میرا
نام سہیل ہے، میں پنجاب یونیورسٹی جرنلزم کا طالب علم ہوں اور ایک اچھا طالب علم
سمجھا جاتا ہوں۔
امتحانات کے بعد ہمیں کچھ اسائنمنٹس دیے گئے جن میں رول
نمبر کے حساب سے تین لوگوں کے گروپ بنائے گئے۔ انہیں اس اسائنمنٹ پر کام کرنا تھا۔
میرے گروپ میں دو لڑکیاں تھیں، عائشہ اور سارہ۔ وہ میری کلاس فیلو تھیں، اس لیے ان
سے ہائے ہیلو تو تھی، مگر کوئی خاص دوستی نہیں تھی۔ خیر، ہمارا موضوع تھا کچی
آبادیوں کے مسائل (یعنی سلم پروبلمز)۔
عائشہ اور سارہ میرے پاس آئیں اور پوچھا کہ کام کیسے
کرنا ہے؟ میں نے کہا کہ میں کام کر لوں گا، باقی تم دونوں صرف ٹائپنگ کر لینا۔
عائشہ تو مان گئی، مگر سارہ نے کہا کہ وہ میرے ساتھ خود جائے گی۔
سارہ ایک خوبصورت اور پرکشش لڑکی تھی۔ وہ کافی معصوم نظر
آنے والی، ذہین، سمارٹ اور پراعتماد لڑکی تھی۔
ہم نے طے کیا کہ ہم ایک جگہ پر ملیں گے اور وہاں سے ساتھ
ساتھ چلیں گے۔ وہ اور میں الگ الگ بستی پہنچے اور اپنا کام شروع کیا۔ لوگوں کے
خیالات ریکارڈ کیے اور نوٹس بناتے رہے۔ تین دن میں ہمارا کام کافی حد تک ختم ہو
گیا، تو ہم یونیورسٹی واپس آ گئے اور عائشہ کو نوٹس دیے، جو انہیں مرتب کرنے لگی۔
اس دوران ہم دونوں میں کافی سمجھ بوجھ ہو گئی، جو کہ
پسندیدگی میں بدل چکی تھی۔ ہم اب روز ملنے لگے۔ مگر اب آہستہ آہستہ میرے اندر اس
کی طلب جاگنے لگی اور میری یہ طلب شاید اسے بھی محسوس ہوئی ہو گی، کیونکہ میں اب
اسے چھونے لگا تھا۔
میرا
نام سارہ ہے، میں ماس کمیونیکیشن کی طالبہ ہوں۔ میری کلاس میں ایک لڑکا تھا جو
ٹاپرز میں آتا تھا، وہ کافی ہینڈسم اور اچھا دکھنے والا تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ
وہ پیشے کے ساتھ پوری طرح ایماندار تھا۔ اسی کی یہ ادا مجھے بھا گئی تھی۔ میری
قسمت اچھی تھی، مجھے اسائنمنٹ اس کے ساتھ ملی۔ اس نے پیشکش کی کہ وہ باہر کا کام
خود کر لے گا، مگر میں نے اس کے ساتھ جانا پسند کیا۔ اس دوران ہم دونوں ایک دوسرے
کے قریب آ گئے۔
اتنا قریب کہ میں اس کی آنکھوں میں اپنے لیے جذبات محسوس
کرنے لگی۔ مجھے ڈر بھی لگتا تھا، مگر میرا دل ہر بار اس کے آگے ہار جاتا تھا۔
ایک دن ہم لائبریری میں بیٹھے تھے، وہ کتاب اٹھانے کے
لیے شیلف کی طرف گئی۔ اس دن وہ بہت زیادہ خوبصورت لگ رہی تھی۔ شیلف ذرا ہٹ کے تھا۔
میں اس کے پیچھے گیا۔ میری آہٹ سن کر وہ مڑی، مجھے دیکھ کر دوبارہ شیلف کی طرف
متوجہ ہو گئی۔
میں اس کے بالکل ساتھ جا لگا۔ اس کے جسم سے بہت ہلکی مگر
ہوش اڑانے والی خوشبو آ رہی تھی۔ میں نے دھیرے سے اپنے دونوں ہاتھ اس کے پیٹ پر
رکھے اور اسے ساتھ لگا لیا۔ وہ ایک دم رُک گئی، مگر کچھ نہ بولی۔ میں نے اس کی
گردن پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔ اس نے ایک گہری سانس لی اور شیلف کو مضبوطی سے پکڑ
لیا۔ میں نے اس کی گردن سے چومتے ہوئے اپنے ہونٹ اس کے گالوں پر چومے، تو وہ فوراً
میری طرف مڑی۔ اس کی چھاتی (سینہ) سانس کی وجہ سے اوپر نیچے ہو رہی تھی۔ اس کے
ہونٹ کپکپا رہے تھے، اس کی آنکھیں جھکی ہوئی تھیں۔ میں اپنا ہوش کھو بیٹھا۔
اس
دن میں اپنا نیا سلک کا سوٹ پہن کر آئی تھی۔ سہیل کی نظریں مجھ پر سے ہٹ نہیں رہی
تھیں۔
میں کتاب لینے شیلف کی طرف گئی، تو سہیل میرے پیچھے آیا۔
وہ میرے قریب کھڑا تھا، اچانک مجھے اپنے پیٹ پر اس کے ہاتھ محسوس ہوئے اور اس نے
مجھے اپنی بانہوں میں بھر لیا۔ میری پوری کمر اس کے ساتھ چھو رہی تھی۔ مجھے اپنے
ہپس پر اس کا لن بہت واضح محسوس ہو رہا تھا۔ میرے جسم سے جیسے جان نکل رہی تھی۔
میں نے شیلف کو پکڑ لیا، ورنہ شاید میں نیچے گر جاتی۔ اسی وقت میں نے اپنی گردن پر
اس کے ہونٹ محسوس کیے۔ اس کی نرمی سے پھر ذرا زور سے میری گردن پر چوما اور اپنے
ہونٹوں سے میری جلد کو اٹھا کر چوسنے کی طرح چومنے لگا۔ اس کی زبان اور ہونٹ بہت
آرام سے میری گردن سے اوپر میرے چہرے کا سفر کر رہے تھے۔ ہر ایک لمحے میں میں بے
قابو ہو رہی تھی۔ میں نے خود پر قابو پانے کے لیے پورا جسم زور سے کھینچا، اسی وقت
وہ میرے گالوں پر پہنچ گیا۔ اچانک میری چوت سے جیسے پانی کا ایک ریلا نکلا، مجھے
اپنی رانوں پر پانی کے قطرے نیچے جاتے محسوس ہوئے۔ میں فوراً اس کی طرف مڑی۔ میرا
دوپٹہ نیچے گر گیا۔ جونہی میں اس کی طرف مڑی، اس نے میرے ہونٹوں کو چوم لیا۔
میں
نے اس کے ہونٹوں کو پوری طاقت سے چوما اور چار پانچ سیکنڈ کے بعد اس کے منہ میں
اپنی زبان ڈال دی۔ تھوڑی سی کوشش کے بعد اس کی زبان میری زبان سے چھونے لگی، تو
میں نے اپنے ہونٹوں اور زبان سے اس کی زبان کو چھونا شروع کر دیا۔ میرے ہاتھ اب اس
کے ہپس اور ہپس کے درمیان تھے۔ میں نے اسے شیلف کے ساتھ لگا دیا اور اس کی ایک ران
کو ذرا سا اٹھا کر اس کی ٹانگوں کے بیچ اپنا لن گھسا دیا۔ اس کے لیے مجھے ذرا سا
نیچے ہونا پڑا۔ اب میں اس کی چوت کو رگڑ رہا تھا اور فرنچ کس کر رہا تھا۔ اس کے
سینے مجھے اپنے سینے میں ہلتے ہوئے اور پاگل بنا رہے تھے۔ اچانک مجھے کسی کے بولنے
کی آواز آئی اور ہم فوراً الگ ہو گئے۔ اس کی سانس چڑھ گئی تھی اور چہرہ سرخ ہو گیا
تھا۔ اس نے فوراً دوپٹہ اٹھایا اور چلی گئی۔ کچھ دیر بعد میں بھی وہاں سے باہر آ
گیا۔
میں
وہاں سے سیدھا واش روم گئی، کچھ دیر تو سانس ٹھیک کرنے میں لگی۔ اس کے بعد میں نے
خود پر دھیان دیا۔ میرے بال، لپ اسٹک اور کپڑوں کی استری سب خراب ہو گئی تھی۔ میں
نے اپنی شلوار اتاری، تو وہ کافی گیلی تھی۔ میں نے ٹشو سے اپنی چوت اور شلوار صاف
کی اور تھوڑی دیر بعد باہر آ گئی۔
کچھ دیر بعد وہ مجھے نظر آئی۔ میں بالکل پاگل ہو چکا
تھا۔ یونیورسٹی میں فش فارم ہے، جو کافی آگے جا کر ہے، وہاں پر ایک ٹیوب ویل روم
بھی ہے، جہاں دن کو کوئی بھی نہیں ہوتا، کیونکہ جون میں فش فارمنگ نہیں ہوتی وہاں۔
وہاں صرف ایک ٹیبل ہے، جو تین فٹ اونچی ہے اور ٹوٹی کرسی۔ کمرے کا دروازہ ہے، مگر
اندر سے لاک نہیں ہوتا۔ میں نے اسے میسج کر کے وہاں بلایا۔
باہر
آئی تو سہیل کا میسج ملا کہ میں فش فارم والی سائیڈ پر آؤں۔ میں جانتی تھی کہ وہاں
جانے کا کیا مطلب ہے۔ مگر اس وقت میں کچھ سوچنے سمجھنے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔
میں وہاں چل پڑی۔
جب وہ آئی، تو میں وہاں موجود تھا۔ اس کا آنا ہی اس کی
رضامندی تھی۔ وہ جونہی میرے پاس آئی، میں نے اسے بانہوں میں بھر لیا اور اس کے
ہونٹوں کو چومنے لگا۔ ساتھ ہی میں اس کے سینوں کو مسلنے لگا۔ مجھے معلوم تھا کہ یہ
ایسی جگہ نہیں کہ جہاں محفوظ طریقے سے پورا جنسی عمل لذت لے کر کیا جا سکے، مگر
میں زیادہ سے زیادہ کرنا چاہتا تھا۔ میں نے اس کی قمیض کے بٹن کھولے اور کندھے سے
اس کی قمیض نیچے سرکا دی۔ اس کی آف وائٹ برا کا پٹہ بھی نیچے کر دیا۔ تھوڑا سا اور
نیچے کرنے کے بعد میں نے ہاتھ ڈال کر اس کا بایاں نپل باہر نکال دیا۔
اس
نے میری قمیض نیچے کر کے میرا نپل نکال لیا اور اسے منہ میں ڈال لیا۔ وہ پوری طرح
میرے چھاتی اور نپل کو چوسنے لگا۔ اب گردن سے نپل تک ساری جگہ کو وہ بار بار اوپر
سے نیچے اور نیچے سے اوپر چوستا اور چومتا رہا۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنا مزا
پہلے کبھی نہیں لیا تھا۔ اچانک اس نے اپنا بایاں ہاتھ میری شلوار میں ڈال دیا۔ اس
کا ہاتھ میری چوت کو آرام آرام سے رگڑنے لگا۔ اس نے مجھے وہاں پڑے ٹیبل پر بٹھا
دیا اور میری شلوار گھٹنوں تک نیچے کر دی۔
میں
نے اس کی شلوار آدھی اتار دی اور اس کی چوت میں اپنی انگلی ڈالی۔ اس نے اپنی
آنکھیں بند کر کے آہ آہ کی آواز نکالی اور اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔ تھوڑی سی محنت کے
بعد میں نے اپنی انگلی اندر پوری ڈال دی۔ ذرا سی دیر میں انگلی آسانی سے اندر باہر
ہونے لگی۔ اس کی گوری ٹانگوں کے درمیان اس کی گیلی گلابی سی چوت اب میری برداشت سے
باہر ہو گئی تھی۔ میں نے اپنی پینٹ کی زپ کھولی اور اپنا لن باہر نکال لیا۔ ٹیبل
زیادہ اونچا نہیں تھا، اسی لیے ہلکا سا جھکنا پڑا۔ میں نے اپنا لن اس کی چوت پر
رگڑا، تو اس نے زور سے ایک آہ لی۔ میری ٹوپی اس کے رطوبت سے گیلی ہو گئی۔
اس
کا گرم گرم لن میری چوت کے ہونٹوں کے ساتھ رگڑنے لگا۔ ہر رگڑ کے ساتھ میری چوت سے
مزید پانی نکلتا۔ اس نے میرا پرس اٹھایا اور میرے ہپس کے نیچے دے دیا۔ میری شلوار
پوری اتار دی۔ میری قمیض اوپر کی طرف کر دی۔ اپنی پینٹ بھی آدھی اتار دی۔ اس کے
بعد اس نے لن آرام سے میری چوت میں ڈالنا شروع کیا۔ میری چوت میں اتنی جگہ نہیں
تھی۔ مگر وہ آہستہ آہستہ ڈالتا رہا۔ مجھے بہت درد ہونے لگا۔ میں جو لیٹی ہوئی تھی،
اٹھی اور اس کے گلے میں بانہیں ڈال دیں۔ اس نے میری ٹانگوں کو کھولا اور اوپر اٹھا
کر مجھے کہا: ٹانگیں کھول کر رکھو۔
میں
نے اپنی ٹانگیں کھول دیں اور دونوں پاؤں بھی ٹیبل پر رکھ دیے۔ اپنے دونوں ہاتھ
سہارے کے لیے پیچھے رکھ دیے۔
وہ ٹیبل پر بیٹھی تھی، اپنی ٹانگیں کھول کر، اس کے ہپس
کے نیچے میں نے اس کا پرس رکھا۔ ایک ہاتھ اس کے ہپ پر رکھ کر آگے دبایا اور دوسرے
سے لن اندر ڈالنے کی کوشش کرنے لگا۔ میں نے اب لن اس کی چوت پر رکھ کر ذرا سا زور
دیا، تو ٹوپی اندر چلی گئی۔ وہ فوراً چلائی: پلیز نکال لو، مجھے درد ہو رہا ہے۔
جونہی
اس کا لن اندر گیا، میری چوت کے ہونٹوں کے دونوں سائیڈ میں شدید کھچاؤ سا ہوا اور
بہت زیادہ درد ہوا۔ اس نے میرے ہونٹوں پر چوما اور مجھے لٹا دیا۔ میری ٹانگیں اپنے
کندھوں پر رکھ کر اپنے ہاتھ سے میرے دونوں ہپس پکڑ لیے اور ایک جھٹکا لگایا۔ میری
چیخ نکل گئی۔ میری چوت کے اندر گرم گرم لوہے کی چھڑ سا محسوس ہو رہا تھا۔ میری
چلانے کی وجہ سے اس نے پندرہ سیکنڈ انتظار کیا، پھر باہر کی طرف کھینچا۔ مگر ٹوپی
اندر ہی رہنے دی۔
اس کی چوت سے ہلکا سا خون نکلنے لگا تھا، جو میرے لن کے
ساتھ تھا اور رطوبت کے ساتھ مل کر میرے خصیوں تک چلا گیا۔ میں نے دوسری بار جھٹکا
لگایا۔ اب کی بار وہ چلائی نہیں، مگر اس نے میرا لن پکڑ لیا اور باہر نکالنے لگی۔
میں نے اسے چوما اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے تھے۔
مجھے بہت درد ہو رہا تھا۔ مگر وہ باہر نکالنے پر راضی
نہیں تھا۔ اس نے ذرا سا انتظار کر کے پھر جھٹکا لگایا۔ اس بار درد کم ہوا اور ایک
عجیب سا مزا آیا۔ ہر جھٹکے کے ساتھ درد کا احساس کم اور مزا زیادہ آنے لگا۔ اب وہ
زور تیز کر کے جھٹکے لگاتا رہا۔
لن آرام سے اندر جانے لگا، تو میں اسے تیزی سے چودنے
لگا۔ اب میں اسے اٹھا کر بٹھا لیا، اس کے ہونٹوں اور نپلوں کو بھی چومنے لگا۔ وہ
بھی بوسہ لینے میں میرا ساتھ دینے لگی۔ میں نے اسے ٹیبل پر ذرا سا پیچھے ہونے کو
کہا اور ذرا سی محنت کے بعد اوپر چڑھ گیا۔ اس کے اوپر آ کر مشنری پوزیشن میں اسے
چودنے لگا۔
میرے
اوپر لیٹنے کے بعد وہ بڑی تیزی سے میرے اندر باہر کرنے لگا۔ اس طریقے سے میری چوت
کے ہونٹوں کو بڑی زور سے رگڑ لگتی تھی۔ پھر مجھے لگا کہ اس کے لن سے کچھ نکل رہا
ہے، جو دل کی دھڑکن کی طرح میں اپنی چوت کے اندر محسوس کر سکتی تھی۔ وہ بے دم ہو
کر میرے اوپر لیٹ گیا۔
میں اٹھا اور اسے چوما۔ اپنی پینٹ اوپر کی، تو مجھے اپنی
پینٹ ذرا سی گیلی محسوس ہوئی۔ اس کا کم اور خون نے میری پینٹ گیلی کر دی تھی۔
اس نے شلوار پہن لی اور اپنے آپ کو ٹھیک کرنے لگی۔ پھر
ہم دونوں الگ الگ وہاں سے روانہ ہوئے۔