رات بارہ بجے موبائل کی بیل سے نواز کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ اس کے آفس کولیگ چیمہ صاحب کی کال تھی ، نواز نے کال اٹینڈ کی تو چیمہ نے اس سے کہا کہ یار دن میں مجھے باس نے آفس کے کام کے سلسلہ میں ملتان جانے کا کہا تھا - میں نے صبح ملتان جانا تھا لیکن تمہاری بھابھی کی ڈلیوری ھے صبح ، اسلئے میں نہیں جا سکوں گا - میری جگہ تم چلے جاؤ - نواز کو پتا تھا کہ چیمہ صاحب کی بیوی کی ڈلیوری ھے لیکن وہ تو تین دن بعد کی ڈیٹ تھی - چیمہ صاحب ڈلیوری تین دن بعد نہیں ہونا تھی ؟ نواز نے چیمہ سے پوچھا تو اس نے کہا ڈاکٹر نے ڈیٹ تو تین دن بعد کی ہی بتائی تھی لیکن آج شام سے بیگم کی طبیعت خراب تھی ، ہسپتال لائے ہیں تو انھوں نے صبح ہی آپریٹ کرنا کا کہا ھے ایک دو دن کی دیر سویر سے کوئی فرق نہیں پڑتا چیمہ صاحب نے تفصیل سے بتایا تو نواز نے ملتان جانے کی حامی بھر لی -
نواز ایک پینتیس سال کا وجیہہ مرد تھا رنگ اس کا گندمی سے تھوڑا صاف تھا ، قد کاٹھ بھی اچھا تھا اور ایک صحت مند جسم کا مالک تھا ، اس نے خود کو فٹ رکھا ہوا تھا باقاعدگی سے ورزش کا عادی تھا اسلئے دیکھنے میں چھبیس ستائیس سال سے زیادہ کا نہیں لگتا تھا - ملتان جاتے ہوئے نواز نے چیمہ صاحب کو کال کی اور کام کی نوعیت کے بارے میں تھوڑی بہت گفت و شنید کی اور اچھی طرح سمجھنے کے بعد کال کٹ کر دی ، نواز کی بس ایک ہی ہابی(مشغلہ) تھی ، سیکس فورم سرچ کرنا اور اس پر شیئرنگ کرنا ، اردو فنڈا اس کا پسندیدہ فورم تھا ، وہ سارا سارا دن اس پر گزار دیتا تھا ، بس میں وہ سارے راستے اردو فنڈا فورم استمال کرتا رہا اسطرح اسے سفر گزرنے کا احساس تک نہ ہوا اور وہ ملتان پہنچ گیا -
آفس کا کام نپٹانے میں اسے چار بج گئے جیسے ہی وہ فارغ ہوا سیدھا ملتان لاری اڈہ پہنچ گیا ، وہاں اس نے پتا کیا تو اسے کسی اچھی بس میں سیٹ نہ ملی اسلئے وہ وہاں ایک نارمل سی بس میں بیٹھ گیا اسے سب سے آخر میں سیٹ ملی یہ چار والی سیٹ تھی اس کے ساتھ ایک اور لڑکا بیٹھا ہوا تھا ، بس ابھی سٹینڈ پر ہی کھڑی تھی کہ اس میں چار کالج گرلز سوار ہوئیں ، دو کی سیٹیں نواز اور لڑکے کے ساتھ تھیں جبکہ دو کی ان سے آگے والی ، ایک لڑکی نے نواز اور دوسرے لڑکے سے کہا بھائی آپ آگے دو والی سیٹ پر بیٹھ جاؤ ہم اکٹھی ادھر بیٹھ جاتی ہیں - دونوں خاموشی سے اٹھ کر آگے دو والی سیٹ پر بیٹھ گئے اور وہ چاروں اکٹھیں پیچھے چار والی سیٹ پر بیٹھ گئیں - دوسرا لڑکا کھڑکی والی سائڈ پر بیٹھ گیا اور نواز ساتھ میں -
لڑکیاں کالج کی تھیں اور وہ ایکدوسرے سے ہنسی مذاق کرنے لگیں وہ عام لڑکیوں کی طرح شرما نہیں رہی تھیں ، شاید وہ ہاسٹل گرلز تھیں اور کافی دنوں بعد گھر جا رہی تھیں اور جانے سے پہلے ایکدوسرے پر پھبتیاں کس رہی تھیں ہلے گلے والے ماحول کی دلدادہ لگ رہیں تھیں -
نواز کی ڈھڑکنوں میں ان کی میٹھی اور سریلی آوازیں تیزی کا سبب بن رہی تھیں لیکن وہ پیچھے مڑ کر دیکھنے سے گریزاں تھا مبادا وہ اسے ہی پھبتیوں کا نشانہ نہ بنا لیں - اس کا دل کر رہا تھا کہ ان سے کوئی راہ رسم بڑھائے لیکن پھر لوگوں کا سوچ کر چپ بیٹھا رہا کہیں بھری بس میں انسلٹ ہی نہ ہو جائے - نواز نے اپنا دھیان ان سے ہٹانے کے لئے جیب سے موبائل نکالا اور اردو فنڈا اوپن کر لیا - اس نے اردو فنڈا کا یوزر سیکشن اوپن کیا اور نئی تھریڈ اور نیو رپلائی چیک کرنے لگا - اس دوران اسے محسوس ہوا کہ اس کے پیچھے جو لیفٹ سائڈ پر لڑکی بیٹھی ہوئی ھے اس کا دھیان موبائل کی طرف ھے - نواز کو جیسے ہی احساس ہوا کہ اس کے پیچھے لیفٹ سائڈ پر جو لڑکی بیٹھی ہے اس کا دھیان اس کی موبائل سکرین کی طرف ھے تو اس نے کن آنکھیوں سے اس کی طرف دیکھا ، وہ ایک سمارٹ اور دلکش لڑکی تھی نظر کا چشمہ لگا ہوا تھا جو اس پر بہت جچ رہا تھا ، نواز نے سرسری طور پر پیچھے مڑ کر دیکھا اور سپیشلی اس لڑکی پر بغور نظر ماری ، اس کے اوپر والے دانت تھوڑا سا اوپر کو اٹھے ہوئے تھے جیسے کسی انگوٹھا چوسنے والے بچے کے ہوتے ہیں اور جوان لڑکی کے ایسے اوپر اٹھے ہوئے دانت ھوں تو ذہن میں اس کے چوپا سپیشلسٹ ہونے کا خیال آتا ھے ، وہ اٹھارہ انیس سال کی ایک خوبصورت سمارٹ لڑکی تھی - جب نواز اور اس لڑکی کی نظریں آپس میں ملیں تو نواز نے اسے ھلکی سی سمائل دی اور سامنے دیکھنے لگا ، اسے اتنا اندازہ ہو گیا تھا کہ لڑکی اس کی طرف متوجہ ھے اب نواز سوچنے لگا کہ اس سے کیسے نمبر لے اسے کوئی آئیڈیا نہیں سوجھ رہا تھا ، بس میں سوار ہونے کی وجہ سے اس نے اردو فنڈا کے سیکس سیکشن اوپن نہیں کئے تھے وہ صرف خوبصورت دل کی مزاحیہ پوسٹنگ ، ڈاکٹر فیصل کے سیکسی مشورے اور آوٹ پٹانگ سی پوسٹنگ ہی دیکھ رہا تھا-لیکن لڑکی کی دلچسپی دیکھتے ہوئے اس نے کی سیکس سے بھرپور پکچر پوسٹنگ اوپن کرنے کا فیصلہ کیا اور دیسی پکچر سیکشن اوپن کر لیا ، نواز نے وہاں عامی کی تھریڈ سیکسی نائٹی گرل اوپن کر لی ، وہاں لڑکیاں مکمل ننگی تو نہیں تھیں لیکن ان کا سیکسی جسم صاف نظر آ رہا تھا ، نواز نے کن آنکھیوں سے پیچھے سائڈ میں دیکھا تو لڑکی کی نگاہیں اس کی موبائل سکرین پر تھیں ، نواز نے اس بار مکمل ننگی سیکس سے بھرپور تھریڈ کھولنے کا فیصلہ کیا جس میں مرد و زن کے درمیان جنسی کھیل کھیلا جا رہا ہو ، اس مقصد کے لئے اس نے انگلش سیکس پکچر سیکشن اوپن کیا اور ایک ایسی تھریڈ کھول لی جس میں جنسی کھیل بہت سٹائلش طریقے سے دیکھایا گیا تھا اور پکچر کوالٹی بھی بہت کلاس کی تھی - نواز کے ساتھ جو لڑکا بیٹھا ہوا تھا اس کی نگاہ سے سیکس سین بچانے کے لئے اپنا دایاں ہاتھ موبائل کے ساتھ کھڑی حالت میں اٹیچ کیا ہوا تھا اور موبائل اس زاویے سے پکڑ رکھا تھا کہ پیچھے سائڈ پر بیٹھی لڑکی کے سوا کسی کو بھی کچھ نظر نہ آئے - نواز کے کان پیچھے لڑکیوں کی باتوں پر تھے وہ لڑکی بھی ہلے گلے میں باقی لڑکیوں کا ساتھ دی رہی تھی لیکن اس کا دھیان نواز کی موبائل سکرین پر بھی تھا
