میرا نام یسرا ہے، میں اس وقت کراچی کے ایک انگلش اسکول
میں دسویں جماعت کی طالبہ ہوں۔ میری عمر اس وقت 15 سال ہے، اور میں تھوڑی بھری
ہوئی ہوں، میرا وزن 60 کلو گرام ہے، جس کی وجہ سے میری باڈی فگر اس عمر میں میری
ہم عمر لڑکیوں سے بھی بہت اچھا ہے۔
آٹھویں جماعت میں ہی میرا فگر بہت زیادہ ڈیویلپ ہو گیا
تھا، اور اب اس وقت میرے ممے اور میرے کولہے (ہپس) کی گولیاں کافی نرم، بھری بھری
اور بہت سیکسی ہیں، جو چلنے سے ایک عجیب سے سیکسی انداز میں ہلتی ہیں۔ میرے ممے
اتنا مسٹ، گول اور ٹائٹ ہیں کہ مجھے کبھی برا پہننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی،
حالانکہ ان کا سائز 32 ہے۔ اس بات پر کئی دفعہ اپنی ماں سے ڈانٹ بھی سن چکی ہوں کہ
میں برازیئر کیوں نہیں پہنتی۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر میں برازیئر نہیں پہنوں گی تو
میرے ممے لٹک جائیں گے۔ بہرحال، میری برازیئرز نئی کی نئی میری ڈریسنگ ٹیبل کے
دراز میں پڑی رہتی ہیں۔
کشمری ہونے کی وجہ سے میرا رنگ کافی گورا ہے، اور میرے
گال بالکل سرخ سیب کی طرح سرخ ہیں۔ مجموعی طور پر میں کافی پرکشش اور سیکسی ہوں۔
جب میں نویں جماعت میں تھی تو مجھے ٹیوشن کی ضرورت محسوس ہوئی، اور میں نے ضد کی
کہ مجھے بھی گھر پر ٹیوٹر لگوا کر دیں۔ میری ضد کے آگے ہتھیار ڈال کر میرے پاپا نے
میرے لیے ہوم ٹیوشن کا انتظام کر دیا۔
میرے ٹیوٹر ایک سمارٹ، جوان طالب علم تھے، جنہیں اپنی
تعلیم مکمل کرنے کے لیے ٹیوشن کی بہت ضرورت تھی۔ وہ دیکھنے میں بہت شریف اور معصوم
سے لگتے تھے۔ ان کی عمر لگ بھگ 23/24 سال کی ہوگی۔ وہ اپنے ماسٹرز کے فائنل ایئر
میں تھے۔ وہ مجھے روزانہ 3 سے 4 بجے کے قریب پڑھانے آتے تھے اور کوئی دو گھنٹے
ٹیوشن دیتے تھے۔
ہم لوگ کراچی کے ایک پاش ایریا میں ایک اپارٹمنٹ میں
رہتے ہیں۔ ہمارا چھوٹا سا خاندان ہے، جس میں میری ماں، باپ، دادی، ایک بھائی اور
میں ہوں۔ بھائی مجھ سے چھوٹا ہے اور ابھی اسکول میں ہے۔ اس سے پہلے کہ میں اصل
واقعہ بتاؤں، یہ بتا دوں کہ اس واقعے سے پہلے ہی میں سیکس کے بارے میں کافی کچھ
جانتی تھی، جو مجھے انٹرنیٹ کے ذریعے اور کچھ اپنی اسکول کی ماڈرن دوستوں کے ذریعے
پتا تھا۔ کبھی کبھی جب موقع ملتا تھا تو میں انٹرنیٹ لگا کر سیکسی سائٹس بھی
دیکھتی تھی، اور اکثر میری پینٹی گیلی ہو جاتی تھی۔ میری ایک دوست ہے کومل، اس کے
ساتھ میں نے تھوڑی بہت سیکسی شرارتیں بھی کی ہیں۔ آپ جانتے ہیں، کبھی میں اس کی
چوت کو چاٹتی تھی اور کبھی وہ میری چوت کو چاٹتی تھی۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے بریسٹ
بھی چاٹتے اور چوستے تھے۔ اسی نے مجھے فنگرنگ کے سنسیشن کے بارے میں بتایا تھا۔
پھر ہم کبھی کبھی فنگرنگ بھی کیا کرتے تھے، لیکن زیادہ فنگرنگ نہیں کرتے تھے۔ ہاں،
جب ہم اپنے کلٹ کو رگڑتے تو ہمیں بہت زیادہ مزہ آتا تھا۔ تو میں کبھی کبھی اکیلے
میں بھی فنگرنگ کا مزہ لیتی ہوں۔ تب میری چوت بہت گیلی ہو جاتی ہے۔
رات کو سوتے وقت یا نہاتے وقت باتھ روم میں، جب مجھے
ننگا ہونے کا موقع ملتا تو میں اپنی چوت ضرور رگڑتی اور خوب مزہ لیتی۔ میں یہ سب
اس لیے بتا رہی ہوں کہ یہ بتا سکوں کہ یہ سوچ اور لوگوں کا خیال کہ لڑکیاں سیکس سے
دور بھاگتی ہیں، غلط ہے۔ آج میڈیا اور انٹرنیٹ نے سب کو ہی سیکس کے بارے میں مکمل
آگاہی دے دی ہے۔ لڑکے اور لڑکیاں اپنے وقت سے پہلے بالغیت حاصل کر رہے ہیں۔ ہاں،
یہ سچ ہے کہ لڑکیاں، لڑکوں کی طرح اظہار کم کرتی ہیں اور اس بارے میں کچھ محدود
رہتی ہیں، جس کی وجہ یہاں کی پابندیاں اور ثقافتی اصول ہیں۔ مگر ہم خیال لڑکیاں
آپس میں آسانی سے سیکس کے ٹاپک پر بھی اب بحث کر لیتی ہیں اور اپنے تجربات بھی
شیئر کرتی ہیں۔ آپ لوگ جان کر شاید حیران ہوں کہ میں نے پہلی کوئی سیکسی سرگرمی جو
کی ہے وہ شاید 11/12 سال کی عمر میں کی ہے۔ وہ اس طرح کہ ہم لوگ پہلے ایک کرائے کے
مکان میں رہتے تھے۔ مالک مکان کا لڑکا مجھ سے تین سال بڑا، یعنی کوئی 14 یا 15 سال
کا ہوگا۔ بڑا ہرامی اور چالاک لڑکا تھا، لیکن بڑا معصوم بنتا تھا۔ اسی لیے میری اس
سے دوستی ہو گئی اور اس نے مجھے اپنے ساتھ کھیلنے کی پیشکش کی۔ میرا بھائی اس وقت
بہت چھوٹا تھا اور مجھے کھیل کود کے لیے ایک پارٹنر کی ضرورت تھی، تو میں نے تھوڑی
سی ہچکچاہٹ کے بعد قبول کر لیا۔ ہم لوگ آپس میں کئی قسم کے گیمز جو بچپن میں کھیلے
جاتے ہیں، جیسے لڈو، چھپن چھپائی، کیرم وغیرہ کھیلتے تھے۔ وہ سیکس کے بارے میں
کافی کچھ جانتا تھا، لیکن کبھی اس نے اپنی کسی حرکت سے اس کا اظہار نہیں ہونے دیا
اور انجان سا بنا رہتا تھا۔ اس کا احساس مجھے بعد میں ہوا، جب میری اسکول کی
دوستوں نے مجھے سیکس کے بارے میں بتایا اور کچھ میں نے انٹرنیٹ سے معلومات حاصل
کیں۔ پہلے ہم کبھی اس کے گھر اور کبھی میرے گھر کھیلا کرتے تھے۔ پھر اس نے میری
معصومیت اور بچپن دیکھ کر مجھ سے کہا کہ چھت پر جا کر کھیلیں گے، اور پھر ہم چھت
پر کھیلنے لگے۔ دراصل اس نے جو مجھے چھت پر کھیلنے کی پیشکش کی، اس کے پیچھے اس کی
سیکسی خواہشات تھیں، جن سے میں بالکل لاعلم تھی۔
دوپہر میں جب سب سو جاتے تھے تو ہم اوپر چھت والے کمرے
میں جا کر کھیلتے تھے۔ اکثر وہی مجھے بلا کر چھت پر لے جاتا تھا۔ کھیل کھیل میں اس
نے ایک دن مجھ سے ڈاکٹر ڈاکٹر کھیلنا شروع کر دیا۔ مجھے بھی اس میں مزہ آنے لگا۔
اس گیم میں ہم لوگ پہلے تو ایک دوسرے کو کپڑوں کے اوپر سے ہی چیک کیا کرتے تھے۔
میں نے محسوس کیا کہ جب وہ میرا سینہ چیک کرتا تو اس کا ہاتھ کافی دیر تک میرے
سینے پر رہتا تھا اور مجھے ایک عجیب سی مزے کی سنسیشن ہوتی تھی۔ پھر ہم ایک دوسرے
کی شلوار نیچے کر کے ہپس پر جھوٹ موٹ اپنی انگلی سے انجیکشن بھی لگانے لگے۔ اس وقت
تک میرے فلیٹ سینے پر چھوٹے چھوٹے بریسٹ ڈیویلپ ہو رہے تھے۔ آہستہ آہستہ اس نے
میری شرٹ بھی اوپر کر کے میرے ننگے سینے کو اپنے ہاتھوں سے سہلانا اور چوسنا شروع
کر دیا۔ وہ بڑی شدت اور پیار سے کافی دیر تک میرے چھوٹے چھوٹے ابھاروں کو چوستا
رہتا اور انہیں اپنے ہاتھوں سے دباتا بھی تھا۔ اس کی اس حرکت سے مجھے بڑا مزہ آتا
اور میں بھی آنکھیں بند کیے مزہ لیتی رہتی۔ شاید یہی وجہ رہی ہو کہ بہت چھوٹی عمر
میں ہی میرے بریسٹ کافی بڑے ہو گئے ہیں۔ اس کا میرے ابھاروں کو چوسنا مجھے بہت مزہ
دیتا تھا۔ خیر، پھر بات بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچ گئی کہ ہم لوگ اپنے سارے کپڑے
اتار کر ننگے ہو کر ایک دوسرے سے چمٹ جاتے تھے۔ اس کا لنڈ کوئی 4 انچ لمبا تھا،
اور لنڈ کے آس پاس تھوڑے تھوڑے بال بھی تھے۔ وہ اپنا لنڈ کچھ دیر اپنے ہاتھوں سے
مسل کر کھڑا کر کے میرے ہپس میں اور کبھی میری بغیر بالوں والی پھولی چوت کے
ہونٹوں پر رگڑتا تھا۔ مجھے ایسا لگتا جیسے کوئی گرم راڈ میری ہپ اور چوت پر ٹنگلنگ
کر رہی ہو۔ مجھے گدگدی ہوتی اور بڑا مزہ آتا تھا اس گیم میں، اور میں بڑے شوق سے
یہ گیم کھیلا کرتی تھی، اس بات سے بے خبر کہ اس کی سیکسی خواہشات کو میں انجانے میں
پورا کر رہی ہوں۔ اور کبھی وہ میرے اوپر لیٹ کر مجھے اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر
بری طرح بھینچتا تھا۔ اس طرح مجھے کافی مزہ آتا تھا۔ اس نے کافی کوشش کی کہ میں
بھی اس کا لنڈ اپنے منہ میں لے کر چوسوں، مگر میں نے زبان تو کئی بار اس کے لنڈ پر
پھیری، مگر چوسا کبھی نہیں۔ وہ میری چوت اور میرے چھوٹے چھوٹے ابھاروں کو بڑے مزے
اور دلچسپی سے چوسا کرتا تھا، یہاں تک کہ میرے ابھار سرخ ہو جاتے اور میری چوت کے
ہونٹ بھی سرخ ہو جاتے۔ کئی دفعہ اس نے اپنی انگلی میرے ایش ہول اور چوت میں بھی
ڈالی، لیکن زیادہ اندر تک نہیں کیا۔ وہ میری چوت اور گانڈ میں انگلی ڈال کر اسے
اندر باہر کرتا۔ وہ میری چھوٹی سی کلٹ کو اپنی انگلی میں مسلتا تو میں مزے سے پاگل
ہو جاتی تھی۔ اس نے بہت کوشش کی کہ وہ کسی طرح اپنا لنڈ میری چوت یا گانڈ میں ڈال
سکے، مگر میں نے پتا نہیں کیوں اسے یہ کرنے نہ دیا۔ ہم دونوں کے درمیان یہ گیم
کافی دنوں تک چلتا رہا، یہاں تک کہ ہم لوگ وہ گھر چھوڑ کر اپنے اس فلیٹ میں آ گئے۔
خیر، میں اصل واقعے کی طرف آتی ہوں۔ تو بات میں یہ بتا
رہی تھی کہ میرے ٹیوٹر مجھے روز 3 سے 4 بجے کے قریب پڑھانے آتے تھے۔ ایک دفعہ جب
وہ آئے تو لائٹ نہیں تھی اور ان دنوں گرمی بھی بہت پڑ رہی تھی۔ اس دن میں نے ہلکے
رنگ کی لان کی بہت ہی پتلی شرٹ پہن رکھی تھی اور اس کے نیچے، ہمیشہ کی طرح، کچھ
بھی نہیں پہنا تھا، کیونکہ گرمی بہت تھی۔ جب میں پڑھ رہی تھی تو گرمی کی وجہ سے
میری قمیض پسینے میں بھیگنے لگی، اور میرے پسینے سے تر بتر ہو گئی۔ بے خیالی میں،
