علیزہ کوچنگ اکیڈمی جانے کیلئے تیار ہورہی تھی اس دوان ڈریسنگ ٹیبل پر رکھے اسکے موبائل کی اسکرین وقفے وقفے سےروشن ہو رہی تھی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر موبائل اٹھا کر چیک کیا تو دیکھا کہ ناصر کے آٹھ میسجز آئے ہوئے تھے۔اس نے باری باری تمام میسیجز چیک کئےجس میں ناصر نے ایک ہی سوال پوچھا تھا کہ وہ کوچنگ کب تک پہنچے گی؟
علیزہ نے رپلائی کیا کہ چار بجے تک۔یعنی ٹھیک پندرہ منٹ بعدوہ ناصر کو اکیڈمی پر ملے گی۔
ناصر کےساتھ علیزہ کی دوستی ابھی مہینہ پہلے ہی شروع ہوئی تھی اور وہ اسکا محلہ دار بھی تھا ۔علیزہ محلہ کی سب سے خوبصورت "بچی " تھی جو ناصر کی ذرا سی محنت سے اس کی جھولی میں آگری تھی۔آج کے دور میں موبائل پر لڑکوں لڑکیوں کی دوستی کا ہوجانا ایک عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔سو ناصر نے بھی موبائل کا ہی سہارا لیکر علیزہ سے دوستی کی تھی۔مگر دونوں کی یہ دوستی ابھی صرف فون پر بات چیت تک ہی محدود تھی۔ علیزہ اگرچہ آج کے دور کی لڑکی تھی مگر ناصر کے پرزور اصرار پر بھی وہ اس کے ساتھ باہر ملنے کےلئے رضامندنہیں تھی وہ جانتی تھی کہ بوائے فرینڈز اپنی گرل فرینڈز سے باہر کیوں ملنا چاہتے ہیں۔ اس لئے وہ ہمیشہ ناصر کو کوئی بہانہ بنا کر ٹال دیا کرتی تھی۔جبکہ ناصر جلد از جلد وہ مقصد حاصل کرنا چاہ رہا تھا جس کے لئے اس نے علیزہ جیسی حسین آفت کواپنی محبت کے جال میں پھنسایا تھا۔ ناصر کا اصرار جب حد سے بڑھنے لگا تو علیزا نے اک بار پھر اسے ٹالنے کی کوشش کی :ناصر مجھے ڈر لگتا ہے اگر کسی نے مجھےتمھارے ساتھ باہر دیکھ لیا تو میری شامت آجائیگی۔
جوابا" ناصر اسے تسلی دیتا کہ کچھ نہیں ہوتا یار ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے تم فکر مت کرو کسی کو پتہ نہیں چلے گا اور اگر کسی نے دیکھ بھی لیا تو میں اسکا منہ بند کرنا جانتا ہوں۔(اسکا یہ کہنا کسی حد تک صحیح بھی تھا کیونکہ وہ شہر کی اک با اثر سیاسی پارٹی کا سرگرم کارکن بھی تھا جسکی وجہ سے علاقہ میں اسکا کافی رعب اور دبدبہ تھا)
لہذا ناصر کے بہت ہمت دلانےاور اصرار پر آج وہ پہلی بار اس کے ساتھ ڈیٹ پر جانے کے لئے تیار ہوئی تھی۔لیکن اس نے دل میں سوچ لیا تھا کہ اگر ناصر نے اس کے ساتھ کچھ ایسا ویسا کرنے کی کوشش کی تو وہ اسے ایک خاص حد سے آگے بڑھنے نہیں دیگی ۔پروگرام یہ طے ہوا تھا کہ جب وہ کوچنگ پہنچے گی تو ناصر اسے وہاں سے پک کر لےگا۔
مگر مسئلہ یہ تھا کہ علیزہ کے ساتھ اسکی چھوٹی بہن پری شاہ بھی اسکے ساتھ کوچنگ جاتی تھی۔پری شاہ میٹرک کی اسٹوڈینٹ تھی جبکہ علیزہ فائنل ائیر میں تھی۔
علیزہ نے ناصر کو جب یہ مسئلہ بتایا تو اس نے جواب دیا کہ کوئی بات نہیں ہم پری شاہ کو بھی اپنے ساتھ لے چلیں گے۔ویسے بھی وہ ہماری رازدار تو پہلے سے ہی ہے۔ناصر کی اس بات سے علیزہ کو کچھ اطمینان ہوا کہ پری شاہ کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ناصر اس کے ساتھ کچھ ایسا ویسا نہیں کرے گا۔
مگر یہ اس کی غلط فہمی تھی۔ناصر کی حقیقت اک پلے بوائے کی تھی جو لڑکیوں کو اپنی جھوٹی محبت یا دوستی کا جھانسہ دیکرانکے جسموں سے کھیلتا تھا۔ان چھوئی کلیوں کا رس پینا اس کا مشغلہ تھااور جب کسی لڑکی سے اس کا دل بھر جاتا تھا تو وہ اسے چھوڑ کر کسی نئی کلی کی تلاش شروع کر دیتا۔علیزہ بھی اس کے لئےاپنی جنسی پیاس کی تسکین کا محض ایک ذریعہ تھی۔
علیزہ ٹھیک چار بجے پری شاہ کے ساتھ اکیڈمی پہنچ چکی تھی جہاں کچھ فاصلے پر ناصر اپنی کار میں بیٹھا انکا منتظر تھا۔
علیزہ اور ناصر کے درمیان چل رہے معاملے کا پری شاہ کو مکمل علم تھاکیونکہ دونوں بہنیں ایک ہی کمرہ استعمال کرتی تھیں اور علیزہ پری شاہ کی موجودگی میں ہی ناصر کے ساتھ گھنٹوں فون پر باتیں کیا کرتی تھی۔آج کے پروگرام کے بارے میں علیزہ نے رات کو ہی پری شاہ کو بتا دیا تھا۔لہذا دونوں آرام سے چلتی ہوئی بجائے اکیڈمی میں داخل ہونے کے ناصر کی کار میں جا بیٹھیں۔ ان کے بیٹھتے ہی ناصر نے جھٹکے سے کار آگے بڑھادی۔
دس منٹ بعد ناصر دونوں کو لئے ایک فلیٹ میں تھا ۔یہ فلیٹ اسکے دوست وسیم کی ملکیت تھا جسے دونوں دوست صرف عیاشی کے لئے استعمال کرتے تھے ۔کبھی اکھٹے اور کبھی الگ الگ۔علیزہ فلیٹ کو خالی پاکر گھبرا سی گئی تھی مگر پری شاہ کے ساتھ ہونے کی وجہ سے تھوڑی مطمئن بھی تھی۔
ناصر!تم مجھے یہاں کیوں لائے ہو؟ علیزہ نے سوال کیا ۔
تاکہ تمھیں یہ ڈر نہ ہو کہ کوئی ہمیں دیکھ نہ لے۔یہاں ہم سکون سے بیٹھ کر باتیں کرینگےاس کے بعد میں تمھاری کلاس ختم ہونے کے ٹائم پر تمہیں کوچنگ چھوڑ دونگا۔ناصر نے علیزہ سے کہا۔
ٹھیک ہے۔علیزہ بولی۔
ارے پری شاہ تم یہاں آؤ نا، میں تمہیں کچھ دکھاتا ہوں،ناصر نے پری شاہ کو مخاطب کیا جو فلیٹ کی ڈیکوریشن میں کھوئی ہوئی تھی۔
کیا ناصر بھائی؟ پری شاہ نے پوچھا۔
ناصر نے اسکا ہاتھ پکڑا اور ڈرائنگ روم میں لے گیا، جہاں بالکل سامنے کی دیوار پر 60 انچ کی ایل ای ڈی لگی ہوئی تھی اور ساتھ ہی ساونڈ سسٹم بھی نصب تھا، یہ ایک لگژری فلیٹ تھا،ناصر نے ریموٹ اٹھا کر اسکرین آن کی اور ریموٹ پری شاہ کو تھماتے ہوئے کہا کہ تم یہاں اپنی پسند کی کوئی بھی مووی انجوائے کرو،فریج میں ڈرنکس وغیرہ موجود ہیں جو لینا ہو بلا تکلف لے لینا۔او کے۔
اور ہاں جب تک ہم نہ بلائیں آپ یہیں رہنا ٹھیک ہے؟
ٹھیک ہے ناصر بھائی۔ پری شاہ مسکراتے ہوئے بولی ۔
گڈ گرل!!!! ناصر نے پیار سے پری شاہ کے ملائم گال تھپتھپائے اور ڈرائنگ روم سے نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناصر ایک ہاتھ علیزہ کی گردن میں ڈالے اس کے نرم و ملائم ہونٹ چوس رہا تھاجبکہ دوسرا ہاتھ وہ اسکی قمیض کے اندر ڈالے اسکےمخروطی ابھاروں کوسہلا دبا رہا تھا۔ علیزہ اس کیفیت میں تھی کہ جس کا نام کوئی عورت نہ جان سکی،اس کیفیت کو کیا کہتے ہیں وہ تو علیزہ بھی نہیں جانتی تھی مگر یہ ایسا تھا کہ علیزہ کہہ رہی تھی کہ پلیز ناصر مت کرو،مگر دل سے چاہ رہی تھی کہ رکو مت،اس سے بھی آگے جاؤ۔ اس کا ضمیر اور شریف ماں باپ کی اولاد ہونے کی تربیت کہہ رہی تھی کہ ناصر یہ غلط ہے اور جسم کی بڑھتی طلب کہہ رہی تھی کہ تم میری مت سنو اور زبردستی کر ڈالو۔
علیزہ نے شروع میں تھوری مزاحمت کرنے کی کوشش کی تھی مگرناصر جیسے شکاری کے آگے اس کی ایک نہ چلی اور اسکو ہار ماننی پڑی ۔ اب وہ اسکی اعضائی چھیڑ چھاڑسے بھر پور لطف اندوزہوتے ہوئے اس کی بانہوں میں سسک رہی تھی جسم ہولے ہولے کپکپا رہا تھا۔
علیزہ کا دماغ کہتا تھا کہ یہ کرنا شدید برائی ہے اور جسم کا انگ انگ کہہ رہا تھا کہ میں تھوڑا کر رہی ہوں ناصر کر رہا ہے۔ میں نے تو منع کیا ہے اور وہ میری سننے کو تیار نہیں۔ذہن کے اندر دہائیاں چل رہی تھیں کہ ناصر رک جاؤ جبکہ شلوار کے اندر سے وہ تمنا کر رہی تھی کہ کاش ناصر میری ہر بات کو نظرانداز کر دے اور مجھے برباد کر دے۔
تنہائی ہو ،دو جوان جسم ہوں،اور موقع بھی ہو تو بہکنا لازم ہو جاتا ہے، علیزہ بھی بہک رہی تھی اور کیوں نہ بہکتی ناصر جیسے شخص کا ساتھ جو تھا وہ بن کھلی کلیوں کو اپنے نیچے لٹانے کا ہنر خوب جانتا تھا،یہ سیکس میں اس کی مہارت ہی تھی کچھ ہی دیر میں علیزہ کی قمیض بمع برا کے اسکے قدموں میں اور شلوارگھٹنوں میں تھی ۔
یہ سب بھی مرحلہ وار ہوا تھا،جب ناصر نے پستان پکڑا تھا تو وہ بدک گئی تھی کہ ناصر نہیں،یہاں مت چھوؤ۔ شریف گھرانے کی لڑکیاں تو اپنے زیرجامے بھی کسی غیر مرد کو نہیں دکھا پاتیں،یہ تو اصل متنازعہ عضو کو پکڑ رہا ہے۔اف توبہ۔
اس نے ہونٹوں کو چوستے چوستے جب وہی عمل قمیض کے اندر ہاتھ ڈال کر کیا تو بدکنا سسکنے میں بدل گیا۔ناصر ہونٹوں کو چوستے گردن پر پہنچا اور یہاں سے نیچے قمیض کا پہرا تھا۔ ناصر نے قمیض اٹھائی اور برا ہٹا کر نپل پر زبان پھیری۔وہ ناگواری جو پہلی بار چھاتی کو چھونے میں محسوس کی تھی وہ لیس دار پانی کی بوند کے ساتھ شلوار میں بہہ گئی۔
اس کے کب قمیض اتری اور کب برا کی ہک کھل گئی،علیزہ کو پتا ہی نہ چلا۔ اس نے ناصر کو خود کو بےلباس کرنے کی اجازت نہیں دی تھی مگر سچ یہ تھا کہ ناصر نے اجازت طلب کی ہی نہیں تھی۔
وہ بیڈ پر سیدھی لیٹی ہوئی تھی ناصر اسکے اوپر لیٹا اپنا وزن اس پر ڈالے اسکے ایک نپل کو منہ میں میں لیکر چوس رہا تھاجبکہ دوسرے ہاتھ کی انگلی اور انگوٹھے کی مدد سے اسکے دوسرے ابھار کے گلابی نپل کو مسل رہا تھا۔علیزہ جیسے اسکی بانہوں میں مچل رہی تھی اسکے لبوں پہ دھیمی دھیمی سسکیاں تھیں اور جسم میں جیسے آگ سی لگی ہوئی تھی۔ناصر باری باری دونوں مموں کو چوس رہا تھا کبھی نپلز کو کاٹ بھی لیتا ۔علیزہ مزے سے پاگل ہو رہی تھی۔ جن نپلز کو محض چھاتی کا وزن سمجھتی تھی آج وہ اسے لطف کی اونچائی پر لے جا رہے تھے۔
وہ اسکی گردن کو پیار کرتا ہوا کندھوں اور پھر ناف پر آگیا۔جونہی اس نے علیزہ کی ناف میں زبان گھمائی وہ زور سے سسک اٹھی۔وہ کچھ دیر ایسے ہی پورے جسم کو چومتے چاٹتے اسکی کمسن اور کنواری چوت پر آگیا۔
بالوں سے پاک ،نرم، گلابی اور ابھری ہوئی چوت دیکھ کر ناصر کے منہ میں جیسے پانی ہی آگیا تھا۔اس نے نرمی سے چوت کی بند دراڑ میں انگلی پھیری تو محسوس کیا کہ چوت کے دونوں لب آپس میں سختی سے ایسے جڑے ہوئے تھے جیسے کبھی جدا نہیں ہونگے۔ناصر نے انگلی اور انگوٹھے کی مدد سے چوت کے لبوں کو کھولااور درمیانی انگلی سے اسکے گلابی دانہ شہوت کو رگڑنے لگا۔علیزہ کے منہ سے بے اختیار "آہ" نکل گئی۔
یہ اسکا سیکس کا پہلا تجربہ تھاوہ اپنے جسم میں مزے کی لہروں کو باقاعدہ محسوس کر رہی تھی۔اور یہ آہ کچھ اور بلند ہو گئی جب ناصر نے اپنی انگلی اسکی چوت مین ذرا سی داخل کی۔وہ مزے میں ڈوبی ہوئی ہواوں میں اڑ رہی تھی۔ہلکی سی تکلیف کا احساس تب ہوا جب ناصر نے آدھی انگلی اسکی چوت میں گھسادی۔
ناصر پلیز درد ہو رہا ہے اندر مت کرو یار۔ وہ تکلیف سے بولی۔
میری جان یہی درد تو بعد میں مزہ دیتا ہے۔یہ کہتے ہوئے ناصر نے انگلی تھوڑ ی سی باہر نکالی اور پھر اندر داخل کردی۔یہ عمل پانچ سے چھ بار کیا جس سے علیزہ کی چوت مین گیلا پن آگیا تھا۔ناصر سمجھ گیا کہ "اب وقت آگیا ہے" ۔
اس نے بیڈ کی دراز میں سے اولیو آئل کی بوتل نکالی اور تھوڑا سا آئل اپنی ہتھیلی پر انڈیل کرلن پر اچھی طرح لگالیا۔اسکے بعد اس نے علیزہ کے گھٹنوں کوبیڈ سے تھوڑا سا اوپر اٹھایااور ٹانگوں کو کھول کر انکے درمیان میں بیٹھ گیاایک ہاتھ سےچوت کے لبوں کو کھولا اور دوسرے ہاتھ سے اپنے لن کو پکڑکرچوت کے سوراخ پر ٹکادیا۔علیزہ نے چونکہ فور پلے کو انجوائے کیا تھا اسی لئے اسکی چوت قدرے گیلی تھی جسکی وجہ سے ناصر نے جیسے ہی چوت پر اپنے لن سے دباو ڈالا لن کا حشفہ چوت میں داخل ہو گیا۔علیزہ کے چہرے پر صاف تکلیف کے آثار نظر آئے۔ بس تھورا سا اور برداشت کرلو جان، اسکے بعد پھر یہ تکلیف دوبارہ نہیں ہوگی۔یہ کہہ کر ناصر نے ایک زوردار دھکا مارا ۔اور لن پردہ بکارت کو اپنے ٹوپے تلے روندتا ہوا چوت کی گہرائیوں میں غائب ہوگیا۔علیزہ کے نازک لبوں سے ایک زوردار چیخ نکلی۔ناصر کے ہاتھ اگر اس کے ہونٹوں پر نہیں ہوتے تو شائدبرابر والے روم سے پری شاہ کو آجانا تھا جو یہاں اپنی بہن کی حالت سے بے خبرمزے سے کوک کا کین ہونٹوں سے لگائےاپنی من پسند مووی دیکھ رہی تھی۔
یار بہت درد ہو رہا ہے ہٹ جاو پلیز۔علیزہ تقریبا روتے ہوئے بولی۔
بس میری جان درد کا ٹائم چلا گیا ۔اب زندگی بھر انجوائے کرو۔یہ کہہ کر ناصر نے نیچے سے ہلکا ہلکا ہلنا شروع کردیا۔اگرچہ چوت ٹائیٹ تھی مگر تھوڑی ہی دیر میں لن چوت میں رواں ہو گیا۔
علیزہ کو درد کا احساس تھورا کم ہو گیا تھا اور اب اس کو بھی کچھ کچھ مزہ آنے لگا تھا۔ویسے بھی ننگی حالت میں ایک ننگے مرد کے نیچے لیٹنے اور اپنے جسم سے اس کا جسم مسلا جانا خود اپنے آپ میں ایک سرور ہے۔چوت میں چلنے والی کاروائی تو بونس تھی۔ لن کا سب سے موٹا حصہ اس کی ٹوپی تھا جو اندر تھا،اب باہر رہنے والا حصہ درد نہیں کر رہا تھا۔
ٹوپی بھی اندر کی چکناہٹ کی بدولت پھسل رہی تھی اور اس کی چوت کی دیواروں میں لطف بھری رگڑ لگ رہی تھی۔
ناصر نے اپنی اسپیڈ بڑھادی تھی اور وہ اب زور زور سے دھکے لگا رھا تھا۔اسکا ہر دھکا علیزہ کو ہواوں میں اڑا رہا تھا۔سات آٹھ منٹ اسی طرح تیز تیز چودتے ہوئے وہ ایک بھرپور آرگیزم لیکر علیزہ کی چوت میں ہی فارغ ہوگیا۔اسکے لن سے منی دھار کی صورت میں خارج ہوئی تھی جسے علیزہ نے اپنی چوت میں گرتے ہوئی محسوس کیا تھا۔
اسے پہلی بار پتا چلا کہ مرد کا منی کس قدر زور سے عورت کی چوت میں خارج ہوتا ہے اور عورت کو مرد کا چھوٹنے کا بڑی وضاحت سے پتا چل جاتا ہے۔
اس دھواں دھار پہلی چدائی کے بعد علیزہ میں اٹھنے کی بھی ہمت نہیں تھی۔ ناصر نے فریج میں سے اسے فریش جوس نکال کر دیا جسے پینے کے بعد اس کے حواس کچھ بحال ہوئے اور وہ اٹھ کر واش روم کی طرف چلدی۔ واش روم جا کر اس نے ناصر کی منی اور اپنے پردہ بکارت کے پھٹنے سے نکلنے والے خون سے اپنی چوت کو اچھی طرح واش کیا پھر ایک مختصر سا شاور لیکر واش روم سے باہر آکر اپنے کپڑے پہننے لگی۔ وہ چوت کے لبوں اور سوراخ کے دہانوں میں درد محسوس کر رہی تھی مگر چوت میں گہرائی اور اندورنی حصوں میں لطف کی لہریں تھرتھرا رہی تھی۔ ایسا لگا رہا تھا جیسے جسم کے ساتھ کوئی وائربیشن والا موبائل اٹیچ کیا ہواور لطف بھری گدگدی ہو رہی ہو۔
اس ساری کاروائی میں چالیس منٹ صرف ہوئے۔اور اگلے بیس منٹ بعد وہ دوبارہ اکیڈمی کے گیٹ پر تھے۔ مگر اس سے پہلے ناصر علیزہ کو ٹیبلیٹ کھلانا نہیں بھولا تھا۔وہ کبھی کنڈوم استعمال نہیں کرتا تھا۔اسکی واحد وجہ یہ تھی کہ اس کےنیچے آنے والی ہر لڑکی کنواری ہی ہوتی تھی۔
