Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

گھر کا بھیدی (پارٹ ون)



آصف سولہ سال کا نوجوان اور ہینڈسم لڑکا تھا ۔۔۔ وہ اپنی فیملی میں بہت ہے شریف اور سلجھا ہوا لڑکا مشہور تھا ۔۔۔ پڑھائی میں بھی اپنی عمر کے سارے کزن سے تیز تھا ۔۔۔ اسکی ان عادتوں کو دیکھ کر سارے رشتہ دار ہی اس سے بہت متاثر تھے ۔۔۔ خاندان میں سب کی خواہش تھی کہ ان کی بیٹی کی شادی آصف سے ہی ہو ۔۔۔ مگر آصف کی امی کو کوئی جلدی نہیں تھی ۔۔۔ وہ چاہتی تھیں کہ پہلے آصف کی بڑی بہن کی شادی ہو اس کے بعد ہی اس کا رشتہ کہیں ہوگا اور ابھی شادی کو تو کافی دیر تھی ۔۔۔
۔
۔
آصف کی امی کا نام طاہرہ بیگم تھا ۔۔۔ وہ اپنے دو بچوں کے ساتھ بہت ہنسی خوشی رہ رہی تھیں ۔۔۔ ان کی بڑی بیٹی ماریہ ' جس کی عمر بیس سال تھی '(B.A) کرنے کے بعد گھر میں ہی رہتی تھی اور گھر کے کام کرتی تھی ۔۔۔ جبکہ آصف (F.A) کرنے کے بعد ابھی اپنی چھٹیاں انجوائے کر رہا تھا ۔۔۔ آصف کے والد حمید خان جنہیں سب لوگ خان صاحب بلاتے تھے دبئی میں کام کیا کرتے تھے ۔۔۔ آصف کے ابو کا لکڑی کا کاروبار تھا اور آصف کے خالو وسیم انہی کی کمپنی میں نوکری کرتے تھے ۔۔۔ جبکہ آصف کی خالہ شہناز انہی کی گلی میں ان کے گھر کے سامنے والے گھر میں اپنی دو بارہ سالہ جڑواں بیٹیوں کے ساتھ رہتی تھیں جنہیں فیملی میں سب لوگ پیار سے ماہی اور افی بلاتے ہیں ۔۔۔
۔
۔
ماہی اور افی بہت ہی شرارتی اور سب کی لاڈلی تھیں ۔۔۔ وہ روزانہ سکول سے سیدھا آصف کے گھر جاتیں اور ماریہ باجی سے ٹیوشن لیتی تھیں ۔۔۔ کبھی کبھی ماریہ خود ہی خالہ کے گھر جاکر انہیں ٹیوشن دے کر آتی تھی ۔۔۔ خالہ شہناز کی خواہش تھی کہ آصف کی امی آصف کا رشتہ ان کی دو جڑواں بیٹیوں میں سے کسی ایک بیٹی کے ساتھ کر دیں ۔۔۔ کیونکہ ایک تو آصف بہت شریف اور سلجھا ہوا لڑکا تھا جبکہ دوسری طرف آصف کے ابو بھی کافی امیر تھے ۔۔۔ مگر آصف کی امی ہر وقت اپنی بڑی بیٹی ماریہ کے رشتے کے بارے میں پریشان رہتی تھیں ۔۔۔
۔
۔
ماریہ بے حد خوبصورت اور ذرا شوخ مزاج کی لڑکی تھی ۔۔۔ وہ ہر ایک کے ساتھ گھل مل کر رہتی اور ہر وقت خوش رہتی تھی ۔۔۔ بس اس کے دل میں ایک ہی غم تھا وہ یہ تھا کہ ان بیس سالوں میں اسے آج تک کسی مرد کا ساتھ نصیب نہیں ہوا تھا ۔۔۔ جس دن سے وہ جوان ہوئی تھی اس دن سے وہ اپنی شادی کی خواب دیکھ رہی تھی ۔۔۔ مگر ابھی تک اسے کوئی امید کی کرن نظر نہیں آئی تھی ۔۔۔ سارا دن گھر کے کام کاج کرنے اور شام کو ماہی اور افی کو پڑھانے کے بعد رات کو جب بہت تھک ہار کر سوتی تو اسے اپنے ساتھ کسی کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی تھی ۔۔۔ مگر وہ اپنے آپ کو اس بات پر تسلی دے لیتی کہ آخر اس کی امی اس کی خالہ بھی تو اکیلی ہی رہتی ہیں ۔۔۔ مگر اس تنہائی میں اس کے موبائل نے اس کا بہت ساتھ دیا تھا ۔۔۔ آصف سولہ سال کی عمر میں بھی اپنی امی کے ساتھ ہی سوتا تھا جبکہ ماریہ کے پاس اس کا اپنا الگ كمره تھا ۔۔۔ وہ روز رات کو کوئی پورن ویڈیو دیکھتی اور اپنی پھدی کو سہلا لیتی ۔۔۔ وہ ابھی تک کنواری تھی اس لئے وہ اپنی پھدی کے اوپر سے ہی خود کو سکون پہنچاتی تھی ۔۔۔
۔
۔
حمید خان اور وسیم کو دبئی گئے ہوئے پندرہ سے بیس سال ہونے کو تھے اور وہ ان پندرہ سے بیس سالوں میں ہرسال مشکل سے ایک دو بار ہی آ پاتے تھے ۔۔۔ باقی کا سارا سال آصف کی امی اور خالہ اکیلے ہی رہتی تھیں ۔۔۔
۔
۔
اس دن آصف ٹی وی دیکھنے میں مصروف تھا جب اس کی امی ٹی وی لاؤنج میں آئیں اور اس کو ایک شاپر دے کر خالا کے پاس بھیجا ۔۔۔ دبئی سے کچھ دن پہلے کچھ سامان آیا تھا جو آصف کے ابو اور اس کے خالو نے بھیجا تھا ۔۔۔ آصف کی امی نے اپنا سامان رکھ کر باقی سامان آصف کے ہاتھ اپنی بہن کے گھر بھجوا دیا ۔۔۔ آصف نے اپنے گھرسے نکل کر سامنے خالہ کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹانے کے لیے جیسے یہ دروازے پر ہاتھ رکھا تو دروازہ خود بخود ہی کھل گیا ۔۔۔ انکا محلہ کافی محفوظ علاقے میں تھا اس لئے دن کے وقت کوئی اتنا ٹینشن نہیں لیتا تھا ۔۔۔ آصف نے اپنے پیچھے دروازہ بند کیا اور گنگناتا ہوا گھر کے اندر داخل ہوا ۔۔۔ ماہی اور افی اس وقت سکول گئی ہوئی تھیں اس لیے گھر میں کافی سناٹا تھا ۔۔۔ آصف اپنی خالہ کو ڈھونڈتا ہوا کچن میں گیا مگر وہاں کوئی نہیں تھا ۔۔۔ وہاں سے نکل کر اس نے نے خالہ کو اونچی آواز دی مگر کوئی جواب نا آیا ۔۔۔ آصف کو لگا کہ کہیں اس کی خالہ کو نیند ہی نا آ گئی ہو وہ سیدھا خالہ کے کمرے کی طرف چل پڑا ۔۔۔ مگر جیسے ہی وہ خالہ کے کمرے کے دروازے پر پہنچا تو اس کے قدموں میں جیسے بیڑیاں پڑ گئیں ۔۔۔
۔
۔
اس کے لئے یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا اور نہی اسکی سمجھ میں کچھ آ رہا تھا ۔۔۔ اس کی پیاری خالہ اسکے سامنے ۔۔۔۔۔۔۔۔
آصف کوئی بچہ نہ تھا کہ اسے کسی بات کا علم نا ہو ۔۔۔ اس نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر بہت سی پورن موویز دیکھ رکھی تھیں ۔۔۔ وہ جانتا تھا اسکی خالہ کیا کر رہی ہیں مگر اسکے لئے یہ بات ہضم کرنا مشکل تھا ۔۔۔ انسان اچھی طرح جانتا ہے کہ اپنے جسم کے سکون کا کام ہر گھر میں ہر کوئی کرتا ہے مگر اپنے گھر کا سوچ کر کبھی انسان کے لئے تصور کرنا مشکل ہوتا ہے کہ اسکے گھر کے لوگ بھی ایسے کام کرتے ہیں ۔۔۔ آصف کے لئے بھی یہ کچھ ایسا ہی تھا ۔۔۔
۔
۔
وہ دروازہ پہ کھڑا منہ کھولے حیرت سے اندر دیکھ رہا تھا جہاں اس کے سامنے بیڈ پر اس کی خالہ ننگی لیٹی ہوئی تھیں ۔۔۔ خالہ شہناز نے ہینڈزفری لگا رکھے تھے اور ہاتھ میں موبائل پکڑے کچھ دیکھ رہی تھیں ۔۔۔ شاید اس وجہ سے انہوں نے آصف کی آواز نہ سنی تھی ۔۔۔ خالہ نے اپنی ٹانگیں کھول کر اوپر اٹھائی ہوئی تھیں اور ان کے ایک ہاتھ میں موبائل جبکہ دوسرے ہاتھ کی تین انگلیاں ان کی پھدی کے اندر تیزی سے حرکت کر رہی تھیں ۔۔۔ خالہ نے اپنی نظریں موبائل کی سکرین پر جما رکھی تھیں جبکہ ان کا ہاتھ بہت تیزی سے حرکت کر رہا تھا ۔۔۔ پچ ... پچ ... کی آواز پورے کمرے میں گونج رہی تھی ۔۔۔ خالہ کے چہرے پر سکون اور مزے کے ملے جلے تاثرات آصف کو واضح طور پر نظر آ رہے تھے ۔۔۔ اسکے پورے جسم نے ایک جھرجھری سی لی اور اسے اپنی ٹراوُزر ذرا تنگ ہوتی ہوئی محسوس ہوئی ۔۔۔ اس نے جیسے ہی اپنی ٹراوزر ٹھیک کرنے کے لئے نیچے ہاتھ لگایا تو اسے حیرت کا ایک جھٹکا لگا ۔۔۔
۔
۔
آصف کا لن اپنی خالہ کو ننگا دیکھ کر ٹائٹ ہو چکا تھا ۔۔۔ پہلی بار اس نے کسی عورت کو حقیقت میں ننگا دیکھا تھا ۔۔۔ اس نے پھر سے اپنا دھیان خالہ کی طرف کر دیا ۔۔۔ تبھی ایک دم خالہ کی چیخ کی آواز آصف کے کانوں میں پڑی ۔۔۔ جسے سن کر ایک پل کیلئے آصف بھی ڈر گیا ۔۔۔ شہناز خالہ نے آصف کو دروازے میں کھڑا ہوا دیکھ لیا تھا ۔۔۔ اور انہوں نے چیخ مار کر اپنے جسم کو چادر سے چھپا لیا تھا ۔۔۔ ڈر کے مارے آصف کی دھڑکن بھی ایک سیکنڈ کے لئے جیسے رک سی گئی ۔۔۔ مگر اس سے پہلے کہ وہ وہاں سے ہٹ پاتا یا واپس باہر کی طرف بھاگتا اندر سے خالہ کی گرج دار آواز آئی ۔۔۔۔۔۔ " آصف ۔۔۔۔ آصف ۔۔۔ اندر آوُ ۔۔۔ "
۔
۔
آصف خالہ کی آواز میں شدید غصے کو محسوس کر سکتا تھا ۔۔۔ اس کے پاس اور کوئی چارہ نہ تھا اس لیے وہ چپ چاپ خالہ کے کمرے میں داخل ہوا اور سر جھکا کر ان کے سامنے کھڑا ہو گیا ۔۔۔ غصے کے مارے شہناز خالہ کا پورا چہرہ لال ہو چکا تھا ۔۔۔ اور ان کی آنکھوں سے جیسے آگ برس رہی ہو ۔۔۔ انہوں نے بیڈ کی سفید چادر سے اپنے آپ کو ڈھانپ رکھا تھا اور ایک ہاتھ سے اس چادر کو اپنے سینے پر رکھے اپنی چھاتی کو چھپایا ہوا تھا ۔۔۔ آصف کو خالہ کے ننگے کندھے نظر آ رہے تھے ۔۔۔ خالہ نے اپنے بالوں کا جوڑا بنا رکھا تھا جس سے ان کی سفید اور لمبی گردن کے ساتھ ساتھ گورے اور ننگے کندھے بھی آصف کو نظر آ رہے تھے ۔۔۔ مگر اس وقت آصف کو صرف اپنے سر پر لٹکتی ہوئی تلوار نظر آرہی تھی ۔۔۔ خالہ نے شدید غصے بھری آواز میں پوچھا ۔۔۔۔
۔
۔
خالہ : " یہ کیا گھٹیا حرکت ہے ۔۔۔ شرم نہیں آتی کسی کے روم میں ایسے جھانکتے ہیں؟ ۔۔۔ اور بے شرموں کی طرح نا جانے کب سے کھڑے ہوۓ تھے ۔۔۔ بتاؤ ۔۔۔ ہے کوئی جواب تمھارے پاس ۔۔۔ میں ابھی تمہاری امی کو فون کرتی ہوں اور بتاتی ہوں تم نے جو گھٹیا حرکت کی ہے ۔۔۔ "
۔
۔
امی کے نام کی دھمکی سن کر ایک دم سے آصف کے رونگٹے کھڑے ہوگئے ۔۔۔ اسے لگا جیسے اس کے سر پر لٹکتی ہوئی تلوار ایک دم اس کے سر پر آ گری ہو ۔۔۔ اس کی ہمت نے ایک دم جواب دے دیا اور وہ ایک دم بلک بلک کر رونے لگا اور ہاتھ جوڑ کر بولا ۔۔۔
۔
۔
آصف : " خالہ پلیز ۔۔۔ امی کو کچھ نا بتائیے گا ۔۔۔ وہ مجھے جان سے مار دیں گی ۔۔۔ میں تو بس آپ کو یہ شاپر دینے آیا تھا آپ کے گھر کا دروازہ کھولا تو میں خودہی اندر آگیا مجھے کیا پتہ آپ یہاں یہ سب کچھ کر رہی ہو ۔۔۔ پلیز خالہ مجھے معاف کر دیں ۔۔۔ میں جانتا ہوں میں نے بہت ہی گھٹیا حرکت کی ہے لیکن جب میں نے آپ کو دیکھا تو پتا نہیں مجھے کیا ہوا کہ میں وہاں سے ہل ہی نہیں پایا ۔۔۔ میں اپنے ہوش میں ہی نہیں تھا میں بس آپ کو دیکھے جا رہا تھا ۔۔۔ سوری خالہ مجھے معاف کر دیں ۔۔۔ آپ اتنی پیاری لگیں مجھے میں خود کو دیکھنے سے روک ہی نہیں پایا ۔۔۔ معاف کر دیں خالہ دوبارہ ایسا نہیں ہوگا ۔۔۔ "
۔
۔
آصف کا رو رو کر برا حال تھا ۔۔۔ جبکہ شہناز خالہ کے چہرے پر آصف کی بات سن کر ایک مسکراہٹ آئی ۔۔۔ نہ جانے کتنے عرصے بعد کسی کہ منہ سے اپنے لیے تعریف سننا اچھا لگا تھا ۔۔۔ اور اوپر سے آصف بلا کا معصوم لگ رہا تھا ۔۔۔ شہناز نے فوراً ہی مسکراہٹ چھپائی اور بڑے سپاٹ لہجے میں آصف سے کہا ۔۔۔
۔
خالہ : " چلو آج تو میں تمہیں معاف کر رہی ہوں لیکن خبردار اگر ایسی حرکت دوبارہ کبھی کی تو ۔۔۔ اور پریشان نہ ہو میں یہ بات کسی کو نہیں بتاؤں گی اور تم نے بھی یہ بات دوبارہ کبھی کسی کے سامنے نہیں دوہرانی ۔۔۔ اب تم جاؤ اور یہ شاپر وہاں صوفے پہ رکھتے جاوُ ۔۔۔ "
۔
آصف ایک دم سے کھل اٹھا ۔۔۔ اور فوراً بولا ۔۔۔
۔
آصف : " خالہ آپ بہت اچھی ہیں ۔۔۔ میں وعدہ کرتا ہوں آگے سے احتیاط سے کام لوں گا ۔۔۔ آپ بس کسی کو کچھ نہ بتائیے گا ۔۔۔ میں آپ کے سارے کام کر دوں گا جو بھی آپ کہیں گی بس آپ امی کو شکایت مت لگانا ۔۔۔ "
۔
خالہ : " اچھا اچھا اب زیادہ مکھن لگانے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔ بولا نا کسی کو نہیں بتاؤں گی تم اب یہاں سے جاوُ ۔۔۔ باقی اس بارے میں بعد میں بات کریں گے ۔۔۔ "
۔
۔
آصف جلدی سے بیڈ سے اٹھا اور شاپر کو صوفے پر رکھتے ہی باہر کی طرف چل پڑا ۔۔۔ جیسے ہی وہ دروازے کے پاس پہنچا اسے پیچھے سے خالہ نے آواز دی ۔۔۔ آصف جیسے ہی پیچھے مڑا اسے ایک بار پھر شدید جھٹکا لگا ۔۔۔ کیونکہ خالہ نے جس ہاتھ سے چادر کو پکڑ کر اپنی چھاتی کو چھپا رکھا تھا وہ ہاتھ انہوں نے نیچے کر کہ اپنی گود میں رکھا ہوا تھا ۔۔۔ اور چادر بھی گر کر انکی گود میں پڑی تھی جس سے خالہ کا جسم آگے سے مکمل طور پر ننگا تھا ۔۔۔ آصف کو لگا جیسے اس کی قسمت ایک دم اس پر مہربان ہو گئی ہو ۔۔۔ خالہ کے ممے بڑے سائز کے سفید اور گول تھے اور انکے ہلکے براؤن رنگ کے نپلز غضب ڈھا رہے تھے ۔۔۔ آصف کی جیسے ساری دنیا ایک دم تھم سی گئی ۔۔۔ خالہ جان بوجھ کر اسے دعوتِ نظارہ دے رہی تھی ۔۔۔ اس کا دل چاہا کہ وقت یہیں تھم جائے اور وہ خالہ کے ممے دیکھتا ہی رہے ۔۔۔ شہناز کو اپنے بھانجے کا اس طرح ترسی ہوئی نظر سے دیکھنا اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔ اسے اپنا آپ خوبصورت لگنے لگا ۔۔۔ اور آصف کی ٹراوُزر میں بنا تنبو نما ابھار اسے اپنی تعریف لگا ۔۔۔ اس ابھار سے شہناز کو اچھی طرح آئیڈیا ہو چکا تھا کہ آصف بھی اپنے باپ پر گیا ہے ۔۔۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ اس کی بڑی بہن کتنی تعریفیں کرتی تھی اپنے شوہر خان صاحب کے لن کے سائز کے بارے میں ۔۔۔ اور اسے حیرت تھی کہ سولہ سال کی عمر میں ہی آصف کا لن اسکے شوہر وسیم کے برابر تھا ۔۔۔
۔
۔
شہناز چاہتی تھی کہ اسکا بھانجا اسی ستائشی نظروں سے اسے دیکھتا رہے اور سرہاتا رہے ۔۔۔ مگر وہ اتنا جلدی رشتوں کی حد کو پھلانگنا نہیں چاہتی تھی ۔۔۔ آصف خیالوں کی دنیا میں کھویا شاید اپنی خالہ کے ممے چوسنے کا خواب دیکھ رہا تھا تبھی وہ خالہ کی آواز سے چونکا ۔۔۔
۔
خالہ : " بس کر دو اب بھانجے صاحب ۔۔۔ اور جاتے ہوے دروازہ بند کرتے جانا ۔۔۔ " خالہ کے چہرے پر ایک شرارت بھری مسکراہٹ تھی ۔۔۔
۔
آصف ایک دم شرمندہ سا ہوا اور واپس دروازے کی طرف مڑا ۔۔۔ اس نے دروازہ بند کرتے ہوے مڑ کر اپنی خالہ کو دیکھا تو وہ بھی اسے دیکھ رہی تھی اور ان دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں ۔۔۔ آصف جاتے ہوئے ایک آخری دیدار کی خاطر دروازہ آہستہ آہستہ بند کر رہا تھا ۔۔۔ جبکہ اسکی خالہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوے بیڈ پر لیٹ چکی تھی اور انکا ایک ہاتھ پھر سے انکی ٹانگوں کے درمیان حرکت کر رہا تھا ۔۔۔ آصف نے ایک نظر بھر کر خالہ کو دیکھا اور انکے مموں کی دل ہی دل میں تعریف کرتے ہوے دروازہ بند کر دیا ۔۔۔
۔
۔
وہاں سے نکل کر جب وہ بیرونی دروازے تک پہنچا تو اسے احساس ہوا کہ اسکے ٹراوُزر میں اسکا کھڑا ہوا لن تنبو بنا ہوا ہے ۔۔۔ وہ ڈرتے ڈرتے خالہ کے گھر سے نکلا تو اسکی خوش قسمتی تھی کہ گلی میں دور دور تک کوئی نہیں تھا ۔۔۔ آصف جلدی سے بھاگ کر اپنے گھر میں داخل ہوگیا ۔۔۔ اسکی امی کچن میں کام کر رہی تھیں ۔۔۔ آصف ان سے نظریں بچا کر سیدھا امی کے کمرے میں باتھ روم میں گھس گیا ۔۔۔ آصف کیوں کہ اسی کمرے میں سوتا تھا اس لئے اسکے لئے آسانی ہو گئی کہ امی کا کمرہ گھر کے شروع میں ہی تھا ۔۔۔ جلدی سے باتھ روم میں جاتے ہی آصف نے اپنے کپڑے اتارے ۔۔۔ اور اپنے لن کو سہلانے لگا ۔۔۔ اسکی آنکھوں کے سامنے خالہ کی پھدی میں جاتی انگلیاں اور انکے بڑے ممے گھوم رہے تھے اور اسکے ہاتھ کی رفتار مزید تیز ہو گئی ۔۔۔ اسکا دماغ کام کرنے سے قاصر تھا بس ہوس سوار تھی ۔۔۔ اپنے لن کی مٹھ مارتے ہوئے اسے سامنے کھونٹی پر امی کا برا نظر آیا ۔۔۔ ہوس اس قدر سوار تھی کہ آصف نے وہ برا کھینچا اور چومنے اور سونگھنے لگا ۔۔۔ اسے امی کی ایک مانوس خوشبو آنے لگی ۔۔۔ اور اسکے ہاتھ کی رفتار مزید تیز ہوگئی ۔۔۔ کچھ ہی دیر میں امی کی خوشبو اور خالہ کے ننگے جسم کے خیال نے آصف کو فارغ ہونے پر مجبور کر دیا اور جھٹکے کھاتے ہوئے وہ زندگی میں پہلی بار اتنی شدت سے فارغ ہوا تھا ۔۔۔
۔
۔
آصف باہر ٹی۔وی لاؤنج میں آیا جہاں ماریہ۔ ماہی اور افی کو ٹیوشن پڑھا رہی تھی ۔۔۔ وہاں اسکی نظر صوفے پر بیٹھی اسکی امی پر پڑی ۔۔۔ طاہرہ بیگم کے چہرے کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں ۔۔۔ آصف اٹھ کر انکے ساتھ صوفے پر جا بیٹھا اور بڑے فکر مندی کے انداز میں انکی پریشانی کی وجہ پوچھی ۔۔۔ طاہرہ بیگم نے ایک نظر اپنے بیٹے پر ڈالی اور جلدی سے نظر چرا کر " کچھ نہیں " کہتے ہوے کچن میں چلی گئیں ۔۔۔ آصف اپنی مستی میں مست خیالوں میں کھو گیا اور طاہرہ بیگم کچن میں کھڑی اپنے جذبات کی تشریح کرنے کی ناکام کوشش میں مصروف تھی ۔۔۔ اس وقت اسکے دل میں غصے اور شرمندگی کے جذبات گردش کر رہے تھے ۔۔۔ غصہ اس بات کا کہ ابھی ابھی اس نے اپنے بیٹے کو اپنی ماں کے بریزر کے ساتھ مٹھ مارتے دیکھا تھا ۔۔۔ اور شرمندگی اس بات کی تھی کہ طاہرہ نے جب اپنے بیٹے کو اپنے بریزر کے ساتھ مٹھ مارتے دیکھا تو اسے روکنے کے بجائے وہ اسے دیکھتی ہی رہی ۔۔۔ وہ ایک پل کے لئے اسکے بیٹے سے ایک مرد بن گیا جو اسکے نام کی مٹھ مار رہا تھا ۔۔۔ طاہرہ کو یہ اچھا لگا تھا اور اسی بات کی شرمندگی اسے کھائے جا رہی تھی۔
 
طاہرہ کو یہ اچھا لگا تھا اور اسی بات کی شرمندگی اسے کھاۓ جا رہی تھی
سارا دن ایک عجیب کشمکش میں گزارنے کے بعد بھی طاہرہ یہ
سمجھنے سے قاصر تھی کہ آخر اسے اپنے بیٹے کو اپنی ماں کی برا کو چومتے اور سونگھتے مٹھ مارتے دیکھ کر اچھا کیوں لگا تھا ۔۔۔ وہ کبھی خود کو کوسنے لگتی تو کبھی وہ منظر اسکی آنکھوں کے سامنے لہرانے لگتا ۔۔۔ ایک طرف بیٹے کی اس حرکت پر مصنوعی غصہ اور دوسری طرف اپنے بیٹے کی محبت کی شدت ۔۔۔ وہ پریشان تھی کہ آخر کس جذبے کو چھپائے ۔۔۔
۔
۔
اسی بےچینی کے عالَم میں سارا دن گزارنے کے بعد رات کو جب طاہرہ بیڈ پر آ کر لیٹی تو وہاں پہلے سے لیٹے اپنے بیٹے آصف کو زیرو بلب کی مدھم روشنی میں دیکھنے لگی ۔۔۔ وہ نیند میں بہت پر سکون اور معصوم لگ رہا تھا ۔۔۔ طاہرہ نے ایک پل کے لئے سوچا کہ اپنی ماں کی نیند اور ہوش اڑانے کے بعد خود مزے سے سو رہا ہے؟؟۔۔ اسکو دیکھتے ہوئے نا جانے کیوں طاہرہ کو اس پر پیار آنے لگا اور وہ دل ہی دل میں سوچنے لگی ۔۔۔
۔۔۔ آخر ایسا کیا دیکھا اس نے مجھ میں؟ ۔۔۔۔۔ چالیس سال کی عورت میں ایسی کیا دلچسپی ہو سکتی ہے ؟۔۔۔۔۔۔۔ اسکے باپ نے تو کبھی نظر بھر کر نہیں دیکھا مجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اس طرح چاہا جانا اتنا حسین احساس ہو سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا میں اتنی اچھی لگتی ہوں اسکو؟؟ ۔۔۔۔۔۔ کہ یہ میری برا چومتے ہوئے مجھے یاد کر کے ۔ اپنے خوبصورت لن کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنا موٹا اور پیارا لن ۔۔۔۔ مجھے تو کبھی احساس ہے نہیں ہوا کہ میرا بیٹا اتنا بڑا ہو گیاہے
۔
۔۔ نا جانے کیا سوچ رہا تھا؟
۔۔ اور کیا تصور کر رہا تھا ؟
۔۔ مجھے چومنے کا تصور؟
۔۔ مجھے چھونے کا تصور ؟
میری برا کے ساتھ کھیل رہا تھا ضرور میرے مموں کو چوسنے کا تصور کر رہا ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شیطان کہیں کا ۔ "
۔
۔
طاہرہ کی بے چینی اب ایک انوکھی خوشی میں بدل چکی تھی
۔ وہ اپنے بیٹے کو اپنے ممے چوستے ہوئے تصور کرنے لگی ۔۔۔ طاہرہ آصف پر جھکی اور اسکا گال چوم لیا ۔۔۔ آصف گہری نیند میں تھا ۔۔۔ طاہرہ نے جیسے ہے اپنے جوان بیٹے کو چوما تو ایک عجیب اور میٹھی سنسناہٹ اسے اپنی ریڑھ کی ہڈی میں محسوس ہوئی ۔۔۔ وہ پیچھے ہٹتے ہوئے ایک بار رکی اور پھر سے بہت آرام سے اور پیار سے اپنے بیٹے کو چوم لیا ۔۔۔ طاہرہ کو بہت پیار آ رہا تھا ۔۔۔ اور ایک مرد کا ساتھ اسے اچھا لگ رہا تھا ۔۔۔ اپنے بیٹے کو چومتے ہوئے طاہرہ کے دل کی دھڑکن بہت تیز ہو چکی تھی ۔۔۔ طاہرہ کچھ سوچے بغیر اپنے ہاتھ کو اپنی شلوار کے اوپر سے اپنی پھدی پر رگڑنے لگی ۔۔۔ ایک میٹھا احساس اسے چاروں طرف سے جکڑ رہا تھا ۔۔۔ اسکی پھدی پہلے سے ہی کافی گیلی ہو چکی تھی ۔۔۔
۔
۔
طاہرہ آنکھیں بند کر کے بیڈ پر لیٹ چکی تھی ۔۔۔ وہ اپنی آنکھیں بند کر کے اپنے بیٹے کو مٹھ مارتے ہوئے تصور کر رہی تھی ۔۔۔ طاہرہ کا ہاتھ اسکے مموں کو دبانے لگا اور دوسرا ہاتھ اسکے قمیض کے دامن کو ہٹا کر اسکی شلوار کے اندر اسکی پینٹی میں گھس چکا تھا۔۔
طاہرہ نے اپنی انگلیوں کو اپنی پھدی پر رگڑتے ہوئے دو انگلیاں اندر گھسا دیں۔
ایک ' پچ ' کی آواز کے ساتھ دو انگلیاں اسکی گیلی پھدی میں گھس چکی تھیں ۔۔۔ وہ ایک مزے کی شدید لہر میں بہہ چکی تھی ۔۔۔ طاہرہ بغیر کسی خوف اور شرمندگی کے اپنے بیٹے کے لن کا تصور کرتے ہوئے اپنی پھدی میں انگلیاں اندر باہر کر رہی تھی ۔۔۔ اپنے ممے دباتے ہوئے طاہرہ کی آنکھوں کے سامنے اپنے بیٹے کا جھٹکے کھاتا ہوا جوان لن لہرانے لگا ۔
طاہرہ کی آنکھیں بند اور منہ کھل چکا تھا ۔
اسے اپنا سارا خون ٹانگوں کی طرف جاتا محسوس ہوا ۔۔۔ اسکی انگلیوں کی رفتار اور کمرے میں گونجتی پچ پچ کی آواز شدت اختیار کر چکی تھی ۔۔۔ آخری بار یہ احساس اسے کب ہوا شاید اسے یاد بھی نہیں تھا اور نا ہی وہ یاد کرنا چاہتی تھی ۔۔۔
۔
۔
ایک منٹ سے بھی کم وقت میں وہ فارغ ہونے لگی تھی ۔۔۔ طاہرہ نے جھٹکے کھاتے ہوئے آنکھیں کھول کر اپنے بیٹے کو سوتے ہوئے دیکھا ۔۔۔ اور اپنے بیٹے کو دیکھتے ہوئے وہ فارغ ہونے لگی ۔۔۔ طاہرہ کا پوراجسم جھٹکے کھاتا ہوا اچھل رہا تھا ۔۔۔ اسکی ساری پینٹی گیلی ہو چکی تھی ۔۔۔ اور وہ فارغ ہو گئی ۔۔۔
۔
۔
طاہرہ نے اپنی گیلی انگلیوں کو دیکھا تو اسکے ذہن میں شرارت سوجھی ۔۔۔ اس نے جھک کر ان گیلی انگلیوں کو اپنے بیٹے کے ہونٹوں پر پھیرا ۔۔۔ آصف نیند میں ہی اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتا ہوا کروٹ بدل کر سوگیا ۔۔۔ طاہرہ کی ایک دم ہنسی نکل گئی کہ ابھی ابھی اسکے بیٹے نے اپنی ماں کی پھدی کو ٹیسٹ کیا ۔۔۔ وہ ابھی تک مکمل ہوش میں نہیں تھی ۔۔۔ وہ اپنے بیڈ سے اٹھی اور باتھ روم میں چلی گئی ۔۔۔ وہاں طاہرہ نے خود کو صاف کیا اور کچھ سوچتے ہوئے اس نے اپنی گیلی پینٹی کھونٹی پر ہی لٹکا دی اور باہر آ کر سو گئی ۔۔۔
۔
۔
صبح آصف کو ناشتے کے لئے اٹھا کر خود کچن میں چلی گئی ۔۔۔ طاہرہ کو کچن میں کام کرتے ہوئے رات کا منظر یاد آیا تو اسے شرمندگی کا ایک ایسا جھٹکا لگا کہ اسے خود سے ہی گھن آنے لگی ۔۔۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنے شوہر کے علاوہ کسی اور مرد کا سوچے گی ۔۔۔ اور وہ مرد کوئی اور نہیں اسکا سگا بیٹا ہوگا ۔۔۔ رات کو شاید وہ مکمل ہوش میں نہیں تھی مگر اب ہوش آیا تو پچھتاوا اسکی سانس روکنے لگا ۔۔۔ ایک دم اسے اپنی پینٹی کا خیال آیا ۔۔۔ وہ بھاگی بھاگی اپنے کمرے کی طرف گئی تو آصف نہا کر باہر نکل آیا تھا ۔۔۔ طاہرہ نے اسے کچن میں بھیج کر باتھ روم کی طرف رخ کیا ۔۔۔ باتھ روم میں جاتے ہی اسے ایک بار پھر اسے شرمندگی نے گھیر لیا ۔۔۔ کیونکہ اسکی پینٹی ایک کھونٹی سے دوسری کھونٹی پر شفٹ ہو چکی تھی ۔۔۔
ایک دن غصے اور شرمندگی میں گزارنے کے بعد اب اگلا دن طاہرہ کو صرف اور صرف شرمندگی میں گزارنا تھا ۔۔۔ یہ دوسرا دن تھا کہ طاہرہ کا نہ تو کسی کام میں دل لگتا اور نہ ہی وہ آصف سے نظریں ملا پارہی تھی ۔۔۔ یہ بے چینی اس کھائے جا رہی تھی ۔۔۔ رات میں تو اسے بہت مزہ آیا تھا مگر دن کی شرمندگی کافی تکلیف دہ تھی ۔۔۔ اسے ابھی تک یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کے لن کو یاد کر کہ اسکے ساتھ لیٹے ہوئے اپنی پھدی کا پانی نکال چکی تھی ۔۔۔ دن میں کبھی اسے شرمندگی گھیر لیتی تو کبھی اسے آصف کا تگڑا لن یاد آ جاتا ۔۔۔ اس کے لئے مشکل ہو رہا تھا ان خیالات کو اپنے ذہن سے نکالنا ۔۔۔
۔
۔
تبھی ایک دم اسکا فون بج اٹھا ۔۔۔ طاہرہ اپنے ہوش میں واپس آئی اور فون اٹھایا ۔۔۔ فون کے دوسری طرف اسکی بہن شہناز تھی ۔۔۔ شہناز ہمیشہ سے اسکی بہن سے زیادہ اسکی دوست رہی تھی ۔۔۔ طاہرہ کا بہت دل کیا کہ وو اپنی بہن کو سب کچھ بتا دے ۔۔۔ مگر شرم کے مارے کچھ نا بول پائی ۔۔۔ اسے لگا وو خود ہی سب ٹھیک کر لے گی ۔۔۔ رسمی حال احوال کے بعد شہناز نے سودا سلف لانے کے لئے آصف کو اپنے گھر بھیجنے کا کہا ۔۔۔ آصف کا نام سن کر طاہرہ کا دل ایک بار زور سے دھڑکا تھا ۔۔۔ بہت عجیب کیفیت تھی ۔۔۔ ایک بیٹے کی وجہ سے ماں کی ایسی حالت ۔۔۔ طاہرہ نے خود پر قابو کرتے ہوئے آصف کو آواز دی ۔۔۔ آصف اپنے کمرے سے باہر آیا تو طاہرہ نے اسے اپنی خالہ کے گھر جانے کا کہا ۔۔۔ خالہ کا نام سن کر آصف کے چہرے کا رنگ بدل گیا تھا ۔۔۔ مگر طاہرہ یہ دیکھ نہیں پائی کیونکہ وہ خود اپنے بیٹے سے نظریں چرا رہی تھی ۔۔۔
۔
۔
بھاری قدموں کے ساتھ چلتا ہوا آصف خالہ کے گھر پہنچا ۔۔۔ وہ آگے آنے والے وقت سے ڈر رہا تھا ۔۔۔ خالہ کے گھر پہنچا تو خالہ ٹی۔ وی لاؤنج میں بیٹھی اسی کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔ آصف خالہ کے پاس جا کر کھڑا ہوگیا ۔۔۔ اسکی خالہ نے کالے رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا اور ہمیشہ کی طرح کھلے گلے میں سے انکے ادھ ننگے ممے دعوتِ نظارہ دے رہے تھے ۔۔۔ آصف خالہ کی خوبصورتی میں ہی کھو گیا ۔۔۔ شہناز نے اسے اپنے مموں کو تاڑتے ہوئے دیکھا اسے یہ بہت اچھا لگا۔
اس نے جان بوجھ کر ایک لمبا سانس لیا جس سے اسکے ممے مزید اوپر کو اٹھتے گئے ۔۔۔ وہ اپنے بھانجے کی کھلتی ہوئی آنکھیں دیکھ کر مسکرانے لگی ۔۔۔ شہناز نے اسے اپنے ساتھ صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔۔۔
۔
۔
شہناز نے پیار سے اپنے بھانجے کی طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔
۔
خالہ : " آصف ۔۔۔ کل جو کچھ ہوا میں معافی مانگتی ہوں ۔۔۔ غلطی صرف تمہاری نہیں میری بھی تھی ۔۔۔ مجھے وہ سب کچھ کرتے ہوئے دروازہ بند کرنا چاہئے تھا ۔۔۔ اور میں تم پر کچھ زیادہ ہی غصہ ہو گئی تھی تم اپنی خالہ سے ناراض تو نہیں ہو ؟۔۔ "
۔
آصف کو تو لگا تھا آج اسکی شامت آنے والی ہے
مگر یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی تھی ۔۔۔
۔
آصف : " خالہ آپ کیوں معافی مانگ رہی ہیں ۔۔۔ آپ کا گھر ہے آپ جو مرضی کریں ۔۔۔مجھے آپ کی پرائیویسی کا خیال کرنا چاہئے تھا ۔۔۔ مجھے تو آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے آپ نے اس بات کو راز رکھا اور امی کو نہیں بتایا ۔۔۔ "
۔
خالہ : "۔۔۔۔۔ اچھا خیر یہ بتاؤ اپنا وعدہ تو یاد ہے نا ؟؟
۔
آصف : " کونسا وعدہ ؟؟؟ "
۔
خالہ : " تم نے ہی تو کہا تھا اگر میں یہ بات تمہاری امی کو نہ بتاؤں تو تم میرے سارے کام کرو گے ؟؟۔ بس سمجھو کام پڑ گیا ہے تم سے ۔۔۔ "
۔
آصف : " ہاں جی بلکل یاد ہے اپنا وعدہ ۔۔۔ آپ حکم کریں ۔۔۔ "
۔
خالہ : " پہلے وعدہ کرو میں جو کہوں گی کرو گے ۔۔۔ منع نہیں کرو گے ۔۔۔ اور نہ کبھی کسی کو کچھ بتاؤ گے ۔۔۔ "
۔
آصف : " یہ بھی کوئی کہنے والی بات ہے ۔۔۔ میرا وعدہ ہوگیا آپ جو کہیں گی کروں گا ۔۔۔ منع نہیں کروں گا اور نہ کسی کو کچھ بتاؤں گا ۔۔۔ "
۔
خالہ : " شاباش بیٹا ۔۔۔ چلو آ جاؤ ۔۔۔ "
۔
۔
شہناز نے اپنے بھانجے کا ہاتھ پکڑا اور اسے صوفے سے اٹھا کر اپنے کمرے میں لے گئی۔۔
آصف کو تجسس ہو رہا تھا کہ آخر ایسا کون سا کام ہے جو کسی کو بتانا نہیں
ایسا ایک ہی کام اسکے ذہن میں آ رہا تھا مگر وہ تو ممکن نہیں تھا۔۔۔۔
خالہ کے ساتھ ؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں۔۔۔۔۔نہیں۔
آصف چپ چاپ خالہ کے پیچھے چلتا ہوا انکی گول مٹکتی گانڈ کو دیکھ رہا تھا۔۔
خالہ نے ایک بار مڑ کر دیکھا تو اپنے بھانجے کو اپنی خالہ کی گانڈ کو تاڑتے دیکھ کر اچھا لگا اور وہ مسکرا کر آصف کو اپنے کمرے میں لے آئی ۔۔۔
۔
۔
آصف کو بیڈ پر بیٹھا کر شہناز اسکے سامنے کھڑی ہو گئی۔
آصف کی نظریں اپنی خالہ کے جسم کو ماپ رہی تھیں۔
شہناز کے چہرے پر ایک معنی خیز مسکراہٹ تھی۔۔۔ اس نے اسی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے قمیض کا دامن پکڑا اور اوپر کی طرف کھینچنا شروع کر دیا ۔
 
اسنے اسی مسکراہٹ کے ساتھ قمیص کا دامن پکڑ کر اوپر کو کھینھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔شہناز نے اپنے قمیض کا دامن پکڑ کر قمیض اتاردی آصف اپنی خالہ کو سرخ رنگ کے برا میں دیکھ کر مچلنے لگا ۔
وہ برا بڑی مشکل سے اسکی خالہ کے مموں کو سنبھالے ہوے تھی۔۔۔
آصف کا لن اسکی پینٹ میں اکڑ کر سخت ہو چکا تھا ۔شہناز کو اپنے بھانجے کا اکڑا ہوا لن اپنی تعریف لگا اور وہ مسکرا کر اپنا برا کا ہک کھولنے لگی۔۔۔
آصف کے لئے یہ سب ایک خواب جیسا تھا۔
اسکے لئے یقین کرنا مشکل تھا کہ اسکی خالہ اسکے سامنے اپنی قمیض اور اب اپنی برا کھول سکتی ہے ۔۔۔
۔
جیسے ہی شہناز نے اپنی برا کھولی آصف کا لن ایک دم اکڑ کر سخت ہوگیا ۔۔
اتنے خوبصورت ممے آصف نے کبھی نہیں دیکھےتھے۔۔ شہناز کے ممے بڑے اور سفید تھے
ان پر ہلکے براؤن رنگ کے نپلز غضب ڈھا رہے تھے ۔۔۔ انکے مموں سے بلکل نہیں لگتا تھا کہ وہ دو بچوں کی ماں ہیں ۔۔۔ خالہ شھناز نے ابھی بھی اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھا ہوا تھا اور انکے ممے ویسے ہی سر اٹھا کے کھڑے تھے جیسے کسی جوان لڑکی کے ممے ہوں ۔۔۔ خالہ کا جسم بہت خوبصورت حد تک بھرا بھرا تھا ۔۔۔ انکا رنگ بہت سفید تھا اور انکی نرم اور خوبصورت کمر ۔۔۔۔ اف ۔۔۔۔ آصف کبھی خالہ کے چہرے کی طرف دیکھتا تو کبھی انکے مموں اور انکی ننگی کمر کو دیکھنے لگتا ۔۔۔ آصف کے لئے کنٹرول کرنا بہت مشکل ہوگیا تھا۔۔
اس کا دل کر رہا تھا کہ وہ ایک دم جھپٹ پڑے اور اپنی خالہ کے مموں کو چوسنے لگے ۔۔۔ اس کی خالہ اس کے سامنے ننگی کھڑی تھی مگر ابھی تو اس کا ڈر نکلا نہیں تھا۔
شہناز اپنے بھانجے کی آنکھوں میں شہوت ' محبت اور حیرت کے جذبات دیکھ رہی تھی ۔۔۔ اور اپنے بھانجے کی پینٹ میں بنا ہوا تنبو اسکی پھدی میں ہلچل مچا رہا تھا ۔۔۔
۔
۔
کچھ دیر اپنے ممے اپنے بھانجے کے سامنے ہلانے کے بعد شہناز بولی ۔۔۔
: " بیٹا جو لوگ دیکھتے رہتے ہیں نہ؟ وہ بس دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں ۔۔۔ کامیاب تو وہ ہوتا ہے جو سوچتا نہیں کر گزرتا ہے ۔۔۔ "
۔
۔
آصف خالہ کی بات سمجھ گیا ۔۔۔ آخر اسکی خالہ اپنی قمیض اتارے اسکے سامنے ننگی کھڑی تھی اب اس سے زیادہ کیا دعوت دے ۔۔۔ آصف نے کانپتے ہاتھوں سے اپنی خالہ کی کمر کو پکڑا اور دونوں ہاتھوں سے خالہ کی کمر کو پکڑ کر انکو اپنے پاس کیا ۔۔۔ خالہ کے ممے آصف کے چہرہ کے سامنے لہرا رہے تھے ۔۔۔ آصف نے بہت پیار سے خالہ کے نپل پر پیار کیا۔
شہناز خالہ کی سانسیں تیز ہونے لگی تھیں ۔۔۔ جس سختی سے آصف نے اسکی کمر کو پکڑ رکھا تھا وہ شہناز کو بہت گرم کر رہی تھی۔
اور جیسے ہی آصف نے شہناز کے مموں پر زبان پھیری اور اسکے نپل کو منہ میں لے کر چوسنا شروع کیا تو شہناز کی پھدی میں آگ بھڑک اٹھی جسے بجھانے کے لئے ایک سیلاب اسکی پھدی سے بہنے لگا ۔۔۔
۔
۔
شہناز بہت پیار سے اپنے بھانجے کے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگی اور اسکے سر کو اپنے مموں پر مزید دبانے لگی ۔۔۔ آصف جس شدت سے اسکے ممے چوس رہا تھا وہ شہناز کو شہوت کے جذبات میں بہا لے جا رہاتھا ۔۔۔ دوسری طرف آصف جسے ہوش سنبھالنے کے بعد پہلی بار ممے دیکھنا ' انھیں چھونا اور چوسنا نصیب ہوا تھا مدہوشی کی سی حالت میں تھا۔
آصف اپنے ہاتھوں کو خالہ کی کمر پر پھیرتے ہوئے انکی شلوار کے اندر لےگیا اور انکے چوتر پکڑ لیۓ ۔۔۔ شہناز نے اپنی گانڈ پر اپنے بھانجے کے ہاتھوں کو محسوس کیا تو تڑپ اٹھی ۔۔۔ اس نے آصف کے سر کو پکڑ کر اپنے مموں پر دبا دیا اور اپنے جسم کو مزید اسکے قریب کر لیا ۔۔۔ شہناز کی گانڈ بہت بڑی اور موٹی اور نرم تھی ۔۔۔ آصف باری باری اپنی خالہ کے دونوں ممے چوس رہا تھا ۔۔۔ وہ خالہ کے نپل کو منہ میں لیتا اور بچوں کی طرح چوسنے لگتا۔۔۔
کبھی زبان نکال کر چاٹنے لگتا۔
شہناز خالہ کی شلوار میں مانو جیسے سیلاب آ چکا تھا اس کے لیے اب برداشت کرنا ناممکن ہوچکا تھا ۔۔۔
۔
۔
شہناز نے آصف کے ایک ہاتھ کو اپنی گانڈ سے اٹھایا اور آگے سے لا کر اپنی شلوار کے اندر گھسا کر پھدی پر رکھ دیا ۔۔۔ آصف نے جیسے ہی خالہ کی پھدی کو چھوا تو اسے حیرت کا ایک جھٹکا لگا ۔۔۔ خالہ کی پھدی بہت گیلی ہو چکی تھی ۔۔۔ آصف نے اپنی خالہ کی پھدی پر ہاتھ رکھ کر مسلا اور ایک نظر اپنی خالہ پر ڈالی تو خالہ کی آنکھوں میں شہوت ابل رہی تھی اور انکے چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ تھی۔
آصف نے اپنا ہاتھ خالہ کی شلوار سے باہر نکالا تو شہناز کے چہرے پر بے چینی امڈ آئی ۔۔۔ مگر آصف نے فوراً خالہ کی شلوار کو پکڑا اور اتارنے لگا ۔۔۔ شلوار اترتے ہی خالہ کی پھدی آصف کے سامنے آ گئی ۔۔۔ خالہ کی پھدی مکمل گیلی ہو چکی تھی ۔۔۔ شہناز نے اپنی پھدی اور جسم کے بال اچھی طرح صاف کر رکھے تھے ۔۔۔
۔
۔
آصف نے اپنی خالہ کی شلوار اتار کر سائیڈ پر رکھی اور بیڈ سے اتر کر نیچے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا ۔۔۔ شہناز کی سانسیں بہت تیز ہو چکی تھیں اور شہوت کے مارے اسکا پورا جسم تپ رہا تھا۔
خالہ شہناز اپنے بھانجے کو اپنی ٹانگوں کے درمیان بیٹھے دیکھ اسکے چھونے کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔
۔
آصف نے اپنی خالہ کی پھدی کے ہونٹوں کو تھوڑا سا کھولا اور اپنا چہرہ پاس کر کے اپنی زبان خالہ کی پھدی کے دانے پر پھیری تو شہناز تڑپ اٹھی ۔۔۔ شہناز کے جسم نے جھٹکا کھایا اور اس نے آصف کا سر پکڑ کر اپنی پھدی پر دبانا شروع کر دیا ۔۔۔ آصف نے اپنی خالہ کی پھدی کو چاٹنا شروع کر دیا ۔۔۔ شہناز مزے کی انتہا گہرائیوں میں ڈوبی اپنی کمر کو ہلا ہلا کر اپنے بھانجے کے چہرے پر اپنی پھدی رگڑ رہی تھی ۔۔۔
.
