میرا نام عرفان ہے اور میں ساہیوال کا رہنے والا ہوں۔ یہ کہانی جو میں آپ سے شیئر کرنے جا رہا ہوں، میری زندگی کی خوشگوار یادوں میں سے ایک یاد ہے۔ بھائیوں کی شادی کے بعد گھر میں کوئی کمرہ خالی نہیں تھا کہ جس میں مہمانوں کے رہنے کا انتظام کیا جا سکے اور پھر میری بھی شادی ہونے والی تھی۔ دو کمرے خالی تھے، وہ بھائیوں کی شادی کے بعد ان کے استعمال میں آ چکے تھے۔ گھر چھوٹا ہونے کی وجہ سے رہنے میں مسئلہ پیش آ رہا تھا۔ اس کا حل گھر والوں نے یہ نکالا کہ اس مکان کو بیچ کر نیا مکان خریدا جائے جو بڑا ہو اور خاندان کی ضروریات کو پورا کر سکے۔ ہم نے مکان بیچ دیا اور ایک کالونی میں نیا مکان خرید کر وہاں منتقل ہو گئے۔ ہمیں نئے محلے میں منتقل ہوئے چند دن ہوئے تھے اور تقریباً آس پاس کی ساری ہمسائیں ہمارے گھر آ چکی تھیں اور ان کا آنا جانا ہمارے گھر میں شروع ہو چکا تھا۔ ان میں سے ایک لڑکی مجھے بہت اچھی لگی۔ وہ بہت شوخ اور چنچل تھی۔ وہ بھابی سے بہت جلدی گھل مل گئی تھی۔ وہ اس محلے کی سب سے خوبصورت لڑکی تھی۔ بالکل سلم اینڈ سمارٹ تھی، پتلے پتلے نین نقش، باریک لال ہونٹ تھے، ایسے لگتا تھا کہ بس اب ان سے خون بہنے ہی والا ہے، بہت رسیلے ہونٹ تھے اس کے، بالکل انار کی طرح۔ جب میں نے اسے پہلی بار دیکھا تھا تو وہ مجھے پٹھانی لگی تھی، بہت صاف اور گورا رنگ تھا اس کا، گلابی گلابی گال تھے۔ میں اسے دیکھتے ہی اس کا دیوانہ ہو گیا تھا اور میری خواہش تھی کہ یہ مجھ سے سیٹ ہو جائے۔ اس کا نام انیلا تھا اور وہ بلا کی حسین اور خوبصورت جسم کی مالک تھی اور وہ 24 سالہ شادی شدہ ایک بچے کی ماں تھی۔ جب بھی وہ ہمارے گھر آتی تھی تو اسے دیکھ کر میرا لن کھڑا ہو جاتا تھا۔ میں نے ایک بات نوٹ کی تھی کہ وہ میری طرف نہیں دیکھتی تھی اور نہ ہی مجھ سے بات کرنے کی کوشش کرتی تھی، حالانکہ وہ میرے دوسرے بھائیوں سے بات کر لیتی تھی۔ وہ میری بھابی سے میرے متعلق بھی ایک دو دفعہ بات کر چکی تھی کہ میں کس ڈیپارٹمنٹ میں نوکری کرتا ہوں اور ڈیوٹی پر کب جاتا ہوں اور کب واپس آتا ہوں، یہ مجھے بھابی نے بتایا تھا، جب میں نے اس کے متعلق سرسری طور پر بات کی تھی۔ وہ اس وقت ہی ہمارے گھر آتی تھی جب میں گھر ہوتا تھا۔ اس کے پاس موبائل فون بھی تھا لیکن اس نے کبھی بھی میرا نمبر لینے یا اپنا نمبر دینے کی کوشش نہ کی تھی۔ اصل میں بات یہ ہے کہ میں شرمیلا سا لڑکا ہوں جس کی وجہ سے میں اس سے اس کا نمبر یا اپنا نمبر اسے نہ دے سکا۔ اس طرح وقت گزرتا رہا اور میری شادی کے دن رکھ دیے گئے۔ شادی کے چند دن پہلے ہمارے گھر ہمارے قریبی رشتہ دار آ گئے، ان میں میری بہت ساری کزنز بھی تھیں۔ انیلا کی میری ایک کزن کے ساتھ دوستی ہو گئی اور وہ آپس میں بہت ہنسی مذاق کرتی تھیں۔ میری مہندی پر تصاویر بنی تھیں تو انیلا نے میرے ساتھ بیٹھ کر تصویر بنوائی تھی جس کی مجھے امید نہ تھی۔ میں جانتا تھا کہ وہ بھی مجھ میں دلچسپی رکھتی ہے لیکن مجھ میں اتنی ہمت نہ تھی کہ میں اس سے اس موضوع پر بات کر سکوں، وہ میری طرف سے پہل کی منتظر تھی اور میں اس کی طرف سے۔ ایک دن میری کزن انیلا کے گھر گئی ہوئی تھی تو انیلا نے اسے بتایا کہ میں اپنی امی کے گھر جا رہی ہوں ضروری کام سے، اگر آپ سے بات کرنی ہو تو کس نمبر پر آپ سے رابطہ کروں؟ میری کزن نے اسے میرا نمبر دے دیا کیونکہ شادی کی وجہ سے میں زیادہ تر گھر ہی رہتا تھا۔ میری کزن نے گھر آ کر مجھے بتایا کہ میں نے انیلا کو آپ کا نمبر دیا ہے، اگر اس کا فون آئے تو میری اس سے بات کروائیں۔ میں نے پوچھا کہ اس کا نمبر کیا ہے تو اس نے مجھے اس کا نمبر بتا دیا، اس طرح اس کا نمبر میرے پاس آ گیا لیکن میں نے اسے میسج یا کال نہ کی، شادی کی مصروفیات کی بنا پر۔ میری برات شام 5 بجے روانہ ہوئی کیونکہ اندرون سندھ کے دور دراز کے علاقے میں جانی تھی۔ اسے اگلے دن صبح 10 بجے میرے ہونے والے سسرال کے گھر پہنچنا تھا۔ میں ٹرین میں برتھ پر لیٹا ہوا تھا اور ہم برات والے ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کر رہے تھے اور رات کے 12 کا وقت تھا کہ انیلا کی طرف سے میسج آیا کہ کہاں پہنچے؟ میں اس کا میسج دیکھ کر بہت خوش ہوا کیونکہ میں بہت عرصے سے اس کی طرف سے رسپانس کا منتظر تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ ہم ابھی بہاولپور پہنچے ہیں۔ اس نے پوچھا کہ سفر کیسا گزر رہا ہے؟ تو میں نے لائن مارتے ہوئے کہا کہ بس آپ کی کمی ہے، اگر آپ ہوتیں تو سفر زیادہ اچھا ہوتا، تو وہ کہنے لگی کہ وہ کیسے؟ تو میں نے کہا کہ آپ کی سہیلی آپ کو مس کر رہی تھی، اگر آپ ہوتیں تو سفر زیادہ انجوائے ہونا تھا۔ انیلا نے پوچھا کہ کیا صرف میری سہیلی ہی مجھے مس کر رہی ہے یا کوئی اور بھی؟ میں نے جواب دیا کہ نہیں، میں بھی آپ کو مس کر رہا ہوں۔ تو انیلا نے کہا کہ آپ مجھے مس کیوں کر رہے ہو؟ تو میں نے کہا کہ پھر بتاؤں گا۔ ایک دوسرے کا حال احوال پوچھا اور اس طرح ہمارے تعلق کی ابتدا ہوئی۔ میری شادی ہوئی اور ہم دلہن کو لے کر واپس اپنے گھر آ گئے۔ انیلا بھی ہمارے گھر آئی اور میری دلہن سے مل کر بہت خوش ہوئی۔ شادی کے دو دن بعد تک سب مہمان اپنے گھروں کو واپس چلے گئے۔ اب مجھے جب بھی موقع ملتا، میں اپنی دلہن سے سیکس کرتا، چاہے دن ہو یا رات۔ اتفاق ایسا ہوا کہ دن کے وقت سیکس کے بعد جب میں نہا رہا ہوتا تو انیلا ہمارے گھر آتی۔ دو سے تین دفعہ ایسا ہوا اور وہ میری بیوی کو مذاق کرتی۔ اس کا شوہر اس سے ہفتے میں دو دفعہ سیکس کرتا تھا جبکہ میری نئی نئی شادی ہوئی تھی اس لیے میں دن میں دو سے تین بار اور رات کو بھی دو سے تین بار سیکس کیا کرتا تھا۔ میری گھر والی کی گردن اور سینے پر نشان تھے اور میری گردن پر بھی کاٹنے کے نشان تھے، اس پر انیلا کی نظر پڑ گئی۔ وہ احساس محرومی کا شکار ہو گئی تھی کہ اس کا شوہر اس سے بہت نرم طریقے سے پیش آتا تھا جبکہ وہ ایگریسو سیکس پسند کرتی تھی۔ اس کے دل میں مجھ سے سیکس کی خواہش جاگ چکی تھی۔ یہ سب کچھ بعد میں اس نے بتایا تھا جب میں نے اس سے پوچھا تھا کہ تم شادی شدہ ہوتے ہوئے مجھ سے کیوں سیٹ ہوئی تھی۔ میری شادی کی چھٹیاں ختم ہو گئی تھیں اور میں نے دوبارہ ڈیوٹی جوائن کر لی تھی۔ میں جب بھی ڈیوٹی پر ہوتا تو اس سے میسجنگ ہوتی اور آہستہ آہستہ ہم سیکس کی باتوں کی طرف آ گئے اور آپس میں فون سیکس کرنے لگے۔ ایک دن فون سیکس کے دوران میں نے اس سے پوچھا کہ انیلا، ریئل میں ہم کب سیکس کریں گے، تو اس نے کہا کہ ریئل میں سیکس بہت مشکل ہے، اگر میرے شوہر کو پتا چل گیا تو وہ مجھے طلاق دے دیں گے اور میں ایسا کوئی رسک نہیں لینا چاہتی۔ میں نے کہا کہ جو مزا رسک میں ہے وہ ریئل میں نہیں ہے۔ تو اس نے مجھے سختی سے منع کر دیا کہ عرفان، کبھی ایسی بات سوچنا بھی نہیں۔ میں جانتا تھا کہ وہ شادی شدہ ہے اور اس کی سیکسی خواہشات اس کا شوہر پوری کر دیتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ مجھ سے سیٹ ہوئی ہے تو ضرور اس کی زندگی میں کوئی کمی ہے۔ اس کمی کی وجہ سے یہ مجھے نہیں چھوڑ سکتی، تو میں نے نفسیاتی طریقہ استعمال کرتے ہوئے ایموشنل بلیک میلنگ کا سہارا لیا اور اس سے کہا کہ تم مجھ سے صرف ٹائم پاس کرتی ہو، تمہیں مجھ سے کوئی پیار نہیں ہے۔ میری ہی غلطی تھی جو میں پیار سمجھ بیٹھا۔ انیلا نے کہا کہ نہیں عرفان، ایسی بات نہیں ہے، مجھے تم سے پیار ہے تو میں تم سے بات کرتی ہوں، ورنہ میں اپنے شوہر کے ہوتے ہوئے تم سے تعلق کیوں بناتی، تو میں نے کہا کہ اس کا کیا ثبوت ہے کہ تم مجھ سے پیار کرتی ہو، تو اس نے کہا کہ تمہیں کیا ثبوت چاہیے؟ میں نے کہا کہ کوئی بھی لڑکی جو کسی سے ٹائم پاس کرتی ہے وہ کبھی بھی کسی غیر کو کس نہیں دیتی۔ تو انیلا نے کہا کہ اگر میں تمہیں کس دوں تو آپ کو یقین آ جائے گا۔ تو میں نے کہا کہ ہاں مجھے یقین آ جائے گا۔ تو اس نے کہا کہ میں کس دینے کو تیار ہوں۔ میں نے کہا کہ کب اور کیسے، کہاں ملو گی، تو اس نے کہا کہ جب تمہاری بیگم اپنے میکے جائے گی تو کسی رات ہماری بیٹھک میں آ جانا اور پھر وہاں کس کر لینا۔ اب مجھے میری بیگم کے میکے جانے کا انتظار تھا۔ ایک ماہ بعد میری بیگم کو میرا سالا لینے کے لیے آیا اور دو دن رہنے کے بعد میری بیگم کو اپنے ساتھ لے گیا۔ اگلے دن میں نے اس سے کہا کہ آج رات تم مجھ سے مل رہی ہو، پہلے تو اس نے منع کیا لیکن میرے اصرار پر وہ ملنے کو تیار ہو گئی۔ اس نے مجھے بتایا کہ رات کو جب اس کا شوہر سو جائے گا تو وہ مجھے کال کرے گی تو میں آ جاؤں۔ سردی کی رات تھی اور دھند بہت زیادہ تھی۔ میں انیلا کی کال کا انتظار کر رہا تھا۔ رات 12:40 پر اس کی کال آئی کہ عرفان آ جاؤ، میں نے بیٹھک کا دروازہ کھول دیا ہے۔ میں گھر سے نکلا اور دو منٹ اپنے دروازے کے سامنے کھڑا ہو کر گلی میں دیکھا کہ گلی میں کوئی ہے تو نہیں۔ گلی میں اندھیرا اور دھند تھی۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ گلی میں کوئی نہیں ہے تو میں نے ان کی بیٹھک میں داخل ہو گیا۔ بیٹھک میں بہت زیادہ اندھیرا تھا، اس نے کہا عرفان۔ میں نے کہا انیلا کیسی ہو اور موبائل کی لائٹ آن کرنے لگا تو وہ کہنے لگی کہ عرفان موبائل آف کر دو۔ کہیں کسی کی کال نہ آ جائے یا پھر کمرے میں روشنی کوئی دیکھ نہ لے، تو میں نے موبائل آف کر دیا۔ میں نے انیلا کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنی طرف کھینچ لیا اور اس سے جھپی ڈال لی تو اس نے مجھے زور سے بھینچ لیا۔ میں نے اس کی گالوں پر کس کرنا شروع کر دیا اور گالوں سے ہوتا ہوا اس کے ہونٹوں کی طرف آ گیا۔ میں نے اس کا اوپر والا ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لے کر چوسنا شروع کر دیا۔ اس کی سانسیں بھاری اور تیز ہو گئی تھیں۔ میں نے اس سے کہا کہ اپنی زبان باہر نکالو۔ اس نے اپنی زبان نکالی، میں نے اس کی زبان اپنے ہونٹوں میں لے کر چوسنا شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ اپنی زبان کو میرے منہ میں گھمانے لگتی اور کبھی میری زبان چوسنے لگتی۔ اس کی سانسیں بہت تیز ہو گئی تھیں اور اچانک اس نے اپنا چہرہ پیچھے کر لیا اور تیز تیز سانسیں لینے لگی۔ میں نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ تو اس نے کہا کہ سانس پھول گئی ہے۔ میں اس کی بیک پر گیا اور اس کی بازوؤں کے نیچے سے اپنے ہاتھ نکال کر اس کے سینے کی طرف لے گیا تو اس نے اپنے ہاتھ اپنے مموں پر مضبوطی سے رکھ لیے اور مجھے منع کرنے لگی کہ عرفان نہیں۔ صرف کس کی بات ہوئی تھی کچھ اور نہیں، تو میں نے کہا کہ انیلا کچھ نہیں کرتا بس تھوڑی دیر پھر میں چلا جاؤں گا، تو اس نے اپنے ہاتھ سائیڈ پر کیے اور میں نے اس کے بوبز ہاتھوں میں لے لیے، اس کے بوبز بہت چھوٹے تھے، شاید 32 سے بھی کم۔ میں نے اس کے بوب کو ہلکا ہلکا دبانا شروع کر دیا۔ میرا لن فل جوبن پر تھا اور میں نے اپنے لن کو اس کی گانڈ کے درمیان میں ایڈجسٹ کیا اور اوپر سے اس کی گردن پر کس کرنا شروع کر دیا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ میں اس کے پیچھے کھڑا تھا، اس کی بازوؤں کے نیچے سے اپنے ہاتھ لے جا کر اس کے ممے پکڑے ہوئے تھے اور لن اس کی گانڈ کی دراڑ میں ایڈجسٹ کیا ہوا تھا اور اس کی گردن پر کس کر رہا تھا۔ اس کی سانسیں دوبارہ سے تیز تیز چلنے لگیں اور بھاری ہو گئی تھیں۔ اس کے منہ سے ہلکی ہلکی لذت آمیز سسکیاں نکل رہی تھیں۔ میں چاہتا تھا کہ وہ بہت زیادہ ہاٹ ہو جائے اور چدائی سے منع نہ کرے۔ میں نے اپنا ایک ہاتھ اس کے مموں سے نیچے اس کی پھدی کی طرف لے گیا اور اس کی پھدی کے لیپس کو اپنے ہاتھ میں لے کر دبانے لگا۔ اس سے اس کی سسکیاں تیز ہو گئیں اور وہ فل ہاٹ ہو چکی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا کمرے میں کوئی چارپائی نہیں ہے، تو اس نے کہا کہ ہے۔ میں نے کہا کہ اس پر بیٹھتے ہیں، تو وہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے چارپائی پر لے گئی۔ ہم چارپائی پر بیٹھ گئے۔ میں اس کی لیفٹ سائیڈ پر بیٹھا تھا اور میں نے اپنا ایک ہاتھ اس کی کمر کے گرد لپیٹ کر اسے مزید اپنے قریب کر لیا اور اس کی گردن پر کس کرنا شروع کر دیا اور جو ہاتھ اس کی کمر پر تھا وہ تھوڑا اوپر لے جا کر اس کے مموں پر لے گیا اور اس کا رائٹ مما اپنے ہاتھ کی انگلیوں میں لے کر مسلنے لگا۔ اس نے مجھے گالوں سے پکڑ لیا اور میرے ہونٹ چوسنے لگی۔ میں نے اسے پیچھے کی طرف کھینچا اور چارپائی پر لیٹ گئے۔ میں نے اسے پکڑ کر اپنی طرف کیا اور اسے زور سے اپنے سینے کی طرف بھینچ لیا۔ اس کے چھوٹے چھوٹے ممے میرے سینے میں دب گئے۔ میں نے اسے زور سے اپنی طرف بھینچ رہا تھا اور اپنے لن کو اس کی پھدی کی طرف دبا رہا تھا اور وہ اپنی پھدی کو میرے لن کی طرف دبانے لگی۔ اس کے اس عمل سے مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ اب لن لینے کے لیے تیار ہے لیکن میں نے خود اس کی شلوار اتارنے کی کوشش نہ کی، میری خواہش تھی کہ وہ خود کہے۔ اس لیے میں تھوڑا ایگریسو ہو گیا اور فل جوش میں آ کر اسے پیار کرنے لگا۔ وہ بھی فل ہاٹ ہو چکی تھی۔ وہ اپنی پھدی کو میرے لن کی طرف اس طرح کرنے لگی جیسے وہ میرے لن کے گھسے مار رہی ہو۔ میں نے اس کے ممے کو دباتے ہوئے اس کے کان میں آہستہ سے کہا کہ جان اندر کروں، تو اس نے میرا ازاربند کھینچا اور کہا کہ ہاں کرو۔ اس نے میرا ازاربند کھول دیا اور میری شلوار کو نیچے کیا، میں نے اس کی شلوار کو اس کے گھٹنوں تک نیچے کیا اور اس کے اوپر آ کر اس کی ٹانگیں اوپر کی اور اس کی ٹانگوں کے بیچ بیٹھ کر اپنا لن اس کی پھدی کے سوراخ پر سیٹ کیا۔ اس کی پھدی گیلی ہو چکی تھی۔ میں نے تھوڑا سا دباؤ ڈالا اور میرے لن کی ٹوپی اس کی چکنی پھدی کے اندر چلی گئی۔ میں نے اپنے لن کی ٹوپی کو کبھی آگے اور پیچھے کرنا شروع کر دیا۔ صرف میرے لن کی ٹوپی ہی آگے پیچھے ہو رہی تھی۔ انیلا کہنے لگی کہ جان اب اندر کرو۔ اس کا یہ کہنا ہی تھا کہ میں نے پورے زور سے اپنا لن اس کی پھدی میں ایک ہی جھٹکے سے داخل کر دیا۔ ہلکی سی سسکری نکلی۔ میں نے اپنا لن فل سپیڈ میں اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔ کمرے میں پچ پچ کی آواز گونج رہی تھی اور اس آواز کے ساتھ ہم دونوں کے سانسوں کی آوازیں تھیں۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ بھی لن کی حرکت کے حساب سے اپنی گانڈ کو حرکت دینے لگی اور وہ کوشش کر رہی تھی کہ لن جڑ تک اس کی پھدی میں جائے۔ میں نے نیچے سے دھکے جاری رکھے اور اس کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لے کر چوسنا شروع کر دیا، اس نے میری کمر کے گرد اپنے ہاتھ لے جا کر مجھے جکڑ لیا اور میرے سینے کو اپنے سینے کی طرف دبانے لگی، اب اس کی سانسیں بہت تیز ہو چکی تھیں۔ اس کا جسم آہستہ آہستہ سخت ہونے لگا تھا اور اس کے منہ سے اب سسکیاں نکلنے لگی تھیں۔ میں اب ڈسچارج ہونے کے قریب تھا اس لیے میں فل جوش سے جھٹکے لگانے لگا۔ ایک دم اس کا جسم اکڑ گیا اور اس کی پکڑ میری کمر کے گرد سخت ہو گئی۔ وہ ڈسچارج ہو چکی تھی، اور چند ہی جھٹکوں کے بعد میں بھی ڈسچارج ہو گیا۔ میں نے لن اندر رکھا اور اس کے اوپر ہی لیٹ گیا۔ جب ہماری سانسیں نارمل ہوئیں تو میں نے اپنا لن باہر نکال لیا اور اس کی شلوار سے اپنا لن صاف کیا۔ ہم نے اپنے کپڑے سیٹ کیے اور ایک دوسرے کو گلے لگا لیا۔ تھوڑی دیر اسی طرح لیٹے رہے۔ انیلا نے کہا کہ عرفان میرے شوہر کہیں نہ اٹھ جائیں، اب تم جاؤ۔ میں واپس آ گیا۔ اب جب بھی موقع ملتا ہے ہم ملتے ہیں اور وہ بہت شوق سے سیکس کرتی ہے۔