تجھے کیا بتاۓو یار کیا غضب کا مال ہے۔مکھن ملائی ہے بالکل۔دودھ جیسی سفید ۔ہاتھ لگاو تو میلی ہوجائے۔جس جس کے بھی نیچے لیٹے گی اس کی تونکل پڑے گی۔ ناصر اپنے دوست وسیم کوعلیزہ کے ساتھ ہونے والی پہلی چدائی کا احوال سنا رہا تھاجسے وسیم ہوس کی تصویر بنےبڑے انہماک سے سن رہا تھا ۔وہ فلیٹ جس میں ناصر نے علیزہ کو چوداتھا وہ وسیم کا ہی تھا۔ناصر کو جب بھی کسی گرل فرینڈز کی لینا ہوتی تھی وہ بلا جھجک وسیم سے فلیٹ کی چابی مانگ لیتا تھااور وسیم نے بھی کبھی ناصر کو فلیٹ کےلئے انکار نہیں کیا تھاکیونکہ ایک تو ناصر اسکا دوست تھا دوسرے یہ کہ ناصر ایک مظبوط سیاسی حیثیت رکھتا تھاجسکا وسیم وقتا فووقتا فائدہ اٹھاتا رہتا تھا۔ ناصر کئی بار آڑے وقتوں میں اسکے کام آیا تھا۔اسوقت یہ دونوں محلہ کے قریب واقع یک پارک میں موجود تھے۔ابھی یہ دونوں باتیں ہی کر رہے تھے کہ عرفان وہاں آٹپکا۔
کیا حال چال ہیں بھائی لوگوں؟کیا میٹنگ چل رہی ہے؟
عرفان انکے قریب آکر گھاس پہ ہی بیٹھ گیا۔
کچھ نہیں یار۔تم سناو کہاں آوارہ گردی کررہے ہو؟ناصر نے پوچھا
ارے کہیں نہیں ناصر بھائی۔بس زرا یونہی ٹہلتا ہوا پارک کی طرف نکل آیا تمھیں بیٹھے دیکھا تو اسی طرف آگیا۔
عرفان علیزہ کا کزن اور تقریبا" اسکا ہم عمر بھی تھا۔علیزہ اسکی چچا زاد تھی۔
آپ سناو ناصر بھائی کسی مہ جبیں کا انتظار ہو رہا کیا پارک میں؟عرفان نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
نہیں یار تجھے تو معلوم ہے کہ تیرا بھائی پارک وغیرہ کے چکروں میں پڑکر اپنا وقت ضائع نہیں کرتا۔بس بچی سیٹ کی اور لے گئے سیدھے فلیٹ پر۔ادھر کپڑے زرا نیچےہوئے ادھر ٹانگیں پوری اوپر۔۔ ہاہاہاہاہا۔
ناصر نے فخر سے اتراتے ہوئے کہا۔
ہاں یار یہ بات تو ماننے والی ہے تمہاری۔ویسے ناصر بھائی کبھی ہمیں بھی دیدار کرادو کسی پھدی کا۔قسم سے اب تو مٹھ میں بھی مزا نہیں آتا۔عرفان ایسی لاچاری سے بولا کہ ناصر اور وسیم کی ہنسی نکل گئی۔عرفان ان لڑکوں میں سے تھا جنہوں نے چوت صرف پورن موویز یا ننگے رسالوں میں ہی دیکھی تھی و رنہ حقیقت میں تو اسکا چوت سے تعلق صرف اتنا تھا کہ یہ ا س میں سے نکلا تھا۔ ایسے لڑکے اول تو کوئی لڑکی پھنسا نہیں پاتے اور اگر اتفاق یا بد قسمتی سے(لڑکی کی)کوئی پھنس بھی جائےتو اسکو جگہ یا موقع نہ ہونے کیوجہ سے چود نہیں پاتے۔
یار ایک بچی ہے تو سہی مگر وہ تجھ سے چدنے پر راضی نہیں ہوگی۔ناصر نے کہا۔
کیوں راضی نہیں ہوگی بھائی؟عرفان نے استفسار کیا،
پہلی بات تو یہ کہ وہ ایک شریف گھر کی ستھری بچی ہے مطلب جگہ جگہ چدنے والی نہیں ہے۔میں نے خود اسے مشکل سے باہر بلا کر چودا ہے۔اور دوسری بات یہ کہ وہ تجھے اچھی طرح جانتی ہے۔اسلئے تجھے نہیں دیگی کہ کہیں میرا راز نہ کھل جائے۔ناصر نے اسے سمجھایا۔ کون ہے وہ اور مجھے کیسے جانتی ہے؟ عرفان نے سوال کیا۔
تیری کزن ہے تو تجھےجانے گی ہی نہ بھائی۔ناصر نے ایکدم ہی دھماکہ کردیا۔
مم میری کزن؟؟؟؟؟ عرفان ہکلایا۔
ہاں تیری کزن۔ناصر نے اسی کے انداز میں جواب دیا۔کک کونسی کزن؟ ناصر نے تھوک نگلتے ہوئے پوچھا۔
علیزا۔ تیری چچا زاد یار۔یہ سنکر اب تو عرفان کے چہرے کا رنگ ہی اڑ گیا۔اسکی حالت دیکھنے والی تھی۔
کیا بات کر رہے ہو ناصر بھائی؟کیا تم نے واقعی علیزہ کو چود دیا ہے؟عرفان کو یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کی بھولی بھالی اور معصوم دکھنے والی کزن ناصر سے چد گئی ہے۔
تو کیا میں مذاق کر رہا ہوں ۔ بھائی گھر کی مرغی گھر والوں سے تو بچ سکتی ہے مگر محلہ والوں سے نہیں۔ناصرنے عرفان پر طنز کرتے ہوئےکہا۔
کہہ تو تم صحیح رہے ہو ناصر بھائ مگر اپنی ایسی قسمت کہاں کہ علیزہ جیسی بچی پہ ہاتھ صاف کریں۔ عرفان افسردگی سے بولا۔
او بھائی قسمت ،تقدیر یہ سب بیکار کی باتیں ہیں ہمت ہونی چاہیں بندے میں ہمت۔جس میں دم ہو وہ بازی مار لے ورنہ ساری عمر صرف مٹھ ہی مارتا رہے۔ وسیم گفتگو میں پہلی بار شامل ہوا۔
یار کسی طرح مجھے بھی دلادو علیزہ کی۔عرفا ن باقاعدہ ناصر کی مننت کرنے لگا۔
مشکل ہے یار یہ کام میں نہیں کرسکتا۔دیکھو دوست کوئی اور کام ہو تو بتانا البتہ چوت اپنی اپنی۔اور ویسے بھی ابھی تو وہ میری گرل فرینڈ ہے ۔ناصر بولا۔
یہ سب مجھے نہیں معلوم ناصر بھائی۔تمہیں مجھے علیزہ کی دلانی ہوگی پلیز۔عرفان منمنایا۔
یار یہ چوت کا نشہ بھی بڑا عجیب ہوتا ہے۔جسے حاصل کرنے کیلئے انسان کچھ بھی کرسکتا ہے۔ اب یہی دیکھ لو کہ عرفان اپنی ہی کزن کو چودنے کیلئےناصر کی مننتیں کر رہا تھا۔
اچھا چلو بھائی میں کچھ کرتا ہوں تمہارے لئے۔ناصر نے اسے ٹالنے کیلئے جھوٹی تسلی دی جبکہ حقیقت یہ تھی کہ ناصر نے اپنی گرل فرینڈ کبھی وسیم سے بھی شیئر نہیں کی تھی جسکا وہ فلیٹ بھی اسی مقصد کیلئے استعمال بھی کرتا تھا۔
شکریہ ناصر بھائی تمہارا یہ احسان میں کبھی نہیں بھولوں گا۔
یہ کہہ کر عرفان اپنی آنکھوں میں علیزہ کو ننگا کر کہ چودنے کا خواب سجائے وہاں سے واپس ہولیا۔
ارے ناصر بھائی مووی دیکھنے کا موقع کب دے رہے ہیں دوبارہ؟پریشاہ نے شرارتی لہجے میں ناصر سے پوچھاجو بڑے اطمنان سے ٹیبل کے نیچےہاتھ لیجا کر کبھی علیزہ کی رانوں کو سہلاتا اور کبھی اسکی چوت کے لبوں کو گدگدارہا تھا۔علیزہ جھینپ کر بار باراسکا ہاتھ نیچے سے ہٹادیتی مگر اسکا ناصر پر کوئی اثر نہیں ہورہا تھااور وہ بدستور اپنی "کاروائی" جاری رکھے ہوئے تھا۔یہ تینوں اسوقت ایک آئسکریم پارلر میں موجود تھے جہاں ناصر انھیں حیرت انگیز طور پرکی گئی علیزہ کی خواہش پرآئسکریم کھلانے لایا تھا ۔ہوا کچھ یوں تھا کہ آج شہر میں ٹرانسپورٹ کی ہڑتال تھی جسکی وجہ سے اکیڈمی کے وہ اسٹوڈینٹس جوشہر کے مختلیف علاقوں سے آتے تھے نہ صرف وہ بلکہ کئی ٹیچرز بھی آج اکیڈمی نہیں پہنچ سکے تھے لہذا آج اکیڈمی بند کر دی گئی تھی۔ایسے میں علیزہ نے باہر نکل کر ناصر کو ٹیکسٹ کیا کہ آج اکیڈمی آف کر دی گئی ہے اور مجھےآئسکریم کھانی ہے۔اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ناصر آن کی آن میں گاڑی بھگاتا ہوااکیڈمی پہنچ گیا جہاں یہ دونوں بہنیں باہر کھڑی اسکی منتظر تھیں۔ناصر انھیں دور واقع ایک آئسکریم پارلر لے گیاجہاں اب پری شاہ آئسکریم کا اور علیزہ اسکی چھیڑخانیوں کا لطف اٹھا رہی تھی۔
بتائیں نہ ناصر بھائی کب دکھا رہیں ہیں مووی دوبارہ؟ایسے میں پری شاہ دونوں کے درمیان جاری چھیڑ خانیوں سے بظاہرانجان بنی مسکراتے ہوئے ناصر سے بولی۔
بھئی جب تم کہو،مجھے کیا اعتراض ہے۔بس اپنی آپی کو راضی کرلو۔ناصر نے علیزہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
کیا خیال ہے آپی؟کل ہوجائے پھر ایک زبردست سی مووی؟پری شاہ نے ایکسائیٹمنٹ سے بھرپور لہجے میں علیزہ سے کہا۔پریشاہ نے فلیٹ میں لگی دیو ہیکل ایل سی ڈی پر مووی دیکھنے کو بہت انجوائے کیا تھا۔اس کا دل وہا ںسے واپس آنے کو نہیں چاہ رہا تھا مگر مجبوری تھی۔وہ آتو گئی تھی مگر اسکا دل وہیں اٹک گیا تھا۔وہ دوبارہ فلیٹ پر جا کر مووی دیکھنا چاہتی تھی مگر وہ جانتی تھی کہ یہ علیزہ کے ساتھ جائے بغیر نا ممکن ہے۔ ناصر کو پری شاہ کی اس معصوم سی خواہش پر بھلاکیا اعتراض ہو سکتا تھا بلکہ اسے توعلیزہ کو دوبارہ چودنے کے لئے ایک بہانہ مل رہا تھا۔
نہیں یار کل تو مشکل ہے۔ویسے بھی کل ہمیں مارکیٹ جانا ہے۔ظاہر ہے علیزہ فوری راضی تو نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ مووی کا تو بہانہ بن رہا ہے اصل پروگرام تو اس کی چدائی کا ہے۔ویسے بھی اس دن کے بعد سے علیزہ کےدل اور دماغ میں ایک جنگ سی چل رہی تھی دماغ کہتا تھا کہ جو ہوا غلط ہوا ،گناہ تھا اب نہیں ہونا چاہئے۔دل سے آواز آتی کہ کچھ غلط نہیں ہوا۔جو ہوا ایک دن ہونا ہی تھا کیا ہوا جو آج ہو گیا۔یہ الگ بات ہے کہ اس دن کی چدائی کا منظر ذہن میں آتے ہی اسکی چوت آج بھی گیلی ہوجاتی تھی۔اصل میں وہ پھر چدنا چاہتی تھی۔ناصر کے نیچے لیٹ کر سسکنا چاہتی تھی وہ چاہتی تھی کہ ناصر اسے دوبارہ پامال کرے اسے بستر پر بری طرح رگڑ دے۔ پہلی بار کی تشنگی اسکے دل میں ابھی باقی تھی۔ایسے میں اچانک احساس گناہ اسکی اس خواہش کے آڑے آجاتا اور وہ سسک کر رہ جاتی۔آج جب پری شاہ نے دوبارہ فلیٹ پر جانے اور مووی دیکھنے کی بات کی تو اسے یوں لگا کہ جیسے اسکی دوبارہ چدنے کی خواہش پوری ہونے والی ہے۔مگر علیزہ نے اپنی اس کیفیت کو ظاہر نہیں ہونے دیا اور مارکیٹ جانے کا عذر پیش کردیا۔
یار یہ تو اور بھی اچھا ہے مارکیٹ جانے کے بہانےہم آسانی سے مل سکتے ہیں۔اور تمہیں اکیڈمی کی چھٹی بھی نہیں کرنی پڑیگی۔ ناصر خوشی سے بولا۔
مارکیٹ کے بعد کہیں جانا ضروری ہے کیا؟ہم مارکیٹ میں ہی مل سکتے ہیں نا۔ علیزہ معنی خیز انداز میں مسکرائی۔
ہاں مگر وہاںا بات کرنے کا زیادہ موقع نہیں ہوگا۔ناصر کہاں ماننے والا تھا۔
تو باتیں تو ہم یہاں بھی کر رہے ہیں ۔علیزہ شرارت کے موڈ میں تھی۔
تو پھر ایک کام کرو پری شاہ کو مووی بھی یہیں دکھادو۔ ناصر نے ناراضگی سے کہا۔
اچھا بابا ٹھیک ہے ناراض مت ہو۔ جیسے تم دونوں کی مرضی۔ علیزہ نے گویا ہار مانتے ہوئے کہا۔
یہ سن کر پری شاہ نےزور دار انداز میں"یہ ہوئی نہ بات" کہا اور علیزہ کے سرخ و سفید گال کو چوم لیا۔
اونہہ پری شاہ بری بات۔ فائول مت کھیلو یہ میرا حق ہے۔ ناصر نے مصنوعی خفگی سے پری شاہ کو تنبیہ کی ۔ اورجواب میں تینوں کھل کھلا کر ہنس دیئے۔
اگلے روزحسب پروگرام وہ تینوں ایک بار پھر فلیٹ میں موجود تھے۔آج ناصر کو پچھلی بار کی طرح پر ی شاہ کو بہانے سے ڈرائنگ روم میں نہیں بھیجنا پڑا بلکہ وہ خود ہی درائنگ روم کی طرف بڑھ گئی البتہ اسے جب تک ہم نہ کہیں باہر نہیں آنا کی ہدایت ضرور کردی گئی۔
پری شاہ کے اندر جاتے ہی ناصر علیزہ کے جوانی کے رس سےلبریز بدن پر پل پڑا۔
ایک منٹ ایک منٹ ناصر۔ رکو تو زرا۔ علیزہ نے بڑی مشکل سے خود کو اسکی گرفت سے نکالا۔
ایسی بھی کیا جلدی ہے۔ میں کہیں بھاگی تو نہیں جارہی۔
میں تمھیں اب کہیں بھاگنے دونگا بھی نہیں۔یہ کہہ کر ناصر نے ایک بار پھر اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا اور اس کے رس بھرے گلابی لبوں کو اپنے لبوں سے جکڑ کر اسکی الہڑ جوانی کا رس کشید کرنے لگا۔
چونکہ علیزہ کی طرف سے مزاحمت کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا چناچہ وہ بھی کسینگ میں ناصر کا ساتھ دینے لگی جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ چند ہی لمحوں میں ناصر نے اسے کپڑوں کی قید سے آزاد کردیا۔
آج وہ ناصر سے دوسری بار چدنے جارہی تھی مگر اسکی فطری شرم آج بھی اسکی خواہش پر غالب تھی یہی وجہ تھی کہ اپنی برہنگی کا احساس پاکر اس نے اپنا چہرہ دونوں ہتھیلیوں سے چھپایا ہوا تھا
جبکہ ناصر علیزہ کی اس کیفیت سے بے نیاز اسکے بھرے بھرے پستانوں کو باری باری چوس رہا تھا کبھی وہ ایک نپل کو منہ میں لیکر چوستا تو کبھی دوسرے نپل کو دانتوں سے ہلکے ہلکے کاٹتا۔اور کبھی نپلز کے گرد زبان کی نوک کو دائرے میں گھماتا۔علیزہ اس کے نیچے دبی اسکی ایک ایک حرکت کو انجوائے کرتی ہوئی ہلکے ہلکے سسک رہی تھی جبکہ ناصر اپنی زبانی پیش قدمی جاری رکھتا ہوا اسکی ناف کے گہرائی سے ہوتا ہوا چوت کے لبوں پہ پہنچ گیا۔علیزہ کی سرخ و سفید گلابی چوت آج بھی بالوں سے پاک تھی۔جسے دیکھ کر ناصر عش عش کر اٹھا۔
اور اس نے شہوت سےبھرپور انداز میں چوت کے لبوں کو چوم لیا۔ یوں تو ناصر اب تک درجنوں لڑکیاں چود چکا تھا مگر جو کشش اسے علیزہ کی چوت میں محسوس ہوئی وہ کسی اور لڑکی کی چوت میں محسوس نہیں ہوئی تھی۔اس نے ایک ہاتھ کی انگلی اور انگوٹھے کی مدد سے چوت کے لبوں کو کھولا اور زبان کی نوک سے دانہ شہوت کو مسل دیا ۔ علیزہ کے بدن کو ایک زور دار جھٹکا لگا۔اور اس نےناصر کے سر کو اپنی چوت پہ دبا دیا۔یہ اس کے لئےلطف سے بھرپور ایک نیا تجربہ تھا جس سے وہ اب تک ناواقف تھی اسے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ اپنی زندگی کا اصل اور بھرپور لطف اب اٹھا رہی ہو۔۔ناصر کی اس کے دانے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ جاری تھی کہ علیزہ کی سسکیاں اب بلند ہونے لگیں تھی۔
ناصر نے اسکی چوت سے منہ ہٹایا اور اسکے منہ کے عین سامنے اپنے گھٹنوں کے بل آکھڑا ہوا۔ناصر کا عضو ہونے والی چدائی کے پیش نظر جھٹکے لے رہا تھا جسے ناصر علیزہ کے منہ پہ لہرا رہا تھا۔اس نے سوالیہ نظروں سے ناصر کی طرف دیکھا ناصر نے کچھ کہے بغیر دونوں ہاتھوں سے اسکے سر کو تھاما اور لن کے اگلے حصے کو اسکےادھ کھلے لبوں پہ ٹکا دیا ۔ علیزہ نے کراہیت سے فورا ہی منہ پھیر لیا ۔ کیا ہوا اس کو پیار کرو نا پلیز۔ناصر لن اسکے گال پر رگڑتا ہوا بولا۔نہیں یہ مجھ سے نہیں ہوگا۔وہ بولی۔ کیو ں نہیں ہوگا تم ایک بار کر کے تو دیکھو۔نہیں ناصر تمہیں جو کرنا ہے کرلو مگر پلیز یہ مجھ سے نہیں ہوگا۔ علیزہ ایک ہاتھ سے ناصر کو پیچھے ہٹانے کی کوشش کرتے ہوئے کہنے لگی۔ وہ تو میں کر ہی لونگا مگر تم اسے اگر پیار کروگی تو مجھے اچھا لگے گا۔ ابھی میں نے تمہیں نیچے پیار کیا تمہیں اچھا نہیں لگا کیا؟ جواب مین علیزہ نے اثبات میں سر ہلایا۔ تو پھر تم بھی کرو نا مجھے بھی اچھا لگے گا۔ نہیں ناصر پلیز۔ مجھے گھن آئیگی۔تم ایک بار کرو تو نہیں ہوتا کچھ۔ یہ کہہ کر ناصر نے اچانک لن اسکے لبوں پہ رکھ کر زور دینے لگا۔ناصر پلیز۔ نہیں ۔علیزہ نے منہ دوسری طرف کر کہ اپنے لبوں پہ ہاتھ رکھ لئے۔چلو ٹھیک ہے کوئی بات نہیں۔ یہ کہہ کر ناصر اسکے اوپر سے ہٹ کر اسکی ٹانگوں کے درمیان آ بیٹھا۔ مگر ایک وعدہ کرنا ہوگا ۔ناصر اسکی ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھتا ہوا بولا۔کیسا وعدہ؟یہی کہ تم اگلی بار اسے اپنے منہ میں لیکر پیار کروگی۔ناصر نے لن کو اسکی چوت کے سوراخ پہ سیٹ کیا اور ایک دھکا لگایا۔ جواب میں علیزہ کے منہ سے ایک ہلکی سی چیخ نکل گئی۔کک۔۔۔کوشش ۔۔۔۔کرونگی ی ی ی ۔۔۔آہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔۔ وہ بمشکل بولی۔اسکے جواب سے خوش ہو کر ناصر اسکی چوت پہ زور دار انداز میں دھکے لگانے لگا۔
ڈرائینگ روم کا دروازہ علیزہ کے سر کی طرف تھا جو کہ اس پوزیشن میں ناصر کے بالکل سامنے تھا یعنی علیزہ ڈرائینگ روم کے دروازے کو نہیں دیکھ سکتی تھی جبکہ ناصر کا رخ اسی طرف تھا۔علیزہ کی چدائی کرتے ہوئے ناصر کی نظر جیسے ہی ڈرائینگ روم کی طرف اٹھی اسے دروازے کی اوٹ سے ایک سایہ سا لہراتا ہوا محسوس ہوا۔اس نے چدائی جاری رکھتے ہوئے غور سے دروازے کو دیکھا تو وہ مکمل بند نہیں تھا بلکہ وہاں تھوڑی سی جھری تھی اور وہ سایہ اب وہاں سے ہٹ گیا تھا ۔ ناصر زیر لب مسکرادیا۔
چند منٹوں بعد آٹھ دس زوردار جھٹکے لگا کر وہ علیزہ کی چوت میں تیز تیز سانسوں کے ساتھ فارغ ہوگیا۔ فارغ ہونے کے بعدکچھ دیر تک وہ دونوں یونہی ایک دوسرے سے لپٹے لیٹے رہےاور ایک دوسرے کو چومتے رہے۔ پھر علیزہ گھر جانے کے خیال سے یک دم اٹھی اپنے کپڑے اٹھائے اور واش روم میں گھس گئی۔ناصر نے بھی جلدی جلدی اپنے کپڑے چڑھائے اور ڈرائنگ روم میں داخل ہوگیا۔ جہاں پری شاہ ریموٹ تھامے اسکرین پر نظریں جمائے صوفے پر نیم دراز تھی ۔اور اب ناصر کو دیکھ کر سنبھل کر بیٹھ گئی۔
ارے۔۔۔علیزہ آپی کہاں ہیں؟ پری شاہ نے ناصر کو اکیلے دیکھ کر پوچھا۔
علیزہ واش روم میں ہے زرا فریش ہورہی ہے۔تم بور تو نہیں ہورہی نہ پری شاہ؟ ناصر اسکے برابر بیٹھتے ہوئے بولا۔ نہیں ناصر بھائی میں تو بہت انجوائے کر رہی ہوں۔کاش ہمارے گھر میں بھی ایسی اسکرین اور سائونڈ سسٹم ہوتا مزہ آجاتا۔پری شا ہ ایکسائٹمنٹ سے بھرپور لہجے میں بولی۔ ارے یہ بھی تو تمہارا اپنا ہی ہے جب موڈ ہو آکر دیکھ لیا کرو تمہیں منع کس نے کیا ہے۔ناصر نے مسکراتے ہوئے کہا۔ شکریہ ناصر بھائی۔ مگر آپی کو راضی کرنا کتنا مشکل ہے یہ تو آپ جانتے ہی ہیں۔ پری شاہ منہ پھلاتے ہوئے بولی۔
ارے تو آپی کو راضی کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ناصر نے جواب دیا۔
کیا مطلب؟ پری شاہ نے سوال کیا۔
مطلب یہ کہ جب بھی تمہارا موڈ ہو مووی دیکھنے کا تو بس تم مجھے ایک ٹیکسٹ کرو میں کوئی ارینج منٹ کرلونگا تمہارے لئے۔ ناصر نے پری شاہ کو راستہ دکھایا۔ مگر میری ایک شرط ہے۔
وہ کیا؟ پری شاہ خوش ہو کر بولی۔ شرط یہ ہے کہ یہ بات صرف ہم دونوں کے درمیان ہی رہے گی۔ علیزہ کو اس کی خبر نہیں ہونی چاہئے ورنہ وہ تم سے برا حال میرا کریگی۔ ناصر نے مصنوعی ڈر کا اظہار کیا۔
ناصر کے اس بات کے انداز پر پری شاہ کھلکھلا کے ہنس دی اور کہا ٹھیک ہے ناصر بھائی۔ اپ بے فکر رہیں۔
تھوڑی ہی دیر میں ناصر انہیں مارکیٹ سے زرا پہلے ڈراپ کر رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناصر جس سیاسی جماعت کے لئے کام کرتا تھا اس کے انٹر پارٹی الیکشن ہورہے تھے جس میں ناصر بھی علاقائی عہدے دار کا امیدوار تھا۔ جس کے لئے وہ بھرپور اندار میں پارٹی میں کمپین چلا رہا تھا۔وہ علاقے میں اپنا اثر رسوخ مزید بڑھانے کے لئے لازمی یہ عہدہ حاصل کرنا چاہتا تھا یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنی تمام مصروفیات فی الحال ختم کردی تھیں اور ساری توجہ پارٹی الیکشن پر مبذول کردی تھی۔ علیزہ سے بھی کافی دن سے اسکی کوئی بات نہیں ہو سکی تھی۔اسکی اس انتھک محنت اور لگن کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہ اپنے علاقے کا پارٹی کے لئے زمہ دار چن لیا گیا۔جس پر وہ بہت خوش تھا۔اپنی اس خوشی کو دوبالا کرنے اور کامیابی کا جشن منانے کے لئے اسے علیزہ کی یاد آئی۔اس نے علیزہ کو ٹیکسٹ کیا کہ مجھے تم سے بات کرنی ہے جس پر علیزہ نے اسے جوابی ٹیکسٹ کیا کہ مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔ آج تمہیں میری یاد آئی ہے؟ میں نے تمھیں کتنی کالز کیں کتنے مسجز کئے مگر تم نے ڈھنگ سے جواب نہیں دیا۔لہذا مجھے اب تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔ علیزہ بلاشبہ اس سے ناراض تھی۔ناصر نے اس کے شکوہ دور کرنے کے لئے کال کی تو معلوم ہوا کہ علیزہ نے غصہ میں فون ہی آف کردیا ہے۔اب کیا جائے اس لڑکی کو منانے کے لئے؟ ابھی ناصر اسی سوچ میں تھا کہ اس کے موبائل پہ ایک ٹیکسٹ موصول ہوا۔ٹیکسٹ پری شاہ کی طرف سے تھا جس میں لکھا تھا کہ ہیلو ناصر بھائی۔ آپ تو اپنے الیکشن کے چکر میں ہمیں بالکل بھول ہی گئے ؟
ناصر نے اب پری شاہ کو کال کی جو اس نے فورا ریسیو کر لی۔
یار یہ علیزہ کو کیا ہوا؟ ناصر نے ہیلو ہائے کے بعد پری شاہ سے سوال کیا۔
ناصر بھائی وہ آپ سے بہت ناراض ہے۔پری شاہ نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
سمجھ نہیں آرہا کہ اسے کیسے منایا جائے۔ناصر نے نے سوچنے والے انداز میں کہا۔
چلو مل کے کوئی ترکیب سوچتے ہیں اسی بہانے آپ ہمیں مووی دیکھنے کا موقع بھی فراہم کردیں ایک نئی انڈین مووی ریلیز ہوئی ہے اور وہ مجھے آپ کےمنی سنیما میں ہی دیکھنی ہے۔ پری شاہ نے فورا فرمائش داغ دی۔ہاں یہ آئیڈیا اچھا ہے۔ناصر نے ہامی بھری۔آپ اپنی ٹائمنگ سیٹ کرلو پھر مجھے بتا دینا میں اس ٹائم پہ آپ کو پک کرلونگا۔
ٹھیک ہے ناصر بھائی۔ آپ کل صبح مجھے اسکول ٹائم پر اسکول سے تھوڑاپہلے پک کرلیجیئے گا۔ کیونکہ صبح میرا اسکول جانے کا بالکل بھی دل نہیں چاہ رہا۔پری شاہ نے دل ہی دل میں خوش ہوتے ہوئے کہا۔اس کے من میں جیسے لڈو پھوٹ پڑے ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگلی صبح پری شاہ تیسری بار ناصر کے فلیٹ میں موجود تھی مگر آج پہلی بار علیزہ کے بغیر۔اس کے باوجود وہ بہت پر اعتماد تھی اس کی آنکھوں میں اس ڈر کا شائبہ تک نہیں تھا جس خوف کو لیکر علیزہ پہلی بار ناصر کو ساتھ فلیٹ میں آئی تھی اگرچہ اس وقت اس کے سا تھ پریشاہ بھی تھی۔
ناصربھائی آپ علیزہ آپی کو ایک کوبصورت سا گفٹ بھجوادیں جسے پاکر آپی کا غصہ کچھ کم ہو جایئگا۔ باقی میں اپنے موبائل سے آپ کی بات آپی سے کرادونگی پھر آپ سنبھال لیجیےگا۔
پری شاہ نے مزے سے چاکلیٹ کا بائٹ لیتے ہوئے ناصر کو مشورہ دیا۔ دونوں اس وقت دیو ہیل ایل ای ڈی کا سامنے لگے صوفے پر ایک ساتھ برا جمان تھے۔ پری شاہ مووی بھی دیکھ رہی تھی اور ناصر کے ساتھ باتوں کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ناصر نے اس کے اس آئیدیے کو بھی پسند کیا۔
دونوں ابھی باتیں ہی کر رہے تھے کہ اچانک پری شاہ کے ہاتھ سے ریموٹ چھوٹ کر نیچے گر گیا۔ پری شاہ جیسے ہی ریموٹ اٹھا نے کے لئے نیچے کی طرف جھکی تو ناصر کی نظر اس کے اسکول کے سفید یونیفارم کے گلے سے جھانکتے ابھاروں پر پڑی۔ایک لمحے کے لئے ناصر حال بھول گیا۔اس کے زہن میں ایک جھماکا سا ہوا اور اسے وہ منظر یاد آگیا جب وہ علیزہ کی چدائی کر رہا تھا اور ڈرائنگ روم کے دروازے کی اوٹ سے اسے ایک سایہ سا محسوس ہوا تھا۔ وہ بلاشبہ پری شاہ ہی تھی جو چھپ کر دونوں کو زندگی کے رنگوں سے رنگین ہوتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ یہ منظر یاد کرتے ہوئے اسکی نظر ابھی تک پری شاہ کے سینے کے ابھاروں پر ہی اٹکی ہوئی تھی جو کب کی سیدھی ہوکر بیٹھ گئی تھی۔
کوئی بات نہیں کامیابی کا جشن منانے کے لئے علیزہ نہ سہی پری شاہ ہی سہی۔ ویسے بھی جشن کامیابی کے شایان شان ہونا چاہئے۔اگر مجھے پہلی بار کوئی عہدا ملا ہے تو اس خوشی میں پری شاہ کو بھی پہلی بار لن کا مزہ ملنا چاہئے۔ یہ سوچتے ہوئے ناصر من ہی من مسکرا دیا۔
مووی دیکھنے کے دوران ناصر غیر محسوس طور پر پری شاہ کے بالکل قریب سرک آیا جو پہلے سے ہی اس کے ساتھ ایک ہی صوفے پر بیٹھی مووی دیکھ رہی تھی،اور پھر جب ناصر نے دیکھا کہ پری شاہ مووی کے سحر میں کھوئی ہوئی ہے تو اس نے اپنا ایک ہاتھ اٹھا کر اس کے کندھے پر رکھ دیا اور پری شاہ کے ردعمل کا انتظار کرنے لگا۔مگر اس کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں آیا اور وہ اسی انہماک سے فلم دیکھنے میں مصروف رہی۔ اب ناصر نے مزید پیش قدمی کرتے ہوئے اپنا ہاتھ کندھے سے نیچے گراتے ہوئے اسکے ایک پستان سے مس کردیا۔ پری شاہ پر سکون تھی پوری توجہ مووی پر مرکوز کئے وہ ناصر کی حرکان و سکنات سے لا تعلق بنی بیٹھی تھی۔ ناصر نے ہاتھ آئے موقع کو غنیمت جانا اور اپنا پورا ہاتھ اس کے پستا ن پر رکھ دیا۔ پری شاہ اب زرا کسمسائی مگر نگاہیں اسکرین سے نہ ہٹیں۔ناصر نے پستان کو ہلکا سا دبایا۔پری شاہ کے بدن مین ارتعاش پیدا ہوا مگر چہرہ پر اسکا کوئی اثر نہ تھا۔ ناصر نے دوبارا پستان کو دبایا تیسری بار، پھرچوتھی بار،اورپانچویں بار قمیص کے اوپر سے ہی نپل کو ٹٹول لیا۔پری شاہ بظاہر انجان بنی ہوئی تھی یوں لگ رہا تھا کہ جیسے اسکی طرف سے خاموش اجازت ہو ۔
پری شاہ ایک بات پوچھوں؟ ناصر اب باقاعدہ اسکا نپل آہستگی سےمسل رہا تھا۔
جی ناصر بھائی پوچھیں۔۔۔۔۔۔۔۔اب پری شاہ کی آواز تھوڑی بھاری تھی۔
تم اس دن دروازے کی آڑ سے ہمیں ہی دیکھ رہیں تھی نہ؟ناصر نے اسکے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے اچانک سوال کیا۔
جواب میں پری شاہ خاموش رہی۔
جواب دو پری شاہ۔ تم ہمیں ہی دیکھنے وہا ں کھڑیں تھیں نا؟ پری شاہ نے اب بھی کوئی جواب نہ دیا۔
کیوں؟۔ کیوں دیکھ رہیں رہیں تھیں تم ہمیں چھپ چھپ کر؟ اب ناصر نے اسکا چہرہ تھوڑی سے پکڑ کر اپنی طرف کرتے ہوئے پوچھا۔ پری شاہ خالی خالی نظروں سے ناصر کو تکتی رہی۔ پھر اچانک وہ ناصر کی طرف جھکی اور اسکے ہونٹوں پراپنے نازک نازک لب رکھدیئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ناصر کو پری شاہ کی جانب سے اس حرکت کی زرا بھی توقع نہین تھی بلکہ اسے بالکل بھی سمجھ نہیں آیا کہ یہ کیا ہوا اور جب سمجھ آیا اس وقت تک پری شاہ اپنی زبان ناصر کے منہ میں داخل کر چکی تھی۔اور بھرپور جذباتی انداز میں اسکے ساتھ کسنگ کر رہی تھی۔اسکی کسنگ ناصر کے تمام سوالوں کا جواب تھی۔ویسے بھی اب سوالوں میں الجھنے کا وقٹ نہیں تھا۔نا صر نے اسے بانہوں میں اٹھایا اور بیڈروم میں لا کر بیڈ پر پٹخ دیا۔اور خود اسکے اوپر گر کر اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے جکڑلیا۔ اس کے نازک گلابی ہونٹ چوستے چوستے ناصر نے اپنی زبان اسکے منہ میں داخل کی جسے پری شاہ نےپیار سے چوسناشروع کردیا۔دونوں باری باری ایک دوسرے کی زبان چوس رہے تھے۔یہاں تک کہ دونوں ہانپ گئے۔ناصر نے پری شاہ کے پیٹ سے قمیض ہٹانی چاہی تو وہ بولی ۔ ایک منٹ رکیں زرا۔ یہ کہہ کر وہ کھڑی ہوئی اور خود ہی اپنی قمیض اتار دی۔اور ہاتھ پیچھے لے جا کر برا کا ہک کھولا اور اسے بھی اتار کر سائیڈ پہ رکھ دیا۔علیزہ کی نسبت پری شاہ زرا بولڈ ثابت ہورہی تھی۔۔اب وہ بیڈ پر آلیٹی اور مسکراتے ہوئے ناصر کے گلے میں بانہیں ڈال کر اسے اپنے اوپر گرالیا۔ ناصر نے دونوں ہاتھوں میں اس کے درمیانے سائز کے پستانوں کو تھاما اور ایک کو منہ لے لیا۔ نپل منہ میں جاتے ہی پری شاہ کے لبوں سے آہیں نکلنے لگیں۔اس نے ناصر کی گردن میں ہاتھ ڈالکر اسے اپنے پستانوں پر دبانے لگی۔ ناصر نے بھی اسکے ابھاروں کو زور زور سے دبانے اور چوسنے لگا۔اسکا نپل چوستے چوستے اچانک ناصر نے اسکے ایک نپل کو دانت سے کاٹ لیا۔ پری شاہ نے زور سے ایک آہ بھری۔ پری شاہ مزے سے سسک رہی تھی اور اسکی سسکیاں ناصر کے جنون میں اضا فہ کر رہی تھیں ۔ناصر اسکے ابھاروں کو چوستا چاٹتا پیٹ کو جگہ جگہ سے چومتا ہوا ناف پر پہنچ گیا۔ اور ناف کی گہرائی میں زبان ڈالکر اسکو اپنی زبان سے ناپنے لگا۔ ناصر کی ہر ہرحرکت پری شاہ لطف کو وادیوں میں میں دھکیل رہی تھی۔ اب اس نے اپنے گھوڑے کو کمسن ،کنواری۔اور کم عمر چوت کی سیر کو بھیجنے سے پہلے آخری راونڈ کھیلنے کا فیصلہ کیا اور پری شاہ کی یونیفارم کی شلوار کا ازار بند کھینچ دیا۔شلوار ڈھیلی ہوگئی جسے ناصر نے جھٹکے سے اسکی ٹانگوں سے جدا کردیا۔ اب ناصر نے جو پری شاہ کی چوت کی طرف نگاہ کی تو جیسے اچھل ہی پڑا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واووووو۔۔کیا چوت ایسی بھی ہوتی ہے ؟اس نے خود سے سوال کیا ۔
اب سولہ سال کی بچی کی چوت ایسی نہیں ہوگی تو کیسی ہوگی؟ جواب بھی خود ہی دے ڈالا۔
اس نے پری شاہ کی دونوں تانگوں کو کھولا اور اسکے بیچ آ بیٹھا۔اور غور سے اس بند کلی کی مانند چوت کا معائنہ کرنے لگا۔چوت کے موٹے موٹے جیسے سوجے ہوئے لبوں کے درمیان باریک سی دراڑ اور اس دراڑ کے آغاز پر اوپر کی جانب بھورے رنگ کے ہلکے ہلکے بال چوت کو مزید دل کش بنا رہے تھے۔ناصر نے بے خودی کے عالم میں چوت کے لبوں پر اپنے لب رکھ دئے اور انھیں چوسنے لگا۔ پری شاہ کا نازک بدن مچل اٹھا۔
ناصر نے پری شاہ کی کمسن چوت کو خوب چوسا اور جب تشنگی نہ ہوئی تو اسکی دراڑ میں نیچے سے اوپر اور اوپر سے نیچے کی جانب زبان پھیرنے لگا۔پری شاہ بار بار اپنے نچلے حصے کو ناصر کے منہ کی طرف اچھانے لگی۔اور ناصر'ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے' کے مصداق پوری تندہی سے چوت کا زبانی مساج کر رہا تھا۔پری شاہ کی کمسن چوت نے ناصر کے ذہن سے علیزہ کے تصورکو حرف غلط کی طرح مٹا دیا تھا۔اب ناصر نے دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں کی مدد سے اسکی چوت کے لبوں کو کھولا اور ایک انگلی سے چوت کے دانے کا مساج کرنے لگا پری شاہ کی ہلکی ہلکی سسکیاں چیخوں میں تبدیل ہو گئی۔نا صر نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ اس کی چوت کے دانے کو اپنے ہونٹوں میں جکڑ لیا اوراسے چوسنے لگا۔پری شاہ لطف کی وجہ اپنے جسم کو اٹھا اٹھا کر بیڈ پر پٹخنے لگی ناصر یہاں ر کا نہیں بلکہ لگاتار چوت کے دانے کو چوستا رہا یہاں تک کہ پری شاۃ کا بدن اکڑنے لگا اسکی ہلکی ہلکی چیخیں بلند ہو نے لگیں پھر کچھ لمحوں بعد اس نےناصر کے سر کو اپنی دونوںرانوں کے درمیاں جکڑ لیا اور ایک بلند چیخ کے ساتھ اپنی چوت سے زندگی کا پہلا امرت رس بہا دیا جسے ناصر نے ضائع کئے بغیر اپنے منہ میں منتقل ہونے دیا۔پری شہ کو آرگیزم ہو رہاتھا اور وہ آنکھیں بند کئے تیز تیز سانسیں لے رہی تھی۔ناصر نے اسکی چوت کے رس سے بھیگے اپنے لبوں کو پری شاہ کے لبوں پر رکھ دئے اور انہیں چوسنے لگا۔چند لمحوں بعد پری شاہ اٹھی اور ناصر کو دھکا دیکر بیڈ پر گرادیا اور خود اس کے پیٹ پر بیٹھ گئی۔ اور ناصر کے بالوں سےبھرے سینے پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ہاتھ پھیرتے پھیرتے پری شاہ جھکی اور ناصر کے سینے کے نپل چوسنے لگی۔اس نے کچھ دیر باری باری دونوں نپلز کو چوسا اور ہاتھ پیچھے لے جا کر ناصر کے ٹراوزر میں داخل کر دیا اور اپنے چھوٹے اور نازک ہاتھوں سے ناصر کا لن سہلانے لگی۔ناصر کو بے انتہا مزہ آرہا تھا۔ پری شاہ اس کے اوپر سے اتری اور اس کی ٹانگوں میں بیٹھ گئی۔ اور ٹراوزر نیچے کر کے ناصر کا لن باہر نکال لیا۔ناصر کا صحت مند لن دیکھ کر پری شاہ کی آنکھوں میں ایک خاص چمک آگئی تھی۔لن سہلاتے ہوئے اس نے ناصر کی طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے کہا۔ آپ کے لئے ایک تحفہ ہے۔ کیسا تحفہ؟ ناصر نے حیرت سے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
پہلے آپ اپنی آنکھیں بند کریں پھر بتاونگی۔پری شاہ نے مسکرا کر کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
او کے بابا۔ یہ لو بند کرلی میں نے اپنی آنکھیں۔ یہ کہہ کر ناصر نے آنکھیں موندلیں۔آنکھیں بند کرتے ہی ناصر کو اپنے لن پر اک گرماہٹ کا سا احساس ہوا۔ناصر نے فورا آنکھیں کھول کھولی تو دیکھا کہ پری شاہ نے اپنے خوبصورت اور نازک سے ہونٹوں میں ناصر کے عضو تناسل کے ہیڈ کو پھنسایا ہوا تھا اور زبان سےاسکا مساج کر رہی تھی ناصر نے ایک زور دارسسکی بھری۔ پری شاہ کے چھوٹے سے دہانے میں پھنسا ناصر کا لن شہوت سے جھٹکے کھا رہا تھا اور اسکا ہیڈ مزید پھول گیا۔پری شاہ بڑے مزے سے عضو کو منہ میں لئے اس پر اپنی زبان پھیر رہی تھی۔اسکی اس 'زبان درازی ' نےناصر کے وجود میں ایک آگ سی بھر دی تھی اسنے اپنا ایک ہاتھ پری شاہ کے سر پر رکھا اور اسے اپنے عضو پر دبانے لگا۔کچھ دیر اسی طرح زبان سے چاٹنے کے بعد پری شاہ نے اپنے ہونٹوں کو ناصر کے عضو کے گرد سختی سے بند کر کے آہستگی سے منہ کو آگے پیچھے کرنا شروع کردیا۔ وہ بامشکل آدھے سے زیادہ لن اندر لے جا پارہی تھی۔ مگر اسکے لن چوسنے کے انداز میں ایک رغبت تھی ایک جنون تھا جس نے ناصر کی بس کردی تھی جو اس کے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھامے اونچی آواز سے سسک رہا تھا مگر ابھی اس کو اور سسکنا تھا کیوں کہ پری شان نے اب اپنی سپیڈ بڑھا دی تھی اور تیزی سے اپنے منہ کو آگے پیچھے کر رہی تھی۔اسکے کنوارے اور گرم منہ کی روانی ناصر کے جوان گھوڑے کو چیلنج کر رہی تھی اور ناصر کو اب محسوس ہورہا تھا کہ اسکا گھوڑا یہ ریس ہارنے والا ہےاس نے پری شاہ کے سر کو اپنے عضو پر زور سے دبا دیا اور نیچے سے اپنے لن کو تیز تیز جھٹکے دینے لگا پانچ چھ زور دار جھٹکوں کے بعد ایک بلند آہ کے ساتھ وہ پری شاہ کے منہ میں خارج ہو گیا۔اس کی گرم منی کی دھار ننھی پری شاہ کے حلق سے ٹکرائ مگر لن پر اسکے الٹے جھکے ہونے کی وجہ سے منی اسکے حلق سے نکل کر ناصر کے عضو پر ہی بہہ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پری شاہ نے پاس پڑی ناصر کی ٹی شرٹ سے پہلے اپنا منہ صاف کیا پھر اسی ٹی شرٹ سے ناصر کےلن پر لگی اس کی منی صاف کی۔اورعضو کو دوبارہ منہ میں لیکر چوسنے لگی۔
واوو یار پری شاہ تم نے تو کمال کردیا۔کیا زبردست سکنگ کی ہے تم نے۔کتنے بوائے فرینڈ ہیں تمہارے؟ ناصر نے اسکے گالوں کو سہلایا۔
میرا کوئی بوائے فرینڈ نہیں ہے۔ پری شاہ بدستور عضو کو چوستے ہوئے بولی۔
ہان مگر میری ایک دوست کا بوائے فرینڈ ہے وہ اس کے ساتھ کر بھی چکی ہے۔ اسی نے مجھے بتایا ہےکہ چوسنے میں بہت مزہ آتا ہے۔اس نے مجھے اپنے موبائل پر اپنی ہی ویڈیو بھی دکھائی تھی جس مین وہ اپنے بوائے فرینڈ کا سک کر رہی تھی۔پری شاہ نے ناصر کو حقیقت بتائی۔
اچھا یہ بتاو اس دن تم درائنگ روم سے چھپ کر ہمیں سیکس کرتے ہوئے کیوں دیکھ رہی تھی؟
ناصر نے پری شاہ سے پوچھا۔
دراصل میں نے اپنی اس دوسٹ کو آپکے فلیٹ میں لگی بڑی ایل ای ڈی اور اس پر مووی دیکھنے کے مزے کے بارے میں بتا رہی تھی باتوں باتوں میں آپی اور آپ کے معاملے کے بارے میں بھی بتایا دیا تھا اس نے کہا کہ جب تم کمرے میں مووی دیکھ رہی تھیں تو وہ دونوں یقینا سیکس کر رہے ہونگے۔ میں نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ آپ دونو ں نے سیکس کیا ہوگا تو اس نے کہا کہ اگر اگلی بار جاو تو چھپ کر دیکھنا کہ وہ صرف باتیں ہی کرتے ہیں یا سیکس بھی کرتے ہیں۔اسی لئے میں اس دن آپ دونوں کو چھپ کر دیکھ رہی تھی۔ پری شاہ نے ناصر کے دوبارہ سخت ہوتے لن کو سہلاتے ہوئے تفصیل بتائی۔
تو جب تم نے ہمیں سیکس کرتے ہوئے دیکھا تو تمہارے کیا جذبات تھے کیا تمہیں برا لگا تھا ہمارا سیکس کرنا۔ناصر نے پری شاہ کے تنے ہوئے مخروطی ابھاروں کو دباتے ہوئے اگلا سوال کیا۔
جب میری دوست اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ کئے گئے سیکس کی روداد سناتی تھی تو میرا بھی بہت دل کرتا تھا سیکس کرنے کے لئے۔ مگر نہ تو میرا کوئی بوائے فرینڈ تھا نہ مجھ میں ہمت تھی کوئی بوائے فرینڈ بنانے کی۔لیکن جب آپ کو اور آپی کو سیکس کرتے ہوئے دیکھا تو مجھے لگا کہ اب مجھے بھی اپنی خواہش پورا کرنے کا موقع مل جایئگا۔ یہ کہہ کر پری شاہ نے ناصر کے لن کو دوبارہ منہ میں لے لیا۔
اس دن جب آپی سے اپنا چوسنے پر اصرار کر رہے تھے اور آپی مسلسل انکار کر رہی تھیں تو میرا دل چاہ رہا کہ میں ابھی اندر جاوں اور آپی کو ہٹا کر خود آپکا اپنے منہ میں لےلوں۔پری شاہ بات کرنے کے ساتھ ساتھ لن بھی چوستی جا رہی تھی۔جس سے ناصر کا عضو ایک بار پھر مکمل تن چکا تھا۔اور پہلی بار پری شاہ کی پھدی میں جانے کے لئے بے قرار ہو رہا تھا۔پری شاہ کے والہانہ چوپے نے اسکے لن کو پتھر بنا دیا تھا۔
اس نے اب پری شاہ کو بیڈ پر لٹایا اور خود اسکی رانوں کے بیچ میں بیٹھ گیا۔اور ایک ہاتھ سے پری شاہ کی گرم چوت کو پیار سے سہلاتے ہوئے پوچھا۔ کیا تم تیار ہو؟
جواب میں پری شاہ نے کہا ۔۔۔۔۔۔۔ہاں ۔۔مجھے جتنا بھی درد ہو آپ بس اپنا ڈال دینا ۔
تم فکر مت کرو جتنا درد ہوگا اتناہی مزہ آیئگا ۔یہ کہہ ناصر نے پری شاہ کی یونیفارم کی وی اٹھائی اور اسکا ایک سرا اسکے ایک پاوں میں ٹخنے کے پاس سے باندھااور دوسرا سرا اسکے دوسرے پاوں میں اسی جگہ سے باندھا۔ پھر اسکی ٹانگوں کو اسکے پیٹ سے لگا دیا۔اور وی کو اس کے سر کے پیچھے سے گزار کر گلے میں ڈال دیا۔(جیسے گلے میں ہار ڈالتے ہیں)۔اس سے پری شاہ کی ٹانگیں خودبخود ہوا میں معلق ہو گئیں۔ اب پری شاہ کی کمسن اور ٹائٹ چوت کسی بند کلی طرح ناصر کے لن کے عین مقابل تھی۔اس نے بائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور بڑی انگلی کی مدد سے چوت کے لبوں کو کھولا اور دائیں ہاتھ سے لن پکڑ کر اسکی چوت کے سوراخ پر رکھ دیا۔
پری شاہ آنیوالے دردناک لمحات کا تصور کئے خوف سے آنکھیں بند کئے لیٹی تھی۔ناصر نے اپنے لن کو ہاتھ میں تھامااور اسکی چوت کی دراڑ میں اوپر نیچے رگڑنے لگا اسکےلن نےجب تین چار بار چوت کے دانہ کو رگڑا تو چوت شہوت سے گیلی ہوگئی ناصر نے اسکی چوت کی چکنی رطوبت سے اپنے لن کے ہیڈ کو گیلا کیا اور چوت کے سوراخ پر لن رکھ کر اپنے پورے جسم کا دباو ڈالا۔ ہیڈ تو سوراخ میں داخل ہوگیا مگر تکلیف سے پری شاہ کی آنکھیں باہر کو ابل پڑیں۔پری شاہ نے اپنے ہونٹ سختی سے بند کئے ہوئے تھے۔اسکی کوشش تھی کہ وہ اس تکلیف کو برداشت کرلے۔مگر اسکے منہ سے اس وقت ایک زوردار چیخ نکل گئی جب ناصرنے اسکی چوت پر اچانک ایک زبردست دھکا مارا۔لن ہیڈ سے ایک انچ نیچے تک کنواری چوت میں گھس گیا تھا۔پری شاہ کی آنکھوں سے آنسوں بہہ نکلے وہ درد سے چلا رہی تھی مگر چونکہ یہ ایک ساونڈپروف فلیٹ تھا لہذا کسی کے سننے کا کوئی ڈر نہیں تھا۔ ناصر نے لن واپس باہر کھینچا مگر ہیڈ اندر ہی رہنے دیا۔اور ایک اور طاقتور دھکا مارا عضو اپنی آدھی لمبائی تک اسکی کنواری چوت میں اتر گیا۔۔پری شاہ تکلیف سے اب باقاعدہ رونے لگی۔ناصر نے لن دوبارہ واپس نکالا تو وہ خون سے سرخ تھا ۔ اسکا پردہ بکارت پھٹ چکا تھایعنی جوانی کی کچی کلی اب کھل کر پھول بن چکی تھی نا صر نےتکلیف سے سسکتی پری شاہ کے ہونتوں کو اپنے ہونٹوں میں بھر لیا اور انھیں چوسنے لگا۔تقریبا دس منٹ تک وہ پیار سے اسی طرح اسکے ہونٹوں کے چومتا اور چوستا رہا۔ اس دوران اسکی چوت کی تکلیف اب قدرے کم ہوگئی تھی ناصر نے پری شاہ کو اسی طرح پیار کرتے کرتے اپنے عضو کو دوبارہ حرکت دینا شروع کی۔چوت تنگ تھی اور لن موٹا۔ لن کو رواں ہونے میں تھوڑی دیر لگی مگر اب چوت نے لن کو قبول کر لیا تھا اور کیوں نہ کرتی آخر بنی ہی اسکے لئے تھی۔ناصر نے اپنی حرکت اور بڑھادی پری شاہ کی درد بھری آسسکیاں اب لطف میں ڈوبتی آہوں میں تبدیل ہو رہی تھیں۔بیڈ روم کا ماحو ل اب تبدیل ہورہا تھا ایک جانب لن کی روانی تھی دوسری جانب جلد از جلد منزل تک پہنچنے کی خواہش۔ایک دھکا اوپر سے لگ رہا تھا دوسرا نیچے سے ۔ دونوں جسم پہلی بار ایک جیسی کیفیت سے دوچار تھے۔ ناصر نے اسکے گلے سے وی نکالی اور اسکی ٹانگیں اٹھا کر اپنے کندھوں پر رکھ لیں ۔اس سےدخول بڑھ گیا مگر جب اس پر بھی تشفی نہ ہوئی تو تکیہ اٹھاکر پری شاہ کے کولہوں کے نیچے رکھ دیا اور اپنے گھوڑے کو چوت کی وادی میں سرپٹ دوڑادیا۔ لن اب جڑ تک جارہا تھا ناصر کے ہر دھکے پر پری شاہ کی چیخ نکل جاتی۔سات آٹھ منٹ کی دھواں دھار چدائی کے بعد پری شاہ کا جسم ایک بار پھراکڑنے لگا۔ اس نے اپنی ٹانگوں سے ناصر کی کمر کو سختی سے جکڑ لیا۔ اسکا جسم کپکپا اٹھا۔اسے یوں لگا کہ جیسی اسکی جان نکل رہی ہو ایک عجیب سرشاری والی کیفیت طاری تھی اس نے ناصر کو بے تحاشہ چومنا شروع کردیا اسی دوران اسکی چوت نے ایک بار پھر ناصر کے گھوڑے کو سیراب کردیا۔ دو چار دھکوں کے بعد ناصر بھی تیز تیز آوازوں کے ساتھ اسکی چوت میں فارغ ہو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدھے گھنٹے بعد پری شاہ ناصر کی کار میں بیٹھی واپس جارہی تھی۔
اسکول کے سفید یونیفارم میں ملبوس میٹرک کی اس معصوم سی طالبہ کو دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ ابھی اپنی مرضی سے چد کر آرہی ہے۔
پری شاہ اپنی دوست کو کب لارہی ہو فلیٹ پر مووی دکھانے۔ ناصر نے مسکراتے ہوئے پری شاہ سے کہا۔
جب آپ کہو ناصر بھائی۔ میں لے تو آونگی باقی کام آپ سنبھال لینا۔پری شاہ بولی۔
کیوں نہیں ۔اس کام میں تو ہم ماہر ہیں۔ناصر نےفخر سے کہا اور دونوں کھلکھلا کر ہنس دئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکے بعد ناصر نے کئی بار علیزہ اور پری شاہ کے جسموں سے اپنی ہوس مٹائی۔یہی نہین نادان پری شاہ اپنی دو سہیلیوں کو بھی فلیٹ پر لے گئی ۔اب یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں کہ انکے ساتھ وہاں کیا سلوک ہوا۔ حسب توقع ناصر نے انکی کچی جوانیوں کے ساتھ بھرپور انصاف کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علیزہ نے ناصر کی محبت کے جھانسے میں آکر اپنا بدن اسکے سپرد کیا تھا مگر ناصر نے ایک روز اسکی آنکھوں سے محبت کی یہ اندھی پٹی اتار دی اور اس پر واضح کردیا کہ اسے اس سے کوئی محبت نہیں بلکہ اسکا مقصد صرف اسکے جسم کا حصول تھا۔ محبت میں ناکامی پر علیزہ نے اقدام خودکشی کیا جس میں اسکی جان بچالی گئی۔بدنامی سے بچنے کے لئے اسکے والدین نے فورا اسکی شادی کا فیصلہ کیا اور قربانی کا بکرا بنا اسکا کزن عرفان۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عرفان جو کبھی علیزہ کی لینےکے لئے ناصر کے آگے پیچھے منتیں کرتا پھرتا تھا آج وہی عرفان نا صر کو دیکھتے ہی راستہ بدل لیتا ہے۔
بڑی کو دیکھ کر کہیں چھوٹی نہ ''بگڑ '' جائے یہ سوچ کر پری شاہ کی بھی منگنی کر دی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارا معاشرہ بلحاظ سکس مختلف رویوں میں منقسم معاشرہ ہے۔ اس معاشرے میں آپ کو محبت کے نام پر یامحبت کے جھانسے میں آکر چد جانے والی کئی علیزہ نطر آئینگی۔جبکہ ناصر عرفان اور پری شاہ جیسے ہوس کی تصویر بنے کردار بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔دونوں بہنیں ایک ہی فیملی اور ماحول سے تعلق ہونے کے باوجود مختلف رویوں کی حامل تھیں۔ایک سیکس کر تو رہی تھی مگر اسے برا بھی سمجھ رہی تھی جبکہ چھوٹی نا صرف خود چدنے کو تیار تھی بلکہ ساتھ اپنی دو سہیلیوں کی چدائی کا باعث بھی بنی۔صرف یہی نہیں بلکہ دوران سیکس بھی پری شاہ کا رویہ اپنی بڑی بہن کے مقابلے میں بہت والہانہ تھا جبکہ بڑی بہن سیکس کو شجر ممنوعہ سمجھ رہی تھی۔ایک مزاج یا کردار عرفان جیسے لوگوں کا بھی ہے۔جن کی آنکھوں کے سامنے انکی اپنی ہی خواتین(کزنز وغیرہ) سارےزمانے سے چدوارہی ہوتیں ہیں اور وہ انہیں ہی چودنے کے لئے زمانے کے آگے پیچھے ہوتے ہیں۔۔
ایک تبصرہ شائع کریں for "یک نہ شد دو شد"