میری جوان اور خوبصورت ممانی

 


ہیلو ریڈرز، میرا نام جہانگیر ہے، میری عمر 22 سال ہے۔ اور میں راولپنڈی کے قریب ایک شہر چوکھالسہ میں رہتا ہوں۔ آج میں آپ لوگوں کو جو کہانی سنانے جا رہا ہوں، یہ ایک سچی کہانی ہے۔ آپ کہیں تو میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں آج آپ لوگوں کے ساتھ جو تجربہ شیئر کرنے جا رہا ہوں، وہ بالکل سچ ہے۔ یہ کہانی میری اور میری مامی کی کہانی ہے، جن کا نام ارجمند ہے اور وہ میری سب سے چھوٹی مامی ہیں۔ میری دو اور مامیاں ان سے بڑی بھی ہیں، لیکن ان کے ساتھ اتنی قربت نہیں ہے۔

اب میں آپ کو اپنے بارے میں بتاتا ہوں۔ میری ہائٹ 5.8 انچ ہے، رنگ گورا ہے، اور لن کا سائز نارمل ہے، نہ چھوٹا نہ بہت بڑا، لیکن موٹا بہت ہے۔ جب میں نے دسویں کلاس کے امتحان دیے، تو فارغ ہونے کے بعد میں اپنی نانی کے گھر رہنے چلا گیا۔ دو ماہ مجھے وہیں رہنا تھا۔ میری نانی کے گھر میں میرے ماموں، نانی، اور میری جان مامی رہتے ہیں۔ میری مامی کی عمر تقریباً 28 سال ہوگی۔ مامی کا رنگ بہت گورا ہے اور ان کے بوبز تو کیا کمال کے تھے۔ جب میں نے پہلی بار ان کے بوبز کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ سلم باڈی پر 36D کے بوبز کیا مست لگتے تھے۔ میری نانی ہم سے بہت پیار کرتی ہیں، اس لیے انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم اب میرے پاس ہی رہو اور یہیں رہ کر پڑھائی کرو۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ اور میرے ماموں نے میرا ایڈمیشن ایک کالج میں کروا دیا۔ میں کالج جانے لگا۔

دن اسی طرح گزرتے گئے اور میرا فرسٹ ایئر مکمل ہو گیا۔ اس ایک سال میں میں اپنی مامی کے بہت قریب آ گیا تھا۔ کیونکہ اکثر مامی گھر میں اکیلی ہوتی تھیں۔ نانی کبھی پڑوسیوں کے گھر، کبھی رشتے داروں کے گھر چلی جاتی تھیں، اور ماموں کو آفس سے فرصت نہیں ملتی تھی۔ میں کالج سے آنے کے بعد سیدھا مامی کے کمرے میں چلا جاتا اور ان سے گپ شپ لگاتا رہتا۔ میری مامی اپنے کمرے میں اکثر دوپٹہ نہیں لیتی تھیں اور مجھے تو وہ اپنا بیٹا کہتی تھیں۔ اس لیے وہ مجھ سے شرماتی نہیں تھیں۔ میں بھی جوانی چڑھ رہا تھا اور جب بھی مامی کے قریب بیٹھتا تو چوری چوری ان کے بوبز کو دیکھتا رہتا۔ قریب سے دیکھتے ہوئے میرا دل کرتا کہ میں ان کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ لوں اور چوستا رہوں، لیکن ڈرتا تھا کہ کہیں مامی غصہ نہ ہو جائیں تو کیا ہوگا۔

مامی جب بھی گھر کی صفائی کرتیں، تو میں ان کی مدد کرتا۔ وہ بہت خوش ہوتیں اور مجھے ماموں اور نانی بھی کہتے کہ تم مامی کی مدد کیا کرو۔ فرش دھوتے ہوئے ان کے کپڑے گیلے ہو جاتے اور ان کی قمیض ان کے جسم سے چپک جاتی۔ دوپٹہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کے بوبز صاف نظر آتے اور قمیض سے باہر نکلتے دکھائی دیتے۔ یہ دیکھ کر تو میرا لن ایک دم کھڑا ہو جاتا، تو میں جلدی سے واش روم جا کر مٹھی مارتا، وہ بھی کھڑے ہو کر، کیونکہ میں مامی کو دیکھتے ہوئے مٹھی مارتا تھا۔ میں ان کو دیکھتے دیکھتے دن میں چار چار بار بھی مٹھی مارتا تھا۔

