گاؤں کی چھوری

 


میرا نام راحیل ہے اور میری عمر بیس سال ہے ۔آج میں آپ کو  اپنے گاؤں کی ایک بہت ہی خوبصورت اور معصوم لڑکی سے چدائی کی کہانی سناؤں گا۔

دوستو، یہ قصہ شروع ہوتا ہے وہاں سے جب میں اپنے گاؤں گیا تھا۔ گاؤں میں ہماری پشتینی زمین جائیداد ہے۔ ویسے تو اس کی دیکھ بھال کے لیے وہاں ہمارے تایا ابو ہیں، لیکن پاپا ہر سال گاؤں جاتے تھے، پر اس سال انہیں وقت نہیں ملا تو مجھے ہی گاؤں جانا پڑا۔ میں اپنے گاؤں تقریباً پانچ سال بعد گیا تھا۔ گاؤں میں ہمارے گھر سے تقریباً بیس قدم دور ہی سمن کا گھر تھا۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ وہ ہماری بچپن کی دوست ہے۔ جس دن ہم گھر پہنچے تو ہمیں ملنے کافی لوگ آ گئے، جن میں سمن بھی اپنے خاندان والوں کے ساتھ آئی تھی۔ ویسے تو اسے دیکھتے ہی ہم اس پر فدا ہو گئے، پر اتنے لوگوں کے بیچ ہم اسے ٹھیک سے دیکھ بھی نہیں پا رہے تھے۔ وہ پوری انیس (19) سال کی ہو گئی تھی۔ اس کا بدن بھی پورا دیسی اور گدھرایا ہوا تھا۔ ویسے تو وہ ہمیں دیکھ ہی نہیں رہی تھی، پر کافی دیر بعد ہماری نظر اس کی نظر سے ٹکرائی اور وہ شرما گئی۔

 

ہماری بھابھی (ہمارے تایا ابو کے لڑکے کی بیوی) تھوڑی مذاقیہ ہیں اور ہم سے کچھ زیادہ ہی مذاق کرتی ہیں۔ سب کے جانے کے بعد ہم تھوڑا اپنی پالنگ پر لیٹ گئے آرام کرنے کے لیے۔ ہماری ابھی آنکھ لگی ہی تھی کہ ہمیں اپنے کانوں کے پاس چوڑیوں کی کھنک کی آواز آئی۔ ہمیں لگا بھابھی ہیں، ہم نے آنکھ بند کرکے ہی کہہ دیا، ایک گلاس پانی پلائیے۔ پھر زور سے چوڑیوں کی کھنک کی آواز آئی، ہم نے اپنی آنکھ کھولی تو دیکھا کہ سمن ہاتھ میں پانی کا گلاس اور ایک ہاتھ میں ایک پلیٹ میں گڑ کا ٹکڑا پڑا تھا۔ میں فوراً اٹھ کر بیٹھ گیا۔

 

ہم نے اس سے پوچھا، آپ سمن ہیں کیا؟ تو اس نے سر ہلا دیا اور شرما کے سر جھکا لیا۔ ہم نے کہا، بیٹھو، پر وہ کھڑی ہی رہی۔ ہم نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے بٹھانا چاہا، پر جیسے ہی ہم نے اس کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کی، اس کے ہاتھ سے پانی کا گلاس اور پلیٹ دونوں ہی گر گئے۔ تبھی اندر سے بھابھی کی آواز آئی، کیا ہوا؟ بھابھی دوڑتی ہوئی آئیں، انہوں نے ہمیں جھڑکتے ہوئے کہا، لگتا ہے تم نے کوئی غلط حرکت کی ہے!

 

تب سمن نے کہا، نہیں بھابھی، ہم یہاں رکھنے جا رہے تھے تو کھٹیا کا کونا لگ گیا۔ بھابھی کہنے لگیں، ابھی آئے ہوئے ایک دن بھی نہیں ہوا اور تو اس کی طرفداری کرنے لگی۔ یہ بول کر بھابھی نے ہماری طرف دیکھتے ہوئے ایک عجیب سی مسکراہٹ دیتے ہوئے کچن میں چلی گئیں۔ سمن بھی جانے لگی تو ہم نے ہاتھ آگے بڑھا دیا جس سے وہ آگے نہ جا سکے۔ ہم نے اس سے معافی مانگی اور اس سے پھر سے التجا کی کہ وہ ہمارے پاس بیٹھے۔ پر اس نے کہا، دیر  ہو رہی ہے، ہٹو ہمیں چولہا جلانا ہے، ماں ہمارا انتظار کر رہی ہوں گی، ہم کھانا کھانے کے بعد ماں کے ساتھ آئیں گی۔ یہ بول کر وہ چلی گئی۔

 

ویسے گاؤں میں کھانا جلدی بن جاتا ہے اور سات-ساڑھے سات بجے (7-7:30 pm) تک سب کا کھانا ہو جاتا ہے۔ مجھے اب بے صبری سے اس کے آنے کا انتظار کرنے لگا۔ 7 بجے بھابھی نے کہا، چل کے پیٹ پوجا  کر لینے کو، تو ہم نے منع کر دیا، کہا ہمیں عادت نہیں ہے اتنی جلدی کھانا کھانے کی۔ پر بھابھی نے کہا کہ چل کے ہم اگر تایا ابو اور بھائی کے ساتھ کھا لیتے تو اچھا ہوتا۔ پر ہمارا دل ہی نہیں کر رہا تھا۔ تایا ابو کا دو منزلوں والا بنگلہ تھا  اور اس کے اوپر چھت تھی۔ ہم چھت پر دری  بچھا کر آرام کرنے لگے۔ ہمیں تاروں کو دیکھنا بہت اچھا لگتا ہے، سو ہم کافی دیر تک تاروں کو دیکھ رہے تھے۔ تبھی بھابھی کسی کو لے کر ہمارے پاس آئیں، انہوں نے بتایا کہ وہ سمن کی ماں ہیں۔ ہم نے انہیں سلام کرکے حال چال پوچھا۔ پھر بھابھی سے پوچھا، سمن نہیں آئی ہے کیا؟ بھابھی نے بتایا کہ نیچے ہمارے بھتیجے کو کہانی سنا رہی ہے۔ میں نیچے کی طرف لپکا، بھابھی کے کمرے میں دیکھا تو وہاں سمن ہمارے بھتیجے کو کہانی سنا رہی تھی۔ ہمیں دیکھتے ہی وہ بھاگ گئی۔

 

تھوڑی دیر بعد آئی اور کھانا کھانے کو چلنے کے لیے کہا۔ ہم کچن میں اس کے پیچھے پیچھے چلے گئے۔ ہم وہاں پیڑھا پر بیٹھے اور وہ ہمارے لیے کھانا نکالنے لگی۔ ہم نے اس سے بات کرنی شروع کی۔ تھوڑی دیر میں ہی وہ ہم سے گھل مل گئی۔ پھر وہ ہمیں اپنے بچپن کے قصے سنانے لگی۔ کھانا کھانے کے بعد ہم سمن کے ساتھ بھابھی کے پاس گئے۔ بھابھی نے ہمیں سونے کے لیے جانے کو کہا۔ اور سمن سے کہا کہ ہمیں کمرہ دکھا دے اور وہ گھر چلی جائے، کیونکہ اس کی ماں تھوڑی دیر سے آئیں گی۔

 

ہم نے سوچا یہی موقع ہے کچھ کرنے کا۔ سمن کو دیکھتے ہی ہمارا لنڈ سلامی دینے لگتا تھا۔ اس کے ابھرے ہوئے ممے اور چکنا ہوا بدن چاندنی رات میں سونے پر سہاگا کیے جا رہا تھا۔ ہمارا کمرہ سب سے نیچے تایا ابو کے کمرے کے برابر میں تھا۔ نیچے پہنچ کر ہم نے دیکھا تایا ابو سو گئے ہیں، ہم نے سمن سے کہا کہ وہ تھوڑا رکنے کیونکہ ہمیں اتنی جلدی سونے کی عادت نہیں ہے۔ وہ ہمارے ساتھ بیٹھ کر بات کرے۔ وہ تیار ہو گئی۔ وہ ہمارے برابر میں ہی بیٹھی تھی۔ ہمارا بہت من کر رہا تھا اسے چھونے کا۔ ہم نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا، اس نے تھوڑے غصے سے ہماری طرف دیکھا ۔میں نے دھیرے سے اس کا ہاتھ دبایا ۔وہ کچھ دیر ہمیں دیکھتی رہی مگر خاموش رہی ۔ اس سے میرا حوصلہ اور بڑھ گیا۔ میں نے اس کی کمر پر ہاتھ رکھ دیا، جیسے ہی ہم نے اس کی کمر پر ہاتھ رکھا وہ چیخ اٹھی اور اپنا سر ہمارے کندھے پر رکھ دیا۔ اب کیا تھا، ہم نے اس کے گال پر چومنے کی بوچھار شروع کر دی۔ وہ شرماتے ہوئے اپنا منہ چھپانے لگی۔ ہم نے اس کے کرتے کے اوپر سے ہی اس کی چھاتیوں  پر ہاتھ رکھ دیا اور ہلکا سا دبایا، اس کے منہ سے ہلکی سی سسکاری نکلنے لگی۔

 

اووووووووف

 

ہم نے دیکھا کہ وہ مزاحمت نہیں کر رہی ہے تو ہم نے دونوں ہاتھوں سے اس کے ممے (چھاتی) ہلکے ہلکے سے دبانا شروع کر دیا۔ اور اپنا منہ اس کے منہ کے پاس لے گئے اور اس کے ہونٹوں کو چومنے لگے۔ اتنی دیر میں ہمارا ایک ہاتھ نیچے سے اس کی شلوار کے اندر پہنچ گیا، جیسے ہی ہمارے ہاتھ نے اس کی چوت کے گولڈن بالوں (جھانٹ) پر دوڑا، اس کے منہ سے سسکاری نکل گئی جو کہ ہمارے ہونٹوں سے ہی دبی رہ گئی۔ ہم نے دیکھا کہ وہ کافی گرم ہو گئی ہے تو ہم نے ہلکے سے اس کا کرتا اٹھانے لگے اور جیسے ہی ہم نے دیکھا کہ وہ ذرا بھی مخالفت نہیں کر رہی ہے، ہم نے فوراً ہی اس کا کرتا اوپر سے اتار دیا۔ ہائے، ہم نے دیکھا اس کی بغل میں سنہری بال اگے تھے جو ہمیں اور بھی اسے سیکسی لگے۔ ہم اوپر اوپر سے ہی اس کے ممے دبانے لگے، اس کے ممے اتنے گوشت دار اور بڑےتھے کہ ہمارے ہاتھ میں نہیں آ رہی تھی، ساتھ ہی ساتھ ہمارا 6 انچ کا لنڈ بھی باہر آنے کے لیے بے قرار ہو رہا تھا۔ ہم نے اپنی پینٹ کی زپ کھولی اور ویپ کی چڈی میں جو چھید دیا رہتا ہے لنڈ نکالنے کو، ہم نے وہاں سے اپنا لنڈ باہر نکال دیا۔ نکال کر ہم نے دیکھا سمن ہمارے لنڈ کو دیکھ کر شرما گئی تو ہم نے اس کی شرم بھگانے کے لیے اس کا ہاتھ ہمارے لنڈ پر رکھ کر مٹھی مارنے کا فن اسے سکھانے لگے۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کی شرم جاتی رہی، پھر کیا تھا، ہم نے بے شرم ہوکے اس کی برا کھول دی۔ اس کی برا کھلتے ہی اس کی سڈول چوچیاں لپکنے لگیں، اتنی خوبصورت اور کموک چوچیاں آج تک میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی تھیں۔ تھوڑی دیر تک میں اس کی مموں کے ساتھ کھیلتا رہا اور آخر میں اس کی جوش کو اور بھڑکانے کے لیے میں نے اوپر کی طرف اس کے ممے کھینچے اسے بہت جم کر درد کا احساس ہوا اور اس کے منہ سے

 

آآآآآئی کی آواز نکل آئی۔

پھر میں اس کی مموں کو چوسنے لگا اور وہ میرا لنڈ دبار ہی تھی ۔میں مزے سے پاگل ہواجارہاتھا۔ میں نے بغیر وقت ضائع کیے اس کی شلوار کا ناڑا کھول دیا اور اس کی شلوار چڈی کے ساتھ نیچے کھینچ لیا۔ ہائے رام، اس کی کنواری پیاری چوت  کو دیکھ کر میں دنگ رہ گیا۔ میں نے بغیر وقت ضائع کیے اسے بستر پر لٹا دیا اور اس کی کمر کے نیچے تکیہ لگا دیا اور اس کی چوت  چاٹنے لگا۔ میں نے ایک ہاتھ کی انگلیوں سے اس کی چوت  کی فاکیں پھیلائیں اور اپنی چٹوری زبان اس کی چوت میں پیل دی۔ وہ چھٹپٹانے لگی۔ زور زور سے مزے سے چیخنے لگی ۔ میں اپنے دوسرے ہاتھ سے اس کی مموں کو باری باری سہلا دبا رہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ جھڑ گئی اور اس کی چوت سے نکلا ہوا رس میں پورا پی گیا۔ دو منٹ کے لیے وہ ٹھنڈی پڑ گئی اور ویسی ہی لیٹی رہی۔

 

میں نے اپنا اس کے ممے دبانے کا پروگرام جاری رکھا جس سے وہ کچھ ہی دیر میں پھر سے گرم ہو گئی ۔میں نے اس کے دونوں پاؤں (ٹانگیں) پھیلا دیے اور گھٹنوں کے بل اس کے پیروں کے بیچ بیٹھ گیا۔ اس نے میرا بڑا اور موٹا لنڈ دیکھا اور ڈر سی گئی  اور کہا، اگر تم یہ میری چوت میں گھساؤ گے تو میری چوت  پھٹ جائے گی، میری چوت  مت پھاڑو۔ میں نے اسے سمجھایا کہ یہ تو چھوٹی سی چیز ہے، یہی وہ جگہ ہے جہاں سے بچہ پیدا ہوتا ہے۔ کسی طرح وہ مانی۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ، جلدی سے اپنے لنڈ پر اور اس کی چوت پر اپنے منہ سے تھوڑا تھوک نکال کر لگا دیا اور اپنے لنڈ کا سپاڑا اس کی چوت کے سوراخ  پر جیسے ہی لگایا وہ سس کر اٹھی۔ میں نے دھیرے سے دھکا دیا پر میرا لنڈ اندر جا ہی نہیں رہا تھا اور اسے تکلیف بھی ہونے لگی۔

تب مجھے اپنے سیکس گرو  کی یاد آئی، جن کی کتابیں میں پڑھا کرتا تھا۔

 

میں نے کہیں پڑھا تھا کہ اگر لڑکی کنواری  ہو یا اس کی چوت تنگ  ہو تو ایسی لڑکیوں کے اگر مموں کو نیچے سے اوپر کی طرف کھینچا جائے اور ساتھ میں لنڈ گھسایا جائے تو لڑکی کو تکلیف بھی کم ہوتی ہے اور ہمارا لنڈ بھی آرام سے جانے لگتا ہے کیونکہ ہمارے سیکس  گروجی  کا یہ ماننا ہے کہ چوچیاں ہی سارا دروازہ کھول دیتی ہیں۔ وہ بات پھر کبھی۔ میں نے گروجی کا نام لیا اور سمن کی مموں کو مسلنا شروع کر دیا اور دھیرے دھیرے اپنا لنڈ اندر کی طرف ہلکے ہلکے پیلنے لگا۔ اس طرح سمن کو درد بھی کم ہو رہا تھا اور مجھے بھی زیادہ تکلیف نہیں ہو رہی تھی۔ ابھی میرا لنڈ آدھا سے تھوڑا زیادہ ہی اندر گیا تھا کہ میرا لنڈ جھلی سے ٹکرا گیا۔ میں نے سمن کی چوچی کے ٹوک مسلنا شروع کیا اور اپنی رفتار تیز کرنے لگا، دھیرے دھیرے رفتار تیز کرتے ہوئے میں اپنا لنڈ اور اندر گھسانے کی کوشش کرنے لگا۔ پر جھلی آنے کی وجہ سے میرا لنڈ اور اندر جا ہی نہیں رہا تھا۔ پھر میں نے ایک زور کی تھپ ماری اور سمن کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیے کیونکہ مجھے معلوم تھا وہ چیخنے والی ہے۔ جیسے ہی میں نے زور کی تھپ ماری، اس کی جھلی پھٹ گئی اور چوت سے خون بہنے لگا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ میں نے ہلنا ایک دم سے بند کر دیا اور اس کی مموں کو پھر سے اوپر کی طرف پہلے جیسے کھینچنے لگا۔ اس کا درد کم ہونے لگا اور اسے مزہ آنے لگا۔ میں نے ہلکے ہلکے اپنے تھپ شروع کر دیے۔ کچھ ہی پل میں وہ بولنے لگی، پھاڑ دو آہ، آج میری چوت  کو پوری طرح، ظالم کیا نشہ چھا رہا ہے! ہائے راحیل، چودو ہمیں اور کس کے چودو۔ یہ سنتے ہی میرے اندر کا شیطان جاگ گیا اور میں نے اپنی رفتار بہت تیز کر دی۔ دس منٹ کے اندر ہی ہم دونوں جھڑ گئے ۔میں نے کچھ پل رُک کر ایک بار اور چڑھائی شروع کر دی۔ اس بار سمن کو مزہ آنے لگا اور وہ اچھل اچھل کر میرا ساتھ دینے لگی۔ تھوڑی دیر میں میں پھر جھڑ گیا۔

 

پھر دو منٹ تک میں اس کے اوپر پڑا رہا۔ میں نے اس سے کہا کہ کپڑے پہن لو اور چلو، میں گھر چھوڑ آتا ہوں۔

 

اس نے جلدی جلدی اپنے کپڑے پہنے اور میں نے بھی اپنے کپڑے پہنے اور اسے اس کے گھر چھوڑنے چلا گیا۔ )ختم شد)

❤️ اردو کی دلکش شہوانی، رومانوی اور شہوت انگیز جذبات سے بھرپور کہانیاں پڑھنے کے لیے ہمارے فورمز کو جوائن کریں:

ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی
`; adDiv.innerHTML = adCode; // Insert the ad after the specified paragraph (2 or 3 paragraphs) postBody.insertBefore(adDiv, paragraphs[insertAfter].nextSibling); } };