سیکس پکچرز دیکھنے سے نواز کا لن کھڑا ہو چکا تھا اور کھڑے لن کے ساتھ پیچھے بیٹھی ہوئی لڑکی کے ساتھ سیکس کرنے کے سپنے دیکھ رہا تھا لیکن اس لڑکی سے بات کرنے کی ہمت بالکل بھی نہیں کر پا رہا تھا کیونکہ اسے اس لڑکی کے بارے میں کچھ بھی پتا نہیں تھا سوائے اس بات کے کہ چاروں لڑکیاں کافی بولڈ ہیں وہ بھی ان کی باتوں سے اندازہ ہو رہا تھا - بہت سوچنے کے بعد نواز کے ذہن میں ایک تدبیر سوجھی ، لڑکی کی نظریں اس کی موبائل سکرین پر ہیں تو کیوں نہ اپنا نمبر موبائل پر لڑکی کو شو کروائے کیا پتا بات بن ہی جائے اس کے علاوہ اور کوئی حل نہیں ہے ، ویسے بھی نواز نے سیکسی پوسٹنگ اوپن اس لئے کی تھی کہ لڑکی کا رویہ چیک کر سکے ، لڑکی خاموشی سے اس کے موبائل کی طرف نظر مار رہی تھی اور اپنی کسی سہیلی سے اس کا ذکر تک نہیں کیا تھا - نواز نے ایک دفعہ پیچھے اس لڑکی کی طرف دیکھا اور اپنا نمبر ایک ایک کر کے موبائل سکرین پر ٹائپ کرنے لگا ، اس نے سکرین پر زیرو تین سو ڈائل کیا اور پھر لڑکی کی طرف دیکھا اور اپنے موبائل کی سکرین لڑکی کی طرف مزید واضح کر دی ، زیرو تین سو کے بعد اگلے تین ہندسے مزید ڈائل کیے اور پھر مڑ کر لڑکی کی طرف دیکھا اس بار لڑکی کی نظریں نواز سے ملیں اور اس نے نواز کو آنکھیں جھپک کر اشارہ کیا تو نواز کے دل کی دھڑکنیں یک دم تیز ہو گئیں اور اس کے ہاتھ اور جسم جوش سے ہلکے ہلکے کانپنے لگے ، ان کانپتے ہاتھوں سے نواز نے اگلے چار ہندسے بھی ایک ایک کر کے ڈائل کئے ، مکمل موبائل نمبر ڈائل کرنے کے بعد نواز نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو لڑکی نے سر سے " او -کے " کا اشارہ دیا - نوید دل ہی دل میں بہت خوش تھا کہ وہ لڑکی کو اپنا نمبر دینے میں کامیاب ہو گیا ھے اور اب اسے لڑکی کی طرف سے رسپانس کا انتظار تھا - ایک منٹ بھی نہیں گزرا تھا کہ ایک انجان نمبر سے میسج آیا ، جس میں لکھا تھا کہ بار بار مڑ کر نہ دیکھو کہیں میری فرینڈز تمہاری کلاس لینا ہی شروع نہ کر دیں ،
اب اس بات میں شک کی کوئی گنجائش باقی نہ تھی یہ میسج پیچھے والی لڑکی نے ہی بھیجا ھے ، نواز لڑکی کا نمبر حاصل کر لینے سے خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا اس کی خوشی دیدنی تھی ، اس نے خوشی خوشی رپلائی کیا "او -کے"
لڑکی نے رپلائی کیا بہت خوش دیکھائی دے رہے ہو ؟
آپ جیسی حسین لڑکی نے شرف دوستی عنایت کیا ھے تو خوشی تو چہرے پر آئے گی ہی - آپ کا نام ؟ نواز نے رپلائی کیا -
میرا نام سعدیہ ہے اور میں ملتان میں رہتی ھوں ، آپ کا نام اور آپ کہاں رہتے ہیں ؟ سعدیہ نے پوچھا تو نواز نے اپنا نام اور اپنے شہر کا نام رپلائی کیا کہ میرا نام نواز ہے اور میں ساہیوال سٹی رہتا ھوں-
آپ نے اردو فنڈا اوپن کی ہوئی تھی نہ ؟ میں بھی اردو فنڈا وزٹ کرتی ھوں بہت اچھی ویب سائٹ ھے خاص طور پر اس کی اردو فونٹ کہانیاں بہت پسند ہیں مجھے اور ساتھ میں دیسی پکچرز اور سیکس ایڈوائس کا تو مقابلہ ہی نہیں ھے - سعدیہ نے رپلائی کیا -جی میں نے اردو فنڈا ہی اوپن کیا ہوا تھا بہت اچھی سائٹ ھے، یہ میری فیورٹ سائٹ ھے ، آپ کا اردو فنڈا آئی ڈی کیا ھے ؟ نواز نے سعدیہ سے پوچھا تو اس نے رپلائی کیا کہ میں نے ادھر آئی ڈی نہیں بنائی بس بطور گیسٹ وزٹ کرتی ھوں کہانیاں پڑھیں تصویریں دیکھیں اور بس -
نواز کو سعدیہ کی باتوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ سعدیہ کوئی سادہ اور عام لڑکی نہیں ہے بلکہ سیکس دیکھنے اور اس پر بات کرنے والی ایک سیکسی بولڈ لڑکی ھے جس کے ساتھ سیکس ریلیشن بنانا زیادہ مشکل نہیں ہو گا -
آپ ملتان رہتی ہیں اب کہاں جا رہی ہیں ؟ نواز نے سعدیہ سے پوچھا تو اس نے رپلائی کیا ہم میانچنوں جا رہی ہیں ، ہماری ایک کلاس فیلو کی سالگرہ ھے اس میں شرکت کے لئے جا رہی ہیں -
کیا آپ کے گھر والوں نے آپ کو اجازت دے دی تھی رات کے وقت دوسرے شہر جانے کی ؟ نواز نے سعدیہ سے پوچھا تو اس نے رپلائی کیا ،
اجازت ملی ہے تو جا رہی ھوں میرے گھر والے تھوڑا آزاد خیال ہیں اسلئے انھوں نے زیادہ اعتراض نہیں کیا ویسے بھی ہم نے رات کو ہی واپس چلے جانا ھے - اس طرح سعدیہ اور نواز کی آپس میں واقفیت اور بات چیت سٹارٹ ہو گئی -
جلد ہی وہ ایک دوسرے کے دوست بن گئے اور آپس میں سیکس پر بات شروع ہو گئی ، نواز کو بات سیکس کی طرف لے جانے کا کوئی مسئلہ نہیں بنا کیونکہ اردو فنڈا کی سیکس سٹوریز پر بات چیت کرتے کرتے وہ بات خود دونوں پر لے آتا اور پھر بات ذومعنی رخ اختیار کرتے ہوئے وہ ایکدوسرے کو بہت کچھ کہہ جاتے-
سعدیہ تمہارا کوئی بوائے فرینڈ ھے؟ ایک دن نواز نے سعدیہ سے فون پر پوچھا تو اس نے کہا تم لڑکی ہو ؟
نواز : میں سمجھا نہیں ؟
سعدیہ : پاگل ! تم لڑکے اور میں لڑکی - میں تمہاری گرل فرینڈ اور تم میرے بوائے فرینڈ -
نواز : میرا مطلب ھے جس سے تم نے پیار کیا ہو ، ہم تو دوست ہیں -
سعدیہ : سچ بتاؤں تو تمہیں برا تو نہیں لگے گا ؟
نواز : بتاؤ
سعدیہ : میں بہت آزاد خیال لڑکی ھوں ، میں پیار ویار کے چکروں میں پڑنے والی نہیں ، تم سے پہلے میرا ایک بوائے فرینڈ تھا وہ پچھلے ایک ماہ سے مسقط گیا ہوا ھے اور اس نے وہاں جا کر کوئی رابطہ نہیں کیا - میں نے تم سے دوستی کر لی اب وہ میری زندگی سے آؤٹ ھے -
نواز : اچھا . . . . اور بات کا رخ چینج کرتے ہوئے " سعدیہ مجھ سے کب مل رہی ہو ؟
سعدیہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا " اچھا ! کیا بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ ملتے بھی ہیں ؟"
نہیں یار میں مذاق نہیں کر رہا ، بتاؤ نہ کب مل رہی ہو ؟ نواز نے سعدیہ سے پوچھا تو اس نے اٹھلاتے ہوئے کہا ،
"جب آپ کہو ، بس چھٹی والے دن نہیں "
نواز نے خوش ہوتے ہوئے کہا سچ !
سعدیہ : مچ
منگل کو ملتے ہیں ، کیا خیال ھے ؟ نواز نے بڑے اشتیاق سے خوشی کے ملے جلے جذبات سے پوچھا تو سعدیہ نے شوخ ہوتے ہوئے کہا " جناب کو بہت جلدی ھے مجھ سے ملنے کی " ؟
تم ہو ہی اتنی حسین کہ صبر نہیں ہو پا رہا ، دل کر رہا ھے اڑ کر آپ کے پاس پہنچ جاؤں ، بتاؤ نہ منگل کا کیا ارادہ ھے ؟ نواز نے سعدیہ سے پوچھا - تو اس نے استفسار کیا، کہاں ملو گے ، نواز نے کہا میں ملتان آؤں گا ، آگے تم جہاں کہو گی آ جاؤں گا -
سعدیہ سوچ میں پڑ گئی تو نواز نے اس سے پوچھا کہ لاری اڈہ کے نزدیک کوئی پارک نہیں ھے ؟ سعدیہ نے کہا لاری اڈے کے نزدیک جناح پارک ھے ، تو نواز نے کہا
ڈن done
وہیں ملتے ہیں ، سعدیہ نے کہا
"ٹھیک ھے"
تو پھر بروز منگل نو بجے صبح جناح پارک میں ملاقات ہو گئی نواز نے خوشی سے سرشار لہجے میں کہا تو سعدیہ نے بھی کہا " ڈن" - سعدیہ سے ملاقات کا ٹائم سیٹ ہونے پر نواز بہت ہی خوش تھا ، آج ہفتہ تھا اور ابھی ملاقات میں تین دن باقی تھے - نواز نے سوموار کا دن اسلئے منتخب نہیں کیا تھا کہ اس نے آفس سے چھٹی بھی لینا تھی ، اسکے علاوہ ملتان کے ہوٹلوں سے متعلق بھی اسے کوئی انفارمیشن نہیں تھی ، اس دوران وہ اپنے دوستوں سے رابطہ کرنا چاہتا تھا اور جناح پارک کے اردگرد اس نے کسی اچھے محفوظ ہوٹل کے بارے میں معلومات لینا چاہتا تھا - سوموار والے دن اس نے آفس چھٹی کی درخواست دی اور اس کی چھٹی منظور ہو گئی ، اس دوران اس نے پارک سے نزدیکی جگہ ایک اچھے اور محفوظ ہوٹل کے بارے میں معلومات بھی حاصل کر لی تھی اور اگر سعدیہ سے سیکس کا موقع لگتا تو وہاں ہوٹل جانے کا بھی پروگرام بنا لیا تھا - سوموار رات سعدیہ سے بات ہوئی تو نواز نے سعدیہ سے پوچھا تمہارے پاس منگل کی ڈیٹ کے لئے کتنا وقت ہو گا ؟
آٹھ سے دو بجے تک کالج ٹائم ھے ، نو سے ایک بجے تک میں آپ کے ساتھ ھوں گی سعدیہ نے کہا - مطلب چار گھنٹے کی ملاقات ہو گئی نواز نے کہا تو سعدیہ نے اس سے پوچھا کہ کیا چار گھنٹے کم ہیں ؟
نواز نے کہا نہیں جی چار گھنٹے تو بہت ہوتے ہیں -
اس ذومعنی بات پر سعدیہ کھلکھلا کر ہنسی اور اگلے دن کی ملاقات کے وعدہ پر دونوں نے ایکدوسرے کو گڈنائٹ کہا -
صبح سعدیہ سے ملنے جانا تھا یہ سوچ سوچ کر ہی نواز کا لن بار بار انگڑائیاں لے رہا تھا ، نواز نے صبح پانچ بجے کا الارم لگایا اور لن کو رانوں میں دبا کر سو گیا -
نواز اور سعدیہ کی پارک میں ملاقات بہت ہی خوشگوار رہی تھی ، سعدیہ بہت ہی پیاری لگ رہی تھی ، پارک میں وہ ایک سنسان گوشے میں بیٹھے تھے وہاں نواز نے سعدیہ کے نازک ہاتھوں میں اپنا چھ انچ لمبا ہتھیار بھی دیا تھا جو سعدیہ کے ہاتھوں کی گرمی برداشت نہیں کر پایا تھا اور وہیں چل گیا تھا جس پر نواز نے سعدیہ کو ہوٹل چلنے کا کہا لیکن سعدیہ نے ہوٹل جانے سے معذرت کر لی تھی تھوڑی دیر کی منت سماجت اور بحث مباحثے کے بعد نواز نے سعدیہ کو ہوٹل چلنے پر مائل کر لیا تھا اور وہ ہوٹل میں چلے گئے ، نواز سعدیہ کو لے کر کمرے داخل ہوا اور اس کو اندر سے کنڈی لگائے ابھی ایک منٹ ہی گزرا تھا کہ دروازے پر زور زور سے دستک ہونے لگی
دروازے پر دستک کی آواز سن کر سعدیہ سہم گئی اور نواز کے چہرے پر بھی خوف کی پرچھائیاں تیرنے لگیں - دونوں بہت زیادہ ڈر گئے اور ڈرتے ڈرتے نواز نے پوچھا ،
"کون " تو باہر سے آواز آئی "پولیس" -
پولیس کا سن کر تو دونوں کے ہوش ہی اڑ گئے ، پولیس کے خوف سے سعدیہ کی تو گھگھی ہی بند ہو گئی اور نواز بھی پریشان ہو گیا ، ایک انجانا شہر، اوپر سے ایک لڑکی کے ساتھ ہوٹل روم میں ، پولیس دروازہ کھٹکھٹا رہی ہو تو ایسے میں بندے کی کیا حالت ہوتی ھے آپ خود اندازہ لگا لیں ، یہی حالت نواز کی تھی اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے ، وہ بھاگ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ کمرے سے نکلنے کا واحد راستہ دروازے سے جاتا تھا اور دروازے پر پولیس کھڑی تھی - ادھر نواز سوچ رہا تھا کہ کیا کرے ادھر دروازے پر مسلسل دستک ہو رہی تھی اور یہ دستک نواز کے دماغ پر ہتھوڑے کی طرح لگ رہی تھی -
اچانک نواز کی آنکھ کھل گئی اور الارم مسلسل بج رہا تھا ، نواز اپنے بستر پر تھا اور دستک کی بجائے الارم کی آواز مسلسل آ رہی تھی جس سے نواز کی آنکھ کھلی تھی - تو یہ خواب تھا نواز نے خود کو بستر پر دیکھتے ہوئے دل ہی دل میں اوپر والے کا شکر ادا کرتے ہوئے کہا ، رات سعدیہ سے اس کی بات ہوئی تھی آج نو بجے صبح سعدیہ سے ملنے جانا تھا اسلئے نواز نے سوتے وقت صبح پانچ بجے کا الارم لگا دیا تھا اور الارم ہی اسے ایک رنگین اور سنگین خواب سے بیدار کرنے کا سبب بنا تھا -اتنا بھیانک خواب دیکھنے کے بعد نواز سوچ میں پڑ گیا کہ کہیں اس خواب کی تعبیر سچ ہی نہ نکل آئے ، اگر ایسا ہو گیا تو معاشرے اور خاندان میں بہت رسوائی ہو گئی دوست احباب کے سامنے مذاق بن کر رہ جائے گا ، دوسری طرف سعدیہ کا جوان جسم تھا جو اس کی بانہوں میں آنے کے تیار تھا ، ایک طرف عقل تھی تو دوسری طرف ہوس ، عقل سمجھا رہی تھی کہ یہ قدرت کا غیبی اشارہ ھے اسلئے اس ذلت و رسوائی سے بچ جاؤ - جبکہ ہوس کہہ رہی تھی اتنی حسین لڑکی کے ہونٹوں کا رس نہ چکھا تو کیا بے مزا زندگی جینے کا فائدہ ؟ جاؤ اس کی بھرپور چھاتیوں کے لمس سے اپنے ان ہاتھوں کو آشنا کرو اور زندگی کا اصل مزا سعدیہ کے جسم سے کشید کرو -
عقل اور ہوس کے درمیان جنگ جاری تھی
لڑکی جب پھدی ہاتھ پہ دھرے آپ کا انتظار کر رہی ہو تو ایسے میں عقل گھاس چرنے چلی جاتی ھے - ایسا ہی نواز کے ساتھ ہوا عقل پر ہوس غالب آ گئی اور نواز نے سعدیہ سے ہر قیمت پر ملنے کا فیصلہ کر لیا - نواز نے تازہ شیو بنائی ، نہا رھو کر اپنا سب سے اچھا سوٹ پہنا جو بوسکی کی شلوار قمیض پر مشتمل تھا - صبح چھ بجے نواز گھر سے ملتان کے لئے نکلا اور آٹھ بجے خانیوال پہنچ گیا ، خانیوال سے ملتان پچاس منٹ کا سفر تھا نواز نے سعدیہ کو میسج کیا میں خانیوال سے آگے آ چکا ھوں ، آپ بھی گھر سے نکل پڑو ، سعدیہ کا رپلائی آیا میں بھی گھر سے کالج کے لئیے نکل آئی ھوں اور وقت مقررہ پر جناح پارک کے گیٹ پر ھوں گی - نواز بہت خوش ہوا کہ چلو وہاں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا - آٹھ باون پر نواز لاری اڈے ملتان اترا اور رکشہ پر جناح پارک کے لئے روانہ ہو گیا - ٹھیک نو بج کر ایک منٹ پر نواز جناح پارک کے گیٹ پر پہنچ گیا - نواز اور سعدیہ نے ایکدوسرے کو پہلے سے ہی دیکھا ہوا تھا اسلئے پہچاننے کا کوئی مسلئہ نہیں تھا ، نواز نے اردگرد سعدیہ کو ڈھونڈنے کی کوشش کی تو ایک طرف سے ایک نقاب پوش لڑکی اپنی طرف آتے دیکھی -اس نے نواز کی طرف سلام کے لئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا " نواز کیسے ہو "؟
نواز نے اس کے حسین نرم و نازک ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا " آئی ایم فائن " - آپ سناؤ کیسی ہیں ؟
سعدیہ نے کہا میں بھی ٹھیک ھوں اور یہ کہتے ہوئے پارک کے اندر کی طرف چل پڑی نواز بھی ساتھ ہو لیا - گیٹ پر پارک میں داخلے کے ٹکٹ لئے اور پارک کی ایک سنسان جگہ منتخب کر کے وہاں بیٹھ گئے - بیٹھنے سے پہلے انھوں نے کنٹین سے کھانے پینے کی چیزیں لے لیں تھیں - ویسے بھی صبح صبح کا ٹائم تھا اسلئے پارک میں لوگ نہ ہونے کے برابر تھے - سعدیہ نے بیٹھتے ہی چہرے سے نقاب اتار دیا - سعدیہ بہت ترو و تازہ اور خوبصورت لگ رہی تھی اس کی فریشنس دیکھ کر نواز کے منہ سے بے ساختہ ماشااللہ نکلا تو سعدیہ شرما گئی اور اس کا چہرہ شرمانے سے ایک دم سرخ ہو گیا اور نواز نے اپنے ترکش سے پہلا تیر تعریف کا نکالا اور اسے پہلے ہی تیر سے گھائل کر دیا - بہت پیاری لگ رہی ہو نواز نے سعدیہ سے کہا تو سعدیہ مسکرا دی اور تعریف کے لئے تھینکس کہا -
آپ بھی کچھ کم نہیں ہیں سعدیہ نے کہا تو نواز نے جواب دیا جو حسن لڑکیوں میں ہوتا ھے وہ لڑکوں میں کہاں -یہ کہتے ہوئے نواز نے اپنا ہاتھ اس کی ران پر رکھ لیا ، سعدیہ اور نواز آمنے سامنے بیٹھنے کی بجائے سائڈ بائی سائڈ مطلب اکھٹے ایک ہی لائن میں بیٹھے ہوئے تھے ، نواز نے جب سعدیہ کی ران پر اپنا ہاتھ رکھا تو سعدیہ نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ دیا اور اپنی نازک سی انگلیوں سے ہولے سے دبایا جو نواز کے لئے اس بات کا اشارہ تھا کہ اسے ہر طرح کی اجازت ھے ، نواز نے اپنا ہاتھ اس کی رانوں پر پھیرنا شروع کر رہا اور ساتھ ساتھ اردگرد کا بھی جائزہ لے رہا تھا ، سعدیہ خاموش بیٹھی اس کے ہاتھ کی گستاخیاں انجوائے کر رہی تھی اور اس کے چہرے پر پراسرار مسکراہٹ چھائی ہوئی تھی اور کسی طرح کی روک ٹوک نہ دیکھتے ہوئے نواز نے اپنا ایک ہاتھ اس کی کمر کے گرد لپیٹا اور اسے خود سے مزید قریب کر لیا اب نواز اور سعدیہ آپس میں جڑے ہوئے تھے ، سعدیہ کا حسین اور گداذ جسم نواز کی ساتھ جڑنے سے نواز کے جسم میں ایک سرور کی لہر اٹھی جو اس کے لن تک گئی اور اس کا لن ایک جھٹکے سے تناؤ میں آ گیا - نواز سعدیہ کی خاموشی کو رضامندی جانتے ہوئے مزید حدیں پھلانگنے لگا ، اس کا ہاتھ سعدیہ کی رانوں سے ہوتا ہوا اس کی گہرائیوں کی طرف سفر کرنے لگااس سارے عمل کے دوران سعدیہ کے چہرے پر صرف اور صرف مسکراہٹ تھی جس سے نواز کا حوصلہ بڑھ رہا تھا ، اس نے جب اپنا ہاتھ سعدیہ کی چوت کی دیواروں کی طرف بڑھایا ، ابھی نواز کا ہاتھ اس کی چوت کی دیوار تک نہیں پہنچا تھا کہ سعدیہ نے نواز کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہنے لگی ، ادھر نہیں ، آگ بھڑکا کر اسے ادھورا نہیں چھوڑنا چاہئیے ، جب آگ بھڑکے تو اس پر پانی ڈالنے کا بھی بندوبست ہونا چاہئیے ، نواز سعدیہ کی اس کھلی آفر سے جھوم اٹھا اور اسے فورا ہوٹل میں جانے کا کہا تو سعدیہ نے سر ہلا کر اپنی رضامندی کا اظہار کیا-
نواز جانتا تھا جو لڑکی کسی انجان شخص پر اعتبار کر کے اس سے ملنے جاتی ہے وہ جب چدنے پر آمادہ ہو جائے تو ہی اس سے ملنے کی ہامی بھرتی ہے ،اسلئے سعدیہ کے اتنی جلدی سیکس پر آمادہ ہو جانے پر وہ زیادہ حیران نہیں ہوا اور اسے خوشی خوشی لئے ہوٹل کی طرف چل پڑا ، پارک سے نکلتے ہوئے سعدیہ نے اس سے پوچھا کہاں چلنے کا ارادہ ھے تو نواز نے اسے ہوٹل کا نام بتایا تو سعدیہ نے ایک اور ہوٹل کا نام بتایا کہ وہ زیادہ محفوظ ھے ،میں اپنے پہلے بوائے فرینڈ کے ساتھ کافی دفعہ وہاں جا چکی ھوں - نواز نے رکشہ والے کو سعدیہ کے بتائے ہوئے ہوٹل کا ایڈریس بتایا اور رکشہ والے نے اسے پانچ منٹ میں ہی وہاں ہوٹل کے سامنے اتار دیا - ہوٹل جناح پارک کے قریب ہی تھا جناح پارک سے چوک کمہاراں کی طرف آتے ہوئے راستے میں ہی پڑتا تھا اور یہ درمیانے درجے کا ایک اچھا صاف ستھرا ہوٹل تھا، نواز نے ہوٹل میں کمرا لیا اور سعدیہ کے ساتھ ہوٹل روم میں داخل ہو گیا - ہوٹل روم میں داخل ہوتے وقت رات والا خواب نواز کے ذہن میں چل رہا تھا جس میں پولیس نے چھاپہ مارا تھا ، سعدیہ بیڈ پر بیٹھ گئی اور نواز اندر سے دروازے کی کنڈی لگانے لگا ، کنڈی لگاتے وقت نواز کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا جس کی دو وجوہات تھیں پہلی وجہ تو آنے والے حسین لمحات کا سوچ سوچ کر دل کی ڈھڑکنوں کا بے ترتیب ہونا تھا اور دوسری وجہ ایک انجانا خوف تھا ایک انجان لڑکی جس سے صرف فون پر دوستی تھی جس کے بارے کچھ پتا نہیں تھا ماسوائے ان باتوں کے جو اس نے خود بتائیں تھیں جو جھوٹ بھی ہو سکتی تھیں ، کے ساتھ ہوٹل روم میں پکڑے جانے کا ڈر تھا جس سے اس کی بدنامی بھی ہو سکتی تھی
نواز کے ذہن میں خواب والی بات تھی کہ کنڈی بند کرنے کے فوری بعد پولیس آ گئی تھی اسلئے کنڈی بند کرنے کے بعد بھی وہ خوف اب بھی اس پر طاری تھا ، لاشعوری طور پر وہ دروازہ پر پولیس کے خوف سے کھڑا رہا تو سعدیہ نے نواز کو پکارا کیا بات ھے نواز ؟
نن. . نہیں تو کوئی بات نہیں ھے - پھر دروازے پر کیوں کھڑے ہو سعدیہ نے نواز سے پوچھا تو نواز نے بات بنائی ،یہ سوچ رہا ھوں کہ جب تمہیں پہلی بار دیکھا تھا تو سوچا بھی نہیں تھا کہ اتنی جلدی ہم ایکدوسرے کے ہو جائیں گے ، اور یہ کہتے ہوئے نواز سعدیہ کے قریب چلا آیا اور اسے بانہوں میں ہاتھ ڈال کر کھڑا کیا اور سینے سے لگا لیا - سعدیہ کے نرم و ملائم چھاتیاں جب نواز کے سینے سے ٹکرائیں تو نواز کے ذہن سے سارے اندیشے ایسے غائب ہو گئے جیسے ویکسنگ کے بعد پھدی سے غیر ضروری بال - نواز نے سعدیہ کو سینے سے لگا کر اس کی گردن اور کانوں پر بوسوں کی بوچھاڑ کر دی ، جوابی ردعمل میں سعدیہ نواز سے زور سے چپک گئی اور نواز کے گرد اپنے بازؤں کا گھیرا سخت کر دیا ، ایک آدھے منٹ کے جوش کے بعد سعدیہ نے نواز کو خود سے علیحدہ کیا اور نواز سے کہایار تم سے صبر نہیں ہوتا کپڑے تو اتار لینے دو میں نے واپس گھر بھی جانا ھے- کپڑوں کی استری خراب ہونے سے کہیں کوئی گڑ بڑ ہی نہ ہو جائے اور یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی قمیض اتار دی ، قمیض اترنے سے سعدیہ کا گورا بدن نواز کے سامنے تھا جس پر دو چونتیس کی پہاڑیاں کالے غلاف میں نظر آ رہی تھیں جن کو دیکھ کر نواز کے ذہن میں ایک پنجابی گانے کی اصلیت سمجھ آ گئی ، اج کالا جوڑا پا ساڈی فرمائش تے - یہ تو عوام کے لئے تھا لیکن محبوبہ کو اصل میں کچھ کہنا یوں چاہتا تھا کہ اج کالا برئیزیر پا ساڈی فرمائش تے - ابھی نواز اس گانے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ سعدیہ نے اپنی شلوار بھی اتار دی - اس کے گورے چٹے جسم پر کالا برا اور کالی چدی بہت ہی جچ رہی تھی ، سعدیہ کا جسم کافی گداذ اور سیکسی تھا نواز کی نظریں اس کے جسم پر اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر تک بار بار پھسل رہی تھیں ، سعدیہ نے اپنی شلوار قمیض اتارنے کے بعد نواز کی طرف دیکھا تو وہ اسی کی طرف دیکھ رہا تھا - سعدیہ نے بڑے سٹائل سے پنجابی میں نواز سے کہا "چل اوئے تو وی کپڑے نکال " تو نواز نے سعدیہ سے کہا " تم اتارو نہ " تو اس نے کہا اگر میں نے اتارے نا ، تو تمہاری یہ بوسکی دوبارہ پہننے کے قابل نہیں رہنی - ہاں بولو اتاروں پھر ؟ نہیں نہیں میں خود ہی اتار لیتا ھوں نواز نے کہا اور اپنی شلوار قمیض اتار دی- اب سعدیہ برا اور چدی میں تھی اور نواز بھی بنیان اور چدی میں تھا ، نواز نے کپڑے اتارنے کے بعد سعدیہ کی طرف جست لگائی اور اسے پکڑ کر دیوانوں کی طرح چومنے لگا ، سعدیہ بھی اس کا بھرپور ساتھ دینے لگی ، نواز نے پہلے اس کی گردن کی پشت اور سامنے اپنی گرم گرم سانسوں کے ساتھ اپنے ہونٹوں سے مہریں ثبت کیں اور پھر اس کے کانوں کی لو کو اپنے منہ میں لے کر چوسنا اور کاٹنا شروع کر دیا جس سے سعدیہ کے منہ سے سسکاریاں اور سیکسی آوازیں نکلنے لگیں ، دونوں بہت گرم ہو چکے تھے نواز کا چھ انچ لمبا اور کافی زیادہ موٹا لن مکمل تناؤ میں آ چکا تھا اور چدی کو پھاڑ کر باہر آنے کی تگ و دو میں تھا لیکن ابھی اس کے باہر آنے کا موقع نہیں آیا تھا اور دوسری طرف سعدیہ کی چوت نے بھی پانی چھوڑنا شروع کر دیا تھاجس سے اس کی چدی سامنے سے تھوڑی تھوڑی گیلی ہو چکی تھی -
نواز کافی دیر تک والہانہ انداز میں سعدیہ سے کسنگ کرتا رہا اور اس کسنگ کے دوران سعدیہ کی برا اس کی چھاتیوں سے ہٹ چکی تھی اور اس کے براؤن نپلز جو بہت دلکش تھے نواز کے سامنے تن کر کھڑے ہو گئے تھے ، ان کو جب نواز نے اپنے منہ میں لیا تھا تو سعدیہ کا جسم ایک دفعہ تو مزے کی شدت سے کانپ گیا تھا اور اس کے منہ سے ایک زوردار سسکاری نکلی تھی جسے سن کر نواز نے اور جوش سے اس کے نپلز کو چوسنا شروع کر دیا تھا جب اس کے نپلز کے گرد نواز نے اپنی زبان گھمائی تھی تو سعدیہ مزے کی تاب نہ لاتے ہوئے مزے سے تڑپ اٹھی تھی اور نواز کو بالوں سے پکڑ کر اس کا سر اپنی چھاتیوں کی طرف دبانے لگی تھی ، سعدیہ چھاتیوں کی چوسائی کا مزا برداشت نہیں کر پائی تھی اور اس کی پھدی کے پانی سے اس کی چدی گیلی ہو گئی تھی ، سعدیہ چوت میں لن لئے بغیر نیچے سے فارغ ہو گئی تھی ،
سعدیہ نے نواز کو خود سے علیحدہ کیا اور لمبے لمبے سانس لینے لگی تھی ، نواز کو اس کے جسم کے کھنچاؤ کے بعد ڈھیلا پڑنے اور اس سے پہلےاس کی تیز تیز سسکاریوں سے اندازہ لگانے میں دقت نہیں ہوئی تھی کہ سعدیہ ڈسچادج ہو چکی ھے ، لیکن نواز کے ڈسچادج ہونے کا وقت ابھی دور تھا ، وہ بنا اندر کئے کبھی فارغ نہیں ہوا تھا - مسلسل کسنگ سے نواز کا بھی سانس پھول چکا تھا، نواز اور سعدیہ بیڈ پر لیٹے لمبے لمبے سانس لے رہے تھے ، تھوڑی دیر بعد جب سعدیہ کا سانس تھوڑا بحال ہوا تو اس نے کروٹ لی اور نواز کی سینے سے لگ گئی ، اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں اس کے گالوں پر پھیرنے لگی اور اپنی ایک ٹانگ اس کی ٹانگوں پر رکھ کر اسے ہلکے ہلکے ہلانے لگی تو نواز نے اسے زور سے اپنے ساتھ بھینچ لیا سعدیہ کے ممے نواز کے سینے میں دب گئے ، سعدیہ نے اسے پرے دھیکیلا اور اسے خاموشی سے لیٹے رہنے کا اشارہ کیا -
سعدیہ نے نواز کی بنیان اوپر کی تو نواز نے اسے خود ہی اتار دیا سعدیہ اپنی برا پہلے ہی ہٹا چکی تھی ، دونوں اب اوپر اوپر سے ننگے تھے ، سعدیہ نواز کی بنیان اترنے کے بعد اس کے اوپر آ گئی اور نواز کے سینے پر اپنے ہونٹ رکھے اور چومنا شروع کر دیا ، پہلے آہستہ آہستہ پھر سعدیہ بہت تیزی سے اس کے سینے کے بوسے لینے لگی ، کبھی ایک طرف تو کبھی دوسری طرف ، سعدیہ نواز کو چومتے ہوئے اس کے سینے سے نیچے کی طرف آنے لگی اور اس کے پیٹ پر کس کرنے لگی
پیٹ پر اتنے بال نہ تھے سعدیہ نے ساتھ زبان کا استمال بھی شروع کر دیا چومنے کے ساتھ ساتھ چاٹنے بھی لگی ، زبان پھیرتے پھیرتے اس نے اپنی زبان کی نوک نواز کی ناف میں گھسا دی جس سے نواز کے بدن میں گدگدی کی لہر دوڑ گئی اور بے اختیار نواز نے سعدیہ کو بالوں سے پکڑ کر پیچھے کھینچ لیا ، کیا ہوا ؟ سعدیہ نے نواز سے پوچھا تو نواز نے کہا "گدگدی ہوتی ھے" -
یہ گدگدی نہیں مزا ھے نواز ، میں تمہیں آج ایسا مزا دوں گئی جو تم ساری زندگی بھول نہیں پاؤ گئے ، بھولنا چاہو گئے بھی تو نہیں بھول پاؤ گئے -یہ کہتے ہوئے سعدیہ نے ایک ہاتھ سے نواز کا انڈروئیر /چدی اتار دی اور اس کا کھڑا لن اپنی بائیں ہتھیلی میں پکڑ لیا اور ہتھیلی بند کر کے اسے دبانے لگی ، سعدیہ کے دبانے سے نواز کا لن ہلکا سا جھٹکا کھاتا اور مزید تن جاتا ، نواز کا لن لمبا تو چھ انچ تھا لیکن موٹائی میں بہت تھا سعدیہ نے نواز سے کہا کہ یار تمہارا لن تو میرے سابقہ بوائے فرینڈ سے بہت موٹا ھے لگتا ھے آج دن میں تارے نظر آ جائیں گے ، جب کوئی لڑکی کسی لڑکے کے لن کی تعریف کرے تو لڑکا خوشی سے پھولے نہیں سماتا یہی حال نواز کا تھا وہ بہت خوش ہو رہا تھا سعدیہ کے ان الفاظ سے -
سعدیہ نے اپنا انگوٹھا نواز کے لن کی ٹوپی پر پھیرا اور اپنے ہونٹ اسکی ٹوپی پر رکھ دئیے ، اس نے اپنی زبان نکالی اور دھیرے دھیرے اسکی ٹوپی پر پھیرنے لگی جس سے نواز کے جسم میں مزے کی لہریں ڈورنے لگیں ، نواز نے مزے میں آ کر ایک ہلکا سا جھٹکا مارا تو اس کا دو انچ لن سعدیہ کے گرما گرم منہ میں گھس گیا ، نواز ایک جھٹکا مارنے کے بعد رک گیا تو سعدیہ نے اس کا لن منہ سے نکالا اور دوبارہ سے آہستہ آہستہ منہ میں لے لیا - اب سعدیہ آہستہ آہستہ اسے اندر باہر کرنے لگی ساتھ ساتھ لن کو ایسے چوس رہی تھی جیسے وہ کوئی لولی پاپ ہو ، نواز کا لن سعدیہ کے تھوک سے لتھڑ گیا تھا اور سعدیہ بڑے مزے سے اسے چوس رہی تھی ، سعدیہ چوپا لگانے میں ماہر تھی ، اس کا چہرہ دیکھ کر ہی اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وہ چوپا گرل ھے کیونکہ اس کے اوپر والے ہونٹ اور دانت کی بناوٹ چوپا لگانے سے بدل چکی تھی جیسے انگوٹھا چوسنے والے بچے کی - شاید وہ چوپا لگانے کی بہت شوقین تھی اسلئے بن کہے ہی سٹارٹ چوپے سے لیا تھا -سعدیہ کو چوپا لگاتے ہوئے ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ نواز کو اپنے جسم میں چونٹیاں سی رینگتی ہوئی محسوس ہونے لگیں اور اسے اپنے لن میں سنسناہٹ سی محسوس ہونے لگی - نواز ڈسچادج ہونے کے قریب پہنچ گیا تھا ، اس کا دل کر رہا تھا کہ اب سعدیہ کے منہ سے اپنا لن نکال لے اور اس طرح ڈسچادج نہ ہو لیکن سعدیہ کے منہ کی گرمی اور اس کی گرماگرم سانسیں نواز کو بہت لطف دے رہی تھیں ، اس نے باہر نکالنے کی بجائے سعدیہ کو بالوں سے پکڑا اور ہلنے لگا جس سے نواز کا لن سعدیہ کے منہ میں اندر باہر ہونے لگا اور نواز مزے کے انتہائی بلندیوں پر پہنچ گیا اور مزے کو برداشت نہ کرتے ہوئے اس کے لن سے پچکاری نکلی جو سیدھا سعدیہ کے حلق میں گری تو سعدیہ نے اپنا منہ پیچھے ہٹانے کی کوشش کی لیکن نواز نے اسے بالوں سے بڑی مظبوطی سے پکڑا ہوا تھا اور وہ اپنا چہرہ پیچھے نہ ہٹا سکی اور ساری منی سعدیہ کے منہ میں ہی نکلی جو آہستہ آہستہ اس کے ہونٹوں سے نکل کر نیچے کی طرف بہنے لگی تھی جس سے سعدیہ کا چہرہ بہت عجیب لگنے لگا تھا - سعدیہ اور نواز بنا چدائی کے ہی ایک ایک بار ڈسچادج ہو چکے تھے -
سعدیہ نے اپنے پرس سے ٹشو نکالا اور اپنا منہ صاف کرنے لگی
"بہت بدتمیز ہو تم ، باہر ڈسچادج نہیں ہو سکتے تھے" سعدیہ نے نواز سے کہا تو نواز نے کہا "میں باہر ہی فارغ ہونا چاہتا تھا لیکن تمہارے سانسوں کی گرمی نے چاہتے ہوئے بھی باہر نہیں نکالنے دیا"-
نواز کو سعدیہ سے سیکس کا بہت مزا آ رہا تھا ، سعدیہ میں عام لڑکیوں کی طرح جھجک بالکل بھی نہیں تھی ، نواز کا پروگرام اب اس کی پھدی مارنے کا تھا اور پھر گانڈ لینے کا -
چند منٹ کے وقفے کے بعد نواز نے سعدیہ کی چھاتی کو دبانا شروع کیا تو سعدیہ نے بھی نواز کا لن تھام لیا اور اسے ہلانے لگی ، نواز کا لن بے جان تھا سعدیہ کے ہاتھ لگنے سے اس میں جان آنے لگی ، سعدیہ ہلانے کے ساتھ ساتھ ہتھیلی میں لے کر دبا بھی رہی تھی جس سے نواز کے لن میں تناؤ بڑھنے لگا اور ایک دو منٹ میں مکمل تناؤ میں آ چکا تھا ، اس دوران نواز سعدیہ کی چھاتیوں سے چھیڑ چھاڑ کر رہا تھا ، لن میں مکمل تناؤ آنے کے بعد نواز نے چوت کا رخ کیا اور چوت کے اردگرد زبان پھیرنے لگا جس سے سعدیہ کے منہ سے مزے سے بھرپور سسکاریاں نکلنے لگیں اور جب نواز نے اپنی زبان اس کی چوت کے لبوں کے درمیان ڈالی تو سعدیہ کے منہ سے ایک لمبی آہ . . . نکلی اور اس کے جسم نے ایک جھٹکا کھایا ،سعدیہ مزے سے تڑپ اٹھی تھی ، نواز کا مقصد سعدیہ کو گرم کرنا تھا کیونکہ کہ چوٹ ہمیشہ گرم لوہے پر مارنے کا فائدہ ہوتا ھے ، چند منٹ کی چوت چوسائی نے سعدیہ کے سارے کس بل نکال دئیے تھے جیسے جیسے اس کی چوت میں نواز کی زبان گردش کر رہی تھی ویسے ویسے اس کی سسکاریوں میں اضافہ ہو رہا تھا ، نواز نے اس کی گانڈ کی اچھل کور دیکھتے ہوئے اس کی پھدی میں کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنا تگڑا لن اس کی چوت کے لبوں کے درمیان ایڈجسٹ کیا اور ایک زوردار جھٹکا اس کی گیلی چوت میں مارا ، سعدیہ کے منہ سے ایک ھلکی سی چیخ نکلی جو اس بات کی علامت تھی کہ سعدیہ کی پھدی ابھی پھدا نہیں بنی ھے ، نواز نے سعدیہ کی چیخ سنی تو رک گیا ، ابھی نواز کے لن کا ٹوپہ ہی سعدیہ کی چوت میں داخل ہوا تھا کہ سعدیہ کی چیخ نکل گئی تھی ،
"جان تمہارا بہت موٹا ھے ذرا آرام سے کرو نہ" سعدیہ نے نواز سے کہا تو نواز نے بنا کچھ کہے خاموشی سے ایک اور زوردار جھٹکا مارا تو جڑ تک لن سعدیہ کی چوت میں گھس گیا اس بار سعدیہ کے منہ سے صرف ایک سسکاری نکلی -اف ظالم ! تم نے تو جان ہی نکال دی سعدیہ نے ایک ہاتھ سے نواز کا بازو سختی سے پکڑتے ہوئے مزے سے کراہتے ہوئے کہا جب نواز کا لن جڑ تک اس کی پھدی کی گہرائی تک اترا ،
نواز کے لن پر سعدیہ کی چوت کی گرپ بہت ٹائٹ تھی اور اندر سے بہت گرم تھی اور اسے یہ گرمی اپنے لن پر بھی محسوس ہو رہی تھی - نواز نے لن آہستہ آہستہ باہر نکالا اور ایک جھٹکے سے دوبارہ چوت میں دھیکیل دیا جس سے سعدیہ کے منہ سے ھلکی سی سس . .س . . . . سی نکلی ، نواز نے دو تین دفعہ ایسے کیا اور پھر اک ردھم سے تیز تیز اندر باہر کرنے لگا ، کمرے میں دو جسموں کے ٹکرانے کی آوازیں اور ساتھ سعدیہ کی سسکاریوں کی آوازیں گونج رہی تھیں ، سعدیہ کی سسکاریاں پٹرول کا کام کر رہی تھیں جس سے نواز کی سپیڈ لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہی تھی ، نواز زیادہ دیر سعدیہ کی چوت کی گرمی برداشت نہ کر سکا اور اس کے جسم میں چونٹیاں رینگنے لگیں جو اس بات کا اشارہ تھا کہ لن سے پانی نکلنے ہی والا ھے ، نواز نے اردو فنڈا کے ڈاکٹر فیصل والا طریقہ آزماتے ہوئے لن باہر نکال لیا اور سعدیہ کو الٹا ہونے کا کہا تو سعدیہ اٹھی اور خاموشی سے پیٹ کے بل لیٹ گئی ،
نواز نے اس کے کولہوں پر ہاتھ جمائے اور اسے پیچھے سے گانڈ اٹھانے کا کہا تو سعدیہ نے اپنی گانڈ اٹھائی ، پیچھے سے اس کی چوت اور گانڈ کا سوراخ نواز کے سامنے آ گیا لیکن نواز نے اپنا لن اس کی چوت کے سوراخ پر رکھا اور تھوڑا سا دباؤ ڈالا تو اس بار لن کی ٹوپی آسانی سے اندر چلی گئی ، ٹوپی کے اندر جاتے ہی نواز نے ایک تیز جھٹکا مارا اور لن سعدیہ کی چوت کی گہرائی میں اتر گیا اور ساتھ ہی سعدیہ کے منہ سے ایک مزے کی آہ نکلی ، نواز نے پھر سے جھٹکے مارنا شروع کر دئیے اور لن تیزی سے سعدیہ کی پھدی میں آنے جانے لگا اور ساتھ ساتھ سعدیہ کے منہ سے سسکاریاں - نواز کے زوردار جھٹکوں کا ساتھ سعدیہ بھی دینے لگی جب نواز اپنا لن اندر کرتا تو سعدیہ اپنی گانڈ کا زور پیچھے کی طرف لگاتی جس سے نواز کا لن ٹٹوں تک اس کی چوت میں گھس جاتا جو دونوں کے لئے بڑا پرلطف تھا -
نواز کے موٹے تازے لن کی زوردار چوٹیں سعدیہ کی چوت پر لگ رہی تھیں لیکن یہ چوٹیں درد کی بجائے مزا دے رہی تھیں ، جلد ہی یہ مزا اپنی حدوں کو چھونے لگا اور سعدیہ کے جسم میں اکڑاہت پیدا ہونے لگی جبکہ دوسری طرف نواز کے لن میں بھی گدگدی سٹارٹ ہو گئی تھی دونوں منزل پر پہنچنے کے قریب تھے تو دونوں کا جوش دیدنی تھا ، نواز پورے لن سے جھٹکے دے رہا تھا اور سعدیہ بھی پورے زور سے اپنی چوت لن کی طرف دھیکیل رہی تھی ، لن تیزی سے چوت کے اندر باہر جا رہا تھا کہ نواز کو لن پر گرم گرم احساس ہوا اور ساتھ ہی نواز کے لن نے سعدیہ کی چوت میں پچکاری چھوڑ دی ، گرم گرم احساس سعدیہ کے ڈسچادج ہونے والے پانی کا تھا جس سے نواز بھی فارغ ہوا تھا -
نواز اور سعدیہ کے درمیان "لن اور چوت کا مقابلہ خوب رہا تھا " - نواز اور سعدیہ تقریبا اکٹھے ہی منزل پر پہنچے تھے ، سعدیہ الٹی ہی لیٹی ہوئی تھی اور ساتھ نواز اس کے اوپر ہی لیٹ گیا تھا ، نواز کا سعدیہ سے سیکس سیشن بہت ہی اچھا اور پر لطف رہا تھا ، تھوڑی دیر بعد دونوں اکٹھے ہی ہوٹل کے اٹیچ باتھ میں گئے اور اپنے پوشیدہ اعضاء کو پانی سے دھونے لگے ، نواز اور سعدیہ باتھ روم سے باہر نکلے تو دروازے پر ہونے والی دستک سے دونوں کے رنگ فق ہو گئے -
دروازے پر دستک سے نواز اور سعدیہ دونوں گبھرا گئے اور اپنے کپڑوں کی طرف بڑھے ، جلدی جلدی کپڑے پہننے لگے ، کپڑے پہننے کے دوران ایک دفعہ پھر دروازے پر دستک ہوئی اور یہ دستک پہلے سے تیز تھی ، نواز اور سعدیہ نے جلدی جلدی شلوار قمیض پہنی اور سعدیہ نے نواز سے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا " دروازے پہ کون ھے ؟"
تو نواز نے گبھرائے ہوئے لہجے میں جواب دیا "پتا نہیں کون ھے " یہ کہتے ہوئے رات والا خواب اس کے ذہن میں تازہ ہو گیا تھا - کمرے سے نکلنے کا کوئی اور راستہ بھی نہیں تھا اسلئے جو بھی تھا اس کا سامنا تو کرنا ہی تھا ، اگلی دستک پہ نواز نے دل کو مضبوط کرتے ہوئے پوچھا " کون ؟ "
پولیس !!! دروازہ کھولو -
پولیس کا سن کر دونوں گبھرا گئے اور ایکدوسرے کی طرف دیکھنے لگے ، نواز دروازے کی طرف بڑھا تو سعدیہ اس کے پیچھے ہو گئی ، نواز نے دروازہ کھولا تو دروازے پر دو ہٹے کٹے آدمی سادہ لباس میں کھڑے تھے ، نواز نے ان سے پوچھا " جی آپ نے کس سے ملنا ھے "؟
ان میں سے ایک نے کہا " میں تھانیدار ھوں اور مجھے اطلاع ملی ھے کہ ادھر ایک جوڑا آ کر ٹھہرا ھے جو منشیات فروش ہے ،ہمیں کمرے کی تلاشی لینی ھے "-نواز ڈر رہا تھا کہ پولیس اسے رنگ رلیاں اور ناجائز تعلقات کے جرم میں گرفتار کرنے آئی ھے لیکن پولیس کو کسی منشیات فروش جوڑے کی تلاش تھی کا سن کر نواز کا اعتماد تھوڑا بحال ہوا -
تھانیدار صاحب آپ اس جوڑے کے پاس جائیں نا ، مجھے تو ڈسٹرب نہ کریں ، میں تو ایک سرکاری محکمہ میں ملازم ھوں اور یہ کہتے ہوئے نواز نے اپنا کارڈ نکال کر تھانیدار کو دکھایا تو تھانیدار نے کہا ہمارے پاس اسی کمرے کی مخبری ھے کیا آپ یہاں اکیلے ہیں ؟
نواز نے بڑی صفائی سے جھوٹ بولا کہ نہیں میں ادھر اپنی وائف کے ساتھ ٹھہرا ہوا ھوں ، نواز بیچارے کو کیا پتا تھا کہ پولیس کبھی بھی سیدھی بات نہیں کرتی اور اوپر سے اس نے سعدیہ کو اپنی وائف بتا کر جو جھوٹ بولا تھا وہ اس کے گلے میں ہڈی کی طرح اٹکنے والا تھا -
تھانیدار نے کہا " مجھے کمرے کی تلاشی لینا ھے پلیز آپ مجھے اندر آنے کا راستہ دیں"
نواز کا تھانیدار کے اچھے رویہ کی وجہ سے ڈر اتر چکا تھا کیونکہ جس بات کا ڈر تھا پولیس اس چکر میں نہیں تھی اسلئے اس نے تھانیدار کو اندر آنے کے لئے راستہ دے دیا - وہ نہیں جانتا تھا کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں -
تھانیدار کا نرم رویہ اصل میں اس کی مکاری تھی ، اس نے کمرے میں داخل ہو کر چاروں طرف نظر دوڑائی تو اس کی نظر سعدیہ پر آ کر ٹھہر گئی ،سعدیہ نے چہرہ دوپٹے سے ڈھانپا ہوا تھا - تھانیدار نے نواز کی طرف دیکھتے ہوئے اس سے پوچھا یہ آپ کی بیوی ھے ؟ تو نواز نے اثبات میں سر ہلایا اور اس کی نظر بستر پر پڑی تو اس کے ہونٹوں پر ایک معنی خیز مسکراہٹ ابھری اور اس نے اپنے ساتھی سے کمرے کی تلاشی لینے کا کہا تو اس نے بیڈ کی چادریں الٹ پلٹ کر دیکھیں اور باتھ روم کا چکر لگایا لیکن اسے کسی قسم کی منشیات نہ ملی تو اس نے تھانیدار سے کہا سر ادھر سے تو کچھ نہیں ملا، لگتا ھے غلط مخبری ملی ھے -
تھانیدار نے کہا آج تک مخبر نے کبھی غلط اطلاع نہیں دی آج کیسے غلط ہو سکتی ھے ! تم اس کی بیوی کا پرس چیک کرو - تھانیدار نے سعدیہ سے پرس لیا اور اسے الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا ، پرس میں پچیس سو روپے اور کچھ میک اپ کا سامان تھا ساتھ میں سعدیہ کا کالج کارڈ تھا ،
کارڈ پر کالج کے نام کے ساتھ صرف سعدیہ کا نام ، کلاس اور رولنمبر تھا -
تھانیدار نے سعدیہ کا کارڈ رکھ کر باقی سارا سامان سعدیہ کو واپس کر دیا اور نواز سے اس کا آئی ڈی کارڈ طلب کیا تو اس نے جیب سے اپنا آئی ڈی کارڈ نکال کر تھانیدار کو دیا تو تھانیدار نے نواز سے پوچھا کیا میں آپ کی بیوی کا چہرہ دیکھ سکتا ھوں ؟ تو نواز نے کہا جی مجھے کوئی اعتراض نہیں ، لیکن نواز کی اس بات سے سعدیہ کی آنکھوں میں خوف اتر آیا جس پر نواز بہت حیران ہوا - تھانیدار نے سعدیہ سے کہا پلیز اپنے چہرے سے یہ پردہ ہٹائیے تو سعدیہ خاموش کھڑی رہی ، تھانیدار نے دوبارہ کہا تو بھی سعدیہ ٹس سے مس نہ ہوئی تو نواز نے سعدیہ سے کہا سعدیہ چہرے سے نقاب ہٹاؤ تاکہ یہ تصدیق کر کے ادھر سے جائیں ہمیں کس بات کا ڈر ھے ؟ تو سعدیہ نے چہرے سے چادر ہٹا دی -
تھانیدار سعدیہ کا چہرہ دیکھتے ہی اچھل پڑا اور اس کے منہ سے نکلا
"ارے یہ تو کنگ گروپ کی کوئین ھے
یہ سنتے ہی نواز کے چہرے پر پریشانی ابھر آئی ، تھانیدار صاحب کیا مطلب ھے آپ کا اور یہ کنگ گروپ کیا ھے ؟ نواز نے تھانیدار سے پوچھا تو تھانیدار نے کہا اس گروپ کا کام ھے ملک بھر میں منشیات فروخت کرنا ، اس کوئین کا کام ھے بھولے بھالے لڑکوں کو پھانسنا اور ان سے سیکس کر کے ان کی ویڈیو بنانا اور پھر انہیں بلیک میل کر کے منشیات سمگل کرنا -
یہ سنتے ہی نواز کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں کیونکہ ابھی ابھی نواز نے بھی سعدیہ سے سیکس کیا تھا اور اسے یقین ہو چلا تھا کہ اس کی بھی ویڈیو بنی ہو گی -
نواز نے سعدیہ سے پوچھا کیا تھانیدار صاحب ٹھیک کہہ رہے ہیں ؟
سعدیہ نے نواز سے کہا ، "ہاں یہ صحیح ھے کہ میرا تعلق کنگ گروپ سے ھے اور میں کوئین کے نام سے مشہور ھوں لیکن اس بات میں کوئی سچائی نہیں کہ لڑکوں کے ساتھ سیکسی فلمیں بنا کر انہیں بلیک میل کر کے ان سے منشیات سمگل کرواتی ھوں - تھانیدار نے نواز سے کہا کہ اس نے آدھا سچ بولا ھے ، تم نے اگر اس کے ساتھ سیکس کیا ھے تو کمرے کی تلاشی لے لو پھر بعد میں ساری زندگی پچھتاوا نہیں رہے گا کہ میں اس سے ملنے ہی نہ آتا - نواز نے سعدیہ کی طرف دیکھا تو سعدیہ نے کہا " نواز میرا یقین کرو میں نے تم سے کوئی دھوکہ نہیں کیا ، بس میں تم مجھے پسند آ گئے تھے اور تم نے ہمت کی اور مجھے تمہارا نمبر مل گیا اور میں نے تم سے دوستی کر لی " -*
جو کچھ تھوڑی دیر پہلے ہم نے کیا اس کی کوئی ویڈیو نہیں بنی ہے ، اس دوران تھانیدار نے سعدیہ سے کہا " کوئین آج بہت عرصے بعد ہاتھ لگی ہو اب تم لمبے عرصے تک کے لئے جیل جاؤ گی ، اس بار کنگ بھی تمھاری کوئی مدد نہیں کر پائے گا اور ساتھ میں تمہارا یہ یار بھی - تھانیدار نے نواز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو نواز کے چہرے پر پھر سے ہوائیاں اڑنے لگیں -
نواز کا کبھی پولیس سے واسطہ تو نہیں پڑا تھا لیکن وہ اتنا ضرور جانتا تھا کہ محکمہ پولیس میں رشوت سے ہر کام ہو سکتا ھے اسلئے اس نے تھانیدار سے بات کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے علیحدہ سے بات سننے کا کہا تو تھانیدار اس کے ساتھ کمرے سے باہر آ گیا اور اپنے ساتھی سے سعدیہ کا خیال رکھنے کا کہا -
باہر آ کر نواز نے تھانیدار کو سب کچھ سچ بتا دیا اور اس سے مدد طلب کی - تھانیدار نے نواز سے کہا تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ تم کنگ گروپ کے رکن نہیں ہو ؟ نواز آپ تصدیق کر لیں کہ میں کس دفتر میں کیا کام کرتا ھوں - تصدیق سے ہمیں کیا فائدہ ہو گا ؟ ویسے بھی تم جس لڑکی کے ساتھ گرفتار ہوئے ہو وہ سمگلرز کی سیکینڈ باس ھے ، اسے گرفتار کرنے پر کم از کم پروموشن تو ملے گئی -
تھانیدار نے لفظ فائدہ استمال کر کے واضح پیغام دیا تھا نواز کو کہ وہ رشوت کا طلب گار ھے - نواز نے تھانیدار سے کہا، تھانیدار جی آپ ہی مجھے اس مصیبت سے نکالیں میں آپ کی ہر طرح سے خدمت کرنے کو تیار ھوں - تھانیدار نے نواز سے پوچھا کتنی خدمت کر سکتے ہو ؟
نواز نے کہا "تھانیدار صاحب میں آپ کو پانچ ہزار روپیہ دے سکتا ھوں " یہ سن کر تھانیدار نے ایک زوردار قہقہ لگایا اور نواز سے کہنے لگا ، جب کنگ کو پتا چلے گا کہ اس کی کوئین اریسٹ ہو چکی ھے تو وہ کم از کم پانچ لاکھ کی آفر کرے گا لیکن ہم نے اسے چھوڑنا نہیں اور تم پانچ ہزار سے جان چھوڑا لینا چاہتے ہو - ایک لاکھ اگر دے سکتے ہو تو ٹھیک ورنہ تم بھی ساتھ جیل میں جاؤ گے - ایک لاکھ کا سن کر نواز کی پریشانی عروج پر پہنچ گئی ، وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ سعدیہ کی پھدی کی قیمت ایک لاکھ اسے بھرنا پڑے گی ، اسے شدت سے رات والی خواب کی یاد آ رہی تھی کہ اسے قدرت کی طرف سے غیبی اشارہ ملا تھا لیکن وہ باز نہیں آیا تھا عقل پر ہوس غالب آ گئی تھی اب وہ اپنے اس فیصلے پر پچھتا رہا تھا لیکن اب پچھتانے سے کچھ حاصل نہیں ہونا تھا -
نواز کے پاس ایک لاکھ کی رقم نہیں تھی اس کے بینک اکاؤنٹ میں تقریبا پینسٹھ ہزار تھے اور اس وقت اس کی جیب میں سات ہزار تھے - اب اس کی عزت اور نوکری خطرے میں تھی ، تھانیدار نے اس کی عزت اور نوکری کی قیمت ایک لاکھ لگائی تھی جو اس کں اوقات سے زیادہ تھی - اس نے تھانیدار کی منت سماجت شروع کر دی لیکن تھانیدار ٹس سے مس نہیں ہوا اور نواز کو لے کر واپس کمرے میں آیا تو تھانیدار کے ساتھی نے سعدیہ کی ٹانگیں اپنے کندھے پر رکھی ہوئیں تھیں اور اپنا لن بڑی تیزی سے اندر باہر کر رہا تھا ، سعدیہ کے ممے ہل رہے تھے اور اس کے منہ سے سسکاریاں جاری تھیں ، نواز اور تھانیدار کے کمرے میں داخل ہونے کے باوجود وہ رکا نہیں اور اس نے اپنا کام جاری رکھا ، یہ دیکھ کر تھانیدار کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی جبکہ نواز کے چہرے پر حیرت تھی - نواز پہلی بار کسی کو لائیو سیکس کرتے دیکھ رہا تھا کوئی اور وقت ہوتا تو شاید وہ انجوائے کرتا لیکن اس وقت تو اس کی خود کی گانڈ پھٹی ہوئی تھی ایک لاکھ کا سن کر
چند منٹ بعد تھانیدار کا ساتھی ڈسچادج ہوگیا اور اپنے کپڑے ٹھیک کرنے کے بعد اس نے تھانیدار سے کہا "چلیں سر انھیں لے کر پولیس سٹیشن ؟ " - رانا تم سے صبر نہیں ہوتا جدھر کوئی لڑکی دیکھی ٹانگیں کندھوں پر چڑھا لیتے ہو ! سر لڑکی تو بہت خوبصورت ھے اور یہ اس لڑکے سے چد رہی تھی میرے چود لینے سے اس کی چوت خراب نہیں ہو جانی تھی ویسے سالی ھے بہت مزے کی رانا کی اس بات سے دونوں نے ایک مشترکہ قہقہ لگایا اور تھانیدار نے کہا ہاں چلو انہیں لے کر پولیس سٹیشن چلیں - اس دوران سعدیہ نے بھی اپنے کپڑے ٹھیک کر لئے تھے - نواز نے ایک بار پھر تھانیدار کی منتیں کرنا شروع کر دیں تو تھانیدار نے نواز سے کہا تم ایک لاکھ کا بندوبست کر لو تو تمہارا نام ایف آئی آر میں نہیں دیا جائے گا ورنہ تم بھی اپنی اس دوست کوئین کے ساتھ جیل جاؤ گئے -
نواز نے کہا اتنے پیسے میرے پاس نہیں ہیں تو تھانیدار نے پوچھا کہ تمہارے پاس کتنے پیسے ہیں تو نواز نے کہا سات ہزار - سات ہزار سے بات نہیں بنے گی پورے ایک لاکھ سے ہی تمہاری جان بچ سکتی ھے ورنہ تم بھی جیل کی ہوا کھاؤ گے ، ویسے بھی تم اسے اپنی بیوی کہہ چکے ہو اور تم اس کے ساتھ برابر کے شریک ہو -
سعدیہ کے چہرے پر اب کوئی ڈر خوف نہیں تھا وہ خاموشی سے کھڑی یہ سب دیکھ اور سن رہی تھی جبکہ نواز مسلسل منت سماجت میں لگا ہوا تھا - رانا نامی آدمی نے نواز سے پوچھا تم اپنے کسی دوست سے مدد مانگ لو ورنہ تم ساری زندگی جیل میں سڑو گے اور کوئی تمہاری مدد نہیں کر سکے گا - نواز نے کہا آج کل تو کوئی اپنے ٹٹوں کی میل تک نہیں دیتا ایک لاکھ کہاں سے دے گا ؟ میرے اکاونٹ میں پینسٹھ ہزار روپے ہیں لیکن چیک بک گھر پر ھے ، اگر آپ میں سے کوئی میرے ساتھ چلے تو میں اسے بنک سے نکلوا کر پینسٹھ ہزار دے سکتا ھوں اس سے زیادہ دینا میرے بس میں نہیں ، جب منت سماجت سے کام بنتا نظر نہ آیا تو نواز نے تھانیدار کو پینسٹھ ہزار کی آفر کروا دی - پینسٹھ ہزار کا سن کر تھانیدار کی آنکھوں میں چمک نمودار ہوئی اور تھانیدار نے اس کی یہ آفر قبول کر لی - قارئین ! کمرے سے کسی قسم کی بھی منشیات برآمد نہیں ہوئی تھی ، دونوں آدمی پولیس کی وردی میں بھی نہیں تھے ، نواز کسی کنگ گروپ سے واقف بھی نہیں تھا اس نے کوئی جرم بھی نہیں کیا تھا لیکن اس کے باوجود وہ پینسٹھ ہزار دینے پر آمادہ ہو گیا تھا -
اس کی غلطی کیا تھی ؟ اس کی غلطی صرف اتنی تھی کہ وہ ایک انجان لڑکی کے ساتھ اسکی بتائی ہوئی جگہ پر چلا گیا تھا حالانکہ اسے اس ہوٹل کے بارے میں کچھ پتا نہیں تھا کہ اس میں پرائیویسی کتنی ھے اور یہ محفوظ کتنا ھے -
کبھی بھی ایسی غلطی نہ کرنا جس کا خمیازہ آپ کو آپ کی دولت ، شہرت یا عزت کی صورت میں بھگتنا پڑے - دوسرے شہر جانے سے پہلے وہاں کے ہوٹلوں سے متعلق دوست احباب سے پوچھ تاچھ کر لیں اور سپیشلی لڑکی کی بتائی ہوئی جگہ پر جانے سے اجتناب کریں ورنہ آپ کسی مصیبت میں بھی پڑ سکتے ہیں -
تھانیدار پینسٹھ ہزار پر رضامند تو ہو گیا تھا لیکن وہ ساتھ جانے پر رضامند نہیں تھا - اس نے نواز سے اس کا اے ٹی ایم اس شرط پر لے لیا تھا کہ وہ یہاں سے جانے کے بعد اسے بلاک نہیں کروائے گا -
اگر بلاک کروایا تو اس کا آئی ڈی کارڈ کسی واردات کے مقام سے برآمد کروا کر اسے کسی بڑے جرم میں ملوث کروا دے گا- تین دن بعد تمہارا آئی ڈی کارڈ اور اے ٹی ایم تمہارے ایڈریس پر پارسل کر دیا جائے گا وجہ یہ تھی کہ اے ٹی ایم کی لمٹ پچیس ہزار تھی اور ایک دن میں کارڈ سے زیادہ سے زیادہ پچیس ہزار نکل سکتے تھے - نواز جیسے ہی اپنا اے ٹی ایم تھانیدار کے حوالے کر کے نکلا تو پیچھے کمرے میں زوردار قہقہوں کی آواز گونجی جس میں سعدیہ عرف کوئین کا قہقہ بھی شامل تھا -
یہ دو مردوں اور ایک لڑکی پر مشتمل گروہ تھا - سعدیہ کسی لڑکے کو سیٹ کرتی تھی اور ہوٹل میں لے آتی تھی اور یہ مرد پولیس والے بن کر پہنچ جاتے تھے اور اسے اتنا ڈرا دیتے تھے کہ وہ اپنی عزت بچانے کی خاطر انھیں اپنی حثیت کے مطابق پیسے دینے پر آمادہ ہو جاتا تھا - نواز بھی ان کے ہاتھوں لٹنے کے بعد اپنے گھر کی طرف روانہ تھا
THE END
ایک تبصرہ شائع کریں for " ملتانی کالج گرل"