میرا سیکنڈ ایئر شروع ہو گیا تھا۔ میرے ماموں کو کال آئی کہ ہمارے ایک قریبی رشتے دار کے بیٹے کی ڈیتھ ہو گئی ہے اور وہ فیصل آباد میں رہتے ہیں۔ یہ خبر قریب شام کو آئی اور ہم سب پریشان ہو گئے کہ اب کون جائے گا۔ مجھے ماموں نے کہا کہ تم نانی کو لے جاؤ اور میں گھر پر رہتا ہوں۔ لیکن نانی نے کہا کہ نہیں، تم میرے ساتھ چلو، دو دن کی تو بات ہے، اس کی پڑھائی ڈسٹرب ہو جائے گی۔ اس لیے یہ اپنی پڑھائی کرے اور گھر میں مامی کا بھی خیال رکھے۔ اور مامی کو میری وجہ سے گھر پر چھوڑ کر جا رہے تھے کہ میں اکیلا نہ رہوں۔

رات کو مامی نے نانی اور ماموں کا بیگ پیک کیا۔ آج کل لائٹ بہت جاتی تھی، اس لیے ہم سب کمروں میں سونے کے بجائے باہر صحن میں سوتے تھے۔ میری چارپائی مامی کے ساتھ تھی اور ان کے ساتھ نانی کی، اور ماموں اوپر چھت پر سو رہے تھے۔ ان کو صبح صبح نکلنا تھا۔ مجھے نیند نہیں آ رہی تھی اور میں نے دیکھا کہ مامی بھی جاگ رہی ہیں۔ میں نے ہلکی سی آواز میں پوچھا کہ مامی کیا بات ہے، آپ سوئی نہیں اب تک؟ تو مامی نے اپنا چہرہ میری طرف کر لیا اور کہا کہ نیند نہیں آ رہی۔ میں نے کہا کہ چلیں باتیں کرتے ہیں، لیکن آہستہ، کہیں نانی نہ جاگ جائیں۔

مامی بہت اداس لگ رہی تھیں۔ میں نے کہا کہ آپ اداس کیوں ہیں؟ فکر نہ کریں، ماموں دو دن کے لیے ہی تو جا رہے ہیں، دو دن کے بعد واپس آ جائیں گے۔ تو مامی بولیں کہ ہاں اداس تو ہوں، لیکن یہ شکر ہے کہ اگر تم بھی نہ ہوتے تو میرا کیا ہوتا۔ میں نے کہا کہ آپ کیوں فکر کرتی ہیں، میں ہوں نہ، آپ کو فل کمپنی دوں گا۔ میں نے پیار سے ان کے سر پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا۔ مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ رات کے اندھیرے میں بھی مامی کا جسم لائٹ کی طرح چمک رہا تھا۔ ان کے بوبز مجھے نظر آ رہے تھے۔ میں نے ہمت کی اور مامی کا ہاتھ اپنے سر سے ہٹا کر اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیا اور ان کے ہاتھ کو پیار سے اپنے سینے سے لگا لیا۔ مامی نے بھی مجھے کچھ نہیں کہا اور پیار سے مجھ سے باتیں کرتی رہیں۔ میں کبھی ان کے ہاتھ کو چومتا اور کبھی سینے سے لگا لیتا۔ ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے اور میرے دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ آج مامی سے پیار کا اظہار کر ہی دوں۔ پتہ نہیں مجھ میں اتنی ہمت کہاں سے آ گئی، میں نے مامی سے کہا کہ مامی ایک بات کہوں، آپ برا تو نہیں مانو گی؟ تو مامی نے کہا کہ پہلے کبھی تمہاری کسی بات کا برا مانا ہے جو اب مانوں گی، بولو کیا بات ہے۔ میں نے ڈرتے ہوئے کہا کہ آپ مجھے بہت اچھی لگتی ہیں، میں آپ سے پیار کرتا ہوں۔ مامی تھوڑا سا مسکرائیں اور کہنے لگیں کہ اس میں ڈرنے والی کیا بات ہے۔

مجھ میں ہمت اور بڑھ گئی۔ میں نے کہا کہ میں آپ سے پیار کرنا چاہتا ہوں۔ مامی نے کہا کہ میں سمجھی نہیں۔ میں نے کہا کہ مجھے بس آپ سے پیار کرنا ہے۔ تو وہ کہنے لگیں کہ کیسا پیار؟ مامی سیریس ہو گئی تھیں۔ میں نے کہا کہ جیسے ماموں آپ کے ساتھ کرتے ہیں۔ مامی ایک دم غصے میں آ گئیں اور اپنا ہاتھ چھڑانے لگیں اور کہا کہ آج ایسی بات کی ہے، اگلی بار ایسی سوچا بھی تو تمہاری نانی اور ماموں کو بتا دوں گی۔ میں نے پھر بھی ان کا ہاتھ نہیں چھوڑا اور ان کے ہاتھ کو چومتا رہا۔ میں رونے لگا کہ پلیز ایسی نہ کریں، میں بہت پیار کرتا ہوں آپ سے، ہر وقت آپ کو دیکھتا رہتا ہوں۔ جب آپ نہاتی ہیں تو چھپ کر آپ کو دیکھتا ہوں۔ مامی سن کر حیران ہو گئیں اور پوچھا کہ تم مجھے نہاتے ہوئے بھی دیکھتے ہو؟ تمہیں شرم نہیں آتی؟ میں نے کہا کہ کیا کروں، میں اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوں۔

مامی بہت پریشان ہو گئیں اور مجھے کہتی ہیں کہ رونا بند کرو اور سو جاؤ، صبح بات کریں گے۔ اور میری طرف کمر کر کے لیٹ گئیں۔ میں ان کو پیچھے سے ہاتھ پھیرتا رہا اور بولتا رہا۔ مامی نے کچھ دیر بعد مجھے کہا کہ ان لوگوں کو صبح جانے دو، اس کے بعد میں تم سے بات کروں گی۔ پلیز اب سو جاؤ، یہ نہ ہو کہ تمہاری نانی اٹھ جائیں اور ہمیں ایسی باتیں کرتے ہوئے دیکھ لیں، وہ بہت ناراض ہوں گی۔ میں نے کہا کہ پرامس کرو کہ آپ یہ بات کسی سے نہیں کریں گی۔ مامی نے کہا کہ پرامس، چلو اب تم سو جاؤ۔ مجھے نیند کہاں آنی تھی، میں ساری رات جاگتا رہا اور صبح صبح اٹھ کر ماموں اور نانی کو بس اسٹاپ پر چھوڑنے گیا اور ان سے کہا کہ میں اب کالج چلتا ہوں۔

ماموں اور نانی کی بس فیصل آباد کے لیے نکل پڑی اور میں کالج جانے کے بجائے سیدھا گھر آ گیا۔ میرے پاس گھر کی ایک چابی تھی۔ میں نے آرام سے تالا کھولا اور اندر گھر میں آ گیا۔ سارا گھر دیکھا کہ مامی کہاں ہیں۔ پھر پورے گھر کے دروازوں کو تالا لگایا اور ڈور بیل بھی بند کر دی۔ اور پھر میں مامی کے کمرے میں آ گیا۔ مامی کا کمرہ کھلا تھا کیونکہ اس وقت وہ گھر میں اکیلی تھیں، اس لیے وہ ایئر کنڈیشنر آن کر کے اپنی گلابی نائٹی پہن کر اپنے بستر پر لیٹی ہوئی تھیں۔ مجھے اچانک دروازے پر دیکھ کر وہ گھبرا گئیں اور پوچھا کہ تم کالج نہیں گئے؟ میں نے کہا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، اس لیے ماموں لوگوں کو چھوڑ کر گھر آ گیا ہوں۔ مامی نے مجھے اپنے پاس بستر پر بٹھایا اور مجھ سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے میرے پیارے بھانجے کو؟ میں نے کہا کہ آپ کو اس سے کیا، مجھے جو بھی ہو جائے۔

مامی بولیں کہ ایسی بات نہیں ہے، تم سمجھ نہیں رہے ہو، میرا تمہارا کیا رشتہ ہے۔ میں تمہاری مامی ہوں اور مامی کے ساتھ کوئی ایسی باتیں کرتا ہے کیا؟ میں نے کہا کہ آپ ہی تو کہتی ہیں کہ جو دل میں ہو وہ بول دینا چاہیے۔ میں نے سچ کہا تو آپ ناراض ہو گئی ہیں۔ مامی نے کہا کہ میں ناراض تو نہیں ہوں تم سے۔ میں رونے کی ایکٹنگ کرنے لگا تو مامی نے مجھے چپ کروایا اور میرے لیے پانی لینے چلی گئیں۔ میں بستر پر ہی بیٹھا ہوا تھا۔ جیسے ہی مامی واپس آئیں تو مجھے پانی اپنے ہاتھوں سے پلایا اور پیار سے میرے سامنے کھڑے ہو کر میرے سر کو پکڑ کر اپنے سینے سے لگایا اور سر پر ہاتھ پھیرنے لگیں۔ جیسے ہی میرا سر ان کے سینے سے لگا تو میرا منہ ان کے بوبز کو چھو رہا تھا۔ مجھے ان کے جسم کی مہک پاگل کر رہی تھی۔ مجھ سے برداشت نہ ہوا اور میں نے ان کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیا اور مامی کے جسم کو اپنی بانہوں میں بھر لیا۔

مامی نے مجھے اپنے سے دور کرنا چاہا لیکن وہ ناکام ہو گئیں اور میں نے ان کو بستر پر لٹا لیا اور ان کی نائٹی کے اوپر سے ہی ان کے بوبز کو اپنے منہ میں لینے لگا۔ مامی کے ہاتھ میں نے اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر پیچھے سر کے پاس کر دیے اور خود ان پر لیٹ گیا۔ مامی نے کہا کہ جہانگیر، تم یہ کیا کر رہے ہو؟ پلیز مجھے چھوڑ دو، یہ غلط ہے۔ میں نے ان کی ایک نہ سنی اور اپنا کام کرتا رہا۔ مامی کے جسم کو چومنے میں بہت مزا آ رہا تھا اور ساتھ میں ان کے پرفوم کی مہک مجھے اور جنگلی بنا رہی تھی۔ لگاتار چوسنے سے مامی بھی گرم ہو گئیں اور مجھے کہا کہ بدمعاش، ایک منٹ رکو، تو میں پہلے سارے دروازے بند کر آؤں، کہیں کوئی آ نہ جائے۔ تو میں نے کہا کہ آپ فکر نہ کرو، میں نے سب بند کر دیے ہیں، کوئی نہیں آئے گا۔ پلیز بس میرے پاس رہیں۔ تو مامی نے مسکرا کر میرے ہونٹوں پر بوسہ دیا اور کہا کہ سارا انتظام کر کے آئے ہو۔ میں نے کہا کہ مجھے آپ کے بوبز چوسنے ہیں۔ تو مامی نے کہا کہ رکو، میں ابھی اپنے بھانجے کو اپنا دودھ دیتی ہوں۔

میرے سامنے انہوں نے اپنی نائٹی بہت سیکسی انداز میں اتاری اور ساتھ ہی نیچے سے گلابی برا اور پینٹی بھی اتار دی۔ اب مامی میرے سامنے بالکل ننگی تھیں۔ میں نے ان کو جوش میں آ کر کمر سے پکڑا اور اپنے نیچے لٹا لیا اور ان پر جانور کی طرح ٹوٹ پڑا۔ وہ بھی میرا ساتھ دے رہی تھیں۔ مامی کے بوبز جب میں نے اپنے منہ میں لیے تو ایسا لگا جیسے میں آم چوس رہا ہوں۔ وہ بھی بہت گرم ہو گئی تھیں۔ پھر مامی نے مجھے کہا کہ میرے سارے کپڑے تو تم نے اتار لیے، اب وہ بھی تو دکھاؤ جس کو کبھی بھی چین نہیں ملتا۔ میں نے کہا کہ آپ ہی اتار دیں۔

مامی نے بہت پیار سے میرے کپڑے اتارے اور جب میرے لن کو انڈرویئر سے باہر نکالا تو وہ ایک دم حیران رہ گئیں اور بولیں، آآآآآآآآ، اتنا موٹا ہے تمہارا تووووووو۔

میں نے کہا کہ اس کو منہ میں لے کر چوسیں نا پلیز۔ تو مامی نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ مجھے یہ پسند نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ کوئی بات نہیں، لیکن میں آپ کی پھدی چوسنا چاہتا ہوں۔ مامی حیران ہو کر مجھے دیکھنے لگیں اور کہا کہ جیسے تمہاری مرضی۔

میں نے مامی کو بستر پر سیدھا لٹا کر ان کی ٹانگیں پوری کھول دیں اور خود ان کی ٹانگوں کے بیچ میں آ کر اپنا منہ ان کی پھدی پر رکھا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے ان کے بوبز کو پکڑ کر مسلنے لگا۔ جیسے ہی میں نے ان کی پھدی پر اپنی زبان پھری تو ان کے منہ سے ایک سسکاری نکلی، ششش آآآآآآآہ پلیززززززززززززز۔ میں ابھی ان کی پھدی کو پر سے ہی چاٹ رہا تھا اور اپنی زبان کو ان کی پھدی کے اندر آہستہ آہستہ لے جا رہا تھا۔ جیسے ہی میری زبان کی نوک ان کی پھدی کے دانے پر ٹچ ہوئی تو جیسے مامی پاگل ہو گئیں اور کہنے لگیں، پلیزززز اوووووووووووووووور چووووووووووووووودوووووووووووووو پلیزززززززززززز۔ وہ زور زور سے سسکاریاں لے رہی تھیں اور اپنا سر بستر پر ادھر ادھر مار رہی تھیں۔ میں بھی ان کی پھدی کو چاٹتا ہی رہا۔ ان کی سسکیوں سے مجھے اور بھی جوش آ رہا تھا۔ میں زور زور سے ان کے بوبز کو بھی مسلتا اور ان کی پھدی میں اپنی زبان بھی پھرتا۔ وہ اور پاگل ہو رہی تھیں اور زور سے میرے سر کو پکڑ کر اپنی پھدی میں ڈبو رہی تھیں۔ میں بھی چوستا رہا۔ اور پھر مامی کا جسم ایک دم ٹائٹ ہو گیا اور وہ بولیں، ااااااااااااامممم جان، میرا پانی نکل رہا ہے۔ اور ساتھ ہی مامی کی پھدی سے ایک پانی کا دریا نکلا اور بستر پر ان کی پھدی سے نکلا ہوا پانی پھیل گیا۔

میں تو جیسے مدہوش ہو گیا تھا۔ انہوں نے مجھے کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا اور پاگلوں کی طرح بوسہ کرنے لگیں اور بولیں، جہانگیر، آج جو تم نے مجھے مزا اور سکون دیا ہے، وہ آج تک تمہارے ماموں نے بھی نہیں دیا۔

میں نے کہا کہ مامی جان، اب میرا لن بھی ترس رہا ہے آپ کے منہ میں جانے کے لیے۔ تو مامی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ لاؤ، آج اس کو بھی خوش کر دیتی ہوں۔ مجھے بستر پر لٹا کر مامی میرے اوپر آ گئیں اور میرے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر پیار سے اپنے منہ میں ڈال لیا اور لن کی ٹوپی پر اپنی زبان پھیرنے لگیں۔ مجھے بہت مزا آ رہا تھا۔ میں نے سارا لن مامی کے منہ میں دے دیا اور خود ان کے بڑے آم جیسے بوبز کے ساتھ کھیلتا رہا۔ مامی بہت پیار سے میرے لن کو کبھی اندر کبھی باہر نکال رہی تھیں۔ پھر تھوڑی دیر بعد میں ڈسچارج ہونے لگا تو میں نے ان کے منہ سے لن نکال لیا اور ان کے بوبز کے بیچ رکھ کر بوبز کے ساتھ دبا دیا۔ اور پھر میرے لن نے لاوا نکل دیا جو سارا میری مامی کے بوبز پر گرا۔

میں اور مامی ریلیکس ہو کر بستر پر لیٹ گئے اور باتیں کرنے لگے۔ میں مامی کے پیر لیٹا ہوا تھا اور ان کے بوبز کو ساتھ ساتھ چوس رہا تھا۔ کبھی میں مامی کے بوبز کو چوستا تو کبھی ان کے جسم کو چومنا شروع کر دیتا۔ تیس منٹ بعد میرا لن پھر سے کھڑا ہو گیا اور مامی بھی میری چوسائی کی وجہ سے بہت گرم ہو گئی تھیں۔ میں نے مامی سے کہا کہ میں آپ کی پھدی مارنا چاہتا ہوں۔ تو مامی نے کہا کہ آج سب کچھ اپنا تم کو دے دیا ہے، جو دل میں آئے وہ کرو۔ میرے اندر بھی آگ لگی ہوئی ہے، اس کو تم ہی ٹھنڈا کر سکتے ہو۔ آ جاؤ جان، مارو میری پھدی کے اندر اس موٹے لن کو۔ مامی کے منہ سے یہ سن کر میں تو جیسے پاگل سا ہو گیا تھا۔ میں نے ان کو سر سے لے کر پاؤں تک بوسے دیے اور پھر ان کو سیدھا لٹا کر ان کے اوپر لیٹ گیا اور ان کی ٹانگوں کے بیچ میں آ کر اپنا لن ان کی پھدی پر رگڑنا شروع کر دیا۔ جس سے مامی تو ہوش ہی کھو بیٹھیں اور اپنے منہ سے سسکیاں نکالنے لگیں، آآآآآآآآآآآآہ آآآآآآآآآآآہ آآآآآآآآآآآآآہ۔

میں ایسی باتیں سن کر میرے اندر بھی جوش بھر گیا اور میں نے اپنے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر مامی کی پھدی کے بیچ ڈالنا چاہا تو وہ اندر ہی نہیں جا رہا تھا۔ میں نے سائیڈ ٹیبل پر رکھی ویسلین لی کر لن کی ٹوپی پر لگائی اور تھوڑی سی مامی کی پھدی پر بھی۔ پھر میں نے اپنی ٹوپی کو مامی کی پھدی میں سیٹ کیا اور آہستہ آہستہ ان کے اندر کرنے لگا۔ ابھی صرف ٹوپی ہی اندر گئی تھی کہ وہ چلانے لگیں اور آآآآآآآآآآآآآہ آآآآآآآآآآآآآآہ۔ میں نے دیکھا کہ مامی کو تکلیف ہو رہی ہے تو میں رک گیا۔ انہوں نے مجھے دیکھا اور کہا کہ رُک کیوں گئے، ڈالووووووووووو اب اس کو اندر۔ میں نے کہا کہ آپ کو تکلیف ہو رہی ہے۔ تو کہنے لگیں کہ میری فکر نہ کرو اور ڈالو اندر اب اور نہ تڑپاؤ جان پلیز۔ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے، اب تیار ہو جائیں۔ میں نے اپنے آپ کو سیٹ کیا اور ایک زور دار جھٹکا مارا اور میرا لن مامی کی پھدی کو چیرتا ہوا ان کی پھدی میں چلا گیا۔ مامی کے منہ سے ایک دم چیخ نکلی، آآآآآآآآآآآآآآآآآآآہ آآآآآآآآآآآآآآآہ۔

وہ چلاتی رہیں، جان نکالو اسے باہر، میں مر جاؤں گی، میں مر گئی، خدا کے لیے اسے باہر نکالو۔ لیکن میں نے نہیں نکالا اور اسی طرح مامی کے اوپر لیٹ گیا اور ان کے ہونٹوں کو چوسنے لگا اور ان کی زبان کو منہ میں ڈال کر چوسنے لگا۔ مامی کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے۔ میں نے وہ صاف کیے اور پھر تھوڑی دیر بعد جب مامی تھوڑا سا ریلیکس ہوئیں تو میں نے پوچھا کہ مامی جان، شروع کروں؟ تو وہ مجھے بس دیکھتی ہی رہیں اور کچھ بولیں نہیں۔ میں نے پھر آہستہ آہستہ اپنا لن ان کی پھدی سے باہر نکالا اور پھر اندر کرنے لگا۔ آہستہ کرنے سے مامی کا درد بھی کم ہو گیا اور وہ بھی میرا ساتھ دینے لگیں۔ میں نے ان کی پھدی کو پہلے سلو اور پھر تیز تیز چودنا شروع کر دیا اور اب تو مامی کو درد بھی کم ہو رہا تھا۔ مجھے بہت مزا آ رہا تھا۔ میں لن کو سارا باہر نکالتا اور پھر اندر زور کے جھٹکے سے ڈال دیتا۔ مامی لگاتار چلاتی رہیں، آآآآآآآآہ آآآآآآآآہ آآآآآآآآآآآآآہ اووووووووووووووہ۔

مامی اپنے منہ سے پتہ نہیں کیا کیا کہہ رہی تھیں، ان کو تو ہوش ہی نہیں تھا۔ میں نے قریب 15 منٹ کی زبردست چدائی کے بعد مامی سے کہا کہ میرا لاوا نکلنے والا ہے۔ تو وہ بولیں کہ میرے اندر ہی نکال دو جان۔ میں نے زور زور سے جھٹکے مارے اور میں نے اندر ہی ڈسچارج ہو گیا۔ اس بیچ مامی دو بار ڈسچارج ہو گئی تھیں۔ میں مامی کے اوپر ہی گر گیا اور مامی کو زور سے اپنی بانہوں میں لے کر وہیں پر سو گیا۔ جب آنکھ کھلی تو مامی کے سینے پر سر رکھ کر میں لیٹا ہوا تھا اور مامی کے بوبز میرے منہ کے قریب تھے۔ میں نے مامی کے بوبز کے نپل کو منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا۔ اور مامی نے کہا کہ ابھی جی نہیں بھرا میری جان کا جو پھر شروع ہو گئے ہو۔ آج دودھ ہی پیتی رہو گے یا کچھ کھانا بھی ہے؟ دن کے دو بج چکے تھے۔ مامی نے بہت پیار سے مجھے کہا کہ میرے پیارے بھانجے، اب اٹھو اور نہا دھو کر فریش ہو جاؤ، میں کھانا لگاتی ہوں۔ میں نے کہا کہ نہیں، مجھے پیار کرنا ہے۔ تو مامی نے میرے ہونٹوں پر بوسہ دیتے ہوئے مجھے کہا کہ میں نے کب انکار کیا ہے، اب تو جب دل کرے میری جان، مجھے جتنا مرضی پیار کرنا۔

ویسے بھی ابھی دو دن اور دو راتیں ہیں ہمارے پاس۔ میں خوش ہو گیا اور باتھ روم میں مامی کے ساتھ ہی نہانے چلا گیا اور ایک راؤنڈ چدائی کا وہاں بھی لگایا۔ اور پھر وہ دو دن اور دو راتیں نہ تو میں نے مامی کو چین لینے دیا اور نہ ہی خود لیا۔ بس مامی کی چدائی کرتا رہا اور وہ بھی مجھ سے مزا لیتی رہیں۔

دوستو، کیسی لگی میری کہانی؟ امید ہے آپ کو پسند آئی ہو گی۔

❤️ اردو کی دلکش شہوانی، رومانوی اور شہوت انگیز جذبات سے بھرپور کہانیاں پڑھنے کے لیے ہمارے فورمز کو جوائن کریں:

ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی