یہ ایک سچی کہانی ہے ۔۔
میں اور آصف بچپن کے دوست تھے ۔ ہم وہاڑی میں
محلے دار بھی تھے اور کے جی سے لے کر کالج
تک ایک ساتھ پڑھے جب ہم نے لاہور کالج میں
داخلہ لیا تو وہاں ہاسٹل میں ہمارا کمرہ بھی ایک ہی تھا۔
لاہور کی دنیا ہی الگ تھی ۔۔ہم پینڈوٹائپ تھے ۔۔یہاں کی خوبصورت اور ماڈرن لڑکیوں کو دیکھ کر ہم
مست ہوجاتے ۔ہم اکثر سیکس کی باتیں کیا کرتے تھے ان دنوں میں، ہم نے تو ساتھ
ساتھ مٹھ بھی ماری تھی۔ ہم دونوں دن سیکس کہانیوں والے رسالے پڑھتے رہتے ۔۔ بلیو فلم
دیکھتے تھے اور پھر جا کر باری باری باتھ روم میں مٹھ مارتے تھے، کئی بار تو ٹی وی
کے سامنے بھی بلیو فلم دیکھتے ہوئے مٹھ
مارنے لگتے ، ہم دونوں نے ایک دوسرے کا لنڈ بھی دیکھ رکھا تھا، ویسے آصف کا مجھ سے
بھی لمبا اور سخت لنڈ تھا۔
کالج ختم ہوتے ہی آصف کو لاہور میں ہی ایک پرائیوٹ بینک
میں نوکری مل گئی ۔
میں کالج کے بعد واپس وہاڑی چلاگیا۔وہاں ہماری کچھ
زمین تھی ۔ساتھ میں نے بزنس بھی شروع کردیا۔
پھر میری شادی ہو گئی، میری عمر رہی ہوگی تئیس سال اور صائمہ
کی اٹھارہ سال جب ہماری شادی ہوئی تھی۔ میں خوشگوار زندگی گزاررہاتھا۔
لیکن آصف کی شادی نہیں ہو پائی کیونکہ پہلے اس کے ابو
فوت ہوگئے ۔ پھر اس کی ممی بیمار پڑ گئیں
اور وہ ان کی دیکھ بھال میں ہی مصروف ہوگیا۔اور دیکھتے دیکھتے بیس سال بیت گئے۔
اب ہم دونوں کی عمر بیالیس ہو گئی، اس عمر میں اس سے کون
ہی شادی کرتا؟
میں نے ملتان شہر میں اپنا گھر بھی بنا لیا ہے، اب میری بیٹی دانیہ بھی
بڑی ہو گئی ہے، وہ لاہور کالج میں پڑھتی
ہے ۔ بالکل ماڈرن ہو گئی ہے لیکن میرے اندر کا پینڈو ابھی تک زندہ تھا۔
آصف کام کے سلسلے میں آیا ہوا تھا ملتان ، مجھے پتا چلا
تو میں اسے فوراً گھر لے آیا۔بڑے عرصے بعد اس سے ملاقات ہوئی تھی ۔
آصف۔۔ واہ یار، تیرا گھر تو بڑا عالیشان ہے!
میں۔۔ بس یار! اور تو نےلاہور میں جو فلیٹ خریدا تھا،
اس کا کیا کیا؟
آصف۔۔ یار فلیٹ میں وہ مزا کہامی ؟ گھر کا اپنا ہی سکون ہے اور یار بھابھی تو
ملتان آکر بہت ماڈرن ہوگئی ہیں ۔
صائمہ۔۔ بس بھی کرو آصف بھیا تعریف، میں جانتی ہوں میرے
ہاتھوں کا بنا کھانا آپ کو کتنا پسند ہے۔
آصف۔۔ ارے سچ میں جب لاسٹ ٹائم آپ کو دیکھاتھاتو آپ تب
بھی شرمیلی سی تھیں ۔۔
صائمہ۔۔ جیسے کہ خود بڑے ماڈرن ہیں، پینڈو تو یہ ہیں بھیا!
میں۔۔ ارے میں کہامی پینڈو ہوں، جینز پہن لینے سے کوئی ماڈرن
نہیں ہو جاتا۔
آصف۔۔ کیوں نہیں ہو جاتا، بھابھی تو پہلے صرف سادہ سی
شلوار قمیض پہنتی تھیں اور اب یہ جینز پہن کر ایکدم ماڈرن ہو گئی ہیں۔
صائمہ۔۔ ارے وہ تو بس دانیہ ضد کرتی ہے ورنہ میں کہامی یہ
سب کپڑے!
آصف۔۔ ارے، دانیہ کہامی ہے؟ دکھائی نہیں دے رہی ہے۔
صائمہ۔۔ ابھی ایگزام چل رہے ہیں تو سہیلی کے پاس ہے۔
آصف۔۔ ہامی اسے دیکھے ہوئے تو دس سال ہو گئے۔
میں۔۔ ہامی، جب کچھ سال پہلے میں وہاڑی آیا تھا، تب وہ اپنی نانی کے پاس تھی۔
رات ہو چلی تھی صائمہ روم جا چکی تھی، میں بھی سونے اپنے
روم جا رہا تھا- اچھا بھائی آصف، چلتا ہوں، تو بھی سو جا رات کافی ہو چلی ہے۔
آصف۔۔ ابھی کہامی بھائی پہلے مٹھ ماروں گا، نیند پھر آئے
گی۔
میں یہ سن کر ایکدم سے سکتے میں آ گیا، ٹھہر گیا- یار آصف،
تو آج بھی مٹھ مار مار کر سوتا ہے؟
آصف۔۔ اور کیا یار، سب تیرے جیسے خوش نصیب نہیں ہوتے ہیں،
تجھے نہیں پتا میں نے کیسے راتیں گزاری ہیں۔
میں۔۔ یار، پھر تو نے شادی کیوں نہیں کی؟
آصف۔۔ تجھے تو پتا ہے تیری شادی کے فوراً بعد ہی میری شادی
ہونے والی تھی لیکن اچانک ابو کو ہارٹ اٹیک
آ گیا پھر وہ چل بسے۔
میں۔۔ لیکن بعد میں تو؟
آصف۔۔ بعد میں کب دوست، پھر امی کی طبیعت خراب رہنے لگی
ان کی خدمت کرتے کرتے میں خود چالیس پار ہو گیا۔
میں۔۔ لیکن تو نے اپنے بارے کبھی نہیں سوچا؟
آصف۔۔ سوچا، لیکن کیا کرتا، ایک طرف بیمار امی ، دوسرا جاب!
اسی طرح ہر رات میں نے مٹھ مار کے گزاری ہے۔
میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا- یار، تو نے کبھی سیکس کیا ہے؟
آصف۔۔ نہیں دوست، میں آج تک سیکس سے محروم ہوں۔
میں۔۔ کبھی کوئی رنڈی، کوئی نوکرانی یا پھر کوئی بینک کی
عورت کسی سے نہیں کیا کچھ؟
آصف۔۔ نہیں یار، موقع ہی نہیں ملا!
میں۔۔ چل کوئی بات نہیں، اب امی کیسی ہے؟
آصف۔۔ بستر پر پڑی ہے کئی سال سے!
میں۔۔ اور اب کیا سوچا ہے؟
آصف۔۔ سوچنا کیا ہے، اب اس عمر میں کون کرے گا، میری چھوڑ
تو سنا تیری سیکس لائف کیسی رہی؟
میں شرماتے ہوئے- یار، بس ٹھیک!
آصف۔۔ کس سے شرماتا ہے، میں تیرا بچپن کا دوست ہوں کھل کر
بول!
میں۔۔ وہ تو ہے، بس یار شروع شروع میں تو میں دن رات
چدائی میں لگا رہتاتھا۔۔ لیکن پھر دھیرے دھیرے کم ہو گیا۔
آصف۔۔ آج کل؟
میں۔۔ ہفتے میں ایک یا دو بار!
آصف۔۔ اور کتنی دیر تک کرتا ہے؟
میں۔۔ پہلے تو بیس منٹ بعد ہی جھڑتا تھا اب یہی کوئی تین
پانچ منٹ میں ہی، اب عمر ہو چلی ہے دوست!
آصف۔۔ ارے واہ! یہ تو کوئی میری مٹھ والی بات ہوئی، ان دنوں
جب تیری شادی ہوئی تھی تب میں بھی بیس منٹ تک دن میں چار بار مٹھ مارتا تھا۔
میں۔۔ اور اب؟
آصف۔۔ اب یہی کوئی ہفتے میں ایک دو بار، پانچ منٹ کے لیے،
فرق یہی ہے تو صائمہ کی چوت میں منی گراتا ہے، میں ویسے ہی! ہا ہا ہا!
آصف کی ہنسی میں اس کا درد چھپا تھا۔
اس رات میں ٹھیک سے سو نہیں پایا، سوچا جو کنوارے ہیں یا
پھر آصف کی طرح جن کی عمر ہونے پر بھی شادی نہیں ہوئی وہ کیسے سو پاتے ہیں۔ میں تو
سیکس سے اس طرح محروم رہتا تب میں یا تو مر جاتا یا پھر کسی کا ریپ کر دیتا!
اگلے دن اتوار تھا تو دانیہ بھی واپس آ گئی تھی، ہم دیر
سے اٹھے تھے۔
صائمہ رات کی نائٹی میں کچن میں تھی اور دانیہ چھوٹی سی
پینٹ پہنی ہوئی تھی اور اوپر بغیر بازو والے شرٹ!
میں دیکھ رہا تھا آصف کس نظروں سے میری بیوی کو تاڑ رہا
تھا، اس کی نظر میری بیوی کے سیکسی چوتڑوں
پر تھی اور مموں پر بھی!
میں۔۔ ارے دانیہ، ادھر آؤ، آصف انکل سے ملو!
دانیہ۔۔ آصف انکل، پاپا اکثر آپ کے بارے بتاتے ہیں۔
دانیہ آصف کے بغل میں آ کر بیٹھ گئی، اس بات سے انجان کہ
آصف اس کی گوری گوری پتلی رانوں کو اپنی ہوس بھری آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔
دانیہ اب بڑی ہو گئی تھی، اس کے ممے بھی بڑے ہو گئے ہیں،
آصف کی نظریں اس کے خوبصورت جسم سے ہٹ نہیں
رہی تھیں۔
صائمہ نے آصف کو پراٹھے دیے جب وہ جھکی تب اس کے بڑے
ممے آصف کو نظر آ گئے کیونکہ اس نے برا نہیں پہنی تھی۔
صائمہ اس بات سے بےخبر تھی لیکن میں اپنے حرامی دوست کو
اچھے سے جانتا تھا، وہ اپنا لنڈ مل رہا تھا۔
صائمہ اور دانیہ کسی کام سے چلی گئیں۔
میں۔۔ آصف، وہ میری بیٹی ہے اور دوسری میری بیوی! میں جانتا
ہوں کہ تو ان کے بارے کیا سوچ رہا ہے۔
آصف۔۔ ابھی باتھ روم جانے دے، میں نہیں روک سکتا، پہلے مٹھ
مارنے دے!
آصف دوڑ کر باتھ روم گھس گیا۔
میں دروازے کے باہر سے۔۔ حرامزادے، تو میری بیوی کے بارے
سوچ کر مٹھ مار رہا ہے نا؟
میں نے بہت دروازہ کھٹکھٹایا، پورے دس منٹ بعد وہ باہر آیا۔
میں نے آصف کا کالر پکڑ لیا۔۔ کتے، تو میری بیوی کے بارے
سوچ کر مٹھ مار کر آیا نہیں ؟
آصف۔۔ نہیں، تیری بیٹی کے بارے سوچ کر، بہت سیکسی ہے مجھے
ہمیشہ سے ایسی ہی لڑکی پسند تھی! یاد ہے نامی میں کہتا تھا مجھے پتلی گوری لڑکی پسند
ہے۔
میں۔۔ وہ میری بیٹی ہے۔
آصف۔۔ تو سب بھول گیا، تیری قسمت تھی، تیری شادی ہو گئی،
بھرپور سیکس ملا تجھے، تو نہیں سمجھے گا۔
میں۔۔ تو ایسا سوچ بھی کیسے سکتا ہے؟
آصف۔۔ آج تیرا ہاتھ میرے گریبان تک پہنچ گیا، تب کیوں نہیں
پہنچا جب تو مجھ سے ادھار مانگا کرتا تھا، یہاں تک بلیو فلم دیکھنے کے لیے ویڈیو بھی میں لے کر آتا
تھا، جب تجھے سیکس کی بھوک لگتی تھی تب کراؤن سینما میں میں اپنی جیب خرچ سے دکھاتا تھا۔
میں۔۔ اس کے بدلے تو کیا چاہتا ہے؟
آصف۔۔ بھابھی؟؟
آصف کے بارے سوچ کر بہت برا لگ رہا تھا مجھے اس کا درد دیکھا
نہیں جا رہا تھا، سوچا صائمہ تو میری بیوی ہے، آصف میرا سب سے اچھا دوست تھا، بیچارے
کی قسمت!
مجھے آج بھی یاد ہے کہ ہم نے ساتھ میں مٹھ مارنا شروع کیا
تھا، ہم اکثر چدائی کی باتیں کرتے تھے اور یہ بھی کہتے تھے کہ جب شادی ہوگی تب خوب
چدائی کریں گے اپنی اپنی بیوی کی۔
میری شادی بھی ہو گئی اور پھر میں نے تو بہت چدائی کی لیکن
بیچارا آصف بن چدائی کے ہی جیا۔
اب میری باری تھی اسے کچھ دینے کی!
میں۔۔ یار تو میری بیوی کو چودے گا؟
آصف۔۔ لیکن یار، بھابھی بھلا تیار ہوگی چدنے کے لیے؟
میں۔۔ میں تیرا درد سمجھتا ہوں، صائمہ سے میں بات کروں گا،
وہ مان جائے گی، ویسے بھی وہ بہت ماڈرن ہوگئی ہے ۔ مجھے یقین ہے وہ مان جائے گی ۔
آصف۔۔ سچ یا ر ؟ ۔۔ویسے تیری بیوی بہت ہاٹ ہے یار۔۔اسے چودنے
کا مزا آجائے گا۔۔
میں۔۔ حرامی ۔۔تیری بات سن کر میرا لن کھڑا ہوگیا ہے
۔۔ہاہاہاہا ۔۔
اس شام دانیہ واپس لاہور جاچکی تھی ۔۔ میں نے صائمہ سے آصف
کے لیے بات کی، پہلے تو وہ ایکدم بھڑک اٹھی، پھر میرے بہت منانے، منت کرنے سے وہ مان
گئی۔ صائمہ بہت جوش میں آگئی تھی ۔۔میں آصف سے چدنے کی تڑپ اس کے چہرے پر صاف دیکھ
رہاتھا۔۔ جیسے مرد چاہتا ہے کہ وہ نئی سے نئی چوت چودے ویسے عورت بھی تو چاہتی ہے
کہ نئے سے نئے لن سے چدے ۔
رات کھانے کے بعد ہم دیر تک باتیں کرتے رہے ۔۔صائمہ اور
آصف ایک دوسرے کو بہت شہوت سے دیکھ رہے تھے۔۔ان دونوں کی چدائی کا سوچ کر ہی میرا
لن سخت ہوتاجارہاتھا۔۔اور جسم میں فل مستی سی چھارہی تھی ۔۔
ہم بیڈروم میں آگئے ۔۔میں نے کمرے کی ساری لائٹس بند کیں
اور ایک نائٹ لیمپ جلا دیا۔
میں نے صائمہ کی نائٹی کھول کر ہٹا دی، آصف کے سامنے اب
وہ صرف برا پینٹی میں تھی۔
صائمہ۔۔ جان، یہ کیا کر رہے ہو؟ ۔
میں۔۔ آصف کے لن کے لیے تمہیں تیار کررہا ہوں ۔۔
آصف کود کر صائمہ کے پاس بیٹھ گیا۔
آصف۔۔ یار بھابھی کے تو بہت بڑے بڑے ہیں، کھول کر نہیں دکھائے
گا؟
میں۔۔ ہٹ پاگل، بھابھی نہ آج اسے صائمہ بول، آج یہ تیری
صائمہ ہے، دیکھ لے جو دیکھنا ہے۔
آصف نے خود ہی صائمہ کی برا کھولی اور ممے دبانے لگا۔
صائمہ اب تک بالکل مدہوش ہو چکی تھی اب وہ مجھ میں اور آصف
میں کوئی فرق محسوس نہیں کر پا رہی تھی۔
آصف۔۔ یار ممے کتنے ملائم ہوتے ہیں، چوس کر دیکھتا ہوں!
آصف بڑے پیار سے ممے چوس رہا تھا، پھر اس نے پینٹی کھولی،
صائمہ کی چوت ہمیشہ کی طرح گیلی تھی، آصف چوت پھیلا پھیلا کر دیکھ رہا تھا، مجھے
چوت کی سمیل اچھی نہیں لگتی تھی ۔۔اس لیے میں نے کبھی صائمہ کی چوت نہیں چاٹی تھی
۔۔لیکن میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آصف صائمہ کی گلابی چوت پر جھک گیا۔۔ اور
چوت چاٹنے لگا۔۔
صائمہ۔۔ اووووووووہ آآآآآآآآآہ ۔۔صائمہ فل لذت سے تڑپنے
لگی ۔۔
میں۔۔ یار آصف، تجھے چوت کی بدبو سے گھن نہیں آ رہی؟
آصف۔۔ ہٹ پاگل چوت کی خوشبو ہے، بھینی بھینی سی،تو نے
کبھی اس پیاری چوت کو نہیں چاٹا؟۔
میں خاموش رہا۔۔
صائمہ بھی اب آصف کے سر کو اپنی چوت پر دبارہی تھی
۔۔۔وہ مستی سے پاگل ہوگئی تھی ۔۔۔
اب آصف نے اپنے کپڑے اتاردئیے ۔۔اس کا موٹا لن دیکھ کر
صائمہ کا چہرہ ہوس اور خوشی سے اور لال
ہوگیا۔۔ کی آصف نے کوئی ٹائم ویسٹ نہیں کیا۔۔اور لن صائمہ کے منہ میں ڈال دیا۔
صائمہ بھی چوسے جا رہی تھی، وہ شہوت کے نشے میں اتنی دھُت تھی۔
صائمہ میرا لن بھی چوستی تھی ۔۔مگر وہ جس طرح آصف کا لن
چوس رہی تھی ۔۔اسے دیکھ کر مجھے جیلسی فیل ہورہی تھی ۔۔
صائمہ نے کوئی دس منٹ تک مسلسل آصف کا لن چوسا۔۔
آصف اب صائمہ کی ٹانگوں کو کھول رہاتھا ، میں سمجھ گیا تھا
اب وہ اسے چودے گا۔ ۔آصف کے لن کو اپنی بیوی صائمہ کی چوت میں جاتے ہوئے دیکھنے کے
لیے میں بہت بے چینی فیل کررہاتھا۔۔
آصف۔۔ یار بھابھی کی ایکدم چکنی ہے، تجھے تو بہت مزا آتا
ہوگا؟
میں۔۔ بہت مزاآتا ہے۔۔
آصف نے اپنا لنڈ صائمہ کی چوت کے اوپر رکھا، آصف کا لنڈ
میرے سے بڑا اور لمبا تھا، صائمہ لنڈ لینے کے لیے بہت بے چین تھی ۔۔
آصف نے صائمہ کے دونوں کولہوں کو اوپر اٹھایا اور اپنا لن
ا اندر ڈالنے لگا۔ صائمہ فل مستی سے تڑپنے لگی ۔۔
صائمہ۔۔ آئی! آرام سے جی!
آصف نے لن صائمہ کی چوت کی موری پر رکھا۔۔اور دھیرے
دھیرے اسے اندر گھسانے لگا۔۔۔
آصف چپ تھا لیکن میں اس کے لنڈ کو دیکھ رہا تھا اندر جاتے
ہوئے!
