ہیلو میرے پیارے پڑھنے والو، سب کو سلام۔ میں اپنی اگلی
سچی کہانی کے ساتھ واپس آیا ہوں۔ جیسا کہ میں نے آپ کو پچھلی کہانی میں بتایا تھا
کہ میں نے اپنی بائیس سالہ کزن رابعہ کے ساتھ جسمانی تعلق بنایا تھا اور اس کی سیل
کھولی تھی، اور یہ بھی بتایا تھا کہ میں
نے سیل کیسے دیکھی تھی۔ خیر! پچھلی باتوں
کو چھوڑتے ہیں اور اگلی بات بتاتے ہیں۔
ہوا یوں کہ میں اور میری کزن رابعہ، ہم دونوں ایک دن چدائی کررہے تھے تو میری بڑی والی کزن
سفینہ نے دروازے کے
تھوڑے سے سوراخ سے ہمیں یہ سب کرتے ہوئے دیکھ لیا۔ خیر! آگے بتاتا ہوں۔ میری کزن رابعہ
نے اس سے کہا کہ کسی کو پلیز مت بتانا، پلیز پلیز، تم میری اچھی بہن ہو، دیکھو تم بھی تو اپنے دوست سے ملنے جاتی تھیں تو
میں بھی تو کسی کو نہیں بتاتی تھی نا، یہ میری کزن رابعہ نے اس سے کہا، یعنی سفینہ
کو، بڑی والی کو۔ (میں یہ بتاتا چلوں کہ آپ کو پہلے بھی شاید بتایا ہو کہ سفینہ
اگرچہ کنواری تھی ، لیکن وہ اورل سیکس کرچکی تھی ، اس نے لن بھی چوسا ہوا تھا اور
اپنی چوت بھی چٹوائی تھی اپنے بوائے فرینڈ سے )
خیر! سفینہ نے کہا کہ سنی
کو بلاؤ۔ میں اوپر والے حصے پر تھا اور ڈرا ہوا تھا کہ اب تو مصیبت آئی، لیکن
مصیبت تو آ ہی گئی لیکن عجیب ہی آئی۔ کہ اس نے رابعہ سے کہا کہ سنی کو بلاؤ! اس نے
پوچھا کیوں؟ تو کہا کہ میں نے جتنا کہا اتنا کرو بس۔ تو وہ اوپر مجھے لینے کے لیے
آ گئی۔ میرے تو حواس باختہ تھے اور ساتھ میں رابعہ کے بھی۔ خیر! وہ آئی اور کہا کہ
نیچے سفینہ باجی بلا رہی ہیں۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا کہہ رہی ہیں؟ کہتی ہے ابھی
تک تو کچھ نہیں بولا لیکن خیر نہیں ہونی، لگتا ایسے ہی ہے۔ میں نے پہلے تو کہا کہ پھر
میں نیچے نہیں جا رہا۔ اس نے کہا کہ مار کھانی ہے کیا! جاؤ نیچے ابھی۔ وہ مجھے کہہ
ہی رہی تھی کہ سفینہ صاحبہ خود ہی اوپر آ گئیں اور کہا کہ رہنے دو نیچے جانے کو،
یہیں اس سے بات کر لیتی ہوں میں۔ ہم نے جب دیکھا کہ یہ تو کہہ رہی ہیں کہ یہیں بات
کر لیتی ہوں تو ہم دونوں کے پھر سے حواس اُڑ گئے کہ یہ چھوڑنے نہیں لگیں۔ ہم دونوں
بہت ڈرے ہوئے تھے۔
خیر! وہ آئیں اور آ کر کہا کہ تم پہلے تو یہ بتاؤ کہ تم
نے ایسا کام کیوں کیا؟ اب میں کیا بولتا کہ کس لیے کیا۔ میں خاموش کھڑا رہا۔ اس نے
کہا کہ آج ماموں کو آنے دو، تمہارے تو ان کو بتاتی ہوں کہ تم نے اور رابعہ نے کیا
کیا ہے۔ میرے ماموں، ان کے بابا۔ جب انہوں نے ایسا کہا تو رابعہ تو رونے لگی کہ سفینہ باجی خدا کے لیے! اور میں بھی
ساتھ میں بول پڑا کہ سفینہ باجی پلیز
ہمیں معاف کر دیں، آئندہ ہم ایسا نہیں کریں گے چاہے جو مرضی ہو جائے۔ کہنے لگیں کہ
یہ تو ہو نہیں سکتا کہ تم اور آئندہ نہ کرو، کبھی نہیں، ناممکن۔ خیر! میں نے بڑے
ترلے، منتیں کیں، لیکن لیکن انہوں نے کہا کہ تم دونوں آئندہ بھی کرو گے۔ میں نے
پھر کہا کہ نہیں کریں گے ہم دونوں ایسا۔ میں نے اور رابعہ نے مل کر ایک ساتھ میں
بولا۔ (میں کافی دیر سے یہ بھی دیکھ رہا تھا کہ باجی کا غصہ بناوٹی ہے، وہ ویسے
نہیں بول رہی ہیں جیسے غصہ کرنا چاہیے)۔ خیر!
سفینہ باجی نے کہا کیوں نہیں کرو گے، آئندہ بھی کرو گے
اور کرتے رہو گے اور کرتے رہنا، میں کچھ نہیں کہتی لیکن ایک شرط ہے! میں نے کہا کہ
کوئی ایسی ویسی شرط نہ رکھنا کہ ہم پوری نہ کر سکیں۔ اس نے کہا ہم نہیں، صرف تم،
یعنی میں سنی۔ میں نے کہا کہ ایسی کون سی شرط ہے کہ ہم نہیں صرف میں ہی؟ تو اس نے
کہا کہ میں کسی سے بھی کوئی بات نہیں نہیں کروں گی، اور وہ یہ شرط ہے کہ تم مجھ سے
بھی کرو۔ میں ایک دم حیران رہ گیا یہ سن کر کہ یہ کیا کہہ رہی ہیں۔
تو اسی وقت رابعہ بولی کہ
سفینہ باجی یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟ تو ایک دم سفینہ باجی
نے کہا تو ٹھیک ہے، میں بابا کو بتا دوں گی۔ تو میں فوراً سے بولا کہ نہیں سفینہ باجی!
ٹھیک ہے میں کروں گا، شرط منظور ہے مجھے! تو رابعہ میری طرف دیکھنے لگی۔ خیر!
جان تو بچانی ہی تھی ہم دونوں کو، سو سفینہ باجی بولیں واہ! بڑی سے کرتے ہوئے شرم
نہیں آئے گی؟ تو رابعہ نے سفینہ سے کہا تو آپ کو نہیں آئی چھوٹے کو کہتے ہوئے؟ میں
نے فوراً سے کہا سفینہ باجی ایسے
کاموں میں شرم نہیں دیکھی جاتی، یہ کام بڑے چھوٹے سب مل کر کریں تو اچھا ہوتا ہے۔
تو سفینہ باجی ہنس پڑیں، لیکن رابعہ تھوڑا غصے میں تھی کہ یہ اب کیا ہونے لگا ہے۔
ہم دونوں کا ڈر اب ختم ہو چکا تھا لیکن رابعہ کو ذرا غصہ سا آ رہا تھا کہ اب میں سفینہ
کے ساتھ اس کے سامنے کروں گا۔
خیر! سفینہ باجی آگے
ہوئیں اور کہا کہ اب مجھے بوسہ لینے
دو۔ اور میرے سامنے کھڑے ہوتے ساتھ ہی مجھے ہونٹوں پر بوسہ دینا شروع کر دیا اور
ایک ہاتھ میرے سر کے پیچھے سے بیچ میں ڈال دیا اور دوسرے ہاتھ سے میرے سوئے ہوئے لن
کو پکڑ لیا پتلون کے باہر ہی سے۔ رابعہ صاحبہ یہ سب منظر ابھی تک دیکھے جا رہی
تھیں کہ اب مصیبت آئی ہے تو کیسی آئی ہے۔ خیر! میرا سویا ہوا چھوٹا سا لن جو کہ
سردی اور ڈر کی وجہ سے بمشکل 2 انچ کا ہو گیا تھا، اب بڑا ہونے لگا اور اپنی
آنکھیں کھولنے لگا اور 2 منٹ کے اندر ہی 7
انچ کا لن باہر آنے کو تڑپنے لگا۔ سفینہ باجی میرے ہونٹ
چوس رہی تھیں اور میں بھی۔ میں نے اپنی زبان سفینہ باجی کے منہ میں ڈال دی تھی اور
انہوں نے میرے منہ میں۔ تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے اپنی زبان نکال لی اور میری
زبان کو چوسنے لگیں۔ میں ان کے ساتھ جب شروع ہوا تھا تو رابعہ کا کوئی دھیان نہیں
رکھا تھا، وہ بس ہمیں کھڑے ہو کر دیکھ رہی تھیں۔ میری اور سفینہ باجی کی آنکھیں بند
ہی تھیں۔ میں نے اپنا ایک ہاتھ سفینہ باجی کی ملائم گانڈ پر رکھا ہوا تھا اور اس
کو دبا رہا تھا، کبھی انگلی کرتا کپڑوں کے اوپر ہی سے، اور دوسرے ہاتھ سے سفینہ باجی
کے مموں کو دبا رہا تھا۔ ابھی ہمیں 5 منٹ
بھی نہیں گزرے تھے کہ رابعہ نے ہمیں مخل کر دیا اور بولی کہ مجھے بھول گئے ہو کیا
تم دونوں؟ تو میں اور سفینہ باجی پیچھے ہٹ گئے اور سفینہ نے کہا تم نے کیا تو ہے،
اب دوبارہ کیوں کرنا ہے؟ تم بس دیکھو کہ ہم کیا کرتے ہیں، تم صرف دیکھو، بس! تو رابعہ نے کہا نہیں، مل کر کرتے
ہیں، مجھے بھی گرمی ہو رہی ہے۔ اس پر سفینہ باجی نے کہا
ہممممم ضرور، مزا آئے گا!
تو رابعہ نے کہا کہ
ننگے ہو جاتے ہیں پہلے، پھر کرتے ہیں گروپ سیکس ۔ سفینہ باجی نے کہا کہ نیچے کا دروازہ
تالا کر آؤ، امی جب اُٹھیں گی تو آواز دے لیں گی، کیونکہ وہ سوئی ہوئی تھیں۔ اس
لیے رابعہ گئی اور جا کر مین گیٹ کو بند کر کے آ گئی۔
اتنے میں میں اور سفینہ ننگے ہو گئے تھے۔ سفینہ باجی کی
بھاری بھاری ملائم گانڈ اور بھرا بھرا جسم کافی پیارا لگ رہا تھا لیکن ان کے چھاتی
کے نوک گلابی نہیں تھے، جیسے کہ رابعہ کے تھے۔ خیر!
رابعہ سے تو وہ کام ہی دلکش تھیں، رابعہ ان کے مقابلے
میں تھی ہی نہیں، اگر مقابلہ کرتے تو رابعہ نے اسے سو میں سے سو نمبر سے ہرا دینا
تھا۔ خیر! رابعہ واپس آئی تو
ہمیں ننگا دیکھ کر اس نے بھی کپڑے اتار دیے اور آ گئی۔ سفینہ باجی نے کہا کہ اب 2
لڑکیاں اور 1 لڑکا، لڑکے کی آ گئی مصیبت! تو میں ہنسنے لگا۔
خیر! سفینہ باجی نے کہا
کہ رابعہ، میں تو سنی
کا صرف لن چوسوں گی ، تم نے جو کرنا ہے کرو۔ اور یہ کہتے ساتھ ہی سفینہ باجی نے
میرا 7 انچ کا اپنے منہ میں لے لیا اور چوسنے لگیں، اور رابعہ نے مجھے نیچے گرا
دیا۔ میری کمر بڑے زور سے نیچے لگی اور میری چیخ نکلی اور سفینہ باجی نے رابعہ کو
کہا کہ یہ کیا کر رہی ہو تم؟ تو رابعہ نے کہا آپ لن چوس چوسیں ، میں اس سے چِپک کر
بوسہ لوں گی۔ تو سفینہ نے کہا ٹھیک ہے! اور میں کراہتا ہوا ذرا ٹھیک ہو کر
لیٹ گیا نیچے زمین پر، بستر پر نہیں۔ خیر!
سفینہ باجی نے پھر سے میرا لن اپنے منہ میں ڈال لیا اور
اس کو مسلنا بھی شروع کر دیا اور رابعہ صاحبہ نے اپنے ٹائٹ ملائم ممے میرے سینے کے ساتھ چِپکا کر کسنگ
شروع کر دی، کبھی میرے ہونٹوں پر تو کبھی
میری گردن پر۔ اور میں بھی ایسا ہی کرتا رہا۔ سفینہ باجی بڑے مزے سے چوس رہی تھیں
اور میں بھی فل مزا لے رہاتھا۔سفینہ باجی
بہت ہی اچھا لن چوستی تھیں ۔ میں مزے سے
سسکاریاں بھررہاتھا۔میں نے ویسے بھی دوا نہیں کھائی تھی، اس لیے مجھے پتا تھا کہ
میں جلدی فارغ ہو جاؤں گا، اس لیے سفینہ باجی کے منہ سے ایک دم لن نکال لیا۔ تو سفینہ
نے کہا کیوں! کیا ہوا؟ میں نے کہا میں فارغ ہو جاؤں گا جلدی، اس لیے ، تھوڑی دیر
کے بعد دوبارہ چوسنا ۔ سفینہ باجی نے کہا
کوئی بات نہیں، پہلی بار ہو جاؤ، دوسری بار تو کوئی مسئلہ نہیں ہو گا نا! میں نے
کہا نہیں، پہلی بار بھی ذرا زیادہ وقت لگا لوں نا، اس لیے۔ تو انہوں نے کہا ٹھیک ہے، نہیں کرتی۔
یہ کہنے کے بعد انہوں نے میرے ٹٹوں کو منہ میں ڈال لیا اور انہیں چوسنے لگیں۔ سردیوں
میں آپ کو تو پتا ہے کہ لن کو اگر سردی لگے تو کیا ہونا شروع ہو جاتا ہے، اس لیے
اس کو ہوا لگنے لگی ٹھنڈی ٹھنڈی کیونکہ وہ گیلا جو ہوا ہوا تھا، اس لیے ٹھنڈا ہونے
لگا لیکن سو نہیں رہا تھا، ڈھیلا پڑنا شروع ہو گیا تھا۔ خیر!
سفینہ باجی ٹٹے
چوسنے لگ گئی اور رابعہ اُٹھی اور کہا کہ میری
چوت چاٹو اور میرے منہ پر آ گئی۔ میں نے
کہا ایسے نہیں، 69 میں آجاتے ہیں تم میرا لن چوسو اور میں تمہاری چوت چاٹتا ہوں ۔
تو سفینہ باجی نے کہا کہ نہیں، ابھی مجھے اپنا لن چوسنے دو اور پہلے مجھے اپنی منی
پلاؤ، پھر یہ چوسے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے!
تو پھر رابعہ میرے اوپر آ گئی اور اپنی چوت میرے منہ پر
رکھ دی اور بیٹھ گئی۔ میں اب اس کی چوت چاٹنا شروع کر دی، اپنی زبان اس کی چوت کے
اندر باہر کرنے لگا، جس سے اس کو بہت گرمی ہوئی اور وہ آآآہ آآآہ آآآآہ آآآآآہ
اففف اففف اففف آآآآآہ کرتے ہوئے 2 منٹ
میں ہی جھڑ گئی اور اس کی منی چوت سے باہر
آنا شروع ہو گئی اور مس رابعہ صاحبہ سیدھا میرے منہ پر چوت رکھ کر ڈھیلی پڑ گئیں۔ سفینہ
نے جو یہ دیکھا تو کہا کہ چلو ہٹو! یہ تو فارغ ہوتے ہی ہو گا، تم اس کا لن چوسو
اور میں اپنی چوت چٹواتی ہوں ۔ اور رابعہ صاحبہ ڈھیلی ڈھیلی میرے لن کی جانب بڑھیں
اور سفینہ باجی میرے اوپر آ گئیں اور بیٹھ گئیں۔ اب رابعہ میرے لن کو چوس رہی ہے،
جس کا مجھے پہلے سے زیادہ مزا آنے لگا اور ساتھ میں میں سفینہ باجی کی چوت چاٹ رہا
تھا۔ سفینہ باجی نے کہا کہ میں نے اتنا مزا پہلے کبھی نہیں لیا جتنا کہ آج مجھے مل
رہا ہے، کیونکہ سفینہ باجی نے پہلے کبھی چوت نہیں چٹوائی تھی، اس لیے انہیں بہت
مزا آ رہا تھا اور مجھے بھی رابعہ کے منہ میں ڈالنے سے زیادہ مزا آ رہا تھا۔ تھوڑی
ہی دیر کے بعد سفینہ باجی چھوٹ گئیں اور میں بھی رابعہ کے منہ میں ہی فارغ ہو گیا
اور رابعہ نے اپنے منہ میں ساری منی اکٹھی کر لی اور سفینہ کو دیکھنے لگی۔ رابعہ نے
میری منی پی نہیں تھی بلکہ منہ میں ڈالے ہوئے ہی تھی اور چوسے جا رہی تھی میرے نرم
لن کو جو کہ ڈھیلا پڑ رہا تھا۔ سفینہ کی منی میں نے پی اور جیسا کہ سفینہ پہلے
میری منی پینا چاہتی تھی ویسا ہی ہوا اور رابعہ نے اپنے منہ میں منی رکھی اور میں
نے سفینہ باجی سے کہا کہ تم میری منی پینا چاہتی ہو؟ تو وہ بولیں کہ تم تو رابعہ کے
منہ میں ہی فارغ ہو گئے ہو، اب کیسے؟ تو میں نے رابعہ سے کہا کہ اس کے منہ میں ڈال
دو۔ اب منظر دیکھنے والا تھا۔ رابعہ اور سفینہ نے اپنے اپنے منہ جوڑ لیے اور رابعہ
نے سفینہ باجی کے منہ میں منی چھوڑ دی اور ایسے دونوں نے مل کر میری منی کا ذائقہ
لیا اور خوش ہو گئیں۔ میں نے بھی ان دونوں کی منی کا مزا چکھا۔
اب باری تھی چدائی کی لیکن مجھ میں ہمت نہیں تھی ابھی کیونکہ پچھلے
20 منٹ سے دونوں کے ساتھ لگا ہوا تھا اور اس سے پہلے رابعہ کے ساتھ بھی کر چکا
تھا، اس لیے اب اکیلی جان کتنی بار کرے، آخر لن نے بھی تو آرام کرنا ہوتا ہے اور
ساتھ میں منی نے بھی تیار ہونا ہوتا ہے، نہیں تو 3، 4 قطرے نکلیں اور بس۔ اس کا
مزا بھی تو نہیں آتا نا۔ خیر! سفینہ نے کہا کہ جب تک میری چدائی نہیں کرو گے تب تک نہیں چھوڑوں گی میں۔ میں نے کہا میری ماں!
کروں گا لیکن تھوڑی دیر کے بعد، ابھی لیٹ جائیں۔ اور ہم
تینوں لیٹ گئے ایسے کہ رابعہ میرے دائیں طرف اور سفینہ میری بائیں طرف پر تھی اور
دونوں نے اپنی اپنی ایک ٹانگ میرے اوپر رکھی ہوئی تھی اور دونوں ہی میرے لن کے
ساتھ کھیلے جا رہے تھے، جبکہ میں ان دونوں کی چوت کو چھوتا تو کبھی مموں کو۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ رابعہ صاحبہ نے
میری گردن پر بوسہ لینا شروع کر دی لیٹے لیٹے ہی اور سفینہ صاحبہ نے لن کو پکڑ کر
کھڑا کرنا شروع کر دیا اور کبھی کبھی منہ میں لے کر کھینچا تانی بھی کرتی۔ اس کی
محنت رنگ لائی اور 10 منٹ میں میرا لن کھڑا ہو گیا۔ رابعہ اور میں زبردست کسنگ
کرتے جارہے تھے اور ساتھ میں میں اس کی چوت
میں انگلی کر رہا تھا اور رابعہ سفینہ کی چوت میں انگلی اور سفینہ صاحبہ لن چوسنے
میں مصروف تھیں۔
اب جب کہ میرا لن کھڑا ہو گیا تو مجھے گُدگُدی بھی ہوئی
کیونکہ ابھی تھوڑی دیر پہلے میں فارغ ہوا تھا، اس لیے ٹوپے پر ذرا گدگدی سی محسوس
ہوتی تھی جب وہ اپنی زبان ٹوپے پر مارتی تھی۔ خیر! اس نے کہا
سنی! اب مجھے چودو، جلدی
کرو! میں نے کہا ابھی
نہیں۔ اس نے کہا نہیں! تمہارا پھر سو جائے گا اگر اس کو چھوڑا، چودو مجھے پلیز،
سفینہ باجی بہت ہاٹ ہوگئی تھیں ! اس سے پہلے کہ
کوئی آ جائے اور کام آدھا ہی رہ جائے۔ میں نے کہا
ٹھیک ہے، تو گھوڑی بن جائیں۔
رابعہ نے کسنگ چھوڑٰ اور میں نے بھی۔ خیر!
رابعہ نے کہا
باجی! آپ میری چوت چاٹو اور
سنی آپ کو چودتا ہے۔
سفینہ نے کہا
ٹھیک ہے! اور رابعہ سفینہ کے
آگے لیٹ گئی اور سفینہ گھوڑی بن کر اس کی چوت چاٹنے لگی اور میں پیچھے اپنے گھٹنوں
کے بل بیٹھ کر اپنا لن سفینہ کی چوت کے اوپر رگڑنے لگا۔ سفینہ نے اپنا ایک ہاتھ
پیچھے کیا اور میرا لن پکڑ کر خود ہی اپنی چوت کے اوپر رگڑنا شروع کیا اور آہستہ
آہستہ چوت کو پیچھے کی طرف کرنا شروع کیا تاکہ میرا لن اندر جائے۔ میں نے بھی
تھوڑا سا آگے کی طرف زور لگایا اور ٹوپا اس کی چوت کے ہونٹوں کو چیرتا ہوا اندر ہو
گیا اور سفینہ کو فل مزا آیا اور اس کے
منہ سے آہہہہ، سسسسس کی آواز نکلی۔ اس نے میرا لن ابھی تک پکڑا ہوا تھا اور خود ہی
اندر باہر کر رہی تھی۔ میں ایک دم پیچھے ہو کر آگے ہونا چاہا کہ میرا لن باہر نکل
آیا اور اس نے رابعہ کی چوت چاٹنا چھوڑ کر فوراً کھڑی ہو گئی کیونکہ فوراً لن باہر
نکالو جھٹکے سے تو دوسرے کو درد محسوس ہوتا ہے، اس لیے وہ ایک دم سیدھی ہو گئی اور
کہا کہ سنی! صحیح طرح کرو، ایسے درد ہوتا ہے۔ میں
نے سوری کی اور کہا کہ میں تو باہر تھوڑا
سا کر کے اندر کرنا چاہتا تھا لیکن آپ کی چوت تھی ہی اتنی گیلی کہ یہ پھسل کر باہر
نکل گئی۔ خیر! سفینہ پھر گھوڑی بن
گئی اور میرا لن ہاتھ پیچھے کر کے پکڑ لیا اور پھر سے اپنے اندر لینے لگی۔ اس بار ٹوپا
جلدی اندر چلا گیا کیونکہ میں نے اس کی چوت کے ہونٹ پکڑ کر کھول دیے تھے، اس لیے
آسانی سے ٹوپا اندر چلا گیا۔ اس نے پکڑ کر پھر لن باہر کیا تھوڑا سا اور جیسے ہی
اندر کرنے لگی، میں نے ایک دم سے جھٹکا مارا اور لن سیدھا 7 انچ اس کے اندر اور اس
کی ایک ساتھ ہی چیخ نکلی، اوووووففففف سسسسسسسس سنی!
کیا ہے! آرام سے نہیں ڈال سکتے، اتنا مزا آ رہا تھا اُووووففففف! اب ہلنا نہیں تھوڑی دیر۔ میں نے کہا ٹھیک ہے!
میں اب گھوڑا بن کر اس کے اوپر لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر کے
بعد میں نے ہلنا شروع کر دیا۔ میں ابھی ہلا ہی تھا کہ 3، 4 بار آگے پیچھے ہوا تھا
تو سفینہ صاحبہ کی چوت جھڑ گئی اور رابعہ صاحبہ کا تو پتا نہیں کیونکہ وہ اپنی دلکش
آوازیں آرام آرام سے نکالنے میں لگی ہوئی تھی کیونکہ سفینہ باجی اس کی چوت چاٹ جو
رہی تھیں اور ساتھ میں انگلی بھی، جو کہ میں دیکھ رہا تھا۔
میں نے جھٹکے مارنے ذرا تیز کر دیے، اب کی بار اس کی چوت
میں سے آوازیں آ رہی تھیں پُروچ پُروچ پُروچ پُروچ
اور میرا لن پھسل کر باہر آنے کی کرتا اور جب میں اندر
کرتا تو ایک دم سے پُروچ کی آواز نکالتا
اور اندر چلا جاتا کیونکہ اس کی چوت کافی گیلی ہوئی ہوئی تھی۔ سفینہ باجی کی چوت
بہت گرم تھی ۔میں فل مزے میں انہیں لگاتار
چود رہاتھا۔ میں نے کوئی 10 منٹ تک اس کے اندر ہی رکھا لیکن فارغ نہ ہوا۔ پھر میں
نے تنگ آ کر باہر نکال لیا۔ مجھے پتا تھا کہ اب میں 30، 40 منٹ سے پہلے نہیں فارغ ہوں
گا، خیر! میں نے لن آرام سے باہر نکال لیا۔ میرے لن پر سفینہ کی منی لگی ہوئی تھی
اور وہ گیلا کافی ہوا ہوا تھا۔ سفینہ پیچھے مڑی اور کہا کہ نکال کیوں دیا ہے، اتنا
تو مزا آ رہا تھا۔ میں نے کہا اب مجھے دوسری موری چاہیے۔دوسری موری وہ کون سی ؟
سفینہ باجی نےحیرت سے پوچھا۔ مجھے آپ کی
پیاری سی ملائم گانڈ چودنی ہے ۔وہ فوراً بولیں نہیں نہیں ، گانڈ میں تو سنا ہے بہت درد
ہوتا ہے ۔ میں نے کہا صرف آج پہلی اور
آخری بار۔ تو اس نے کہا ٹھیک ہے! لیکن آرام سے ڈالنا، جیسے پہلے کیا
تھا ویسے نہیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے! اتنے میں رابعہ اُٹھی اور کہا کہ سنی !
تھوڑا سا چوسنے دو مجھے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے!
جب اس نے لن دیکھا تو کہا کہ یہ کیا! اتنا گیلا کیسے؟
میں نے کہا سفینہ باجی کی چوت
کی منی ہے ۔اس نے کہا ایک ساتھ اب لو دو
مزے! اور ساتھ ہی میرا لن منہ میں ڈال لیا اور سفینہ باجی میرے ہونٹ چوسنے لگیں اور میری زبان کو چوسنا شروع کر دیا۔ رابعہ نے
کوئی 10 منٹ تک چوسا، اب مجھے محسوس ہونے لگا کہ میں اب جلدی فارغ ہو جاؤں گا لیکن
پھر بھی نہیں، میں چاہ رہا تھا کہ میں فارغ ہوں لیکن کہاں جان چھوٹنے والی تھی
میری۔ میں نے سفینہ باجی سے کہا کہ آپ اور رابعہ دونوں گھوڑی بن جائیں، میں ایک کے
اندر ڈالوں گا اور نکال کر دوسرے کے اندر۔ تو سفینہ نے کہا
آہان! ایسے تو درد بھی
اور مزا بھی زیادہ آئے گا۔ میں نے کہا نہیں! درد کم اور مزا زیادہ آئے گا اور مجھے
بھی مزا آئے گا، پھر ہی کہیں میں فارغ ہوں گا ورنہ لگے رہیں۔ نہیں ہونے لگا۔ خیر!
یہ دونوں تو 3، 3، 4، 4 بار فارغ ہو چکی تھیں اور میں۔۔۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے!
اور وہ دونوں گھوڑی بن گئیں اور اپنی اپنی ملائم گانڈیں
اوپر کر کے چوت اس انداز میں باہر نکالی کہ دیکھتے ساتھ ہی میرے ہوش اُڑ گئے ۔کیا ہی سیکسی سین تھا۔مجھ سے رہ نہیں
گیا اور میں دونوں کی گانڈ کی موریاں چاٹنے لگا۔دونوں فل مزے سے مست ہوگئیں اور
زور زور سے سسکاریاں بھرنے لگیں ۔کچھ دیر کے بعد میں نے لن پکڑا اور رابعہ کی چوت میں ڈالا آرام سے۔ رابعہ کے اندر پورا چلا گیا تو مجھے
بہت مزا آنے لگا ۔رابعہ کی چوت میں بھی بہت گرمی تھی ۔ میں نے 2 منٹ رابعہ کو چودا
ہوگا کہ سفینہ باجی نے کہا کہ اب مجھے بھی
چودو ۔ مجھے ایسے ہی چھوڑنا ہے کیا؟ میں نے کہا
ٹھیک ہے! اور میں نے اپنا لن
آرام سے باہر نکال لیا اور پھر سفینہ باجی کی گرم چوت کے اندر ڈالا ۔۔اففف سفینہ باجی کی ٹائٹ چوت بھی
بہت گرم تھی ۔میں فل مزے سے انہیں چودنے لگا۔میری آنکھوں کے سامنے دونوں بہنوں کی
مست ملائم گانڈ کی چھوٹی چھوٹی ٹائٹ سیکسی موریاں آرہی تھیں ۔میں انہیں چودنے کے
لیے بہت بے تاب ہورہاتھا۔میں نے سفینہ
باجی کی چوت سے لن نکالا اور اور رابعہ کی ملائم گانڈ کی چھوٹی سی موری پر رگڑنے
لگا۔آآآہ آآآہ آآآہ ہم دونوں فل مزے سے سسکاریاں بھرنے لگے ۔میں نے لن کی ٹوپے کو
اس کی موری میں دبایا تو وہ چیخ کر بولی ۔نہیں سنی نہیں! چوت میں ہی صرف، گانڈ
میں بہت درد ہو گا۔ میں نے کہا کچھ نہیں ہوتا۔ لیکن پھر سفینہ بولی اس کو چھوڑو،
میری گانڈ میں ڈال دو۔ میں نے کہا نہیں! حساب برابر برابر ہونا چاہیے! تو سفینہ باجی
بولیں کہ دیکھ لو! یہ نہ مانی تو میں بھی نہیں کرنے دوں گی۔ میں نے کہا ایسا تو نہ
کہیں نا۔ رابعہ نے کہا نہیں! تم سفینہ کی مار لو، میں نے نہیں گانڈ میں لینا! میں
نے پھر رابعہ کو چھوڑ دیا اور سیدھا سفینہ باجی کی ملائم گانڈ پر لن رکھا۔ اس بار رابعہ
نے میرا لن پکڑ کر آہستہ آہستہ سفینہ باجی کی ملائم گانڈ میں ڈالنا چاہا۔ سفینہ باجی
کی گانڈ کی موری بہت تنگ اور چھوٹی تھی۔ رابعہ
یہ دیکھ کر ہنسنے لگی اور کہنے لگی کہ دیکھو ایک بڑا لن کہاں جا رہا ہے ایک چھوٹی
جگہ میں! یہ سن کر ہم تینوں ہنس دیے۔ خیر! میں نے ذرا زور لگایا تو ٹوپے کے ساتھ
تھوڑا سا اور اندر گیا اور سفینہ باجی ایک دم سیدھی ہو گئیں اور ان کی کمر میرے
سینے کے ساتھ لگی، جبکہ لن کو میں نے باہر نہ آنے دیا اور رابعہ نے میرا لن پکڑے
رکھا تاکہ باہر نہ آ جائے۔ اور جیسے ہی سیدھی ہوئیں رابعہ نے میرا لن اور اندر
کرنا چاہا اور میں نے بھی۔ ایسے ہی کشمکش میں میرا پورا لن اندر ہو گیا اور میں تو
جیسے مزے سے اور سفینہ باجی درد سے بے ہوش ہونے والی ہوگئیں ۔ان کے حلق سے دردناک
چیخ نکلی اور آنکھوں سے تھوڑے سے آنسو بھی نکلے ۔ مجھے اتنا
مزا آیا کہ میں بتا نہیں سکتا۔ اس کی ملائم گانڈ اندر سے اتنی گرم تھی جتنی کہ چوت
بھی نہیں، لیکن اس کی ملائم گانڈ کی گرمی میرے لن کا ٹوپا ہی محسوس کر سکتا تھا،
باقی کا حصہ اتنا نہیں، جبکہ چوت میں پورا لن ہی ایک آگ کے گولے میں گیا ہوتا ہے۔
خیر! وہ ذرا سا رونے لگی تو رابعہ نے کہا میں اسی لیے نہیں گانڈ میں لینا چاہ رہی تھی کہ بہت درد ہوتا ہے، چھوٹی سی جگہ میں
ایک پورا بڑا لن جائے تو کون برداشت کرے! تو اس پر سفینہ نے کہا ہاں! تو جب چوت میں
جاتا ہے تو تب بھی برداشت کرتی ہو یہ نہیں؟ تو رابعہ نے کہا وہ ذرا بڑی ہوتی ہے
اور گیلی بھی ہو جاتی ہے اندر سے، اس لیے کافی آسانی ہوتی ہے لن لینے میں ، جبکہ گانڈ
تو خشک ہوتی ہے، یہ گیلی کیسے ہو جب تک کچھ ڈالو نہ اس میں؟ خیر! وہ میرے ساتھ
اپنی کمر سیدھے کیے چِپکی رہی اور میں اس کی گردن پر بوسہ کرتا جا رہا تھا اورمموں
کو مسل رہا تھا اور وہ بالکل خاموش ہوئی
ہوئی تھی، کچھ نہیں بول رہی تھی کیونکہ اس نے پہلی بار ملائم گانڈ میں ڈلوایا تھا،
اس لیے اور بہت تکلیف محسوس ہوئی تھی اس کو، اس لیے اس کا سانس حلق میں پھنس گیا
تھا، اس لیے۔
تھوڑی دیر کے بعد میں نے حرکت کرنا شروع کر دیا اور رابعہ
اس کے سامنے آ گئی۔ سفینہ اور میں گھٹنوں کے بل کھڑے ہوئے تھے، اس لیے رابعہ آسانی
سے اس کی چوت کے نیچے منہ رکھ کر لیٹ گئی اور چوت چاٹنے لگی اور میں اس کی ملائم
گانڈ میں آرام آرام سے اندر باہر کرنے لگ گیا۔ اس کی ملائم گانڈ بہت ہی تنگ تھی
اور مجھے اندر باہر کرنے میں بڑی مشکل ہو رہی تھی لیکن زور لگا کر زور لگا کر کرتے
کرتے اس کی تنگ ملائم گانڈ میں میں فارغ ہو گیا اور سفینہ آگے سے فارغ ہو گئی اور
مجھے کچھ نہ بولا کہ تم اندر کیوں فارغ ہو گئے ہو، وہ اور میں دونوں ڈھیلے پڑ گئے۔
رابعہ آگے سے ہٹ گئی اور میں اور سفینہ باجی دونوں سیدھے لیٹ گئے، میں نے اپنا لن باہر
نہ نکلنے دیا، اس لیے کہ ساری منی صحیح طرح سے اندر ہی نکلے، پھر نکالوں گا، لیکن
کہاں! منی ملائم گانڈ میں
پوری نکلتی ہے، اس لیے کیونکہ ملائم گانڈ میں منی کے آگے جانے کا کوئی راستہ نہیں
ہوتا، اس لیے منی یا تو لن کے ساتھ ہی رہتی ہے یا پھر جب باہر نکالیں تو واپس باہر
آ جاتی ہے لن کے ساتھ ہی۔ میرا لن ڈھیلا پڑتا گیا، وہ اور میں دونوں چِپکے ہوئے
تھے اور رابعہ سامنے لیٹے ہوئے تھی اور اپنے خود ہی انگلی کر رہی تھی۔ میرا لن اب
سو رہا تھا اور اس کی ملائم گانڈ میں سے آہستہ آہستہ باہر نکل رہا تھا، اب وہ آخر
میں پہنچ چکا تھا کہ میں نے اس کو خود ہی باہر نکال دیا تو سفینہ باجی کی ہلکی سی چیخ
نکلی افففففف سس اور پھر خاموش ہو
گئیں۔
خیر! مجھ میں اب اُٹھنے کی ہمت بالکل بھی نہیں تھی،
میرا لن نکل آیا تو سفینہ باجی اُٹھ کر بیٹھ گئیں اور ملائم گانڈ پر کپڑا پکڑ کر منی
صاف کرنے لگیں جو کہ میرے لن کے ساتھ باہر آئی تھی اور پھر انہوں نے اپنی گیلی چوت
کو صاف کیا اور میرے لن کو پکڑ کر صاف کرنے لگیں۔ تو رابعہ نے کہا کہ ایک منٹ اور! اور میرے لن کو اپنے منہ
میں لے لیا۔ مجھے بہت گُدگُدی ہوئی، میں مزے سے ہنستے ہوئے بولا ۔ کپڑے سے ہی کر
دو، ایسے بہت گُدگُدی ہوتی ہے۔ لیکن وہ نہ مانی اور 2، 3 منٹ تک ایسے ہی لگی رہی لن
کو چوسنے میں۔ آخر میں تنگ آ گیا اور ایک جھٹکے کے ساتھ میں نے لن اس کے منہ سے
الگ کیا، جب میں نے لن باہر کی طرف کھینچا تب اس کے دانت میرے لن پر لگے، جس سے
میرا لن تھوڑا سا زخمی ہو گیا اور تھوڑا سا اوپر سے اس کا جلد اتر گیا اور مجھے
ذرا درد ہوا اور ساتھ میں جلن بھی لگنے لگی۔ خیر! کرتا کیا، نہ کرتا، اُٹھا اور
سیدھا غسل خانے چلا گیا، جہاں پر سفینہ باجی پہلے سے ہی موجود تھیں، میرے پیچھے
پیچھے رابعہ بھی آ گئی اپنے آپ کو دھونے کے لیے۔ خیر! میرے لن پر جب سفینہ باجی نے
تھوڑا سا لہو دیکھا تو کہنے لگیں کہ یہ کیا ہوا ہے؟ میں نے کہا رابعہ صاحبہ کی مہربانیاں ہیں۔ تو سفینہ
باجی نے رابعہ سے کہا کہ یہ کیا کیا ہے! کہتی ہے میں نے کچھ نہیں! اس نے خود ہی
کیا ہے۔ میں تو چوس رہی تھی کہ اس نے جھٹکے کے ساتھ باہر نکالنا چاہا تو میرے منہ
میں پھنسا اور نکلتے وقت دانت اس پر لگ گیا۔ خیر! اس نے پکڑا اور دیکھنے لگی، کہتی
ہے کوئی بات نہیں، مرہم لگا دوں گی۔ میں نے کہا لیکن کیسے! میں کپڑے بھی تو پہنوں
گا نا کہ نہیں؟ کہتی ہے پہن لینا، خیر! پہلے غسل کر لو۔ اور ہم تینوں نے مل کر غسل
کرنا شروع کیا، لیکن جب میرے لن پر پانی گِرا تو میرے تو ہوش اُڑ گئے، اتنی جلن ہوئی
کہ بتا نہیں سکتا۔ میں نے لن فوراً پیچھے کر لیا کہ
نہیں نہیں! اس پر پانی نہیں
لگانا۔ سفینہ باجی نے جب
میرا یہ حال دیکھا تو رابعہ کو بولیں کہ دیکھا! کیا حال کیا ہے بیچارے کا، اس نے
ہمارا کتنا خیال رکھا ہے اور تم اس کو مارنے پر تلی ہوئی ہو، چلو معافی مانگو اس
سے۔ رابعہ ہنسی اور معافی
مانگی پھر۔
خیر! بڑی مشکلوں سے میں نے غسل کیا اور وہ دونوں میرے
ساتھ شرارتیں بھی کرتی رہیں اور میرے جسم پر کسنگ بھی کرتی رہیں۔ رابعہ نے کہا اس کو نہلانے کی
چھوڑو، اس کے پورے جسم پر کسنگ کر کر کے
اس کو نہلا دیتے ہیں۔ میں نے کہا اب تو بس کر دیں، کیوں مجھے مارنے کا منصوبہ بنا
رکھا ہے؟ غلطی ہو گئی ہے مجھ سے، معاف کر دیں مجھے۔ تو وہ دونوں ہنسنے لگیں اور
کہا کہ نہیں نہیں! ہم تمہیں کیوں مارنے لگیں، تم نے اتنا
احسان جو کیا ہے ہم دونوں پر۔ میں نے کہا تو آپ بھی مجھ پر ایک احسان کر دیں گی۔
کہتی ہیں نہیں بھائی نہیں! ہمیں نہیں کرنا، کیونکہ انہیں پتا تھا
کہ میں نے کیا کہنا ہے۔ خیر! میں نے اب انہیں کیا کہتا، تو انہوں نے خود ہی کہا لو بھائی!
اب نہیں کرتے تنگ تمہیں، باقی رات میں کریں گے یا پھر
صبح کو۔ میں اب کیا کہتا، میں نے کہا ٹھیک ہے! لیکن ابھی اور نہیں، تو ان دونوں نے
کہا ٹھیک ہے! ہمارے
ہوس کے مارے! اور میں ذرا سا
ہنس دیا، اس وقت تو میری ہنسی بھی نہیں نکل رہی تھی، مرنے کے وقت پر کون ہنستا ہے
یار۔
خیر! ہم نے غسل کیا اور کپڑے پہن لیے۔ اب رابعہ صاحبہ
نیچے گئیں اور وہاں سے مرہم لے آئیں فیئر اینڈ لولی اور آ کر کہا کہ چلو سنی!
پتلون اتارو۔ میں نے کہا نہیں! رہنے دو، کوئی آ جائے گا تو پھر کیا کروں گا، فوراً
اوپر، نہ رہنے دو۔ لیکن اس نے کہا کہ دروازہ بند ہے اور
تم اوپر ہی ہو، دیکھتے رہنا، جب کوئی آئے گا تو پتلون اوپر کر لینا۔ میں نے کہا چلو
ٹھیک ہے! اور میں نے اپنی پتلون اتار دی، پوری نہیں، گھٹنوں تک ہی اور اپنا زیر
جامہ بھی نیچے کر دیا۔ اس نے میرے سوئے ہوئے لن کو پکڑا اور اس پر مرہم لگانے لگی
اور کہنے لگی بیچارہ! کہاں کہاں سے ہو کر آیا ہے، کتنا تھکا
ہوا ہے نا، اُٹھ بھی نہیں رہا۔ سفینہ باجی اس وقت
اوپر چھت پر گئی ہوئی تھیں جب رابعہ آئی تھی۔ خیر! میں نے کہا کہ رابعہ!
پلیز تو وہ
ہنسی۔ مرہم لگانے سے پہلے وہ میرے لن کو
زبان سے چاٹنے لگی ۔اففف مجھے مزا بھی
آرہاتھا۔کافی دیر تک میرا لن چاٹنے کے بعد اس نے مرہم لگائی اور کہا کہ اب تم ٹیلی ویژن دیکھو اور ہم جا رہے
ہیں۔ میں نے کہا رابعہ! پانی لا
دینا اور کھانے کا بھی کچھ کرو، بہت بھوک لگی ہوئی ہے، مر رہا ہوں۔ تو اس نے کہا ٹھیک ہے!
لاتی ہوں بنا کر، انتظار کرو۔ میں نے کہا لیکن پانی تو
دیتی جاؤ! تو وہ پانی لے آئی اور میں نے پانی پیا اور کچھ سنبھلا۔ اب میں پتلون اتار
کر لن باہر نکال کر بیٹھا ٹیلی ویژن دیکھ رہا تھا مزے سے کہ سفینہ بھی آ گئی اور
دونوں ہی دیکھ کر ہنسنے لگیں کہ کیا عجیب منظر بنا ہوا ہے ہاہاہاہا۔ میں بھی ہنس
دیا اور ان سے پھر کھانے کی فرمائش کی کہ
کھانا لا دیں، مجھے بہت بھوک لگی ہوئی ہے۔ تو انہوں نے
کہا کہ تمہارے لیے آج خاص کھانا بناتی ہوں۔ میں نے کہا جیسا تیسا بنتا ہے بنا دیں
لیکن کچھ دیں تو۔ تو رابعہ فوراً بولی دوبارہ دوں کیا؟ میں نے کہا
نہیں نہیں نہیں!
میرا مطلب ہے کھانے کے لیے کچھ دیں جو میرے پیٹ میں
جائے۔ تو وہ دونوں دانت نکالتے ہوئے چلی گئیں۔ اور 30 منٹ کے بعد مجھے کھانا لا کر
دیا جو کہ حقیقت میں ہی خاص ہی تھا اور ہم تینوں نے پھر ایک ساتھ کھایا۔ میں کھانا
کھاتے وقت بھی ایسے ہی بیٹھا ہوا تھا پتلون گھٹنوں تک اتار کر۔ رابعہ اور سفینہ دونوں
ہی اکثر دیکھ کر دانت نکالتی ہیں لیکن میری تو اس وقت حالت خراب تھی جو صرف میں ہی
جانتا تھا۔ خیر! کھانا شانا کھا کر
وہ نیچے چلی گئیں اور مجھے نیند آ رہی تھی، اس لیے میں نے لحاف اوڑھا، پتلون ٹھیک
کی اور سونے کے لیے لیٹ گیا اور وہ نیچے چلی گئیں۔
میرے پیارے، یہ تھی میری درد بھری کہانی جو میں نے بیان
کی آپ کے سامنے، جس میں میرے لن صاحب کو مزے کے ساتھ تکلیف بھی اٹھانی پڑی۔ خیر!
اس دن تو میں ایسا سویا کہ اگلے ہی دن جا کر صبح کو میری آنکھ کھلی جو کہ میرے کزن
نے جگایا کہ بھائی! اُٹھنا ہے
یا آج سوئے ہی رہنا ہے؟ خیر! یہ تھا میرا
پہلا گروپ سیکس ۔پہلی باری جو کہ میں نے اپنی 2 بڑی کزن کے ساتھ کیا، اس کے بعد
بھی ان کے ساتھ کئی بار کیا لیکن اب ایک بڑی والی کی شادی ہو گئی ہے اور بچہ بھی
ہونے والا ہے اس کا اور دوسری کے ساتھ ابھی تک چدائی کا سلسلہ جارہی ہے ۔سفینہ
باجی کی شادی کے بعد بھی ہم نے کئی مرتبہ گروپ سیکس کیا۔اور پہلے سے کہیں زیادہ مزا
لیا۔ لیکن پچھلے 7 ماہ سے میں اور رابعہ اکیلے ہی چدائی کررہے ہیں ۔ کیونکہ سفینہ باجی
تو چلی گئیں اپنے شوہر کے گھر۔ شروع شروع میں وہ پنڈی میں ہی تھیں تب میں انہیں
چود لیا کرتا تھا کیونکہ دن میں وہ اکیلے
ہوتی تھیں، اس لیے میں چلا جایا کرتا اور دن کا کھانا وہیں پر کھا کر واپس اپنے
گھر بھاگ آتا تھا۔ رابعہ کی بھی منگنی کی بات چیت چل رہی ہے ۔ ہماری چدائی میں بھی
اتنی ہی شدت آگئی ہے ۔