ہیلو سب کو، میرا نام انیتا ہے۔ میں پنجاب کی رہنے والی ہوں۔ میں 23 سال کی ہو چکی ہوں۔ میری شادی ہو چکی ہے۔ میرا شوہر ایک کاروباری آدمی ہے اور اسی وجہ سے وہ کام کی وجہ سے کئی دنوں تک گھر سے باہر رہتا ہے۔ میری جنسی ضروریات بہت زیادہ ہوتی ہیں لیکن کوئی نہیں ہوتا ان کو پورا کرنے والا۔ ایسا نہیں ہے کہ میرے شوہر میں اتنی صلاحیت نہیں۔ وہ ایک عام انسان کی طرح چود سکتے ہیں۔ لیکن میری زندگی میں ایک ایسی واقعہ پیش آیا تھا جس کے بعد کوئی بھی لڑکی شرم کے مارے مر جائے گی یا تو ایک رنڈی بن جائے گی۔ یہ بات کچھ سال پہلے کی ہے جب میں دلی میں رہتی تھی اپنے ماموں مامی کے ساتھ ان کے گھر پر۔ گھر گراؤنڈ فلور پر تھا اور کافی چھوٹا تھا جس میں دو کمرے تھے۔ اس وقت میں 17 سال کی تھی اور میرے بورڈ کے امتحان قریب آ رہے تھے۔ میں آپ کو اپنے بارے میں بتا دوں۔ میرا رنگ گورا ہے اور میری قد 5 فٹ 6 انچ ہے۔ میرا فگر ایک عام ہندوستانی لڑکی جیسا ہی تھا۔ اور میں کافی اچھی لگتی تھی۔ میں کافی شریف لڑکی تھی اور مجھے اپنے جسم کو ڈھانپنا آتا تھا۔ ایک شام میرے دوستوں کا مجھے کال آیا۔ ان لوگوں نے فیصلہ کیا کہ ہم رات کو کلب جائیں گے پارٹی کے لئے۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ میں کافی شریف تھی اسی لئے میں نے جانے سے انکار کر دیا۔ میں نے ان کو کہا کہ میرے ماموجی مجھے جانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اور انہوں نے مجھے کہا کہ تو اپنی بالکونی سے چھلانگ لگا کر آ جانا اور ہم تجھے پکڑ لیں گے۔ ان کے کافی زور دینے کی وجہ سے میں نے ان کو ہاں کہہ دیا۔ میں نے سوچا اب اسکول ختم ہونے کے بعد ہم کہاں مل پائیں گے اسی لئے میں نے ہاں کہہ دی۔ اور یہی میری سب سے بڑی غلطی تھی۔ جب رات کے 11 بجے تھے اور میرے ماموں مامی سو گئے تھے تب میں بالکونی سے نکل گئی۔ میں نے پارٹی کے لئے جینز اور ایک ٹی شرٹ پہنی تھی اور اس کے اندر برا اور پینٹی۔
سب سے پہلے ہم اپنی دوست کے گھر گئے جو کہ کلب کے پاس ہی رہتی تھی۔ ہم تین لڑکیوں کے علاوہ اور دو لڑکے تھے ساتھ میں۔ میری دوستوں نے مجھے کہا کہ غیر رسمی لباس میں کلب میں داخلہ نہیں ہوگا اس لئے انہوں نے کچھ اور پہننے کو کہا۔ میں نے اپنی دوست کی ایک ڈریس پہن لی جو کہ سرخ رنگ کی تھی اور گھٹنوں تک تھی۔ وہ ڈریس کافی تنگ تھی اور اسی وجہ سے میرے چھاتی اور کولہے کافی شکل میں دکھ رہے تھے۔ سب تیار ہو کر کلب کی طرف نکل گئے۔ میں اپنے دوستوں کے ساتھ کافی اکیلی تھی کیونکہ وہ جوڑے تھے۔ راستے میں کافی چھیڑ چھاڑ اور چوما چاٹی ہو رہی تھی ان سب کے بیچ اور میں یہ دیکھ کر گھبرا سی رہی تھی۔
پارٹی میں جب میں پہنچی تو ایک دم نیا سا بہت اچھا سا لگا۔ پارٹی میں سب مست ہو کر جھوم رہے تھے۔ کافی لڑکے لڑکیاں ساتھ میں مستی بھی کر رہے تھے جیسے کہ بوسہ دینا اور چھونا۔ میرے دوستوں نے مجھے ایک گلاس بیئر پلا دیا تھا۔ میں آدھی نشے میں اور آدھی نارمل تھی۔ بیئر پینے کے بعد میں نے بھی کافی ڈانس کیا لڑکوں کے ساتھ۔ سب نے میری چھاتیوں اور پھدی کو چھونے کی پوری کوشش کی۔ ایک نے تو میری ڈریس کے اندر ہاتھ ڈال کر بھی میری پھدی سے کھیلا۔ مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی یہ سب اچھا لگ رہا تھا۔ ایک عجیب سا نشہ چڑھ گیا تھا میرے دماغ میں۔ یہ سب کرتے کرتے نہ جانے کب 3 بج گئے تھے۔ مجھے ڈر تھا کہ اگر میرے گھر میں کوئی جاگ گیا تو آگے سے میرا گھر سے نکلنا مشکل ہو جائے گا۔ اسی لئے میں اپنے دوستوں کے پاس گئی جو کہ پوری طرح سے ٹل ہو کر پڑے تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ وہ اب صبح ہی جائیں گے اور مجھے بھی روکنے کی ضد کی۔ لیکن ماموں مامی کے ڈر سے میں پارٹی سے نکل گئی اور گھر جانے کے لئے کوئی پبلک ٹرانسپورٹ ڈھونڈنے لگی۔ میں نے بس نہیں لینی چاہی کیونکہ بس اتنی رات میں خالی ہی ہوتی ہے اور اس میں سارے مرد ہی ہوتے ہیں۔ سڑک پر کئی آٹو نظر آئے لیکن سب بہت زیادہ کرایہ مانگ رہے تھے لیکن میں نے اپنے کچھ پیسے بچانے کے چکر میں ان کو منع کر دیا۔ میں نے کلب آتے وقت ایک آٹو اسٹینڈ دیکھا تھا اور میں وہیں پر چلی گئی۔ جب ساڑھے تین بج گیا تب مجھے لگا اب کافی دیر ہو گئی ہے۔ آٹو اسٹینڈ پر صرف ایک آٹو تھا اور اس نے بہت کم کرایہ لگایا جانے کا۔ لیکن ایک ہی پریشانی تھی کہ اس آٹو والے کے ساتھ اس کا ایک دوست تھا۔ اس نے کہا مجھے کہ وہ پیچھے بیٹھے گا کیونکہ آگے کی سیٹ بہت چھوٹی ہے۔ کم پیسے خرچ ہونے کی وجہ سے میں اس آٹو میں بیٹھ گئی۔
اتنی رات میں آٹو میں دو مردوں کے ساتھ جانا کافی غیر آرام دہ تھا۔ وہ دو مرد کافی گھناؤنے لگتے تھے۔ دونوں ہی موٹے اور گنجے تھے اور عمر میں کافی بڑے بھی تھے۔
میری ٹانگیں ان کو بہت اچھی طرح سے دکھ رہی تھیں کیونکہ میرا ڈریس گھٹنوں تک تھا۔ میرے سائیڈ میں جو آدمی بیٹھا ہوا تھا وہ ترچھی نظروں سے میرے بدن کو دیکھے ہی جا رہا تھا۔ میں پورے راستے دعا کر کے چل رہی تھی کہ کچھ غلط نہ ہو۔ یہی سوچتے سوچتے اچانک میرے منہ پر ایک ہاتھ آیا اور اس کے بعد میں بے ہوش ہو گئی۔ اس کے بعد پتہ نہیں مجھے یہ دو آدمی کہاں لے کر چلے گئے۔
جب میری آنکھ کھلی تو میں اسی آٹو میں لیٹی ہوئی تھی۔ میرے دونوں ہاتھ آٹو کے دو مخالف ہینڈلز سے بندھے ہوئے تھے۔ میرے بدن پر ابھی بھی وہی ڈریس تھی اور میں خوش تھی کیونکہ انہوں نے مجھ سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی۔ دور دور تک کوئی نظر نہیں آ رہا تھا اور آٹو سڑک سے بھی دور کھڑا ہوا تھا۔ یہاں صرف درخت پودے ہی نظر آ رہے تھے۔ میں نے کئی بار کوشش کی کہ میرے ہاتھ کھل جائیں مگر میری محنت سے مجھے کچھ نہیں ملا۔ مجھے کافی سردی بھی لگ رہی تھی اس ڈریس میں۔ کچھ دیر بعد مجھے وہ دو آدمی آگے نظر آئے آٹو کی طرف بڑھتے ہوئے۔ مجھے لگ رہا تھا کہ دونوں نے شراب پی تھی کیونکہ کافی جھوم کر چل رہے تھے۔ ایک آدمی میری سیدھی طرف کھڑا ہو گیا اور دوسرا میرے الٹے ہاتھ کی طرف کھڑا ہو گیا۔ میں نے دونوں سے کہا کہ مجھے چھوڑ دو، میں نے آپ لوگوں کا کیا بگاڑا ہے میں بہت چھوٹی سی شریف سی بچی ہوں۔ یہ سن کر ان میں سے کسی نے کچھ نہیں بولا۔ دونوں مجھے اوپر سے نیچے گھور رہے تھے جیسے کہ مجھے کھا جائیں گے۔ میں نے پھر کہا پلیز مجھے چھوڑ دو آپ کو میں 1000 روپے دے دوں گی جتنے میرے پاس ہیں۔ پھر ان میں سے ایک بندے نے کہا کہ ہم تجھے 2000 روپے دیں گے تجھے آج رات کی مستی کے لئے، آ جا میری رانی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو ہنستے ہوئے آنکھ ماری اور پھر اپنے گندے ہاتھ میری چھاتیوں پر رکھ دیے۔ دونوں میری چھاتیوں پر ہاتھ پھیرنے لگے ان سے کھیلنے لگے۔ ایک آدمی نے دوسرے کو کہا بیشن یار کتنی پٹاخہ لڑکی ہے یار یہ۔ دیکھ کیسے غبارے کی طرح اس کی چھاتی جھول رہی ہیں۔ دوسرے نے یہ سن کر کہا میرا تو من کر رہا ہے اس پر سر رکھ کر میں سو جاؤں، تکیوں سے بھی ملائم ہیں یہ تو۔ وہ دونوں کافی دیر تک میری چھاتیوں کو نوچتے رہے اور میں ان سے بھیک مانگتی رہی کہ مجھے جانے دو۔ پھر ان میں سے بیشن نے اپنا ہاتھ میرے اوپر سے ہٹا دیا اور آگے جا کر اپنے آٹو میں کچھ ڈھونڈنے گیا اور اسی بیچ دوسرا والا بندہ اپنے دونوں ہاتھوں سے میری چھاتیوں کا مزا لوٹتا رہا۔ میری چیخیں کافی تیز تھیں مگر اس نے مجھے دھمکی دی کہ وہ مجھے جان سے مار دے گا اسی لئے میں چپ ہو گئی۔ بیشن جب میری طرف بڑھا تو میں نے اس کے ہاتھ میں ایک قینچی دیکھی اور میں سمجھ گئی یہ میری ڈریس پھاڑ دیں گے۔ یہ سوچ کر میں اور بھی زیادہ ڈر گئی تھی۔ میرے کچھ بولنے سے پہلے ہی بیشن نے میرے الٹے ہاتھ کا پٹا کاٹ دیا اور اس نے قینچی اپنے دوست کو دے دی۔ اس نے میرے سیدھے ہاتھ کا پٹا بھی کاٹ دیا۔ دونوں نے اپنی طرف دیکھ کر میری ڈریس نیچے کی طرف کھینچ دی اور میری گلابی برا کو دیکھا۔ غصے میں آ کر دونوں نے میری برا کو کھینچ دیا جس کی وجہ سے اس کا پٹا ٹوٹ گیا اور ان دونوں نے پہلی بار میری ننگی چھاتیوں کو دیکھا۔ انہیں دیکھتے ہی بیشن نے اپنی گندی زبان سے ان کو چاٹنا شروع کر دیا اور اس کا دوست میرے ہونٹوں کو چوم رہا تھا۔ میں نے بہت کوشش کی کہ میرے ہاتھ کھل جائیں لیکن مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی۔ بیشن نے کہا سنتوش یار یہ تو بجلی کی طرح مچل رہی ہے نہ جانے اس کی پھدی کتنا پانی چھوڑ رہا ہوگا۔ سنتوش مجھے چومتے ہوئے اس کو کہا یار میری گانڈ تو کھمبے کی طرح کھڑی ہو گئی میں تو اور برداشت نہیں کر سکتا۔ سنتوش نے اپنی پینٹ اور اپنا گندا سا انڈرویئر اتار کر میرے منہ پر مارا۔ اس کے موٹے پیٹ پر نہ جانے کتنے بال ہوں گے اور وہ میرے ساتھ آ کر بیٹھ گیا۔ اس نے بیشن کو آنکھ ماری اور اس نے اچانک سے میری دونوں ٹانگیں پکڑ لیں اور انہیں آگے کی طرف کھینچ لیا۔ اب میں ایسی پوزیشن میں تھی جیسے ہوا میں لیٹی ہوئی ہوں۔ میرے نیچے سنتوش آ گیا اور اس نے میری کمر کو اپنے ہاتھوں سے نیچے کی طرف کھینچ لیا۔ پہلی بار کسی نے اپنا لنڈ میری پھدی میں ڈالا۔ اس کا لنڈ اتنا موٹا تھا کہ میری آنکھوں سے آنسو نکل گئے۔ میری کمر کو پکڑتے ہوئے وہ اوپر نیچے کرتا رہا۔ کبھی ایک دم دھیرے تو کبھی بالکل تیز۔ ساتھ ہی ساتھ بیشن نے بھی اپنے کپڑے اتار دیے اور اپنا لنڈ میرے منہ میں گھسا دیا۔ بیشن مجھے دیکھ کر بولا چوس میرے لنڈ کو۔ میں جانتا ہوں کہ تو بہت بڑی رنڈ ہے نہ جانے کتنے عاشق ہوں گے تیرے۔ سالی کبھی لالی پاپ نہیں کھائی کیا بچپن میں۔ ڈھنگ سے چوس نہیں تو کاٹ کر پھینک دیں گے۔ یہ سن کر میں ڈر سی گئی اور جیسا وہ کہہ رہے تھے ویسا ہی کرنے لگی۔ سنتوش کا لنڈ میرے اندر اور بڑا ہوتا جا رہا تھا وہ مجھے 10 منٹ سے چودے ہی جا رہا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا آج میں تیرے اندر اپنا بچہ ڈالتا ہوں۔ یہ نشانی تجھے ہمیشہ میری یاد دلائے گی سالی۔ اور اس نے اپنا سارا پانی میرے اندر چھوڑ دیا۔ میری پھدی سے پانی کے ساتھ ساتھ خون بھی بہہ رہا تھا۔ میں کافی تھک گئی تھی مگر بیشن کو اپنی پیاس بجھانی تھی اور اس نے میرے ہاتھ کھول دیے۔ میں بھاگنے کی کوشش کی مگر اس کے ایک تھپڑ نے مجھے نیچے گرا دیا۔ بیشن اور سنتوش نے مجھے آٹو کے نیچے کھینچا اور مجھے پیٹ کے بل لٹا دیا۔ دونوں نے میری پھدی پر کئی تھپڑ مارے۔ اور بیشن نے اپنا لنڈ میری گانڈ میں ڈال دیا۔ مجھے اتنا درد کبھی بھی زندگی میں نہیں ہوا تھا۔ وہ مجھے بھوکے شیر کی طرح کھا جانا چاہتا تھا۔ وہ اپنی رفتار بڑھائے ہی جا رہا تھا۔ مجھ میں اب چلانے کی بھی طاقت نہیں بچی تھی۔ بیشن نے سنتوش سے کہا ابے چوتیے اپنا لنڈ ڈال اس کے منہ میں کہیں چلا نہ دے۔ بیشن نے بھی اپنے لنڈ کا پانی میری گانڈ میں ڈال دیا۔ 5 منٹ تک دونوں زمین پر میرے پاس لیٹ گئے تھے۔ جیسے ہی صبح کی کرن دکھائی دی دونوں اٹھے اور میرے پر پیشاب کرنے لگے۔ میرا پورا جسم ان کے پیشاب سے گندا ہو گیا تھا۔ دونوں نے میری ڈریس میرے سائیڈ میں پھینک دی اور ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ اس سے بہتر راند کہیں نہیں ملے گی۔ بھگوان نے اسے ہمارے لئے ہی بنایا ہے۔ اور یہی کہہ کر چلے گئے۔
جب صبح ہو گئی تب بھی وہاں کوئی مرد یا عورت دکھائی نہیں دیا۔ مجھے یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ وہ دونوں کمینوں نے مجھے کہاں چھوڑ دیا ہے۔ میں ہمت کر کے کھڑی ہوئی اور اپنی برا اور پینٹیز ڈھونڈنے لگی۔ میری برا مجھے نہیں ملی مگر میری کچھی جو کہ پوری طرح سے گندی ہو گئی تھی اور پیچھے سے اس میں ایک سوراخ ہو گیا تھا۔ میں نے جلدی سے اسے پہن لیا۔ پھر میں نے ڈریس کو پہننے کی کوشش کی مگر دونوں پٹوں کے کٹ جانے کی وجہ سے میں اسے پہن نہ پائی۔ میں نے دونوں پٹوں پر گرہیں باندھ دیں اور اسے پہن لیا۔ گرہوں کی وجہ سے میری ڈریس کی اونچائی کافی بڑھ گئی تھی۔ اگر میں ذرا سا بھی جھکتی تو کوئی بھی میری کچھی آرام سے دیکھ لیتا۔ میں نے سوچا کہ آگے چلتی ہوں تھوڑا سا شاید سڑک آ جائے یا کوئی گاؤں آ جائے جہاں سے میں واپس جا سکوں۔ میں آگے چلی تقریباً ایک گھنٹے بعد مجھے ایک چھوٹا سا گھر دکھا۔ اس علاقے میں وہی ایک گھر تھا۔ میں نے رات سے کچھ کھایا بھی نہیں تھا اور پانی تک نہیں پیا تھا۔ میں اس گھر کے پاس چلی گئی۔ وہ گھر کافی پرانا سا ٹوٹا ہوا سا لگ رہا تھا۔ میں نے کافی دروازہ کھٹکھٹایا مگر کسی نے دروازہ نہیں کھولا۔ ناامید ہو کر میں وہاں سے جانے لگی۔ جیسے ہی میں نے چلنا شروع کیا تبھی وہ دروازہ کھل گیا۔ میں نے دیکھا ایک بوڑھا سا آدمی کھڑا ہوا ہے۔ میں نے اسے نمستے کہا اور اس سے بولا کہ میرے پیچھے کچھ گنڈے پڑ گئے تھے میں کسی طرح سے اپنی جان بچا کر آئی ہوں۔ مجھے یہ بھی نہیں پتہ کہ یہ جگہ کون سی ہے۔ آپ پلیز مجھے کچھ کھانے پینے کے لئے دے دیجیے، آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔ ان بابا نے مجھ سے میرا نام پوچھا۔ میں نے نیتھی بتا دیا اور میں نے ان سے ان کا نام پوچھا۔ انہوں نے مجھے اندر بلا لیا اور اپنا نام سلیمان بتایا۔ میں گھر میں جب گئی تو وہاں ایک بستر دکھا جس پر گندی سی چادر بچھی ہوئی تھی، ایک پنکھا اور اسی کمرے کے کونے میں برتن اور چولہا رکھا ہوا تھا۔ سلیمان بابا نے مجھے کہا بیٹی تم ابھی جے پور ہائی وے کے پاس ہی ہو۔ تم کہاں کی رہنے والی ہو؟ میں نے کہا جی میں دلی کی رہنے والی ہوں۔ میں نے بستر پر بیٹھنا ٹھیک نہ سمجھا کیونکہ اگر میں بیٹھی تو میری ڈریس اور اوپر ہو جاتی اور میری کچھی بالکل اچھے سے بابا کو نظر آ جاتی۔ بابا نے مجھے کہا کہ بیٹی جاؤ تم اپنے اوپر تھوڑا پانی ڈالو کیونکہ تمہاری حالت کافی خراب لگ رہی ہے۔ میں نے پانی گرم ہونے کے لئے رکھ دیا ہے۔ میں نے ہنستے ہوئے انکار کر دیا۔ مگر انہوں نے کہا کہ بیٹی کوئی غلط خیال مت رکھو اپنے دماغ میں تم میری بیٹی جیسی ہی ہو۔ نہانے کا سن کر مجھے وہ یاد آیا کہ جب بیشن اور سنتوش نے مجھے کتیا کی طرح چودا تھا اور میرے پر پیشاب کر دیا تھا۔ یہ سوچ کر میرا سر چکرا گیا اور میں بستر پر بیٹھ گئی۔ میرے بیٹھنے کی آواز سے سلیمان بابا نے ایک دم اپنا سر میری طرف کیا اور انہیں میری گلابی کچھی دکھ گئی۔ منہ پھیرتے ہوئے میں کھڑی ہو گئی اور باتھ روم میں جانے لگی۔ بابا نے مجھے ہاتھ میں ایک تولیہ پکڑا دیا اور میں نہانے کے لئے چلی گئی۔ باتھ روم میں ایک کھڑکی تھی جو کہ کاغذ سے ڈھکی ہوئی تھی۔ روشنی بھی کافی ٹھیک ٹھاک تھی۔ وہاں ایک گندی سی بالٹی اور مگ رکھا ہوا تھا۔ میں نے اپنے کپڑے اتار کر کونے میں رکھ دیے تاکہ وہ گیلی نہ ہو جائیں۔ میں نے دھیرے دھیرے اپنے اوپر پانی ڈالنا شروع کیا۔
میری آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے کل رات کے بھیانک حادثے کے بارے میں سوچ کر۔ میں نے سوچا جو ہو گیا وہ ہو گیا اب کسی طرح گھر پہنچنا ہے۔ ہلکا سا گرم پانی میرے بدن کو گرم کر رہا تھا۔ اسی بیچ میں بابا اس ٹوٹے ہوئے دروازے سے مجھے نہاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ بابا اپنے لنڈ سے کھیلتے ہوئے میرے گیلی بدن کو دیکھے ہی جا رہا تھا۔ مجھے نہاتے وقت تیز تیز سانسوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ جیسے ہی میں نے نہانا بند کر دیا تو سانسیں آنا بھی بند ہو گئیں۔ میں اپنے گیلی بدن کو اس تولیے سے صاف کرنے لگی۔ میرے دماغ میں ایک گندا خیال آیا۔ میں نے سوچا کیوں نہ میں اس بابا کو بہکاؤں۔ دیکھنے میں تو یہ بابا شریف لگتا ہے اور مجھے کچھ نہیں کر سکتا اور میں یہاں سے بھاگ جاؤں گی اگر ایسی کوئی بات ہوئی تو۔ یہی سوچ کر میں نے باتھ روم کا دروازہ کھولا۔ سلیمان بابا چولہے پر چائے بنا رہے تھے۔ جیسے ہی میں نے دروازہ کھولا انہوں نے اپنا چہرہ میری طرف موڑا اور دیکھ کر تھوڑا سا ڈر گئے۔ میں اس وقت صرف تولیہ پہن کر لپیٹ رکھا تھا اور اس کے نیچے اپنی گلابی رنگ کی کچھی۔ تولیے کا کپڑا کافی غریبوں والا تھا مطلب پتلا سا تھا اور اسی وجہ سے وہ بھی کافی گیلی ہو گئی تھی۔ سلیمان بابا کے کچھ کہنے سے پہلے میں نے ان سے کہہ دیا کہ میری ڈریس زمین پر گر کر گیلی ہو گئی ہے، آپ کے پاس کچھ پہننے کو ہے کیا؟؟؟ سلیمان بابا نے مجھے پوری اچھی طرح دیکھ کر کہا نہیں بیٹی فی الحال کپڑے سوکھ رہے ہیں تم اس رضائی کو لپیٹ لو کیونکہ کافی سردی ہے اور تم کافی گیلی بھی ہو۔ سلیمان بابا کی آنکھوں کی چمک کو دیکھ کر میں سمجھ گئی تھی کہ یہ بابا تو لٹو ہو گیا ہے۔ میں نے بابا سے کہا کہ آپ کے پاس فون ہوگا کیا؟؟؟ اور انہوں نے مجھے اپنا سستا سا موبائل فون دے دیا۔ میں کمرے کے باہر چلی گئی اور میں نے اپنے ماموں مامی کو فون کر دیا۔ میں نے ان کو کہا کہ میں اپنی سہیلی کے گھر پر ہوں۔ اس کی طبیعت کافی خراب ہو گئی ہے اور اسی لئے میں اس سے ملنے رات میں ہی چلی گئی اپنے دوستوں کے ساتھ۔ اب میں 2-3 دن اسی کے ساتھ رہنے والی ہوں کیونکہ وہ گھر پر اکیلی ہے۔ آپ پلیز ناراض مت ہونا اور ٹینشن مت لینا۔ میری بات سن کر میرے مامو نے کہا ٹھیک ہے بیٹا مگر تم وہاں پڑھائی اچھی طرح سے کرنا اور اپنا اور اپنے دوست کا خیال رکھنا۔ یہ بول کر میں نے فون کاٹ دیا اور واپس گھر میں چلی گئی۔ بابا نے مجھے چائے دی اور کہا بیٹی بستر پر آرام سے بیٹھ جاؤ۔ میں نے بابا سے پوچھا کہ آپ اس گھر میں اکیلے کیوں رہتے ہیں؟؟ آپ کی بیوی یا کوئی بیٹا بیٹی نہیں ہے؟؟؟ بابا نے مجھے بتایا کہ وہ پہلے بہت امیر تھے مگر ان کی بیوی کے گزر جانے کے بعد ان کے بیٹے نے ان کی ساری دولت ہڑپ لی۔ پھر وہ یہاں پر آ گئے شہر سے دور۔ یہ سن کر مجھے بابا پر تھوڑی رحم آ گئی۔ بابا میرے پاس آئے اور مجھ سے چائے کا کپ لے کر چلے گئے۔ میں نے سوچا کہ اب میں کیا کروں۔ یہی سوچتے سوچتے مجھے نیند آ گئی اور میں اس بستر پر سو گئی۔
میرے خواب میں پھر سے رات کا پورا منظر آیا۔ میں خواب میں ہی ڈر رہی تھی اور کافی گھبرا سی گئی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد مجھے ایک اور خواب آیا اور اس خواب میں پھر سے بیشن اور سنتوش دکھائی دیے۔ مگر یہ خواب پچھلے خواب سے بالکل مختلف تھا۔ میں پھر سے رات میں آٹو ڈھونڈ رہی ہوں اور مجھے پھر سے وہی آٹو ملتا ہے۔ میں نے وہی کپڑے پہن رکھے ہیں۔ سنتوش مجھے گھورے جا رہا ہے اور میں اسے اور مجبور کر رہی ہوں بار بار ہل کر۔ میں نے اپنا ہاتھ سنتوش کے لنڈ پر رکھ دیا اور اس پر پھیرنے لگی۔ سنتوش بالکل چپ چاپ حیران سا ہو گیا۔ اس کا لنڈ آٹو کی رفتار کی طرح بڑا ہوتے ہی جا رہا ہے۔ سنتوش کو اتنی سردی میں بھی پسینہ آ رہا ہے۔ میں نے اس کا ایک ہاتھ پکڑ کر اپنی ننگی ران پر رکھ دیا اور اس کے لنڈ سے اور اچھی طرح سے کھیلنے لگی۔ سنتوش اب اپنا ہاتھ میری ران پر پھیر رہا ہے اور پھیرتا ہوا میرے ڈریس کے اندر لے گیا۔ میری کچھی پوری گیلی ہو رہی تھی اور وہ اب میری پھدی کو نوچنے لگا ہے۔ سنتوش کے منہ سے آواز نکلی بیشن ذرا آٹو تھوڑی سائیڈ میں روک دے سڑک سے تھوڑا دور۔ یہ بول کر سنتوش نے اپنا دوسرا ہاتھ میری چھاتیوں پر پھیرنا شروع کر دیا اور یہ دیکھ کر بیشن نے جلدی سے آٹو کہیں روک دیا۔ پھر ان دونوں نے مجھ سے کہا کہ ہماری پینٹ کی زپ کھول اور ہمارے لنڈ کو چوسنا شروع کر۔ ان کے کہتے ہی میں نے ان دونوں کی زپ کھول دی اور ان کے بڑے اور موٹے لنڈ کو نکال کر چوسنے لگی۔ کبھی میں اس لنڈ کو منہ لے کر چوستی اور کبھی دوسرے لنڈ کو۔ دونوں بہت زور سے آوازیں نکال رہے ہیں۔ دونوں نے مجھے میرے کندھے پکڑ کر اٹھایا اور پھر میری چھاتیوں کو منہ میں لے کر چوسنے لگے۔ مجھے اتنا مزا آ رہا تھا کہ میں خود ان سے کہہ رہی تھی اور زور سے چوسنے کو۔ جب انہوں نے مجھے چودنے کے لئے مجھے نیچے لٹایا تبھی اچانک کچھ آواز آئی اور میری نیند کھل گئی۔ میں نے ہلکی سی آنکھ کھول کر دیکھا تو بابا نیچے بیٹھ کر چائے بنا رہے تھے۔ میں اس وقت کافی گرم ہو گئی تھی اپنے خواب کو دیکھ کر۔ مگر میرے من میں خیال آیا کہ سلیمان بابا کافی اچھے انسان ہیں ان کے ساتھ ایسی حرکت نہیں کرنی چاہئے۔ بابا نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا اٹھ گئی بیٹیا۔ میں نے ہلکے سے کہا جی بابا۔ بابا نے پھر مجھے کہا کہ جا کر اپنی ڈریس پہن لو کیونکہ سردی کافی ہو رہی ہے۔ میں بستر سے اٹھی اور اپنے بدن پر چادر لپیٹ لی۔ چلتے چلتے میں باتھ روم میں آ گئی اور اپنی ڈریس کو میں نے پہن لیا۔ میں باہر آ کر رضائی بستر پر پھینک دی اور بابا سے میں نے پوچھا کہ کچھ ڈریس کے نیچے پہننے کے لئے ہے؟؟ بابا نے کہا بیٹا باہر میری دھوتی رکھی ہوئی ہے تم چاہو تو اسے پہن لو۔ میں باہر نکلی تو دیکھا کہ رات ہو چکی تھی۔ اب میرا گھر کے لئے نکلنا ٹھیک نہیں ہوگا۔ میں نے باہر رہ کر ہی دھوتی پہن لی اور گھر کے اندر آ گئی۔ میں کافی خوش تھی کیونکہ دھوتی میری رانوں کو چھپا رہی تھی، میرے گھٹنوں تک آ رہی تھی۔ میں آرام سے بستر پر بیٹھ گئی اور بابا نے مجھے چائے دی۔ میں نے بابا سے پوچھا بابا وقت کتنا ہو گیا ہے؟؟ بابا نے مجھے کہا کہ بیٹیا رات کے 9 بج گئے ہیں۔ میں اور بابا نے چائے پینا شروع کی اور ہم باتیں کرنے لگے۔ میں نے بابا کو دلی کے بارے میں اور اپنے خاندان کے بارے میں بتایا۔ اور بابا نے مجھے اپنے بارے میں اور زیادہ بتایا۔ دیکھتے دیکھتے وقت کچھ زیادہ ہو گیا اور مجھے نیند آنے لگی۔ بابا نے کہا بیٹیا سو جاؤ میں زمین پر سو جاؤں گا تم آرام سے بستر پر سو جاؤ۔ میں نے بابا سے کہا آپ کیوں زمین پر سوئیں گے آپ اوپر سو جائیں مجھے آپ سے کوئی تکلیف نہیں ہے۔ رضائی ایک ہی ہونے کی وجہ سے ہم دونوں کو رضائی شیئر کرنی پڑی۔اس کے بعد کیا ہو ؟ سلیمان بابا نے میری چدائ کی یا نہیں ؟اس کے لیے آ پ کو کہانی کی اگلی قسط کا انتظار کرنا پڑے گا۔