نیوڈ کلب میں میاں کے سامنے چدی

 


میرا نام ندرت ہے، میں 46 سال کی ہوں اور گوری رنگت کی شادی شدہ عورت ہوں۔ میرا جسم اس عمر میں بھی بہت شہوت انگیز ہے ، میرے بڑے ممے اور موٹے موٹے چوتڑ دیکھنے والے کی جان ہی نکال دیتے ہیں  ۔ لیکن شادی کے وقت میں بالکل سلم تھی۔ ۔ میں بی اے پاس ہوں۔ انگریزی آتی ہے لیکن روانی سے بول نہیں پاتی۔ غیر ملکی لہجے میں بولی جانے والی انگریزی تو کبھی کبھی سمجھ بھی نہیں پاتی۔

میری شادی آج سے 23 سال پہلے ہوئی تھی۔ میرے شوہر راحیل ایک انجینئر ہیں اور سانولے رنگ کے ہیں۔ راحیل  کراچی شپنگ کمپنی میں سروس کرتے ہیں۔ وہ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ ہم کراچی میں رہتے ہیں۔ میرا صرف ایک بیٹا ہے جو اب 20 سال کا ہے اور وہ اسلام آباد  کے ایک انجینئرنگ کالج میں ہاسٹل میں رہ کر انجینئرنگ کی ڈگری کر رہا ہے۔ میرے شوہر راحیل کے ساتھ میری جنسی زندگی بہت اچھی ہے کیونکہ راحیل سیکس میں بہت مزہ لیتے ہیں اور مجھے بہت گرم کر کے چودتے ہیں، حالانکہ شادی کے وقت وہ بالکل اناڑی تھے۔ راحیل کا لنڈ لمبا تو ہے لیکن پتلا سا ہے۔ لٹکا ہوا لنڈ تو تقریباً 4” لمبا اور تقریباً 2” موٹا ہوتا ہے لیکن جب پورا تن کر کھڑا ہو جاتا ہے تو تقریباً 6” لمبا اور 3” موٹا ہو جاتا ہے۔ پہلے تو راحیل مجھے ایک دن میں کئی کئی بار بالکل ننگا کرکے چودتے تھے۔ آفس سے آتے اور خود بالکل ننگے ہو جاتے اور اپنا 4 انچ لمبا اور 2 انچ موٹا لنڈ ہلا ہلا کر دکھاتے اور اتنا گرم کر دیتے کہ میں بھی پاگل ہو کر اپنے سب کپڑے اتار کر بالکل ننگی ہو جاتی تھی اور اسی حالت میں ان کے ساتھ شام کی چائے پیتی تھی۔ ایک ہاتھ میں ان کا لنڈ پکڑ کر ہلاتی رہتی اور دوسرے میں چائے کا پیالہ۔ چائے پیتے پیتے راحیل میری چوت میں اپنی انگلی اندر باہر کرتے رہتے اور کبھی کبھی چوت چاٹ بھی لیتے۔ ابھی بھی ہم دونوں بہت کنکی سیکس گیمز بھی ساتھ ساتھ کھیلتے ہیں۔ میں راحیل کا لنڈ بھی چوستی ہوں اور وہ بھی میری چوت میں اپنی زبان  ڈال ڈال کر خوب چاٹتے ہیں۔ میں نے تو کئی بار راحیل کے لنڈ کو چوس چوس کر اپنے منہ میں جھاڑ بھی دیا اور جھاڑا ہوا ساری منی  پی گئی۔ راحیل کی جاب میں ٹورنگ بھی کافی ہے۔ راحیل مجھ سے کچھ بھی نہیں چھپاتے، سب بات بتا دیتے ہیں۔

تین سال پہلے وہ ایک ہفتے کے ٹور پر لندن گئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہاں انہوں نے ایک 45 سال کی برطانوی بیوہ خاتون کو، جس کے مکان میں وہ پینگ گیسٹ بن کر رہ رہے تھے، پانچ دن خوب چودا۔ یہ بتانے کے بعد انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ مجھے برا تو نہیں لگا۔ یہ سن کر بھی مجھے برا نہیں لگا کیونکہ راحیل مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ “کسی کو چودنے سے آپ کا لنڈ کوئی گھس تو نہیں گیا نا۔ کسی کی جسمانی پیاس بجھانے سے اچھا کون سا کام  ہے”۔ راحیل کو میں کہوں گی کہ وہ اپنی لندن کی چدائی کی کہانی کبھی آپ کو الگ سے سنائیں۔

راحیل کی کمپنی دو سال میں ایک بار اپنے سارے ملازمین کو 1 لاکھ روپے تک وائف کے ساتھ دنیا میں کہیں بھی گھومنے جانے کے لیے ایل ٹی سی دیتی ہے۔ ابھی پچھلے سال ہم دونوں اکیلے  سوئٹرز لن  گھومنے گئے تھے۔ وہاں راحیل اور میں ایک ایڈلٹ نیوڈ ریزورٹ بھی گئے، جہاں ہم دو دن اور ایک رات رہے۔ وہاں پہنچ کر راحیل نے مجھے اس ریزورٹ کے رولز کے بارے میں بتایا۔ وہاں آنے والے سبھی ٹورسٹ ہر سمے بالکل ننگے ہو کر رہ سکتے تھے۔ ریزورٹ کے ملازمین بھی بالکل ننگے رہتے تھے۔ لیکن بنا دوسرے کی مرضی کے اس کے ساتھ چدائی نہیں کر سکتے تھے۔ اگر کسی کا من کسی دوسرے ٹورسٹ کے ساتھ چدائی کرنے کا ہو تو اسے اس ٹورسٹ سے پولیٹلی چدائی کی ریکوئسٹ کر کے پرمیشن لینی ضروری تھی۔ ہاں کسی کو بھی کسی دوسرے ٹورسٹ یا ریزورٹ کے ایمپلائی کو دیکھ کر اس کے سامنے ہی مستربیت کرنے کی پوری آزادی تھی۔ وہاں راحیل نے مجھے سمندر بیچ پر بالکل ننگے ہو کر گھومنے اور نہانے کے لیے منا لیا۔ جب میں نے کہا کہ مجھے شرم آتی ہے تو راحیل نے کہا کہ یہاں ہم کو جاننے والا کوئی نہیں ہے اس لیے شرم کیسی۔ یہ میرا پہلا تجربہ تھا، لیکن کیونکہ وہاں ہم کو کوئی بھی جانتا نہیں تھا اس لیے مجھے بھی شرم کی کوئی بات نہیں لگی اور میں راحیل کی بات مان گئی۔ اس دن ہم وہاں بیچ پر کئی گھنٹے ہزاروں بالکل ننگے مرد اور عورتوں کے بیچ خود بھی بالکل ننگے ہو کر گھومتے رہے، سمندر میں نہائے اور میں نے اس دن پہلی بار کئی طرح کے لنڈ اور چوت دیکھے اور کئی لوگوں کو تو بیچ پر ہی سب کے سامنے چدائی کرتے ہوئے بھی دیکھا۔ کئی ننگے مردوں نے تو میری ننگی چوت دیکھ دیکھ کر میرے سامنے ہی اپنی مٹھ  بھی ماری۔ وہاں کوئی بھی کسی کے ساتھ کوئی زبردستی نہیں کر رہا تھا اور کئی ننگی لیڈیز تو پرمیشن لے کر دو - دو آدمیوں سے بھی چدائی کے مزے لے رہی تھیں۔یہ سب دیکھ کر میں بہت ہی ہاٹ ہوگئی تھی ۔میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ دنیا میں ایسی جگہ بھی ہوتی ہیں ۔میرا دل تو کررہاتھا میں ہمیشہ کے لیے یہاں رہ جاؤں ۔

راحیل نے مجھے بتایا کہ یہاں پر آنے والے کپلز اپنے پارٹنر بدل کر بھی چدائی کرتے ہیں۔ میں نے پہلی بار اپنے شوہر کے علاوہ اتنے سارے بالکل ننگے مردوں کے کئی شیپ کے لنڈ دیکھ رہی تھی۔ کچھ آدمیوں کے لنڈ تو قریب 8 انچ لمبے تھے۔ زیادہ تر مردوں کے لنڈ اتنی ننگی عورتوں کی چوت دیکھ کر بالکل تنے کھڑے ہوئے تھے جبکہ کچھ کے لنڈ چود چود کر اور مٹھ مار مار کر جھاڑ کر لٹکے ہوئے بھی تھے۔ مجھے لگتا ہے کہ زیادہ تر عورتوں کی چوت بھی بالکل گیلی ہوگی کیونکہ میری چوت یہ سب پہلی بار دیکھ کر بالکل گیلی ہو گئی تھی اور میں من ہی من وہیں پر راحیل کے لنڈ سے بھی لمبے لنڈ سے چدوانا چاہ رہی تھی۔ جب ہم بیچ پر ننگے بیٹھ کر سستا رہے تھے تو ہمارے پاس ایک مڈل ایجڈ یورپیئن کپل جو قریب 40-45 کی ایج گروپ کا تھا، وہیں بیچ پر بیٹھا تھا۔ اس آدمی کا لنڈ قریب 6 انچ لمبا تھا اور قریب 3 انچ موٹا تھا پر بابا جی کے گھنٹے کی طرح لٹکا ہوا تھا اور اس کی رانوں پر کسی سانپ کی طرح پڑا تھا اور وہ آدمی لگاتار میری طرف ہی دیکھ رہا تھا۔ مجھے یہ سوچ کر مزہ آیا کہ میں اس عمر میں بھی اتنی سیکسی لگتی  ہوں کہ اتنے سارے پرائے مرد مجھے گھور گھور کر میرے سارے ننگے بدن کا مزہ لے رہے ہیں۔ شاید اس لیے کیونکہ میرے ممے  اورمیری گانڈ  بڑی بڑی اور بھاری ہیں۔ اور میں نے اپنی چوت کو صاف رکھا ہواتھا۔ جس کی وجہ سے  میری چوت کے دونوں گیلی ہونٹ بھی کھلے ہوئے صاف نظر آ رہے تھے۔ میری نظر بھی لگاتار اس کے لمبے لٹکتے ہوئے لنڈ پر ہی تھی۔ ادھر راحیل اس کے پارٹنر کو لگاتار دیکھے جا رہا تھا اور وہ اس کے اس طرح لگاتار دیکھنے سے بے شرمی کے ساتھ مسکرا رہی تھی۔ تبھی اس نے اپنی دونوں ٹانگیں پھیلا دیں اور راحیل کو اپنی بنا جھانٹوں والی صاف چاٹ گوری چوت کا کھلا نظارہ دکھانا شروع کر دیا۔ وہ آدمی ابھی بھی مجھے لگاتار دیکھ رہا تھا۔ میرے بدن میں سیکس کی عجیب سی سنسناہٹ  ہونے لگی اور میں نے بھی  ہاٹ  ہو کر اس گورے آدمی کو اپنی ٹانگیں پھیلا کے اپنی پوری کھلی چوت کے درشن کرانا شروع کر دیا۔ میرے دیکھتے دیکھتے اس گورے آدمی کا لنڈ تن کر 8 انچ لمبا اور قریب 4 انچ موٹا موصل جیسا ہو گیا۔ اس کے لنڈ کا ٹوپا بھی اپنا گھونگھٹ اتار کر باہر نکل آیا۔ شاید اس ریزورٹ پر اس آدمی کا لنڈ باقی سبھی مردوں کے لنڈ کے مقابلے سب سے لمبا اور موٹا تھا۔

یہ سب دیکھ کر راحیل نے میری چوت میں انگلی ڈال کر دیکھا اور اردو میں کہا کہ تمہاری چوت تو بہنے والی ہے۔ کیا تم کو اس آدمی کا لنڈ دیکھنے میں اتنا مزہ آ رہا ہے۔ میں نے کہا ہاں ،  مجھے اس گورے آدمی کے گدھے جیسے لنڈ کے سائز کو دیکھ کر مزہ آ رہا ہے۔ یہ آدمی تو بڑی اچھی چدائی کرتا ہوگا۔ اس کی عورت تو مست ہو جاتی ہوگی۔ تمھارے لنڈ سے تو کافی لمبا اور موٹا ہے اس کا”۔ یہ سن کر راحیل نے مجھے بتایا کہ اس کا لنڈ بھی اس کی عورت کی بنا جھانٹوں والی صاف چاٹ گوری چوت دیکھ کر مست ہو رہا ہے۔ ان لوگوں کو اردو نہیں آتی تھی اس لیے وہ کچھ نہیں سمجھ سکے۔ لیکن شاید وہ یہ سمجھ گئے کہ ہم ان کے لنڈ اور چوت کے بارے میں ہی بات کر رہے ہیں۔ تبھی وہ دونوں اٹھ کر ہمارے بالکل پاس آ کر بیٹھ گئے اور راحیل سے انگریزی میں باتیں  کرنے لگے۔ راحیل نے اردو میں ٹرانسلیٹ کر کے مجھ سے پوچھا “ یہ رابرٹ اور اس کی وائف جولی ہیں۔ بیلجیم سے یہاں ہماری طرح ہی گھومنے آئے ہیں۔ رابرٹ کو تمھاری چوت بہت پسند آئی ہے۔ وہ پوچھ رہا ہے کہ اگر تم برا نہ مانو تو وہ تم کو چودنا چاہتا ہے اور جولی بھی میرے 6” لمبے لنڈ کا سواد لینا چاہتی ہے۔ میں اس کو کیا جواب دوں۔” یہ سن کر میری چوت تو بالکل گیلی ہو گئی اور میری نظر رابرٹ کے لنڈ پر ہی چپک گئی جو بالکل پھن پھنا کر ٹاور کی طرح کھڑا ہو گیا تھا۔ میں نے دھیرے سے اردو میں راحیل سے کہا “ آپ جانو، میں کیا کہوں”۔ راحیل میری طرف ہنس کے بولا “ ندرت ڈارلنگ، چود لو، بہت مزہ آئے گا۔ تمھاری چوت کوئی گھس تو نہیں جائے گی۔ یہ تم پر مر مٹا ہے ۔اس کے لن سے فل مزے لو ۔ میرے لنڈ سے تو روز ہی چودتی ہو، آج ٹیسٹ بھی بدل جائے گا، بیچارے کا بھی بھلا ہو جائے گا۔ دیکھو اگر تم کسی دوسرے مرد سے بھی چُد جاؤ تو بھی مجھے کوئی اعتراض  نہیں ہے، یہاں کوئی ہمیں جانتا بھی نہیں ہے اس لیے کوئی خطرہ بھی نہیں ہے۔ ایسا موقع بار بار نہیں ملتا” میں شرما کر ہنس دی اور بولی “ ٹھیک ہے، جیسا آپ ٹھیک سمجھتے ہو۔” راحیل نے تبھی انگریزی میں دونوں کو میرا اپنی وائف بتا کر انٹروڈکشن کرایا اور ساتھ ساتھ مست کرنے کے لیے ہاں  کر دی اور کہا کہ وہ شام کو ریزورٹ میں ہمارے کمرے میں آ جائیں اور اپنا روم نمبر بھی دے دیا۔ جیسا میں نے کہا، کہ یہ ایک نیوڈ ریزورٹ تھا اور زیادہ تر لوگ ریزورٹ میں بھی ننگے ہی رہتے تھے، یہاں تک کہ ریسٹورنٹ میں بھی بالکل ننگے ہی چلے جاتے اور کھانا کھاتے۔ روم سروس کے لیے جو ویٹر اور ویٹریس آتے وہ بھی بالکل ننگے ہوتے تھے۔ وہاں شرم نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ شام کو جیسے ہی ہم ہم دونوں اپنے کمرے میں پہنچ کر نہانے کی سوچ ہی رہے تھے کہ رابرٹ اور جولی دونوں ہمارے کمرے میں آ گئے۔

وہ دونوں اب بھی بالکل ننگے تھے۔ راحیل نے کہا کہ ہم نہانے ہی جا رہے تھے اور ان دونوں کو صوفے پر بیٹھنے کو کہا۔ اس پر رابرٹ اور جولی دونوں ساتھ ساتھ انگریزی میں بولے “ How about taking bath together”۔ راحیل نے انہیں OK کہا اور مجھ سے بولا “ چلو ہم چاروں سب ساتھ ساتھ ہی نہا لیتے ہیں، پھر چدائی کریں گے” اور ہم سب باتھ روم میں چلے گئے۔ میں رابرٹ کی طرف دیکھ کر مسکرا دی۔ اس کا کھڑا ہوا لنڈ دیکھ کر میرا ہاتھ انجانے میں میری چوت پر چلا گیا اور میں اپنی چوت میں اس کے سامنے ہی انگلی کرنے لگی۔ یہ دیکھ کر راحیل بولا “ ارے تم کیوں اپنی چوت میں انگلی کر رہی ہو. تم تو اپنے ہاتھ سے رابرٹ کے لنڈ کا مزہ لو اور پھر جم کے چودو. Rober why don’t you help her.” رابرٹ نے تبھی ایک ہاتھ سے میری چوچیوں کو مسلنا شروع کر دیا اور دوسرے ہاتھ کی دو انگلیاں میری چوت میں ڈال دیں۔ مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں بھی اپنے ایک ہاتھ سے اس کے لمبے اور موٹے لنڈ کو کس کے پکڑ کر آگے پیچھے کرنے لگی۔ اس کے لنڈ کا سپوڑا پیوش کے لنڈ کے سپوڑے سے کافی بڑا تھا اور بالکل پنک کلر کا تھا۔ ادھر جولی اور راحیل شاور کے نیچے ایک دوسرے سے چپٹے کھڑے تھے اور جولی راحیل کے لنڈ کو پکڑ کر کھینچ کھینچ کر ہلا رہی تھی۔ راحیل ایک ہاتھ سے جولی کے دونوں ننگے چوتڑوں کو مسل رہے تھے اور دوسرے ہاتھ سے اس کی چوت میں انگلی سے چود رہے تھے۔ میں نے بھی رابرٹ کے تنے ہوئے لنڈ کو اتنا چوسا کہ اس کے سپوڑے سے چکنا چکنا پانی نکلنے لگا۔ ہم دونوں وہیں باتھ روم فلور پر 69 کے پوز میں لیٹ گئے۔ رابرٹ کی جیبھ میری چوت میں آگ لگا رہی تھی۔ میں رابرٹ کے لنڈ کو ہاتھ سے پکڑ کر کھینچ کھینچ کے چوس رہی تھی۔ تبھی رابرٹ میرے منہ میں ہی جھاڑ گیا۔

میں تو اس کے لنڈ سے نکالے ڈسچارج کی مقدار دیکھ کر ہی حیران رہ گئی. قریب ایک کٹوری سفید سفید گڑھا گڑھا مال اس کے لنڈ لنڈ سے نکلا جو میرے منہ میں بھر گیا۔ میں دھیرے دھیرے اس سارے کھٹے کھٹے مال کو اپنی جیبھ سے چاٹ چاٹ کر پی گئی۔ راحیل کے لنڈ سے تو اس کا قریب آدھا مال ہی نکلتا ہے۔ میرا من ابھی بھرا نہیں تھا اس لیے اس کے جھاڑے ہوئے لمبے لٹکتے ہوئے لنڈ کو میں نے پھر سے چوسنا شروع کر دیا۔ رابرٹ ابھی بھی میری چوت چاٹنے میں لگا تھا۔ میں تو یہ سوچ کر مزے میں بالکل پاگل سی ہو گئی کہ کوئی دوسرا مرد میری چوت میرے شوہر کے سامنے ہی چاٹ رہا ہے۔ ادھر جولی بھی اب شاور کے نیچے بیٹھ کر راحیل کا لنڈ زور زور سے چوس رہی تھی۔ اس طرح نہانے نہانے میں ہی ہم سبھی بہت گرم ہو گئے۔

جب رابرٹ سے نہیں رہا گیا اس نے مجھے وہیں باتھ روم کے فلور پر کُتیا کی طرح پوز بنا کر بٹھا دیا اور میری دونوں ٹانگیں پھیلا کر پیچھے سے میری چوت میں اپنا 8 انچ لمبا اور 4 انچ موٹا گدھے جیسا لنڈ پیل دیا اور ایک زوردار دھکا لگایا۔ میری چوت چُدانے کے لیے بالکل گیلی ہو کر اتنا کھل گئی تھی کہ ایک ہی دھکے میں رابرٹ کا پورا لنڈ گپک گئی۔ اس کے دھکوں میں مجھے اتنا مزہ آ رہا تھا کہ میں بھی اپنے چوتڑ اُچھال اُچھال کر اپنی چوت میں اس کے لنڈ کے دھکوں کا مزہ لینے لگی۔

دو تین دھکوں میں ہی میری چوت پُچ پُچ کرنے لگی۔ چار پانچ دھکوں میں ہی میں جھاڑ گئی۔ لیکن رابرٹ کے لمبے لنڈ کے دھکے جاری تھے اور اس کے بعد تو میں نے پہلی بار multiple orgasm کا مطلب جانا کیونکہ ہر دوسرے دھکے پر میری چوت پانی چھوڑ رہی تھی۔ مجھے رابرٹ سے چُدانے میں بہت مزاآ رہا تھا کہ میں سسکاریاں بھر رہی تھی۔ میں ایکسائٹمنٹ میں اردو میں کئی بار بول بھی پڑی “ مجھے اور زور سے چودو. پورا لنڈ پیل دو. ہائے، میری چوت پھاڑ ڈالو.” رابرٹ بھی انگریزی میں کچھ کچھ بول رہا تھا جو میری سمجھ میں نہیں آیا۔ مجھے رابرٹ سے اس طرح کھل کر مستی میں چُدتے ہوئے دیکھ کر راحیل اتنا ہاٹ  ہو گئے کہ ان کے لن سے جولی کے منہ میں ہی پِچکاری چھوٹ گئی۔ جولی نے ان کا سارا سیمن اپنی زبان  سے چاٹ چاٹ کر پی لیا اور پھر سے راحیل کا لنڈ چوسنے لگی۔ شاید راحیل کو مجھے دوسرے مرد سے چُدتا ہوا دیکھ کر بہت مزہ آیا تبھی اتنا جلدی جھاڑ گئے تھے۔ قریب مجھے 15-20 منٹ تک رابرٹ نے کئی سارے پوز میں کبھی آگے سے، کبھی پیچھے سے، کبھی کھڑے کھڑے اور کبھی اپنے لنڈ پر بٹھا کر وہیں پر راحیل اور جولی کے سامنے چُودا اور میری چوت میں اپنا سارا مال ایک بار پھر سے نکال دیا۔ ہم دونوں اب تھک کر الگ ہو گئے۔ میں سوچ رہی تھی کہ اگر رابرٹ پاکستانی ہوتا اور اس کو اردو بھی آتی تو کتنا مزہ آتا۔ ہم کھل کر ایک دوسرے سے لنڈ اور چوت کی باتیں بھی کرتے۔ میری چوت سے رابرٹ کا سارا مال نکل نکل کر میری رانوں پر ٹپک رہا تھا۔ رابرٹ ابھی بھی میرے ممے مسل رہا تھا۔ اس کا لنڈ میری چوت کے رس سے گیلا ہو کر چمک رہا تھا اور گدھے کے لنڈ کی طرح نیچے لٹک گیا تھا۔ تب تک ہماری چدائی دیکھ کر راحیل کا لنڈ پھر سے تن کر کھڑا ہو گیا اور تبھی جولی نے راحیل کو نیچے فلور پر پیٹھ کے بل لٹا دیا اور راحیل کے لنڈ پر اپنی گیلی چوت رکھ کر ایسے بیٹھی کہ راحیل کا لنڈ اس کی چوت میں پھسلتا ہوا پورا کا پورا اندر چلا گیا۔

جولی اب راحیل کے اوپر چڑھ کر زور زور سے اپنے چوتڑ اُچھال اُچھال کر راحیل کے لنڈ کو اپنی چوت میں پلوا رہی تھی۔ اس کے ممے لٹکے ہوئے زور زور سے راحیل کے چہرے کے سامنے ہل رہے تھے اور وہ انہیں دونوں ہاتھ سے مسل رہا تھا۔ میں نے پہلی بار راحیل کو کسی دوسری عورت سے چُدتے ہوئے دیکھا اور میں شہوت سے  پھر سے گرم ہو گئی۔ میں نے پھر سے رابرٹ کے لنڈ کو چوسنا شروع کر دیا۔ رابرٹ بھی میری چوت میں انگلی ڈال ڈال کر اور نکال کر انگلی میں لگے میرے اور اس کے جھاڑے ہوئے مال کو چاٹنے لگا۔ اتنے زور سے جھڑا کر بھی میری چُداس شانتی نہیں ہوئی تھی اور میرا من کر رہا تھا کہ میں ساری رات رابرٹ کے اس موٹے اور لمبے لنڈ سے مزے لیتی رہوں۔ تبھی راحیل کے لنڈ نے جولی کی چوت میں پِچکاری مار دی. اس طرح کھیلتے کھیلتے قریب قریب تین گھنٹے نکل گئے تب راحیل نے بولا کہ چلو اب ریسٹورنٹ میں چل کر کھانا کھا لیتے ہیں۔ ہم سبھی باتھ روم سے ایک شاور لے کر باہر آ گئے اور ننگے ہی ریسٹورنٹ کی اور چل دیے۔ رابرٹ کا گدھے جیسا لمبا لنڈ چلتے سمے اس کی دونوں ٹانگوں کے بیچ لٹکا ہوا ایسے مستانہ ہو کر جھول رہا تھا کہ میں اس کے لن پر سے نظر ہٹا ہی نہیں پا رہی تھی۔ میں ابھی بھی رابرٹ کے لٹکتے ہوئے لنڈ کو دیکھ دیکھ کر اتنا مست ہوئی جا رہی تھی کہ میری چوت میں پھر سے کھجلی ہونے لگی۔ جولی اور راحیل تو چپک چپک کر چل رہے تھے اور راحیل کا لنڈ جولی نے اپنے ہاتھ میں تھام رکھا تھا۔

ریسٹورنٹ میں بھی میں ایک ہاتھ سے رابرٹ کے لنڈ سے ہی کھیلتی رہی اور رابرٹ میری چوچِیوں اور چوت سے. ریسٹورنٹ میں بیٹھے سبھی لوگ یہی کام کر رہے تھے۔ ہمارے پاس بیٹھا کپل تو ہمارے کھیل دیکھ کر اتنا گرم ہو گیا کہ وہیں ڈائننگ ٹیبل پر ہی چُدائی کرنے لگا۔ کھانا کھا کر جب ہم واپس اپنے کمرے کی طرف آ رہے تھے تو رابرٹ نے راحیل کو اپنا بیلجیم کا ایڈریس دیا اور کہا “ We are leaving tomorrow morning. Thanks for lovely evening together. Your wife is very sexy. Whenever you come to Belgium please stay with us so that we can **** again like this. We would welcome you.” راحیل نے بھی اپنا ایڈریس دیا اور ان دونوں کو پاکستان انوائٹ کیا اور کہا “ We are also leaving tomorrow. We really enjoyed your company” راحیل نے مجھے اردو میں ٹرانسلیٹ کر کے بتایا کہ یہ لوگ کل اپنے گھر واپس جا رہے ہیں اور ہمیں بیلجیم اپنے گھر پر انوائٹ کر رہے ہیں۔ میں نے راحیل سے پوچھا کہ آج رات تو یہیں پر ہیں نا۔ راحیل بولا ہاں، لیکن…. میں نے کہا “آج رات تو ہم سب ایک کمرے میں ہی …….” راحیل نے مسکرا کر مجھے گلے سے لگا کر چوم لیا اور بولا “ مزہ آ گیا ندرت، تم بہت سیکسی ہو۔” میں بولی “ راحیل میرا من ابھی بھرا نہیں ہے۔ میں پوری رات اتنے لمبے اور موٹے لنڈ کا مزہ لینا چاہتی ہوں۔ میں تو ابھی بھی اس کے موٹے اور لمبے لنڈ کی بھوکی ہوں۔ پھر موقع شاید نہ ملے۔” راحیل نے کہا “میں تو ڈر رہا تھا کہیں تم کو برا نہ لگے۔ میں بھی جولی کی چوت میں اپنا لنڈ رات بھر ڈال کر چودنا چاہتا ہوں” پھر راحیل نے رابرٹ اور جولی سے کہا “ My wife wants your cock for the whole night in her cunt. She wants to get fucked thoroughly by you. Would you mind to stay in our room for the whole night and Fuck my wife throughout the night. I shall also fuck Julie whole night.” وہ دونوں مسکرائے اور تیار ہو گئے۔ پھر تو ساری رات ایک ہی کمرے میں ساری بتیّاں جلا کر الگ الگ بستر پر ہم چاروں نے ایک دوسرے کو دیکھ دیکھ کر جی بھر کر ایسی چدائی کی میں جیون بھر کبھی بھول نہیں سکتی۔ اس رات رابرٹ کے اس لمبے لنڈ سے میں پتہ نہیں کتنی بار جھاڑی۔ رابرٹ نے بھی میری چوت میں پتہ نہیں کتنی پِچکاریاں ماری ہوں گی۔ میری چوت کا صبح تک اس کے لنڈ نے کھلا بھوسڑا بنا دیا تھا۔ ادھر جولی نے بھی راحیل سے چُدا چُدا کر راحیل کے لنڈ کو پورا نچوڑ کر صرف 3” کی لٹکی ہوئی لُلی جیسا کر دیا۔ صبح دونوں بستروں کی چادروں پر رات بھر کی چُدائی کے نقشے بنے ہوئے تھے۔ صبح اٹھ کر جب وہ دونوں جانے لگے تب بھی مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں نے پھر سے ایک آخری بار رابرٹ کے لنڈ کو چوس چوس کر اتنا گرم کر دیا کہ وہ میرے منہ میں ہی جھاڑ گیا۔ اس کا کٹوری بھر سارا سفید مال پی کر میں نے اس کو بوجھتے ہوئے دل سے گڈ بائے کہا۔ اب کراچی واپس آنے کے بعد ہم دونوں چدائی کرتے وقت ہمیشہ اس رات کی بات ضرور کرتے ہیں اور دونوں ہی اتجت ہو کر جھاڑ جاتے ہیں۔ میری آنکھوں کے سامنے رابرٹ کا گدھے جیسا موٹا اور لمبا لنڈ ابھی بھی رہتا ہے۔ رابرٹ کی ای میل اکثر آتی رہتی ہے۔ لاسٹ ای میل میں اس نے لکھا تھا کہ اگلے سال وہ اور جولی پاکستان آنے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔ میں تو تب سے رابرٹ کے لنڈ سے پھر چُدانے کے لیے پاگل سی ہوں۔ رابرٹ سے تو میں اب بالکل بے شرم ہو کر چُدا سکتی ہوں۔ راحیل کو معلوم ہے کہ مجھے دوسرے مرد سے چُدانے میں بہت مزہ آیا اس لیے راحیل مجھے بولتے ہیں کہ وہ میرے لیے ایسا ہی ایک موٹے اور لمبے لنڈ والا مرد پاکستان میں بھی ڈھونڈیں گے جسے اردو آتی ہو اور میں اس سے کھل کر بات بھی کر سکوں۔ لیکن وہ مرد بھروسہ مند تھی ہونا چاہیے جس سے یہ بات لیک ہونے کا خطرہ نہ ہو۔ لیکن شاید مجھے ایک پاکستانی مرد کے سامنے ننگے ہونے میں ہی بہت شرم آئے گی۔ پتہ نہیں کیسے ہوگا۔

میں نے تو سب راحیل پر ہی چھوڑ رکھا ہے۔ جس سے بھی چاہے چُدوائیں۔ فی الحال تو میں راحیل کے 6” لمبے پتلے سے لنڈ سے ہی مزہ لے رہی ہوں۔ میں نے بھی سوچا ہے کہ اپنی ایک کالج ٹائم کی سہیلی ریحانہ، جو بیوہ ہے اور لاہور میں رہتی ہے، کو بھی راحیل کے لنڈ کا مزہ دلواؤں گی۔ راحیل کو بھی مزہ آ جائے گا۔ مجھے معلوم ہے میری سہیلی تو مست ہو جائے گی کیونکہ پچھلے 6 سال سے اس کو لنڈ کا مزہ نہیں ملا ہے۔ مجھے اس پر پورا بھروسہ بھی ہے کہ یہ بات صرف ہم تینوں کے بیچ ہی رہے گی۔

 

❤️ اردو کی دلکش شہوانی، رومانوی اور شہوت انگیز جذبات سے بھرپور کہانیاں پڑھنے کے لیے ہمارے فورمز کو جوائن کریں:

ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی