شام کے پانچ بج دہے تھے عرفان اپنی ایک سال چھوٹی بہن کشمالہ کے ساتھ بائیک پر بیٹھے ٹیوشن سنٹر سے نکل کر گھر کی طرف جا رہا تھا دونو بہن بھائی روز کے جیسے باتیں کرتے اور شام کا خوبصورت منظر انجوائے کرتے گھر کی طرف جا رہے تھے عرفان اور کشمالہ دو ہی بہن بھائی تھے دونو کی عمر میں صرف ایک سال کا فرق تھا ہم عمر ہونے کے ساتھ ساتھ دوںو ہم جماعت بھی تھے کشمالہ لڑکیوں کے سکول میں گیارہویں کلاس کی طالبہ تھی اور عرفان بھی گیارہویں کلاس میں تھا عرفان اور کشمالہ دونو کی ایک دوسرے سے کافی بنتی تھی دونو بہن بھائی ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے دوست بھی تھے گھر پہنچ کر معمول کے مطابق دونو اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے عرفان کا گھر چھوٹا مگر کافی خوبصورت تھاگھر میں ٹوٹل دو کمرے اور ایک کچن تھا ایک کمرہ امی ابو کا تھا اور دوسرا کمرہ عرفان اور کشمالہ کا۔عرفان کے ابو نے چھت پر کمرے اور بنانے کا سوچا ہوا تھا مگر مالی حالات کی وجہ سے وہ ابھی تک نا بن سکا تھا
کشمالہ اور عرفان دونو بچپن سے ایک ہی کمرے میں سوتے آۓ تھے اس کی وجہ ایک تو گھر میں جگہ کی کمی اور دوسرا بہن بھائی اور ہم کلاس ہونے کی وجہ سے پڑھائی کے لیے ان کو اکھٹا رکھا گیا تھا
ایک رات عرفان کمرے میں بیٹھا پڑھائی کر رہا تھا وہیں کشمالہ اپنے بستر پر سو رہی تھی عرفان کا صبح سکول میں ٹیسٹ تھا اس لیے وہ تیاری میں مصروف تھا کہ تبھی ریاضی کے ایک سوال میں وہ اٹک گیا اور لاکھ کوششوں کے باوجود اس کو حل نا کر پایا تبھی اس نے سوچا کہ وہ کشمالہ سے مدد لیتا ہے عرفان نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کشمالہ اپنے بستر پر سو رہی تھی عرفان نے کشمالہ کو سوتے دیکھ کر واپس اپنی پڑھائی کرنا چاہی مگر نا جانے اس کی نظریں واپسی کا راستہ بھول چکی تھی وہ کشمالہ کو دیکھے جا رہا تھا جیسے اس نے دنیا کی کوئی خوبصورت ترین چیز دیکھ لی ہو کشمالہ سیدھی لیٹی ہوئی تھی اور اس کی چھاتیوں کا ابھار اس کے سینے پر واضح تھا کشمالہ کی گول مٹول چھاتیاں دیکھ عرفان اپنی نظروں کو نہیں روک پا رہا تھا کشمالہ کی قمیص کا پلو تھوڑا اوپر سے ہٹا ہوا تھا جس کی وجہ سے اس کی گداز رانیں عرفان کی نظروں کو اور زیادہ جگڑ چکی تھی عرفان ایک کشمالہ کے جسم کی خوبصورتی میں کھو سا گیا وہ کافی دیر کشمالہ کے جسم کو گھورتا رہا نا جانے کب اس کا عضو تن کر اپنی نئی جوانی کی آگ میں جلنے لگا
تبھی عرفان کو ہوش آیا اس نے جلدی سے اپنا منہ دوسری سائیڈ کیا اور کتاب پر نظر جما لی مگر اس کے دماغ میں ابھی تک کشمالہ کا وہ حسن چھایا ہوا تھا عرفان بار بار خود کو روک رہا تھا کہ کشمالہ اس کی سگی بہن ہے وہ غلط کر رہا ہے مگر دوسری طرف کشمالہ کا حسن تھا جو عرفان کی ہوش و حواس پر حاوی ہو چکا تھا عرفان نے دوبارا پڑھنا چاہا مگر اس کا دماغ جیسے کہیں اٹک کر رہ گیا ہو وہ اٹھا اور کمرے کی لائٹ بند کر کے کشمالہ کے ساتھ لگے اپنے بستر پر لیٹ گیا اور کچھ دیر بعد وہ نیند کی آغوش میں چلا گیا اگلی صبح عرفان کی انکھ کھلی تو اس کی نظر کشمالہ پر پڑی جو اسے آوازیں دیتے سکول کی تیاری میں مصروف تھی
کشمالہ گیلے بالوں میں کنگھی کرتے عرفان کو آواز دے رہی تھی
کشمالہ ۔۔۔۔۔۔عرفان اٹھ جاؤ اج پھر لیٹ کر دو گے میں بتا رہی آج دیر ہوئی تو تمھاری خیر نہیں
عرفان کشمالہ کی باتوں پر دیھان دیے بغیر رات کی منظر میں ایک بار پھر کھو سا گیا اور کشمالہ کو پھر سے دیکھنے لگا
کشمالہ سکول کے کپڑوں میں قیامت ڈھا رہی تھی اس کے گیلے بال ایسے لگ رہے تھے جیسے کسی گلاب کے پھول پر اوس پڑی ہو کشمالہ نے ڈوبٹا نہیں لیا ہوا تھا اور اس کی نئی جوان کوتی گول مڈول چھاتیاں عرفان کے ہوش پھر سے اڑا چکی تھی اور پچھے کو نکلی نازک خوبصورت چوتڑ عرفان کو مدہوش کر رہے تھے اس کا دل کر رہا تھا کہ کاش یہ لمحہ ہمیشہ کے لیے یہی رک جاۓ مگر اتنے میں کشمالہ نے شیشے سے نظر ہٹا کر کنگھی کرتے پیچھے عرفان کی طرف دیکھا اور ایک تنگ ہوتے انداز میں بولی
کشمالہ ۔۔۔۔۔۔بھائی اٹھ بھی جاؤ نا پلیز ادھا گھنٹا بچا ہے آج پھر تم لیٹ کر دو گے
عرفان کو کشمالہ کا یہ انداز بہت پیارا لگا اور وہ بنا کچھ بولے ہلکا۔سا مسکرا کر اٹھنے لگا تبھی اسے محسوس ہوا جے اس کا عضو تن کر راڈ بنا ہوا ہے بہت ہمت کر کے وہ اٹھا اور کشمالہ سے خود کو چھپاتے باہر کی جانب چلا گیا
اب عرفان کی سوچ اپنی بہن کی جانب بدل چکی تھی اور وہ اس کے حسن میں پوری طرح قید ہو چکا تھا وہ روز کشمالہ کو گھورتا بائیک پر پیچھے ہو کر بیٹھتا تاکہ کشمالہ کے سینے کا محسوس کر سکے اور پہلے سے زیادہ کشمالہ کے ساتھ باتیں کرنے اور گھومنے لگا شروع میں تو کشمالہ عرفان کی اس بڑھتی قربت کو نا سمجھ پائی کیونکہ وہ دونو بچپن سے دوست جیسے تھے مگر اب کشمالہ کو بھی شک ہونے لگا تھا کہ عرفان اسے عجیب نظروں سے دیکھتا ہے اور ہنسی مزاق میں اس کے جسم کے مختلف حصوں کو ہاتھ لگا جاتا ہے جہاں ایک بھائی کا ہاتھ لگانا تو دور دیکھنا بھی غلط ہے مگر وہ خاموش رہی کہ شاید یہ اس کا وہم ہو گا عرفان اس کا بھائی ہے اور بچپن سے ایک دوسرے کے ساتھ کھیل کود کر بڑے ہوۓ ہیں تو اس لیے وہ اب بھی ایسا ہی ہے
دن گزرتے گئے اور عرفان کا حرکتیں اور کشمالہ کو گھورنا بڑھتا چلا گیا اب عرفان کی نئی جوانی کی آگ اسے سکون نہیں لینے دے رہی تھی کشمالہ کا جسم اسے اس قدر پاگل کر چکا تھا کہ وہ بہن کے رشتے کو مکمل بھول چکا تھا ایک رات دوںو اپنے کمرے میں تھے عرفان نے منصوبہ بنایا کہ آج وہ کشمالہ کہ جسم کے مزے لے گا جب وہ سو جاۓ گی تب وہ اس کی چھاتیوں کا مزہ لے گا وہیں اس کو یہ ڈر بھی تھا کہ اگر کشمالہ جاگ گئی تو کام خراب بھی ہو سکتا ہے مگر تبھی اس جے دماغ میں آیا کہ اگر وہ جاگ گئی تو وہ اسے اٹھانے کا بہانہ کر دے گا تاکہ اسے شک نا۔ہو یہ منصوبہ بنا کر عرفان جان بوجھ کر پڑھنے بیٹھ گیا اور انتطار کرنے لگا کہ جب کشمالہ سو جاۓ تب وہ اس کے خوبصورت جسم کے مزے لے گا
جب کشمالہ سو گئی تو عرفان کرسی سے اٹھا اور کشمالہ کے سرھانے جا کر اس کے جسم کو گھورنے لگا کشمالہ کی ابھری چھاتیاں عرفان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ختم کر چکی تھی عرفان کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ ان چھاتیوں کو پکر کر اپنے ہاتھوں میں مسلے اور خوب پیار کرے اس نے آہستہ سے اپنا ہاتھ کشمالہ کی چھاتیوں کی طرف بڑھایا اور ان کو اوپر اوپر سے ہی آہستہ آہستہ سہلانے لگا کشمالہ کی چھاتیوں پر ہاتھ لگتے ہی عرفان کے جسم میں مانو بجلی سے دوڑ گئی اس کا جسم آگ کی طرح تپنے لگا اور سردی میں بھی اس کے پسینے نکلنے لگے عدنان کی زندگی میں یہ پہلی بار تھا جب اس نے کسی لڑکی کے اس ںازک حصے کو چھوا تھا کشمالہ کی چھاتیوں کی نرماہٹ عرفان کو مدہوش کر گئی اور چھاتیوں کی گرمی سے اسے ایسے لگنے لگا جیسے اس کا جسم آگ میں جل رہا ہو عرفان النی انگلیاں کشمالہ کی چھاتیوں پر ہلکا ہلکا چلا رہا تھا اسے ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسےوہ کسی گلاب کی نرم و ملائم پتی کو اپنے ہاتھوں میں لیے ہوۓ ہو
عرفان کا دل چاہ رہا تھا وہ کشمالہ کی چھاتیوں کو اپنے ہاتھوں میں دبوچ لے مگر کشمالہ کے اٹھ جانے کہ ڈر سے وہ اتنے میں ہی صبر کرنے پر مجبور تھا کشمالہ کی چھاتیوں پر انگلیاں چلاتے عرفان اس کے بستر کی ایک سائیڈ آہستہ سے بیٹھ گیا مگر تبھی کشمالہ کی نید اکھڑ چکی تھی اور نیم خماری میں تھی کشمالہ کو ابھی سمجھ نہیں آیا کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا وہ وہیں لیٹی رہی وہیں عرفان اپنا منہ کشمالہ کہ چہرے کی طرف کر کے چومنے کی کوشش کرنے لگا کشمالہ کے قریب ہوتے ہی اس کے جسم کی خوشبو عرفان کو اور زیادہ مست کر گئی وہ حیران تھا کہ اس کی بہن آج اسے جس قدر پیاری لگ رہی تھی اس کا بس چلتا تو وہ ساری رات اس سے ٹوٹ کر پیار کرتا عرفان نے آہستہ سے کشمالہ کی گوری گالوں کو چوما کشمالہ کے جسم کا لمس اسے پاگل کیے جا رہا تھا وہ اب اپنے قابو میں نا رہا تھا عرفان نے کشمالہ کے نازک ہونٹوں پر بھی ایک ہلکا سا بوسا دیا اور پھر ایک گہری سانس لے کر کشمالہ کے جسم کی خوشبو کو اپنے اندر اتارنے لگا
اب کشمالہ نیند مکمل ٹوٹ چکی تھی اور اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا یہ کیا ہو رہا وہ اس بات کو سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اس کا سگا بھائی اس کے ساتھ یہ سب کیا یہ خواب ہے یا حقیقت کشمالہ ابھی آنکھیں بند کیے یہی سوچ رہی تھی کہ ایک دم اسے جھٹکا لگا اور اس ںے آنکھیں کھول دی عرفان تب تک پیچھے ہٹ چکا تھا اور اس کا ہاتھ ابھی بھی کشمالہ کی چھاتیوں پر تھا
عرفان نے کشمالہ کو اٹھتا دیکھ اس کے بھی ہوش اڑ گئے اور وہ جلدی سے ایسے ایکٹنگ کرنے لگا جیسے کو کشمالہ کو جگانے آیا ہو
اس نے اپنا ہاتھ جلدی سے کشمالہ کے سینے سے ہٹایا اور بازو کو پکڑ کر ہلاتے بولا
کشمالہ۔۔کشمالہ۔۔۔اٹھو مجھے ایک ریاضی کا سوال تو سمجھا دو صبح میں ٹیسٹ ہے
کشمالہ اب تک اٹھ کر بیٹھ چکی تھی عرفان یہی سمجھ رہا تھا کہ شاید کشمالہ کو کچھ معلوم نہیں مگر وہیں کشمالہ سب جان چکی تھی مگر وہ خاموش رہی
کشمالہ اٹھی اور پھر عرفان کو سوال سمجھانے لگی سوال کرنے کے بعد دوںو سو گئے مگر کشمالہ بس لیٹے جاگتی رہی اور وہ سب سوچتی رہی اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس کا سگا بھائی اس کے ساتھ یہ سب کر رہا تھا وہیں عرفان مطمعن تھا کہ کشمالہ کو کچھ پتا نہیں
اگلی صبح اتوار تھی عرفان کافی لیٹ اٹھا اور نہا دھو کر کچن میں چلا گیا جہاں کشمالہ اس کے لیے ناشتہ بنا رہی تھی عرفان نے کچھ سرسری باتیں کی اور پھر ناشتہ کرنے بیٹھ گیا وہیں کشمالہ اسے ناشتہ دے کر باہر چلی گئی اور کپڑے دھونے لگی مگر اس نے عرفان سے کوئی بات نا کی
عرفان کو اب ہلکا شک ہونے لگا کہ کہیں کشمالہ کو رات سب پتا تو نہیں چل گیا مگر پھر اس ںے خود کو یہ سوچ کر دلاسا دیا کہ اگر اسے پتا چلا ہوتا تو وہ رات کو ہی قیامت کھڑی کر دیتی
اگلی رات عرفان پھر سے کشمالہ کے جسم کے مزے لینے کے موڈ میں تھا کیونکہ کشمالہ کے جسم کا لمس اسے نشے جیسے چڑھ چکا تھا وہ رات پھر سے پڑھنے بیٹھ گیا اور انتطار کرنے لگا کہ کب کشمالہ سو جاۓ اور وہ جا کر اس کے جسم جے مزے لے کچھ گھنٹے گزرنے جے بعد جب اسے لگا کہ اب کشمالہ سو چکی ہو گی وہ اٹھا اور پھر سے جا کر کشمالہ کے بستر کی ایک سائیڈ بیٹھ گیا کشمالہ آج جاگ رہی تھی کیونکہ کل رات کے واقع کے بعد اسے نیند کہاں آنی تھی عرفان بیٹھتے ہی اپنا ہاتھ آہستہ آہستہ کشمالہ جے نرم وگداز رانوں پر پھیرنے لگا عرفان کا ہاتھ اپنی رانوں پر محسوس کرتے ہی کشمالہ کو ایک دم جھٹکا سا لگا اس کا دل کررہا تھا وہ اٹھ کر عرفان کے منہ پر ایک تھپڑ مارے پر نا جانے اس کی ہمت اس کا ساتھ چھوڑ کر کہاں چپ گئی تھی وہ چپ چاپ لیٹی رہی اس کی ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ وہ کیسے کچھ بولے اسے ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے اس جے بولنے اور ہلنے کی طاقت ختم ہو چکی ہو عرفان بے خبر کشمالہ کے جسم میں کھویا اس کی کبھی راںو کو سہلاتا تو کبھی اس کے تنے مموں کو اپنی انگلیوں کے جال میں پھنساتا پھر عرفان ںے کشمالہ جے چہرے اور ہونٹوں کو چوما اور تقریباً ایک کھنٹا کشمالہ کے جسم سے کھیل کر وہ اٹھ کر واپس اپنے بستر پر آ لیٹا وہیں کشمالہ بے سدھ لیٹی اس سب کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی
دن گزرنے لگے عرفان ہر دوسرے دن موقع پا کر رات کو کشمالہ کے جسم کے مزے لیتا کشمالہ جانتے ہوۓ بھی چپ تھی ایک اس وجہ سے کہ آخر وہ عدنان کو کیا بولے اس کی ہمت ہمیشہ جواب دے جاتی اور دوسرا یہ کہ اگر امی ابو کو بتاۓ بھی تو گھر میں بہت بڑا فساد ہو گا اور بدنامی الگ مگر ایک بات اور بھی تھی جسے کشمالہ اگنور کر رہی تھی وہ یہ کہ اب اسے بھی یہ سب کچھ کچھ اچھا لگنے لگا تھا وہ بھی جوان تھی اور نئی جوانی کی آگ اسے بھی غلط یا صحیح کا فرق سمجھنے سے بے گانہ کر چکی تھی وہیں عرفان اپنی مستی میں مست تھا اور اب اس کا ڈر کافی حد تک کم ہو چکا تھا عرفان کو بھی تھوڑا شک تھا کہ شاید کشمالہ کو معلوم ہو چکا ہے مگر وہ خوش تھا کیونکہ دونو باتوں میں اس کا فائدہ تھا اگر کشمالہ کو معلوم ہو چکا ہے اور اب تک وہ چپ ہے تو مطلب اسے بھی اچھا لگتا ہے اور اگر نہیں معلوم تو اور بھی اچھی بات ہے
دن گزرنے لگے ایک رات دوںو اپنے کمرے میں سو رہے تھےرات بارہ بجے کا ٹائم تھا باہر کافی زیادہ بارش ہو رہی تھی دونو اپنے اپنے بستر پر گہری نیند میں تھے کہ اچانک عرفان کی انکھ کھل گئی اسے محسوس ہوا جیسے اس پر کوئی پانی پھینک رہا ہو جب اس نے دیکھا تو معلوم ہوا کہ چھت سے پانی ٹپک رہا جو سیدھا اس کی چارپائی پر آ رہا تھا عدنان جلدی سے اٹھا اور سوچنے لگا کہ وہ کیا کرے اور پھر وہ چارپائی کو کھینچ کر سائیڈ کرنے لگا تاکہ جہاں سے چھت ٹپک رہی وہاں سے چارپائی سائیڈ ہو جاۓ چارپائی کی آواز سن کر کشمالہ بھی اٹھ گئی اور عدنان کو چارپائی کھسیٹتے دیکھ کر بولی کیا ہوا
عرفان۔۔۔۔۔چھت سے پانی آ رہا
یہ سن کر کشمالہ بھی اٹھنے لگی اور اپنا ڈوبٹا اٹھا کر صرف گلے میں ڈالا کر چارپائی سے نیچے آگئی
کشمالہ۔۔۔۔۔یہ مصیبت آج کیوں ٹپکنے لگ گئی
عرفان تب تک چارپائی ایک سائیڈ تھوڑی کر چکا تھا مگر اب بھی ٹپکنے والی جگہ سے چارپائی سائیڈ نہیں ہو پائی تھی یہ کمرہ کافی چھوٹا تھا اور پھر گھر کا سامان بکسے وغیرہ رکھے ہونے کی وجہ سے بمشکل دو چارپائیاں ہی آتی اب اتنی جگہ نا تھی کہ چارپائی کو اور سائیڈ کیا جا سکتا
کشمالہ۔۔۔۔۔پانی تو ابھی بھی اوپر آ رہا ہے ادھر اور جگہ بھی نہیں ہے پاگل اوپر سے بستر کو سائیڈ کرو وہ بھی گیلا ہو رہا
عدنان نے بستر کو سمیٹ کر اوپر کی جانب کر دیا اور دوںو اب کھڑے ہو کر سوچنے لگے
عدنان۔۔۔۔اب کیا کریں یہ تو بلکل درمیان سے ٹپک رہا چارپائی اور سائیڈ ہو بھی نہیں سکتی ادھر جگہ بھی نہیں
کشمالہ کچھ دیر خاموش رہی اور پھر بولی اب ایسا کرو چارپائی کو کھڑا کر دو اور بستر کو اٹھا کر ایک کرسی پر رکھنے لگی
عرفان۔۔۔۔۔اچھا جی اور محترمہ میں سوؤں گا کہاں
کشمالہ بستر کو رکھتے بولی
میرے سر پر۔۔۔اب ایک ہی چارپائی پر سونا ہو گا رات گزرنی ہے صبح دیکھا جاۓ گا اور کچھ کر نہیں سکتے
یہ سن کر ایک دم عرفان کاچہرا کھل سا گیا اس جے دماغ ایک دم مشین کی طرح چلنے لگا اس نے جلدی سے چارپائی کو کھڑا کر دیا اور ایک برتن اٹھا کر ٹپکنے والی جگہ رکھ دیا
کشمالہ اب تک اپنے بستر میں کھس چکی تھی اور چارپائی کی ایک سائیڈ ہو کر لیٹ گئی عرفان بھی جلدی سے چارپائی کی ایک سائیڈ ہو کر لیٹ گیا چارپائی تھوڑی چھوٹی ہونے کی وجہ سے دونو کہ جسم ایک دوسرے سے بلکل چپک چکے تھے کشمالہ کا جسم عرفان کے جسم سے لگتے ہی اس کا عضو فل تیار ہو گیا وہیں کشمالہ کا جسم بھی اسے میٹھا میٹھا مزہ دینے لگا کچھ دیر دوںو سیدھے لیٹے رہے مگر عرفاں کا تنا ہوا لن کمبل میں ابھار پیدا کر رہا تھا جسے کمشالہ کمرے میں ہلکی روشنی ہونے کی وجہ سے دیکھ چکی تھی عرفان کی مستی اپنی عروج کو پہنچ چکی تھی مزید اب اس سے انتظار ممکن نا تھا وہ آہستہ سے ایک سائیڈ ہوا اور کشمالہ کی طرف کروٹ بدل کر لیٹ گیا وہ ابھی اس کشمکش میں تھا کہ کشمالہ جاگ رہی یا سو رہی کچھ دیر گزری تو کشمالہ نے بھی کروٹ بدلی
کشمالہ کی نرم و ںازک گانڈ عرفان کی گانڈ سے مکمل چپک چکی تھی کسی نرم جیلی کے جیسے احساس عرفان کے جسم میں آگ بھرنے لگا کشمالہ کی گانڈ کی گرمی عرفان کے جسم کو پگلاۓ جا رہی تھی وہیں کشمالہ بھی مست ہو چکی تھی اور اب جوانی کی آگ میں صحیح غلط کو بھول چکی تھی اس کی شرمگاہ نے بھی ہلکا پانی چھوڑنا شروع کر دیا تھا عرفان اب مستی کے ہاتھوں مجبور ہو چکا تھا عرفان ںے کروٹ بدلی اور کشمالہ کو پیچھے سے چپک کر لیٹ گیا اس کا عضو عین کشمالہ کی نازک گداز پہاڑیوں میں پیوست سا ہو گیا عرفان کا لن جو کہ راڈ جسا تنا ہوا تھا سیدھا دو پہاڑوں کی لکیر میں جا کر ایسے فٹ ہوا جیسے یہ جگہ خاص اسے کہ لیے بنائی گئی ہو کشمالہ کی نرم گانڈ کی گرمی لن پر محسوس کرتے ہی عرفان لزت کی وادیوں میں غوطہ خور کو گیا اور دنیا سے بے خبر لزت میں شرابور ہوا جا رہا تھا گانڈ کی گرمی اس کے لن پر ایسے محسوس ہو رہی تھی جیسے کسی بھٹی میں اسے جلایا جا رہا ہو اور یہ میٹھا درد اسے بہت لزت دے رہا تھا وہیں کشمالہ کی گانڈ پر عرفان کا لن پیوست ہوتے ہی اس کے جسم میں بجلی سی دوڑ گئی اور اس کا جسم ایک دم کانپ سا گیا جسے عرفان نے بھی محسوس کیا تھا عرفان اب جان چکا تھا کہ کشمالہ جاگ رہی ہے اور سب کو جانتی ہے اور اسے اب بات کی اور زیادہ خوشی ہو رہی تھی کہ یہ سب جانتے ہوۓ وہ چپ ہے تو اس کا مطلب اسے بھی یہ سب اچھا لگتا ہے عرفان اب آزاد ہو چکا تھا اور اب کھل کر اپنے مزہ لینا چاہتا تھا مگر وہ سب جلد بازی میں خراب بھی نہیں کرنا چاہتا تھا وہ بھی یہی چاہتا تھا کہ وہ بنا بات کیسے یہ سب کرتے رہیں تاکہ ایک بہن بھائی کہ رشتے کی ہلکی سی لکیر بھی موجود رہے اور دوںو اپنے جسمانی خواہشات کو پورا بھی کر لیں
کچھ دیر عرفان ویسے ہی لیٹا رہا اور پھر آہستہ سے اس ںے اپنا ایک ہاتھ آگے بڑھا کر کشمالہ کا بائیا مما اپنے ہاتھ میں آہستہ سے جکڑا کشمالہ کی ایک ہلکی سی سسکی نکلی جسے سن کر عرفان کی مستی ڈبل ہو گئی اور شاید یہ اسے اوکے کا سنگنل بھی تھا اب عدنان نے دوسری چھاتی بھی اپنے دوسرے ہاتھ میں لی اور آہستہ آہستہ دباںے لگا اور کشمالہ کی گردن کو بوسے دینے لگا کشمالہ مستی میں گم ہو چکی تھی جس لزت سے آج وہ روشناس ہوئی تھی وہ کبھی پہلے اسے نا ملی تھی مستی اس قدر بڑھ چکی تھی کہ کشمالہ کی آہستہ آہستہ لذت اور سکون بھری سسکیاں نکلنے لگے عرفان بھی اپنی بہن کے جسم کے ایک ایک حصے کو نچور رہا تھا جسے کو کافی عرصہ سے ترس رہا تھا عرفان اپنا لن آہستہ آہستہ کشمالہ کی گانڈ کے درمیان رگڑتا اس جے ممے پورے زور سے دبانے لگا جس سے کشمالہ کی سسکیاں بھی تھوڑی بلند ہونے لگی عرفان اب مکمل آزاد تھا کیونکہ کشمالہ سے گریں سگنل اسے مل چکا تھا کچھ دیا بعد عرفان نے کشمالہ کو سیدھا لیٹا دیا اور اس کے گالوں کو پاگلو جیسے چومنے لگا عرفان نے اپنے ہونٹ کشمالہ کے نازک ہونٹوں پر رکھ کر انہیں جکڑ لیا اور چوسنے لگا کشمالہ بھی اب عرفان کا بھرپور ساتھ دینے لگی اور عدنان کے ہونٹوں کو چوسنے لگی عدنان کا لن کشمالہ کی شرمگاہ پر تھا جو شلوار کہ اوپر سے ہی اس پر رگڑ رہا تھا اور پاگلوں جیسے ایک دوسرے کے ہونٹوں سے سیراب ہو رہے تھے اب دوںو کی مستی اپنے عروج کو پہنچ چکی تھی اور کسی قسم کی رکاوٹ کو وہ توڑتے چلے جا رہے تھے عرفان اب اوپر اٹھا اور کشمالہ کی قمیض اتار کر اس کے مموں کو آزاد کر دیا مموں کو آزاد کرتے ہی عرفان ان پر کسی بھوکے شیر کی طرح ٹوٹ پڑا اور چوسنے لگا کشمالہ مستی میں پاگل ہوۓ جا رہی تھی اس کی لزت بھری سسکیاں اور سکون بھری آہیں کمرے میں ایک الگ لزت بھرا ماحول بنا رہی تھی عرفان کافی دیر کشمالہ کے مموں کو چوستا رہا کشمالہ کے نرم و نازک ممے عرفان نے چوس چوس کر لال کر دیے تھے اب عرفان نے کشمالہ کی شلوار کو تھوڑا نیچے کیا اور اپنا لن بھی شلوار سے نکال کر کشمالہ کی نازک گلابی شرمگاہ پر فٹ کرتے اس کے اوپر لیٹ گیا اپنا لن کشمالہ کی شرمگاہ پر مسلتے عرفان اس کی گالوں اور ہونٹوں کو پاگلوں جیسے چومے جا رہا تھا اب دونوں انتہا کو پہنچ چکے تھے عرفان کے لن نے اپنا پانی چھوڑ دیا وہیں کشمالہ کی شرمگاہ کا چشما بھی پھوٹ پڑا دوںو کا نکلتا پانی ایک دوسرے کے جسم پر لگتے ہی لزت کو اور بڑھا گیا اور دوںو فارغ ہو گئے عرفان کچھ دیر کشمالہ کے اوپر لیٹا رہا اور پھر سائیڈ پر لیٹ گیا کشمالہ نے بھی اپنی قمیض اور شلوار پہن کر سو گئی
دونو بہن بھائی اب جس کھیل کا حصہ بن چکے تھے اس سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں تھا دونو گھر میں نارمل رہتے نا کبھی اس موضوع پہ بات کرتے بس رات کو یہ کھیل کھیلتے اور ایک دوسرے کی جسمانی ضروریات کو پورا کرتے