میرا نام پرویز ہے۔ میری فیملی میں میری ماں، باپ، میں
اور میری چھوٹی بہن سلمیٰ رہتے ہیں۔ میری عمر 20 سال ہے اور میری پیاری رانی بہن
تقریباً 18 سال کی ہوگی۔ وہ بہت خوبصورت ہے، رنگ گورا ہے۔ جب سے وہ چھوٹی تھی، تب
سے میں اس کے جسم کو چھوتا رہا ہوں۔ ایک دن سکول کے ہوم ورک کے بہانے اس نے ماں سے
کہا، دیکھو ماں، بھائی میری ہوم ورک میں مدد نہیں کرتے۔ ماں نے مجھ سے کہا، بیٹا،
اپنی چھوٹی بہن کی مدد کرنا تمہارا فرض ہے۔ میں نے کہا، ماں، رات کے 10 بجے تک تو
میرا اپنا کام ختم نہیں ہوتا۔ اس پر ماں نے سلمیٰ سے کہا، تم اپنا بستر بھائی کے
کمرے میں ہی منتقل کر لو۔ جب تمہارے بھائی کا کام ختم ہو جائے گا، تو وہ تمہارا
کام بھی کروا دے گا۔
سلمیٰ کے چہرے پر خوشی صاف نظر آ رہی تھی۔ اس نے کہا، بھائی،
آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں؟ میں نے کہا، ٹھیک ہے، لیکن بیچ میں مجھے ڈسٹرب نہیں
کرنا۔ سلمیٰ نے اسی وقت اپنا بستر میرے کمرے میں منتقل کر دیا۔ شام کو کھانا کھانے
کے بعد وہ میرے کمرے میں آئی اور آتے ہی مجھ سے لپٹ کر بولی، بھائی، آپ کا شکریہ،
آپ بہت اچھے ہیں۔ اس نے اسکرٹ ٹاپ پہنا ہوا تھا، ہلکے سے میک اپ کے ساتھ اس نے
آنکھوں میں کاجل بھی لگایا ہوا تھا۔ میں نے بھی اسے بازوؤں میں کس کر اس کی دونوں
کجریری آنکھوں کو چوما اور اس کے گال کو منہ میں بھر لیا اور ایک ہاتھ سے اس کے
بھاری ہوتے ہوئے پچھواڑے کو سہلاتے ہوئے کہا، کیا میں اپنی پیاری بہن کے لیے اتنا
بھی نہیں کر سکتا؟ اسی دوران نیچے سے ماں کی آواز آئی، بیٹا، دروازے کھڑکیاں اچھی
طرح بند کر لینا، کہیں ٹھنڈ نہ لگ جائے۔ سلمیٰ نے کہا، بھائی، پہلے دروازہ تو بند
کر لو، پھر پڑھائی کرتے ہیں۔
نومبر کی ہلکی ہلکی ٹھنڈ تھی۔ دروازہ اندر سے لاک کر کے
میں نے پھر سلمیٰ کو بازوؤں میں بھر لیا اور بے تحاشہ اس کے گال، آنکھیں اور رسیلے
ہونٹوں کو کافی دیر چوسا۔ سلمیٰ بھی اچھل اچھل کر میرا ساتھ دے رہی تھی۔ پھر میں
کمبل لے کر بستر پر ہی پڑھنے لگا تو سلمیٰ بولی، بھائی، مجھے ٹھنڈ لگ رہی ہے، میں
کمبل لانا بھول گئی، آپ کے بستر پر بیٹھ کر پڑھ لوں؟ شاید اس نے جان بوجھ کر کمبل
نہیں لایا تھا۔ سلمیٰ میرا جواب سنے بغیر ہی میرے بستر پر آ گئی اور میرا آدھا
کمبل اپنی گوری گوری، گدھرائی کیلی کے تنے جیسی چکنی موٹی رانوں پر ڈال لیا۔ تھوڑی
دیر اس نے کتاب کے صفحے پلٹے، پھر وہ ایک آنکھ ملتی ہوئی بولی، بھائی، میری آنکھ
میں کچھ گر گیا ہے، نکال دو۔
میں دیکھنے کے لیے اس کی طرف سرکا تو وہ خود اپنے بھاری
چوتڑ اٹھا کر میری جانب سرکی اور کمبل کے اندر ہی اپنی گوری گوری، سڈول رانوں کو
میری کمر کے دونوں طرف کر کے اپنا خوبصورت چہرہ میرے بالکل قریب کر دیا۔ اوہ! کیا
مہک تھی اس کی سانسوں کی۔ میں نے اس کےخوبصورت چہرے کو دونوں ہاتھوں میں تھاما اور اس کی
آنکھوں میں جھانکنے لگا۔ میں دھوتی کے نیچے رات کو انڈرویئر نہیں پہنتا۔ میرا 7
انچ کا لنڈ کمبل کے نیچے ہی دھوتی سے باہر نکل کر پھنکار اٹھا۔ میں اس کی ایک آنکھ
میں پھونک مارنے لگا۔ وہ بولی، بھائی، تنکا اس طرح نہیں نکلے گا، زبان سے ٹرائی کر
کے دیکھو۔ میں نے اس کی دونوں بھاری رانوں کو پکڑ کر اسے مزید اپنی طرف کھینچا تو
میں حیران رہ گیا۔ اس نے بھی پینٹی نہیں پہنی تھی اور اس کی پھلی ہوئی چوت سیدھی
میرے گدھے جیسے لنڈ کے ساتھ چپک گئی، صاف محسوس ہو رہا تھا کہ اس نے چوت کے بال صاف
کیے ہوئے تھے ۔
اس کی چوت لنڈ
سے اس طرح چپک گئی مانو برسوں سے بچھڑے ہوئے دو عاشق گلے مل رہے ہوں۔ گرم لنڈ کا
احساس کرتے ہی میری رانی کی آنکھیں مستی سے بند ہو گئیں اور ہونٹ ذرا سے کھل گئے۔
میں نے اس سے کہا، سلمیٰ، آنکھیں کھولو۔ اس کی نشیلی آنکھوں نے میری آنکھوں میں
جھانکا تو میں آہستہ سے زبان کو اس کی ایک آنکھ میں گھمانے لگا۔ اس کا چہرہ ہوس سے لال ہو گیا اور ہلکی سی سسکی بھی نکل
گئی۔ تھوڑی دیر بعد جب میں نے پوچھا کہ کیا تنکا نکل گیا تو وہ ایک آنکھ بند کر کے
بولی، بھائی، تنکا تو دوسری آنکھ میں ہے۔ پھر میں نے دوسری آنکھ میں زبان گھمائی۔
مجھے اس کی آنکھوں کا نمکین ذائقہ بہت اچھا لگ رہا تھا۔ میں نے کہا، سلمیٰ، تمہاری
آنکھوں کا ٹیسٹ لاجواب ہے۔ وہ بولی، سچ بھائی! مجھے بھی چکھاؤ تو ذرا۔
میں نے کہا، کیسے؟ وہ بولی، زبان کو پھرا کر باہر
نکالو۔ میں نے ایسا ہی کیا تو اس نے فوراً میری زبان کو منہ میں بھر لیا اور لولی
پاپ کی طرح چوسنے لگی۔ وہ بولی، بھائی، آپ کی آنکھوں کا ٹیسٹ کیسا ہے، دیکھوں؟ یہ
کہہ کر وہ مجھ سے اور چپک گئی اور اپنی زبان میری ایک آنکھ میں پھرا کر بولی کہ آپ
کی آنکھ کا ٹیسٹ بھی مزیدار ہے۔ میں نے کہا، دکھاؤ۔ تو اس نے زبان کو میرے ہونٹوں
کی طرف بڑھایا۔ میں نے اس کی پوری زبان کو منہ میں بھر لیا۔ میں اس کے میٹھے رس سے
مست ہو گیا۔ اس نے میری کمر کو مزید کستے
ہوئے اپنی مست گانڈ کو جھٹکا سا دیا جس سے اس کا تنا ہوا کلٹورس میرے تنے
ہوئے لنڈ پر زور سے گھس رہا تھا۔ اس کی چوت کے پانی سے میرا لنڈ بھیگ رہا تھا۔ اب ہم دونوں پڑھائی
کو بھول چکے تھے۔ پھر وہ بولی، بھائی، اس طرح تو تھک جاؤں گی۔ اور مجھ سے چپکتے
ہوئے اسی پوزیشن میں پیٹھ کے بل لیٹ گئی۔
اس کی ٹانگیں میری کمر پر لپٹی ہوئی تھیں۔ ہمارا کسنگ سیشن کافی دیر چلا اور نہ جانے ہمیں کب نیند آ
گئی۔ صبح مجھے اٹھاتے ہوئے وہ بولی، بھائی، 5 بج گئے ہیں، اٹھو۔ میں نے آنکھ کھولی
تو دیکھا وہ میرے چہرے پر جھکی ہوئی ہے، اس کے کھلے بالوں کا سایہ میرے اوپر تھا۔
میں نے اسے بازوؤں میں بھر لیا اور اس کا خوبصورت چہرہ چومنے لگا، میرے ہاتھ اس کے
بھاری چوتڑوں کو سہلا رہے تھے، اس کے چوتڑوں کو زور سے بھینچ کر میں اس کی زبان کو
چوسنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد ماں کی آواز آئی کہ سلمیٰ، اٹھو، چائے تیار ہے۔ اس نے
اپنے بال ٹھیک کیے اور مسکراتی ہوئی نیچے چلی گئی۔ آج ہم دونوں ہی بہت خوش تھے۔
رات کو وہ پھر سج دھج کر آئی اور پیچھے سے مجھ سے لپٹ کر میرے گال سے گال ستا کر
بولی، بھائی، میرے کان کا ٹوپس نکل گیا
ہے، پلیز ڈال دو نہ۔ میں نے اس کا دوسرا گال سہلاتے ہوئے کہا، پہلے ہوم ورک تو کر
لو۔
وہ بولی کہ سارا کام سکول سے آتے ہی کر لیا تھا۔ پھر وہ
پلٹھی مار کر میرے سامنے بستر پر بیٹھ گئی اور مجھے کان کا ٹوپس دیتے ہوئے بولی، پلیز بھائی، ڈال دو نہ۔ اس طرح
بیٹھنے سے اس کی اسکرٹ اس کے گھٹنوں کے اوپر تک چلی گئی تھی اور گوری مسل رانوں کا
قہر ڈھا رہی تھی۔ میں نے بالا لے کر کہا، ذرا قریب تو آؤ۔ اپنے بھاری چوتڑ سرکاتے
ہوئے سلمیٰ میری طرف کھسکی اور کل کی طرح دونوں ٹانگیں میری کمر کے دائیں بائیں کر
کے دونوں ہاتھوں سے میری کمر پکڑ لی اور چہرہ میرے بالکل قریب لا کر بولی، لو
بھائی، ڈال دو۔ میرا لنڈ کھونٹے کی طرح کھڑا ہو کر دھوتی سے باہر ہو گیا۔ وہ گانڈ کو مزید اچھکا کر میری طرف کھسکی تو اس کی چوت میرے لنڈ سے چھپکلی کی طرح چپک گئی۔
میں نے بایاں ہاتھ اس کی گردن کے پیچھے سے لا کر اس کے
بائیں کان تک لایا اور دائیں ہاتھ سے ٹوپس ڈالنے لگا۔ وہ بولی، آہ بھائی، درد ہو رہا ہے،
ایک دم نہ گھساؤ، پلیز دھیرے دھیرے ڈالو... آہ... آہ... پلیز بھائی، تھوک لگا کر
ڈالو۔ وہ اس انداز میں بول رہی تھی جیسے میں اس کی چوت میں لنڈ ڈال رہا ہوں۔ میں
نے اسے بازوؤں میں جکڑ کر اپنی زبان سے اس کے کان کے چھید کو چاٹنے لگا۔ وہ بولی، آہ
بھائی، اسی طرح میرے چھید کو چاٹو... آہ اچھا لگ رہا ہے۔ میں اس کی کان کی لو کو
منہ میں بھر کر چوسنے لگا تو اس نے مجھے اور کس کر جکڑ لیا... آہ بھائی، اچھی طرح
گیلی کر کے ڈالنا، موٹا ہے... آسانی سے نہیں گھسے گا۔ میرا لنڈ اکڑ چکا تھا اور وہ
اپنی چوت لنڈ پر رگڑ رہی تھی۔ جب وہ جھڑنے کے قریب پہنچی تو کہنے لگی، بھائی، اب
جلدی سے ڈال دو۔ میں نے کان کا ٹوپس ڈالنا شروع کیا تو وہ چوت کے دو تین دھکوں سے
میرے لنڈ پر مارتی ہوئی بولی، آہ... پورا ڈال دو بھائی... آہ... آپ بہت اچھے ہیں۔
یہ کہہ کر وہ میرے کندھے پر سر رکھ کر شانت ہو گئی۔ میرا لنڈ اورٹٹے اس کے چوت رس سے بھیگ گئے۔ وہ بری طرح جھڑ چکی
تھی۔ کچھ دیر بعد اسے ہوش آیا تو میرے ہونٹوں پر بوسہ کرتی ہوئی بولی، تھینک یو
بھائی۔ پھر سلمیٰ اپنے بستر پر جا کر سو گئی۔ اگلے دن دوپہر کے بعد جب وہ سکول سے
آئی تو بولی، بھائی، میری انگلی میں دروازہ بند کرتے وقت چوٹ لگ گئی۔ میں نے اس کی
نازک انگلی دیکھی، تھوڑی سی نیلی پڑ گئی تھی۔ میں نے انگلی کو منہ میں لے کر چوسنا
شروع کر دیا۔ وہ بولی، بھائی، آپ نے تو کمال کر دیا، درد ختم ہو گیا ہے۔
شام کو ماں نے کہا کہ امتحان سر پر ہیں، جلدی کھانا کھا
لو اور اوپر جا کر پڑھائی کرو۔ جب سلمیٰ اوپر آئی تو وہ ٹاپ اسکرٹ میں ہی تھی۔ آتے
ہی کہنے لگی، بھائی، مجھ سے آج پڑھائی نہیں ہو سکے گی، مجھے بہت درد ہو رہا ہے۔
میں نے پوچھا، کیا انگلی کا درد ابھی بھی ہے؟ وہ بولی، انگلی میں نہیں، مجھے مکھی
نے کاٹ لیا ہے۔ میں نے کہا، دکھاؤ کہاں کاٹا ہے؟ تو وہ بولی، بھائی، کیسے دکھاؤں،
مجھے شرم آتی ہے۔ میں نے کہا، میں تمہارا بھائی ہوں، مجھ سے کیا شرمانا؟ وہ بولی، بھائی،
ماں کو نہ بتانا، دیکھ لو۔ یہ کہہ کر وہ پیٹھ کے بل لیٹ گئی اور رانوں کو پھیلا کر
چوت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی کہ یہاں لڑ گئی ہے۔ میں نے اس کے چوتڑوں کے نیچے تکیہ رکھا اور رانوں کو مزید چوڑا کر
دیا۔ اس نے آج بھی پینٹی نہیں پہنی تھی۔
کیا چوت تھی، میں تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ ایک دم گوری، پاؤں روٹی کی طرح پھلی ہوئی، ایک
دم پھول جیسی ۔صاف شفاف ۔
ایک کالا تِل اس کی چوت پر چار چاند لگا رہا تھا۔ میں آہستہ آہستہ اسے
سہلانے لگا۔ و ہ سسکاریاں لیتی ہو ئی بولی، بھائی، اس طرح درد نہیں جائے گا۔ دن میں
جیسے انگلی کا درد کم کیا تھا ویسے ہی کرو نہ۔ میری تو خوشی کا ٹھکانہ ہی نہ رہا۔
میں فوراً اس کی چوت پر جھک کر اپنے تپتے
ہونٹوں کو چوت پر رکھ دیا اور گرم سانسوں سے چاٹنے لگا۔ پھر اس نے تنے ہوئے کلٹورس پر انگلی رکھتے
ہوئے کہا، بھائی، یہاں درد ہے۔ میں نے اس کے کلٹورس کو ہونٹوں کے بیچ لیا اور
دھیرے دھیرے چوسنے لگا۔ اس کے منہ سے سسکاریاں نکلنے لگیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا
زیادہ درد ہو رہا ہے تو اس نے میرے بالوں میں انگلیاں پھیراتے ہوئے کہا کہ نہیں
بھائی، بہت آرام مل رہا ہے، پلیز ایسے ہی کرتے رہئے، پلیز زبان سے۔ میں نے اس کی
پوری چوت پر زبان پھیرنی شروع کر دی اور
کلٹورس کو چاٹنے لگا۔ اس کی چوت نے پانی چھوڑنا شروع کر دیا جسے میں لپر لپر چاٹ رہا
تھا۔
پھر زبان کو کڑی کر کے چوت میں گھسا کر اندر باہر کرنے لگا۔ تھوڑی ہی
دیر میں اس کا بدن اکڑنے لگا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے میرے سر کو اپنی چوت پر
دبا لیا اور چوت نے رس کا فوارا چھوڑ دیا جس کی ایک بھی بوند میں نے
ضائع نہ کی۔ وہ جھڑ چکی تھی۔ کئی دیر اسی طرح گہری سانسیں لیتی ہوئی پڑی رہی۔ تھوڑی دیر بعد آنکھ کھول کر میری طرف
مسکرا کر بولی کہ بھائی آپ مجھے کہاں لے گئے تھے، یہ تو جنت سے بھی بڑھ کر تھا۔
میں نے کہا کہ ابھی تو تم نے جنت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے، جنت کی سیر تو ابھی باقی
ہے۔ وہ بولی کہ بھائی مجھے پھر سے جنت میں لے چلو۔ میں نے کہا کہ لے چلوں گا، پہلے
میری تکلیف تو دور کرو۔ میں نے تنے ہوئے لنڈ کو باہر نکالا۔ جیسے ہی میں نے اسے
اپنا 7 انچ کا لن دکھایا تو وہ اسے آنکھیں پھاڑ کر دیکھتی ہوئی بولی کہ بھائی یہ
کیا ہے۔ میں نے کہا کہ مجھے بھی یہاں کسی کیڑے نے کاٹ لیا ہے، پلیز کچھ کرو۔ وہ
بولی کہ دکھاؤ۔
اس نے جھجکتے ہوئے میرے لنڈ کو پکڑا لیکن اس کی ایک
ہاتھ کی مٹھی لنڈ کو سنبھال نہ سکی۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے اسے تھام لیا اور بڑے
دھیان سے جھک کر اسے دیکھنے لگی۔ پھر وہ بولی کہ بھائی یہ تو کافی گرم ہے۔ اس نے
لنڈ کی جڑ میں کہنی رکھ کر اسے ناپا تو لنڈ کا ٹوپا اس کی ہتھیلی کو چھو رہا تھا۔
وہ بولی کہ دیکھو بھائی، یہ تو میری کلائی سے بھی لمبا اور موٹا ہو گیا ہے۔ کافی
درد ہو رہا ہوگا۔ اتنی دیر میں لنڈ کے ٹوپے پر پریکم کی بڑی سی اوس جیسی بوند ابھر آئی تھی۔
وہ بولی کہ انگلی کی چوٹ والا طریقہ اپنا کر دیکھتی ہوں، یہ کہہ کر وہ میرے لنڈ پر
جھکی اور لنڈ کی سیکسی خوشبو کو ناک سے
سونگھ کر اندر کی طرف کھینچا، پھر اپنی لمبی زبان ٹوپے کے چھید پر پھیراتے ہوئے پریکم کو چاٹ گئی۔ بولی
کہ بھائی اس کا رس تو بہت ٹیسٹی ہے، یہ کہہ کر لنڈ کے ٹوپے کو منہ میں بھرنے کی کوشش کرنے لگی۔
میں دیکھ رہا تھا کہ اس نے پورا منہ کھول رکھا تھا لیکن
لنڈ کا ٹوپا موٹا ہونے کی وجہ سے اس کے
دونوں ہونٹوں میں مشکل سے پھنسا تھا۔ اس کا منہ پوری طرح بلاک ہو گیا جس سے وہ
زبان کی حرکت نہ دے پائی۔ ہار کر اس نے ٹوپا باہر نکالا اور اسے چاروں طرف سے زبان
سے چاٹنے لگی۔ بیچ بیچ میں پوچھتی رہی کہ آرام مل رہا ہے یا نہیں۔ میرے لن کا پانی
نکلتا رہا اور وہ چاٹتی رہی۔ تھوڑی دیر
میں میں نے کہا کہ سلمیٰ بس کرو اب میرا رس نکلنے والا ہے تو منہ سے نکالنے کی
بجائے اس نے ٹوپے کو منہ میں تالو اور
زبان کے بیچ مزید کس کر دبا لیا۔ میرے لنڈ سےمنی کی پچکاریاں چھوٹ کر اس کے حلق سے ٹکرانے لگیں۔
وہ آنکھیں موند کر لنڈ کے رس کو پیتی رہی۔ کوئی ایک منٹ تک پچکاریاں چھوڑنے کے بعد
بھی لنڈ ڈھیلا نہ پڑا کیونکہ سلمیٰ اسے ابھی بھی چوس رہی تھی اور لنڈ میں کوئی
بوند باقی نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔ لنڈ کو پوری طرح نچوڑ نچوڑ کر پینے کے بعد وہ
مجھ سے لپٹ گئی۔ قریب آدھا کپ جوس نکلا جو
کہ کئی دن سے اکٹھا ہو گیا تھا۔ اپنے ہونٹوں پر لگےجوس کو زبان سے چاٹتی ہوئی بولی کہ بھائی اب بتاؤ
درد ختم ہوا یا نہیں؟ مجھے تو مزہ آ گیا، آپ بہت اچھے ہیں۔
کچھ دیر سستانے کے بعد اسے پتا نہیں کیا سوجھا اور بولی
کہ بھائی یوگا کریں ؟۔اس نے بستر پر پیٹھ کے بل لیٹ کر ٹانگیں سر کی جانب اٹھائیں
اور بولی کہ اس پوزیشن میں میرے گھٹنے بستر کو ٹچ نہیں کر پاتے، پلیز
ٹانگیں پکڑو۔ میں نے اس کی گوری رانوں کو پکڑ کر پھیلایا اور گھٹنوں کے موڑ پر
ہاتھ رکھ کر پیچھے کی طرف کرنے لگا جب تک کہ اس کے گھٹنے چھاتیوں کے دائیں بائیں
بستر پر نہ جا لگے۔ وہ بولی کہ بھائی اسی طرح دبائے رکھو، مجھے اسی پوزیشن میں دقت ہوتی ہے۔ آپ میرے دونوں گھٹنوں کو بستر
پر دبائے رکھو، پریکٹس ہو جائے گی۔ میں نے کہا کہ پھر سے بتاؤ کیسے، تو وہ بولی کہ
دونوں ہاتھ میرے گھٹنوں کے نیچے لگاؤ اور آہستہ آہستہ پیچھے کی طرف دبا کر میرے
دونوں طرف بستر سے لگا دو، لیکن چھوڑنا نہیں۔
میں نے اس کے چوتڑوں کے نیچے تکیہ لگایا پھر اس کی دونوں رانوں کو
سینے سے لگایا اور دونوں ہاتھ لگا کر اس پر جھکتا چلا گیا کہ اب اس کی رانوں کے
دونوں طرف بستر سے جا لگیں اور میرے ہونٹ اس کے ہونٹوں پر جا ٹکے۔ ہماری گرم
سانسیں چنگاریاں پیدا کر رہی تھیں۔ اس پوزیشن میں میرے لنڈ کا موٹا گرم ٹوپا اس کی دہکتی چوت کے منہ پر مچل رہا تھا۔ ہائے بھائی... مزہ پا کر
اس کے چوتڑ اپنے آپ اٹھے تو لنڈ کا آدھا ٹوپا چوت میں
کارک کی طرح فٹ ہو گیا۔ میری پیاری کا برا
حال تھا، بولی کہ بھائی تھوڑی دیر اسی طرح رہو اور میرے منہ میں زبان دے کر چسانے
لگی۔
میں جانتا تھا کہ لن کا موٹا ٹوپا اور وہ بھی پہلی بار، مجھے صبر سے کام لینا تھا۔
لیکن سلمیٰ سے صبر نہ ہوا اور نیچے سے پھر اس کے چوتڑوں سے جھٹکا لگا اور میرا
سارا ٹوپا اس کی چوت کی گرفت میں تھا،
جیسے کوئی پکڑ کر بھینچ رہا ہو۔ اس کی رانوں اور چوڑی ہو گئی تھیں۔ وہ میری زبان
کو زور زور سے چوسنے لگی۔ پھر بولی کہ بھائی آپ کا بہت موٹا ہے، مجھے دھیرے دھیرے
جنت دکھانا۔ میں نے اسے بازوؤں میں جکڑ لیا اور کرارا دھکا مارا، چوت سے کپڑا
پھٹنے جیسی آواز آئی، میرا آدھا لنڈ چوت میں جا پھنسا۔ سلمیٰ کی آنکھوں کے کونوں
سے دو بوند آنسوؤں کی چھلک آئی۔
میں گھبرایا تو میری آنکھوں میں جھانک کر مجھ سے چپک کر
بولی کہ بھائی میں ٹھیک ہوں۔ میرا حوصلہ بڑھا اور جہاں تک لنڈ دھنس چکا تھا وہیں
تک آہستہ آہستہ اندر باہر کرنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کے چوتڑ اچھلنے لگے اور منہ سے سسکاریاں پھوٹنے لگیں۔
میں نے اس کی رانوں اور کمر کو مضبوطی سے جکڑ کر ساری طاقت سمیٹ کر ایک زوردار
گھسا مارا۔ میرے ٹٹے اس کے ملائم چوتڑوں سے جا لگے۔ جیسے ہی میرا پورا 7 انچ کا
لنڈ اس کے گانڈ اور ناف کی جڑ سے ٹکرایا تو اس کے بدن میں لذت کی ایک لہر سی دوڑ
گئی اور وہ مجھ سے کس کر لپٹ گئی۔
میرے لنڈ کا موٹا مول اس کے کلٹورس کو رگڑ رہا تھا جس
سے اس کے مزے میں چار چاند لگ گئے تھے۔
پھر وہ بولی کہ ہائے بھائی یہی جنت ہے، مجھے یہیں سیر کرو۔ اس کے اتاولے پن کو
دیکھ کر میں نے گھسے لگانا شروع کر دئیے۔
ہر بار میرے لنڈ کا ٹوپا اس کی ناف سے ٹکراتا اور اسی وقت لنڈ کے مول کا زوردارطریقے
سے کلٹورس پر پڑتا۔ سلمیٰ کی آنکھیں مزے
سے بند ہونے لگیں اور چوجے کی طرح اس کا منہ کھل گیا، اس کی زبان باہر نکل آئی اور
لعاب چھوٹ گئی۔ میں سمجھ گیا کہ وہ ایک بار زور سے جھڑ چکی ہے۔ میں نے اس کی باہر
نکلی زبان کو منہ میں بھر لیا اور چوسنے لگا۔ پھر وہ جیسے خواب سے جاگی اور کسنگ کا جواب دینے لگی۔ میں نے پھر شاٹ لگانے شروع کر
دیے۔
اس کے پہلے آرگزم کا خمار ابھی اترا بھی نہیں تھا کہ اس
نے پھر اپنے بھاری چوتڑ اچھالنے شروع کر دیے اور بولنے لگی، ہائے بھائی، اور زور
سے... ہاں... ہاں... اسی طرح... اُئی ماں... میں کہاں ہوں... میں گئی... گئی...
بھائی مجھے سنبھالو۔ وہ پھر جھڑ کر مجھ سے زور سے لپٹ گئی۔ اسے ملٹی آرگزم ہوا
تھا۔ کچھ دیر بعد میں نے نیچے دیکھا، میرا لنڈ ابھی بھی جڑ تک پھنسا ہوا تھا، لنڈ
کی موٹائی کی وجہ سے اس کی چوت کے کنارے کافی دور دور ہو گئے تھے اور چوت پھول کر
غبارے جیسی ہو گئی تھی۔ اس نے پھر مجھے اپنے چہرے پر جھکا لیا اور مجھے بوسہ دینے
لگی۔ بولی کہ بھائی مجھے کبھی چھوڑ تو نہ دو گے، میں تمہارے بغیر مر جاؤں گی۔ مجھے
اس پر پھر پیار آ گیا اور لنڈ بھی اکڑنے لگا۔ ہماری چدائی نے پھر رفتار پکڑ لی، اس
کی ٹانگیں میری کمر پر پھر کس گئیں۔ کمرے میں پھچ... پھچ... گھچ... گھچ... سی...
سی... آہ... آہ... پک... پک... پٹ... پٹ... کا مدھر سنگت گونجنے لگا۔ اس بار ہم
دونوں ایک ساتھ جھڑے۔ میں نے سارا جوس اپنی پیاری بہن کی چوت میں بھر دیا۔ گرم گرم
منی کی پہلی بوچھاڑ سے وہ نہال ہو گئی۔کافی
دیر تک اس نے مجھے نہیں چھوڑا، میرا سارا
رس نچوڑ کر ہی اس نے بازوؤں کے گھیرے کو ڈھیلا کیا۔
اب ہماری یہ پڑھائی روزانہ ہونے لگی۔ مزے کی بات یہ کہ
وہ ماں کے سامنے میری شکایت کرتی کہ میں اسے ٹھیک سے نہیں پڑھاتا اور مجھ سے لڑتی
رہتی۔ رات کو جب میں پوچھتا کہ مجھ سے لڑائی کیوں کی تو وہ بولتی کہ تم نرے بدھو
ہو، ماں باپ کے سامنے لڑنے سے انہیں کوئی شک نہیں ہوتا، سمجھے؟ یہ کہہ کر اس نے
میری ناک مروڑ دی۔
اچھا تو یہ بات ہے، یہ کہہ کر میں نے اسے بازوؤں میں
بھر لیا اور بستر پر پٹک کر اس کے اوپر چڑھ گیا۔ وہ تو جیسے تیار ہی رہتی تھی، میں
نے رانوں کو کندھوں پر رکھا تو دیکھا کہ اس نے پینٹی پہلے ہی اتار رکھی تھی۔ میں
نے ایک ہی جھٹکے میں پورا لنڈ اس کی گرم چوت میں اتار دیا۔ وہ بولتی کہ چدائی سے پہلے پڑھائی
تو کر لو، تم تو سانڈ کی طرح اپنی گائے جیسی بہن کو دیکھتے ہی اوپر چڑھ جاتے ہو۔
میں بھی غراتے ہوئے بولا کہ ہاں میں سانڈ
ہوں، اور تو میری گائے ہے، لے لے اپنے سانڈ کا پورا لن۔ وہ بھی مزے لینے لگی اور
بولی کہ آ جا میرے سانڈ، چڑھ جا اپنی گائے پر۔ میں تیرے بچھڑے کو جنم دوں گی۔ اس
طرح ہم نے ساری رات زبردست چدائی کی۔ اور یہ سلسلہ روزانہ چلنے لگا۔
دھیرے دھیرے میری محنت سے وہ جوان ہوتی جا رہی ہے۔ ممے فل
بڑے اور سیکسی ہوگئے ۔ بڑی بڑی گانڈ پیچھے سے نکلنے لگی ۔ وہ بہت ہی پیاری اور
سیکسی ہوتی جارہی تھی ۔ہم رات بھر چدائی کرتے
۔جب اس کی مینسس چل رہے ہوتے تو وہ ساری
ساری رات میرا لن چوستے ہوئے گزار دیتی ۔ میں اسے بہت بار اپنی گود میں بٹھا چکا
ہوں۔ کئی بار میں نے اس کی زبان چوسی ہے۔ رانی بہت میٹھی ہے، گڑیا رانی۔ میں ہمیشہ
اس کا چاہتا ہوں، اسے جو چاہیے جیسے چاہیے میں اسے دیتا ہوں۔ کبھی اسے کمی نہیں
ہونے دیتا۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی اس کا برتھ ڈے تھا تو میں اسے اپنے ساتھ بازار لے
گیا اور اسے بہت سارے سیکسی کپڑے ، برا، پینٹی اور نائٹی خرید کردی۔وہ بہت خوش
ہوگئی تھی ۔رات کو ہم نے اس کی سالگرہ بھرپور انداز سے منائی ۔چار بار ہم نے
بھرپور مزے دار اور لذت انگیز چدائی کی ۔ کچھ دن پہلے کی بات ہے، میرے گھر والوں
نے میری شادی کرنے کا ارادہ کیا۔ میری ماں
نے بتایا کہ اب تم سمجھدار ہو گئے ہو، کوئی لڑکی دیکھنی پڑے گی تمہارے لیے۔ مجھے
میری بہن کی سہیلی ثناء بہت پسند ہے، اسے میں اپنی رانی بنانا چاہتا ہوں۔ وہ بات
میری رانی بہن سلو کو بھی معلوم ہے۔ کبھی کبھی میں اپنی بہن کو ثناء بول کر ہی بات
کرتا ہوں۔
اب تو میری منگنی ہو چکی
ہے اور جلد شادی ہونے والی ہے ۔میری ڈارلنگ ثناء میری رانی بن چکی ہے اور بار بار
میرے گھر آتی جاتی رہتی ہے۔ اور ثناء کو سب معلوم ہے کہ میں ثناء اور سلو دونوں کا
دیوانہ ہوں اور مجھ سے پہلے میری رانی بہن نے ہی اسے بتا دیا تھا کہ ہم دونوں کے
بیچ یہ سب چل رہا ہے اور اسے یہ منظور تھا۔ کئی بار گھر پر جب کوئی نہیں ہوتا یا
میرے کمرے میں وہ دونوں گڑیا ہوتی ہیں تو میں دونوں کو ساتھ ساتھ چومتا ہوں،
بازوؤں میں لیتا ہوں اور کبھی کبھی تو دونوں کو ایک ساتھ بوسہ دیتا ہوں، وہ دونوں
میری رانی ہیں۔ کچھ دن پہلے کی ہی بات ہے، میری ماں اور ابو کسی کام سے باہر گاؤں
گئے ہوئے تھے، گھر پر صرف میں اور میری بہن سلمیٰ تھے۔ تو ہم نے پروگرام بنایا کہ
کیوں نہ آج بھابھی کو یہاں بلایا جائے اور آزادی کے ساتھ دونوں کو رانی بنایا
جائے، ایسی میری بہن کی خواہش تھی۔ میں نے کہا کہ ہاں، تو اسے پہلے پوچھ لے، پھر
بول۔ اس نے فون گھمایا اور اس سے بات کی، باتوں باتوں میں بتایا کہ آج ہم دونوں
گھر پر اکیلے ہیں، آپ کا کیا پروگرام ہے؟ آپ آ جائیں تو اور مزہ آئے گا۔ وہ بولی
کہ کیسا مزہ؟ اس نے بتایا کہ آج بھائی ہمیں دونوں کو ایک ساتھ ماں بنائیں گے۔ وہ
چونکی اور پوچھنے لگی کہ کیا؟ وہ بولی، اب سمجھو، آج ہم دونوں ایک ساتھ بھائی کی
دلہن بنیں گے۔ تم تیار ہو؟ دونوں نے مل کر گھس پھس کی اور پروگرام بنایا۔
سلو بولی، بھائی، بھابھی مان گئی ہے، اب تیاری کرو، وہ
آئے گی، اسے کچھ گفٹ دینا پڑے گا اور مجھے بھی، میں بھی تو تمہاری ہی ہوں جانا۔
میں نے کہا، ہاں پر ، ابھی وقت کم ہے، مجھے زیادہ سے زیادہ وقت تم لوگوں کے ساتھ گزارنا ہے،
دونوں کو آج میں کھاؤں گا۔ وہ بولی، اوکے بھائی، میرے پاس میری ایک نئی برا اور
پینٹی ہے، اگر آپ اسے گفٹ کرنا ہو تو۔ میں نے کہا، اوکے جان۔ اور تمہیں میری
ڈارلنگ کیا دوں گا؟ وہ بولی، بھائی، جو مانگوں گی وہ دو گے مجھے؟ میں نے کہا، تو
بول تو سہی۔ اس نے پاجامے کے اوپر سے میرا لنڈ پکڑ لیا اور بولی، روز مجھے ایک بار
یہ دے دیا کرو، کہیں بھابھی کے ہی ہو کر نہ رہ جانا۔ میں نے کہا، یہ تو ضرور ملے
گا کیونکہ تمہارے بغیر اب یہ بھی نہیں رہ سکتا۔
دوستو، مجھے تو بہت جلدی تھی کہ کب وہ رانی آئے اور میں
اسے کھا جاؤں، وہ بھی میری رانی بہن کے سامنے۔ میں نے سلو کو بتایا کہ ہم ہر روز
ساتھ رہتے ہیں پر آج ایک خاص دن ہے، آج پلیز تم میرے لیے سج جاؤ ایسی کہ آج تمہاری
سہاگ رات ہے اور اپنے شوہر کو خوش کرنا
ہے۔ وہ میرے سامنے سب ڈریس رکھنے لگی اور بولی کہ سجنا ہے مجھے سجنا کے لیے، آج آپ
بتائیں میں کیسے سجوں تمہارے لیے؟ میں نے اپنے ہاتھوں سے میری رانی بہن سلمیٰ کو
سجایا، وہ میری گود میں بیٹھی تھی اور میری ماں کے جو زیورات تھے وہ اسے اپنے ہاتھ
سے پہنائے اور ساتھ میں اسے خوب چوسا۔ ناک میں نتھ پہنایا، پاؤں میں جھانجھر، کمر
میں سلور چین باندھی اور خاص اسے ننگا کر کے اس کی چوت کے جو ہونٹ ہوتے ہیں اس پر
لپ اسٹک لگائی اور بولا کہ جب میرا لنڈ تیرے ہونٹ چوسے گا تو لال ہو جانا چاہیے
تیری لالی سے۔ وہ مسکرانے لگی۔ تھوڑی دیر میں ڈور بیل بجی، سلمیٰ بولی، جاؤ بھائی،
دلہن کو لے کر آؤ۔ میں نے کہا کہ نہیں، تم جا کر بھابھی کو میرے کمرے میں لے کر
آؤ۔ یہ دونوں رانیوں کی آپس میں بات ہو گئی ہوگی، دیکھا تو وہ بھی ایک دم کڑک مال
بن کر آئی تھی اور دلہن جیسے کپڑے اس کے ساتھ چھپا کر لے کر آئی تھی۔ وہ بولی، آج
میری نند مجھے اپنے بھائی کے لیے تیار کرے گی۔ جب میں نے دونوں حسیناؤں کو دیکھا
تو میرے ہوش اڑ گئے، مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کہاں سے شروع کروں۔ میرا لوڑا تن
چکا تھا۔ میری بہن بولی، بھابھی، یہ دیکھو، وہ تو ابھی کا تیار ہو گیا، ابھی تو
دکان بھی نہیں کھلی۔ میں نے دونوں کو دبوچ لیا اور بازوؤں میں بھر کر باری باری
دونوں کو خوب چوسا۔ تبھی میری بہن مجھ سے الگ ہوئی اور میری رانی ثناء کو بھی الگ
کیا اور بولی کہ میں بھابھی کو سجا کر آپ کے سامنے پیش کرتی ہوں۔ آپ تھوڑی دیر
انتظار کریں گے۔
میرا تو دماغ ہی نہیں کام کر رہا تھا۔ میں اٹھ کر اندر
گیا تو دیکھا دونوں ایک دوسرے سے لپٹی ہوئی تھیں اور چوس رہی تھیں۔ میں دونوں کے
سامنے جا کر بیٹھ گیا اور دونوں کو دیکھنے لگا۔ وہ دونوں میرے سامنے دیکھ کر
مسکرانے لگیں اور ایک دوسرے کو چاٹنے لگیں۔ وہ دونوں کھلکھلا رہی تھیں اور ایک
دوسرے کو چوس رہی تھیں۔ تب میں نے اٹھ کر اپنی بہن کی گانڈ پر اپنا لوڑا گڑایا، وہ
زور سے چلائی، اوہو بھائی، کیا کر رہے ہو؟ میں واپس آ کر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ وہ
دونوں کا پیار چل رہا تھا۔ تب میری بہن میری رانی ثناء کو لے کر میرے پاس آئی اور
میرا گھوڑے جیسا لنڈ نکال کر چوسنے لگی، کبھی یہ تو کبھی وہ، دونوں باری باری میرا
لنڈ چوس رہی تھیں۔ کبھی دونوں مل کر دونوں سائیڈ سے میرے لنڈ پر اپنی زبان
پھیرتیں۔ میں دونوں کی گانڈ پر ہاتھ پھیر رہا تھا اور کبھی چوت پر بھی ہاتھ مار
دیتا۔ میرا لوڑا ان کے ہاتھ میں تھا۔ وہ دونوں گرم ہو گئی تھیں۔
تبھی میری بہن نے میرا لوڑا منہ میں لے لیا، میری بہن
میرا لوڑا چوس رہی تھی اور چوس کر بالکل کڑک کر کے میری رانی کی چوت میں ڈالنے کے
لیے اسے کتیا بنایا اور گائیڈ کیا۔ میں نے دھیرے سے میری رانی ثناء کی چوت میں
لوڑا ڈالا اور جھٹکے مارنا لگا۔ تبھی میری پیاری بہن کتیا بن کر اس کے بوبز چوسنے
لگی تو اس کی گانڈ میرے قریب تھی۔ میں نے سلمیٰ کی گانڈ پکڑ کر اس پر زور سے کاٹا،
وہ زور سے اچھلی تو میں نے پکڑ کر اسے دبوچ لیا اور میرا لنڈ ثناء کی چوت میں تھا
اور میں اپنی بہن کی چوت پیچھے سے چاٹ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے اپنی کتیا
رانی کی چوت سے لوڑا نکالا اور اپنی بہن سے بولا کہ تم اسے چوسو، میں تمہاری
بھابھی کی چوستا ہوں۔ میں نے خوب چوسا، پھر بعد میں بہن بولی کہ بھائی یہ تیار ہے،
اسے بھابھی کی چوت میں ڈالو۔ میں نے کہا کہ تو ہی پکڑ کر ڈال اپنی بھابھی کی چوت
میں، تب اس نے پکڑ کر اسے گلے لگایا۔
میں نے بہت کس کے میری رانی ثناء کو چودا اور اسے آرگزم
تک لے گیا۔ جب وہ چھوٹنے والی تھی تب میں نے میرا لوڑا نکال کر اسے کتیا بنا کر اس
کی گانڈ میں گھس کر اس کی چوت پوری طرح دبوچ کر چوسا اور پورا پانی پی گیا۔ جب اسے
چودا تو وہ میری بہن کے پاس اپنی چوت پھیلا کر بولی کہ تو بھی اسے چوس۔ سلمیٰ
بھابھی کی چوت چاٹنے لگی، وہ کتیا جیسی ہو کر چوت چاٹ رہی تھی۔ ابھی میں نے دھیرے
سے پیچھے جا کر اس پر چڑھ گیا اور زور سے جھٹکے مار کر رانی بہن کی چوت میں میرا
لوڑا گھسیڑ دیا۔ وہ چلانے لگی، بھائی، میں مر گئی، اوہ ماں، میں مر جاؤں گی، بھائی
چھوڑ دو مجھے۔ تب میری رانی نے اس کے بوبز چوسے اور اپنے بوبز اس سے چسوائے، پھر
بولی، سنم، آرام سے مارو اپنی بہن کی چوت، کوئی بھاگی نہیں جا رہی ہے۔ وہ کیوں
ڈارلنگ؟ تب میں نے اسے دبوچا، میرا لوڑا میری بہن کی چوت میں تھا، میں دھکے مار
رہا تھا اور میرے منہ میں میری رانی ثناء کی چوت تھی۔ تب میری بہن جھڑنے کے قریب
آئی، اس نے بتایا کہ وہ جھڑنے والی ہے۔ میں نے اپنی زبان سے اس کا پانی پیا اور
میری رانی کو بھی کسنگ کر کے پلایا۔ اسی
طرح دونوں میری رانی بن کر مجھے اپنا شوہر مان کر خوب مزہ دینے لگیں۔ ان میں کبھی
سوکن والی چپقلش میں نے نہیں دیکھی۔