میں۔۔ کیسا لگ رہا ہے؟
آصف۔۔ جنت دوست، آج تو نے جنت کی سیر کرا دی۔
آصف کا لنڈ اندر گھس چکا تھا اور وہ تیز تیز جھٹکے مار رہا
تھا، بیچ بیچ میں وہ اور صائمہ ایکد وسرے کے ہونٹ بھی چوسنے لگتے ۔۔
صائمہ کا گورا خوبصورت بدن مستی سے تڑپ رہاتھا۔۔اور وہ لذت
سے چیخ رہی تھی ۔۔
میں بھی بھرپور جوش میں آگیاتھا۔۔ارے آصف میری پیاری بیوی کو اور زور سے چود۔۔اس کے گلابی ہونٹ
چوس ۔۔۔اور چوس حرامی ۔۔۔
آصف میرے کہنے پر صائمہ کے گلابی ہونٹوں کو چوس رہا تھا
اور زبان بھی اندر باہر کر رہا تھا۔ اور
فل زور سے جھٹکے مارکر صائمہ کو چود رہاتھا۔۔
آصف بہت تیز جھٹکے مار رہا تھا جس سے صائمہ کو درد ہو رہا
تھا۔
میں۔۔ ارے، میری بیوی کی چوت پھاڑے گا کیا؟
آصف۔۔ آآآآآآآہ آج مت روکو یار، اس کی تو صائمہ کی پیاری پھدی پھاڑ ہی دوں گا!
میں۔۔ آرام سے! ممے بھی چوس!
آصف ایک ایک کر کے ممے چوس رہا تھا۔
صائمہ پوری مدہوش تھی اور چدائی کا وہ مزا لے رہی تھی
جو اسے شاید میں بھی آج تک نہیں دے پایاتھا ۔ آصف کے جسم کو کپکپاتا ہوا دیکھ کر میں
سمجھ گیا کہ وہ جھڑنے والا ہے ۔۔
میں۔۔ یار چوت میں منی مت نکالنا، حمل ٹھہر جائے گا۔
آصف نے مجھے دھکا دیا، جب تک میں اسے روک پاتا، میں نے آصف
کی گانڈ کو سکڑتے ہوئے دیکھا، آصف کالن ساری منی صائمہ کی
چوت میں چھوڑ چکا تھا۔
آصف گہرے گہرے سانس لیتا ہوا ایک طرف نڈھال ہو گیا اور صائمہ
بھی!
لنڈ نکل چکا تھا اور صائمہ کی چوت سے۔۔اس میں میرے یار کا کی منی بہہ رہی تھی ۔۔
یہ سین دیکھ کر مجھے لگا کہ میرے لن نے بھی منی چھوڑدی ہو۔۔
آصف نے ایک دم صائمہ کو اپنی بانہوں میں لے لیا۔۔اور دونوں ایک دوسرے کے ہونٹوں کو زور
زور سے چوسنے لگے ۔۔
اگلے دن صبح صبح میں نے آصف کو جاتے ہوئے دیکھا، میں بولا۔۔
آصف، تو آج ہی جا رہا ہے؟
آصف۔۔ ہاں یار،
بھابھی سے آنکھ نہیں ملا پاؤں گا۔
میں۔۔ کیسی بات کر رہا ہے، تو نے کون سا زبردستی کی ہے
۔۔صائمہ کتنی خوش ہے تیری چدائی سے ۔۔ایسا کیوں سوچ رہا ہے ؟۔۔
آصف۔۔ یار تو نے مجھےجو تحفہ دیا اس کے لیے شکر گزار رہوں گا، ورنہ میں نے سوچ
لیا تھا اس جنم میں میں کبھی چوت چود نہیں پاتا۔
میں۔۔ یار جب سیکس کا من کرے، ضرور آنا، صائمہ میری بیوی
ہے لیکن تو میرا دوست ہے جب چاہے تو اسے چود سکتا ہے۔
آصف۔۔ نہیں دوست، ایک رات بہت تھی عمر گزارنے کے لیے، یہی
سوچ کے اب زندگی بھر مٹھ مارنی ہے۔
دوستو، سیکس ہر انسان کی ضرورت ہے، آج بھی نہ جانے کتنے
بےروزگار نو جوان، مزدور، رکشا والے اور جیل میں بند قیدی روز رات مٹھ مار کر سوتے
ہوں گے۔ اور شادی شدہ لوگ اپنی بیوی کو چود چود کے سوتے ہیں۔
جو شادی شدہ ہیں، وہ رب کا شکر ادا کریں، کنوارے لوگ جلدی
اپنا ساتھی تلاش کریں۔
کیونکہ یاد رکھیں۔۔
ایک تو کم زندگانی ۔۔
اس پر بھی کم ہے جوانی!!