کچھ ہی دیر میں شہناز کو لگا وہ فارغ ہونے والی ہے تو اس نے جلدی سے آصف کا چہرہ اپنی پھدی سے ہٹایا اور اسے اوپر اٹھا کر بیڈ پر لٹا دیا ۔۔۔ آصف کے بیڈ پر لیٹتے ہی شہناز اس پر جھپٹ پڑی اور اس کی پینٹ کو اتارنے لگی۔
خالہ شہناز بہت تیز تیز ہاتھ چلا رہی تھی جس سے اس کی شہوت صاف ظاہر ہو رہی تھی ۔۔۔ آصف نے بھی جلدی سے اپنی شرٹ کے بٹن کھول کر شرٹ اتار کر سائیڈ کردی جب کہ شہناز اس کی پینٹ کو اتار کر اس کے اوپر بیٹھ چکی تھی ۔۔۔ دونوں مکمل طور پر ننگے ہو چکے تھے جب کہ شہناز آصف کے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر ہلاتے ہوئے اسے اپنی پھدی پر سیٹ کر رہی تھی ۔۔۔ شہناز کے لیے اب برداشت کرنا ناممکن ہوچکا تھا اب وہ مزید کوئی انتظار کیےبغیر آصف سے چدوانا چاہتی تھی ۔۔۔
۔
۔
شہناز نے آصف کے لن کی ٹوپی اپنی پھدی کے اوپر رکھی اور آہستہ آہستہ اس پر بیٹھتی گئی ۔۔۔ مزے کی ایک شدید لہر ان دونوں کی جسم میں دوڑ گئی اور ان دونوں کے منہ سے ایک ہی وقت میں " آ آ آ آ ہ ہ ہ " کی آواز نکلی ۔۔۔ شہناز ویسے ہی فارغ ہونے کے قریب تھی جبکہ آصف پہلی بار اپنا لن کسی کی پھدی میں ڈال رہا تھا۔۔۔
شہناز اوپر نیچے اٹھ کر اپنے بھانجے پر جھٹکے مار رہی تھی ۔۔۔ جبکہ اپنے اوپر جھٹکے کھاتی خالہ آصف کو بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔۔۔ شہناز خالہ اپنے بھانجے کا لن اپنی پھدی میں لیے جھٹکے کھا رہی تھی جبکہ اس کے ممے اچھل اچھل کر گر رہے تھے ۔۔۔ آصف کے لیے یہ منظر بے حد خوبصورت تھا ۔۔۔ تبھی ایک دم آصف کو اپنا لن خالہ کی پھدی میں جکڑتا ہوا محسوس ہوا اور شہناز کے جھٹکوں کی رفتار بھی شدید تیز ہوگئی ۔۔۔ آصف نے اپنے دونوں ہاتھوں سے خالہ کے مموں کو پکڑ لیا اور نیچے سے خود بھی جھٹکے مارتے ہوئے خالا کا ساتھ دینے لگا ۔۔۔
۔
۔
کچھ ہی لمحوں میں شہناز اور آصف دونوں فارغ ہونے لگے ۔۔۔ آصف اپنی ساری منی خالہ کے اندر نکالتا گیا جبکہ شہناز اپنے بھانجے کے لن پر فارغ ہوتے ہوئے اسکے اوپر لیٹتی گئی ۔۔۔ شہناز کو تو یاد بھی نہیں تھا کہ آخری بار اسے اس قدر مزہ کب آیا تھا کیونکہ آصف کا لن اپنے خالو سے کہیں زیادہ بڑا تھا۔۔
لیکن ایک بات تو طے تھی کہ شہناز نے اپنے طور پر یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ آج جو کچھ بھی ہوا ہے یہ آخری بار نہیں تھا ۔۔۔ یہ مزہ اس قدر شدید تھا کہ شہناز کو لت لگ چکی تھی ۔۔۔ جبکہ دوسری طرف آصف نے پہلی بار کسی عورت کو چھوا تھا یا اس کے ساتھ سیکس کیا تھا ۔۔۔ وہ عورت بھی اس قدر خوبصورت ' حسین اور سیکسی جسم کی مالک اور اس کی اپنی سگی خالہ تھی ۔۔۔
۔
۔
شہناز نے آصف کا لن اپنی پھدی سے نکالا اور کپڑے سے اچھی طرح صاف کرنے کے بعد آصف کے ساتھ بیڈ پر لیٹ کر اسے گلے سے لگا لیا ۔۔۔ آصف نے اپنی خالہ کے گلے لگتے ہی ان کے ممے کو منہ میں لے کر چوسنا شروع کردیا جب کہ شہناز بہت پیار سے۔۔۔؟۔
خالہ شہناز اپنے بھانجے کے بالوں میں پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی
: " آصف بیٹا تم یہ نہ سمجھنا کہ تمہاری خالہ اتنی ہی کوئی چالو عورت ہے کہ کسی کے ساتھ بھی سوجائے
۔۔۔ یہ زندگی میں پہلی بار ہوا ہے کہ میں نے تمہارے خالو کے علاوہ کسی کے ساتھ سیکس کیا ہے۔۔
یہ تو بس اکیلے رہ کر میں اب تھک چکی ہوں اور اوپر سے تم ہو ہی اتنے پیارے کہ مجھ سے رہا ہی نہیں گیا ۔۔۔ اتنے عرصے سے تمہارے خالو گھر نہیں آئے تو تم خود ہی سوچو آخر میں جاؤں تو جاؤں کہاں۔۔؟؟
جب جسم کی بھوک اتنی زیادہ بڑھ جاتی ہے تو۔۔؟؟
بس تم یہ بات کبھی کسی کو بھی مت بتانا یہ ہم دونوں کا راز ہی رہے گا۔
اور بدلے میں تم جب چاہو اپنی خالہ سے پیار کر سکتے ہو تمہیں بھی بہت مزہ ملے گا اور میرے بھی جسم کی پیاس بجھتی رہے گی ۔۔۔ "
آصف نے اپنی خالہ کے ممے چوستے ہوئے ایک بار سر اٹھایا اور بولا ۔
آصف : " آپ پریشان نہ ہوں خالہ میں یہ بات کسی کو بھی نہیں بتاؤں گا ۔۔۔ اور اب تو میں روز ہی آپ کے گھر آؤں گا اور جی بھر کر ہم دونوں چدائی کریں گے ۔۔۔ میرا تو دل ہی نہیں بھر رہا آپ کے ممے چوسنے سے ۔۔۔ اوپر سے آپ ہیں ہی اتنی خوبصورت اور سیکسی کہ کوئی بھی آپ کی پھدی مارنے کے لیے تیار ہو جائے ۔۔۔ "
آصف یہ بات سن کر کھلکھلا کر ہنس پڑا جبکہ خالہ بھی اس کی بات سن کر ایک قہقہ لگا کر بولی ۔۔۔
: " تم بھی کسی سے کم نہیں ہو میری جان ۔۔۔ آج تم نے خالہ کی پھدی جس طرح سے ماری ہے میرا بس چلے تو میں تمہیں اپنے بستر سے نکلنے ہی نہ دوں ۔۔۔ بس تم یہ سمجھو کہ تمہیں خالہ کی طرف سے مکمل چھوٹ ہے تمہارا جب دل کرے تو تم آکر خالہ کو چود سکتے ہو ۔۔۔ تمہاری خالہ کی پھدی کو ہر وقت اب تمہارا ہی انتظار رہے گا ۔۔۔ "
خالہ کے منہ سے پھدی کی بات سن کر آصف نے خالہ کی پھدی پر ہاتھ رکھ کر دبایا اور ان کے ممے کو چومتے ہوئے بولا ۔
: " خالہ اگر آپ برا نہ مانیں تو آپ سے ایک بات پوچھوں؟؟؟ "
شہناز : " میری جان اب تمہیں کسی بھی بات کی اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے جو دل میں آتا ہے پوچھ لو ۔۔۔ "
آصف خالہ کی پھدی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا ۔۔۔
" آپ نے کہا نہ کہ خالو اتنے عرصے سے گھر نہیں آئے تو آپ کے جسم کی پیاس اس قدر بڑھ گئی ہے کہ آپ سے برداشت کرنا ناممکن ہو گیا تھا ۔۔۔ تو آپ اپنی پیاس بجھانے کے لیے کیا کرتی تھیں ۔۔۔ اور میرے ابو بھی تو اتنے عرصے سے نہیں آئے تو کیا امی کی بھی پیاس اس قدر شدید ہو گی اور وہ کیا کرتی ہوں گی ؟؟؟ "
اپنی پھدی پر اپنے بھانجے کے ہاتھ کی مساج محسوس کرکے شہناز بالکل مدہوش ہونے لگی تھی ۔۔۔ شہناز نے آصف کو گلے سے لگایا اور اپنی مدہوش ہوتی آواز میں بولی ۔
شہناز : " اب تو تمہارا لن نصیب ہوگیا خالہ کو ۔۔۔ اب تو میں سوچنا بھی نہیں چاہتی کہ اتنا عرصہ میں نے کتنا مشکل میں گزارا ۔۔۔ ویسے پہلے جب بھی دل کرتا تھا تو اپنی انگلیوں سے ہی گزارا چلانا پڑتا تھا یا پھر کبھی کبھی کسی کھیرے کی سبزی سے ۔۔۔ اور جہاں تک رہی تمہاری امی کی بات تو آخر وہ بھی انسان ہی ہیں ان کا بھی دل کرتا ہوگا ۔۔۔ اور جہاں تک مجھے یاد ہے تو تمہاری امی کے جسم کی بھوک بھی کچھ زیادہ ہی رہی ہے ۔۔۔ میں تو یہ حیران ہوں کہ وہ کیسے برداشت کرتی ہوں گی ۔۔۔ ظاہر ہے وہ بھی انگلیوں پہ ہی گزارا کرتی ہوگی ۔۔۔ اور تم تو سوتے بھی اپنی امی کے ساتھ ہو وہ بچاری تو تمہارے سونے کا انتظار کرتی رہتی ہوگی ۔۔۔ ویسے ایک بات بتاؤں تم جو میرے جسم پر فدا ہو چکے ہو تو اگر اپنی امی کو دیکھ لو نہ تو تم تو پاگل ہی ہو جاؤ ۔۔۔ وہ تو میرے سے بھی کئی گناہ زیادہ سیکسی جسم کی مالک ہیں ۔۔۔ "
جیسے ہی آصف نے اپنی امی کے سیکسی جسم کے بارے میں سنا تو اس کے لن نے ایک جھٹکا کھایا جسے شہناز خالا نے محسوس کرلیا ۔۔۔ کیونکہ شہناز خود اب پھر سے گرم ہونے لگی تھی تو وہ چاہتی تھی کہ آصف بھی اس کی طرح گرم ہو اور ایک بار پھر اپنی خالہ کی پھدی مارے ۔۔۔ شہناز نے جلدی سے اپنے بھانجے کے لن کو پکڑ لیا اور اس کے سر کو پکڑ کر اپنا مما اس کے منہ میں دے کر بولی ۔
شہناز : " ایک بات بتاؤ اگر تمہیں اپنی امی کو چھونے کا موقع ملے تو چھووُ گے ؟؟؟
اگر ان کے موٹے اور نرم ہونٹوں کو چوسنے کا موقع ملے تو چوسوگے ؟؟؟
اور اگر تمہیں اپنے امی کے ممے چوسنے کاموقع ملے جو کہ میرے سے کہیں پڑے اور کافی خوبصورت ہیں تو کیا تم چوسو گے ؟؟؟
اور اگر تمہیں موقع ملے اپنی امی کی پھدی میں لن ڈال کر انہیں چودنے کا تو چودو گے ؟؟؟ "
آصف نے خالہ کی کسی بات کا جواب نہیں دیا ۔۔۔ وہ خاموشی سے خالہ کے ممے چوستا رہا اور اس کا لن اکڑ کر ایک دم پتھر کی طرح سخت ہو گیا ۔۔۔ جبکہ اس کی خالہ کی پھدی کے اوپر چلنے والا اس کا ہاتھ مزید تیزی سے حرکت کرنے لگا ۔۔۔ اپنی امی کے بارے میں اتنی سیکسی باتیں سن کر آصف فل گرم ہو چکا تھا ۔۔۔
شہناز نے جلدی سے آصف کے لن کو چھوڑا اور اس کا سر اپنے مموں سے اوپر اٹھا کر اسے سائیڈ پر کیا ۔۔۔ آصف نے سوالیہ نظروں سے خالہ کی طرف دیکھا ۔۔۔ شہناز نے بغیر کچھ بولے اپنی ٹانگیں اوپر اٹھائیں اور گھٹنوں سے پکڑ لیا ۔۔۔ آصف کے چہرے پر ایک مسکراہٹ آگئی وہ سمجھتے ہوئے فوراً خالہ کی ٹانگوں کی طرف لپکا ۔۔۔ اپنی خالہ کی ٹانگوں کے درمیان میں بیٹھتے ہی آصف نے اپنا لن خالہ کی پھدی کے اوپر رگڑنا شروع کر دیا ۔۔۔ شہناز کے منہ سے سسکاریاں نکل رہی تھیں اور وہ اب پہلے سے بھی کہیں زیادہ گرم ہو چکی تھی ۔۔۔ اس نے اپنی ٹوپی خالہ کی پھدی کے ہونٹوں کے اوپر سیٹ کی اور ایک ہی جھٹکے میں پورا کا پورا لن خالہ کی پھدی کے اندر گھسا کر ان کے اوپر چڑھ گیا ۔۔۔ شہناز کے لیے یہ جھٹکا اتنا شدید تھا کہ اس کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکلی اور اس نے اپنی ٹانگیں چھوڑ کر آصف کو اپنی باہوں میں جکڑ لیا ۔۔۔ آصف کے نظروں کے سامنے صرف اور صرف اس کی امی کا خیال دوڑ رہا تھا جوکہ آصف کو شدید گرم کر رہا تھا ۔۔۔ آصف کے جھٹکوں کی رفتار بہت ہی تیز اور شدید تھی ۔۔۔ شہناز مزے کی نئی گہرائیوں کو پہنچ رہی تھی ۔۔۔
آصف نے اپنی خالہ کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے ۔۔۔ یہ پہلی بار تھا کہ وہ دونوں اپنے ہونٹوں پر ایک دوسرے کو کس کر رہے تھے ۔۔۔ شہناز کو یہ بہت اچھا لگا اور وہ بھی بھوکی بچی کی طرح اپنے بھانجے کے ہونٹوں کو چوسنے لگی ۔۔۔
آصف اپنی خالہ کو جھٹکے مارتے ہوئے اس کی پھدی کے اندر ہی فارغ ہونے کے قریب تھا ۔۔۔ جبکہ شہناز بھی اپنے پیروں کی مڑتی ہوئی انگلیوں کے ساتھ ساتھ فارغ ہونے لگی تھی۔
آصف کو اپنے لن کے اوپر خالہ کی پھدی کا پانی محسوس ہونے لگا اور اس کے ساتھ ہی آصف کے لن نے بھی خالہ کی پھدی کے اندر اپنی منی کا فوارہ چھوڑ دیا ۔۔۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
خالہ کے گھر سے اپنے گھر کی طرف جاتے ہوئے آصف کے ذہن میں صرف امی کا ہی خیال چھایا ہوا تھا ۔۔۔ جب سے اس نے اپنی امی کے سیکسی جسم کے بارے میں خالہ سے تعریف سنی تھی اس کے دل کے اندر شدید خواہش تھی اب اپنی امی کو ننگا دیکھنے کی ۔۔۔ آصف گھر میں داخل ہوتے ہی ٹی-وی لاؤنج میں پہنچا جہاں اسکی امی بیٹھی کسی سوچوں میں گم تھی ۔۔۔ طاہرہ کے اندر ابھی تک کشمکش چل رہی تھی ۔۔۔ آصف نے اپنی امی کو دیکھا تو اب اسکی نظر بدل چکی تھی ۔۔۔ وہ کپڑوں کے اوپر سے ہی امی کے جسم کے خدوخال کا اندازہ لگانے لگا ۔۔۔ طاہرہ نے آصف کو دیکھا تو تھوڑا شرمانے لگی مگر اس کے ساتھ ہی اسے آصف بھی تھوڑا بدلہ بدلہ سا لگا ۔۔۔
۔
آخر بدلہ ہوا کیوں نہ لگتا ۔۔۔ آج وہ بچپن سے جوانی تک کا سفر اپنی خالہ کی پھدی پر سوار ہو کر طے کر آیا تھا
 
 
 
اپنی خالہ کی پھدی پر سوار ہوکر طے کر آیا تھا
طاہرہ نے اپنے بیٹے کی آنکھوں میں ایک عجیب کشش دیکھی جو آج سے پہلے صرف طاہرہ کی آنکھوں میں تھی اپنے بیٹے کے لئے۔۔۔۔
وہ بھی جب سے اس نے آصف کو مٹھ مارتے دیکھا تھا ۔۔۔ جس طرح آصف نے گھر آتے ہی اپنی ماں کو دیکھا تو طاہرہ کو لگا جیسے وہ اپنے بیٹے کی طرف کھنچی جا رہی ہو ۔۔۔ طاہرہ نے بڑی مشکل سے اپنے اوپر قابو کیا اور نظریں جھکا لیں ۔۔۔ جبکہ آصف اپنی ماں کے جسم کا جائزہ لینے میں مصروف تھا ۔۔۔
۔
۔
طاہرہ ہمیشہ تنگ اور کھلے گلے کے کپڑے پہنتی تھی ۔۔۔ مگر گھر میں ہوتے ہوئے اس نے کبھی دوپٹہ لینا بھی ضروری نہیں سمجھا ۔۔۔ اور نا ہی کبھی آصف نے غور کیا تھا ۔۔۔ مگر اب پہلی بار آصف نے غور سے دیکھا تو اسے واقعی اپنی ماں بہت سیکسی لگی ۔۔۔ شہناز خالہ نے اسے معصوم بچے سے حرامی لڑکا بنا دیا تھا ۔۔۔
۔
۔
طاہرہ نے محسوس کیا کہ آصف ابھی تک ایک ہی جگہ پر کھڑا ہے ۔۔۔ اس نے سر اوپر اٹھایا اور بولی ۔
۔
" کیا ہوا بیٹا ۔۔۔ کچھ چاہئے؟؟ ۔۔۔ "
۔
آصف کے ذہن میں تو مانو جیسے لسٹ بننے لگی ان سب چیزوں کی جو اسے اپنی ماں سے چاہئے تھیں ۔۔۔ مگر ابھی صحیح وقت نہیں تھا اظہار کا تو آصف نے صرف نفی میں سر ہلادیا ۔۔۔
۔
طاہرہ نے جیسے ہی آصف کی طرف دیکھا تو اسے احساس ہوگیا کہ وہ اسکے چہرے کی طرف نہیں بلکہ گردن سے تھوڑا نیچے دیکھ رہا ہے ۔۔۔ تبھی طاہرہ کو احساس ہوا کہ بیٹھنے سے اسکا قمیض آگے کھنچ گیا تھا جس سے اسکے ممے کافی حد تک ننگے تھے ۔۔۔ طاہرہ نے اپنے بیٹے کو پہلی بار اپنی طرف ایسی گندی نظر سے دیکھتے ہوئے دیکھا تو ایک لمحے کے لئے اسکا دل زور سے دھڑکنے لگا تھا۔۔۔۔
طاہرہ نے سوچا کہ اگر اب اس نے اپنا قمیص ٹھیک کیا تو اسکا بیٹا شرمندہ نہ ہو جائے ۔۔۔ طاہرہ کو اپنے جسم میں ایک سنسناہٹ سی محسوس ہوئی اور اسے اپنے نپلز سخت ہوتے ہوئے محسوس ہوئے ۔۔۔ ہر عورت اچھی طرح بتا سکتی ہے کہ سامنے والے مرد کی آنکھیں اسکے جسم کے کس حصے پر ٹکی ہیں ۔۔۔ مگر مردوں کو لگتا ہے کہ شاید وہ بہت چالاک ہیں ۔۔۔
۔
۔
طاہرہ نے ایک بار پھر آصف کو آواز دی تو آصف اپنے ہوش میں واپس آیا ۔۔۔ اور سیدھا کمرے میں گھس گیا ۔۔۔ طاہرہ نے آصف کے جاتے ہی اپنے گلے کی طرف دیکھا تو اسے حیرت کا جھٹکا لگا کیوں کہ اسکی قمیص واقعی کچھ زیادہ ہی نیچے کو کھنچی ہوئی تھی جس سے اسکے ممے کافی حد تک ننگے تھے ۔۔۔ مگر ایک بات کا یقین طاہرہ کو ہوگیا تھا کہ اسکا بیٹا اب بچہ نہیں رہا اور وہ بھی اپنی ماں کو اسی نظر سے دیکھتا ہے جس نظر سے اسکی ماں اسے دیکھتی ہے ۔۔۔
۔
۔
طاہرہ نے اپنی قمیص سیٹ کی اور نیچے شلوار کی طرف دیکھا تو اسے چھوٹا سا گیلا نشان نظر آیا ۔۔۔ آصف کی ایک نظر نے ہی اسکا یہ حال کر دیا تھا ۔۔۔ اس قدر شہوت اس نے کبھی محسوس نہیں کی تھی ۔۔۔ طاہرہ نے اپنی شلوار کے اوپر سے اپنی پھدی کو ہاتھ لگایا تو سرور کی ایک لہر اسکے جسم میں دوڑ گئی ۔۔۔ طاہرہ کی آنکھیں بند ہونے لگیں اور اسکا ہاتھ تیزی سے اسکی پھدی پر حرکت کرنے لگا ۔۔۔ مگر ایک دم اسے خیال آیا کہ وہ اس وقت ٹی وی لاؤنج میں بیٹھی ہے جہاں کوئی بھی کسی وقت بھی آسکتا ہے۔۔
طاہرہ نے ایک دم اپنی آنکھیں کھولیں اور فوراً اپنی پھدی سے ہاتھ ہٹایا ۔۔۔ وہ جلدی سے صوفے سے اٹھی اور سیدھا اپنے کمرے میں گئی جا کر دروازہ کھول کر اندر دیکھا ۔۔۔ آصف کمرے میں نہیں تھا مگر اندر باتھ روم سے شاور چلنے کی آواز آرہی تھی ۔۔۔ آصف ہمیشہ لمبا وقت لیتا تھا نہانے میں اس لئے اس کے جلدی باہر آنے کی امید نہیں تھی ۔۔۔ طاہرہ نے آرام سے دروازہ بند کیا اور اپنی بیٹی کے کمرے کی طرف چل پڑی ۔۔۔۔
۔
۔
طاہرہ یہ تسلی کرنا چاہتی تھی کہ وہ ٹی وی لاؤنج میں اگر کچھ کرے تو اس کے بچے باہر نہیں آئیں گے ۔۔۔ طاہرہ نے آہستہ سے اپنی بیٹی کے کمرے کا دروازہ کھولا ۔۔۔ جیسے ہی دروازہ کھلا تو طاہرہ کو ایک شدید جھٹکا لگا ۔۔۔
۔دروازہ کھولتے ہی طاہرہ کی نظر سامنے بیڈ پر پڑی جہاں اس کی بیٹی ماریہ ننگی لیٹی ہوئی تھی ۔۔۔ ماریہ کے ایک ہاتھ میں موبائل تھا جبکہ اس کا دوسرا ہاتھ بہت تیزی سے اس کی پھدی کے اوپر حرکت کر رہا تھا ۔۔۔ ماریہ کو انسیسٹ پورن بہت پسند تھا ۔۔۔ وہ ہر وقت ماں بیٹا ' بہن بھائی ' باپ بیٹی اور کبھی کبھی ماں بیٹی کی چدائی والی ویڈیوز دیکھتی رہتی تھی ۔۔۔
۔
۔
طاہرہ جب ابتدائی جھٹکے سے کچھ سنبھلی تو اسے خیال آیا کہ آخر اس کی بیٹی کی بھی کچھ خواہشات ہیں ۔۔۔ اس کے جسم کی بھی ضروریات ہیں جنہیں پورا کرنے والا کوئی نہیں ۔۔۔ جس طرح وہ خود اپنے ہاتھ سے اپنی پھدی سہلا لیتی ہے اس طرح اس کی بیٹی بھی اپنی پھدی سہلانے میں مصروف ہے ۔۔۔ طاہرہ نے نظر بھر کر اپنی بیٹی کے جسم کو دیکھا تو اسے احساس ہوا کہ اس کی بیٹی اب جوان ہو چکی ہے ۔۔۔ اور اپنے جسمانی خدوخال کے معاملے میں وہ بالکل اپنی ماں پر گئی تھی۔۔۔۔
اسی کی طرح بڑے اور موٹے ممے ' بھرا بھرا اور گورا جسم ' موٹی رانیں اور پتلی کمر ' باہر کو نکلی ہوئی گانڈ اور گلابی پھدی ۔۔۔ اپنی بیٹی کی خوبصورتی دیکھ کر ایک بات کا تو اطمینان طاہرہ کو ہوگیا تھا کہ اس کی بیٹی کی شادی جہاں بھی ہوگی وہ اپنے بندے کو صحیح اپنا دیوانہ بنا کر رکھے گی ۔۔۔ طاہرہ نے خاموشی کے ساتھ دروازہ بند کیا اور اپنے کمرے کی طرف چل پڑی ۔۔۔
۔
۔
طاہرہ کمرے میں داخل ہوئی تو آصف پہلے سے ہی بیڈ پر لیٹ چکا تھا ۔۔۔ طاہرہ نے ایک نظر اپنے بیٹے پر ڈالی اور فوراً باتھ روم میں گھس گئی ۔۔۔ جو کچھ طاہرہ نے ٹی-وی لاؤنج میں شروع کیا تھا اسے ختم کرنے کا یہ اچھا موقع تھا ۔۔۔ طاہرہ نے باتھ روم میں گھستے ہی دروازہ بند کیا مگر جلدی میں وہ کنڈی لگانا بھول گئی ۔۔۔ اس نے جلدی سے اپنے کپڑے اتارے اور فوراً اس کا ہاتھ اپنی پھدی پر حرکت کرنے لگا ۔۔۔ اس وقت طاہرہ کے دماغ میں صرف اپنے بیٹے کا موٹا اور تگڑا لن چھایا ہوا تھا ۔۔۔ طاہرہ نے اپنی آنکھیں بند کیں اور اپنی دو انگلیوں کو جیسے ہی اپنی پھدی میں ڈالا تو اس کے منہ سے ایک سسکاری نکلی اور اس کے ساتھ اس کے منہ سے اپنے بیٹے کا نام بھی نکلا " آ آ آ ہ ہ ہ ۔۔۔ آصف ۔۔۔ " ۔۔۔
۔
۔
۔
باہر بیڈ پر لیٹے ہوئے آصف کے ذہن میں خالہ کی باتیں چل رہی تھیں ۔۔۔ جتنی تعریفیں شہناز خالہ نے طاہرہ کے جسم کی تھیں اس وقت سے آصف کے دماغ میں صرف ایک ہی خواہش ابھر رہی تھی ۔۔۔ اور وہ تھی اپنی ماں کو ننگا دیکھنے کی ۔۔۔ آصف کو لگتا تھا کہ اس کی خالہ دنیا کی سب سے خوبصورت جسم کی مالک ہے مگر جب سے اس کی خالہ نے اس کی ماں کے جسم کا ذکر کیا تھا اب آصف کی بے چینی تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی ۔۔۔
۔
۔
آصف آہستہ سے اپنے بیڈ سے نیچے اترا اور باتھ روم کی طرف چل پڑا ۔۔۔ اس کا جسم جیسے خود بخود حرکت کر رہا ہو ۔۔۔ آصف کے دل میں صرف ایک خواہش تھی کہ کاش اس وقت باتھ روم کی کنڈی کھلی ہوئی ہو ۔۔۔ اور وہ جی بھر کر اپنے ماں کے ننگے جسم کا دیدار کر سکے ۔۔۔ آصف آہستہ آہستہ چلتا ہوا باتھ روم تک پہنچا اور بہت ہی احتیاط اور آرام کے ساتھ اس نے جیسے ہی باتھ روم کے دروازے کو کھولا تو وہ کھلتا ہی چلا گیا ۔۔۔ آصف نے دروازے کو اتنا ہی کھولا جتنا اس کے اندر جھانکنے کے لیے کافی تھا ۔۔۔ جیسے ہی آصف نے اپنے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ اور تیز ہوتی دھڑکن کے ساتھ اندر جھانک کر دیکھا تو مانو جیسے اس کی ہزاروں خواہشیں ایک ہی لمحے میں پوری ہو گئی ہوں ۔۔۔ سامنے اس کی ماں نہ صرف ننگی کھڑی تھی بلکہ اپنی پھدی میں انگلی ڈالے بہت مزے کے ساتھ اپنے بیٹے کو یاد کرتے ہوئے اپنی پھدی کا پانی نکالنے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔ بس صرف اس بات کا دکھ تھا کہ اس وقت دروازے کی طرف اس کی ماں نے بھی اپنی پیٹھ کر رکھی تھی ۔۔۔ آصف کو اپنی ماں کے ممے اور پھدی دیکھنا نصیب نہ ہوئی لیکن اپنی ماں کی گوری کمر اور موٹی اور باہر کو نکلی ہوئی گوری گانڈ دیکھ کر اس کے پورے جسم میں مزے کی ایک ایسی شدید لہر دوڑنے لگی کہ اس کے لئے کھڑا ہونا بھی مشکل ہو رہا تھا ۔۔۔
۔
۔
طاہرہ اپنے بیٹے کے لن کو یاد کرتے ہوئے بڑی تیزی کے ساتھ اپنی انگلیاں پھدی کے اندر باہر کر رہی تھی ۔۔۔ جبکہ آصف اپنی ماں کو جھٹکے کھاتا دیکھ کر اچھی طرح سے اندازہ لگا سکتا تھا کہ اس وقت اس کی ماں اپنی پھدی میں انگلی اندر باہر کر رہی ہے ۔۔۔ آصف تو اپنے ماں پر پیار ' ترس اور شہوت ایک ساتھ آ رہی تھی ۔۔۔ اس کا دل کیا کہ وہ ابھی دروازہ کھولے اور فوراً اندر گھس کر اپنا لن نکال کر ماں کی پھدی میں ڈال کر اسے ایسے چودے کہ اپنی کی ماں کی پیاس بجھا دے ۔۔۔ مگر آصف نے بڑی مشکل سے اپنے اوپر قابو کیا ۔۔۔
۔
۔
طاہرہ کے جسم نے جھٹکے کھانا شروع کر دیئے تھے جسے دیکھ کر آصف سمجھ گیا تھا کہ اس کی ماں فارغ ہونے لگی ہے ۔۔۔ آصف نے سوچا کہ اسے اب یہاں سے ہٹ جانا چاہئیے کیونکہ اس کی ماں فارغ ہوتے ہی اگر پیچھے مڑی تو اسے دیکھ لے گی ۔۔۔ آصف آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگا مگر اس سے پہلے کے وہ باہر نکلتا طاہرہ نے فارغ ہوتے ہوئے آنکھیں کھولیں تو سامنے بیسن پر لگے شیشے میں اس نے اپنے بیٹے کو پیچھے ہٹتے ہوئے دیکھ لیا تھا ۔۔۔۔
۔
۔
وہ جانتی تھی کہ یہ غلطی نہیں تھی کیونکہ وہ جانتا تھا اس وقت اسکی ماں باتھ روم میں موجود ہے ۔۔۔ مگر جیسے ہی طاہرہ کو احساس ہوا کہ ابھی ابھی اسکا بیٹا اپنی ماں کو ننگا دیکھ چکا تھا جب اسکی ماں اسی کو یاد کرتے ہوئے اپنی پھدی مار رہی تھی تو اسکو بجائے غصہ آنے کے یہ اچھا لگا اور اسکا ہاتھ مزید تیزی سے حرکت کرنے لگا ۔۔۔ طاہرہ پوری شدت کے ساتھ جھٹکے کھاتے ہوئے فارغ ہو گئی ۔۔۔ جبکہ باہر آصف اپنی ماں کو پیچھے سے ننگا دیکھ کر ہی مدہوش تھا ۔۔۔
۔
۔
طاہرہ نہا کر باہر نکلی تو سامنے آصف بیڈ پر آنکھیں موندے لیٹا تھا ۔۔۔ طاہرہ کو اب مکمل یقین ہو چکا تھا کہ یہ شہوت زدہ فیلنگز ایک طرفہ نہیں دو طرفہ ہیں ۔۔۔ اب اس نے اپنے آپ میں فیصلہ کر لیا کہ وہ مزید اپنے آپ سے جھوٹ نہیں بول سکتی اور نہ ہی زیادہ برداشت کر سکے گی ۔۔۔ اب اسے کسی بھی طرح اپنے بیٹے کا لن اپنی پھدی میں لے کر اس سے چدوانا تھا ۔۔۔ مگر کیسے۔۔۔۔؟؟؟
یہ فیصلہ اس نے صبح پر چھوڑ دیا۔
 
 
صبح کی پہلی کرن جیسے ہی کھڑکی سے اندر داخل ہوئی تو طاہرہ کی آنکھ کھل گئی ۔۔۔ اس کے سامنے ایک دم رات کا منظر گھومنے لگا جہاں اس نے اپنے آپ سے ایک فیصلہ کیا تھا ۔۔۔ وہ فیصلہ جس کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس کے جسم کی بھوک کا حل اسے ملنے والا تھا ۔۔۔ اس نے فیصلہ کر لیا تھا اپنے بیٹے سے چدوانے کا ۔۔۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ جیسے کیسے کرکے بھی اپنے بیٹے کو مادرچود بنا کر چھوڑے گی ۔۔۔ چاہے وہ اس کا بیٹا تھا لیکن تھا تو آخر مرد ہی ۔۔۔ وہ اپنے ذہن میں خیالی پلاؤ پکانے لگی کہ ایک بار اس کا بیٹا جب اسے چودنا شروع کرے گا تو ہر وقت اپنے بیٹے کے لن کی سواری کرتی رہے گی ۔۔۔
۔
۔
طاہرہ نے اپنا ہونٹ دانتوں کے بیچ میں دبایا اور مڑ کر اپنے بیٹے کی طرف دیکھا جو کہ خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا ۔۔۔ طاہرہ نے اپنے بیٹے کی نیند کا فائدہ اٹھا کر ایک بار اسے کس کر گلے لگایا اور اپنا پورا کا پورا جسم کے جسم ساتھ لگا کر اس کے گال کو چوم لیا ۔۔۔ طاہرہ کا بس چلتا تو اسی وقت وہ اپنے بیٹے کے کپڑے اتار کر اس کا لن نکال کر منہ میں لے لیتی ۔۔۔ اور اس نئی صبح کے ساتھ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ چدائی کا ایک نیا منظر شروع کر دیتی ۔۔۔ لیکن طاہرہ نے کوئی جلد بازی نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور صبر سے کام لیتے ہوئے اپنے بیٹے کو اپنے جال میں پھسانے کا فیصلہ کیا ۔۔۔ اس کے لئے سب سے پہلے اسے کیا کرنا تھا وہ اچھی طرح جانتی تھی ۔۔۔
۔
۔
طاہرہ بیڈ سے اٹھی اور سیدھا اپنی الماری کھول کر اندر ایک سفید رنگ کا سوٹ ڈھونڈنے لگی ۔۔۔ یہ وہ سوٹ تھا جو طاہرہ نے اپنی زندگی میں صرف ایک دن ایک گھنٹے کے لئے ہی پہنا تھا ۔۔۔ کیونکہ جب اس نے پہ پہلی بار یہ سوٹ پہنا تو اس کے شوہر نے اسے فورا نے تبدیل کرنے کا کہا کیونکہ وہ سوٹ کچھ زیادہ ہی باریک اور بہت ہی ٹائٹ تھا ۔۔۔ اور اوپر سے اس کا گلا درزی نے شائد کچھ زیادہ ہی کھلا چھوڑ دیا تھا ۔۔۔ جیسے ہی حمید خان نے اپنی بیوی کو وہ سوٹ پہنے ہوئے دیکھا تو فورا ہی اسے باہر نکلنے سے منع کیا تھا ۔۔۔ اور اس نے وجہ یہ بتائی کہ اس گھر میں ایک جوان بیٹی ہے اگر وہ اپنی ماں کی دیکھا دیکھی اس طرح کے کپڑے پہننے لگی تو لوگ باتیں کریں گے ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ایک جوان بیٹا بھی ہے گھر میں جب وہ اپنی ماں کو اس طرح کے سیکسی لباس میں دیکھے گا تو اس پر کیا گزرے گی ۔۔۔ مگر اب حمید خان اس گھر میں نہیں تھا ۔۔۔ اب تھی تو صرف اور صرف ایک ماں کی اپنے بیٹے کیلئے شہوت ۔۔۔ طاہرہ نے الماری سے وہ سوٹ نکالا اور مڑ کر ایک بار آصف کو دیکھ کر سوچا کہ آج تو اس کے مزے لگنے والے ہیں ۔۔۔
۔
۔
طاہرہ نے باتھ روم میں جا کر نہا کر گیلے جسم کے اوپر ہی باریک سفید قمیض پہن لیا ۔۔۔ اور اس کے نیچے ٹائٹ سفید پاجاما ۔۔۔ اف ۔۔۔ گیلا جسم ہونے کی وجہ سے اس کا باریک سفید قمیض اس کے جسم کے ساتھ چپک گیا تھا اور اس طرح نظر آرہا تھا جیسے وہ ننگی ہو ۔۔۔ طاہرہ نے جان بوجھ کر برا اور پینٹی نہیں پہنی تھی اور نہ ہی اس نے دوپٹہ لینا ضروری سمجھا ۔۔۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اب اگر اس نے فیصلہ کرلیا ہے تو وہ پیچھے نہیں ہٹے گی اب وہ اپنے بیٹے سے چدوا کر ہی رہے گی ۔۔۔
۔
۔
طاہرہ باتھروم سے باہر نکلی اور سیدھا بیڈ کے پاس جا کر اپنے بیٹے کے اوپر جھک گئی ۔۔۔ جھک کر اس نے ایک بار اپنے سینے کی طرف دیکھا جہاں اس کے ممے آدھے ننگے ہوکر لٹک رہے تھے ۔۔۔ طاہرہ نے ہاتھ بڑھا کر اپنے مموں کو تھوڑا سا مزید اپنی قمیص سے باہر کی طرف نکالا اور مسکراتے ہوئے اپنے بیٹے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے ہلانے لگی ۔۔۔
۔
۔
جیسے ہی آصف نے آنکھیں کھولیں اور اس نے اپنے سامنے اپنی ماں کو جھکے ہوئے اور اپنی ماں کے آدھے سے زیادہ ننگے ممے اپنے چہرے کے سامنے لٹکتے ہوئے دیکھے تو اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔۔۔ یہ پہلی بار تھا کہ آصف اپنی ماں کے اتنے زیادہ ننگے ممے دیکھ رہا تھا ۔۔۔ بس اس کی ماں کے نپلز ہی تھے جوکہ نظر نہیں آرہے تھے ۔۔۔ آصف کے اٹھنے کے ساتھ ساتھ اس کے لن نے بھی سر اٹھانا شروع کر دیا ۔۔۔ طاہرہ اپنے بیٹے کی آنکھوں میں محبت اور شہوت دیکھ سکتی تھی ۔۔۔ جس قدر شہوت سے اس کا بیٹا اپنی ماں کے ممے دیکھ رہا تھا طاہرہ کے جسم میں ایک سرور آنے لگا ۔۔۔ طاہرہ اپنے گیلے بالوں کو کان کے پیچھے پھنساتے ہوئے مسکرا کر اپنے بیٹے کو اٹھنے کا کہ کر کچن کی طرف چل پڑی ۔۔۔ کمرے سے نکلتے ہوئے اس نے ایک بار مڑ کر دیکھا تو اس کے بیٹے کی شلوار میں بنا ہوا تمبو اسے اپنے پلان کی پہلی سیڑھی کی کامیابی لگا ۔۔۔ طاہرہ کیچن میں جاکر اپنے بیٹے کی پسند کا ناشتہ بنانے لگی جبکہ دوسری طرف آصف کا اپنی ماں کے ممے دیکھنے کے بعد برا حال تھا ۔۔۔ اس نے جتنا اپنی ماں کا جسم دیکھا تھا اسے ایک بات کر یقین ہو گیا تھا کہ اس کی خالہ نے جو کچھ کہا تھا وہ سچ تھا اس کی ماں واقعی میں دنیا کی سب سے سیکسی اور خوبصورت ترین عورت تھی ۔۔۔
۔
۔
آصف جلدی سے اٹھا اور نہا کر باہر آگیا ۔۔۔ اس نے اپنی ماں کو دیکھ کر ایک بار سوچا کہ آج اس کی ماں نے جس طرح کا سوٹ پہنا تھا آج کا دن بہت خوبصورت گزرنے والا تھا ۔۔۔ آصف ٹی وی لاؤنج میں بیٹھ کر ناشتے کا انتظار کرنے لگا تبھی کمرے سے اس کی بہن باہر نکلی ۔۔۔ ماریا ہمیشہ ہی اپنے اردگرد کے حالات سے لاپرواہ رہتی تھی ۔۔۔ اور آج لاپرواہی میں اس نے بھی کافی کھلے گلے کا سوٹ پہنا تھا اور دوپٹہ بھی نہیں لیا تھا ۔۔۔ اس سے پہلے اس نے کبھی اپنی ماں اور بہن کو گندی نظر سے نہیں دیکھا تھا مگر اب جب اس کی نظر اپنی گھر کی عورتوں کے لئے گندی ہوچکی تھی تو آپ اسے اپنے گھر کی دونوں عورتیں جس میں سے ایک اس کی ماں جبکہ دوسری اس کی بہن تھی بہت سیکسی لگنے لگی تھیں ۔۔۔
۔
۔
ماریہ کمرے سے نکل کر سیدھا ٹی وی لاؤنج کی طرف آئی اور آصف کے سامنے پڑی ہوئی ٹیبل پر جھک کر ٹی وی کا ریموٹ ڈھونڈنے لگی ۔۔۔ جیسے ہی ماریا ٹیبل پر جھکی تو اسکے ممے اسکی ماں کی طرح لٹک کر اس کے بھائی کو دیدار کی دعوت دینے لگے ۔۔۔ آصف کے پورے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔۔۔ اس نے آج سے پہلے اپنی بہن کو کبھی اسے نظر سے نہیں دیکھا تھا مگر آج جب دیکھا تو اسے یقین ہوگیا کہ اس کی بہن کو جسمانی خوبصورتی اپنی ماں سے وراثت میں ملی تھی ۔۔۔
۔
۔
ماریا ریموٹ اٹھا کر اوپر کو اٹھی تو اس نے آصف کو اپنی طرف دیکھتے ہوئے دیکھ لیا ۔۔۔ اس نے فورا اپنی چھاتی کی طرف دیکھا جہاں اس کے ممے کافی حد تک ننگے تھے ۔۔۔ وہ اچھی طرح سمجھ گئی اس کا بھائی کیا دیکھ رہا تھا ۔۔۔ اسے یہ بہت عجیب لگا تھا کیونکہ آج سے پہلے اس کے چھوٹے بھائی نے کبھی اسے اس نظر سے نہیں دیکھا تھا ۔۔۔ مگر اسے غصہ آنے کے بجائے یہ اچھا لگا تھا کہ کسی لڑکے نے اسے اس نظر سے دیکھا تھا ۔۔۔ ماریا مسکراتے ہوئے سیدھا ہوئی اور ٹی وی کی طرف مڑ کر ٹی وی کے چینل تبدیل کرنے لگی ۔۔۔ اس کے دماغ میں ابھی تک اپنے بھائی کی وہ نظر گھوم رہی تھی ۔۔۔ اور پچھلی رات جب اس کی ماں نے اسے اپنی پھدی کو سہلاتے ہوئے دیکھا تھا تو اس وقت بھی وہ بہن بھائی کی چدائی والی ویڈیوز دیکھ رہی تھی ۔۔۔ ماریا نے سوچا کی ایک بار تو پھر بھی غلطی سے دیکھا جا سکتا ہے وہ کنفرم کرنا چاہتی کہ اس کا بھائی واقعی اس کے بارے میں ایسا سوچتا ہے اور ایسی نظر سے دیکھتا ہے ۔۔۔ ماریا ایک بار پھر پیچھے کو مڑی اور ریموٹ رکھنے کے بہانے ایک بار پھر ٹیبل پر جھک گئی ۔۔۔ اب کی بار اسکا دھیان اپنے بھائی کی نظروں پر تھا ۔۔۔ جیسے ہی وہ جھکی تو آصف کی نظریں سیدھا اپنی بہن کے مموں پر جڑ گئیں ۔۔۔ ماریا کو اب یقین ہو گیا تھا ۔۔۔ کے اس کے بھائی کو اس کے ممے پسند آگئے ہیں ۔۔۔
۔
۔
ماریا اپنے چھوٹے بھائی کو تنگ کرنے کے لئے اپنے ممے ہلانے لگی جسے دیکھ کر آصف مزید مدہوش ہونے لگا ۔۔۔ ماریا نے مسکرا کر اسی طرح جھکے ہوئے اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر ممے چھپائے ۔۔۔ آصف نے جیسے ہی اپنی بہن کو اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر اپنے ممے چھپاتے ہوئے دیکھا تو اس نے نظریں اٹھا کر اپنی بہن کی آنکھوں میں دیکھا جو مسکرا کر اسے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔ آصف نے جیسے ہی اوپر دیکھا تو ماریا مسکرا کر بولی ۔
۔
ماریا : " چھوٹے کچھ زیادہ بڑے نہیں ہو گئے تم ۔۔۔ مانا کہ میں خوبصورت ہوں مگر اتنا بھی نا گھورو کہ نظر لگ جائے ۔۔۔ اور اگر امی کو پتہ چل گیا تو تمہاری خیر نہیں ۔۔۔ اس لئے دھیان سے ۔۔۔ "
۔
یہ که کر ماریا نے اپنے سینے سے ہاتھ ہٹا لیا اور ایک بار پھر اپنے چھوٹے کو اپنے ممموں کا دیدار کروا کر کچن کی طرف چل پڑی جہاں ایک اور سرپرائز اسکا انتظار کر رہا تھا ۔۔

 

ایک تبصرہ شائع کریں for "گھر کا بھیدی (پارٹ ون)"