شہوت انگیز ہاسٹل لائف ۔۔۔

 


میں نے کمرے میں قدم رکھا تو وہاں تین لڑکیاں موجود تھیں،ایک منہ پر کوئی لیپ لگائے لیٹی تھی۔ دوسری موبائل پر جلدی جلدی مسیج کرنے میں مشغول تھی،جبکہ تیسری کانوں پر ہیڈفون لگائے سر دھن رہی تھی اور یہی واحد تھی جو میری طرف متوجہ تھی۔ اس نے ایک سمائل پاس کی اور ہاتھ کو ناچ کے انداز میں گھما کر مجھے اشارہ کیا کہ میں سینٹر والے بیڈ پر چلی جاؤں۔

میں اپنا اٹیچی کیس رکھ کر فارغ ہوئی تو ان کی طرف مڑی۔

"ہائے آئم زویا۔"میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔


پہلی والی وہیں سے بولی:ہائے زویا،بائے زویا۔ اس نے اشارے سے مجھے بتایا کہ وہ فیس ماسک کی وجہ سے بول نہیں سکتی۔ 

دوسری والی نے موبائل پر سے نظریں ہٹائیں مگر انگلی چلتی رہیں اور بولی:ہائے میں پلوشہ ہوں، فائنل ایئر،پشاور سے باقی باتیں جب بیٹری ڈاؤن ہو جائے گی تو۔ اور ہاں نائس ٹو میٹ یو ،،،،،کہنے کی ضرورت نہیں، جھوٹ بولنا گناہ ہے۔

تیسری نے ہیڈفون کان سے نکالا اور بولی:ادھر آؤ، 

میں پاس جا بیٹھی تو میرے بال چھو کر بولی:رئیل ہیں،،اتنے لمبے،،کیا بات ہے،،تو تو واقعی دھانسو ہے۔ میرا نام شیریں مگر ماں باپ نے پتہ نہیں کیا سوچ کر یہ نام رکھا،، اینی وے تو ہے بڑی ظالم ،،گلی محلہ تو سنسان ہو گیا ہو گا تیرے بنا۔

میں جھینپ گئی اور بولی: نہیں ایسی بات نہیں۔

پلوشہ بولی:جب میں آئی تو سارا لڑکے خودکشی کرنے چل پڑے تھے،

شیریں نے فورا" لقمہ دیا اور بولی:سچ کہتی ہے پلو،، یہ پشاور میں جو دھماکے ہوئے،اسی منحوس کے عاشق ہیں سارے۔

کہتے ہیں ہم کو نہ ملی، ہم تو مریں گے باقیوں کا بھی بھلا کر جائیں۔


پلوشہ اس جواب سے بلبلا اٹھی اور بولی:او چک جھمرو کی جٹنی! تجھے کیا معلوم ہم چیگیزی خون والوں کی قدر۔

پہلی والی کی زبان میں کھجلی ہوئی وہ ماسک پہنے بامشکل بولی:تو پلو !چنگیزی خون تم لوگوں نے چوسا تھا،،ہاؤ ایری ٹیٹنگ،،یاخ تھو،


ایک زوردار قہقہ پڑا اور پلوشہ تڑپ کر اٹھی اور بولی:میں جا رہی باہر لان میں ،،تم چھوٹی سوچ والوں کے ساتھ رہنا ہی ہماری شان کے خلاف ہے،،ہنہ،،

پہلی والی پھر بولی: لو بدر منیر کے بعد شان بھی تمہارا ہو گیا۔


شیریں ہنستے ہوئے بولی:سن کپڑے تو پہن لے۔


اس کی اس بات پر میں نے اب ان تینوں کا جائزہ لیا۔


پہلی والی جس کا نام تاحال معلوم نہ تھا،ایک پرانی کھلی سی ٹی شرٹ اور نیچے کھلا سا ٹراؤزر پہنے لیٹی تھے۔ ٹی شرٹ میں جھانکتے نکتے ظاہر کرتے تھے کہ نیچے برا کا تکلف نہیں کیا گیا۔ 


پلوشہ نے ایک جینز کی پینٹ پہنی تھی جسے گھٹنوں سے ذرا اوپر سے قینچی سے کاٹ کر شارٹ بنایا گیا تھا۔اوپر صرف ایک ٹی شرٹ جو اوپر سے اس کی بھاری چھاتی پر تنی ہوئی تھی جبکہ نیچے سے اتنی مختصر تھی کہ سیدھا کھڑا ہونے پر چھدی ہوئی ناف صاف دکھنے لگی تھی۔شرٹ کی یہ کانٹ چھانٹ اس کی اپنی تھی۔ 

اس کی دودھیا رنگت،اتنا شدید توبہ شکن جسم اور ناف دیکھ کر مجھے بھی پسینہ آ گیا۔ مردوں کا کیا حال ہوتا ہو گا۔

جبکہ شیریں نیلی تنگ اوپن شرٹ جس میں صرف ایک ہی بٹن بند تھا پہنے لیٹی تھی،نیچے سفید بریزیئر تھا جو گول گول چھاتی کو چھپانے میں ناکام تھا اور جسم پوری طرح ویکس کیا ہوا تھا۔ 

