جب میرے لاکھ منع کرنے پر بھی عثمان نے میری بات نہ مانی تو مجھےآہستہ آہستہ اُن پر غصہ آنے لگا ، اور میں غصے میں بولی : عثمان آپ نے باز نہیں آنا نا ؟ میں آج کے بعد آپ کے گھر بلکل نہیں آؤں گی ، خالہ نے بلایا تب بھی نہیں.. یہ سنتے ہی عثمان نے میرے ہاتھوں پر سے اپنے ہاتھ ہٹا لئیے ، اور مجھے اپنی طرف کھینچنے اور میرے گالوں کو چومنے کی ناکام کوشش ترک کر دی ، اور برا سا منہ بناتے ہوے کہا : سندس صاحبہ ، بیگم ہیں آپ میری..میرے غصے میں ابھی تک کچھ خاص کمی نہ آئی تھی : منگیتر ہوں میں آپ کی..یہ کہتے ہوے میں عثمان کے کمرے سے نکلی اور نیچے لیونگ ایریا میں آ گئی ، جہاں خالہ کسی کتاب کے مطالعہ میں مصروف تھی
خالہ نے مجھے نیچے آتے دیکھ کر کہا : دیکھ آ ئی بیٹا اپنے ہونے والے روم کی سیٹنگ؟؟..میں نے اپنے چہرے پر سے خفگی کو چھپاتے ہوے اور ہلکا سا مسکراتے ہوے کہا : جی ، خالہ اب اجازت دیں میں جاؤں ؟.. خالہ نے پل بھر کہ توقف کے بعد کہا : اڑتے اڑتے آتی ہو ، اور یوں ہی چلی بھی جاتی ہو ، تھوڑی دیر بیٹھ جاتی.. "" نہیں خالہ پھر کبھی آ جاؤں گی ""..تب خالہ نے مسکراتے ہوے اجازت دے دی ، اور مجھے پورچ تک چھوڑنے کے لیے آئی.میں اپنی کار میں بیٹھی اور وہاں سے روانہ ہو گئی
عثمان میری خالہ کہ اکلوتے بیٹے تھے ، ہمیں ایک دوسرے سے تب سے محبت تھی ، جب سے ہم نے اس احساس کو پہلی بار سمجھا تھا..تب شاید ہم دونوں چودہ برس کے تھے ، جب انھوں نے مجھ سے اظہارِ محبت کیا ، پھر کیا تھا ، تب سے اب تک ہم دونوں نے اپنی روحوں کی سپردگی ایک دوسرے کو کر رکھی تھی..اب ہم دونوں پچیس سال کے ہونے کو تھے ..عثمان اور مجھ میں ہر طرح کی انڈرسٹنڈنگ تھی ، بس ایک بات تھی جس میں ہماری سوچ ایک دوسرے سے مختلف تھی ، اور وہ بات تھی عثمان کا یوں مجھے چھونا..میری تربیت پرورش میں جہاں امی نے مجھے ہر بات سکھائی ، وہاں یہ بھی ایک بار کہا کہ : ہر طرح کی آزادی مل جانے سے کبھی یہ مت بھول جانا کہ تم ایک لڑکی ہو اور تمہاری کچھ حدیں ہیں ، کبھی کچھ ایسا مت کرنا جس سے تمھارے ابو کا سر نیچا ہو..امی کی ان باتوں نے مجھ پہ ایسا گہرا اثر کیا کہ ، ہمیشہ میں نے ہر چیز سے بڑھ کہ اپنے کردار کی حفاظت کی ، اور اپنے کردار کو حیا کی چادر سے ڈھانپ کہ رکھا ، حیا کی چادر میں چھپا کے رکھا
میرے خالو اور ابو شہر کے مشہور بزنس مین اور ایک دوسرے کے بزنس پاٹنر بھی تھے
عثمان کی حرکت سے خراب ہوا میرا موڈ ، گھر پہنچنے پہنچنے کافی حد تک ٹھیک ہو چکا تھا..کار اپنے پورچ میں روکتے ہوے میں باہر نکلی تو دیکھا کے سامنے لان میں ، میرا ازلی دشمن ، یعنی میرا اکلوتا مجھ سے چار سال چھوٹا بھائی اپنے پالتو کتے سے عشق لڑانے میں مگن تھا..میں پورچ سے نکلتے ہوے اور گهاس پہ پتھروں کہ بنے تین باۓ تین کے واکنگ ٹریک پر سے ہوتی ہوئی لان میں داخل ہوئی اور شرارت بھرے لہجے میں بولی : رونا آتا ہے اپنے بھائی کی یہ حالت دیکھ کر ، اس کہ عشق کرنے کو اب کتے ہی بچے ہیں کیا ؟ انسان کوئی نہیں ملا اسے ؟.. دانش (میرا بھائی ) نے مسکراتے ہوے کہا : آپ بھی تو بہن ہی ہیں نہ میری ، بھلہ آپ کیسے کسی انسان سے عشق کر سکتی ہیں..میں نے اس کی بات نہ سمجتھے ، اپنی ایک آنکھ کو تھوڑا سا سکیڑتے ، اور اپنے ماتھے پہ بل ڈالتے ہوے اس کی طرف دیکھا..دانش نے میری اس کیفیت کو خوب انجوۓ کرتے ہوے مسکرا کر کہا : عثمان بھائی کی بات کر رہا ہوں میں سندس باجی..اس سے پہلے کہ اس بیہودہ مذاق پر میرا مکا اسکے کندے پر جا لگتا ، وہ اندر کی جانب بهاگ پڑا ، اور اسکا عشقِ واحد ، یعنی اسکا کتا بھی اسی کے نقشے قدم پہ دوڑتا ہوا اندر کی جانب ہو لیا
میں جب تیز تیز قدم چلتی ہوئی اندر پہنچی تو دیکھا کہ ، دانش امی کہ ساتھ صوفے پہ بیٹھا ہوا تھا اور اسکا کتا اسکے قدموں میں بیٹھا دم ہلا رہا تھا.. میرا چہرہ غصے سے بگڑ چکا تھا : امی اس کو سمجھا کے رکھیں ، کسی دن میں نے اس کا منہ توڑ دینا ہے..چونکہ یہ ہمارا روز کا ہی ڈرامہ تھا ، جس کی امی اچھے سے عادی تھی ، اس لیے انھوں نے مسکراتے ہوے دانش سے کہا : کیوں ستاتے ہو بڑی بہن کو ، دو مہینوں کی مہمان ہے اب یہ..میں امی کو مسکراتے دیکھ کے اور چڑ سی گئی اور اوپر اپنے روم میں آ گئی..اس کمینے دانش کا روم بھی اوپر ہی تھا
روم میں پہنچ کہ میں بیڈ پہ الٹی گر پڑی ، میری ٹانگیں آدھی سے تھوڑی کم بیڈ سے نیچے کو تھی..ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ مجھے اپنے سیل فون کی بیل سنائی دی..میری توقع کہ عین مطابق عثمان کی ہی کال تھی.کال اٹینڈ کر کہ سیل میں نے کان سے لگایا ، دوسری جانب سے عثمان موصوف نے ایک ہی لفظ کو بیس بار دوہرایا اور ایک ہی سانس میں کہا : سوری سوری سوری ،،،،،،، مجھے انڈراسٹینڈ کرنا چاہیے تھا ، اب کی بار معافی ، نیکسٹ ایسا کبھی نہیں ہو گا...میں نے منہ بناتے ہوے کہا : آپ ہمیشہ ہی ایسے کہتے ہو ، پر سدرتے نہیں ہو..عثمان نے شرارتی انداز میں کہا : اس میں غلطی اب آپ جناب کی بھی تو ہے نا ؟ نا ہوتی آپ اتنی حَسین تو ہم بھی اپنے آپ کو قابو میں رکھتے..میں نے شرم اور بناوٹی غصہ سے کہا : عثمان ن ن ن ، باز آ جائیں آپ..اور دوسری جانب عثمان میرے اس انداز پہ بےاختیار ہنس پڑے
یوں ہی باتیں کرتے کرتے ہم ایک دوسرے سے پھر نارمل ہو گے ، اور عثمان کے پیار نے میرے دل میں انکے لیے موجود ناراضگی کو مٹا ڈالا..میں ابھی بھی بیڈ پہ الٹی لیٹی ، سرہانے میں منہ دباۓ ، سیل کان سے لگاۓ ہوے تھی کہ مجھے اپنے روم کا ڈور کھلنے اور اس کمینے کے گنگنانے کی آواز سنائی دی : کاش یہ پل تھم جائیں ، آپ کے ہم بن جائیں .. اس سے پہلے کے میں اس کمینے کی طبیعت صاف کرتی ، وہ ڈور بند کر کہ بھاگ گیا..ایسے ہی تھے ہم دونوں بہن بھائی ، کبھی وہ مجھے تنگ کرتا ، اور جب وہ نہ کرتا ، تو تنگ کرنے کا فرض میں باخوبی سرانجام دیتی
شادی کو دو مہینے رہ گے تھے
اپنی شادی کو قریب دیکھ کر جہاں لڑکیوں پہ بہت سے بھوت اور جنون سوار ہوتے ہیں ، وہاں میرے پر بہت تو نہیں ، پر ایک جنون ، ایک بھوت سوار تھا ، اور وہ تھا ، ڈایٹنگ کا..میں موٹی تو نہیں تھی ، پر ہاں بھرے بھرے جسم کی مالک ضرور تھی ..کچھ ہی دن ہوے تھے مجھے ڈایٹنگ شروع کئیے ہوے..دن میں کوئی پانچ بار میں اپنے روم میں ڈریسنگ ٹیبل کہ شیشے کہ سامنے کھڑی ہوتی اور اپنے جسم کے جائزے لگاتی..ایک دن تو میں نے باقاعدہ اپنی قمیض تک اپنے پیٹ پر سے ہٹا دی اور اپنے پیٹ کو بغور دیکھنے لگی.. پھر تھوڑا اور میں نے قمیض کو اوپر کیا ، اور پیٹ سے تھوڑے اوپری جسم کو دیکھا ، پھر جانے ، من میں کیا سوجی ، میں نے اپنی بیک کو شیشے کی جانب کیا اور قمیض کو بیک پر سے بھی ہٹایا
اب میں آہستہ آہستہ گھوم گھوم کے اپنی بیک اور پیٹ کا شیشے میں جائزہ لگانے لگی.پیٹ اور بیک کا جائزہ لگاتے لگاتے ، میں اپنے سینے کے پھولے ہوے اُبھاروں اور اپنی رانوں کی بیک سے اوپر کو ابھرتی پہاڑیوں کو دیکھنے لگی اور شرمانے لگی..میں ایک لمبے قد کی لڑکی تھی ( 9 .5 ) ، میرے بھرے بھرے جسم پہ یہ ہائٹ ، اس کے حسن میں مزید اضافہ کرتی تھی ، اپنے جسم کو یوں دیکھتے دیکھتے میری سفید رنگت ، گلابی ہونا شروع ہو گئی.میری بیک شیشے کی جانب تھی اور میں نے چہرا بھی پیچھے یعنی شیشے کی جانب گھما رکھا تھا..کہ اچانک روم کا دروازہ کھلا اور میں نے شیشے میں سے ہی دانش کو روم میں داخل ہوتا دیکھا..میرے منہ سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی.دانش نے مجھے آگے اور پیچھے سے اس حالت میں دیکھا تو شرمندگی سے سوری کہتا ہوا روم سے نکل گیا
میں نے قمیض آگے سے کافی زیادہ اٹھا رکھی تھی ، جس وجہ سے میری برا تھوڑی سی ، پر نظر آ رہی تھی..قمیض میرے بےجان ہوے ہاتھوں سے نکل چکی تھی..شرم سے میں پانی پانی ہوے جا رہی تھی
پھر کتنے ہی دن ، میرے اور دانش کے بیچ کوئی مذاق نہیں ہوا
میں کچھ دن بعد نارمل ہو گئی ، پر دانش کو پتا نہیں کیا ہو گیا تھا..وہ اب مجھ سے کسی بھی طرح کا مذاق نہیں کرتا تھا..میں نے ایک دو بار اس سے چھیڑخوانی کی کوشش بھی کی ، پر وہ آگے سے صرف مسکرا دیتا.. میں یہ جانتی تھی کہ ، دانش میں آئی تبدیلی کی وجہ وہ شیشے والا حادثہ ہے ، پر اسے ابھی تک نارمل ہو جانا چاہیے تھا ، وہ نارمل ہو کیوں نہیں رہا ، بس یہی سوال مجھے ہر وقت پریشان کئیے رکھتا
ایک دن خالہ کی کال آئی اور انہوں نے ہمیں رات کہ کھانے پہ انوائٹ کیا..رات کو تیار ہو کہ جب میں نیچے آئی ، تو امی ابو اور دانش تیار ہوے بیٹھے میرا ہی انتظار کر رہے تھے..یعنی کے ہمیشہ کی طرح میں ہی لیٹ تھی..مجھے آتا دیکھ کے وہ تینوں کھڑے ہوے اور باہر کی طرف چل پڑے.امی ابو آگے تھے ، میں اور دانش ان کے پیچھے.میں نے اسے دیکھتے ہوے آہستہ سے کہا : لوکنگ سمارٹ ، میرے شونے بھائی.. میری یہ بات سن کر بس اسنے ہلکی سی ایک سمائل پاس کی..اگر یہ وہ پہلے والا دانش ہوتا تو ضرور مجھے آگے سے کچھ کہتا ، کوئی مذاق کرتا ، پر یہ وہ پہلے والا دانش نہیں تھا..پورچ میں پہنچے تو ابو نے ہمیں اپنی ہی کار میں بیٹھنے کو کہا..میں اور دانش بھی ابو کی کار میں بیٹھ گے.امی آگے فرنٹ سیٹ پہ بیٹھی تھی ، ان کی بیک سیٹ پہ دانش ، میں ڈرائیونگ سیٹ کی بیک پہ ، یعنی دانش کہ ساتھ بیٹھی تھی
رستے میں ابو نے ہمیں بتایا کہ تین دن بعد ان کی شہر سے دور ایک ہل سٹیشن پہ واقع فائیو سٹار ہوٹل میں بزنس میٹنگ ہے ، ابو نے ہمیں آفر کی کہ اگر ہم لوگ انکے ساتھ چلنا چاہیں تو چل سکتے ہیں ، وہ میٹنگ اٹینڈ کر لیں گے اور ہم لوگ گھوم پھیر لیں گے اور فریش ہو جائیں گے.امی نے 1970 کی فلمی ماؤں کی طرح کہا : ہاں ہم لوگ چلیں گے ، پتہ نہیں اس کے بعد پھر سندس کہ ساتھ کہیں باہر جانے کا موقع کب ملے ؟ ہم ضرور چلیں گے..میں نے دل میں سوچا "" امی تو ایسے بات کر رہی ہیں ، جسے میں سات سمندر پار جا رہی ہوں ""...امی کے حامی بھرنے کہ بعد کار میں خاموشی چھا چکی تھی
تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ میری لیفٹ ران سے کچھ ٹکرایا ، میں نے جب اپنی ران کی طرف دیکھ تو وہاں دانش کا ہاتھ چھونے ہو رہا تھا ، یعنی اسکا ہاتھ سیٹ پہ تھا ، پر میری ران کی سائیڈ سے ٹچ ہو رہا تھا..میں نے اسکی طرف دیکھا تو وہ کار سے باہر دیکھ رہا تھا..میں بھی اپنی سائیڈ سے کار سے باہر دیکھنے لگی ، یہ سوچتے ہوے کہ انجانے میں ایسا ہوا ہے ، اور دانش تو باہر کہی کھویا ہوا ہے ، ابھی ہاتھ ہٹا لے گا..پر میں ابھی یہی سوچ ہی رہی تھی کہ اسکا پورا ہاتھ مجھے اپنی ران پہ محسوس ہوا ، اور پھر اسنے آہستہ سے میری ران کو دبا دیا..اسکی اس حرکت سے تو میرے تن بدن سے جیسے جان ہی نکل گئی ، مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ ایسا بھی کر سکتا ہے..میں نے اس کی جانب دیکھا تو وہ ابھی بھی کار سے باہر دیکھ رہا تھا اور اس کا ہاتھ میری ران پہ اپنی حکومت کا دعوی بولنے کی ناحق تیاری میں تھا..میں نے اسکا ہاتھ آہستہ سے پیچھے کو جھٹک دیا اور کار سے باہر دیکھنے لگی
کچھ پل ہی گزرے تھے کہ اس نے پھر سے میری ران پہ اپنا ہاتھ رکھ دیا اور آہستہ آہستہ اسے سہلانے لگا.. دانش کی ان حرکتوں نے میرے جسم کو بےجان اور میرے دماغ کو جیسے مفلوج سا کر دیا تھا..جو ہو رہا تھا وہ غلط تو تھا ہی ، پر کیا ایک بھائی اپنی بہن سے یہ سب کر سکتا ہے؟؟ یہ سوچنا تو میرے دماغ کہ بس میں بھی نا تھا..میری طرف سے اب کی بار کوئی روک ٹوک نہ پا کہ ، جیسے اس میں اور ہمت امڈ آئی تھی
وہ بےخوف میری ران کو اپنے مضبوط ہاتھ سے دبا اور سہلا رہا تھا ، وہ کیا جانے کہ میں کچھ کر کیوں نہیں رہی ، کچھ بول کیوں نہیں رہی ، میرا دماغ کام کر رہا ہوتا تو میں کچھ بولتی بھی ، کچھ کہتی بھی ، پر ............کچھ دیر اور گزری تو مجھے اپنے جسم میں کچھ ہوتا محسوس ہونے لگا ، کچھ عجیب سی کفیت سے دوچار ہونا شروع ہو گئی میں..اک عجیب سی لہر میرے پورے وجود میں دوڑنا شروع ہو گئی...کار میں کافی حد تک اندھیرا چھایا ہوا تھا ، ورنہ اگر اندھیرا نہ ہوتا تو امی ابو نے تو بیک سین دیکھ کر بیہوش ہی ہو جانا تھا.... جوں جوں خالہ کا گھر قریب آتا جا رہا تھا ، دانش کی گستاخیاں بڑتی چلی جا رہی تھی ، اب اس نے میری قمیض کو میری ران پر سے ہٹا کر میرے چوڑی دار پاجامے پر سے میری دونوں بھری بھری رانوں کو سہلانا شروع کر دیا تھا اور ایسے ہی سہلاتے سہلاتے اس نے میری دونوں رانوں کے درمیان بھی اپنا ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا تھا..جسم میں دوڑتی لہر نے اک عجیب سی ہی ہلچل مچا کے رکھ دی ، اور اس ہلچل کہ دوران مجھے اپنی رانوں سے تھوڑا اوپر ، کہی درمیان میں گیلا پن سا محسوس ہوا
خالہ کہ گھر پہنچ کہ میں بمشکل کار سے اتری..کسی عجیب ہی دنیا میں پہنچ چکی تھی میں..یہ لوگوں سے بھری دنیا کو سمجھنے کیلئے میرا دماغ ناکافی سا محسوس ہو رہا تھا مجھے..مجھے اپنا آپ پرایا سا محسوس ہو رہا تھا ، جانے کیوں مجھے سب پراے پراے سے لگ رہے تھے .. عثمان سے رسمی سی سلام دعا ہوئی ، جانے کیوں میں آج اس سے نظریں چرا رہی تھی..سب لیونگ ایریا میں ہی بیٹھ گے اور گپ شپ لگانے لگے..اس سب کے بیچ عثمان نےمجھے سیل پہ میسج کیا.. "" بیگم صاحبہ کہاں کھوئی ہوئی ہیں ؟ سب ٹھیک تو ہے نا ""...میری روح کا وارث تھا وہ شخص ، بھلہ اس سے میری یہ کفیت کہاں چھپ سکتی تھی.. "" کچھ نہیں ، سب ٹھیک ہے "" ... دانش کی طرف ابھی تک مجھے نظر اٹھا کے دیکھنے کی ہمت نہ پڑی تھی
ڈنر کے وقت میرے خالی دماغ میں اک خیال کی آمد ہوئی ، کہ گھر واپس جاتے ہوے پھر وہی کچھ دوبارہ ہو سکتا ہے...میں نے عثمان کو ٹیکسٹ کیا کے ڈنر کے بعد آئس کریم کیلئے چلتے ہیں..انھوں نے ریپلائی کیا کہ میں کچھ سیٹنگ کرتا ہوں
ڈنر سے فارغ ہو کے میں اور عثمان جب آئس کریم پالر کو نکلے ، تو گھر سے آئس کریم پالر اور وہاں سے اپنے گھر تک میں زیادہ چپ ہی رہی..عثمان نے ایک دو بار خاموشی کی وجہ پوچھی بھی ، پر انکے ان سوالوں کے جواب کہاں سے لاتی میں ......اپنے روم میں پہنچ کہ ڈور بند کرکہ ، میں نے لائٹ آن نہیں کی ، نہ ہی میں نے ڈریس چینج کیا ، سینڈلز اتار پھینکے ایک طرف میں نے اور بیڈ پہ لیٹ گئی ، یہ پروا بھی نہیں کی کہ میں نے ٹائٹ قمیض اور چوڑی دار پاجامہ پہن رکھا ہے
بیڈ پہ لیٹ کہ میں گہرے گہرے سانس لینے لگی ، کتنے ہی وقت سے روک رکھے تھے یہ سانس میں نے ، ہاں پھر یوں بھی تو لگا ، جیسے مددتیں بیت چکی تھی ان سانسوں کو روکے ہوے.. کمرے میں میری تیز تیز سانسوں کی آواز جیسے گونجنے سی لگی..کار میں ہوا حادثہ کمرے میں اندھیرے کی پروا کئیے بغیر میری آنکھوں کے سامنے گھوم رہا تھا..کچھ پل بیتے ، پھر کچھ پل اور بیتے ، پھر کچھ اور ، اور پھر وہی گیلا پن مجھے محسوس ہونے لگا
بہت کوشش کی کے میں ہل سٹیشن نہ جاؤں ، پر امی نے ایک نہ سنی اور مجھے ان کے ساتھ جانا ہی پڑا.رستے میں میری توقع کے برعکس دانش نے ویسی کوئی حرکت نہیں کی ، شاید دن کی روشنی میں اسے ہمت نہیں پڑی..ہم شام تک اپنے مطلوبہ ہوٹل میں پہنچ چکے تھے ، وہاں جا کہ ہمیں پتا چلا کا رومز ایڈجسٹمنٹ کرنی پڑے گی..ابو کا روم تو پہلے سے ہی بکڈ تھا ، پر میرے اور دانش کیلئے الگ الگ رومز نہیں مل رہے تھے..ابو نے ہمیں کہا کہ : مجھے اڈوانس بکنگ کرنی چاہیے تھی ، پر اب آپ بہن بھائی ایک ہی روم میں ایڈجسٹ کر لو ، سوری بیٹا..یہ سنتے ہی میرے جسم میں موجود تمام خون جیسے خشک سا ہو گیا
اپنے روم میں پہنچ کہ میں فریش ہونے واش روم چلی گئی ، جب نہا کہ فریش ہو کہ باہر آئی تو ، دانش ریموٹ سے چینل بدل رہا تھا..نہ اسنے مجھ سے کوئی بات کی ، نہ ہی میں نے..وہ خاموشی سے اٹھا اور واش روم چلا گیا
رات کے کھانے کہ بعد جب ہم روم میں آۓ تو ، میں سلیپنگ ڈریس ( ٹراوزر+ فل سلیو شرٹ بٹنز والی ، جو لمبائی میں میرے ہپس سے کافی اوپر تک تھی ) پہننے واش روم چلی گئی.جب میں واش روم سے باہر آئی تو دانش بیڈ ( ڈبل بیڈ ) پہ دوسری طرف منہ کئیے لیٹ چکا تھا..میں نے اپنے ہینڈ بیگ میں سے ایک انگلش ناول نکالا اور بیڈ کہ اپنی طرف والے ٹیبل لیمپ کو آن کیا اور روم کی مین لائٹس آف کر دی..اب روم میں صرف ٹیبل لیمپ کے بلب کی پیلی مدم روشنی پھیلی ہوئی تھی..میں سونا بلکل نہیں چاہتی تھی ، اک عجیب سی بےچینی میرے جسم میں جیسے دوڑ سی رہی تھی اور دوڑتے دوڑتے جیسے میرے جسم کو کاٹ سی رہی تھی
میں نے بیڈ پہ ٹانگیں سیدھی کی اور بیڈ کی بیک سے ٹیک لگا لی اور ناول پڑھنے لگی..ایک سفر کی تھکاوٹ اوپر سے لیمپ کی مدم سی روشنی سے طاری ہونے والی خماری ، جاگتی بھی تو آخر کتنی دیر ، پتا نہیں کب یوں ہی ناول پڑھتے پڑھتے میں سو گئی
سوتے میں ، میں نےایک خواب دیکھا کہ میرے جسم پہ کچھ رینگ رہا ہے ، جس سے وہی انجان لہریں میرے جسم میں ناچ رہی ہیں ، میرے مظبوط ارادوں کو توڑ پھوڑ کے ، میرے جذبات کو بہکا رہی ہیں ، میں ان لہروں کے سحر سے نکل کے بھاگ جانا چاہتی ہوں ، پر اس سحر کا نشہ مجھے کہی بھاگنے نہیں دے رہا ہوتا...پھر آہستہ آہستہ میں ہوش کی دنیا میں واپس آنا شروع ہوئی ، اور آنکھیں بند کئیے ہوے ، مگر جاگ گئی..جاگنے پر مجھے جس چیز کا علم ہوا وہ یہ کہ ، وہ خواب نہیں سب حقیقت تھا..دانش نے میری شرٹ کے سارے بٹن کھول رکھے تھے اور میری برا کے اوپر سے میرے سینے کے ایک ابھار کو آہستہ آہستہ دبا رہا تھا..میں مزے کے اک عجیب دنیا میں اڑتی پھر رہی تھی..اس کے بازو پہ اُگے چھوٹے چھوٹے بال میرے ملایم پیٹ میں چب کر مجھے اک عجب ہی نشہ بخش رہے تھے
میں چاہ کہ بھی اسے روک نہیں پا رہی تھی..میں بیڈ سے ٹیک لگاۓ ٹانگیں بیڈ پہ سیدھے کئیے لیٹی رہی اور اسے یہ کھیل کھیلنے دیتی رہی..کچھ دیر بعد میرا من کیا کے میں اسے یہ کھیل کھیلتے ہوے دیکھوں بھی..میں نے آہستہ سے اپنی آنکھیں بہت ہی معمولی سی کھولی..دانش بیڈ پہ میری طرف منہ کر کے لیٹا مجھے ہی دیکھ رہا تھا ، اس نے مجھے آنکھیں کھولتے دیکھ لیا تھا ، سو میں نے پوری آنکھیں کھول دی..شاید جسم میں دوڑتے نشے نے مجھے اتنی ہمت بخش دی تھی کہ میں یوں اس سے نظریں ملا بیٹھی تھی..آنکھیں کھلی پر ہوش نام کی چیز سے میں جسے بیگانی ہو چکی تھی..ہم ایک دوسرے کی نشے میں ڈوبی آنکھوں میں ڈوب کہ جیسے نشہ لے رہے تھے
دانش میرے سینے کا ابھار دباتے دباتے بیڈ پہ اٹھ بیٹھا ، اور آگے کو جھکتے ہوے اسنے ، میری بلیک برا کو اپنے دونوں ہاتھوں سے ، میرے دونوں ابھاروں پر سے ہٹا دیا..دانش نے اک پل میرے ابھاروں کو دیکھا ، کسی بھوکھے کی طرح ، کسی پیاسے کی طرح ، اور پھر آگے کو جھک کر میرے لیفٹ ابھار پہ منہ مارنے لگا. میرے ابھار بھی شاید صدیوں کے ترسے ہوے تھے ، سو کسی مرد کے چھونے سے ، اکھڑ چکے تھے ، یوں جسے انہوں نے پتا نہیں کیا فتح کر لیا ہو ؟؟..آہوں کا اک سلسلہ میرے منہ سے جاری ہو چکا تھا ، جیسے سنتے ہی دانش کسی وحشی کی طرح میرے دونوں ابھاروں پہ ٹوٹ سا پڑا تھا ، شاید میری آہیں اسکی وحشت میں اضافے کا باعث بنی..میں نے اپنے دونوں ہاتھ دانش کہ سر پر آرام سے رکھ دیے..وہ جب میرے ایک ابھار کو منہ میں ڈالتا ، تو میں بھی اپنے ہاتھوں سے اسکے سر کو اپنے ابھار کی طرف دباتی ، ، میرا گول گیلا اکھڑا ہوا ابھار اسکے گیلے منہ سے پھسلتا ہوا نکل جاتا
کیا عجب غضب دنیا تھی ، جس میں میرا بھائی مجھے لے گیا تھا..اچانک وہ پیچھے ہوا اور اس نے بیڈ سے ٹیک لگا لی اور ٹانگیں بیڈ پہ سیدھی کر لی.میں ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ وہ پیچھے کیوں ہٹا ، کہ اتنے میں وہ خود ہی بولا : سندس باجی میری گود میں آ کہ بیٹھ جائیں..مجھے پتا نہیں کیا ہوا ہوا تھا ، میں اسکی نشے میں ڈوبی آواز سنتے ہی اس کی گود میں جا بیٹھی..اب میری ٹانگیں اسکی ٹانگوں کے اوپر تھی اور میری پیچھے کی بھاری برکم پہاڑیوں میں کوئی سخت موٹی چیز دنس چکی تھی ، اور میری پیٹھ اسکے سینے سے جا لگی تھی ..سرور کی ان گنت لہریں میرے جسم کو آگ لگاۓ ، میرے جسم کو اس میں جلا رہی تھی ، شاید مجھے راکھ کرنے کی تیاری میں تھی
آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ سندس باجی سکون دے دیا ہے آپ نے مجھے ، اف آہ ..دانش کی نشے میں ڈوبی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی...مجھے بھی کوئی کم سکون نہیں دیا تھا اسنے.. تھوڑی ہی دیر گزری کہ اسنے مجھے کہا : باجی تھوڑا اوپر اٹھیں .. میں جہاں بیٹھی تھی میرا وہاں سے اٹھنے کا بلکل من نہیں تھا ، پر نہ چاہتے ہوے بھی میں آگے کو ہوئی اور میں نے اپنی ٹانگیں دانش کی ٹانگوں سے ہٹا کر بیڈ پہ رکھی اور اپنے لیفٹ ہاتھ کو بیڈ پہ رکھتے ہوے اسکے زور پہ اپنے جسم کو دانش کے جسم سے جدا کیا..میرے ایسا کرتے ہی اسنے میرے ٹراؤزر کو میرے گٹنوں سے بھی نیچے تک کر دیا..جب جب وہ مجھے مزید سے مزید ننگا کرتا جا رہا تھا تب تب ، وہ مجھے مستی کی اک الگ ہی وادی کی سیر کروا ڈالتا..""سندس باجی اب بیٹھ جائیں ""...میں کسی سخت چیز کی جدائی میں جیسے بےحال سی ہوئی ، ہوا میں لٹکی تھی ، میں نے اک پل اور نہ گزرنے دیا اور پھر سے دانش کی گود میں بیٹھ کے اسکے سینے سے ٹیک لگا لی اور اپنی ٹانگیں اسکی ٹانگوں پہ رکھ لی...آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ، مجھے پتا بھی نہ چلا تھا اور دانش نے اپنا ٹراؤزر بھی نیچے کر دیا تھا..اسکی ڈنڈے کی طرح وہ سخت گلابی چیز میری بھری بھری سفید نرم رانوں کہ بیچ دبنے گئی.دانش نے پھر سے میرے ابھاروں کو اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام لیا..وہ نشے میں جھومتا ہوا بولا : آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ باجی آپ کی گانڈ بہت موٹی اور وزنی ہے
اسکی اتنی بیہودہ بات سن کے مجھے ذرا سا بھی بُرا نہیں لگا ، پر نجانے کیوں اسکی اس بات کو سن کے مجھے بےحد لطف نصیب ہوا ، اک اور ہی عجیب انوکھی سرور کی لہر نے میرے بدن میں جنم لیا.. "" باجی آپ کو میرا لن کیسا لگا ؟ دیکھو کتنا لمبا ہے آپ کی رانوں سے بھی باہر کو نکل آیا ہے ""..اسنے ایک اور بیہودگی سے بھرپور بات اور سوال کر ڈالا ...میں نشے کی وادیوں میں ننگی گھومتی ، نشے میں ڈگمگاتی بولی : اف آہ ہ ہ ہ بہت سخت ہے تمہارا ، بہت گرم بھی ، اس کی گرمی نے مجھے پاگل سا کر دیا ہے...وہ تڑپ کہ بولا : آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہممم ، اسے پکڑ کر اپنی پھدی پہ پھیرو نا... ابھی پہلے نشے کو سہنا مشکل ہو رہا تھا کہ اک اور ہی آگ اسنے میرے اندر لگا ڈالی..اچانک میرے سیل فون کی بیل مجھے سنائی دی
میں جانتی تھی کہ کال کس کی ہو گی ، سو میں نے سیل فون کی طرف نہیں دیکھا..دانش نے اپنا لیفٹ ہاتھ میرے ابھار پر سے ہٹا کے سیل اٹھایا اور میرے سامنے کیا.سیل فون کی سکرین پہ ''' سول میٹ کالنگ ''' لکھا آ رہا تھا ..پھر دانش نے وہ کام کیا جسکا کا میں کبھی خوابوں میں بھی نہیں سوچ سکتی تھی..اسنے کال اٹنڈ کر کے سپیکر آن کر دیا..دوسری جانب سے عثمان بولے : ہیلو بیگم صاحبہ ، کیا حال چال ہیں..عثمان کی آواز سنتے ہی مجھے یوں لگا کے جیسے محبت اپنی پوری طاقت لگا رہی ہے ، اور مجھے نشے کی اس دنیا سے باہر نکالنا چاہ رہی ہے ، پر میں بہت دور ، بہت ہی دور نکل چکی تھی..ہاں جب محبت نے اپنی طاقت مجھ پہ آزمائی ، اور میں نے واپس نہیں جانا چاہا ، تب اک آنسو میری آنکھ سے نکلا اور میرے گالوں سے ہوتا ہوا کچھ پل کو میری تھوڑی پہ رکا اور پھر وہاں سے نیچے میرے ننگے ابھاروں کے درمیان کی لکیر میں کہی گم ہو گیا.. "" ٹھیک ہوں "" ... عثمان نے کہا : کہاں بیٹھی ہو ، تمہاری آواز ٹھیک سے نہیں آ رہی؟؟..میں نے اپنی رانوں کو تھوڑا سا کھولا اور دانش کا گلابی موٹا سخت ہوا لن ، اپنے دائیں ہاتھ میں تھاما ، اور پھر اسے اپنی نرم و ملایم پر گیلی ہوئی پھدی کے ہونٹوں کے ساتھ لگا کر آہستہ آہستہ رگڑنا شروع کر دیا ، جس سے میں لذت کہ اک جہاں میں گم ہوتی چلی گئی
لذت مجھ پہ حاوی ہو کہ مجھے اپنے ساتھ ، اپنے اس جہاں میں لے گئی تھی ، اور محبت ، محبت شاید یہ سب نہ سہتے ہوے شرم سے مر گئی تھی
the END
ایک تبصرہ شائع کریں for "بھائی یا شوہر ؟"