بہنیں ہوں تو ایسی 2

 








شام کو میں واپس آیاتو امی دودھ چو رہی تھی جبکہ سعدو اس کے ساتھ کام کروا رہی تھی میں امی کا خوبصورت بدن ہلچل مچا رہا تھا میں اندر کیچن میں گیا تو نصرت چولہے پر بیٹھی تھی مجھے دیکھ کر مسکرا دی میں قریب گیا اور باجی نصرت کا ہاتھ پکڑ کر اٹھا لیا باجی خود ہی اوپر اٹھتی چلی آئی باجی کی گال پر میرے چک کا ابھی تک نیل پڑا ہوا تھا میں نے نصرت کو جپھی میں بھر کر دبوچ لیا باجی نصرت کے ممے میرے سینے میں دب گئے میں باجی کے ہونٹوں کو چومنے لگا باجی بھی میرا ساتھ دینے لگی نصرت نے میری زبان کھینچ کر اپنے منہ میں بھر کر چوسنے لگی میں باجی نصرت کے منہ میں زبان ڈالے چسوانے لگا باجی کے منہ کا دہانہ کافی پڑا تھا باجی مزے سے میری زبان چوستی ہوئی اپنے منہ میں زور لگا کر  کھینچنے لگی باجی مزے سے مچل کر ہانپنے لگی تھی جس سے نصرت کے پھولتے ناک میں اچھلتا کوکا میرے اندر ہلچل مچانے لگا جبکہ باجی نصرت بے قراری سے اب میرا سر پکڑ کر میرا منہ اپنے منہ میں پورے زور سے دبا کر میری زبان کو کھینچ کر چوستی ہوئی چتھنے لگی جس سے مجھے لگا جیسے میری زبان نکل کر باجی نصرت کے منہ میں جانے لگی ہو جس میر منہ تھک گیا اور ہونٹ اور زبان مسلسل کھینچنے سے درد سا ہونے لگا باجی اب بے قراری سے مچل کر مزید زور سے میرا سر دبا کر میری زبان اور منہ کھینچ کر چوسنے لگی جس سے میرا اور باجی کا سر کانپنے لگا میں سمجھ گیا کہ باجی نصرت کے اندر بہت آگ ہے باجی کے ہانپنے سے اس کا کوکا اچھل رہا تھا جو مجھے نڈھال کر رہا تھا میں نے درد سے اپنا ہاتھ باجی ہے سر پر دبا کر اپنا منہ باجی نصرت کے منہ سے چھڑوا لیا جس سے پڑچ کی آواز سے ہمارے منہ ایسے الگ ہوئے جیسے آپس میں سختی سے چپکے ہوئے تھے باجی کراہ کر ہانپتی ہوئی مست نظروں سے مجھے دیکھتی ہوئی پھر میرے ہونٹوں پر ٹوٹ پڑی اور اچھی طرح کا کر نصرت میرے ہونٹ چوسنے لگی میں باجی نصرت کے ہونٹ چوستا ہوا باجی کے گال پر پڑا میرے چک کا نیل دیکھ کر بولا باجی میرا چک ڈھیر ہی ڈاڈھا لگ گیا نشان پئے گیا باجی پیار سے میری آنکھوں میں دیکھ کر بولی بھائی اے تیرے پیار دی نشانی ہے چنگی اے پیار دی مہر میرے بھرا لائی ہے اور ہنس کر اپنا قمیض جلدی سے کھینچ کر اتار دیا جس سے میری بہن کے موٹے تنے ہوئے ممے ننگے ہو کر اچھلنے لگے میں نصرت کے مموں کو ہاتھوں میں دبا کر مسلنے لگا باجی نصرت میرا قمیض بھی کھول کر اتار دیا میں نے آگے ہو کر نصرت کا ایک موٹا مما منہ میں بھر کر دبا کر مسلتا ہوا چوسنے لگا بہت ہی شاندار ذائقہ تھا میری بہن کے مموں کا میں دبا کر ممے چوسنے لگا جبکہ باجی نصرت کراہ کر سسکتی ہوئی میرا سر اپنے مموں پر دبانے لگی میں کبھی ایک مما دبا کر چوستا تو کبھی دوسرا مما دبا کر چوسنے لگتا باجی نصرت نے میرا نالا کھول کر میرا کہنی جتنا لن کھینچ کر نکال کر مسلتی ہوئی سسسسسسیییی اففففف کرتی آہیں بھرنے لگی باجی نے میرا سر اپنے مموں سے اٹھا کر میرے ہونٹ چوستی ہوئی نیچے میرے لن کے سامنے بیٹھ کر میرے لن کو دونوں ہاتھ میں کس کر پکڑ کر ٹوپے سے نیچے لن کی جڑ تک مسل کر جڑ سے پکڑ کر اپنی زبان نکال کر اپنی زبان کی نوک میرے لن کی موری پر رکھ کر دبا کر موری کے اندر داخل کر کے پھیری جس سے میری مزے سے سسکی نکل گئی باجی نے ایک بار اسی طرح لن مسل کر اپنا منہ کھولا اور میرے لن کے موٹے ٹوپے کو ہونٹوں میں کس کر دبا کر چوستی ہوئی پچ کی آواز سے چھوڑ کر بولی اففف بھائی میرا شہزادہ لن ہے اے قسمیں بھائی بہوں سخت تے ٹھوس لن ہے اے سینے تک کہ کے چیر دیندا اے اور منہ کھول کر میری آنکھوں میں مستی میں دیکھ لن ہونٹوں میں دبا کر زور دار چوپا مارتی ہوئی لن کو گلے تک اتار کر رک کر میری آنکھوں میں مستی سے دیکھتی ہوئی ہانپنے لگی جس باجی کا چھلتا کوکا مجھے نڈھال کرنے لگا میں باجی کے گلے تک اترنے لن کو محسوس کرکے باجی کے منہ کی گرمی سے مچل رہا تھا باجی نے لن منہ سے کھینچ کر نکالا اور فلمی انداز میں ہوں ہوں کرتی سسکتی لن کو مسل کر اپنے منہ پر اچھی طرح دبا کر مسلتی اپنے منہ کو لن سے گیلا کرنے لگی باجی نصرت کا انداز بہت ہی سیکسی تھا میں باجی کے انداز پر مر رہا تھا باجی پوری طرح لن چوسنے میں ٹرین تھی ہوتی بھی کیوں نا جب سے ہوش سنبھالا اس کا واسطہ اسی لن س ہی تو پڑا تھا باجی نے میرے لن کو اٹھایا اور نیچے زبان مسلتی ہوئی دو تین بار لن کے نیچے والا حصہ زبان کی نوک سے مسلتی ہوئی میرے ٹٹوں تک پہنچ کر میرے ٹٹے چومنے لگی اپنی بہن نصرت کے ہونٹ اپنے ٹٹوں پر محسوس کر کے میں سسک گیا باجی نے میرے لن کو ایک میٹھی میں دبا کر مسلا اور دوسرے ہاتھ سے میرے ٹٹے اٹھا کر اپنے منہ میں بھر کر کھینچ کر چوسنے لگی میں اپنے ٹٹے کو اپنی بہن کے گرم منہ میں محسوس کرکے مچل گیا باجی بغیر رکے میرے ٹٹے کھینچ کر دبا کر چوسنے لگی اتنے میں پیچھے سے امی اندر داخل ہوئی اور باجی نصرت کو میرے چڈوں میں منہ چھپائے دیکھ کر بولی نصرت توں تے اگے مسیں ودی ہائیں ہن تے تینوں بھرا دالن لبھ گیا اے ہن توں اس دی جان نہوں چھڈدی نصرت امی کی بات سن کر میرے ٹٹے کھینچ کر چھوڑ دیے اور سسک کر بولی اففف امی توں کی جانے بھائی دے لن دا ذائقہ امی اڈا کے رکھ دیندا ایک امی بولی توں سانوں اپنے بھرا دے لن دا ذائقہ چکھن دیویں تاں چکھیے تنے میں پیچھے سے سعدو داخل ہوئی اور بولی باجی کجھ ساڈا وی حق ہے ساڈے بھرا تے سانوں وی دے نصرت ہنس کر بولی   لئو اپنا احق اپنا حق تے کھوہنا ہوندا کھوہ لئو یہ سن کر امی بولی بھلا سانوں وی چکھا اپنے بھرا دے لن دا ذائقہ اور اپنا قمیض کھینچ کر اتار دیا جس امی کے انتہائی موٹے تنے ہوئے ممے اچھل کر ہلنے لگے امی آگے ہو کر نصرت کےا پاس میرے لن کے سامنے بیٹھ کر نصرت کے ہاتھ سے لن پکڑ کر مسلتے ہوئے بولی نصرت شانی دا لن تے بہوں کھردرا اے وے شانی اے ایڈا کیویں بنایا ای اور منہ کھول کر لن کو منہ میں بھر کر ہونٹوں میں دبا کر مسلتے ہوئے لن اپنے گالے تک اتار کر دو تین چوپے مارے امی کے ہونٹ ذرا نصرت سے بڑے اور موٹے تھے جبکہ امی کے منہ کا دہانہ بھی کافی بڑا تھا اس لیے امی آسانی سے میرا لن گلے تک اتار کر چوپے مارنے لگی اتنے میں سعدو آگے بڑھی اور پیچھے سے اپنے ننگی ممے میری کمر میں دبا کر میرا منہ کھینچ کر اپنے منہ میں بھر کر چوستی ہوئی میری کمر میں اپنے ممے رگڑنے لگی جبکہ نصرت آگے ہو کر میرے لن کی ایک سائیڈ اپنے ہونٹوں میں بھر کر چوسنے لگی امی نے دو تین چوپے کس کر میرے لن کے مارے جس سے میں سسکنے لگا میری سسکیاں سعدو کے منہ میں دبنے لگیں امی نے تیز تیز چوپے مار کر اپنے ہونٹ لن کے ٹوپے تک کا کر جھٹکے سے اپنا منہ لن پر مارا جس سے میرا لن امی کے گلے کے اندر اتر گیا جیسے ہی لن امی کے گلے میں لگا ساتھ ہی امی کی کرہ بھی نکل گئی امی نے لن گلے میں مار کر اپنا منہ پوری طاقت سے میرے لن پر دبا دیا جس سے میر لن امی کے گلے کے اندر مزید اترتا ہوا پچ کی آواز سے امی کا گلا کھول کر امی خوارک والی نالی میں اترنے لگا امی کا سانس میرے لن کے گلے میں اترنے سے بند ہو نے لگا جس سے امی تیز تیز ہانپتی ہوئی سانس لینے لگی جس سے امی کے ناک کے نتھنے فل کھل گئے اور امی کا منہ لال ہونے لگا لیکن امی نے رکے بغیر اپنا منہ میرے لن پر دبائے رکھا جس سے میرا لن امی کی خوراک کی نالی میں اترتا ہوا معدے تک اتر چکا تھا جبکہ امی کے ہانپنے سے امی کی آوازیں نکلنے لگی امی کا سر بری طرح کانپ رہا تھا اور امی کا منہ لال سرخ تھا مجھے اپنا لن امی کے معدے تک اترا صاف محسوس ہو رہا تھا جس سے میں مچلتا ہوا کراہ سا گیا نصرت امی کو حیرانی سے دیکھنے لگی میرا ابھی تک سارا امی ہے منہ کے اندر نہیں اترا تھا میرا لن جڑ سے کافی موٹا تھا جس کی وجہ سے مزید اندر نا جا سکا اور امی کی ہمت بھی جواب دے گئی جس سے امی  نے جلدی سے لن سے منہ اٹھا لیا اور پیچھے ہو کر لن منہ سے نکال کر کھانسی ہوئی اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر سانس بحال کرنے لگی نصرت امی کو حیرانی سے دیکھ کر بولی میں مر جاواں امی اے کیویں تو سارا لن منہ اندر لئے گئی ایں سانوں تے نہیں اے ول سیکھایا اور ہنس دی میرا لن امی ہے تھوک سے بھرا تھا امی اپنا سانس ٹھیک کر کے بولی نصرت میری جان اے پریکٹس نال ہوندا اے توں وی لن اپنے اگلے اچ مند ہک دن تیرے اندر وی سارا اتر جاسی نصرت نے آگے ہو کر میرے لن کو مسلا اور منہ کھول کر دو تین چوپے مارتی ہوئی لن گلے میں اتار کر زور لگایا جس سے میرا لن نصرت کے گلے میں اتر گیا لین آگے لن کی موٹائی جتنا نصرت کا منہ کھلا نہیں تھا جس سے نصرت لن مزید آگے نا لے جا سکی اور لن نکال کر مسل کر بولی امی اے تے بہوں موٹا لن اے امی ہنس کر بولی نصرت اے تے کجھ ڈھیر ہی موٹا ہے نہیں تے میں لن جڑ تک منہ اچ لل لیندی آں نصرت ہنس کر بولی امی اور لن وی تے نکے نکے ہوندے ہین بھائی دا لن تے بہوں موٹا اے اتنے میں سعدو مجھے چھوڑ کر امی اور نصرت کے پاس بیٹھ کر بولی مینوں وی تے چکھن دیو بھائی دا لن اور مستی سے مجھے دیکھ کر میرا لن مسل کر بولی ہالنی اماں میں تے آج تک نا ایڈا موٹا تے سخت لن ے تے نا لیا امی سیدھی میرے لن کے سامنے آکر بیٹھ کر بولی میری دھی ہن توں اے روز لیسیں گئی سعدو نے اپنی کہنی میرے لن کی جڑ سے لگائی اور لن کو ماپتی ہوئی بولی ہالنی اماں اے تے ارک توں وی وڈا تے موٹا اے اور لن کو مسل کر حیرانی سے بولی اففف امی اے ایڈا لن میری پھدی پچاسی کنج سسسسسسیییی نصرت ہنس کر بولی سعدو ہک واری لن اپنی پھدی اچ کے تے سہی توں آکھسیں بھائی میری ہی پھدی اچ اے لن مند سعدو نصرت کو دیکھ کر آگے ہوئی اور میرے لن کو منہ یں بھر ہونٹ دبا کر کس کر چوپا مار کر جتنا لن منہ میں لے جا سکتی ہے جا کر چوپا مارتی ہوئی چوس کر چھوڑ کر بولی اف امی اے لن تے بہوں ٹھوس اے نصرت ہنس دی امی نے لن سعدو کے ہاتھ سے لیا اور میرا لن مسل کر اپنے ہونٹوں میں دبا کر چوپا  مارتی ہوئی لن دبا کر چوسنے لگی امی کے ہونٹوں میں عجیب مزہ تھا امی کے نرم ہونٹ میرے اندر تباہی مچا رہے تھے امی کو دیکھ کر نصرت اور سعدو دونوں آگے ہوئیں اور میرا لن سائیڈ سے دونوں بہنوں نے اپنے ہونٹوں میں بھر کر اپنے ہونٹوں میں ایسے دبا لیا کہ میرا لن نصرت اور سعدو کے ہونٹوں کے درمیان کس گیا جس کر نصرت اور سعدیہ چوستی ہوئی ہونٹ دبا کر ہونٹ میرے لن پر مسلنے لگی امی لن  کا ٹوپہ ہونٹوں میں دبا کر اپنی زبان ٹوپے پر پھیرتی ہوئی چوستے ہوئے چتھنے لگی جس سے میں مزے سے مچل رہا تھا نصرت اور سعدو کے ہونٹ میرے لن پر رگڑ کر مجھے نڈھال کر رہے تھے میں نے بے اختیار نصرت اور سعدو کا سر سختی سے ایک دوسرے کی طرف دبا دیا جس سے دونوں نے میرا لن ہونٹوں میں مزید کس کر دبا لیا میں نے زور لگا کر سر دبا کر لن اگر پیچھے کرتا ہوا نصرت اور سعدیہ کے ہونٹ میں لن رگڑنے لگا عجیب سا مزہ میرے اندر اترنے لگا امی نے دیکھا تو امی نے منہ کھول کر میرا نصرت اور سعدیہ کے ہونٹوں میں آگے پیچھے ہوتا لن اپنے منہ میں بھر کر چوسنے لگی میں میں تینوں امی اور بہنوں کے لن سے مزے سے مچل کر کراہ کر رہ گیا مجھ سے رہا نا گیا میں نے نصرت اور سعدو کے سر دبا کر تیز تیز دھکے مارتا ہوا اپنا لن نصرت اور سعدیہ کے ہونٹوں کے درمیان رگڑنے لگا جس سے میرا لن تیز تیز نصرت اور سعدو کے ہونٹوں کو رگڑ کر آگے امی کے کھلے منہ میں اتر جاتا جس سے میں مزے سے مچل کر سسکتا ہوا دونوں بہنوں کے سر دبا کر اپنی سپیڈ مزید تیز کر جس سے میرے لن کی کھردری چمڑی نے میری بہنوں کے ہونٹ بری طرح رگڑ کر چھیل کر رکھ دیے  جس سے دونوں بہنیں لن کی کھردری چمڑی سے ہونٹ رگڑنے ہر بری طرح کراہ کر مچل کر کرلا سی گئی میں نے سر دبا کر مزید تیز دھکوں سے لن ہونٹوں پر رگڑ دیا جس سے  میں تو مزے سے مچل گیا لیکن میرے لن کی سخت چمڑی نے دونوں بہنوں کے ہونٹ رگڑ کر مسل دیے جس سے نصرت نے جلدی سے کرلاٹ مارا اور اپنا سر میرے ہاتھ چھڑوا کر جلدی سے پیچھے ہٹ گئی سعدو بھی کراہ سر مجھ سے چھڑوا کر پیچھے ہٹ گئی میں نے نیچے دیکھ تو سعدو اور نصرت اپنے ہونٹوں کو دبا کر سسکتی ہوئی کراہ کر بولیں بھائی اففف بہوں ظالم لن ہے تیرا سعدو بولی بھائی تیرے لن دی چمڑی تے بہوں کھردری ہے ہونٹ ہی چیر چھڈے ہیس اور سسکتی ہوئی کراہ ے لگی میں ہنس دیا امی نے میرا لن منہ بھر کر چوپے مارنے لگی جبکہ نصرت امی کے منہ سے لن کھینچ کر بولی بھائی بہوں برداشت ہے تیری کس ٹائم دیاں لگیاں ہاں اسی پر ہلے وی فارغ نہیں ہویا اور لن چوم کر بولی ہن ول کر لیندی آں اور آگے منہ میں بھر کر ایک چوپا مار کر لن کی موری کھول کر اس میں زبان پھیری اور اپنا کوکا میرے لن کی موری کے نچلے نازک حصے پر رکھ کر لن دبا کر اپنے کوکے پر پھیرا جس سے میرا کراہ نکل گئی نصرت نے دو تین بار اپنا کوکا میرا لن پر پھیرا جس سے میں پہلے ہی تینوں کے لن چوسنے سے نڈھال تھا نصرت کا کوکا لن پر لگنے سے میں سسک کر کراہ گیا میری ٹانگوں سے جان نکلنے لگی نصرت نے میرے لن کی موری کھولی اور اپنا کوکا میرے لن کی موری کے اندر رکھ کر میرے لن کی موری اپنے کوکے پر دبا کر رگڑ دی جس سے باجی نصرت کے کوکے نے میرے لن کی نازک موری رگڑ کر میری جان ہی کھینچ لی باجی نصرت نے لن کی موری دو تین بار اپنے کوکے پر رگڑی جس سے میں پہلے ہی اینڈ پر تھا باجی کے کوکے نے میرے اندر سے میری منی اپنی طرف کھینچتی جس سے مری ٹانگوں سے جان نکل کر میرے لن کی طرف تیزی سے آئی جس سے میری ایک لمبی مزے سے بھر پور کرلاٹ نکلی جس کے ساتھ ہی میرے لن نے ایک لمبی گاڑھی منی کی دھار مار کر باجی نصرت کا کوکا اور منہ بھر دیا امی یہ دیکھ کر جلدی سے بولی نی رڑا ہووی نصرت ٹھہو ٹھہو منہ اچ لن لئے بھرا دی ساری منی ضائع پئی کردی ہیں اس سے پہلے ہی باجی نے منہ کھول کر میرا لن ہونٹوں میں بھر لیا جس سے میرے لن کی دوسری گاڑھی منی کی دھار باجی نصرت کے گلے میں لگی جسے باجی پی گئی اتنے میں امی آگے ہوئی اور بولی مینوں وی اپنے پتر دی منی چکھن دے اور نصرت اور امی نے اپنے ہونٹوں ایک دوسرے سے ملا کر میرا لن درمیان میں رکھ لیا جس سے میری منی امی اور باجی نصرت دونوں کے منہ میں جانے لگی جیسے دونوں منہ میں بھر کر میں منی نچوڑنے لگی سعدو یہ دیکھ کر آگے ہوئی اور بولی نی مینوں وی تے چکھاؤ بھائی دی منی اور قریب ہوئی تب امی اور نصرت منی ساری نچوڑ چکی تھیں سعدو کی بات سن کر امی پیچھے ہوئی اور سعدو کا منہ پکڑ کر اپنے منہ کے نیچے کیا اور اوپر سے اپنے منہ سے میری گاڑھی منی سعدو ہے منہ میں پھینکی جو امی کے تھوک سے بھری تھی ساری منی سعدو کے منہ میں ڈال کر امی نے اپنا منہ سعدو کے منہ سے جوڑا اور سعدو کو فرنچ کس کی میں مزے سے ہانپتا ہوا انہیں دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ میری امی اور بہنیں فل رنڈیاں بن چکی تھیں نصرت نے میرے لن کو اچھی طرح نچوڑ کر چوس لیا نصرت کا ناک کا کوکا اور چہرہ میری گاڑھی منی سے بھرا تھا نصرت مجھے دیکھ کر مسکرا دی امی سعدو کو چھوڑ کر نصرت کی طرف مڑی اور نصرت کے چہرے سے لن ہٹا کر آگے ہوئی اور نصرت کے چہرے پر لگی ساری منی زبان سے چاٹ کر پی گئی اور نصرت کے ہونٹوں کو چوس کر نصرت کے منہ سے منی کھینچ کر اپنے منہ میں بھر کر پھر نصرت کے منہ میں پھینک دی اور کچھ خود پی گئی نصرت اور سعدو بھی میری منی پی گئی امی بولی شانی تیرے لن دی منی دا ذائقہ تے واقعی ہی بہوں سوادی اے آج تک ایسا ذائقہ نہیں چکھیا سعدو میرا لن مسل کر بولی اف امی واقعی بھائی دے لن دا ذائقہ تے بہوں سوادی اے اس نوں پھدی اچ وی لینا چاہی دا اے امی ہنس کر بولی تے لل لئے روکیا کس ہئی نصرت ہنس کر بولی ہنے ہی لل سعدو میرا لن مسل کر کھڑی ہوگئی اور بولی بھائی ہن وت میری پھدی نوں اپنے لن سیر کرا دے پتا تے لگے پھدی دا کی حشر کرسی سعدو میرے ہونٹ چومنے لگی میں نے سعدو کو وہیں لٹا دیا اور سعدو کی شلوار کھینچ دی جس سے سعدو نے اپنی ٹانگیں اٹھا لیں سعدو کی پھدی کھل کر میرے سامنے آگئی سعدو کی پھدی کے ہونٹ کافی کھلے تھے جبکہ سعدو کی پھدی کا دہانہ بھی کافی کھلا تھا اور پھدی کے دانے کو چھدوا کر اس ۔یں ایک لاکٹ ڈالا ہوا تھا سعدو کی پھدی کی حالت سے لگ رہا تھا سعدو کی پھدی بہت استعمال ہوئی ہوئی ہے میں سعدو کی پھدی دیکھ کر بولا سعدو تیری پھدی تے اکا کھپا ہوئی پئی امی میری بات سن کر ہنس دی شانی سعدو تے اس علاقے دا کوئی کتا بلا نہیں چھڈیا نکی جئی عمر تو لن لینڑ لگی اے کوئی دن ہو جہیا نہیں گھیا جس دن دو چار لن سعدو دی پھدی اچ نا گئے ہوون میں بولا واہ سعدو توں تے ریکارڈ تروڑ دتے ہین سعدو ہنس دی اور بولی بھائی میں تے آج تک کسے نوں ناہ نہیں کیتی جس وی میرے کولو پھدی منگی میں تے اس آگے کھول دتی میں ہنس دیا اور بولا ہلا اے تینوں ڈھونڈ کتھو لیندے ہین نصرت بولے بھائی پٹھے وڈھن جاویے تے صبح صبح اس دے دو عاشق اس دا انتظار کر رہے ہوندے ہین اے جدو تک صبح صبح دو لن نا لوے اس دا دن نہیں لگھدا میں ہنس دیا اور بولا مینوں تے پتا ہی نہیں کہ میریاں بھیناں ایتھو تک اپڑیاں پیاں ہین باجی ہنس کر بولی بھائی ہلے آج پہلا دن ہے آگے ویکھ توں اپنیاں بھیناں دے کارنامے میں نے ہنس کر لن سعدو کی پھدی کے دہانے سے لگا کر سعدو کی پھدی کے لاکٹ کو پکڑ کر بولا سعدو تے فل انگرزی فلماں دیاں اداکاراں آر بنی ودی امی ہنس کر بولی شانی اے سعدو دے عاشق رضو دی فرمائش تے پوایا اے او تے اس تے مردا اے سعدو ہنس کر بولی بھائی ہک واری لن میری پھدی اچ پا اگلیا گلا وت کرساں گئے میں یہ بات سن کر آگے ہوا اور سعدو کی ٹانگیں پیروں کے پاس سے پکڑ کر سختی سے دبا کر فل کھول کر سعدو کے کندھوں سے لگا کر سعدو کے چڈے کھول دیے   جس سے سعدو کی سسکی نکل گئی اور سعدو کراہ کر بولی اففف بھائی چڈے ہی چیر دتے نی بھائی انج تے اگے کسی نہیں کیتا سسسسییییی نصرت بولی سعدو بھائی دا انداز ہی الگ ہے سواد بہوں دیندا اے میں نے سعدو کی ٹانگیں دبا کر لن کا ٹوپا سعدو کی پھدی میں دبا کر اوپر ہو کر پوری طاقت سے دھکا مار کر اپنا کہنی جتنا لن ایک ہی دھکے میں یک لخت پورا کا پورا جڑ تک سعدو کی پھدی کے پار کر دیا میرا لن سعدو کی پھدی چیرتا ہوا سعدو کے ہاں میں گھس گیا سعدو کی پھدی میں لن گھستے ہی سعدو تڑپ کر اچھلی اور زوردار بکاٹ مار کر کرلا کر کراہتی ہوئی حال حال کرکے بولی اوئے ہالیوئے اماں مار گھتیائی بھائی اوئے ہال ہوئے اماں اففف بھائی بہوں ظالم ہیں میرا لن جڑ تک اتر گیا جسے سعدو کی پھدی دبوچ چکی تھی سعدو کرلا کر کراہ رہی تھی سعدو کی ٹانگیں بری طرح کانپ رہی تھیں سعدو کانپتی آواز میں بولی ہالنی اماں بھائی دا لن میرے سینے اچ کہ گیائی اففف اماں آج تک کوئی لن میرے اندر اتنا نہیں لبھیا اففففف اماں نصرت ہنس کر بولی سعدو ہن ہی تے اوٹھ پہاڑ ہیٹھ آیا اے اگے توں وی نکیاں نکیاں للیاں لئے کے خوش ودی ہائیں ہن ہی تے لن ہے نا اور ہنس دی سعدو بولی واقعی باجی لن تے اے ہے بھائی کھلو نہیں اپنا کم وکھا لن پھیر میری پھدی اچ۔۔ میں نے ٹانگیں دبا کر لن کھینچا اور ٹوپے تک نکال کر پوری طاقت سے دھکے مارتا ہوا لن سعدو کی پھدی میں تیز تیز اندر باہر کرتا سعدو کو چودنے لگا میرا کہنی جتنا لمبا موٹا لن سعدو کی پھدی میں تیز تیز اندر باہر ہوتا سعدو کی پھدی کا کچومر نکالتا سعدو کی پھدی ہے ہونٹ سختی سے مسلتا سعدو کے سینے تک اترنے لگا جس سے سعدو کرلا کر تڑپی اور پوری شدت سے بکاٹ مارتی چیخنے لگی میں رکے لن ٹوپے تک نکال کر پوری طاقت سے دھکے مارتا لن یک لخت ایک ہی ہی جرک مار کر سعدو کی پھدی میں اتارنے لگا سعدو بکاتی ہوئی چیخ رہی تھی میرے شدید دھکوں سے سعدو کی پھدی کے  اندر باہر ہوتا لن کی کھردری چمڑی بری طرح سے سعدو کی پھدی کا ماس کاٹتا اندر سودو کے ہاں تک اترتا سعدو کی جان نکالنے لگا میرے لن کی رگڑ سعدو کی برداشت سے باہر ہو چکی تھی جس سے کرلا کر تڑپی اور پوری شدت سے ارڑا کر بکری کی زوردار بکاٹ مار کر بولی اوئے ہالیوئے اماں میں مر گئی اوئے ہالیوئے اماں بھائی میری جان پیمائی کڈھدا ایک مینوں چھڑا بھائی کولو اوئے ہالیوئے اماں اوئے ہالیوئے اماں اوئے ہالیوئے باجی میرا ہاں میں سعدو کی چیخوں کو نظر انداز کیے پوری طاقت سے دھکے مارتا سعدو کی پھدی چیرنے لگا سعدو کی میری ہاتھو میں ٹانگیں بری طرح کانپ رہی تھیں جبکہ سعدو میرا سینہ دبا کر دھکیلتی خود کو چھڑواتی بکا کر حال حال کرتی چیک رہی تھی سعدو کی پھدی میرے لن کو دبا کر مسل رہی تھی میرے لن کا ٹوپہ مجھے سعدو کے اندر کسی چیز میں چبھتا صاف محسوس ہو رہا تھا جس سے میں بھی مزے سے نڈھال ہو رہا تھا سعدو کی پھدی میں اندر باہر ہوتے لن سے میں سمجھ رہا تھا کہ سعدو کی پھدی نصرت کی پھدی سے تنگ تھی اس کی وجہ سعدو نے آج تک اتنا بڑا لن کبھی لیا نہیں تھا میں سعدو کی تنگ پھدی سے نڈھال ہو گیا تھا دو تین جھٹکوں میں سعدو کی پھدی نے میرے اندر سے جان کھینچ لی جس میری  کراہ نکلی اور بے اختیار ایک زوردار جرک مار کر میں نے لن سعدو کی پھدی میں جڑ تک اتار کر کراہ کر ایک لمبی منی کی دھار مار کر سعدو کے اندر فارغ ہونے لگا سعدو جرک لگنے سے تڑپ کر ایک زوردار چیخ مار کر اچھلی بکا کر رہ گئی سعدو میرے ساتھ فارغ ہونے لگی میں کراہ کر فارغ ہوتا سعدو کے اوپر جھک کر سعدو کے ہونٹوں کو چوستا سعدو کی بچہ دانی میں فارغ ہونے لگا سعدو تڑپتی ہوئی کرلاتی جھٹکے مارتی فارغ ہونے لگی سعدو کی پھدی میرے لن کو پوری طرح نچوڑ چکی تھی میں سعدو کی پھدی کو چود کر کراہ کر رہ گیا تھا سعدو کانپتی ہوئی بولی اففف بھائی آج تک میری پھدی انج کسے نہیں چیری میں بولا سعدو سواد آیا کہ نہیں سعدو سسک کر بولی بھائی قسمیں آج تک پھدی مروانڑ دا انج سواد نہیں آیا جیویں اج تیرے لن دتا سعدو بری طرح کراہ کر ہانپ رہی تھی میں سعدو کی ٹانگیں پیچھے ہٹاتا ہوا پیچھے اٹھ کر بیٹھ گیا میرا لن ابھی تک سعدو کی پھدی میں تھا سعدو بولی بھائی مار دتا ہئی آج تے اففففف تیرا لن میں پیچھے ہو کر بیٹھا تو امی بولی سعدو بہوں حال حال کریندی ہیں ایڈا وی کوئی ناہ ظلم ہو رہیا تیرے تے سعدو بولی امی بھائی کولو پچھ آگے ہن تک کدے رہیا اے ایڈا سواد دتا ہے کہ چس آگئی بھائی دے لن دی میں بولا سعدو تیری پھدی تے میرے لن نوں کس کے رکھیا ہویا توں تے آکھ رہی ہائیں کہ توں بہوں ھدی مروائی امی بولی سعدو آگے ایڈا لن لیا نہیں ناں اس تو سعدو دی پھدی تنگ اے نصرت دی پھدی وی کجھ کھلی ہے پر آگے نصرت دی ہینگ توں لگ رہیا ہا۔۔ نصرت بولی امی واقعی ہی بھائی دا لن ہک واری حال حال کڈھ دیندا اے میرے وی ہتھ جوڑا دتے ہاس امی بولی ہلا ویدھی آں میری پھدی اچ میرے پتر دے لن دا پتا لگایا اور ہنس دی سعدو بولی امی ہلے ٹھہر جا ہلے مینوں تے سہی سواد لونڑ دے میں بولا وے تے سعدو نوں گھوڑی بنا کے یہنا ہے سعدو ہنس کر بولی بھائی جیویں مرضی ہئی میں تے نہیں بولدی میں نے یہ کہ کر لن کھینچ لیا اور سعدو کراہ کر سسک کر کراہ سی گئی میں اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور سعدو کو گھوڑی بنا کر اپنا کہنی جتنا لن سعدو کی پھدی سے لگا کر سعدو کی گت پکڑ کر ہاتھ پر ولیٹ کر پوری طاقت سے دھکا مار کر سعدو کی پھدی میں لن یک لخت اتار کر سعدو کی گت اپنی طرف کھینچ لی سعدو کرا کر ارڑا کر بکا کر چیخی اور دوہری ہو کر پیچھے میرے سینے سے لگ کر کانپتی ہوئی بولی ہالیوئے اماں میں مر گئی بھائی چیر کے رکھ دتا ہئی میں رکے بغیر لن ٹپ تک کھینچ پوری طاقت سے گت کھینچ کر سعدو کو دوہرا کر پوری طاقت سے دھکے مار کر لن پوری طاقت سے اپنی بہن سعدیہ کی پھدی کے آر پار کرنے لگا میرے دھکوں میں اتنی تیزی تھی کہ ایک لمحے میں میرا لن سعدو کی پھدی میں چار پانچ بار اندر باہر ہو کر سعدو کی پھدی کو بری طرح رگڑ رہا تھا جس سے سعدو بوکھلا کر بکا کر ہڑبڑا کر پوری شدت سے بکا کر   چیخنے لگی میں رکے بغیر پوری طاقت سے دھکے پہ دھکے مارتا سعدو کی چیخوں کو اگنور کرتا سعدو کی پھدی چیرنے لگا سعدو کی پھدی میں آر پار ہوتا لن میری بہن کو چیر رہا تھا جس سے سعدو بکا بکا کر چیختی ہوئی حال حال کرتی کانپنے لگی میں پوری طاقت سے گت کھینچ کر سعدو کی پھدی میں جرکیں مارتا لن پوری طاقت سے سعدو کی پھدی میں گھما رہا تھا گت کھینچنے سے سعدو فل دوہری ہو کر بری طرح چیخ رہی تھی میرے دھکوں میں اب شدت آ چکی تھی جس سے سعدو  حال حال کرتی امی کو پکارتی شور مچاتی چھڑوانے کی دہائیاں دینے لگی امی سعدو کی حالت دیکھ کر بولی شانی بس کر بھین دی جان پیا کڈھداایں میں بھی تک نڈھال ہو کر ایک جرک مار کر سعدو کے اندر فارغ ہوگیا سعدو بری طرح چیخیں مارتی کرلانے لگی امی بولی اوئے ہوئے شانی بہوں ظالم ہیں اور آگے ہو کر میرے ہاتھ سے سعدو کی گت چھڑوا کر بولی شانی ہن بس کر چھویر دی تے گت ہی پٹ چھڈی ہئی گت چھوٹتے ہی سعدو تیزی سے سیدھی ہو کر آگے لڑھک گئی میں نے آگے ہو کر سعدو کی پھدی سے لن نکال لیا امی سعدو کو پکڑ کر سعدو کو سنبھالنے لگی سعدو کراہ کر آہیں بھرنے لگی میں پیچھے ہٹ کر باجی نصرت کے پاس بیٹھ گیا نصرت مجھے دیکھ کر مسکرا کر بولی بھائی سعدو دی تے جان کڈھ لئی ہئی میں بولا باجی تیری وی تے جان نکل گئی ہائی ہن توں وی وت کون واسطے بیٹھی نہوں باجی ہنس کر مجھے گلے میں بھر کر چومنے لگی میں باجی کے ہونٹوں کو چومنے لگا باجی میرا سر دبا کر چومنے لگی امی سعدو کو سنبھال رہی تھی میں باجی کے ممے مسلتا باجی کی زبان چوس رہا تھا کہ اتنے میں باجی نصرت کے موبائل پر بیل بجی باجی نے مجھے چھوڑ کر فون دیکھا تو کوئی وڈیو کال تھی اوپر لکھا تھا قاسو مصلی باجی نصرت مجھے دیکھ کر مسکرا کر مجھے چپ رہنے کا اشارہ کیا اور کال اٹینڈ کی تو سامنے ننگا کالا سیاہ دہوش قاسو مصلی لن ہاتھ میں لیے بیٹھا تھا میں اسے دیکھ کر چونک گیا قاسو مصلی ہمارے علاقے کا مشہور ڈکیت اور بدمعاش اشتہاری تھا جس کی جگہ جگہ پولیس کو تلاش رہتی تھی اور وہ پولیس سے چھپتا پھرتا تھا میں تو حیران رہ گیا کہ میری بہن نصرت کا تعلق اس اشتہاری سے ہے قاسو باجی نصرت کو دیکھ کر اپنے انداز میں بولا میری شہزادی میری جان نصرت باجی ہنس کر بولی میں صدقے جاواں اپنے ایر توں میں ٹھر جاواں قاسو ہنس کر بولا نصرت میری جان ہیں توں باجی بولی وے قاسو توں وت آ گیا ایں تو تے جیل اچ ناہیں قاسو بولا میری جان تینوں پتا اے تیرے قاسو نو کوئی جیل نہیں ڈک سگدی قاسو نوں کوئی ڈک سگدا اے تے تیری پھدی اے نصرت ۔ باجی ہنس کر بولی ہائے میں صدقے جاواں اپنے یار دے لن توں قاسو تیرا لن تے میری پھدی اگے بھیگی بلی بن جاندا اے اس نوں کجھ کھوا ہوا قاسو بولا میری جان تیری پھدی اچ آگ ہی بہوں بھری ہوئی اے باجی ہنس کر بولی ہلا وت حکم کر میں آ جاواں۔ میں باجی کی قاسو کے ساتھ بے جھجھک بات چیت سے حیران تھا کہ اس قاسو کے ڈر سے بڑے  بڑوں کی جان جاتی تھی پر باجی نصرت کیسے بے جھجھک اس سے بات کر رہی تھی وہ بولا شہزادی تینوں فون ہی اسے تو کیتا اے تینوں پتا اے قاسو تیری پھدی ہفتے اچ ہک واری نا مارے تے نہیں رہ سگدا جیل دا مہینہ میں تے تیرے واسطے مر گیا ہاس آج ہی آیاں ہاں نصرت اج ناں آویں تے رات نہیں لگھدی نصرت ہنس کر بولی صدقے جاواں میرا یار میرے واسطے اودریا پیا اے میں آج ہی آ جاندی آں قاسو بولا میں بوٹے نوں آکھ دتا اے او اپنے ٹائم تے پہنچ جاسی نصرت بولی ہلا سہی اے تے پچھے آج بڑا ملکھ اکٹھا کیتا ہئی قاسو بولا اے سارے وی اشتہاری ہین میرے نال ہی آج جیل اچو چڑھ آئے ہین آج ایتھے جیل اچو آنڑ دی خوشی اب پروگرام ہے آجا اے سارے تیرا ہیں انتظار کر رہے باجی ہلا اور کالو وی آہا ہئی قاسو ہنس کر بولا کالو تیرا عاشق اے بیٹھا یہ کہ کر اس نے موبائل اسے دے دیا وہ بولا کون اے قاسو بولا نصرت ہئی تیری مشوق وہ جلدی سے فون لے کر سر پر ہاتھ رکھ کر بولا میری جان نصرت میں قربان نصرت میں نے دیکھا تو کالا کٹ بڑی بڑی موچھوں والا بدھی سی شکل کا آدمی تھا جو میں نہیں جانتا تھا وہ بھی اشتہاری تھا اس کے ایک ہاتھ میں بوتل تھی جس کا گھونٹ بھر کر وہ بولا نصرو آجا آج اے تینوں ساری پوا کے نچانا اے نصیبو دے گانیاں تے نصرت اس کی بات پر ہنس کر بولی میں صدقے اپنے عاشق توں کالو مینوں تے توں ساری رات وی نچا تے ساری رات نچساں تیرے واسطے کالو ہنس کر بولا شہزادی شہزادی اسے گل تے ہی تے تیرے تے مردے آں پیچھے بیٹھے تین چار لوگ بھی باجی نصرت کو دیکھ رہے تھے کالو موبائل ان کی طرف کرکے بولا ہزادی جلدی آجا اے سارے تیرا جلوا ویکھن کانڑ بیٹھے ہین نصرت ہنس دی اور بولی ہلا اہناں نال وی گل کروا دے کالو بولا ہلا اور ایک کی طرف موبائل دے کر بولا اے گل کر میری مشوق نال اس آج تھوانوں اپنی پھدی دینی اے اس نال گل کرو باجی ہنس دی ایک آدمی کافی تگڑا فون لے کر سلام کیا باجی نے جواب دیا اور بولی سناؤ جی کی حال اے وہ بولا شہزادیے ول آں توں سنا کالو تیریاں بڑیاں تعریفاں کر رہیا توں لگ وی سوہنی رہی ہیں نصرت بولی کالو تے قاسو تے میرے یار ہین انہوں کولوں پچھ فل مزہ دیندی آں وہ ہنس کر بولا واہ گشتیے کیا بات ہے باجی ہنس دی اور باری باری سب سے کھل کر بات کی اور پھر قاسو سے بات کرکے بولی قاسو سے سعدو نوں وی لئی آواں قاسو بولا شہزادیے سعدو تے لازمی لئے آویں اتنا ملکھ ہاں تے ساری رات پھدی مارنی آج تھواڈی باجی ہنس دی اور بولی کر لیندی آں تینوں ٹھڈا تیرا لن تے میری پھدی دی جھال نہیں جھک سگدا قاسو ہنس دیا اور بولا نصرت پر سواد بہوں دیندی تیری پھدی باجی ہنس دی اور بولی ہلا سہی ہے ملدے آں اور کال کاٹ دی باجی مجھے دیکھ کر ہنس دی میں ہکا بکا اسے دیکھ رہا تھا باجی مجھے دیکھ کر ہنس کر بولی توں کی سمجھیا کہ تیریاں بھیناں کوئی عام گشتیاں ہین انٹرنیشنل گشتیاں ہاں جنہاں اشتہاری وی یار بنائے ہوئے ہین اور ہنس دی میں بولا باجی کوئی بندہ تساں چھڈیا وی ہے باجی ہنس دی اور بولی بھائی بس توں ویکھیں جا ساڈے کارنامے اے تے کجھ وی نہیں   میں بولا ہلا اے تے دسو ے قاسو کیویں یار بن گیا تھواڈا سعدو اٹھ کر بیٹھ چکی تھی بولی بھائی اے امی دا یار ہا امی توں اے ساڈا یار بن گیا ہن تے وت اے ساتھوں بغیر رہندا ہی نہیں اور ہنس دی امی بولی اے بڑا پرانا تیریاں بھیناں دا یار اے میں بولا اکا ہی ماحول بنا دتا نہے سب ہنس دیں نصرت بولی بھائی سعدو دا یار رضو سعدو نوں حاملہ کرنا چاہندا اے تینوں کوئی اعتراض تے نہیں میں بولا مینوں کی اعتراض ہونا پر او حرام دا بال جمو کیو اے اس نوں کیویں پتا لگایا کہ اسدا اے باجی ہنس کر بولی بھائی اس نوں کی پتا ہونا کہ سعدو صرف اس کولو یہیندی میں بولا کی مطلب باجی بولی بھائی اسی وی کچے کم نہیں کردیاں ایتھے اساں جتنے وی یار بنائے ہین دووے نوں کوئی پتا نہیں کہ اس توں علاؤہ وی ساڈا کوئی یار اے رضو نوں وی ایو غلط فہمی ہے کہ سعدو اس دی مشوق ہے اور ہنس دی میں بولا بہوں تیز ہو جیویں مرضی تھواڈی نصرت ہنس دی اور بولی سعدو اٹھی تیار ہو قاسو کول وی جانا اے تے روٹی وی بنانی میں اٹھ کر نکل گیا شام کے بعد آیا تو نصرت اور سعدو تیار ہو چکی تھیں قاسو کی طرف جانے جو امی ابھی تک ایسے ہی اوپر سے ننگی بیٹھی تھی نصرت اور سعدو میکاپ کرکے تیار ہوکر نیا جوڑا ڈالے بیٹھی تھی میں بولا واہ جی واہ میریاں بھیناں فنکشن کرن بلیاں نصرت ہنس دی اور بولی اسی فنگشن تے جاؤں آں توں ذرا آج امی دے کڑاکے کڈھ امی چولہے پر بیٹھی تھی میں پیچھے جا کر بیٹھ گیا اور بولا امی دی تے آج میں حال حال کڈھ دینی اور امی کے پیچھے بیٹھ کر امی کے ننگے ممے کس کر دبا کر مسل کر امی کی گال چوس لی امی سسک کر کراہ گئی اور میرے ہونٹ چومنے لگی اتنے میں نصرت کا فون بجا نصرت نے اٹینڈ کیا تو بوٹا تھا نصرت بولی بوٹیا آجا بوٹا بولا میری جان میں تے ٹیوب ویل تے تیرا انتظار پیا کردا باجی ہنس کر بولی بہوں کمینہ ایں قاسو ہنس کر بولا میری جان تھوانوں قاسو تک اپڑاون دا کرایہ وی تے وصول کرنا اے نا نصرت بولی حرامدیا بہوں حرامی ایں ہلا میں آندی پئی اور بولی امی سانوں چھڈ آ وے امی بولی آج تھوانوں بھرا چھڈ آسی میں بولا اے بوٹا کی کرایا منگدا باجی ہنس کر بولی اے وی سانوں چھڈن دی پھدی لیندا اے میں بولا واہ اس دے وی گڑ اب رمبے ہیں باجی ہنس کر بولی ہلا چل آجا میں اٹھا تو نصرت اور سعدیہ چادر میں لپٹی کر نقاب کر کیا دونوں نقاب میں لپٹی قیامت لگ رہی تھیں میں بولا واہ پھدی مراون وی وہاں تے نقاب اچ جانا اور ہنس دیا باجی بولی بھائی اے وی تے ضروری اے ہن سارے ملکھ نوں دس کے جاویے کہ اسی پھدی مراون جا رہیاں آں میں ہنس دیا اور دونوں کو ہے کر چل پڑا راستے میں گھپ اندھیرا تھا دونوں بہنوں کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ کیا وقت ہے کہ بہنوں کو چدوانے کے جا رہا ہوں کچھ دیر بعد ٹیوب ویل پر پہنچ گئے جو ہمارا ہی تھا باجی بولی بھائی ہن توں جا بوٹا اندر بیٹھا ہونا میں ہنس کر بولا وگ جانا اپنی بھیناں دی چدائی تے ویکھ لواں نصرت ہنس کر میرے گال چوم کر ٹیوب ویل کے کمرے میں داخل ہوئی اندر موبائل کی لائٹ جل رہ تھی جس پر بوٹا ننگا لن کو مسل رہا تھا باجی کو دیکھ کر ہنس پڑا بوٹا ہمارے گاؤں کا بھی ایک عجیب کریکٹر تھا جسے کوئی منہ نہیں لگاتا تھا اور اب وہ میری دونوں بہنوں کو چودنے کا رہا تھا باجی نے جلدی سے اپنی چادر اتاری اور بوٹے کے ہونٹ چومنے لگی سعدو بھی چادر ہٹا کر بوٹے کی طرف بڑھی باجی نصرت بوٹے کے لن کو پکڑ کر منہ میں بھر کر چوپے مارنے لگی سعدو بوٹے کے ہونٹ چومنے لگی باجی نے کس کر بوٹے کا چوپا لگا کر بوٹے کو فارغ کر دیا بوٹا کراہ کر جھٹکے مارتا باجی کے منہ میں منی چھوڑتا فارغ ہو گیا باجی منی پی کر بولی بوٹیا گولی کھا کے آیا ایں بوٹا سسک کر بولی میری جان گولی نا کھا کے آواں تے تھواڈی دواں بھیناں دی پھدی دا سواد کیویں لواں ہنس کر چوپا مار کر لن کھڑا کیا اور اپنی شلوار اتار کر گھوڑی بن گئی بوٹے کا لن نارمل سا تھا وہ اٹھ کر نصرت کے پیچھے ا کر لن باجی نصرت کی پھدی کے میں ڈال کر جھٹکے مارتا کراہتا پانچ منٹ میں فارغ ہو گیا کچھ دیر بعد اس کا کہنا سعدو نے چوس چوس کر فارغ کر دیا اور پھر وہ سعدو کو ننگا کرکے چودنے لگا پانچ منٹ یں سعدو کےا ندر فارغ ہو کر نڈھال ہو گیا اس کا لن مرجھا گیا جسے دیکھ کر باجی نصرت بولی بوٹیا تیرا کم ہو گیا اٹھ چلیے بوٹا ٹھ کر کپڑے پہن کر کھڑا ہو گیا میری بہنیں بھی چادر میں لپٹی گئیں بوٹے نے سکوٹر نکالا نصرت اور سعدیہ اس کے پیچھے بیٹھ گئیں اور وہ ان کو کے کر قاسو مصلی کی طرف کے کر چل دیا جبکہ میں گھر آگیا گھر آیا تو کیچن میں امی سنک پر ننگی کھڑی برتن دھو رہی تھی مجھے دیکھ کر امی مسکرائی میں امی کو دیکھ کر مسکرایا اور چلتا ہوا امی کے پیچھے جاکر قمیض اتار کر امی کے موٹے مموں کو پکڑ مسکرا امی کی گل چوسنے لگا امی سسک کے میرے ساتھ لگ گئی میں نے امی کے منہ میں منہ دے کر امی کی زبان چوسنے لگا میرا لن تن کر فل کھڑا ہو امی کی موٹی گانڈ میں چبھ رہا تھا امی نے میری زبان چوستے ہوئے میرا نالا کھول کر میرا لن باہر نکلا کر مسلا اپنی گانڈ پر مسلنے لگی میں امی کی گانڈ میں لن محسوس کرکے مچل سا گیا امی خودہی آگے سنک پر جھک  گئی میں بھی امی کے اوپر لیٹ گیا امی نے اپنی ٹانگ اٹھا کر سنک پر رکھ کر میرا میرا لن اپنی پھدی پر ایڈجسٹ کیا اور بولی شانی ہلا بول دے جیویں سعدو نال کیتا ہئی میں اوپر ہوا اور امی کی گت ہاتھ پر ولیٹ کر پوری طاقت سے دھکا مار کر لن امی کی پھدی کے پار کرے گت اپنی طرف کھینچ لی امی کی پھدی پہلے ہی کافی کھلی تھی جو اس طرح کے لن لینے کی عادی تھی اس لیے میرا لن پھدی کو کھولتا ہوا امی کے سینے تک اتر گیا اور ساتھ گت کھینچ کر اپنے سینے سے لگا امی زور سےکرلا کر میرے سینے لگ کر کانپ گئی میں رکے بغیر پوری طاقت سے دھکے مارتا لن امی کی پھدی میں اندر باہر کرنے لگا میرا مضبوط لن امی کی پھدی کا ماس رگڑ کر اندر باہر ہوتا امی کی پھدی کا کچومر نکالنے لگا امی کرلا کر کراہنے لگی امی کا منہ میری شدید چدائی سے سرخ ہو رہا تھا لیکن امی برداشت کر رہی  تھی میں نے شدت سے پوری طاقت سے گت اپنی طرف کھینچ کر امی کی پھدی میں دھکوں کی بارش کر دی جس سے میرے کھردرے لن نے امی کی پھدی کے ہونٹ رگڑ کر امی کی بھی بکاٹیاں نکال دیں امی بری طرح کرلا کر باں باں کرکے رہ گئی جس کے ساتھ ہی میری بھی ہمت ٹوٹ گئی اور میں کراہتا ہوا بری طرح کانپتا امی کی پھدی میں لن جڑ تک اتار کر امی کی پھدی میں فارغ ہوگیا امی بھی کراہتی کرلاتی چھوٹنے لگی میں لڑھک کر امی کے اوپر لیٹ گیا امی سیدھی ہو کر آہیں بھرتی ہوئی بولی اففففف شانییییی تیرا لن بہوں سخت تے کھردرا اے میری جئی زنانی دے بکاٹ کڈھ دتے ہیس میں سسک کر اوپر ہو کر امی کو چومنے لگا امی مجھے چوم کر بولی اندر چل میں برتن دھو کے آندی آں میں امی کی پھدی سے لن نکال کر پیچھے ہوا امی کراہ سیدھی ہوئی میں ننگا ہی اندر چلا گیا اور لیٹ گیا

ایک تبصرہ شائع کریں (0)
جدید تر اس سے پرانی