نیچے اس نے ایک نیکر پہنی تھی جو رانوں کے آدھے سفر ہی میں داغ مفارقت دے گئی تھی۔۔ لمبی سنڈول ٹانگیں بھی شفاف تھیں۔ یہ واحد نمکین رنگت والی لڑکی تھی۔ 

اس کمرے میں واحد میں تھی جو شلوار قمیض میں ملبوس تھی۔


پہلی والی منہ دھو آئی تو اس کا چہرہ واضع ہوا،وہ صاف رنگت اور گول چہرے والی ایک خوبصورت لڑکی تھی۔ اس کی ناک کا موتی اس کی چمکدار جلد پر دگمگا رہا تھا۔ وہ ہاتھ بڑھا کر بولی: نازش فرام سیالکوٹ،،فائنل ایئر۔

میں نے ہاتھ تھام لیا،وہ بولی :چائے کا وقت ہے میری ہمت تو نہیں یہاں بنانے کی نیچے میس میں چلتے ہیں۔

اس نے بنا میری یا شیریں کی موجودگی کی پروا کیے یا دروازہ بند کیے ہماری طرف منہ کیے اپنی شرٹ اتاری اور ایک نئی ٹی شرٹ پہن لی۔ کھلی شرٹ کی جگہ تنگ شرٹ میں نکتے اور بھی واضع ہو گئے۔ میں نے شرم سے نظریں پھیر لیں۔


ہم تینوں نیچے آ گئیں۔ یہاں تقریبا" سب ہی لڑکیاں، سوائے ان کے جو باہر سے ابھی اندر آئی تھیں،اسی طرح کے حلیے میں تھیں۔ ننگی ننگی ٹانگیں نکالے ادھر ادھر پھر رہی تھیں۔

لان چونکہ بار کے کچھ گھروں سے نظر آتا تھا سو وہاں ذرا ڈھنگ سے جاتیں۔

میرا کئی لڑکیوں سے تعارف ہوا اور ہم ایک گھنٹے بعد واپس آ گئے۔


رات کے کھانے کے بعد اصل جان پہچان شروع ہوئی۔


شیریں وہاڑی سے،پلوشہ پشاور سے،نازش سیالکوٹ سے اور میں لاہور سے تھی۔

ایک دو دن ہی میں میری ان سے بہت اچھی ہائے ہیلو ہو گئی۔ 


یہ عجیب ہی دنیا تھی،لڑکیاں یہاں بنا کپڑوں کے رہتی تھیں،آئی مین کہ نیکر ٹراؤزر،شارٹ وغیرہ میں۔ ایک ساتھ نہانے سونے میں بھی کوئی عار نہ تھی۔ ایک دوسری کی انتہائی پرسنل چیزیں جیسے پینٹی ،برا تک بھی استعمال کرتیں۔

دن رات لڑکیاں موبائل فون،نیٹ وغیرہ پر لگی رہتیں، یہاں ہر لڑکی کا اپنا مزاج تھا،اپنا بیک گراؤنڈ تھا۔ جب یہاں سے باہر نکلتیں تو یکسر مختلف ہوتیں۔ 

پلوشہ باہر نکلتی تو عبایا پہنا ہوتا جس میں سرٍ آنکھیں دکھتی۔

باقی دونوں بھی فیشن ایبل مگر قابل تہزیب لباس پہنتیں اور دوپٹے کا بھی تکلف کرتیں۔

ہم چاروں شام تک تینوں کمرے میں اکٹھی ہو ہی جاتیں۔ پھر ادھر ادھر کی باتیں ہوتیں۔

ایک رات ہم تینوں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں کہ شیریں بولی:اچھا زویا! تو نے ابھی تک بتایا نہیں کہ تو ،،،ورجن ہے یا،،درجن،،ہوں بول۔

میں سٹپٹا گئی اور بولی:ہاں یار میری کونسا شادی ہوئی ہے جو،،

پلوشہ بولی:اے ہم نے یہ نہیں پوچھا میرڈ ہے یا ان میرڈ،،پوچھا ہے،،ورجن ہے یا نہیں۔

میں ہکلا کر بولیہاں تو ایک ہی بات،،

نازش میری بات کاٹ کر بولی: یہ جھوٹ پہ جھوٹ بولتی رہی گی،شیری اس کی شلوار اتار ابھی ویری فیکیشن کر لیتے ہیں،، دودھ کا دودھ پانی کا پانی۔

پلوشہ بولی: نہ یار! دودھ تو مت نکالو،،

شیریں بولی:موٹی عقل کہاوت ہے۔ اور تو اتار شلوار ،پلو ہاتھ پکڑ اس کے،،

میں نے ہاتھ اٹھا کر خود کو بچایا اور بولی:اچھا اچھا بتاتی ہوں بتاتی ہوں،،

میں نے ذرا توقف کیا اور بولی:نان ورجن،،مگر درجن نہیں۔

نازش بولی: نکالو تم دونوں بیس بیس روپے کیا کہا تھا میں نے۔

دونوں نے بیس بیس روپے نازش کے ہاتھ پر رکھ دیئے۔

نازش نے ایک نوٹ میری ہتھیلی پر رکھا اور بولی: لے بچہ عیش کر،،کیا یاد کرے گی۔ کسی سخی سے پالا پڑا تھا۔

میں نے نوٹ پکڑا تو پلوشہ بولی: تیری سیل کھولنے کے بیس روپے دے رہی ہے۔

میں نے نوٹ دور پھینک دیا اور بولی: تم لوگ نے میرے کنوارے پن کے بیس روپے لگائے ،لعنت ہےتم تینوں پر۔

نازش بولی: جانی کنوارے پن کے نہیں،تیرے کنوارے پن کی ویری فیکیشن کے،، اور یہ بھی بہت ہیں،شیری کے تو 5 روپے لگے تھے۔

شیریں سب کو خاموشی کا اشارہ کر کے بولی:اب آ جا پوائنٹ پر کب،کہاں کیسے اور کس کے ساتھ ۔

میں بولی: ایک کلاس فیلو تھا، میں فرسٹ ائیر میں تھی تو ایک روز باتھ روم میں کیا تھا بس،،

نازش بولی: یہ کیا ہے آٹھ بجے والی نیوز ہیڈلائن ،،پوری ڈیٹیل کون دے گا وہ کلاس فیلو۔

میں نے شرماتے ہوئے کہا : مجھ سے نہیں ہو گا،مجھے نہیں معلوم کیسے بتاتے ہیں،سب بتا تو دیا اور کیا بچا۔

نازش بولی :اچھا تو سن،شیری اسے بول کیسے بتاتے ہیں،مگر کہانی سننے کی ایک شرط ہے،

میں نے کہا: کیا

پلوشہ بولی:شلوار تار کی سنی جائے گی جس کی ،،،گیلی ہو گی وہ سب کے لیے چائے بنائے گی،اگر سب کی گیلی ہو گی تو سب چائے کے ساتھ ساتھ کچھ بنائیں گی۔

تینوں نے اپنے نیچے کے کپڑے اتار دیئے،جو میرے علاوہ کسی کی بھی شلوار نہ تھی۔

اس وقت ہم چاروں کمرے میں نیچے سے ننگی تھیں،زیرو کا بلب جلایا گیا۔

نازش نے ٹشو نے باری باری سب کی ٹانگوں کے بیچ کا حصہ رگڑا اور بیٹھ گئی۔

پلوشہ بولی :پہلے میں سناتی ہوں۔ وہ والی جب میں کاغان گئی تھی۔

دونوں راضی ہو گئیں 


پلوشہ نے اپنی کہانی شروع کی،:میں اپنے کالج ٹرپ کے ساتھ کاغان گئی،وہاں مجھے شاہ میر ملا،ابھی میں،،،،

شیریں بولی:ایک منٹ ایک منٹ یہ فرسٹ ٹائم کی تو نہیں ہے نہ۔

پلوشہ کھلکھلا کر بولی:ہاں یہ تو شاید سنچری کی ہے۔

میں بولی:نہیں فرسٹ ٹائم کی سناؤ۔

نازش بولی:یار وہ ہم سب سن چکے ہیں مگر،، چلو ٹھیک ہے۔

میں نے پوچھا : پلوشہ تم نے فرسٹ ٹائم کب کیا تھا،کس ایج میں۔

نازش شیریں کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر بولی:ہاہاہاہا،،،ورجن تو یہ پیدا بھی نہیں ہوئی تھی۔

پلوشہ تلملا گئی اور دو چار ایسے اشارے کیے کہ میں شرم سے پانی پانی ہو گئی۔ شلوار کی طرح ابھی میری شرم نہیں اتری تھی۔

وہ ٹانگیں کھول کر بیٹھ گئی تو میں نے نظریں چرا لیں،نازش بولی:او بی بی! ہمیں پتہ ہے یہ کیا چیز ہے مگر اسے بند کر کے بیٹھو،کہیں یہ ہوا سے خشک ہو گئی تو تم کہو گی کہ میں انڈے نہیں ابالوں گی۔

پلوشہ نے بامشکل اپنی کہانی شروع کی اور میری معلومات کے لیے ذرا تفصیل سے سنائی۔


میں پشاور میں پیدا ہوئی،گوری چٹی تو خیر میں ویسے ہی تھی اور یہ بات کسی نے محسوس نہ کی کیوں گھر میں سبھی گورے تھے۔

سب کو پیاری تو لگتا تھی مگر اصل پیارا تو میرا کزن شاہ میر۔ پورے گھر میں وہ پہلا مرد بچہ تھا سو سب کی آنکھوں کا تارا تھا۔

جبکہ یہی آنکھوں کا تارا ہم سب کو کھٹکتا تھا۔

شاہ میر مجھ سے تین مہینے بڑا تھا،مگر قد کاٹھ اور ٹھونس ٹھونس کر کھلائی گئی غذا نے اسے انسان سے سانڈ بنا دیا۔

جہاں مجھ پر لاتعداد پابندیاں تھیں وہاں اس کی فل ٹائم "موجاں ہی موجاں" تھیں۔

سلمان خان کا جسم دیکھ کر ایک بار میں نے آہ کیا بھری وہ دن رات ڈمبل اٹھا کر جسم میں بےہودہ سی مچھلیاں بنانے لگا۔ جنہیں دکھانے کے لیے گھر میں بنا قمیض کے پھرتا۔ 

ہمیں کسی سہیلی کے گھر جانے کی اجازت نہ تھی جبکہ اس کے دوست آتے بھی اور جاتے بھی۔

ہمارے کمرے میں ریڈیو تک نہ تھا جبکہ اس کے کمرے میں ٹی وی تھا۔

وہ کسی کسی دن اپنے ویڈیو واک میں میں بلیوپرنٹ فلمیں دیکھتا اور خوب مزے لیتا۔


"ایک منٹ ایک منٹ"میں نے کہا،"تمہیں کیسے پتہ کہ وہ بلیو پرنٹ فلمیں تھیں۔"

پلوشہ لجائی ہوئی بولی:وہ جب نہیں ہوتا تھا تو ہم بھی وہی سی ڈیز دیکھتے۔


خیر دن گزرتے رہے اور اڑیل ہوتا رہا اور میں مریل۔ وہ شہزادہ بن گیا اور میں قید میں بلبل۔


نازش بولی:اوں ہوں جھوٹ نہیں بولتے،،،بلبل نہیں بطخ،،قید میں بطخ ۔

پلوشہ بولی: او کم ذات جاہل عورت،تو میرے منہ لگ رہی ہے،،تو خود کیا ہے ۔

شیریں نے سیزفائر کروایا:ہیلو اس طرح بات اگر کہیں اور چلی گئی تو چائے ماری جائے گی کیونکہ،،،،،سمجھ گئیں نا ۔


ایک رات کو میں نے شاہ میر کو اپنی نوکرانی کے ساتھ دیکھا ۔

وہ 20 سال کی دو بچوں کی ماں تھی اور شاہ میر سے دو تین سال بڑی تھی۔ وہ پیدا ہی اسی گھر میں ہوئی تھی کیونکہ اس کی ماں بھی ہماری ہی ملازمہ تھی۔

شاہ میر اسے نیچے لٹائے،اس کی شلوار کو گھٹنوں تک ہٹائے دھکے لگا رہا تھا۔ فلمیں دیکھ اور بڑی عورتوں کی باتوں کو چپ چپ کر سن سن کر میں بھی سب جان گئی تھی۔ شاہ میر اس کی کوس مار تھا۔


میری ٹانگوں کے بیچ میں پہلی بوند گری اور میں بولی:یہ کیا بلا ہے،،کوس۔

پلوشہ نے کوئی پشتو کی گالی دی اور نازش سے بولی:یہ کہاں سے پکڑ کر لائی ہو۔

نازش بولی:اوہو یار کنٹ،چوت،پھدی،کوس،ویجائینہ،پسی سب ایک ہی چیز ہے ۔لاؤ ہاتھ لگا کر بتاؤں،،

میں بدک کر پیچھے ہو گئی۔

شیریں گھرک کر بولی:او پٹھانی! ،سلیس اردو میں بول۔

پلوشہ پھر سے گویا ہوئی۔


شاہ میر نے بھی میری آہٹ پا لی۔ مجھے دیکھ کر نوکرانی ڈر گئی مگر شاہ میر اطمینان سے لگا رہا۔ میں وہاں سے چپ چاپ اپنے کمرے میں آ گئی۔

صبح شاہ میر مجھے ملا اور بولا:تم نے رات جو دیکھا،وہ کسی سے کہا تو نہیں۔

میں نے کہا:نہیں مگر شاید کہیں زبان پھسل جائے۔

وہ بولا:کیا بولو گی کہ شاہ میر چوت مار رہا تھا۔

میں غصے سے بولی:بکواس مت کرو، تم نے ایسی گھٹیا بات کی کیسے میرے سامنے،بےغیرت آدمی۔

میں نے شام کو اس نوکرانی کو بھی خوب لتاڑا۔ وہ منتیں کرتی رہی اور انکشاف کیا کہ سلسلہ دو سال سے چل رہاتھا۔

مجھے حیرت ہوئی سب گھر والوں کی لاعلمی پر۔

شاہ میر اب مجھ سے کچھ دبا دبا رہتا، ایک روز بولا: پلوشہ میرے سب دوستوں نے کی گرل فرینڈز ہیں اور میں سب کے سامنے شرمندہ ہوتا رہتا،میں نے ان سب سے جھوٹ بولا کہ میری گرل فرینڈ میری کزن ہے


میں حق دق رہ گئی۔ وہ بولتا رہا :میں نے ان کو بتایا کہ میری کزن مجھے چودنے دیتی ہے۔

میں بولی:مطلب سب یہ سمجھتے ہیں کہ تم میرے ساتھ،،،


میرا صدمے سے برا حال ہو گیا،شاہ میر کے تمام دوست مجھے جانتے تھے کیونکہ آتے جاتے نظر آتے یا کچھ کی فیملیز سے بھی علیک سلیک تھی۔

میں غصے سے کمرے میں آ گئی اور رونے لگی۔

ایسی باتیں چھپتی نہیں اور آگے بڑھتی جاتی ہیں،کل کلاں کو انھی فیملیز سے کوئی رشتہ آتا تو وہ لڑکا تو یہی سمجھتا کہ میں پہلے شاہ میر کے ساتھ،،اف توبہ میں کیا کروں۔


نازش نے میرے کان میں سرگوشی کی:اصل دکھ اسے رشتوں کا تھا،،

میں بہت سارے دن ڈسٹرپ رہی۔

ایک روز میری ایک سہیلی آئی اس کے ساتھ اس کی کزن سدرہ بھی تھی جو کبھی ہماری سکول فیلو رہ چکی تھی۔ باتوں باتوں وہ اچانک ہم میں غائب ہو گئی اور آدھے گھنٹے بعد لوٹی۔

مگر اب وہ دونوں اکثر ہی آنے لگیں، ہم باتوں میں لگتے اور سدرہ کہیں کسی بہانے سے گل ہو جاتی۔

میں کھٹک گئی اور میری کھٹکنے کی وجہ ایک ہی تھی،،"شاہ میر"۔

میرا اندازہ بالکل صحیح نکلا، سدرہ شاہ میر کے روم ہی میں جاتی


میں رنگے ہاتھوں تو نہ پکڑ سکی مگر سدرہ کو شاہ میر کے روم میں سے برآمد ضرور کر لیا۔ شاہ میر کا کیریکٹر میرے سامنے تھا،وہ سدرہ کو کوئی لوری تو سنا نہیں رہا ہو گا،اس کی بھی چوت مار رہا ہو گا۔

میں نے سدرہ کو ڈرایا دھکمایا تو پتہ چلا کہ یہ سب سیٹ اپ تھا۔ اس میں میری سہیلی بھی شامل تھی۔ وہی مجھے بزی رکھتی تاکہ سدرہ رنگ رلیاں منا سکے۔ میرا تو سر گھوم گیا۔

شاہ میر واقعی حد سے بڑھ گیا تھا اور کسی کو کچھ دکھائی ہی نہ دے رہا تھا۔

میری وجہ سے شاہ میر کے سارے در بند ہو گئے تھے،وہ اب بلیو پرنٹ فلموں کی بھڑاس نکالنے کو بے چین رہنے لگا۔

وہ مجھ سے منتیں کرنے لگا کہ میں سدرہ یا نوکرانی تک رسائی میں رکاوٹ نہ ڈالوں۔

آخرکار اس نے مجھ سے دو باتیں کہیں،پہلی بات یہ کہ وہ حلفیہ تمام دوستوں سے کہے گا کہ پلوشہ والی بات جھوٹ تھی۔

یہ بات اس نے تمام دوستوں سے قسم کھا کر کہی جبکہ میں کمرے کے دروازے سے سب سنتی رہی۔


میں بولی:اور دوسری بات کیا کہی اس نے۔ 

پلوشہ مسکرائی اور بولی: سدرہ کی جگہ اب میں اس ساتھ ،،،،کروں۔

میں نے کہا: پھر پہلے والا ڈرامہ کیوں،،

وہ بولی:جب شاہ میر نے میرے ساتھ نہیں کرتا تھا تو اس کے دوست سمجھتے تھے کہ کرتا ہے ،،جب کرے گا تو سب سمجھیں گے نہیں کرتا،،جھوٹ بولتا ہے۔

میں نہ کر کے بدنام تھی کر کے نیک پروین،،کیا لگا۔


مجھے پتہ چل گیا کہ چائے تو مجھے بنانی پڑ ہی گئی ہے۔ اصل کہانی ابھی بھی باقی تھی۔


پلوشہ نے اپنی بات جاری رکھی۔

شاہ میر اگر مجھے یہ بات نہ بھی کہتا تو میں خود بھی کسی نہ کسی دن کوئی راستہ ڈھونڈتی۔

شاہ میر بولا:دیکھو وشی! بہت مزہ آتا ہے، تم ٹرائی تو کرو۔

میں نے کہا:نہیں مجھے اچھا نہیں لگتا،یوں ننگی ہونا اور وہ اندر ڈلوانا۔

وہ بولا:یار ایک بار کوشش تو کرو۔

میں نے کہا:اچھا پہلے ہم اندر نہیں ڈالتے بس اوپر اوپر سے کرتے ہیں۔

شاہ میر مایوس سا ہوا اور بولا:ٹھیک ہے مگر تم پھر مجھے صابراں کے ساتھ کرنے دینا۔

میں نے کہا:تم اس نوکرانی کے دیوانے ہو۔

وہ بولا:ایسی بات نہیں ہے وشی،،میں صرف اس کی چوت مارتا ہوں،وہ بھی بس شلوار اتار کر کبھی پوری طرح انجوائے نہیں کیا،سدرہ بھی بس ڈری ڈری سی کرواتی تھی کہ کوئی آ نہ جائے۔


میرا دل تو چاہتا تھا مگر میں اپنی سیل نہیں کھلوانا چاہتی تھی،اسی لیے کوئی راستہ سوچ رہی تھی۔

آخر رات کو میں دبے پاؤں شاہ میر کے کمرے میں گئی۔ وہ جاگ رہا تھا اور میرا ہی انتظار کر رہا تھا۔

میں بولی:اچھا اب کیسے شروع کریں،،

وہ بولا:کپڑے اتارو۔

میں نے کہا:نہیں پہلے تم ایسے ہی میرے اوپر لیٹو۔

میں لیٹ گئی۔ اس نے میری چھاتی سے دوپٹہ ہٹایا اور میری قمیض ناف تک ہٹا دی اور بولا:یار اتنا تو کر لو،،کم از کم گرم جسم تو ٹکرائیں۔

میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔

وہ صرف ٹراؤزر پہنے میرے اوپر لیٹ گیا۔ اس کا وزن بہت زیادہ تھا،مگر مجھے برا نہیں لگ رہا تھا۔

وہ کہنے لگا:وشی ٹانگیں کھولو،،

میں نے ٹانگیں ذرا سی کھول دیں۔ اس نے اپنا کھڑا ہوا لن میری چوت پر رکھ دیا اور دھیرے دھیرے سے مسلنے لگا۔

ساتھ ہی وہ میری عریاں چھاتی اور گلے کو زبان سے چاٹنے لگا۔

میں نے اسے کہا:میرو! میرے فیس پر کس مت کرنا،،بس گلے تک ہی رہنا۔


پلوشہ نے اپنی بات جاری رکھی۔

شاہ میر اگر مجھے یہ بات نہ بھی کہتا تو میں خود بھی کسی نہ کسی دن کوئی راستہ ڈھونڈتی۔

شاہ میر بولا:دیکھو وشی! بہت مزہ آتا ہے، تم ٹرائی تو کرو۔

میں نے کہا:نہیں مجھے اچھا نہیں لگتا،یوں ننگی ہونا اور وہ اندر ڈلوانا۔

وہ بولا:یار ایک بار کوشش تو کرو۔

میں نے کہا:اچھا پہلے ہم اندر نہیں ڈالتے بس اوپر اوپر سے کرتے ہیں۔

شاہ میر مایوس سا ہوا اور بولا:ٹھیک ہے مگر تم پھر مجھے صابراں کے ساتھ کرنے دینا۔

میں نے کہا:تم اس نوکرانی کے دیوانے ہو۔

وہ بولا:ایسی بات نہیں ہے وشی،،میں صرف اس کی چوت مارتا ہوں،وہ بھی بس شلوار اتار کر کبھی پوری طرح انجوائے نہیں کیا،سدرہ بھی بس ڈری ڈری سی کرواتی تھی کہ کوئی آ نہ جائے۔


میرا دل تو چاہتا تھا مگر میں اپنی سیل نہیں کھلوانا چاہتی تھی،اسی لیے کوئی راستہ سوچ رہی تھی۔

آخر رات کو میں دبے پاؤں شاہ میر کے کمرے میں گئی۔ وہ جاگ رہا تھا اور میرا ہی انتظار کر رہا تھا۔

میں بولی:اچھا اب کیسے شروع کریں،،

وہ بولا:کپڑے اتارو۔

میں نے کہا:نہیں پہلے تم ایسے ہی میرے اوپر لیٹو۔

میں لیٹ گئی۔ اس نے میری چھاتی سے دوپٹہ ہٹایا اور میری قمیض ناف تک ہٹا دی اور بولا:یار اتنا تو کر لو،،کم از کم گرم جسم تو ٹکرائیں۔

میں نے ہاں میں سر ہلا دیا۔

وہ صرف ٹراؤزر پہنے میرے اوپر لیٹ گیا۔ اس کا وزن بہت زیادہ تھا،مگر مجھے برا نہیں لگ رہا تھا۔

وہ کہنے لگا:وشی ٹانگیں کھولو،،

میں نے ٹانگیں ذرا سی کھول دیں۔ اس نے اپنا کھڑا ہوا لن میری کوس پر رکھ دیا اور دھیرے دھیرے سے مسلنے لگا۔

ساتھ ہی وہ میری عریاں چھاتی اور گلے کو زبان سے چاٹنے لگا۔

میں نے اسے کہا:میرو! میرے فیس پر کس مت کرنا،،بس گلے تک ہی رہنا۔


اس نے ہاتھ سے میرے ممے دبانے شروع کر دیئے۔ یہ کام بھی مزیدار تھا۔ اس کے لن کی رگڑیں مجھے بھلی لگ رہی تھیں مگر کنوارہ پن کھونے کا میرا ارادہ نہ تھا۔

میری شلوار اور اس کا ٹراؤزر دونوں گیلے ہوں گئے تو وہ بولا:یار ایک بار اندر تو ڈلوا کے دیکھو مزہ آئے گا۔

میں نے کہا:نہیں،،مزہ تو آ رہا ہے مگر،،میں اپنی ،،،ابھی نہیں مرواؤں گی۔

شاہ میر ذرا زچ ہو کر بولا:پھر یار کیسے کریں،بنا چوت  کے اندر ڈالے مجھے مزہ نہیں آتا۔ یا پھر اگر تم کہو تو،،

میں نے کہا:تو،،کیا۔

شاہ میر بولا:تم گانڈ میں ڈلوا لو۔


میری ہنسی چھوٹ گئی اور میں بولی:یار پلو! تو واقعی پٹھان ہے ہاہاہا،

پلوشہ بولی:اس نے کبھی گانڈ نہیں ماری تھی مگر اسے لن ڈالنے کی کوئی تو جگہ چاہیئے تھی نا۔


میں نے کہا:نہیں گانڈ بھی نہیں،،کوئی اور طریقہ۔ اچھا میرو ! اگر میں منہ میں لوں تو۔

وہ حیران ہو کر بولا:منہ میں،،تمہیں کیسے پتہ کہ منہ میں بھی لیتے ہیں،

میں نے کہا:تمہاری ان سی ڈیز نے کہا۔

وہ بولا:دیکھ لو اگر تم راضی ہو تو ٹھیک ہے، میں نے کبھی منہ میں ڈالا نہیں ہے۔ 

اس نے لن باہر نکالا اور کھڑا ہو گیا۔

میں نے کہا:ایسے نہیں ،تم کنڈوم چڑھا لو پتہ نہیں کیسا ذائقہ ہو۔

وہ بولا:کنڈوم تو میرے پاس نہیں ہے۔

میں نے کہا:تم اپنے پاپا کے کمرے کی دراز سے لے آؤ۔

وہ بولا:تم نے دیکھے ہیں وہاں۔ 

میں نے کہا:ہاں۔


وہ دبے پاؤں اپنے بابا کے کمرے میں چلا گیا اور میں اپنے کمرے میں آ گئی۔

پندرہ منٹ بعد وہ مجھے ٹیرس پر بلانے لگا۔

جب میں نے چوت مروانی ہی نہیں تھی تو اس کے کمرے میں جانے کا رسک کیوں لیتے۔ ٹیرس میں سے ہم دونوں باآسانی ضرورت پڑنے پر مختلف سمتوں میں جا سکتے تھے۔


وہ آیا تو میں نے پوچھا:بڑے پاپا جاگے تو نہیں،

وہ بولا:نہیں بس دراز کھلنے سے آنکھ کھولی مگر مجھے پا کر پھر سو گئے۔

اس نے کنڈوم لن پر چڑھایا اور بولا:تم نیچے بیٹھ جاؤ۔ 

میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور گیلا گیلا تیل جیسا چکنا اور کھردرا لن منہ میں ڈالا۔

ذائقہ کسی لپ سٹک جیسا تھا جو لڑکی ہونے کی وجہ سے میرے لیے اتنا برا نہ تھا۔

شاہ میر نے میرے ممے پکڑ لیا اور انھیں دبانے لگا۔ 

میں لن کو پکڑے اندر باہر کرنے لگی تو شاہ میر بولا:یار مزہ نہیں آ رہا،تمھیں چوسنا نہیں آتا۔

وہ بولا:تم ایسا کرو لیٹو اور منہ کو سختی سے بند کرو۔

میں فرش پر لیٹ گئی تو وہ سائیڈ سے میرے منہ کے پاس پنجوں کے بل بیٹھ گیا۔ اس نے لن میرے منہ میں ڈالا اور بولا:کس کے بند کرو تاکہ یہ باہر نہ نکل سکے۔

میں نے منہ کس کے بند کر لیا اور وہ چوت مارنے کی طرح دھکے لگانے لگا۔ لن میرے حلق تک جاتا اور کئی بار تالو سے جا لگا۔ میں نے ایک دو بار بیچ میں بریک لی کیونکہ مجھے الٹی آنے لگی تھی۔


شاہ میر بولا:اچھا ایک اور طریقہ ہے تم مموں میں پھنسا کر مجھے فارغ کر دو۔

طریقہ مشکل تھا کیونکہ مجھے قمیض اتارنی پڑتی مگر اب اسے بھی تو فارغ کرنا تھا سو میں بادل نخواستہ مان گئی۔یہ بھی ٹرائی کیا گیا،میں دوبارہ اس کے کمرے میں گئی،وہاں قمیض اتاری۔ اس نے میرے ممے چوسے۔ جس سے میں تو تقریبا" مطمئن ہو گئی مگر وہ چھوٹے بغیر کیسے راضی ہوتا۔

اس نے دونوں مموں کے درمیان لن ٹکایا،میں نے مموں کو سائیڈ سے درمیان میں کیا تاکہ لن پھنس جائے۔ پہلے ہی جھٹکے سے میری آہ نکل گئی۔ کنڈوم نے مموں کو کھردری سی رگڑ لگائی تھی۔

اس نے کنڈوم اتار دیا اور لن کو مموں میں گھسنے لگا۔ ممے دبانے سے مجھے اچھا لگ رہا تھا مگر شاہ میر اس سے بھی خوش نہ تھا کیونکہ وہ صرف چوت مارنا چاہتا تھا۔ یہ سب بس چھوٹنے کے لیے کر رہا تھا۔

وہ میرے گلے اور گردن پر چھوٹ گیا جس سے شدید غلاظت کا احساس ہوا۔ 

وہ بولا:یہ چوت میں لینے کی چیز ہے باہر تو نری گندگی ہی پھیلاتی ہے۔ تم کل صابراں کو میرے پاس بھیجنا۔

میں اٹھی جسم کو صاف کیا اور قمیض پہن لی۔

مجھے اچانک خیال آیا،میں نے کہا:میرو! اگر بڑے پاپا نے کنڈوم گن کر رکھے ہوئے تو،،،

وہ بھی اچانک چونک گیا اور بولا:ارے ہاں،،اب۔

میں نے کہا:تم کل اپنے لیے اور لانا ۔ پہلے ایک ویسا ہی کنڈوم دراز میں رکھ دینا۔


اگلی رات شاہ میر بولا:وشی! مجھے چوت مارنی ہے بس اور کچھ نہیں،منہ میں یا مموں 

میں مجھے مزہ نہیں آتا۔

میں نے کہا:اچھا تم گانڈ مار لو۔

وہ کسی قدر راضی ہو گیا،تو میں بولی:اندھیرے میں ہی میں گانڈ مرواؤں گی۔

وہ بےصبری اور اکتاہٹ بولا:جو مرضی کرو بس شلوار اتارو،میں تنگ آ گیا ہوں۔

میں نے لائٹ بند کی،اور بیڈ پر اوندھی لیٹ گئی۔ اس نے لن میرے چوتڑوں میں رکھا اور انگلی سے سوراخ ٹٹولنے لگا۔ 

