔۔اس نے بھی جوابی کارووائی شروع کی ۔۔نرم نرم ہونٹ سے ہونٹ ٹکرائے تھے ۔۔خان کافی پرجوش تھا۔۔اس کے لئے یہ سب نیا بھی تھا۔۔۔اور پر لطف بھی تھا۔۔۔کسی سحر میں جکڑا ہوا وہ بس ڈوبا جا رہا تھا۔۔۔جہاں سے ابھرنا آسان نہیں تھا۔
خان ندا یاسر کے اوپر جھکا ہوا ہونٹ سے ہونٹ چوم رہا تھا۔۔۔۔اور ندایاسر صوفے کی سائیڈ پر بیٹھے بیٹھے ٹیک لگا چکی تھی۔۔۔۔اور اب نیم دراز جیسی پوزیشن تھی ۔۔۔اور ساتھ بیٹھا خان اب پاؤں اٹھاکر اوپر کر کے پورا جھکا ہوا تھا۔۔۔شوز اتارنے کا نہ ٹائم ،نہ خیال ۔۔۔۔۔ندا یاسر کا شادابی رنگ ۔۔۔۔بھرے بھرے گال ۔۔بڑی سیاہ آنکھیں ۔۔۔۔اور پتلے پتلے رسیلے ہونٹ ۔۔۔۔۔ساتھ ہی گداز جسم ۔۔۔جس پر ابھار اسے چار چاند لگاتے ۔۔۔اور خان اب ان ابھار پر دبتے ہوئے ہونٹ چوسے جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ندا نے اسے روکتےہوئے اسے زبان نکالنے کا کہا۔۔۔اور پھر چوسنےلگی۔۔۔خان سمجھ گیا تھا۔۔اس نے فورا سے پہلی اپنی زبان ندا کے منہ میں ڈالی ۔۔اور اس کی زبان ڈھونڈنے لگا۔۔۔۔گیلی زبان ملی تھی ۔۔۔اور اب خان کی زبان کے تعاقب میں باہر آئی ۔۔جہاں خان کے ہونٹ اسے دبوچ کر چوسنے لگا۔۔۔۔۔گرم گرم سانسیں اور تھوک کا ٹکراؤ ہو ا تھا۔۔۔۔۔ندا یاسر کا جسم بھی بھڑکا تھا۔۔۔۔نیچے ٹانگوں کے درمیان حرکت ہوئی تھی ۔۔۔۔کوئی لب جیسے کھلے اور بند ہوئے ۔۔۔ان کےدرمیان سفید قطرہ باہر کو امڈا۔۔۔۔۔خان کا جسم بےحد گرم اور اسے بھی گرمائے جا رہا تھا۔۔ندا نے خان کے کوٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بٹن تک پہنچی ۔۔۔اور بٹن کھولنے لگی۔۔کسی ڈیزائنر کا بنا ہوا یہ کوٹ جلد ہی اترا ۔۔۔۔اس کے بعد شرٹ کا نمبر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خان تیزی پکڑ چکا تھا۔۔۔۔ہونٹوں اور زبان کے بعد اب وہ پورے چہرے پر زبان اور ہونٹ پھیر رہا تھا۔۔اورندا کی بے چینی بھی اس کے کنٹرول سے باہر ہونے لگی ۔۔۔تبھی خان نے اس کی کمر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس آگے کو کھینچا تھا۔۔۔۔ندا وزنی تھی ۔۔مگر کسی کاغذ کی طرح پھسلی تھی ۔۔خان کا نشانہ اب اس کا سینہ تھا۔۔۔جہاں بھاری بھرکم ممے ابھرے ہوئےدعوت دے رہے تھے ۔۔وہ اس کی کمرکے گرد ہاتھوں کا گھیرا بنا کر جھک گیا۔۔۔ہاتھوں سے شروعات کرنے والا خان اب چہرے سے اس پر ٹوٹا تھا۔۔۔۔کپڑے کے اوپر سے ہی اس نے ہونٹ رکھے تھے ۔۔۔۔نیلے رنگ کی پتلی سی شرٹ گیلی ہوئی ۔۔۔اور سفید کلر کی برا کو باہر دکھانے لگی۔۔خان دباتے ہوئے ہونٹ بھی لگائے جا رہا تھا۔۔۔تبھی خان کو اپنی برہنگی کااحساس ہو ا۔۔۔۔اس کی شرٹ کب اتری اسے پتا ہی نہ چلا تھا۔۔۔اور اب وہ شرما رہا تھا۔۔ندا نے اسے دیکھا اور دل میں قربان جاتے ہوئے اپنے قمیض کو دیکھا جو گیلی ہوئے جا رہی تھی ۔۔۔خان کو بھی احساس ہو ا۔۔۔اس نےحرا کی قمیض کو اٹھاتے ہوئے کھینچا تھا۔۔۔۔نچلا دامن ندا یاسر کے نیچے ہی دبا تھا۔۔۔۔۔۔اور خان کا زور اس کی طرح شتر بے مہا ر تھا۔۔۔۔۔۔۔
چرر چرر ۔ کی آواز کے ساتھ قمیض پھٹی تھی ۔۔اور چرگئی۔۔۔خان نے پریشان ہوتے ہوئے ندایاسر کو دیکھا ۔۔جو مسکرارہی تھی ۔۔۔خان نے اور زور لگایا ۔۔۔اور آگے سے ایک بڑا حصہ پھٹتا گیا۔۔۔۔سفید برا سامنے آئی تھی ۔۔۔۔۔۔جس میں پھنسے ہوئے بڑے سے ابھار اپنے جلوے دکھا رہے تھے ۔۔۔۔۔۔خان کی آنکھیں چمکی تھیں ۔۔۔۔پہلی بار دودھ کی ایسی تھیلیاں جو دیکھی تھیں۔۔۔۔۔ جو اپنی طرف بلاتی بھی ہوں ۔۔کھینچتی بھی ہوں ۔۔۔۔
خان نے آگے سے پوری قمیض پھاڑ ڈالی تھی ۔۔۔۔۔۔سفید برا پوری نظر آ رہی تھی ۔۔۔خان نے اس پر ہاتھ رکھتے ہوئے ہونٹوں پر زبان پھیری ۔۔۔۔۔۔اسے سمجھ نہیں آیا ۔۔۔کہ یہ تالا کیسے کھولے گا۔۔۔۔۔۔اس نے برا کے دونوں کپ پکڑتے ہوئے کھینچا۔۔۔۔۔ندا یاسر کی آہ نکلی تھی۔۔۔۔۔تالا نہیں کھلا۔۔۔۔اس سے پہلے کہ خان جذباتی ہوتا ۔۔۔۔۔ندا نے اسے رکنے کا کہا۔۔۔اور اٹھتے ہوئے بیٹھی ۔۔۔۔خان کی طرف کمر کی ۔اور مڑ گئی۔۔۔۔جہاں ایک زپ سی نیچے کو جارہی تھی ۔۔۔۔خان سمجھ گیا۔۔زپ نیچی کی ۔۔۔۔۔۔قمیض کھلی تھی ۔۔۔۔یہاں ایک ہک لگی ربن آرہی تھی ۔۔۔۔۔خان نے ہک کھولا تھا۔۔۔۔بندھے ہوئے قیدی آزاد ہوئے تھے ۔۔۔خان نے زپ تو کھول ہی لی تھی ۔۔قمیض کو ا س نے نیچے دھکیلا دیا تھا۔۔۔اور پچھلی سائیڈ سے ہی لپٹ گیا۔۔۔۔ندا یاسر نے پیچھے مڑتے ہوئے اس شہزادے کو دیکھا تھا۔۔۔خان بہت پرجوش تھا۔۔۔جیسے کوئی نئی دریافت کرنے جا رہا ہو۔۔۔۔پیچھے سے اس کے ہاتھ بازو کے نیچے داخل ہوئے اور سینے پر آ کر رکے ۔۔۔۔بھاری مموں کو تھاما تھا ۔۔۔اوپر نیچے ہلایا تھا۔۔۔اور پھر نوک جیسی نپلز پر ہاتھ رکتے ہوئے روکا۔۔۔۔ندایاسر کا چہر ہ پیچھے کی طرف تھا۔۔۔اس نے خان کی آنکھوں میں دیکھا ۔۔جو نپلز پکڑے رک سا گیا۔۔۔جیسے پوچھ رہا کہ اسی سے دودھ پیا جا تا ہے ۔۔۔۔۔۔ندا یاسر کی آنکھوں نے بھی جواب میں ہاں کہہ دیا۔۔۔۔خان ایکدم سے جوش میں آیا۔۔
اس نے ہاتھ کھینچے تھے ۔۔۔۔۔۔اور ندا یاسر کو سیدھے کرتے ہوئے لٹا دیا ۔۔صوفے کی سائیڈ پر سر رکھے وہ لیٹی۔۔۔۔خان کی نظریں گورے گورے مموں پر تھیں ۔۔۔۔۔جو دودھ سے بھرے ہوئے چھلک رہے تھے ۔۔۔۔خان نے دونوں ہاتھوں میں تھاما۔۔۔اور ایک سائیڈ والے کی طرف منہ بڑھا دیا۔۔۔۔منہ میں بھرنے کی کوشش کی ۔۔مگر یہ مشکل تھا۔۔۔۔ممے خوب بھرے ہوئے اور موٹے تھے ۔۔۔آخر نپلز اور آس پاس کا کچھ حصہ منہ میں دبائے ہوئے چوسنے لگا۔۔۔۔۔دودھ جیسی مہک اس کی ناک سے ٹکرائی تھی ۔۔۔۔۔اس نے دوسرے ممے پر ہاتھ کو دبایا تھا ۔۔۔زور کچھ زیادہ ہی لگا۔۔۔ندا کے منہ سے سسکی نکلی ۔۔۔۔جیسے خان نےحیرت سے دیکھا اور دوبارہ زور دیا۔۔۔پھر سے سسکی نکلی۔۔۔۔۔خان سمجھ گیا کہ یہ گاڑی کا ہارن ہے ہے ۔۔دباؤ تو اوپر سے آواز آتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔خان نے ہارن دباناشروع کر دیا ۔۔۔۔اور ندا جس کا ایک مما۔۔۔ خان کے منہ میں اور دوسرا اس کے ہاتھوں میں دبا ہوا تھا۔۔۔۔مزے سے سسکنےلگی ۔۔۔۔۔اس کانچلے حصہ پورا گیلے ہوئے جا رہا تھا۔۔۔خان کی تپش پگھلائے جا رہی تھی ۔۔۔
ندا یاسر کا اوپر بدن اب کھل چکا تھا۔۔۔گورا بدن دمک رہاتھا ۔۔۔خان پورے جوش سے نپلز چوسے جا رہے تھے ۔۔۔۔اور ندا اس کے سر پر ہاتھ پھیرتی ہوئی اسے تھمنے کا اشارہ کرتی ۔۔۔۔خان کا اپنا حال بھی پتلا تھا۔۔۔۔۔پینٹ میں پھنسا ہوا لن نکلنے کو تیار تھا ۔۔۔۔پہلی مرتبہ ہی پینٹ پہنی تھی ۔۔۔اس لئے لن بھی مشکل میں تھا۔۔۔بار بار باہر نکلنے کو زور مارتا ۔۔۔۔۔۔۔مگر قید بڑی سخت تھی ۔۔۔۔اور خان تھا کہ ہاتھ لگاتے ہوئے بھی شرما رہا تھا کہ میڈم کیا سوچے گی ۔۔۔۔۔۔۔

آخرندا نے ہی حرکت کی تھی ۔۔۔۔۔کمر پر ہاتھ پھیرتا ہوا نیچے آیا ۔۔۔۔۔خان کا جسم کپکپا یا تھا۔۔۔اور بیلٹ کا ہک کھلا تھا۔۔۔پینٹ نیچے کو کھسکی تھی ۔۔۔۔۔۔ندا یاسر کی آنکھوں میں شوق تھا ۔۔۔پوری دنیا کو اپنی کشش سے ہلا دینے والا۔۔۔اس کے سامنے تھا ۔۔۔بس کپڑے اتر رہے تھے ۔۔۔۔۔۔پینٹ اترتی گئی ۔بس انڈروئیر ہی باقی تھا۔۔خان پھر سے شرمایا تھا۔۔۔۔جھجکا تھا۔۔مگر ندا کو دیکھتے ہوئے اس نے اس کے ٹراؤزر کو دیکھا ۔۔۔۔۔جیسے اجاز ت درکار ہو ۔۔
اجازت مل گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر خان کے ہاتھ ٹراؤزر پر آ کر رکے ۔۔۔۔۔۔ندا یاسر نے ہلکے سے کمر اٹھائی تھی ۔۔۔۔۔خان نے ہاتھ نیچے کھینچ دیئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گوری پیٹ کے نیچے گوری رانیں ۔۔۔۔۔گوشت سے پر ۔۔۔۔۔۔۔خوبصورت اور سڈول رانیں ۔۔۔۔۔۔جن کے درمیان پھولی ہوئی سیپی تھی ۔۔۔۔۔۔خان نے حیرت سے یہ نظارہ دیکھا ۔۔۔اور ٹراؤزر کو پاؤں سے الگ کرنے لگا۔۔۔۔۔
کھینچنے کے بعد وہ پلٹا ۔۔۔۔۔ندا یاسر کی آنکھیوں جگمگا رہی تھی ۔۔شہوت سے ۔۔۔۔مزے سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور لذت سے ۔۔گورے گال سرخ ہو نے لگے ۔۔۔سیبوں کی طرح۔۔

خان ندا سے لپٹ چکا تھا۔۔۔۔گرم گرم جسموں کا ٹکراؤ تھا۔۔۔۔ندا یاسر کے بڑے اور بھاری ممے خان کے نیچے دبے ہوئے تھے ۔۔۔ندا نے پاؤں صوفے پر سیدھے کر لئے ۔۔۔جن کے درمیان خان لیٹا ہوا تھا۔۔۔اس کے انڈروئیر کا ابھار بڑا ہوتا جارہا تھا۔۔۔جس کا دباؤ ندا کی ٹانگوں کے درمیان پڑ رہا تھا۔۔۔اور چوت مزید گیلی ہوئی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔خان ابھی بھی کافی چیزوں سے بےخبر تھا ۔۔جیسے آگے اب کیا کرنا ہے ۔۔۔اسےکچھ پتا نہیں تھا۔۔۔۔وہ بس لپٹے اور چومے جا رہا تھا ۔۔۔۔ندا یاسر کچھ جھلائی تھی ۔مگر پھر خان کے پیچھے کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے اس چوتڑ پر ہاتھ دبائے ۔۔۔۔۔۔خان تڑپا تھا ۔۔۔اوربے اختیار آگے کو گھسا۔۔۔اس نے اوپر ندا یاسر کو دیکھا ۔۔۔۔کیا ۔۔۔۔کیوں ۔۔۔۔کس لئے ۔۔جیسے سوال اس کی آنکھوں سے عیا ں تھے ۔۔۔۔وہ بتاتی بھی تو کیا۔۔۔۔۔آخر خان کے لن نے ہی انگڑائی بھری ۔۔۔۔۔اورانڈروئیر کو اٹھا تا گیا۔۔۔۔ندا یاسر کے چہرے پر اطمینا ن آیا ۔۔خان تو نہ سمجھا پر کسی کو تو سمجھ آئی تھی ۔۔۔۔۔۔لن پورا اکڑتا جا رہا تھا ۔۔انڈوئیر کی حد ختم ہوئی ۔۔۔مگر لن ابھی بھی کھلنا باقی تھا۔۔۔خان کو درد ہو ا تو اس نے انڈر وئیر کو نیچے کھسکا ۔۔۔۔لن نے بھرپور لمبائی پکڑی ۔۔۔۔اور پھیلتا گیا۔۔۔۔۔کھلتا ہوا لن سیکھا ندا یاسر کی رانوں سے ٹکرایا تھا۔۔۔اس نے ٹانگیں اٹھا لی۔۔۔اور خان کے کندھے پر رکھ دی۔۔۔ساتھ ہی نیچے ہاتھ بڑھا کر خا ن کا لن ڈھونڈنے لگی ۔۔۔۔۔۔جلد ہی ایک موٹا سا گرم گرم لن اس کے ہاتھ پر لگا تھا۔۔۔سختی سے فل اکڑ ا ہوا ۔۔۔اور اچھا خاصا موٹا تھا۔۔۔۔۔۔ندا یاسر کچھ جھجکی تھی ۔۔۔موٹائی اورلمبائی دونوں زیادہ تھیں ۔۔۔۔۔مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔۔۔اس نے لن کو پکڑے ہوئے چوت کی طرف اشارہ کیا ۔۔۔اور ہلکے سے بولی ۔۔۔
خان آرام آرام سے اندر کرنا۔۔۔۔۔۔۔
جی میڈم ۔خان تو تابعدار ہی تھا۔۔۔وہ پاؤں پر بیٹھنے کے بعد آگے کو جھکنے لگا۔۔۔۔۔
لن چوت کے اوپر پڑا سانس لے رہا تھا۔۔۔۔خا ن نے اس اٹھایا ااور چوت پر رکھنے لگا۔۔۔ٹوپا موٹا تھا۔۔خان نے دباؤ بڑھاتے ہوئے زور لگایا ۔۔۔
ندا یاسر کی چوت کے لب کھلے تھے ۔۔۔اور ٹوپا اندر جا پہنچا ۔۔۔ندا یاسر کا منہ کھلا ۔آہ نکلی ۔۔۔۔اور خان کی طر ف دیکھتے ہوئے چہرہ نیچے کو ہلایا ۔۔۔
خان سمجھ گیا کہ آگے آنے کا اشارہ تھا ۔۔۔مگر یہ بھول گیا تھا کہ پہلے آرام سے کرنے کا بھی کہا تھا ۔۔۔
خان نے دھکا مارا تھا ۔۔اور پورا کا پورا لن اندر گھسا دیا ۔۔۔۔ندا یاسر کے منہ سے ۔زوردار ۔ائی۔آہ ہ ہ۔۔۔اوئی۔۔۔۔نکلی تھی ۔۔جس میں درد اور مزے کی ملاوٹ تھی ۔۔
خان کا گھوڑا کم نہیں تھا۔۔۔۔۔اور اس بھرپور دھکے نے اسے ہلا دیا تھا۔۔خان کے لئے یہ آواز نئی تھی۔۔وہ ایکدم سے پریشان ہوا۔۔۔۔۔
ندا یاسر کے چہرے کے بھی نقش بگڑے تھے ۔۔۔۔۔۔چوت خان کے لن کے مقابلے میں کافی تنگ تھی ۔۔مگر اناڑی خان نے پہلا ہی دھکا خطرناک مارا تھا۔۔۔
ندا نے رکنے کا اشارہ کرتے ہوئے اس کے بازو پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔
خان کو سمجھ نہیں آیا ۔۔پہلے لینے کی جلدی تھی ۔۔اور اب چیخنے کے ساتھ روکنے کی کوشش ۔۔۔۔مڑا دا سی شے دے ۔۔۔
خان کچھ دیر رکا ۔۔۔۔اسے بھی چوت میں لن پھنسا ہوا محسوس ہو رہا تھا ۔۔ساتھ ہی بے تحاشہ گیلا پن بھی محسوس ہو ا۔۔۔وہ ندا یاسر کو دیکھے جا رہا تھا کہ کب حرکت کا اشارہ ملے ۔۔۔
مگر ندا یاسر دم سادھ کر لیٹی رہی تھی ۔۔۔ٹانگیں فل اٹھ کر خان کے کندھوں پر تھیں ۔۔۔۔۔اورنیچے سے خان کا پورا لن اندر کھبا ہوا تھا ۔۔۔۔خان نے اسے دیکھتے ہوئے اشارہ مانگا۔۔۔۔۔مگر حرا کی طرف سےابھی سرخ سگنل ہی تھا۔۔خان بے چین تھا ۔۔۔۔اندر دھکا دیتے ہوئے اسے بھی مزا آیا تھا۔۔۔۔نرمی سے چوت کی دیواروں نے اس کے لن کا مساج کیا تھا۔۔۔خان نے تھوڑا سا لن نکال کر پھر دھکا دے دیا ۔۔۔ندا نے پھر آہ ہ بھری سسکی لی ۔۔ اور رکنے کا اشارہ کرنے لگی ۔۔۔۔۔۔مگر خان اب کچھ سمجھنے لگا تھا ۔۔۔۔یہ درد مزے والا تھا۔۔۔۔۔اس نے کمر کو پیچھے کیا۔۔۔اور لن باہر نکلالنے لگا۔۔۔۔۔ٹوپا ابھی نکلنے ہی والا تھا کہ حرا نے اس کے ہاتھ کو دبایا ۔۔۔خان رک گیا۔۔اور واپس آیا ۔۔۔۔پہلےسے زیادہ تیزی سے ۔۔اورندا کی دبی دبی کراہیں کمرے میں گونج اٹھیں۔۔۔۔۔خان کا لن ابھی نیا نیا تھا۔۔۔اور پہلی بار بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔فل سختی سے تنا ہوا تھا ۔۔۔۔۔لن کو بھی پہلی بار ہی پتا چلا تھا کہ اس کا یہ کام بھی ہے ۔۔۔۔
خان کے دوسرا جھٹکا پہلے سے زیادہ تیز اور اسپیڈ میں تھا ۔۔ندا یاسر کی کراہیں نکلیں تھیں۔۔۔۔منہ کھولے ہوئے آہیں تھیں۔۔۔۔آہ ہ ہ۔۔۔۔اوئی ۔۔۔۔او ہ ہ۔۔۔۔۔۔۔ خان کے لئے یہ آواز تسکین کا باعث تھی ۔۔
اس نے پھر سے لن کا کھینچتے ہوئے ایک زور دار جھٹکا ما ر ڈالا۔۔۔۔ندا یاسر کی بس ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔۔ماڈلنگ اور شو میں مصروف رہنے والی ندا یاسر شوہر سے بھی کافی دور ہی رہی تھی ۔۔۔مگر اب اس عمر میں آ کر نو آموز خان نے اس کے کس بل ڈھیلے کر دیئے تھے ۔۔۔۔خان کو مزا آنے لگا تھا۔۔۔اس نے کھینچ کھینچ کر دھکے مارنے شروع کر دیئے ۔۔۔۔۔ندا یاسر پہلے تو ایک جھٹکے پر ہلتی ۔۔۔۔مگر پھر ہلنےوالی مشین ہی بن گئی۔۔۔خان رکنے کے موڈ میں ہرگز نہیں تھا۔۔۔۔۔۔بلکہ کھلے منہ سے نکلنے والی ندا یاسر کی سسکیوں کو دیکھتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہلتے ہوئے گالوں کو دیکھتا۔۔۔۔اور پھر ہلتے ہوئے مموں کو دیکھتا ۔۔۔۔اور پھر اپنے پورے زور سے جھٹکے دے مارتا ۔۔۔خان کا زور تو ویسے بھی مشہور ۔۔۔۔۔اور اب تو وہ اور زیادہ پرجوش تھا۔۔۔۔۔اس نے پورے جھٹکے مار مار کر کھدائی شروع کر دی۔۔۔۔۔۔۔ندا یاسر کی درد بھری کراہیں نکل رہیں۔۔۔۔ٹانگیں اٹھائے ہوئے وہ سسکی جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔خان کو ہاتھ سے روکتی ہوئی آہ ہ۔ ۔۔۔اوہ ہ ۔۔۔۔۔آئی۔۔۔۔۔۔۔۔بولی جارہی تھی ۔۔
اور خان پاؤں کے بل پر بیٹھا۔۔۔۔۔جھٹکے پر جھٹکے مارے جا رہا تھا۔۔۔ندا کا ہلتا ہوا بدن جہاں اس کی آنکھوں کو لطف دیتا وہیں پر تنگ چوت اس کے لن کو بھی شاد بخشتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔خان کے جھٹکے بڑھتے جا رہے تھے ۔۔۔اسے اس کھیل کی سمجھ آ گئی تھی۔۔۔۔بس جھٹکوں کا ہی چکر تھا ۔۔اور ہر جھٹکا پہلے سے زیادہ تیز اور زیادہ آگے پہنچانا تھا۔۔۔۔۔۔۔اور خان پوری ذمہ داری سے یہ کام کرنے میں جٹا ہوا تھا۔۔۔
ندا یاسر کی بلند آہ۔۔۔۔۔اوئی۔۔۔۔۔آہ ہ۔۔۔۔۔۔گونجی جارہی تھیں۔۔۔۔اس کی چوت میں سیلاب آنے والا تھا۔۔اور ان سب سے بے خبر خان دھکوں میں مصروف تھا۔۔ندا یاسر نے اٹھی ہوئی ٹانگیں سائیڈ پر کھول دی تھیں۔۔۔۔۔ایک ٹانگ تو صوفے کے ساتھ جا لگی۔۔۔مگر دوسری اس نے پوری کھولتے ہوئے ساتھ ٹیبل پر رکھ دی ۔چوت کچھ ٹائیٹ ہوئی ۔۔۔درد اور بڑھا ۔۔۔۔۔خان اور جھک کر اوپر آیا۔۔۔۔۔اور مموں کو پکڑتا ہوا اور تیزی سےجھٹکے مارنے لگا۔۔۔۔ندا یاسر کے اوپراٹھتا ہوا سر ۔۔۔۔سیاہ بال ہلتے ۔۔۔تو اسے بہت اچھا لگتا ۔۔۔۔ساتھ اس کے منہ سےنکلتی سریلی آوازیں۔۔۔آہ۔۔۔او ہ ہ۔۔۔۔اوئی۔۔۔۔۔آہ۔۔۔۔۔ خان کو اور گرمائے جا رہی تھی۔۔۔تبھی خان نے کے جھٹکے اور تیز ہوئے تھے ۔۔اسےسمجھ نہیں تھی کہ اس کا اینڈ کیسے ہو گا۔۔۔مگر ندا یاسر نے اب بھی پہل کی تھی۔۔۔مزا تو بہت تھا۔۔۔مگر خان کواس سے زیادہ جھیلنا مشکل تھا۔۔۔اس کے جسم نے تیز جھٹکے کھائے ۔۔۔۔اور پانی چھوڑنےلگی۔۔۔۔

اب کی بار خان نے جو دھکا مارا تو سیدھا پھسلتا ہواندا کے اوپر آیا۔۔۔۔سمجھ نہیں آئی کہ اتنی پھسلن کیسی ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ندا یاسر نے بھی اسے خود سے لپٹا لیا۔۔۔اور مزید پانی چھوڑنے لگی۔۔۔۔۔۔۔خان بھی ہونٹوں پر بوسے دیتا ہوا سوچ رہا تھا۔۔بس اتنا سا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔اسے ابھی تک تسکین نہیں ملی تھی۔۔۔۔۔۔۔اسے اپنے بچپن کا واقعہ یا د آ رہا تھا جب اس کا چاچا اس کے دوست کو اپنی گود میں بٹھا تا ۔۔اور و ہ اچھل پڑ تا کہ کوئی چیز چبھ رہی ہے ۔۔۔اور پھر اس کےدوست نے اسے بتا یا کہ اسکے چاچا نے پیچھےسے لن اس کےسوراخ میں ڈالا ہے ۔۔۔اس کا دوست صرف 8 سال کا تھا۔۔۔اور وہ رویا بھی خوب تھا۔۔۔خان کی زندگی میں بس یہی ایک واقعہ تھا۔جو اسے اس سے ملتا جلتا لگ رہا تھا۔۔۔
خان ندا یاسر سے چمٹا ہوا اٹھا تھا۔۔۔۔۔ندا کی آنکھوں میں اسے لطف اور مزے کی لہریں نظر آئیں۔۔۔۔۔مگر وہ خود اب تک بے چین تھا۔۔۔اس نے پیچھے کو ہٹتے ہوئے چوت کو دیکھا تھا۔۔اور ساتھ ہی نیچے کی طرف ایک اور گول سوراغ۔۔۔۔۔۔۔لن ابھی تک کھڑا ہوا تھا۔۔۔اور ندا یاسر کا پانی اس پر پھسل رہا تھا۔۔۔۔۔۔خان نے اب لن کو جڑ کے قریب سے پکڑ کر ٹوپے کو گانڈ کے سواخ پر رکھا۔۔۔۔ندا یاسر ایک دم سے اچھلی تھی۔۔۔۔خان یہ کیا۔۔۔یہاں نہیں کرتے ۔۔۔۔۔بہت درد ہوتا ہے ۔۔۔۔
نہیں میڈم ہمارے ہاں یہاں بھی کرتے ہیں ۔۔۔اور درد میں تو آپ کو مزا بھی آتا ہے ۔۔۔۔۔خان کے ذہن میں شاید پچھلا تجربہ تھا۔۔۔
ندا یاسر نے ٹانگیں سکیڑتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کی تھی۔۔۔مگر خان اس سے تیز تھا۔۔۔اور اس کا لن اس سے بھی تیز۔۔۔۔۔ٹوپا تیزی سے آکر گانڈ کے سوراخ پر لگا تھا۔۔۔ندا یاسر کچھ اچھلی ۔۔۔مگر ٹوپے نے دباؤ ڈآلتے ہوئے اندر گھسنا تھا۔۔۔اور گھس گیا تھا۔۔۔۔ٹوپے اندر جا کر پھنسا تھا۔۔۔بے حد ٹائٹ تھا یہ سوراخ ۔۔۔اور خان کو اس میں بھی مز ا آیا تھا۔۔۔۔۔ادھر ندا یاسر کے منہ سے پھر ایک درد بھری چیخ نکلی تھی۔۔۔۔۔اس نے اپنی باقی ماند ہ طاقت اکھٹا کرتے ہوئے اٹھنےکی کوشش کی ۔۔۔۔مگر خان نے اگلا جھٹکا مارا۔۔۔۔۔۔اورآدھا لن اندر گھسا دیا۔۔۔۔۔ساتھ ہی دھکے مارنے لگا۔۔۔۔ندا یاسر کا چلانا اور بڑھا تھا۔۔۔۔۔مگر خان کو لگا کہ یہ مزے سے چلاتی ہے ۔۔۔۔۔اس نے اور دھکے تیز کردئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگرندا کی تو جان پر بنی تھی ۔۔۔پہلی بار میں ہی خان نےدونوں سوراخوں کا افتتاح کیا تھا۔۔۔اور بڑے زور دار انداز تھے ۔۔۔۔۔
خان بس ۔۔۔خان بس۔۔۔آئی۔۔۔۔آ ہ ہ۔۔۔۔اؤی۔۔۔۔۔خان ۔۔۔۔۔ اور خان تھا کہ جھٹکے پر جھٹکا مارے گیا۔۔

اس نے اگلے پانچ منٹ تیز تریں جھٹکے مارے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر وہ ابھی بھی فارغ نہیں ہو ا ۔۔۔۔۔۔اور ندایاسر کی حالت مزید خراب ہوتی جارہی تھی ۔۔۔۔۔لن کی رگڑ سے گانڈ کے سوراخ سے جو ٹیسیں اٹھتی ۔۔۔وہ اسے کافی اوپر تک محسوس ہوتی ۔۔۔۔۔مگر خان کوسمجھانا مشکل کام تھا۔۔۔۔

ندا یاسر نے پھولی ہوئی سانس میں اسے رکنے کاکہا اور۔اوپر چوت کی طر ف آنے کا کہا ۔۔۔اس سمجھ آگئی تھی کہ ادھر تو خان شام تک لگا رہے گا تب بھی فارغ نہیں ہو گا۔۔۔۔
خان نے لن باہر نکالا اور کپڑے سے صاف کرتا ہوا اوپر آگیا۔۔۔۔ندا یاسر نے ایک مرتبہ پھر روکا اور الٹی ہونے لگی۔۔۔خان سمجھا شاید پھر پیچھے سے ڈالناہے ۔۔۔مگرندا یاسر نے دوبارہ سمجھایا ۔۔۔۔۔۔خان پیچھےسے اگلے سوراخ میں ڈآلنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور خان گھوڑی بنتی ہوئ ندا یاسرکے بڑے سے چوتڑ دیکھنے لگا۔۔۔اس کا دل پھر خراب ہوا تھا۔۔۔مگر میڈم کی بات ماننی ضروری تھی۔۔۔ندا یاسر گھوڑی بن گئی تھی۔۔۔۔ندا یاسر کا سر اور کہنی صوفے کی سیٹ پر تھے ۔۔۔جبکہ گھٹنے صوفے کے درمیانی گدے پر ۔۔۔۔۔اور خان پیچھے سے اس کی چوتڑ اور بھاری کمر کا معائنہ کر رہا تھا۔۔۔ندا یاسر نے پوزیشن بنا کر اشارہ کیا ۔۔۔۔۔خان نے چوتڑوں کے درمیان لن گھسایا ۔۔اور آگے دھکیلنے لگا۔۔۔۔لن ندا یاسر کی چوت کے اوپر سے پھسل رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔خان نے پھر کوشش کی مگر اب بھی چوت میں جانے کے بجائے پھسلا ۔۔۔۔۔۔
ندا یاسر ایک مرتبہ پھر جھنجھلائی تھی۔۔۔۔۔۔اور اب کی بار آتے ہوئے لن کو اپنے ہاتھ سے چوت پر رکھ ۔۔خان کا دھکا پھر آیا اور چوت کے اندرلن اتر گیا ۔۔۔

ندا یاسر کی آہ نکلی اور خان کو بھی پتا چلا کہ نشانہ لگ گیاہے ۔۔۔۔۔۔۔اب اس نے دھکے دینے شروع کیے ۔۔پہلےتو ویسے ہی دھکے دیتا رہا ۔۔۔مگر پھر لگا چوتڑ اور کمر سمبھالے بغیر یہ مشکل ہے ۔۔۔۔۔۔تو اس نے کمر کو تھام لیا۔۔۔۔اب کے دھکے زور دار تھے ۔۔۔۔۔۔۔تیز رفتار تھے ۔۔۔۔ندا یاسر خود کو سمبھالنے لگی ۔۔۔۔۔۔منہ سے گھٹی گھٹی کراہیں خود بخود نکلی تھی۔۔۔۔۔۔۔اور خان سمجھ گیا کہ مزا آر ہا ہے ۔۔وہ اور تیز ہونے لگا۔۔۔اس کی مشینی رفتار اور تیز ہوئی۔۔۔۔۔۔۔۔ندا یاسر کو لگا کہ وہ آگے جا گرے گی ۔۔۔۔۔مگر پھر دونوں ہاتھوں کو صوفے کی سائیڈ پر جما کر پیچھے زور دینے لگی۔۔۔۔۔بال جھٹکوں کے ساتھ ہوا میں اڑ رہے تھے ۔۔۔اور نیچے دو دھ کی تھیلیاں اچھلے جارہی تھی۔۔۔چائے والا پیچھے دھکے پر دھکے دئے جارہا تھا۔۔۔۔۔ندا یاسر بڑی مشکل سے خان کے دھکے سمبھال رہی تھی ۔۔۔مگر وہ تھا کہ اور تیز ہوتا جا رہا تھا۔۔۔

خان کا لمبا اور موٹا لن کافی آگے تک مار کرتا تھا۔۔۔۔ندا یاسر کی دبی دبی کراہیں کچھ کھلی تھیں ۔۔۔۔۔۔منہ کھلا تھا ۔۔اور اونچی آواز نکلی ۔۔۔۔۔اسے لگا جیسےوہ کسی گاڑی کو دھکا لگا رہی ہو ۔۔۔۔۔۔آگے صوفے کی سائیڈ پر ہاتھ جمائے ہوئے وہ پیچھے کو مستقل زور لگائے ہوئے تھی ۔۔۔۔۔مگر آگے گاڑی تو نہیں پیچھے خان ضرور تھا۔۔۔اور اس کے دھکے اسے پھر بھی آگے دھکیل رہے تھے ۔۔۔۔۔۔خان کے جھٹکوں نے طوفانی اسپیڈ پکڑ ی تھی۔۔۔۔۔۔۔ندا یاسر اونچی آواز میں چلائی تھی ۔۔۔۔وہ پھر سے چھوٹنے والی تھی ۔۔۔۔۔ادھر خان بھی چلایا۔۔۔۔میڈم ہمارا پیشاب آنے والا ہے ۔۔۔۔۔ندا یاسر سمجھ گئی ۔۔۔اگلے ہی منٹ میں وہ جھٹکوں کے ساتھ فارغ ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔پانی تیزی سے نکلا اور باہر کو بہا تھا۔خان ابھی بھی جما ہوا تھا۔۔۔۔وہ پھر سے بولا ۔۔۔میڈم میرا پیشاب نکلتا ہے۔۔۔ندا یاسر نے اسے روکا ۔۔اور پیچھے کو مڑ کر بیٹھتی ہوئی اس کے گرم گرم لن کو تھام کر منہ میں بھرنے لگی ۔۔۔۔منہ میں لینے کے بعد وہ تیزی سے چوسنے لگی۔۔۔۔اور منہ کے اندر لن کو آگے پیچھے کرنے لگی۔۔۔۔خان کے لئے یہ مزہ بھی نیا تھا۔۔گرم گرم تھوک اس کے لن کو نہلا رہا تھا۔۔۔۔۔۔وہ پھر حیرت میں پڑ گیاتھا۔ ندا یاسر نے زیادہ ٹائم نہیں لگایا ۔اور خان کو چھوٹنے پر مجبور کر دیا۔۔۔۔۔خان کا جسم اکڑنے لگا تھا۔۔۔۔مزے کا ایک طوفان جسم میں اکھٹا ہو کر لن کی طرف جا رہا تھا۔۔۔وہ چلایا تھا ۔۔۔۔ندا یاسر نے لن باہر نکال کر ہلانے لگی ۔۔۔۔۔۔۔چائے والے کے لن سے سفید دودھ کا فوارا چھوٹا اور اس کے منہ پر گرا۔۔۔۔۔۔۔خان بھی حیران یہ کیا ماجرہ ہے ۔۔۔۔۔۔اور پھر کافی دیر وہ بھی جھٹکا کھا تا رہا ۔۔۔۔۔۔سارا دودھ ندا یاسر کے چہرے پر اکھٹا تھا۔۔۔خان اب ٹھنڈا ہو چکا تھا۔۔صوفے پر بیٹھ ہانپنے لگا۔۔۔۔۔ندا یاسر بھی اسے حیران ہوئے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔خان نے جب پہلی بار میں اتنی دیر لگائی تھی ۔۔۔تو اگلی بار کیا کرتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شوبز کی بڑی بڑی خواتین اس کی فین ہوتی ہوئی صاف دکھ رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فون پر میسج کی ٹون بجی ۔۔۔۔۔۔۔۔جیا کا میسج تھا وہ آدھے گھنٹے تک پہنچ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ندا یاسر جلدی سے اٹھی اور خان کو اٹیچ باتھ میں بھیج کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔اس کے چلنے میں ڈگمگاہٹ تھی ۔۔۔۔۔مگر چال میں اک سرور تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ختم شد

ایک تبصرہ شائع کریں for "چائے والا"