میں نے اپنی قمیض (جو پسینے سے چپک رہی تھی) کو پکڑ کر کچھ آگے کیا اور فری کر لی،
یعنی اسے کچھ آگے کی طرف کر کے لوز کیا کہ ہوا اندر جا سکے اور کچھ آرام ملے۔ مجھے
پتا نہیں چلا کہ میری قمیض کا گلا کافی آگے بڑھ گیا ہے اور میرے پسینے میں بھیگے
مسٹ بوبز، جن پر میرے پسینے کی بوندیں تھیں، کا اوپری حصہ بالکل ننگا اور باقی حصہ
جو پسینے کی وجہ سے قمیض کے گیلی ہونے کی وجہ سے قمیض کے ساتھ چپکا ہوا تھا، سب
صاف نظر آنے لگا ہے۔ میں اس وقت بھی اپنی برا نہیں پہنی تھی۔ اچانک مجھے ایسا لگا
کہ سر کے ہونٹ کچھ لرز رہے ہیں اور ان کی نظریں میری طرف بار بار اٹھ رہی ہیں۔ جب
مجھے احساس ہوا کہ وہ میری کتاب کی بجائے میرے سینے کی طرف دیکھ رہے ہیں تو میں نے
اپنے سینے کی طرف دیکھا تو پتا چلا کہ وہ میرے تقریباً ننگے بوبز کو دیکھ رہے تھے۔
میں نے جلدی سے گھبرا کر اپنا دوپٹہ اٹھایا جو پاس ہی پڑا تھا اور اسے اپنے سینے
پر ڈال لیا۔ تو وہ بے ساختہ کہنے لگے کہ گرمی بہت ہے، ریلیکس ہو کر بیٹھو، پریشان
مت ہو، اتنا تو چلتا ہے۔ میں تمہارا استاد ہوں، مجھ سے کیا گھبرانا اور کیسی شرم۔
میں یہ سن کر کیا کہتی، بس مسکرا دی۔ اس واقعے کے بعد وہ مجھ سے کافی فرینک ہو گئے
اور میں بھی کافی کھل گئی۔ وہ اکثر کتاب یا قلم دیتے وقت جان بوجھ کر اپنا ہاتھ
میرے جسم کے کسی بھی حصے سے ٹچ کرتے، حتیٰ کہ کبھی کبھی رانوں پر بھی ہاتھ رکھ
دیتے تھے۔ پہلے تو مجھے یہ سب عجیب لگا، مگر پھر آہستہ آہستہ میں ریلیکس ہوتی گئی
کہ میرا کیا جاتا ہے ایسی معمولی معمولی باتوں سے۔
انہیں مجھے ٹیوشن دیتے ہوئے تقریباً دو ماہ ہو گئے تھے کہ
میری دادی کی طبیعت خراب ہو گئی اور انہیں ہسپتال میں داخل کرانا پڑا۔ پاپا کیونکہ
آفس جاتے تھے، اس لیے امی کو دادی کے پاس ہسپتال میں ہی رہنا پڑا۔ بھائی بھی اسکول
سے آ کر کھانا کھا کر امی کے پاس ہسپتال چلا جاتا تھا کہ کوئی باہر کی ضرورت ہو تو
پوری کی جا سکے۔ اس طرح میں ان دنوں میں اکثر گھر پر اکیلی رہتی تھی۔ ایک دفعہ انہی
دنوں میں گھر پر جبکہ کوئی نہیں تھا، میں بہت بور ہو رہی تھی کہ کیا کیا جائے، تو میں
نے انٹرنیٹ لگا لیا۔ اس دن میں نے انٹرنیٹ پر کچھ سیکسی سائٹس کھول لیں اور سیکسی تصاویر
دیکھنے لگی۔ وہ تصاویر دیکھ کر میں اتنی ہاٹ ہو گئی کہ مجھے پتا ہی نہ چلا کہ میں نے
کب اپنی شرٹ اور شلوار اتار دی۔ میں انٹرنیٹ کے سامنے بالکل ننگی بیٹھی اپنے مموں اور
چوت کو رگڑنے لگی، اور بہت زیادہ ہاٹ ہو گئی۔ مستی سے میرا سارا جسم سرشار ہو رہا تھا
اور میں پسینے سے تقریباً گیلی ہو گئی تھی۔ ابھی میں سیکس میں پوری طرح ڈوبی بھی نہ
تھی کہ اسی دوران ڈور بیل بجی۔ میرا موڈ آف ہو گیا کہ عین اس وقت کون آ گیا ہے۔ میں
نے جلدی سے اپنی شرٹ اور شلوار پہنی، پھر میں نے گیٹ پر جا کر دیکھا تو میرے ٹیوٹر
تھے۔ میرا اس دن پڑھنے کا بالکل بھی موڈ نہیں تھا۔ بس دل یہی چاہ رہا تھا کہ انٹرنیٹ
پر ننگی ننگی تصاویر دیکھوں اور خوب سیکس انجوائے کروں۔ مگر اب جب کہ وہ آ چکے تھے
تو کیا کرتی۔ خیر، انہیں اندر لے جا کر بٹھایا۔ میں کتابیں لے جا کر ان کے پاس بیٹھ
تو گئی، مگر ان سے کہا کہ سر، میرا آج پڑھنے کا بالکل بھی موڈ نہیں ہے۔ تو سر کہنے
لگے کہ پھر کیا میں چلا جاؤں؟ میں نے کہا کہ سر، اگر آپ کو زحمت نہ ہو تو پلیز آج چھٹی
کر لیں۔ تو وہ کہنے لگے کہ میں تمہیں پڑھانے کے بعد ایک اور طالب علم کو پڑھانے جاتا
ہوں، مگر اس کی ٹائمنگ 5 بجے کی ہے اور اسے
اور ابھی صرف 3 بج کر 30 منٹ ہوئے ہیں۔ تو کہنے لگے کہ میں ڈیڑھ
گھنٹہ کیا کروں گا اور اتنا وقت کہاں گزاروں گا؟ تو میں نے کہا کہ سر، پھر آپ یہیں
بیٹھ جائیں، اور آج سٹڈی کی بجائے کچھ گپ شپ کرتے ہیں۔ انہوں نے مجھ سے پھر ادھر ادھر
کی باتیں شروع کر دیں۔ بات سے بات نکلتے نکلتے قسمت پر آ گئے۔ تو میں نے پوچھا کہ کیا
قسمت کا حال ہاتھ کی لکیروں سے صحیح صحیح معلوم کیا جا سکتا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ
بالکل صحیح تو نہیں، مگر ہاں کافی حد تک کچھ پیش گوئیاں کی جا سکتی ہیں۔ اب ضروری نہیں
کہ وہ صحیح بھی ہوں، مگر بسا اوقات صحیح بھی ہو جاتی ہیں۔ اور پھر کہنے لگے کہ انہیں
بھی ہاتھ دیکھنا آتا ہے۔ میں نے تھوڑا جھجھک کر کہا کہ میرا ہاتھ دیکھ کر بتائیں کہ
میری قسمت میں کیا کیا لکھا ہے اور میرے ساتھ کیا کیا ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ
ضرور! میں نے اپنا ہاتھ پھیلا
دیا۔ وہ قلم سے میرے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھ کر کچھ بتاتے جاتے تھے۔ جب انہوں نے
کچھ ماضی کی باتیں صحیح بتائیں تو میں کافی متاثر اور پرجوش ہو گئی اور مزید دلچسپی
سے ان کی باتیں سننے لگی۔ پھر انہوں نے اپنے ایک ہاتھ سے آہستہ سے میرے ہاتھ کو پکڑ
بھی لیا۔ ہم لوگ برابر برابر کرسی پر بیٹھے تھے، اتنا قریب کہ ان کی سانسوں کی آواز
میں بخوبی سن رہی تھی۔ آہستہ آہستہ انہوں نے میرے ہاتھ کو میرے سینے کی طرف لانا شروع
کیا اور اتنا قریب کر دیا کہ میرا ہاتھ میرے بوب سے ٹکرانے لگا۔ پتا نہیں مجھے اس وقت
کیا ہوا۔ ایک تو میں تھوڑی بولڈ تھی، اور دوسرے تھوڑی دیر پہلے انٹرنیٹ پر سیکسی سائٹس
دیکھنے کی وجہ سے اتنی ہاٹ ہو چکی تھی، اور ان کے ساتھ تھوڑا بہت فرینک بھی تھی (اور پتا نہیں شاید سر بھانپ چکے تھے کہ
میں اس وقت بہت ہاٹ ہوں اور پڑھنے کے موڈ میں نہیں ہوں)۔ اسی لیے میں نے نہ انہیں منع
کیا اور نہ خود اپنی پوزیشن تبدیل کی۔ اب وہ کافی جھک کر میرا ہاتھ دیکھ رہے تھے اور
ان کی آواز میں لرزش میں صاف محسوس کر رہی تھی۔ انہوں نے میرا ہاتھ پھر اتنا قریب کر
دیا کہ خود ان کا ہاتھ میرے بوبز سے ٹچ کرنے لگا۔ میری کیفیت ایسی ہو رہی تھی جیسے
کسی نے مجھ پر ہپناٹائز کر دیا ہو اور میں ٹرانس میں آ چکی ہوں۔ میں اسی پوزیشن میں
بیٹھی رہی اور کچھ نہ کہہ سکی۔ میرے کچھ نہ کہنے سے اور خاموش رہنے سے ان کا حوصلہ
بڑھا اور انہوں نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں میرے بوبز پر رگڑنا شروع کر دیں، اور پھر آہستہ
سے میرے پورے بوب کو پکڑ کر پریس کرنے لگے۔ مجھے مزہ آیا اور ابھی تھوڑی دیر پہلے انٹرنیٹ
پر سیکسی تصاویر دیکھ کر جو میں اپنے بوبز سہلا رہی تھی، اس سے بھی زیادہ اجنبی لمس
پا کر مجھ پر عجیب کیفیت ہو گئی۔ پتا نہیں انہیں جادو آتا تھا یا میں خود اتنی ہاٹ
ہو چکی تھی یا پھر سیکس ہوتا ہی اتنا ہاٹ ہے کہ سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیتیں غائب
ہو جاتی ہیں، کہ میں انہیں منع نہیں کر پا رہی تھی۔ بس اسی پوزیشن پر بیٹھی مزے لیتی
رہی۔ ان کے حوصلے بڑھتے گئے اور وہ پھر ہمت کر کے اپنے دونوں ہاتھ میرے بوبز پر رکھ
کر پریس کرنے لگے اور جھک کر میرے ہونٹوں پر کس کرنے لگے۔ میری سانسیں تیز ہوتی جا
رہی تھیں۔ پھر انہوں نے میری گردن پر کسنگ شروع کر دی اور ساتھ ہی اپنے ہاتھوں سے میرے
دونوں بریسٹ کو بھینچنا شروع کر دیا۔ مجھے تکلیف بھی ہو رہی تھی اور مزہ بھی آ رہا
تھا۔ پھر سر نے میرے ممے دباتے ہوئے مجھ سے پوچھا کہ گھر میں کوئی ہے تو نہیں؟ میں
نے کہا کہ نہیں، کوئی بھی نہیں ہے۔ تو وہ خوش ہو گئے اور بولے کہ اچھا، اب نیچے کارپٹ
پر آ جاؤ۔ اور میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے کرسی سے اٹھانے لگے۔ اب مجھے تھوڑا ہوش آیا اور
میں نے سوچا کہ کچھ گڑبڑ ہونے والی ہے۔ تو میں نے کہا کہ سر، یہ سب ٹھیک نہیں ہے۔ آپ
پلیز اس سے زیادہ آگے نہ بڑھیں اور مزید کچھ نہ کریں۔ میں آپ کی سٹوڈنٹ ہوں اور ابھی
تک کنواری ہوں۔ کوئی گڑبڑ ہو گئی تو بہت برا ہو گا۔ لیکن وہ میرے ممے دبا کر اور میری
کسنگ کر کے خود اتنا ہاٹ ہو چکے تھے کہ کہنے لگے کہ ارے کچھ نہیں ہوتا، اور بس میں
تمہیں تھوڑا سا مزہ دینا چاہتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ آج تم کسی وجہ سے بہت ہاٹ ہو
اور تمہیں بھی مزہ آ رہا ہے۔ آ رہا ہے کہ نہیں، بتاؤ مجھے۔ میں چپ رہی۔ وہ بولے، بس
تھوڑا سا مزہ مجھے بھی لینے دو، تمہیں بھی بہت مزہ آئے گا۔ میں نے تھوڑا بہت بے دلی
کے ساتھ مزاحمت اور منع کیا اور جھوٹ موٹ تھوڑا سا ہچکچاہٹ بھی کی، مگر پھر خود بھی
ہاٹ ہونے کی وجہ سے تھوڑے بہت پر راضی ہو گئی کہ چلو تھوڑے بہت سے کیا ہوتا ہے۔ انہوں
نے مجھے کھڑا کر دیا، اور کھڑا کر کے ایک دفعہ پھر میرے بوبز پریس کرنے لگے اور ساتھ
ساتھ میرے ہونٹوں پر، گال پر، گردن پر کسنگ کرنے لگے۔ ان کا مجھے یوں چومنا چاٹنا بہت
اچھا لگ رہا تھا اور مجھے بہت مزہ بھی آ رہا تھا۔ پھر ان کے ہاتھ میرے پیچھے آئے اور
انہوں نے مجھے اپنے سے بری طرح چمٹا لیا۔ میرے ٹائٹ بوبز ان کے سینے میں خوب رہ رہے
تھے۔ انہوں نے ہاتھ پیچھے سے نیچے لا کر میرے نرم اور گرم گول گول ہپس کو اپنے ہاتھوں
کی انگلیوں سے دبانے لگے۔ مجھ پر ایک بار پھر خماری چھانے لگی اور میں بے خود سی ہو
گئی۔ انہوں نے میرے ہپس خوب دبائے اور سہلائے، جس سے مجھے بہت مزہ آ رہا تھا۔ میری
قمیض میں پیچھے کی طرف زپ لگی ہوئی تھی۔ وہ زپ انہوں نے کھول دی، جس سے میری قمیض ایک
دم لوز ہو گئی۔ پھر آہستہ آہستہ انہوں نے میری قمیض میرے کندھے سے نیچے کر دی، جس کی
وجہ سے میرے ٹائٹ گول بوبز اوپر سے صاف نظر آنے لگے۔ انہوں نے پھر میرے ایکسپوزڈ بوبز
کو اپنے ہونٹوں سے چومنا اور پریس کرنا شروع کر دیا اور پھر پیچھے سے میری شرٹ کو نیچے
کرنے لگے۔ اب مجھے تھوڑا پھر ہوش آیا، اور میں نے کہا کہ سر پلیز میری شرٹ مت اتاریں،
مجھے شرم آ رہی ہے۔ پلیز مجھے ننگا نہ کریں۔ مگر انہوں نے کہا کہ یار تھوڑا سا نا،
بس میں تمہارے خوبصورت بوبز کو ننگا دیکھنا اور پیار کرنا چاہتا ہوں۔ پلیز مجھے مت
روکو۔ قمیض کے ساتھ تمہیں صحیح پیار نہ کر پاؤں گا اور تمہیں فل مزہ نہیں آئے گا۔ تم
مجھے بتاؤ کیا تم فل مزہ لینا چاہتی ہو یا نہیں؟ میں خاموش رہی۔ ایک دفعہ پھر سیکس
کا نشہ مجھ پر سوار ہو چکا تھا اور میں یہ بھول گئی کہ وہ مجھے چھاتیوں سے ننگا کرنے
لگے ہیں۔ اور میں پھر تھوڑی دیر اور تھوڑے سے کے لیے ان کے چکر میں آ کر خاموش ہو گئی۔
پھر انہوں نے میری قمیض میرے جسم سے الگ کر دی۔ میرے ٹائٹ تنے ہوئے گول بوبز ان کے
سامنے دو چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کی طرح ایکسپوز ہو گئے اور وہ میرے ننگے تنے ہوئے ٹائٹ
بوبز پر کسنگ کرنے لگے۔ میں بتا نہیں سکتی کہ مجھے کتنا مزہ آ رہا تھا اور اس وقت میں
سب بھولتی جا رہی تھی۔ صرف یا تو انٹرنیٹ کی کسنگ پکچرز ذہن میں آ رہی تھیں یا مزے
کا نشہ ذہن پر چھا رہا تھا۔ میں اس وقت سر سے لے کر کمر تک بالکل سے ننگی ہو چکی تھی
اور کوئی غیر مرد مجھے پہلی دفعہ اس حالت میں دیکھ رہا تھا، مگر نشے کی وجہ سے مجھے
اس کی کوئی پرواہ نہ تھی۔ اب ان کی کسنگ کی رفتار بڑھ گئی تھی اور وہ کبھی میرے ہونٹوں
پر اور کبھی گردن پر اور کبھی بوبز پر اور کبھی میرے ٹائٹ نپلز کو کسنگ کر رہے تھے۔
وہ میرے نپلز کو اس طرح چوس رہے تھے جیسے کوئی بچہ دودھ پی رہا ہو۔ میں ان کے ہونٹوں
کو اپنے نپلز بھبھورتے دیکھ رہی تھی۔ وہ ساتھ ساتھ ہاتھ پیچھے کر کے میرے ہپس بھی دباتے
جاتے تھے۔ پھر انہوں نے اپنی قمیض بھی اتار دی، اور مجھے اپنے سینے سے چمٹا لیا، اور
پیچھے سے ہاتھ لے جا کر میری شلوار میں ہاتھ ڈال دیا اور اندر سے میرے نرم ہپس کو دبانے
لگے۔ میری شلوار میں لاسٹک تھا، اس لیے ان کا ہاتھ آسانی سے اندر چلا گیا۔ ہاتھ اندر
جانے سے میری شلوار خود بخود تھوڑی نیچے ہو گئی۔ اندر، آپ جانتے ہیں، میں نے پینٹی
نہیں پہنی تھی، اس لیے ان کے ہاتھ میرے ننگے ہپس کو دبانے اور مسلنے لگے۔ ہاتھ اندر
ڈالے ڈالے ہی وہ آگے ہاتھ لائے اور میری چوت پر ہاتھ پھیرنے لگے۔ اوفففففففففففف، میں
بتا نہیں سکتی ان کے ہاتھ کی سرسراہٹ جو میں اپنی چوت کے ہونٹوں پر فیل کر رہی تھی۔
میں تو صرف آنکھیں بند کیے لذت بھری سانسیں لے رہی تھی۔ میں نے ایک دن پہلے ہی ریموونگ
کریم سے اپنی چوت سے بال صاف کیے تھے۔ چوت سے بال صاف کرنے کے بعد میں کئی دنوں تک
اپنی چوت کے ہونٹوں پر لوشن اور کریم استعمال کرتی تھی، جس سے میرے چوت کے ہونٹ نہایت
چکنے اور ملائم رہتے تھے۔ ان کے ہاتھ میری چکنی چوت پر پھر رہے تھے اور مجھے بہت مزہ
آ رہا تھا۔ تھوڑی دیر تک وہ میرے چوت کے ہونٹوں کو اپنی انگلیوں سے رگڑتے رہے اور جب
میری سانسیں تیز ہو گئیں تو انہوں نے جھک کر میری شلوار بھی نیچے کر دی۔ میں کوئی سیکس
ورکر نہیں تھی، اور کسی بڑی عمر کے لڑکے کے ساتھ یہ میرا پہلا تجربہ تھا، مگر اس کے
باوجود میں بتا نہیں سکتی کہ اس وقت مجھ پر کیسی کیفیت تھی۔ میں صرف انجوائے کر رہی
تھی اور ذہن نے سوچنا ہی بند کر دیا تھا کہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح۔ اس لیے میں چاہنے
کے باوجود انہیں روک نہیں پا رہی تھی۔ شاید سیکس میں انسان سب بھلا دیتا ہے، اور میرے
ساتھ بھی یہی کچھ ہو رہا تھا۔ میں انہیں روک نہ سکی اور انہوں نے میری شلوار اتار کر
مجھے بالکل ہی ننگا کر دیا۔ میں ان کے سامنے بالکل ننگی ایک مجسمے کی طرح کھڑی تھی
اور مجھے کوئی شرم بھی نہیں آ رہی تھی کہ ایک غیر مرد مجھے ننگا دیکھ رہا ہے۔ جب انہوں
نے مجھے بالکل ننگا کر دیا تو مجھ سے بولے، یسرا، تم بہت خوبصورت ہو، بالکل ایک اپسرا
کی طرح۔ کیا خوبصورت تنے ہوئے ٹائٹ بوبز ہیں تمہارے اتنی کم عمر میں اور کیا سیکسی
چوت ہے تمہاری، واہ، کتنی چکنی اور ملائم ہے۔ دل چاہتا ہے بس تمہیں اسی طرح دیکھتا
رہوں، اور تم یونہی میرے سامنے کھڑی رہو۔ میں اپنی تعریف سن کر پھولی نہ سمائی۔ پھر
وہ نیچے جھکتے گئے اور میرے پیٹ پر کسنگ شروع کر دی اور ساتھ ساتھ میری چکنی چوت کو
بھی اپنے ہاتھوں سے سہلاتے رہے۔ پھر پیٹ سے ہوتے ہوتے میری چوت پر آ گئے اور میری چھوٹی
سی پھولی ہوئی کنواری چوت کو اپنے منہ میں پورے کا پورا لے لیا اور میری چوت کو سَک
کرنے لگے۔ اپنی زبان سے میری چوت کو چاٹنے لگے اور پھر انہوں نے اپنی زبان میری چوت
کے سوراخ میں اندر ڈال کر میری چوت کی دیواروں سے رگڑنے لگے۔
اوووووووف، میں بتا نہیں سکتی کہ کتنا مزہ آ رہا تھا،
ان کی زبان کو اپنی تنگ چوت میں محسوس کر کے۔ اب بھی جب میں یہ لکھ رہی ہوں تو اس
مزے کا نشہ ذہن پر چھا رہا ہے اور ایسا لگ رہا ہے کہ ان کی زبان میری چوت کے اندر
گھسی ہوئی ہے، اور میں اس وقت بھی اپنی چوت کو اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے سہلا رہی
ہوں۔ وہ کافی دیر تک یہی کرتے رہے اور مجھے سیکس کی لذت نے بالکل ہی پاگل کر دیا۔
میں خود بھی بے ساختہ اپنے بوبز سہلانے لگی اور میرے منہ سے سسکیاں نکلنے لگیں۔
پھر وہ اٹھے اور اپنی زپ کھول کر اپنی پینٹ اتار دی اور پھر انڈرویئر اتار کر مکمل
ننگے ہو گئے اور مجھ سے ایک بار پھر چمٹ گئے۔ اُف، مجھے کتنا مزہ آ رہا تھا ان سے
چمٹتے ہوئے، میں بیان نہیں کر سکتی۔ آہ آہ آہ، اُف اُف اُف، یسسسسسسسسسس، اوہ اوہ
اوہ، ہائییییییییی سرررررررر…
مجھے کچھ ہو رہا ہے آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآہ…
اوہ اوہ اوہ… اوہہہہہہہہہہ… سیییییی…
یییییییییییییسسسسسسسسسسسسسسسسسسسسسسسسسسسسسسسس…
اور ہم دونوں نے ایک دوسرے کو کس کر پکڑ لیا تھا۔ ہمارے
ننگے جسم ایک دوسرے سے چمٹے ہوئے تھے۔ میری تنی ہوئی چھاتیاں ان کے سینے میں رگڑ
رہی تھیں اور ان کا تانا ہوا لنڈ میری چوت کی چممیاں لے رہا تھا۔ اب وہ میری بغیر
بالوں والی چوت کو سہلانے لگے۔ ان کی سخت انگلیوں کے لمس سے میری نرم پھولی ہوئی
چوت کی رگڑ سے مجھے کافی اچھا لگ رہا تھا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ میں نے
کہا، “سر، بس پلیز اور نہ کریں، میں پاگل ہو جاؤں گی۔” “ارے، ابھی میں نے کہاں کچھ
کیا ہے، ابھی تمہیں بہت مزہ دوں گا، تم عمر بھر یاد رکھو گی۔” اور اتنا کہہ کر
انہوں نے ایک انگلی میری چوت کے اندر گھسانا شروع کر دی۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا
جیسے کوئی سخت راڈ میرے اندر گھس رہا ہو۔ مجھے درد ہو رہا تھا، پر آہستہ آہستہ
اچھا لگنے لگا۔ “بس سر، پلیز چھوڑ دو مجھے۔” “ارے یسرا ڈارلنگ، کچھ نہیں ہو گا، بس
جیسا میں کہتا ہوں کرو، اچھا لگے گا۔” اور یہ کہہ کر وہ میرے تنے ہوئے تنگ مموں کو
اپنے منہ میں لے کر چوسنے لگے۔ میری مستی سے تنی ہوئی نپلز کس کے کڑی ہو گئی تھیں۔
ان کا مسلنا مجھے کافی اچھا لگ رہا تھا۔ اور ان کی انگلیاں میری چوت کے ساتھ کھیل
رہی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد سر نے میری چوت کو پھر سے چاٹنا شروع کر دیا۔ انہوں نے
میری چوت کو کسی ٹافی کی طرح چوسنا شروع کر دیا۔ میری چوت سے پانی نکلنے لگا تھا
جسے سر بڑے مزے سے پی رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ سر کا لنڈ کڑک ہو کر کھڑا ہو گیا
تھا۔ ان کا لنڈ اُفففففففففففف کافی صحت مند، لمبا اور موٹا تھا۔ میں پہلی دفعہ
کسی بڑے لڑکے کا ننگا لنڈ اصلی میں دیکھ رہی تھی، جو اس وقت مکمل کھڑا تھا۔ وہ مجھ
سے چمٹ گئے جس کی وجہ سے ان کا گرم تانا ہوا لنڈ میری چوت کو دبانے لگا۔ ان کے لنڈ
کا سر میری چوت کو چوم رہا تھا۔
میرا مزہ بڑھتا جا رہا تھا۔ پھر وہ اسی پوزیشن میں مجھے
دباتے دباتے قالین پر اس طرح لیٹ گئے کہ میں ان کے اوپر آ گئی۔ ایک طرف ان کا لنڈ
میری چوت پر رگڑ رہا تھا اور دبا رہا تھا اور ان کے ہاتھ میرے ہپس کو دبا رہے تھے
اور ان کے ہونٹ میرے ہونٹوں میں تھے اور بوسہ لے رہے تھے۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے
مجھے سائیڈ کروٹ سے لٹا دیا اور میرے ہاتھوں کو پکڑ کر اپنے لنڈ پر رکھ دیا اور
خود اپنے ہاتھ میرے ہاتھوں پر رکھ کر آگے پیچھے کرانے لگے۔ پھر وہ اس طرح لیٹے کہ
میرا سر ان کی رانوں کے بیچ اور ان کا سر میری رانوں کے بیچ آ گیا اور مجھ سے کہنے
لگے کہ میں ان کے لنڈ کو اپنے منہ میں لے کر چوسوں۔ مجھے اس وقت اپنا بچپن کا
ڈاکٹر ڈاکٹر گیم یاد آ گیا۔ میں اس وقت بھی صرف بوسہ کرتی تھی اس لیے میں نے صرف
بوسہ شروع کیا جب کہ وہ میری چوت کو ایک بار پھر اپنی زبان اندر کر کے رگڑ رہے
تھے۔ دراصل وہ مجھ سے ٹنگ فکنگ کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں ان کا لنڈ منہ کے
اندر لے کر چوسوں، مگر مجھ سے منہ میں نہ لیا گیا۔ دراصل مجھے لنڈ منہ میں لیتے
گھن سی آ رہی تھی، مگر وہ میری چوت کو بڑے مزے سے چاٹ رہے تھے اور مجھے مزہ بھی
بہت آ رہا تھا۔ اس پر انہوں نے اپنی زبان میری چوت کے سوراخ سے باہر نکال لی اور
کہا کہ تم اکیلے اکیلے ہی مجھ سے مزہ لے رہی ہو، اور مجھے مزہ نہیں دے رہی ہو۔ اب
جب تک تم بھی میرا لنڈ اپنے منہ میں نہیں لو گی، میں بھی تمہیں اپنی زبان کا مزہ
نہیں دوں گا۔ ان کی زبان کا لمس چوت پر اتنی لذت دے رہا تھا کہ میں مجبور ہو گئی
اور وہی مزہ دوبارہ لینے کے لیے ان کا لنڈ اپنے منہ میں لے لیا اور اسے آہستہ
آہستہ چوسنے لگی، اور وہ پھر سے میری چوت کو زبان سے رگڑنے لگے۔
اوفففففففففففف اوووووووووووئیییییییییییییییی مجھے ایسا
لگ رہا تھا کہ میں ساتویں آسمان پر اڑ رہی ہوں اور اسی جوش میں میں نے ان کے لنڈ کو
زور زور سے چوسنا شروع کر دیا جس سے ان کی بھی سسکیاں نکلنے لگیں آآآآآآآآآآہ اوووووووووہ
آآآآآآآآآآہ۔ کمرے میں ہم دونوں کی سیکس سے بھرپور سسکیاں گونج رہی تھیں۔ ہم لوگ کچھ
دیر تک اسی پوزیشن میں ایک دوسرے کو چومتے چاٹتے رہے۔ پھر وہ اٹھے اور مجھے سیدھا لٹا
کر میرے اوپر لیٹ گئے اور اپنا لنڈ میری چوت پر رکھ دیا جو میرے تھوک کی وجہ سے گیلی
اور چکنی ہو رہی تھی۔ پھر انہوں نے اپنے لنڈ کو میری چوت کے ہونٹوں پر رکھ کر دبایا۔
مجھے اتنا تو اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ بہت غلط ہے اور اب وہ میرے ساتھ کیا کرنے جا
رہے ہیں، اور یہ بھی جانتی تھی کہ یہ سب غیر شادی شدہ اور کنواری لڑکیوں کے لیے کتنا
غلط ہے۔ مگر اس سب کے باوجود سیکس کے مزے کا نشہ اتنا مضبوط اور منہ زور ہو چکا تھا
اس وقت کہ میں سب بھول گئی۔ صرف یہ سوچ کر ہی رہ گئی اور بے قابو ہو کر سب کچھ کرانے
پر مجبور ہوتی گئی۔ وہ اپنا لنڈ میری چوت میں آہستہ آہستہ اندر کرتے جاتے تھے اور ہاتھوں
سے میرے بوبز کو دبا رہے تھے اور ساتھ ساتھ میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر بوسہ بھی
لے رہے تھے۔ آہستہ آہستہ ان کا لنڈ میری ہائمن تک پہنچ گیا۔ ان کے لنڈ کا سر میری ہائمن
کو چھو رہا تھا۔ وہ بولے، یسرا، تھوڑا درد ہوگا جب تمہاری سیل ٹوٹے گی اور جھلی پھٹے
گی، لیکن یہ درد کچھ دیر رہے گا اور پھر تمہیں مزہ ہی مزہ آئے گا۔ اور پھر انہوں نے
زور کا دھکا دیا۔ میرے منہ سے ایک آہ سی نکلی، میں چیخ پڑی
ہائے امی…… میں مررررررررر گئی……
آہ آہ آہ آہ، میری چیخ نکل گئی، میری سیل ٹوٹ گئی تھی اور مجھے
بہت تکلیف ہو رہی تھی۔ ہائے سر، میں مر گئی، پلیز اسے میرے اندر سے نکالیں اوووووووووہ
آآآآآآآآآآہ میری چووووووووووووووووٹ پھٹ گئی ہے آآآآآآآآئی اوووووووووف آآآآآآآآآآآ
لیکن ان کا ٹول اب میری پسی میں اندر تک چلا گیا تھا۔ ان کے ٹٹے میرے پسی کے ہونٹوں
سے ٹکرا رہے تھے اور ایک عجیب سی آواز نکل رہی تھی۔ مجھے بہت درد ہو رہا تھا مگر میں
نے برداشت کر لیا۔ وہ تھوڑا سا رُک گئے اور دوبارہ سے میرے تنے ہوئے تنگ مموں کو چوسنے
لگے۔ وہ بولے، یسرا، تم بہت مست ہو اور تمہاری چوت تو بہت ہی تنگ ہے۔ میرا لنڈ تمہاری
چوت میں پھنسا ہوا ہے۔ تمہاری چوت میرے لنڈ کو جکڑے ہوئے ہے۔ آج تمہیں چودنے میں مزہ
آ گیا۔ پھر انہوں نے ایک اور زوردار جھٹکا مارا اور ان کا لنڈ میری کنواری چوت کی تمام
رکاوٹوں کو توڑتا ہوا اندر تک گھس گیا۔ پھر انہوں نے اپنا لنڈ اندر باہر کرنا شروع
کر دیا۔ اب وہ مجھے بڑے مزے سے **** کر رہے تھے اور میں بھی ان کے نیچے دبی اپنی چوت
چدوا رہی تھی۔ درد کی ایک لہر سی میرے بدن میں دوڑ رہی تھی، پر نہ جانے کیوں اب کچھ
مزہ بھی آ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد درد کا احساس بھی ختم ہو گیا اور پھر مجھے بہت مزہ
آنے لگا۔ پھر سر نے پوری مستی کے ساتھ میری چدائی شروع کر دی۔ نہ جانے کیوں اب میں
بھی اپنی ہپ اٹھا کر ان کا ساتھ دے رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد مجھے ایسا لگا جیسے میرے
اندر سے کوئی چیز نکلی ہو اور ساتھ ہی مجھے بہت مزہ بھی آیا۔ اووووووووووووووف، اس
لذت کا مزہ الفاظ میں تحریر کرنا مشکل ہے۔ میرا بدن کچھ ریلیکس بھی ہو گیا، پر وہ ابھی
دھکے لگا ہی رہے تھے۔ انہوں نے میری ٹانگیں اٹھا کر اپنے کندھوں پر رکھ لیں اور مجھے
اسی طرح چودنا شروع کر دیا۔ اب میں دیکھ رہی تھی کہ کس طرح ان کا لنڈ میری چوت میں
اندر جاتا ہے اور پھر کس طرح باہر آتا ہے۔ میں یہ سوچ رہی تھی کہ جب میں اپنی انگلی
پسی میں ڈالتی تھی تو وہ مشکل سے اندر جاتی تھی اس چھوٹے سے سوراخ میں، اور اب یہ تین
انچ موٹا لنڈ کس طرح آرام اور مزے سے اسی سوراخ میں اندر باہر کی سیر کر رہا ہے۔ ہم
دونوں کی سسکیاں کمرے میں گونج رہی تھیں، اور میں آآآآ اووووووو اییییییییی وغیرہ کیے
جا رہی تھی۔ میں پھر ایک دفعہ مزے میں ڈوب گئی اور پھر مجھے ایسا لگا کہ کوئی چیز میرے
اندر سے نکلی ہو۔ میں نے بے ساختہ ان کو دونوں ہاتھوں سے دبوچ لیا اور پھر میرا جسم
اکڑ گیا اور میں چوووووووووٹ گئیییییی اوووووووووف۔ وہ مجھے کوئی آدھے گھنٹے تک اسی
طرح چودتے رہے اور پھر ایسا لگا جیسے ان کے دھکوں میں تیزی آ گئی ہو۔ تھوڑی دیر بعد
ہی ان کی رفتار بھی اچانک بڑھ گئی اور پھر انہوں نے اپنا سارا پانی میری چوت کے اندر
چھوڑ دیا۔ انہوں نے پھر اپنا لنڈ میری چوت سے نکالا اور کوئی گرم سی سفید چپچپ چیز
میرے سینے اور پیٹ پر انڈیل دی۔
وہ مجھ پر لیٹ گئے اور مجھے زور سے اپنے سینے سے چمٹا لیا۔ ان
کی باقی منی میرے پیٹ اور پسی پر بہنے لگی۔ تھوڑی دیر تک ہم لوگ یونہی لیٹے رہے۔ تھوڑی
دیر بعد پھر ان کے لنڈ میں سختی آ گئی اور وہ پھر مجھے چودنے لگے، اور ایک دفعہ پھر
میری جم کر چدائی کی۔ پھر وہ اٹھے اور میرے دوپٹے کو اٹھا کر اس سے اپنا بدن اور میرا
بدن صاف کیا۔ میری پسی سے کافی سارا خون نکلا ہوا تھا جو ان کے اب مرجھائے ہوئے لنڈ
پر بھی لگا ہوا تھا۔ انہوں نے سب خون اور منی کو صاف کیا۔
اپنے کپڑے پہنے اور میں نے اپنے کپڑے پہنے۔ قالین پر بھی تھوڑی
سی منی اور خون لگا ہوا تھا، وہ بھی میں نے صاف کیا۔ اور پھر انہوں نے مجھ سے پوچھا،
یسرا، مزہ آیا؟ میں نے شرما کر کہا، ہاں سر، اتنی عرصے سے اپنی انگلی سے کام لے رہی
تھی، آج سہی معنوں میں لنڈ کا مزہ چکھا ہے میری چوت نے۔ وہ مسکرائے اور بولے، یسرا،
میں پہلے دن سے ہی جانتا تھا کہ تم سیکس کی بھوکی ہو، مگر میں انتظار میں تھا کہ رائٹ
ٹائم پر اپنا کام کروں۔ آج مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ تم سیکچولی بہت ہاٹ ہوئی ہو،
جس کی وجہ سے تم نے پڑھنے سے بھی انکار کر دیا۔ اس کی کیا وجہ ہے، یہ تم ہی بہتر جانتی
ہو۔ میں نے سر جھکا کر کہا، سر، یہ ٹھیک ہے، آج میں بہت ہی ہاٹ تھی، لیکن تمہاری چدائی
کرنے سے مجھے بہت مزہ ملا۔ میں حیرت سے آنکھیں پھاڑے ان کی باتیں سن رہی تھی اور سوچ
رہی تھی کہ جب جوانی کا دور ہو اور نیٹ پر سیکسی سائٹس موجود ہوں، اسٹوریز ہوں، دوستوں
کے ساتھ سیکس پر ڈسکشن ہو، اور والدین بھی لاپرواہ ہوں کہ ان کے بچے کیا کچھ کرتے پھر
رہے ہیں، تو پھر مجھ جیسی کچے ذہن اور سیکس کی بھوکی لڑکیوں کو اپنا آپ کنٹرول کرنا
مشکل ہو جاتا ہے۔ اور کوئی بھی سیکس کا کھلاڑی اپنی ہوشیاری اور چالاکی سے ہم جیسی
کچی کلیوں کا رس پی سکتا ہے۔ ان کا نتیجہ یہی نکلتا ہے۔
اس دن کے بعد سے مجھے جب بھی موقع ملا، میں نے سر سے خوب مزے
لیے اور خوب چدوائی کی۔ انہوں نے مجھے کوئی تین ماہ اور پڑھایا، لیکن ان تین ماہ میں
انہوں نے مجھے ہر طرح سے چودا۔ میری سہیلی کومل کی سیل بھی انہوں نے ہی توڑی اور وہ
بھی میرے سامنے۔ کئی دفعہ انہوں نے ہم دونوں کو ایک ساتھ چودا۔ میرے مموں کو دبا دبا
کر بہت بڑے کر دیے کہ ایک دن میری اسکول کی پی ٹی ٹیچر نے مجھ سے پوچھ ہی لیا کہ سچ
سچ بتاؤ یسرا، تمہارے یہ بریسٹ اتنے بڑے کیوں ہیں؟ اب میں ان کو کیا بتاتی؟۔(ختم
شد)