تھوڑی دیر بعد بولا:وشی یہ تنگ ہے،کوس سے،درد ہو گا میں تیل لگا کر ڈالتا ہوں۔

وہ اٹھا اور تیل لے آیا،اس نے لن کی ٹوپی اور گانڈ میں تیل لگایا۔

وہ کنڈوم پہنے لگا تو میں بولی:یہ مت پہنو میری کھال چھیلنی ہے کیا۔

اس نے انگلی سے اندر ذرا سا تیل لگایا تو میں چلا اٹھی:میرو!اندھے ہو کیا؛درد ہوتا ہے۔

وہ بولا:ابھی تو انگلی ہی ڈالی ہے،لن باقی ہے۔تم سوچ لو گانڈ مروانی ہے یا چوت ماروں۔

"تمہیں جو کہا ہے وہ کرو بس"مجھے غصہ آ گیا۔

اس نے اپنا موٹا لن میری گانڈ کر سوراخ پر رکھا تو مجھے درد ہونے لگا،اس نے ایک زوردار جھٹکا دیا تو میری گانڈ جیسے چر گئی۔

میں بلک اٹھی،ابھی صرف ٹوپی ہی گئی تھی،میں رونے لگی:میرو!پلیز باہر نکالو مجھے درد ہو رہا ہے،اف میرو پلیز،،

وہ بولا:وشی ابھی تو صرف سر گیا ہے،لن تو باقی ہے۔

ہم دونوں اناڑی تھے،اب تک وہ ایک شادی شدہ اور ایک سدرہ جیسی بار ہا بار چدی لڑکی کو چود چکا تھا، جبکہ میں ناصرف کنواری تھی بلکہ گانڈ مروا رہی تھی۔

اس نے ہلکہ سا دباؤ ڈالا تو میں اور رونے لگی اور اٹھنے کی کوشش کی مگر وہ میرے اوپر تھا اور وہ بھی پیچھے سے میں اٹھ نہ سکی۔

آخر ایک ہی منٹ میں میری بس ہو گئی،میں بول اٹھی:میرو! پلیز نکال لو،تم میری چوت مار لینا۔ پلیز یہاں سے نکالو۔

وہ بولا:وعدہ ۔

میں نے کہا:ہاں ہاں وعدہ،،مگر آج نہیں کل۔

وہ بولا:نہیں ابھی اسی وقت۔ یہیں سے میں نیچے والے سوراخ میں گھسا دونگا،،بولو منظور۔

مرتی کیا نہ کرتی۔

میں نے ہامی بھر لی۔

اس نے لن باہر کھینچ لیا،سکون سا آیا مگر درد ابھی بھی گانڈ میں برقرار تھا۔

اس نے میرے سر کے نیچے سے تکیہ نکال کر اور ایک کشن اٹھا کر میری ناف سے ذرا سا نیچے رکھ دیا۔

میں کولہے عمودی رخ میں جسم سے کچھ انچ اونچے ہو گئے۔ میری چوت اس کے سامنے ذرا واضع جگہ پر آ گئی۔ 

اس نے میری شلوار اب پوری اتار دی اور لن میری چوت کے سوراخ پر رکھا۔

ایک زوردار جھٹکا دیا اور لن میرا پردہ پھاڑتا ہوا اندر گھس گیا۔

اگر شاہ میر نے پہلے میری چوت میں لن ڈالا ہوتا تو میں اس درد سے تڑپ اٹھتی مگر گانڈ کے درد کے سامنے یہ کچھ بھی نہ تھا۔

لن اندر گہرائی تک جانے لگا،خون باہر کیسے نکلتا کیوں کہ چوت کا منہ اوپر کی طرف تھا۔

میری تنگ کوس اور پوزیشن کی وجہ سے شاہ میر 5-7 منٹ ہی میری کوس مار سکا اور چھوٹ گیا۔

چھوٹنے کے بعد کنڈوم کا خیال آیا۔

میں اٹھی تو کوس سے خون، شاہ میر کی منی اور میرا اپنا پانی سب اچانک بہہ کر میری رانوں اور بستر کو رنگین کر گیا۔

بستر پر خون بہت سارے سوالات اٹھا سکتا تھا، سو چادر اسی وقت دھونی پڑی۔

وہ پہلی بار تھا پھر تو جیسے تانتا بندھ گیا،شاہ میر مجھے دن میں کئی کئی بار چودتا،

ہم کچن،ٹیرس،گیراج،الماری،باتھ روم،چھت ہر جگہ پر پانچ پانچ منٹ کے لیے ہی صحیح چودتے ضرور۔

ہم مل کر بلیو پرنٹ دیکھتے اور کچھ ہی دنوں بعد میں گانڈ بھی مروانے لگی۔

یہ ھی میری پہلی چدائی،اب بتاؤ چائے بناؤ گی،،یا چیک کروں۔


پلوشہ کی بات سن کر میں بولی:چیک کرنے کی ضرورت نہیں میں پوری طرح گیلی ہو چکی ہوں،میں چائے بناتی ہوں۔

یہی حال باقی دونوں کا تھا سو سب کو اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھانے پڑیں۔


ہمیں سوتے سوتے رات کے 2 بج گئے



ختم شد

ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی