عاشقانہ موسم ۔۔میں ۔۔اور ۔۔وہ

 


موسم بہت خوشگوار اور رومانوی تھا ایسے میں کھڑکی سے نظارہ کرکے اچھی طرح لطف اندوز ہونا میرے بس سے تو باہر تھا۔ میں ٹی شرٹ کے ساتھ پاجامہ میں ہی گیراج سے اپنی ٹو سیٹر نکال کر لانگ ڈرائیو پر نکل پڑی، بڑی پیاری ہواؤں سے دل مچل اٹھا اور میں نے ہائی وے پر آتے ہی کار کا چھت بھی اٹھا دیا۔ غیر متوقع طور پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔ مجھے انگریزی گانے اچھے لگتے ہیں مگر ایسے ظالم موسم میں جو مزہ دیسی گانوں میں ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ میں نے اپنا پسندیدہ لگایا اور ساتھ ساتھ گنگنانے لگی: موسم ہے عاشقانہ اے دل کہیں سے ان کو ایسے میں ڈھونڈ لانا موسم ہے عاشقانہ ایسے میں اے دل...

میں ٹین ایجرز کی طرح لہک لہک کر سیٹ پر تھرک رہی تھی حالانکہ میری عمر ایسی حرکتوں کی اجازت نہیں دیتی لیکن موسم اتنا ظالم تھا کہ بس بہت کچھ کرنے کروانے کا من کر رہا تھا... ایک کپ کافی لینے کے لیے نکاسی لی اور کیفے ٹیریا میں گئی تاکہ کافی لے کر پھر آن روڈ ہو جاؤں۔ لائن میں جا کر کھڑی ہو گئی اور کیفے ٹیریا میں نظر دوڑائی، آخری میز پر ایک بہت خوبصورت جوان کو اپنی طرف دیکھتے ہوئے پایا۔ وہ اتنی محویت سے مجھے دیکھے جا رہا تھا کہ اسے احساس ہی نہ ہوا کہ میں اس کی حرکت نوٹ کر چکی ہوں۔ لائن آگے بڑھی میں بھی تھوڑا آگے کھسکی تو اس نے آس پاس دیکھتے ہوئے کافی کا کپ ہونٹوں سے لگایا اور پھر میری طرف دیکھا، میں انجان سی بن گئی۔ میری باری آ چکی تھی میں نے کافی اور کریم رول لیا اور نکاسی کی طرف قدم بڑھاتے اس جوان کی طرف دیکھا تو وہ اپنی میز پر تھوڑا سا کھسک کے شاید میرے لیے جگہ بنا رہا تھا، پھر اس نے آنکھوں کے اشارے سے مجھے بیٹھنے کی دعوت دی، میں نے مسکراتے ہوئے اشارے سے نظروں نظروں میں ہی اس کا شکریہ ادا کیا اور باہر نکل گئی۔ میں اندر بیٹھنا نہ چاہتی تھی، موسم کی پکار مجھے باہر کھینچ لائی تھی ورنہ وہ جوان لگتا تو کام کا تھا۔ میں کار کو لے کر پھر ہائی وے پر ہوئی اور دیسی گانوں سے لطف اندوز ہونے لگی۔ کافی کو دیسی انداز میں چسکاریاں لے کر پیتے ہوئے مجھے کریم رول کا خیال آیا، کاغذی تھیلی میں ہاتھ ڈال کر اسے نکالا تو اس کے نرم اور گرم پن نے کچھ اور یاد دلا دیا۔ اسے ہاتھ میں لے ایک بائٹ کے ساتھ ہی کریم اوپر آ گئی جس نے یہ ایجاد کیا ہوگا اس کی نیت تو کسی کو کیا معلوم مگر میری نیت اور طبیعت کافی مچل اٹھی..

کہنا کہ رت جواں ہے اور ہم ترس رہے ہیں کالی گھٹا کے سائے برہن کو ڈس رہے ہیں ڈر ہے نہ مار ڈالے ساون کا کیا ٹھکانا ... میں نے جلدی جلدی کافی اور اس رول کو ختم کیا اور رفتار بڑھا دی، رول ہاتھ میں لیتے ہی میری جنسی خواہش جاگ اٹھی تھی، تھوڑی دیر بعد رفتار کو آہستہ کیا شام ہونے کو تھی اور ہوا میں میرا انگ انگ مستی مانگ رہا تھا۔ ٹریفک بہت کم تھی بے خودی میں میرا ایک ہاتھ میری رانوں سے ہوتا ہوا ٹانگوں کے سنگم پر جا پہنچا، وہاں کھجانا بہت اچھا محسوس ہوا اور میں بے اختیار پاجامہ کے اوپر سے ہی خود سے کھیلنے لگی۔ شہوت نے کافی دنوں کے بعد جذبات کو برانگیختہ کیا تھا۔ میرے ہاتھ کو گیلا پن محسوس ہوا تو حیرانی سے پہلے تو انگلی کو سونگھا اور ایک انگلی زبان پر رکھ کر چکھنے لگی تھی کہ اچانک احساس ہوا کہ میری کار کے ساتھ ساتھ ایک جیپ نما ٹرک بھی جا رہا تھا۔ مجھے بہت شرم آئی کہ نہ جانے کب سے میں دیکھی جا رہی تھی۔ جب دوبارہ ادھر دیکھا تو حیران رہ گئی کیفے ٹیریا والا جوان بڑی حریصانہ   نظروں سے مجھے تکے جا رہا تھا شاید اس کو میری کیفیت کا اندازہ ہو چکا تھا، میں نے چشمہ لگا لیا اور کار کا چھت بھی واپس سیٹ کر دیا۔ وہ اپنی جیپ میری کار کے برابر رکھ رہا تھا میں رفتار بڑھاتی تو وہ بھی بڑھا دیتا، یوں ہی آنکھ مچولی میں ایک نکاسی سے میں آؤٹ ہوئی دیکھا تو وہ بھی میرا تعاقب کر رہا تھا، میں یہی چاہتی تھی، تھوڑا دور جا کر اس نے اپنی جیپ میرے آگے لگا لی اور ایک گلی میں داخل ہو گیا۔ اس کا خیال تھا کہ میں اس کے پیچھے آؤں گی مگر میں نے اس کی طرف ایک ہوائی بوسہ پھینکتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ آئینہ میں دیکھا تو حضرت کو اپنا تعاقب کرتے پایا، سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے خود پر کچھ غرور سا آیا کہ اس عمر میں بھی کسی جوان کو متوجہ کر سکتی ہوں۔ اب میں نے سوچا چلو کچھ دل لگی ہو جائے اور خیال ہی خیال میں سنجیدہ نہ ہونے کا خود سے عہد کر لیا اور دائیں جانب کا اشارہ لگا دیا تاکہ اسے معلوم ہو کہ میں اب جانے لگی ہوں، دو چار سڑکوں کے بعد ایک بند گلی کا نشان دیکھ کر میں اسی میں داخل ہو گئی اور گلی کے اختتام پر کار روک کر لائٹس وغیرہ بند کر دیں، شام کا اندھیرا پھیل چکا تھا۔ مگر اس کی جیپ دکھائی نہ دی تو میں تھوڑا مایوس سی ہوئی کار شروع کرنے ہی لگی تھی کہ پیچھے کوئی سایہ سا آتا ہوا دکھائی دیا، نزدیک آیا تو وہی تھا، شاید جیپ گلی کے کونے پر چھوڑ آیا تھا۔ میں نے بازو والا دروازہ کھول دیا وہ اندر بیٹھتے ہی اپنا تعارف کروانے لگا۔ میرا چونکہ سنجیدہ ہونے کا ارادہ نہ تھا اس لیے یونہی اپنے بارے غلط سلط کہہ دیا ایک غلط فون نمبر بھی لکھوا دیا تاکہ اسے تسلی ہو جائے اور اس کے بارے بھی کچھ دھیان سے نہ سنا۔ اس نے اپنا ہاتھ میری گردن پر رکھا اور مجھ پر جھک کر اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ ظاہر ہے میں تھوڑا سا ہچکچائی مگر وہ بہت شیریں چومنے والا نکلا، میں بھی ساتھ دینے لگی اور اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑ دیا، اس کے ہاتھ میرے مماؤں سے کھیلنے لگے اور میرے ہاتھ اس کی زِپ کی طرف گئے، کھرچ سے زِپ کھل گئی۔ اس نے بٹن بھی کھول دیے میرا ہاتھ اس کے انڈروئیر پر پھر رہا تھا اور مجھے اندازہ کرنے میں دیر نہ لگی کہ دیو قامت چھڑی میرے لیے تیاری پکڑ رہی ہے۔ وہ ایک ہاتھ سے میرا مما پکڑ کے میرے نپلوں کو چوس رہا تھا اور دوسرے ہاتھ سے وہ میرا پاجامہ نیچے کھسکانے کی کوشش کر رہا تھا، میں تھوڑا سا اوپر ہوئی تو پاجامہ میرے گھٹنوں تک ہو گیا، میں نے اس کے انڈروئیر نیچے کیا تو اس کا  دیو قامت لن  اچھل کے باہر نکل آیا، وہ مجھے اتنا پیارا لگا کہ میں نے اسے چومنے میں دیر نہ لگائی اور چومتے چومتے اس کے سر پر  لگے پری کم  کو چکھا تو مزہ آ گیا، کیا ذائقہ تھا، چٹخارے دار اور میٹھا۔ میں نے جھٹ منہ میں لے لیا اور لولی پاپ کی طرح چوسنے لگی۔ ادھر اس کی انگلیاں اپنا کام بخوبی کر رہی تھیں اور میں لطف اندوز ہو رہی تھی، اس نے میرے منہ سے اپنے لن سے  نکلوا لیا اور جھک کے میری ٹانگوں میں اپنی ڈش تلاش کرنے لگا،اس کے ہونٹ میری چوت سے لپٹ گئے ۔چس چس چس  کی آوازیں اسے ذائقہ پسند آنے کی گواہ تھیں، میں آنکھیں بند کیے مزہ کی نئی دنیا دیکھ رہی تھی، میرے ہاتھ اس کے سر کے بالوں سے کھیل رہے تھے اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد اس کا سر دبا دیتے۔ اب میری حالت پتلی ہو رہی تھی اور چاہتی تھی کہ جو کچھ نکالنا نکلوانا ہے ہو جائے، اب صبر مشکل تھا، میں نے اس کا سر اٹھایا اور اس کے ہونٹوں پر لگا اپنا رس چوسنے لگی، پھر میں نے سیٹ کو آرام دہ انداز پر کیا اور اس سے پوچھا کہ کوئی ربڑ ہے، اس کا سر نفی میں ہلا تو میں نے جلدی سے ڈیش بورڈ کی جیب سے کنڈوم نکال کے اس کےلن پر چڑھایا مگر وہ بہت چھوٹا نکلا، ڈر تھا کہیں باہر ہی نہ آ جائے، میں نے دوبارہ چیک کیا ایک اضافی بڑا مل گیا اسے پہنایا تو وہ درست تھا، میں نے اب آرام دہ سیٹ پر اس کو بٹھایا اور خود اس کے اوپر بیٹھ کر اس کے موٹے تگڑے لن  کو آہستہ آہستہ اپنے اندر اتارنے لگی۔ ایک دو کوشش میں میں اسے پورا لے چکی تھی صرف اس کی ٹوپی تھوڑا مشکل لگی کیونکہ کافی موٹا اور جان دار تھا باقی کا مرحلہ میں نے سانس روک کر ایک ہی جھٹکے میں طے کر لیا تھا۔ اس کی طرف دیکھا تو اپنے لیے ستائش اس کی آنکھوں میں نظر آئی، میں نے اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے، وہ میرے ہونٹ کو چوسنے لگا، اس کے ہاتھ میرے مموں  کی گولائیاں ناپنے میں مشغول رہے، میں نے ہولے ہولے اوپر نیچے ہونا شروع کیا، میں بڑے آہستہ رفتار میں اس کی ٹوپی تک اوپر اٹھتی اور پھر کبھی بڑے آرام سے اور کبھی یک دم اس پر بیٹھ کر جڑ تک نگل لیتی، میں مزے سے لطف اندوز ہو رہی تھی اور چاہتی تھی وہ بھی مزہ لے، وہ اب میرے کولہے پکڑ کر میری حرکات کی رہنمائی بھی کرتا، اس کی نشے والی آنکھوں میں کمال کی کشش تھی کہ ان میں دیکھنا اپنے آپ کو گم کرنے کے مترادف تھا، ان میں ہوس کے ساتھ پیار بھی جھلکتا تھا، میں فارغ ہو چکی تھی اور اسے بولا کہ اب اس کی باری ہے، ہم نے مقام تبدیل کی، میں اس کی جگہ لیٹ گئی اور وہ میری ٹانگوں کے درمیان بیٹھ گیا، اس نے میری رانوں کو اکڑا کیا اور اپنے ہونٹ میری چوت سے لگا کر رس چوسنے لگا، اس کے ہاتھ میرے مموں  کو دبا رہے تھے، میرے منہ سے جنسی سسکیوں نے ماحول اور سیکسی بنا دیا، وہ چوت  کو کبھی چومتا کبھی انگلی ڈال کر گہرائی چیک کرتا، اب میں اور برداشت نہ کر پائی اور اسے بالوں سے پکڑ کر اپنے اوپر کھینچ لیا، اس کا بھرا ہوا لن چوت کے منہ کے ساتھ آن لگا تو میں نے پکڑ کر اسے اندر لے لیا، اب اس نے میری ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھ لیں مگر کار کے اندر چھت کی وجہ سے میں نے اپنی کمر پر جکڑ لیں اور اب دھکا پر دھکا لگانے لگا، اس کا ہر دھکا پھاڑتا ہوا جاتا اور پھر جلدی سے لوٹ آتا، اس کے دیو قامت کی لمبائی اور موٹائی نے مزہ دوبالہ کر دیا، اس کی  طاقت بھی حیران کن تھی ، ابھی تک وہ جھٹکے پر جھٹکے کھیل رہا تھا اور اس کے فارغ ہونے کے دور دور تک آثار نہ تھے۔ یہ سچ تو ہے کہ میں کوئی پاک دامن نہیں ہوں مگر چالیس کے پیٹے میں ایک پچیس تیس سال کے جوان نے مجھے لطف کی ایک نئی منزل دکھائی تھی جو نہ اس سے پہلے نہ اس کے بعد پا سکی۔ اس نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹ میں دے دیے اور میں انہیں چوسنے لگی، اس کے دھکے تیز سے تیز ہوتے گئے اور آخر کار ایک بھاری سیکسی آہ کے ساتھ اس کے  لن نے اپنا پانی چھوڑ دیا، اتنا کہ چوت  بھرنے کے بعد سیٹ تک جل تھل ہو گئی۔ تھوڑی دیر بعد ہم نے خود کو سنبھالا، اس نے ایک بھرپور بوسہ کی اور انڈروئیر اوپر کرنے لگا، میں نے اسے روکا اور کریم جیسے رول کو ہاتھ میں لے کر اسے چوما، اس پر میری اور اس کی اپنی کریم تھی، اسے چاٹ لیا پھر کنڈوم اتار کر  لن  کو منہ میں لے کر آخری بوسہ لیا۔ اس نے میرے چہرے کو ہاتھوں میں لے کے میرا ماتھا، رخسار، ہونٹ چومے اور کار سے نکل کر پینٹ کی زِپ بند کی اور آئندہ ملنے کا وعدہ کرکے چل دیا۔ میں اب دوہری سوچ میں تھی کیونکہ نہ تو اس کے بارے کچھ معلوم تھا نہ اسے صحیح معلومات دی تھیں. دل چاہتا تھا کہ اسے بلا کر اپنا صحیح ٹیلی فون نمبر ہی دے دوں مگر دماغ کہتا کہ چھوڑ اس جیسے کئی ملیں گے۔ دیکھا تو کوئی آ رہا تھا، قریب پہنچا تو وہی نکلا، اس نے میرا ہاتھ جو کہ کھڑکی سے باہر تھا بوسہ لیا، میں نے آگے ہو کر اسے گال، ماتھا، آنکھیں اور ہونٹ چوم لیے، وہ تھوڑا ہٹ کر بولا میں تمہیں ہر حالت میں ملتا رہنا چاہتا ہوں، اس کی آواز بھرائی ہوئی تھی اور آنکھیں بھرائی تھیں، میں تڑپ کر کار سے باہر نکلی اور اس کے سینے کے ساتھ لگ گئی۔ جانے کتنے پل بے سدھ ہو کر ہم پر قربان ہو گئے، نزدیکی گھر کی بیرونی روشنیاں آن ہونے نے ہمیں واپس حقیقی دنیا میں آ پھینکا، میں نے جلدی سے اسے کار کے اندر کیا اور رِورس گِیئر لگا کر گلی کی شروعات تک لے آئی جہاں اس کی جیپ کھڑی تھی، وہ جلدی سے اپنی جیپ کی طرف بڑھا اور واپس آ کر اپنا وزٹنگ کارڈ دے کر بنا کچھ بولے چلا گیا، میں اس کے کارڈ کو دیکھتی رہی اور وہ جیپ شروع کر رخصت ہو گیا۔ اب میرے پاس کوئی بہانہ نہیں کہ میں اپنے دماغی سوچ کی مانوں اور اس کو نہ ملوں مگر میرا دل یہی چاہتا ہے جس دن موسم پھر ایسا دغا باز ہوا تو اس کے قدموں میں جا گروں گی۔ میں واپسی کے لیے ہائی وے پر آئی اور ٹیپ چلائی تو لتا کی آواز مجھے حقیقت کے قریب لے گئی:

یوں ہی کوئی مل گیا تھا سر راہ چلتے چلتے سر راہ چلتے چلتے وہیں تھم کے رہ گئی ہے وہیں تھم کے رہ گئی ہے میری رات ڈھلتے ڈھلتے میری رات ڈھلتے ڈھلتے۔

 

ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی