جیسے ہی حریم نے کپڑے اتارے، سلمان اس کے تراشے ہوئے خوبصورت بدن اور اوپر کو اٹھے ہوئے گول پستانوں کی کشش میں پاگل ہو کر اس کے بدن پر ٹوٹ پڑا۔ اس کا لنڈ تو پہلے ہی حریم کو دیکھ کر کھڑا ہو چکا تھا لیکن اب جب سلمان نے اس کا بدن بغیر کپڑوں کے دیکھا تو اس کے اندر کی جوانی شور مچانے لگی اور کیوں نہ مچاتی، حریم تھی ہی اتنی پیاری 25 سالہ خوبرو 36 سائز کے چھاتیوں اور گلابی چوت کے ساتھ کسی بھی مرد کو اپنے آگ کے کنویں جیسی چوت میں پانی بہانے پر مجبور کر سکتی تھی۔ سلمان نے پہلے اس کے مموں کو دبا کے چوسنا شروع کیا تو حریم کو اس کے پاگل پن پر پیار آنے لگا، اس نے سلمان کو سر کے بالوں سے پکڑا تو سلمان اس کے ابھرے ہوئے پستانوں کو اور زیادہ برباد کرنے لگا۔ وہ کبھی حریم کو دیکھتا، کبھی مموں کو چوستا، اس کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کیا چوسے اور کہاں کہاں سے چوسے۔ وہ اس کے گرم جسم کو برداشت نہیں کر پا رہا تھا، اس کی نظروں میں عجیب سی لالچ تھی، وہ لالچی نظروں سے حریم کے پستانوں کو دیکھ کے چوس رہا تھا۔ حریم اس کی نظروں کو سمجھ رہی تھی اس لیے جب وہ اس کی طرف دیکھتا تو حریم ہلکا سا مسکرا دیتی اور سلمان اس کی اس ادا سے متاثر ہو کر اس کے بٹن دار پستانوں کو تھپڑ لگا کے اور زیادہ چوسنے لگتا۔
قریب بیس منٹ تک وہ اس کے پستانوں پر حملہ آور ہوتا رہا۔ اتنے ٹائم میں کسی بھی مرد کی پیاسی عورت جس کو اپنے شوہر کے ہتھیار سے کبھی خوشی نہ ملی ہو گرم ہو جاتی ہے اور حریم کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ اس کی شادی کو پانچ سال ہو گئے تھے لیکن اس کے شوہر کے ناکارہ لنڈ کے پانی سے اس کی چوت کی زمین ابھی تک سرسبز نہیں ہو سکی تھی۔ پانچ سال کی جدائی کے باوجود بھی وہ بنجر تھی، اس نے اپنے شوہر کا بہت علاج کروایا، بہت حکیموں کے پاس اس کو لے کر گئی لیکن ہر جگہ سے مایوسی کے سوا اور کچھ نہ ملا۔ جس طرح ہر عورت اولاد چاہتی ہے اسی طرح حریم بھی چاہتی تھی کہ اس کی گود بھر جائے، وہ اپنے بچوں کے ساتھ کھیلے، ان کو اپنی چھاتیوں کا دودھ پلائے لیکن ان سب کے لیے اسے کسی ایسے مرد کی ضرورت تھی جو اس کی چوت کو اپنے لنڈ کی سفید دھار سے بھر دے، جو اس کی بنجر چوت کو سرسبز کرنے کا باعث بنے جبکہ دوسری طرف اس کا اپنا شوہر صرف نام کا ہی مرد تھا، باقی اس میں مردوں والی کوئی خوبی نہیں تھی۔ اس میں اتنی ہمت ہی نہیں تھی کہ اپنی بیوی کے بیضے تک اپنا پانی پہنچا سکے۔ حریم پانچ سال تک اس امید پر اپنے ناکارہ شوہر کے آگے ٹانگیں کھول کر لیٹی رہی کہ کسی نہ کسی دن تو اس کا پانی میری چوت کی انتہا تک پہنچ کر ٹھہر ہی جائے گا لیکن وہ غلط تھی، اس کے شوہر میں یہ خوبی ہی نہیں تھی کہ وہ اولاد پیدا کر سکے۔ آخرکار تنگ آ کر اس نے غیر ارادی طور پر کسی ایسے قابل بھروسہ مرد کو تلاش کرنا شروع کی جو اس کو صاحب اولاد بنا سکے۔ اس نے اپنے شوہر سے علیحدگی کا سوچا اور اس سلسلے میں اس نے سلمان سے مدد طلب کی۔ سلمان چونکہ اس کے شوہر کا لنگوٹیا یار تھا اور ان لوگوں کے پرسنل لائف سے کافی حد تک باخبر بھی تھا۔ اس لیے ایک دن حریم نے سلمان کو بلا کر سارا قصہ بیان کیا کہ تیرے دوست سے اب مجھے کوئی امید نہیں ہے اور میں مزید اس کو اپنی جوانی روندنے نہیں دے سکتی اس لیے میرے پاس ایک ہی آپشن بچا ہے اور وہ ہے طلاق کا۔ سلمان یہ سن کر کافی دیر تک سوچتا رہا پھر اچانک بولا "اگر تم نے اس کو چھوڑا تو کوئی بھی اس سے شادی نہیں کرے گی اور تمہیں تو پتہ ہے وہ کتنا جذباتی ہے کہیں وہ مایوس ہو کر اپنی زندگی ہی ختم نہ کر دے" حریم نے سلمان کی بات سن کر حیرانی سے کہا "یعنی تم چاہتے ہو کہ میں اس کی خوشی کے لیے اپنی خوشیاں داؤ پہ لگاؤں؟"
"نہیں نہیں میرا ہرگز یہ مطلب نہیں تمہیں پورا حق ہے مرد سے خوشی حاصل کرنے کا" سلمان نے فورا اس کے خیال کی تردید کر دی۔
"پھر اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ تم ہی بتاؤ میں کیا کروں؟"
حریم نے سلمان کو سوچوں میں گم دیکھ کر سوال کیا۔
"میرے خیال میں ہمیں کچھ ایسا کرنا چاہیے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے"
سلمان نے گہری سانس لے کر کہا۔
"کیا مطلب؟"
حریم نے ایک اور سوال کیا تو سلمان اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہنے لگا۔
"اگر تمہیں گھر کی دال نہیں پسند تو باہر کی بریانی کھا لو"
"کیا مطلب گھر کی دال نہیں پسند تو باہر کی بریانی کھاؤں؟"
پتہ نہیں حریم واقعی نہیں سمجھی تھی یا سمجھنا نہیں چاہ رہی تھی لیکن سلمان کے اتنے سمجھانے کے باوجود بھی نہیں سمجھی تو سلمان کو غصہ آ گیا اور اس نے حریم کی آنکھوں میں دیکھ کے کہا۔ "یار اگر میرا دوست کھسرا ہے تو کسی اور مرد سے..."
"کیا؟؟؟"
سلمان نے ابھی جملہ پورا کرنے ہی والا تھا کہ حریم نے اس کی بات بیچ میں کاٹ دی۔
"ہاں اب یہی ایک راستہ بچا ہے۔ میں اپنے دوست کو مرتا نہیں دیکھ سکتا"
"لیکن یہ تو گناہ بھی ہے اور اس کے ساتھ دھوکہ بھی ہے"
"دیکھو حریم: اگر دھوکہ دینے سے اس کی زندگی بچ سکتی ہے تو دھوکہ دینے میں کوئی برائی نہیں"
"سلمان وہ بات تو میں سمجھ گئی لیکن اس دھوکے میں میرا ساتھ کون دے گا؟؟"
"میں"
"تم؟؟"
"ہاں حریم میں مانتا ہوں یہ گناہ بھی ہے اور دھوکہ بھی لیکن بات کا دوسرا رخ بھی تو دیکھو اس ایک گناہ سے میرا دوست بھی واپس جینے لگے گا تم صاحب اولاد بھی ہو جاؤ گی اور تمہیں جسمانی خوشی بھی ملے گی۔ بولو کیا تم تیار ہو؟"
سلمان کی باتیں سن کر اس کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو گئی تھیں، اس کا سارا جسم پسینوں سے شرابور ہو چکا تھا۔ سلمان اس کو سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا، اس نے سلمان کے سوال کے جواب میں بس اثبات میں سر ہلانا ہی مناسب سمجھا اور اٹھ کر اپنے بیڈ روم میں چلی گئی۔ سلمان اس کے پیچھے کمرے میں گیا اور کہا۔
"میں کل دس بجے آؤں گا گھر پر ہی رہنا"
یہ کہہ کر سلمان واپس چلا گیا۔ اس کے بعد حریم رات بھر سوچتی رہی کہ آیا میں ٹھیک کرنے جا رہی ہوں یا غلط؟ وہ خود سے یہی سوال کر رہی تھی اور بار بار کر رہی تھی لیکن آخر کار اس نے اپنے آپ کو تیار کر لیا۔ اس نے سوچا کہ میں کیوں ساری زندگی اس بےکار مرد سے اپنا جسم نوچواؤں؟ میں کیوں نہ اپنا جسم ایسے مرد کے حوالے کروں جس کے لنڈ سے نکلی سفید دودھ کی دھار میرے چوت کی زمین کو سرسبز کرنے کی طاقت رکھتا ہو، جس کی مردانہ وجاہت اس کی زنانہ طبیعت میں ہلچل مچانے کا ہنر جانتا ہو اور یہ تمام تر خوبیاں سلمان میں موجود تھیں۔ خیر یہ سب سوچ کر وہ اپنے پہلو میں سوئے ہوئے اپنے ناکارہ شوہر کو دیکھ کر مسکرائی اور کروٹ لے کر نیند کی آغوش میں چلی گئی۔
اگلی صبح کا سورج اس کی زندگی میں خوشیاں لے کر طلوع ہوا، وہ آج جتنی خوش اور پر امید تھی اتنی خوشی اسے اپنی شادی کے پانچ سالوں میں کبھی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ اس نے اپنے شوہر کو ناشتہ کروا کے آفس بھیجا اور اس کے جاتے ہی سلمان کو کال کر کے اس کے جانے کی اطلاع دی اور پھر اپنے کمرے میں جا کے اپنی الماری کھول کر اپنا پسندیدہ شوخ رنگ کا سوٹ نکال کر پہنا۔ اس کو ایسا لگ رہا تھا جیسے آج ہی اس کی شادی ہوئی ہو، وہ تھی تو شادی شدہ لیکن اس کا جوان جسم ابھی بھی مرد کے مضبوط ہتھیار کے مزے سے محروم تھی اور جبکہ آج اس کی اس محرومی کو سلمان ختم کرنے والا تھا تو وہ سلمان کے لیے بالکل ویسے ہی تیار ہوئی جیسے کوئی کنواری لڑکی اپنے شوہر سے پہلی بار ملنے کے وقت ہوتی ہے۔ آج وہ دلہن سے بھی پیاری لگ رہی تھی، اس کے اوپر کو اٹھی ہوئی چھاتیاں، نشیلی آنکھیں، اس کے ہونٹوں کی لالی اور اس کی باہر نکلی ہوئی نرم و ملائم گانڈ جو اس شوخ کلر کے تنگ شلوار میں مزید شوخ اور نکلی ہوئی لگ رہی تھی کسی بھی شریف مرد کا لنڈ کھڑا کروا سکتی تھی۔ خیر وہ تیار ہو کر سلمان کی منتظر ہی تھی کہ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔ وہ سمجھ گئی کہ سلمان ہی ہو گا اس لیے وہ دروازہ کھولنے چلی گئی، دروازہ کھولا تو باہر سلمان کھڑا تھا اس نے حریم کو دیکھا تو وہ کسی پری سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ وہ اس کی آنکھوں میں ہی کھو گیا تھا کہ اتنے میں حریم نے کہا "اندر آ جاؤ کوئی دیکھ لے گا" وہ خوابوں کی دنیا سے نکل کر حقیقت میں اندر آ گیا اور حریم نے دروازہ مقفل کر دیا۔ کچھ دیر تو وہ دونوں یونہی ایک دوسرے کو تکتے رہے پھر حریم نے چائے کا پوچھا تو سلمان نے "نہیں میں پی کر آیا ہوں" کہہ کر اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔ حریم ذرا سا شرما رہی تھی لیکن سلمان شرم و حیا گھر ہی چھوڑ کر آیا تھا اور اس نے حریم سے بھی کہا "دیکھو ہم جو بھی کر رہے ہیں اس میں ہم سب کا بھلا ہے۔ اور تم مجھ پر بھروسہ رکھو یہ راز ہمیشہ راز ہی رہے گا۔ اگر تم اب بھی مطمئن نہیں تو بے شک کہہ دو میں چلا جاؤں گا" حریم نے یہ سن کر اس کے شلوار میں کھڑے ڈنڈے کی طرف اشارہ کر کے اسے چھیڑنے کے لیے کہا "تم تو گھر سے ہی کھڑا کر کے آئے ہو اب واپس جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا" یہ سن کر دونوں مسکرانے لگے۔ اتنے غموں اور دکھوں کے بعد آخر کار آج اسے وہ قابل مرد مل ہی گیا تھا جو اس کے بدن کو آگ لگانے کے بعد اپنے جسم کے پانی سے بجھا بھی سکتا تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے میں کھوئے ہوئے تھے نہ کسی کا ڈر تھا نہ کسی کی فکر بس دونوں اپنے مستی میں مست تھے۔ حریم سلمان سے اپنے سخت پستان چسوا چسوا کر ڈھیلے کر چکی تو سلمان کو کہنے لگی "سلمان میرے چوت پر بھی نظر کرم کیجیے نہ" یہ کہہ کر اس نے سلمان کو آنکھ ماری تو سلمان اس کے منہ پر ہلکا سا تھپڑ مار کر اس کی ٹانگوں کے بیچ میں اپنا منہ رکھ کر اس کے گلابی چوت کو چاٹنے لگا تو حریم آہیں بھرنے لگی "آہ آہ آہ ہ ہ آہ سلمان آہ چاٹ نہ آہ" حریم اپنی آہوں سے سلمان کے جذبات کو مزید منتشر کر رہی تھی وہ مسلسل اس کی چوت میں زبان ڈالے اس کی چوت کا مزہ لے رہا تھا کیونکہ وہ بھی ایک غیر شادی شدہ مرد تھا اس نے بھی کبھی چوت کا نمکین پانی نہیں چکھا تھا اس لیے آج اس کی چوت کا پانی ایسے چوس رہا تھا جیسے کہ تربوز سے رس چوستے ہیں۔ "آہ سلمان آہ آہ آہ آہ سلمان مزہ آ رہا ہے آہ" حریم مسلسل آہیں بھر رہی تھی اور اب تو سلمان نے اس کے چوت میں اپنی ایک انگلی بھی ڈال دی تھی۔ جس سے حریم کے نازک اندام چوت میں ہلچل مچ گئی اس نے سلمان کو بالوں سے پکڑا اور اپنی چوت کے اوپر اس کا منہ رکھوایا "آہ سلمان چاٹو آہ آہ جان چاٹتے رہو پلیز آہ" وہ پاگل ہو گئی تھی اور اس کی یہی باتیں سن کر سلمان بھی پاگل ہو چکا تھا۔ دونوں ایک دوسرے کو بھڑکا رہے تھے حریم کو تو کچھ بھی ہوش نہیں تھا آخر اس نے اپنے اوپر ایسا مرد مسلط کیا تھا جس نے کبھی چوت دیکھی ہی نہیں تھی اس لیے آج وہ حریم کی گرم گلابی چوت اور نرم و ملائم گانڈ دیکھ کر اپنی برسوں کی بھوک مٹا رہا تھا۔ تقریبا دس منٹ تک وہ اسی طرح اس کی چوت کو مکھی کی طرح چوستا اور کتے کی طرح چاٹتا رہا وہ تو مزید بھی چاٹنا چاہتا تھا لیکن حریم کی ہمت جواب دے گئی اس کی آہوں میں کافی تیزی آ گئی تھی حریم کی اہ اہ کی صدائیں کمرے سے باہر تک سنی جا سکتی تھی لیکن گھر میں کوئی تھا جو نہیں اس لیے وہ کھل کر چیخ رہی تھی اور دنیا کو بتانا چاہتی تھی کہ آج وہ اپنا حق سود سمیت وصول کر رہی ہے۔ جیسے جیسے حریم کی آہیں بڑھتی گئی ویسے ویسے سلمان بھی اپنی مردانہ بھاری آواز میں غرانے لگا۔ "آہ سلمان آہ ہ ہ ہ ہ آہ آہ میری جان آہ مر جاؤں گی آج آہ آہ سلمان میں آہ آہ میرا پانی آہ آہ میرا پانی آ رہا ہے آہ چاٹو چاٹ میرے راجہ آہ" یہ سب کہہ کر حریم اپنی چوت اچھال اچھال کر سلمان سے چٹوانے لگی۔ حریم آہیں بھر رہی تھی اور سلمان غرا رہا تھا دونوں کی آوازیں فضاء میں کافی بھلی لگ رہی تھی دونوں خود سے بے خبر ایک دوسرے کو خوشی دے رہے تھے کہ اتنے میں حریم کے چوت سے گرم نمکین پانی کا فوارہ پھوٹ پڑا، پانی اتنے سپیڈ کے ساتھ نکلا کہ سلمان کے چہرے پر یوں جا کر لگا جیسے کسی نے غبارے میں پانی بھر کر اس کے منہ پہ مارا ہو۔ پانی کے ساتھ ہی حریم کی آہیں ختم ہو گئی تھی اس کے اندر کی آگ ختم تو نہیں ہوئی لیکن اس میں کمی ضرور آ گئی تھی۔ سلمان کے رخساروں پر اپنا پانی دیکھ کر وہ اس پر صدقے واری جا رہی تھی اس نے اٹھ کر سلمان کو گلے لگایا اور اس کو لٹا کر اس کے جسم سے بہتے پسینے پر زبان لگا لگا کر اپنے اندر کی آگ کو مزید بھڑکانے لگی تھی وہ سلمان کے کمر اور سینے سے ہو کر نیچے اس کے تن سے کھڑے آٹھ انچ کے سانولے رنگ کے لنڈ تک آ گئی۔ اس کے بعد اس نے لنڈ کو اپنے ہاتھ میں لے کر سلمان کی طرف کھا جانے والی نظروں سے دیکھ کے اپنا نچلا ہونٹ دانتوں سے دبایا تو سلمان کو شرم سی محسوس ہوئی لیکن پھر جیسے ہی وہ سلمان کا ہتھیار ہاتھ سے مسل کے منہ میں لینے لگی سلمان کی غرانے کی آوازیں کمرے میں پھیلنی شروع ہوئیں "آآآ چوسو چوسو میری جان شٹ آہ چوس نہ" سلمان کا آٹھ انچ کا لنڈ حریم کے منہ میں تھا اور سلمان غرانے لگا۔ سلمان نے اس کو بہت اشارے کیے کہ اب چھوڑ دو مجھے لیکن حریم تھی جو اس کے گولیوں کو پکڑے اس کا لنڈ منہ میں گھسائی جا رہی تھی۔ وہ منظر بہت پیارا تھا۔ جب چوستے چوستے حریم کے منہ کا تھوک جھاگ بن کر اس کے منہ سے نکلتا ہوا لنڈ سے ہو کر نیچے ٹھٹھوں پر جا کے لگتا اور پھر بیڈ شیٹ میں جذب ہو جاتا۔ تقریبا پندرہ منٹ سلمان کا لنڈ اسی طرح اس کے منہ میں گھستا اس کے بعد جب وہ دوبارہ گرم ہو گئی تو سلمان نے حریم کی ٹانگی اٹھا کر درمیان میں اپنا ٹوپہ رکھا اور اپنے جسم میں بھرپور قوت بھر کر ایک زوردار جھٹکا دیا جس سے حریم کی چیخ نکلی شاید پہلی دفعہ اس کے چوت کی انتہائی اختتامی دیوار سے کسی کا لنڈ ٹکرایا تھا۔ حریم پر عجیب کیفیت طاری تھی اس بار دونوں ہی چیخ رہے تھے سلمان مسلسل اس کے چوت میں اپنا ڈنڈا گھسیڑ رہا تھا تقریبا بیس منٹ تک وہ حریم کو مسلسل چودتا رہا اور آخر کار سلمان کے جھٹکوں میں مزید تیزی آئی اور تیزی کے ساتھ ہی اس نے اپنے لنڈ کے مردانہ دودھ کے فوارے سے حریم کی بنجر چوت کو سیراب کر دیا۔ وہ بے دم ہو کر اس پر گر پڑا اور حریم اس کے بالوں میں ہاتھ پھیر کر پیار کرنے لگی۔
سلمان نے حریم اور اپنے دوست کا گھر برباد ہونے سے بچانے کے لیے ہر حد تک جانے کی قسم کھائی تھی اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوا۔ سلمان کی وجہ سے آج حریم 3 بچوں کی ماں ہے۔ اب بھی حریم ہفتے میں دو دن سلمان کے ساتھ گزارتی ہے۔ کیونکہ اب وہ دونوں ایک دوسرے کے ہو چکے یہ راز ہمیشہ راز ہی رہے گا۔
ختم شد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