پیاسی ہاؤس وائف

 


میرا نام رمیز ہے اور  میری عمر 27 سال ہے۔میں  راولا کوٹ میں رہتا ہوں ۔مگر حال ہی میں مجھے راولپنڈی میں جاب ٹریننگ کےلیے آنا پڑا  ۔ اب میں اپنی کہانی کی طرف آتا ہوں۔ یہ بات ابھی پچھلے مہینے کی ہے جب میں نے اپنے سینئر سے درخواست کی کہ وہ مجھے گھر دلانے میں مدد کریں۔ اس نے کافی کوشش کی لیکن کچھ نہیں ہوا۔ ایک دن اس نے مجھے بتایا کہ اس کی نظر میں ایک گھر ہے لیکن وہاں کرایہ بہت زیادہ دینا پڑے گا۔ اس نے مجھے 4000 روپے بتائے، میں نے کچھ دیر سوچا لیکن میرے پاس کوئی اور چارہ بھی نہیں تھا۔ میں نے سوچا چلو تین مہینوں کی تو بات ہے۔ میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ وہ گھر ایک آنٹی کا تھا جن کا نام ثمینہ تھا۔ اس کی عمر 37 سال تھی، وہ ایک گوری اور موٹی تھی۔ اس کی باڈی بہت سیکسی تھی۔ اس نے مجھے ساری شرائط کے بارے میں بتایا اور میں نے ہاں کر دی۔ میں شام کو اپنا سامان لے کر چلا آیا۔ میں فریش ہو کر کھانا کھانے کے بعد اپنے کمرے میں آ گیا۔ تبھی آنٹی رات 9 بجے میرے کمرے میں آئیں اور میرے پاس بیٹھ گئیں۔ آنٹی نے میرے گھر اور خاندان کے بارے میں سب کچھ پوچھا۔ میرے ساتھ تقریباً دو گھنٹے بات کی اور پھر گڈ نائٹ کہہ کر چلی گئیں۔ میں ساری رات آنٹی کے بارے میں سوچتا رہا۔ اس طرح ہر روز آنٹی میرے ساتھ بہت باتیں کرتیں۔ ہم دونوں بہت دوستانہ ہو گئے۔ آنٹی نے بتایا کہ اس کے شوہر ایک یو ایس میں رہتے ہیں جو سال میں ایک ہی پاکستان آتے ہیں، اب اس کا ویزا بھی جلد آنے والا ہے۔ اس کی شادی کو 11 سال ہو گئے تھے لیکن اس کے ابھی تک کوئی بچہ نہیں تھا۔ میں نے کئی بار اس کے بارے میں سوچا تھا۔ پھر ایک دن جب وہ رات کو میرے پاس آئیں تو میں نے اس سے پوچھا کہ آپ بور نہیں ہو جاتیں۔ اتنا بڑا گھر ہے اور آپ اکیلی رہتی ہیں۔ تو اس نے کہا کہ اب تو اسے یو ایس اے چلے جانا ہے۔

 

پہلے بہت مشکل تھا۔ سارا دن وہ گھر میں اکیلی بیٹھی رہتی تھی، کوئی کام بھی نہیں تھا۔ میں نے اچانک ہی اس سے پوچھا کہ آپ کی ابھی تک اولاد نہیں ہے ؟ کیوں ؟۔ یہ  سنتے ہی وہ کھڑی ہو گئیں اور کمرے سے باہر چلی گئیں۔ میں بہت گھبرا گیا اور ساری رات چین سے نہیں سو پایا۔ اگلے دن میں گھبرا کر جلدی ہی چلا گیا۔ سارا دن پھر میں ٹینشن میں رہا۔

 

شام کو جب میں گھر پہنچا تو بغیر سر اٹھائے اوپر چلا گیا۔ رات کو 10 بج گئے تھے، آنٹی آج نہیں آئی تھیں۔ میں بہت ڈر رہا تھا کہ تبھی آنٹی نے دروازہ کھولا اور اندر آ گئیں۔ میں سر جھکا کر بیٹھا رہا۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے میرا سر اٹھایا اور پوچھا، "میں صبح سے تمہیں دیکھ رہی ہوں، تم مجھ سے بات نہیں کر رہے، کیا بات ہے۔"

 

میں: "کوئی بات نہیں آنٹی، بس ویسے ہی، میں رات والی بات کو لے کر ٹینشن میں تھا، مجھے یہ سب نہیں بولنا چاہیے تھا، آئی ایم سوری آنٹی، پلیز مجھے معاف کر دو۔"

 

آنٹی: "اس میں تمہاری کوئی غلطی نہیں ہے، تم نے تو ویسے ہی پوچھا تھا، میں ہی زیادہ جذباتی ہو گئی تھی۔" اتنا کہہ کر آنٹی کی آنکھیں بھر آئیں۔ میں نے آنٹی کا ہاتھ پکڑ کر کہا، "پلیز آنٹی، مجھے بتاؤ کیا بات ہے، اگر آپ مجھے اپنا دوست سمجھتی ہیں تو پلیز آنٹی مجھے بتاؤ۔" تھوڑی دیر بعد اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور میری طرف دیکھنے لگی۔

 

آنٹی: "ٹھیک ہے، میں تمہیں اپنا سمجھ کر سب کچھ بتاؤں گی، لیکن تمہیں میری قسم ہے کہ یہ بات ہم دونوں کے درمیان ہی رہے گی۔" میں نے کہا کہ میں وعدہ کرتا ہوں۔ پھر وہ میرے پاس آ کر بیٹھ گئی اور مجھے سب بتانے لگی۔

 

آنٹی: "میں ایک بہت بڑے خاندان سے تعلق رکھتی ہوں۔ میری بڑی بہن بھی یو ایس اے میں ہی ہے۔ اسی نے میرا رشتہ کروایا تھا۔ میرے شوہر اور اس کے شوہر دونوں دوست ہیں۔ دونوں ایک ہی کمپنی میں کام کرتے ہیں۔ میرے شوہر کافی موٹے ہیں۔ سہاگ رات کو جب میں کمرے میں بیٹھی تھی، تب انہوں نے مجھے کسنگ  وغیرہ سب کچھ کیا، لیکن وہ سیکس نہیں کر رہے تھے۔

 

آخر میں وہ میرے اوپر آئے تو مجھے ایک صدمہ سا لگا جب میں نے ان کا لنڈ دیکھا تو وہ صرف تین انچ کا تھا، میں چپ چاپ لیٹی رہی۔ وہ میرے اوپر آ کر ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن لنڈ تھوڑا سا ہی اندر جا رہا تھا، میں تڑپ رہی تھی۔ بہت دیر کے بعد وہ اٹھ گئے اور اپنے پرس سے کوئی ٹیبلٹ نکالی اور تین چار ٹیبلٹس کھا لیں، وہ پھر سے میرے اوپر آئے، اب ان کا لنڈ بڑا ہو گیا تھا، وہ میرے اندر تک سماتا چلا گیا۔

 

مجھے بہت مزہ آ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہم دونوں جھڑ گئے، لیکن ان کے اندر سے بہت کم سپرم نکلا۔ پھر ہم سو گئے، ایسا دس دنوں تک چلتا رہا۔ پھر وہ واپس لوٹ گئے۔ میں بہت ٹینشن میں تھی۔ میں نے ایک لیڈی ڈاکٹر سے بات کی، اس نے بتایا کہ میرے شوہر کو میڈیسن کے سائیڈ ایفیکٹس ہوئے ہیں، اس لیے وہ باپ نہیں بن سکتے۔ پھر میں نے اپنی بہن سے بات کی تو اس نے بھی مجھے ہی سمجھایا کہ دھیرے دھیرے سب نارمل ہو جائے گا۔ اسی طرح میں گیارہ سال سے انتظار کر رہی ہوں۔ میرے شوہر دو بار سال میں آتے ہیں، پھر وہی سب کچھ چلتا ہے۔ اب میں نے سوچا ہے کہ میری قسمت میں ماں بننے کا سکھ نہیں ہے۔" اتنا کہہ کر وہ رونے لگی۔ میں نے اسے گلے لگا لیا، وہ کچھ دیر اسی طرح روتی رہی اور پھر نیچے چلی گئی۔ میں نے ساری رات ان کے بارے میں سوچا اور پھر میں نے فیصلہ کیا کہ میں آنٹی کو بچہ دوں گا۔

 

مجھ سے ان کے آنسو دیکھے نہیں گئے۔ اگلے دن جب وہ رات کو میرے کمرے میں آئیں تو میں پورا من بنا چکا تھا کہ آج چاہے کچھ بھی ہو جائے، میں اپنے دل کی بات کہہ دوں گا۔ کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد میں نے آنٹی سے پوچھا۔

 

میں: "آنٹی، میں ایک بات پوچھوں تو آپ برا تو نہیں مانو گی؟"

آنٹی: "نہیں، تم جو چاہو مجھ سے بول سکتے ہو، میں نے بھی تو تمہیں سب کچھ بتا دیا ہے۔"

 

میں: "آنٹی، آپ نے اتنی سال اکیلے ہی گزار دیے، کبھی آپ کے من میں کسی اور مرد سے تعلق بنانے کا خیال نہیں آیا؟" آنٹی کچھ دیر ویسے ہی سوچتی رہی، پھر گہری سانس لیتے ہوئے بولی:

آنٹی: "دل نے تو کئی بار کہا تھا، لیکن میں بدنامی سے ڈرتی تھی، کہیں کسی کو پتا چل گیا تو کیا ہوگا، مان لو اگر میں سوچتی بھی تو ایسے مجھے کون ملتا جو جس پر میں بھروسہ کرسکوں ۔

 

میں: "آپ کے شوہر پچھلی بار پاکستان کب آئے تھے؟"

آنٹی: "تم کیوں پوچھ رہے ہو؟"

میں: "آپ پہلے بتائیں تو سہی۔"

آنٹی: "قریب ایک مہینے پہلے۔"

میں: "آنٹی، میں آپ سے اپنے دل کی بات کہہ دوں؟"

 

آنٹی: "تم بے فکر ہو کر کہو۔"

میں: "آنٹی، میں آپ کی سونی گود کو بھر سکتا ہوں اگر آپ چاہیں تو۔" آنٹی ذرا سی مسکرائی اور مجھے ہلکا سا تھپڑ لگاتے ہوئے بولی، "تجھے اس سب کے بارے میں پتا ہی کیا ہے؟ تم نے ابھی اپنی زندگی کے بارے میں سوچنا ہے۔" میں نے آنٹی کا ہاتھ پکڑ کر جذباتی ہوتے ہوئے کہا: "جب سے آپ نے مجھے اپنے بارے میں بتایا ہے، میں سو نہیں پایا، پلیز آنٹی، آپ منع نہ کیجیے۔

 

میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس بات کا کسی کو بھی پتا نہیں چلے گا۔ اگر ہمارے سیکس کرنے سے آپ پریگننٹ ہو گئیں تو سب سمجھیں گے کہ آپ کے شوہر  آئے تھے، اس لیے یہ سب کچھ ہو گیا۔" آنٹی نے میری بات بڑے غور سے سنی اور میرے گلے لگ گئیں۔ میں نے دھیرے سے آنٹی کے گالوں پر بوسہ دیا۔ اب آنٹی بھی میرا ساتھ دے رہی تھیں، ہم نے ایک طویل فرنچ کس کی ۔ میں نے آنٹی کو اپنی باہوں میں بھر لیا۔ تبھی آنٹی نے دھیرے سے میرے کان میں کہا، "جان، یہاں نہیں، میرے بیڈروم میں چلتے ہیں۔" ہم دونوں آنٹی کے بیڈروم میں آ گئے۔ اندر آتے ہی میں آنٹی پر ٹوٹ پڑا۔ آنٹی کے سارے کپڑے اتار دیے۔ میں آنٹی کا گورا بدن دیکھ کر حیران رہ گیا۔ میں نے آنٹی کے سارے جسم کو جم کر چوما ۔ تبھی آنٹی نے میری پینٹ میں ہاتھ ڈالا۔ میرا آٹھ انچ کا لنڈ پوری طرح سے کڑک ہو گیا تھا۔ میں نے اپنے سارے کپڑے اتار کر آنٹی کے اوپر آ گیا۔

 

اس نے میرے لنڈ کو اپنے منہ میں لے لیا۔ میں تو جیسے  جنت میں تھا۔ قریب دس منٹ بعد میں نے کہا، "جان، اب اصلی کام ہو جائے۔" آنٹی نے اپنی شرارتی آنکھوں سے ہاں میں جواب دیا۔ میں نے اوپر آ کر آنٹی کی پھدی سے لنڈ کو لگایا۔ آنٹی بدک اٹھی، "پلیز جان، اب نہ تڑپاؤ، میں گیارہ سال سے پیاسی ہوں، پلیز میری پیاس بجھا دو۔" اتنا سنتے ہی میں نے ایک زوردار جھٹکا لگایا تو آدھا لنڈ ان کی پھدی میں چلا گیا۔ وہ تڑپ  اٹھی اور مجھے کس کر دونوں باہوں میں جکڑ لیا۔ وہ اپنی ہوش گنوا چکی تھی۔ وہ زور زور سے چلا رہی تھی، "جان، اور تیز، اور تیز، پلیز مجھے زور زور سے چودو۔" لگ بھگ چالیس منٹ کے بعد میں نے اسے گھوڑی بنایا اور اسے لگاتار چودتا رہا۔ وہ ایک بار جھڑ چکی تھی اور میں بھی جھڑنے والا تھا۔ میں نے اسے سیدھا لیٹا کر اوپر آ گیا اور اس نے بھی اپنی ٹانگیں میری کمر کے اوپر رکھ لیں۔ میں زوردار جھٹکے مار رہا تھا۔ میں جھڑنے والا تھا، میں نے اپنی سپیڈ بڑھا دی۔ دس منٹ کے بعد کے بعد میں اس کی پھدی کے اندر ہی جھڑ گیا۔ ہم دونوں آدھا گھنٹا ویسے ہی پڑے رہے۔ پھر اس نے مجھے بہت چوما  اور بولی، "سویٹ، اگر تم نہ ہوتے تو میں اس لذت کا  کبھی مزا  نہ لے سکتی تھی۔" اس رات ہم نے ہر پوزیشن  سے چار بار سیکس کیا۔ صبح ہم لوگ لیٹ اٹھے، میں نے بھی فون کر کے چھٹی لے لی۔ پھر سے ہمارا وہی کھیل شروع ہو گیا۔

 

اس نے مجھے بہت ساری شاپنگ کروائی اور میری پسند کا کھانا بناتی۔ ہم ہر رات کو دو یا تین بار سیکس ضرور کرتے۔ کچھ دنوں کے بعد میری ٹریننگ پوری ہو گئی اور میں گھر واپس آ گیا۔ ہماری روز ساری رات فون پر بات ہوتی تھی۔ اسی دوران اس کا ویزا آ گیا۔ اس نے مجھے پھر سے بلایا۔ ہم نے تین دن جی بھر کے سیکس کیا۔ پھر میں اسے اسلام آباد  ایئرپورٹ پرسی آف کرنے گیا، مجھے اب بھی ہر روز اس کا فون آتا ہے۔ اس نے مجھے بتایا کہ وہ میرے بچے کی ماں بننے والی ہے۔ میں بہت خوش ہوا۔ اس نے اپنی بہن  کو بھی میرے بارے میں بتا دیا ہے۔ اب وہ دونوں مجھ سے بات کر لیتی ہیں۔ وہ اگلے سال پاکستان واپس آ رہی ہے۔ اس کی بہن بھی اس کے ساتھ آ رہی ہے کیونکہ اس کے کسی رشتہ دار کی شادی ہے۔ میں ان کا انتظار کر رہا ہوں۔

تو دوستو، کیسی لگی میری کہانی۔

❤️ اردو کی دلکش شہوانی، رومانوی اور شہوت انگیز جذبات سے بھرپور کہانیاں پڑھنے کے لیے ہمارے فورمز کو جوائن کریں:

ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی